READ

Surah al-Baqarah

اَلْبَقَرَة
286 Ayaat    مدنیۃ


2:41
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ۪-وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا٘-وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ(۴۱)
اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے اتارا اس کی تصدیق کرتا ہوا جو تمہارے ساتھ ہے اور سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو (ف۷۳) اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑے دام نہ لو (ف۷۴) اور مجھی سے ڈرو -

{وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ:اور اس پرایمان لاؤ جسے میں نے نازل کیا ۔} یعنی اے بنی اسرائیل کے علماء! اس  قرآن پر ایمان لاؤ جو میں نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر نازل کیا ہے اور وہ تمہارے پاس موجود کتاب تورات و انجیل کی تصدیق کرتا ہے اور تم اہل کتاب میں سے قرآن مجید اور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سب سے اَوّلین منکر نہ بنو ورنہ جو لوگ تمہارے پیچھے لگ کر کفر اختیار کریں گے تو ان کا وبال بھی تم پر ہوگا۔

نیکی اور برائی کی ابتداء کرنے والے کے بارے میں ایک اصول:

            یاد رہے کہ نیکی اور بدی کے ہرکام میں یہی اصول نافذ ہے کہ اس کی ابتداء کرنے والوں کو پیروی کرنے والوں کے عمل کا ثواب یا عذاب بھی ملے گا۔ حضرت جریر بن عبداللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو ا س کے لئے ا س طریقے کو ایجاد کرنے کا ثواب ہو گا اور ا س کے بعد جو لوگ اُ س طریقے پر عمل کریں گے ان کا ثواب بھی اس( ایجاد کرنے والے)کو ملے گا اور ان (عمل کرنے والوں ) کے اپنے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی، اور جس نے اسلام میں برا طریقہ ایجاد کیا تو اُس پر اِس کا گناہ ہو گا اور اِس کے بعد جو لوگ اُس پر عمل کریں گے اُن کا گناہ بھی اِسے ہو گا اور اِن(عمل کرنے والوں ) کے اپنے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔(مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیّئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۷، الحدیث: ۱۵(۱۰۱۷))

{وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا:اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت وصول نہ کرو۔} اس آیت میں دنیاکے حقیر و ذلیل مال کے بدلے اللہ تعالیٰ کی آیات بیچنے سے منع کیا گیا ہے اوریہاں اُن آیات سے توریت و انجیل کی وہ آیات مراد ہیں جن میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف و علامات کا بیان ہے۔ قرآن پاک کی یہ آیات ان یہودیوں کے متعلق نازل ہوئیں جنہیں اپنی قوم سے نذرانے اور وظائف ملتے تھے اور انہیں ڈر تھا کہ اگر قوم کو معلوم ہوگیا کہ تورات میں محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی یہ نشانیاں بیان کی گئی ہیں تو وہ ان سرداروں کو چھوڑکر محمد مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ایمان لے آئیں گے اور یوں ان کے نذرانے بند ہوجائیں گے۔ اسی کو فرمایا جارہا ہے کہ دنیا کے قلیل مال کے بدلے اللہ تعالیٰ کی آیتیں بیچتے ہیں۔

عظمت ِمصطفٰی   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَچھپانے والے غور کریں:

            اس آیت اور اس کے بعد والی آیت سے معلوم ہوا کہ یہودی علماء اپنے باطل مفادات، نفسانی خواہشات اور جاہلانہ تَوَہُّمات کی بنا پر اپنی کتابوں میں موجود ان آیات کو چھپاتے تھے جن میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عظمت و شان اور ان کے اوصاف بیان کئے گئے اور اگر کبھی کوئی آیت بیان بھی کی تو اس کے ساتھ بعض باطل باتیں ملا کر بیان کرتے تھے حالانکہ علماء کا منصب توحق بات کا اعلان کرنا، حق اور باطل کو جدا کرنا، مالی و ذاتی مفادات کو دین پر قربان کرنااور دین کا محافظ بننا ہے۔ یہودیوں کے بیان کردہ طرزِ عمل اور علماء کے منصب کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں کو اپنی حالت پر غور کرنے کی حاجت ہے جن کا حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عظمت و شان بیان کرنے کے معاملے میں سلسلہ کہیں اور ہی جاکر ملتا ہے ۔

2:42
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۴۲)
اور حق سے باطل کو نہ ملاؤ اور دیدہ و دانستہ حق نہ چھپاؤ -

{وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ: اور حق کو باطل سے نہ ملاؤ۔} یہودی علماء نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عظمت و نبوت سے متعلق تورات کی آیتیں چھپاتے بھی تھے اور کبھی کچھ بیان کرتے تو ان کے ساتھ اپنی طرف سے کچھ باطل باتیں بھی ملادیا کرتے تھے مثلا اپنے پیروکاروں سے کہتے کہ محمد  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نبی تو ہیں لیکن ہمارے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے ہیں۔یہودی علماء نے اس طرح کی کئی باتیں گھڑی ہوئی تھیں جن کے ذریعے وہ جان بوجھ کر حق چھپانے اور حق و باطل کو ملا کر دھوکہ دینے کے طریقے اختیار کئے ہوئے تھے ۔علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کو چاہئے کہ وہ حق کو باطل سے نہ ملائے اور نہ ہی حق کو چھپائے کیونکہ اس میں فساد اور نقصان ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حق بات جاننے والے پر اسے ظاہر کرنا واجب ہے اور حق بات کو چھپانا ا س پر حرام ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۱ / ۴۹)

2:43
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳)
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو- (ف۷۵)

{وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ: اور نماز قائم رکھو۔}اس سے پہلی آیات میں یہودیوں کو ایمان لانے کا حکم دیا گیا،پھر انہیں حق کو باطل کے ساتھ ملانے اور نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت کے دلائل چھپانے سے منع کیا گیا ،اب ان کے سامنے وہ شرعی احکام بیان کئے جا رہے ہیں جو ایمان قبول کرنے کے بعد ان پر لازم ہیں ، چنانچہ فرمایا گیا کہ اے یہودیو! تم ایمان قبول کرکے مسلمانوں کی طرح پانچ نمازیں ان کے حقوق اورشرائط کے ساتھ ادا کرو اور جس طرح مسلمان اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اسی طرح تم بھی اپنے مالوں کی زکوٰۃ دواور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم کے ساتھ با جماعت نماز ادا کرو۔(تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۳، ۱ / ۴۸۵، روح البیان، البقرۃ،تحت الآیۃ: ۴۳،۱ / ۱۲۱، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۱ / ۴۹، ملتقطاً)

باجماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت اور فضائل:

اس آیت میں جماعت کے ساتھ نماز اداکرنے کی ترغیب بھی ہے اور احادیث میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔(بخاری،کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ،۱ / ۲۳۲، الحدیث: ۶۴۵)

حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام حضرت حمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔‘‘(شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، ۳ / ۹، الحدیث: ۲۷۲۷)

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو اچھی طرح وضو کرکے مسجد کو جائے اورلوگوں کو اس حالت میں پائے کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی جماعت سے نمازپڑھنے والوں کی مثل ثواب دے گا اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا۔(ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فیمن خرج یرید الصلاۃ فسبق بھا، ۱ / ۲۳۴، الحدیث: ۵۶۴)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ منافقین پر سب سے زیادہ بھاری عشا اور فجر کی نماز ہے اور وہ جانتے کہ اس میں کیا ہے؟ تو گھسٹتے ہوئے آتے اور بیشک میں نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم فرماؤں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ان کے پاس لے کر جاؤں ، جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ۔۔۔ الخ، ص۳۲۷، الحدیث: ۲۵۲(۶۵۱))

بزرگانِ دین کے نزدیک باجماعت نماز اداء کرنے کی اہمیت کس قدر تھی اس کا اندازہ ان دو حکایات سے لگایا جا سکتا ہے:

(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  فرماتے ہیں کہ’’حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے ایک باغ کی طرف تشریف لے گئے، جب واپس ہوئے تو لوگ نمازِ عصر ادا کر چکے تھے ،یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھا اور ارشاد فرمایا :’’میری عصر کی جماعت فوت ہو گئی ہے، لہٰذا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میرا باغ مساکین پر صدقہ ہے تاکہ یہ اس کام کا کفارہ ہو جائے۔(الزواجرعن اقتراف الکبائر، باب صلاۃ الجماعۃ، الکبیرۃ الخامسۃوالثمانون،۱ / ۳۱۱)

(2)…حضرت حاتم اَصم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’ایک مرتبہ میری با جماعت نماز فوت ہو گئی تو حضرت ابو اسحاق بخاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے علاوہ کسی نے میری تعزیت نہ کی اور اگر میرا بچہ فوت ہو جاتا تودس ہزار ( 10,000) سے زیادہ افراد مجھ سے تعزیت کرتے کیونکہ لوگوں کے نزدیک دینی نقصان دنیوی نقصان سے کم تر ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب اسرارالصلاۃ ومہماتھا، الباب الاول فی فضائل الصلاۃ والسجود۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۰۳)

اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو با جماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین

2:44
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۴۴)
کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں -(ف۷۶)

{اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ:کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو؟}یہ آیت مبارکہ ان یہودی علماء کے بارے میں ہے جن سے ان کے مسلمان رشتہ داروں نے دینِ اسلام کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: تم اس دین پر قائم رہو، محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  کا دین حق اور کلام سچا ہے ۔ یاان یہودیوں کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مشرکینِ عرب کو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مبعوث ہونے کی خبر دی تھی اور حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی پیروی کرنے کی ہدایت کی تھی ،پھر جب حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مبعوث ہوئے تو یہ ہدایت کرنے والے حسد سے خود کافر ہوگئے تو انہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھلاتے ہو۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱ / ۵۰)یاد رہے کہ اس آیت کا شانِ نزول خاص ہونے کے باوجود حکم عام ہے اور ہر نیکی کا حکم دینے والے کیلئے اس میں تازیانہ عبرت ہے ۔

قول و فعل کے تضاد کا نقصان:

            یہاں ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ معمولی فساد اس وقت بہت بڑے فتنے اور تباہی کی شکل اختیار کرلیتا ہے جب اس کا ارتکاب کرنے والے خود وہ لوگ ہوں جو دوسروں کوتو بھلائی کا حکم دیتے ہوں لیکن جب ان کے عمل سے پردہ اُٹھے تو معلوم ہو کہ گناہوں کے سب سے بڑے مریض یہی ہیں ،انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قول و فعل کا تضاد اور خلوت و جلوت کا فرق دنیا و آخرت دونوں لئے بہت نقصان دہ ہے ،دنیا میں تو یہ اس قدر نقصان دہ ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی کے متعلق یہ تضاد ثابت ہوجائے تو لوگ زندگی بھر اسے منہ لگانا پسند نہیں کرتے بلکہ ایسوں کے عمل کو دیکھ کر نجانے کتنے لوگ ہمیشہ کیلئے دین ہی سے متنفر ہوجاتے ہیں ،اور آخرت میں ا س کا نقصان کتنا زیادہ ہے اس کا اندازہ اس روایت اور حکایت سے خود ہی لگا لیجئے ،چنانچہ

            حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا ’’قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنت کی طرف لے جانے کا حکم ہو گا، یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچ کر اس کی خوشبو سونگھیں گے ، اس کے محلات اور ا س میں اہل جنت کے لئے اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ نعمتیں دیکھ لیں گے، تو ندا دی جائے گی :انہیں جنت سے لوٹا دو کیونکہ ان کا جنت میں کوئی حصہ نہیں۔ (یہ ندا سن کر) وہ ایسی حسرت کے ساتھ لوٹیں گے کہ اس جیسی حسرت کے ساتھ ان سے پہلے لوگ نہ لوٹیں ہوں گے، پھر وہ عرض کریں گے :’’یارب عَزَّوَجَلَّ! اگر تو اپنا ثواب اور اپنے اولیاء کے لئے تیار کردہ نعمتیں دکھانے سے پہلے ہی ہمیں جہنم میں داخل کر دیتا تو یہ ہم پر زیادہ آسان ہوتا۔اللہ  تعالیٰ  ارشاد فرمائے گا ’’ میں نے ارادۃً تمہارے ساتھ ایسا کیا ہے(اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ ) جب تم تنہائی میں ہوتے تو بڑے بڑے گناہ کر کے میرے ساتھ اعلانِ جنگ کرتے اور جب لوگوں سے ملتے تو عاجزی و انکساری کے ساتھ ملتے تھے، تم لوگوں کو اپنی وہ حالت دکھاتے تھے جو تمہارے دلوں میں میرے لئے نہیں ہوتی تھی، تم لوگوں سے ڈرتے اور مجھ سے نہیں ڈرتے تھے، تم لوگوں کی عزت کرتے اور میری عزت نہ کرتے تھے،تم لوگوں کی وجہ سے برا کام کرنا چھوڑ دیتے لیکن میری وجہ سے برائی نہ چھوڑتے تھے، آج میں تمہیں اپنے ثواب سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عذاب کا مزہ بھی چکھاؤں گا۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۳۵-۱۳۶، الحدیث: ۵۴۷۸)

             اورحضرت ابراہیم تیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں موت اور( مرنے کے بعد ہڈیوں کی ) بوسیدگی کو یادکرنے کے لئے کثرت سے قبرستان میں آتا جاتاتھا، ایک رات میں قبرستان میں تھا کہ مجھ پر نیند غالب آگئی اور میں سو گیا تو میں نے خواب میں ایک کھلی ہوئی قبر دیکھی اور ایک کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’یہ زنجیر پکڑو اور اس کے منہ میں داخل کر کے اس کی شرمگاہ سے نکالو۔ تو وہ مردہ کہنے لگا: ’’یا رب عَزَّوَجَلَّ! کیا میں نے قرآن نہیں پڑھا ؟ کیا میں نے تیرے حرمت والے گھر کاحج نہیں کیا؟ پھر وہ اسی طرح ایک کے بعد دوسری نیکی گنوانے لگا تو میں نے سنا ’’تو لوگوں کے سامنے یہ اعمال کیاکرتا تھا لیکن جب توتنہائی میں ہوتا تو نافرمانیوں کے ذریعے مجھ سے مقابلہ کرتا اور تم نے میرا کچھ خیال نہ کیا۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر، خاتمۃ فی التحذیر من جملۃ المعاصی۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۱ )

بے عمل بھی نیکی کی دعوت دے:

          یاد رہے کہ اس آیت کی مراد وعظ و نصیحت کرنے والوں کو تقویٰ و پرہیزگاری پر ابھارنا ہے ، بے عمل کو وعظ سے منع کرنا مقصود نہیں ، یعنی یہ فرمایا ہے کہ جب دوسروں کو وعظ و نصیحت کرتے ہو تو خود بھی عمل کرو، یہ نہیں فرمایا کہ جب عمل نہیں کرتے تو وعظ و نصیحت کیوں کرتے ہو؟ کیونکہ عمل کرنا ایک واجب ہے اور دوسروں کو برائی سے روکنا دوسرا واجب ہے ۔ اگر ایک واجب پر عمل نہیں تو دوسرے سے کیوں رُکا جائے۔         (بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱ / ۳۱۶)

             حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ہم نے عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم اس وقت تک (دوسروں کو) نیک اعمال کرنے کی دعوت نہ دیں جب تک ہم خود تمام نیک اعمال نہ کرنے لگ جائیں اور ہم اس وقت تک(لوگوں کو)برے کاموں سے منع نہ کریں جب تک ہم خود تمام برے کاموں سے رک نہ جائیں ؟ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’(ایسا نہ کرو) بلکہ تم نیک اعمال کرنے کاحکم دو اگرچہ تم خود تمام نیک اعمال نہیں کرتے اور برے اعمال کرنے سے منع کرو اگرچہ تم تمام برے اعمال سے باز نہیں آئے۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد،۵ / ۷۷، الحدیث: ۶۶۲۸)

2:45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ(۴۵)
اور صبر اور نماز سے مدد چاہو اور بیشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر (نہیں) جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں -(ف۷۷)

{وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ:اور صبر اور نماز سے مددحاصل کرو۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اس سے پہلی آیات میں بنی اسرائیل کوسید المرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ایمان لانے ،ان کی شریعت پر عمل کرنے ،سرداری ترک کرنے اور منصب و مال کی محبت دل سے نکال دینے کا حکم دیا گیا اور ا س آیت میں ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل! اپنے نفس کو لذتوں سے روکنے کے لئے صبر سے مدد چاہو اور اگر صبر کے ساتھ ساتھ نماز سے بھی مدد حاصل کرو تو سرداری اورمنصب و مال کی محبت دل سے نکالنا تمہارے لئے آسان ہو جائے گا، بیشک نماز ضرور بھاری ہے البتہ ان لوگوں پر بھاری نہیں جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم رضائے الٰہی کے حصول اور اپنی حاجتوںکی تکمیل میں صبر اور نماز سے مدد چاہو۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱ / ۵۰)

            سبحان اللہ! کیا پاکیزہ تعلیم ہے۔ صبر کی وجہ سے قلبی قوت میں اضافہ ہے اور نماز کی برکت سے اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں پریشانیوں کو برداشت کرنے اور انہیں دور کرنے میں سب سے بڑی معاون ہیں۔

{اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَ: بیشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ گناہوں اور خواہشات سے بھرے ہوئے دلوں پر نماز بہت بوجھل ہوتی ہے اور عشق و محبت ِ الہٰی سے لبریز اور خوفِ خدا سے جھکے ہوئے دلوں پر نماز بوجھ نہیں بلکہ نماز ان کیلئے لذت و سرور اور روحانی و قلبی معراج کا سبب بنتی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّسے ملاقات پر یقین رکھتے ہیں اور اُس مولیٰ کریم کے دیدار کی تڑپ رکھتے ہیں۔

             اس میں بشارت ہے کہ آخرت میں مؤمنین کو دیدار الٰہی کی نعمت نصیب ہو گی،نیزاللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کی طرف رجوع میں ترغیب و ترہیب دونوں ہیں اور ان دونوں کو پیشِ نظر رکھنا نماز میں خشوع پیدا ہونے کا ذریعہ ہے، گویا نماز میں خشوع و خضوع قائم رکھنے کا حکم بھی دیا اور اس کے حصول کا طریقہ بھی بتادیا۔

2:46
الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۠(۴۶)
جنہیں یقین ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پھرنا- (ف۷۸)

اس آیت کی تفسیر گزشتہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔
2:47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(۴۷)
اے اولاد یعقوب یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ اس سارے زمانہ پر تمہیں بڑائی دی-(ف۷۹)

{یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ:اے یعقوب کی اولاد! میرا احسان یاد کرو۔}یہاں سے ایک بار پھر بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد کرنے کاحکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت ترک کرنے سے ڈریں اور ان پر حجت پوری ہو جائے۔              (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱ / ۵۰)

            یاد رہے کہ ان آیات میں بنی اسرائیل کے ان لوگوں سے خطاب کیاجا رہا ہے جو سید المرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے مقدس زمانے میں موجود تھے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں یاد کرنے کا حکم دیاجارہا ہے وہ یہ ہیں :

 (1)…تمام اہلِ زمانہ پر فضیلت و برتری،(2)…دریامیں راستہ بن جانا،(3)…فرعون سے نجات، (4) … تورات کا عطا ہونا، (5)…بچھڑے کی پوجا پر معافی مل جانا، (6)…ایک گروہ کا مرنے کے بعد زندہ کیا جانا، (7)…بادلوں سے سایہ ملنا، (8)…مَن و سَلویٰ نازل ہونا، (9)…پانی کے بارہ چشمے جاری ہوجانا، (10)…زمینی اناج عطا کیا جانا وغیرہ، یہ تمام نعمتیں ان کے آباؤ اجداد کو عطا کی گئی تھیں اور چونکہ جو نعمت آباؤ اجداد کو ملی ہو وہ ان کی اولاد کے حق میں بھی نعمت ہوتی ہے ا س لئے ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے یعقوب کی اولاد! میرا وہ احسان یاد کروجو میں نے تم پر کیا اور میرے حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی پیروی کر کے اور ان کے دین میں داخل ہو کر میری ان نعمتوں کا شکر ادا کرو۔‘‘ بنی اسرائیل کی نعمتوں کو سامنے رکھ کر امت ِ محمدیہ پر ہونے والے انعامات کو شمار کریں توہم سمجھ سکتے ہیں کہ شکرگزاری کا تقاضا ہم سے کس قدر مطلوب ہے۔

{اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ:میں نے تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔}اس سے مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی گئی ،اور جب حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی آمد ہوئی تو یہ فضیلت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت کی طرف منتقل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت کو سب امتوں سے افضل بنا دیاجیسا کہ ارشاد فرمایا:

’’كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ‘‘ (اٰل عمران: ۱۱۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان:(اے مسلمانو!)تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت )کے لئے ظاہر کی گئی۔

2:48
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ(۴۸)
اور ڈرو اس دن سے جس دن کوئی جان دوسرے کا بدلہ نہ ہوسکے گی (ف۸۰) اور نہ (کافر کے لئے) کوئی سفارش مانی جائے اور نہ کچھ لے کر (اس کی) جان چھوڑی جائے اور نہ ان کی مدد ہو- (ف۸۱)

{لَا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا:کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے بدلہ نہ دے گی۔}یعنی اے بنی اسرائیل ! قیامت کے اس دن سے ڈرو جس دن کوئی بھی شخص کسی کافر کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کافر کے بارے میں کسی کی کوئی سفارش مانی جائے گی اور نہ اس کافرسے جہنم کے عذاب سے نجات کے بدلے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کفارسے اللہ تعالیٰ کا عذاب دور کر کے ان کی مددکی جائے گی۔ (روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۸، ۱ / ۱۲۶-۱۲۷)

شفاعت کی امید پر گناہ کرنے والا کیسا ہے؟

            اس سے معلوم ہوا کہ  قیامت کے دن کافر کو نہ کوئی کافر نفع پہنچا سکے گا اور نہ کوئی مسلمان،اس دن شفاعت صرف مسلمان کیلئے ہوگی جیسا کہ دیگر آیات میں بیان ہوا البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ شفاعت کی امید پر گناہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اچھے ڈاکٹر کے مل جانے کی امید پر کوئی زہر کھالے یا ہڈیوں کے ماہر ڈاکٹر کے ملنے کی امید پرگا ڑی کے نیچے آکر سارے بدن کی ہڈیاں تڑوالے۔

