READ

Surah al-Baqarah

اَلْبَقَرَة
286 Ayaat    مدنیۃ


2:81
بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓــٴَـتُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۸۱)
ہاں کیوں نہیں جو گناہ کمائے اور اس کی خطا اسے گھیر لے (ف۱۳۳) وہ دوزخ والوں میں ہے انہیں ہمیشہ اس میں رہنا -

{ بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓــٴَـتُهٗ: کیوں نہیں ،جس نے گناہ کمایا اور اس کی خطا نے اس کا گھیراؤ کر لیا۔} اس آیت میں گناہ سے شرک و کفر مراد ہے اور احاطہ کرنے سے یہ مراد ہے کہ نجات کی تمام راہیں بند ہوجائیں اور کفر و شرک ہی پر اس کو موت آئے کیونکہ مومن خواہ کیسا بھی گنہگار ہو گناہوں سے گھرا نہیں ہوتا اس لیے کہ ایمان جو سب سے بڑی نیکی ہے وہ اس کے ساتھ ہے۔

2:82
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠(۸۲)
اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ جنت والے ہیں انہیں ہمیشہ اس میں رہنا -

اس آیت کی تفسیر گزشتہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔
2:83
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ- وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ-ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۸۳)
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو، (ف۱۳۴) اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے اور لوگوں سے اچھی بات کہو (ف۱۳۵) اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو پھر تم پھِر گئے (ف۱۳۶) مگر تم میں کے تھوڑے (ف۱۳۷) اور تم رد گردان ہو-(ف۱۳۸)

{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:اور یاد کروجب ہم نے بنی اسرائیل سے عہدلیا۔} یعنی اے یہودیو!وہ وقت یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے تورات میں یہ عہدلیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو لیکن اسے قبول کرنے کے بعدان میں سے چند آدمیوں کے علاوہ سب ا س عہد سے پھر گئے اور تم بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام سے منہ موڑنے والے ہو۔(جلالین مع صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۳، ۱ / ۸۱-۸۲، ملخصاً)

اس سے معلوم ہو اکہ بنی اسرائیل کی عادت ہی اللہ تعالیٰ کے احکام سے اعراض کرنا اور اس کے عہد سے پھر جاناہے۔

{وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا: اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔}اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی یہ ہے کہ ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو اُن کیلئے باعث ِ تکلیف ہو اور اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے، ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے، ان کی خدمت کیلئے اپنا مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے، اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کیلئے ایصالِ ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے تعلقات کو قائم رکھے۔  والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے۔(تفسیر خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۳، ۱ / ۶۶، تفسیر عزیزی (مترجم)، ۲ / ۵۵۷-۵۵۸، ملتقطاً)

حقوقِ والدین کی تفصیل جاننے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی 24 ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ کا رسالہ ’’اَلْحُقُوقْ لِطَرْحِ الْعُقُوقْ(والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق)‘‘ کامطالعہ فرمائیں۔[1]

{وَ ذِی الْقُرْبٰى: اور رشتے داروں سے۔}حقوق العباد میں سب سے مقدم ماں باپ کا حق ہے پھر دوسرے رشتے داروں کا اورپھر غیروں کا۔ غیروں میں بے کس یتیم سب سے مقدم ہے پھر دوسرے مساکین۔

اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت:

اس آیت میں والدین اور دیگر لوگوں کے حقوق بیان کرنے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دینِ اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے، بلکہ احادیث میں یہاں تک ہے کہحقوقُ اللہ پورا کرنے کے باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوں گے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ کیا تم جانتے ہو کہ مُفلِس کون ہے؟صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور سازو سامان نہ ہو۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ (وغیرہ اعمال) لے کر آئے اور ا س کا حال یہ ہو کہ ا س نے(دنیا میں ) کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا تھا تو اِن میں سے ہر ایک کو اُس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اُن کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر ا س کی نیکیاں (اس کے پاس سے) ختم ہوگئیں تو اُن کے گناہ اِس پر ڈال دئیے جائیں گے،پھر اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔[2](مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۴، الحدیث: ۵۹ (۲۵۸۱))

{وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا: اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔} اچھی بات سے مراد نیکی کی دعوت اور برائیوں سے روکنا ہے۔ نیکی کی دعوت میں اس کے تمام طریقے داخل ہیں ، جیسے بیان کرنا، درس دینا، وعظ و نصیحت کرناوغیرہ ۔ نیز اچھی بات کہنے میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شان، اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے مقام ومرتبہ کا بیان اور نیکیوں اور برائیوں کے متعلق سمجھانا سب شامل ہیں۔ [3]

{اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ: مگر تم میں سے تھوڑے۔}بنی اسرائیل کی اکثریت اللہ تعالیٰ سے عہدو پیمان کرنے کے بعد اپنے عہد سے پھر گئی اور گناہوں کے راستے پر چل پڑی، البتہ کچھ لوگ صحیح راستے پر ثابت قدم رہے  اور اسی گروہ والے  ہمارے حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا زمانہ پا کر ایمان لے آئے۔

بنی اسرائیل کی بد عہدی کو سامنے رکھ کرمسلمان بھی اپنی حالت پر غور کریں :

اس آیت میں بنی اسرائیل کی جو حالت بیان کی گئی افسوس کہ فی زمانہ مسلمانوں کی حالت بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ کاش کہ ہم بھی غور کریں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کلمہ پڑھ کر ہم نے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، اطاعت ِ الہٰی، اطاعت ِ رسول  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، حقوقُ اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی پابندی کا جو عہد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہوا ہے کیا ہم بھی اسے پورا کرتے ہیں یا نہیں ؟


[1] ۔۔نیز  امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کا رسالہ،، سمندری گنبد،، (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) پڑھنا بھی بہت مفید ہے۔

[2] ۔۔امیرِ اہلِسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُم الْعَالیہ کا اس موضوع پر رسالہ،، ظلم کا انجام،، (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

 [3]۔۔نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے ،، دعوتِ اسلامی،، کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہونے میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔

2:84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ(۸۴)
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ اپنوں کا خون نہ کرنا اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالنا پھر تم نے اس کا اقرار کیا اور تم گواہ ہو-

{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ:اور یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا۔} یعنی اے یہودیو! وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تمہارے آباؤ اجداد سے تورات میں یہ عہد لیا کہ تم آپس میں کسی کا خون نہ بہانا اور اپنے لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالنا ،پھر انہوں نے ا س عہدکا اقرار کرلیا اور تم خود بھی اپنے آباؤاجداد کے اس اقرارکے گواہ ہو۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۴، ۱ / ۱۷۴)

2:85
ثُمَّ اَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ تُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْكُمْ مِّنْ دِیَارِهِمْ٘-تَظٰهَرُوْنَ عَلَیْهِمْ بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِؕ-وَ اِنْ یَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰى تُفٰدُوْهُمْ وَ هُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْكُمْ اِخْرَاجُهُمْؕ-اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍۚ-فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلٰۤى اَشَدِّ الْعَذَابِؕ-وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(۸۵)
پھر یہ جو تم ہو اپنوں کو قتل کرنے لگے اور اپنے میں سے ایک گروہ کو ان کے وطن سے نکالتے ہو ان پر مدد دیتے ہو (ان کے مخالف کو) گناہ اور زیادتی میں اور اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئیں تو بدلا دے کر چھڑا لیتے ہو اور ان کا نکالنا تم پر حرام ہے (ف۱۳۹) تو کیا خدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو تو جو تم میں ایسا کرے اس کا بدلہ کیا ہے مگر یہ کہ دنیا میں رسوا ہو (ف۱۴۰) اور قیامت میں سخت تر عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے اور اللہ تمہارے کوتکوں سے بے خبر نہیں -(ف۱۴۱)

{ثُمَّ اَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ:پھر یہ جو تم ہو۔}اس آیت میں حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں موجود یہودیوں کے عجیب و غریب طرزِ عمل کا بیان ہے، اس کا پس منظر یہ ہے کہ تورات میں بنی اسرائیل کو تین حکم دیئے گئے تھے: (۱)ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا۔ (۲)ایک دوسرے کو جلا وطن نہ کرنا۔ (۳)اگر وہ اپنی قوم کے کسی مرد یا عورت کو اس حال میں پائیں کہ اسے غلام یا لونڈی بنا لیا گیا ہے تو ا سے خرید کر آزاد کر دیں۔ نسل در نسل یہ عہد چلتا رہا یہاں تک کہ مدینہ منورہ کے گردو نواح میں آباد یہودیوں کے دو قبائل بنی قُرَیْظَہ اور بنی نَضِیْر میں منتقل ہوا، اس وقت مدینہ شریف میں مشرکوں کے دو قبیلے اَوْس اور خَزْرَج ْرہتے تھے، بنی قُرَیْظَہ اوس قبیلے کے حلیف تھے اور بنی نَضِیْر خزرج قبیلے کے حلیف تھے اور ہر ایک قبیلہ نے اپنے حلیف کے ساتھ قسم اٹھارکھی تھی کہ اگر ہم میں سے کسی پر کوئی حملہ آور ہو تو دوسرا اس کی مدد کرے گا۔جب اوس اور خزرج کے درمیان جنگ ہوتی تو بنی قُرَیْظَہ اوس کی اوربنی نَضِیْر خزرج کی مدد کے لیے آتے تھے اور اپنے حلیف کے ساتھ ہو کر آپس میں ایک دوسرے پر تلوار چلاتے اور بنی قُرَیْظَہ بنی نَضِیْر کو اور وہ بنی قُرَیْظَہ کو قتل کرتے، ان کے گھر ویران کردیتے اور انہیں ان کی رہائش گاہوں سے نکال دیتے تھے، لیکن جب ان کی قوم کے لوگوں کو ان کے حلیف قید کرلیتے تو وہ ان کو مال دے کر چھڑالیتے تھے، مثلا ً اگر بنی نَضِیْر کا کوئی شخص اوس قبیلے کے ہاتھ میں گرفتار ہوتا توبنی قُرَیْظَہ اوس قبیلے کو مالی معاوضہ دے کر اس کو چھڑا لیتے حالانکہ اگر وہی شخص لڑائی کے وقت ان کے ہاتھ آجاتا تو اسے قتل کرنے میں ہر گز دریغ نہ کرتے تھے۔لوگوں نے ان سے کہا کہ تم بھی عجیب لوگ ہو کہ ایک دوسرے کو قتل بھی کرتے ہو اور فدیہ دے کر چھڑا بھی لیتے ہو۔یہودیوں نے کہا : ہمیں تورات میں یہ حکم دیاگیاہے کہ ہم اپنے قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑ الیں ، اس پر ان سے کہا گیا کہ پھر تم ایک دوسرے کو قتل کیوں کرتےہو حالانکہ تورات میں تمہیں اس چیز سے بھی تو منع کیاگیا ہے۔ یہودیوں نے کہا : جنگ کے دوران ایک دوسرے کو قتل کرنے سے اگرچہ ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہو اعہد ٹوٹ جاتا ہے لیکن ہمیں اس بات سے شرم آتی ہے کہ ہمارے حلیف ذلیل ہوں کیونکہ اگر ہم نے ایک دوسرے کو قتل اور جلا وطن نہ کیا تو اس میں ہمارے حلیفوں کی ذلت ہے اور چونکہ فدیہ دے کر چھڑا لینے میں ان کی ذلت نہیں ہے اس لئے ہم اس عہد کو پورا کر دیتے ہیں۔ یہودیوں کی اس حرکت پر انہیں اس آیت میں ملامت کی جارہی ہے کہ جب تم نے اپنوں کی خونریزی نہ کرنے، ان کو بستیوں سے نہ نکالنے اور ان کے اسیروں کو چھڑانے کا عہد کیا تھا تویہ کیا دو رنگی ہے کہ تم ایک دوسرے کو قتل اور جلاوطن کرنے میں تو ہرگز دریغ نہیں کرتے اور جب کوئی گرفتار ہوجائے تو اسے فدیہ دے کر چھڑالیتے ہو اورجن باتوں کا تم نے عہد کیا تھا ان میں سے کچھ باتوں کو ماننا اور کچھ کو نہ ماننا کیامعنی رکھتا ہے ! جب تم ایک دوسرے کو قتل اور جلا وطن کرنے سے باز نہ رہے تو تم نے عہد شکنی کی اور حرام کے مرتکب ہوئے۔  

{اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ: کیا کتاب کے کچھ حصے پر ایمان رکھتے ہو۔} بنی اسرائیل کا عملی ایمان ناقص تھا کہ کچھ حصے پر عمل کرتے تھے اور کچھ پر نہیں اور اس پر فرمایا گیا کہ کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان رکھتے ہواور کچھ سے انکار کرتے ہو۔ اس آیت سے معلوم ہواکہ شریعت کے تمام احکام پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور تمام ضروری احکام پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔کوئی شخص کسی وقت بھی شریعت کی پابندی سے آزاد نہیں ہوسکتا اورخود کو طریقت کا نام لے کر یا کسی بھی طریقے سے شریعت سے آزاد کہنے والے کافر ہیں۔ اس کی تفصیل جاننے کیلئے فتاوی رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ  اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’مَقَالُ الْعُرَفَاءُ بِاِعْزَازِ شَرْعٍ وَعلماء(علماء اور شریعت کی عظمت پر اہل ِمعرفت کا کلام)‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔یاد رہے کہ عظمت ِ توحیدکو ماننا لیکن عظمت ِ رسالت سے انکار کرنا بھی اسی زُمرے میں آتا ہے کہ کیا تم کتاب کے کچھ حصے کو مانتے ہو اور کچھ حصے کا انکار کرتے ہو۔

{خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا: دنیا کی زندگی میں رسوائی۔} بنی اسرائیل کی دنیا میں تو یہ رسوائی ہوئی کہ بنی قُرَیظَہ 3 ہجری میں مارے گئے اور بنی نَضِیر اس سے پہلے ہی جلا وطن کردیئے گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی طرفداری میں دین کی مخالفت کرنا اخروی عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی ذلت و رسوائی کا باعث ہوتاہے۔ دنیا کے بڑے بڑے معاملات کو اِس آیت کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔ نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی گناہوں کی شامت سے دنیاوی آفات بھی آجاتی ہیں۔

{وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ: اور اللہ  غافل نہیں۔}اس طرح کی آیات جن میں یہ مفہوم ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ان میں نافرمانوں کے لئے شدید وعیدہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے افعال سے بے خبر نہیں ہے ،تمہاری نافر مانیوں پر شدیدعذاب دے گا۔ یونہی ایسی آیات میں مؤمنین و صالحین کے لئے خوشخبری ہوتی ہے کہ انہیں اعمال حسنہ کی بہترین جزاء ملے گی۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۱ / ۵۹۴، روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۱ / ۱۷۵-۱۷۶،  ملتقطاً)

2:86
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ٘-فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ۠(۸۶)
یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی مول لی تو نہ ان پر سے عذاب ہلکا ہو اور نہ ان کی مدد کی جائے -

اس آیت کی تفسیر گزشتہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔
2:87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ٘-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ-اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْۚ-فَفَرِیْقًا كَذَّبْتُمْ٘-وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ(۸۷)
اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی (ف۱۴۶) اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے (ف ۱۴۳) اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھیلی نشانیاں عطا فرمائیں (ف۱۴۴) اور پاک روح سے (ف۱۴۵) اس کی مدد کی (ف۱۴۶) تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہو تو ان (انبیاء) میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے ہو اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو -(ف۱۴۷)

{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ: ہم نے موسٰی کو کتاب دی۔}یہاں سے بنی اسرائیل کو دی گئی مزید نعمتیں بیان کی جا رہی ہیں ، اس آیت میں کتاب سے توریت مراد ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے تمام عہد مذکور تھے ۔ان میں سب سے اہم عہد یہ تھے کہ ہر زمانہ کے پیغمبروں کی اطاعت کرنا، ان پر ایمان لانا اور ان کی تعظیم وتوقیر کرنا جیسا کہ سورہ مائدہ آیت 21میں مذکور ہے۔

{وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ: اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے۔}حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے زمانہ سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک متواتر انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آتے رہے، ان کی تعداد چار ہزار بیان کی گئی ہے، یہ سب حضرات حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت کے محافظ اور اس کے احکام جاری کرنے والے تھے اور چونکہ ہمارے آقا، خاتَمُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بعد نبوت کسی کو نہیں مل سکتی اس لیے شریعت ِمحمدیہ کی حفاظت و اشاعت کی خدمت علماء ربانی اور مجددین کو عطا ہوئی۔

{وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ: عیسیٰ بن مریم کو ہم نے نشانیاں دیں۔}ان نشانیوں سے مراد حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات ہیں جیسے مردوں کو زندہ کرنا، اندھوں اور برص والوں کوصحت دینا، پرندوں کی صورتوں میں جان ڈال دینا، غیب کی خبریں دینا وغیرہ جیسا کہ سورہ آلِ عمران آیت 49میں ہے۔

{ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ: اور پاک روح کے ذریعے ا س کی مدد کی۔}روح القدس سے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مراد ہیں کہ وہ روحانی ہیں اور ایسی وحی لاتے ہیں جس سے دلوں کو حیات یعنی زندگی ملتی ہے۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامکو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ رہنے کا حکم تھا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے آسمان پر اٹھائے جانے تک حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سفر وحضر میں کبھی آپ سے جدا نہ ہوئے اور حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام کی تائید حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بہت بڑی فضیلت ہے۔ حضور سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے صدقہ میں آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعض امتیوں کو بھی روح القدس کی تائید میسر ہوئی چنانچہ بخاری ، ابوداؤد اور معجم کبیر کی حدیث ہے کہ حضرت حسانرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے لیے منبر بچھایا جاتا اوروہ نعت شریف پڑھتے۔حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان کے لیے دعا فرماتے ’’اَللّٰھُمَّ اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُس‘‘اے اللہ!  روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرما۔(بخاری، کتاب الصلاۃ، باب الشعر فی المسجد، ۱ / ۱۷۲، الحدیث: ۴۵۳، ابو داؤد، کتاب الادب، باب ماجاء فی الشعر، ۴ / ۳۹۴-۳۹۵، الحدیث: ۵۰۱۵، معجم الکبیر، ۴ / ۳۷، الحدیث: ۳۵۸۰، واللفظ للمعجم)

  غیر خدا کا مدد کرنا شرک نہیں :

اس تفسیر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیرِ خدا کی مدد شرک نہیں ، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامکے ذریعہ فرمائی اور جب حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَاممدد کر سکتے ہیں تو حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی طاقت و قدرت سے یقینا مدد فرما سکتے ہیں ، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں مدد فرمانے کا تو کثیر احادیث میں ذکر ہے، البتہ ہم یہاں 2 ایسے واقعات ذکر کرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنے وصالِ ظاہری کے بعد اپنی بارگاہ میں حاضر ہو کر فریاد کرنے والوں کی مدد فرمائی۔

(1)… مشہور محدثین امام ابو بکر بن مقری، ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی اور امام ابو شیخ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْنے مزار پر انوار پر حاضر ہو کر بھوک کی فریاد کی تو رسول کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ایک عَلوی کے ذریعے انہیں کھانا بھجوایا اور اس علوی نے کہا:آپ لوگوں نے بارگاہ رسالت میں فریاد کی تھی تو مجھے خواب میں حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی اورحضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھے حکم فرمایا کہ میں آپ لوگوں تک کھانا پہنچا دوں۔(وفاء الوفاء، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الفصل الثالث، ۲ / ۱۳۸۰، الجزء الرابع)

(2)…ابو قاسم ثابت بن احمد بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : میں نے تاجدار رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے شہر اقدس مدینہ منورہ میں ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے روضہ انور کے قریب صبح کی اذان دی اور جب اس نے ’’اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمْ‘‘ کہا تو یہ سن کر مسجد نبوی کے خادموں میں سے ایک خادم آیا اور اِس نے اُسے تھپڑ مار دیا۔ وہ شخص رونے لگا اور اس نے فریاد کی: یارسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی موجودگی میں ا س شخص نے میرے ساتھ ایسا کیا ہے۔ (اس کی فریاد جیسے ہی ختم ہوئی ) تو اس خادم پر فالج گرا اور لوگ اسے اٹھا کر اس کے گھر لے گئے، تین دن بعد وہ خادم مر گیا۔(ابن عساکر، حرف الثائ، ذکر من اسمہ ثابت، ۱۱ / ۱۰۴)

            یاد رہے کہ علامہ نور الدین علی بن احمد سمہودی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی مشہور کتاب ’’وَفَاء الْوَفَاء بِاَخْبَارِ دَارِ الْمُصْطَفٰی‘‘ کے چوتھے حصے میں صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا ور اولیاء عظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْکے ایسے کئی واقعات  بیان فرمائے ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے سید المُرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے روضہ انور پر حاضر ہو کر اپنی حاجت بیان کی اور رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کی مدد کرتے ہوئے ان کی حاجت پوری فرما دی اور امام محمد بن موسیٰ بن نعمان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تو اس موضوع پر ’’مِصْبَاحُ الظَّلَامْ فِی الْمُسْتَغِیْثِیْنَ بِخَیْرِ الْاَنَامْ‘‘ کے نام سے باقاعدہ ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

{لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمْ:  تمہارے دل پسند نہیں کرتے۔}یہودی لوگ، پیغمبروں کے احکام اپنی خواہشوں کے خلاف پا کر انہیں جھٹلاتے اور موقع پاتے توان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو قتل کر ڈالتے تھے جیسا کہ انہوں نے حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اوران کے علاوہ بہت سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو شہید کیا، حتّٰی کہ ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بھی دَرپے رہے، کبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر جادو  کیا، کبھی زہر دیا اور انکے علاوہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کیلئے طرح طرح کے فریب کرتے رہے۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہواکہ احکامِ الہٰی پر اپنی خواہشات کو ترجیح دینا یہودیوں  جبکہ حکمِ الہٰی کے سامنے اپنے نفس کو کچل دینا کامل الایمان لوگوں کی نشانی ہے۔

2:88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌؕ-بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ(۸۸)
اور یہودی بولے ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیں (ف۱۴۸) بلکہ اللہ نے ان پر لعنت کی ان کے کفر کے سبب تو ان میں تھوڑے ایمان لاتے ہیں- (ف۱۴۹)

{ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ: ہمارے دلوں پر پردے ہیں۔} یہودیوں نے مذاق اڑانے کے طور پر کہا تھا کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی مراد یہ تھی کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ہدایت ان کے دلوں تک نہیں پہنچتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا کہ یہ جھوٹے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے دلوں کوفطرت پر پیدا فرمایااور ان میں حق قبول کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔ یہودیوں کا ایمان نہ لانا ان کے کفر کی شامت ہے کہ انہوں نے سید المُرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت پہچان لینے کے بعد انکار کیا تواللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی ،اس کا یہ اثر ہے کہ وہ قبولِ حق کی نعمت سے محروم ہوگئے۔(جلالین مع جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۸، ۱ / ۱۱۴-۱۱۵)

            آج بھی ایسے لوگ ہیں کہ جن کے دلوں پرعظمت ِ رسالت سمجھنے سے پردے پڑے ہوئے ہیں۔

2:89
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْۙ-وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّذِیْنَ كَفَرُوْاۚ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ٘-فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ(۸۹)
اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے (ف۱۵۰) اور اس سے پہلے وہ اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے (ف۱۵۱) تو جب تشریف لایا انکے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے (ف۱۵۲) تو اللہ کی لعنت منکروں پر -

{مُصَدِّقٌ: تصدیق کرنے والی۔} قرآن پاک گزشتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی کتاب ہے کہ وہ کتابیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ نیز ان کتابوں نے قرآن کے نازل ہونے کی خبر دی تھی، قرآن کے آنے سے وہ خبریں سچی ہوگئیں۔

{مَا عَرَفُوْا: جانا پہچانا نبی۔} شانِ نزول: امام الانبیاء  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری اور قرآن کریم کے نزول سے پہلے یہودی اپنی حاجات کے لیے حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے نامِ پاک کے وسیلہ سے دعا کرتے اور کامیاب ہوتے تھے اور اس طرح دعا کیا کرتے تھے۔’’اَللّٰھُمَّ افْتَحْ عَلَیْنَا وَانْصُرْنَا بِالنَّبِیِّ الْاُمِّیِّ‘‘ یارب! ہمیں نبی امی کے صدقہ میں فتح و نصرت عطا فرما۔  اس آیت میں یہودیوں کو وہ واقعات یاد دلائے جارہے ہیں کہ پہلے تم ان کے نام کے طفیل دعائیں مانگتے تھے، اب جب وہ نبی تشریف لے آئے تو تم ان کے منکر ہوگئے۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۹، ۱ / ۵۹۸-۵۹۹، جلالین مع جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۹، ۱ / ۱۱۵، ملتقطاً)

مخلوق کی حاجت روائی کاوسیلہ:

            اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں تشریف آوری سے پہلے ہی حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے توسل سے دعائیں مانگی جاتی تھیں اور حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے وسیلے سے پہلے ہی مخلوق کی حاجت روائی ہوتی تھی۔یہ سلسلہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تشریف آوری کے بعد ظاہری حیاتِ مبارکہ میں بھی جاری رہا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم  آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے وسیلے سے دعائیں مانگتے تھے بلکہ اپنے وسیلے سے دعا مانگنے کی تعلیم خود حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو دی، اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد بھی صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کایہ معمول رہا اورسلف و صالحین کایہ طریقہ تب سے اب تک جاری ہے اور ان شآء اللہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ اعلی حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :   ؎

وہ جہنم میں گیا جو اُن سے مستغنی ہوا

ہے خلیل اللہ کو حاجت  رسول اللہ  کی

2:90
بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ اَنْ یَّكْفُرُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۚ-فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ(۹۰)
کس برے مولوں انہوں نے اپنی جانوں کو خریدا کہ اللہ کے اتارے سے منکر ہوں (ف۱۵۳) اس کی جلن سے کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے جس بندے پر چاہے وحی اتارلے (ف۱۵۴) تو غضب پر غضب کے سزاوار ہوئے (ف۱۵۵) اور کافروں کے لیے ذلت کا عذاب ہے -(ف۱۵۶)

{بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ: انہوں نے اپنی جانوں کاکتنا برا سودا کیا۔} یہودیوں نے حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کی بجائے کفر اختیار کیا اور ایمان کی جگہ کفر خریدنا خسارے کا سوداہے۔ اسی سے ہر آدمی نصیحت حاصل کرے کہ ایمان کی جگہ کفر، نیکیوں کی جگہ گناہ، اطاعت کی جگہ نافرمانی، رضائے الٰہی کی جگہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا سودا بہت خسارے کا سودا ہے۔

{بَغْیًا:حسد کی وجہ سے۔} یہودیوں کی خواہش تھی ختمِ نبوت کا منصب بنی اسرائیل میں سے کسی کو ملتا، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اس منصب سے محروم رہے اوربنی اسماعیل کو یہ منصب مل گیا تو وہ حسد کی وجہ سے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور ان پر نازل ہونے والی اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کے منکر ہوگئے ۔اس سے معلوم ہوا کہ منصب و مرتبے کی طلب انسان کے دل میں حسد پیدا ہونے کا ایک سبب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حسد ایسا خبیث مرض ہے جو انسان کو کفر تک بھی لے جا سکتا ہے۔

