READ

Surah al-Baqarah

اَلْبَقَرَة
286 Ayaat    مدنیۃ


2:281
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِۗ-ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۠(۲۸۱)
اور ڈرو اس دن سے جس میں اللہ کی طرف پھرو گے، اور ہر جان کو اس کی کمائی پوری بھردی جائے گی اور ان پر ظلم نہ ہوگا (ف۵۹۶)

{وَ اتَّقُوْا یَوْمًا: اور اس دن سے ڈرو۔} اس آیت میں قیامت کے دن سے ڈرایا جارہا ہے کہ اس دن سے ڈرو جس میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹایا جائے گا اور اس دن لوگوں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، نہ بلاوجہ ان کی نیکیاں گھٹائی جائیں اورنہ بدیاں بڑھائی جائیں گی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہ آیت سب سے آخری آیت ہے جو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر نازل ہوئی، اس کے بعد حضورِ اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ 21روز دنیا میں تشریف فرما رہے اور اس کے علاوہ ایک قول یہ ہے کہ 9راتیں اور ایک قول یہ ہے کہ 7دن دنیا میں تشریف فرما رہے۔(بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۸۱، ۱ / ۵۷۷، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۸۱، ۱ / ۲۱۹، ملتقطاً)

البتہ امام شعبیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے یہ روایت کی ہے کہ سب سے آخری آیت ’’ آیت رِبا ‘‘ نازل ہوئی۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۸۱، ۱ / ۲۱۹)

2:282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُؕ-وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ۪-وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْۚ-وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْــٴًـاؕ-فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِؕ-وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْۚ-فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰىؕ-وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْاؕ-وَ لَا تَسْــٴَـمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖؕ-ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَاؕ-وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ۪-وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ۬ؕ-وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۲۸۲)
اے ایمان والو! جب تم ایک مقرر مدت تک کسی دین کا لین دین کرو (ف۵۹۷) تو اسے لکھ لو (ف۵۹۸) اور چاہئے کہ تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا ٹھیک ٹھیک لکھے (ف۵۹۹) اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اللہ نے سکھایا ہے (ف۶۰۰) تو اسے لکھ دینا چاہئے اور جس بات پر حق آتا ہے وہ لکھا تا جائے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ رکھ نہ چھوڑے پھر جس پر حق آتا ہے اگر بے عقل یا ناتواں ہو یا لکھا نہ سکے (ف۶۰۱) تو اس کا ولی انصاف سے لکھائے، اور دو گواہ کرلو اپنے مردوں میں سے (ف۶۰۲) پھر اگر دو مرد نہ ہوں(ف۶۰۳) تو ایک مرد اور دو عورتیں ایسے گواہ جن کو پسند کرو (ف۶۰۴) کہ کہیں ان میں ایک عورت بھولے تو اس کو دوسری یاد دلادے، اور گواہ جب بلائے جائیں تو آنے سے انکار نہ کریں (ف۶۰۵) اور اسے بھاری نہ جانو کہ دین چھوٹا ہو یا بڑا اس کی میعاد تک لکھت کرلو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے اس میں گواہی خوب ٹھیک رہے گی اور یہ اس سے قریب ہے کہ تمہیں شبہ نہ پڑے مگر یہ کہ کوئی سردست کا سودا دست بدست ہو تو اس کے نہ لکھنے کا تم پر گناہ نہیں (ف۶۰۶) اور جب خرید و فروخت کرو تو گواہ کرلو (ف۶۰۷) اور نہ کسی لکھنے والے کو ضَرر دیا جائے، نہ گواہ کو (یا، نہ لکھنے والا ضَرر دے نہ گواہ) (ف۶۰۸) اور جو تم ایسا کرو تو یہ تمہارا فسق ہوگا، اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے،

{اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى: جب تم ایک مقرر مدت تک کسی قرض کا لین دین کرو۔} اس آیت میں تجارت اور باہمی لین  دین کا اہم اصول بیان کیا گیا ہے اور مجموعی طور پر آیت میں یہ احکام دئیے گئے ہیں :

