READ

Surah al-Baqarah

اَلْبَقَرَة
286 Ayaat    مدنیۃ


2:241
وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِؕ-حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَ(۲۴۱)
اور طلاق والیوں کے لئے بھی مناسب طور پر نان و نفقہ ہے، یہ واجب ہے پرہیزگاروں پر،

{وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌ: اور طلاق والی عورتوں کے لئے بھی خرچہ ہے۔}یہاں آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ طلاق کی عدت میں شوہر پر عورت کا نان نفقہ دینا لازم ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۴۲، ص۱۲۶)

2:242
كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۠ (۲۴۲)
اللہ یونہی بیان کرتا ہے تمہارے لئے اپنی آیتیں کہ کہیں تمہیں سمجھ ہو،

اس آیت کی تفسیر گزشتہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔
2:243
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ۪- فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا۫- ثُمَّ اَحْیَاهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ(۲۴۳)
اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے، تو اللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر انہیں زندہ فرمادیا، بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں (ف۴۹۰)

{اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ: اے حبیب! کیا تم نے ان لوگوں کو نہ دیکھا تھا جو اپنے گھروں سے نکلے۔} بنی اسرائیل کی ایک جماعت تھی جس کے علاقے میں طاعون پھیل گیا تو وہ موت کے ڈر سے اپنی بستیاں چھوڑ کر بھاگ نکلے اور جنگل میں جا پڑے۔ یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے، حکمِ الٰہی سے سب وہیں مر گئے، کچھ عرصہ کے بعد حضرت حِزقیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے انہیں اللہ تعالیٰ نے زندہ فرمایا اور وہ مدتوں زندہ رہے۔ (در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۴۳،۱ / ۷۴۱)

 موت کے ڈر سے بھاگ کر جان نہیں بچائی جا سکتی:

            اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ آدمی موت کے ڈر سے بھاگ کر جان نہیں بچاسکتا تو بھاگنا بے کار ہے، جو موت مقدر ہے وہ ضرور پہنچے گی۔ آدمی کو چاہیے کہ رضائے الٰہی پر راضی رہے، یونہی مجاہدین کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جہاد سے بیٹھ رہنا موت کو دفع نہیں کرسکتا لہٰذا دل مضبوط رکھنا چاہیے۔سورۂ آلِ عمران آیت168اور سورہ ٔاحزاب آیت 16میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔

{اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ: بیشک اللہ  لوگوں پر فضل کرنے والا ہے۔} ارشا دفرمایا کہ اللہ  تعالیٰ بندوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، کچھ لوگوں پر تو کوئی خصوصی فضل ہوتا ہے جیسے مذکورہ بالا لوگوں کو دوبارہ زندگی عطا فرمادی جبکہ اللہ تعالیٰ کا عمومی فضل و کرم تو پوری کائنات کے ایک ایک فرد پرہے۔ ہر انسان دن رات اپنے ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ کے کروڑہا کروڑ احسانات لئے چل رہا ہوتا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر اس کی شکر گزار نہیں ہے۔

2:244
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۲۴۴)
اور لڑو اللہ کی راہ میں (ف۴۹۱) اور جان لو کہ اللہ سنتا جانتا ہے،

{وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:اور اللہ  کی راہ میں لڑو۔} زندگی کی بے ثباتی اور موت کے بیان کے بعد سمجھایا جارہا ہے کہ جب زندگی ایسی ہی ناپائیدار ہے اور کسی بھی صورت موت سے فرار ممکن نہیں توجہاد سے منہ پھیر کر موت سے نہ بھاگو جیسا بنی اسرائیل بھاگے تھے کیونکہ موت سے بھاگنا کام نہیں آتا۔

2:245
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةًؕ-وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪-وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۲۴۵)
ہے کوئی جو اللہ کو قرض حسن دے (ف۴۹۲) تو اللہ اس کے لئے بہت گنُا بڑھا دے اور اللہ تنگی اور کشائیش کرتا ہے (ف۴۹۳) اور تمہیں اسی کی طرف پھر جانا،

{مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا: ہے کوئی جو اللہ  کواچھا قرض دے۔} راہِ خدا میں اِخلاص کے ساتھ خرچ کرنے کو قرض سے تعبیر فرمایا ،یہ اللہ  تعالیٰ کا کمال درجے کا لطف و کرم ہے کیونکہ بندہ اُس کا بنایا ہوا اور بندے کا مال اُس کا عطا فرمایا ہوا، حقیقی مالک وہ جبکہ بندہ اُس کی عطا سے مجازی ملک رکھتا ہے مگر قرض سے تعبیر فرمانے میں یہ بات دل میں بٹھانا مقصود ہے کہ جس طرح قرض دینے والا اطمینان رکھتا ہے کہ اس کا مال ضائع نہیں ہوتا اوروہ اس کی واپسی کا مستحق ہے ایسا ہی راہِ خدا میں خرچ کرنے والے کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ وہ اس خرچ کرنے کا بدلہ یقیناً پائے گا اوروہ بھی معمولی نہیں بلکہ کئی گنا بڑھا کر پائے گا ۔ سات سو گنا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے لاکھوں گنا زائد بھی جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت 261میں ہے۔صدقہ سے دنیا میں بھی مال میں برکت ہوتی ہے اور آخرت میں بھی اجر وثواب ملتا ہے۔ دنیا کے اگر لاکھوں امیر لوگوں کا سروے کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی اکثریت صدقہ و خیرات بکثرت کرتی ہے اور لاکھوں غریبوں کو دیکھ لیں کہ ان کی اکثریت صدقہ و خیرات سے دور بھاگتی ہے۔

{وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ: اور اللہ  تنگی دیتا ہے اوروسعت دیتا ہے۔}  آیت کے اس حصے میں  راہِ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت بیان فرمائی ، چونکہ وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے تو اس شبہے کا ازالہ فرما دیا کہ اللہ  تعالیٰ جس کے لیے چاہے روزی تنگ کردے اورجس کے لیے چاہے وسیع فرمادے، تنگی و فراخی تواس کے قبضہ میں ہے اور وہ اپنی راہ میں خرچ کرنے والے سے وسعت کا وعدہ کرتاہے تو راہِ خدا میں خرچ کرنے سے مت ڈرو ، جس کی راہ میں خرچ کررہے ہو وہ کریم ہے اور اس کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور جود و بخشش کے خزانے لٹانا اس کریم کی شان ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’رحمٰن کا دستِ قدرت بھرا ہوا ہے، بے حد و حساب رحمتیں اور نعمتیں یوں برسانے والا ہے کہ دن رات (کے عطا فرمانے)نے اس میں کچھ کم نہ کیا اور دیکھو تو کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے اب تک اللہ تعالیٰ نے کتنا خرچ کردیا ہے لیکن ا س کے باوجود اس کے دستِ قدرت میں جو خزانے ہیں اس میں کچھ کمی نہیں آئی۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۴، الحدیث: ۳۰۵۶)

2:246
اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰىۘ-اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-قَالَ هَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْاؕ-قَالُوْا وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ قَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ اَبْنَآىٕنَاؕ-فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ(۲۴۶)
اے محبوب !کیا تم نے نہ دیکھا بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو جو موسیٰ کے بعد ہوا (ف۴۹۴) جب اپنے ایک پیغمبر سے بولے ہمارے لیے کھڑا کردو ایک بادشاہ کہ ہم خدا کی راہ میں لڑیں، نبی نے فرمایا کیا تمہارے انداز ایسے ہیں کہ تم پر جہاد فرض کیا جائے تو پھر نہ کرو، بولے ہمیں کیا ہوا کہ ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں حالانکہ ہم نکالے گئے ہیں اپنے وطن اور اپنی اولاد سے (ف۴۹۵) تو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا منہ پھیر گئے مگر ان میں کے تھوڑے (ف۴۹۶) اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو،

{اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ: اے حبیب!کیا تم نے بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو نہ دیکھا ۔} جہاد کا حکم دینے کے بعد اب جہاد کا ہمت و حوصلہ پیدا کرنے والا ایک واقعہ بہت سی دلچسپ تفصیلات کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ بتایا گیا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بعد جب بنی اسرائیل کی اعتقادی اور عملی حالت نہایت خراب ہوگئی اور انہوں نے عہد ِا لٰہی کو فراموش کردیا، بت پرستی میں مبتلا ہوگئے اور سرکشی اور بد افعالی انتہا کو پہنچ گئی تو ان پر قومِ جالوت مسلّط کردی گئی جس کو عَمالِقہ کہتے ہیں۔جالوت ایک نہایت جابر بادشاہ تھا، اس کی قوم کے لوگ مصراور فلسطین کے درمیان بحر روم کے ساحل پر رہتے تھے ،انہوں نے بنی اسرائیل کے شہر چھین لیے ، ان کے لوگ گرفتار کرلئے اوران پر طرح طرح کی سختیاں کیں۔ اس زمانہ میں بنی اسرائیل میں کوئی نبی موجود نہ تھے، خاندانِ نبوت میں صرف ایک بی بی باقی رہی تھیں جو حاملہ تھیں ،ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی جن کا نام شمویل رکھاگیا، جب وہ بڑے ہوئے تو انہیں توریت کا علم حاصل کرنے کیلئے بیت المقدس میں ایک بزرگ عالم کے سپرد کیا گیا۔ وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ بڑی شفقت کرتے اور آپ کواپنا بیٹا کہتے۔ جب حضرت شمویل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامبلوغت کی عمر کو پہنچے تو ایک رات آپ اُس عالم کے قریب آرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے اُسی عالم کی آواز میں ’’ یا شمویل‘‘ کہہ کر پکارا ، آپ عالم کے پاس گئے اور فرمایا کہ آپ نے مجھے پکارا ہے۔ عالم نے اس خیال سے کہ انکار کرنے سے کہیں آپ ڈر نہ جائیں یہ کہہ دیا کہ بیٹا! تم سوجاؤ ،پھر دوبارہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامنے اسی طرح پکارا اور حضرت شمویل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عالم کے پاس گئے۔ عالم نے کہا کہ بیٹا! اب اگر میں تمہیں پھر پکاروں تو تم جواب نہ دینا۔ چنانچہ تیسری مرتبہ میں حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام ظاہر ہوگئے اور انہوں نے بشارت دی کہ اللہ  تعالیٰ نے آپ کو نبوت کا منصب عطا فرمایا ہے، لہٰذا آپ اپنی قوم کی طرف جائیے اور اپنے رب تعالیٰ کے احکام پہنچائیے۔ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قوم کی طرف تشریف لائے توانہوں نےآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو نبی ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اتنی جلدی کیسے نبی بن گئے ،اچھا اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی ہیں تو ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کریں۔  (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۴۶، ۱ / ۱۸۶)

 جب قوم کی اعتقادی اور عملی حالت خراب ہو تو کیا ہوتا ہے؟

            اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب قوم کی اعتقادی اور عملی حالت خراب ہوجاتی ہے تو ان پر ظالم و جابر قوموں کو مسلط کردیا جاتا ہے۔ اس آیت کو سامنے رکھ کر پوری دنیا کے مسلم ممالک کی اعتقادی و عملی حالت کو دیکھا جائے تو اوپر کا نقشہ بڑا واضح طور پر نظر آئے گا۔قرآن کے اس طرح کے واقعات بیان کرنے کا مقصد صرف تاریخی واقعات بتانا نہیں بلکہ عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی طرف لانا ہے۔

{اِبْعَثْ لَنَا مَلِكًا: ہمارے لئے بادشاہ مقرر کردیجئے۔}  جب بنی اسرائیل نے حضرت شمویل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ آپ ہمارے لئے بادشاہ مقرر کردیجئے تاکہ ہم راہِ خدا میں جہاد کریں تو حضرت شمویل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ تم پر بادشاہ مقرر کیا جائے تو تم جہاد کرنے سے انکار کردو اور منہ پھیرو ۔ اس پر قوم نے جذبات میں آکر کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم جہاد سے منہ پھیریں جبکہ قومِ جالوت نے ہماری قوم کے لوگوں کو ان کے وطن سے نکالا ہے، ان کی اولاد کو قتل کیا ہے، ان کی نسلوں کو تباہ کیا ہے۔ یہ سن کرحضرت شمویل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی اور اللہ  تعالیٰ نے ان کی درخواست قبول فرماتے ہوئے ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیا اور انہیں جہاد کا حکم دیا لیکن بعد میں وہی ہوا جس کا اندیشہ اللہ  تعالیٰ کے نبی نے ظاہر فرمایا تھا یعنی بنی اسرائیل کی ایک بہت معمولی تعداد یعنی اہلِ بدر کے برابر صرف تین سو تیرہ افراد جہاد کیلئے تیار رہے اور بقیہ سب نے منہ پھیر لیا۔  (جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ:  ۲۴۶، ۱ / ۳۰۱-۳۰۲)

 بزدل قوموں کا وطیرہ:

            یاد رکھیں کہ نعرے مارنے میں آگے آگے ہونا اور عملی میدان میں پیٹھ دکھا دینا بزدل قوموں کا وطیرہ ہے اور کامل لوگ گفتار کے نہیں بلکہ کردار کے غازی ہوتے ہیں۔

2:247
وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًاؕ-قَالُوْۤا اَنّٰى یَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَیْنَا وَ نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَ لَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِؕ-قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَیْكُمْ وَ زَادَهٗ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِؕ-وَ اللّٰهُ یُؤْتِیْ مُلْكَهٗ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۴۷)
اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا بیشک اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے (ف۴۹۷) بولے اسے ہم پر بادشاہی کیونکر ہوگی (ف۴۹۸) اور ہم اس سے زیادہ سلطنت کے مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی وسعت نہیں دی گئی (ف۴۹۹) فرمایا اسے اللہ نے تم پر چن لیا (ف۵۰۰) اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی (ف۵۰۱) اور اللہ اپنا ملک جسے چاہ ے دے (ف۵۰۲) اور اللہ وسعت والا علم والا ہے (ف۵۰۳)

{وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ: اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا ۔} بنی اسرائیل نے چونکہ بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست دی تھی چنانچہ حضرت شمویل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عصا ملا اور بتایا گیا کہ جو شخص تمہاری قوم کا بادشاہ ہوگا اُس کا قد اِس عصا کے برابر ہو گا۔ چنانچہ لوگوں کی پیمائش کرنے پر طالوت کا قداس عصا کے برابر نکلا تو حضرت شمویل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا :میں تمہیں حکمِ الٰہی سے بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر کرتا ہوں اور بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اللہ  تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۴۷، ۱ / ۳۰۳)

بنی اسرائیل کے سرداروں نے اپنے نبی حضرت شمویل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ نبوت تو لاوی بن یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں چلی آتی ہے اور سلطنت یہود بن یعقوب کی اولاد میں جبکہ طالوت ان دونوں خاندانوں میں سے نہیں ہے ،نیز یہ غریب آدمی ہے ، کوئی مال و دولت اس کے پاس ہے نہیں تو یہ بادشاہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اس سے زیادہ تو بادشاہت کے حقدار ہم ہیں۔ اِس معاملے میں یہ بنی اسرائیل کی پہلی نافرمانی تھی کہ اللہتعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں اپنا قیاس کیااور بلاوجہ کی بحث کی ۔انہیں بتایا گیا کہ سلطنت کوئی وراثت نہیں کہ کسی نسل اور خاندان کے ساتھ خاص ہو، اِس کا دارومدار صرف فضل الٰہی پر ہے ۔طالوت کو تم پر اللہ  تعالیٰ نے بادشاہ مقرر کیا ہے ۔ نیز وہ علم و قوت میں تم سے بڑھ کر ہےاورچونکہ علم اور قوت سلطنت کے لیے بڑے معاون ہوتے ہیں اور طالوت اس زمانہ میں تمام بنی اسرائیل سے زیادہ علم رکھتا تھا اور سب سے جسیم اور توانا تھا اس لئے وہی بادشاہت کا مستحق ہے اور اللہ  تعالیٰ جسے چاہے اپنا ملک دے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:  ۲۴۷، ۱ / ۱۸۷)

طالوت کو بادشاہ بنانے کے واقعے سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس واقعہ سے بہت سی چیزیں معلوم ہوتی ہیں۔

(1)…حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنے اندازے، تخمینے قائم کرنا ناجائز ہے۔

