Surah al-Baqarah
{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ: اور کوئی یوں کہتا ہے۔}اس آیت میں مذکور مسلمان کی دعا بہت جامع دعا ہے اورتھوڑے الفاظ میں دین و دنیا کی تمام بھلائیاں اس میں مانگی گئی ہیں۔حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے:’’اَللّٰہُمَّ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘(بخاری، کتاب الدعوات، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۱۴، الحدیث: ۶۳۸۹)
دنیا کی بھلائی میں ہر اچھی اور مفیدشے داخل ہے خواہ وہ کفایت کرنے والا رزق ہو یا اچھا گھر یا اچھی بیوی یا اچھی سواری یا اچھا پڑوس وغیرہا۔
{وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ:اور گنتی کے دنوں میں اللہ کا ذکر کرو۔} گنتی کے دنوں سے مراد اَیّام تَشریق ہیں اور ذکراللہ سے نمازوں کے بعد اور جَمرات کی رمی کے وقت تکبیر کہنا مراد ہے۔ (صاوی ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۳، ۱ / ۱۷۱)
اورمراد یہ ہے کہ منیٰ میں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہو۔
{فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ: تو جو جلدی کرکے دو دن میں چلا جائے۔} دس، گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذوالحج، ان چار دنوں میں منیٰ میں جمرات پر رمی کی جاتی ہے۔ دس تاریخ کو صرف ایک جمرہ کی اور بقیہ تاریخوں میں تینوں جمرات کی۔تیرہ تاریخ کو بھی رمی تو ہے لیکن اگر کوئی شخص بارہ تاریخ کی رمی کرکے منیٰ سے واپس آجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اگرچہ تیرہ کو رمی کرکے واپس آنا افضل ہے۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۳، ص۹۸)
یہاں دو دنوں میں رمی کرکے چلے جانے سے مراد دس ذوالحجہ کے بعد دودن ہیں۔
{مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ: جس کی گفتگو تجھے اچھی لگتی ہے۔} شانِ نزول: یہ آیت اَخْنَسْ بن شَرِیْق منافق کے بارے میں نازل ہوئی جو کہ حضورسید المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں حاضر ہو کر بہت لجاجت سے میٹھی میٹھی باتیں کرتا تھا اور اپنے اسلام اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی محبت کا دعویٰ کرتا اوراس پر قسمیں کھاتا اور درپردہ فساد انگیزی میں مصروف رہتا تھا۔ اس نے مسلمانو ں کے مویشیوں کو ہلا ک کیا او ر ان کی کھیتیوں کو آگ لگائی تھی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۱ / ۱۴۴-۱۴۵)
یہاں مجموعی طور پر جو خرابیاں بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیں :
(1)…ظاہری طور پر بڑی اچھی باتیں کرنا، (2)…اپنی غلط باتوں پر اللہ کو گواہ بنانا، (3)…جھگڑالو ہونا، (4)… فساد پھیلانا، (5)…لوگوں کے اموال برباد کرنا، (6)…نصیحت کی بات سن کر قبول کرنے کی بجائے تکبر کرنا ۔
یہاں آیت مبارکہ میں اگرچہ ایک خاص منافق کا تذکرہ ہے لیکن یہ آیت بہت سے لوگوں کو سمجھانے کیلئے کافی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی زبان بڑی میٹھی ہے، گفتگو بڑی نرمی سے کرتے ہیں ،
بڑی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں لیکن در پردہ دین کے مسائل میں یا لوگوں میں یا خاندانوں میں فساد برپا کرتے ہیں اور ہلاکت و بربادی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ: اور جب اس سے کہا جائے۔} منافق آدمی کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ اگر اسے سمجھایاجائے تو اپنی بات پراڑ جاتا ہے، دوسرے کی بات ماننا اپنے لئے توہین سمجھتا ہے، نصیحت کئے جانے کو اپنی عزت کا مسئلہ بنالیتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی بھرمار ہے، گھروں میں دیکھ لیں تو لڑکی والے لڑکے یا اس کے گھر والوں کو نہیں سمجھا سکتے،چھوٹے خاندان والے بڑے خاندان والوں کو نہیں سمجھا سکتے، عام آدمی کسی چودھری کو نہیں سمجھاسکتا، عوام کسی دنیوی منصب والے کو نہیں سمجھا سکتے، مسجدوں میں کوئی نوجوان عالم یا دینی مُبلغ کسی پرانے بوڑھے کو نہیں سمجھا سکتا، جسے سمجھایا وہی گلے پڑ جاتا ہے۔ دینی شعبے میں بھی اس خرابی کی کچھ کمی نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمارے حال کی اصلاح فرمائے۔
{مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ: جو اپنی جان بیچتا ہے۔} شانِ نزول: حضرت صُہیب رومی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے، مشرکین قریش کی ایک جماعت نے آپ کا تعاقب کیا تو آپ سواری سے اترے اور ترکش سے تیر نکال کر فرمانے لگے کہ اے قریش! تم میں سے کوئی میرے پاس نہیں آسکتا جب تک کہ میں تیر مارتے مارتے تمام ترکش خالی نہ کردوں اور پھر جب تک تلوار میرے ہاتھ میں رہے اس سے ماروں گا اوراگر تم میرا مال چاہو جو مکہ مکرمہ میں مدفون ہے تو میں تمہیں اس کا پتا بتادیتا ہوں ، تم میرا راستہ نہ روکو۔ وہ اس پر راضی ہوگئے اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنے تمام مال کا پتابتادیا، جب آپ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حضوراقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے آیت تلاوت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تمہاری یہ جاں فروشی بڑی نفع بخش تجارت ہے۔(ابن عساکر، صہیب بن سنان بن مالک۔۔۔ الخ، ۲۴ / ۲۲۸)
{اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً: اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔} شانِ نزول: اہل کتاب میں سے حضرت عبداللہبن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے اصحاب، تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کے بعد شریعت مُوسَوی کے بعض احکام پر قائم رہے، ہفتہ کے دن کی تعظیم کرتے، اس روز شکار سے لازماً اِجتناب جانتے اور اونٹ کے دودھ اور گوشت سے بھی پرہیز کرتے اور یہ خیال کرتے کہ یہ چیزیں اسلام میں صرف مُباح یعنی جائز ہیں ، ان کا کرنا ضروری تونہیں جبکہ توریت میں ان سے اجتناب لازم کیا گیا ہے تو ان کے ترک کرنے میں اسلام کی مخالفت بھی نہیں ہے اور شریعت مُوسَوی پر عمل بھی ہوجاتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیاکہ اسلام کے احکام کا پورا اتباع کرو یعنی توریت کے احکام منسوخ ہوگئے اب ان کی طرف توجہ نہ دو۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۸، ۱ / ۱۴۷)
ایمانی کمزوری کی علامت:
یاد رکھیں کہ داڑھی منڈوانا، مشرکوں کا سا لباس پہننا ، اپنی معاشرت بے دینوں جیسی کرنا بھی سب ایمانی کمزوریکی علامت ہے جب مسلمان ہو گئے تو سیرت و صورت، ظاہروباطن، عبادات ومعاملات، رہن سہن، میل برتاؤ، زندگی موت، تجارت و ملازمت سب میں اپنے دین پر عمل کرو۔نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کا دوسرے مذاہب یا دوسرے دین والوں کی رعایت کرنا شیطانی دھوکے میں آنا ہے۔ اونٹ کا گوشت کھانا اسلام میں فرض نہیں مگر یہودیت کی رعایت کے لئے نہ کھانا بڑا سخت جرم ہے۔ کافروں کو راضی کرنے کیلئے گائے کی قربانی بند کرنابھی اسی میں داخل ہے۔ یونہی کسی جگہ اذان بند کرنا یا اذان آہستہ آواز سے دینا سب اسی میں داخل ہے۔
{فَاِنْ زَلَلْتُمْ: پھر اگر تم پھسلو۔} اس سے مراد یہ ہے کہ واضح دلیلوں کے باوجود اسلام میں پورے پورے داخل ہونے سے دور رہو اور اسلام کی راہ کے خلاف روش اختیار کرو تو یہ تمہارا سخت جرم ہے۔ علم کے باوجود بے عملی جہالت ہے۔
{هَلْ یَنْظُرُوْنَ: کس چیز کا انتظار کرتے ہیں۔} فرمایاجارہا ہے کہ دینِ اسلام چھوڑنے اور شیطان کی فرمانبرداری کرنے والے کس چیز کا انتظار کررہے ہیں؟ کیا اس کا کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور عذاب کے فرشتے اتر آئیں اور ان کا قصہ تمام کردیا جائے۔
{ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ: ہم نے انہیں کتنی روشن نشانیاں دیں۔} فرمایا گیا کہ بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے انہیں کتنی روشن نشانیاں عطا فرمائیں ، ان کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے معجزات کو ان کی نبوت کی صداقت کی دلیل بنایا، ان کے ارشاد اور ان کی کتابوں کو دین اسلام کی حقانیت کا گواہ بنایا۔یاد رہے کہ یہ پوچھنا حقیقت میں انہیں قائل کرنے اور شرمندہ کرنے کے لئے ہے اور ان کی اپنی نافرمانیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کا اقرار کرانے کے لئے ہے۔
{وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ: اور جو اللہ کی نعمت کو بدل دے۔} اللہ تعالیٰ کی نعمت سے آیات الٰہیہ مراد ہیں جو ہدایت کا سبب ہیں اوران کی بدولت گمراہی سے نجات حاصل ہوتی ہے انہیں میں سے وہ آیات ہیں جن میں سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت اور حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت و رسالت کا بیان ہے اور یہود و نصاریٰ کا اپنی کتابوں میں تحریف کرنا اس نعمت کو تبدیل کرناہے۔
{زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا: کافروں کی نگاہ میں دنیا کی زندگی کو خوشنما بنادیا گیا۔} کافروں کیلئے دنیا کی زندگی آراستہ کردی گئی یعنی انہیں یہی زندگی پسند ہے، وہ اسی کی قدر کرتے اور اسی پر مرتے ہیں۔دنیا کی زندگی وہ ہے جو نفس کی خواہشات میں صرف ہو اور جو توشہ آخرت جمع کرنے میں خرچ ہو وہ بفضلہ تعالیٰ دینی زندگی ہے۔ اس آیت میں وہ لوگ داخل ہیں جو آخرت سے غافل ہیں۔