(1)…جب ادھار کا کوئی معاملہ ہو، خواہ قرض کا لین دین ہو یا خریدوفروخت کا، رقم پہلے دی ہو اور مال بعد میں لینا ہے یا مال ادھار پر دیدیا اور رقم بعد میں وصول کرنی ہے، یونہی دکان یا مکان کرایہ پر لیتے ہوئے ایڈوانس یا کرایہ کا معاملہ ہو، اس طرح کی تمام صورتوں میں معاہدہ لکھ لینا چاہیے۔ یہ حکم واجب نہیں لیکن اس پر عمل کرنا بہت سی تکالیف سے بچاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں تو اس حکم پر عمل کرنا انتہائی اہم ہو چکا ہے کیونکہ دوسروں کا مال دبا لینا، معاہدوں سے مکر جانا اور کوئی ثبوت نہ ہونے کی صورت میں اصل رقم کے لازم ہونے سے انکار کرنا ہر طرف عام ہوچکا ہے۔ لہٰذا جو اپنی عافیت چاہتا ہے وہ اس حکم پر ضرور عمل کرلے ورنہ بعد میں صرف پچھتانا ہی نصیب ہوگا۔ اسی لئے آیت کے درمیان میں فرمایا کہ ’’ اور قرض چھوٹا ہو یا بڑا اسے اس کی مدت تک لکھنے میں اکتاؤ نہیں۔

(2)…معاہدہ انصاف کے ساتھ لکھنا چاہیے، کسی قسم کی کوئی کمی بیشی یا ہیرا پھیری نہ کی جائے۔ اَن پڑھ آدمی کے ساتھ اس چیز کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔

(3)…اگر کسی کو خود لکھنا نہیں آتا، بچہ ہے، یا انتہائی بوڑھا یا نابینا وغیرہ تو دوسرے سے لکھوا لے اور جسے لکھنے کا کہا جائے اسے لکھنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ لکھنا لوگوں کی مدد کرنا ہے اور لکھنے والے کا اس میں کوئی نقصان بھی نہیں تو مفت کا ثواب کیوں چھوڑے؟

(4)…لکھنے میں یہ چاہیے کہ جس پر ادائیگی لازم آرہی ہے وہ لکھے یا وہ لکھوائے۔

(5)…لین دین کا معاہدہ لکھنے کے بعد اس پر گواہ بھی بنالینے چاہئیں تاکہ بوقت ِ ضرورت کام آئیں۔گواہ دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتیں ہونی چاہئیں۔

(6)…گزشتہ احکام قرض اور ادھار کے حوالے سے تھے، اگر ہاتھوں ہاتھ کا معاملہ ہے یعنی رقم دی اور سودا لے لیا تو اس میں لکھنے کی حاجت نہیں جیسے عموماً دکانوں پر جاکر ہم رقم دے کر چیز خرید لیتے ہیں اوروہاں لکھا نہیں جاتا۔ ہاں اپنے حساب کتاب کیلئے بِل وغیرہ بنالینا مناسب ہے۔یونہی کوئی چیز وارنٹی پر ہوتی ہے تو بِل بنوایا جاتا ہے کہ بعد میں اُسی کی بنیاد پر وارنٹی استعمال ہوتی ہے۔

(7)…آیت میں لفظ ’’یُضَآرَّ‘‘ آیا ہے۔ عربی کے اعتبار سے اسے معروف اور مجہول دونوں معنوں میں لیا جاسکتا ہے۔

ایک صورت یعنی مجہول کے اعتبار سے معنیٰ ہوگا کہ کاتبوں اور گواہوں کو ضرر یعنی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ کاتب اور گواہ اپنی ضرورتوں میں مشغول ہوں تو انہیں اس وقت لکھنے پر مجبور کیا جائے، ان سے ان کا کام چھڑوایا جائے یا کاتب کو لکھنے کا معاوضہ نہ دیا جائے یا گواہ دوسرے شہر سے آیا ہو اور اسے سفر کا خرچہ نہ دیا جائے۔ دوسری صورت یعنی معروف پڑھنے میں معنیٰ یہ ہوگا کہ کاتب اور گواہ لین دین کرنے والوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ فرصت اورفراغت کے باوجود نہ آئیں یا لکھنے میں کوئی گڑبڑ کریں۔

(8)…آیت کے اس حصے  ’’وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ ‘‘ میں خریدوفروخت کرتے ہوئے گواہ بنالینے کا حکم ہے اور یہ حکم مستحب ہے۔

  گواہی کے احکام:

          یہاں آیت میں گواہ کا مسئلہ بھی بیان کیا گیاہے، اس کی مناسبت سے گواہی کے چند احکام بیان کئے جاتے ہیں۔

(1)… گواہ کے لیے آزاد، عاقل، بالغ، اور مسلمان ہونا شرط ہے۔ کفار کی گواہی صرف کفار پر مقبول ہے۔

