READ

Surah al-Baqarah

اَلْبَقَرَة
286 Ayaat    مدنیۃ


2:161
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَۙ(۱۶۱)
بیشک وہ جنہوں نے کفر کیا اور کافر ہی مرے ان پر لعنت ہے اللہ اور فرشتوں اور آدمیوں سب کی، (ف۲۹۰)

{وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ: اور جو حالتِ کفر میں مرے۔} سب سے بدبخت آدمی کفر پر مرنے والا ہے اگرچہ اس کی ساری زندگی اعلیٰ درجے کی عبادت و ریاضت اور تبلیغ و خدمت ِ دین میں گزری ہو ۔کفر پر مرنے والوں پراللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔

برے خاتمے کا خوف:

اس آیت سے معلوم ہوا مرتے وقت ایمان کی دولت سے محروم رہ جانا سب سے بڑی بدبختی ہے اور اس وقت ایمان کا سلامت رہ جانا بہت بڑی سعادت ہے ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اگرچہ کتنا ہی نیک و پارسا،عبادت گزار اور پرہیزگار کیوں نہ ہو اپنے برے خاتمے سے خوفزدہ رہے ۔ہمارے بزرگانِ دین کا بھی یہی طرز عمل رہا ہے کہ وہ سب سے زیادہ برے خاتمے کے بارے میں خوفزدہ رہتے تھے۔چنانچہ جب حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا وقت وصال آیا تو آپ نے رونا شروع کر دیا، ان سے کہا گیا: آپ امید رکھئے ،اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر گناہوں سے درگزر فرمانے والا ہے۔آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: (تم کیا سمجھتے ہو کہ) کیا میں اپنے گناہوں کی وجہ سے آنسو بہا رہا ہوں ؟ اگر میں جانتا کہ اللہ  تعالیٰ کی وحدانیت پر قائم رہتے ہوئے مروں گا تو پھر مجھ پر پہاڑوں کے برابر بھی گناہ ڈال دئیے جاتے تو مجھے کوئی پروا نہ ہوتی۔ (یعنی ایمان پر موت ہوجائے تو مجھے کچھ ڈر نہیں۔)(احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان الدواء الذی بہ یستجلب۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۱۱)

حضرت امام احمد بن حنبلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے انتقال کے وقت جب آپ کے صاحب زادے نے طبیعت دریافت کی تو فرمایا،’’ابھی جواب کا وقت نہیں ہے ، بس دعا کرو کہ اللہ  تعالیٰ میرا خاتمہ ایمان پر کر دے کیونکہ ابلیس لعین اپنے سر پر خاک ڈالتے ہوئے مجھ سے کہہ رہا ہے کہ ’’تیرا دنیا سے ایمان سلامت لے جانا میرے لئے باعث ِ ملال ہے۔ اور میں اس سے کہہ رہا ہوں کہ ابھی نہیں ، جب تک ایک بھی سانس باقی ہے میں خطرے میں ہوں ، میں (تجھ سے ) پرامن نہیں ہوسکتا ۔(تذکرۃ الاولیاء، ذکر امام احمد حنبل، ص۱۹۹، الجزء الاول)

حضور غوث اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اولیاء کے سردار ہیں لیکن خوف ِ خدا کا جو عالم تھااس کا اندازہ آپ کی طرف منسوب ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عید کے دن فرمایا :

خلق گوید کہ فردای روز عید است

خوشی در روحِ ہر مومن پدید است

دراں روزے کہ باایماں بمیرم

 مرا  در  ملک خود آں روز عید است

یعنی لوگ کہہ رہے ہیں کہ کل عید ہے!کل عید ہے! اور سب خوش ہیں لیکن میں تو جس دن ا س دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے کر گیا میرے لئے تو وہی دن عید ہو گا۔

لعنت کرنے سے متعلق شرعی مسائل:

یہاں آیت میں کافروں پرلعنت کی گئی ہے۔ یہ مسئلہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس شخص کے کفر پر مرنے کا یقین نہ ہو اس پر لعنت نہ کی جائے نیز فاسق کا نام لے کر لعنت جائز نہیں جیسے کہا جائے ’’فلاں شخص پر لعنت ہو‘‘البتہ وصف کے ساتھ لعنت کر سکتے ہیں جیسے احادیث میں جھوٹوں ، سود خوروں ، چوروں اور شرابیوں وغیرہ پر لعنت کی گئی ہے ۔ نیزوصف کے اعتبار سے لعنت قرآن پاک میں بھی کی گئی ہے جیسے جھوٹوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ

’’لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ‘‘(اٰل عمران:۶۱)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:جھوٹوں پر اللہ کی لعنت۔

{وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ: اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔} مومن تو کافروں پر لعنت کریں گے ہی ،بروزِ قیامت کافر بھی ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔

2:162
خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ(۱۶۲)
ہمیشہ رہیں گے اس میں نہ ان پر سے عذاب ہلکا ہو اور نہ انہیں مہلت دی جائے،

{لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ: ان پر سے عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا۔} کفار کو کبھی عذاب سے چھٹکارا نہ ملے گا اور نہ انہیں نیک اعمال کی یا توبہ کی مہلت دی جائے گی ۔کافر کا عمل اسے کچھ نفع نہیں دیتا البتہ علماء نے فرمایا ہے اور احادیث سے سمجھ آتا ہے کہ جس عمل کا تعلق نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ذاتِ گرامی سے ہو اس سے کافر کو بھی فائدہ ہوتا ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں ہے کہ ابوطالب کے عذاب میں حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی برکت سے کمی ہوئی اور یونہی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ولادت کی خوشی میں ابو لہب نے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تو جس انگلی کے اشارے سے اس نے آزاد کیا تھا اس سے اسے کچھ سیراب کیا جاتا ہے۔ یہی کلام علامہ عینیرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ابولہب والی حدیث کے تحت عمدۃ القاری جلد نمبر14 صفحہ45پر فرمایا ہے۔

2:163
وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠(۱۶۳)
اور تمہارا معبود ایک معبود ہے (ف۲۹۱) اس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی بڑی رحمت والا مہربان

{وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ: اور تمہارا معبود ایک معبود ہے۔} کفار نے حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اللہ تعالیٰ کی شان و صفت معلوم کی تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ تمہارا معبودایک معبود ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۱ / ۱۰۸)

 نہ اس کے اجزاء ہیں ، نہ کوئی اس کی مثل ہے ، معبود و رب ہونے میں کوئی اس کا شریک نہیں ، وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے، مخلوق کو تنہا اسی نے بنایا، وہ اپنی ذات میں اکیلا ہے۔

اسم اعظم والی آیات:

            حضرت اسماء بنت یزید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے،ایک یہ آیت:

وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ

دوسری سورۂ اٰل عمران کی ابتدائی آیت:

الٓمَّٓۙ(۱) اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ  (ترمذی، کتاب الدعوات، ۶۴-باب، ۵ / ۲۹۱، الحدیث: ۳۴۸۹)

2:164
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ ۪-وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۱۶۴)
بیشک آسمانوں (ف۲۹۲) اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کا بدلتے آنا اور کشتی کہ دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اور وہ جو اللہ نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو اس سے جِلا دیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کا باندھا ہے ان سب میں عقلمندوں کے لئے ضرور نشانیاں ہیں،

{اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں(نشانیاں ہیں )۔} کعبہ معظمہ کے گرد مشرکین کے تین سو ساٹھ بت تھے جنہیں وہ معبودمانتے تھے انہیں یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ معبود صرف ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔اس لیے انہوں نے حضور سید عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ایسی آیت طلب کی جس سے اللہ  تعالیٰ کی وحدانیت ثابت ہو، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۶۴، ص۸۹، ملتقطاً)

اور انہیں یہ بتایا گیا کہ آسمان و زمین کی تخلیق، آسمان کی بلندی، اس میں چمکتے ہوئے ستارے، اس کا بغیر ستونوں کے قائم ہونا، سورج چاند، ستاروں کے ذریعے اس کی زینت سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔یونہی زمین اور اس کی وسعت، اس میں موجود پہاڑ، معدنیات، جواہرات، اس میں رواں سمندر، دریا، چشمے ، اس سے اگنے والے درخت، سبزہ، پھل، پھول، نباتات، شب و روز کا آنا جانا، دن رات کا چھوٹا بڑا ہونا، سمندر میں بھاری بوجھ کے باوجود کشتیوں کا تیرنا، لوگوں کا اس میں سوار ہونا، سمندری عجائبات، ہواؤں کا چلنا،سمندر کے ذریعے مشرق و مغرب میں تجارت کرنا، سمندر سے بخارات کا اٹھنا، بارش کی صورت میں برسنا، بارش سے خشک اورمردہ زمین کا سر سبزوشاداب ہوجانا، اس پانی اور اس کے ثمرات سے زندگی میں باغ و بہار آنا، زمین میں کروڑوں قسم کے حیوانات کا ہونا ،ہواؤں کی گردش، ان کے خواص و عجائبات ،یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت اور اس کی قدرت و وحدانیت پر عظیم دلیلیں ہیں۔یہ سارا تو ایک قسم کا اجمالی بیان ہے۔ مذکورہ بالا چیزوں میں ہر ایک پر جداگانہ غور و فکر کریں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ایسے حیرت انگیز کرشمے نظر آتے ہیں کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ کائنات میں انتہائی کثرت سے پائی جانے والی ہوا پر ہی غور کرلیں تو اس میں نجانے کتنی گیسیں، کتنی تاثیرات اور ضروریات انسانی کی کتنی بنیادی چیزیں ہیں۔ صرف یہی دیکھ لیں کہ اگر ہوا نہ ہو تو تمام انسان دس منٹ کے اندر اندر مرجائیں ، زمین کے اوپر اور ہوا میں پائے جانے والے جانوروں کی حیات ختم ہوجائے۔ یہ تو قدرت ِ الہٰی کی ایک قسم کی صرف ایک تاثیر ہے جبکہ قدرت الہٰی کی کھربوں سے زائد قسموں میں ایک ایک چیز میں کروڑوں عجائبات ہیں۔ کسی زمانے میں آنکھ کو صرف دیکھنے کا ایک آلہ سمجھا جاتا تھا اور علمی ترقی کے ساتھ ساتھ آنکھ کے ایسے ایسے ظاہری و باطنی، جسمانی و روحانی عجائبات سامنے آرہے ہیں کہ اب صرف آنکھ سے متعلقہ علوم کی اقسام نہ جانے کتنی ہیں اور لاکھوں لوگ اس علم کے ماہر ہونے کے باوجوداس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہم نے آنکھ سے متعلق ہر چیز کا علم حاصل کرلیا ہے۔

 سائنسی علوم بھی اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ بنتے ہیں :

           اس آیت مبارکہ اور اس کی تفسیر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سائنسی علوم بھی معرفت ِ الہٰی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جتنا سائنسی علم زیادہ ہوگا اتنی ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کی پہچان زیادہ ہوگی، لہٰذا اگر کوئی دینِ اسلام کی خدمت اور اللہ  تعالیٰ کی معرفت کی نیت سے سائنسی علوم سیکھتا ہے تو یہ بھی عظیم عبادت ہوگی نیز اللہ تعالیٰ نے جو کائنات میں غور و فکر کا حکم دیا ہے یہ اس حکم کی تعمیل بھی قرار پائے گی۔

2:165
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-وَ لَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَۙ-اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًاۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ (۱۶۵)
اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنالیتے ہیں کہ انہیں اللہ کی طرح محبوب رکھتے ہیں اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں اور کیسے ہو اگر دیکھیں ظالم وہ وقت جب کہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آئے گا اس لئے کہ سارا زور خدا کو ہے اور اس لئے کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے،

{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا:اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنالیتے ہیں۔} مشرکین اپنے باطل معبودوں سے اسی طرح محبت کرتے جیسے اللہ تعالیٰ سے محبت ہونی چاہیے۔ بتوں کی عبادت کرتے، ان کیلئے اللہ تعالیٰ کی صفات ثابت کرتے، ان کے نام پر جانور ذبح کرتے، جو معاملات صرف اللہ تعالیٰ کیلئے خاص ہیں وہ اپنے بتوں کے ساتھ کرتے، ان کی خاطر کٹ مرنے کو تیار رہتے، یہ سب باطل و مردود تھا۔ یاد رہے کہ اللہ  تعالیٰ کے پیاروں سے محبت اللہ تعالیٰ ہی کی وجہ سے ہوتی ہے لہٰذا اس محبت کو جدا شمار نہیں کیا جاسکتا جیسے ہمیں حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے محبت ہے تو یہ اللہ  تعالیٰ ہی کی محبت ہے۔

{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ:اور ایمان والے سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔}اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ محبتِ الہٰی میں جینا اورمحبتِ الہٰی میں مرنا ان کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا، نرم وگداز بستروں کو چھوڑ کر بارگاہِ نیاز میں سر بَسجود ہونا، یادِ الہٰی میں رونا، رضائے الہٰی کے حصول کیلئے تڑپنا، سردیوں کی طویل راتوں میں قیام اور گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزے ، اللہ تعالیٰ کیلئے محبت کرنا، اسی کی خاطر دشمنی رکھنا، اسی کی خاطر کسی کو کچھ دینا اور اسی کی خاطر کسی سے روک لینا، نعمت پر شکر، مصیبت میں صبر، ہر حال میں خدا پر توکل، اپنے ہر معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا، احکامِ الہٰی پر عمل کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا، دل کو غیر کی محبت سے پاک رکھنا، اللہ تعالیٰ کے محبوبوں سے محبت اور اللہ  تعالیٰ کے دشمنوں سے نفرت کرنا، اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا نیاز مندرہنا،اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے رسول و محبوبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دل و جان سے محبوب رکھنا، اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت، اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب رکھنا، ان سے محبت رکھنا، محبتِ الہٰی میں اضافے کیلئے ان کی صحبت اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ کی تعظیم سمجھتے ہوئے ان کی تعظیم کرنا،یہ تمام امور اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الہٰی کی دلیل بھی ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔

{وَ لَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا: اور اگر ظالم دیکھتے ۔}آیت کے اس حصے میں کافروں سے متعلق کہا جارہا ہے کہ قیامت کے دن کے عذاب کا منظر اگر دیکھ لیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ وہ کتنا خوفناک منظر ہے۔

2:166
اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَ رَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْبَابُ(۱۶۶)
جب بیزار ہوں گے پیشوا اپنے پیروؤں سے (ف۲۹۳) اور دیکھیں گے عذاب اور کٹ جائیں گی ان کی سب ڈوریں (ف۲۹۴)

{اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا: جب پیشوا بیزار ہوں گے۔} یہاں قیامت کے دن کی منظر کشی ہے جب مشرکین اور ان کے پیشوا جنہوں نے انہیں کفر کی ترغیب دی تھی ایک جگہ جمع ہوں گے اور عذاب نازل ہوتا ہوا دیکھیں گے تو ایک دوسرے سے بیزاری و نفرت کا اظہار کریں گے۔ پیروکار تو کہیں گے، اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم نے اپنے ان سرداروں کی پیروی کی اور انہوں نے ہمیں گمراہ کردیا تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر،جبکہ پیشوا اپنے پیروکاروں سے نفرت و بیزاری کا اظہار کریں گے۔ یہ مضمون قرآن پاک میں متعدد جگہوں پر بیان کیا گیا ہے مثلاً سورۂ احزاب آیت66تا 68 اور سورۂ سَبا آیت 31تا 33 وغیرہ۔

{وَ تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْبَابُ: اور سب رشتے ناتے کٹ جائیں گے۔}یعنی قیامت کے دن کافروں کے وہ تمام تعلقات جو دنیا میں ان کے مابین تھے خواہ وہ دوستیاں ہوں یا رشتہ داریاں یا باہمی موافقت کے عہدوہ سب ختم ہوجائیں گے اور ہر کوئی اپنے اعمال کا جوابدہ ہوگا ، کوئی کسی کا مددگار نہ بن سکے گا۔ یاد رہے کہ قیامت کے دن کفار کے رشتے تو ٹوٹ جائیں گے لیکن اولیاء و متقین و صالحین کے ساتھ مسلمانوں کا رشتہ باقی رہے گاجیسے قرآن پاک میں ہے:

اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ(الزخرف:۶۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: پرہیزگاروں کے علاوہ اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔

2:167
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّاؕ-كَذٰلِكَ یُرِیْهِمُ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْهِمْؕ-وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ۠(۱۶۷)
اور کہیں گے پیرو کاش ہمیں لوٹ کر جانا ہوتا (دنیا میں) تو ہم ان سے توڑ دیتے جیسے انہوں نے ہم سے توڑ دی، یونہی اللہ انہیں دکھائے گا ان کے کام ان پر حسرتیں ہوکر (ف۲۹۵) اور وہ دوزخ سے نکلنے والے نہیں

{لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً: اگر ہمیں ایک مرتبہ لوٹ کر جانا مل جاتا۔} کافر انتہائی تمنا کریں گے کہ کاش انہیں ایک مرتبہ دنیا میں لوٹ کر جانا مل جائے تو اولاً اپنے پیشواؤں سے بیزاری کا اظہار کرلیں ، مزید اپنے باطل معبودوں سے بیزار ہوجائیں اور تیسرا ایمان لا کر نیک اعمال کرلیں۔ کافروں کی موت کے وقت بھی ایسی ہی تمنائیں ہوتی ہیں جیسا کہ سورۂ مومنون آیت  99اور100میں ہے کہ کافر کہے گا ،اے اللہ مجھے واپس لوٹا دے تاکہ میں کچھ تو نیکی کرلوں۔ یونہی سورۂ زُمر آیت 58 میں ہے کہ کافر کہے گا ، اے کاش کہ مجھے ایک مرتبہ واپسی مل جائے تاکہ میں نیکیاں کرلوں۔ اس طرح کا مضمون پارہ 24 سورۂ زمراور سورۂ مومن میں کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔

نیک اعمال کی حسرت کرنے والے لوگ:

یاد رہے کہ ایمان اور اعمالِ صالحہ کی اصل حسرت تو کافر ہی کو ہوگی لیکن مسلمان بھی نیکیوں کی کمی اور گناہوں میں ملوث ہونے پر حسرت کا اظہار کریں گے، جیسے حدیث مبارک ہے ’’نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ہر مرنے والے کو افسوس و ندامت ہوگی۔ صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یارسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ندامت ہوگی؟ فرمایا: اگر نیک ہوگا تو زیادہ نیکیاں نہ کرنے پر نادم ہوگا اوراگر گنہگار ہوگا توگناہوں سے باز نہ آنے پر نادم ہوگا۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۵۹-باب، ۴ / ۱۸۱، الحدیث: ۲۴۱۱)