(2)…علم مال سے افضل ہے۔

(3)…حکمران ہونے کا معیار مال و دولت نہیں بلکہ علم و قوت اور قابلیت و صلاحیت ہے۔

(4)…بغیر استحقاق کے نسل در نسل بادشاہت غلط ہے، ہر آدمی کو اس کی صلاحیت پر پرکھا جائے۔یہاں جسے بادشاہ مقرر کیا گیا اسے قد کے طول یعنی لمبائی کی وجہ سے طالوت کا نام دیا گیا۔ یہ بنیامین بن حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے تھے۔

2:248
وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اٰیَةَ مُلْكِهٖۤ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَكِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ بَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَ اٰلُ هٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۠(۲۴۸)
اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت (ف۵۰۴) جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں معزز موسی ٰ او ر معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے، بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو،

{اِنَّ اٰیَةَ مُلْكِهٖ: بیشک اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے۔}  بنی اسرائیل نے چونکہ طالوت کی بادشاہت پر کوئی نشانی مانگی تھی اس پر حکمِ الٰہی سے حضرت شمویل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا کہ طالوت کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس تمہارا وہ مشہورو معروف بابرکت تابوت آجائے گاجس سے تمہیں تسکین ملتی تھی اور جس میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام او رحضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تبرکات تھے ۔ یہ تابوت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل فرمایا تھا، اس میں تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تصویریں تھیں ،ان کے مکانات کی تصویریں تھیں اور آخر میں حضور سیدالانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اور حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے مقدس گھر کی تصویر ایک سرخ یاقوت میں تھی جس میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنماز کی حالت میں قیام میں ہیں اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  کے ارد گرد آپ کے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم موجود ہیں۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان تمام تصویروں کو دیکھا ،یہ صندوق نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک پہنچا، آپ اس میں توریت بھی رکھتے تھے اور اپنا مخصوص سامان بھی ،چنانچہ اس تابوت میں توریت کی تختیوں کے ٹکڑے بھی تھے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عصا اور آپ کے کپڑے اور آپ کی نعلین شریفین اور حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عمامہ اور ان کی عصا اور تھوڑا سا مَن جو بنی اسرائیل پر نازل ہوتا تھا ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جنگ کے مواقع پر اس صندوق کو آگے رکھتے تھے، اس سے بنی اسرائیل کے دلوں کو تسکین رہتی تھی۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد یہ تابوت بنی اسرائیل میں چلتاآیا ، جب انہیں کوئی مشکل درپیش ہوتی وہ اس تابوت کو سامنے رکھ کردعا ئیں کرتے اور کامیاب ہوتے ،دشمنوں کے مقابلہ میں اس کی برکت سے فتح پاتے ۔ جب بنی اسرائیل کی حالت خراب ہوئی اور ان کی بدعملی بہت بڑھ گئی اور اللہ  تعالیٰ نے ان پر عمالقہ کو مسلط کیا تو وہ ان سے تابوت چھین کر لے گئے اور اس کو نجس اور گندے مقامات میں رکھا اور اس کی بے حرمتی کی اور ان گستاخیوں کی وجہ سے عمالقہ کے لوگ طرح طرح کے امراض و مصائب میں مبتلا ہوگئے ،ان کی پانچ بستیاں ہلاک ہوگئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ تابوت کی توہین و بے ادبی ہی ان کی بربادی کا باعث ہے چنانچہ انہوں نے تابوت ایک بیل گاڑی پر رکھ کر بیلوں کو چھوڑ دیا اور فرشتے اسے بنی اسرائیل کے سامنے طالوت کے پاس لائے اور چونکہ اس تابوت کا آنا بنی اسرائیل کے لیے طالوت کی بادشاہی کی نشانی قرار دیا گیا تھا لہٰذا بنی اسرائیل نے یہ دیکھ کرطالوت کی بادشاہی کو تسلیم کرلیا اور بلا تاخیر جہاد کے لیے آمادہ ہوگئے کیونکہ تابوت کے آنے سے انہیں اپنی فتح کا یقین ہوگیا۔ طالوت نے بنی اسرائیل میں سے ستر ہزارجوان منتخب کیے جن میں حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی تھے۔(جلالین، البقرۃ، تحت الآیۃ:  ۲۴۸، ص۳۸، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ:  ۲۴۸، ۱ / ۳۰۴، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:  ۲۴۸، ۱ / ۱۸۷-۱۸۹،  مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:  ۲۴۸، ص۱۲۹، ملتقطاً)

طالوت کے پاس تابوت سکینہ آنے والے واقعہ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس واقعے سے کئی مسائل معلوم ہوئے:۔

(1)… بزرگوں کے تبرکات کا اعزاز و احترام لازم ہے، ان کی برکت سے دعائیں قبول ہوتی ہیں اور حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔

(2)…تبرکات کی تعظیم گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے چلتی آرہی ہے۔سورہ ٔیوسف میں بھی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کُرتے کی برکت سے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آنکھوں کی روشنی درست ہونے کا واقعہ مذکور ہے۔

(3)… تبرکات کی بے ادبی و گستاخی گمراہ لوگوں کا طریقہ ہے اور بربادی کا سبب ہے۔

(4)جب تبرکات کی گستاخی گمراہی اور تباہی ہے تو جن ہستیوں کے تبرکات ہوں ان کی بے ادبی اور گستاخی کس قدر سنگین اور خطرناک ہوگی۔

(5)… اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے نسبت رکھنے والی ہر چیز بابرکت ہوتی ہے جیسے تابوت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے نعلین شریفین یعنی پاؤں میں پہننے کے جوڑے بھی برکت کا ذریعہ تھے۔ یاد رہے کہ مذکورہ بالا تابوت میں انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی جو تصویریں تھیں وہ کسی آدمی کی بنائی ہوئی نہ تھیں بلکہ اللہ  تعالیٰ کی طرف سے آئی تھیں۔

2:249
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِۙ-قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِیْكُمْ بِنَهَرٍۚ-فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۤ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِیَدِهٖۚ-فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْؕ-فَلَمَّا جَاوَزَهٗ هُوَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗۙ-قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖؕ-قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوا اللّٰهِۙ- كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۲۴۹)
پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر شہر سے جدا ہوا بولا بیشک اللہ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے تو جو اس کا پانی پئے وہ میرا نہیں اور جو نہ پیئے وہ میرا ہے مگر وہ جو ایک چلُو اپنے ہاتھ سے لے لے (ف۵۰۶) تو سب نے اس سے پیا مگر تھوڑوں نے (ف۵۰۷) پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ کے مسلمان نہر کے پار گئے بولے ہم میں آج طاقت نہیں جالوت اور اس کے لشکروں کی بولے وہ جنہیں اللہ سے ملنے کا یقین تھا کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے زیادہ گروہ پر اللہ کے حکم سے، اور اللہ صابروں کے ساتھ ہے (ف۵۰۸)

{فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ: پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر شہر سے جدا ہوا۔} اب جس جہاد کا تذکرہ چلتا آرہا ہے اس کے واقعات کا بیان ہے ۔ طالوت اپنے لشکر کو لے کر بیت المقدس سے روانہ ہوا چونکہ بنی اسرائیل کا یہ سفرِ جہاد سخت گرمی میں تھا،لہٰذا جب گرمی کی وجہ سے ان مجاہدین کو سخت پیاس لگی تو طالوت نے انہیں خبر دی کہ عنقریب ایک نہر آئے گی مگر یہ تمہارے امتحان کا وقت ہے اس میں سے پانی نہ پینا، طالوت یہ سب کچھ حضرت شمویل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وحی کی بنا پر کہہ رہے تھے۔ چنانچہ کہا کہ اس نہر سے پیٹ بھر کر پانی نہ پینا کیونکہ جو اِس نہر سے زیادہ پانی پئے گا وہ میری جماعت میں نہیں رہے گا کیونکہ یہ ان کیلئے امتحان مقرر فرمایا گیا تھا کہ شدید پیاس کے وقت جو حکم کی تعمیل پر ثابت قدم رہے گا وہ آئندہ بھی ثابت قدم رہے گا اور سختیوں کا مقابلہ کرسکے گا اور جو اس وقت اپنی خواہش سے مغلوب ہو کر نافرمانی کرے گا وہ آئندہ کی سختیوں کو کیسے برداشت کرے گا۔ صرف چلو بھر چند گھونٹ پی لینے کی اجازت تھی، سیر ہوکر پینا منع تھا ۔ پھر جب وہ نہر آگئی تو لوگوں کی اکثریت امتحان میں ناکام ہوگئی اور انہوں نے جی بھر کرپانی پیا ، صرف تین سو تیرہ افراد ثابت قدم رہے ، انہوں نے صبر کیا اور انہوں نے ایک چلوپر گزارا کرلیا، اس سے ان کے دل اورایمان کو قوت حاصل ہوئی اور وہ سلامتی سے نہر سے گزر گئے جبکہ جنہوں نے خوب پیا تھا ان کے ہونٹ سیاہ ہوگئے ، ان کی پیاس اور بڑ ھ گئی اور وہ بزدل ہو گئے اور جب انہوں نے جالوت کے لشکر کی کثرت و طاقت کو دیکھا تو کہنے لگے کہ آج تو ہم ان جالوت اور ا س کے لشکر کے ساتھ نہیں لڑسکتے لیکن اِن لوگوں کے برعکس لقائے ربانی اور رضائے الٰہی کے مشتاق بندوں نے عرض کی کہ ایسا تو کتنی مرتبہ ہوا کہ چھوٹا گروہ اپنے سے بڑے گروہ پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے غالب آجاتا ہے، اللہ تعالیٰ تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ چنانچہ پھر جب لشکر آمنے سامنے آئے تو لشکر ِ مومنین کے ثابت قدم مجاہدوں نے بارگاہِ الٰہی میں دعاکی کہ اے اللہ! ہمیں دشمن کے مقابلے میں میدانِ جنگ میں صبر کی توفیق دے اور ہمیں ثابت قدمی نصیب فرما اور کافروں کے مقابلے میں ہمیں اپنی حمایت و نصرت عطا فرما۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:  ۲۴۹، ۱ / ۱۸۹-۱۹۰)

2:250
وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَؕ(۲۵۰)
پھر جب سامنے آئے جالوت اور اس کے لشکروں کے عرض کی اے رب ہمارے ہم پر صبر انڈیل اور ہمارے پاؤں جمے رکھ کافر لوگوں پرہماری مدد کر،

اس آیت کی تفسیر گزشتہ آیت کی تفسیر کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے۔
2:251
فَهَزَمُوْهُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ ﳜ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَهٗ مِمَّا یَشَآءُؕ-وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍۙ-لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(۲۵۱)
تو انہوں نے ان کو بھگا دیا اللہ کے حکم سے، اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو (ف۵۰۹) اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت (ف۵۱۰) عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا (ف۵۱۱) اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے (ف۵۱۲) تو ضرور زمین تباہ ہوجائے مگر اللہ سارے جہان پر فضل کرنے والا ہے،

{فَهَزَمُوْهُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ: تو انہوں نے اللہ کے حکم سے دشمنوں کو بھگا دیا۔} جب دونوں لشکر میدانِ جنگ میں آمنے سامنے ہوئے تو جالوت نے بنی اسرائیل سے مقابلہ کرنے والا طلب کیا۔ وہ اس کی قوت وجسامت دیکھ کر گھبرا گئے کیونکہ وہ بڑا جابر، قوی، شہ زور، عظیم الجُثہ اورقد آور تھا۔ طالوت نے اپنے لشکر میں اعلان کیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کرے میں اپنی بیٹی اس کے نکاح میں دیدوں گا اور آدھا ملک اسے دیدوں گا مگر کسی نے اس کا جواب نہ دیا۔ طالوت نے حضرت شمویل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے عرض کیا کہ بارگاہِ الٰہی میں دعا کریں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کی تو بتایا گیا کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جالوت کو قتل کریں گے ۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد ’’ایشا‘‘ طالوت کے لشکر میں تھے اور ان کے ساتھ ان کے تمام فرزند بھی تھے، حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان میں سب سے چھوٹے تھے اور بیمار تھے، رنگ زرد تھا اور بکریاں چرایا کرتے تھے۔ جب طالوت نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کیا کہ اگر آپ جالوت کو قتل کریں تو میں اپنی لڑکی آپ کے نکاح میں دیدوں گا اور آدھا ملک آپ کوپیش کردوں گا تو آپ نے اس پیشکش کو قبول فرما لیا اور جالوت کی طرف روانہ ہوگئے۔ لڑائی کی صفیں بندھ گئیں اور حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے دست مبارک میں گوپھن یعنی پتھر پھینکنے والی رسی لے کر جالوت کے سامنے آگئے۔ جالوت کے دل میں آپ کو دیکھ کر دہشت پیدا ہوئی مگر اس نے باتیں بہت متکبرانہ کیں اور آپ کو اپنی قوت سے مرعوب کرنا چاہا، آپ نے اپنی اُس رسی میں پتھر رکھ کر مارا وہ اس کی پیشانی توڑ کر پیچھے سے نکل گیا اور جالوت مر کر گر گیا۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے لاکر طالوت کے سامنے ڈال دیا ،تمام بنی اسرائیل بڑے خوش ہوئے اور طالوت نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حسب ِوعدہ نصف ملک دیا اور اپنی بیٹی کا آپ کے ساتھ نکاح کردیا۔ ایک مدت کے بعد طالوت نے وفات پائی اور تمام ملک پر حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سلطنت ہوئی۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۱، ۱ / ۳۰۸-۳۰۹)

            اللہتعالیٰ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حکومت اور حکمت یعنی نبوت دونوں عطا فرمادئیے اور آپ کو جو چاہا سکھایا ، اس میں زرہ بنانا اور جانوروں کا کلام سمجھنا دونوں شامل ہیں جیسا کہ سورۂ انبیاء آیت79، 80میں ہے۔

طالوت ، جالوت اور حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعہ سے حاصل ہونے والادرس:

          طالوت و جالوت اور حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پورے واقعہ میں بہت سے درس ہیں :۔

 (1)…ثابت قدمی کم لوگوں ہی کو نصیب ہوتی ہے کیونکہ یہ بہت عظیم خوبی ہے۔

(2)… جہاد سے پہلے آزمائش کرلینا بہتر ہوتا ہے۔ عین وقت پر کوئی بزدلی دکھائے تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔ حالت ِ امن میں فوج کی تربیت اور محنت و مشقت اسی مقصد کیلئے ہوتی ہے۔

(3)…یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی بڑے امتحان سے پہلے چھوٹے امتحان میں سے گزر لینا چاہیے اس سے دل میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ گرمیوں میں روزے رکھنا تکلیف دہ ہے تو ہلکے گرم موسم میں روزے رکھتے رہنا چاہیے تاکہ مشق ہوجائے۔ بڑی چیزوں پر صبر کرنا مشکل ہے تو چھوٹی چھوٹی چیزوں پر صبر کا خود کو عادی بنائیں ، سخاوت کرنے سے دل رُکتا ہو تو روزانہ تھوڑا تھوڑا مال صدقہ کرتے رہیں۔ الغرض یہ قرآن کا ایک اصول ہے جو علمِ نفسیات میں بھر پور طریقے سے استعمال ہوتا ہے، اس کے ذریعے اپنے سینکڑوں معمولات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

(4)… مومن کو اسباب مہیا کرنے چاہئیں لیکن بھروسہ اپنے رب تعالیٰ پرہی ہونا چاہیے۔

{لَفَسَدَتِ الْاَرْضُ: تو ضرور زمین تباہ ہوجائے ۔}یہاں جہاد کی حکمت کا بیان ہے کہ جہاد میں ہزار وں مصلحتیں ہیں ،  اگر گھاس نہ کاٹی جائے تو کھیت برباد ہو جائے، اگر آپریشن کے ذریعے فاسد مواد نہ نکالا جائے تو بدن بگڑ جائے، اگر چور ڈاکو نہ پکڑے جائیں تو امن بر باد ہو جائے ۔ ایسے ہی جہاد کے ذریعے مغروروں ، باغیوں اور سرکشوں کو دبایا نہ جائے تو اچھے لوگ جی نہ سکیں۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکمتیں جاری و ساری ہیں ، ان کو سمجھنا ہر ایک کے بس میں نہیں۔