2:49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْؕ-وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ(۴۹)
اور (یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات بخشی (ف۸۲) کہ وہ تم پر برا عذاب کرتے تھے (ف۸۳) تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے (ف۸۴) اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی بلا تھی (یا بڑا انعام) (ف۸۵)

{وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ: اورجب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی۔} اس سے پہلی آیات میں بنی اسرائیل پر کی گئی نعمتوں کا اجمالی طور پر ذکر ہوا اور اب یہاں سے ان نعمتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو کہ جب ہم نے تمہیں فرعون کی پیروی کرنے والوں سے نجات دی جو تمہیں بہت برا عذاب دیتے تھے۔ فرعون نے بنی اسرائیل پر نہایت بے دردی سے محنت و مشقت کے دشوار کام لازم کر رکھے تھے، پتھروں کی چٹانیں کاٹ کر ڈھوتے ڈھوتے ان کی کمریں اورگردنیں زخمی ہوگئی تھیں ، غریبوں پر ٹیکس مقرر کئے ہوئے تھے جو غروب آفتاب سے قبل جبراًوصول کئے جاتے تھے اورجوٹیکس نہ دے پاتا اسے سخت سزائیں ملتی تھیں۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۵۰۴-۵۰۵)

اس فرعونیت کا کچھ نمونہ ان مسلمان ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں کفار نے پنجے گاڑ کر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں اور مسلمانوں کیلئے عقو بت خانے اورخصوصی جیلیں بنارکھی ہیں۔

فرعون کا مختصر تعارف:

جس طرح فارس کے بادشاہ کا لقب کسریٰ،روم کے بادشاہ کا قیصر اور حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی تھا اسی طرح قِبطِی اور عَمالِقہ قوم سے تعلق رکھنے والے، مصر کے بادشاہوں کا لقب فرعون ہوتا تھا۔حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ کے فرعون کا نام ولید بن مُصْعَبْ بن رَیان تھا اور اس آیت میں اُسی کا ذکر ہے۔اس کی عمر چار سو سال سے زیادہ ہوئی ،نیز اس آیت میں آلِ فرعون سے اس کے پیروکار مراد ہیں۔

{یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ:وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے۔} فرعون نے خواب دیکھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ آئی اوراس نے مصر کو گھیر کر تمام قبطیوں کو جلا ڈالا جبکہ بنی اسرائیل کوکوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس خواب سے اسے بڑی وحشت ہوئی، کاہنوں نے تعبیر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیری ہلاکت اور تیری سلطنت کی تباہی کا سبب بنے گا۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو،اُسے قتل کردیا جائے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۱۲۹)

یوں ہزاروں کی تعداد میں بچے قتل کئے گئے۔ قدرتِ الہٰی سے اس قوم کے بوڑھے جلد مرنے لگے تو قبطی سرداروں نے گھبرا کر فرعون سے شکایت کی کہ ایک طرف بنی اسرائیل میں موت کی کثرت ہوگئی ہے اور دوسری طرف ان کے بچے بھی قتل کئے جا رہے ہیں ،اگر یہی صورت حال رہی تو ہمیں خدمتگار کہاں سے ملیں گے؟اس پر فرعون نے حکم دیا کہ ایک سال بچے قتل کئے جائیں اور ایک سال چھوڑدئیے جائیں تو جو سال چھوڑنے کا تھا اس میں حضرت ہارونعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپیدا ہوئے اور قتل کے سال حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت ہوئی۔یہ واقعہ سورۂ قصص کے پہلے رکوع میں کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

{وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ:اور اس میں آزمائش تھی۔} ’’بلا ‘‘امتحان و آزمائش کو کہتے ہیں اور آزمائش نعمت سے بھی ہوتی ہے اور شدت و محنت سے بھی۔ نعمت سے بندے کی شکر گزاری اور محنت ومشقت سے اس کے صبر کا حال ظاہر ہوتا ہے۔ اس آیت میں اگر ’’ذٰلِكُمْ‘‘ کا اشارہ فرعون کے مظالم کی طرف ہو تو ’’بلا ‘‘سے محنت و مصیبت مراد ہوگی اور اگر ان مظالم سے نجات دینے کی طرف اشارہ ہو تو ’’بلا‘‘سے نعمت مراد ہوگی۔

2:50
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ(۵۰)
اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا پھاڑ دیا تو تمہیں بچالیا اور فرعون والوں کو تمہاری آنکھوں کے سامنے ڈبو دیا -(ف۸۶)

{وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ:اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا پھاڑ دیا۔ }یہ دوسری نعمت کا بیان ہے جو بنی اسرائیل پر فرمائی کہ انہیں فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات دی اور فرعون کو اس کی قوم سمیت ان کے سامنے غرق کردیاجس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حکمِ الٰہی پررات کے وقت بنی اسرائیل کو لے کرمصر سے روانہ ہوئے۔ صبح کو فرعون ان کی جستجو میں ایک بھاری لشکر لے کر نکلا اور انہیں دریا کے کنارے پرپالیا، بنی اسرائیل نے فرعون کے لشکر کو دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فریاد کی، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریاپر اپنا عصا مارا۔اس کی برکت سے عین دریا میں بارہ خشک راستے پیدا ہوگئے اور پانی دیواروں کی طرح کھڑا ہوگیااور ان آبی دیواروں میں جالی کی مثل روشندان بن گئے۔ بنی اسرائیل کی ہر جماعت ان راستوں میں ایک دوسری کو دیکھتی اور باہم باتیں کرتی گزر گئی ۔ فرعون بھی اپنے لشکر سمیت ان دریائی راستوں میں داخل ہوگیالیکن جب اس کا تمام لشکر دریا کے اندر آگیا تو دریا اپنی اصلی حالت پر آیا اور تمام فرعونی اس میں غرق ہوگئے اوربنی اسرائیل دریاکے کنارے فرعونیوں کے غرق کا منظر دیکھ رہے تھے۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۳۱۸-۳۱۹، بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۳۲۲، ملتقطاً)

انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر ہونے والے انعام کی یادگار قائم کرنا سنت ہے:

             فرعونیوں کا غرق ہونا محرم کی دسویں تاریخ کو ہوا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اس دن شکر کا روزہ رکھا۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے،حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمافرماتے ہیں :جب حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں ، آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:یہ کیا ہے؟یہودیوں نے عرض کی :یہ نیک دن ہے،یہ وہ دن ہےجس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اس دن روزہ رکھا تھا۔ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’تمہاری نسبت موسیٰ سے میرا تعلق زیادہ ہے،چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس دن روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کاحکم ارشاد فرمایا۔(بخاری، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشورائ،۱ / ۶۵۶، الحدیث: ۲۰۰۴، مسلم، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشورائ، ص۵۷۲، الحدیث: ۱۲۸(۱۱۳۰))

            البتہ صرف دس محرم کا روزہ نہ رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ آگے یا پیچھے ایک روزہ ملایا جائے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے مروی ہے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: عاشوراء کے دن کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو، عاشوراء کے دن سے پہلے یا بعد میں ایک دن کا روزہ رکھو۔ (مسند امام احمد، ۱ / ۵۱۸، الحدیث: ۲۱۵۴)

                اس سے معلوم ہواکہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرجوانعامِ الٰہی ہو اس کی یادگار قائم کرنا اور شکر بجا لاناسنت ہے اگرچہ کفار بھی اس یادگار کو قائم کرتے ہوں۔

2:51
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ(۵۱)
اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ فرمایا پھر اس کے پیچھے تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی اور تم ظالم تھے -(ف۸۷)

{وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً:اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا۔}اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں بنی اسرائیل  پر کی گئی جو نعمت بیان ہوئی ،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون اور فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کو لے کر مصر کی طرف لوٹے تو ان کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے تورات عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا اور اس کیلئے تیس دن اور پھر دس دن کا اضافہ کرکے چالیس دن کی مدت مقرر ہوئی جیسا کہ سورۂ اعراف آیت 142میں ہے۔ان چالیس دنوں میں ذوالقعدہ کا پورا مہینہ اور دس دن ذوالحجہ کے شامل تھے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم پر حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنانائب بنا کر تورات حاصل کرنے کوہ طور پر تشریف لے گئے، چالیس دن رات وہاں ٹھہرے اور اس عرصہ میں کسی سے بات چیت نہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے تختیوں پر تحریری صورت میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تورات عطافرمائی ۔

            دوسری طرف سامری نے جواہرات سے مزین سونے کا ایک بچھڑا بنا کر قوم سے کہا کہ یہ تمہارا معبود ہے۔ وہ لوگ ایک مہینے تک حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا انتظار کرنے کے بعدسامری کے بہکانے سے بچھڑے کی پوجا کرنے لگے،ان پوجا کرنے والوں میں تمام بنی اسرائیل شامل تھے، صرف حضرت ہارونعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور آپ کے بارہ ہزارساتھی اِس شرک سے دور و نفور رہے ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام واپس تشریف لائے تو قوم کی حالت دیکھ کر انہیں تنبیہ کی اور انہیں ان کے گناہ کا کفارہ بتایا،چنانچہ جب انہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ۔ ان مُرتَد ہونے والوں کی توبہ کا بیان آیت نمبر53کے بعد آرہا ہے۔

2:52
ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۵۲)
پھر اس کے بعد ہم نے تمہیں معافی دی (ف۸۸) کہ کہیں تم احسان مانو -(ف۸۹)

اس آیت کی تفسیر گزشتہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔
2:53
وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)
اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں تمیز کردینا کہ کہیں تم راہ آؤ -

{اَلْفُرْقَانَ: فرق کرنا۔} فرقان کے کئی معانی کئے گئے ہیں : (1) فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔ (2)کفر وایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور ید ِبیضاء وغیرہ۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۵۲)

2:54
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْۤا اِلٰى بَارِىٕكُمْ فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىٕكُمْؕ فَتَابَ عَلَیْكُمْؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۵۴)
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم تم نے بچھڑا بناکر اپنی جانوں پر ظلم کیا تو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع لاؤ تو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کردو (ف۹۰) یہ تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک تمہارے لیے بہتر ہے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان -(ف ۹۱)

{فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ:کہ تم اپنے لوگوں کو قتل کرو۔}بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجنے کے گناہ سے یوں معافی ملی کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا: تمہاری توبہ کی صورت یہ ہے کہ جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی ہے وہ پوجا کرنے والوں کو قتل کریں اور مجرم راضی خوشی سکون کے ساتھ قتل ہوجائیں۔وہ لوگ اس پر راضی ہوگئے اورصبح سے شام تک ستر ہزار قتل ہوگئے، تب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گڑگڑاتے ہوئے بارگاہِ حق میں ان کی معافی کی التجاء کی۔ اس پر وحی آئی کہ جو قتل ہوچکے وہ شہید ہوئے اور باقی بخش دئیے گئے، قاتل و مقتول سب جنتی ہیں۔(تفسیر عزیزی(مترجم)، البقرۃ، تحت الآیۃ:۵۴،۱ / ۴۳۹-۴۴۲، ملخصاً)