حسد ایمان کے لئے تباہ کن ہے:

حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی مسلمان بھائی کو ملنے والی نعمت چھن جانے کی آرزو کی جائے، اور ایسی آرزو کی برائی محتاج بیان نہیں۔

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے۔ (سنن نسائی، کتاب الجہاد، فضل من عمل فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ص۵۰۵، الحدیث: ۳۶۱۰)

حضرت معاویہ بن حیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’حسد ایمان کو اس طرح تباہ کر دیتا ہے جیسے صَبِر (یعنی ایک درخت کاانتہائی کڑوا نچوڑ) شہد کو تباہ کر دیتا ہے۔(جامع صغیر، حرف الحاء، ص۲۳۲، الحدیث: ۳۸۱۹)

یاد رہے کہ حسد حرام ہے اور اس باطنی مرض کے بارے میں علم حاصل کرنا فرض ہے۔اس سے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مشہور کتاب ’’احیاء العلوم ‘‘ کی تیسری جلد میں موجود حسد سے متعلق بیان مطالعہ فرمائیں۔

[فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍ: تو یہ لوگ غضب پر غضب کے مستحق ہوگئے۔] حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں : یہودی تورات کو ضائع کرنے اور ا س کے احکامات کو تبدیل کرنے کی وجہ سے پہلے غضب کے مستحق ہوئے اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کرنے کی وجہ سے دوسرے غضب کے حقدار ٹھہرے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور انجیل کا انکار کرنے کی وجہ سے یہودی پہلے غضب کے مستحق ہوئے اور نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور قرآن مجید کا انکار کرکے دوسرے غضب کےمستحق ہو گئے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۱ / ۶۹)

2:91
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ یَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآءَهٗۗ-وَ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْؕ-قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِیَآءَ اللّٰهِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۹۱)
اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کے اتارے پر ایمان لاؤ (ف۱۵۷) تو کہتے ہیں وہ جو ہم پر اترا اس پر ایمان لاتے ہیں (ف۱۵۸) اور باقی سے منکر ہوتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے ان کے پاس والے کی تصدیق فرماتا ہوا (ف۱۵۹) تم فرماؤ کہ پھر اگلے انبیاء کو کیوں شہید کیا اگر تمہیں اپنی کتاب پر ایمان تھا -(ف۱۶۰)

{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ: اور جب ان سے کہا جائے ۔}اس آیت میں یہودیوں کا ایک اور قبیح فعل بیان کیا جا رہا ہے کہ جب ان سے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی تمام کتابوں پر ایمان لاؤ تو ا س کے جواب میں وہ کہتے ہیں : ہم صرف تورات پر ایمان لائیں گے جو کہ ہم پر نازل ہوئی ہے۔ اِس سے ان کا مقصد دیگر آسمانی کتابوں اور قرآن مجید کا انکار کرنا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن بھی حق ہے اور یہ ان یہودیوں کے پاس موجودتورات کی تصدیق کرنے والا ہے اور جب تورات میں حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت کے بارے میں خبریں موجود ہیں اور تم تورات پر ایمان لانے کے دعویدار ہو تو پھر محمدِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت اوران پر نازل کی گئی کتاب قرآن مجید کا انکار کیوں کرتے ہو اور اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ان یہودیوں سے فرمائیں کہ اگر تم تورات پر ایمان لانے کے اتنے ہی بڑے دعویدار ہو تو یہ بتاؤ کہ پہلے تم انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو کیوں شہید کرتے تھے حالانکہ تورات میں تو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو شہید کرنے سے منع کیا گیا تھا۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۱ / ۶۰۲-۶۰۴، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۱ / ۶۹-۷۰، ملتقطاً)

آیت’’وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ‘‘سے معلوم ہونے والے احکام:

(1)… اس آیت سے معلوم ہوا کہ تمام آسمانی کتابوں پر اور حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرمانوں پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان میں سے ایک کا بھی انکار کفر ہے، یونہی تمام انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان میں سے ایک کا بھی انکار کرنا کفر ہے۔

(2)… انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تعظیم ایمان کا رکنِ اعلیٰ ہے اور ان کی توہین کرنا کفر ہے۔

(3)…اللہ تعالیٰ کے نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنا کفر ہے۔

(4)…کفر سے راضی ہونا بھی کفر ہے کیونکہ حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے کے بنی اسرائیل نے انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید نہ کیا تھا مگر چونکہ وہ قاتلوں کی اِس حرکت سے راضی تھے اور ان کواپنا بڑا مانتے تھے اور انہیں عظمت سے یاد کرتے تھے اس لئے انہیں بھی قاتلوں میں شامل کیا گیا۔آج کل بھی اگر کوئی بذاتِ خود گستاخی نہ بھی کرے لیکن گستاخوں کو اچھا سمجھے، انہیں اپنا بڑا مانے تو وہ انہیں میں شامل ہے اور وہ بھی گستاخ ہی ہے۔ حضرت عُرس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جب زمین میں گناہ کیا جائے تو جو وہاں موجود ہے مگر اسے برا جانتا ہے،وہ اس کی مثل ہے جو وہاں نہیں ہے اور جو وہاں نہیں ہے مگر اس پر راضی ہے، وہ اس کی مثل ہے جو وہاں حاضر ہے۔(ابو داود، کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۴۳۴۵)

2:92
وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ مُّوْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ(۹۲)
اور بیشک تمہارے پاس موسیٰ کھلی نشانیاں لے کر تشریف لایا پھر تم نے اس کے بعد (ف۱۶۱) بچھڑے کو معبود بنالیا اور تم ظالم تھے-(ف۱۶۲)

{ اِتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ: بچھڑے کو معبود بنالیا۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کے پاس روشن معجزات لے کر تشریف لائے اور جب حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکوہِ طور پر تشریف لے گئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بعد بنی اسرائیل نے سامری کے بہکانے سے گائے کو معبود بنالیا اور گائے کی پوجا کر کے انہوں نے کفر کیا۔ جب حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی روشن نشانیاں دیکھ کر بنی اسرائیل بچھڑے کی پوجا میں مبتلاء ہو گئے تو ان یہودیوں کا سید المُرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ کفر کرنا ان کے لئے کونسی بڑی بات ہے؟(جلالین مع جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۲، ۱ / ۱۱۸، ملتقطاً)

                اس آیت سے معلوم ہوا کہ گائے کی عبادت قدیم عرصے سے چلتی آرہی ہے۔ مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کا حکم ہے، اس کی تعظیم کی اجازت نہیں کہ اس میں کافروں سے مشابہت ہے اور کافروں سے مشابہت ممنوع ہے۔نیز یاد رہے کہ اس سے پہلے آیت نمبر51میں اس واقعے کا اجمالی ذکر گزر چکا ہے اور یہاں دوبارہ اجمالی طور پر ا س لئے ذکر کیاگیا تاکہ یہودیوں پر قائم کی گئی حجت مؤکد ہو جائے۔ سورۂ طٰہٰ کی آیت 85تا98 میں یہ واقعہ تفصیل سے مذکور ہے۔

2:93
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَؕ-خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اسْمَعُوْاؕ-قَالُوْا سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَاۗ-وَ اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْؕ-قُلْ بِئْسَمَا یَاْمُرُكُمْ بِهٖۤ اِیْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۹۳)
اور (یاد کرو) جب ہم نے تم سے پیمان لیا (ف۱۶۳) او ر کوہ ِ طور کو تمہارے سروں پر بلند کیا، لو جو ہم تمہیں دیتے ہیں زور سے اور سنو بولے ہم نے سنا اور نہ مانا اور ان کے دلوں میں بچھڑا رچ رہا تھا ان کے کفر کے سبب تم فرمادو کیا برا حکم دیتا ہے تم کو تمہارا ایمان اگر ایمان رکھتے ہو-(ف۱۶۴)

{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ: اور جب ہم نے تم سے عہد لیا۔ }یعنی اے یہودیو! وہ وقت یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے تورات پر عمل کرنے کا عہد لیا لیکن انہوں نے حسب ِ عادت نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر کوہِ طور کو ہوا میں بلند کردیا اور ان سے فرمایا کہ چلو اب مضبوطی سے اس تورات کو تھام لو جوہم نے تمہیں عطا کی ہے اور ہمارے احکام دھیان سے سنو ۔بنی اسرائیل نے ڈر کے مارے دوبارہ اطاعت کا اقرار توکرلیا لیکن ان کے دل کی حالت پہلے جیسی ہی رہی اور شریعت کا حکم چونکہ ظاہر پر ہوتاہے دل پر نہیں ، اس لئے بنی اسرائیل کے زبانی اقرار کرنے پر ان سے کوہِ طورکو ہٹا لیا گیا اگرچہ ان کے دل میں وہی انکار تھا اور درحقیقت ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں میں توبچھڑے کی محبت گھسی ہوئی تھی۔ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ان سے فرمائیں کہ اے یہودیو!تم اپنے اسلاف کی اس حرکت کو جانتے ہو لیکن تم نہ اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہو اورنہ ہی اس سے اپنی براء ت ظاہر کرتے ہو تو خود بتاؤ کہ کیا تورات پر ایمان لانے کے یہ تقاضے ہیں ؟اگر اس کے یہی تقاضے ہیں تو تمہارا ایمان تمہیں کتنا برا حکم دیتا ہے۔

قرآنِ مجید پر ایمان لانے کا مطلب:

اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ  تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لانے کامطلب یہ ہے کہ ا س کے تمام احکام اور سب تقاضوں پر عمل کیا جائے اور ان کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو غور کرنا چاہئے کہ وہ اپنی زبان سے قرآن مجید پر ایمان لانے کاجو دعویٰ کر رہا ہے، کیا اس کی عملی حالت اس دعوے کی تصدیق کر رہی ہے یا نہیں۔ ذرا غور کریں کہ قرآن مجید میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے،رمضان کے روزے رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا لیکن آج مسلمانوں کی اکثریت نمازوں سے دور ہے، فرض روزے نہ رکھنے کے مختلف حیلے بہانے تراش رہی ہے اور اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کرنا ان پر بہت بھاری ہے۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کو باطل اور ناجائز طریقے سے کسی مسلمان کا مال کھانے سے منع کیا گیا، لیکن آج مال بٹورنے کا کونسا ایسا ناجائز طریقہ ہے جو مسلمانوں میں کسی نہ کسی طرح رائج نہیں۔ قرآن حکیم نے کسی کو ناحق قتل کرنے سے منع کیا لیکن آج مسلمانوں میں ناحق قتل و غارت گری ایسی عام ہے کہ نہ مرنے والے کو پتا ہے کہ مجھے کیوں مارا گیا اور نہ مارنے والے کو پتا ہے کہ میں نے کیوں مارا۔ قرآن شریف میں مسلمان عورتوں کو گھروں میں رہنے اور پردہ کرنے کا حکم دیاگیا لیکن آج ہمارے معاشرے کا وہ کونسا طبقہ ہے جس میں مسلمان عورت سج سنور کر اجنبی مردوں کے سامنے نہیں آرہی بلکہ آج مسلمانوں میں ہی کچھ لوگ عورت کے پردہ کرنے کو دقیانوسی سوچ اور تنگ ذہنی قرار دے رہے ہیں۔ اے کاش کہ ہم بھی اپنے زبانی ایمان و محبت کے دعووں اور بے عملی و بدعملی کے درمیان کا تضاد اور فرق سمجھنے میں کامیاب ہوجائیں اور ہمیں بھی اس بات پر غور کرنا نصیب ہو جائے کہ ہمارے جیسے اعمال ہیں کیا ہمارا ایمان ہمیں ان اعمال کا حکم دیتا ہے یا ہمارے ایمان کے تقاضے کچھ اور ہیں ؟

ایمانی قوت معلوم کرنے کا طریقہ:

          اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب تک دل میں برائی کی لذت و حلاوت موجود رہتی ہے تب تک ایمان اور نیک اعمال کی شیرینی اس میں داخل نہیں ہوسکتی اور گناہوں پر اصرار ایمان کی مٹھاس اور عبادت کی لذت محسوس نہیں ہونے دیتا۔ یاد رہے کہ نیکوں اورنیکیوں سے محبت ایمان کی علامت ہے جبکہ بروں اور برائیوں سے محبت ایمان کی کمزوری کی علامت ہے،لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی ایمانی قوت کو اپنے قلبی میلان سے معلوم کرے کیونکہ جن دلوں میں فلموں ، ڈراموں ، بے حیائیوں اور گانوں کی محبت ہو ان دلوں میں نماز، ذکر، درود اور تلاوت کی محبت نہیں سما سکتی۔

2:94
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۹۴)
تم فرماؤ اگر پچھلا گھر اللہ کے نزدیک خالص تمہارے لئے ہو، نہ اوروں کے لئے تو بھلا موت کی آرزو تو کرو اگر سچے ہو-(ف۱۶۵)

{ خَالِصَةً: خالص تمہارے لئے ۔} یہودیوں کا ایک باطل دعویٰ یہ تھا کہ جنت میں صرف وہی جائیں گے جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت 111میں یہ دعویٰ مذکور ہے۔ اس کا رد فرمایا جاتا ہے کہ اگر تمہارے گمان میں جنت تمہارے لیے خاص ہے اور آخرت کی طرف سے تمہیں اطمینان ہے، اعمال کی حاجت نہیں تو جنتی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیوی مصائب کیوں برداشت کرتے ہو، موت کی تمنا کرو تاکہ عیش و آرام والی جنت میں پہنچ جاؤ اور اگر تم نے موت کی تمنا نہ کی تو یہ تمہارے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے۔(البحر المحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۴-۹۵، ۱ / ۴۷۸)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’اگر یہودی موت کی تمنا کرتے تو سب ہلاک ہوجاتے اور روئے زمین پر کوئی یہودی باقی نہ رہتا۔ (تفسیر بغوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۱ / ۶۰)

{فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ: تو موت کی تمنا کرو۔} موت کی محبت اوراللہ تعالیٰ کی ملاقات کا شوق مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ( ہر نماز کے بعد) دعا فرماتے ’’اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی شَھَادَۃً فِی سَبِیْلِکَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِکَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ‘‘یارب مجھے اپنی راہ میں شہادت اور اپنے رسول  کے شہر میں مجھے وفات نصیب فرما۔(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۳-باب، ۱ / ۶۲۲، الحدیث: ۱۸۹۰)

عمومی طور پر تمام اکابرصحابہ او ربالخصوص شہدائے بدر واحد واصحابِ بیعت رضوان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمراہِ خدا میں موت سے محبت رکھتے تھے، حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایران والوں کوجو خط بھیجا اس میں تحریر فرمایا تھا: ’’اِنَّ مَعِیَ قوْمًا یُّحِبُّوْنَ الْقَتْلَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ کَمَا یُحِبُّ الْفَارَسُ الْخَمْرَ‘‘ یعنی میرے ساتھ ایسی قوم ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جانے کو اتنا محبوب رکھتی ہے جتنا ایرانی لوگ شراب سے محبت رکھتے ہیں۔(معجم الکبیر، باب من اسمہ خالد، ۴ / ۱۰۵، الحدیث: ۳۸۰۶)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس طرح کا خط حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایرانی لشکر کےسپہ سالار رستم بن فرخ زاد کے پاس بھیجا تھا اوراس میں تحریر فرمایا تھا: ’’اِنَّ مَعِیَ قوْمًا یُّحِبُّوْنَ الْمَوْتَ کَمَا یُحِبُّ الَْفارَسُ الْخَمْرَ‘‘  یعنی میرے ساتھ ایسی قوم ہے جو موت کو اتنا محبوب رکھتی ہے جتنا عجمی شراب کو مرغوب رکھتے ہیں۔ (تفسیر عزیزی (مترجم)، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۶۰۳)

اس میں لطیف اشارہ تھا کہ شراب کی ناقص مستی کو محبتِ دنیا کے دیوانے پسند کرتے ہیں اور اللہ والے موت کو محبوب حقیقی کے وصال کا ذریعہ سمجھ کر محبوب جانتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اہلِ ایمان آخرت کی رغبت رکھتے ہیں اور اگرلمبی عمر کی تمنا بھی کریں تو وہ اس لیے ہوتی ہے کہ نیکیاں کرنے کے لیے کچھ اور عرصہ مل جائے جس سے آخرت کے لیے ذخیرۂ سعادت زیادہ کرسکیں اوراگر گزشتہ زندگی میں گناہ ہوئے ہیں تو ان سے توبہ و استغفار کرلیں البتہ دنیوی مصائب سے تنگ آکر وہ کبھی موت کی تمنا نہیں کرتے۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’کوئی دنیوی مصیبت سے پریشان ہو کر موت کی تمنا نہ کرے اور اگر موت کی تمنا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو یوں دعا کرے کہ اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، جب تک زندہ رہنا میرے لئے بہتر ہے اس وقت تک مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لئے وفات بہتر ہو اس وقت مجھے وفات دیدے۔(بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۱)اور درحقیقت دنیوی پریشانیوں سے تنگ آکر موت کی دعا کرنا صبر و رضاو تسلیم و توکل کے خلاف ہے اورناجائز ہے۔

2:95
وَ لَنْ یَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ(۹۵)
اور ہرگز کبھی اس کی آرزو نہ کریں گے (ف۱۶۶) ان بداعمالیوں کے سبب جو آگے کرچکے (ف۱۶۷) اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو-

{وَ لَنْ یَّتَمَنَّوْهُ: اورہرگز موت کی تمنا نہ کریں گے۔ }یہ غیب کی خبر اور معجزہ ہے کہ یہود ی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور اسلام کی شدید مخالفت کے باوجود بھی موت کی تمنا کا لفظ زبان پر نہ لاسکے۔

2:96
وَ لَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍۚۛ-وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْاۚۛ-یَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍۚ-وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۠(۹۶)
اور بیشک تم ضرور انہیں پاؤ گے کہ سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس رکھتے ہیں اور مشرکوں سے ایک کو تمنا ہے کہ کہیں ہزار برس جئے (ف۱۶۸) اور وہ اسے عذاب سے دور نہ کرے گا اتنی عمر دیا جانا اور اللہ ان کے کوتک دیکھ رہا ہے،

{اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍ:  لوگوں میں سب سے زیادہ جینے کی ہوس۔} مشرکین کا ایک گروہ مجوسی ہے آپس میں سلام کے موقع پر کہتے ہیں ’’زِہ ہزار سال ‘‘ یعنی ہزار برس جیو ۔ان کے اس قول کے پیشِ نظر آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجوسی مشرک ہزار برس جینے کی تمنا رکھتے ہیں اوریہودی ان سے بھی بڑھ گئے کہ انہیں جینے کی ہوس سب سے زیادہ ہے حالانکہ اتنی عمر کا دیا جانابھی اسے جہنم کے عذاب سے دور نہ کرسکے گا اور اللہ  تعالیٰ ان کے تمام اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے اور ان کا کوئی حال اللہ تعالیٰ سے چھپا ہوا نہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۶، ۱ / ۷۱)

دنیوی زندگی کے حریص کون؟

            یاد رہے کہ کفار دنیاوی زندگی پر حریص ہوتے ہیں اور موت سے بہت بھاگتے ہیں جبکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اگر زندگی چاہتا ہے تو صرف اس لئے کہ زیادہ نیکیاں کرے، آخرت کا توشہ جمع کرے اور آخرت کا زادِ راہ جمع کرنے کے لئے زندگی چاہنا اچھا ہے کہ یہ زندگی کی ہوس نہیں بلکہ آخرت کی تیاری ہے۔نیز لمبی عمر اور زیادہ مال اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی علامت نہیں بلکہ یہ تو بعض اوقات وبال کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔حضرت ابوبکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،لوگوں میں سب سے بہترین کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو۔ اس شخص نے پھر عرض کی:لوگوں میں سب سے برا کون ہے؟ ارشاد فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو۔ (ترمذی، کتاب الزہد عن رسول اللہ، باب منہ، ۴ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۳۷)

2:97
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۹۷)
تم فرمادو جو کوئی جبریل کا دشمن ہو (ف۱۶۹) تو اس (جبریل) نے تو تمہارے دل پر اللہ کے حکم سے یہ قرآن اتارا اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتا اور ہدایت و بشارت مسلمانوں کو-(ف۱۷۰)

{مَنْ كَانَ عَدُوًّا: جو دشمن ہو۔} شانِ نزول: یہودیوں کے ایک گروہ نے حضور سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کہا: آپ کے پاس آسمان سے کون فرشتہ آتا ہے؟نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میرے پاس حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آتے ہیں۔ابنِ صوریا یہودی پیشوا نے کہا: وہ ہمارا دشمن ہے، عذاب، شدت اور زمین میں دھنسانا وہی اتارتا ہے اور پہلے بھی کئی مرتبہ ہم سے دشمنی کر چکا ہے اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے پاس حضرت میکائیلعَلَیْہِ السَّلَام آتے تو ہم آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آتے۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱ / ۲۸، الجزء الثانی، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱ / ۷۱)

                یہودیوں کی یہ بات سراسر جہالت تھی کیونکہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام تو جو چیز بھی لائے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھی تو حقیقت میں یہ اللہ  تعالیٰ سے دشمنی تھی، بلکہ اگر یہودی انصاف کرتے تو حضرت جبر یل امین عَلَیْہِ السَّلَام سے محبت کرتے اور ان کے شکر گزار ہوتے کہ وہ ایسی کتاب لائے جس سے ان کی کتابوں کی تصدیق ہوتی ہے۔

2:98
مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ جِبْرِیْلَ وَ مِیْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِیْنَ(۹۸)
جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں کا (ف۱۷۱)

{مَنْ كَانَ عَدُوًّا: جو کوئی دشمن ہو۔} اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتوں سے دشمنی کفر اور غضبِ الہٰی کا سبب ہے اور محبوبانِ حق سے دشمنی خداعَزَّوَجَلَّ سے دشمنی کرنا ہے۔حضرتِ جبریل عَلَیْہِ السَّلَامانبیاء کرام  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے خادم ہیں ،ان کا دشمن رب تعالیٰ کا دشمن ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک فرشتے سے عداوت سارے فرشتوں سے عداوت ہے۔ یہی حال انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء عظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم سے عداوت رکھنے کا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَفرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے، اسے میں نے لڑائی کا اعلان کردیا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، ۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۵۶۰۲)

2:99
وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍۚ-وَ مَا یَكْفُرُ بِهَاۤ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ(۹۹)
اور بیشک ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں اتاریں (ف۱۷۶) اور ان کے منکر نہ ہوں گے مگر فاسق لوگ -

{وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ:اور بیشک ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں نازل کیں۔} ابن صوریا نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے کہا کہ آپ کوئی ایسی چیز لے کر نہیں آئے جسے ہم پہچانتے ہوں اور آپ پر ایسی کوئی روشن آیت نازل نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ہم آپ کی پیروی کریں۔اللہ تعالیٰ نے اس کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف روشن آیتیں نازل فرمائی ہیں جن میں حلال،حرام اور حدود وغیرہ کے احکام واضح اور تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اور ان آیتوں کا انکار وہی کرتا ہے جو ہمارے احکامات کی اطاعت نہیں کرتا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۱ / ۷۲)

یاد رہے کہ یہاں فاسقوں سے مراد کافر اور منافق ہیں۔

2:100
اَوَ كُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۱۰۰)
اور کیا جب کبھی کوئی عہد کرتے ہیں ان میں کا ایک فریق اسے پھینک دیتا ہے بلکہ ان میں بہتیروں کو ایمان نہیں -(ف۱۷۳)

{عٰهَدُوْا عَهْدًا: انہوں نے عہد کیا۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمافرماتے ہیں :جب حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے یہودیوں کو اللہ تعالیٰ کے وہ عہد یاد دلائے جو حضوراقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کے متعلق تھے تو مالک بن صیف نے کہا:خدا کی قسم !آپ کے بارے میں ہم سے کوئی عہد نہیں لیا گیا۔ا س کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ یہودیوں نے جب کبھی کوئی عہدکیا تو ان میں سے ایک گروہ نے اس عہد کو ویسے ہی پیٹھ پیچھے پھینک دیا بلکہ ان میں سے اکثر یہودیوں کو تورات پر ایمان ہی نہیں اسی لئے وہ عہد توڑنے کو گناہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس بات کی کوئی پرواہ کرتے ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۱ / ۷۲، روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۱ / ۱۸۹، ملتقطاً)

بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہودیوں نے یہ عہد کیا تھا کہ جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ظہور ہو گا تو ہم ان پر ضرور ایمان لائیں گے اور عرب کے مشرکوں کے خلاف ہم ضرور ان کے ساتھ ہوں گے، لیکن جب حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو یہودیوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ایمان لانے کی بجائے انکار کر دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔   (قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۱ / ۳۱، الجزء الثانی)

2:101
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَۗۙ-كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ كَاَنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ٘(۱۰۱)
اور جب ان کے پاس تشریف لایا اللہ کے یہاں سے ایک رسول (ف۱۷۴) ان کی کتابوں کی تصدیق فرماتا (ف۱۷۵) تو کتاب والوں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب پیٹھ پیچھے پھینک دی (ف۱۷۶) گویا وہ کچھ علم ہی نہیں رکھتے -(ف۱۷۷)

{جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ: ان کے پاس رسول آیا۔} یہاں رسول سے مراد سرکارِ دوعالم، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور چونکہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ توریت، زبور وغیرہ کی تصدیق فرماتے تھے اور خود ان کی کتابوں میں بھی حضورپر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کی بشارت اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف و احوال کا بیان تھا اس لیے حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا وجود مبارک ہی ان کتابوں کی تصدیق ہے ،لہٰذااس بات کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی آمد پر اہل کتاب کا ایمان اپنی کتابوں کے ساتھ اور زیادہ پختہ ہوتا مگر اس کے برعکس انہوں نے اپنی کتابوں کے ساتھ بھی کفر کیا۔ مشہور مفسرسُدِی کا قول ہے کہ جب رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تشریف آوری ہوئی تو یہودیوں نے توریت اور قرآن کا تقابل کیا اور جب دونوں کوایک دوسرے کے مطابق پایا تو انہوں نے توریت کو بھی چھوڑ دیا۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۱ / ۲۳۳)

{ وَ رَآءَ ظُهُوْرِهِمْ: اپنی پشتوں کے پیچھے۔}  پیٹھ پیچھے پھینکنے سے مراد ہے اس کتاب کی طرف بے التفاتی کرنا۔ حضرت سفیان بن عُیَینَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کافرمان ہے کہ یہودیوں نے توریت کو ریشمی غلافوں میں سونے چاندی کے ساتھ مزین کرکے رکھ لیا اور اس کے احکام کو نہ مانا۔(تفسیر جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۱ / ۱۲۷)

قرآن مجید سے متعلق مسلمانوں کی حالت زار:

            اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل نہ کرنا اسے پیٹھ پیچھے پھینکنے کے مترادف ہے اگرچہ اسے روز پڑھے اور اچھے کپڑوں میں لپیٹ کر رکھے جیسے یہودی توریت کی بہت تعظیم کرتے تھے مگر حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ایمان نہ لائے تو اس پر عمل نہ کیا گیا گویا اسے پسِ پشت ڈال دیا۔ آج کے مسلمانوں کا حال بھی اس سے بہت مشابہ ہے کہ قرآن پاک کے عمدہ سے عمدہ اورنفیس نسخے گھروں اورمسجدوں میں الماریوں کی زینت تو ہیں ، ریشمی غلاف بھی ان پر موجود ہیں لیکن پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی حالت یہ ہے کہ ان الماریوں اور ریشمی غلافوں پر گرد کی تہہ جم چکی ہے اور حقیقتا وہ گرد ان غلافوں پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے دلوں پر جمی ہوئی ہے۔آج کہاں ہیں وہ مسلمان جنہیں قرآن کے حلال وحرام کا علم ہو؟جنہیں اسلامی اخلاق کا پتہ ہو؟ جن کے دل اللہ تعالیٰ کی آیات سن کر ڈر جاتے ہوں اور ان کے اعضا اللہ تعالیٰ کے خوف سے کانپ اٹھتے ہوں ؟ جن کے دل و دماغ پر قرآن کے انوار چھائے ہوئے ہوں۔ افسوس!