{وَ یَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اور وہ مسلمانوں پرہنستے ہیں۔} کفار غریب مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے اور دنیاوی سازو سامان سے ان کی بے رغبتی دیکھ کر ان کی تحقیر کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ،حضرت عمار بن یاسر، حضرت صہیب اور حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو دیکھ کر کفار مذاق اڑایا کرتے تھے اور دولت ِدنیا کے غرور میں اپنے آپ کو اونچا سمجھتے تھے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۲، ۱ / ۱۵۰)
ان کے متعلق فرمایا کہ قیامت کے دن ایماندار اِن کافروں سے بلندو بالا ہوں گے کیونکہ بروزِ قیامت مومنین قرب ِ الٰہی میں ہوں گے اور کفار جہنم میں ذلیل و خوارہوں گے ۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غریب مسلمانوں کا مذاق اڑانایا کسی مومن کو ذلیل یا کمینہ جاننا کافروں کا طریقہ ہے۔فاسق و کافر اگرچہ مالدار ہو ذلیل ہے اور مومن اگرچہ غریب ہو ، کسی بھی قوم سے ہو عزت والا ہے بشرطیکہ متقی ہو۔
{كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً:تمام لوگ ایک دین پر تھے۔} حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے زمانہ سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے عہد تک سب لوگ ایک دین اور ایک شریعت پر تھے، پھر ان میں اختلاف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مبعوث فرمایا ،یہ بعثت میں پہلے رسول ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۳، ۱ / ۱۵۰)
رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا سلسلہ شروع ہوا ۔ نیز لوگوں کی ہدایت کیلئے بہت سے انبیاء اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کتابیں اور صحیفے عطا کئے گئے جیسے حضرت آدم ،حضرت شیث اور حضرت ادریس عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر صحیفے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر توریت ،حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر زبور، حضرت عیسٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر انجیل اور خاتَم الانبیاء محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر قرآن نازل فرمایا۔انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی ہدایات آجانے کے بعد بھی لوگوں نے اختلاف کیا جیسے یہودونصاریٰ نے اپنی کتابوں میں اختلاف کیا اور آپس کے حسد کی وجہ سے کتاب اللہ کو بھی مشقِ ستم بنانے سے باز نہ آئے۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ذریعے حق کی ہدایت فرمائی چنانچہ یہودو نصاریٰ کو جن باتوں میں اختلاف تھا ان میں جو حق تھا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ سمجھادیا۔
{اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ : کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔} یہ آیت غزوۂ احزاب کے متعلق نازل ہوئی جہاں مسلمانوں کو سردی اور بھوک وغیرہ کی سخت تکلیفیں پہنچی تھیں۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۵، ۲ / ۲۷، الجزء الثالث)
اس میں انہیں صبر کی تلقین فرمائی گئی اور بتایا گیا کہ راہِ خدا میں تکالیف برداشت کرنا ہمیشہ سے خاصانِ خدا کا معمول رہا ہے۔ ابھی تو تمہیں پہلوں کی سی تکلیفیں پہنچی بھی نہیں ہیں۔بخاری شریف میں حضرت خَبّاب بن ارت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَخانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر مبارک سے تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما تھے ،ہم نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کی کہ یارسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، ہمارے لیے کیوں دعا نہیں فرماتے؟ ہماری کیوں مدد نہیں کرتے؟ ارشادفرمایا: تم سے پہلے لوگ گرفتار کیے جاتے تھے، زمین میں گڑھا کھود کر اس میں دبائے جاتے تھے،آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کرڈالے جاتے تھے اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت نوچے جاتے تھے لیکن ان میں سے کوئی مصیبت انہیں ان کے دین سے روک نہ سکتی تھی۔(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲ / ۵۰۳، الحدیث: ۳۶۱۲)
{وَ زُلْزِلُوْا: اور انہیں زور سے ہلا ڈالا گیا۔} سابقہ امتوں کی تکلیف و شدت اس انتہاء کو پہنچ گئی کہ فرمانبردار مومن بھی مدد طلب کرنے میں جلدی کرنے لگے اور اللہ کے رسولوں نے بھی اپنی امت کے اصرار پر فریاد کی حالانکہ رسول بڑے صابر ہوتے ہیں اور ان کے اصحاب بھی لیکن باوجود ان انتہائی مصیبتوں کے وہ لوگ اپنے دین پر قائم رہے اور کوئی مصیبت ان کے حال کو مُتغَیّر نہ کرسکی چنانچہ ان کی فریاد پر بارگاہِ الٰہی سے جواب ملا کہ سن لو، بیشک اللہ تعالیٰ کی مدد قریب ہے ، اس جواب سے انہیں تسلی دی گئی اور یہی تسلی حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو دی گئی۔ اس آیت اور تفسیر میں مبلغین کیلئے اور نئے مسلمان ہونے والوں کے لئے اور نئے نئے کسی نیکی کے ماحول اپنانے والوں کیلئے تسلی اور بشارت ہے کہ وہ صبرواستقامت کے ساتھ اپنی تبلیغ، دین اور نیکی پر چلتے رہیں۔
{یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ: آپ سے سوال کرتے ہیں کیا خرچ کریں ؟۔} یہ آیت حضرت عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے جواب میں نازل ہوئی جو بوڑھے شخص تھے اور بڑے مالدار تھے، انہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے سوال کیا تھا کہ کیا خرچ کریں اور کس پر خرچ کریں ؟ اس آیت میں انہیں بتادیا گیا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۵، ۱ / ۱۵۲)
کہ جس قسم کا اور جس قدر مال قلیل یا کثیرخرچ کرو اس میں ثواب ہے اور خرچ کرنے کی جگہیں یہ ہیں یعنی والدین، رشتے دار، یتیم، مسکین اور مسافر۔ یہاں دو مسائل ذہن نشین رکھیں :
(۱)…اس آیت میں صدقہ نافلہ کا بیان ہے۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۵،۱ / ۲۵۶)
(۲)…ماں باپ کو زکوٰۃ اور صدقات واجبہ دینا جائز نہیں۔(رد المحتار، کتاب الزکاۃ، باب المصرف، ۳ / ۳۴۴)
{ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ:تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے۔} جہاد فرض ہے جب اس کے شرائط پائے جائیں اور اگر کافر مسلمانوں کے ملک پر حملہ کردیں تو جہاد فرض عین ہوجاتا ہے ورنہ فرض کفایہ۔ فرمایا گیا کہ تم پر جہاد فرض کیا گیا اگرچہ یہ تمہیں طبعی اعتبار سے ناگوار ہے اور تمہارے اوپر شاق ہے لیکن تمہیں طبعی طور پر کوئی چیز ناگوار ہونا اس بات کی علامت نہیں کہ وہ چیز ناپسندیدہ اور نقصان دہ ہے جیسے کڑوی دوائی، انجکشن اورآپریشن طبعی طور پر ناپسند ہوتے ہیں لیکن نقصان دہ نہیں بلکہ نہایت فائدہ مند ہیں۔ یونہی کسی چیز کا تمہیں پسند ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اچھی اور مفید ہے۔ بچے کو پڑھائی کی جگہ ہر وقت کھیلتے رہنا پسند ہوتا ہے ، شوگر کے مریض کو مٹھائی پسند ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں یہ چیزیں اس کیلئے مفید بھی ہیں بلکہ نقصان دہ ہیں۔ لہٰذا اے مسلمانو! اچھا یا برا ہونے کا مدار اپنی سوچ پر نہ رکھو بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر رکھو۔ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا وہ بہرحال ہمارے لئے بہتر ہے اور جس سے منع فرمایا وہ بہرحال ہمارے لئے بہتر نہیں ہے۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون سورۂ نساء آیت 19میں بھی ہے۔
{یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِ:آپ سے ماہِ حرام میں جہاد کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔}
شانِ نزول: نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہبن جَحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی سرکردگی میں مجاہدین کی ایک جماعت روانہ فرمائی تھی جس نے مشرکین سے جہادکیا ۔ان کا خیال تھا کہ لڑائی کا دن جمادی الاخریٰ کا آخری دن ہے مگر حقیقت میں چاند 29تاریخ کو ہوگیا تھا اور رجب کی پہلی تاریخ شروع ہوگئی تھی۔ اس پر کفار نے مسلمانوں کو شرم دلائی کہ تم نے ماہ حرام میں جنگ کی ۔حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے اس کے متعلق سوال ہونے لگے تواس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۸، ۲ / ۲۳، الجزء الثالث)
کہ ماہِ حرام میں لڑائی کرنا اگرچہ بہت بڑی بات ہے لیکن مشرکوں کا شرک، مسلمانوں کو ایذائیں دینا، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکوستانا یہاں تک کہ ہجرت پر مجبور کردینا، لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے روکنا، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اورمسلمانو ں کو مسجد ِ حرام میں نماز پڑھنے سے روکنا، دورانِ نماز طرح طرح کی ایذائیں دینا یہ ماہِ حرام میں لڑائی سے بہت بڑھ کر ہے۔ لہٰذا پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے کرتوت دیکھ لو پھر مسلمانوں پر اعتراض کرنا۔ تمہارے یہ افعال مسلمانوں کے فعل سے زیادہ شدید ہیں کیونکہ کفر و ظلم تو کسی حالت میں جائز نہیں ہوتے جبکہ لڑائی تو بعض صورتوں میں جائز ہوہی جاتی ہے نیز مسلمانوں نے جو ماہِ حرام میں لڑائی کی تو وہ ان کی غلط فہمی کی وجہ سے تھی کہ چاند کی تاریخ ان پر مشکوک ہوگئی لیکن کفار کا کفر اور مسلمانوں کو ایذائیں تو کوئی قابلِ شک فعل نہیں ، یہ تو واضح طور پر ظلم و سرکشی تھی۔یا د رہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ممانعت کا حکم سورۂ توبہ آیت نمبر5سے منسوخ ہے۔