مرتد کی سزا قتل کیوں ہے؟

اس آیت سے معلوم ہوا کہ شرک کرنے سے مسلمان مرتد ہوجاتا ہے اور مرتد کی سزا قتل ہے کیونکہ یہ اللہ  تعالیٰ سے بغاوت کر رہا ہے اور جو اللہ  تعالیٰ کا باغی ہو اسے قتل کر دینا ہی حکمت اور مصلحت کے عین مطابق ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں یہ قانون نافذ ہے کہ جو ا س ملک کے بادشاہ سے بغاوت کرے اسے قتل کر دیا جائے ۔ اس قانون کو انسانیت کے تمام علمبردار تسلیم کرتے ہیں اور اس کے خلاف کسی طرح کی کوئی آواز بلند نہیں کرتے ،جب دنیوی بادشاہ کے باغی کو قتل کر دینا انسانیت پر ظلم نہیں تو جو سب بادشاہوں کے بادشاہ اللہ تعالیٰ کا باغی ہو جائے اسے قتل کر دیاجانا کس طرح ظلم ہو سکتا ہے۔

بنی اسرائیل پر اللہ  تعالیٰ کا فضل:

بچھڑا بنا کر پوجنے میں بنی اسرائیل کے کئی جرم تھے:

(1) …مجسمہ سازی جو حرام ہے۔

(2)…حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی۔

 (3)…بچھڑے کی پوجا کرکے مشرک ہوجانا ۔

یہ ظلم آلِ فرعون کے مظالم سے بھی زیادہ شدید ہیں کیونکہ یہ افعال ان سے بعد ِ ایمان سرزد ہوئے، اس وجہ سے وہ مستحق تو اس کے تھے کہ عذابِ الہٰی انہیں مہلت نہ دے اور فی الفور ہلاک کرکے کفر پر ان کا خاتمہ کردے لیکن حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے طفیل انہیں توبہ کا موقع دیا گیا، یہ اللہ  تعالیٰ کابڑا فضل ہے اور یہ قتل ان کے لیے کفارہ تھا۔

2:55
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ(۵۵)
اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ لائیں گے جب تک اعلانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہیں کڑک نے آلیا اور تم دیکھ رہے تھے ۔

{لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ:ہم ہرگز تمہارا یقین نہ کریں گے۔ }جب بنی اسرائیل نے توبہ کی اور کفارے میں اپنی جانیں بھی دیدیں تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں اِس گناہ کی معذرت پیش کرنے کیلئے حاضر کریں چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان میں سے ستر آدمی منتخب کرکے طور پر لے گئے، وہاں جاکر وہ کہنے لگے: اے موسیٰ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ہم آپ کا یقین نہ کریں گے جب تک خدا کو علانیہ نہ دیکھ لیں ، اس پر آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی جس کی ہیبت سے وہ سب مر گئے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گڑگڑا کر بارگاہِ الہٰی میں عرض کی کہ میں بنی اسرائیل کو کیا جواب دوں گا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان ستر افراد کوزندہ فرمادیا۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۱ / ۸۰، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۱ / ۵۱۹، ملتقطاً)

انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عظمت:

            اس واقعہ سے شانِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی ظاہر ہوئی کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے ’’ہم آپ کا یقین نہیں کریں گے ‘‘ کہنے کی شامت میں بنی اسرائیل ہلاک کئے گئے اور اسی سے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے والوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جناب میں ترکِ ادب غضب الٰہی کا باعث ہوتا ہے لہٰذا اس سے ڈرتے رہیں۔اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ  تعالیٰ اپنے مقبولانِ بارگاہ کی دعا سے مردے بھی زندہ فرمادیتا ہے۔

2:56
ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۵۶)
پھر مرے پیچھے ہم نے تمہیں زندہ کیا کہ کہیں تم احسان مانو-

اس آیت کی تفسیر گزشتہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔
2:57
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ-كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْؕ-وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۵۷)
اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا (ف۹۲) اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں (ف۹۳) اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے-(ف۹۴) اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ -

{وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ:اور ہم نے تمہارے اوپر بادل کو سایہ بنا دیا ۔} فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل دوبارہ مصر میں آباد ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں حکمِ الہٰی سنایا کہ ملک ِشام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی اولاد کا مدفن ہے اوراسی میں بیت المقدس ہے، اُسے عمالِقہ قبیلے سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کرو اور مصر چھوڑ کر وہیں وطن بناؤ۔ مصر کا چھوڑنا بنی اسرائیل کیلئے بڑا تکلیف دہ تھا۔ شروع میں تو انہوں نے ٹال مٹول کی لیکن جب مجبور ہوکر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی مَعِیَّت میں روانہ ہونا ہی پڑا توراستے میں جو کوئی سختی اور دشواری پیش آتی توحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے شکایتیں کرتے۔ جب اُس صحرا میں پہنچے جہاں نہ سبزہ تھا، نہ سایہ اور نہ غلہ ،تو وہاں پہنچ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دھوپ کی، گرمی اور بھوک کی شکایت کرنے لگے۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے اُس دعا کی برکت سے ایک سفید بادل کو ان پر سائبان بنادیا جو رات دن ان کے ساتھ چلتا اوران پر ایک نوری ستون نازل فرمایا جو کہ آسمان کی جانب سے ان کے قریب ہو گیا اور ان کے ساتھ چلتا اورجب رات کے وقت چاند کی روشنی نہ ہوتی تووہ ان کے لئے چاند کی طرح روشن ہوتا۔ ان کے کپڑے میلے اور پرانے نہ ہوتے، ناخن اور بال نہ بڑھتے۔(تفسیر جمل ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۱ / ۸۱، روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۱ / ۱۴۱-۱۴۲)

{وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى   :اور تم پر من اور سلویٰ اتارا ۔} اُس صحرا میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی برکت سے ان کے کھانے کا انتظام یوں ہوا کہ انہیں مَن و سَلْویٰ ملنا شروع ہوگیا۔من و سلویٰ کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں : ’’من‘‘ کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ یہ ترنجبین کی طرح ایک میٹھی چیز تھی جو روزانہ صبح صادق سے طلوع آفتاب تک ہر شخص کے لیے ایک صاع(یعنی تقریباً چار کلو) کی بقدر اترتی اور لوگ اس کو چادروں میں لے کر دن بھر کھاتے رہتے۔ بعض مفسرین کے نزدیک ’’من ‘‘ سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جو اللہ  تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کسی مشقت اور کاشتکاری کے بغیر عطا کر کے ان پر احسان فرمایا۔’’سلویٰ‘‘ کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ یہ ایک چھوٹا پرندہ تھا، اور اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ پرندہ بھنا ہو ابنی اسرائیل کے پاس آتا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ جنوبی ہوا اس پرندے کو لاتی اور بنی اسرائیل اس کا شکار کر کے کھاتے۔ یہ دونوں چیزیں ہفتے کوبالکل نہ آتیں ،باقی ہر روز پہنچتیں ، جمعہ کودگنی آتیں اور حکم یہ تھا کہ جمعہ کو ہفتے کے لیے بھی جمع کرلو مگر ایک دن سے زیادہ کا جمع نہ کرو۔ بنی اسرائیل نے ان نعمتوں کی ناشکری کی اورذخیرے جمع کیے، وہ سڑ گئے اور ان کی آمد بند کردی گئی۔ یہ انہوں نے اپنا ہی نقصان کیا کہ دنیا میں نعمت سے محروم ہوئے اور آخرت میں سزاکے مستحق ہوئے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۷،۱ / ۵۶، روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۱ / ۱۴۲)

2:58
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْؕ-وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ(۵۸)
پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازہ میں سجدہ کرتے داخل ہو (ف۹۵) اور کہو ہمارے گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور قریب ہے کہ نیکی والوں کو اور زیادہ دیں- (ف۹۶)

{وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ:اور جب ہم نے کہا اس شہر میں داخل ہوجاؤ۔ }اس شہر سے ’’بیتُ المقدس‘‘ مراد ہے یااَرِیحا جو بیت المقدس کے قریب ہے جس میں عمالقہ آباد تھے اور وہ اسے خالی کر گئے تھے ،وہاں غلے میوے بکثرت تھے ۔اس بستی کے دروازے میں داخل ہونے کا فرمایا گیا اور یہ دروازہ ان کے لیے کعبہ کی طرح تھا اور اس میں داخل ہونا اور اس کی طرف سجدہ کرنا گناہوں کی معافی کا سبب تھا ۔ بنی اسرائیل کو حکم یہ تھا کہ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور زبان سے ’’حِطَّةٌ‘‘ کہتے جائیں (یہ کلمہ استغفار تھا۔) انہوں نے دونوں حکموں کی مخالفت کی اورسجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کی بجائے سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور توبہ و استغفار کا کلمہ پڑھنے کی بجائے مذاق کے طور پر’’حَبَّۃٌ فِی شَعْرۃٍ ‘‘ کہنے لگے جس کا معنیٰ تھا: بال میں دانہ۔ اس مذاق اور نافرمانی کی سزا میں ان پر طاعون مسلط کیا گیا جس سے ہزاروں اسرائیلی ہلاک ہو گئے ۔(تفسیرخازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۸،۱ / ۵۶، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۵۳، تفسیر عزیزی (مترجم)،۱ / ۴۵۶-۴۵۷، ملتقطاً)

2:59
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۠(۵۹)
تو ظالموں نے اور بات بدل دی جو فرمائی گئی تھی اس کے سوا (ف۹۷) تو ہم نے آسمان سے ان پر عذاب اتارا (ف۹۸) بدلہ ان کی بے حکمی کا۔

{فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ:تو ہم نے آسمان سے ان ظالموں پر عذاب نازل کردیا۔ }بنی اسرائیل پر طاعون کا عذاب مسلط کیا گیا اور اس کی وجہ سے ایک ساعت میں ان کے70,000افراد ہلاک ہو گئے تھے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۹،۱ / ۵۶)

طاعون کے بارے میں 3احادیث:

یہاں طاعون کا ذکر ہوا،اس مناسبت سے طاعون سے متعلق 3احادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’بے شک یہ طاعون ایک عذاب ہے جسے تم سے پہلے لوگوں پر مسلط کیا گیا تھا لہٰذا جب کسی جگہ طاعون ہو(اور تم وہاں موجود ہو) تو تم طاعون سے بھاگ کر وہاں سے نہ نکلو اور جب کسی جگہ طاعون ہو تو تم وہاں نہ جاؤ۔(مسلم، کتاب السلام، باب الطاعون والطیرۃ والکھانۃ ونحوہا، ص۱۲۱۶، الحدیث: ۹۴-۹۵(۲۲۱۸))

(2)…ایک اور روایت میں ہے ،نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’طاعون پچھلی امتوں کے عذاب کابقیہ ہے جب تمہارے شہر میں طاعون واقع ہو تو وہاں سے نہ بھاگو اوردوسرے شہر میں واقع ہو تو وہاں نہ جاؤ ۔(مسلم، کتاب السلام، باب الطاعون والطیرۃ والکھانۃ ونحوہا، ص۱۲۱۷، الحدیث: ۹۷(۲۲۱۸))

(3)…ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :میں نے رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے طاعون کے بارے میں عرض کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ طاعون ایک عذاب ہے ،اللہ  تعالیٰ جس پر چاہتا ہے یہ عذاب بھیج دیتا ہے اور اللہ  تعالیٰ نے اسے اہل ایمان کے لئے رحمت بنایا ہے،کوئی مومن ایسا نہیں جو طاعون میں پھنس جائے لیکن اپنے شہر ہی میں صبر سے ٹھہرا رہے اور یہ سمجھے کہ جو اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے اس کے سوا کوئی تکلیف مجھے نہیں پہنچ سکتی ،تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء،۵۶ باب،۲ / ۴۶۸، الحدیث: ۳۴۷۴)