2:252
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّؕ-وَ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۲۵۲)
یہ اللہ کی آیتیں ہیں کہ ہم اے محبوب تم پر ٹھیک ٹھیک پڑھتے ہیں، اور تم بےشک رسولوں میں ہو۔

{تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ: یہ اللہ  کی آیتیں ہیں۔} گم شدہ تاریخی حالات اور علوم غَیْبِیَہ کا عطا ہونا حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کی دلیل ہے کہ نہ تو آپ نے علم تاریخ حاصل کیا اورنہ مؤرخین کی صحبت میں بیٹھے پھر بھی ایسے درست حالات بیان فرمائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سچے رسول اور صاحب وحی ہیں۔

2:253
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ لٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ كَفَرَؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا۫-وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ۠(۲۵۳)
یہ (ف۵۱۳) رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا (ف۵۱۴) ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا (ف۵۱۵) اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا (ف۵۱۶) اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلی نشانیاں دیں (ف۵۱۷) اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی (ف۵۱۸) اور اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے آپس میں نہ لڑتے نہ اس کے کہ ان کے پاس کھلی نشانیاں آچکیں (ف۵۱۹) لیکن وہ مختلف ہوگئے ان میں کوئی ایمان پر رہا اور کوئی کافر ہوگیا (ف۵۲۰) اور اللہ چاہتا تو وہ نہ لڑتے مگر اللہ جو چاہے کرے(ف۵۲۱)

{تِلْكَ الرُّسُلُ: یہ رسول ہیں۔} اس آیت میں انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی عظمت و شان کا بیان ہے اور یاد رہے کہ نبی ہونے میں تو تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامبرابر ہیں اور قرآن میں جہاں یہ آتا ہے کہ ہم ان میں کوئی فرق نہیں کرتے اس سے یہی مراد ہوتا ہے کہ اصلِ نبوت میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں البتہ ان کے مَراتِب جداگانہ ہیں ، خصائص و کمالات میں فرق ہے، ان کے درجات مختلف ہیں ، بعض بعض سے اعلیٰ ہیں اور ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسب سے اعلیٰ ہیں ، یہی اس آیت کا مضمون ہے اور اسی پر تمام امت کا اجماع ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۳، ۱ / ۱۹۳، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۳، ص۱۳۰، ملتقطاً)

یہاں آیت میں بعض کو بعض سے افضل فرمایا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ یوں نہیں  کہنا چاہیے کہ بعض بعض سے ادنیٰ ہیں کہ یہ ادب کے مطابق نہیں۔

انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے فضائل بیان کرنے میں احتیاط:

جب انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے باہمی فضائل بیان کئے جائیں تو صرف وہ فضائل بیان کریں جو قرآن مجید، احادیثِ مبارکہ یا اولیاء و محَقّق علماء سے ثابت ہوں ، اپنی طرف سے گھڑ کر کوئی فضیلت بیان نہ کی جائے اور ان فضائل کو بھی اس طرح بیان نہ کیا جائے جس سے معاذاللہ کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی تحقیر کا پہلو نکلتا ہو۔

تین انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خصوصی فضائل:

اس آیت میں جملہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سے بطور ِ خاص تین انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمایا گیا۔ ایک حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کوہِ طور پر بلا واسطہ کلام فرمایا جبکہ یہی شرف سیدُ الانبیاء  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو معراج میں حاصل ہوا۔ دوسرے نبی جن کااس آیت میں تذکرہ ہے وہ حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں جنہیں روشن نشانیاں عطا ہوئیں ، جیسے مردے کو زندہ کرنا، بیماروں کو تندرست کرنا، مٹی سے پرندہ بنانا، غیب کی خبریں دینا وغیرہ، نیز روحُ القُدُس یعنی حضرتِ جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تائید کی گئی جو ہمیشہ آ پ کے ساتھ رہتے تھے۔ تیسری وہ ہستی ہے جن کے بارے میں فرمایا کہ کسی کو ہم نے درجوں بلندی عطا فرمائی اور وہ ہمارے آقا و مولا، ملجاء و ماوٰی، حضور پر نور، سیدُ الانبیاء ،محمد مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں کہ آپ کو کثیر درجات کے ساتھ تمام انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپرفضیلت عطا فرمائی، اس عقیدے پر تمام امت کا اجماع ہے اور یہ عقیدہ بکثرت احادیث سے ثابت ہے۔ اس آیت میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اِس رفعت ِمرتبہ کا بیان فرمایا گیا اور نامِ مبارک کی تصریح نہ کی گئی اس سے بھی حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بلندیِ شان کا اظہار مقصود ہے کہ ذاتِ والا کی یہ شان ہے کہ جب تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فضیلت کا بیان کیا جائے تو سوائے ذاتِ اقدس کے یہ وصف کسی پر صادق ہی نہ آئے اور کسی اور طرف گمان ہی نہ جائے، حضور پُرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وہ خصائص وکمالات جن میں آپ تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فائق و افضل ہیں اور ان میں آپ کا کوئی شریک نہیں ، بے شمار ہیں کیونکہ قرآنِ کریم میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ درجوں بلند کیا اور ان درجوں کا کوئی شمار قرآنِ کریم میں ذکر نہیں فرمایا گیا تو اب ان درجوں کی کون حد لگاسکتا ہے ؟ان بے شمار خصائص میں سے بعض کا اجمالی اور مختصر بیان یہ ہے کہ آپ کی رسالت عامہ ہے یعنی تمام کائنات آپ کی امت ہے، جیسا کہ اللہ  تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا‘‘(سبا: ۲۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور اے محبوب! ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

 دوسری آیت میں ارشادفرمایا:

لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا (فرقان: ۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سنانے والا ہو۔

مسلم شریف کی حدیث میں ارشاد ہوا ’’اُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَآفَّۃً ‘‘میں (اللہ تعالیٰ کی) تمام مخلوق کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا گیا ہوں۔ (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۶، الحدیث: ۵(۵۲۳))نیز آپ پر نبوت ختم کی گئی، قرآنِ پاک میں آپ کو خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ فرمایا گیا۔ (احزاب:۴۰)

حدیث شریف میں ارشاد ہوا ’’خُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ‘‘ مجھ پر نبوت ختم کر دی گئی۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۶، الحدیث: ۵(۵۲۳))

نیز آپ کو تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ معجزات عطا فرمائے گئے، آپ کی امت کو تمام امتوں پر افضل کیا گیا، حوضِ کوثر، مقامِ محمود، شفاعتِ کُبریٰ آپ کوعطا ہوئی، شبِ معراج خاص قرب ِ الٰہی آپ کو ملا، علمی و عملی کمالات میں آپ کو سب سے اعلیٰ کیا اور اس کے علاوہ بے انتہا خصائص آپ کو عطا ہوئے۔ (مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۳، ص۱۳۰-۱۳۱، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۳، ۱ / ۳۱۰ ، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۳، ۱ / ۱۹۳-۱۹۴، بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۳، ۱ / ۵۴۹-۵۵۰، ملتقطاً)

            اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی افضلیت اپنی کتاب ’’تَجَلِّیُ الْیَقِین بِاَنَّ نَبِیَّنَا سَیِّدُ الْمُرْسَلِین( یقین کا اظہار اس بات کے ساتھ کہ ہمارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتمام رسولوں کے سردار ہیں )‘‘ میں دس آیتوں اور ایک سو حدیثوں سے ثابت کی ہے۔

یہ فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود ہے، اس کا مطالعہ فرمائیں آپ کا ایمان تازہ ہو جائے گا۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :

خَلق سے اولیاء اولیاء سے رُسُل

اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی

ملک کَونَین میں انبیاء تاجدار

تاجداروں کا آقا ہمارا نبی

{وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ: اور اگر اللہ چاہتا۔ }انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات کے بعد بھی ان کی امتیں ایمان و کفر میں مختلف رہیں، یہ نہ ہوا کہ تمام امت مطیع و فرمانبردار ہوجاتی، یہ اللہ  تعالیٰ کا نظامِ حکمت ہے۔ اگر وہ چاہتا تو کوئی بھی آپس میں نہ لڑتا لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے ملک میں اس کی مَشِیَّت کے خلاف کوئی کچھ نہیں کرسکتا اور یہی خدا کی شان ہے۔ ہمیں صرف یہ حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر سرِ تسلیم خم کریں اور جو اس نے فرمایا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔

2:254
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌؕ-وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۵۴)
اے ایمان والو! اللہ کی راہ میں ہمارے دیئے میں سے خرچ کرو وہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ خرید و فروخت ہے اور نہ کافروں کے لئے دوستی اور نہ شفاعت، اور کافر خود ہی ظالم ہیں (ف۵۲۲)

{اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ: ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرلو۔}فکر ِ آخرت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ قیامت کے آنے سے پہلے پہلے راہِ خدا میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال خر چ کرلو۔ قیامت کا دن بڑی ہیبت والا ہے، اس دن مال کسی کو بھی فائدہ نہ دے گا اور دنیوی دوستیاں بھی بیکار ہوں گی بلکہ باپ بیٹے بھی ایک دوسرے سے جان چھڑا رہے ہوں گے اور کافروں کو کسی کی سفارش کام نہ دے گی اور نہ دنیوی انداز میں کوئی کسی کی سفارش کرسکے گا۔ صرف اِذنِ الٰہی سے اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے شفاعت کریں گے جیسا کہ اگلی آیت یعنی آیتُ الکرسی میں آرہا ہے اور مال کا فائدہ بھی آخرت میں اسی صورت میں ہے جب دنیا میں اسے نیک کاموں میں خرچ کیا ہو اور دوستیوں میں سے بھی نیک لوگوں کی دوستیاں کام آئیں گی جیسا کہ سورۂ زُخْرُف میں ہے:

اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ(زخرف:۶۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پرہیزگاروں کے علاوہ اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔

{وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ: اور کافر ہی ظالم ہیں۔}ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو غلط جگہ استعمال کرنا۔ کافروں کا ایمان کی جگہ کفر اور طاعت کی جگہ معصیت اور شکر کی جگہ ناشکری کواختیار کرنا ان کا ظلم ہے اور چونکہ یہاں ظلم کا سب سے بدتر درجہ مراد ہے اسی لئے فرمایا کہ کافر ہی ظالم ہیں۔

2:255
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ﳛ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ-یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْۚ-وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَۚ-وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ-وَ لَا یَـُٔوْدُهٗ حِفْظُهُمَاۚ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ(۲۵۵)
اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں (ف۵۲۳) وہ آپ زندہ اور اوروں کا قائم رکھنے والا (ف۵۲۴) اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند (ف۵۲۵) اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں (ف۵۲۶) وہ کون ہے جو اس کے یہاں سفارش کرے بغیر اس کے حکم کے (ف۵۲۷) جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے (ف۵۲۹) اور وہ نہیں پاتے اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے (ف۵۲۹) اس کی کرسی میں سمائے ہوئے آسمان اور زمین (ف۵۳۰) اور اسے بھاری نہیں ان کی نگہبانی اور وہی ہے بلند بڑائی والا (ف۵۳۱)

{اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ: اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔} اس آیت میں اللہ  تعالیٰ کی اُلُوہِیَّت اور اس کی توحید کا بیان ہے اور اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ واجبُ الوجود اور عالَم کو ایجاد کرنے اور تدبیر فرمانے والا ہے، اسے نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھ کیونکہ یہ چیزیں عیب ہیں اور اللہ  تعالیٰ نَقص و عیب سے پاک ہے۔ آسمانوں اور زمین میں موجود ہرچیز کا وہی مالک ہے اور ساری کائنات میں اسی کا حکم چلتا ہے تو جب سارا جہان اس کی ملک ہے تو کون اس کا شریک ہوسکتا ہے، مشرکین یا تو ستاروں اور سورج کو پوجتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں یا دریاؤں ، پہاڑوں ، پتھروں ، درختوں ، جانوروں ، آگ وغیرہ کی پوجا کرتے ہیں جو زمین میں ہیں توجب آسمان و زمین کی ہر چیزاللہ تعالیٰ کی مِلک ہے تو یہ چیزیں کیسے پوجنے کے قابل ہوسکتی ہیں اور مشرکین جو یہ گمان کرتے ہیں کہ بُت شفاعت کریں گے تو وہ جان لیں کہ کفار کے لیے کوئی شفاعت نہیں۔ اللہتعالیٰ کے حضور اجازت یافتگان حضرات کے سوا کوئی شفاعت نہیں کرسکتا اور اجازت والے حضرات انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ملائکہعَلَیْہِمُ السَّلَام ، اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم  اور مؤمنین ہیں۔ اللہ  تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے خواہ اس کا تعلق لوگوں سے ماقبل کا ہو یا مابعد کا ،امورِ دنیا کا ہو یا امورِ آخرت کا۔ اللہ تعالیٰ کے علم سے کسی کو کچھ نہیں مل سکتا جب تک وہ نہ چاہے اور وہ عطا نہ فرمائے ۔ ذاتی علم اسی کا ہے اور اس کے دینے سے کسی کو عطائی علم ہوسکتا ہے جیسے وہ اپنی مَشِیَّت سے لوگوں کو اَسرار ِ کائنات پر اور انبیاء و رُسُلعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو غیب پر مطلع فرماتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت بے نہایت ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۵،۱ / ۱۹۶)

          تنبیہ: اس آیت میں اِلہِیّات کے اعلیٰ مسائل کا بیان ہے، جتنا اس میں غور کرتے جائیں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے بارے میں عقائد اتنا ہی واضح ہوتے جائیں گے۔

آیتُ الکرسی کے فضائل:

            اس آیت کو آیتُ الکرسی کہتے ہیں ، احادیث میں اس کی بہت فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ،ان میں سے 4 فضائل درج ذیل ہیں :

 (1)…آیتُ الکرسی قرآنِ مجید کی سب سے عظیم آیت ہے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل سورۃ الکہف وآیۃ الکرسی، ص۴۰۵، الحدیث: ۲۵۸(۸۱۰))

(2)…جوسوتے وقت آیتُ الکرسی پڑھے تو صبح تک اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے گا اور شیطان ا س کے قریب نہ آسکے گا۔(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل سورۃ البقرۃ، ۳ / ۴۰۵، الحدیث: ۵۰۱۰)

(3،4)…نمازوں کے بعد آیتُ الکرسی پڑھنے پر جنت کی بشارت ہے۔ رات کو سوتے وقت پڑھنے پر اپنے اور پڑوسیوں کے گھروں کی حفاظت کی بشارت ہے۔(شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان، فصل فی فضائل السور والآیات، ۲ / ۴۵۸، الحدیث: ۲۳۹۵)

2:256
لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ ﳜ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّۚ-فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰىۗ-لَا انْفِصَامَ لَهَاؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۲۵۶)
کچھ زبردستی نہیں (ف۵۳۲) دین میں بیشک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے تو جو شیطان کو نہ مانے اور اللہ پر ایمان لائے (ف۵۳۳) اس نے بڑی محکم گرہ تھامی جسے کبھی کھلنا نہیں، اور اللہ سنتا جانتا ہے،

{لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ: دین میں کوئی زبردستی نہیں۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شیطان کا انکار کرے اور اللہ   تعالیٰ پر ایمان لائے تو اس نے بڑا مضبوط سہارا تھام لیا اور یہ ٹوٹنے والا نہیں اِلَّایہ کہ بندہ خود ہی اسے چھوڑ دے ۔

آیت ’’ لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ‘‘سے معلوم ہونے والے احکام:

(1)… صفاتِ اِلہِیَّہ کے بعد ’’لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ‘‘فرمانے میں یہ اشارہ ہے کہ اب عقلمند آدمی کے لیے قبولِ حق میں تاخیر کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ کسی کافر کو جبراً مسلمان بنانا جائز نہیں مگر مسلمان کو جبراً مسلمان رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ دینِ اسلام کی توہین اور دوسروں کیلئے بغاوت کا راستہ ہے جسے بند کرنا ضروری ہے، لہٰذا کسی مسلمان کو مُرتَد ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی یا تو وہ اسلام لائے یا اسے قتل کیا جائے گا۔ اللہ  تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے مرتدین سے فرمایا تھا :

فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ (بقرہ: ۵۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اپنے آپ کو قتل کے لئے پیش کر دو۔