آیت’’ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
(1)…اس آیت سے معلوم ہوا کہ خود بڑے بڑے عیبوں میں مبتلا ہونا اور دوسروں پر طعن کرنا کافروں کا طریقہ ہے۔ یہ بیماری ہمارے ہاں بھی عام ہے کہ لوگ ساری دنیا کی برائیاں اور غیبتیں بیان کرتے ہیں اور خود اس سے بڑھ کر عیبوں کی گندگی سے آلودہ ہوتے ہیں۔ ایک حدیث پاک میں بھی اس بیماری کو بیان کیا گیا ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے کسی کو اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا تو نظر آجاتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں شہتیر نظر نہیں آتا۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الحظر والاباحۃ، باب الغیبۃ، ذکر الاخبار عمّا یجب علی المرئ۔۔۔ الخ، ۷ / ۵۰۶، الحدیث: ۵۷۳۱)
(2)… فتنہ انگیزی قتل سے بڑھ کر جرم ہے۔ بعض لوگوں کو فتنہ و فساد کا شوق ہوتا ہے، آیت میں توفتنہ سے مراد کفر و شرک ہے لیکن اس سے ہٹ کر بھی فتنہ انگیزی کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔
(3)…اس آیت سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی شان بھی معلوم ہوئی کہ کفار نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر اعتراض کیا اور اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی طر ف سے کفار کوجواب دیا۔
{وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ: اوروہ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے۔} اس آیت میں خبر دی گئی کہ کفار مسلمانوں سے ہمیشہ عداوت رکھیں گے اور جہاں تک ان سے ممکن ہوگا وہ مسلمانوں کو دین سے منحرف کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے چنانچہ آج دنیا میں یہی ہورہا ہے، کفار کی ہزاروں تنظیمیں مسلم اور غیر مسلم ممالک میں اپنا دین، اپنا کلچر، اپنی تہذیب پھیلانے میں مشغول ہیں۔ جہاں اصل اسلام سے پھیر سکیں وہاں اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرتی ہیں ، جہاں یہ نہ ہوسکے وہاں لوگوں کوقرآن کی من مانی تاویلوں میں لگادیتی ہیں ، حدیثوں کے انکار میں لگادیتی ہیں ، نت نئے فتنوں میں مبتلا کردیتی ہیں۔ اگر ایمانیات پر حملہ نہ کرسکیں تو اخلاقیات تباہ کرکے ایمان کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہیں الغرض آیت کی حقانیت واضح ہے کہ کفار تمہیں ہمیشہ دین سے پھیرنے کی کوششوں میں لگے رہیں گے۔
{وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ: اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے۔} مرتد ہونے سے تمام عمل باطل ہو جاتے ہیں ، آخرت میں تو اس طرح کہ ان پر کوئی اجرو ثواب نہیں اور دنیا میں اس طرح کہ شریعت حکومت ِ اسلامیہ کو مُرتد کے قتل کا حکم دیتی ہے، مرد مرتد ہوجائے تو بیوی نکاح سے نکل جاتی ہے،مرتد شخص اپنے رشتے داروں کی وراثت پانے کا مستحق نہیں رہتا، مرتد کی تعریف کرنا اور اس سے تعلق رکھنا جائز نہیں ہوتا۔ چونکہ مرتد ہونے سے تمام اعمال برباد ہو جاتے ہیں لہٰذا اگر کوئی حاجی مرتد ہو جائے پھر ایمان لائے تو وہ دوبارہ حج کرے، پہلا حج ختم ہو چکا۔ اسی طرح زمانہ اِرتِداد میں جو نیکیاں کیں وہ قبول نہیں۔جو حالت ِ ارتداد میں مرگیا وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گاجیسا کہ آیت کے آخر میں ’’هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘ فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو خاتمہ بالخیر نصیب کرے۔یاد رکھیں کہ مرتد ہونا بہت سخت جرم ہے، افسوس کہ آج کل مسلمانوں کی اکثریت دین کے بنیادی عقائد سے لاعلم ہے، شادی و مرگ اور ہنسی مذاق کے موقع پر کفر یہ جملوں کی بھرمار ہے، گانے، فلمیں ، ڈرامے خصوصاً مزاحیہ ڈرامے کفریات کا بہت بڑا ذریعہ ہیں ، ان چیزوں سے بچانے والے علوم کا حاصل کرنا فرض ہے۔([1])
[1] ۔۔۔اس سلسلے میں امیرِ اہلِسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف ،،کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،، (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا ضرور مطالعہ کیجئے۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے۔}اس آیت میں ایمان، ہجرت اور جہاد تین بڑے اعمال کا ذکر ہے اور یہ تینوں اعمال بجا لانے والوں کے بارے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْۙ-اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۲۰)یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّهُمْ فِیْهَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌۙ(۲۱) خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۲۲)(توبہ۲۰ تا۲۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور جنتوں کی بشارت دیتا ہے، ان کے لئے ان باغوں میں دائمی نعمتیں ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گے بیشک اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔
{اُولٰٓىٕكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ:وہ رحمت الٰہی کے امیدوار ہیں۔} اس سے معلوم ہوا کہ عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ پر اجر دینا واجب نہیں ہوجاتا بلکہ ثواب دینا محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
{یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ: آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔}یاد رہے کہ اِس آیت میں شراب کو حرام قرار نہیں دیا گیا بلکہ حرمت کی آیات سورہ ٔ مائدہ میں بعد میں نازل ہوئیں اور 3ہجری میں غزوۂ احزاب سے چند روز بعد شراب حرام کی گئی۔
شراب اور جوئے کی مذمت:
اس آیت میں شراب اور جوئے کی مذمت بیان کی گئی ہے کہ جو ئے اور شراب کا گناہ اس کے نفع سے زیادہ ہے، نفع تو یہی ہے کہ شراب سے کچھ سُرور پیدا ہوتا ہے یا اس کی خریدو فروخت سے تجارتی فائدہ ہوتا ہے اور جوئے میں یہ فائدہ ہے کہ اس سے کبھی مفت کا مال ہاتھ آجاتا ہے لیکن شراب اور جوئے کی وجہ سے ہونے والے گناہوں اورفسادات کا کیا شمار۔شراب سے عقل زائل ہوجاتی ہے، غیرت و حَمِیَّت کا جنازہ نکل جاتا ہے، ماں ، بہن، بیٹی کی تمیز ختم ہوجاتی ہے، عبادت سے دل اکتا جاتا ہے، عبادت کی لذت دل سے نکل جاتی ہے۔ جوئے کی وجہ سے لوگوں سے دشمنیاں پیدا ہوجاتی ہیں ، آدمی سب کی نظر میں ذلیل و خوار ہوجاتا ہے، جوئے باز، سٹے باز کے نام سے بدنام ہوتا ہے، کبھی کبھار اپنا سب مال و اسباب جوئے میں ہار دیتا ہے، زندگی تباہ و برباد ہوجاتی ہے، محنت سے جی چرانا شروع ہوجاتا ہے اور مفت خورہ بننے کی عادت پڑ جاتی ہے وغیرہا۔ ایک روایت میں ہے کہ جبریل امینعَلَیْہِ السَّلَام نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کو جعفرطیار کی چار خصلتیں پسند ہیں۔ سرکار دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت جعفر طیار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے دریافت فرمایا، انہوں نے عرض کی کہ ایک خصلت تویہ ہے کہ میں نے کبھی شراب نہیں پی، یعنی حرمت کا حکم نازل ہونے سے پہلے بھی کبھی شراب نہیں پی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں جانتا تھا کہ اس سے عقل زائل ہوتی ہے ا ور میں چاہتا تھا کہ عقل اور بھی تیز ہو۔ دوسری خصلت یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی میں نے کبھی بت کی پوجا نہیں کی کیونکہ میں جانتا تھا کہ یہ پتھر ہے نہ نفع دے سکے نہ نقصان۔ تیسری خصلت یہ ہے کہ میں کبھی زنا میں مبتلا نہ ہوا کیونکہ میں اس کو بے غیرتی سمجھتا تھا۔ چوتھی خصلت یہ تھی کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کیونکہ میں اس کو کمینہ پن خیال کرتاتھا۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۹، ص۱۰۱ملتقطاً)
سبحان اللہ، کیا سلیم الفِطرت تھے۔ حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ اگر شراب کا ایک قطرہ کنویں میں گر جائے پھر اس جگہ منارہ بنایا جائے تو میں اس پر اذان نہ کہوں گااور اگر دریا میں شراب کا قطرہ پڑ جائے پھر دریا خشک ہوجائے اور وہاں گھاس پیدا ہو تومیں اس میں اپنے جانوروں کو نہ چراؤں گا۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۹، ص۱۱۳)
سبحان اللہ! گناہ سے کس قدر نفرت ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
جوئے کے متعلق احکام:
(1)…جوا کھیلنا حرام ہے۔
(2)…جوا، ہر ایسا کھیل ہے جس میں اپنا کل یا بعض مال چلے جانے کا اندیشہ ہو یا مزید مل جانے کی امید ہو۔
(3) …شطرنج تاش ، لڈو، کیرم، بلیئرڈ، کرکٹ وغیرہ ہار جیت کے کھیل جن پر بازی لگائی جائے سب جوئے میں داخل اور حرام ہیں۔یونہی کرکٹ وغیرہ میں میچ یا ایک ایک اوور یا ایک ایک بال پر جو رقم لگائی جاتی ہے یہ جوا ہے، یونہی گھروں یا دفتروں میں چھوٹی موٹی باتوں پر جو اس طرح کی شرطیں لگتی ہیں کہ اگر میری بات درست نکلی تو تم کھانا کھلاؤ گے اور اگر تمہاری بات سچ نکلی تو میں کھانا کھلاؤں گا یہ سب جوئے میں داخل ہیں۔ یونہی لاٹری وغیرہ جوئے میں داخل ہے۔ آج کل موبائل پرکمپنی کو میسج کرنے پر ایک مخصوص رقم کٹتی ہے اور اس پر بھی انعامات رکھے جاتے ہیں یہ سب جوئے میں داخل ہیں۔
{وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ: آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟} تفسیر خازن میں ہے کہ سرکارِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو صدقہ دینے کی رغبت دلائی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: صدقہ کی مقدار ارشاد فرمادیں کہ کتنا مال راہِ خدا میں دیا جائے،اس پر یہ آیت نازل ہوئی (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۹، ۱ / ۱۵۹)
اور فرمایا گیا کہ جتنا تمہاری حاجت سے زائد ہو ۔ ابتدائے اسلام میں حاجت سے زائد مال خرچ کرنے کا حکم دیا گیا، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اپنے مال میں سے اپنی ضرورت کی مقدار لے کر باقی سب راہ خدا میں تصدُّق کردیتے تھے۔یہ حکم اگر بطورِ فرض کے تھا تو زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے منسوخ ہوگیا اور اگر نفلی حکم تھا تو آج بھی مستحب طور پر باقی ہے۔
{فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ: دنیا و آخرت کے کاموں میں۔} اس حصے کا تعلق پچھلی آیت کے آخری جملے سے ہے اور اس کا معنٰی یہ بنے گا ’’ تا کہ تم دنیا و آخرت کے معاملے میں غور و فکر کرو۔ یعنی جتنا تمہاری دنیوی ضرورت کے لیے کافی ہو وہ لے کر باقی سب مال اپنی آخرت کے نفع کے لیے خیرات کردو ۔ اس سے جداگانہ بھی دنیا و آخرت کے کام سوچ سمجھ کر ہی کرنے چاہئیں۔
{ وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْیَتٰمٰى: اور تم سے یتیموں کا مسئلہ پوچھتے ہیں۔}
جب یہ آیت: اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا (النساء: ۱۰) نازل ہوئی کہ یتیموں کا مال کھانے والا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرنے والا ہے تو لوگوں نے یتیموں کے مال جدا کر دیئے اور ان کا کھانا پینا علیحدہ کردیا اس میں یہ صورتیں بھی پیش آئیں کہ جو کھانا یتیم کے لیے پکایاجاتا اس میں سے کچھ بچ جاتا اور خراب ہوجاتا اور کسی کے کام نہ آتا، اس میں یتیموں کا نقصان ہونے لگا۔ یہ صورتیں دیکھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کی کہ اگر یتیم کے مال کی حفاظت کی نیت سے اس کا کھانا اس کے سرپرست اپنے کھانے کے ساتھ ملالیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یتیموں کے فائدے کے لیے ملانے کی اجازت دی گئی۔(ابو داود، کتاب الوصایا، باب مخالطۃ الیتیم فی الطعام، ۳ / ۱۵۷، الحدیث: ۲۸۷۱، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۰، ۲ / ۴۰۴)
لیکن ساتھ ہی تنبیہ فرمادی کہ تمہیں یتیموں کے فائدے کیلئے مال ملانے کی اجازت تو دیدی گئی ہے لیکن کون اچھی نیت سے یتیموں کا مال ملاتا ہے اور کس کی نیت میں فساد ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ یہ نہ ہو کہ ظاہراً تو یتیموں کا فائدہ کررہے ہو اور حقیقت میں ان کا مال ہڑپ کرنے کا ارادہ ہو۔آیت مبارکہ کا یہ حصہ’’وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ اصلاح کی نیت والے اور فساد کی نیت والے دونوں کو جانتا ہے،یہ فرمان نہایت جامع ہے اور زندگی کے ہزاروں شعبوں کے لاکھوں معاملات میں رہنمائی کیلئے کافی ہے جہاں ایک ہی چیز میں اچھی اور بری دونوں نیتیں ہوسکتی ہیں وہاں دوسرے لوگ اگرچہ بری نیت کو نہ جانتے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے۔
یتیموں سے متعلق 2 احکام:
(1)…یتیم وہ نابالغ بچہ یا بچی ہے جس کا باپ فوت ہو گیا ہو، اگر اس کے پاس مال ہو اور اپنے کسی ولی کی پرورش میں ہو اس کے احکام اس آیت میں مذکور ہیں کہ ولی خواہ اس یتیم کا مال اپنے مال سے ملا کر اس پر خرچ کرے یا علیحدہ رکھ کر جس میں یتیم کی بہتری ہو وہ کرسکتا ہے لیکن ملانا خراب نیت سے نہیں ہونا چاہیے۔
(2)…اگرچہ اس آیت کا نزول یتیموں کی مالی اصلاح کے بارے میں ہوا مگر اصلاح کے لفظ میں ساری مصلحتیں داخل ہیں۔ یتیموں کے اخلاق، اعمال ،تربیت، تعلیم سب کی اصلاح کرنی چاہیے ۔ یوں سمجھیں کہ یتیم ساری مسلم قوم کیلئے اولاد کی طرح ہیں۔
{وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ: اور مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو۔} یہ آیت حضرت مرثد غَنَوِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل ہوئی ،وہ ایک بہادر شخص تھے۔ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے انہیں مکہ مکرمہ روانہ فرمایا تاکہ وہاں سے کسی تدبیر کے ساتھ مسلمانوں کو نکال لائیں۔وہاں عَناق نامی ایک مشرکہ عورت تھی جو زمانہ جاہلیت میں ان کے ساتھ محبت کرتی تھی، وہ حسین اور مالدار تھی جب اُس کو اِن کے آنے کی خبر ہوئی تو وہ آپ کے پاس آئی اور اپنی طرف دعوت دی ۔آپ نے خوفِ الٰہی کی وجہ سے اس سے اِعراض کیا اور فرمایا کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا تب اس نے نکاح کی درخواست کی توآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا کہ یہ بھی رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اجازت پر موقوف ہے۔ چنانچہ پھر اپنے کام سے فارغ ہو کر جب آپ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو صورت ِ حال عرض کرکے نکاح کے متعلق دریافت کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۱، ۱ / ۱۶۰)
اور فرمایا گیا کہ مشرکہ عورتوں سے نکاح کی اجازت نہیں اگرچہ وہ تمہیں پسند ہوں۔ البتہ یہ یاد رہے کہ اہلِ کتاب یعنی یہودی، عیسائی عورت سے نکاح کی اجازت ہے ۔ اس کی تفصیل سورہ مائدہ آیت5میں آئے گی۔
{وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ: اور بیشک مسلمان لونڈی مشرکہ عورت سے اچھی ہے۔} شانِ نزول: ایک روز حضرت عبداللہبن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کسی خطا پر اپنی باندی کے طمانچہ مارا پھر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اس کا ذکر کیا۔ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ا س کی ایمانی حالت کے متعلق دریافت کیا ۔ عرض کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رسالت کی گواہی دیتی ہے، رمضان کے روزے رکھتی ہے، اچھی طرح وضو کرتی ہے اور نماز پڑھتی ہے۔ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: وہ مومنہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ نے عرض کیا :تو اس ذات کی قسم جس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو سچا نبی بنا کر مبعوث فرمایا، میں اس کو آزاد کرکے اس کے ساتھ نکاح کروں گا ، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا ۔ اس پر لوگوں نے طعنہ زنی کی کہ تم نے ایک سیاہ فام باندی کے ساتھ نکاح کیا حالانکہ فلاں مشرکہ آزاد عورت تمہارے لیے حاضر ہے ،وہ حسین بھی ہے ،مالدار بھی ہے اس پریہ آیت نازل ہوئی(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۱، ۱ / ۱۶۱)
کہ مسلمان باندی مشرکہ عورت سے بہتر ہے خواہ وہ مشرکہ آزاد ہو اور حسن و مال کی وجہ سے اچھی معلوم ہوتی ہو۔
{ وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا: اور مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔} یہ عورت کے سرپرستوں سے خطاب ہے کہ اپنی مسلمان عورتوں کو مشرکوں کے نکاح میں نہ دو۔ مسلمان عورت کا نکاح مشرک و کافر کے ساتھ باطل و حرام ہے۔مشرک و کافر لوگ تو تمہیں جہنم کی آگ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور تمہیں نصیحت فرمانے کیلئے تم پر اپنے احکام نازل فرماتا ہے۔ اس آیت میں آج کل کے مسلمانوں کے لئے بہت واضح حکم موجود ہے۔انتہائی افسوس ہے کہ قرآن میں اتنی صراحت و وضاحت سے حکم آنے کے باوجود مسلمان لڑکوں میں مشرکہ لڑکیوں کے ساتھ اور یونہی کافر لڑکوں اور مسلمان لڑکیوں میں باہم شادیوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کفارو مسلم اکٹھے رہتے ہیں۔ مغربی طرزِزندگی نیز لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم سے جہاں اور تباہیاں مچی ہوئی ہیں اور بے حیائی کا طوفان امڈ آیا ہے وہیں باہم ایسی حرام شادیوں کے ذریعے زندگی بھر کی بدکاری کے سلسلے بھی جاری و ساری ہیں۔ اس تمام صورتحال کا وبال اُن لڑکوں لڑکیوں پر بھی ہے جو اس میں مُلَوَّث ہیں اور ان والدین پربھی جو راضی خوشی اولاد کو اس جہنم میں جھونکتے ہیں اور ان حکمرانوں اور صاحب ِ اختیار پر بھی ہے جو ایسی تعلیم کو رواج دیتے ہیں یا باوجودِ قدرت اس کا اِنسِداد کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور یونہی اس کا وبال اُن نام نہاد جاہل دانشوروں ، لبرل اِزم کے مریضوں اور دین دشمن قلمکاروں پر بھی ہے جو اس کی تائید و حمایت میں ورق سیاہ کرتے ہیں۔
{وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِیْضِ: اور تم سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔}شانِ نزول:عرب کے لوگ یہودیوں اور مجوسیوں کی طرح حیض والی عورتوں سے بہت نفرت کرتے تھے، ان کے ساتھ کھانا پینا، ایک مکان میں رہنا انہیں گوارا نہ تھا بلکہ یہ شدت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ان کی طرف دیکھنا اور ان سے کلام کرنا بھی حرام سمجھتے تھے جبکہ عیسائیوں کا طرزِ عمل اس کے بالکل برعکس تھا یعنی وہ ان دنوں میں عورتوں سے ملاپ میں بہت زیادہ مبالغہ کرتے تھے۔ مسلمانوں نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے حیض کا حکم دریافت کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۳، ۲ / ۶۴، الجزء الثالث)