2:60
وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْؕ-كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۶۰)
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے (ف۹۹) ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیؤ خدا کا دیا (ف۱۰۰) اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو(ف۱۰۱)

{وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ:اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا ۔}جب میدانِ تِیَہ میں بنی اسرائیل نے پانی نہ پایا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی خدمت میں فریاد کی ۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو،چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عصا مارا تو ا س پتھر سے پانی کے بارہ چشمے جاری ہوگئے اور بنی اسرائیل کے بارہ گروہوں نے اپنے اپنے گھاٹ کو پہچان لیا۔

انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر:

            یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ پتھر سے چشمہ جاری کرنا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا عظیم معجزہ تھا جبکہ ہمارے آقا، حضور سید المُرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری فرمائے اور یہ اس سے بھی بڑھ کر معجزہ تھا۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکا یہ معجزہ کہ وہ پتھر سے پانی رواں فرما دیتے اور پتھر سے چشمہ برآمد کرتے تو ہمارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی انگشت ہائے مبارک سے چشمہ جاری فرما دیا۔پتھر تو زمین ہی کی جنس سے ہے اور اس سے چشمے بہا کرتے ہیں لیکن اس کے برخلاف گوشت پوست سے پانی کا چشمہ جاری کرنا حد درجہ عظیم ہے۔(مدارج النبوۃ، باب پنجم درذکر فضائل وی صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۱۱۰)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کیاخوب فرماتے ہیں:

انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر

ندیاں پنج آب رحمت کی ہیں جاری واہ واہ

انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مدد طلب کرنے کا ثبوت:

          اس آیت میں لوگوں کا انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں استعانت کرنے اور انبیاء ِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ان کی مشکل کشائی فرمانے کا ثبوت بھی ہے۔تاجدار رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سیرت مبارکہ میں ایسے کئی واقعات ہیں جن میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حاضر ہو کر لوگوں نے اپنی مشکلات عرض کیں اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان کی مشکل کشائی فرمائی ،ان میں سے دو واقعات درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں (میرے والد) حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُوفات پا گئے اور ان پر قرض تھا ’’ فَاسْتَعَنْتُ النَّبِیَّصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی غُرَمَائِہٖ اَنْ یَضَعُوْا مِنْ دَیْنِہٖ‘‘تو میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے ان کے قرض خواہوں سے متعلق مدد طلب کی کہ وہ ان کاقرضہ کچھ کم کر دیں۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ا س بارے میں ان سے بات کی تو انہوں نے ایسا نہ کیا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھ سے ارشاد فرمایا:تم جاؤ اور ہر قسم کی کھجوروں کی الگ الگ ڈھیریاں بنا ؤ اور پھر مجھے پیغام بھیج دینا۔ حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہ  فرماتے ہیں : میں نے ڈھیریاں بنادیں اور بارگاہ رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں پیغام بھیج دیا ،آپ ان ڈھیریوں کے پاس تشریف فرما ہو گئے اور ارشادفرمایا:تم ماپ کر لوگوں کو دیتے جاؤ۔میں نے کھجوریں ماپ کر لوگوں کو دینا شروع کر دیں یہاں تک کہ سب کا قرضہ اتر گیا اور میری کھجوریں ایسے لگ رہی تھیں جیسے ان میں سے ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی۔(بخاری،کتاب البیوع، باب الکیل علی البائع والمعطی،۲ / ۲۶، الحدیث: ۲۱۲۷)

(2)… حضرت سالم بن ابی جعدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کرتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سامنے چمڑے کا ایک تھیلا تھا جس (میں موجود پانی) سے وضو فرما رہے تھے۔صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے گرد حلقہ ڈال کر کھڑے ہو گئے تو آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’کیا بات ہے؟صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یارسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہمارے پاس پانی نہیں ہے جس سے ہم وضو کریں اور اسے پی سکیں ،صرف وہی پانی ہے جو آپ کے سامنے موجود ہے۔حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنا دست مبارک اس تھیلے میں رکھ دیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک انگلیوں سے پانی چشموں کی طرح جوش مارنے لگا،پھر ہم نے پانی پیا اور وضو بھی کیا۔ حضرت سالم بن ابی جعدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا:آپ اس وقت کل کتنے آدمی تھے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا:اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمیں کفایت کر جاتا لیکن ہم اس وقت صرف 1500 تھے۔(بخاری،کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲ / ۴۹۳-۴۹۴، الحدیث: ۳۵۷۶)

            انسانوں کے علاوہ حیوانات نے بھی اپنی تکالیف عرض کیں تو حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کی تکالیف دور فرمائیں اور جمادات نے بھی اپنی مرادیں عرض کیں توسرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کی مرادیں بھی پوری فرمائیں جیساکہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :

یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد، ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد

ہاں اِسی در پر شترانِ ناشاد گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں

 { كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا:کھاؤ اور پیو۔} حضرت  موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم سے فرمایا گیا کہ آسمانی طعام مَن و سَلْوٰی کھاؤاور اس پتھر کے چشموں کا پانی پیو جو تمہیں فضل الہٰی سے بغیر محنت کے میسر ہے اوراس بات کا خیال رکھو کہ فتنہ و فساد سے بچو اور گناہوں میں نہ پڑو۔ ہر امت کو یہی حکم تھا کہ اللہتعالیٰ کا رزق کھاؤ لیکن فساد نہ پھیلاؤ۔ یعنی رزق کے استعمال سے منع نہیں فرمایا بلکہ حرام کمانے، حرام کھانے، کھاکر خدا کی ناشکری و نافرمانی سے منع کیا گیا ہے۔

2:61
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِ جْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَ قِثَّآىٕهَا وَ فُوْمِهَا وَ عَدَسِهَا وَ بَصَلِهَاؕ-قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ هُوَ اَدْنٰى بِالَّذِیْ هُوَ خَیْرٌؕ-اِهْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْؕ-وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُۗ-وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۠(۶۱)
اور جب تم نے کہا اے موسیٰ (ف۱۰۲) ہم سے تو ایک کھانے پر (ف۱۰۳) ہرگز صبر نہ ہوگا تو آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہمارے لئے نکالے کچھ ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز فرمایا کیا ادنیٰ چیز کو بہتر کے بدلے مانگتے ہو (ف۱۰۴) اچھا مصر (ف۱۰۵) یا کسی شہر میں اترو وہاں تمہیں ملے گا جو تم نے مانگا (ف۱۰۶) اور ان پر مقرر کردی گئی خواری اور ناداری (ف۱۰۷) اور خدا کے غضب میں لوٹے (ف۱۰۸) یہ بدلہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور انبیاء کو ناحق شہید کرتے (ف۱۰۹) یہ بدلہ تھا ان کی نافرمانیوں اور حد سے بڑھنے کا-

{لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ:ہم ایک کھانے پر ہرگز صبر نہیں کریں گے۔} بعض لوگوں کی طبیعت میں کم ہمتی، نالائقی اور نیچ پن ہوتا ہے ۔ آپ انہیں پکڑ کر بھی اوپر کرنا چاہیں تو وہ کم تر اور نیچے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے لوگ عموما زندگی کی لذتوں اور نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ بلند ہمت اور بہتر سے بہتر کے طالب ہی خالق و مخلوق کے ہاں پسندیدہ ہوتے ہیں۔بنی اسرائیل پر نعمتوں کے ذکر کے بعد یہاں سے ان کی کم ہمتی اور نالائقی ونافرمانی کے کچھ واقعات بیان فرمائے جاتے ہیں۔ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے: بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مطالبہ کیا کہ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے، آپ دعا کریں کہ ہمیں زمین کی ترکاریاں اور دالیں وغیرہ ملیں۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے انہیں سمجھایا کہ تمہیں اتنا اچھا کھانا بغیر محنت کے مل رہا ہے ، کیا اس کی جگہ ادنیٰ قسم کا کھانا لینا چاہتے ہو؟ لیکن جب وہ نہ مانے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی۔ اِس پر حکم ہوا کہ اے بنی اسرائیل!اگر تمہارایہی مطالبہ ہے تو پھر مصرجاؤ وہاں تمہیں وہ چیزیں ملیں گی جن کا تم مطالبہ کررہے ہو۔ مصر سے مراد یا توملک ِمصر یا مطلقا کوئی بھی شہرہے۔

بڑوں سے نسبت رکھنے والے کو کیا کرنا چاہئے:

           یہاں اس بات کا خیال رکھیں کہ ساگ ککڑی وغیرہ جو چیزیں بنی اسرائیل نے مانگیں ان کا مطالبہ گناہ نہ تھا لیکن ’’ مَن وسلوٰی‘‘ جیسی نعمت بے محنت چھوڑ کر ان کی طرف مائل ہونا پست خیالی ہے۔ ہمیشہ ان لوگوں کا میلانِ طبع پستی ہی کی طرف رہا اور حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامایسے جلیل القدر، بلند ہمت انبیاء کے بعد توبنی اسرائیل کے نیچ پن اور کم حوصلگی کا پورا ظہور ہوا۔ جب بڑوں سے نسبت ہو تو دل و دماغ اور سوچ بھی بڑی بنانی چاہئے اور مسلمانوں کو تو بنی اسرائیل سے زیادہ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ  ان کی نسبت سب سے بڑی ہے۔

{ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ:ان پر ذلت و غربت مسلط کردی گئی۔} یعنی یہودیوں پر ان کے گھٹیا کردار کی وجہ سے ذلت و غربت مسلط کردی گئی۔ ان پر غضب ِ الٰہی کی صورت یہ ہوئی کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور صلحاء کی بدولت جورتبے انہیں حاصل ہوئے تھے وہ ان سے محروم ہوگئے، اس غضب کا باعث صرف یہی نہیں تھا کہ انہوں نے آسمانی غذاؤں کے بدلے زمینی پیداوار کی خواہش کی یا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں اُسی طرح کی اور خطائیں کیں بلکہ عہدِ نبوت سے دور ہونے اور زمانہ دراز گزرنے سے ان کی دینی صلاحیتیں باطل ہوگئیں ، اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کا راستہ اختیار کیا، انہوں نے حضرت زکریا، حضرت یحیٰ اور حضرت شعیاعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا اور ایسا ناحق قتل کیا کہ اس کی وجہ خود یہ قاتل بھی نہیں بتاسکتے، انہوں نے نافرمانی اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا۔ الغرض ان کے عظیم جرائم اور قبیح ترین افعال کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوئی، ان پر ذلت و غربت مسلط کی گئی اور وہ غضب ِ الٰہی کے مستحق ہوئے۔

بنی اسرائیل کی ذلت و غربت سے مسلمان بھی نصیحت حاصل کریں :

            بنی اسرائیل بلند مراتب پر فائز ہونے کے بعد جن وجوہات کی بنا پر ذلت و غربت کی گہری کھائی میں گرے، کاش ان وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے عبرت اور نصیحت کے لئے ایک مرتبہ مسلمان بھی اپنے اعمال و افعال کا جائز لے لیں اور اپنے ماضی و حال کا مشاہدہ کریں کہ جب تک مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے احکامات کی پیروی کو اپنا سب سے اہم مقصد بنائے رکھا اور ا س راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو جڑ سے اکھاڑ کر چھوڑا تب تک دنیا کے کونے کونے میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا رہا اور جب سے انہوں نے اللہ تعالیٰ اوراس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے احکامات سے نافرمانی اور سرکشی والا راستہ اختیار کیا تب سے دنیا بھر میں جو ذلت و رسوائی مسلمانوں کی ہوئی ہے اور ہو رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