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر

ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

             اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ قرآن شریف کی طرف پیٹھ نہیں کرنی چاہیے کہ یہ بے رخی اور بے تَوَجُّہی کی علامت ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بے عمل آدمی جاہل کی طرح ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہے۔

2:102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَۚ-وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَۗ-وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَؕ-وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْؕ-فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖؕ-وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْؕ-وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ﳴ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْؕ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۱۰۲)
اور اس کے پیرو ہوئے جو شیطان پڑھا کرتے تھے سلطنت سلیمان کے زمانہ میں (ف۱۷۸) اور سلیمان نے کفر نہ کیا (ف۱۷۹) ہاں شیطان کافر ہوئے (ف۱۸۰) لوگوں کو جادو سکھاتے ہیں اور وہ (جادو) جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر اترا اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو نری آزمائش ہیں تو اپنا ایمان نہ کھو (ف۱۸۱) تو ان سے سیکھتے وہ جس سے جدائی ڈالیں مرد اور اس کی عورت میں اور اس سے ضرر نہیں پہنچا سکتے کسی کو مگر خدا کے حکم سے (ف۱۸۲) اور وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان دے گا نفع نہ دے گا اور بیشک ضرور انہیں معلوم ہے کہ جس نے یہ سودا لیا آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں اور بیشک کیا بری چیز ہے وہ جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانیں بیچیں کسی طرح انہیں علم ہوتا- (ف۱۸۳)

{وَ اتَّبَعُوْا: وہ جادو کے پیچھے پڑ  گئے۔} شان نزول: حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے زمانہ میں بنی اسرائیل جادو سیکھنے میں مشغول ہوئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان کو اس سے روکا اور ان کی کتابیں لے کر اپنی کرسی کے نیچے دفن کردیں۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کے بعد شیاطین نے وہ کتابیں نکال کر لوگوں سے کہا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماسی کے زور سے سلطنت کرتے تھے۔ بنی اسرائیل کے نیک لوگوں اور علماء نے تو اس کا انکار کیا لیکن ان کے جاہل لوگ جادو کو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا علم مان کر اس کے سیکھنے پر ٹوٹ پڑے، انبیاءِ کرام  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی کتابیں چھوڑ دیں اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر ملامت شروع کی۔ہمارے آقا محمد مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے تک یہی حال رہا اور اللہ  تعالیٰ نے حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ذریعے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جادو سے براء ت کا اظہار فرمایا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۱ / ۷۳)

{وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ: اور سلیمان نے کفر نہ کیا۔}اس آیت سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں سے دشمنوں کے الزام دور کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جیسا کہ لوگوں نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر جادو گری کی تہمت لگائی اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس تہمت کو دور فرمایا۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جادو کرنا کبھی کفر بھی ہوتا ہے جبکہ اس میں کفریہ الفاظ ہوں۔

{هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ: ہاروت اور ماروت۔}ہاروت، ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں بنی اسرائیل کی آزمائش کیلئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا۔ ان کے بارے میں غلط قصے بہت مشہور ہیں اور وہ سب باطل ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۱ / ۷۵)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے ہاروت اور ماروت کے بارے میں جو کلام فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ہاروت اور ماروت کا واقعہ جس طرح عوام میں مشہور ہے آئمہ کرام اس کا شدید اور سخت انکار کرتے ہیں ، اس کی تفصیل شفاء شریف اور اس کی شروحات میں موجود ہے، یہاں تک کہ امام اجل قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’ہاروت اور ماروت کے بارے میں یہ خبریں یہودیوں کی کتابوں اور ان کی گھڑی ہوئی باتوں میں سے ہیں۔ اور راجح یہی ہے کہ ہاروت اور ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی آزمائش کے لئے مقرر فرمایا کہ جو جادو سیکھنا چاہے اسے نصیحت کریں کہ ’’اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ‘‘ ہم توآزمائش ہی کے لئے مقررہوئے ہیں توکفرنہ کر۔ اور جو ان کی بات نہ مانے وہ اپنے پاؤں پہ چل کے خودجہنم میں جائے،یہ فرشتے اگر اسے جادو سکھاتے ہیں تو وہ فرمانبرداری کر رہے ہیں نہ کہ نافرمانی کر رہے ہیں۔(الشفاء، فصل فی القول فی عصمۃ الملائکۃ، ص۱۷۵-۱۷۶، الجزء الثانی، فتاوی رضویہ، کتاب الشتی، ۲۶ / ۳۹۷)

فرشتوں کی عصمت کا بیان:

فرشتوں کے بارے میں عقیدہ یہ ہے کہ یہ گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’لَا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ‘‘(تحریم: ۶)

ترجمۂکنزالعرفان:وہ (فرشتے)اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔

اور ارشاد فرمایا:

’’ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ(۴۹)یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۠۩(۵۰)‘‘(نحل: ۴۹-۵۰)

ترجمۂ کنزالعرفان:اورفرشتے غرور نہیں کرتے۔ وہ اپنے اوپر اپنے رب کا خوف کرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتاہے۔

امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتے تمام گناہوں سے معصوم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وہ غرور نہیں کرتے ا س بات کی دلیل ہے کہ فرشتے اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے کے اطاعت گزار ہیں اور وہ کسی بات اور کسی کام میں بھی اللہ تعالیٰ کی مخالفت نہیں کرتے۔(تفسیر کبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۵۰، ۷ / ۲۱۷۔۲۱۸)

{فَلَا تَكْفُرْ: تو کفر نہ کر۔} ہاروت و ماروت کے پاس جو شخص جادو سیکھنے آتا تو یہ سکھانے سے پہلے ا سے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے کہ جادو سیکھ کر اور اس پر عمل کرکے اور اس کوجائز و حلال سمجھ کر اپنا ایمان ضائع نہ کر۔اگر وہ ان کی بات نہ مانتا تو یہ اسے جادو سکھا دیتے۔

 جادو کی تعریف اور اس کی مذمت:

علماءِ کرام نے جادو کی کئی تعریفیں بیان کی ہیں ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی شریر اور بدکار شخص کا مخصوص عمل کےذریعے عام عادت کے خلاف کوئی کا م کرناجادو کہلاتا ہے۔(شرح المقاصد، المقصد السادس، الفصل الاول فی النبوۃ، ۵ / ۷۹)

جادو فرمانبردار اور نافرمان لوگوں کے درمیان امتیاز کرنے اور لوگوں کی آزمائش کے لیے نازل ہوا ہے،جو اس کو سیکھ کر اس پر عمل کرے کافر ہوجائے گابشرطیکہ اُس جادو میں ایمان کے خلاف کلمات اور افعال ہوں اوراگر کفریہ کلمات و افعال نہ ہوں تو کفر کا حکم نہیں ہے۔

یہاں مزید تین مسئلے یاد رکھیں :

 (1)…جو جادو کفر ہے اس کا عامل اگر مردہوتو اسے قتل کردیا جائے گا۔

 (2) …جو جادو کفر نہیں مگر اس سے جانیں ہلاک کی جاتی ہیں تو اس کا عامل ڈاکو کے حکم میں ہے مردہو یا عورت۔ یعنی اس کی سزا بھی قتل ہے۔

(3)…اگر جادو گر توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص ۶۹)

احادیث میں جادو کی بہت مذمت کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت عثمان بن ابی عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو ارشاد فرماتے سنا: ’’اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رات کی ایک گھڑی اپنے گھر والوں کو بیدار کرتے اور ارشاد فرماتے:’’اے آلِ داؤد! اٹھو اور نماز پڑھو کیونکہ اس گھڑی اللہ تعالیٰ جادو گر اور (ناحق) ٹیکس لینے والے کے علاوہ ہرایک کی دُعا قبول فرماتا ہے۔ (مسند امام احمد، مسند المدنیین، حدیث عثمان بن ابی العاص الثقفی، ۵ / ۴۹۲، الحدیث: ۱۶۲۸۱)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’شراب کا عادی، جادو پریقین رکھنے والا اور قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الکھانۃ والسحر، ۷ / ۶۴۸، الحدیث: ۶۱۰۴)

یاد رہے کہ یہاں جادو گر کے بارے میں جو سزائیں بیان کی گئیں یہ سزائیں دینا صرف اِسلامی حکومت کا کام ہے، عوامُ النَّاس کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ، البتہ ہر ایک کو چاہئے کہ جادو کرنے والوں سے دور رہے۔ نیزجادو سے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے کتاب ’’جہنم میں لے جانے والے اعمال‘‘ کی دوسری جلد کا مطالعہ فرمائیں۔

{وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ: اور وہ نقصان پہنچانے والے نہیں۔}اس آیت سے چند مسائل معلوم ہوئے:

 (1)… مؤثرِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور اسباب کی تاثیر اللہ  تعالیٰ کی مَشِیَّت یعنی چاہنے کے تحت ہے۔ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو ہی کوئی شے اثر کرسکتی ہے،اگر اللہ  تعالیٰ نہ چاہے تو آگ جلا نہ سکے، پانی پیاس نہ بجھا سکے اوردوا شِفا نہ دے سکے۔

(2)… جادو میں اثر ہے اگرچہ اس میں کفریہ کلمے ہوں۔

(3)… جب جادو میں نقصان کی تاثیر ہے تو قرآنی آیات میں ضرور شفا کی تاثیر ہے۔یونہی جب کفار جادو سے نقصان پہنچا سکتے ہیں تو خدا کے بندے بھی کرامت کے ذریعہ نفع پہنچا سکتے ہیں۔ جیسے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا بیماروں ، اندھوں اورکوڑھیوں کو شفا بخشنا خود قرآن مجید میں موجود ہے۔

2:103
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌؕ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠(۱۰۳)
اور اگر وہ ایمان لاتے (ف۱۸۴) اور پرہیزگاری کرتے تو اللہ کے یہاں کا ثواب بہت اچھا ہے کسی طرح انہیں علم ہوتا -

{وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا: اگر وہ ایمان لاتے۔} فرمایا گیا کہ اگر یہودی حضور، سید ِ کائنات  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور قرآنِ پاک پرایمان لاتے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں کا ثواب ان کیلئے بہت اچھا ہوتا کیونکہ آخرت کی تھوڑی سی نعمت دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت سے اعلیٰ ہے۔

2:104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)
اے ایمان والو! (ف۱۸۵) راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو (ف۱۸۶) اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے- (ف۱۸۷)

{لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا: راعنا نہ کہو۔ }شان نزول: جب حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللہْ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہیا رسول اللہ  !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کامعنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُیہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سناتو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۱ / ۴۴-۴۵، الجزء الثانی، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۱ / ۶۳۴، تفسیر عزیزی(مترجم / ۶۶۹، ملتقطاً)

آیت’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ایسے الفاظ کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ اور حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ کا ادب ربُّ العالَمین خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔

{وَ اسْمَعُوْا: اور غور سے سنو۔} یعنی حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے کلام فرمانے کے وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ تاکہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتوجہ فرمائیں کیونکہ دربارِ نبوت کا یہی ادب ہے۔

{وَ لِلْكٰفِرِیْنَ: اور کافروں کیلئے۔}  یعنی جو یہودی سید المرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی توہین کر رہے ہیں اور ان کے بارے میں بے ادبی والے الفاظ استعمال کر رہے ہیں ان یہودیوں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۱ / ۹۷)

یاد رہے کہ اس آیت میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے ۔

2:105
مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ لَا الْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(۱۰۵)
وہ جو کافر ہیں کتابی یا مشرک (ف۱۸۸) وہ نہیں چاہتے کہ تم پر کوئی بھلائی اترے تمہارے رب کے پاس سے (ف۱۸۹) اور اللہ اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے جسے چاہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے -

{مَا یَوَدُّ : کافر نہیں چاہتے ۔}شانِ نزول :یہودیوں کی ایک جماعت مسلمانوں کے ساتھ دوستی اور خیر خواہی کا اظہار کرتی تھی ان کی تکذیب میں یہ آیت نازل ہوئی اورمسلمانوں کو بتایا گیا کہ یہ کفار خیر خواہی کے دعوے میں جھوٹے ہیں۔

2:106
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَاؕ-اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۱۰۶)
جب کوئی آیت منسوخ فرمائیں یا بھلا دیں (ف۱۹۰) تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آئیں گے کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے-