اور اِفراط و تفریط کی راہیں چھوڑ کر اعتدال کی تعلیم فرمائی گئی اور بتادیا گیا کہ حیض کی حالت میں عورتوں سے ہم بستری کرنا حرام ہے۔ اور چونکہ یہ قرآن کی واضح آیت سے ثابت ہے لہٰذا ایسی حالت میں جماع جائز جاننا کفر ہے اور حرام سمجھ کر کر لیا تو سخت گنہگار ہوا اس پر توبہ فرض ہے۔(بہار شریعت، حصہ دوم، نفاس کا بیان، ۱ / ۳۸۲)
یونہی ناف سے لے کر گھٹنے کے نیچے تک کی جگہ سے لذت حاصل کرنا منع ہے۔(رد المحتار، کتاب الطہارۃ، ۱ / ۵۳۴)
بقیہ ان سے گفتگو کرنا، ان کے ساتھ کھانا پینا حتیّٰ کہ ان کا جوٹھا کھانا بھی جائز ہے ،گناہ نہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرنا حرام ہے کیونکہ وہ بھی گندگی کا مقام ہے۔
{فَاِذَا تَطَهَّرْنَ: پھر جب خوب پاک ہوجائیں۔} خوب پاک ہونے سے مراد ایامِ حیض ختم ہونے کے بعد غسل کر لینا ہے۔
حیض کے چند احکام:
(1)…حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے۔
(2)…حیض کے دنوں میں عورت کیلئے تلاوتِ قرآن، نماز، روزہ، مسجد میں داخلہ، قرآن کو چھونا اور خانہ کعبہ کا طواف حرام ہوجاتاہے۔
(3)…ذکرودرود وغیرہ میں کوئی حرج نہیں البتہ اس کیلئے وضو کرلینا مستحب ہے۔
(4) …ایامِ حیض کے روزوں کی قضا عورت پر لازم ہے جبکہ نمازیں معاف ہیں۔مزید تفصیل کیلئے بہارِ شریعت حصہ 2کا مطالعہ فرمائیں۔
{نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ:تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتیاں ہیں۔}عورتوں سے متعلق فرمایا کہ وہ تمہاری کھیتیاں ہیں یعنی عورتوں کی قربت سے نسل حاصل کرنے کا ارادہ کرو ،نہ کہ صرف اپنی خواہش پوری کرنے کا۔ نیز عورت سے ہر طرح ہم بستری جائز ہے لیٹ کر، بیٹھ کر ، کھڑے کھڑے ، بشرطیکہ صحبت اگلے مقام میں ہو کیونکہ یہی راستہ کھیتی یعنی اولاد کا ثمرہ حاصل کرنے کا ہے۔
{وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ:اور اپنے بھلے کا کام پہلے کرو۔} اس سے مراد ہے کہ اعمال صالحہ کرویا جماع سے قبل بسم اللہ پڑھو نیز بیویوں میں مشغول ہو کر عبادات سے غافل نہ ہو جاؤ۔
اولاد کوشیطان سے محفوظ رکھنے کی دعا:
حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو کہے:
’’بِسْمِ اللہِ اَللّٰہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ‘‘
اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، ہمیں شیطان سے محفوظ رکھنا اور اس کو بھی شیطان سے محفوظ رکھنا جو تو ہمیں عطا فرمائے۔
پس (یہ دعا پڑھنے کے بعد صحبت کرنے سے) جو بچہ انہیں ملا اسے شیطان نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔(بخاری، کتاب الوضو ء، باب التسمیۃ علی کلّ حال وعند الوقاع، ۱ / ۷۳، الحدیث: ۱۴۱)
{وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ: اور اپنی قسموں کی وجہ سے اللہ کے نام کو آڑنہ بنالو۔} حضرت عبد اللہبن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے قسم کھائی تھی کہ میں اپنے بہنوئی حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے نہ کلام کروں گا نہ ان کے گھر جاؤں گا اورنہ ان کے مخالفین سے ان کی صلح کراؤں گا۔ جب اس کے متعلق ان سے کہا جاتا تو وہ کہتے کہ میں قسم کھا چکا ہوں اس لیے یہ کام کر ہی نہیں سکتا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی،(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۴، ۱ / ۱۶۴)
اور نیک کام نہ کرنے کی قسم کھانے سے منع کردیا گیا۔
نیکی سے باز رہنے کی قسم کھانے والے کو کیا کرنا چاہئے:
یہاں ایک اہم مسئلہ یاد رکھیں کہ اگر کوئی شخص نیکی سے باز رہنے کی قسم کھالے تو اس کو چاہیے کہ قسم کو پورا نہ کرےبلکہ وہ نیک کام کرے اور قسم کا کفارہ دے ۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: جس شخص نے کسی امر پر قسم کھالی پھر معلوم ہوا کہ خیر اور بہتری اس کے خلاف میں ہے تو چاہیے کہ اس امرِ خیر کو کرلے اور قسم کا کفارہ دے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب ندب من حلف یمینًا۔۔۔ الخ، ص ۸۹۸، الحدیث: ۱۲(۱۶۵۰))
یہی حکم سورۂ نور آیت نمبر 22میں بھی مذکور ہے۔
{لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ: اور اللہ ان قسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرمائے گاجو بے ارادہ زبان سے نکل جائے۔} قسم تین طرح کی ہوتی ہے: (۱) لَغو ۔(۲) غموس۔ (۳) مُنعقدہ ۔
(1)… لغویہ ہے کہ کسی چیز کو اپنے خیال میں صحیح جان کر قسم کھائی اور درحقیقت وہ اس کے خلاف ہو یہ معاف ہے اور اس پر کفارہ نہیں۔
(2)… غموس یہ ہے کہ کسی گزری ہوئی چیز پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائے، یہ حرام ہے اور احادیث میں اس پر سخت وعیدیں ہیں۔
(3)… منعقدہ یہ ہے کہ کسی آئندہ چیزپر قسم کھائے، اس قسم کو اگر توڑے تو بعض صورتوں میں گنہگار بھی ہے اور کفارہ بھی لازم ہوتا ہے۔ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : ’’قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو کمی بہتر ہے اور بات بات پر قسم کھانی نہ چاہیے اور بعض لوگوں نے قسم کو تکیہ کلام بنا رکھا ہے کہ قصد و بے قصد زبان سے جاری ہوتی ہے اور اس کابھی خیال نہیں رکھتے کہ بات سچی ہے یا جھوٹی، یہ سخت معیوب ہے(بہار شریعت، حصہ نہم، قسم کا بیان، ۲ / ۲۹۸)۔[1]
[1] ۔۔۔۔ قسم کے مسائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّتدَامَت بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رسالے،، قسم کے بارے میں سوال جواب،،(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ کیجئے۔
{لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآىٕهِمْ:اور وہ جو اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھابیٹھیں۔} یہ قسم کھانا کہ میں اپنی بیوی سے چار مہینے تک یا کبھی صحبت نہ کروں گا اسے اِیلاء کہتے ہیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اگر قسم توڑدے اور چار ماہ کے اندر صحبت کرلے تب تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہے ورنہ چار ماہ کے بعد عورت کو طلاق بائنہ پڑ جائیگی اس آیت میں اسی کا بیان ہے۔ ایلاء کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت،حصہ8سے ’’ایلاء کا بیان‘‘مطالعہ فرمائیں۔
{وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ: اور اگر وہ طلاق کاپختہ ارادہ کرلیں۔} زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ معمول تھا کہ اپنی عورتوں سے مال طلب کرتے، اگر وہ دینے سے انکار کرتیں تو ایک سال، دو سال ،تین سال یا اس سے زیادہ عرصہ ان کے پاس نہ جانے اور صحبت ترک کرنے کی قسم کھالیتے اور انہیں پریشانی میں چھوڑ دیتے نہ تووہ بیوہ ہوتیں کہ کہیں اپنا ٹھکانہ کر لیتیں اورنہ شوہر دار کہ شوہر سے کچھ سکون حاصل کرتیں۔اسلام نے اس ظلم کو مٹایا اور ایسی قسم کھانے والوں کے لیے چار مہینے کی مدت معین فرما دی کہ اگر عورت سے چار مہینے یا اس سے زائد عرصہ کے لیے یا غیر معین مدت کے لیے ترکِ صحبت کی قسم کھا لے جس کو ایلا کہتے ہیں تو اس کے لیے چار ماہ انتظار کی مہلت ہے اس عرصہ میں خوب سوچ سمجھ لے کہ عورت کو چھوڑنا اس کے لیے بہتر ہے یا رکھنا، اگر رکھنا بہتر سمجھے اور اس مدت کے اندر رجوع کرے تو نکاح باقی رہے گا اور قسم کا کفارہ لازم ہو گا اور اگر اس مدت میں رجوع نہ کیا اورقسم نہ توڑی تو عورت نکاح سے باہر ہوگئی اور اس پر طلاق بائن واقع ہوگئی۔ یہ حکم بھی عورتوں پر اسلام کے احسانات میں سے ایک احسان اور حقوقِ نسواں کی پاسداری کی علامت ہے۔([1])
[1] ۔۔۔۔ طلاق کے مسائل سیکھنے کے لئے رسالہ،،طلاق کے آسان مسائل،، (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ کیجئے۔
{وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ:اور طلاق والی عورتیں اپنی جانوں کو تین حیض تک روکے رکھیں۔}اس آیت میں مُطَلَّقہ عورتوں کی عدت کا بیان ہے جن عورتوں کو ان کے شوہروں نے طلاق دی ہواگر وہ شوہر کے پاس نہ گئی تھیں اور ان سے خَلْوَت صحیحہ بھی نہ ہوئی تھی جب تو ان پر طلاق کی عدت ہی نہیں ہے جیسا کہ سورۂ احزاب کی آیت 49 میں ہے اور جن عورتوں کوکم سِنی یا بڑھاپے کی وجہ سے حیض نہ آتا ہوان کی عدت تین مہینے ہے اور جو حاملہ ہوں ان کی عدت بچہ جننا ہے جیسا کہ ان دونوں کی عدتوں کا بیان سورہ طلاق کی آیت 4 میں ہے اور جس کا شوہر فوت ہوجائے اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت بچہ جننا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا اور اگر فوت شدہ کی بیوی حاملہ نہ ہو تو اس عورت کی عدت 4ماہ، 10دن ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ آیت234میں ہے۔ مذکورہ بالا عورتوں کے علاوہ باقی جو آزاد عورتیں ہیں یہاں ان کی عدت اور طلاق کا بیان ہے کہ ان کی عدت تین حیض ہے۔
{وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ: اور انہیں حلال نہیں۔} جس چیز کا چھپانا حلال نہیں وہ حمل اور حیض کا خون ہے۔(جلالین، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۸، ص۳۴)