(2)…اس آیت میں’’کفر ‘‘کا لفظ لغوی معنی میں ہے یعنی انکار کرنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کے لئے ضروری ہے  کافرپہلے اپنے کفر سے توبہ کرے اور بیزار ہو، اس کے بعد ایمان لانا صحیح ہوتا ہے۔ اگر کوئی مرتد ہوجائے تو وہ بھی صرف کلمہ پڑھ لینے یا مسلمانوں والا کوئی دوسرا کام کرلینے سے مسلمان نہ ہوگا جب تک اپنے اس اِرتِداد سے توبہ نہ کرے۔

(3)…اس آیت میں طاغوت سے بچنے کا جو فرمایا گیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اسلام پر مضبوطی سے وہ ہی قائم رہ سکتا ہے جو بے دینوں کی صحبت، ان کی الفت ،ان کی کتابیں دیکھنے ،ان کے وعظ سننے سے دور ہے اور جو اپنے ایمان کی رسی پر خود ہی چھریاں چلائے گا اس کی رسی کا کٹنے سے بچنا مشکل ہے۔

2:257
اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۙ-یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۬ؕ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓـٴُـھُمُ الطَّاغُوْتُۙ- یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠(۲۵۷)
اللہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیریوں سے (ف۵۳۴) نور کی طرف نکلتا ہے، اور کافروں کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں نور سے اندھیریوں کی طرف نکالتے ہیں یہی لوگ دوزخ والے ہیں انہیں ہمیشہ اس میں رہنا،

{اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اللہ مسلمانوں کا والی ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کا دوست ہے کہ انہیں کفر و ضلالت کی تاریکیوں سے ایمان و ہدایت کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے، انہیں انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور صالحین کے طریقے کی طرف لاتا ہے جبکہ کافروں کا دوست شیطان ہے جو انہیں فطرت ِ صحیحہ کی روشنی سے کفر کی تاریکیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ حق کا راستہ ایک ہے اور باطل کے بہت سارے راستے ہیں ، اس لئے یہاں ’’نور‘‘ کو واحد اور ’’ ظلمات‘‘ کو جمع ذکر کیا گیا۔

نور کی طرف جانے کاسب سے بڑ اذریعہ:

            یاد رہے کہ مومنوں کے نور کی طرف جانے کا سب سے بڑا ذریعہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہیں چنانچہ سورۂ ابراہیم آیت نمبر 1میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل فرمائی ’’ لِتُخْرِ جَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ‘‘ تاکہ آپ لوگوں کو تاریکیوں سے نور کی طرف نکالیں۔

2:258
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَۘ-اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُۙ-قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُؕ-قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ(۲۵۸)
اے محبوب! کیا تم نے نہ دیکھا تھا اسے جو ابراہیم سے جھگڑا اس کے رب کے بارے میں اس پر (ف۵۳۵) کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی (ف۵۳۶) جبکہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو جِلاتا اور مارتا ہے (ف۵۳۷) بولا میں جِلاتا اور مارتا ہوں (ف۵۳۸) ابراہیم نے فرمایا تو اللہ سورج کو لاتا ہے پورب (مشرق) سے تو اس کو پچھم (مغرب) سے لے آ (ف۵۳۹) تو ہوش اڑ گئے کافروں کے، اور اللہ راہ نہیں دکھاتا ظالموں کو،

{حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖ: ابراہیم سے ا س کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔} گزشتہ آیت میں نور اور تاریکی والوں کا بیان ہوا تھا اب انہیں کی مثال بیان کی جارہی ہے۔ نور والوں کے پیشوا سیدنا ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے اور تاریکی والوں کا پیشوا نمرود تھا۔ نمرود کو اللہ  تعالیٰ نے عظیم سلطنت عطا فرمائی لیکن اس نے اس پر شکرو طاعت کی بجائے تکبر و غرور اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا حتّٰی کہ اپنی رَبُوبِیَّت یعنی رب ہونے کا دعویٰ کرنے لگا۔ سب سے پہلے سر پر تاج رکھنے والا یہی ہے۔

حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور نمرود:

جب حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آگ میں ڈالے جانے سے پہلے یا بعد اسے توحید کی دعوت دی تو وہ کہنے لگا کہ تمہارا رب کون ہے جس کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو؟ اس پر حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جواب دیا کہ میرا ربّ عَزَّوَجَلَّ وہ ہے جو زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے یعنی اجسام میں موت و حیات پیدا کرتا ہے۔ خدا کو نہ پہچاننے والے کے لیے یہ بہترین رہنمائی تھی اور اس میں بتایا گیا تھا کہ خود تیری زندگی اس کے وجود کی گواہ ہے کہ تو ایک بے جان نطفہ تھا جسے اس کریم نے انسانی صورت دی اور حیات عطا فرمائی نیز میرا خدا وہ ہے جو زندگی کے بعد پھر زندہ اجسام کو موت دیتا ہے۔ اس کی قدرت کی شہادت خود تیری اپنی موت و حیات میں موجود ہے لہٰذا اس خداوند ِ قدوس کے وجود سے بے خبر رہنا کمال درجے کی جہالت و حماقت اور انتہائی بدنصیبی ہے ۔یہ دلیل ایسی زبردست تھی کہ اس کا جواب نمرود سے بن نہ پڑا اور اس خیال سے کہ مجمع کے سامنے اس کو لاجواب اور شرمندہ ہونا پڑتا ہے اس نے خواہ مخواہ کی بحث شروع کردی چنانچہ نمرود نے دو شخصوں کو بلایا ان میں سے ایک کو قتل کردیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ میں بھی زندہ کرتا اور موت دیتا ہوں یعنی کسی کو گرفتار کرکے چھوڑ دینا اس کوزندہ کرنا ہے، یہ اس کی نہایت احمقانہ بات تھی، کہاں قتل کرنا اور چھوڑنا اور کہاں موت و حیات پیدا کرنا؟ قتل کئے ہوئے شخص کو زندہ کرنے سے عاجز رہنا اور بجائے اس کے زندہ کو چھوڑ دینے کو ’’زندہ کرنا‘‘ کہنا ہی اس کی ذلت کے لیے کافی تھا، عقل و شعور رکھنے والوں پر اسی سے ظاہر ہوگیا کہ جو دلیل و حجت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قائم فرمائی وہ ہر شک و شبہ کو کاٹ دینے والی ہے اور اس کا جواب ممکن نہیں لیکن چونکہ نمرود نے شرم مٹانے کیلئے کچھ نہ کچھ جواب دے ہی دیا تھا اگرچہ وہ سراسر باطل تھا لہٰذا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس پر مناظرانہ گرفت فرمائی کہ موت و حیات کا پیدا کرنا تو تیری قدرت میں نہیں، اے ربوبیت کے جھوٹے دعویدار! تو اس سے آسان کام ہی کرکے دکھا اوروہ یہ کہ ایک متحرک جسم کی حرکت کو بدل دے یعنی سورج جو مشرق سے طلوع ہوتا ہے اسے مغرب سے طلوع کردے۔ یہ سن کر نمرود ہَکَّا بَکَّا رہ گیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔

عقائد میں مناظرہ کرنے کا ثبوت:

اس آیت سے عقائد میں مناظرہ کرنے کا ثبوت ہوتا ہے اور یہ سنت ِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہے، اکثر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی قوم کے مُنکِرین سے مناظرہ فرمایا، بلکہ خود حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے بھی نجران کے عیسائیوں سے مناظرہ کیا، لہٰذا مناظرہ کرنا برا نہیں ہے بلکہ سنت ِ انبیاء ہے البتہ اس میں جو تکبرو سرکشی اور حق کو قبول نہ کرنے کا پہلو داخل ہوگیا ہے وہ برا ہے اور علماء کرام میں سے جنہوں نے اس کی مذمت بیان کی ہے وہ اسی صورت سے متعلق ہے چنانچہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی مشہور کتاب ’’احیاء ُالعلوم‘‘ میں مناظرے کے بارے میں اسی طرح کی چند اہم باتیں سمجھاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :’’جو مناظرہ غلبہ حاصل کرنے، دوسروں کو لاجواب کر دینے، اپنے فضل و شرف کو ظاہر کرنے ،لوگوں کے سامنے منہ کھول کھول کر باتیں کرنے، فخر و تکبر نیز دوسروں کو ذلیل و رسوا کرنے کی غرض سے ہو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام بری عادات کا منبع ہے اور اللہ  تعالیٰ کے دشمن شیطان کے نزدیک قابل تعریف ہے۔ باطنی برائیوں مثلاً تکبر، خود پسندی، حسد، بغض، پاکباز بننے اور حُبِّ جاہ وغیرہ کے ساتھ مناظرے کو وہی نسبت ہے جوشراب کو ظاہری برائیوں مثلاً زنا، الزام تراشی، قتل اور چوری وغیرہ کے ساتھ ہے اور جس طرح وہ شخص جسے شراب نوشی اور بے حیائی کے باقی کاموں کا اختیار دیا جائے تو وہ شراب نوشی کو معمولی سمجھ کر اختیار کرتا ہے ، پھر وہ نشے کی حالت میں باقی بے حیائیوں کا بھی مُرتکِب ہو جاتا ہے اسی طرح جس آدمی پر دوسروں کو نیچا دکھانے اور مناظرہ میں غالب آنے کی خواہش غالب ہو اور وہ جاہ و مرتبہ کا طالب ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دل میں تمام خَباثَتیں پوشیدہ ہیں اور یہ تمام مَذموم اخلاق اس میں ہیجان پیدا کرتے ہیں۔(احیاء علوم الدین، کتاب العلم، بیان آفات المناظرۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۹)

ہر شخص مناظرہ نہ کرے:

یاد رہے کہ عقائد و نظریات، معمولات اہلسنّت اور دیگر دینی مسائل میں کسی سے مناظرہ کرنا کوئی اتناآسان کام نہیں کہ جو چاہے، جب چاہے اور جہاں چاہے کرنا شروع کر دے بلکہ اس کے لئے بہت زیادہ علم،مضبوط حافظہ، مہارت، تربیت،حاضر جوابی اور دیگر کئی چیزوں کا ہونا ضروری ہے جن کے بغیر مناظرہ کرنا انتہائی سخت جرأت اور اپنی گمراہی اور اخروی بربادی سے بے خوفی کی علامت ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ جس سے مناظرہ کر رہا ہے اس کی کوئی بات دل میں جم جائے اور یہ گمراہ ہو جائے ۔لہٰذا علم ِ مناظرہ کے ماہر علماء کے علاوہ کسی کو بھی مناظرہ کی اجازت نہیں۔ آج کل جو عام لوگ ایک آدھ کتاب پڑھ کر یا دو چار تقریریں یا مناظرے سن کر ہر راہ چلتے سے مناظرہ شروع کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں یہ طرزِ عمل شرعاً ناجائز اور انتہائی خطرناک ہے۔ اس سے بچنا ضروری ہے۔ عوام کو کسی بھی صورت مناظرے اور بحث و مباحثے کی اجازت نہیں۔ ان پر لازم ہے کہ اپنے عقائدکو صحیح رکھیں اور بحث کی جگہ پر معاملہ علماء کے حوالے کردیں۔ پھر علماء کو بھی ہدایت یہ ہے کہ کسی اہم مقصد و فائدہ کے بغیر بلا ضرورت مناظرے کے میدان میں جانے سے گریز کریں جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو تمام فنون کا ماہر ہو، تمام پیچ جانتا ہو، پوری طاقت رکھتا ہو، تمام ہتھیار پاس ہوں اس کو بھی کیا ضرور کہ خواہ مخواہ بھیڑیوں کے جنگل میں جائے ،ہاں اگر(اس ماہر عالم کو) ضرورت ہی آپڑے تو مجبوری ہے۔ اللہ(عَزَّوَجَلَّ)پر توکُّل کرکے ان ہتھیاروں سے کام لے۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت،ص۴۳۴)

2:259
اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰى قَرْیَةٍ وَّ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَاۚ-قَالَ اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَاۚ-فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗؕ-قَالَ كَمْ لَبِثْتَؕ-قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍؕ-قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْۚ-وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًاؕ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۙ-قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۲۵۹)
یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پر (ف۵۴۰) اور وہ ڈھئی (مسمار ہوئی) پڑی تھی اپنی چھتوں پر (ف۵۴۱) بولا اسے کیونکر جِلائے گا اللہ اس کی موت کے بعد تو اللہ نے اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کردیا، فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا، عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم، فرمایا نہیں تجھے سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بو نہ لایا اور اپنے گدھے کو دیکھ کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہوگیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے،

{اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰى قَرْیَةٍ: یا اس کی طرح جس کا گزر ایک بستی پر ہوا۔ }اکثر مفسرین کے بقول اس آیت میں بیان کیا گیا واقعہ حضرتِ عُزَیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے اور بستی سے بیتُ المقدس مراد ہے۔

حضرتِ عُزَیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ:

             جب بُخت نصر بادشاہ نے بیتُ المقدس کو ویران کیا اور بنی اسرائیل کو قتل و غارَتگَری کرکے تباہ کر ڈالا تو ایک مرتبہ حضرتِ عُزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وہاں سے گزر ہوا، آپ کے ساتھ ایک برتن کھجور اور ایک پیالہ انگور کا رس تھا اور آپ ایک گدھے پر سوار تھے، تمام بستی میں پھرے لیکن کسی شخص کو وہاں نہ پایا، بستی کی عمارتیں گری ہوئی تھیں ، آپ نے تعجب سے کہا ’’اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا‘‘ اللہ تعالیٰ انہیں ان کی موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا۔ اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی سواری کے جانور کو وہاں باندھ دیا اور خود آرام فرمانے لگے، اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی گئی اور گدھا بھی مرگیا۔ یہ صبح کے وقت کا واقعہ ہے، اس سے ستر برس بعد اللہ تعالیٰ نے ایران کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کو غلبہ دیا اور وہ اپنی فوجیں لے کر بیتُ المقدس پہنچا، اس کو پہلے سے بھی بہتر طریقے پر آباد کیا اور بنی اسرائیل میں سے جو لوگ باقی رہ گئے تھے وہ دوبارہ یہاں آکر بیتُ المقدس اور اس کے گردو نواح میں آباد ہوگئے اور ان کی تعداد بڑھتی رہی۔ اس پورے عرصے میں اللہ تعالیٰ نے حضرتِ عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھا اور کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا، جب آپ کی وفات کو سوسال گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ کیا ،پہلے آنکھوں میں جان آئی، ابھی تک تمام جسم میں جان نہ آئی تھی۔ بقیہ جسم آپ کے دیکھتے دیکھتے زندہ کیا گیا۔ یہ واقعہ شام کے وقت غروبِ آفتاب کے قریب ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا: تم یہاں کتنے دن ٹھہرے ؟ آپ نے اندازے سے عرض کیا کہ ایک دن یا اس سے کچھ کم وقت۔ آپ کا خیال یہ ہوا کہ یہ اسی دن کی شام ہے جس کی صبح کو سوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم یہاں ایک سو سال ٹھہرے ہو۔ اپنے کھانے اور پانی یعنی کھجور اور انگور کے رس کو دیکھوکہ ویسا ہی صحیح سلامت باقی ہے، اس میں بو تک پیدا نہیں ہوئی اور اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کا کیا حال ہے، چنانچہ آپ نے دیکھا کہ وہ مر چکا ہے، اس کا بدن گل گیا اور اعضاء بکھر گئے ہیں ، صرف سفید ہڈیاں چمک رہی تھیں۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے اس کے اعضاء جمع ہوئے، اعضاء اپنی اپنی جگہ پر آئے ،ہڈیوں پر گوشت چڑھا ،گوشت پر کھال آئی، بال نکلے پھر اس میں روح پھونکی گئی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا اور آواز نکالنے لگا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ  تعالیٰ ہر شئے پر قادر ہےیعنی یقین تو پہلے ہی تھا ، اب عینُ الْیَقین حاصل ہوگیا۔ پھر آپ اپنی اس سواری پر سوار ہو کر اپنے محلہ میں تشریف لائے سرِ اقدس اور داڑھی مبارک کے بال سفید تھے، عمر وہی چالیس سال کی تھی، کوئی آپ کو نہ پہچانتا تھا۔ اندازے سے اپنے مکان پر پہنچے، ایک ضعیف بڑھیا ملی جس کے پاؤں رہ گئے تھے، وہ نابینا ہوگئی تھی، وہ آپ کے گھر کی باندی تھی اور اس نے آپ کو دیکھا ہوا تھا، آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ یہ عُزیر کا مکان ہے اس نے کہا ہاں ، لیکن عُزیر کہاں ، انہیں تو غائب ہوئے سو سال گزر گئے۔ یہ کہہ کروہ خوب روئی۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا: میں عُزیر ہوں ، اس نے کہا، سُبْحَانَ اللہ! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے سو سال موت کی حالت میں رکھ کر پھر زندہ کیا ہے۔ اس نے کہا، حضرت عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مُسْتَجابُ الدَّعْوات تھے، جو دعا کرتے قبول ہوتی، آپ دعا کیجئے کہ میری آنکھیں دوبارہ دیکھنا شروع کردیں تاکہ میں اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھوں۔ آپ نے دعا فرمائی اور وہ عورت بینا ہوگئی۔ آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا، خدا کے حکم سے اٹھ۔ یہ فرماتے ہی اس کے معذور پاؤں درست ہوگئے۔ اس نے آپ کو دیکھ کر پہچانا اور کہا میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ بے شک حضرتِ عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہیں۔ وہ آپ کو بنی اسرائیل کے محلے میں لے گئی، وہاں ایک مجلس میں آپ کے فرزند تھے جن کی عمر ایک سو اٹھارہ سال کی ہوچکی تھی اور آپ کے پوتے بھی تھے جو بوڑھے ہوچکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں پکارا کہ یہ حضرت عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے ہیں۔ اہلِ مجلس نے اس عورت کو جھٹلایا۔ اس نے کہا، مجھے دیکھو، ان کی دعا سے میری حالت ٹھیک ہوگئی ہے۔ لوگ اٹھے اور آپ کے پاس آئے، آپ کے فرزند نے کہا کہ میرے والد صاحب کے کندھوں کے درمیان سیاہ بالوں کا ایک ہلال یعنی چاند تھا، جسم مبارک کھول کر دکھایا گیا تو وہ موجود تھا، نیزاس زما نہ میں توریت کا کوئی نسخہ باقی نہ رہا تھا، کوئی اس کا جاننے والا موجود نہ تھا۔ آپ نے تمام توریت زبانی پڑھ دی۔ ایک شخص نے کہا کہ مجھے اپنے والد سے معلوم ہوا کہ بخت نصر کی ستم انگیزیوں کے بعد گرفتاری کے زمانہ میں میرے دادا نے توریت ایک جگہ دفن کردی تھی اس کا پتہ مجھے معلوم ہے اس پتہ پر جستجو کرکے توریت کا وہ دفن شدہ نسخہ نکالا گیا اور حضرت عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی یاد سے جو توریت لکھائی تھی اس سے مقابلہ کیا گیا تو ایک حرف کا فرق نہ تھا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۹، ۱ / ۲۰۲-۲۰۳، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۹، ۱ / ۳۲۵، ملتقطاً)

2:260
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰىؕ-قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْؕ-قَالَ بَلٰى وَ لٰكِنْ لِّیَطْمَىٕنَّ قَلْبِیْؕ-قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ اِلَیْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاْتِیْنَكَ سَعْیًاؕ-وَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠(۲۶۰)
اور جب عرض کی ابراہیم نے (ف۵۴۲) اے رب میرے مجھے دکھا دے تو کیونکر مردے جِلائے گا فرمایا کیا تجھے یقین نہیں (ف۵۴۳) عرض کی یقین کیوں نہیں مگر یہ چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار آجائے (ف۵۴۴) فرمایا تو اچھا، چار پرندے لے کر اپنے ساتھ ہلالے (ف۵۴۵) پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دے پھر انہیں بلا وہ تیرے پاس چلے آئیں گے پاؤں سے دوڑتے (ف۵۴۶) اور جان رکھ کہ اللہ غالب حکمت والا ہے

{وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ: اور جب ابراہیم نے عرض کی۔}اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت پر دلالت کرنے والا ایک اور واقعہ بیان کیاجا رہاہے، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور چار پرندے:

مفسرین نے لکھا ہے کہ سمندر کے کنارے ایک آدمی مرا ہوا پڑا تھا، سمندر کا پانی چونکہ چڑھتا اترتا رہتا ہے۔ چنانچہ جب پانی چڑھا تو مچھلیوں نے اس لاش کو کھایا اور جب پانی اترا تو جنگل کے درندوں نے کھایا اور جب درندے چلے گئے تو پرندوں نے کھایا۔ حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ ملاحظہ فرمایا تو آپ کو شوق ہوا کہ آپ ملاحظہ فرمائیں کہ مردے کس طرح زندہ کیے جائیں گے ۔ چنانچہ آپ نے بارگاہِ الہٰی میں عرض کیا: اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، مجھے یقین ہے کہ تو مردوں کو زندہ فرمائے گا اور ان کے اجزاء دریائی جانوروں اور درندوں کے پیٹ اور پرندوں کے پوٹوں سے جمع فرمائے گا لیکن میں یہ عجیب منظر دیکھنے کی آرزو رکھتا ہوں۔ مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا خلیل بنایا تو حضرتِ ملکُ الموت عَلَیْہِ السَّلَام اللہ تعالیٰ کے اِذن و اجازت سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کویہ بشارت سنانے آئے ۔ آپ نے بشارت سن کر اللہ  تعالیٰ کی حمد کی اور ملکُ الموت عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا کہ اس خِلَّت یعنی خلیل بنائے جانے کی نشانی کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا، دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول فرمائے گا اور آپ کے سوال پر مردے زندہ کرے گا، تب آپ نے یہ دعا کی کہ اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تمہیں اِس پر یقین نہیں ؟ اللہ تعالیٰ عالِمُ الغیب والشَّہادۃ ہے، اسے حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کمالِ ایمان و یقین کا علم ہے ۔اس کے باوجودیہ سوال فرمانا کہ’’ کیا تجھے یقین نہیں ‘‘ا س لیے ہے کہ سامعین کو سوال کا مقصد معلوم ہوجائے اور وہ جان لیں کہ یہ سوال کسی شک و شبہ کی بناء پر نہ تھا۔ چنانچہ حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی ، یقین کیوں نہیں؟  لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ چیز آنکھوں سے دیکھوں تاکہ میرے دل کو قرار آجائے اور خلیل بنائے جانے والی صورت پر معنی یہ ہوں گے کہ اس علامت سے میرے دل کو تسکین ہوجائے کہ تو نے مجھے اپنا خلیل بنایا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶۰، ۱ / ۲۰۳-۲۰۴)

حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فرمائش پر حکمِ خداوندی ہوا کہ تم چار پرندے لے لو اور انہیں اپنے ساتھ خوب مانوس کرلو پھر انہیں ذبح کرکے ان کا قیمہ آپس میں ملا کر مختلف پہاڑوں پر رکھ دو اور پھر انہیں آواز دو۔ ان میں ہر ایک اپنی پہلی والی شکل و صورت میں بن کر تمہارے پاس آجائے گا ۔چنانچہ حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چار پرندے لیے۔ ایک قول کے مطابق وہ مور، مرغ، کبوتر اور کوّا تھے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے انہیں بحکمِ الہٰی ذبح کیا، ان کے پَر اکھاڑے اور قیمہ کرکے ان کے اجزاء باہم ملادیئے اور اس مجموعہ کے کئی حصے کر کے ایک ایک حصہ ایک ایک پہاڑ پر رکھ دیا اور سب کے سراپنے پاس محفوظ رکھے۔ پھر ان پرندوں کو آواز دے کر بلایا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بلاتے ہی حکمِ الہٰی سے وہ اجزاء اُڑے اور ہر ہر جانور کے اجزاء علیحدہ علیحدہ ہو کر اپنی ترتیب سے جمع ہوئے اور پرندوں کی شکلیں بن کر اپنے پاؤں سے دوڑتے آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور اپنے اپنے سروں سے مل کر بِعَیْنِہٖ پہلے کی طرح مکمل ہوگئے، سُبْحَانَ اللہ۔(تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶۰، ۲ / ۲۲۸، الجزء الثالث)

حضرتِ عزیر اور حضرتِ ابراہیمعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات سے حاصل ہونے والی معلومات:

حضرتِ عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات سے کئی چیزیں معلوم ہوتی ہیں۔

(1)…اللہ تعالیٰ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعائیں قبول فرماتا ہے۔

(2)…انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعاؤں سے مردے بھی زندہ ہوتے ہیں۔

(3)…اللہ تعالیٰ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خواہشات کو پورا فرماتا ہے۔

(4)…جتنا یقین کامل ہوتا ہے اتنا ہی ایمان بڑھ جاتا ہے۔

(5)…مشاہدے سے معرفت میں اضافہ ہوتا ہے۔

(6)…یہ واقعات اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی عظیم دلیلیں ہیں۔

(7)… یہ واقعات مرنے کے بعدزندہ کئے جانے کی بہت بڑی دلیل ہیں۔

2:261
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)
ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں (ف۵۴۷) اس دانہ کی طرح جس نے اگائیں سات بالیں (ف۵۴۸) ہر بال میں سو دانے (ف۵۴۹) اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے،

{مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ } راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں بلکہاللہ  تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور وہ کریم و جواد ہے جس کیلئے چاہے اسے اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے چنانچہ کئی جگہ پر اس سے بھی زیادہ نیکیوں کی بشارت ہے جیسے پیدل حج کرنے پر بعض روایتوں کی رو سے ہر قدم پر سات کروڑ نیکیاں ملتی ہیں۔(مسند البزار، مسند ابن عباس رضی اللہ عنہما، طاوس عن ابن عباس، ۱۱ / ۵۲، الحدیث: ۴۷۴۵)

نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا راہِ خدا میں خرچ کرنا ہے :

            اس آیت میں خرچ کرنے کا مُطْلَقاً فرمایا گیا ہے خواہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل، نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا شامل ہے خواہ وہ کسی غریب کو کھانا کھلانا ہو یا کسی کو کپڑے پہنانا، کسی غریب کو دوائی وغیرہ لے کر دینا ہو یا راشن دلانا، کسی طالب علم کو کتاب خرید کر دینا ہو یا کوئی شِفا خانہ بنانا یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے فُقراء و مساکین کو تیجے، چالیسویں وغیرہ پر کھلادیا جائے۔

{اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ: دانے نے سات بالیاں اگائیں۔} یہاں فرمایا گیا کہ بیج کے طور پر ڈالے جانے والے دانے نے بالیاں اگائیں حالانکہ اگانے والاحقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے، دانہ کی طرف اس کی نسبت مجازی ہے۔

 مجازی نسبت کرنا جائز ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ مجازی نسبت کرنا جائز ہے جب کہ یہ نسبت کرنے والا غیرِ خدا کو تَصَرُّف و اختیار میں مستقل نہ سمجھے۔ اسی لیے یہ کہنا جائز ہے کہ یہ دوا نافع ہے اور یہ مضر ہے، یہ در دکی دافع ہے، ماں باپ نے پالا، عالم نے گمراہی سے بچایا، بزرگوں نے حاجت روائی کی وغیرہ۔ ان سب میں مجازی نسبت ہے اور مسلمان کے اعتقاد میں فاعلِ حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے باقی سب وسائل ہیں۔

نیک اعمال میں یکسانیت کے باوجود ثواب میں فرق ہوتا ہے:

            نیز یہ بھی یاد رہے کہ نیک اعمال تویکساں ہوتے ہیں مگر ثواب میں بعض اوقات بہت فرق ہوتا ہے یا تواس لئے کہ اخلاص اور حسنِ نیت میں فرق ہوتا ہے یا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نسبت کی وجہ سے تھوڑا عمل زیادہ ثواب کا باعث ہوتا ہے جیسا کہ حضورپرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا (اللہ تعالیٰ کی راہ میں ) خرچ کرے تو ا س کا ثواب میرے کسی صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ایک مُد (ایک چھوٹی سی مقدار) بلکہ آدھا مُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔(بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب قول النبی: لو کنت متخذاً خلیلاً، ۲ / ۵۲۲، الحدیث: ۳۶۷۳)

2:262
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًىۙ-لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۶۲)
وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں (ف۵۵۰) پھر دیئے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں (ف۵۵۱) ان کا نیگ (انعام) ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم،

{اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: وہ لوگ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔} شانِ نزول : یہ آیت حضرتِ عثمانِ غنی اور حضرتِ عبدالرحمٰن بن عو ف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں نازل ہوئی، حضرتِ عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر لشکرِ اسلام کے لئے ایک ہزار اونٹ بمع سازوسامان کے پیش کئے اور حضرتِ عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے چار ہزار درہم صدقہ کے طور پربارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیں حاضر کئے اور عرض کیا کہ میرے پاس کل آٹھ ہزار درہم تھے، ان میں سے آدھے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے ر کھ لیے اور آدھے راہِ خدا میں پیش کردئیے ہیں۔ سرکارِدوعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو تم نے دیئے اور جو تم نے رکھے اللہ تعالیٰ دونوں میں برکت فرمائے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶۲، ۱ / ۲۰۶)

{مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًى: نہ احسان جتائیں اور نہ تکلیف دیں۔} صدقہ دینے کے بعداحسان جتلانا اور جسے صدقہ دیا اسے تکلیف دینا ناجائز و ممنوع ہے اور اس سے صدقے کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ آیت 264 میں فرمایا کہ احسان جتلا کر اور ایذاء دے کر اپنے صدقات کو باطل نہ کرو۔ احسان جتلانا تو یہ ہے کہ دینے کے بعد دوسروں کے سامنے اظہار کریں کہ ہم نے تیرے ساتھ ایسے ایسے سلوک کئے اور یوں اس کا دل میلا کریں اور تکلیف دینا یہ ہے کہ اس کو عار دلائیں کہ تونادار تھا، مفلِس تھا، مجبور تھا، نکما تھا ہم نے تیری خبر گیری کی یا اور طرح اُس پر دباؤ ڈالیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶۲، ۱ / ۲۰۶)

2:263
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًىؕ-وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ(۲۶۳)
اچھی بات کہنا اور درگزر کرنا (ف۵۵۲) اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد ستانا ہو (ف۵۵۳) اور اللہ بے پراہ حلم والا ہے،

{قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ: اچھی بات کہنا اورمعاف کردینا بہتر ہے ۔}اگر سائل کو کچھ نہ دیا جائے تو اس سے اچھی بات کہی جائے اور خوش خُلُقی کے ساتھ جواب دیا جائے جو اسے ناگوار نہ گزرے اور اگر وہ سوال میں اصرار کرے یا زبان درازی کرے تو اس سے در گزر کیا جائے ۔سائل کوکچھ نہ دینے کی صورت میں اس سے اچھی بات کہنا اور اس کی زیادتی کو معاف کردینا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اسے عار دلا ئی جائے یا احسان جتایا جائے یا کسی دوسرے طریقے سے اسے کوئی تکلیف پہنچا ئی جائے۔

{وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ: اور اللہ بے پرواہ ہے۔} آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ  کی دو صفات کابیان ہوا کہ وہ بندوں کے صدقات سے بے پرواہ اور گناہگاروں کو جلد سزا نہ دے کر حِلم فرمانے والا ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶۳، ۱ / ۲۰۷)

اپنے ماتحتوں کی خطاؤں سے در گزر کریں :

اس آیت میں بھی ہمیں نصیحت ہے کہ اللہ  تعالیٰ  غنی و بے پرواہ ہو کر بھی حلیم ہے کہ بندوں کے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور تم تو ثواب کے محتاج ہو لہٰذا تم بھی فقراء و مساکین اور اپنے ماتحتوں کی خطاؤں سے در گزر کیا کرو۔ حلم سنتِ اِلہِیّہ بھی ہے اور سنت ِ مُصْطَفَوِیَّہ بھی۔سُبْحَانَ اللہ، کیسے پاکیزہ اخلاق کی کیسی نفیس تعلیم دینِ اسلام میں دی گئی ہے۔ ذیل میں مسکینوں اور ما تحتوں کے بارے میں سیدُ المرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تعلیمات ملاحظہ ہوں۔

(1)…حضرتِ اُمّ بُجَیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا  فرماتی ہیں ، میں نے بارگاہِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیں عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ایک مسکین میرے دروازے پر آ کر کھڑ اہوتا ہے اور میرے پاس اس کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا (تو میں کیاکروں ) رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اگر تیرے پاس جلے ہوئے کُھر کے سوا کچھ نہ ہو تو وہ ہی اسے دیدے۔(ترمذی، کتاب الزکاۃ، باب ما جاء فی حق السائل، ۲ / ۱۴۶، الحدیث: ۶۶۵)

(2)… حضرت ابو مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے غلام کو مار رہے تھے۔ غلام نے کہا: میں اللہ تعالیٰ  کی پناہ مانگتا ہوں۔ اور اسے مارنا شروع کر دیا۔ غلام نے کہا: میں اللہ کے رسول  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی پناہ مانگتا ہوں۔ تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’خدا کی قسم! اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا تم اس پر قادر ہو۔ حضرت ابو مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں کہ پھر انہوں نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔ (مسلم، کتاب الایمان والنذور، باب صحبۃ الممالیک۔۔۔ الخ، ص۹۰۵، الحدیث: ۳۶(۱۶۵۹))

(3)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مار رہا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے تو اس سے اپنے ہاتھ اٹھا لو۔ (ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی ادب الخادم، ۳ / ۳۸۲، الحدیث: ۱۹۵۷)

اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاپنے خدمت گاروں سے کیساسلوک فرماتے تھے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے، چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے تو آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے کوئی خادم نہیں رکھا ہو اتھا (میرے سوتیلے والد) حضرت طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر بارگاہِ رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے اور عرض کی:یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انس سمجھدار لڑکا ہے ا س لئے یہ آپ کی خدمت گزاری کا شرف حاصل کرے گا۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُُ فرماتے ہیں : میں نے (دس سال تک) سفر و حَضر میں حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت کرنے کی سعادت حاصل کی، لیکن جو کام میں نے کیا اس کے بارے میں آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیااس کے بارے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ’’تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟(بخاری، کتاب الوصایا، باب استخدام الیتیم فی السفر والحضر۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۴۳، الحدیث: ۲۷۶۸)

2:264
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًاؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۲۶۴)
اے ایمان والوں اپنے صدقے باطل نہ کردو احسان رکھ کر اور ایذا دے کر (ف۵۵۴) اس کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور اللہ اور قیامت پر ایمان نہ لائے، تو اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے ایک چٹان کہ اس پر مٹی ہے اب اس پر زور کا پانی پڑا جس نے اسے نرا پتھر کر چھوڑا (ف۵۵۵) اپنی کمائی سے کسی چیز پر قابو نہ پائیں گے، اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا،

{لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ: اپنے صدقے برباد نہ کردو۔} ارشاد فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! جس پرخرچ کرو اس پر احسان جتلا کر اور اسے تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے کا ثواب برباد نہ کردو کیونکہ جس طرح منافق آدمی لوگوں کو دکھانے کیلئے اور اپنی واہ واہ کروانے کیلئے مال خرچ کرتا ہے لیکن اس کا ثواب برباد ہوجاتا ہے اسی طرح فقیر پر احسان جتلانے والے اور اسے تکلیف دینے والے کا ثواب بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھو کہ  جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر مٹی پڑی ہوئی ہو، اگراس پر زوردار بارش ہوجائے تو پتھر بالکل صاف ہوجاتا ہے اور اس پر مٹی کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ یہی حال منافق کے عمل کا ہے کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ہے اور روزِ قیامت وہ تمام عمل باطل ہوں گے کیونکہ وہ رضائے الٰہی کے لیے نہ تھے یا یوں کہہ لیں کہ منافق کا دل گویا پتھر کی چٹان ہے، اس کی عبادات خصوصاً صدقات اور ریا کی خیراتیں گویا وہ گردو غبار ہیں جو چٹان پر پڑ گئیں ، جن میں بیج کی کاشت نہیں ہو سکتی، رب تعالیٰ کا ان سب کو رد فرما دینا گویا وہ پانی ہے جو سب مٹی بہا کر لے گیا اور پتھر کو ویسا ہی کر گیا۔  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر صدقہ ظاہر کرنے سے فقیر کی بدنامی ہوتی ہو تو صدقہ چھپا کردینا چاہیے کہ کسی کو خبر نہ ہو۔لہٰذا اگر کسی سفید پوش یا معزز آدمی یا عالم یا شیخ کو کچھ دیا جائے تو چھپا کر دینا چاہیے۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو علم دین سکھایا ہوتو اس کی جزا کی بھی بندے سے امید نہ رکھے اور نہ اسے طعنے دے کیونکہ یہ بھی علمی صدقہ ہے۔

آیت’’لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰى‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:

            اس آیت سے ہمیں یہ باتیں معلوم ہوئیں۔

(1)…ریاکاری سے اعمال کا ثواب باطل ہوجاتاہے۔ اس کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کیلئے احیاء ُالعلوم جلد3 میں سے’’ریاکاری کا بیان‘‘مطالعہ کریں۔[1]

(2)…فقیر پر احسان جتلانا اور اسے ایذاء دینا ممنوع ہے اور یہ بھی ثواب کو باطل کردیتا ہے۔

(3)… کافر کا کوئی عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں۔

(4)…جہاں ریاکاری یااس طرح کی کسی دوسری آفت کا اندیشہ ہو وہاں چھپا کر مال خرچ کیا جائے۔

(5)…اعلانیہ اور پوشیدہ دونوں طرح صدقہ دینے کی اجازت ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ آیت 271اور 274میں صراحت کے ساتھ اس کا بیان ہے، لیکن اپنی قلبی حالت پر نظر رکھ کر عمل کیا جائے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں ریاکاری، احسان جتلانا اور ایذاء دینا تینوں بد اعمال کی بھرمار ہے۔ مالدار پیسہ خرچ کرتا ہے تو جب تک اپنے نام کے بینر نہ لگوالے یا اخبار میں تصویر اور خبر نہ چھپوالے اسے چین نہیں آتا، خاندان میں کوئی کسی کی مدد کرتا ہے تو زندگی بھر اُسے دباتا رہتا ہے، جب دل کرتا ہے سب لوگوں کے سامنے اسے رسوا کردیتا ہے، جہاں رشتے دار جمع ہوں گے وہیں اپنے مدد کرنے کا اعلان کرنا شروع کردے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسوں کو ہدایت عطا فرمائے۔


[1] ..... امیرِ اہلِسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُم الْعَالِیَہ کی کتاب ،، نیکی کی دعوت،، (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا صفحہ 63 تا 106 کا مطالعہ کرنا بھی مفید ہے۔

2:265
وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵)
اور ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی رضا چاہنے میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے دل جمانے کو (ف۵۵۶) اس باغ کی سی ہے جو بھوڑ (رتیلی زمین) پر ہو اس پر زور کا پانی پڑا تو دُونے میوے لایا پھر اگر زور کا مینھ اسے نہ پہنچے تو اوس کافی ہے (ف۵۵۷) اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے (ف۵۵۸)

{اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ: جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔} اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو استقامت دینے کیلئے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حا ل میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دل کی کیفیت دیکھی جاتی ہے نہ کہ فقط مال کی مقدار ،جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۴(۲۵۶۴))

2:266
اَیَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَهٗ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۙ-لَهٗ فِیْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِۙ- وَ اَصَابَهُ الْكِبَرُ وَ لَهٗ ذُرِّیَّةٌ ضُعَفَآءُﳚ -فَاَصَابَهَاۤ اِعْصَارٌ فِیْهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ۠(۲۶۶)
کیا تم میں کوئی اسے پسند رکھے گا (ف۵۵۹) کہ اس کے پاس ایک باغ ہو کھجوروں اور انگوروں کا (ف۵۶۰) جس کے نیچے ندیاں بہتیں اس کے لئے اس میں ہر قسم کے پھلوں سے ہے (ف۵۶۱) اور اسے بڑھاپا آیا (ف۵۶۲) اور اس کے ناتوان بچے ہیں (ف۵۶۳) تو آیا اس پر ایک بگولا جس میں آگ تھی تو جل گیا (ف۵۶۴) ایسا ہی بیان کرتا ہے اللہ تم سے اپنی آیتیں کہ کہیں تم دھیان لگاؤ (ف۵۶۵)

{اَیَوَدُّ اَحَدُكُمْ: کیا تم میں کوئی یہ پسند کرے گا۔} ارشاد فرمایاکہ کیا تم میں کوئی شخص یہ پسند کرے گا ،مراد یہ ہے کہ کوئی یہ پسند نہ کرے گا کیونکہ یہ بات کسی عاقل کیلئے قابلِ قبول نہیں کہ اس کا باغ ہو جس میں قسم قسم کے درخت ہوں، پھلوں سے لدا ہوا ہو، وہ باغ فرحت انگیز و دلکُشا بھی ہو اور نافع اور عمدہ بھی، آدمی اسے اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھتا ہو جو انسان کی حاجت کا وقت ہوتا ہے اور آدمی کمانے کے قابل نہیں رہتا اور اُس بڑھاپے میں اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں جو کمانے کے قابل نہ ہوں اوروہ پرورش کے محتاج ہوں۔ الغرض وہ وقت انتہائی شدید محتاجی کا ہوتا ہے لیکن اس بڑھاپے اور حاجت کے وقت شدید قسم کی آندھی چلے جس میں بگولے ہوں اور ان بگولوں میں آگ ہو اور وہ آگ آدمی کے مستقبل کے اِس واحد سہارے یعنی باغ کو جلا کر راکھ کر دے تو اس وقت آدمی کے رنج و غم اور حسرت ویاس کاکیا عالَم ہوگا؟ اللہُ اَکْبَر، یہی حال اس شخص کا ہے جس نے اعمالِ حسنہ تو کیے ہوں مگر رضائے الہٰی کے لیے نہیں بلکہ ریا کاری کی غرض سے کئے اور وہ اس گمان میں ہو کہ میرے پاس نیکیوں کا ذخیرہ ہے مگر جب شدتِ حاجت کا وقت یعنی قیامت کا دن آئے تو اللہ تعالیٰ ان اعمال کو نامقبول کردے اور اس وقت اس کو کتنا رنج اور کتنی حسرت ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ یہ آیات اس لئے بیان فرماتا ہے تاکہ اے لوگو! تم غور و فکر کرو اور سمجھو کہ دنیا فانی ہے اورآخرت ضرور آنی ہے تو اُس آخرت کیلئے عمل کرو اور اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرو۔ اللہُ اَکْبَر، کس قدر دل دہلا دینے والی مثال ہے۔ اے کاش کہ ہم سمجھ جائیں اور اپنے تمام اعمال، نماز، ذکرو درود، تلاوت و نعت خوانی، حج و عمرہ، زکوٰۃو صدقات وغیرہ کو ریاکاری کی تباہ کاری سے بچا لیں اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا شروع کردیں۔ ([1])


[1] ... ریاکاری اور دیگر باطنی امراض کے علاج کا ذہن پانے کے لئے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائیں۔

2:267
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۪-وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(۲۶۷)
اے ایمان والو! اپنی پاک کمائیوں میں سے کچھ دو (ف۵۶۶) اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا (ف۵۶۷) اور خاص ناقص کا ارادہ نہ کرو کہ دو تو اس میں سے (ف۵۶۸) اور تمہیں ملے تو نہ لوگے جب تک اس میں چشم پوشی نہ کرو اور جان رکھو کہ اللہ بے پروانہ سراہا گیا ہے۔

{اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ:اپنی پاک کمائیوں میں سے کچھ خرچ کرو۔ }بعض لوگ صدقہ میں خراب مال دیا کرتے تھے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا کمایا ہوا پاکیزہ اور صاف ستھرا مال دیا کرو نیز زمین کی پیداوار سے بھی راہِ خدا میں خرچ کیا کرو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ناقص، گھٹیا اور ردی مال نہ دیا کرو، جب تم اللہ تعالیٰ سے اچھی جزا چاہتے ہو تو اس کی راہ میں مال بھی اعلیٰ درجے کادیا کرو۔ غور کرو کہ جس طرح کا گھٹیا مال تم راہِ خدا میں دیتے ہو اگر وہی مال تمہیں دیا جائے تو کیا تم قبول کرو گے! پہلے تو قبول ہی نہ کرو گے اور اگر قبول کربھی لو تو کبھی خوشدِلی سے نہ لو گے بلکہ دل میں برا مناتے ہوئے لو گے تو جب اپنے لئے اچھا لینے کا سوچتے ہو تو راہِ خدا میں خرچ کئے جانے والے کے بارے میں بھی اچھا ہی سوچو۔ بہت سے لوگ خود تو اچھا استعمال کرتے ہیں لیکن جب راہِ خدا میں دینا ہوتا ہے تو ناقابلِ استعمال اور گھٹیا قسم کا دیتے ہیں۔ ان کیلئے اِس آیت میں عبرت ہے۔ اگر کوئی چیز فی نَفْسِہٖ تو اچھی ہے لیکن آدمی کو خود پسند نہیں تو اس کے دینے میں کوئی حرج نہیں البتہ حرج وہاں ہے جہاں چیز اچھی نہ ہونے کی وجہ سے ناپسند ہو۔

آیت’’ اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

اِس آیت سے کئی مسائل معلوم ہوئے۔

(1)… اس سے کمانے کی اجازت ثابت ہوتی ہے۔

(2)… آیت میں نفلی اور فرض صدقات دونوں داخل ہوسکتے ہیں۔

(3)… اپنی کمائی سے خیرات کرنا بہتر ہے کیونکہ فرمایا اپنی کمائیوں سے۔

(4)… مالِ حلال سے خیرات کیا جائے۔

(5)… سارا مال خیرات نہ کرے بلکہ کچھ اپنے خرچ کے لئے بھی رکھے جیسا کہ’’مِمَّا‘‘ ’’میں سے‘‘ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔

(6)…زمین کی پیداوار سے بھی راہِ خدا میں دیا جائے خواہ وہ غلے ہوں یا پھل نیز پیداوار کم ہو یا زیادہ بہر صورت دیا جائے۔

2:268
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِۚ-وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًاؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ(۲۶۸)
شیطان تمہیں اندیشہ دلاتا ہے (ف۵۶۹) محتاجی کا اور حکم دیتا ہے بے حیائی کا (ف۵۷۰) اور اللہ تم سے وعدہ فرماتا ہے بخشش اور فضل کا (ف۵۷۱) اور اللہ وسعت و الا علم والا ہے،

{اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ: شیطان تمہیں محتاج ہوجانے کااندیشہ دلاتا ہے۔} بغیر کسی دنیاوی مفاد کے رضائے الٰہی کیلئے خرچ کرنے کے فضائل کے بیان کے بعد اِس راہ میں پیش آنے والے سب سے بڑے وسوسے کا بیان کیا جا رہا ہے کہ شیطان طرح طرح سے وسوسے دلاتا ہے کہ اگرتم خرچ کرو گے ،صدقہ دو گے تو خود فقیر و نادا رہوجاؤ گے لہٰذا خرچ نہ کرو۔ یہ شیطان کی بہت بڑی چال ہے کہ اللہ  تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے وقت اس طرح کے اندیشے دلاتا ہے حالانکہ جن لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالا جارہا ہوتا ہے وہی لوگ شادی بیاہ میں جائز و ناجائز رسومات پر اور عام زندگی میں بے دریغ خرچ کررہے ہوتے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ شیطان تو تمہیں بخل و کنجوسی کی طرف بلاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ فرماتا ہے کہ اگر تم اس کی راہ میں خرچ کرو گے تو وہ تمہیں اپنے فضل اور مغفرت سے نوازے گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ وہ پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ بڑی وسعت والا ہے، وہ صدقہ سے تمہارے مال کو گھٹنے نہ دے گا بلکہ اس میں اور برکت پیدا کردے گا۔

2:269
یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًاؕ-وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۶۹)
اللہ حکمت دیتا ہے (ف۵۷۲) جسے چاہے اور جسے حکمت ملی اسے بہت بھلائی ملی، اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے،

{یُؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ:اللہ جسے چاہتا ہے حکمت دیتا ہے۔} حکمت سے قرآن، حدیث اور فقہ کا علم، تقویٰ اور نبوت مراد ہوسکتے ہیں۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶۹، ص۱۳۹، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶۹، ۱ / ۲۱۱، ملتقطاً)

            کیونکہ قرآن و حدیث سراپا حکمت ہیں اور فقہ اسی سرچشمہ حکمت و ہدایت سے فیض یافتہ علم ہے اور تقویٰ حکمت کا تقاضا ہے جبکہ نبوت سراسر حکمت ہے البتہ یہ بات قطعی ہے کہ ہمارے نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد اب کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔

2:270
وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُهٗؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(۲۷۰)
اور تم جو خرچ کرو (ف۵۷۳) یا منت مانو (ف۵۷۴) اللہ کو اس کی خبر ہے (ف۵۷۵) اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں،

{وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ: اور تم جو خرچ کرو۔ }یہاں آیت میں وعدہ اور وعید دونوں بیان کئے گئے ہیں کیونکہ فرمایا گیا کہ تم جو خرچ کروخواہ نیکی میں ، خواہ بدی میں یونہی تم جو نذر مانو، اچھے کام کی یا گناہ کے کام کی، ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے، تو اچھے عمل، خرچ اور نذر پر ثواب دے گا جبکہ گناہ کے عمل، خرچ اورنذر پر سزا دے گا۔

نذر کی تعریف اور ا س کے چند احکام:

            یاد رہے کہ عرف میں ہدیہ اور پیش کش کونذر کہتے ہیں جیسے کسی بڑے کو کوئی چیز پیش کریں تو کہتے ہیں کہ جناب یہ آپ کی نذر کی۔ نذر کی دو قسمیں ہیں

(1)…نذرِ شرعی۔ شرع میں نذر عبادت اور قربتِ مقصودہ ہے اسی لئے اگر کسی نے گناہ کرنے کی نذر مانی تو وہ صحیح نہیں ہوئی۔ نذر خاص اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے اور یہ جائز ہے کہ اللہ  تعالیٰ کے لیے نذر کرے اور کسی ولی کے آستانہ کے فُقراء کو نذر کے صَرف کرنے کی جگہ مقرر کرے مثلاً کسی نے یہ کہا یارب !عَزَّوَجَلَّ، میں نے نذر مانی کہ اگر تو میرا فلاں مقصد پورا کردے کہ فلاں بیمار کو تندرست کردے تو میں فلاں ولی کے آستانہ کے فقراء کو کھانا کھلاؤں یا وہاں کے خدام کو روپیہ پیسہ دوں یا ان کی مسجد کے لیے فلاں سامان مہیا کروں گا تو یہ نذر جائز ہے۔(ردالمحتار، کتاب الصوم، مطلب فی النذر الذی یقع للاموات۔۔۔ الخ، ۳ / ۴۹۱)

             شرعی نذر صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے معنی ہیں غیر لازم عبادت کو لازم کرلینا، ہاں اس نذر کا مَصرَف اَولیاءُ اللہ کے غریب مُجاوِر بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔

(2)… نذر کی دوسری قسم یعنی لغوی نذر جسے عرفی نذر بھی کہتے ہیں جو نذرانہ کے معنیٰ میں ہے وہ مخلوق کے لئے بھی ہو سکتی ہے،جیسے بزرگانِ دین کیلئے نذر و نیاز کی جاتی ہے، مزارات پر چادر چڑھانے کی نذر مانی جاتی ہے۔ اس طرح کی نذروں کا پورا کرنا ضروری نہیں البتہ بہتر ہے۔ اس بارے میں تفصیل جاننے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی 20ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے رسالے’’سُبُلُ الْاَصْفِیَاء فِیْ حُکْمِ الذَّبْحِ لِلْاَوْلِیَاء(اولیاء اللہ رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کی طرف منسوب جانوروں کے ذبح کرنے کا جواز)‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔

2:271
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِیَۚ-وَ اِنْ تُخْفُوْهَا وَ تُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْؕ-وَ یُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِكُمْؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۲۷۱)
اگر خیرات اعلانیہ دو تو وہ کیا ہی اچھی بات ہے اور اگر چھپا کر فقیروں کو دو یہ تمہارے لئے سب سے بہتر ہے (ف۵۷۶) اور اسمیں تمہارے کچھ گناہ گھٹیں گے، اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے،

{اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ: اگر تم اعلانیہ خیرات دو گے۔} صدقہ خواہ فرض ہو یا نفل جب اخلاص کے ساتھ اللہ  تعالیٰ کے لئے دیا جائے اور ریا سے پاک ہو تو خواہ ظاہر کرکے دیں یا چھپا کر دونوں بہتر ہیں۔ لیکن صدقہ فرض کو ظاہر کرکے دینا افضل ہے اور نفل کو چھپا کر اور اگر نفل صدقہ دینے والا دوسروں کو خیرات کی ترغیب دینے کے لیے ظاہر کرکے دے تو یہ اِظہار بھی افضل ہے جیسے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمجمعِ عام میں صدقہ کی ترغیب دیتے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سب کے سامنے صدقات پیش کرتے۔سیدُنا صدیقِ اکبر، سیدُنا عمر فاروق اور سیدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اعلانیہ صدقات میں یہی حکمت تھی۔ صدقات کی مزید فضیلت یہ بیان فرمائی کہ اس سے گناہِ صغیرہ معاف ہو جاتے ہیں۔ احادیث میں صدقہ کے بے پناہ فضائل مذکور ہیں ، جیسے صدقہ غضبِ الٰہی کو بجھاتا اور بری موت دور کرتا ہے۔ گناہ مٹاتا ہے۔ برائی کے ستر دروازے بند کرتا ہے اوربری قضا ٹال دیتا ہے۔ صدقہ دینے سے روزی اور مدد ملتی ہے۔ عمر بڑھتی ہے۔ آفتیں دور ہوتی ہیں، نیز بلا صدقے سے آگے قدم نہیں بڑھاتی۔ ( فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۱۳۷-۱۴۰، ملخصاً)

           اکثر و بیشتر اعمال میں یہی قاعدہ ہے کہ وہ خفیہ اور اعلانیہ دونوں طرح جائز ہیں لیکن ریاکاری کیلئے اعلانیہ کرنا حرام ہے اور دوسروں کی ترغیب کیلئے کرنا ثواب ہے۔ مشائخ و علماء بہت سے اعمال اعلانیہ اسی لئے کرتے ہیں کہ ان کے مریدین و متعلقین کو ترغیب ہو۔

2:272
لَیْسَ عَلَیْكَ هُدٰىهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۲)
انہیں راہ دینا تمہارے ذمہ لازم نہیں، (ف۵۷۷) ہاں اللہ راہ دیتا ہے جسے چاہتا ہے، اور تم جو اچھی چیز دو تو تمہارا ہی بھلا ہے (ف۵۷۸) اور تمہیں خرچ کرنا مناسب نہیں مگر اللہ کی مرضی چاہنے کے لئے، اور جو مال دو تمہیں پورا ملے گا اور نقصان نہ دیئے جاؤ گے،

{لَیْسَ عَلَیْكَ هُدٰىهُمْ: لوگوں کوہدایت دے دینا تم پر لازم نہیں۔} حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبشیر و نذیر اور داعی یعنی دعوت دینے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں ، آپ کا فرض دعوت دینے سے پورا ہوجاتا ہے اور اس سے زیادہ جدوجہد آپ پر لازم نہیں۔ یہ مضمون قرآن پاک میں بکثرت بیان کیا گیا ہے۔

{وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ: اور تم جو اچھی چیزخرچ کرو۔} ارشاد فرمایا گیا کہ تم جو خرچ کرتے ہو اس کا فائدہ تمہیں ہی ہوگا کہ دنیا میں مال میں برکت اور آخرت میں ثواب کا ذخیرہ ہوگا۔ لہٰذا جب اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے تو جس پر خرچ کرتے ہو اس پر احسان نہ جتاؤ بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کیلئے خرچ کرو اور ایک ذرہ برابر دنیوی نفع حاصل کرنے کی تمنا نہ کرو، اخلاص کے ساتھ کئے گئے عمل کا ایک ذرہ بھی ضائع نہیں ہوگا بلکہ بارگاہِ الٰہی سے برابر کا صلہ تو ضرور دیا جائےگا اور فضلِ الٰہی سے وہ صلہ سات سو گنا سے لے کر کروڑوں گنا تک ہوسکتا ہے۔

2:273
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ٘-یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ-تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْۚ-لَا یَسْــٴَـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًاؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۠(۲۷۳)
ان فقیروں کے لئے جو راہ خدا میں روکے گئے (ف۵۷۹) زمین میں چل نہیں سکتے (ف۵۸۰) نادان انہیں تونگر سمجھے بچنے کے سبب (ف۵۸۱) تو انہیں ان کی صورت سے پہچان لے گا (ف۵۸۲) لوگوں سے سوال نہیں کرتے کہ گڑ گڑانا پڑے اور تم جو خیرات کرو اللہ اسے جانتا ہے،

{لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: ان فقیروں کے لئے جو اللہ کے راستے میں روک دئیے گئے۔} گزشتہ آیات میں صدقہ دینے کی ترغیب دی گئی یہاں بتایا گیا کہ ان کا بہترین مصرف وہ فقراء ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو جہاد اور طاعتِ الٰہی کیلئے رو ک رکھا ہے۔ یہ آیت اہلِ صُفّہ کے حق میں نازل ہوئی ۔ان حضرات کی تعداد چار سو کے قریب تھی، یہ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تھے ۔یہاں نہ ان کا مکان تھا اورنہ کنبہ قبیلہ اور نہ ان حضرات نے شادی کی تھی، ان کے تمام اوقات عبادت میں صرف ہوتے تھے ،رات میں قرآنِ کریم سیکھنا دن میں جہاد کے کام میں رہنا ان کا شب و روز کا معمول تھا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۷۳، ۱ / ۲۱۳)

صدقات کے بہترین مصرف:

            انہی حضرات کی صف میں وہ مشائخ و علماء و طلبہ و مبلغین و خادمینِ دین داخل ہیں جو دینی کاموں میں مشغولیت کی وجہ سے کمانے کی فرصت نہیں پاتے۔ یہ لوگ اپنی عزت و وقار اور مروت کی وجہ سے لوگوں سے سوال بھی نہیں کرپاتے اور اپنے فقر کو چھپانے کی بھی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا گزارا بہت اچھا ہورہا ہے لیکن حقیقتِ حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اگر کچھ غور سے دیکھا جائے تو ان لوگوں کی زندگی کا مشقت سے بھرپور ہونا بہت سی علامات و قرائن سے معلوم ہوجائے گا۔ ان کے مزاج میں تواضع اور انکسا ری ہوگی ،چہرے پر ضعف کے آثار ہوں گے اور بھوک سے رنگ زرد ہوں گے۔ درس: ہمارے ہاں دین کے اس طرح کے خادموں کی کمی نہیں اور ان کی غربت و محتاجی کے باوجود انہیں مالدار سمجھنے والے ناواقفوں اور جاہلوں کی بھی کمی نہیں۔ شاید ہمارے زمانے کا سب سے مظلوم طبقہ یہی ہوتا ہے۔ اس چیز کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو عالم اس لئے نہیں بناتے کہ یہ کھائیں گے کہاں سے؟ جب اس بات کا علم ہے تو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ جو علماء و خادمینِ دین موجود ہیں وہ کیسے گزارا کر رہے ہوں گے؟ اصحابِ صفہ کی حالت پر مذکورہ آیت مبارکہ کا نزول صرف کوئی تاریخی واقعہ بیان کرنے کیلئے نہیں ہے بلکہ ہمیں سمجھانے، نصیحت کرنے اور ترغیب دینے کیلئے ہے۔ علماء و مُبَلِّغین کی گھروں کی پریشانیاں ختم کردیں پھر دیکھیں کہ دین کا کام کیسی تیزی سے ہوتا ہے۔ سمجھنے کیلئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ان دس نکات کو پڑھ لیں جن میں بار بار علماء کی معاشی حالت سدھارنے کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا: ’’مولانا! روپیہ ہونے کی صورت میں اپنی قوت پھیلانے کے علاوہ گمراہوں کی طاقتیں توڑنا بھی اِنْ شَآءَ اللہ  الْعَزِیز آسان ہوگا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ گمراہوں کے بہت سے افراد صرف تنخواہوں کے لالچ سے زہر اگلتے پھرتے ہیں۔ ان میں جسے دس کی جگہ بارہ دیجئے اب آپ کی سی کہے گا، یا کم از کم بہ لقمہ دوختہ بہ توہوگا۔دیکھئے حدیث کا ارشاد کیسا صادق ہے کہ’’آخر زمانہ میں دین کا کام بھی درہم و دینار سے چلے گا۔(معجم الکبیر، ۲۰ / ۲۷۹، الحدیث: ۶۶۰)

            اور کیوں نہ صادق ہو کہ صادق و مصدوق صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا کلام ہے، عالِم ما کان و مایکون  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خبرہے۔(فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۵۹۹-۶۰۰)

2:274
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(ؔ۲۷۴)
وہ جو اپنے مال خیرات کرتے ہیں رات میں اور دن میں چھپے اور ظاہر (ف۵۸۳) ان کے لئے ان کا نیگ (انعام، حصہ) ہے ان کے رب کے پاس ان کو نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم،

{اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ: وہ لوگ جو اپنے مال خیرات کرتے ہیں۔}  یہاں ان لوگوں کا بیان ہے جو راہِ خدا میں خرچ کرنے کا نہایت شوق رکھتے ہیں اور ہر حال میں یعنی دن رات، خفیہ اعلانیہ خرچ کرتے رہتے ہیں۔ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئی جب آپ نے راہِ خدا میں چالیس ہزار دینار خرچ کئے تھے۔ دس ہزار رات میں اور دس ہزار دن میں اور دس ہزار پوشیدہ اور دس ہزار ظاہر۔      (صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۷۴، ۱ / ۲۳۲)

             ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے حق میں نازل ہوئی، جب آپ کے پاس فقط چار درہم تھے اور کچھ نہ تھا، اور آپ نے ان چاروں کو خیرات کردیا، ایک رات میں ، ایک دن میں ، ایک کو پوشیدہ اور ایک کو ظاہر۔(ابن عساکر، حرف الطاء فی آباء من اسمہ علی، ۴۲ / ۳۵۸)

             آیت ِکریمہ میں رات کے خرچ کو دن کے خرچ سے اورخفیہ خرچ کواعلانیہ خرچ سے پہلے بیان فرمایا ،اس میں اشارہ ہے کہ چھپا کر دینا ظاہر کرکے دینے سے افضل ہے۔ ان سب خرچ کرنے والوں کیلئے بارگاہِ الٰہی سے اجرو ثواب اور قیامت کے دن غم و خوف سے نجات کی بشارت ہے۔

2:275
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵)
وہ جو سود کھاتے ہیں (ف۵۸۴) قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر، جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنادیا ہو (ف۵۸۵) اس لئے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود ہی کے مانند ہے، اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود، تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا، (ف۵۸۶) اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے (ف۵۸۷) اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتو ں رہیں گے (ف۵۸۸)

{اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا: جو لوگ سود کھاتے ہیں۔}  گزشتہ آیات میں مال خرچ کرکے رضائے الٰہی اور جنت کمانے والوں کا بیان تھا، اب اسی مال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا غضب اور جہنم کمانے والوں کا بیان ہے، چنانچہ ان لوگوں کے ایک بڑے طبقے یعنی سود خوروں کا بیان اور انجام اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔

سودکو حرام کئے جانے کی حکمتیں :

            سود کو حرام فرمانے میں بہت سی حکمتیں ہیں ، ان میں سے بعض یہ ہیں کہ سود میں جو زیادتی لی جاتی ہے وہ مالی معاوضے والی چیزوں میں بغیر کسی عوض کے مال لیا جاتا ہے اور یہ صریح ناانصافی ہے ۔سود کی حرمت میں دوسری حکمت یہ ہے کہ سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے کہ سود خور کو بے محنت مال کا حاصل ہونا ،تجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے اور تجارتوں کی کمی انسانی معاشرت کو ضرر پہنچاتی ہے۔ تیسری حکمت یہ ہے کہ سود کے رواج سے باہمی محبت کے سلوک کو نقصان پہنچتا ہے کہ جب آدمی سود کا عادی ہوا تو وہ کسی کو قرض حَسن سے امداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا۔ چوتھی حکمت یہ ہے کہ سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہوتی ہے اور سود خور اپنے مقروض کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی سود میں اور بڑے بڑے نقصان ہیں اور شریعت کی سود سے ممانعت عین حکمت ہے ۔مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے سود دینے والے، لینے والے، اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب لعن آکل الربا ومؤکلہ، ص۸۶۲، الحدیث: ۱۰۶(۱۵۹۸))

              سود خور قیامت میں ایسے مَخبوطُ الحَواس ہوں گے اور ایسے گرتے پڑتے کھڑے ہوں گے ، جیسے دنیا میں وہ شخص جس پر بھوت سوار ہو کیونکہ سود خور دنیا میں لوگوں کے لئے بھوت بنا ہوا تھا۔ آج کل سودی قرضہ لینے دینے کا ابتدائی انداز تو بڑا مُہَذّب ہوتا ہے۔ اچھے اچھے ناموں سے اور خوش کُن ترغیبات سے دیا جاتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد قرض دینے والوں کی خوش اخلاقی، ملنساری اور چہرے کی مسکراہٹ سب رخصت ہوجاتی ہے اور اصل چہرہ بے نقاب ہوجاتا ہے جو گالیاں دے رہا ہوتا ہے، غنڈے بھیج رہا ہوتا ہے، گھر کے باہر کھڑے ہو کر ذلیل و رسوا کررہا ہوتا ہے، دکان، مکان، فیکٹری سب پر قبضہ کرکے فقیر و کنگال اور محتاج و قَلّاش کرکے بے گھر اور بے زر کر رہا ہوتا ہے۔ 

{اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا: تجارت سود ہی کی طرح ہے۔} یہاں سود خوروں کا وہ شبہ بیان کیا جارہا ہے جو زمانۂ اسلام سے پہلے سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے۔ وہ یہ کہ تجارت اور سود میں کیا فرق ہے؟ دونوں ایک جیسے تو ہیں۔ تجارت میں کوئی سامان دے کرنفع حاصل کیا جاتا ہے اور سود میں رقم دے کر نفع حاصل کیا جاتا ہے حالانکہ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔غور کریں کہ تجارت کرنے سے حسنِ سلوک میں فرق نہیں آتا، آدمی سست، کاہل اور مشقت سے جی چرانے والا نہیں بنتا، اپنے مال کو خطرے پر پیش کرتا ہے، نفع ونقصان دونوں کی امید ہوتی ہے، وہ دوسرے کی بربادی و محتاجی کا آرزو مند نہیں ہوتا جبکہ سود والا بے رحم ہوجاتا ہے، وہ مفت میں کسی کو رقم دینے کا تصور نہیں کرتا، انسانی ہمدردی اس سے رخصت ہوجاتی ہے، قرض لینے والا ڈوبے، مرے، تباہ ہو یہ بہر صورت اُسے نچوڑنے پر تُلا رہتا ہے۔ آخر یہ سب فرق کیا ہیں ؟ تجارت اور سود کو ایک جیسا کہنے والے کو کیایہ فرق نظر نہیں آتا؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔

{فَانْتَهٰى: تو جو رک گیا۔} چونکہ سود کا لین دین ایک عرصے سے چلتا آرہا تھا تو فرمایا گیا کہ جب حکمِ الٰہی نازل ہوگیا تو اب اس پر عمل کرتے ہوئے جو آئندہ سود لینے سے باز آگیا تو حرمت کا حکم نازل ہونے سے پہلے جووہ لیتا رہا اس پر اس کی کوئی گرفت نہ ہوگی اور اس کی معافی کا معاملہ بلکہ ہر امر ونہی کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ جو حرمت کا حکم اترنے کے بعد بھی سود کھائے گا تو وہ جہنم کا مستحق ہے اور اگر حلال سمجھ کر کھایا تو کافر ہے، ہمیشہ جہنم میں رہے گا کیونکہ کسی بھی حرامِ قطعی کو حلال جاننے والا کافر ہے۔

2:276
یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶)
اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو (ف۵۸۹) اور بڑھاتا ہے خیرات کو (ف۵۹۰) اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار،

{یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا: اللہ سود کو مٹاتا ہے۔} اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور سود خورکو برکت سے محروم کرتا ہے۔ حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اللہ  تعالیٰ سود خورکا نہ صدقہ قبول کرے، نہ حج، نہ جہاد، نہ رشتے داروں سے حسنِ سلوک۔ (تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۷۶، ۲ / ۲۷۴، الجزء الثالث)

             اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے جبکہ صدقہ و خیرات کو زیادہ کرتا ہے، دنیا میں اس میں برکت پیدا فرماتا ہے اور آخرت میں اس کا اجرو ثواب بڑھاتا ہے چنانچہ اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ(۳۹)‘‘(روم: ۳۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جو تم اللہ کی رضا چاہتے ہوئے زکوٰۃ دیتے ہو تو وہی لوگ (اپنے مال)بڑھانے والے ہیں۔

             اور صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کھجور برابر حلال کمائی سے صدقہ کرے اور اللہ  حلال ہی کو قبول فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس صدقے کو قبول فرماتا ہے پھر اسے اُس کے مالک کے لئے پرورش کرتا ہے جیسے تم میں کوئی اپنے بچھڑے کی تربیّت کرتا ہے یہاں تک کہ وہ صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔  (بخاری، کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیّب، ۱ / ۴۷۶، الحدیث: ۱۴۱۰)

2:277
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۷۷)
بیشک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور نماز قائم کی اور زکوٰة دی ان کا نیگ (انعام) ان کے رب کے پاس ہے، اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو، نہ کچھ غم،

2:278
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو (ف۵۹۱)

{اِتَّقُوا اللّٰهَ: اللہ سے ڈرو۔} اس آیت میں ایمان والے کہہ کر مخاطب کیا اور ایمان کے ایک اہم تقاضے یعنی تقویٰ کا حکم دیا پھر تقویٰ کی روح یعنی حرام سے بچنے کا فرمایا اور حرام سے بچنے میں ایک کبیرہ گناہ سود کا تذکرہ کیا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر سود کے حرام ہونے سے پہلے مقروض پر سود لازم ہو گیا تھا اور اب تک کچھ سود لے لیا تھا اور کچھ باقی تھا کہ یہ سود کے حرام ہونے کا حکم آگیا تو جو سود اس سے پہلے لیا تھا وہ واپس نہ کیا جائے گا لیکن آئندہ بقایا سود نہ لیا جائے گا۔ شانِ نزول: یہ آیت ان اصحاب کے حق میں نازل ہوئی جو سود کی حرمت نازل ہونے سے قبل سودی لین دین کرتے تھے اور ان کی کافی بھاری سودی رقمیں دوسروں کے ذمہ باقی تھیں اس میں حکم دیا گیا کہ سود کی حرمت نازل ہونے کے بعد سابقہ بقیہ سود لینے کی بھی اجازت نہیں۔(خازن،البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۷۸، ۱ / ۲۱۷)

2:279
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹)
پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کرلو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا (ف۵۹۲) اور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہچاؤ (ف۵۹۳) نہ تمہیں نقصان ہو (ف۵۹۴)

{فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: تو اللہ اور اللہ  کے رسول کی طرف سے لڑائی کا یقین کرلو۔} سود کی حرمت کا حکم نازل ہوچکا، اس کے بعد بھی جو سودی لین دین جاری رکھے گا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنگ کا یقین کرلے۔  یہ شدید ترین وعید ہے ،کس کی مجال کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے لڑائی کا تصور بھی کرے چنانچہ جن اصحاب کا سودی معاملہ تھا انہوں نے اپنے سودی مطالبات چھوڑ دئیے اور عرض کیا کہ اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے لڑائی کی ہمیں کیا تاب ۔ یہ کہہ کر وہ تائب ہوگئے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۷۹، ۱ / ۲۱۲)

             لیکن آج کل کے نام نہاد مسلمان دانشوروں کا حال یہ ہے کہ وہ توبہ کی بجائے آگے سے خود اللہ تعالیٰ کو اعلانِ جنگ کررہے ہیں اور سود کی اہمیت و ضرورت پر کتابیں ، آرٹیکل، مضامین اور کالم لکھ کر ورق سیاہ کررہے ہیں۔

 دو گناہوں پر اعلانِ جنگ دیا گیا :

            خیال رہے کہ دو گناہوں پر اعلانِ جنگ دیا گیا ہے۔ (1) سود لینے پر جیسا کہ یہاں آیت میں بیان ہوا۔ (2) اللہ تعالیٰ کے ولی سے عداوت رکھنے پر، جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جو میرے کسی ولی سے عداوت رکھے تو میں نے اس سے جنگ کا اعلان کردیا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع،۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۲)

{وَ اِنْ تُبْتُمْ: اور اگر تم توبہ کرو۔} ارشاد فرمایا کہ اگر تم توبہ کرو تو جو تمہارا اصل دیا ہوا قرض ہے وہ لینا تمہارے لئے جائز ہے اور اس کا مطالبہ کرسکتے ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ سود حرام ہونے سے پہلے جو سود لیا گیا وہ حلال تھا، وہ رقم اصلِ قرض سے نہ کٹے گی بلکہ اب پورا قرض لینا جائز ہوگا۔

{لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ: نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ تمہیں نقصان ہو۔} یعنی نہ تو مقروض سے زیادہ لے کر اس پر تم ظلم کرو اور نہ اصل قرضے کی رقم سے محروم ہوکر خود مظلوم بنو۔

ظلم کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے:

            یہ آیت اگرچہ سود کے حوالے سے ہے لیکن عمومی زندگی میں بھی شریعت اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ نہ ظلم کیا جائے اور نہ ظلم برداشت کیا جائے یعنی ظلم کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ظلم کو برداشت کرنا ظالم کو مزید جَری کرتا ہے۔ ہاں جہاں عَفْو و درگزر کی صورت بنتی ہو وہاں اسے اختیار کیا جائے۔ شریعت کا قاعدہ ہے’’ لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ‘‘ نہ نقصان پہنچاؤ اور نہ نقصان برداشت کرو۔  (ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب من بنی فی حقہ ما یضرّ بجارہ،  ۳ / ۱۰۶، الحدیث: ۲۳۴۰)

2:280
وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ-وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۸۰)
اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک، اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لئے اور بھلا ہے اگر جانو(ف۵۹۵)

{وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ:اور اگر مقروض تنگدست ہو۔} یعنی تمہارے قرضداروں میں سے اگر کوئی تنگ دستی کی وجہ سے تمہارا قرض ادا نہ کر سکے تو اسے تنگ دستی دور ہونے تک مہلت دو اور تمہارا تنگ دست پر اپنا قرض صدقہ کر دینا یعنی معاف کردینا تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اگر تم یہ بات جان لو کیونکہ اس طرح کرنے سے دنیا میں لوگ تمہاری اچھی تعریف کریں گے اور آخرت میں تمہیں عظیم ثواب ملے گا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۸۰، ۱ / ۲۱۸)

قرضدار کو مہلت دینے اور قرضہ معاف کرنے کے فضائل:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرضدار اگر تنگ دست یا نادار ہو تو اس کو مہلت دینا یاقرض کا کچھ حصہ یا پورا قرضہ معاف کردینا اجرِ عظیم کا سبب ہے۔ احادیث میں بھی اس کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں ، چنانچہ ا س کے5فضائل درجِ ذیل ہیں :

(1)… حضرت ابو قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، رسولاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اللہ  تعالیٰ اس کو قیامت کے دن کی تکلیفوں سے نجات دے وہ کسی مُفلِس کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کردے۔(مسلم،کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب فضل انظار المعسر، ص۸۴۵، الحدیث: ۳۲(۱۵۶۳))

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کر دیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عرش کے سائے میں رکھے گا جبکہ اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔(ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء فی انظار المعسر۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۲، الحدیث: ۱۳۱۰)

(3)…حضرت جابر بن عبد اللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو بیچنے اور خریدنے اور تقاضا کرنے میں آسانی کرے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب السہولۃ والسماحہ فی الشراء والبیع، ۲ / ۱۲، الحدیث: ۲۰۷۶ )

(4) حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ گزشتہ زمانے میں ایک شخص کی روح قبض کرنے جب فرشتہ آیا تو مرنے والے سے سوال کیا کہ کیا تجھے اپنا کوئی اچھا کام یاد ہے؟ اس نے کہا، میرے علم میں کوئی اچھا کام نہیں ہے۔ اس سے کہا گیا :غور کر کے بتا۔ اُس نے کہا: صرف یہ عمل تھا کہ دنیا میں لوگوں سے تجارت کرتا تھا اور ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آتا تھا، اگر مالدار بھی مہلت مانگتا تو اسے مہلت دے دیتا تھا اور تنگدست سے درگزر کرتا یعنی معاف کر دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے (فرشتے سے ) فرمایا:تم اس سے در گزر کرو۔(مسند امام احمد، حدیث حذیفۃ بن الیمان، ۹ / ۹۸، الحدیث: ۲۳۴۱۳، مسلم،کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب فضل انظار المعسر، ص۸۴۳، الحدیث: ۲۶(۱۵۶۰))

(5)… اور صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں حاضر اُس معاف کرنے والے، مالدار پر آسانی کرنے اور تنگدست کو مہلت دینے والے شخص سے فرمایا’’ میں تجھ سے زیادہ معاف کرنے کا حقدار ہوں ، اے فرشتو! میرے اس بندے سے درگزر کرو ۔   (مسلم،کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب فضل انظار المعسر، ص۸۴۴، الحدیث: ۲۹(۱۵۶۰))

امامِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاور مجوسی قرضدار:

            امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’منقول ہے کہ ایک مجوسی پر امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا کچھ مال قرض تھا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے قرض کی وصولی کے لئے ا س مجوسی کے گھر کی طرف گئے۔ جب ا س کے گھر کے دروازے پر پہنچے تو (اتفاق سے) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے جوتے پر نجاست لگ گئی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے (نجاست چھڑانے کی غرض سے) اپنے جوتے کو جھاڑا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ا س عمل کی وجہ سے کچھ نجاست اڑ کر مجوسی کی دیوار کو لگ گئی۔ یہ دیکھ کر آپ پریشان ہو گئے اور فرمایا کہ اگر میں نجاست کو ایسے ہی رہنے دوں تو اس سے اُس مجوسی کی دیوار خراب ہو رہی ہے اور اگر میں اسے صاف کرتا ہوں تو دیوار کی مٹی بھی اکھڑے گی ۔ اسی پریشانی کے عالم میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دروازہ بجایا تو ایک لونڈی باہر نکلی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس سے فرمایا: اپنے مالک سے کہو کہ ابو حنیفہ دروازے پر موجود ہے۔ وہ مجوسی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس آیا اور ا س نے یہ گمان کیا کہ آپ اپنے قرض کا مطالبہ کریں گے، اس لئے اس نے آتے ہی ٹال مٹول کرنا شروع کر دی۔ امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس سے فرمایا: مجھے یہاں تو قرض سے بھی بڑا معاملہ در پیش ہے، پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُُنے دیوار پر نجاست لگنے والا واقعہ بتایا اور پوچھا کہ اب دیوار صاف کرنے کی کیا صورت ہے؟ (یہ سن کر) اس مجوسی نے عرض کی :میں (دیوارکی صفائی کرنے کی) ابتداء اپنے آپ کو پاک کرنے سے کرتا ہوں اور اس مجوسی نے اسی وقت اسلام قبول کر لیا۔ (تفسیر کبیر، الفصل الرابع فی تفسیر قولہ: مالک یوم الدین، ۱ / ۲۰۴)

قرض کی ادائیگی کے لئے دعا:

             حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ آپ کے پاس ایک مکاتب غلام آیا اور عرض کی میں اپنی کتابت (کا مال) اداء کرنے سے عاجز آگیا ہوں ، میری کچھ مدد فرمایئے۔آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کیا میں تجھے وہ کلمے نہ سکھادوں جو مجھے رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے سکھائے تھے (اور ان کلمات کی برکت یہ ہے کہ ) اگر تجھ پر پہاڑ برابر بھی قرض ہو تو اللہ تعالیٰ تجھ سے ادا کرا دے ۔تم یہ پڑھا کرو ’’اَللّٰہُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ‘‘ یعنی اے اللہ ! مجھے اپنے حلال کے ذریعے اپنے حرام سے تو کافی ہوجا، اورمجھے اپنی مہربانی سے اپنے سوا سے بے پرواہ کردے۔(ترمذی، احادیث شتی، ۱۱۰- باب، ۵ / ۳۲۹، الحدیث: ۳۵۷۴)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلْبَقَرَة
اَلْبَقَرَة
  00:00



Download

اَلْبَقَرَة
اَلْبَقَرَة
  00:00



Download