(2)… تنہا عورتوں کی گواہی معتبر نہیں خواہ وہ چار ہی کیوں نہ ہوں مگروہ معاملات جن پر مرد مطلع نہیں ہوسکتے جیسا کہ بچہ جننا اور عورتوں کے خاص معاملات ان میں ایک عورت کی گواہی بھی مقبول ہے۔

(3)…حدودو قصاص میں عورتوں کی گواہی بالکل معتبر نہیں صرف مردوں کی شہادت ضروری ہے، اس کے سوا اور معاملات میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی بھی مقبول ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۸۲، ص۱۴۴)

گواہی دینا فرض اور چھپانا ناجائز ہے:

            اس آیت میں فرمایا گیا کہ ’’جب گواہوں کو بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ گواہی دینا فرض ہے، لہٰذا جب مُدّعی گواہوں کو طلب کرے تو انہیں گواہی کا چھپانا جائز نہیں۔ یہ حکم حدود کے سوا اور معاملات میں ہے، حدود میں گواہ کوبتانے اور چھپانے دونوں کا اختیار ہے بلکہ چھپانا افضل ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی حدیث شریف میں ہے ، سرکارِ دوعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے اللہتبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الحدود، باب الستر علی المؤمن۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۱۸، الحدیث: ۲۵۴۴)

             لیکن چوری کے معاملے میں مال لینے کی گواہی دینا واجب ہے تاکہ جس کا مال چوری کیا گیا ہے اس کا حق تَلف نہ ہو، البتہ گواہ اتنی احتیاط کرسکتا ہے کہ چوری کا لفظ نہ کہے اور گواہی میں یہ کہنے پر اِکتفا کرے کہ یہ مال فلاں شخص نے لیا۔

2:283
وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌؕ-فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗؕ-وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَؕ-وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۠(۲۸۳)
اور اگر تم سفر میں ہو (ف۶۰۹) اور لکھنے والا نہ پاؤ (ف۶۱۰) تو گِرو (رہن) ہو قبضہ میں دیا ہوا (ف۶۱۱) اور اگر تم ایک کو دوسرے پر اطمینان ہو تو وہ جسے اس نے امین سمجھا تھا (ف۶۱۲) اپنی امانت ادا کردے (ف۶۱۳) اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور گواہی نہ چھپاؤ (ف۶۱۴) اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اسکا دل گنہگار ہے (ف۶۱۵) اور اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے،

{وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ: اور اگر تم سفر میں ہو۔} یہاں گروی رکھنے کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر تم حالت ِ سفر میں ہو اور قرض کی ضرورت پیش آجائے اور تمہیں کوئی لکھنے والا نہ ملے یا لکھنے کا موقع نہ ملے کہ اوپر بیان کئے گئے حکم پر عمل ہوسکے تو مقروض قرض خواہ کے قبضے میں کوئی چیز رہن رکھوا دے ۔ ہاں اگر تمہیں ایک دوسرے پر اعتماد ہو اور اس وجہ سے تم کوئی تحریر وغیرہ نہ لکھو تو اب مقروض کو چاہیے کہ جب اسے امانت دار سمجھا گیا ہے تو وہ اس حسنِ ظن کو پورا کرے اور اپنی امانت یعنی قرض وقت پر ادا کردے اور اس ادائیگی میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔

رہن کے چندمسائل:

(1)… قرض وغیرہ ادھار کے معاملات میں رہن رکھنے کا حکم استحبابی ہے۔

(2)… حالتِ سفر میں رَہن یعنی گروی رکھنا آیت سے ثابت ہوا اور غیر سفر کی حالت میں حدیث سے ثابت ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری اور سنن ترمذی میں ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مدینہ طیبہ میں اپنی زرہ مبارک یہودی کے پاس گروی رکھ کر بیس صاع جَو لئے تھے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب شراء النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالنسیئۃ، ۲ / ۱۰، الحدیث: ۲۰۶۹،  ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء فی الرخصۃ فی الشراء الی الاجل، ۳ / ۸، الحدیث: ۱۲۱۹)

(3)… جس چیز کو گروی رکھا جائے وہ قرض خواہ کے قبضہ میں دینا ضروری ہے۔ بغیر قبضہ کے رہن نہیں ہوسکتا۔(فتاوی رضویہ، ۲۵ / ۲۴۷)

           رہن کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت جلد 3 حصہ 17سے رہن کا بیان مطالعہ فرمائیں۔

سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 282اور 283سے متعلق اہم تنبیہ:

           اس رکوع کی دونوں آیات پر غور کریں اور سمجھیں کہ اللہ  تعالیٰ نے ہمارے خالصتاً دنیاوی مالی معاملات میں بھی ہمیں کتنے واضح حکم ارشاد فرمائے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا دین کامل ہے کہ اس میں عقائد و عبادات کے ساتھ معاملات تک کا بھی بیان ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حقوق ُالعباد نہایت اہم ہیں کہ اللہ  تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے ان کا بیان فرمایا ۔نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت کے احکام میں بے پناہ حکمتیں ہیں او ر ان میں ہماری بہت زیادہ بھلائی ہے، چنانچہ اس آیت میں جتنا غور کریں اتنا ہی واضح ہوگا کہ کہاں کہاں اورکس کس طرح ہمیں اس حکم سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ لکھنا اور حساب کتاب کا علم سیکھنا بہت مفید ہے لہٰذا اگر کوئی حسنِ نیت سے اکاؤنٹنگ کا علم سیکھتا ہے تو مستحقِ اجر ہے جبکہ سود وغیرہ کا حساب کتاب رکھنے سے احتراز کرے۔

{وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ: اور گواہی نہ چھپاؤ۔} گواہی سے متعلق چند احکام اوپر بیان ہوئے۔ یہاں صراحت سے بیان فرمایا کہ گواہی نہ چھپاؤ کیونکہ گواہی کو چھپانا حرام اور دل کے گناہگار ہونے کی علامت ہے کیونکہ اس میں صاحبِ حق کے حق کو ضائع کرنا پایا جاتاہے۔ گواہی چھپانا کبیرہ گناہ ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک حدیث مروی ہے کہ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا اور جھوٹی گواہی دینا اور گواہی کو چھپانا ہے۔(شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان، ۱ / ۲۷۱، الحدیث: ۲۹۱)

2:284
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُؕ-فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۲۸۴)
اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور اگر تم ظاہر کرو جو کچھ (ف۶۱۶) تمہارے جی میں ہے یا چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا (ف۶۱۷) تو جسے چاہے گا بخشے گا (ف۶۱۸) اور جسے چاہے گا سزادے گا (ف۶۱۹) اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے،

{وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ: اور جو کچھ تمہارے دل میں ہے اگر تم اسے ظاہر کرو۔} انسان کے دل میں دو طرح کے خیالات آتے ہیں ایک بطور وسوسہ کے اور ایک بطورِ عزم و ارادہ کے۔ وسوسوں سے دِل کو خالی کرنا انسان کی قدرت میں نہیں لیکن آدمی انہیں برا سمجھتا ہے اور ان پر عمل کرنے کا ارادہ نہیں کرتا، ان کو حدیث ِنفس اور وسوسہ کہتے ہیں ، اس پر مؤاخذہ نہیں۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے سرکارِ دوعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: کہ میری امت کے دلوں میں جو وسوسے آتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان سے تَجاوُز فرماتا ہے جب تک کہ وہ انہیں عمل میں نہ لائیں یا انہیں اپنے کلام میں نہ لائیں۔(بخاری، کتاب العتق، باب الخطأوالنسیان فی العتاقۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۵۳، الحدیث: ۲۵۲۸)

یہ وسوسے اس آیت میں داخل نہیں۔ دوسرے وہ خیالات جن کو انسان اپنے دل میں جگہ دیتا ہے اور ان کو عمل میں لانے کا قصد و ارادہ کرتا ہے ان پر مؤاخذہ ہو گا اور انہی کا بیان اس آیت میں ہے کہ اپنے دلوں میں موجود چیز کو تم ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تعالیٰ تمہارا ان پر محاسبہ فرمائے گا۔

حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’جو برا خیال دل میں بے اختیار اور اچانک آجاتا ہے،اسے ہاجِس کہتے ہیں ،یہ آنی فانی ہوتا ہے ، آیا اور گیا۔یہ پچھلی امتوں پر بھی معاف تھا اور ہمیں بھی معاف ہے لیکن جو دل میں باقی رہ جائے وہ ہم پر معاف ہے پچھلی امتوں پر معاف نہ تھا۔اگر اس(برے خیال) کے ساتھ دل میں لذت اور خوشی پیدا ہو تو اسے’’ہَمّ‘‘کہتے ہیں ،اس پر بھی پکڑ نہیں اور اگر ساتھ ہی کر گزرنے کا پختہ ارادہ بھی ہو تو وہ عَزم ہے، اس کی پکڑ ہے۔  (اشعۃ اللمعات، کتاب الایمان، باب الوسوسۃ، الفصل الاول، ۱ / ۸۵-۸۶)

کفر اور گناہ کے عزم کا شرعی حکم :

            یاد رہے کہ کفرکا عزم کرنا کُفر ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۲۹۳)

لہٰذا  اگر کسی نے سو سال بعد بھی کفر کرنے کا ارادہ کیا وہ ارادہ کرتے ہی کافر ہوجائے گا۔ اور گناہ میں حکم یہ ہے کہ گناہ کا عزم کرکے اگر آدمی اس پر ثابت رہے اور اس کا قصد وارادہ رکھے لیکن اس گناہ کو عمل میں لانے کے اسباب اس کومُیَسَّر نہ آسکیں اور مجبوراً وہ اس کو نہ کر سکے تواکثر علماء کے نزدیک اس سے مؤاخذہ کیا جائے گا۔ امام ابو منصور ماتُریدِی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہی موقف ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ آیت ہے، :  

’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ‘‘(نور: ۱۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔

نیزاس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں فرمایا گیا کہ بندہ جس گناہ کا قصد کرتا ہے اگر وہ عمل میں نہ آئے جب بھی اس پر عقاب کیا جاتا ہے۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۸۴، ۲ / ۱۳۱)

ہاں اگر بندے نے کسی گناہ کا ارادہ کیا پھر اس پر نادم ہوا اور استغفار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرمائے گا۔

شیطان کی انسان دشمنی:

یاد رہے کہ انسان کے دل میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے اور بعض اوقات یہ وسوسے اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ انسان کے لئے اپنا دین و ایمان بچانا مشکل ہوجاتا ہے جیسے شیطان کبھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ،کبھی تقدیر کے بارے میں ،کبھی ایمانیات کے بارے میں ،کبھی عبادات کے بارے میں ،کبھی طہارت و پاکیزگی کے معاملات کے بارے میں اور کبھی طلاق کے بارے میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔

حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’شیطان فارغ ہے اور تم مشغول ومصروف ہو ۔ شیطان تمہیں دیکھتا ہے مگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ تم شیطان کو بھولے بیٹھے ہو مگر وہ تمہیں برائی میں مبتلاء کرنے سے نہیں بھولا ۔تمہارا نفس خود تمہارا دشمن و مخالف ہے اور شیطان کا مددگار ہے، اس لئے شیطان اور اس کے حامیوں سے جنگ کرنا اور انہیں مغلوب کرنا بہت ضروری ہے ورنہ اس کے فتنہ و فساد اور ا س کی ہلاکت و بربادی سے بچنا بہت مشکل ہے۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الثالثۃ، ص۵۵)

سَرورِ  دیں لیجئے اپنے ناتوانوں کی خبر

نفس و شیطاں سیّدا کب تک دباتے جائیں گے

2:285
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫-وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ﱪ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ(۲۸۵)
سب نے مانا (ف۶۲۰) اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو (ف۶۲۱) یہ کہتے ہوئے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے (ف۶۲۲) اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا (ف۶۲۳) تیری معافی ہو اے رب ہمارے! اور تیری ہی طرف پھرنا ہے،

{كُلٌّ اٰمَنَ: سب ایمان لائے۔} اصول و ضروریاتِ ایمان کے چار مرتبے ہیں :

(1)… اللہ  تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی تمام صفات پر ایمان لانا۔

(2)…فرشتوں پر ایمان لانا اور وہ یہ ہے کہ یقین کرے اور مانے کہ وہ موجود ہیں ، معصوم ہیں ،پاک ہیں ، اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسولوں کے درمیان احکام و پیغام کے واسطے ہیں۔

(3)… اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانا اوریہ عقیدہ رکھنا کہ جو کتابیں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں اور اپنے رسولوں کے پاس وحی کے ذریعے بھیجیں وہ بے شک و شبہ سب حق اور سچ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور قرآن کریم تَغیِیر، تبدیل اور تحریف سے محفوظ ہے اور مُحَکم ومُتَشابہ پر مشتمل ہے۔

(4)… رسولوں پر ایمان لانا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں جنہیں اُس نے اپنے بندوں کی طرف بھیجا، تمام رسول اور نبی، اللہ تعالیٰ کی وحی کے امین ہیں ، گناہوں سے پاک اور معصوم ہیں ، ساری مخلوق سے افضل ہیں ، ان میں بعض حضرات بعض سے افضل ہیں البتہ نبی ہونے میں سب برابر ہیں اور اس بات میں ہم ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کریں گے۔ نیز ہم اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو سنیں گے ، مانیں گے اور اس کی پیروی کریں گے۔ یاد رکھیں کہ ایمان مُفَصَّل کی بنیاد یہی آیت ِ مبارکہ ہے۔

2:286
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ-لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْؕ-رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَاۚ-رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَاۚ-رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖۚ-وَ اعْفُ عَنَّاٙ-وَ اغْفِرْ لَنَاٙ-وَ ارْحَمْنَاٙ-اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۠(۲۸۶)
اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر، اس کا فائدہ ہے جو اچھا کمایا اور اس کا نقصان ہے جو برائی کمائی (ف۶۲۴) اے رب ہمارے! ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھولیں (ف۶۲۵) یا چوُکیں اے رب ہمارے! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے اگلوں پر رکھا تھا، اے رب ہمارے! اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں سہار (برداشت) نہ ہو اور ہمیں معاف فرمادے اور بخش دے اور ہم پر مہر کر تو ہمارا مولیٰ ہے۔ تو کافروں پر ہمیں مدد دے۔

{لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا: اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے ۔} اللہ تعالیٰ کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، لہٰذا غریب پر زکوٰۃ نہیں ، نادار پر حج نہیں ، بیمار پر نماز میں قیام فرض نہیں ، معذور پر جہاد نہیں الغرض اس طرح کے بہت سے احکام معلوم کئے جاسکتے ہیں۔

{لَهَا مَا كَسَبَتْ:  کسی جان نے جو (نیک عمل) کمایا وہ اسی کیلئے ہے۔} آدمی کے اچھے عمل کی جزا اور اس کے برے عمل کی سزا اسی کو ملے گی۔ یہ آیتِ مبارکہ آخرت کے ثواب و عذاب کے بارے میں ہے لیکن اس کے ساتھ اس طرح کا معاملہ دنیا میں بھی پیش آتا رہتا ہے کہ ہر آدمی اپنی محنت کا پھل پاتا ہے، محنت والے کو اس کی محنت کا صلہ ملتا ہے جبکہ سست و کاہل اور کام چور کو اس کی سستی کا انجام دیکھنا پڑتا ہے۔ لوگوں سے بھلائی کرنے والا بھلائی پاتا ہے اور ظلم کرنے والا خود بھی زیادتی کا شکار ہوجاتا ہے۔

{ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا: اے ہمارے رب! ہماری گرفت نہ فرما۔}یہاں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کوایک اہم دعا کی تلقین فرمائی کہ وہ اس طرح اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ سے عرض کریں۔ دعا کا مفہوم ترجمے سے واضح ہے۔ اس دعا کو زبانی یاد کرلینا چاہیے۔ سورہ ٔبقرہ کی اِن آخری دو آیتوں کی بڑی فضیلت ہے۔ حضرت جُبَیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔبقرہ کو ان دو آیتوں پر ختم فرمایا ہے جو مجھے اس کے عرش کے خزانہ سے عطا ہوئیں لہٰذا انہیں سیکھو اور اپنی عورتوں کو سکھاؤ کہ یہ نماز(یعنی نماز میں ان کی قراء ت کی جاتی ہے ) اور قرآن و دعا ہیں۔(دارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فضل اول سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۵۴۲، الحدیث: ۳۳۹۰)

{ كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا:جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر رکھا تھا۔} بنی اسرائیل پر کئی احکام ہم سے زیادہ سخت تھی جیسے بعض گناہوں کی توبہ میں خود کشی کرنا، ناپاک کپڑے کا جلانا، گندی کھال کاٹنا اور زکوٰۃ میں چوتھائی مال دینا۔ ان کے مقابلے میں ہم پر نہایت آسانیاں ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۸۶، ۱ / ۲۲۷)

             لہٰذا اعترافِ نعمت کے طور پر یہاں دعا میں عرض کیا جارہا ہے کہ اے ہمارے رب! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر رکھا تھا۔ یاد رہے کہ امتِ محمدیہ  عَلٰی صَاحِبَھَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامْ پر یہ کرم نوازیاں حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے صدقے میں ہیں جیسا کہ سورہ ٔاعراف آیت 157میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْبَقَرَة
اَلْبَقَرَة
  00:00



Download

اَلْبَقَرَة
اَلْبَقَرَة
  00:00



Download