ان کا چھپانا اس لئے حرا م ہے کہ ان کے چھپانے سے رجوع کرنے اوراولاد کے بارے میں جو شوہر کا حق ہے وہ ضائع ہوگا۔
{اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ: اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہیں۔} یہاں بطورِ خاص ایمان کا تذکرہ کرکے یہ سمجھایا ہے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کیا جائے۔ لہٰذا ہرنیک عمل کو ایمان کا تقاضا کہہ سکتے ہیں۔
{وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ: اور ان کے شوہر اس مدت کے اندر انہیں پھیر لینے کا حق رکھتے ہیں۔} شوہروں کو رجعی طلاق میں عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے ۔آیت میں ’’اَرَادُوْا‘‘ کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ طلاق رجعی میں رجوع کیلئے عورت کی مرضی ضروری نہیں صرف مرد کا رجوع کافی ہے، ہاں ظلم کرنے اور عورت سے اپنے انتقام کی آگ بجھانے کیلئے رجوع کرنا سخت برا ہے۔رجوع اصلاح کی نیت سے ہونا چاہیے۔افسوس کہ ہمارے ہاں اِس جہالت کی بھی کمی نہیں ، بیویوں کو ظلم وستم اور سسرال سے انتقام لینے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے حتّٰی کہ بعض اوقات تو شادی ہی اس نیت سے کی جاتی ہے اور بعض اوقات رجوع اس نیت سے کیا جاتا ہے۔یہ سب زمانہ جاہلیت کے مشرکوں کے افعال ہیں۔
{وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ: اور عورتوں کیلئے بھی شریعت کے مطابق مردوں پر ایسے ہی حق ہے جیسا عورتوں پر ہے۔} یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق پورے کرنا لازم ہے۔آیت کی مناسبت سے یہاں ہم شوہر اور بیوی کے چند حقوق بیان کرتے ہیں۔
شوہر پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں : (1) خرچہ دینا، (2) رہائش مہیا کرنا، (3) اچھے طریقے سے گزارہ کرنا، (4) نیک باتوں ، حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا، (5) ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا، (6) جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا، (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق نہیں۔
بیوی پر شوہر کے حقوق :
بیوی پرشوہر کے چند حقوق یہ ہیں : (1)ازدواجی تعلقات میں مُطْلَقاً شوہر کی اطاعت کرنا، (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا، (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا، (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا، (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا، (6) اسے اپنا سردار جاننا، (7) شوہر کونام لے کر نہ پکارنا، (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا، (9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا، (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹھویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا، (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔(فتاوی رضویہ، ۲۴ / ۳۷۱، ملخصاً)
{وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ: اور مردوں کو ان پر فضیلت حاصل ہے۔} مرد و عورت دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں لیکن مرد کو بہرحال عورت پر فضیلت حاصل ہے اور اس کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں۔
{اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ: طلاق دو بار تک ہے۔} یہ آیت ایک عورت کے متعلق نازل ہوئی جس نے سرکارِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے شوہر نے کہا ہے کہ وہ اس کو طلاق دیتا رہے گا اور رجوع کرتا رہے گا اور ہر مرتبہ جب طلاق کی عدت گزرنے کے قریب ہوگی تورجوع کرلے گا اور پھر طلاق دیدے گا، اسی طرح عمر بھر اس کو قید رکھے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(البحر المحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۹، ۲ / ۲۰۲)
اور ارشاد فرمادیا کہ طلاق رَجعی دو بار تک ہے اس کے بعد طلاق دینے پررجوع کا حق نہیں۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مرد کو طلاق دینے کا اختیار دو بار تک ہے۔ اگر تیسری طلاق دی تو عورت شوہر پر حرام ہوجائے گی اور جب تک پہلے شوہر کی عدت گزار کر کسی دوسرے شوہر سے نکاح اور ہم بستری کرکے عدت نہ گزار لے تب تک پہلے شوہر پر حلال نہ ہوگی۔ لہٰذا ایک طلاق یا دو طلاق کے بعد رجوع کرکے اچھے طریقے سے اسے رکھ لو اور یا طلاق دے کر اسے چھوڑ دو تاکہ عورت اپنا کوئی دوسرا انتظام کرسکے۔ اچھے طریقے سے روکنے سے مراد رجوع کرکے روک لینا ہے اور اچھے طریقے سے چھوڑ دینے سے مراد ہے کہ طلاق دے کر عدت ختم ہونے دے کہ اس طرح ایک طلاق بھی بائنہ ہوجاتی ہے۔ شریعت نے طلاق دینے اور نہ دینے کی دونوں صورتوں میں بھلائی اور خیر خواہی کا فرمایا ہے۔ ہمارے زمانے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد دونوں صورتوں میں الٹا چلتی ہے، طلاق دینے میں بھی غلط طریقہ اور بیوی کو رکھنے میں غلط طریقہ۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے، اٰمین۔
{وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ: اور تمہیں حلال نہیں۔}یہاں بوقت ِ طلاق عورت سے مال لینے کا مسئلہ بیان کیا جارہا ہے ۔ اس کی دو صورتیں ہیں پہلی یہ کہ شوہر اپنا دیا ہوا مہر واپس لے اور یہ بطورِ خلع نہ ہو، یہ صورت تو سراسر ناجائز و حرام ہے ، یہ مضمون سورہ نساء کی آیت 20، 21میں بھی ہے ، وہاں فرمایا کہ تم بیویوں کو ڈھیروں مال بھی دے چکے ہو تو طلاق کے وقت اس سے لینے کی اجازت نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عورت مرد سے خلع لے اور خلع میں عورت مال ادا کرے، اس صورت کی اجازت ہےاور آیت میں جو فرمایا کہ عورت کے فدیہ دینے میں کوئی حرج نہیں اس سے یہی صورت مراد ہے لیکن اس صورت میں بھی یہ حکم ہے کہ اگر زیادتی مرد کی طرف سے ہو تو خلع میں مال لینا مکروہ ہے اور اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو تو مال لینا درست ہے لیکن مہر کی مقدار سے زیادہ لینا پھر بھی مکروہ ہے۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الطلاق، الباب الثامن، الفصل الاول، ۱ / ۴۸۸)
(1)…بلاوجہ عورت کیلئے طلاق کا مطالبہ کرنا حرام ہے۔ایسی عورتیں اور وہ حضرات درج ذیل3 احادیث سے عبرت حاصل کریں جو عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکاتے ہیں :
(۱)حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ جو عورت اپنے شوہر سے بلا وجہ طلاق کا مطالبہ کرے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔(ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب فی الخلع، ۲ / ۳۹۰، الحدیث: ۲۲۲۶)
(۲)حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے ۔(ابو داود، کتاب الطلاق، باب فیمن خبب امرأۃ علی زوجہا، ۲ / ۳۶۹، الحدیث: ۲۱۷۵)
(۳)حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے،پھر وہ اپنے لشکر روانہ کرتا ہے،اس کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنہ ڈالتا ہے۔اس کے لشکر میں سے ایک آ کر کہتا ہے:میں نے ایسا ایسا کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ تم نے کچھ نہیں کیا۔ پھر ان میں سے ایک شخص آ کر کہتا ہے:میں نے ایک شخص کو اس حال میں چھوڑا کہ ا س کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کروا دی۔ابلیس اس کو اپنے قریب کر کے کہتا ہے:ہاں !تم نے کام کیا ہے ۔(مسلم ، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب تحریش الشیطان وبعث سرایاہ لفتنۃ الناس۔۔۔ الخ، ص۱۵۱۱، الحدیث: ۶۷(۲۸۱۳))
(2)…خلع کا معنیٰ: مال کے بدلے میں نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں۔ خلع میں شرط ہے کہ عورت اسے قبول کرے۔
(3)… اگر میاں بیوی میں نا اتفاقی رہتی ہو تو سب سے پہلے میاں بیوی کے گھروالے ان میں صلح صفائی کی کوشش کریں جیسا کہ سورۂ نساء آیت 35میں ہے کہ مردو عورت دونوں کی طرف سے پنچ مقرر کیا جائے جو ان کے درمیان صلح صفائی کروادے لیکن اگر اس کے باوجود آپس میں نہ بنے اور یہ اندیشہ ہو کہ احکام شرعیہ کی پابندی نہ کرسکیں گے تو خلع میں کوئی مضائقہ نہیں اور جب خلع کر لیں تو طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور جو مال طے کیا ہو عورت پر اُس کی ادائیگی لازم ہو جاتی ہے۔ (ہدایہ، کتاب الطلاق، باب الخلع، ۱ / ۲۶۱)
خلع کی آیت حضرت جمیلہ بنت عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکے بارے میں نازل ہوئی، انہوں نے اپنے شوہر حضرت ثابت بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شکایت حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں کی اور کسی طرح ان کے پاس رہنے پر راضی نہ ہوئیں تب حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میں نے ان کو ایک باغ دیا ہے اگر یہ میرے پاس رہنا گوارا نہیں کرتیں اور مجھ سے علیحدگی چاہتی ہیں تو وہ باغ مجھے واپس کریں میں ان کو آزاد کردوں گا۔ حضرت جمیلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اس بات کو منظور کر لیا چنانچہ حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے باغ لے لیا اور انہیں طلاق دے دی۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۹، ۱ / ۶۷۱)