{مَا نَنْسَخْ: ہم جو منسوخ فرمائیں۔}  نسخ کا معنیٰ ہے: سابقہ حکم کو کسی بعد والی دلیلِ شرعی سے اٹھا دینا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۱ / ۷۷)    اور یہ حقیقت میں سابقہ حکم کی مدت کی انتہاء کا بیان ہوتا ہے۔ اس آیت کاشان نزول یہ ہے کہ قرآن کریم نے گزشتہ شریعتوں اور کتابوں کو منسوخ فرمایا تو کفار کو بڑی وحشت ہوئی اور انہوں نے اس پر اعتراضات کئے، اس پر یہ آیت ِ  مبارکہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ منسوخ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ناسِخْ بھی، دونوں عین حکمت ہیں اور ناسخ کبھی منسوخ سے زیادہ آسان اور نفع بخش ہوتا ہے لہٰذا قدرت ِالہٰی پر یقین رکھنے والے کو اس میں تَرَدُّد کی کوئی گنجائش نہیں۔ کائنات میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ اللہ  تعالیٰ دن سے رات کو، گرما سے سرما کو ،جوانی سے بچپن کو، بیماری سے تندرستی کو ،بہار سے خزاں کو منسوخ فرماتا ہے۔یہ تمام نسخ و تبدیل اس کی قدرت کے دلائل ہیں تو ایک آیت اور ایک حکم کے منسوخ ہونے میں کیا تعجب ؟ نسخ حقیقت میں سابقہ حکم کی مدت کا بیا ن ہو تا ہے کہ وہ حکم اس مدت کے لیے تھا اور اب وہ مدت پوری ہوگئی۔ صرف یہ تھا کہ ہمیں وہ مدت معلوم نہ تھی اور ناسخ کے آنے سے معلوم ہوگئی۔ کفار کا اعتراض تو جہالت و ناسمجھی کی وجہ سے تھا لیکن اہلِ کتاب کو تو کسی بھی صورت یہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت کے بہت سے احکام تو وہ بھی منسوخ مانتے ہیں جیسے بہن بھائی کا آپس میں نکاح، یونہی یہودیوں سے پہلے ہفتہ کے دن دنیوی کام حرام نہ تھے ،ان پر حرام ہوئے، نیز توریت میں ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امت کے لئے تمام جانور حلال تھے جبکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بہت سے حرام کردیئے گئے۔ ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے نسخ کا انکار کس طرح ممکن ہے۔

 نسخ کے چند احکام:

(1)…جس طرح کوئی آیت دوسری آیت سے منسوخ ہوتی ہے اسی طرح حدیث ِمتواتر سے بھی آیت منسوخ ہوتی ہے۔

(2)… کبھی صرف تلاوت منسوخ ہوتی ہے اورکبھی صرف حکم منسوخ ہوتاہے اور کبھی تلاوت و حکم دونوں منسوخ ہوتے ہیں۔بیہقی شریف میں ہے کہ ایک انصاری صحابی رات کو تہجد کے لیے اٹھے اور سورۂ فاتحہ کے بعد جو سورت ہمیشہ پڑھا کرتے تھے اس کو پڑھنا چاہا لیکن وہ بالکل یاد نہ آئی اور سوائے بسم اللہ کے کچھ نہ پڑھ سکے ۔صبح کو دوسرے ا صحاب سے اس کا ذکر کیا توان حضرات نے فرمایا :ہمارا بھی یہی حال ہے، وہ سورت ہمیں بھی یاد تھی اور اب ہمارے حافظہ میں بھی نہ رہی۔ سب نے بارگاہِ رسالت میں واقعہ عرض کیا تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: آج رات وہ سورت اٹھالی گئی۔ اس کے حکم و تلاوت دونوں منسوخ ہوئے جن کاغذوں پر وہ لکھی گئی تھی ان پر نقش تک باقی نہ رہے۔(دلائل النبوہ للبیہقی، باب ما جاء فی تألیف القرآن۔۔۔ الخ، ۷ / ۱۵۷، ملخصاً)

{نَاْتِ بِخَیْرٍ: ہم بہتر لے آئیں گے۔} فرمایا کہ ہم کسی آیت کو منسوخ فرمادیں یا بھلادیں تو اس کی جگہ زیادہ آساناور زیادہ ثواب والا یا کم از کم پہلے والے حکم کے برابر حکم لے آئیں گے۔پہلے سے زیادہ سہولت والے کی مثال ہے جیسے پہلے دس گنا تک کے لشکر سے جہاد کا حکم تھا پھر صرف دو گنا تک کے لشکر سے جہاد میں ڈٹے رہنے کا حکم نازل ہوا۔ زیادہ ثواب کی مثال ہے جیسے پہلے ایک قول کے مطابق روزے کی طاقت رکھنے والے کو بھی فدیہ دینے کی اجازت تھی لیکن بعد میں اس پر روزے کا حکم ہی متعین کردیا جو فدیہ سے زیادہ ثواب والا حکم ہے۔ سہولت میں برابر کے حکم کی مثال ہے جیسے بیت المقدس سے پھیر کر خانہ کعبہ کو قبلہ بنادیا گیا حالانکہ دونوں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے میں برابر درجے کی سہولت ہے۔

2:107
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(۱۰۷)
کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار،

{لَهٗ مُلْكُ: اسی کی بادشاہی ہے۔}اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ اپنے ملک میں جو چاہے جب چاہے قانون جاری کرے، جب کائنات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، دن جاتا ہے رات آتی ہے اور سارے جہان میں ہر طرح تبدیلی ہوتی رہتی ہے توشرعی قانون میں بھی تبدیلی ہو سکتی ہے اوریہ تبدیلی مخلوق کی مصلحت کی وجہ سے ہے۔

{مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے مقابلے میں۔}اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی اجازت اور اختیار دینے سے مدد ہوسکتی ہے ، قرآن وحدیث میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں جیسے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیماروں ، کوڑھیوں اور نابیناؤں کی مدد کرتے تھے۔ فرشتوں نے غزوہ بدر اور غزوہ حُنَین میں مسلمانوں کی مدد کی۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وزیر نے تخت ِ بلقیس لا کر مدد کی۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے سینکڑوں مرتبہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی کھانے، پینے، بیماریوں اور پریشانیوں میں مدد کی۔ حضور غوث ِ پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور اولیاء کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کامدد کرنا لاکھوں لوگوں کے تجربات اور تواتر سے ثابت ہے۔

2:108
اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْــٴَـلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُىٕلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُؕ-وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ(۱۰۸)
کیا یہ چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے ویسا سوال کرو جو موسیٰ سے پہلے ہوا تھا (ف۱۹۱) اور جو ایمان کے بدلے کفر لے (ف۱۹۲) وہ ٹھیک راستہ بہک گیا -

{كَمَا سُىٕلَ مُوْسٰى: جیسے موسیٰ سے سوال کیا گیا۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ یہودیوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں عرض کیا:جس طرح حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تورات لے کر آئے تھے اسی طرح آپ بھی ہمارے پاس ایک ہی مرتبہ سارا قرآن لے آئیں۔بعض نے یوں کہا کہ ہم آپ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے نہیں لے آتے۔ان کے سوالات کے جواب میں ان سے فرمایا گیا: کیاتم یہ چاہتے ہو کہ تم اپنے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ویسے ہی سوال کر و جیسے محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے کئے گئے تھے۔اے یہودیو!جب میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کا درست ہونا دلائل اور معجزات سے ثابت ہو چکا تو پھر ایسے لا یعنی سوال کیوں کر رہے ہو اور اے ایمان والو! بے شک یہودی دھوکے باز اور تم سے حسد کرنے والے ہیں اور ان کی تمنا یہ ہے کہ مسلمان کسی نہ کسی مشکل میں مبتلا ہوں لہٰذا ان کی کوئی ایسی بات قبول نہ کرو جو بظاہر نصیحت لگ رہی ہو اور یاد رکھو کہ جو ایمان کے بدلے کفر اختیار کر کے اپنے دین سے پھر گیا تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۱ / ۷۹)

دوسری تفسیر یہ ہے کہ کفار مکہ نے حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ سارا قرآن ایک ہی مرتبہ لے آئیں ، کسی نے کہا کہ اللہ  تعالیٰ( اور فرشتے )ہمارے سامنے اعلانیہ آجائیں ،کسی نے کہا کہ کوہِ صفا کو سونے کا بنادیں۔ ان کے سوالات کے جواب میں ان سے فرمایا گیا کہ تم بھی اپنے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے اسی طرح فضول سوال کر رہے ہو جس طرح ان سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم نے ان سے کہا تھا کہ ہمیں اعلانیہ خدا دکھا دو،  حالانکہ آیات ِ قرآنیہ کے نزول کے بعد دوسری نشانیوں کا مطالبہ کرنا سیدھے راہ سے بھٹکنا ہے۔(طبری، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۱ / ۵۳۰، در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸،  ۱ / ۲۶۰-۲۶۱، جلالین مع صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۱ / ۹۹-۱۰۰، ملتقطاً)

صحیح مقصد کے بغیر سوال کرنا منع ہے:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی صحیح مقصد کے بغیر سوال کرنا ممنوع ہے نیز فضول سوال کرنا بھی ممنوع ہے۔ لہٰذا عوام الناس کو چاہئے کہ اس بات کو پیش نظررکھیں کہ علماء اور مفتیانِ کرام سے وہی سوال کئے جائیں جن کی حاجت ہو، زمین پر بیٹھ کر خواہ مخواہ چاندپر رہائش کے سوال نہ کئے جائیں۔بعض لوگ علماء کو پریشان کرنے یا ان کا امتحان لینے یا ان کی لاعلمی ظاہر کرنے کیلئے سوال کرتے ہیں ،یہ سب ناجائز ہے۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’میں تمہیں جس کام سے منع کروں اس سے رک جاؤ اور جس کام کا حکم دوں اسے اپنی طاقت کے مطابق کرو، تم سے پہلے لوگوں کو محض ان کے سوالات کی کثرت اوراپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اختلاف کرنے نے ہلاک کیا۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب توقیرہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ص ۱۲۸۲، الحدیث: ۱۳۰ (۱۳۳۷))

من پسند حکم کا مطالبہ کرنایہودیوں کا طریقہ ہے:

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسئلہ معلوم کرکے عمل کرنے کی بجائے خواہ مخواہ بال کی کھال اتارتے رہنا اور اپنے من پسند حکم کا مطالبہ کرنا یہودیوں اور مشرکوں کا طریقہ ہے۔ہمارے معاشرے میں بھی لوگوں کی ایک تعداد ایسی ہے جن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ معاملات یا عبادات میں جو صورت انہیں درپیش ہے اس میں فتویٰ ان کی مرضی اور پسند کے عین مطابق ملے اور اگر انہیں کہیں سے کوئی ایک ایسی دلیل مل جاتی ہے جو ان کے مقصد و مفادکو پورا کر رہی ہوتی ہے تو وہ اسی پر اڑ جاتے ہیں اگرچہ اس کے خلاف ہزار دلائل موجود ہوں لیکن وہ چونکہ ان کی مراد کے خلاف ہوتے ہیں اس لئے انہیں قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے اور ان کے بارے میں طرح طرح کی الٹی سیدھی تاویلیں پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے۔

2:109
وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا ۚۖ-حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّۚ-فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۱۰۹)
بہت کتابیوں نے چاہا (ف۱۹۳) کاش تمہیں ایمان کے بعد کفر کی طرف پھیردیں اپنے دلوں کی جلن سے (ف۱۹۴) بعد اس کے کہ حق ان پر خوب ظاہر ہوچکا ہے تو تم چھوڑو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے -

{وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: بہت سے اہلِ کتاب نے چاہا۔}جنگ ِاحد کے بعد یہودیوں کی ایک جماعت نے حضرت حذیفہ بن یمان اور عمار بن یاسررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو معاذاللہ مرتد ہونے کی دعوت دی۔ ان بزرگوں نے سختی سے رد کردیا اور پھر حضوراقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس واقعہ کی خبر دی۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: تم نے بہتر کیا اور فلاح پائی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۱ / ۷۹)

{حَسَدًا: حسد کی وجہ سے۔} اسلام کی حقانیت جاننے کے بعد یہودیوں کا مسلمانوں کے کفر و ارتداد کی تمنا کرنااور یہ چاہنا کہ وہ ایمان سے محروم ہو جائیں حسدکی وجہ سے تھا۔ اس سے معلوم ہو اکہ حسد بہت بڑا عیب ہے اور ا س کی وجہ سے انسان نہ صرف خود بھلائی سے رک جاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی بھلائی سے روکنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس سے بچنے کی خوب کوشش کرے۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسول  اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’حسد سے دور رہو کیونکہ حسدنیکیوں کو اس طرح کھاجاتاہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو‘‘یافرمایا: ’’گھاس کوکھاجاتی ہے۔‘‘(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد، ۴ / ۳۶۱، الحدیث: ۴۹۰۳)

             حضرت وہب بن منبہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :حسد سے بچو،کیونکہ یہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے آسمان میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی اور یہی پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی ۔(تنبیہ المغترین، الباب الثالث فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم رضی اللہ تعالی عنہم عدم الحسد لاحد من المسلمین۔۔۔ الخ، ص۱۸۸)

            یاد رہے کہ حسد حرام ہے البتہ اگر کوئی شخص اپنے مال و دولت یا اثر ووجاہت سے گمراہی اور بے دینی پھیلاتا ہو تو اس کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لیے اس کی نعمت کے زوال کی تمنا حسد میں داخل نہیں اور حرام بھی نہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۱ / ۷۹-۸۰)

{فَاعْفُوْا: تو تم معاف کرو۔} کفار کے ساتھ جنگ کے ذریعے بدلے لینے کی بجائے نرمی کی تمام آیات کا یہ حکم ہے کہ وہ جہاد کی آیتوں سے منسوخ ہیں جیسااس حکم کے آخر میں خود فرمادیا ’’یہاں تک کہ اللہ  اپنا حکم لائے‘‘ اور وہ حکم جہاد وقتال کا ہے۔

2:110
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ-وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۱۱۰)
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو (ف۱۹۵) اور اپنی جانوں کے لئے جو بھلائی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے یہاں پاؤ گے بیشک اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے-

{وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ: اور نماز قائم کرو۔} یہاں مسلمانوں کو اپنی اصلاحِ نفس کا حکم دیا جارہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کسی بھی دینی یا دنیوی اہم کام میں مصروف ہواسے اپنے نفس کی اصلاح سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ عین حالت ِ جہاد میں بھی نمازِ خوف کا حکم موجود ہے۔ طلاق کے مسائل بیان کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ نے نماز اور تقویٰ کے احکام بیان فرمائے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی نیکی کی دعوت میں یا علمِ دین کے حصول یا کسی دوسرے اہم دینی کام میں مشغول ہے تو اسے اپنی اصلاح سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔

2:111
وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰىؕ-تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْؕ-قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۱۱۱)
اور اہل کتاب بولے، ہرگز جنت میں نہ جائے گا مگر وہ جو یہودی یا نصرانی ہو (ف۱۹۶) یہ ان کی خیال بندیاں ہیں تم فرماؤ لا ؤ اپنی دلیل (ف۱۹۷) اگر سچے ہو-

{لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ: ہر گز جنت میں داخل نہ ہوں گے۔}یہودی مسلمانوں سے کہتے تھے کہ جنت میں صرف یہودی جائیں گے اور عیسائی کہتے تھے کہ صرف وہی جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ گفتگو مسلمانوں کو بہکانے کے لئے تھی، ان کی تردید میں یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی، جس میں فرمایا گیا کہ ان کی یہ بات ان کی اپنی رائے سے ہے، توریت و انجیل میں ایسا کچھ نہیں فرمایا گیا،اگر وہ سچے ہیں تو اپنی اس بات پر کوئی دلیل لائیں۔

{اَمَانِیُّهُمْ: ان کی من گھڑت تمنائیں۔}بغیر کسی بنیاد کے جنت میں داخلے کے زبانی دعوے کرنا جہالت و حماقت ہے۔ ایک امید ہے جسے عربی میں ’’رَجا‘‘ کہتے ہیں اور ایک خام خیالی ہے جسے عربی میں ’’اُمْنِیَّہْ‘‘ کہتے ہیں۔ امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس موضوع پر بڑا پیاراکلام ارشاد فرمایا ہے۔ اس کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : رجاء یعنی امیددل کی اس راحت کا نام ہے جو محبوب چیز کے انتظار سے حاصل ہوتی ہے لیکن یہ محبوب جس کی توقع کی جا رہی ہے ا س کا کوئی سبب ہونا چاہئے لہٰذا اگر اس کا انتظار اکثر اسباب کے ساتھ ہے تو اسے ’’رجا‘‘ یعنی امید کہتے ہیں اور اگر اسباب بالکل نہ ہوں یا اضطراب کے ساتھ ہوں تو اسے امید نہیں بلکہ دھوکہ اور بیوقوفی کہا جائے گا اور اگر اسباب کے ہونے یا نہ ہونے کا علم نہ ہو تو اس انتظار کو’’تمنا‘‘ کہتے ہیں۔ اہلِ دل حضرات جانتے ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دل زمین کی طرح ہے ،ایمان اس میں بیج کی حیثیت رکھتا ہے اور عبادت زمین کو الٹ پلٹ کرنے، صاف کرنے اور نہر یں کھودنے اور ان زمینوں میں پانی جاری کرنے کی طرح ہیں اور دل جو دنیا میں غرق اور ڈوبا ہوا ہے اس بنجر زمین کی طرح ہے جس میں بیج کوئی پھل نہیں لاتااور قیامت کا دن فصل کاٹنے کا دن ہے اور ہر شخص وہی کاٹے گا جو اس نے بویا ہو گا اور کھیتی کا بڑھنا ایمان کے بیج کے بغیر ناممکن ہے اور جب دل میں خباثت اور برے اخلاق ہوں تو ایمان بہت کم نفع دیتا ہے جیسے بنجر زمین میں بیج سے فصل پیدا نہیں ہوتی تو مناسب یہی ہے کہ آدمی کے مغفرت کی امید رکھنے کو کھیتی والے پر قیاس کیا جائے یعنی جو شخص اچھی زمین حاصل کرتا ہے اور اس میں عمدہ بیج ڈالتا ہے جو نہ توخراب ہوتا ہے اور نہ ہی بدبودار اور پھر اس کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے ۔ ضروریات سے مراد وقت پر پانیدینا،زمین کو کانٹوں اور گھاس پھونس نیز ان تمام خرابیوں سے پاک کرنا جو بیج کو بڑھنے سے روکتی ہیں یا خراب کر دیتی ہیں۔ تو جو یہ سب کام کرے پھر اللہ  تعالیٰ کے فضل کا منتظر ہو کر بیٹھ جائے کہ وہ زمین کو بجلی کی گرج اور دیگر آفات سے بچائے گا یہاں تک کہ کھیتی اپنی تکمیل کو پہنچ جائے تو اس انتظار کورجا یعنی امید کہتے ہیں اور اگر سخت زمین میں بیج ڈالے جو شور زیادہ ہو اور بلندی پر ہو جس تک پانی نہیں پہنچ سکتا اور بیج کی پروا بھی نہ کرے اورپھر اس کے کٹنے کا انتظار کرے تو اس انتظار کو بیوقوفی اور دھوکہ کہتے ہیں امید نہیں کہتے اور اگر اچھی زمین میں بیج ڈالالیکن اس میں پانی نہیں ہے اب وہ بارش کے انتظار میں ہے اور یہ ایسا وقت ہے جس میں عام طور پر بارش نہیں برستی تو اس انتظار کو تمنا کہتے ہیں ’’رجا‘‘ نہیں کہتے تو گویا رجاکا لفظ کسی ایسی پسندیدہ چیز کے انتظار پر صادق آتا ہے جس کے لئے وہ تمام اسباب تیار کر دئیے گئے ہوں جو بندے کے اختیار میں ہیں ، صرف وہی اسبا ب باقی رہ گئے جو بندے کے اختیار میں نہیں ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی وجہ سے تمام نقصان دہ اور فاسدکرنے والے اسباب کھیتی سے دور ہو جاتے ہیں پس جب بندہ ایمان کا بیج ڈالتا ہے اورا س کو عبادات کا پانی پلاتا ہے ،دل کو بد اخلاقی کے کانٹوں سے پاک کرتا ہے اور اللہتعالیٰ کے فضل کا مرتے دم تک منتظر رہتا ہے، مغفرت تک پہنچانے والے اچھے خاتمے کا انتظار کرتا ہے تو یہ انتظار حقیقی رجا (امید ) ہے یہ ذاتی طور پر قابلِ تعریف ہے اوراگر ایمان کے بیج کو عبادات کا پانی نہ دیا جائے یا دل کو برے اخلاق سے ملوث چھوڑدیا جائے اور دنیاوی لذت میں منہمک ہو جائے اورپھر مغفرت کا انتظار کرے تو اس کا انتظار ایک بیوقوف اور دھوکے میں مبتلاشخص کا انتظار ہے۔نبی اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’اَلْاَحْمَقُ مَنِ اتَّبَعَ نَفْسَہٗ ہَوَاھَا وَتَمَنّٰی عَلَی اللہِ  الْاَمَانِیَّ‘‘ بے وقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کے پیچھے لاتا ہے اور(اس کے باوجود) اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرتا ہے(کہ وہ بڑا کریم اور غفور و رحیم ہے،اس سے اور اس کے اعمال سے بے پرواہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اسے کوئی سزا نہیں دے گا بلکہ جنت میں داخل کر دے گا اور وہ اس کی من چاہی چیزیں اسے دے گا)۔(فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۲ / ۴۴۵، تحت الحدیث: ۲۰۲۵، احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجاء، ۴ / ۱۷۵)

2:112
بَلٰىۗ-مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ۪-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۠(۱۱۲)
ہاں کیوں نہیں جس نے اپنا منہ جھکایا اللہ کے لئے اور وہ نیکو کار ہے (ف۱۹۸) تو اس کا نیگ اس کے رب کے پاس ہے اور انہیں کچھ اندیشہ ہو اور نہ کچھ غم-(ف۱۹۹)

{بَلٰى : کیوں نہیں۔}جنت میں داخلے کا حقیقی معیار ایمانِ صحیح اور عملِ صالح ہے اور کسی بھی زمانے اور کسی بھی نسل و قوم کا آدمی اگر صحیح ایمان و عمل رکھتا ہے تو وہ جنت میں جائے گا۔ البتہ یہ یاد رہے کہ نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اعلانِ نبوت کے بعد آپ کی نبوت نہ ماننے والے کا ایمان قطعاً صحیح نہیں ہوسکتا اور کوئی بھی عمل ایمان کے بغیر صالح نہیں ہوسکتا،گویا جو حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان رکھے اور عملِ صالح کرے وہ جنت کا مستحق ہے۔

 چونکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا تھا کہ ان کے سوا کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا تو اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ ان کے علاوہ کوئی جنت میں کیوں داخل نہیں ہوگا جبکہ اللہ  تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جو بھی ایمان صحیح اور عمل صالح لے کر آئے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔

2:113
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰى شَیْءٍ ۪-وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰى لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰى شَیْءٍۙ-وَّ هُمْ یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَؕ-كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْۚ-فَاللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(۱۱۳)
اور یہودی بولے نصرانی کچھ نہیں اور نصرانی بولے یہودی کچھ نہیں (ف۲۰۰) حالانکہ وہ کتاب پڑھتے ہیں، (ف۲۰۱) اسی طرح جاہلوں نے ان کی سی بات کہی (ف۲۰۲) تو اللہ قیامت کے دن ان میں فیصلہ کردے گا جس بات میں جھگڑ رہے ہیں-

{قَالَتِ الْیَهُوْدُ: یہودی بولے۔} ایک بار نجران کے عیسائیوں اور( مدینہ منورہ )کے یہودیوں کے علماء کی بارگاہ مصطفوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیں آپس میں بحث ہوگئی۔ بحث کے دوران دونوں نے خوب شور مچایا۔ یہودی کہتے تھے کہ عیسائیوں کا دین کچھ نہیں اور عیسائی کہتے تھے کہ یہودیوں کا دین کچھ نہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔  (تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۲ / ۹)

{یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ: وہ کتاب پڑھتے ہیں۔} یعنی علم ہونے کے باوجود یہودو نصاریٰ نے ایسی جاہلانہ گفتگو کی حالانکہ انجیل شریف جس کو نصاریٰ مانتے ہیں اس میں توریت شریف اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کی تصدیق ہے اور توریت جس کو یہودی مانتے ہیں اس میں حضرت عیسٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی نبوت اور ان تمام احکام کی تصدیق ہے جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئے۔

قرآن پڑھ کر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں کو تنبیہ:

            یہودیوں اور عیسائیوں کی اس روش کے بیان میں سید المرسَلین  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت کے ان مسلمانوں کے لئے بھی تنبیہ ہے کہ جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور اس میں بیان کئے گئے احکام سے آگاہ بھی ہیں اورا س کے باو جود ان احکام پر عمل نہیں کرتے اور اگر عمل کرتے بھی ہیں تو فقط ان احکام پر جو ان کی خواہشات کے موافق ہوں اور جو احکام ان کی خواہش کے موافق نہیں اُن پر عمل نہیں کرتے۔

            حضرت زیاد بن لبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں ’’حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے کسی بات کا تذکرہ فرمایا اور ارشاد فرمایا ’’یہ اس وقت ہو گا جب کہ علم اٹھ جائے گا۔میں نے عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، علم کیسے اٹھ جائے گا حالانکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنی اولاد کو پڑھاتے ہیں اور وہ اپنی اولاد کو پڑھائیں گے، اسی طرح یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اے زیاد!تیری ماں تجھے گم پائے،میں تمہیں مدینہ کے فہیم لوگوں میں شمار کرتا تھا کیا یہودی اور عیسائی تورات اور انجیل نہیں پڑھتے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس پر عمل نہیں کرتا۔(اسی طرح مسلمان قرآن تو پڑھیں گے لیکن ا س پر عمل نہیں کریں گے اور جو اپنے علم پر عمل نہ کرے وہ اور جاہل دونوں برابر ہیں )(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب ذہاب القرآن والعلم، ۴ / ۳۸۳، الحدیث: ۴۰۴۸) اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو قرآن مجید کی تلاوت کرنے، اسے سمجھنے اور اس کے احکام و تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین۔

{كَذٰلِكَ قَالَ: اسی طرح کہا۔} اہلِ کتاب کے علماء کی طرح جاہل بت پرستوں اور آتش پرستوں نے ہر دین کوجھٹلانا شروع کردیا اور کہنے لگے کہ دین کچھ نہیں۔ انہیں جاہلوں میں سے مشرکین عرب بھی ہیں جنہوں نے نبی کر یم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اورآپ کے دین کے بارے ایسے ہی کلمات کہے۔

2:114
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآىٕفِیْنَ۬ؕ-لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۱۱۴)
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون (ف۲۰۳) جو اللہ کی مسجدوں کو روکے ان میں نامِ خدا لئے جانے سے (ف۲۰۴) اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے (ف۲۰۵) ان کو نہ پہنچتا تھا کہ مسجدوں میں جائیں مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے (ف۲۰۶) اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب - (ف۲۰۷)

{وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون۔} یہ آیت بیت المقدس کی بے حرمتی کے متعلق نازل ہوئی جس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ روم کے عیسائیوں نے یہودیوں پر حملہ کرکے ان کے جنگجوؤں کو قتل کردیا، ان کے بیوی بچوں کو قید کرلیا، توریت کو جلادیا، بیت المقدس کو ویران کردیا، اس میں نجاستیں ڈالیں ، خنزیر ذبح کیے، یوں بیت المقدس خلافت ِفاروقی تک اسی ویرانی میں رہا۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے عہد مبارک میں مسلمانوں نے اسے بنایا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت مشرکین مکہ کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے ابتدائے اسلام میں حضور سید عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور آپ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہم کو کعبہ میں نماز پڑھنے سے روکا تھا اور صلح حدیبیہ کے وقت اس میں نماز و حج سے منع کیا تھا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۱ / ۸۱)

{اَنْ یُّذْكَرَ: کہ ذکر کیا جائے۔} ذکر میں نماز، خطبہ، تسبیح ،وعظ، نعت شریف اور صالحین کے حالات کا بیان سب داخل ہیں۔ ذکر اللہ کو منع کرنا ہر جگہ ہی برا ہے لیکن مسجدوں میں خصوصاً زیادہ برا ہے کہ وہ تو اسی کام کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ مسجد کو کسی بھی طرح ویران کرنے والا ظالم ہے۔ بلاوجہ لوگوں کو مسجد میں آنے یا مسجد کی تعمیر سے روکنے والا، مسجد یا اس کے کسی حصے پرقبضہ کرنے والا، مسجد کو ذاتی استعمال میں لے لینے والا، مسجد کے کسی حصے کو مسجد سے خارج کرنے والا یہ سب لوگ اس آیت کی وعید میں داخل ہیں۔ تفصیل کیلئے فتاویٰ رضویہ شریف کے کتاب الوقف کا مطالعہ کریں۔البتہ یہ یاد رہے کہ  جنبی (یعنی جس پر غسل فرض ہو)، منہ کی بدبو والے ، لہسن پیازوغیرہ بدبودار چیزوں کی بو جس کے منہ سے آرہی ہو اسے روکنااس میں داخل نہیں کہ یہ حقیقت میں مسجد سے تکلیف دہ یا نامناسب چیزوں کو دور کرنے کے حکم میں آتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ مسجد کے نزدیک دوسری مسجد اس نیت سے بنانا کہ پہلی مسجد ویران ہو جائے حرام ہے کہ یہ بھی مسجد کی ویرانی میں کوشش کرنا ہے البتہ اگر کوئی مسجد بنائے تو اس کی نیت پر ہم حکم نہیں لگا سکتے ہیں کہ اس نے بری نیت سے ہی مسجد بنائی ہے۔

{اِلَّا خَآىٕفِیْنَ: مگر ڈرتے ہوئے۔} مسجد میں ادب و تعظیم اور خوف ِ خدا کے ساتھ داخل ہونا چاہیے، نڈر و بیباک ہو کر اور آداب ِ مسجد کو پامال کرتے ہوئے داخل ہونا مسلمان کا کام نہیں۔

{فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ: دنیا میں رسوائی۔} بیت المقدس ویران کرنے والوں کو دنیا میں یہ رسوائی پہنچی کہ قتل کئے گئے، گرفتار ہوئے، جلا وطن کئے گئے۔ خلافت فاروقی و عثمانی میں ملک ِشام ان کے قبضہ سے نکل گیا اور بیت المقدس سے ذلت کے ساتھ نکالے گئے۔ مسجدوں اور مسجدوں سے تعلق رکھنے والوں سے نفرت کرنے والوں کویہ وعید اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہیے۔

2:115
وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُۗ-فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۱۱۵)
اور پورب و پچھم سب اللہ ہی کا ہے تو تم جدھر منہ کرو ادھر وجہ اللہ (خدا کی رحمت تمہاری طرف متوجہ) ہے بیشک اللہ وسعت والا علم والا ہے،

{وَ لِلّٰهِ : اور اللہ ہی کیلئے ہے۔}اس آیت کے بہت سے شانِ نزول بیان کئے گئے ہیں۔

(1)…ایک مرتبہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمتاریک رات میں سفر میں تھے،قبلہ کی سمت معلوم نہ ہوسکی، ہر شخص نےجس طرف اس کا دل جما، نماز پڑھ لی، صبح کو بارگاہِ رسالت میں حال عرض کیا تو یہ آیت نازل ہوئی ۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ البقرۃ، ۴ / ۴۴۵، الحدیث: ۲۹۶۸)

(2) … حضرت عبداللہبن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں یہ اس مسافر کے حق میں نازل ہوئی جو سواری پر نفل ادا کرے، اس کی سواری جس طرف متوجہ ہو جائے (اس طرف اس کی نماز درست ہے)۔    (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۱ / ۸۲)

(3)… جب خانہ کعبہ کو قبلہ بنایا گیا تو یہود یوں نے مسلمانوں پراعتراضات کئے ۔ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ مشرق ومغرب سب اللہ تعالیٰ کا ہے جس طرف چاہے قبلہ معین فرمائے کسی کو اعتراض کا کیا حق ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۱ / ۸۲)

(4)…جب آیتِ دعا اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(پ۲۴، المؤمن: ۶۰) نازل ہوئی توحضورپر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا گیا کہ کس طرف منہ کر کے دعا کی جائے؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔(الطبری، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۱ / ۵۵۳، رقم: ۱۸۴۹)

            شانِ نزول کے متعلق ان کے علاوہ اور بھی کئی اقوال ہیں۔

{فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا: تو تم جدھر منہ پھیرو۔}  معلوم ہوا کہ قبلہ کی سمت معلوم نہ ہوسکے تو جس طرف دل جمے کہ خانہ کعبہ اسی سمت ہوگا تو اسی طرف منہ کرکے نماز پڑھے۔اس بارے میں تفصیلی احکام جاننے کیلئے بہارِ شریعت حصہ 3کا مطالعہ فرمائیں۔ یہ یاد رہے کہ خانہ کعبہ ہی قبلہ ہے، یہاں جو اجازت ہے وہ مخصوص صورتوں میں ہے۔

2:116
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًاۙ-سُبْحٰنَهٗؕ-بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ(۱۱۶)
اور بولے خدا نے اپنے لیے اولاد رکھی پاکی ہے اسے (ف۲۰۸) بلکہ اسی کی مِلک ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (ف۲۰۹) سب اس کے حضور گردن ڈالے ہیں،

{سُبْحٰنَهٗ: اللہ پاک ہے۔} یہودیوں نے حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا ماناجبکہ مشرکینِ عرب نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیاجیسا کہ تینوں چیزیں قرآن پاک میں مذکور ہیں۔ ان سب کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔

{لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ: اسی کا ہے جو آسمانوں میں ہے۔} کسی کی اولاد اس کی ملکیت نہیں ہوسکتی اور جب آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے تو اس کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے؟ نیزاولاد حقیقت میں ماں باپ کا جز ہوتی ہے اور آدمی اپنے جز کا مالک نہیں ہوتا۔

2:117
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۱۱۷)
نیا پیدا کرنے والا آسمانوں اور زمین کا (ف۲۱۰) اور جب کسی بات کا حکم فرمائے تو اس سے یہی فرماتا ہے کہ ہو جا وہ فورا ً ہوجاتی ہے-(ف۲۱۱)

{بَدِیْعُ: بغیر مثال کے بنانے والا۔} بدیع کا معنیٰ ہے کسی چیز کو بغیر کسی سابقہ مثال کے نئے طور پربنانے والا۔ اللہ تعالیٰ کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پہلے نہ کوئی آسمان تھا اور نہ زمین تو اللہ تعالیٰ نئے طور پر اسے عدم سے وجود میں لایا۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے اعتبار سے ہی بدیع ہے کیونکہ اللہ  تعالیٰ نے ہرچیز کو خود ہی وجود بخشا ہے، پہلے کسی شے کی مثال موجود نہ تھی۔

{وَ اِذَا قَضٰى: اور جب فیصلہ فرماتا ہے۔}  فیصلہ فرمانے سے مراد ارادہ کرنا ہے جیساکہ ایک اور مقام پر اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْــٴًـا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ‘‘( یس: ۸۲)

ترجمۂکنزالعرفان:اس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے فرماتا ہے، ’’ ہوجا‘‘ تو وہ فوراً ہوجاتی ہے۔

اوراس آیت سے اصل مراد یہ ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں کہ اللہ  تعالیٰ کسی شے کا ارادہ فرمائے اور وہ نہ ہو بلکہ اللہتعالیٰ کا ارادہ قطعی طور پر نافذ ہوتا ہے اورکسی شے کو وجود میں لانے کیلئے اللہ تعالیٰ کو انسانو ں کی طرح محنت و مشقت کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اللہ  تعالیٰ کا اس چیز کے وجود کا ارادہ فرمالینا ہی کافی ہے۔یاد رہے کہ اللہ  تعالیٰ کسی بھی کام میں کسی کا محتاج نہیں اور اللہ  تعالیٰ کا مختلف کاموں کیلئے فرشتوں کو مقرر کرنا حکمت ہے حاجت نہیں۔

2:118
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ لَوْ لَا یُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوْ تَاْتِیْنَاۤ اٰیَةٌؕ-كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّثْلَ قَوْلِهِمْؕ-تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْؕ-قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ(۱۱۸)
اور جاہل بولے (ف۲۱۲) اللہ ہم سے کیوں نہیں کلام کرتا (ف۲۱۳) یا ہمیں کوئی نشانی ملے (ف۲۱۴) ان سے اگلوں نے بھی ایسی ہی کہی ان کی سی بات اِن کے اُن کے دل ایک سے ہیں (ف۲۱۵) بیشک ہم نے نشانیاں کھول دیں یقین والوں کے لئے -(ف۲۱۶)

{اَلَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ:جو نہیں جانتے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ یہودیوں نے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے کہا کہ اگر آپ اپنے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ سے فرمایئے کہ وہ ہم سے کلام کرے تاکہ ہم خود ا س کا فرمان سن لیں۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ان سے پہلے یہودیوں نے بھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ایسی ہی بات کہی تھی۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کہا کہ اللہ  تعالیٰ جس طرح فرشتوں اور انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے کلام فرماتا ہے اس طرح خود ان سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کے متعلق کیوں کلام نہیں فرماتا تاکہ ہمیں یقین ہو جائے کہ آپ نبی ہیں اور ہم آپ پر ایمان لے آئیں یاہمارے پاس کوئی ایسی نشانی کیوں نہیں آجاتی جس سے ہمیں آپ کی صداقت معلوم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان مشرکوں سے پہلے کفار نے بھی اپنے رسولوں سے ایسی ہی بات کہی تھی۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۱ / ۲۷۱، روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۱ / ۲۱۵، قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۸،  ۱ / ۷۱، الجزء الثانی، ملتقطاً)

          یہ ان کا کمال تکبر اور نہایت سرکشی تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  اور ملائکہ کے برابر سمجھا۔

{تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْ:ان کے دل آپس میں مل گئے۔} یہودونصاریٰ اور مشرکین کے اقوال کا گزشتہ منکرین کے اقوال کے مطابق ہونا ان کے دلوں کی سختی اور کفر کے ایک دوسرے سے مشابہ ہونے کی علامت ہے۔ اس میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دی گئی کہ آپ جاہلوں کی سرکشی اور معاندانہ انکار سے رنجیدہ نہ ہوں۔ پچھلے کفار بھی اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے ،جیسے یہودیوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا تھا کہ ہم آپ کی بات نہ مانیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کوا علانیہ نہ دیکھ لیں۔یاد رہے کہ کفار سے معاشرت، لباس اور وضع قطع میں بھی مشابہت کرنا منع ہے کہ ظاہر باطن کی علامت ہوتا ہے اور ظاہر کا باطن پر اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا کفار کے طور طریقے سے بالکل دوری اختیار کی جائے تاکہ ان کا ظاہر مسلمان کے باطن کو متاثر نہ کرے۔

2:119
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ-وَّ لَا تُسْــٴَـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ(۱۱۹)
بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور تم سے دوزخ والوں کا سوال نہ ہوگا -(ف۲۱۷)

{اَرْسَلْنٰكَ: ہم نے آپ کو بھیجا۔} حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ جنت کی خوشخبری دینے والے اور دوزخ سے ڈرانے کی خبریں دینے والے ہیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تبلیغ کے باوجود اگر کوئی جہنم کی راہ جاتا ہے تو اس کے متعلق آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے سوال نہ ہوگا کہ وہ کیوں ایمان نہ لایا ، اس لیے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنا فرضِ تبلیغ پورے طور پر ادا فرمادیا۔

2:120
وَ لَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْیَهُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِـعَ مِلَّتَهُمْؕ-قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰىؕ-وَ لَىٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِۙ-مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍؔ(۱۲۰)
اور ہرگز تم سے یہود اور نصاری ٰ راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہ کرو (ف۲۱۸) تم فرمادو اللہ ہی کی ہدایت ہدایت ہے (ف۲۱۹) اور (اے سننے والے کسے باشد) اگر تو ان کی خواہشوں کا پیرو ہوا بعد اس کے کہ تجھے علم آچکا تو اللہ سے تیرا کوئی بچانے والا نہ ہوگا او ر نہ مددگار (ف۲۲۰)

{وَ لَنْ تَرْضٰى: اور ہرگز راضی نہ ہوں گے۔}فرمایا جارہا ہے کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہودی اور عیسائی ہرگز آپ سے راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرلیں اور یقینا یہ بات ناممکن ہے کہ آپ ان کے دین کی پیروی کریں کیونکہ وہ باطل ہیں۔ ان کے مقابلے میں آپ جواب دیں کہ اللہ  تعالیٰ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے جو اس نے مجھے عطا فرما رکھی ہے۔ اس آیت سے یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ کفار بحیثیت ِ مجموعی مسلمانوں سے کبھی راضی نہیں ہوسکتے اگرچہ ظاہری طور پر کبھی حالات مختلف ہوجائیں۔ افسوس کہ ہزاروں تجربات کے بعد بھی مسلمان سبق نہیں سیکھتے۔

{وَ لَىٕنِ اتَّبَعْتَ: اور اگر تم نے پیروی کی۔} یہ خطاب امت محمدیہ کو ہے کہ جب تم نے جان لیا کہ سیدالانبیاء  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمہارے پاس حق و ہدایت لائے تو تم ہر گز کفار کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اگر ایسا کیا تو تمہیں کوئی عذاب ِالٰہی سے بچانے والا نہیں۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۱ / ۸۴)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْبَقَرَة
اَلْبَقَرَة
  00:00



Download

اَلْبَقَرَة
اَلْبَقَرَة
  00:00



Download