 حسرت کی اور بھی صورتیں ہوں گی جیسے دوسروں پر ظلم کرنے اور انہیں تکلیف دینے والوں کو ڈھیروں ڈھیر نیکیوں کے باوجود حسرت ہوگی کیونکہ ان کی نیکیاں دوسروں کو دیدی جائیں گی۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۴، الحدیث: ۵۹(۲۵۸۱))

 جسے طلب علم کا موقع ملا لیکن علم حاصل نہ کیا اسے حسرت ہو گی۔(ابن عساکر، حرف المیم، محمد بن احمد بن جعفر۔۔۔ الخ،۵۱ / ۱۳۷)

کسی جگہ جمع ہونے والے لوگ اللہ تعالیٰ کا ذکر کئے بغیر اٹھ گئے تو وہ مجلس ان کے لئے حسرت ہوگی۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، کلام عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ، ۸ / ۱۸۹، الحدیث: ۴)

{كَذٰلِكَ یُرِیْهِمُ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ: اللہ اسی طرح انہیں ان کے اعمال دکھائے گا۔} قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کافروں کے برے اعمال ان کے سامنے کرے گا تو انہیں نہایت حسرت ہوگی کہ انہوں نے یہ کام کیوں کئے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ جنت کے مقامات دکھا کر ان سے کہا جائے گا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے تو یہ تمہارے لیے تھے، پھر جنت کی وہ عالیشان منزلیں مؤمنین کو دیدی جائیں گی ۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۶۷، ۱ / ۱۱۰)

2:168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸)
اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں (ف۲۹۶) حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،

{ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا: جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ ۔} مشرکین نے اپنی طرف سے بہت سے جانوروں کو حرام قرار دیا ہوا تھا ،اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی کہ زمین میں پیدا شدہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے حلال کی ہیں اور لوگوں کے نفع کیلئے ہی انہیں پیدا کیا ہے لہٰذا صرف ان چیزوں سے بچو جنہیں اللہ تعالیٰ نے خود منع فرما دیا اور جن چیزوں سے اللہ  تعالیٰ نے منع نہیں فرمایا وہ سب حلال ہیں۔

 اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام قرار دینا کیسا ہے؟

            اس سے معلوم ہوا کہ اللہ  تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام قرار دینا اس کی رَزّاقِیَّت سے بغاوت ہے مسلم شریف کی حدیث ہے کہ اللہ  تعالیٰ فرماتا ہے: جو مال میں اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہوں وہ ان کے لیے حلال ہے۔ اور اسی حدیث میں ہے کہ’’ میں نے اپنے بندوں کو باطل سے بے تعلق پیدا کیا پھر ان کے پاس شیاطین آئے اور انہوں نےلوگوں کودین سے بہکایا اور جو میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اس کو حرام ٹھہرایا۔(مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب صفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنۃ واہل النار، ص۱۵۳۲، الحدیث: ۶۳(۲۸۶۵))

حلال و طیب رزق سے کیا مراد ہے؟

          حلال و طیب سے مراد وہ چیز ہے جو بذات ِ خود بھی حلال ہے جیسے بکرے کا گوشت، سبزی، دال وغیرہ اور ہمیں حاصل بھی جائز ذریعے سے ہو یعنی چوری، رشوت، ڈکیتی وغیرہ کے ذریعے نہ ہو۔

 رزق حلال کے فضائل اور حرام رزق کی مذمت:

احادیث مبارکہ میں رزق حلال کی بہت فضیلت اور رزق حرام کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے ۔ان میں 3 احادیث درج ذیل ہیں :

(1)… حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: یارسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، دعا فرمائیے کہ اللہ  تعالیٰ مجھے مُستجَابُ الدَّعْوات کردے یعنی میری ہر دعا قبول ہو۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: اے سعد! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،اپنی خوراک پاک کرو، مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی جان ہے آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے اُگا اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد،  ۵ / ۳۴، الحدیث: ۶۴۹۵)

(2) …حضرت ابو سعیدخدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے حلال مال کمایاپھر اسے خود کھایا یا اس کمائی سے لباس پہنا اور اپنے علاوہ اللہ تعالیٰ کی دیگر مخلو ق (جیسے اپنے اہل و عیال اور دیگر لوگوں ) کو کھلا یا اور پہنا یا تو اس کا یہ عمل اس کے لئے برکت و پاکیزگی ہے ۔(الاحسان بترتیب ابن حبان، کتاب الرضاع، باب النفقۃ، ذکر کتبۃ اللہ جلّ وعلا الصدقۃ للمنفق۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۱۸،  الحدیث: ۴۲۲۲، الجزء السادس)

(3)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، جس نے اس میں حلال طریقے سے مال کمایا اور اسے وہاں خرچ کیا جہاں خرچ کرنے کا حق تھا تو اللہ تعالیٰ اسے(آخرت میں ) ثواب عطا فرمائے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا اور جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ تعالیٰ اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم)  میں داخل کردے گا اور اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مال میں خیانت کرنے والے کئی لوگوں کے لئے قیامت کے دن جہنم ہوگی۔اللہعَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا(بنی اسرائیل: ۹۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان:جب کبھی بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان،  ۴ / ۳۹۶، الحدیث: ۵۵۲۷)

            ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ حلال روزی کمائے اور حلال روزی سے ہی کھائے اور پہنے اسی طرح دوسروں کو بھی جو مال دے وہ حلال مال میں سے ہی دے ۔ہمارے بزرگان دین رزق کے حلال ہونے میں کس قدر احتیاط کرتے تھے اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے ،چنانچہ ایک بار امیرالمؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا غلام آپ کی خدمت میں دودھ لایا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے پی لیا ۔ غلام نے عرض کی، میں پہلے جب بھی کوئی چیز پیش کرتا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا س کے بارے میں دریافت فرماتے تھے لیکن اِس دودھ کے بارے میں کچھ دریافت نہیں فرمایا؟ یہ سن کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا، یہ دودھ کیسا ہے؟ غلام نے جواب دیا کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بیمار پر منتر پھونکا تھا جس کے معاوضے میں آج اس نے یہ دودھ دیا ہے ۔ حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے یہ سن کر اپنے حلق میں اُنگلی ڈالی اور وہ دودھ اُگل د یا ۔ اِس کے بعد نہایت عاجزی سے دربارِ الٰہی میں عرض کیا ،’’ یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، جس پر میں قادر تھا وہ میں نے کر دیا ، اس دودھ کا تھوڑا بہت حصہ جو رگوں میں رہ گیا ہے وہ معاف فرما دے۔(منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، تقوی الاعضاء الخمسۃ، الفصل الخامس، ص۹۷)

2:169
اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۶۹)
وہ تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا اور یہ کہ اللہ پر وہ بات جوڑو جس کی تمہیں خبر نہیں،

اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ: وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا حکم دے گا۔}سُوْٓءِ اورفَحْشَآءِکو مُترادف یعنی ہم معنیٰ بھی قرار دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سُوْٓءِسے مراد مطلقاً گناہ ہے اورفَحْشَآءِسے مراد کبیرہ گناہ ہیں۔ (صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۶۹، ۱ / ۱۴۰)

شیطان کا کام کیا ہے؟

             شیطان کا کام ہی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو برائی کی طرف بلائے، کفرو شرک کی طرف، اللہ تعالیٰ کے متعلق غلط عقائد منسوب کرنے کی طرف یا اس کے حلال کردہ کو حرام کہنے اور اس کے حرام کردہ کو حلال کہنے کی طرف، برے کاموں مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، وعدہ خلافی، بہتان، لڑائی فساد، حسد، بغض و کینہ، تکبر و اَنانیت، نفرت و عداوت، جنگ و جَدل، تذلیل و تحقیر، استہزاء والزام تراشی وغیرہ چیزوں کی طرف بلائے۔ یونہی بے حیائی کے کام گانے، باجے، فلمیں ، ڈرامے، ناچ، مُجرے، بدنگاہی، فحش گفتگو، گندی باتیں ، ناجائز تعلقات، بری نیت سے دیکھنا، چھونا، بدکاری وغیرہ گناہوں کی طرف بلانا شیطان کا کام ہے۔افسوس کی بات ہے کہ آج کل ان برائیوں میں سے بہت سی چیزوں کی طرف بلانے میں گھروالوں اور دوست احباب، گھر، بازار، معاشرہ، افسر وغیرہ کا تعاون یا ترغیب ہوتی ہے۔ کوئی آدمی نیکیوں کی طرف آنے کا سوچتا بھی ہے تو مذکورہ بالا افراد اسے کھینچ کر گناہوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ اے کاش ہمیں اچھی صحبت، اچھا مطالعہ، اچھا گھرانہ اور اچھے دوست مل جائیں۔

2:170
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِـعُ مَاۤ اَلْفَیْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَاؕ-اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ(۱۷۰)
اور جب ان سے کہا جائے اللہ کے اتارے پر چلو (ف۲۹۷) تو کہیں بلکہ ہم تو اس پر چلیں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت (ف۲۹۸)

{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ: اورجب ان سے کہا جائے۔} جب کافروں سے کہا جاتا کہ توحید و قرآن پر ایمان لاؤ اور پاک چیزوں کو حلال جانو جنہیں اللہ تعالیٰ نے حلال کیاتو مشرکین اس کا ایک ہی جواب دیتے کہ ہم تو اسی راہ و رسم اور طور طریقے پر چلیں گے جس پر ہمارے باپ دادا چلتے آئے ہیں۔ انہیں فرمایا گیا کہ جب باپ دادا دین کے امور کونہ سمجھتے ہوں اورراہِ راست پر نہ ہوں توان کی پیروی کرنا حماقت و گمراہی ہے۔باپ دادا چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر خود کشی کرتے ہوں تو کیا اولاد بھی چالیس سال کی عمر میں خود کشی کرے؟ وہ روزانہ کیچڑ میں چھلانگ مارتے ہوں تو کیا اولاد بھی یہی شروع کر دے؟ سیدھی بات ہے کہ صحیح بات میں پیروی کی جائے اور غلط میں ہرگز نہیں۔

شریعت کے مقابلے میں باپ دادا کی پیروی کرنا کیسا؟

شریعت کے مقابلہ میں گمراہ باپ دادا کی پیروی کرنا حرام ہے۔ یونہی گناہ کے کاموں میں باپ دادا کی پیروی ناجائز ہے کہ بحکمِ حدیث اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کام میں کسی کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ۔۔۔ الخ، ص۱۰۲۴، الحدیث: ۳۹(۱۸۴۰))

ہمارے ہاں شادی مرگ اور دیگر کئی مواقع پر شریعت پر چلنے کا کہا جائے تو لوگ آگے سے یہی باپ دادا، خاندان اور برادری کے رسم و رواج کا عذر پیش کرتے ہیں یہ بھی سراسر غلط و باطل ہے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ بروں کی پیروی بری ہے اور اچھوں کی پیروی اچھی جیسے ہم بزرگانِ دین، صحابہ، تابعین، ائمہ مجتہدین، اولیاء و صالحین کی پیروی کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی ہے کہ اس کا حکم خود قرآن نے دیا ہے چنانچہ فرمایا:

وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (التوبہ:۱۱۹)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔

ہر نماز میں بزرگوں کی پیروی کی دعا مانگنے کا فرمایا چنانچہ فرمایا:

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ (الفاتحہ: ۷)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تو نے انعام کیا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اچھوں کی پیروی کرنے اور بروں کی پیروی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

2:171
وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءًؕ-صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۱۷۱)
اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو پکارے ایسے کو کہ خالی چیخ و پکار کے سوا کچھ نہ سنے (ف۲۹۹) بہرے، گونگے، اندھے تو انہیں سمجھ نہیں (ف۳۰۰)

{وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور کافروں کی مثال۔} حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکافروں کو مسلسل دینِ حق کی دعوت دیتے رہتے۔ کافر سنتے تو تھے لیکن اس سے کچھ نفع حاصل نہ کرتے یعنی ایمان نہ لاتے۔ ان کے اس سننے کی مثال بیان کی گئی کہ جس طرح جانوروں کا ایک ریوڑ ہو اور ان کا مالک انہیں آواز دے تو وہ محض ایک آواز تو سنتے ہیں لیکن مالک کے کلام کا مفہوم نہیں سمجھتے، یونہی کافروں کا حال ہے کہ حبیب ِ خداصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَانہیں حق کی طرف بلاتے ہیں ، یہ ان کا کلام سنتے ہیں لیکن جواب میں جانوروں جیسا طرزِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ایسے آنکھ، کان، زبان کا کیا فائدہ جس سے کوئی نفع نہ اٹھایا جاسکے۔ اس اعتبار سے تو یہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔ اس آیت میں کچھ درس ہمارے لئے بھی ہے کہ دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت، قرآن و حدیث ، اصلاح و تفہیم کے باوجود جو طرزِ عمل ہمارا ہے وہ بھی کچھ سوچنے کا تقاضا کرتا ہے کہ اِس اعتبار سے ہمارے آنکھ، کان بھی کھلے ہوئے ہیں یا نہیں ؟

2:172
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲)
اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو (ف۳۰۱)

{وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ:اور اللہ  کا شکر ادا کرو۔}اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ کئی مقامات پررزقِ الہٰی کھانے کا بیان کیا، جیسے سورۂ بقرہ آیت168،سورۂ مائدہ87 ،88،سورۂ اعراف آیت32،31اورسورۂ نحل آیت 114وغیرہ ۔ الغرض اس طرح کے بیسیوں مقامات ہیں جہاں رزقِ الہٰی سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ صرف یہ شرط لگائی ہے کہ حرام چیزیں نہ کھاؤ، حرام ذریعے سے حاصل کرکے نہ کھاؤ، کھا کر غافل نہ ہوجاؤ، یہ چیزیں تمہیں اطاعتِ الہٰی سے دور نہ کردیں ، کھا پی کر اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا شکر ادا کرو۔ چنانچہ فرمایا: اور اللہ  کا شکر ادا کرواگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔

2:173
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِۚ-فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۷۳)
اس نے یہی تم پر حرام کئے ہیں مردار (ف۳۰۲) اور خون (ف۳۰۳) اور سُور کا گوشت (ف۳۰۴) اور وہ جانور جو غیر خدان کا نام لے کر ذبح کیا گیا (ف۳۰۵) تو جو نا چار ہو (ف۳۰۶) نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

{اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمْ: تم پر یہی حرام کئے۔ }کفار نے چونکہ اپنی طرف سے بہت سے جانوروں کو حرام قرار دے رکھا تھا جن کا بیان سورۂ مائدہ آیت 103میں آئے گا۔ کفار کی اس حرکت پر فرمایا گیا کہ جن جانوروں کو تم نے حرام سمجھ رکھا ہے جیسے بَحیرہ وغیرہ وہ حرام نہیں ، حرام صرف وہ ہیں جو ہم نے فرمادئیے۔یہی مضمون مزید تفصیل کے ساتھ سورۂ مائدہ آیت 3 میں بھی موجود ہے۔

اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چار چیزوں کی تفصیل:

             یہاں آیت میں چار چیزوں کا بیان ہے: (۱)مردار، (۲)خون، (۳)خنزیر کا گوشت، (۴)غیرُاللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور۔ ان کی تفصیل یہ ہے :

(1)…مردار:جو حلال جانور بغیر ذبح کئے مرجائے یا اس کو شرعی طریقے کے خلاف مارا گیا ہو مثلاً مسلمان اور کتابی کے علاوہ کسی نے ذبح کیا ہو یا جان بوجھ کر تکبیر پڑھے بغیر ذبح کیا گیا ہو یا گلا گھونٹ کر یا لاٹھی پتھر، ڈھیلے، غلیل کی گولی سے مار کر ہلاک کیا گیا ہو یاوہ بلندی سے گر کر مر گیا ہو یا کسی جانور نے اسے سینگ مارکر مار دیا ہو یا کسی درندے نے ہلاک کیا ہو اسے مردار کہتے ہیں اور اس کا کھانا حرام ہے البتہ مردار کا دباغت کیا ہوا چمڑا کام میں لانا اور اس کے بال سینگ ہڈی ، پٹھے سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ،تحت الآیۃ: ۱۷۳، ص۴۴)

            زندہ جانور کا وہ عضو جو کاٹ لیا گیا ہووہ بھی مردار ہی ہے۔

(2)…خون: خون ہر جانور کا حرام ہے جبکہ بہنے والا خون ہو ۔ سورہ اَنعام آیت 145میں فرمایا :’’ اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا‘‘ ’’یا بہنے والا خون‘‘ ذبح کے بعد جو خون گوشت اور رگوں میں باقی رہ جاتا ہے وہ ناپاک نہیں۔

(3)…خنزیر: خنزیر (یعنی سور) نَجس العین ہے اس کا گوشت پوست بال ناخن وغیرہ تمام اجزاء نجس و حرام ہیں ، کسی کو کام میں لانا جائز نہیں چونکہ آیت میں اُوپر سے کھانے کا بیان ہورہا ہے اس لیے یہاں صرف گوشت کا ذکر ہوا۔

(4)… غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ: اس کا معنی یہ ہے کہ جانور ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا نام لیا جائے اور جس جانور کو غیراللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے وہ حرام و مردار ہے البتہ اگر ذبح فقط اللہتعالیٰ کے نام پر کیا اور اس سے پہلے یا بعد میں غیر کا نام لیا مثلاً یہ کہا کہ عقیقہ کا بکرا، ولیمہ کا دنبہ یا جس کی طرف سے وہ ذبیحہ ہے اسی کا نام لیا مثلاً یہ کہا کہ اپنے ماں باپ کی طرف سے ذبح کررہا ہوں یا جن اولیاء کے لیے ایصال ثواب مقصود ہے ان کا نام لیا تو یہ جائز ہے، اس میں کچھ حرج نہیں اور ا س فعل کو حرام کہنا اور ایسے جانور کو مردار کہنا سراسر جہالت ہے کیونکہ ذبح سے پہلے یا ذبح کے بعد غیر کی طرف منسوب کرنا ایسافعل نہیں جو کہ حرام ہوجیسے ہم اپنی عام گفتگو میں بہت سی عبادات کو غیر کی طرف منسوب کرتے ہیں ،مثلاً یوں کہتے ہیں کہ ظہر کی نماز،جنازہ کی نماز،مسافر کی نماز،امام کی نماز،مقتدی کی نماز، بیمار کی نماز، پیر کا روزہ،اونٹوں کی زکوٰۃ اور کعبہ کا حج وغیرہ،جب یہ نسبتیں حرام نہیں اور ان نسبتوں کی وجہ سے نماز ،زکوٰۃ اور حج وغیرہ میں کفر و شرک اور حرمت تو درکنار نام کو بھی کراہت نہیں آتی تو کسی ولی یا بزرگ یا کسی اور کی طرف منسوب کر کے فلاں کی بکری کہنا کیسے حرام ہو گیا اور اس سے یہ خدا کے حلال کئے ہوئے جانور کیوں جیتے جی مردار ا ور سور ہو گئے کہ اب کسی صورت حلال نہیں ہو سکتے ۔ جو لوگ انہیں مردار کہتے ہیں وہ شریعت مطہرہ پر سخت جرأت کرتے ہیں۔یاد رکھیں کہ کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا نام لے کر جانور ذبح نہیں کرتا اور کسی مسلمان کے بارے میں شرعی ثبوت کے بغیر یہ کہنا کہ اس نے غیرُاللہ کانام لے کر جانور ذبح کیا تو یہ بد گمانی ہے اور کسی مسلمان پر بد گمانی کرناحرام ہے اور حتی الامکان اس کے قول اور فعل کو صحیح وجہ پر محمول کرنا واجب ہے اور ذبح کے معاملے میں دل کے ارادے پر اس وقت تک کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا جب تک قائل اپنے ارادے کی تصریح نہ کر دے اور اگر بالفرض بعض نا سمجھ احمقوں پر شرعی ثبوت کے ساتھ ثابت ہو بھی جائے کہ انہوں نے غیرُاللہ  کا نام لے کر ذبح کیا اور اس ذبح سے معاذاللہ ان کا مقصود غیر خدا کی عبادت ہے تو کفر کا حکم صرف انہیں پر ہو گا،اُن کی وجہ سے عام حکم لگا دینا اور باقی لوگوں کی بھی یہی نیت سمجھ لینا باطل ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے ربّ تعالیٰ کا نام لے کرذبح کر رہا ہے تو اس پر بد گمانی حرام و ناروا ہے اور خود سے بنائے ہوئے ذہنی تَصوُّرات پر کسی مسلمان کو معاذ اللہ کفر کا مُرتکب سمجھنا اللہ تعالیٰ کے حلال کئے ہوئے کو حرام کہہ دینا ہے اور تکبیر کے وقت جو اللہ  تعالیٰ کا نام لیا گیا اسے باطل و بے اثر ٹھہرانا ہر گزصحیح ہونے کی کوئی وجہ نہیں رکھتا ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ(انعام:۱۱۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور تمہیں کیا ہے کہ تم اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ  کا نام لیا گیا ہے ۔

            امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ہمیں شریعت مطہرہ نے ظاہر پر عمل کرنے کا حکم فرمایا ہے باطن کی تکلیف نہ دی تو جب اس نے اللہ تعالیٰ کا نام پاک لے کر ذبح کیا توجانور کا حلال ہو نا واجب ہے کہ دل کا ارادہ جان لینے کی طرف ہمیں کوئی راہ نہیں۔(تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۳، ۲ / ۲۰۱)

            اس مسئلے کے بارے میں مزید تفصیل اور دلائل جاننے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی 20ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ ’’سُبُلُ الْاَصْفِیَاء فِیْ حُکْمِ ذَبَائِح لِلاَوْلِیَاء‘‘  مطالعہ فرمائیں۔

{فَمَنِ اضْطُرَّ:تو جو مجبور ہوجائے۔}  مُضطَریعنی مجبور جسے حرام چیزیں کھانا حلال ہے وہ ہے جو حرام چیز کے کھانے پر مجبور ہو اور اس کو نہ کھانے سے جان چلی جانے کا خوف ہواور کوئی حلال چیز موجود نہ ہو خواہ بھوک یا غربت کی وجہ سے یہ حالت ہو یا کوئی شخص حرام کے کھانے پر مجبور کرتا ہو اورنہ کھانے کی صورت میں جان کااندیشہ ہو ایسی حالت میں جان بچانے کے لیے حرام چیز کا قدرِ ضرورت یعنی اتنا کھالینا جائز ہے کہ ہلاکت کا خوف نہ رہے بلکہ اتنا کھانا فرض ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۳، ۱ / ۱۱۳)

{غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ: بخشنے والا ، مہربان۔} حالت ِ مجبوری میں حرام کھانے کی اجازت دینا اور اسے معاف رکھنا اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی کی دلیل ہے اس لئے آیت کے آخر میں مغفرت و رحمت والی صفات کا تذکرہ فرمایا۔

2:174
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًاۙ-اُولٰٓىٕكَ مَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْۖ-ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۷۴)
وہ جو چھپاتے ہیں (ف۳۰۸) اللہ کی کتاب اور اسکے بدلے ذلیل قیمت لیتےہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھرتے ہیں (ف۳۰۹) اور اللہ قیامت کے دن ان سے بات نہ کرے گا اور نہ انہیں ستھرا کرے، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے،

{اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ: بیشک وہ لوگ جو اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں۔} کافروں کے ایک گروہ مشرکین کے اعمال کا ذکر کرنے کے بعد اب دوسرے گروہ یعنی یہودیوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ پہلا گروہ اللہ تعالیٰ کے حق میں کوتاہی کرنے والا تھا اور دوسرا گروہ مصطفٰی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق میں کوتاہی کرنے والا ہے۔ شانِ نزول: یہودیوں کے سردار اورعلماء یہ امید رکھتے تھے کہ نبی آخر الزماں  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان میں سے مبعوث ہوں گے، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ سرکارِ دو عالم، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ دوسری قوم میں سے مبعوث فرمائے گئے تو انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ لوگ توریت و انجیل میں حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف دیکھ کر آپ کی فرمانبرداری کی طرف جھک پڑیں گے اور اِن یہودی سرداروں اور علماء کے نذرانے، ہدیئے ،تحفے تحائف سب بند ہوجائیں گے، حکومت جاتی رہے گی تو اس خیال سے انہیں حسد پیدا ہوا اور توریت و انجیل میں جو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نعت و صفت اور آپ کے وقت ِنبوت کا بیان تھا انہوں نے اس کو چھپا دیا۔ اس پر یہ آیت ِمبارکہ نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۳، ۱ / ۱۱۳)

یہودیوں کے اس طرح کے طرزِ عمل پر فرمادیا گیا کہ ذاتی مفادات، مالِ دنیا اور عیش و آرام کی خاطر اللہ  تعالیٰ کی کتاب اور اس کے احکام، عظمت و شانِ مُصطَفَوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ چھپانے والے مال ودولت سے اپنے خزانے نہیں بھر رہے بلکہ حقیقت میں اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں کہ یہ حرکات انہیں جہنم میں لے جانے کا سبب ہوں گی، قیامت کے دن یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کے شرف سے محروم ہوں گے، رحمت ِالہٰی ان سے دور ہوگی، کفر و معصیت کی گندگی میں ڈوبے ہوئے ہوں گے اور انہیں کسی بھی طرح گناہوں سے پاک نہیں کیا جائے گا بلکہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔ یاد رہے کہ چھپانا یہ بھی ہے کہ کتاب کے مضمون پر کسی کو مطلع نہ ہونے دیا جائے، نہ وہ کسی کو پڑھ کر سنایا جائے اورنہ دکھایا جائے اور یہ بھی چھپانا ہے کہ غلط تاویلیں کرکے معنی بدلنے کی کوشش کی جائے اور کتاب کے اصل معنی پر پردہ ڈالا جائے۔ یہودی ہرطرح کی تاویلیں کرتے تھے اور ابھی تک بہت سے لوگوں میں اس طرح کا طرزِ عمل جاری ہے قرآن پڑھ کر توحید ِ الہٰی کی غلط تشریح کرنا، عظمتِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی آیات کو چھپانا، ان کے معانی بدلنا،پردے اور سود وغیرہ کے متعلق آیات کے معانی میں تحریف کرنا سب اسی فعلِ حرام میں داخل ہیں۔

2:175
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى وَ الْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِۚ-فَمَاۤ اَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ(۱۷۵)
وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی اور بخشش کے بدلے عذاب، تو کس درجہ انہیں آگ کی سہار (برداشت) ہے

{اَلَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى: جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدلی۔}یعنی جو ہدایت و مغفرت یہ لوگ اختیار کرسکتے تھے اس کے چھوڑنے کو یہاں فرمایا گیا کہ انہوں نے ہدایت و مغفرت کی جگہ ضلالت و عذاب خرید لیا۔ یہ نہیں کہ ان کے پاس ہدایت و مغفرت تھی اور پھر انہوں نے اسے بیچ دیا۔ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ دنیا میں سب سے بہترین چیز ہدایت اور علم ہے اور سب سے بری چیز گمراہی اور جہالت ہے تو جب یہودی علماء نے دنیا میں ہدایت اور علم کو چھوڑ دیا اور گمراہی و جہالت پر راضی ہو گئے تو اس بات میں کوئی شک نہ رہاکہ وہ دنیا میں (اپنی جانوں کے ساتھ) انتہائی خیانت کر رہے ہیں۔نیز آخرت میں سب سے بہترین چیز مغفرت ہے اور سب سے زیادہ نقصان دہ چیز عذاب ہے تو جب انہوں نے مغفرت کو چھوڑ دیا اور عذاب پر راضی ہو گئے تو بلا شبہ وہ آخرت میں انتہائی نقصان اٹھانے والے ہیں اور جب ان کاحال یہ ہے تو لامحالہ دنیا و آخرت میں سب سے بڑے خسارے میں یہ لوگ ہیں۔اس آیت میں یہودی علماء کے بارے میں فرمایا گیا کہ انہوں نے مغفرت کے بدلے عذاب خریدلیا، کیونکہ وہ حق بات کو جانتے تھے اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف ظاہر کرنے میں اور ان کے بارے میں شبہات زائل کرنے میں عظیم ثواب ہے اور تاجدار رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عظمت و شان چھپانے میں اور ان سے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات ڈالنے کی صورت میں بڑا عذاب ہے ،اس کے باوجود جب انہوں نے حق کو چھپایا تو لا محالہ انہوں نے مغفرت کے بدلے عذاب خریدلیا۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۲ / ۲۰۶)

2:176
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْكِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍۭ بَعِیْدٍ۠(۱۷۶)
یہ اس لئے کہ اللہ نے کتاب حق کے ساتھ اتاری، اور بے شک جو لوگ کتاب میں اختلاف ڈالنے لگے (ف۳۱۰) وہ ضرور پرلے سرے کے جھگڑالو ہیں،

{فِی الْكِتٰبِ: کتاب میں۔} کتاب سے مراد قرآن شریف ہے یا توریت شریف ،پہلی صورت میں اختلاف سے مراد ہو گا نہ ماننا اور دوسری صورت میں اس سے مراد ہو گا صحیح طور پر نہ ماننا کیونکہ یہودی قرآن کو تو بالکل نہ مانتے تھے اور توریت کو ماننے کے دعویدار تھے، مگر صحیح طور پر نہ مانتے تھے، ورنہ حضور اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آتے۔ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت مشرکین کے حق میں نازل ہوئی، اس صورت میں کتاب سے قرآن ہی مرادہوگا اور ان کا اختلاف یہ تھا کہ ان میں سے بعض قرآن کو شعر کہتے تھے ، بعض جادو اور بعض کہانت کہا کرتے تھے۔(تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ۱ / ۱۸۱، الجزء الثانی)

2:177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِۚ-وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ-وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ-وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۱۷۷)
کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو (ف۳۱۱) ہاں اصلی نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر (ف۳۱۲) اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھوڑانے میں (ف ۳۱۳) اور نماز قائم رکھے اور زکوٰة دے اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کریں اور صبر والے مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت یہی ہیں جنہوں نے اپنی بات سچی کی اور یہی پرہیزگار ہیں،

{لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ: اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو۔} مفسرین نے اس آیت کا خاص شانِ نزول بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ یہ خطاب اہلِ کتاب اور مؤمنین سب کو ہے اور معنی یہ ہیں کہ صرف قبلہ کی طرف منہ کرلینا اصل نیکی نہیں جب تک عقائد درست نہ ہوں اور دل اخلاص کے ساتھ ربِّ قبلہ کی طرف متوجہ نہ ہو۔یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ضروری اعمال کو بجالاتے ہوئے اور دوسروں کے عمل کو حقیر اور معمولی نہ سمجھتے ہوئے کسی خاص عمل کو زیادہ رغبت و محبت اور کثرت کے ساتھ کرنا تو درست ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں لیکن ضروری عمل مثلاً فرائض و واجبات ترک کرنے کی صورت میں یا اپنے عمل اور طریقے کے علاوہ دوسروں کے عمل اور طریقے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کسی ایک عمل کوہی اچھا سمجھنا سراسر باطل اور غلط ہے۔ مثلاً ایک آدمی روزوں کی کثرت کرتا ہے تو وہ روزے نہ رکھنے والے کو حقیر نہ سمجھے، یونہی ذکرودرود کی کثرت کرنے والا تبلیغِ دین میں مشغول آدمی کو کم تر نہ سمجھے، یونہی وعظ و نصیحت کرنے والاتحریرو تصنیف اور تدریس سے دین کی خدمت کرنے والے کو کم ترنہ سمجھے۔ یہودیوں کا رد اسی وجہ سے کیا گیا کہ ایمان صحیح اور اعمالِ صالحہ کی طرف تو آتے نہ تھے ، رشوت،حرام خوری، سود، فیصلہ کرنے میں ناانصافی، بغض و کینہ اور دیگر گناہوں میں تو دلیر تھے اور قبلہ کے مسئلہ میں حق بات معلوم ہونے کے باوجود بلاوجہ جھگڑتے تھے اور ایک خاص قبلے والا ہونے کو کافی سمجھتے تھے۔ آیت سے معلو م ہوا کہ اعمال سے ایمان مقدم ہے ، پہلے ایمان لاؤ، پھر نیک عمل کرو کیونکہ جڑ شاخوں سے پہلے ہوتی ہے۔ ایمان جڑ ہے اور اعمال شاخیں ، ایمان میں سب سے اول اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے۔

{مَنْ اٰمَنَ: جو ایمان لائے۔} آیت کے اس حصے سے لے کر آخر تک نیکی کے چھ اہم طریقے ارشاد فرمائے گئے ہیں : (۱) ایمان لانا۔ (۲) اللہ تعالیٰ کی محبت میں مستحق افراد کو اپنا پسندیدہ مال دینا۔ (۳) نماز قائم کرنا۔ (۴) زکوٰۃ دینا۔ (۵) عہد پورا کرنا۔ (۶) مصیبت ، سختی اور جہاد میں صبر کرنا۔ان کی تفصیل درج ذیل ہے :

ایمان کی تفصیل:

ایمان کی تفصیل یہ ہے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے کہ وہ حی و قیوم ، علیم وحکیم، سمیع وبصیر ، غنی وقدیر، ازلی و ابدی،واحد، لاشریک لہ ہے۔

دوسرا قیامت پر ایمان لائے کہ وہ حق ہے، اس میں بندوں کا حساب ہوگا، اعمال کی جزا دی جائے گی، مقبولانِ بارگاہِ الہٰی شفاعت کریں گے، حضورسید ِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سعادت مندوں کو حوض کوثر پر سیراب فرمائیں گے ،پل صراط پر گزر ہوگا اور اس روز کے تمام احوال جو قرآن میں آئے یا سیدالانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے بیان فرمائے سب حق ہیں۔

تیسرا فرشتوں پر ایمان لائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور فرمانبردار بندے ہیں ، نہ مردہیں نہ عورت ،ان کی تعداد اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔چار ان میں سے بہت مقرب ہیں : (1)حضرت جبرئیل۔ (2)حضرت میکائیل۔ (3)حضرت اسرافیل۔ (4) حضرت عزرائیل عَلَیْہِمُ السَّلَام ۔

چوتھا کتب الہٰیہ پر ایمان لانا کہ جو کتاب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی حق ہے ان میں چار بڑی کتابیں ہیں : (1) توریت جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی۔ (2) انجیل جو حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی۔ (3) زبور جو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی۔ (4) قرآن، جو کہ حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہوئی اور اس کے علاوہ حضرت شِیث، حضرت ادریس ،حضرت آدم اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بہت سے صحیفے نازل ہوئے۔

پانچواں تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانا کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں اور معصوم یعنی گناہوں سے پاک ہیں۔ان کی صحیح تعداد اللہ تعالیٰ جانتا ہے ان میں سے تین سو تیرہ رسول ہیں۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۷، ص۴۷-۴۸)

یاد رہے کہ ایمان مفصل جو بچوں کو سکھایا جاتا ہے، اس کی اصل یہ آیت بھی ہے اور اس کے علاوہ دوسری آیات بھی ہیں۔

{وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ: اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے۔}اس سے پہلے ایمان کا بیان ہوا اور اب اعمال کا ذکر کیا جا رہا ہے اورآیت کے اس حصے میں نیکی کا دوسرا طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں مستحق افراد کو اپنا پسندیدہ مال دیا جائے۔

مال کے مستحق افراد اور انہیں مال دینے کے فضائل کا بیان:

اس آیت میں مال دینے کے 6 مصرف ذکر فرمائے گئے ہیں :

(1)…رشتہ داروں پر خرچ کرنا۔ حضرت سلمان بن عامررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے،تاجدار رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’رشتہ دار کو صدقہ دینے میں دو ثواب ہیں ایک صدقہ کرنے کا اورایک صلہ رحمی کرنے کا۔(ترمذی، کتاب الزکاۃ، باب ما جاء فی الصدقۃ علی ذی القرابۃ، ۲ / ۱۴۲، الحدیث: ۶۵۸)

حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’سب سے ا فضل صدقہ کنارہ کشی اختیار کرنے والے مخالف رشتہ دار پر صدقہ کرنا ہے۔(معجم الکبیر، حکیم بن بشیر عن ابی ایوب، ۴ / ۱۳۸، الحدیث: ۳۹۲۳)

(2)… یتیموں پر خرچ کرنا۔ جس نابالغ شخص کے باپ کا انتقال ہو چکا ہو اسے یتیم کہتے ہیں۔ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص یتیم کی کفالت کرے، میں اور وہ کفالت کرنے والادونوں جنت میں اس طرح ہوں گے۔ حضورا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کیا۔(بخاری، کتاب الادب، باب فضل من یعول یتیمًا، ۴ / ۱۰۱، الحدیث: ۶۰۰۵)

(3)… مسکینوں پر خرچ کرنا۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسکین وہ نہیں جو لوگوں میں گھومتا رہتا ہے اور ایک لقمہ یا دو لقمے اور ایک کھجور یا دو کھجوریں لے کر چلا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی :یارسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، پھرمسکین کون ہے؟ ارشاد فرمایا جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اس کی ضروریات سے اسے مستغنی کر دے اور نہ اس کے آثار سے مسکینی اور فقر کا پتا چلے تاکہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ وہ لوگوں سے سوال کرتا ہو۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب المسکین الذی لا یجد غنی۔۔۔ الخ، ص۵۱۷، الحدیث: ۱۰۱(۱۰۳۹))

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ایک لقمہ روٹی اور ایک مُٹھی خُرما اور اس کی مثل کوئی اور چیز جس سے مسکین کو نفع پہنچے، اُن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تین شخصوں کو جنت میں داخل فرماتا ہے، ایک صاحب خانہ جس نے حکم دیا، دوسری زوجہ کہ اسے تیار کرتی ہے، تیسرے خادم جو مسکین کو دے کر آتا ہے، پھر حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: حمد ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے جس نے ہمارے خادموں کو بھی نہ چھوڑا۔ (یعنی رحمت سے محروم نہ چھوڑا۔)(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۸۹، الحدیث: ۵۳۰۹)

(4)… مسافروں پر خرچ کرنا۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ مومن کو اس کے عمل اور نیکیوں سے مرنے کے بعد بھی یہ چیزیں پہنچتی رہتی ہیں۔ علم جس کی اس نے تعلیم دی اور اشاعت کی ۔ نیک اولاد جسے چھوڑ کر مرا ہے یا مُصحف جسے میراث میں چھوڑا یا مسجد بنائی یا مسافر کے لیے مکان بنادیا نہر جاری کردی یا اپنی صحت اور زندگی میں اپنے مال میں سے صدقہ نکال دیا جو اس کے مرنے کے بعد اس کو ملے گا۔(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب ثواب معلّم الناس الخیر، ۱ / ۱۵۷، الحدیث: ۲۴۲)

(5)…سائلوں کو دینا۔ یاد رہے کہ صرف ا س سائل کو اپنا مال دے سکتے ہیں جسے سوال کرنا شرعی طور پر جائز ہو جیسے مسکین، جہاد اور علم دین حاصل کرنے میں مشغول افراد وغیرہ، اور جسے سوال کرنا جائز نہیں اس کے سوال پر اسے دینا بھی ناجائز ہے اور دینے والا گناہگار ہو گا، البتہ بعض لوگوں کو سوال کرنا جائز نہیں ہوتا لیکن ضرورت مند ہوتے ہیں انہیں بغیر مانگے دینا جائز ہے جیسے فقیر۔ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمیرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’آج کل ایک عام بلا یہ پھیلی ہوئی ہے کہ اچھے خاصے تندرست چاہیں تو کما کر اوروں کو کھلائیں ، مگر انہوں نے اپنے وجود کو بیکار قرار دے رکھا ہے، کون محنت کرے مصیبت جھیلے، بے مشقت جو مل جائے تو تکلیف کیوں برداشت کرے۔ ناجائز طور پر سوال کرتے اور بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں کہ مزدوری تو مزدوری، چھوٹی موٹی تجارت کو ننگ و عار خیال کرتے اور بھیک مانگنا کہ حقیقۃً ایسوں کے لیے بے عزتی و بے غیرتی ہے مایۂ عزت جانتے ہیں اور بہت ساروں نے تو بھیک مانگنا اپنا پیشہ ہی بنا رکھا ہے، گھر میں ہزاروں روپے ہیں ، سود کا لین دین کرتے، زراعت وغیرہ کرتے ہیں مگر بھیک مانگنا نہیں چھوڑتے، اُن سے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشہ ہے واہ صاحب واہ! کیا ہم اپنا پیشہ چھوڑ دیں۔ حالانکہ ایسوں کو سوال حرام ہے اور جسے اُن کی حالت معلوم ہو، اُسے جائز نہیں کہ ان کو دے۔(بہار شریعت، حصہ پنجم، سوال کسے حلال ہے اور کسے نہیں ، ۱ / ۹۴۰-۹۴۱)

(6)…گردنیں چھڑانے میں خرچ کرنا۔ گردنیں چھڑانے سے غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرنا مراد ہے۔ حضرت ابوہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو مسلمان مرد کسی مسلمان مرد کو آزاد کرے گا، اللہ تعالیٰ غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو جہنم سے نجات دے گا۔ حضرت سعید بن مرجانہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں :جب میں نے حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ حدیث سنی اورمیں نے جا کر اس کا ذکر حضرت علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے کیا تو انہوں نے اپنے ایک ایسے غلام کو آزاد کر دیا جس کی حضرت عبداللہ بن جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار قیمت دے رہے تھے۔(مسلم، کتاب العتق، باب فضل العتق، ص۸۱۲، الحدیث: ۲۴(۱۵۰۹))

یہاں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر صدقات ِ واجبہ ہوں تو اس کے دیگر احکام کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔

راہ خدا میں کیسا مال دینا چاہئے ؟

اللہ تعالیٰ کی راہ میں رضائے الہٰی کی خاطر پیارا مال دینا چاہیے نیز زندگی و تندرستی میں دے جب خود اسے بھی مال کی ضرورت ہو کیونکہ اس وقت مال زیادہ پیارا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کا وصف بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:

وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸)اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا(دہر:۸، ۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں خاص اللہ کی رضاکے لیے کھانا کھلاتے ہیں ، ہم تم سے کوئی بدلہ یا شکر یہ نہیں چاہتے۔

اور ارشاد فرماتا ہے:

لَنْ  تَنَالُوا  الْبِرَّ  حَتّٰى  تُنْفِقُوْا  مِمَّا  تُحِبُّوْنَ(ال عمران:۹۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم ہرگزبھلائی کو نہیں پا سکو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو۔

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک آدمی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہیارسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ،کونسا صدقہ ثواب کے لحاظ سے بڑا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’جب کہ تم تندرستی کی حالت میں صدقہ دو اور تمہیں خود مال کی ضرورت ہو اور تنگدستی کاخوف بھی ہو اور مالداری کا اشتیاق بھی۔ یہ نہ ہو کہ جان گلے میں آ پھنسے اور کہے کہ اتنا فلاں کے لئے اور اتنافلاں کے لئے حالانکہ اب تو وہ فلاں کا ہوچکا۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب ایّ الصدقۃ افضل۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۷۹، الحدیث: ۱۴۱۹)

{وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ: اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے۔}آیت کے اس حصے میں نیکی کا تیسرا اور چوتھا طریقہ بیان کیا گیا کہ فرض نمازیں ان کے ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرے اور اس کے مال میں جو زکوٰۃ واجب ہو اسے ادا کرے۔

{وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ: اور اپنے عہد پورا کرنے والے۔}یہاں نیکی کے پانچویں طریقے کابیان ہے اور اس آیت میں عہد سے سارے جائز وعدے مراد ہیں خواہ اللہ تعالیٰ سے کئے ہوں یا رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے یا اپنے شیخ سے یا نکاح کے وقت بیوی سے یا کسی اور سے جیسے حکمرانوں کے وعدے عوام سے، بشرطیکہ جائز وعدے ہوں ، ناجائز وعدوں کو پورا کرنے کی اجازت نہیں۔

{وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ:اور مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت صبرکرنے والے۔} آیت کے اس حصے میں نیکی کے چھٹے طریقے کا بیان ہے کہ فَقر و فاقہ اور بیماری وغیرہ کی مصیبت و سختی میں اور راہ خدا میں ہونے والی جنگ میں قتال کے وقت صبر کیا جائے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۷، ۱ / ۱۱۵)

یاد رہے کہ اس آیت میں صبر کے چند مقامات بیان ہوئے ،ان کے علاوہ بھی صبر کے بہت سے مقامات ہیں ، نیز صبر کے فضائل سورہ ٔبقرہ کی آیت نمبر 153کے تحت گزر چکے ہیں۔

{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ: یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ }یعنی صحیح عقائد رکھنے والے اور نماز، زکوٰۃ، صدقات کے عامل، صبر کے عادی، وعدے کے پابند اور نیک اعمال کرنے والے ہی اپنےدعوی ایمان میں کامل طور پرسچے ہیں جو کفر اور دیگرتمام گناہوں سے بچنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے ایمان کا دعویٰ پرکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

2:178
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰىؕ-اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىؕ-فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍؕ-ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌۚ(۱۷۸)
اے ایمان والوں تم پر فرض ہے (ف۳۴۱) کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو (ف۳۱۵) آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت (ف۳۱۶) تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی۔ (ف۳۱۷) تو بھلائی سے تقا ضا ہو اور اچھی طرح ادا، یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ پر ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے (ف۳۱۸) اس کے لئے دردناک عذاب ہے

{ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰى: تم پر مقتولوں کے خون کا بدلہ لینا فرض کردیا گیا۔}  یہ آیت اَوس اور خَزرج کے بارے میں نازل ہوئی ،ان میں سے ایک قبیلہ دوسرے سے قوت، تعداد، مال و شرف میں زیادہ تھا۔ اُس نے قسم کھائی تھی کہ وہ اپنے غلام کے بدلے دوسرے قبیلہ کے آزاد کو اور عورت کے بدلے مرد کو اور ایک کے بدلے دو کو قتل کرے گا، زمانہ جاہلیت میں لوگ اس قسم کی زیادتیوں کے عادی تھے۔ عہد اسلام میں یہ معاملہ حضور سید الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں پیش ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی اور عدل و مساوات کا حکم دیا گیا ۔ا س پر وہ لوگ راضی ہوئے۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۸،۱ / ۲۱۳)

        قرآن کریم میں قصاص کا مسئلہ کئی آیتوں میں بیان ہوا ہے، اس آیت میں قصاص اور معافی دونوں مسئلے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا بیان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو قصاص اورمعافی میں اختیار دیا ہے۔اس آیت ِ مبارکہ اور اس کے شانِ نزول سے اسلام کی نظر میں خونِ انسان کی حرمت کا بھی علم ہوتا ہے۔

            خلاصہ کلام یہ ہوا کہ قتلِ عمد کی صورت میں قاتل پر قصاص واجب ہے خواہ اس نے آزاد کو قتل کیا ہو یا غلام کو، مرد کو قتل کیا ہو یا عورت کو کیونکہ آیت میں ’’قَتْلٰى‘‘ کا لفظ جو قتیل کی جمع ہے وہ سب کو شامل ہے۔ البتہ کچھ افراد اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جن کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ نیز اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا کہ جو قتل کرے گا وہی قتل کیا جائے گاخواہ آزاد ہو یا غلام ،مرد ہو یا عورت اور زمانۂ جاہلیت کی طرح نہیں کیا جائے گا ، ان میں رائج تھا کہ آزادوں میں لڑائی ہوتی تو وہ ایک کے بدلے دو کو قتل کرتے، غلاموں میں ہوتی تو بجائے غلام کے آزاد کو مارتے، عورتوں میں ہوتی تو عورت کے بدلے مرد کو قتل کرتے اور محض قاتل کے قتل پر اکتفا نہ کرتے بلکہ بعض اوقات بہت بڑی تعداد میں قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رکھتے۔ ان سب چیزوں سے منع کردیا گیا ۔

{فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ: تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دیدی جائے۔}  اس کا معنی یہ ہے کہ جس قاتل کو مقتول کے اولیاء کچھ معاف کریں جیسے مال کے بدلے معاف کرنے کا کہیں تو یہاں قاتل اور اولیاءِ مقتول دونوں کو اچھا طریقہ اختیار کرنے کا فرمایا گیا ہے۔ مقتول کے اولیاء سے فرمایا کہ اچھے انداز میں مطالبہ کریں ، شدت و سختی نہ کریں اور قاتل سے فرمایا کہ وہ خون بہاکی ادائیگی میں اچھا طریقہ اختیار کرے ۔ آیت میں قاتل اور مقتول کے وارث کو بھائی کہا گیا اس سے معلوم ہوا کہ قتل اگرچہ بڑاگناہ ہے مگر اس سے ایمانی بھائی چارہ ختم نہیں ہوجاتا۔ اس میں خارجیوں کے مذہب کی تردید ہے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں۔اہلسنّت کا عقیدہ یہ ہے کہ گناہ ِ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے کافر نہیں۔

قصاص سے متعلق دواہم مسائل:

(1)… مقتول کے ولی کو اختیار ہے کہ خواہ قاتل کو بغیر عوض معاف کردے یامال پر صلح کرے اوراگر وہ اس پر راضی نہ ہو اور قصاص چاہے تو قصاص ہی فرض رہے گا۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۸،۱ / ۲۱۳)

 (2) …اگر مال پر صلح کریں تو قصاص ساقط ہوجاتا ہے اور مال واجب ہوتا ہے۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۸، ص۵۲)

            مزید تفصیلات کیلئے بہارِ شریعت حصہ 17کا مطالعہ فرمائیں۔

{فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ: تو جو اس کے بعد زیادتی کرے۔}یعنی دستورِ جاہلیت کے مطابق غیر ِقاتل کو قتل کرے یادِیَت قبول کرنے اور معاف کرنے کے بعد قتل کرے تو اس کیلئے دردناک عذاب ہے۔(تفسیر مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۸، ص۹۵)

2:179
وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(۱۷۹)
اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے اے عقل مندو (ف۳۱۹) کہ تم کہیں بچو،

{وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ: خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے۔} قصاص میں قوموں اور لوگوں کی حیات بیان کی گئی ہے۔ جس قوم میں ظالم کی پردہ پوشی اور حمایت کی جائے وہ تباہ و برباد ہوجاتی ہے اور جہاں ظالم اور مجرم کو سزا دی جائے وہاں جرائم خود بخود کم ہوجاتے ہیں۔ ایک محلے سے لے کر عالمی سطح تک کے مجرموں میں یہی ایک فلسفہ کار فرما ہے۔ آپ غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ جن ممالک میں جرائم پر سخت سزائیں نافذ ہیں وہاں کے جرائم کی تعداد اور جہاں مجرموں کو سزائیں نہیں دی جاتیں وہاں جرائم کی تعداد کتنی ہے۔

2:180
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَاﰳ -ۖۚ - الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ-ۚ--حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ(۱۸۰)
تم پر فرض ہوا کہ جب تم میں کسی کو موت آئے اگر کچھ مال چھوڑے تو وصیت کرجائے اپنے ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں کے لئے موافق دستور (ف۳۲۰) یہ واجب ہے پرہیزگاروں پر،

{كُتِبَ عَلَیْكُمْ: تم پر فرض کیا گیا ہے۔} جب تک اسلام میں میراث کے احکام نہیں آئے تھے اس وقت تک مرنے والے پر اپنے مال کے بارے میں وصیت کرنا واجب تھا کیونکہ اس وقت صرف وصیت کے مطابق مال تقسیم ہوتا تھا جب میراث کے احکام آگئے تو وصیت کا حکمِ وجوب منسوخ ہو گیا۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۰، ص۵۴)

وصیت کے احکام :

            یاد رہے کہ وصیت واجب ہونے کا حکم اگرچہ منسوخ ہو چکا لیکن وصیت کا جواز اب بھی باقی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’کسی مسلمان کے لئے مناسب نہیں کہ ا س کے پاس کچھ مال ہو اور وہ دو راتیں ا س طرح گزارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔  (بخاری، کتاب الوصایا، باب الوصایا وقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: وصیۃ الرجل۔۔۔ الخ،  ۲ / ۲۳۰، الحدیث: ۲۷۳۸)

            البتہ ایک تہائی تک وصیت ہوسکتی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ وصیت مال کے تہائی حصے میں ہے اور تہائی بہت ہے۔(بخاری، کتاب الوصایا، باب الوصیۃ بالثلث، ۲ / ۲۳۲، الحدیث: ۲۷۴۳)

            اور یہ بھی یاد رہے کہ وارث کیلئے وصیت درست نہیں۔حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیا ہے ، خبردار! وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں۔(ابن ماجہ، کتاب الوصایا، باب لا وصیۃ لوارث، ۳ / ۳۱۰، الحدیث: ۲۷۱۳)

            البتہ اگر وُرثاء راضی ہوں تو تہائی سے زیادہ میں بھی وصیت ہوسکتی ہے اور وارث کیلئے بھی وصیت ہوسکتی ہے۔ وصیت کرتے ہوئے بھی ورثاء کا خیال رکھنا چاہیے چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’تمہارا اپنے عیال کو غنی چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں محتاج چھوڑے اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے رہیں۔(بخاری، کتاب الوصایا، باب ان یترک ورثتہ اغنیاء خیر۔۔۔ الخ،  ۲ / ۲۳۲، الحدیث: ۲۷۴۲)

            اور یہ بھی یاد رہے کہ اگرمال کثیر ہو تو وصیت کرنا افضل ہے اور اگر مال قلیل ہو تو وصیت نہ کرنا افضل ہے۔ یونہی وصیت کرنے کی صورت میں تہائی سے کم ہی کرنا افضل ہے۔ (عالمگیری، کتاب الوصایا، الباب الاول، ۶ / ۹۰)

2:181
فَمَنْۢ بَدَّلَهٗ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ فَاِنَّمَاۤ اِثْمُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌؕ(۱۸۱)
تو جو وصیت کو سن سنا کر بدل دے (ف۳۲۱) اس کا گناہ انہیں بدلنے والوں پر ہے (ف۳۲۲) بیشک اللہ سنتا جانتا ہے،

{فَمَنْۢ بَدَّلَهٗ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ: پھر جو وصیت کو سننے کے بعد اسے تبدیل کردے۔} وصیت کرنے کے بعد زندگی کے اندر اندر وصیت کرنے والے کو تو وصیت تبدیل کرنے کا اختیار ہوتا ہے لیکن فوت ہونے کے بعد کسی دوسرے شخص کو وصیت میں تبدیلی کی اجازت نہیں خواہ وصی تبدیل کرے یا گواہ یا کوئی اور۔ یونہی وصیت کے کاغذات میں تبدیلی کی جائے یا مال کی تقسیم میں۔ افسوس کہ مال کی محبت میں لوگ وصیتوں میں بہت ہیر پھیر کرتے ہیں ، وصیت چھپا دیتے ہیں ، جعلی وصیت نامے بنالیتے ہیں ، وصیت میں تبدیلی کردیتے ہیں ، وصیت پر عمل نہیں کرتے۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی یاد رہے کہ وصیت کے بارے میں ضروری ہے کہ شریعت نے جو قوانین بنائے ہیں ان پر عمل کیا جائے۔ ان سے ہٹ کر عمل کی اجازت نہیں مثلاً ورثاء راضی نہ ہوں پھر بھی تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کردی جائے اور اس پر عمل کرلیا جائے۔ یہ سب ناجائز و حرام ہے۔

2:182
فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَهُمْ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۸۲)
پھر جسے اندیشہ ہوا کہ وصیت کرنے والے نے کچھ بے انصافی یا گناہ کیا تو اس نے ان میں صلح کرادی اس پر کچھ گناہ نہیں (ف۳۲۳) بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے

{فَمَنْ خَافَ: تو جسے اندیشہ ہو۔}  اگر کسی عالم یا حاکم یا وصی یا رشتے داروغیرہ کو معلوم ہو کہ مرنے والا وصیت میں کسی پر زیادتی کر رہا ہے یا شرعی احکام کی پابندی نہیں کررہا تو مرنے والے کو سمجھا بجھا کر وصیت درست کرا دے تو یہ شخص گنہگارنہیں بلکہ اپنے نیک عمل کی وجہ سے ثواب کا مستحق ہوگا۔ یونہی اگر فوت ہونے والا تو غلط وصیت کرگیالیکن بعد میں کوئی حاکم یا عالم یا رشتے داروغیرہ یہ لوگ مُوصٰی لہ یعنی جس کے حق میں وصیت کی گئی اس میں اور وارثوں میں شرع کے موافق صلح کرادے تو گنہگار نہیں بلکہ مستحقِ ثواب ہوسکتا ہے۔

2:183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)
اے ایمان والو! (ف۳۲۴) تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے، ف۳۲۵)

{كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ: تم پر روزے فرض کیے گئے۔} اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔’’شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے۔‘‘(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۳، ۱ / ۱۱۹)

 روزہ بہت قدیم عبادت ہے:

            اس آیت میں فرمایا گیا ’’جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کرتمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں اگرچہ گزشتہ امتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف ہوتے تھے ۔ یاد رہے کہ رمضان کے روزے10 شعبان 2ہجری میں فرض ہوئے تھے۔ (در مختار، کتاب الصوم، ۳ / ۳۸۳)

 روزے کا مقصد:

            آیت کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:

وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى (نازعات: ۴۰،۴۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔

            حضرت عبداللہبن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اے جوانو! تم میں جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ قاطعِ شہوت ہے۔(بخاری، کتاب النکاح، باب من لم یستطع الباء ۃ فلیصم، ۳ / ۴۲۲، الحدیث: ۵۰۶۶)

2:184
اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍؕ-فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍؕ-فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗؕ-وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۸۴)
گنتی کے دن ہیں (ف۳۲۶) تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو (ف۳۲۷) تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھانا (ف۳۲۸) پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے (ف۳۲۹) تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو (ف۳۳۰)

{اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ: گنتی کے چند دن ہیں۔} فرض روزے گنتی کے دن ہیں یعنی صرف رمضان کا ایک مہینہ ہے جو انتیس دن کا ہوگا یا تیس دن کا۔ لہٰذا گھبرا نے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ذہن میں رکھو کہ جس رب عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں گیارہ ماہ کھلایا پلایا ، وہ اگر ایک ماہ صرف دن کے وقت کھانے پینے سے منع فرما دے اور اس فاقے میں بھی تمہارے جسم و روح، ظاہر و باطن، دنیا و آخرت کا فائدہ ہو تو ضرور اس کی اطاعت کرو۔

{فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا: تو تم میں جو کوئی بیمار ہو۔} حیض ونفاس والی عورت کو تو روزہ رکھنے کی اجازت ہی نہیں وہ تو بعد میں قضا کرے گی ۔ اس کے علاوہ بھی چند افراد ہیں جنہیں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ آیت میں بطورِ خاص بیمار اور مسافر کو رخصت دی گئی ہے لیکن یہ یاد رہے کہ سفر سے مراد تین دن کی مسافت یعنی ساڑھے ستاون میل یعنی بانوے کلو میٹر ہے۔ اس سے کم سفر ہے تو روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں۔(درّ مختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحۃ لعدم الصوم،۳ / ۴۶۲-۴۶۳)

مریض کو بھی رخصت ہے جبکہ اسے روزہ رکھنے سے مرض کی زیادتی یا ہلاک ہونے کا اندیشہ ہوتو یہ روزہ چھوڑ دے اور بعد میں ممنوع ایام کے علاوہ اوردنوں میں روزہ رکھ لے۔

البتہ یہ یاد رہے کہ مریض کو محض زیادہ بیماری کے یا ہلاکت کے صرف وہم کی بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں بلکہ ضروری ہے کہ کسی دلیل یا سابقہ تجربہ یا کسی ایسے طبیب کے کہنے سے غالب گمان حاصل ہو جو طبیب ظاہری طور پر فاسق نہ ہو۔(رد المحتار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحۃ لعدم الصوم، ۳ / ۴۶۴)

روزے کی رخصت کے چند اہم مسائل:

(1)…جو فی الحال بیمار نہ ہو لیکن مسلمان ماہرطبیب یہ کہے کہ وہ روزے رکھنے سے بیمار ہوجائے گا وہ بھی روزہ چھوڑ سکتا ہے۔

(2)…حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کو اگر روزہ رکھنے سے اپنی یا بچے کی جان کا یا اس کے بیمار ہوجانے کا اندیشہ ہو تو اس کوبھی افطار جائز ہے۔

(3)…جس مسافر نے طلوعِ فجر سے قبل سفر شروع کیا اس کو تو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے لیکن جس نے طلوعِ فجر کے بعد سفر کیا اس کو اُس دن کا روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں۔(خزائن العرفان، البقرۃ، تحت الآیۃ : ۱۸۴، ص۶۰، بہار شریعت، حصہ پنجم، ۱ / ۱۰۰۳)

{فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ: ایک مسکین کا فدیہ۔}  شیخ فانی یعنی وہ بوڑھا جس کی عمر ایسی ہو گئی کہ اب روز بروز کمزور ہی ہوتا جائے گا،جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو یعنی نہ اب رکھ سکتا ہے اورنہ آئندہ ہی اس میں اتنی طاقت آنے کی امید ہو کہ روزہ رکھ سکے، اس کے لیے جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے اور ہر روزے کے بدلے فدیے کے طور پر نصف صاع یعنی اسی گرام کم دو کلو گندم یا اس کا آٹا دیدے یا اس کی قیمت دیدے اور اگر فدیہ جَو سے دینا ہو تو گندم سے دُگنا دینا ہوگا۔(درّ مختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحۃ لعدم الصوم،۳ / ۴۷۱-۴۷۲)

          یہ بھی یاد رہے کہ اگر فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی قوت آگئی تو روزہ رکھنا لازم ہوجائے گا۔(عالمگیری، کتاب الصوم، الباب الخامس، ۱ / ۲۰۷)

          مسئلہ: اگر کوئی شیخ فانی غریب و نادار ہواور فدیہ دینے کی قدرت بھی نہ رکھتا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا رہے۔(درّ مختار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحۃ لعدم الصوم،۳ / ۴۷۲)

{فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ:پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے۔}فدیہ کی مقدار تو مخصوص ہے لیکن اگر کوئی زیادہ دینا چاہے تو بخوشی دے سکتا ہے۔ جتنا زیادہ دے گا اتنا ہی ثواب بڑھتا جائے گا۔ جیسے بعض صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے نماز کے خشوع و خضوع میں فرق پڑنے پر پورا باغ صدقہ کردیا۔یہاں یہ مسئلہ بھی یاد رہے کہ مسافر و مریض کو روزہ نہ رکھنے کی اگرچہ اجازت ہے لیکن زیادہ بہتر و افضل روزہ رکھنا ہی ہے جیساکہ آیت کے آخر میں فرمایا:

وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اور تمہارا روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے۔

روزے کے طبی فوائد:

          طبی لحاظ سے روزوں کے بے شمار فوائد ہیں ،ان میں سے6 فوائد درج ذیل ہیں :

(1)…روزہ رکھنے سے معدے کی تکالیف اور ا س کی بیماریاں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور نظام ہضم بہتر ہو جاتا ہے۔

(2)…روزہ شوگر لیول،کولیسٹرول اوربلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے اور ا س کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ نہیں رہتا۔

(3)…روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے اور ا س کی وجہ سے دل کوانتہائی فائدہ مند آرام پہنچتا ہے۔

(4)…روزے سے جسمانی کھچاؤ، ذہنی تناؤ ، ڈپریشن اور نفسیاتی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے ۔

(5)…روزہ رکھنے سے موٹاپے میں کمی واقع ہوتی اور اضافی چربی ختم ہو جاتی ہے۔

(6)…روزہ رکھنے سے بے اولادخواتین کے ہاں اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔

روزے کی برکت سے شفا ملی:

          اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’ابھی چند سال ہوئے ماہِ رجب میں حضرت والد ماجد قَدَّسَ اللہُ سِرَّہُ الشَّرِیْف خواب میں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا :اب کی رمضان میں مرض شدید ہو گا،روزہ نہ چھوڑنا۔ ویسا ہی ہوا ا ور ہر چند طبیب وغیرہ نے کہا (مگر) میں نے بِحَمْدِاللہِ تَعَالٰیروزہ نہ چھوڑا اور اسی کی برکت نے بفضلہ تعالیٰ شفا دی کہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے:’’صُوْمُوْا تَصِحُّوْا‘‘روزہ رکھو تندرست ہو جاؤ گے(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ موسی، ۶ / ۱۴۶، الحدیث: ۸۳۱۲)۔(ملفوظاتِ اعلٰی حضرت، حصہ دوم، ص۲۰۶)

2:185
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۸۵)
رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا (ف۳۳۱) لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے، ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو (ف۳۳۲) اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو،

{شَهْرُ رَمَضَانَ: رمضان کا مہینہ۔} اس آیت میں ماہِ رمضان کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے اوراس کی دو اہم ترین فضیلتیں ہیں ، پہلی یہ کہ اس مہینے میں قرآن اترا اور دوسری یہ کہ روزوں کے لئے اس مہینے کا انتخاب ہوا۔اس مہینے میں قرآن اترنے کے یہ معانی ہیں :

(1)… رمضان وہ ہے جس کی شان و شرافت کے بارے میں قرآن پاک نازل ہوا۔

(2)… قرآن کریم کے نازل ہونے کی ابتداء رمضان میں ہوئی۔ (تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۵، ۲ / ۲۵۲-۲۵۳)

(3)… مکمل قرآن کریم رمضان المبارک کی شب ِقدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۵،۱ / ۱۲۱)

            یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فَوقتاً حکمت کے مطابق جتنا جتنااللہ تعالیٰ کو منظور ہوا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام لاتے رہے اوریہ نزول تیئس سال کے عرصہ میں پورا ہوا۔

عظمت والی چیز سے نسبت کی برکت:

            رمضان وہ واحد مہینہ ہے کہ جس کا نام قرآن پاک میں آیا اورقرآن مجید سے نسبت کی وجہ سے ماہِ رمضان کو عظمت و شرافت ملی ۔اس سے معلوم ہوا کہ جس وقت کو کسی شرف و عظمت والی چیز سے نسبت ہو جائے وہ قیامت تک شرف والا ہے۔اسی لئے جس دن اور گھڑی کو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ولادت اور معراج سے نسبت ہے وہ عظمت و شرافت والے ہوگئے، جیسے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی روزِ جمعہ پیدائش پر جمعہ کا دن عظمت والا ہوگیا۔ (مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص۴۲۵، الحدیث: ۱۷(۸۵۴))

            حضرت یحییٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش ، وصال اور زندہ اٹھائے جانے کے دن پر قرآن میں سلام فرمایا گیا۔ (مریم: ۱۵) اسی طرح حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنی پیدائش، وصال اور زندہ اٹھائے جانے کے دن پر سلام فرمانا قرآن میں مذکور ہے۔(مریم: ۳۳)

{ وَ الْفُرْقَانِ: اور حق و باطل میں فرق کرنے والا۔}زیر تفسیر آیت میں قرآن مجیدکی تین شانیں بیان ہوئیں :

          (۱)… قرآن ہدایت ہے،(۲)… روشن نشانیوں پرمشتمل ہے اور(۳)حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے۔ قرآن شریف کے23نام ہیں اور یہاں قرآن مجیدکا دوسرا مشہور نام فرقان ذکر کیا گیاہے۔

{یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ: اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے۔} اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہم پر فرض فرمائی لیکن اپنی رحمت سے ہم پرتنگی نہیں کی بلکہ آسانی فرماتے ہوئے متبادل بھی عطا فرمادئیے۔ روزہ فرض کیا لیکن رکھنے کی طاقت نہ ہو تو بعد میں رکھنے کی اجازت دیدی، بعض صورتوں میں فدیہ کی اجازت دیدی، کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر ورنہ لیٹ کر اشارے سے پڑھنے کی اجازت دیدی، ایک مہینہ روزہ کا حکم فرمایا تو گیارہ مہینے دن میں کھانے کی اجازت دیدی اور رمضان میں بھی راتوں کو کھانے کی اجازت دی بلکہ سحری و افطاری کے کھانے پر ثواب کا وعدہ فرمایا۔ گنتی کے چند جانوروں کا گوشت حرام قرار دیا تو ہزاروں جانوروں ، پرندوں کا گوشت حلال فرمادیا۔ کاروبار کے چند ایک طریقوں سے منع کیا تو ہزاروں طریقوں کی اجازت بھی عطا فرمادی۔ مرد کو ریشمی کپڑے سے منع کیا تو بیسیوں قسم کے کپڑے پہننے کی اجازت دیدی۔ الغرض یوں غور کریں تو آیت کا معنیٰ روزِ روشن کی طرح ظاہر ہوجاتا ہے کہ اللہ  تعالیٰ ہم پر آسانی چاہتا ہے اور وہ ہم پر تنگی نہیں چاہتا۔

{وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ: اور تاکہ تم گنتی پوری کرو۔} گنتی پوری کرنے سے مراد رمضان کے انتیس یا تیس دن پورے کرنا ہے اور تکبیر کہنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے تمہیں اپنے دین کے طریقے سکھائے تو تم اس پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو اور ان چیزوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔

2:186
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌؕ-اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ-فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ(۱۸۶)
اور اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں (ف۳۳۳) دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے (ف۳۳۴) تو انہیں چاہئے میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں کہ کہیں راہ پائیں،

{وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ: اور اے حبیب! جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں۔} اس آیت میں طالبانِ حق کی طلب ِمولیٰ کا بیان ہے۔ جنہوں نے عشق الہٰی میں اپنی خواہشات کو قربان کردیا ،وہ اُسی کے طلبگار ہیں۔ ان حضرات کو قرب ووصالِ الہٰی کی خوشخبری دی جارہی ہے ۔شانِ نزول :صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی ایک جماعت نے جذبہ عشق الہٰی میں سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا کہ ہمارا ربعَزَّوَجَلَّ کہاں ہے؟ اس پر بتایا گیا کہ اللہ  تعالیٰ مکان سے پاک ہے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۶،۱ / ۱۲۳)

کیونکہ جو چیز کسی سے مکان کے اعتبار سے قرب رکھتی ہو وہ اس کے دور والے سے ضروردوری پر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سب بندوں سے قریب ہے۔ قرب ِ الہٰی کی منازل تک رسائی بندے کو اپنی غفلت دور کرنے سے میسر آتی ہے۔ فارسی کا شعر ہے:

دوست نزدیک تراز من بمن ست

ویں عجب ترکہ من ازوے دورم

ترجمہ: میرا دوست مجھ سے بھی زیادہ میرے نزدیک ہے لیکن تعجب کی بات ہے کہ میں اس سے دور ہوں۔

{اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ:میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرے۔} دعا کا معنیٰ ہے اپنی حاجت پیش کرنا اور اِجابت یعنی قبولیت کا معنیٰ یہ ہے کہ پروردگار عَزَّوَجَلَّ اپنے بندے کی دعا پر ’’ لَبَّیْکَ عَبْدِیْ‘‘ فرماتا ہے البتہ جو مانگا جائے اسی کاحاصل ہو جانا دوسری چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے کبھی مانگی ہوئی چیز فوراً مل جاتی ہے اور کبھی کسی حکمت کی وجہ سے تاخیر سے ملتی ہے۔ کبھی بندے کی حاجت دنیا میں پوری کردی جاتی ہے اورکبھی آخرت میں ثواب ذخیرہ کردیا جاتا ہے اور کبھی بندے کا نفع کسی دوسری چیز میں ہوتاہے تو مانگی ہوئی چیز کی بجائے وہ دوسری عطا ہو جاتی ہے۔ کبھی بندہ محبوب ہوتا ہے اس کی حاجت روائی میں اس لیے دیر کی جاتی ہے کہ وہ عرصہ تک دعا میں مشغول رہے۔ کبھی دعا کرنے والے میں صدق و اخلاص وغیرہ قبولیت کی شرائط نہیں ہوتیں اس لئے منہ مانگی مراد نہیں ملتی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے نیک اور مقبول بندوں سے دعا کرائی جاتی ہے تاکہ ان کی دعا کے صدقے گناہگاروں کی بگڑی بھی سنور جائے ۔ دعا کے بارے میں تفصیل جاننے کیلئے ’’فیضانِ دعا‘‘ کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔[1]


[1] ۔۔۔’’فضائل دعا‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ بھی بہت مفید ہے۔

2:187
اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىٕكُمْؕ-هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ-عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْۚ-فَالْــٴٰـنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ۪-وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۪-ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِۚ-وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَۙ-فِی الْمَسٰجِدِؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَاؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ(۱۸۷)
روزہ کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لئے حلال ہوا (ف۳۳۵) وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس، اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا (ف۳۳۶) تو اب ان سے صحبت کرو (ف۳۳۷) اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھا ہو (ف۳۳۸) اور کھاؤ اور پیئو (ف۳۳۹) یہاں تک کہ تمہارے لئے ظاہر ہوجائے سفیدی کا ڈورا سیاہی کے ڈورے سے (پوپھٹ کر) (ف۳۴۰) پھر رات آنے تک روزے پورے کرو (ف۳۴۱) اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو (ف۳۴۲) یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جاؤ اللہ یوں ہی بیان کرتا ہے لوگوں سے اپنی آیتیں کہ کہیں انہیں پرہیزگاری ملے،

{اُحِلَّ لَكُمْ: تمہارے لئے حلال کر دیا گیا۔} شانِ نزول:شروع اسلام میں افطار کے بعد کھانا پینا، جماع کرنا نمازِ عشاء تک حلال تھا، نمازِ عشا ء کا وقت شروع ہونے کے بعدیہ سب چیزیں بھی حرام ہوجاتی تھیں، یونہی سونے کے بعد بھی یہ چیزیں حرام ہوجاتی تھیں اگرچہ ابھی عشاء کا وقت شروع نہ ہوا ہو۔بعض صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے رمضان کی راتوں میں ہم بستری کا فعل سرزد ہوا۔ اس پروہ حضرات نادم ہوئے اور بارگاہِ رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں صورتِ حال عرض کی تو آیت اتری۔(جلالین وصاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۷،۱ / ۱۵۶،۱۵۷)

اور فرمادیا گیا کہ آئندہ تمہارے لئے رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا حلال کردیا گیانیز اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے رہے ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں معاف فرمادیااور آئندہ کیلئے اجازت بھی عطا فرمادی۔ آیت میں خیانت سے وہ ہم بستری مراد ہے جو اجازت سے پہلے رمضان کی راتوں میں مسلمانوں سے سرزد ہوئی تھی۔

{وَ ابْتَغُوْا: اور تلاش کرو۔} اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے کو طلب کرنے سے مراد یا تو یہ ہے کہ عورتوں سے ہم بستری اولاد حاصل کرنے کی نیت سے ہونی چاہیے جس سے مسلمانوں کی افرادی قوت میں اضافہ ہو اور دین قوی ہو۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد شرعی طریقے کے مطابق یہ فعل کرنا ہے۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۷، ص۶۹)

اور ایک قول یہ بھی ہے کہ جو اللہ  تعالیٰ نے لکھا اس کو طلب کرنے کے معنی ہیں رمضان کی راتوں میں کثرت سے عبادت کرنا اور بیدار رہ کر شب قدر کی جستجو کرنا۔ (تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۷، ۲ / ۲۷۲)

{وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا: اور کھاؤ اور پیو۔} یہ آیت حضرت صَرمہ بن قیس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمحنتی آدمی تھے، ایک دن روزے کی حالت میں دن بھر اپنی زمین میں کام کرکے شام کو گھر آئے، بیوی سے کھانا مانگا، وہ پکانے میں مصروف ہوگئیں اوریہ تھکے ہوئے تھے اس لئے ان کی آنکھ لگ گئی، جب بیوی نے کھانا تیار کرکے انہیں بیدار کیاتو انہوں نے کھانے سے انکار کردیا کیونکہ اس زمانہ میں سوجانے کے بعد روزہ دار پر کھانا پینا ممنوع ہوجاتا تھا ۔ چنانچہ اسی حالت میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دوسرا روزہ رکھ لیا جس سے کمزوری انتہا کو پہنچ گئی اوردوپہر کے وقت بیہوش ہوگئے ۔ تاجدار رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں ان کا حال بیان کیا گیا تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۷،۱ / ۱۲۶، بخاری، کتاب الصوم، باب قول اللہ جل ذکرہ: احلّ لکم۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۳۱، الحدیث: ۱۹۱۵)

اور رمضان کی راتوں میں کھانا پینا مباح فرمادیا گیا۔آیت میں سفید اور سیاہ ڈورے کا تذکرہ ہے۔ اس سے رات کو سیاہ ڈورے سے اور صبح صادق کو سفید ڈورے سے تشبیہ دی گئی ہے اور معنی یہ ہیں کہ تمہارے لیے کھانا پینا رمضان کی راتوں میں مغرب سے صبح صادق تک جائز کردیا گیا۔

صوم ِوصال کا حکم:

یاد رہے کہ بغیر افطار کئے اگلا روزہ رکھ لینا اوریوں مسلسل روزے رکھنا صومِ وصال کہلاتا ہے اور یہ ممنوع ہیں۔ اس کی اجازت صرف حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تھی اور یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خصوصیات میں سے ہے۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے:رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو صوم ِوصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا تو انہوں نے عرض کی:آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا :تم میں میرے جیسا کون ہے مجھے تو میرا رب عَزَّوَجَلَّکھلاتا اور پلاتا ہے۔(بخاری، کتاب المحاربین من اہل الکفر والردۃ، باب کم التعزیر والادب، ۴ / ۳۵۲، الحدیث: ۶۸۵۱)

{وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَۙ-فِی الْمَسٰجِدِ: جبکہ تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو۔} اس میں بیان ہے کہ رمضان کی راتوں میں روزہ دار کے لیے بیوی سے ہم بستری حلال ہے جبکہ وہ معتکف نہ ہولیکن اعتکاف میں عورتوں سے میاں بیوی والے تعلقات حرام ہیں۔

اعتکاف کے فضائل:

اس آیت میں اعتکاف کرنے والے کے بارے میں ایک شرعی مسئلے کا بیان ہوا، اسی مناسبت سے ہم یہاں اعتکاف کے بارے میں نبی اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا عمل مبارک،ا عتکاف کے فضائل اور اعتکاف سے متعلق مزید مسائل بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے مروی ہے کہ حضور پر نورصَلَّیاللہُ  تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ  تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو وفات دی اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اعتکاف کیا کرتیں۔(بخاری، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الاواخر۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۶۴، الحدیث:۲۰۲۶)

حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضورا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا،پھر ایک ترکی خیمہ میں رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا جس کے دروازے پر چٹائی لگی ہوئی تھی۔آپ نے اپنے ہاتھ سے وہ چٹائی ہٹائی اور خیمہ کے ایک کونے میں کر دی،پھر خیمہ سے سر باہر نکالا اور لوگوں سے فرمایا:’’میں اس رات (یعنی لیلۃ القدر)کی تلاش میں پہلے عشرے کا اعتکاف کرتا تھا،پھر میں درمیانی عشرہ میں اعتکاف بیٹھا،پھر میرے پاس کوئی(فرشتہ ) آیا تو میری طرف وحی کی گئی کہ یہ آخری عشرے میں ہے، تم  میں سے جس شخص کو پسند ہو وہ اعتکاف کرے،چنانچہ لوگوں نے آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ اعتکاف کیا۔ (مسلم، کتاب الصیام، باب فضل لیلۃ القدر۔۔۔ الخ، ص۵۹۴، الحدیث: ۲۱۵(۱۱۶۷))

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَرمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے، ایک سال اعتکاف نہ کرسکے ، جب اگلاسال آیا تو حضورانورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے بیس دن اعتکاف کیا۔(ترمذی، کتاب الصوم، باب ما جاء فی الاعتکاف اذا خرج منہ، ۲ / ۲۱۲، الحدیث: ۸۰۳)

حضرت عبداللہ بن عبا س رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں :نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیوں سے اُسے اس قدر ثواب ملتا ہے جیسے اُس نے تمام نیکیاں کیں۔(ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب فی ثواب الاعتکاف، ۲ / ۳۶۵، الحدیث: ۱۷۸۱)

حضرت عبداللہبن عبا س رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ،تاجدار رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایک دن کا اعتکاف کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کر دے گا اور ہر خندق مشرق و مغرب کے مابین فاصلے سے بھی زیادہ دور ہو گی۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۵ / ۲۷۹، الحدیث: ۷۳۲۶)

حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے روایت ہے ،سید المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرلیا تو ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے کئے۔(شعب الایمان،  الرابع والعشرین من شعب الایمان، ۳ / ۴۲۵، الحدیث: ۳۹۶۶)

            حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اعتکاف کرنے والے کو روزانہ ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔(شعب الایمان، الرابع والعشرین من شعب الایمان، ۳ / ۴۲۵، الحدیث: ۳۹۶۸)

 اعتکاف کے چند مسائل:

(1)… مردوں کے اعتکاف کے لیے باقاعدہ شرعی مسجد ضروری ہے۔

(2)… معتکف کو مسجد میں کھانا، پینا، سونا جائز ہے۔

(3)…عورتوں کا اعتکاف ان کے گھروں میں مسجد ِ بیت میں جائز ہے اور فی زمانہ انہیں مسجدوں میں اعتکاف کی اجازت نہیں۔

(4)…واجب اور سنت اعتکاف میں روزہ شرط ہے۔نفلی اعتکاف میں روزہ ضروری نہیں اور نفلی اعتکاف چند منٹ کا بھی

ہوسکتا ہے۔ جب مسجد میں جائیں ، نفلی اعتکاف کی نیت کرلیں۔

(5)…واجب و سنت اعتکاف میں ایک لمحے کیلئے بلااجازت ِ شرعی مسجد سے نکلے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا(بہارِ شریعت، حصہ پنجم، اعتکاف کا بیان، ۱ / ۱۰۲۰-۱۰۲۶ملخصًا)۔([1])


[1] ۔۔۔اعتکاف کے بارے میں مزید معلومات کے لئے فیضان سنت جلد اول سے ’’ فیضانِ اعتکاف‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

2:188
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠(۱۸۸)
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھاؤ (ف۳۴۳) جان بوجھ کر،

{وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔} اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کرہو یا چھین کر ،چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔(احکام القرآن، باب ما یحلہ حکم الحاکم وما لا یحلہ،۱ / ۳۰۴)

            مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ ناجائز فائدہ کے لیے کسی پر مقدمہ بنانا اور اس کو حکام تک لے جانا ناجائز و حرام ہے۔ اسی طرح اپنے فائدہ کی غرض سے دوسرے کو ضرر پہنچانے کے لیے حکام پر اثر ڈالنا، رشوتیں دینا حرام ہے ۔حکام تک رسائی رکھنے والے لوگ اس آیت کے حکم کو پیش نظر رکھیں۔حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’وہ شخص ملعون ہے جو اپنے مسلمان بھائی کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے۔(تاریخ بغداد، باب محمد، محمد بن احمد بن محمد بن جابر۔۔۔ الخ،۱ / ۳۶۰، رقم: ۲۶۲)

            یہ بھی معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی، جھوٹی وکالت، جھوٹے مقدمہ کی پیروی و کوشش کی اجرتیں حرام ہیں۔ حرام کے بارے میں آگے تفصیل سے بیان آئے گا۔

2:189
یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِؕ-قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّؕ-وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰىۚ-وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا۪-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۱۸۹)
تم سے نئے چاند کو پوچھتے ہیں (ف۳۴۴) تم فرمادو وہ وقت کی علامتیں ہیں لوگوں اور حج کے لئے (ف۳۴۵) اور یہ کچھ بھلائی نہیں کہ (ف۳۴۶) گھروں میں پچھیت (پچھلی دیوار) توڑ کر آ ؤ ہاں بھلائی تو پرہیزگاری ہے، اور گھروں میں دروازوں سے آ ؤ (ف۳۴۷) اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ فلاح پاؤ

{یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ: تم سے نئے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔} شانِ نزول: یہ آیت حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ایک دوسرے صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے جواب میں نازل ہوئی، ان دونوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  سے چاند کے گھٹنے بڑھنے کے متعلق سوال کیا، اس کے جواب میں چاند کے گھٹنے بڑھنے کے سبب کی بجائے اس کے فوائد بیان فرمائے کہ وہ وقت کی علامتیں ہیں (تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۹،۱ / ۲۶۳، الجزء الثانی)

            اور آدمیوں کے ہزار ہا دینی ودنیوی کام اس سے متعلق ہیں ،زراعت ، تجارت ،لین دین کے معاملات، روزے اور عید کے اوقات، عورتوں کی عدتیں ،حیض کے ایّام ، حمل اور دودھ پلانے کی مدتیں اور دودھ چھڑانے کے وقت اور حج کے اوقات اس سے معلوم ہوتے ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۹، ۱ / ۱۲۹)

            کیونکہ شروع میں جب چاند باریک ہوتا ہے تو دیکھنے والا جان لیتا ہے کہ ابتدائی تاریخیں ہیں اور جب چاند پورا روشن ہوتا ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ مہینے کی درمیانی تاریخ ہے اور جب چاند چھپ جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہینہ ختم پر ہے ،پھر مہینوں سے سال کا حساب ہوتا ہے ۔یہ وہ قدرتی جنتری ہے جو آسمان کے صفحہ پر ہمیشہ کھلی رہتی ہے اور ہر ملک اور ہر زبان کے لوگ پڑھے بھی اور بے پڑھے بھی سب اس سے اپنا حساب معلوم کرلیتے ہیں۔یاد رہے کہ بہت سے احکام میں چاند کا حساب رکھنا ضروری ہے جیسے بالغ ہونے کی عمر کے اعتبار سے ، یونہی روزہ،عیدَین، حج کے مہینوں اور دنوں کے بارے میں ، یونہی زکوٰۃ میں جو سال گزرنے کا اعتبارہے وہ بھی چاند کے اعتبار سے ہے۔

{وَ لَیْسَ الْبِرُّ: اوریہ کوئی نیکی نہیں۔} شانِ نزول :زمانہ جاہلیت میں لوگوں کی یہ عادت تھی کہ جب وہ حج کے لیے احرام باندھ لیتے تواپنے مکان میں اس کے دروازے سے داخل نہ ہوتے ،اگر ضرورت ہوتی تو پچھلی دیوار توڑ کر آتے اور اس کو نیکی جانتے۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم گھروں کے پیچھے سے آؤ۔ اصل نیکی تقویٰ ، خوفِ خدا اور احکامِ الٰہی کی اطاعت ہے۔(تفسیر مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۹، ص۱۰۱)

ممانعت کے بغیر کسی چیز کو ناجائز سمجھنا کیسا؟

            اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کو بغیر ممانعت کے ناجائز سمجھنا جُہلاء کا کام ہے۔اپنی طرف سے غلط قسم کی رسمیں اور پابندیاں لگالینا جائز نہیں۔ بہت سے کام ویسے جائز ہوتے ہیں لیکن اپنی طرف سے شرعاً ضروری سمجھ لینے سے ناجائز ہو جاتے ہیں جیسے مسلمان فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے سوئم، چالیسواں وغیرہ کرتے ہیں کہ ویسے کریں تو جائز ہیں لیکن اگر یہ سمجھ کرکریں کہ یہ کرنا ضروری ہے یا دوسرے اور چالیسویں دن ہی کرنا ضروری ہے تو ناجائز ہے، یونہی سوئم اور چالیسواں وغیرہ جائز ہے تو انہیں اپنی طرف سے ناجائز کہنا بھی حرام ہے کفار کے طرزِ عمل کی نقالی ہے۔ بہرحال اِفراط و تفریط سے بچنا ضروری ہے اوراس طرح کی چیزوں کی طرف غور کرنا چاہیے، شادی، مَرگ اور زندگی کے دیگر معاملات میں نجانے کیسی کیسی رسمیں کہاں سے گھس آئی ہیں۔

2:190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ(۱۹۰)
اور اللہ کی راہ میں لڑو (ف۳۴۸) ان سے جو تم سے لڑتے ہیں (ف۳۴۹) اور حد سے نہ بڑھو (ف۳۵۰) اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو،

{وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:اوراللہ کی راہ میں لڑو۔} 6ہجری میں حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا ،اس سال حضورسید المرسلین  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ طیبہ سے عمرے کے ارادے سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے، مشرکین نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکا اور اس پر صلح ہوئی کہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ آئندہ سال تشریف لائیں تو آپ کے لیے تین روز کیلئے مکہ مکرمہ خالی کردیا جائے گا، چنانچہ اگلے سال7ہجری میں حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ عمرے کی قضاء کے لیے تشریف لائے ۔اب حضورانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ ایک ہزار چار سوصحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمتھے ۔مسلمانوں کو یہ اندیشہ ہوا کہ کفار نے اگر وعدہ پورا نہ کیا اور حرم مکہ میں حرمت والے مہینے ذی القعدہ میں جنگ کی تو مسلمان چونکہ حالت ِ احرام میں ہوں گے اس لئے اس حالت میں جنگ کرنا ان کیلئے بڑا مشکل تھا کیونکہ زمانہ جاہلیت سے ابتدائے اسلام تک نہ حرم میں جنگ جائز تھی اورنہ حرمت والے مہینوں میں ، لہٰذا انہیں تَرَدُّد ہوا کہ اس وقت جنگ کی اجازت ملتی ہے یا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۹، ۱ / ۱۳۰)

            آیت میں اجازت کا معنی یا تو یہ ہے کہ جو کفار تم سے لڑیں یا جنگ کی ابتداء کریں تم ان سے دین کی حمایت اور اعزاز کے لیے لڑو یہ حکم ابتداء اسلام میں تھاپھر منسوخ کیا گیا اور کفار سے قتال کرنا واجب ہوا خواہ وہ ابتداء کریں یا نہ کریں یا یہ معنی ہے کہ ان سے لڑو جو تم سے لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں یہ بات سارے ہی کفار میں ہے کیونکہ وہ سب دین کے مخالف اور مسلمانوں کے دشمن ہیں خواہ انہوں نے کسی وجہ سے جنگ نہ کی ہو لیکن موقع پانے پرچُوکنے والے نہیں۔ یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو کافر میدان جنگ میں تمہارے مقابلے پر آئیں اور وہ تم سے لڑنے کی قدرت اور اہلیت رکھتے ہوں تو ان سے لڑو۔ اس صورت میں ضعیف ، بوڑھے، بچے، مجنون، اپاہج، اندھے، بیمار اور عورتیں وغیرہ جو جنگ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے(اور وہ جنگ میں نہ تو شریک ہیں اور نہ ہی جنگ کرنے والوں کی کسی قسم کی مدد کر رہے ہیں تو یہ افراد) اس حکم میں داخل نہ ہوں گے اور انہیں قتل کرنا جائز نہیں۔ (تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۰، ص۸۰)

{وَ لَا تَعْتَدُوْا: اور زیادتی نہ کرو۔}اس سے مراد ہے کہ جو جنگ کے قابل نہیں ان سے نہ لڑو یا جن سے تم نے عہد کیا ہو یا بغیر دعوت کے جنگ نہ کرو کیونکہ شرعی طریقہ یہ ہے کہ پہلے کفار کو اسلام کی دعوت دی جائے، اگروہ ا نکار کریں توان سے جِزیَہ طلب کیاجائے اور اگرا س سے بھی انکار کریں تب جنگ کی جائے۔ اس معنی پر آیت کا حکم باقی ہے منسوخ نہیں۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۰، ص۸۱)

2:191
وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ وَ اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِۚ-وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى یُقٰتِلُوْكُمْ فِیْهِۚ-فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْهُمْؕ-كَذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ(۱۹۱)
اور کافروں کو جہاں پاؤ مارو (ف۳۵۱) اور انہیں نکال دو (ف۳۵۲) جہاں سے انہوں نے تمہیں نکا لا تھا (ف۳۵۳) اور ان کا فساد تو قتل سے بھی سخت ہے (ف۳۵۴) اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک وہ تم سے وہاں نہ لڑیں (ف۳۵۵) اور اگر تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو (ف۳۵۶) کافروں کی یہی سزا ہے،

{وَ اقْتُلُوْهُمْ: اور انہیں قتل کرو۔} آیت مبارکہ میں اوپر بیان کئے گئے سِیاق و سِباق میں فرمایا گیا کہ چونکہ کافروں نے تمہیں مکہ مکرمہ سے بے دخل کیا تھا اور اب بھی تمہارے ساتھ آمادۂ قتال ہیں تو تمہیں دورانِ جہاد ان سے لڑنے ، انہیں قتل کرنے اور انہیں مکہ مکرمہ سے نکالنے کی اجازت ہے جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا۔چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول نہ کرنے والوں کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا گیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے قتل کا حکم ان کے جرم سے زیادہ بڑا نہیں کیونکہ وہ لوگ فتنہ برپا کرنے والے ہیں اور ان کا فتنہ شرک ہے یا مسلمانوں کو مکہ مکرمہ سے نکالنا(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۱، ص۸۱)

            تو ان کا فتنہ ان کو قتل کرنے سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہاں یہ حکم نہیں دیا جارہا ہے کہ کافروں کو قتل کرنے میں لگے رہو، امن ہو یا جنگ، صلح ہو یا لڑائی ہر حال میں انہیں قتل کرو بلکہ یہاں صرف دورانِ جہاد قتل کرنے کا حکم ہے۔ بہت سے اسلام دشمن لوگ اس طرح کی آیات سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے لوگوں کی مَکاریوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔

{وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو۔} مسجد ِ حرام شریف کے ارد گرد کئی کلومیٹر کا علاقہ حرم کہلاتا ہے۔ حرم کی حدود میں مسلمانوں کو لڑنے سے منع کردیا گیاکیونکہ یہ حرم کی حرمت کے خلاف ہے لیکن اگر کفار ہی وہاں مسلمانوں سے جنگ کی ابتداء کریں تو انہیں جواب دینے کیلئے وہاں پر بھی ان سے لڑنے اور انہیں قتل کرنے کی اجازت ہے ۔البتہ اگر وہ کفر سے باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انہیں معاف فرمادے گا کہ اسلام تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔

2:192
فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۹۲)
پھر اگر وہ باز رہیں (ف۳۵۷) تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

اس آیت کی تفسیر گزشتہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔
2:193
وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِؕ-فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ(۱۹۳)
اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور ایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں (ف۳۵۸) تو زیادتی نہیں مگر ظالموں پر،

{حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ: یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے۔} عرب کے کافروں کے متعلق فرمایا گیا کہ ان سے تب تک لڑو کہ ان کا فتنہ یعنی شرک ختم ہوجائے اور ان کا دین بھی دینِ اسلام ہوجائے اور سرزمینِ عرب پر صرف ایک اللہ کی عبادت ہو۔ لہٰذا اگر وہ کفر و باطل پرستی سے باز آجاتے ہیں تو پھر ان پر کوئی سختی نہیں کی جائے گی۔

2:194
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ۪-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(۱۹۴)
ماہ حرام کے بدلے ماہ حرام اور ادب کے بدلے ادب ہے (ف۳۵۹) جو تم پر زیادتی کرے اس پر زیادتی کرو اتنی ہی جتنی اس نے کی اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈر والوں کے ساتھ ہے،

{اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ: ادب والے مہینے کے بدلے ادب والا مہینہ ہے۔} مسلمانوں کو چونکہ حرمت والے مہینوں میں لڑنا نہایت بھاری لگ رہا تھا اس لئے ان کی مزید تسلی کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ حرمت والے مہینے میں جنگ کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یہ اجازت کفار کی طرف سے حرمت پامال کرنے کی وجہ سے دی گئی ہے۔ انہوں نے تمہیں عمرہ کرنے اور مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکا لہٰذا اب اگر تم ان سے لڑتے ہو اور ان کا خون بہاتے ہو تویہ حرم اور ماہ حرام کی بے حرمتی نہیں ہوگی کیونکہ یہ اللہ  تعالیٰ کی طرف سے اجازت کے ساتھ ہوگا اوریہ سب لڑائی اصل میں حرمتوں کا بدلہ ہوگا یعنی کافروں کا حرمت والے مہینے میں فتنہ و فساد کرنا حرمتوں کو پامال کرنا ہے اور تمہارا جواب دینا اصل میں حرمتوں کا بدلہ لینا ہے نہ کہ حرمتوں کو پامال کرنا۔ یوں سمجھ لیں کہ ڈاکو کی گولی کے جواب میں اگر پولیس گولی چلائے تو پولیس کو مجرم نہیں کہیں گے بلکہ ان کے فعل کو حفاظت و ذمہ داری کہا جائے گا۔ قاتل کے قتل کو زیادتی نہیں کہیں گے بلکہ اسے قصاص کہا جائے گا۔

{فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ: تو جو تم پر زیادتی کرے۔} کافر مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھاتے رہے، شروع اسلام میں دن رات، صبح و شام ہر وقت مسلمانوں کو ستانے میں لگے رہے، کسی کو شہید کیا، کسی کو تپتی ریت پر گھسیٹا، کسی کوانگاروں پر لٹایا، کسی کو کوڑے مارے، کسی کا راہ چلتے مذاق اڑایا، مسلمانوں کو ان کے گھروں سے ہجرت پر مجبور کردیا، ان کے کاروبار ختم کردئیے، انہیں ان کے رشتے داروں سے جدا کردیا۔ ان تمام واقعات کی تلخیاں مسلمانوں کے دلوں میں موجود تھیں ، اب جبکہ مسلمانوں کو بدلہ لینے کا موقع مل رہا تھا تو اس بات کا امکان تھا کہ مسلمان بھی بدلہ لینے میں اپنے جذبہ انتقام کو بھر پور طریقے سے پورا کرتے اور بدلہ لینے میں حد سے بڑھ جاتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے ہی مسلمانوں کو سمجھادیا کہ تم پر جنہوں نے زیادتیاں کی ہیں تمہیں ان سے بدلہ لینے کا اختیار تو دیا جارہا ہے لیکن تم اتنا ہی بدلہ لے سکتے ہو جتنی انہوں نے تم پر زیادتی کی ، اس سے زائد کی تمہیں ہرگز اجازت نہیں۔ لہٰذا بدلہ لینے میں بھی تقویٰ اور خوفِ خدا کو پیشِ نظر رکھو اور یہ جان لو کہ اللہ  تعالیٰ کا قرب اور مَعِیَّت اسی کو نصیب ہوگی جو ہر حال میں تقویٰ اختیار کرے گا۔

بدلہ لینے سے متعلق دین اسلام کی حسین تعلیم:

             کیا حسین تعلیم ہے اور کیا پاکیزہ تربیت ہے جس وقت جذبات مچل رہے ہوں ، جذبہ انتقام جوش مار رہا ہو، دشمن قبضے میں آنے ہی والا ہو، غلبہ حاصل ہوا ہی چاہتا ہو اس وقت بھی تقویٰ کا، عدل و انصاف کا درس دیا جارہا ہے، زیادتی کرنے سے منع کیا جارہا ہے۔ کیا روئے زمین پر کوئی دوسرا ایسا دین، قانون ہے جو اپنے ماننے والوں کو اس طرح کے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ کردار کا درس دیتا ہو؟ ہرگز نہیں۔ یقینا یہ صرف اسلام ہی ہے۔

2:195
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- وَ اَحْسِنُوْاۚۛ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ(۱۹۵)
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو (ف۳۶۰) اور اپنے ہاتھوں، ہلاکت میں نہ پڑو (ف۳۶۱) اور بھلائی والے ہو جاؤ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں،

{وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور اللہ  کی راہ میں خرچ کرو۔} راہِ خدا میں خرچ کرنے کا اصل حکم تو مال کے حوالے سے ہے لیکن علامہ صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس کے معنیٰ کی مزید وسعت کو بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ کی فرمانبرداری اوراس کی رضا کے کاموں میں اپنے جان و مال کو صرف کرو خواہ جہاد ہو یا رشتے داروں سے حسنِ سلوک یا اللہ تعالیٰ کے کمزور اور غریب بندوں کی مددکی صور ت میں ہو۔ (صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱ / ۱۶۳)

{وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ: اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو۔} خود کو ہلاکت میں ڈالنے کی بہت سی صورتیں ہیں :۔

(1)…صحیح بخاری میں ہے’’یہ آیت خرچ کرنے سے متعلق نازل ہوئی۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب وانفقوا فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ،  ۳ / ۱۷۸، الحدیث: ۴۵۱۶)

             یعنی راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کرکے یا کم کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

(2)… حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’یہ آیت ہم انصار صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکےبارے میں نازل ہوئی، جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرما دیا اور اس کے مددگار کثیر ہوگئے تو ہم میں سے بعض نے بعض سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا: (جہاد کی مصروفیت میں ) ہمارے مال ضائع ہو گئے لہٰذااب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرما دیا ہے تو (کیا ہی اچھا ہو کہ)اگر ہم اپنے اموال میں ٹھہریں اور جو ضائع ہوا اس کی درستی کرلیں ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو ہم نے کہا اس کا رد فرمایاکہ ہلاکت توجہاد چھوڑکر اپنے اموال کی درستی میں لگ جانا ہے۔ (ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ البقرۃ، ۴ / ۴۵۴، الحدیث: ۲۹۸۳)

(3)… انصار جتنا اللہ تعالیٰ توفیق دیتا صدقہ و خیرات کرتے رہتے ۔ ایک سال انہیں تنگدستی کا سامنا ہوا تو انہوں نے یہ عمل روک دیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔    (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۸۹، الحدیث: ۵۶۷۱)

(4)… حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ کوئی شخص گناہ کرتا اور کہتا میری بخشش نہ ہو گی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۸۹، الحدیث: ۵۶۷۲)

             خلاصہ کلام یہ ہے کہ راہِ خدا میں خرچ کرنے کو ترک کرنا بھی ہلاکت کا سبب ہے، فضول خرچی بھی ہلاکت ہے، جہاد ترک کرنا بھی ہلاکت ہے یونہی اس طرح کی ہر وہ چیز جو ہلاکت کا باعث ہو ان سب سے باز رہنے کا حکم ہے حتیّٰ کہ بے ہتھیار میدان جنگ میں جانایا زہر کھانا یا کسی طرح خود کشی کرناسب حرام ہے۔چونکہ خودکشی خود کو ہلاک کرنے کی نہایت ہی نمایاں صورت ہے لہٰذا یہاں اس کی وعید بیان کی جاتی ہے، چنانچہ خود کشی کے بارے میں رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے پہاڑ سے گر کر خود کشی کی وہ مسلسل جہنم میں گرتا رہے گا اور جس نے زہر کھا کر خود کشی کی ( قیامت کے دن) وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں اسے ہمیشہ کھاتا رہے گا اورجس نے چھری کے ذریعے خود کو قتل کیا ، (قیامت کے دن) وہ چھری اس کے ہاتھ میں ہو گی اور دوزخ کی آگ میں ہمیشہ وہ چھری اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔(بخاری، کتاب الطب، باب شرب السمّ والدواء بہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۳، الحدیث: ۵۷۷۸)

2:196
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِؕ-فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِۚ-وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗؕ-فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍۚ-فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْٙ-فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِۚ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْؕ-تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠(۱۹۶)
اور حج اور عمرہ اللہ کے لئے پورا کرو (ف۳۶۲) پھر اگر تم روکے جاؤ (ف۳۶۳) تو قربانی بھیجو جو میسر آئے (ف۳۶۴) اور اپنے سر نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنے ٹھکانے نہ پہنچ جائے (ف۳۶۵) پھر جو تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہے (ف۳۶۶) تو بدلے دے روزے (ف۳۶۷) یا خیرات (ف۳۶۸) یا قربانی، پھر جب تم اطمینان سے ہو تو جو حج سے عمرہ ملانے کا فائدہ اٹھائے (ف۳۶۹) اس پر قربانی ہے جیسی میسر آئے (ف۳۷۰) پھر جسے مقدور نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے (ف۳۷۱) اور سات جب اپنے گھر پلٹ کر جاؤ یہ پورے دس ہوئے یہ حکم اس کے لئے ہے جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو (ف۳۷۲) اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے،

{ وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ:اور حج اور عمرہ اللہ کے لئے پورا کرو۔}آیت میں مراد یہ ہے کہ حج و عمرہ دونوں کو ان کے فرائض و شرائط کے ساتھ خاص اللہ تعالیٰ کے لیے بغیر سستی اور کوتاہی کے مکمل کرو۔

حج کی تعریف اور حج و عمرہ کے چند احکام:

حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنے اور  کعبہ معظمہ کے طواف کا ۔اس کے لیے خاص وقت مقرر ہے جس میں یہ افعال کئے جائیں تو حج ہے ۔ حج 9ہجری میں فرض ہو ا،اس کی فرضیت قطعی ہے، اس کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے۔(بہار شریعت، حصہ ششم،۱ / ۱۰۳۵-۱۰۳۶)

حج کے فرائض یہ ہیں :(۱)…احرام (۲)… وقوف ِ عرفہ (۳)… طواف زیارت۔

حج کی تین قسمیں ہیں : (۱)…اِفرادیعنی صرف حج کا احرام باندھا جائے۔ (۲)…تَمَتُّع یعنی پہلے عمرہ کا احرام باندھا جائے پھر عمرہ کے احرام سے فارغ ہونے کے بعد اسی سفر میں حج کا احرام باندھا جائے۔(۳)…قِران یعنی عمرہ اور حج دونوں کا اکٹھا احرام باندھا جائے ، اس میں عمرہ کرنے کے بعد احرام کی پابندیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ برقرار رہتی ہیں۔ عمرہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عمرہ میں صرف احرام باندھ کر خانہ کعبہ کا طواف اورصفامروہ کی سعی کرکے حلق کروانا ہوتا ہے۔ حج و عمرہ دونوں کے ہر ہر مسئلے میں بہت تفصیل ہے۔ اس کیلئے بہارِ شریعت کے حصہ 6([1])کا مطالعہ کریں۔

{ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ:تو اگر تمہیں روک دیا جائے۔} یہاں سے حج کے ایک اہم مسئلے کا بیان ہے جسے اِحصار کہتے ہیں۔ آیت کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگرحج یا عمرہ کا احرام باندھ لینے کے بعدحج یا عمرہ کی ادائیگی میں تمہیں کوئی رکاوٹ پیش آجائے جیسے دشمن کا خوف ہو یا مرض وغیرہ توایسی حالت میں تم احرام سے باہر آجاؤاور اس صورت میں حدودِحرم میں قربانی کا جانور اونٹ یا گائے یا بکری کا ذبح کروانا تم پر واجب ہے اور جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ ہوجائے تب تک تم سر نہ منڈواؤ۔

{ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا: پھر جو تم میں بیمار ہو۔} اِحصار کے بعد ایک اور مسئلے کا بیان ہے وہ یہ ہے کہ حالت ِ احرام میں بال منڈوانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یونہی لباس، خوشبووغیرہ کے اعتبار سے کافی پابندیاں ہوتی ہیں۔ اگر ان کا خِلاف کریں تو دَم یا صدقہ لازم آتا ہے لیکن بعض صورتیں ایسی ہیں کہ مجبوری کی وجہ سے احرام کی پابندیوں کی مخالفت کرنا پڑتی ہے۔ بغیر عذر کے اور عذر کی وجہ سے کئے گئے افعال میں شریعت نے کچھ فرق کیا ہے ۔ آیت میں اس کی کچھ صورتوں کا بیان ہے۔ جان بوجھ کر احرام کی پابندیوں کی مخالفت کرے گا تو گناہگار بھی ہوگا اور فدیہ دینا بھی لازم آئے گا اور مجبوری کی وجہ سے مخالفت کرے تو گناہگار نہ ہوگا لیکن فدیہ دینا پڑے گا البتہ مجبوری والے کو فدیے میں کچھ رخصتیں بھی دی گئی ہیں چنانچہ صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جہاں دَم کا حکم ہے وہ جرم اگر بیماری یا سخت گرمی یا شدید سردی یا زخم یا پھوڑے یا جوؤں کی سخت ایذا کے باعث ہوگا تو اُسے جُرمِ غیر اختیاری کہتے ہیں اس میں اختیار ہو گا کہ دَم (قربانی) کے بدلے چھ مسکینوں کو ایک ایک صدقہ دے دے یا دونوں وقت پیٹ بھر کھلائے یا تین روزے رکھ لے۔اور اگر اس (جرم)میں صدقہ کا حکم ہے اوربمجبوری کیا تو اختیار ہوگا کہ صدقہ کے بدلے ایک روزہ رکھ لے ۔(بہارِ شریعت، حصہ ششم، جرم اور ان کے کفارے کا بیان،۱ / ۱۱۶۲)

{فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ: تو جو حج سے عمرہ ملانے کا فائدہ اٹھائے۔} جو شخص ایک ہی سفرمیں شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرے اس پر شکرانے کے طور پر قربانی لازم ہے اور یہ قربانی عید کے دن والی قربانی نہیں ہوتی بلکہ جداگانہ ہوتی ہے اوراگر قربانی کی قدرت نہ ہو تو اسے حکم ہے کہ دس روزے رکھے، ان میں سے تین روزے حج کے دنوں میں یعنی یکم شوال سے نویں ذی الحجہ تک احرام باندھنے کے بعد کسی بھی تین دن میں رکھ لے، اکٹھے رکھے یا جدا جدا دونوں کا اختیار ہے اور سات روزے 13ذی الحجہ کے بعد رکھے۔مکہ مکرمہ میں بھی رکھ سکتے ہیں لیکن افضل یہ ہے کہ گھر واپس لوٹ کر رکھے۔(بہار شریعت، حصہ ششم،۱ / ۱۱۴۰-۱۱۴۱، ملخصاً)

{حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: مکہ کے رہنے والے۔} حجِ تمتع یا حجِ قِران کا جائز ہونا صرف آفاقی یعنی میقات سے باہر والوں کے لئے ہے ۔ حدودِ میقات میں اور اس سے اندر رہنے والوں کے لئے نہ تمتع کی اجازت ہے اورنہ قران کی، وہ صرف حجِ اِفراد کرسکتے ہیں۔


[1] ۔۔۔امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادی رضوی دَامَت بَرَکاتُہُم الْعالیہ کی کتاب ،،رفیق الحرمین،، (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)پڑھنا بھی بہت مفید ہے۔

2:197
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌۚ-فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَۙ-وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّؕ-وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ ﳳ-وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى٘-وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ(۱۹۷)
حج کے کئی مہینہ ہیں جانے ہوئے (ف۳۷۳) تو جو ان میں حج کی نیت کرے (ف۳۷۴) تو نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو نہ کوئی گناہ، نہ کسی سے جھگڑا (ف۳۷۵) حج کے وقت تک اور تم جو بھلائی کرو اللہ اسے جانتا ہے (ف۳۷۶) اور توشہ ساتھ لو کہ سب سے بہتر توشہ پرہیزگاری ہے (ف۳۷۷) اور مجھ سے ڈرتے رہو اے عقل والو، ف۳۷۸)

{اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ: حج چند معلوم مہینے ہیں۔} حج کے چند احکام بیان کرنے کے بعد یہاں مزید حج کے احکام و آداب بیان کئے جا رہے ہیں۔ فرمایا گیا کہ حج کے چند مشہور و معروف مہینے ہیں یعنی شوال، ذوالقعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ۔ حج کے ارکان صرف ساتویں ذی الحجہ سے بارھویں تک ادا ہوتے ہیں۔ مگر شوال، ذیقعدہ کو بھی حج کے مہینے اسی لئے کہا گیا ہے کہ ان میں احرام با ندھنا بلا کراہت جائز ہے اور ان سے پہلے حج کا احرام باندھنا مکروہ ہے۔

{فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ:  تو جو ان میں حج کو لازم کرلے۔} یعنی جو شخص احرام باندھ کر یا ہَدی کا جانور چلا کرحج کو اپنے اوپر لازم کرلے اس پر یہ چیزیں لازم ہیں : ۔

(1)…رفث سے بچنا۔ رَفَث سے مراد ہے، ہم بستری کرنا یا عورتوں کے سامنے اس کا ذکر کرنا یا فحش کلام کرنا۔(ہدایہ، کتاب الحج، باب الاحرام،۱ / ۱۳۵)

البتہ نکاح کرسکتا ہے۔

(2)…فسوق سے بچنا۔ فسق کا معنیٰ ہے گناہ اور برائی کے کام۔

(3)…جدال سے بچنا ۔ جِدال سے مراد ہے ،اپنے ہم سفروں سے یا خادموں سے یا غیروں کے ساتھ جھگڑنا۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۷، ص۹۵)

یاد رہے کہ گناہ کے کام اور لڑائی جھگڑا تو ہر جگہ ہی ممنوع ہے لیکن چونکہ حج ایک عظیم اور مقدس عبادت ہے اس لئے اس عبادت کے دوران ان سے بچنے کی بطورِ خاص تاکید کی ہے۔

{وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ: اور تم جو بھلائی کرو ۔} برائیوں کی ممانعت کے بعد نیکیوں کی ترغیب دی گئی ہے کہ بجائے فسق کے تقویٰ اور بجائے لڑائی جھگڑا کے اخلاق حمیدہ اختیار کرو۔

{وَ تَزَوَّدُوْا: اور زادِ راہ لو۔} شانِ نزول: بعض یمنی لوگ حج کے لیے بغیر سامانِ سفر کے روانہ ہوتے تھے اور اپنے آپ کو متوکل یعنی’’توکل کرنے والا‘‘ کہتے تھے اور مکہ مکرمہ پہنچ کر لوگوں سے مانگنا شروع کردیتے اور کبھی غصب اور خیانت کے مرتکب بھی ہوتے ،ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:  ۱۹۷، ۱ / ۱۳۹)

اور حکم ہوا کہ سفر کا سامان لے کر چلو ، دوسروں پر بوجھ نہ ڈالواور سوال نہ کرو کہ یہ تمام چیزیں توکل اور تقویٰ کے خلاف ہیں اور تقویٰ بہترین زادِ راہ ہے۔نیز یہ بھی سمجھادیا گیا کہ جس طرح دنیوی سفر کے لیے سامانِ سفر ضروری ہے ایسے ہی سفر آخرت کے لیے پرہیز گاری کا سامان لازم ہے۔

{وَ اتَّقُوْنِ: اور مجھ سے ڈرو۔}عقل والے کہہ کر اس لئے مخاطب کیا تاکہ لوگوں کو سمجھ آجائے کہ عقل کا تقاضا خوفِ الہٰی ہے۔ جو اللہ  تعالیٰ سے نہ ڈرے وہ بے عقلوں کی طرح ہے۔ عقل وہی ہے جو اللہ  تعالیٰ سے خوف پیدا کرے اورجس عقل سے آدمی بے دین ہو وہ عقل نہیں بلکہ بے عقلی ہے۔ ابو جہل بے عقل تھا اور حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ عقلمند تھے۔

2:198
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۪-وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْۚ-وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ(۱۹۸)
تم پر کچھ گناہ نہیں (ف۳۷۹) کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو، تو جب عرفات سے پلٹو (ف۳۸۰) تو اللہ کی یاد کرو (ف۳۸۱) مشعر حرام کے پاس (ف۳۸۲) اور اس کا ذکر کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی اور بیشک اس سے پہلے تم بہکے ہوئے تھے، ف۳۸۳)

{لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ: تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ }شان نزول: بعض مسلمانوں نے خیال کیا کہ راہِ حج میں جس نے تجارت کی یا اونٹ کرایہ پر چلائے اس کا حج ہی ضائع ہوگیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(ابو داؤد، کتاب المناسک،باب الکریّ، ۲ / ۱۹۸، الحدیث: ۱۷۳۳)

            اس سے معلوم ہوا کہ جب تک تجارت سے افعال حج کی ادا میں فرق نہ آئے اس وقت تک تجارت کی اجازت ہے۔نیز یہاں مال کو ربعَزَّوَجَلَّ کافضل قرار دیا ہے،اس سے معلوم ہوا کہ مال فی نفسہ بری چیز نہیں بلکہ اس کا غلط استعمال برا ہے۔ ہزاروں نیکیاں صرف مال کے ذریعے ہی کی جاسکتی ہیں جیسے زکوٰۃ و صدقات و حج و عمرہ وغیرہ۔

{فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ: تو جب تم عرفات سے واپس لوٹو۔} عرفات ایک مقام کا نام ہے جوحج میں وقوف (یعنی ٹھہرنے) کی جگہ ہے ۔ مشہور مفسر ضحاک کا قول ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا جدائی کے بعد 9ذی الحجہ کو عرفات کے مقام پر جمع ہوئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو پہچانا اس لیے اس دن کا نام عرفہ اور مقام کانام عرفا ت ہوا۔(تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الایۃ: ۱۹۸، ۱ / ۳۲۰، الجزء الثانی)

            ایک قول یہ ہے کہ چونکہ اس روز بندے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اس لئے اس دن کا نام عرفہ ہے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۸، ۱ / ۱۴۰)

            حاجی کیلئے9ذی الحجہ کے زوالِ آفتاب سے لے کر 10ذی الحجہ کی صبح صادق سے پہلے تک کم از کم ایک لمحے کیلئے عرفات میں وقوف فرض ہے ۔(بہار شریعت،حصہ ششم، ۱ / ۱۱۴۷)

            اور 9تاریخ کواتنی دیر وقوف کرنا کہ وہیں سورج غروب ہوجائے یہ واجب ہے۔ (عالمگیری، کتاب المناسک، الباب الخامس، ۱ / ۲۲۹)

{عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ: مشعر حرام کے پاس۔}مَشْعَرِحرام مُزدلفہ میں وہ جگہ ہے جہاں امامِ حج وقوفِ مزدلفہ کرتا ہے۔ مزدلفہ میں واقع وادی مُحَسِّرْکے سوا تمام مزدلفہ وقوف کا مقام ہے ۔ مزدلفہ میں رات گزارنا سنت ہے اور فجر کا وقت شروع ہونے سے لے کر طلوعِ آفتاب کے دوران کم از کم ایک لمحے کیلئے وہاں ٹھہرنا واجب ہے ۔ بغیر عذر وقوفِ مزدلفہ ترک کرنے سے د م لا زم آتا ہے اور مشعر حرام کے پاس وقوف افضل ہے ۔مزدلفہ میں وقوف کے دوران تَلْبِیَہ، تہلیل و تکبیر اور ثناء و دعا وغیرہ میں مشغول رہنا چاہیے۔ 9ذوالحجہ کو مزدلفہ میں نما زِ مغرب وعشاء کو ملا کر عشاء کے وقت میں پڑھنا ہوتا ہے۔

{وَ اذْكُرُوْهُ: اور اسے یاد کرو۔} فرمایا گیا کہ تم ذکر و عبادت کا طریقہ نہ جا نتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ذریعے تمہیں عبادت کے طریقے سکھائے لہٰذا اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ۔

2:199
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۹۹)
پھر بات یہ ہے کہ اے قریشیو! تم بھی وہیں سے پلٹو جہاں سے لوگ پلٹتے ہیں (ف۳۸۴) اور اللہ سے معافی مانگو، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

{ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ: پھر تم بھی وہیں سے پلٹو جہاں سے دوسرے لوگ پلٹتے ہیں۔}قریش مزدلفہ میں ٹھہرے رہتے تھے اور سب لوگوں کے ساتھ عرفات میں وقوف نہ کرتے، جب لوگ عرفات سے پلٹتے تو یہ مزدلفہ سے پلٹتے اور اس میں اپنی بڑائی سمجھتے، اس آیت میں انہیں حکم دیا گیا کہ وہ بھی سب کے ساتھ عرفات میں وقوف کریں اور ایک ساتھ واپس لوٹیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۹، ۱ / ۱۴۱)یہی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی سنت ہے ۔

 اسلامی احکام سب کے لئے برابر ہیں :

اس سے معلوم ہواکہ اسلامی احکام برادریوں کے اعتبار سے نہیں بدلتے اور نہ ہی کسی کے رتبے اور مقام کی وجہ سے ان میں تبدیلی ہوتی ہے بلکہ امیر و غریب، گورے کالے، عربی عَجمی سب کے لئے اسلام کے احکام برابر ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :قریش ایک مخزومی عورت کے بارے میں بہت ہی پریشان تھے جس نے چوری کی تھی، لوگ کہنے لگے کہ اس بارے رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے گفتگو کون کرے؟ بعض آدمیوں نے کہا کہ حضرت اسامہ بن زیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سوا ا یسی جرأت اور کون کر سکتا ہے کیونکہ وہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے چہیتے ہیں۔جب حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس بارے میں حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے گفتگو کی تو آپ نے فرمایا:’’کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدود کے بارے میں سفارش کر رہے ہو؟پھر آ پ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا:’’بے شک تم سے پہلے لوگ اسی لئے ہلاک ہوئے تھے کہ جب کوئی مالدار چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی غریب آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔خدا کی قسم!اگرمحمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۵۶-باب، ۲ / ۴۶۸، الحدیث: ۳۴۷۵)

تاریخ اسلام میں مسلمان قاضیوں کے ایسے بے شمار واقعات موجودہیں جس میں انہوں نے کسی کے رتبے اور قرابت داری کی پرواہ کئے بغیر شریعت کے احکام کو نافذ کیا،انہی واقعات میں سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔چنانچہ حضرت سعد بن ابراہیم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ خلیفہ ولید بن یزید کی طرف سے مدینہ منورہ کے قاضی مقرر تھے ۔ایک مرتبہ ولید نے آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو اپنے پاس ملک شام میں بلایا، چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک بااعتماد شخص کو مدینہ منورہ میں قاضی بناکر خود ملک شام کی جانب چل دیئے۔ جب آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شام کی سر حد پر پہنچے تو آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو شہر سے باہر ہی روک دیا گیااور کافی عرصہ تک داخلہ کی اجازت نہ ملی ۔ ایک رات آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مسجد میں مصروف عبادت تھے کہ ایک شخص کو دیکھا کہ نشے کی حالت میں بدمست ہے او رمسجد میں گھوم رہا ہے۔ یہ دیکھ کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے پوچھا : ’’یہ شخص کون ہے ؟ لوگو ں نے بتا یا: یہ خلیفہ ولید بن یزید کا ماموں ہے، اس نے شراب پی ہے اور اب نشے کی حالت میں مسجد کے اندر گھوم پھر رہا ہے۔ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو بہت جلال آیا کہ یہ کتنی دیدہ دِلیری سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہا ہے اور اس کے پاک دربار میں ایسی گندی حالت میں بے خوف گھوم پھر رہا ہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے غلام کودُرَّہ لانے کا حکم فرمایا۔ غلام نے درہ (کوڑا) دیا ۔ درہ لے کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا:’’ مجھ پر لازم ہے کہ میں اس پر شرعی سزا نافذ کروں چاہے یہ کوئی بھی ہو، اسلام میں سب برابر ہیں۔ چنانچہ آپ آگے بڑھے اور مسجد میں ہی اس کو80 کوڑے مارے ۔ وہ شخص80کوڑے کھانے کے بعد نہایت زخمی حالت میں خلیفہ ولید بن یزید کے پاس پہنچا۔ خلیفہ نے جب اپنے ماموں کی یہ حالت دیکھی تو بہت غضبناک ہوا اور پوچھا’’ تمہاری یہ حالت کس نے کی؟ کس نے تمہیں اِتنا شدید زخمی کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا: ایک شخص مدینہ منورہ سے آیا ہوا تھا، اس نے مجھے80کوڑے سزا دی اور کہا: ’’یہ سزا دینا اور حد قائم کرنا مجھ پر لازم ہے۔ خلیفہ نے جب یہ سنا تو اس نے فوراً حکم دیا کہ ہماری سواری تیار کی جائے، اسی وقت حکم کی تعمیل ہوئی اور خلیفہ کچھ سپاہیوں کو لے کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس پہنچ گیا اور آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے کہا:’’ اے ابو اسحاق ! تو نے میرے ماموں کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا، اسے اتنی درد ناک سزا کیوں دی؟ حضرت سعد بن ابراہیم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا:’’ اے خلیفہ! تونے مجھے قاضی بنایا تا کہ میں شریعت کے احکام نافذ کروں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دوں۔ چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ سرِعام اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جا رہی ہے اور یہ شخص نشے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں گھوم پھر رہا ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں تو میری غیرت ایمانی نے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی دیکھوں اور تمہاری قرابت داری کی وجہ سے چشم پوشی کروں اور شرعی حدو د قائم نہ کروں۔(عیون الحکایات، الحکایۃ الرابعۃ والاربعون بعد  المائۃ، ص۱۶۳-۱۶۴، ملتقطاً)

2:200
فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًاؕ-فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ(۲۰۰)
پھر جب اپنے حج کے کام پورے کرچکو (ف۳۸۵) تو اللہ کا ذکر کرو جیسے اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے (ف۳۸۶) بلکہ اس سے زیادہ اور کوئی آدمی یوں کہتا ہے کہ اے رب ہمارے ہمیں دنیا میں دے اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں،

{فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ: تو اللہ کا ذکر کرو جیسے اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے۔} زمانہ جاہلیّت میں عرب حج کے بعد کعبہ کے قریب اپنے باپ دادا کے فضائل بیان کیا کرتے تھے۔(صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۱ / ۱۷۰)

اسلام میں بتایا گیا کہ یہ شہرت و خود نمائی کی بیکار باتیں ہیں ، اس کی بجائے ذوق وشوق کے ساتھ ذکر ِالٰہی کرو ۔ اس آیت سے بلند آواز سے ذکر کرنا اور لوگوں کا اکٹھے مل کر ذکر کرنا دونوں ثابت ہوتے ہیں کیونکہ عرب لوگ اپنے باپ دادا کا ذکر بلند آواز سے کرتے تھے اور مجمع میں کرتے تھے۔

{فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ:کچھ لوگ کہتے ہیں۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت میں دعا کرنے والوں کی دو قسمیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک وہ کافر جن کی دعا میں صرف طلبِ دنیا ہوتی تھی اورآخرت پر ان کا اعتقا د نہ تھا ان کے بارے میں ارشاد ہوا کہ آخرت میں ان کا کچھ حصہ نہیں۔دوسرے وہ ایمان دار جو دنیا و آخرت دونوں کی بہتری کی دعا کرتے ہیں۔

دنیا کی بہتری طلب کرنے کا حکم :

یاد رہے کہ مومن اگر دنیا کی بہتری طلب کرتا ہے تووہ بھی جائز ہے اور یہ طلبِ دنیا اگردین کی تائید و تَقْوِیَت کے لئے ہو تو یہ دعا بھی امورِدین سے شمار ہوگی۔لیکن یہ یاد رہے کہ آخرت کو اصلا ًفراموش کرکے صرف دنیا مانگنا بہر حال مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ دنیا کے طلبگاروں اور آخرت کے طلبگاروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا(بنی اسرائیل:۱۸، ۱۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان:جو جلدی والی (دنیا)چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم،مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔

نیز ایک اورمقام پر صرف دنیا کی رنگینیوں میں مگن رہنے والوں سے اور اس کے بعد جو اللہ  تعالیٰ کے نزدیک بہتر اور افضل چیزہے اس کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :

 زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(۱۴)قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْؕ-لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ(ال عمران: ۱۴، ۱۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان:لوگوں کے لئے ان کی خواہشات کی محبت کو آراستہ کردیا گیا یعنی عورتوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیروں اور نشان لگائے گئے گھوڑوں اورمویشیوں اور کھیتیوں کو( ان کے لئے آراستہ کردیا گیا) یہ سب دنیوی زندگی کا سازوسامان ہے اور صرف اللہ کے پاس اچھا ٹھکاناہے۔(اے حبیب!)تم فرماؤ ، (اے لوگو!)کیا میں تمہیں ان چیزوں سے بہتر چیز بتادوں ؟ (سنو، وہ یہ ہے کہ)پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے اور (وہاں ) پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی خوشنودی ہے اور اللہ بندوں کو دیکھ رہا ہے۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْبَقَرَة
اَلْبَقَرَة
  00:00



Download

اَلْبَقَرَة
اَلْبَقَرَة
  00:00



Download