{فَاِنْ طَلَّقَهَا: پھر اگر شوہر بیوی کو (تیسری) طلاق دیدے۔ }تین طلاقوں کے بعد عورت شوہر پر حرمت ِ غلیظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے، اب نہ اس سے رجوع ہوسکتا ہے اورنہ دوبارہ نکاح جب تک یہ نہ ہو کہ عورت عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ دوسرا شوہر صحبت کے بعد طلاق دے یا وہ فوت ہوجائے اورعورت پھر اس دوسرے شوہر کی عدت گزارے۔
تین طلاقوں کے بارے میں ایک اہم مسئلہ:
تین طلاقیں تین مہینوں میں دی جائیں یا ایک مہینے میں یا ایک دن میں یا ایک نشست میں یا ایک جملے میں بہر صورت تینوں واقع ہوجاتی ہیں اور عورت مرد پر حرام ہوجاتی ہے۔ تین طلاقوں کے بعد بغیر شرعی طریقے کے مردو عورت کاہم بستری وغیرہ کرنا صریح حرام و ناجائز ہے اور ایسی صلح کی کوشش کروانے والے بھی گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ تفصیل کیلئے علماء اہلسنّت کی کتابوں کی طرف رجوع کریں۔
{وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ: اور جب تم عورتوں کو طلاق دو۔} یہ آیت ایک انصاری کے بارے میں نازل ہوئی، انہوں نے اپنی عورت کو طلاق دی تھی اور جب عدت ختم ہونے کے قریب ہوتی تھی تورجوع کرلیا کرتے تھے تاکہ عورت قید میں پڑی رہے۔ اس پریہ آیت نازل ہوئی ۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳۱، ۱ / ۶۸۲)
جس کا خلاصہ ہے کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو اوروہ اپنی عدت کی اختتامی مدت کے قریب پہنچ جائیں تو اس وقت انہیں اچھے طریقے سے روک لو یا اچھے طریقے سے چھوڑ دو۔ تمہیں رجوع کا اختیار تو دیا گیا ہے لیکن اس اختیار کو ظلم و زیادتی کا حیلہ نہ بناؤ کہ انہیں نقصان پہنچانے اورایذاء دینے کی نیت سے رجوع کرتے رہو۔ یہ فعل سراسر اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو ٹھٹھامذاق بنانے کے مُتَرادِف ہے کہ جیسے مذاق میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کی جاتی اسی طرح تم اللہتعالیٰ کی آیتوں کی پرواہ نہیں کرتے اور یہ بھی یاد رکھو کہ جو اس طرح کرتا ہے وہ اپنی جان پر ہی ظلم کرتا ہے کہ حکمِ الٰہی کی مخالفت کرکے گنہگار ہوتا ہے۔تمہیں تو اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا احسان یادکرنا چاہیے کہ اس نے تمہیں اسلام کی دولت عطا کی اور سیدُالانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا امتی بنایا ، تمہیں تمہاری عبادات، معاملات اور معاشرت کے طریقے سکھائے ، تمہیں تو اللہتعالیٰ کی عطا کردہ کتاب اور حکمت کو یاد کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی نصیحت پر عمل کرنا چاہیے، زندگی کے تمام معاملات میں اللہتعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے ۔ کائنات میں تمہارے اپنی بیویوں پر ظلم و ستم اور احکامِ شرعیہ کی مخالفت کو اور کوئی نہ بھی جانتا ہو لیکن اللہتعالیٰ توسب کچھ جاننے والا ہے، اس کی بارگاہ میں تو جواب دینا ہی پڑے گا۔سبحان اللہ، کتنی پیاری نصیحت ہے، کتنا پیارا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارے گھروں کے معاملات بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوجائیں۔
{وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ: اور جب تم عورتوں کو طلاق دو۔} حضرت مَعْقِل بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بہن کا نکاح عاصم بن عدی کے ساتھ ہوا تھا انہوں نے ایک طلاق دیدی لیکن عدت گزرنے کے بعد پھر عاصم نے نکاح کی درخواست کی تو حضرت معقل بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مانع ہوئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔(بخاری ، کتاب النکاح، باب من قال لا نکاح الّا بولیّ، ۳ / ۴۴۲، الحدیث: ۵۱۳۰)
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کسی عورت کی عدت گزر جائے اور عدت کے بعد وہ عورت کسی سے نکاح کا ارادہ کرے خواہ وہ کوئی نیا آدمی ہو یا وہی ہو جس نے طلاق دی تھی تو اگر وہ مردو عورت باہم رضامند ہیں تو عورت کے سرپرستوں کو بلاوجہ منع کرنے کا حق نہیں۔ اس حکم کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے فرمایا کہ یہ ہر اس آدمی کو نصیحت کی جارہی ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ مزید فرمایا کہ اس حکم پر عمل کرنا تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی و طہارت کا باعث ہے کیونکہ بعض اوقات سابقہ تعلقات کی وجہ سے عورتیں غلط قدم بھی اٹھالیتی ہیں جو بعد میں سب کیلئے پریشانی کا باعث بنتا ہے ،اس لئے عورتوں کو مزید نکاح سے بلاوجہ منع نہ کرو۔ تمہاری حقیقی حکمت و مصلحت کو تم نہیں جانتے ،اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ اگر عورت غیر کُفو میں بغیر اجازتِ ولی نکاح کرے تو وہاں اولیاء کا حق ہوتا ہے۔ تفصیل کیلئے بہارِ شریعت حصہ 7میں ’’کفو کا بیان ‘‘ مطالعہ کریں۔
{وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ:اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔} طلاق کے بیان کے بعد یہ سوال طبعاًسامنے آتا ہے کہ اگر طلاق والی عورت کی گود میں شیر خوار بچہ ہو تو اس کی جدائی کے بعد اس کی پرورش کا کیا طریقہ ہوگا اس لیے حکمت کا تقاضا تھا کہ بچہ کی پرورش کے متعلق ماں باپ پر جو احکام ہیں وہ اس موقع پر بیان کر دیئے جائیں لہٰذا یہاں ان مسائل کا بیان ہوا۔ آیت کا خلاصہ اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ دوسال مکمل کرانے کا حکم اس کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے کیونکہ دو سال کے بعد بچے کو دودھ پلانا ناجائز ہوتا ہے اگرچہ اڑھائی سال تک دودھ پلانے سے حرمت ِ رضاعت ثابت ہوجاتی ہے اور اگر وہ میاں بیوی باہمی مشورے سے کسی اور سے بچے کو دودھ پلوانا چاہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں البتہ اس صورت میں دودھ پلانے والی عورت کو اس کی اجرت صحیح طریقے سے ادا کی جائے گی۔ ماں کو اس کی اولاد کی وجہ سے تکلیف نہ دی جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد سے تکلیف دی جائے۔ ماں کو ضَرر دینا یہ ہے کہ جس صورت میں اس پر دودھ پلانا ضروری نہیں اس میں اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے اور باپ کو ضرر دینا یہ ہے کہ اس کی طاقت سے زیادہ اس پر ذمہ داری ڈالی جائے۔ یا آیت کا یہ معنیٰ ہے کہ نہ ماں بچے کو تکلیف دے اور نہ باپ۔ ماں کا بچے کو ضرر دینا یہ ہے کہ اس کو وقت پر دودھ نہ دے اور اس کی نگرانی نہ رکھے یا اپنے ساتھ مانوس کر لینے کے بعد چھوڑ دے اور باپ کا بچے کو ضرر دینا یہ ہے کہ مانوس بچہ کو ماں سے چھین لے یا ماں کے حق میں کوتاہی کرے جس سے بچہ کو نقصان پہنچے ۔یہاں یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ دودھ پلانے کے حوالے سے جو باپ کا قائم مقام ہے اس کا بھی یہی حکم ہے ۔
بچے کو دودھ پلانے کے متعلق چند احکام:
(1)…ماں خواہ مطلقہ ہو یا نہ ہو اس پر اپنے بچے کو دودھ پلانا واجب ہے بشرطیکہ باپ کو اجرت پر دودھ پلوانے کی قدرت نہ ہویا کوئی دودھ پلانے والی میسر نہ آئے یابچہ ماں کے سوا اور کسی کا دودھ قبول نہ کرے اگر یہ باتیں نہ ہوں یعنی بچہ کی پرورش خاص ماں کے دودھ پر موقوف نہ ہو تو ماں پر دودھ پلانا واجب نہیں مستحب ہے۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳۳، ۱ / ۲۸۳)
(2)… دودھ پلانے میں دو سال کی مدت کا پورا کرنا لازم نہیں۔ اگر بچہ کو ضرورت نہ رہے اور دودھ چھڑانے میں اس کے لیے خطرہ نہ ہو تو اس سے کم مدت میں بھی چھڑانا ، جائز ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳۳، ۱ / ۱۷۳)
(3)… بچہ کی پرورش اور اس کو دودھ پلوانا باپ کے ذمہ واجب ہے اس کے لیے وہ دودھ پلانے والی مقرر کرے لیکن اگر ماں اپنی رغبت سے بچہ کو دودھ پلائے تو مستحب ہے۔
(4)…شوہر اپنی بیوی کو بچہ کے دودھ پلانے کے لیے مجبور نہیں کرسکتا اور نہ عورت شوہر سے بچہ کے دودھ پلانے کی اجرت طلب کرسکتی ہے جب تک کہ اس کے نکاح یا عدت میں رہے۔
(5)… اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہواور عدت گزر چکی ہوتو وہ اس سے بچہ کے دودھ پلانے کی اجرت لے سکتی ہے۔
(6)…بچے کے اخراجات باپ کے ذمہ ہوں گے نہ کہ ماں کے ذمہ۔
آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بچے کا نسب باپ کی طرف شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ’’مَوْلُوْدٌ‘‘ یعنی ’’بچے ‘‘کو ’’لَهٗ‘‘یعنی مذکر کی ضمیر کی طرف منسوب کرکے بیان فرمایا، لہٰذا اگر باپ سید ہو اور ماں غیر سیدہو تو بچہ سید ہے اور اگر باپ غیر سید اور ماں سیدانی ہو تو بچہ غیر سید ہی شمار ہوگا۔
{وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ: اور جو باپ کا قائم مقام ہے اس پر بھی ایسا ہی ہے۔} یعنی اگر باپ فوت ہوگیا ہو تو جو ذمہ داریاں باپ پر ہوتی ہیں وہ اب اُس کے قائم مقام پر ہو ں گی۔
{وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ:اور تم میں سے جو مرجائیں۔} سورہ بقرہ آیت 229کی تفسیر میں عورتوں کی عدتوں کا بیان گزر چکا ہے۔ یہاں آیت میں فوت شدہ آدمی کی بیوی کی عدت کا بیان ہے کہ فوت شدہ کی بیوی کی عدت 4ماہ 10دن ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب شوہر کا انتقال چاند کی پہلی تاریخ کو ہوا ہو ورنہ عورت 130دن پورے کرے گی۔(فتاوی رضویہ، ۱۳ / ۲۹۴-۲۹۵)