2:62
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِـٕیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۶۲)
بیشک ایمان والے نیز یہودیوں اور نصرانیوں اور ستارہ پرستوں میں سے وہ کہ سچے دل سے اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائیں اور نیک کام کریں ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو اور نہ کچھ غم(ف۱۱۰)

{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ:اور یاد کروجب ہم نے تم سے عہد لیا۔}اس آیت میں یہودیوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ وقت یاد کرو کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ وہ توریت کومانیں گے اور اس پر عمل کریں گے لیکن پھر انہوں نے اس کے احکام کوبوجھ سمجھ کر قبول کرنے سے انکار کردیاحالانکہ انہوں نے خود بڑی التجاء کرکے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ایسی آسمانی کتاب کی درخواست کی تھی جس میں قوانینِ شریعت اور آئینِ عبادت مفصل مذکور ہوں اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان سے بار بار اس کے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کا عہد لیا تھا اور جب وہ کتاب عطا ہوئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور عہد پورا نہ کیا ۔ جب بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد توڑا تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے طور پہاڑ کو اٹھا کر ان کے سروں کے اوپر ہوا میں معلق کردیا اور حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا :تم یاتو عہد قبول کرلو ورنہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم کچل ڈالے جاؤ گے۔‘‘ اس میں صورۃً عہد پورا کرنے پر مجبور کرنا پایا جارہا ہے لیکن درحقیقت پہاڑ کا سروں پر معلق کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی قوی دلیل ہے جس سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ بے شک حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور ان کی اطاعت اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور یہ اطمینان ان کو ماننے اور عہد پورا کرنے کا اصل سبب ہے۔

 یاد رہے کہ دین قبول کرنے پر جبر نہیں کیا جاسکتا البتہ دین قبول کرنے کے بعد اس کے احکام پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ کسی کو اپنے ملک میں آنے پر حکومت مجبور نہیں کرتی لیکن جب کوئی ملک میں آجائے تو حکومت اسے قانون پر عمل کرنے پر ضرور مجبور کرے گی۔

احکامِ قرآن پر عمل کی ترغیب:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اللہ تعالیٰ کی کتابوں سے مقصود ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا ہے نہ فقط زبان سے بِالتَّرتیب ان کی تلاوت کرنا۔اس کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی بادشاہ اپنی سلطنت کے کسی حکمران کی طرف کوئی خط بھیجے اور اس میں حکم دے کہ فلاں فلاں شہر میں اس کے لئے ایک محل تعمیر کر دیا جائے اور جب وہ خط اس حکمران تک پہنچے تو وہ اس میں دئیے گئے حکم کے مطابق محل تعمیر نہ کرے البتہ اس خط کو روزانہ پڑھتا رہے ،تو جب بادشاہ وہاں پہنچے گا اور محل نہ پائے گا تو ظاہر ہے کہ وہ حکمران عتاب بلکہ سزا کا مستحق ہو گا کیونکہ اس نے بادشاہ کا حکم پڑھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا تو قرآن بھی اسی خط کی طرح ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ دین کے ارکان جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کی تعمیر کریں اور بندے فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہ کریں تو ان کا فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہنا حقیقی طور پر فائدہ مند نہیں۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۱۵۵، ملخصاً)

                یہی بات امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی متعدد جگہ ارشاد فرمائی ہے۔

2:63
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَؕ-خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(۶۳)
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا (ف۱۱۱) اور تم پر طور کو اونچا کیا (ف۱۱۲) لو جو کچھ ہم تم کو دیتے ہیں زور سے (ف۱۱۳) اور اس کے مضمون یاد کرو اس امید پر کہ تمہیں پرہیزگاری ملے-

اس آیت کی تفسیر گزشتہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔
2:64
ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَۚ-فَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ(۶۴)
پھر اس کے بعد تم پھر گئے تو اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم ٹوٹے والوں میں ہو جاتے -(ف۱۱۴)

{فَضْلُ اللّٰهِ: اللہ کا فضل۔}یہاں فضل و رحمت سے یا تو توبہ کی توفیق مراد ہے کہ انہیں توبہ کی توفیق مل گئی اور یا عذاب کومؤخر کرنا مراد ہے یعنی بنی اسرائیل پر عذاب نازل نہ ہوا بلکہ انہیں مزید مہلت دی گئی۔ (مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۵۶)

                 ایک قول یہ ہے کہ فضل ِ الٰہی اور رحمت ِحق سے حضور سرور عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ذات پاک مراد ہے معنی یہ ہیں کہ اگر تمہیں خاتم المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے وجود کی دولت نہ ملتی اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ہدایت نصیب نہ ہوتی تو تمہارا انجام ہلاک و خسران ہوتا۔(بیضاوی، البقرۃ،تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۳۳۶، روح المعانی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۳۸۲، ملتقطاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمخلوق پر اللہ تعالیٰ کا فضل بھی ہیں اور رحمت بھی ہیں۔

2:65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـٕیْنَۚ(۶۵)
اور بیشک ضرور تمہیں معلوم ہے تم میں کے وہ جنہوں نے ہفتہ میں سرکشی کی (ف۱۱۵) تو ہم نے ان سے فرمایا کہ ہوجاؤ بندر دھتکارے ہوئے -

{اَلَّذِیْنَ اعْتَدَوْا:جنہوں نے سرکشی کی۔}  شہر اَیْلَہ میں بنی اسرائیل آباد تھے انہیں حکم تھا کہ ہفتے کا دن عبادت کے لیے خاص کردیں اوراس روز شکار نہ کریں اور دنیاوی مشاغل ترک کردیں۔ ان کے ایک گروہ نے یہ چال چلی کہ وہ جمعہ کے دن شام کے وقت دریا کے کنارے کنارے بہت سے گڑھے کھودتے اور ہفتہ کے دن ان گڑھوں تک نالیاں بناتے جن کے ذریعہ پانی کے ساتھ آکر مچھلیاں گڑھوں میں قید ہوجاتیں اور اتوار کے دن انہیں نکالتے اور کہتے کہ ہم مچھلی کو پانی سے ہفتے کے دن تو نہیں نکالتے، یہ کہہ کر وہ اپنے دل کو تسلی دے لیتے۔ چالیس یا ستر سال تک ان کا یہی عمل رہا اور جب حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کازمانہ آیا توآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں اس سے منع کیااور فرمایا کہ قید کرنا ہی شکار ہے جو تم ہفتے ہی کو کر رہے ہو۔ جب وہ باز نہ آئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان پر لعنت فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بندروں کی شکل میں مسخ کردیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ نوجوان بندروں کی شکل میں اور بوڑھے خنزیروں کی شکل میں مسخ ہوگئے، ان کی عقل اور حواس تو باقی رہے مگر قوت گویائی زائل ہوگئی اور بدنوں سے بدبو نکلنے لگی، وہ اپنے اس حال پر روتے رہے یہاں تک کہ تین دن میں سب ہلاک ہوگئے، ان کی نسل باقی نہ رہی اور یہ لوگ ستر ہزار کے قریب تھے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶۵، ۱ / ۱۵۶-۱۵۷، تفسیر عزیزی (مترجم)، ۲ / ۴۹۲-۴۹۴، ملتقطاً)

            اس واقعہ کی مزید تفصیل سورۂ اعراف کی آیت 163تا 166 میں آئے گی۔

حیلہ کرنے کا حکم:

          یاد رہے کہ حکم ِشرعی کو باطل کرنے کیلئے حیلہ کرنا حرام ہے جیسا کہ یہاں مذکور ہوا اور حکمِ شرعی کو کسی دوسرے شرعی طریقے سے حاصل کرنے کیلئے حیلہ کرنا جائز ہے جیسا کہ قرآن پاک میں حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اس طرح کا عمل سورۂ ص آیت44میں مذکور ہے۔

2:66
فَجَعَلْنٰهَا نَكَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهَا وَ مَا خَلْفَهَا وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ(۶۶)
تو ہم نے (اس بستی کا) یہ واقعہ اس کے آگے اور پیچھے والوں کے لیے عبرت کردیا اور پرہیزگاروں کے لیے نصیحت-

{نَكَالًا: عبرت۔ }اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک میں عذاب کے واقعات ہماری عبرت و نصیحت کیلئے بیان کئے گئے ہیں لہٰذا قرآن پاک کے حقوق میں سے ہے کہ اس طرح کے واقعات و آیات پڑھ کر اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ کی جائے۔

2:67
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًاؕ-قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(۶۷)
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو (ف۱۱۶) بولے کہ آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں (ف۱۱۷) فرمایا خدا کی پناہ کہ میں جاہلوں سے ہوں-(ف۱۱۸)

{وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى: اور جب موسیٰ نے فرمایا۔}ان آیات میں یہودیوں  کو جو واقعہ یاد دلایا جا رہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک مالدار شخص عامیل کو اس کے عزیز نے خفیہ طور پر قتل کر کے دوسرے محلہ میں ڈال دیا تا کہ اس کی میراث بھی لے اور خون بہا بھی اور پھر دعویٰ کر دیا کہ مجھے خون بہا دلوایا جائے۔ قاتل کا پتہ نہ چلتا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے درخواست کی کہ آپ دعا فرمائیں کہ اللہ  تعالیٰ حقیقت حال ظاہر فرمائے، اس پر حکم ہوا کہ ایک گائے ذبح کرکے اس کا کوئی حصہ مقتول کے ماریں ، وہ زندہ ہو کر قاتل کے بارے میں بتادے گا۔ لوگوں نے حیرانی سے کہا کہ کیا آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہم سے مذاق کررہے ہیں کیونکہ مقتول کا حال معلوم ہونے اور گائے کے ذبح کرنے میں کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی۔ اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے جواب دیا، ’’میں اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں مذاق کر کے جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔  جب بنی اسرائیل نے سمجھ لیا کہ گائے کا ذبح کرنا مذاق نہیں بلکہ باقاعدہ حکم ہے تو انہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے اس کے اوصاف دریافت کیے اور بار بار سوال کرکے وہ لوگ قیدیں بڑھاتے گئے اور بالآخر یہ حکم ہوا کہ ایسی گائے ذبح کرو جو نہ بوڑھی ہو اور نہ بہت کم عمر بلکہ درمیانی عمر کی ہو، بدن پر کوئی داغ نہ ہو، ایک ہی رنگ کی ہو، رنگ آنکھوں کو بھانے والا ہو، اس گائے نے کبھی کھیتی باڑی کی ہو نہ کبھی کھیتی کو پانی دیا ہو۔ آخری سوال میں انہوں نے کہا کہ اب ہم ان شآء اللہ راہ پالیں گے۔ بہر حال جب سب کچھ طے ہوگیا تو ان کی تسلی ہوگئی پھر انہوں نے گائے کی تلاش شروع کر دی۔

             ان کے اطراف میں ایسی صرف ایک گائے تھی، اس کا حال یہ تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک صالح شخص تھے ان کا ایک چھوٹا بچہ تھا اور ان کے پاس ایک گائے کے بچے کے علاوہ اور کچھ نہ رہا تھا، انہوں نے اس کی گردن پر مہر لگا کر اللہ تعالیٰ کے نام پر چھوڑ دیا اور بارگاہِ حق میں عرض کی: یارب! عَزَّوَجَلَّ میں اس بچھیا کو اس فرزند کے لیے تیرے پاس ودیعت رکھتا ہوں تاکہ جب یہ فرزند بڑا ہو تویہ اس کے کام آئے۔ اس نیک شخص کا تو انتقال ہوگیا لیکن وہ بچھیا جنگل میں اللہ تعالیٰ کی حفا ظت میں پرورش پاتی رہی، یہ لڑکا جب بڑا ہوا تو صالح ومتقی بنا اور ماں کا فرمانبردار تھا۔ ایک دن اس کی والدہ نے کہا: اے نورِ نظر! تیرے باپ نے تیرے لئے فلاں جنگل میں خدا کے نام ایک بچھیا چھوڑی تھی وہ اب جوان ہوگئی ہوگی، اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تجھے عطا فرمائے اورتو اسے جنگل سے لے آ۔ لڑکا جنگل میں گیا اور اس نے گائے کو جنگل میں دیکھا اوروالدہ کی بتائی ہوئی علامتیں اس میں پائیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر بلایا تووہ حاضر ہوگئی۔ وہ جوان اس گائے کو والدہ کی خدمت میں لایا۔ والدہ نے بازار میں لے جا کر تین دینار پر فروخت کرنےکا حکم دیا اور یہ شرط کی کہ سودا ہونے پر پھر اس کی اجازت حاصل کی جائے، اس زمانہ میں گائے کی قیمت ان اطراف میں تین دینار ہی تھی۔ جوان جب اس گائے کو بازار میں لایا تو ایک فرشتہ خریدار کی صورت میں آیا اور اس نے گائے کی قیمت چھ دینار لگادی مگر یہ شرط رکھی کہ جوان اپنی والدہ سے اجازت نہیں لے گا۔ جوان نے یہ منظور نہ کیا اور والدہ سے تمام قصہ کہا، اس کی والدہ نے چھ دینار قیمت منظور کرنے کی تو اجازت دی مگر بیچنے میں پھر دوبارہ اپنی مرضی دریافت کرنے کی شرط لگادی۔ جوان پھر بازار میں آیا، اس مرتبہ فرشتہ نے بارہ دینار قیمت لگائی اور کہا کہ والدہ کی اجازت پر موقوف نہ رکھو۔ جو ان نے نہ مانا اور والدہ کو اطلاع دی وہ صاحب فراست عورت سمجھ گئی کہ یہ خریدار نہیں کوئی فرشتہ ہے جو آزمائش کے لیے آتا ہے۔ بیٹے سے کہا کہ اب کی مرتبہ اس خریدار سے یہ کہنا کہ آپ ہمیں اس گائے کے فروخت کرنے کا حکم دیتے ہیں یا نہیں ؟ لڑکے نے یہی کہا توفرشتے نے جواب دیا کہ ابھی اس کو روکے رہو، جب بنی اسرائیل خریدنے آئیں تو اس کی قیمت یہ مقرر کرنا کہ اس کی کھال میں سونا بھر دیا جائے۔ جوان گائے کو گھر لایا اور جب بنی اسرائیل جستجو کرتے ہوئے اس کے مکان پر پہنچے تو یہی قیمت طے کی اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی ضمانت پر وہ گائے بنی اسرائیل کے سپرد کی۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶۷، ۱ / ۶۰-۶۱)

گائے ذبح کرنے والے واقعہ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس واقعہ سے کئی چیزیں معلوم ہوئیں :

(1)… نبی کے فرمان پر بغیر ہچکچاہٹ عمل کرنا چاہیے اور عمل کرنے کی بجائے عقلی ڈھکوسلے بنانا بے ادبوں کا کام ہے۔

(2)… پیغمبر جھوٹ، دل لگی اورکسی کا مذاق اڑانا وغیرہ عیبوں سے پاک ہیں البتہ خوش طبعی ایک محمود صفت ہے یہ ان  میں پائی جا سکتی ہے۔

(3)… شرعی احکامات سے متعلق بے جا بحث مشقت کا سبب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر بنی اسرائیل بحث نہ نکالتے تو جو گائے ذبح کردیتے وہی کافی ہوجاتی۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۰، ۱ / ۱۸۹)

(4)…اِنْ شَآءَ اللہ  کہنے کی بہت برکت ہے۔ حضورپرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اگر بنی اسرائیل وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ نہ کہتے تو کبھی وہ گائے نہ پاتے۔  (کشف الخفاء، حرف الشین المعجمۃ، ۲ / ۷، رقم: ۱۵۲۸)

(5)… جو اپنے عیال کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرے اللہ تعالیٰ اس کی عمدہ پرورش فرماتا ہے۔

 (6)… جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر اس کی امانت میں دے اللہ تعالیٰ اس میں برکت دیتا ہے۔

(7)… والدین کی فرمانبرداری اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔

(8)… ماں باپ کی خدمت و اطاعت کرنے والوں کو دونوں جہانوں میں ملتا ہے۔

2:68
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ ؕ-قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِكْرٌؕ-عَوَانٌۢ بَیْنَ ذٰلِكَؕ-فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ(۶۸)
بولے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں بتادے گائے کیسی کہا وہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے نہ بوڑھی اور نہ اَدسر بلکہ ان دونوں کے بیچ میں تو کرو جس کا تمہیں حکم ہوتا ہے،

اس آیت کی تفسیر گزشتہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔
2:69
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَاؕ-قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُۙ-فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ(۶۹)
بولے اپنے رب سے دعا کیجئے ہمیں بتادے اس کا رنگ کیا ہے کہا وہ فرماتا ہے وہ ایک پیلی گائے ہے جس کی رنگت ڈہڈہاتی دیکھنے والوں کو خوشی دیتی،

اس آیت کی تفسیر گزشتہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔
2:70
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَۙ-اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَیْنَاؕ-وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ(۷۰)
بولے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمارے لیے صاف بیان کردے وہ گائے کیسی ہے بیشک گائیوں میں ہم کو شبہ پڑگیا اور اللہ چاہے تو ہم راہ پا جائیں گے -(ف۱۱۹)

اس آیت کی تفسیر گزشتہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔
2:71
قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِی الْحَرْثَۚ-مُسَلَّمَةٌ لَّا شِیَةَ فِیْهَاؕ-قَالُوا الْـٰٔنَ جِئْتَ بِالْحَقِّؕ-فَذَبَحُوْهَا وَ مَا كَادُوْا یَفْعَلُوْنَ۠(۷۱)
کہا وہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی کہ زمین جوتے اور نہ کھیتی کو پانی دے بے عیب ہے جس میں کوئی داغ نہیں بولے اب آپ ٹھیک بات لائے (ف ۱۲۰) تو اسے ذبح کیا اور (ذبح) کرتے معلوم نہ ہوتے تھے(ف۱۲۱)

{وَ مَا كَادُوْا یَفْعَلُوْنَ: اور وہ ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔} بنی اسرائیل کے مسلسل سوالات اور اپنی رسوائی کے اندیشہ اور گائے کی گرانی قیمت سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ذبح کرنے کا قصد نہیں رکھتے مگر جب ان کے سوالات شافی جوابوں سے ختم کردیئے گئے تو انہیں ذبح کرنا ہی پڑا۔

2:72
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَاؕ-وَ اللّٰهُ مُخْرِ جٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ(۷۲)
اور جب تم نے ایک خون کیا تو ایک دوسرے پر اس کی تہمت ڈالنے لگے اور اللہ کو ظاہر کرنا تھا جو تم چھپاتے تھے،

{وَ اِذْ قَتَلْتُمْ: اورجب تم نے قتل کیا۔} یہاں اسی پہلے قتل کا بیان ہے جس کا اوپر واقعہ گزرا۔
2:73
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَاؕ-كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰىۙ-وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(۷۳)
تو ہم نے فرمایا اس مقتول کو اس گائے کا ایک ٹکڑا مارو (ف۱۲۲) اللہ یونہی مرُدے جلائے گا۔ اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ کہیں تمہیں عقل ہو(ف۱۲۳)

{فَقُلْنَا: تو ہم نے فرمایا۔ } بنی اسرائیل نے گائے ذبح کرکے اس کے کسی عضو سے مردہ کو مارا وہ بحکمِ الہٰی زندہ ہوگیا، اس کے حلق سے خون کا فوارہ جاری تھا، اس نے اپنے چچازاد بھائی کے بارے میں بتایا کہ اس نے مجھے قتل کیا اب اس کو بھی اقرار کرنا پڑا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس پر قصاص کا حکم فرمایا۔ اس آیت ِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مردے کو زندہ کرنے کے اس واقعے سے قیامت کے دن اٹھائے جانے پر دلیل قائم کی کہ تم سمجھ لو کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے اس مردے کو زندہ کیا اسی طرح وہ قیامت کے دن بھی مردوں کو زندہ فرمائے گا کیونکہ وہ مردے زندہ کرنے پر قادر ہے اور روز ِجزا مردوں کو زندہ کرنا اور حساب لینا حق ہے۔

2:74
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِیَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةًؕ-وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُؕ-وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُ جُ مِنْهُ الْمَآءُؕ-وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(۷۴)
پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے (ف۱۲۴) تو وہ پتھروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ کرّے اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں (ف۱۲۵) اور اللہ تمہارے کوتکوں سے بے خبر نہیں،

{ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ: پھر تمہارے دل سخت ہوگئے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود یہودیوں کو مخاطب کر کے فرمایا گیا کہ اپنے آباؤ اجداد کے عبرت انگیز واقعات سننے کے بعد تمہارے دل حق بات کو قبول کرنے کے معاملے میں سخت ہوگئے اور وہ شدت و سختی میں پتھروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت ہیں کیونکہ پتھر بھی اثر قبول کرتے ہیں کہ کچھ پتھروں سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ ایسے ہیں کہ جب پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ڈر سے اوپر سے نیچے گر پڑتے ہیں جبکہ تمہارے دل اطاعت کے لئے جھکتے ہیں نہ نرم ہوتے ہیں ، نہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی وہ کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے اور یاد  رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے ہرگز بے خبر نہیں بلکہ وہ تمہیں ایک خاص وقت تک کے لئے مہلت دے رہا ہے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۱ / ۱۶۳-۱۶۴، جلالین، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۱۲، ملتقطاً)

دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس آیت میں بنی اسرائیل کے وہ لوگ مراد ہیں جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے زمانے میں موجود تھے، ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ بڑی بڑی نشانیاں اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے معجزات دیکھ کر بھی انہوں نے عبرت حاصل نہ کی، ان کے دل پتھروں کی طرح ہوگئے بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت کیونکہ پتھر بھی اثر قبول کرتے ہیں کہ ان میں کسی سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں ، کوئی پتھرپھٹ جاتا ہے تو اس سے پانی بہتا ہے اور کوئی خوف ِ الہٰی سے گرجاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے لیکن انسان جسے بے پناہ اِدراک و شعور دیا گیا ہے، حواس قوی ہیں ، عقل کامل ہے، دلائل ظاہر ہیں ، عبرت و نصیحت کے مواقع موجود ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کی طرف نہیں آتا۔

دل کی سختی کا انجام:

اس سے معلوم ہو اکہ دل کی سختی بہت خطرناک ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

’’اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘(زمر: ۲۲)

ترجمۂکنزالعرفان: تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے (اس جیسا ہوجائے گا جو سنگدل ہے) تو خرابی ہے ان کیلئے جن کے دل اللہ کے ذکر کی طرف سے سخت ہوگئے ہیں۔وہ کھلی گمراہی میں ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے،حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ زیادہ کلام نہ کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ کلام کی کثرت دل کو سخت کر دیتی ہے اور لوگوں میں اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور وہ شخص ہوتا ہے جس کا دل سخت ہو۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۶۲-باب منہ، ۴ / ۱۸۴، الحدیث: ۲۴۱۹)

            دل کی سختی سے متعلق مزید کلام سورۂ حدید کی آیت نمبر16،17کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

2:75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۷۵)
تو اے مسلمانو! کیا تمہیں یہ طمع ہے کہ یہ (یہودی) تمہارا یقین لائیں گے اور ان میں کا تو ایک گروہ وه تھا کہ اللہ کا کلام سنتے پھر سمجھنے کے بعد اسے دانستہ بدل دیتے، ف۱۲۶)

{اَفَتَطْمَعُوْنَ: کیا تمہیں یہ امید ہے۔}  انصار صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اس بات کی بہت حرص تھی کہ یہودی اسلام قبول کر لیں کیونکہ وہ یہودیوں کے حلیف تھے اور ان کے پڑوسی بھی تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! کیا تم یہ امید رکھتے ہو کہ یہ یہودی تمہارا یقین کریں گے یا تمہاری تبلیغ کی وجہ سے ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ وہ تھا جوصرف علماء پر مشتمل تھا، وہ اللہ تعالیٰ کا کلام یعنی تورات سنتے تھے اور پھر اسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر بدل دیتے تھے، اسی طرح ان یہودیوں نے بھی تورات میں تحریف کی اور رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت بدل ڈالی، توایسے لوگ کہاں ایمان لائیں گے؟ لہٰذا تم ان کے ایمان کی امید نہ رکھو۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۵، ۱ / ۳-۴، الجزء الثانی، بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۵، ۱ / ۳۴۷-۳۴۸، ملتقطاً)

عالم کابگڑنا زیادہ تباہ کن ہے:

          اس سے معلوم ہوا کہ عالم کا بگڑنا عوام کے بگڑنے سے زیادہ تباہ کن ہے کیونکہ عوام علماء کو اپنا ہادی اور رہنما سمجھتے ہیں ، وہ علماء کے اقوال پر عمل کرتے اور ان کے افعال کو دلیل بناتے ہیں اور جب علماء ہی کے عقائد و اعمال میں بگاڑ پیداہو جائے تو عوام راہ ہدایت پر کس طرح چل سکتی ہے، اور کئی جگہ پر شایدیہ عالم کہلانے والوں کی بد عملی کا نتیجہ ہے کہ آج لوگ دیندار طبقے سے متنفر ہو رہے ہیں اور ان کے خلاف اپنی زبان طعن دراز کر رہے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ائمہ دین فرماتے ہیں :’’ اے گروہ علماء! اگرتم مستحبات چھوڑ کر مباحات کی طرف جھکو گے( تو) عوام مکروہات پرگریں گے، اگرتم مکروہ کروگے( تو) عوام حرام میں پڑیں گے، اگرتم حرام کے مرتکب ہوگے(تو) عوام کفر میں مبتلا ہوں گے۔ یہ ارشاد نقل کرنے کے بعد فرمایا ’’بھائیو!  لِلّٰہِ اپنے اوپررحم کرو، اپنے اوپررحم نہ کرو( تو) اُمت مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پررحم کرو، چرواہے کہلاتے ہو بھیڑئیے نہ بنو۔(فتاوی رضویہ، ۲۴ / ۱۳۲-۱۳۳)

2:76
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا ۚۖ-وَ اِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ قَالُوْۤا اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ لِیُحَآجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۷۶)
اور جب مسلمانوں سے ملیں تو کہیں ہم ایمان لائے (ف۱۲۷) اور جب آپس میں اکیلے ہوں تو کہیں وہ علم جو اللہ نے تم پر کھولا مسلمانوں سے بیان کیے دیتے ہو کہ اس سے تمہارے رب کے یہاں تمہیں پر حجت لائیں کیا تمہیں عقل نہیں -

{وَ اِذَا لَقُوْا: اور جب وہ ملتے ہیں۔}  حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں :یہودی منافق جب صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ملتے تو ان سے کہتے کہ جس پر تم ایمان لائے اس پر ہم بھی ایمان لائے، تم حق پر ہو اور تمہارے آقا محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسچے ہیں ، ان کا قول حق ہے، ہم ان کی نعت و صفت اپنی کتاب توریتمیں پاتے ہیں۔ جب یہ اپنے سرداروں کے پاس جاتے تو وہ ان منافقوں کو ملامت کرتے ہوئے کہتے:کیا تم مسلمانوں کے سامنے ان کے آقا محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بارے وہ باتیں بیان کرتے ہو جو اللہ تعالیٰ  نے تمہاری کتاب میں بیان فرمائی ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعے دنیا و آخرت میں تمہارے اوپر حجت قائم کر دیں کہ جب ہمارے آقا محمد مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا نبی برحق ہونا تمہاری کتابوں میں موجود ہے تو تم نے ان کی پیروی کیوں نہ کی؟ کیا تمہیں عقل نہیں کہ تمہیں یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۶، ۱ / ۶۵)

اس سے معلوم ہوا کہ حق پوشی اور سرکار دو عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف کو چھپانا اوران کے کمالات کا انکار کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے۔

2:77
اَوَ لَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ(۷۷)
کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں-

اس آیت کی تفسیر گزشتہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔
2:78
وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ(۷۸)
اور ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں کہ جو کتاب (ف۱۲۸) کو نہیں جانتے مگر زبانی پڑھ لینا (ف۱۲۹) یا کچھ اپنی من گھڑت اور وہ نرے گمان میں ہیں -

{اُمِّیُّوْنَ: ان پڑھ۔} یہاں سے یہودیوں کے دوسرے گروہ کا تذکرہ ہے، فرمایا گیا کہ اب یہودیوں کے دوسرے گروہ کی سنئے کہ ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں جو کتاب یعنی تورات کو خو د تو نہیں جانتے بلکہ اپنے مفاد پرست سرداروں کے بیانات پر ہی الٹے سیدھے خیال و گمان میں پڑے ہوئے ہیں کہ ان کی تو بخشش ہو ہی جائے گی۔ یہ انہی من گھڑت خیالات میں خوش ہیں۔

2:79
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْۗ-ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًاؕ-فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَ وَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ(۷۹)
تو خرابی ہے ان کے لئے جو کتاب اپنے ہاتھ سے لکھیں پھر کہہ دیں یہ خدا کے پاس سے ہے کہ اس کے عوض تھوڑے دام حاصل کریں (ف۱۳۰) تو خرابی ہے ان کے لئے ان کے ہاتھوں کے لکھے سے اور خرابی ان کے لئے اس کمائی سے-

{فَوَیْلٌ: تو بربادی ہے۔ }جب سرکارِ دو جہاں  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ طیبہ تشریف فرما ہوئے تو علماء توریت اورسردارانِ یہود کو قوی اندیشہ ہوگیا کہ ان کی روزی جاتی رہے گی اور سرداری مٹ جائے گی کیونکہ توریت میں حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا حلیہ اور اوصاف مذکور ہیں ، جب لوگ حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اس کے مطابق پائیں گے توفوراً ایمان لے آئیں گے اور اپنے علماء اور سرداروں کو چھوڑ دیں گے، اس اندیشہ سے انہوں نے توریت میں تحریف و تغییر کر ڈالی اور حلیہ شریف بدل دیا۔ مثلاً توریت میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف یہ لکھے تھے کہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ خوب صورت ہیں ، بال خوب صورت، آنکھیں سرمگیں ، قد درمیانہ ہے۔ اس کو مٹا کر انہوں نے یہ بتایا کہ وہ بہت دراز قد ہیں ، آنکھیں کُنجی نیلی، بال الجھے ہوئے ہیں۔ یہی عوام کو سناتے یہی کتاب الٰہی کا مضمون بتاتے اور سمجھتے کہ لوگ حضور اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اس کے خلاف پائیں گے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لائیں گے بلکہ ہمارے گرویدہ رہیں گے اور ہماری کمائی میں فرق نہ آئے گا۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۹، ۱ / ۱۰۳-۱۰۴، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۹، ۱ / ۶۶)

            اس پر فرمایا گیا کہ بربادی ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے ہاتھوں سے تورات میں من گھڑت باتیں لکھتے ہیں اورپھر کہتے ہیں کہ یہ بھی خداعَزَّوَجَلَّکی طرف سے ہے ، اور یہ اللہ  تعالیٰ کی کتاب میں تحریف صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اس کے بدلے میں تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیں۔ توان لوگوں کے لئے ان کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے کی وجہ سے اور ان کی کمائی کی وجہ سے تباہی و بربادی ہے۔

2:80
وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةًؕ-قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗۤ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۸۰)
اور بولے ہمیں تو آگ نہ چھوئے گی مگر گنتی کے دن (ف۱۳۱) تم فرمادو کیا خدا سے تم نے کوئی عہد لے رکھا ہے جب تو اللہ ہرگز اپنا عہد خلاف نہ کرے گا (ف۱۳۲) یا خدا پر وہ بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں -

{لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ: ہمیں تو ہرگز آگ نہ چھوئے گی۔} حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے مروی ہے  کہ یہودی کہتے تھے کہ وہ دوزخ میں ہرگز داخل نہ ہوں گے مگر صرف اتنی مدت کے لیے جتنے عرصے ان کے آباؤ اجداد نے بچھڑے کو پوجا تھا (اس کے بعد وہ عذاب سے چھوٹ جائیں گے) اور وہ مدت چالیس دن ہیں۔ بعض یہودیوں کے نزدیک سات دن ہیں۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۱ / ۱۰، الجزء الثانی، ابو سعود، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۱ / ۱۴۵، ملتقطاً)

                اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں فرمایا گیا کہ اے حبیب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، تم ان سے فرمادو کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ لیا ہوا ہے کہ وہ تمہیں چند دن کیلئے ہی جہنم میں ڈالے گا؟ اگر ایسا کوئی عہد ہے، پھر تو اللہ تعالیٰ ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرے گا لیکن ایسا کچھ ہے نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ رہے ہو اور اللہ تعالیٰ تم سے ایسا وعدہ کیوں کرے گا کہ تم جہنم میں زیادہ عرصے کیلئے نہیں رہو گے حالانکہ اللہ  تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جس نے گناہ کا ارتکاب کیا اور اس کے گناہ نے اسے ہر طرح سے گھیر لیا یعنی وہ کفر میں جاپڑا تو وہ جہنم میں جائے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہے گا۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْبَقَرَة
اَلْبَقَرَة
  00:00



Download

اَلْبَقَرَة
اَلْبَقَرَة
  00:00



Download