یہ بھی یاد رہے کہ یہ عدت غیر حاملہ کی ہے، اگر عورت کو حمل ہے تو اس کی عدت ہر صورت میں بچہ جننا ہی ہے۔
عدت کے3 اہم مسائل:
(1)…شوہر کی وفات کی یا طلاقِ بائن کی عدت گزارنے والی دورانِ عدت نہ گھر سے باہر نکل سکتی اورنہ بناؤ سنگھار کرسکتی ہے خواہ زیور سے کرے یا رنگین و ریشمی کپڑوں سے یا خوشبو ، تیل اور مہندی وغیرہ سے ۔ اگر کوئی عورت عدت کی پابندیاں پوری نہ کرے تو جو اسے روکنے پر قادر ہے وہ اسے روکے، اگر نہیں روکے گا تو وہ بھی گناہگار ہوگا۔
(2)…جو عورت طلاق رجعی کی عدت میں ہو اس کو زینت اور سنگار کرنا مستحب ہے۔
(3)… وفات کی عدت گزارنابیوی پر مُطلقاً لازم ہے خواہ جوان ہو یا بوڑھی یا نابالغہ، یونہی عورت کی رخصتی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ مزید تفصیل کیلئے بہارِ شریعت حصہ8کا مطالعہ کریں۔
{فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ:تو اے والیو! تم پر اس کام میں کوئی حرج نہیں جو عورتیں اپنے معاملہ میں شریعت کے مطابق کرلیں۔} اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو اپنے معاملات کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے اور وہ خود بھی اپنا نکاح کرسکتی ہیں البتہ مشورے سے چلنا بہرحال بہتر ہے۔
{وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ: اور تم پر کوئی گناہ نہیں۔}آیت میں عدت ِ وفات گزارنے والی عورت کا حکم بیان کیا جارہا ہے کہ ایسی عورت سے نکاح کرنا یا نکاح کا کھلا پیغام دینایا نکاح کا وعدہ کرلینا توحرام ہے لیکن پردے کے ساتھ خواہشِ نکاح کا اظہار گناہ نہیں مثلاً یہ کہے کہ تم بہت نیک عورت ہو یا اپنا ارادہ دل ہی میں رکھے اور زبان سے کسی طرح نہ کہے۔
اہم مسئلہ: دورانِ عدت نکاح حرام ہے اور جو اسے حلال سمجھے وہ کافر ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۱۱ / ۲۶۶)
{مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ: جب تک تم نے انہیں نہ چھوا ہو۔} آیت میں مہر کے چند مسائل کا بیان ہے: جس عور ت کا مہر مقرر کئے بغیر نکاح کردیا گیاہو، اگر اس کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدی تو کوئی مہر لازم نہیں ،ہاتھ لگانے سے ہم بستری کرنا مراد ہے اور خَلْوتِ صحیحہ بھی اسی کے حکم میں ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مہر کا ذکر کئے بغیر بھی نکاح درست ہے مگر اس صورت میں اگر خَلْوت ِ صحیحہ ہو گئی یا دونوں میں سے کوئی فوت ہو گیا تو مہر مثل دینا واجب ہے بشرطیکہ نکاح کے بعد انہوں نے آپس میں کوئی مہر طے نہ کرلیا ہو اور اگر خلوتِ صحیحہ سے پہلے طلاق ہو گئی تو تین کپڑوں یعنی کرتا، شلوار اور دوپٹے پر مشتمل ایک جوڑا سوٹ دینا واجب ہوتا ہے، یہاں آیت میں اسی کا بیان ہے اوراگرجوڑے کی جگہ اس کی قیمت دیدے تو یہ بھی ہو سکتا ہے ۔ نیز جس عورت کا مہر مقرر نہ کیا ہو اوراس کوخلوت ِ صحیحہ سے پہلے طلاق دیدی ہو اس کو تو جوڑا دینا واجب ہے اور اس کے سواہر مطلقہ کے لیے مستحب ہے۔
{عَلَى الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ: مالدار پر اس کی طاقت کے مطابق دینالازم ہے۔} امیر و غریب پر ان کی حیثیت کے مطابق جوڑا دینے کا حکم ہے یعنی اگر مرد و عورت دونوں مالدار ہوں تو جوڑا اعلی درجے کا ہو اور اگر دونوں محتاج ہوں تو جوڑا معمولی درجے کا اور ایک مالدار ہو اور ایک محتاج تو جوڑا درمیانے درجے کا ہو۔(عالمگیری، کتاب النکاح، الباب السابع، الفصل الثانی، ۱ / ۳۰۴)
{وَ اِنْ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ: اور اگر تم عورتوں کو انہیں چھونے سے پہلے طلاق دیدو۔}اس آیت میں 6 چیزیں بیان کی گئی ہیں :
(1)…اگر مہر مقرر ہو اور عورت کے قریب جائے بغیر اسے طلاق دیدی ہو تو مقرر کردہ مہر کا نصف یعنی آدھا دینا پڑے گا، مثلاً دس ہزار مہر تھا تو پانچ ہزار دینا ہوگا۔
(2)…اگر عورت اس آدھے میں سے بھی کچھ معاف کردے تو جائز ہے۔
(3)…شوہر اپنی خوشی سے آدھے سے زیادہ دیدے تو بھی جائز ہے۔
(4)…شوہر کا اپنی خوشی سے آدھے سے زیادہ دینا تقویٰ و پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے کہ بیوی کو طلاق دینے کے باوجود کوئی زیادتی کرنے کی بجائے احسان سے پیش آرہا ہے۔
(5)…اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اگرچہ میاں بیوی میں جدائی ہو رہی ہو تب بھی آپس میں احسان کرنا نہ بھولو یعنی طلاق کے بعد آپس میں کینہ و عداوت نہ ہو، اسلامی اور قرابت کے حقوق کا لحاظ رکھا جائے۔ اس میں حسنِ سلوک و مَکارم اخلاق کی ترغیب ہے۔
(6)… آیت کے آخر میں یہ بھی فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے یعنی اس تصور و اعتقاد کو ہر وقت ذہن نشین رکھو تاکہ تم ظلم و زیادتی سے بچو اور فضل و احسان کی طرف مائل رہو۔ سبحاناللہ کتنی پیاری تعلیم ہے۔طلاق کامعاملہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ عموماً دونوں فریق جذبہ انتقام میں اندھے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو جان سے مار دینے کے خواہشمند ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ یہاں پر بھی آپس میں حسنِ سلوک کا حکم فرمارہا ہے اور اس میں بھی خصوصاً مرد کو زیادہ تاکید ہے کیونکہ زیادہ ایذاء عام طور پر مرداور اس کے خاندان کی طرف سے ہوتی ہے۔
{حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ:تمام نمازوں کی پابندی کرو۔} نکاح و طلاق کے مسائل بیان کرنے کے دوران نمازکی تاکید فرمادی ، گویا یہ سمجھانا مقصود ہے کہ بندوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے خالق و مالک کے حقوق سے غافل نہ ہوجانا، پنجگانہ فرض نمازوں کو ان کے اوقات پر ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرتے رہوکیونکہ شریعت کے دیگر معاملات میں حکمِ الہٰی پر عمل اسی صورت میں ہوگا جب دل کی اصلاح ہوگی اوردل کی اصلاح نماز کی پابندی سے ہوتی ہے۔نیز فرمایا کہ تمام نمازوں کی پابندی و نگہبانی کرو ،اس نگہبانی میں ہمیشہ نماز پڑھنا ،با جماعت پڑھنا، درست پڑھنا ،صحیح وقت پر پڑھنا سب داخل ہیں۔ درمیانی نماز کی بالخصوص تاکید کی گئی ہے، درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جیسا کہ بخاری میں ہے’’نماز وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء علی المشرکین، ۴ / ۲۱۶، الحدیث:۶۳۹۶، ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ البقرۃ،۴ / ۴۶۱، الحدیث: ۲۹۹۴)
نماز عصر کی تاکید کی ظاہری وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ ایک تو اس وقت دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔(بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالٰی: تعرج الملائکۃ والروح الیہ، ۴ / ۵۴۹، الحدیث:۷۴۲۹،شرح السنہ، کتاب الامارۃ والقضاء، باب تغلیظ الیمین، ۵ / ۳۷۰، تحت الحدیث: ۲۵۱۰)
دوسرا یہ کہ اس وقت کاروبار کی مصروفیت کا وقت ہوتا ہے تو اس غفلت کے وقت میں نماز کی پابندی کرنا زیادہ اہم ہے۔
{وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ: اوراللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔} بارگاہِ الہٰی میں کھڑا ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ ادب سے کھڑا ہوا جائے لہٰذا کھڑے ہونے کے ایسے طریقے ممنوع ہوں گے جس میں بے ادبی کا پہلو نمایاں ہو۔اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ ہے کہ نماز میں قیام فرض ہے۔ دوسرے یہ کہ نماز میں کھانا پینا، بات چیت کرنا حرام ہے جیسا کہ ’’قٰنِتِیْنَ‘‘سے معلوم ہوا۔ نماز میں گفتگو کرنا اسی آیت سے منسوخ ہے۔(بخاری، کتاب العمل فی الصلاۃ، باب ما ینہی من الکلام فی الصلاۃ، ۱ / ۴۰۵، الحدیث: ۱۲۰۰)
{فَاِنْ خِفْتُمْ:پھر اگرتم خوف کی حالت میں ہو۔} یہاں دشمن یا درندے وغیرہ کے خوف کی حالت میں نماز کا حکم اور طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر خوف کی ایسی صورت ہو کہ ایک جگہ ٹھہرنا ناممکن ہو جائے تو پیدل چلتے ہوئے یا سواری پر جیسے ممکن ہو نماز پڑھ لو اور اس نماز کو دہرانا بھی نہ پڑے گا اورجدھر جارہے ہوں ادھر ہی منہ کرکے نماز پڑھ لیں ،قبلہ کی طرف منہ کرنے کی شرط نہیں ہے اور جب حالت ِ امن ہو تو پھر معمول کے مطابق نماز پڑھی جائے البتہ اگر خوف کی ایسی حالت ہو کہ اس میں ٹھہرنا ،ممکن ہو جیسے جنگ کے موقع پر دشمنوں کے حملے کا ڈر بھی ہے لیکن کسی جگہ ٹھہرے ہوئے بھی ہیں تو اس کاباجماعت نماز پڑھنے کا طریقہ سورہ ٔنساء آیت 102میں مذکور ہے۔
{وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ: اور جو تم میں مرجائیں۔} ابتدائے اسلام میں بیوہ کی عدت ایک سال تھی اور اُس ایک سال میں وہ شوہر کے یہاں رہ کر نان و نفقہ پانے کی مستحق ہوتی تھی ،پھر ایک سال کی عدت توسورۂ بقرہ کی آیت 234 ’’یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا‘‘ سے منسوخ ہوئی جس میں بیوہ کی عدت چار ماہ، دس دن مقرر فرمائی گئی اور سال بھر کا نفقہ سورۂ نساء کی آیت نمبر12یعنی آیت ِمیراث سے منسوخ ہوا جس میں عورت کو شوہر کی وراثت میں حصہ دار مقرر کردیا گیا لہٰذا اب اِس وصیت کا حکم باقی نہ رہا۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan