Surah al-Baqarah
{یَتْلُوْنَهٗ: وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں۔} حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمانے فرمایا :یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی جوحضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تھے ،ان کی تعداد چالیس تھی، بتیس اہلِ حبشہ اور آٹھ شامی راہب تھے، ان میں بحیر اراہب بھی تھے جنہوں نے بچپن میں سفرِ شام میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو پہچانا تھا۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۱ / ۸۴-۸۵)
آیت کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں توریت شریف پر ایمان لانے والے وہی ہیں جو اس کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں اور بغیر تحریف و تبدیل کئے پڑھتے ہیں اور اس کے معنی کو سمجھتے اور مانتے ہیں اور اس میں حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت دیکھ کر آپ پر ایمان لاتے ہیں اورجو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے منکر ہوتے ہیں وہ توریت پر ایمان نہیں رکھتے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کے بہت سے حقوق بھی ہیں۔ قرآن کا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے، اس سے محبت کی جائے، اس کی تلاوت کی جائے، اسے سمجھا جائے، اس پر ایمان رکھا جائے، اس پر عمل کیا جائے اور اسے دوسروں تک پہنچایا جائے۔ ترغیب کے لئے یہاں ہم تلاوت قرآن کے چند ظاہری اور باطنی آداب ذکر کرتے ہیں تاکہ مسلمان قرآن عظیم کی اس طرح تلاوت کریں جیسا تلاوت کرنے کا حق ہے۔
تلاوت ِ قرآن کے ظاہری آداب:
قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کو درجِ ذیل 6ظاہری چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
(1)… با وضو ہو کر،قبلہ رو ہو کر ،مؤدب ہو کر اور عجز و انکساری کے ساتھ بیٹھے۔
(2)…آہستہ پڑھے اور ا س کے معانی میں غورو فکر کرے ،تلاوت قرآن کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے۔
(3)…دوران تلاوت رونا بھی چاہئے اور اگر رونا نہ آئے رونے جیسی شکل بنا لے ۔
(4)…ہر آیت کی تلاوت کا حق بجالائے ۔
(5)…اگر قراء ت سے ریاکاری کا اندیشہ ہو یا کسی کی نماز میں خلل پڑتا ہو تو آہستہ آہستہ تلاوت کرے۔
(6)…جہاں تک ممکن ہو قرآنِ پاک کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھے۔
تلاوت ِ قرآن کے باطنی آداب:
قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والے کو درجِ ذیل 6باطنی چیزوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔
(1)…قرآنِ مجید کی عظمت دل میں بٹھائے ۔
(2)…قرآنِ مجید پڑھنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں بٹھائے اور خیال کرے کہ یہ کس عظیم ذات کا کلام ہے اور میں کس بھاری کام کے لئے بیٹھا ہوں۔
(3)…قرآنِ کریم کے تلاوت کرتے وقت دل کو حاضر رکھے ،اِدھر اُدھر خیال نہ کرے ،برے خیالات سے دل کو آلودہ نہ کرے اور جو بے خیالی میں پڑھ چکا اسے از سرِ نو توجہ سے پڑھے۔
(4)…ہر حکم کے معنی میں غورو فکر کرے، اگر سمجھ میں نہ آئے تو اسے بار بار پڑھے اور اگر کسی آیت کے پڑھنے سے لذت محسوس ہو تو اسے پھر پڑھے کہ یہ دوبارہ پڑھنا زیادہ تلاوت کرنے سے بہتر ہے۔
(5)…جس طرح آیات کا مضمون تبدیل ہوتا رہے اسی طرح مضمون کے مطابق دل کی کیفیت بھی بدلتی رہے اور قرآن کے رنگ میں رنگتی جائے۔
(6)…قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کرے کہ گویا یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے سن رہا ہے اور خیال کرے کہ ابھی اس ذات کی جانب سے سن رہا ہوں۔(کیمیاء سعادت،کتاب ارکانِ مسلمانی، اصل ہشتم قرآن خواندن، آدابِ تلاوت، ۲۴۱-۲۴۷، ملخصاً)
{یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:اے بنی اسرائیل۔} یہاں سے ایک بار پھر بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائی جا رہی ہیں تاکہ ان پر قائم کی گئی حجت مزید مضبوط ہو جائے۔ اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے:
(1)…نبی کی اولاد ہونا باعث عزت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔
(2)… اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا چرچا کرنا، ذکر کرنا شکر کی ایک قسم ہے۔ لہٰذا حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ولادتِ مبارکہ کا تذکرہ کرنا یا اس کی محفل کرنا اسی قسم میں داخل ہے۔
{اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ: بیشک میں نے تمہیں فضیلت دی۔} بنی اسرائیل اپنے زمانے میں تمام لوگوں سے افضل تھے کیونکہ یہ نبیوں کی اولاد تھے اور ان میں صالحین بہت تھے ،اب حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا انکار کر کے اور سرکشی کر کے ذلیل ہو گئے۔ ا س سے معلوم ہوا کہ عزت حضورا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے قدم سے وابستہ ہے، جو اِن کا ہو گیا عزت پا گیا اورجواِن سے پھر گیا ذلیل ہوگیا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
بخدا خدا کا یہی ہے در ، نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہویہیں آکے ہوجویہاں نہیں وہ وہاں نہیں
{لَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ :نہ کافر کو سفارش نفع دے گی۔} یہاں بنیادی طور پر ان یہودیوں کارد ہے جو کہتے تھے ہمارے باپ دادا بڑے بزرگ تھے وہ ہمیں شفاعت کرکے چھڑا لیں گے۔ انہیں فرمایا جارہا ہے کہ شفاعت کافر کے لیے نہیں ہے۔ گویایہاں کافر کا بیان ہے کہ کافر کی طرف سے کوئی بدلہ نہ بنے گا اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لے کر اسے چھوڑا جائے اور نہ کوئی اس کی شفاعت کرے گا اور بالفرض اگر کوئی کرے تو کافر کے حق میں شفاعت قبول نہیں کی جائے گی اور نہ کافروں کی مدد کی جائےگی۔کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی شفاعت بھی ہوگی جیسے قرآن میں بیسیوں جگہ ہے اور مسلمانوں کی مدد بھی ہوگی جیسے بخاری و مسلم کی حدیثوں میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَقیامت میں جگہ جگہ اپنے امتیوں کی مدد فرمائیں گے۔
{وَ اِذِ ابْتَلٰى: اور جب آزمایا۔} یہود و نصاریٰ اور مشرکینِ عرب سب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے فضل وشرف کے معترف اور آپ کی نسل میں ہونے پر فخر کرتے ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وہ حالات بیان فرمائے ہیں جن سے سب پر اسلام کا قبو ل کرنا لازم ہوجاتا ہے کیونکہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر واجب کیں وہ اسلام کی خصوصیات میں سے ہیں۔ابتلاء آزمائش کو کہتے ہیں ،خدائی آزمائش یہ ہے کہ بندے پر کوئی پابندی لازم فرما کر دوسروں پر اس کے کھرے کھوٹے ہونے کا اظہار کردیا جائے۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آزمائش میں بہت سے شرعی احکام بھی تھے اور راہِ خدا میں آپ کی ہجرت، بیوی بچوں کا بیابان میں تنہا چھوڑنا، فرزند کی قربانی وغیرہ سب شامل ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۱ / ۸۵-۸۶)
آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تمام امتحانوں میں پورا اترے اور اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو لوگوں کا پیشوا بنادیا،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خلیلُ اللہ قرار پائے، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ ہوئے، تمام دینوں میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہوا، سب کے نزدیک محبوب ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شرعی احکام اور تکالیف اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں اور جو اِن آزمائشوں میں پورا اترتا ہے وہ دنیا و آخرت کے انعامات کا مستحق قرار پاتا ہے۔
{لِلنَّاسِ اِمَامًا: لوگوں کیلئے پیشوا۔}یہاں امامت سے مراد نبوت نہیں۔ کیونکہ نبوت تو پہلے ہی مل چکی تھی۔ تب ہی تو آپ کا امتحان لیا گیا بلکہ اس امامت سے مراددینی پیشوائی ہے جیسا کہ جلالین میں اس کی تفسیر’’قُدْوَۃً فِی الدِّینْ یعنی دین میں پیشوائی ‘‘سے کی گئی ہے۔(جلالین مع جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۱ / ۱۵۳)
{وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ: اور میری اولاد میں سے۔} جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو امامت کا مقام عطا فرمایا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اللہ تعالیٰ سے اپنی اولاد کیلئے بھی عرض کیا۔ اس پر فرمایا گیا کہ آپ کی اولاد میں جو ظالم ہوں گے وہ امامت کا منصب نہ پائیں گے۔ کافر ہوئے تو دینی پیشوائی نہ ملے گی اور فاسق ہوئے تو نبوت نہ ملے گی اور قابل ہوئے تو اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے جسے جو چاہے گا عطا فرمائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کافر مسلمانوں کا پیشوا نہیں ہوسکتا اور مسلمانوں کو اس کی اتباع جائز نہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنی اولاد کے لئے دعاء خیر کرنا سنت ِ انبیاء ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کوئی نعمت عطا فرمائے تو اولاد کیلئے بھی اس کی خواہش کرنی چاہیے۔
{وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ: اور جب ہم نے اس گھر کو بنایا۔} بیت سے کعبہ شریف مراد ہے اور اس میں تمام حرم شریف داخل ہے۔ ’’مَثَابَةً‘‘ سے مراد بار بار لوٹنے کی جگہ ہے۔ یہاں مسلمان بار بار لوٹ کر حج و عمرہ وزیارت کیلئے جاتے ہیں اور جو نہ جاسکے وہ اس کی تمنا ضرور کرتے ہیں اور امن بنانے سے یہ مراد ہے کہ حرم کعبہ میں قتل و غارت حرام ہے یا یہ کہ وہاں شکار تک کو امن ہے یہاں تک کہ حرم شریف میں شیر بھیڑیے بھی شکار کا پیچھا نہیں کرتے بلکہ چھوڑ کر لوٹ جاتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ مومن اس میں داخل ہو کر عذاب سے مامون ہوجاتا ہے۔ حرم کو حرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل، ظلم اور شکار حرام و ممنوع ہے، اگر کوئی مجرم بھی داخل ہوجائے تو وہاں اسے کچھ نہ کہا جائے گا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۱ / ۸۷، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ص۷۷، ملتقطاً)
{وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى: اورتم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔} مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے کعبہ معظمہ کی تعمیر فرمائی اور اس میں آپ کے قدم مبارک کا نشان تھا، اسے نماز کا مقام بنانا مستحب ہے ۔ایک قول یہ بھی ہے کہ اس نماز سے طواف کے بعد پڑھی جانے والی دو واجب رکعتیں مراد ہیں۔(بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۱ / ۳۹۸-۳۹۹)
انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبت کی برکت:
اس سے معلوم ہوا کہ جس پتھر کو نبی کی قدم بوسی حاصل ہو جائے وہ عظمت والا ہوجاتا ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعظیم توحید کے منافی نہیں کیونکہ مقام ابراہیم کا احترام تو عین نماز میں ہوتا ہے، لہٰذا عین نماز میں حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تعظیم نماز کو ناقص نہ کرے گی بلکہ کامل بنائے گی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جب پتھر نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قدم لگنے سے عظمت والا ہو گیا تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ازواجِ مطہرات، اہلِ بیت اورصحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عظمت کا کیا کہنا۔ اس سے تبرکات کی تعظیم کا بھی ثبوت ملتا ہے۔بزرگانِ دین کے آثار و تبرکات کی تعظیم اور ان کی زیارت کے سلسلے میں تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود رسالہ ’’بَدْرُ الْاَنْوَارْ فِیْ آدَابِ الآثَارْ(تبرکات کے بارے میں مفید رسالہ)‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
{اَنْ طَهِّرَا: کہ پاک صاف رکھو۔} حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیلعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو بیتُ اللہ شریف کو پاک و صاف رکھنے کا حکم دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ اور مسجد ِحرام شریف کو حاجیوں ، عمرہ کرنے والوں ، طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور نمازیوں کیلئے پاک وصاف رکھا جائے، یہی حکم مسجدوں کو پاک و صاف رکھنے کا ہے، وہاں گندگی اور بدبودار چیز نہ لائی جائے، یہ سنت ِانبیاء ہے، یہ بھی معلوم ہواکہ اعتکاف عبادت ہے اور گزشتہ امتوں میں رائج تھا نیز پچھلی امتوں کی نمازوں میں رکوع سجود دونوں تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجدوں کا متولی ہونا چاہیے اور متولی صالح انسان اور مسجد کی صحیح خدمت کرنے والاہو۔
{وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ: اور جب ابراہیم نے کہا۔}حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تعمیرِکعبہ کے بعد متعدد دعائیں مانگیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نیکی کر کے قبولیت کی دعا کرنا سنَّتِ خلیل ہے۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اولاد کیلئے امامت مانگی تھی تو فرمایا گیا کہ ظالموں کو نہیں ملے گی اس لیے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بعد میں جب یہ دعا کی تو اس میں مومنین کو خاص فرمایاکہ مومنوں کو رزق دے اور یہی ادب کا تقاضا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا، دعا قبول فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ رزق سب کو دیا جائے گا مومن کو بھی اور کافر کو بھی لیکن کافر کا رزق تھوڑا ہے یعنی صرف دنیوی زندگی میں اسے ملے گا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خانہ کعبہ کیلئے رزق کی فراوانی کی دعا مانگی تھی، اُس دعا کی قبولیت ہرشخص اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ دنیا بھر کے پھل اور کھانے یہاں بکثرت ملتے ہیں۔
{وَ اِذْ یَرْفَعُ: اور جب بلند کررہے تھے۔} پہلی مرتبہ خانہ کعبہ کی بنیاد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے رکھی اور طوفانِ نوح کے بعد پھر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اسی بنیاد پر تعمیر فرمایا۔ یہ تعمیر خاص آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دستِ مبارک سے ہوئی، اس کے لیے پتھر اٹھا کر لانے کی خدمت و سعادت حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو میسر ہوئی، دونوں حضرات نے اس وقت یہ دعا کی کہ یارب !عَزَّوَجَلَّ،ہماری یہ طاعت و خدمت قبول فرما۔علامہ قَسْطَلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بخاری کی شرح میں تحریر فرمایا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیردس مرتبہ کی گئی۔(ارشاد الساری، کتاب الحج، باب فضل مکۃ وبنیانھا۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۰۳، تحت الحدیث: ۱۵۸۲)
اسے نقل کرنے کے بعد علامہ سلیمان جملرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ۱۰۳۹ ہجری کے بعد بھی بعض بادشاہوں نے تعمیرِکعبہ کی جیساکہ اسے بعض تاریخ دانوں نے نقل کیا ہے ۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۱ / ۱۶۰)
مسجد تعمیر کرنا اعلیٰ عبادت ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسجدوں کی تعمیر نہایت اعلیٰ عبادت اور انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی سنت ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مسجد ِ نبوی شریف کی تعمیر میں بذاتِ خود حصہ لیا تھا۔(بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الی المدینۃ، ۲ / ۵۹۵، الحدیث: ۳۹۰۶)
مسجد تعمیر کرنے کے فضائل سورۂ توبہ آیت نمبر18کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔
{وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ: اور ہمیں فرمانبردار رکھ۔} سبحان اللہ ،وہ حضرات اللہ تعالیٰ کے مطیع و مخلص بندے تھے پھر بھی یہ دعا اس لیے مانگ رہے ہیں کہ مزید اطاعت و عبادت و اخلاص اور کمال نصیب ہو۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہیں ،آپ کی طرف سے توبہ تواضع یعنی عاجزی ہے اور اللہوالوں کے لیے تعلیم ہے۔ خانہ کعبہ اور اس کا قرب قبولیت کا مقام ہے ،یہاں دعا اور توبہ کرناسنت ِابراہیمی ہے۔
{وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا: اور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے دکھا۔} معلوم ہوا کہ عبادت کے طریقے سیکھنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی سنت ہے۔اس کیلئے دعا بھی کرنی چاہیے اور کوشش بھی۔ بغیر طریقہ سیکھے عبادت کرنا اکثر عبادت کو ضائع کرتا ہے۔حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ ہر مسلمان پر علم سیکھنا فرض ہے۔(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فضل العلماء۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۴۶، الحدیث: ۲۲۴) فرض عبادت کا طریقہ و مسائل سیکھنا بھی اسی میں داخل ہے۔
{رَبَّنَا وَ ابْعَثْ: اے ہمارے رب !اوربھیج۔} حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دُعا سیدِ انبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لیے تھی۔خانہ کعبہ کی تعمیر کی عظیم خدمت بجالانے اور توبہ و استغفار کرنے کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے یہ دعا کی کہ یارب!عَزَّوَجَلَّ، اپنے حبیب ،نبی آخر الزماں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو ہماری نسل میں ظاہر فرما اور یہ شرف ہمیں عنایت فرما۔ یہ دعا قبول ہوئی اور ان دونوں بزرگوں کی نسل میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری ہوئی۔ امام بغوی نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھاحالانکہ حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خمیر تیارہورہا تھا، میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں ،میں دعائے ابراہیم ہوں ،بشارت عیسیٰ ہوں ، اپنی والدہ کے اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھی اور ان کے لیے ایک بلند نورظاہر ہوا جس سے ملک شام کے ایوان اور محلات ان کے لیے روشن ہوگئے۔(شرح السنۃ، کتاب الفضائل، باب فضائل سید الاولین والآخرین محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ۷ / ۱۳، الحدیث: ۳۵۲۰)
اس حدیث میں دعائے ابراہیم سے یہی دعا مراد ہے جو اس آیت میں مذکور ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور آخر زمانہ میں حضور سید الانبیاء محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرمایا ۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۱ / ۹۱) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَانِہٖ
{وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ: اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے ۔} آیت میں کتاب سے مراد قرآن پاک اور اس کی تعلیم سے اس کے حقائق و معانی کا سکھانا مراد ہے۔اور حکمت میں سنت، احکامِ شریعت اور اسرار وغیرہ سب داخل ہیں۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے متعلق بہت سی دعائیں مانگیں جو رب تعالیٰ نے لفظ بلفظ قبول فرمائیں۔ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمومن جماعت میں ، مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے، رسول ہوئے، صاحب ِ کتاب ہوئے، آیات کی تلاوت فرمائی، امت کو کتابُ اللہ سکھائی، حکمت عطا فرمائی، ان کے نفسوں کا تزکیہ کیا، اسرارِ الہٰی پر مطلع کیا ۔
آیت’’وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی بھی شان معلوم ہوئی کہ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جن کو کتاب وحکمت سکھائی اور جنہیں پاک و صاف کیا ان کے اولین مصداق صحابہ ہی تو تھے۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ پورا قرآن آسان نہیں ورنہ اس کی تعلیم کے لئے حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنہ بھیجے جاتے۔ جو کہے کہ قرآن سمجھنا بہت آسان ہے اسے کسی بڑے عالم کے پاس لے جائیں ، پندرہ منٹ میں حال ظاہر ہوجائے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کے ساتھ حدیث کی بھی ضرورت ہے۔ ’’اَلْحِكْمَةَ‘‘ کا ایک معنیٰ سنت بھی کیا گیاہے جیسا کہ مشہور مفسرحضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا کہ حکمت سنت ہی ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۱ / ۹۲)
{وَ یُزَكِّیْهِمْ: اور انہیں خوب پاکیزہ فرمادے۔} ستھرا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ نفس کو گناہوں کی آلودگیوں ، شہوات و خواہشات کی آلائشوں اور ارواح کی کدورتوں سے پاک و صاف کرکے آئینہ دل کو تجلیات و انوارِ الہٰیہ دیکھنے کے قابل کردیں تاکہ اسرارِ الہٰی اور انوارِ باری تعالیٰ اس میں جلوہ گر ہوسکیں۔ تمام غوث، قطب، ابدال،اولیاء ، اصفیاء، صوفیاء، فقہاء و علماء کا تزکیہ اِسی مقدس بارگاہ سے ہوتا ہے۔ اعلی حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
آسمان خوان ، زمین خوان ، زمانہ مہمان
صاحب ِ خانہ لقب کس کا ہے آقا تیرا
{وَ مَنْ یَّرْغَبُ: اور جو منہ پھیرے۔} علماء یہود میں سے حضرت عبداللہبن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسلام لانے کے بعد اپنے دو بھتیجوں مہاجر و سلمہ کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توریت میں فرمایا ہے کہ میں اولادِ اسمٰعیل سے ایک نبی پیدا کروں گا جن کا نام احمد ہوگا ،جو اُن پر ایمان لائے گا وہ کامیاب ہے اور جو ایمان نہ لائے گا وہ ملعون ہے۔یہ سن کر سلمہ ایمان لے آئے اور مہاجر نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ظاہر کردیا کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خود اس رسول معظم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مبعوث ہونے کی دعا فرمائی تو جواُن کے دین سے پھرے وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین سے پھرا۔ اس میں یہود و نصاریٰ اور مشرکینِ عرب پر اشارۃً کلام ہے جو اپنے آپ کوفخر کے طور پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف منسوب کرتے تھے کہ جب یہ لوگ دین ابراہیمی سے پھر گئے تو پھر ان کی عظمت و شرافت کہاں رہی۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۱ / ۱۶۱-۱۶۲)
یہ بھی معلوم ہوا کہ سچے دین کی پہچان یہ ہے کہ وہ سلف صالحین کا دین ہو، یہ حضرات ہدایت کی دلیل ہیں ، اللہ تعالیٰ نے حقانیت اسلام کی دلیل یہاں دی کہ وہ ملت ابراہیمی ہے۔
{اِصْطَفَیْنٰهُ: ہم نے اسے چن لیا۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو رسالت و خُلت کیلئے چن لیا یعنی آپ کواپنا رسول اور خلیل بنایا۔
{وَ وَصّٰى: اور وصیت کی۔} حضرت ابراہیم اورحضرت یعقوب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی اولاد کو دینِ حق پر ثابت قدمی کی وصیت فرمائی۔
اولاد کو صحیح عقائد اور نیک اعمال کی وصیت کرنی چاہئے:
اس سے معلوم ہوا کہ والدین کوصرف مال کے متعلق ہی وصیت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اولاد کو عقائد ِ صحیحہ، اعمالِ صالحہ، دین کی عظمت، دین پر استقامت، نیکیوں پر مداومت اور گناہوں سے دور رہنے کی وصیت بھی کرنی چاہیے۔ اولاد کو دین سکھانا اور ان کی صحیح تربیت کرتے رہنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ جیساکہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں اچھے ادب سکھانے کی کوشش کرو۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب بر الوالد والاحسان الی البنات، ۴ / ۱۸۹-۱۹۰، الحدیث: ۳۶۷۱)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ایک شخص سے فرمایا:’’اپنے بچے کی اچھی تربیت کرو کیونکہ تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ تم نے اس کی کیسی تربیت کی اور تم نے اسے کیا سکھایا۔(شعب الایمان، الستون من شعب الایمان وہو باب فی حقوق الاولاد والاھلین، ۶ / ۴۰۰، الحدیث: ۸۶۶۲)
حضرت ایوب بن موسیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاپنے والد سے اور وہ اپنے داد اسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ کسی باپ نے اپنے بچے کو ایسا عطیہ نہیں دیا جو اچھے ادب سے بہتر ہو۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی ادب الولد، ۳ / ۳۸۳، الحدیث: ۱۹۵۹)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اچھے ادب سے مراد بچے کو دیندار،متقی،پرہیزگار بنانا ہے۔اولاد کے لئے اس سے اچھا عطیہ کیا ہو سکتا ہے کہ یہ چیز دین و دنیا میں کام آتی ہے ۔ماں باپ کو چاہئے کہ اولاد کو صرف مالدار بنا کر دنیا سے نہ جائیں انہیں دیندار بنا کر جائیں جو خود انہیں بھی قبر میں کام آوے کہ زندہ اولاد کی نیکیوں کا ثواب مردہ کوقبر میں ملتا ہے۔(مراٰۃ المناجیح، باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق، الفصل الثانی، ۶ / ۴۲۰، تحت الحدیث: ۴۷۵۶)
نیزوفات کے وقت اپنی اولاد کو صحیح عقائد اور نیک اعمال کی وصیت کرنا ہمارے بزرگان دین کاطریقہ رہا ہے، چنانچہ حضرت عطا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : ’’میں صحابی رسول حضرت ولید بن عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے ملا اور ان سے پوچھا کہ آپ کے والد نے وصال کے وقت کیا وصیت فرمائی؟حضرت ولیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا:
’’(میرے والد نے) مجھے بلا کر فرمایا:’’اے بیٹے! اللہ تعالیٰ سے ڈر اور یہ بات جان لے کہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّسے اس وقت تک ڈرنے والا نہیں بنے گا جب تک اللہ تعالیٰ پر اور ہر خیر و شر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہونے پر ایمان نہ لائے گا اگر تو اس کے خلاف پر مر گیا تو جہنم میں داخل ہو گا۔میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اورپھر فرمایا:’’لکھ۔قلم نے عرض کی: کیا لکھوں ؟ارشاد فرمایا:’’تقدیر کو لکھ جو ہو چکا اورجو ابد تک ہو گا۔(ترمذی، کتاب القدر، ۱۷- باب، ۴ / ۶۲، الحدیث: ۲۱۶۲)
جب حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کے بیٹے حضرت عبد الرحمٰن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :مجھے کچھ وصیت کیجئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:’’میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، زیادہ وقت اپنے گھر میں رہو، اپنی زبان کی حفاظت کرو اور اپنی خطاؤں پر رویا کرو۔(شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان وہو باب فی الخوف من اللہ تعالی، ۱ / ۵۰۳، الحدیث: ۸۴۴)
حضرت علقمہ عطاردی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے بیٹے! جب تمہیں لوگوں کی مجلس اختیار کرنا پڑے تو ایسے آدمی کی صحبت اختیار کر کہ جب تو ا س کی خدمت کرے تو وہ تیری حفاظت کرے،اگر تو ا س کی مجلس اختیار کرے تو وہ تجھے زینت دے،اگر تجھے کوئی مشقت پیش آئے تو وہ برداشت کرے، اس آدمی کی صحبت اختیار کر کہ جب تو بھلائی کے ساتھ اپناہاتھ پھیلائے تو وہ بھی اسے پھیلائے،اگر وہ تم میں کوئی اچھائی دیکھے تو اسے شمار کرے اور اگر برائی دیکھے تو اسے روکے۔اس آدمی سے دوستی اختیار کر کہ جب تو ا س سے مانگے تو وہ تجھے دے اور اگر خاموش رہے تو خود بخود دے،اگر تجھے کوئی پریشانی لاحق ہو تو وہ غمخواری کرے۔اُس آدمی کی صحبت اختیار کرو کہ جب تم بات کہو تو وہ تمہاری بات کی تصدیق کرے ،اگر تم کسی کام کا ارادہ کرو تو وہ اچھا مشورہ دے اور اگر تم دونوں میں اختلاف ہو جائے تو وہ تمہاری بات کو ترجیح دے۔(احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۱۴)
{اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ: کیا تم موجود تھے؟} یہ آیت یہودیوں کے حق میں نازل ہوئی، انہوں نے کہا تھا کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی وفات کے روز اپنی اولاد کو یہودی رہنے کی وصیت کی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بہتان کے رد میں یہ آیت نازل فرمائی ۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۳۳، ۱ / ۹۳)
آیت کے معنی یہ ہیں کہ اے بنی اسرائیل !کیا تمہارے پہلے لوگ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے آخری وقت ان کے پاس موجود تھے جس وقت انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلا کر ان سے اسلام و توحید کا اقرا رلیا تھا اور یہ اقرار لیا تھا جو آیت میں مذکور ہے۔
{وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ: اور تمہارے باپ دادا کے معبود۔} حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آباء یعنی باپوں میں داخل کیا حالانکہ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حقیقی والد نہ تھے۔ یہ اس لیے ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے چچا ہیں اور چچا بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے ذکر فرمانا دووجہ سے ہے، ایک تو یہ کہ آپ حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے چودہ سال بڑے ہیں دوسرا اس لیے کہ آپ سید عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے آباء میں سے ہیں۔
{تِلْكَ اُمَّةٌ: وہ ایک امت ہے۔} جب یہودی دلائل میں عاجز ہو جاتے تو آخر کار کہہ دیتے تھے کہ اگر ہمارے عقائد و اعمال غلط بھی ہوئے تو ہمارے باپ داداؤں کے اعمال ہمارے کام آجائیں گے اور ان سے ہماری نجات ہو جائے گی، ان کی تردید میں یہ آیت آئی کہ وہ سب گزرچکے ۔ان کے اعمال ان کے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے۔ تمہیں ان کے اعمال کام نہ آئیں گے۔اس سے معلوم ہوا کہ آخرت میں اپنے اعمال کام آئیں گے اور اگر عقیدہ خراب ہو تو کسی کو دوسرے کے عمل سے فائدہ نہ ہوگا۔
{كُوْنُوْا: ہوجاؤ۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے فرمایا کہ یہ آیت مدینہ کے یہودی سرداروں اور نجران کے عیسائیوں کے جواب میں نازل ہوئی۔ یہودیوں نے تو مسلمانوں سے یہ کہا تھا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممیں سب سے افضل ہیں اور توریت تمام کتابوں سے افضل ہے اور یہودی دین تمام ادیان سے اعلیٰ ہے، اس کے ساتھ انہوں نے حضرت سید ِکائنات محمد مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انجیل شریف اور قرآن شریف کے ساتھ کفر کرکے مسلمانوں سے کہا تھا کہ یہودی بن جاؤ اسی طرح نصرانیوں نے بھی اپنے ہی دین کو حق بتا کر مسلمانوں سےنصرانی ہونے کو کہا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(روح المعانی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۳۵، ۱ / ۵۳۵-۵۳۶)
{بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰهٖمَ: بلکہ ابراہیم کا دین۔}ارشاد فرمایا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ یہودیوں اور عیسائیوں کو جواب دے دیں کہ جب کسی کی پیروی ضروری ہے تو ہم حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے دین کی پیروی کرتے ہیں جو کہ تمام فضائل کا جامع ہے اور حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہر باطل سے جدا تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔اس میں اشارۃً یہودیوں ،عیسائیوں اور ان تمام لوگوں کا رد کر دیا گیا جو مشرک ہونے کے باوجود ملت ابراہیمی کی پیروی کا دعویٰ کرتے تھے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ابراہیمی بھی کہتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں حالانکہ ابراہیمی وہ ہے جو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین پر ہو اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مشرک نہ تھے جبکہ تم مشرک ہو تو ابراہیمی کیسے ہو گئے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۳۵، ۱ / ۹۴، ملخصاً)
اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے، ایک یہ کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو رب تعالیٰ نے وہ مقبولیت عامہ بخشی ہے کہ ہر دین والا ان کی نسبت پر فخر کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ صرف بڑوں کی اولاد ہونا کافی نہیں جب تک بڑوں کے سے کام نہ کرے۔
{قُوْلُوْا: تم کہو۔}یہاں انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے متعلق چند باتیں یاد رکھیں :
(1)…تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور تمام کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے، جو کسی ایک نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یا ایک کتاب کا بھی انکار کرے وہ کافر ہے، البتہ انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعداد مقرر نہ کی جائے کیونکہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعداد کسی قطعی دلیل سے ثابت نہیں۔
(2)… انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے درجوں میں فرق ہے جیسا کہ تیسرے پارے کے شروع میں ہے مگر ان کی نبوت میں فرق نہیں۔
(3)…انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں فرق کرنے سے منع کیا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ بعض نبیوں کو مانیں اور بعض کا انکار کریں۔
(4)… یہ بھی معلوم ہوا کہ سارے نبی نبوت میں یکساں ہیں ،کوئی عارضی، ظلی یا بروزی نبی نہیں جیسے قادیانی کہتے ہیں بلکہ سب اصلی نبی ہیں۔
{بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ: تمہارے ایمان کی طرح۔} یہودیوں کو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی طرح ایمان لانے کا فرمایا،اس سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ایمان بارگاہِ الہٰی میں معتبر اور دوسروں کیلئے مثال ہے۔
{فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ: تو عنقریب اللہتمہیں ان کی طرف سے کفایت فرمائے گا۔} یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذمہ ہے کہ وہ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غلبہ عطا فرمائے گا اور اس میں غیب کی خبربھی ہے کہ آئندہ حاصل ہونے والی فتوحات کا پہلے سے اظہار فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ ذمہ پورا ہوا اور یہ غیبی خبر صادق ہو کر رہی، کفار کے حسد و دشمنی اور ان کی مکاریوں سے حضورپر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو کوئی ضرر نہ پہنچا۔ حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو فتح نصیب ہوئی، بنی قُرَیْظَہ قتل ہوئے جبکہ بنی نَضِیْر جلا وطن کئے گئے اوریہود ونصاریٰ پر جزیہ مقرر ہوا۔
{صِبْغَةَ اللّٰهِ: اللہ کا رنگ۔}جس طرح رنگ کپڑے کے ظاہر وباطن میں سرایت کرجاتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ کے دین کے سچے عقائد ہمارے رگ و پے میں سما گئے ہیں ،ہمارا ظاہر و باطن اس کے رنگ میں رنگ گیا ہے۔ہمارا رنگ ظاہری رنگ نہیں جو کچھ فائدہ نہ دے بلکہ یہ نفوس کو پاک کرتا ہے۔ ظاہر میں اس کے آثار ہمارے اعمال سے نمو دار ہوتے ہیں۔ عیسائیوں کا طریقہ تھا کہ جب اپنے دین میں کسی کو داخل کرتے یا ان کے یہا ں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو پانی میں زرد رنگ ڈال کر اس میں اس شخص یا بچہ کو غوطہ دیتے اور کہتے کہ اب یہ سچا عیسائی ہوگیا ۔اس کا اس آیت میں رد فرمایا کہ یہ ظاہری رنگ کسی کام کا نہیں۔
{اَتُحَآجُّوْنَنَا: کیا تم ہم سے جھگڑتے ہو۔} یہودیوں نے مسلمانوں سے کہا کہ ہم پہلی کتاب والے ہیں ، ہمارا قبلہ پرانا ہے، ہمارا دین قدیم ہے، انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہم میں سے ہوئے ہیں لہٰذا اگر محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نبی ہوتے تو ہم میں سے ہی ہوتے ۔اس پر یہ آیت ِمبارکہ نازل ہوئی، (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۳۹، ۱ / ۹۶، روح المعانی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۳۹، ۱ / ۵۴۲، ملتقطاً)
اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ذریعے ان سے فرمایا گیا کہ ہمارا اور تمہارا سب کا رب اللہ تعالیٰ ہے ،اسے اختیار ہے کہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے نبی بنائے، عرب میں سے ہو یا دوسروں میں سے۔
{وَ نَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَ: اور ہم خالص اسی کے ہیں۔}یعنی ہم کسی دوسرے کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں کرتے اور عبادت و طاعت خالص اسی کے لئے کرتے ہیں تو عزت کے مستحق ہیں۔نیز خالص اللہ تعالیٰ کا وہی ہوتا ہے جو اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ہو جائے اورجو رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا ہو گیا وہ اللہ تعالیٰ کا ہو گیا۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ(النساء: ۸۰)
ترجمۂکنزالعرفان: جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں :
جو کہ اس در کا ہواخلقِ خدا اس کی ہوئی
جو کہ اس در سے پھرا اللہ ہی سے پھر گیا
{اَمْ تَقُوْلُوْنَ: کیا تم کہتے ہو۔} یہودی کہتے تھے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یہودی تھے اورعیسائی کہتے تھے کہ عیسائی تھے ان کی تردید میں یہ آیت اتری کہ یہودیت و عیسائیت تو ان کے بعد دنیا میں آئیں وہ کیسے اس دین پر ہوئے؟
{وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون؟}اللہ تعالیٰ کی گواہی کو چھپانے والا بڑا ظالم ہے اور یہ یہودیوں کا حال ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی شہادتیں چھپائیں جو توریت شریف میں مذکور تھیں کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اس کے نبی ہیں اور ان کے یہ اوصاف ہیں اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مسلمان ہیں اورد ینِ مقبول اسلام ہے نہ کہ یہودیت و نصرانیت۔ اب بھی بہت سے لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں لیکن حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کی آیتوں کو چھپاتے ہیں ، اور انہیں عوام کے سامنے بیان نہیں کرتے۔
{تِلْكَ اُمَّةٌ:وہ ایک امت ہے۔}اس آیت میں یہودیوں کو ایک بار پھر تنبیہ کی گئی کہ تم اپنے اسلاف کی فضیلت پر بھروسہ نہ کرو کیونکہ ہر ایک سے اسی کے اعمال کی پوچھ گچھ کی جائے گی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۱، ۱ / ۹۶)
اس میں ان مسلمانوں کے لئے بھی نصیحت ہے جو اپنے ماں باپ یا پیرو مرشد وغیرہ کے نیک اعمال پر بھروسہ کر کے خود نیکیوں سے دور اور گناہوں میں مصروف ہیں۔
{سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ:اب بیوقوف لوگ کہیں گے۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی کہ جب بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ کو قبلہ بنایا گیا تو اس پر انہوں نے اعتراض کیا کیونکہ یہ تبدیلی انہیں ناگوار تھی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت مکہ کے مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی کہ جب قبلہ تبدیل ہوا تو انہوں نے آپس میں کہا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اپنے دین کے بارے میں تَرَدُّد کا شکار ہیں اور ابھی تک ان کے دل میں اپنی ولادت گاہ یعنی مکہ مکرمہ کا اشتیاق موجود ہے ،لہٰذاجب انہوں نے تمہارے شہر کی طرف توجہ کر لی ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے دین کی طرف بھی لوٹ آئیں۔تیسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ انہوں نے اسلام کا مذاق اڑاتے ہوئے قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض کیا تھا۔ چوتھا قول یہ ہے کہ یہ آیت مشرکین ، منافقین اور یہودی تینوں کے بارے میں ہوسکتی ہے کیونکہ قبلہ کی تبدیلی پر طعن و تشنیع کرنے میں سب شریک تھے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۱ / ۹۶)
اس آیت ِ مبارکہ میں غیب کی خبر بھی ہے کہ پہلے سے فرمادیا گیا کہ بیوقوف و جاہل لوگ قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض کریں گے ،چنانچہ ویسا ہی واقع ہوا کہ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔
{اَلسُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ:بیوقوف لوگ ۔}قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض کرنے والوں کو بے وقوف اس لیے کہا گیا کہ وہ ایک واضح بات پراعتراض کررہے تھے کیونکہ سابقہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نبی آخر الزماں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے خصائص میں آپ کا لقب’’ ذُوالْقِبْلَتَیْنْ‘‘ یعنی دو قبلوں والا ہونا بھی ذکر فرمایا تھا اور قبلہ کی تبدیلی تو اس بات کی دلیل تھی کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی پہلے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خبر دیتے آئے ہیں تو صداقت کی دلیل کو تسلیم کرنے کی بجائے اسی پر اعتراض کرنا حماقت ہے اس لئے انہیں بے وقوف کہاگیا ،جیسے کوئی دھوپ کے روشن ہونے کو سورج کے طلوع ہونے کی دلیل بنانے کی بجائے ، طلوع نہ ہونے کی دلیل بنائے تو اسے بیوقوف کے سوا اور کیا کہا جائے گا۔
دینی مسائل پر بے جا اعتراضات کرنے والے بیوقوف ہیں :
اس آیت میں بیت المقدس کے بعد خانہ کعبہ کو قبلہ بنائے جانے پر اعتراض کرنے والوں کو بیوقوف کہا گیا،اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دینی مسائل کی حکمتیں نہ سمجھ سکے اور ان پر بے جا اعتراض کرے وہ احمق اور بیوقوف ہے اگرچہ دنیوی کاموں میں وہ کتنا ہی چالاک ہو۔ آج کل بھی ایسے بیوقوفوں کی کمی نہیں ہے چنانچہ موجودہ دور میں بھی مسلمان کہلا کر شراب، سود، پردے، حیا ، اسلامی نظامِ وراثت اور حدود ِ اسلام پر اعتراضات کرنے والے لوگ موجود ہیں اور ایسے افراد قرآن مجید کے حکم کے مطابق بیوقوف ہیں۔
{مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا:اِن مسلمانوں کو اِن کے اُس قبلے سے کس نے پھیر دیا جس پر یہ پہلے تھے؟}قبلہ اس جہت کو کہتے ہیں جس کی طرف انسان منہ کرتا ہے اور چونکہ مسلمانوں کو خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے کاحکم دیا گیا ہے اس لئے خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ ہے۔
خانہ کعبہ اور بیت المقدس کن زمانوں میں قبلہ بنے:
یاد رہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک کعبہ ہی قبلہ رہا، پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک بیت المقدس قبلہ رہا اور مسلمان بھی مدینہ منورہ میں آنے کے بعد تقریباً سولہ ، سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور اس کے بعد نماز ظہر کی ادائیگی کے دوران مسجد ِقِبْلَتَین میں قبلہ کی تبدیلی کا واقعہ ہوا۔ نیزیہ بھی یاد رہے کہ حج ہمیشہ کعبہ ہی کا ہوا ہے، بیت المقدس کا حج کبھی نہیں ہوا ۔
{قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ: تم فرمادو: مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے۔} قبلہ پر اعتراض کرنے والے تمام لوگوں کو ایک ہی جواب دیا کہ انہیں کہہ دو :مشرق و مغرب سب اللہ تعالیٰ کاہے، اسے اختیار ہے جسے چاہے قبلہ بنائے، کسی کو اعتراض کا کیا حق ہے؟ بندے کا کام فرمانبرداری کرناہے ۔ گویا فرمایا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دو : ہم مشرق و مغرب کے پجاری نہیں کہ سمتوں پر اڑے رہیں بلکہ ہم تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرنے والے ہیں ، وہ جدھر منہ کرنے کا ہمیں حکم فرمائے ہم ادھر ہی منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اور پڑھتے رہیں گے۔
{وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا: اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا ۔} یعنی اے مسلمانو! جس طرح ہم نے تمہیں ہدایت دی اور خانہ کعبہ کو تمہارا قبلہ بنایا اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت زمانہ کے لحاظ سے سب سے پیچھے ہے اور مرتبہ کے لحاظ سے سب سے آگے یعنی افضل ہے۔ افضل کیلئے یہاں ’’وسط‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور عربی میں ’’ بہترین ‘‘کیلئے بھی ’’وسط‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
{لِتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ: تاکہ تم گواہ ہوجاؤ۔} مسلمان دنیا و آخرت میں گواہ ہیں ،دنیا میں تو اس طرح کہ مسلمان کی گواہی مومن و کافر سب کے بارے میں شرعاً معتبر ہے اور کافر کی گواہی مسلمان کے خلاف معتبر نہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ کے فضل سے مُردوں کے حق میں بھی اس امت کی گواہی معتبر ہے اوررحمت و عذاب کے فرشتے اس کے مطابق عمل کرتے ہیں ، چنانچہ بخاری شریف میں حضرت انس بن مالکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو انہوں نے اس کی تعریف کی ۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ واجب ہوگئی ۔پھر دوسرا جنازہ گزرا تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس کی برائی بیان کی۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’واجب ہوگئی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دریافت کیا : یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا چیز واجب ہو گئی ؟ارشاد فرمایا: پہلے جنازے کی تم نے تعریف کی ،اُس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور دوسرے کی تم نے برائی بیان کی، اُس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو ۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت، ۱ / ۴۶۰، الحدیث: ۱۳۶۷)
اورآخرت میں اس امت کی گواہی یہ ہے کہ جب تمام اولین و آخرین جمع ہوں گے اور کفار سے فرمایا جائے گا کہ کیا تمہارے پاس میری طرف سے ڈرانے او راحکام پہنچانے والے نہیں آئے؟ تو وہ انکار کریں گے اور کہیں گے کہ کوئی نہیں آیا۔ حضراتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے دریافت فرمایا جائے گا تووہ عرض کریں گے کہ یہ جھوٹے ہیں ، ہم نے انہیں تبلیغ کی ہے ۔ اس بات پر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے کافروں پرحجت قائم کرنے کیلئے دلیل طلب کی جائے گی، وہ عرض کریں گے کہ امت ِمحمدِیَّہ ہماری گواہ ہے۔ چنانچہ یہ امت پیغمبروں کے حق میں گواہی دے گی کہ ان حضرات نے تبلیغ فرمائی۔ اس پر گزشتہ امت کے کفار کہیں گے، امت محمدیہ کو کیا معلوم؟ یہ توہم سے بعدمیں آئے تھے۔ چنانچہ امت محمدیہ سے دریافت فرمایا جائے گاکہ’’ تم کیسے جانتے ہو ؟ وہ عرض کریں گے، یارب! عَزَّوَجَلَّ،تو نے ہماری طرف اپنے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھیجا ،قرآن پاک نازل فرمایا، ان کے ذریعے سے ہم قطعی ویقینی طور پر جانتے ہیں کہ حضراتِ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کامل طریقے سے فرضِ تبلیغ ادا کیا، پھر سید الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے آپ کی امت کے متعلق دریافت فرمایا جائے گا توحضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان کی تصدیق فرمائیں گے۔(بغوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱ / ۳۸)
زبان کی احتیاط نہ کرنے کا نقصان:
یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ تمام گواہیاں امت کے صالحین اور اہلِ صدق حضرات کے ساتھ خاص ہیں اور ان کے معتبر ہونے کے لیے زبان کی نگہداشت شرط ہے ،جو لوگ زبان کی احتیاط نہیں کرتے اور بے جا خلاف ِشرع کلمات ان کی زبان سے نکلتے ہیں اور ناحق لعنت کرتے ہیں صحیح حدیثوں کے مطابق روزِ قیامت نہ وہ شفاعت کریں گے اور نہ وہ گواہ ہوں گے ۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النہی عن لعن الدواب وغیرہا، ص ۱۴۰۰، الحدیث: ۸۵(۲۵۹۸))
{وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا: رسول تم پر گواہ ہوں گے۔} علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی گواہی یہ ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے اور اس کے دین کی حقیقت پر مطلع ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماس چیز سے واقف ہیں جو کسی کا دینی رتبہ بڑھنے میں رکاوٹ ہے،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکولوگوں کے گناہ معلوم ہیں ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَان کے ایمان کی حقیقت،اعمال، نیکیاں ، برائیاں ،اخلاص اورنفاق وغیرہ کو نورِ حق سے جانتے ہیں۔ (روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱ / ۲۴۸)
ایسا ہی کلام شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی تفسیر ’’فَتْحُ الْعَزِیْز‘‘ میں بھی ذکر فرمایا ہے۔
یاد رہے کہ ہر نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو ان کی امت کے اعمال پر مطلع کیا جاتا ہے تاکہ روزِ قیامت ان پر گواہی دے سکیں اور چونکہ ہمارے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شہادت سب امتوں کوعام ہوگی اس لیے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہیں۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی قطعی و حتمی ہے:
یہ بات حقیقت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی قطعی و حتمی ہے۔ ہمارے پاس قرآن کے کلام الہٰی ہونے کی سب سے بڑی دلیل حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی ہے اور جیسے یہ گواہی قطعی طور پر مقبول ہے اسی طرح حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی دنیا میں اپنی امت کے حق میں مقبول ہے ،لہٰذا حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے زمانہ کے حاضرین کے متعلق جو کچھ فرمایا مثلاً: صحابۂ کرام ، ازواجِ مطہرات اور اہلِ بیت ِکرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے فضائل و مناقب یا غیر موجود لوگوں جیسے حضرت اویس قرنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یا بعدوالوں کے لیے جیسے حضرت امام مہدیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ کیلئے جو کچھ فرمایا ان سب کو تسلیم کرنا لازم ہے۔
{لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ : تاکہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے۔} قبلہ کی تبدیلی کی ایک یہ حکمت ارشاد ہوئی کہ اس سے مومن و کافر میں فرق و امتیاز ہوجائے گا کہ کون حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حکم پر قبلہ تبدیل کرتا ہے اور کون آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کرتا ہے۔ چنانچہ قبلہ کی تبدیلی پر بہت سے کمزور ایمان والے اسلام سے پھر گئے، منافقین نے اسلام پر اعتراض شروع کر دئیے جبکہ پختہ ایمان والے اسلام پر قائم رہے۔(تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۹۰)
{وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً : اگرچہ یہ تبدیلی بڑی گراں ہے۔} قبلہ کی تبدیلی کو کاملُ الایمان لوگوں نے تو بڑی خوشدلی سے قبول کیا لیکن منافقوں پر یہ تبدیلی بڑی گراں گزری۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم معلوم ہونے کے بعد قبول کرنے سے دل میں تنگی محسوس کرنا منافقت کی علامت ہے۔ہمارے معاشرے میں بھی لوگوں کی ایک تعداد ایسی ہے جن میں یہ مرض بڑی شدت اختیار کئے ہوئے ہے اور اسی مرض کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا ان کے لئے بہت دشوار ہو چکا ہے حالانکہ کامل مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ جب اسے اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم معلوم ہو جائے تو وہ اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے اوراپنے نفس سے اٹھنے والی وہ آواز وہیں دبا دے جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے معاملے میں اسے روک رہی ہو یا ا س کے دل میں تنگی پیدا کر رہی ہو۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔
{وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ: اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کردے ۔} قبلہ کی تبدیلی یہودیوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی اور یہ طرح طرح سے مسلمانوں کو اس کے خلاف بھڑکانے کی کوششیں کر رہے تھے،چنانچہ کچھ یہودیوں نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نمازوں کے بارے میں مسلمانوں کے سامنے چند اعتراضات کئے اور بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے زمانہ میں جن صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے وفات پائی ان کی نمازوں کے درست ہونے پر مسلمانوں سے دلیل مانگی تو ان کے رشتہ داروں نے تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے ان کی نمازوں کا حکم دریافت کیا کہ وہ نمازیں ہوئیں یا نہیں ؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اوراِنہیں اطمینان دلایا گیا کہ ان صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہم کی نمازیں ضائع نہیں ہوئیں ، ان پر انہیں ثواب ملے گا۔یاد رہے کہ اس آیت مبارکہ میں ایمان سے مراد نماز ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱ / ۹۸، ملخصاً)
اصل الاصول چیز نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی پیروی ہے:
قبلہ کی تبدیلی سے پہلے مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے جتنی نمازیں پڑھی تھیں انہیں صحیح قرار دیا گیا، کیونکہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے جو نمازیں پڑھی گئیں وہ بھی اتباعِ رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیں ہی تھیں اور اب جوخانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں یہ بھی اطاعت ِ رسول میں پڑھتے ہیں لہٰذا ان سب کی نمازیں درست ہیں۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور کوئی اس وقت خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے وہ بھی مردود ہے اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَخانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور کوئی اس وقت بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھے وہ بھی مردود ہے کہ اصلُ الاصول چیز تو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اتباع ہے۔ اسی کو فرمایا:
لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تاکہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
ثابت ہو اکہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نماز کی بہت اہمیت ہے کہ قرآن میں اسے ایمان فرمایا گیا ہے کیونکہ اسے اداکرنا اور باجماعت پڑھنا کامل ایمان کی دلیل ہے۔حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’کفرا ور ایمان کے درمیان فرق نما زکا چھوڑنا ہے۔(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی ترک الصلاۃ، ۴ / ۲۸۱، الحدیث: ۲۶۲۷)
حضرت بُریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان عہد نماز ہی ہے،جس نے اسے چھوڑا تو ا س نے کفر کیا۔(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی ترک الصلاۃ، ۴ / ۲۸۱، الحدیث: ۲۶۳۰)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اسلام کی نشانی نماز ہے،تو جس نے نماز کے لئے دل کو فارغ کیا اور نماز کے تمام ارکان و شرائط،اس کے وقت اور اس کی سنتوں کے ساتھ اس پر مداومت کی تو وہ(کامل) مؤمن ہے۔(کنز العمال، حرف الصاد، کتاب الصلاۃ، الباب الاول، الفصل الاول، ۴ / ۱۱۳، الجزء السابع، الحدیث: ۱۸۸۶۶)
{قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِ: بیشک ہم تمہارے چہرے کا آسمان کی طرف باربار اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔} جب حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو انہیں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اسی طرف منہ کر کے نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں۔ البتہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے قلب اطہر کی خواہش یہ تھی کہ خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیاجائے، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ بیت المقدس کو قبلہ بنایاجانا حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کوناپسند تھا بلکہ ا س کی ایک وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے علاوہ کثیر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاقبلہ تھا اور ایک وجہ یہ تھی بیت المقدس کی طرف منہ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے یہودی فخر و غرور میں مبتلاء ہو گئے اور یوں کہنے لگے تھے کہ مسلمان ہمارے دین کی مخالفت کرتے ہیں لیکن نماز ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں۔ چنانچہ ایک دن نماز کی حالت میں حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اس امید میں باربار آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم آجائے، اس پر نماز کے دوران یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی رضا کو رضائے الٰہی قرار دیتے ہوئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے چہرہ انور کے حسین انداز کو قرآن میں بیان کرتے ہوئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خواہش اور خوشی کے مطابق خانہ کعبہ کو قبلہ بنادیا گیا۔ چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنماز ہی میں خانہ کعبہ کی طرف پھر گئے، مسلمانوں نے بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ اسی طرف رُخ کیا اورظہر کی دو رکعتیں بیت المقدس کی طرف ہوئیں اور دو رکعتیں خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئیں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رضا بہت پسند ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رضاکو پورا فرماتا ہے۔ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی وجہ سے قبلہ تبدیل فرما یا اور اس آیت میں یوں نہیں فرمایا کہ ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس میں میری رضا ہے بلکہ یوں ارشاد فرمایا:
فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو ضرور ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیردیں گے جس میں تمہاری خوشی ہے۔
توگویا کہ ارشاد فرمایا: ’’اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہر کوئی میری رضا کا طلبگار ہے اور میں دونوں جہاں میں تیری رضا چاہتا ہوں۔ (تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۸۲)
اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بلاشبہہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہیں اور بلاشبہہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کوئی بات اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف نہیں فرماتے اور بلاشبہہ اللہ تعالیٰ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی رضاچاہتا ہے۔ (جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو) اللہ تعالیٰ کا حکم یہ تھا کہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے ، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تابع فرمان تھے اور یہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی تھی مگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا قلب اقدس یہ چاہتا تھا کہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے ،اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مرضی مبارک کے لئے اپنا وہ حکم منسوخ فرمادیا اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ جو چاہتے تھے قیامت تک کے لئے وہ ہی قبلہ مقرر فر مادیا، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رضاجوئی ہے، ان میں سے جس کا انکار ہو گا تو وہ قرآن عظیم کا انکار ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کرتی ہیں ’’مَا اُرٰی رَبَّکَ اِلَّا یُسَارِعُ فِی ہَوَاکَ‘‘ میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھتی ہوں کہ وہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خواہش پوری کرنے میں جلدی فرماتا ہے۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب ترجی من تشاء منہن۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۰۳، الحدیث: ۴۷۸۸)
حدیثِ روز محشر میں ہے ،ربعَزَّوَجَلَّ اولین وآخرین کو جمع کرکے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے فرمائے گا:’’کُلُّھُمْ یَطْلُبُوْنَ رِضَائِیْ وَاَنَااَطْلُبُ رِضَاکَ یَامُحَمَّدْ‘‘یہ سب میری رضاچاہتے ہیں اور اے محبوب! میں تمہاری رضا چاہتا ہوں۔( فتاوی رضویہ،۱۴ / ۲۷۵-۲۷۶، ملخصاً)
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
نیز جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خوشی کیلئے تا قیامت کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیا،اسی طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خوشی کیلئے آپ کی امت پر پچاس نمازوں کو کم کرکے پانچ فرض کی گئیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خوشی کیلئے بدر و حنین میں فرشتے اترے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خوشی کیلئے معراج کی سیر کرائی گئی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خوشی کیلئے امتیو ں کے گناہ معاف ہوں گے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خوشی کیلئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو حوضِ کوثر عطا ہوا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خوشی کے لئے امتیوں کی نیکیوں کے پلڑے بھاری ہوں گے، پل صراط سے سلامتی سے گزریں گے اور جنت میں داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى (الضحی:۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
تو جو چاہے تو ابھی میل میرے دل کے دھلیں
کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا تیرا
اور فرماتے ہیں :
رضاؔ پل سے اب وجد کرتے گزریے
کہ ہے رَبِّ سَلِّمْ صَدائے محمد
{وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ: اور اے مسلمانو!تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرلو۔}یعنی اے مسلمانو! تم زمین کے جس حصے میں بھی ہواور وہاں نماز پڑھنے لگو تو اپنا منہ خانہ کعبہ کی طرف کر لو۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۸۴)
استقبالِ قبلہ سے متعلق چند ضروری مسائل:
اس آیت میں مسلمانوں کو قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیاگیا، اس لئے یہاں نماز میں استقبالِ قبلہ سے متعلق چند مسائل ذکر کئے جاتے ہیں :
(1) … نما زمیں کعبہ شریف کی طرف منہ کرنا شرط ہے۔
(2)…جو شخص عین کعبہ کی سمت ِ خاص معلوم کر سکتا ہے،اگرچہ کعبہ آڑ میں ہو جیسے مکہ معظمہ کے مکانوں میں جب کہ مثلاً چھت پر چڑھ کر کعبہ کو دیکھ سکتے ہیں تو عین کعبہ کی طرف منہ کرنا فرض ہے، جہت(کی طرف منہ کرنا) کافی نہیں اور جو شخص عین کعبہ کی سمت ِخاص معلوم نہیں کر سکتا اگرچہ وہ خاص مکہ معظمہ میں ہو اس کے لئے کعبہ کی جہت کی طرف منہ کرنا کافی ہے۔
(3) …کعبہ کی جہت کی طرف منہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ منہ کی سطح کا کوئی جز کعبہ کی سمت میں واقع ہو ۔
(4)…اگر کسی شخص کو کسی جگہ قبلہ کی شناخت نہ ہو ،نہ کوئی ایسا مسلمان ہو جو بتا دے،نہ وہاں مسجدیں محرابیں ہیں ،نہ چاند ، سورج، ستارے نکلے ہوں یا نکلے تو ہوں مگر اس کو اتنا علم نہیں کہ ان سے قبلہ کی سمت معلوم کر سکے،تو ایسے کے لئے حکم ہے کہ وہ سوچے اور جدھر قبلہ ہونا دل پر جمے ادھر ہی منہ کرے،اس کے حق میں وہی قبلہ ہے۔ (بہار شریعت، نماز کی شرطوں کا بیان، ۱ / ۴۸۷-۴۸۹)
مزید تفصیل کے لئے بہار شریعت کے تیسرے حصے کا مطالعہ کریں۔
{لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ: وہ ضرور جانتے ہیں کہ یہ تبدیلی ان کے رب کی طرف سے حق ہے۔} یعنی قبلہ کی اس تبدیلی کے بارے میں اہلِ کتاب جانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق ہے کیونکہ ان کی کتابوں میں حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اوصاف کے سلسلہ میں یہ بھی مذکور تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پھریں گے اور ان کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بشارتوں کے ساتھ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی یہ نشانی بتائی تھی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بیت المقدس اور کعبہ دونوں قبلوں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں گے۔
{وَ لَىٕنْ اَتَیْتَ:اور اگر تم لے آؤ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،جن اہل کتاب کے دلوں میں عناد اور سرکشی ہے ،آپ ان کے پاس قبلہ کی تبدیلی کے معاملے میں اپنی سچائی پر دلالت کرنے والی ہر نشانی لے آئیں تو بھی وہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے کیونکہ ان کا آپ کی پیروی نہ کرنا کسی شبہے کی وجہ سے نہیں جسے دلیل بیان کر کے زائل کیا جا سکے بلکہ وہ آپ سے عناد رکھنے اور حسد کرنے کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں حالانکہ وہ اپنی کتابوں میں موجود آپ کی یہ شان جانتے ہیں کہ (قبلہ کی تبدیلی کے معاملے میں ) آپ حق پر ہیں۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۱ / ۲۵۱-۲۵۲، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ص۸۵، ملتقطاً)
حسد انسان کو حق سے اندھا کر دیتا ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ حسد بڑی خبیث شے ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے آدمی حق سے اندھا ہوجاتا ہے اور جس کے سینہ میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا کینہ ہے وہ اس کے ہوتے ہوئے تو کبھی مرکر بھی ہدایت نہیں پاسکتا، ایسے شخص کوقرآن وحدیث ،معجزات اورعقلی و نقلی دلائل کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتے کیونکہ دل کا دروازہ کھلتا ہی تب ہے جب حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بارے میں دل صاف ہو اور جس کا دل ہی ا س چیز سے صاف نہ ہو تو اسے ہدایت کس طرح مل سکتی ہے۔
{وَ مَاۤ اَنْتَ بِتَابِـعٍ قِبْلَتَهُمْ: اور نہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرو۔}اس آیت میں یہودیوں کے قبلے کی پیروی سے منع کیا گیا ،اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اب قبلہ منسوخ نہ ہوگا لہٰذا اہل کتاب کو اب یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان میں سے کسی کے قبلہ کی طرف رخ کریں گے۔
{وَ مَا بَعْضُهُمْ بِتَابِـعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ:اور وہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے قبلہ کے تابع نہیں ہیں۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اہل کتاب آپ کی مخالفت کرنے میں تو متفق ہیں لیکن قبلہ کے معاملے میں یہ خود بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور جس طرح ان سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ آپ سے متفق ہو جائیں اسی طرح ان کے آپس میں متفق ہونے کی بھی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ص۸۵)
یاد رہے کہ یہود و نصاریٰ دونوں بیت المقدس کو قبلہ مانتے ہیں مگر یہودی صَخرہ کو اور عیسائی اس کے مشرقی مکان کو قبلہ مانتے ہیں۔(تفسیر عزیزی (مترجم)، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۲ / ۸۶۱-۸۶۲)
{وَ لَىٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ: اور اگر تو ان کی خواہشوں پر چلا۔} یہ امت کو خطاب ہے کہ خانہ کعبہ کے قبلہ ہونے کے بعد اگر کسی نے بیت المقدس کو قبلہ بنایا تو وہ ظالم ہے ۔
عالم کا گناہ زیادہ خطرناک ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ عالم کا گناہ جاہل کے گناہ سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہاں بطورِ خاص علم کے بعد نافرمانی پر وعید بیان کی گئی ہے۔ حضرت زیاد بن حُدَیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’ کیا جانتے ہو کہ اسلام کو کیا چیز ڈھاتی (یعنی اسلام کی عزت لوگوں کے دل سے دور کرتی) ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:’’ اسلام کو عالم کی لغزش، منافق کا قرآن میں جھگڑنا اور گمراہ کن سرداروں کی حکومت تباہ کرے گی۔(دارمی، باب فی کراہیۃ اخذ الرأی، ۱ / ۸۲، الحدیث: ۲۱۴)
اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : ’’جب علماء آرام طلبی کی بنا پر کوتاہیاں شروع کردیں ، مسائل کی تحقیق میں کوشش نہ کریں اور غلط مسئلے بیان کریں ،بے دین علماء کی شکل میں نمودار ہو جائیں ، بدعتوں کو سنتیں قرار دیں ،قرآن کریم کو اپنی رائے کے مطابق بنائیں اور گمراہ لوگوں کے حاکم بنیں اور لوگوں کو اپنی اطاعت پر مجبور کریں تب اسلام کی ہیبت دلوں سے نکل جائے گی جیسا کہ آج ہورہا ہے۔ بعض نے فرمایا کہ عالم کی لغزش سے مراد ان کا فسق و فجور میں مبتلا ہوجانا ہے ۔(مراٰ ۃ المناجیح، کتاب العلم، الفصل الثالث، ۱ / ۲۱۱، تحت الحدیث: ۲۵۰)
عالم کا جاہلوں کی خوشامد کرنا تباہی کا باعث ہے؟
نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ عالم کا جاہلوں کی خوشامد کرنا اور ان کا تابع بن جانا تباہی کا باعث ہے ۔ علماء کو امراء سے دور ہی رہنا چاہیے تاکہ ان کی خوشامد نہ کرنی پڑے۔ حضرت عبد اللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے، رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا کہ’’ میری امت کے کچھ لوگ دین سیکھیں گے اور قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے کہ ہم امیروں کے پاس جائیں گے اوران کی دنیا لے آئیں گے البتہ اپنا دین بچالیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکے گا جیسے ببول کے درخت سے کانٹے ہی چنے جاتے ہیں ایسے ہی امیروں کے قرب سے نقصان ہی ہوگا ۔(ابن ماجہ، کتاب السنۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ۱ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۵۵)
{یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ: وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔} مراد یہ ہےکہ گزشتہ آسمانی کتابوں میں نبی آخر الزماں ، حضور سید عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اوصاف ایسے واضح اور صاف بیان کیے گئے ہیں جن سے علماء اہل کتاب کو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے خاتَم الانبیاء ہونے میں کچھ شک و شبہ باقی نہیں رہ سکتا اور وہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اس منصب ِعالی کو کامل یقین کے ساتھ جانتے ہیں۔ یہودی علماء میں سے حضرت عبداللہبن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مشرف باسلام ہوئے تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے دریافت کیا کہ اس آیت میں جو معرفت بیان کی گئی ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اے عمر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، میں نے حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو دیکھا تو بغیر کسی شک و شبہ کے فوراً پہچان لیا اور میرا حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو پہچاننا اپنے بیٹوں کو پہچاننے سے زیادہ کامل و مکمل تھا۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا، وہ کیسے؟ انہوں نے کہا کہ سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اوصاف توہماری کتاب توریت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں جبکہ بیٹے کو بیٹا سمجھنا تو صرف عورتوں کے کہنے سے ہے۔ (یعنی حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی پہچان تو اللہ تعالیٰ نے کرائی لہٰذا وہ تو قطعی و یقینی ہے جبکہ اولاد کی پہچان تو عورتوں کے کہنے سے ہوتی ہے۔) حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ سن کر ان کا سر چوم لیا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۱ / ۱۰۰)
اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیرِ محلِ شہوت میں دینی محبت سے پیشانی چومنا جائز ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی صرف پہچان ایمان نہیں بلکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو ماننا ایمان ہے۔جیسے یہودی پہچانتے توتھے لیکن مانتے نہ تھے اس لئے کافر ہی رہے۔
{وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ:اور بیشک ان میں ایک گروہ حق چھپاتے ہیں۔} اہلِ کتاب علماء کا ایک گروہ توریت و انجیل میں مذکورحضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نعت و صفت کو اپنے بغض و حسد کی وجہ سے جان بوجھ کر چھپاتا تھا، یہاں انہی کابیان ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ حق کو چھپانا معصیت و گناہ ہے اورحضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عظمت و شان کو چھپانا یہودیوں کا طریقہ ہے۔
{اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ: حق وہی ہے جو تیرے رب کی طرف سے ہو۔} قبلہ کی تبدیلی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لہٰذا حق ہے تو اس میں شک نہ کیا جائے۔ یونہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا ہر حکم حق ہے اگرچہ اس کی حکمت ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے لیکن حق وہی ہوگا اور مسلمان کا کام اسے ماننا اور اس پر عمل کرناہے، کسی بھی طرح کے حالا ت میں اس میں شک کرنے کی گنجائش نہیں۔
{وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ: اور ہر ایک کے لئے توجہ کی ایک سمت ہے ۔} اس آیت میں تبدیلی قبلہ کی ایک اور حکمت بیان کی گئی ہے کہ ہر امت کیلئے ایک قبلہ مقرر کیا گیا تو جب امت ِ محمدِیَّہ ایک امت ہے اور سب سے افضل امت ہے تو ان کے خصوصی امتیاز کیلئے ان کا قبلہ دوسروں سے جداگانہ بنایا گیااوراس میں خصوصیت یہ ہے کہ ان کایہ قبلہ ہمیشہ کے لئے رہے گا کبھی تبدیل نہ ہو گا۔
{فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ: تو نیکیوں میں آگے نکل جاؤ۔} یعنی قبلہ کا موضوع طے ہوگیا لہٰذا اب صرف اسی بحث میں نہ رہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت اور دین کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔
مقابلہ کس چیز میں کرنا چاہئے:
یہاں آیت ِ مبارکہ میں ایک بڑی ہی پیاری بات سمجھائی گئی ہے کہ مال و دولت، عہدہ و منصب ، شہرت و مقبولیت اور دنیاداری ایسی چیز نہیں کہ اس میں ایک دوسرے سے مقابلہ کیا جائے بلکہ یہ سب تو آزمائش اور محض دنیاوی زندگی کی زینت، دھوکے کا سامان اور فنا ہونے والی کمائی ہے، جبکہ باقی رہنے والی اور مقابلے کے قابل چیز تو اللہ تعالیٰ کی عبادت،اس کی اطاعت، جنت اور اس کی رضاہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے بار بار بلایا ہے۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرت میں نیکیوں میں مقابلے اور سبقت لے جانے کے بکثرت نظارے دیکھے جا سکتے ہیں جیسے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غزوہ تَبوک میں گھر کا آدھا مال خیرات کرنے کیلئے لائے تو حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گھر کا سارا سامان لے آئے۔(شرح الزرقانی، کتاب المغازی، ثم غزوۃ تبوک، ۴ / ۶۹)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں باپ بیٹے میں جہاد میں شرکت کیلئے بحث ہوتی، ہر کوئی کہتا کہ میں شرکت کروں گا تم گھر پر رہو، حتی کہ معذور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی راہِ خدا میں شہادت کیلئے بے قرار رہتے۔(مدار ج النبوہ، کارزارہائے صحابہ در جنگ احد، الجزء الثانی، ص۱۲۴)
غربت و بے کسی کی وجہ سے راہِ خدا میں سفر نہ کرسکنے والے روتے تھے۔( توبہ: ۹۲)ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اگر آدھی رات عبادت کرتا تو دوسرا پوری رات، ایک اگرتہائی قرآن کی تلاوت کرتا تو دوسرا آدھے قرآن کی ۔ اللہتعالیٰ ہمیں بھی نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی توفیق اور جذبہ عطا فرمائے۔ [1]
{اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا:تم جہاں کہیں بھی ہوگے۔} یعنی اے مسلمانو اور اہل کتاب !تم جہاں کہیں بھی ہو گے ،قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تم سب کو اکٹھا کر لائے گا اور وہ اطاعت گزار بندوں کو ثواب دے گا اور نافرمانوں کو عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہرشے پر قدرت رکھنے والا ہے تو وہ مخلوق کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے ،اطاعت گزاروں کو ثواب دینے اور سزا کے مستحق افراد کو عذاب دینے پر بھی قادر ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۱ / ۱۰۱)
[1]۔۔۔نیکیوں کا جذبہ پانے کے لئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں سفر بے حد مفید ہے۔
{وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ: اور تم جہاں سے آؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ خواہ کسی شہر سے سفر کے لیے نکلیں بہرحال نماز میں اپنا منہ مسجد حرام ( یعنی کعبہ) کی طرف کریں ، کیونکہ جس طرح حالت اقامت میں کعبہ کی طرف منہ کرنے کاحکم ہے اسی طرح سفرمیں بھی یہی حکم ہے اور بے شک کعبہ کو قبلہ بنایا جانا ضرور آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے حق اور حکمت کے عین موافق ہے اور اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ، اس لئے وہ تمہیں اس عمل کی بہترین جزا دے گا۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۹، ۱ / ۲۵۴)
{وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ: اور تم جہاں سے آؤ۔}اس رکوع میں تین مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں کو مسجد حرام یعنی کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ،اس سے بظاہر ایسالگتا ہے کہ یہ تکرا ر ہے لیکن در حقیقت یہ تکرار نہیں کیونکہ ہر بار کے حکم کی علت جدا ہے ، پہلی بار جب نماز میں مسجد حرام کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس کی علت یہ بیان ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی رضا جوئی کے لئے مسجد حرام کو قبلہ بنایا اورنماز میں ا س کی طرف منہ کرنے کاحکم دیا۔دوسری مرتبہ جب مسجد حرام کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ہرامت کا الگ الگ قبلہ بنایا ہے جس کی طرف منہ کر کے وہ نماز پڑھتے ہیں ، اور جب امت ِمحمدِیَّہ بھی ایک امت ہے تو ان کا قبلہ مسجد حرام کو بنایا اور اس کی طرف منہ کر کے انہیں نماز پڑھنے کا حکم دیاگیا۔تیسری مرتبہ جب یہ حکم دیاگیا تو اس کی یہ علت بیان فرمائی کہ قبلہ کے معاملے میں یہودی مسلمانوں کے خلاف حجت قائم نہ کر سکیں۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۲ / ۱۱۹، ملخصاً)
{وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ: اور اے مسلمانو!تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو ۔} اس آیت میں مجموعی طور لوگوں سے فرما دیا گیا کہ تم حالت ِ سفر میں ہو یا حالت ِ اقامت میں ، جنگل و بیابان میں ہو یا شہر میں ، ہر جگہ ہر حالت میں اور ہر وقت تم سب نے نماز میں خانہ کعبہ ہی کی طرف منہ کرنا ہے تاکہ یہودیوں کو اس اعتراض کا حق نہ رہے کہ ان کی کتابوں میں تو قبلہ کی تبدیلی کالکھا ہوا تھا لیکن اِس نبی نے تو ایسا کیا ہی نہیں ،یا وہ یہ اعتراض نہ کرسکیں کہ یہ نبی ہمارے دین کی تو مخالفت کرتے ہیں لیکن قبلہ ہمارے والا ہی مانتے ہیں اور مشرکین کو یہ اعتراض کرنے کا موقع نہ ملے کہ نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے قریش کی مخالفت میں حضرت ابراہیم اور حضرت ا سمٰعیلعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قبلہ بھی چھوڑ دیا حالانکہ نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَان کی اولاد میں سے ہیں اور ان کی عظمت و بزرگی مانتے بھی ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۱ / ۱۰۱)
{ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ: مگر جو ان میں ناانصافی کریں۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے توحجت پوری ہوچکی، اب بھی اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو وہ خود ظالم ہے۔ یاد رہے کہ دین کی راہ میں طعنے سننا انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت رہی ہے۔
{فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِیْ: تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔}اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیاجا رہا ہے کہ تم کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی وجہ سے کفار کی طرف سے ہونے والے اعتراضات سے نہ ڈرو،ان کے طعنے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور تم میرے حکم کو پورا کرنے کے معاملے میں مجھ سے ڈرو اور میرے حکم کی مخالفت نہ کرو، بے شک میں تمہارا مددگار ہوں۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۱ / ۲۵۵)
اللہتعالیٰ کا عذاب ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہئے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ انسان کو ہر وقت اللہتعالیٰ کا عذاب پیش نظر رکھنا چاہئے اور کسی بھی کام کو کرنے یا نہ کرنے سے پہلے ا س بات پر غور ضرور کر لینا چاہئے کہ یہ کام کرنے یا نہ کرنے سے اللہتعالیٰ کی رضاحاصل ہو گی یا اس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔مروی ہے کہ جب حضرت معاذبن جبلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رونے لگے ۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کس چیز نے رُلایا ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:’’اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم! میں نہ تو موت کی گھبراہٹ سے رو رہاہوں اور نہ ہی دنیا سے رخصتی کے غم میں آنسو بہا رہا ہوں ،بلکہ میں تو اس لئے روتا ہوں کہ میں نے حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے سنا کہ دو مٹھیاں ہیں ، ایک جہنم میں جائے گی اور دوسری جنت میں۔ اور مجھے نہیں معلوم کہ میں کون سی مٹھی میں ہوں گا۔(شعب الایمان، الحادی عشرمن شعب الایمان وہو باب فی الخوف من اللہ تعالٰی، ۱ / ۵۰۲، الحدیث: ۸۴۱)
حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ’’قیامت کے دن ان لوگوں کا حساب آسان ہوگا جو آج دنیا میں اللہتعالیٰ کی رضا کے لئے اپنا مُحاسبہ کرتے ہیں ، وہ اس طرح کہ انہیں جب بھی کوئی کام درپیش ہو تو پہلے اس پر غور کرتے ہیں ،پھر اگر وہ کام اللہتعالیٰ کی رضاکے لئے ہوتواسے کرگزرتے ہیں اور اگر اس کے برخلاف نظر آئے تو اس سے رک جاتے ہیں۔پھر فرمایا: ’’اور بروزِ قیامت ان لوگوں کا حساب کٹھن ہوگا جو آج دنیا میں عمل کرتے وقت غوروفکر نہیں کرتے اور کسی قسم کا محاسبہ کئے بغیر وہ کام کر ڈالتے ہیں۔ ایسے لوگ دیکھیں گے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کا چھوٹے سے چھوٹا عمل شمار کر رکھا ہے ۔پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا (کہف:۴۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اورکہیں گے: ہائے ہماری خرابی! اس نامہ اعمال کو کیاہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے۔(ذم الہوی، الباب الثالث فی ذکر مجاہدۃ النفس ومحاسبتہا وتوبیخہا، ص۵۱، رقم: ۱۲۲-۱۲۳)
{وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْكُمْ: اور تاکہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کروں۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مسلمانو! جس طرح اللہتعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تمہارا رسول بنایاجو کہ تمہارے سامنے حق کی طرف ہدایت دینے والی آیتیں تلاوت فرماتے ہیں ،رشد و ہدایت کے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ،اللہتعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عظیم قدر ت پر قطعی دلائل قائم کرتے ہیں ،تمہیں بت پرستی کی نجاست سے پاک کرتے ہیں اورتمہیں وہ چیز سکھاتے ہیں جن سے تم اپنے نفسوں کو پہچان سکو اور ان کا تَزکِیہ کر سکو، اسی طرح مستقل طور پر تمہارے لئے بیتُ اللہکو قبلہ بنا دیا تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی نعمت پوری کرے۔(تفسیر منیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۱ / ۳۳، الجزء الثانی)
گویا جیسے مسلمانوں کا نبی جداگانہ تھا ایسے ہی ان کا قبلہ بھی جداگانہ ہو گیا۔
{كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ: جیساکہ ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجا۔} خانہ کعبہ کی تبدیلی اللہتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت تھی اب اس سے بڑی نعمت یعنی حضور سیدالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا بیان ہے۔ جیسے خانہ کعبہ کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے نسبت ہے ایسے ہی ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبت ہے۔ کعبہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعمیر کا نتیجہ ہے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ا س تعمیر کے بعد کی دعا کا ثمرہ ہیں۔
اللہتعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت:
یاد رہے کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔ حضوراقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اللہ تعالیٰ خود اپنا احسان قرار دیتا ہے جیسے فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا(ال عمران: ۱۶۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا۔
اور وہ رسول بھی کیسے ہیں ؟ قرآن ، علمِ قرآن، فہمِ قرآن، اسرارِ قرآن، حکمت ، طہارتِ نفس، تزکیہ قلب، اصلاحِ ظاہر و باطن اور دنیاو آخرت کی ساری بھلائیاں دینے والے ہیں۔ اسی تطہیر و تزکیہ کو ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا۔(التوبہ:۱۰۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔
{وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ: اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں۔} قرآن اور احکامِ الٰہیہ جو ہم نہیں جانتے تھے وہ تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہمیں سکھاتے ہیں۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسب کچھ سکھاتے ہیں:
اور حقیقت یہ ہے کہ صرف ظاہری مضامینِ قرآن اور اللہ تعالیٰ کے احکام ہی نہیں بلکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سب کچھ سکھاتے ہیں۔ کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اولین و آخرین کے علوم کے جامع ہیں۔ قصیدہ بُردہ میں امام بُوصیری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
فَاقَ النَّبِیِّیْنَ فِیْ خَلْقٍ وَّ فِیْ خُلُقٍ
وَلَمْ یُدَانُوْہٗ فِیْ عِلْمٍ وَّلَا کَرَمٖ
یعنی آپ حسن و جمال اور اخلاق میں تمام نبیوں پر فائق ہیں اور علم و کرم میں کوئی آپ کے برابر نہیں۔
بخاری شریف میں حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ایک مرتبہ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ہم کو(مخلوق کی) ابتداء ِپیدائش کی خبریں دینے لگے حتیّٰ کہ یہاں تک بیان کیا کہ جنتی لوگ اپنی منزلوں میں پہنچ گئے اور جہنمی اپنی منزلوں میں ،جس نے یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا۔ (یعنی تمام کائنات کی خبریں ارشاد فرمادیں۔)(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللہ تعالی: وہو الذی یبدء الخلق۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۷۵، الحدیث: ۳۲۹۲)
حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ہر قول و فعل میں وہ علم و حکمت ہے کہ دنیا آج تک وہ تمام علم و حکمت معلوم نہیں کرسکی۔
{فَاذْكُرُوْنِیْ: تو تم میری یاد کرو۔} کائنات کی سب سے بڑی نعمت حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر کرنے کے بعد اب ذکر ِ الہٰی اور نعمت الہٰی پر شکر کرنے کا فرمایا جارہا ہے۔
ذکر کی ا قسام:
ذکر تین طرح کا ہوتا ہے: (۱)زبانی ۔(۲)قلبی۔(۳) اعضاء ِبدن کے ساتھ ۔زبانی ذکر میں تسبیح و تقدیس، حمدوثناء،توبہ واستغفار، خطبہ و دعا اور نیکی کی دعوت وغیرہ شامل ہیں۔قلبی ذکر میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا، اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی عظیم قدرت کے دلائل میں غور کرناداخل ہے نیز علماء کاشرعی مسائل میں غور کرنا بھی اسی میں داخل ہے۔ اعضاء ِبدن کے ذکر سے مراد ہے کہ اپنے اعضاء سے اللہتعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے بلکہ اعضاء کو اطاعتِ الہٰی کے کاموں میں استعمال کیا جائے۔(صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۱ / ۱۲۸)
بکثر ت احادیث میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 10 احادیث کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
(1)…اللہ کا ذکرایمانِ کامل کی نشانی ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث معاذ بن جبل، ۸ / ۲۶۶، الحدیث: ۲۲۱۹۱)
(2)…ذکراللہ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی پانے کا ذریعہ ہے۔(مشکاۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب القصد فی العمل، الفصل الثانی، ۱ / ۲۴۵، الحدیث: ۱۲۵۰)
(3)…ذکرِ الہٰی عذابِ الہٰی سے نجات دلانے والا ہے۔(مؤطا امام مالک، کتاب القرآن، باب ما جاء فی ذکر اللہ تبارک وتعالٰی، ۱ / ۲۰۰، الحدیث: ۵۰۱)
(4)…ذکر کرنے والے قیامت کے دن بلند درجے میں ہوں گے۔(شرح السنّہ، کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ عزوجلّ ومجالس الذکر، ۳ / ۶۷، الحدیث: ۱۲۳۹)
(5)…ذکر کے حلقے جنت کی کیاریاں ہیں۔(ترمذی، کتاب الدعوات، ۸۲-باب، ۵ / ۳۰۴، الحدیث: ۳۵۲۱)
(6)…ذکر کرنے والوں کوفرشتے گھیر لیتے اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی القوم یجلسون۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۴۶، الحدیث: ۳۳۸۹)
(7)… شب قدر میں اللہکا ذکر کرنے والے کو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام دعائیں دیتے ہیں۔( شعب الایمان، الباب الثالث والعشرون، فی لیلۃ العید ویومہما، ۳ / ۳۴۳، الحدیث: ۳۷۱۷)
(8)…ذکر کرنے والوں کی صحبت میں بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔(مسند امام احمد، مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند ابی ہریرۃ، ۳ / ۵۶، الحدیث: ۷۴۲۸)
(9)… اللہکا ذکر کرنے سے شیطان دل سے ہٹ جاتا ہے۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ قل اعوذ برب الناس، ۳ / ۳۹۵)
(10)…اللہکے ذکر سے دل کی صفائی ہوتی ہے۔(مشکاۃ المصابیح، کتاب الدعوات، باب ذکر اللہ عزوجل والقرب الیہ، الفصل الثالث، ۱ / ۴۲۷، الحدیث: ۲۲۸۶)
{اَذْكُرْكُمْ: میں تمہیں یاد کروں گا۔} اللہتعالیٰ اطاعت سے یاد کرنے والوں کو اپنی مغفرت کے ساتھ، شکر کے ساتھ یاد کرنے والوں کو اپنی نعمت کے ساتھ، محبت کے ساتھ یاد کرنے والوں کواپنے قرب کے ساتھ یاد فرماتا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے گمان کے نزدیک ہوتا ہوں جو مجھ سے رکھے اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ، اگر بندہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اکیلا ہی یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں ا سے بہتر مجمع میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں گز بھراس سے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں دونوں ہاتھو ں کے پھیلاؤ کے برابر اس سے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں (یعنی جیسے اللہ کی شایانِ شان ہے یا مراد یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اس کی طرف زیادہ تیزی سے متوجہ ہوتی ہے۔)(بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: ویحذرکم اللہ نفسہ، ۴ / ۵۴۱، الحدیث: ۷۴۰۵)
{وَ اشْكُرُوْا لِیْ: اور میرا شکر کرو۔} جب کفرکا لفظ شکر کے مقابلے میں آئے تو اس کا معنی نا شکری اور جب اسلام یا ایمان کے مقابل ہو تو اس کا معنی بے ایمانی ہوتا ہے۔ یہاں آیت میں کفرسے مراد ناشکری ہے۔
شکر کا مطلب ہے کہ کسی کے احسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کی جائے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :یااللہ! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں کہ میرا شکر کرنا بھی تو تیری ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جب تو نے یہ جان لیا کہ ہرنعمت میری طرف سے ہے اور اس پر راضی رہا تو یہ شکر ادا کرنا ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الصبر والشکر، الشطر الثانی، بیان طریق کشف الغطاء ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۰۵)
شکر کے فضائل اور ناشکری کی مذمت:
قرآن و حدیث میں شکر کے کثیر فضائل بیان کئے گئے اور ناشکری کی مذمت کی گئی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘(ابراہیم: ۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
اور حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’جب اللہتعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ کہتا ہے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ‘‘ تو یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے نعمت دینے سے بہتر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہتعالیٰ جب کسی قوم سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کی عمر دراز کرتا ہے اور انہیں شکر کا الہام فرماتا ہے۔(فردوس الاخبار، باب الالف، جماع الفصول منہ فی معانی شتی۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۴۸، الحدیث: ۹۵۴)
حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :اللہتعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہتعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، ۳ / ۵۵۵، رقم: ۹۳)
شکر سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر7کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اے ایمان والو۔} اس سے پہلی آیات میں ذکر اور شکر کا بیان ہوا اور اس آیت میں صبر اور نماز کا ذکر کیا جا رہا ہے کیونکہ نماز ، ذکراللہاور صبر و شکر پر ہی مسلمان کی زندگی کامل ہوتی ہے ۔اس آیت میں فرمایا گیا کہ صبر اور نماز سے مدد مانگو ۔ صبر سے مدد طلب کرنا یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی، گناہوں سے رکنے اور نفسانی خواہشات کو پورا نہ کرنے پر صبر کیا جائے اور نماز چونکہ تمام عبادات کی اصل اوراہل ایمان کی معراج ہے اور صبر کرنے میں بہترین معاون ہے اس لئے اس سے بھی مدد طلب کرنے کا حکم دیاگیا اور ان دونوں کا بطور خاص اس لئے ذکر کیاگیا کہ بدن پر باطنی اعمال میں سب سے سخت صبر اور ظاہری اعمال میں سب سے مشکل نمازہے ۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۳، ۱ / ۲۵۷، ملخصاً)
حضورسید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بھی نماز سے مدد چاہتے تھے جیساکہ حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو جب کوئی سخت مہم پیش آتی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نماز میں مشغول ہوجاتے ۔( ابو داؤد، کتاب التطوع، باب وقت قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اللیل، ۲ / ۵۲، الحدیث: ۱۳۱۹)
اسی طرح نماز اِستِسقا اور نمازِحاجت بھی نماز سے مدد چاہنے ہی کی صورتیں ہیں۔
{اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ: بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔} حضرت علامہ نصر بن محمد سمرقندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اللہتعالیٰ (اپنے علم و قدرت سے) ہر ایک کے ساتھ ہے لیکن یہاں صبر کرنے والوں کا بطور خاص اس لئے ذکر فرمایا تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات دور کر کے آسانی فرمائے گا۔(تفسیر سمرقندی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۳، ۱ / ۱۶۹)
صبر کی تعریف :
اس آیت میں صبر کا ذکر ہوا ،صبر کا معنی ہے نفس کو ا س چیز پر روکنا جس پر رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو یا نفس کو اس چیز سے باز رکھنا جس سے رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو۔(مفردات امام راغب، حرف الصاد، ص۴۷۴)
صبر کی اقسام:
بنیادی طور پر صبر کی دو قسمیں ہیں : (۱)…بدنی صبر جیسے بدنی مشقتیں برداشت کرنا اور ان پر ثابت قدم رہنا (۲)…طبعی خواہشات اور خواہش کے تقاضوں سے صبر کرنا۔ پہلی قسم کا صبر جب شریعت کے موافق ہو توقابل تعریف ہوتا ہے لیکن مکمل طور پر تعریف کے قابل صبر کی دوسری قسم ہے۔ (احیاء العلوم، کتاب الصبر والشکر، بیان الاسامی التی تتجدد للصبر۔۔۔الخ، ۴ / ۸۲)
صبر کے فضائل:
قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے اقوال میں صبر کے بے پناہ فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ترغیب کے لئے ان میں سے 10فضائل کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(1)… اللہتعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (پ ۱۰، الانفال: ۴۶)
(2)…صبر کرنے والے کو اس کے عمل سے اچھا اجر ملے گا۔(پ۱۴، النحل: ۹۶)
(3)… صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر ملے گا۔ (پ۲۳، الزمر: ۱۰)
(4)…صبر کرنے والوں کی جزاء دیکھ کر قیامت کے دن لوگ حسرت کریں گے۔(معجم الکبیر، ۱۲ / ۱۴۱، الحدیث: ۱۲۸۲۹)
(5)…صبر کرنے والے رب کریم عَزَّوَجَلَّکی طرف سے درودو ہدایت اور رحمت پاتے ہیں۔ (پ۲، البقرۃ: ۱۵۷)
(6)… صبر کرنے والے اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں۔(پ۴، آل عمران: ۱۴۶)
(7)… صبر آدھا ایمان ہے۔(مستدرک، کتاب التفسیر، الصبر نصف الایمان، ۳ / ۲۳۷، الحدیث: ۳۷۱۸)
(8)… صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الصبر والشکر، بیان فضیلۃ الصبر، ۴ / ۷۶)
(9)…صبر کرنے والے کی خطائیں مٹا دی جاتی ہیں۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۷)
(10)…صبر ہر بھلائی کی کنجی ہے۔(شعب الایمان، السبعون من شعب الایمان، فصل فی ذکر ما فی الاوجاع۔۔۔ الخ، ۷ / ۲۰۱، رقم: ۹۹۹۶)
غیر خدا سے مدد طلب کرنا شرک نہیں :
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو اکہ غیر خدا سے مدد طلب کرنا شرک نہیں ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’خدارا انصاف ! اگر آیۂ کریمہ’’ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ میں مطلق استعانت کا ذات ِالٰہی جَلَّ وَعَلا میں حصر مقصود ہو تو کیا صرف انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہی سے استعانت شرک ہوگی، کیا یہی غیر خدا ہیں ، اور سب اشخاص واشیاء وہابیہ کے نزدیک خدا ہیں یا آیت میں خاص انہیں کا نام لے دیا ہے کہ ان سے شرک اوروں سے روا ہے۔ نہیں نہیں ، جب مطلقا ًذات اَحَدِیَّت سے تخصیص اور غیر سے شرک ماننے کی ٹھہری تو کیسی ہی استعانت کسی غیر خدا سے کی جائے ہمیشہ ہر طرح شرک ہی ہوگی کہ انسان ہوں یا جمادات ، اَحیاء ہوں یا اموات، ذوات ہوں یاصفات، افعال ہوں یا حالات، غیر خدا ہونے میں سب داخل ہیں ، اب کیاجواب ہے آیۂ کریمہ کا کہ رب جَلَّ وَعَلا فرماتاہے:
’’وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ‘‘(البقرۃ: ۴۵)
استعانت کرو صبر ونماز سے۔
کیا صبر خدا ہے جس سے استعانت کا حکم ہوا ہے؟ کیا نماز خدا ہے جس سے استعانت کو ارشاد کیا ہے۔ دوسری آیت میں فرماتاہے:
’’وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى‘‘(مائدہ:۲)
آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو بھلائی اور پرہیزگاری پر۔
کیوں صاحب! اگرغیر خدا سے مددلینی مطلقاً محال ہے تو اس حکم الٰہی کا حاصل کیا، اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مل سکتی ہے اس سے مدد مانگنے میں کیا زہرگھل گیا۔ حدیثوں کی تو گنتی ہی نہیں بکثرت احادیث میں صاف صاف حکم ہے کہ (۱) صبح کی عبادت سے استعانت کرو۔(۲) شام کی عبادت سے استعانت کرو۔(۳)کچھ رات رہے کی عبادت سے استعانت کرو۔ (۴) علم کے لکھنے سے استعانت کرو ۔(۵) سحری کے کھانے سے استعانت کرو۔(۶) دوپہر کے سونے سے استعانت و صدقہ سے استعانت کرو۔(۷) حاجت روائیوں میں حاجتیں چھپانے سے استعانت کرو۔(فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۳۰۵-۳۰۶)
مزید تفصیل کے لئے فتاوی رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود رسالہ’’بَرَکَاتُ الْاِمْدَادْ لِاَہْلِ الْاِسْتِمْدَادْ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ :اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو۔} صبر کے ذکر کے بعد اب صبر کرنے والوں کی ایک عظیم قسم یعنی شہیدوں کا بیان کیا جارہا ہے۔ یہ آیت ِکریمہ شہداء کے حق میں نازل ہوئی۔ بعض لوگ شہداء کی شہادت پر افسوس کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ لوگ شہید ہو کر نعمتوں سے محروم ہو گئے۔ تب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۱ / ۱۰۳)
جس میں فرمایا گیا کہ انہوں نے فانی زندگی اللہتعالیٰ کی راہ میں قربان کر کے دائمی زندگی حاصل کرلی ہے۔
شہداء کے فضائل:
اس آیت میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے، نہ زبان سے انہیں مردہ کہنے کی اجازت ہے اور نہ دل میں انہیں مردہ سمجھنے کی اجازت ہے،جیسا کہ ایک اور مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ (ال عمران:۱۶۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو اللہکی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔
موت کے بعد اللہتعالیٰ شہداء کو زندگی عطا فرماتا ہے، ان کی ا رواح پر رزق پیش کیا جاتا ہے ،انہیں راحتیں دی جاتی ہیں ، ان کے عمل جاری رہتے ہیں ، ان کا اجرو ثواب بڑھتا رہتا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔(شعب الایمان، السبعون من شعب الایمان، ۷ / ۱۱۵، الحدیث: ۹۶۸۶)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہتعالیٰ اس سے فرمائے گا :اے ابن آدم!تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا۔ وہ عرض کرے گا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بہت اچھی منزل ہے۔ اللہتعالیٰ فرمائے گا:’’تو مانگ اور کوئی تمنا کر۔ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں۔ (وہ یہ سوال اس لئے کرے گا ) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہو گی۔(سنن نسائی ، کتاب الجہاد، ما یتمنی اہل الجنۃ، ص۵۱۴، الحدیث: ۳۱۵۷)
شہید کی تعریف اور ا س کے احکام :
شہید وہ مسلمان ،مُکَلَّف ،طاہر ہے جو تیز ہتھیار سے ظلماً مارا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکہ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور اس نے کچھ آسائش نہ پائی۔ اس پر دنیا میں یہ احکام ہیں کہ نہ اس کو غسل دیا جائے نہ کفن، اسے اس کے کپڑوں میں ہی رکھا جائے، اسی طرح اس پر نماز پڑھی جائے اور اسی حالت میں دفن کیا جائے۔(بہار شریعت، شہید کا بیان،۱ / ۸۶۰)
بعض شہداء وہ ہیں کہ ان پر دنیا کے یہ احکام تو جاری نہیں ہوتے لیکن آخرت میں ان کے لیے شہادت کا درجہ ہے جیسے ڈوب کر یا جل کر یا دیوار کے نیچے دب کر مرنے والا،طلب ِعلم اورسفرِحج غرض راہ خدا میں مرنے والا یہ سب شہید ہیں۔ حدیثوں میں ایسے شہداء کی تعداد چالیس سے زائد ہے۔ مکمل تفصیل کیلئے بہارِ شریعت حصہ چہارم ملاحظہ فرمائیں۔
{وَ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ:لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔}یعنی یہ بات تو قطعی ہے کہ شہداء زندہ ہیں لیکن ان کی حیات کیسی ہے اس کا ہمیں شعور نہیں اسی لئے ان پر شرعی احکام عام میت کی طرح ہی جاری ہوتے ہیں جیسے قبر، دفن، تقسیمِ میراث، ان کی بیویوں کا عدت گزارنا، عدت کے بعد کسی دوسرے سے نکاح کرسکنا وغیرہ۔
{وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ: اور ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے۔} آزمائش سے فرمانبردار اور نافرمان کے حال کا ظاہر کرنا مراد ہے۔ امام شافعی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بقول خوف سے اللہ تعالیٰ کا ڈر، بھوک سے رمضان کے روزے، مالوں کی کمی سے زکوٰۃ و صدقات دینا ،جانوں کی کمی سے امراض کے ذریعہ اموات ہونا، پھلوں کی کمی سے اولاد کی موت مراد ہے کیونکہ اولاد دل کا پھل ہوتی ہے،جیساکہ حدیث شریف میں ہے،سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ جب کسی بندے کا بچہ مرتا ہے تو اللہتعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے:’’ تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کی ۔وہ عرض کرتے ہیں کہ ’’ہاں ، یارب! عَزَّوَجَلَّ، پھر فرماتا ہے:’’ تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا ۔وہ عرض کرتے ہیں :ہاں ، یارب! عَزَّ وَجَلَّ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس پر میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں : اس نے تیری حمد کی اور ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ اس کے لیے جنت میں مکان بناؤ اور اس کا نام بیتُ الحمد رکھو۔‘‘(ترمذی، کتاب الجنائز، باب فضل المصیبۃ اذا احتسب، ۲ / ۳۱۳، الحدیث: ۱۰۲۳)
یاد رہے کہ زندگی میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی مرض سے، کبھی جان و مال کی کمی سے، کبھی دشمن کے ڈر خوف سے، کبھی کسی نقصان سے، کبھی آفات و بَلِیّات سے اور کبھی نت نئے فتنوں سے آزماتا ہے اور راہِ دین اور تبلیغِ دین تو خصوصاً وہ راستہ ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اسی سے فرمانبردار و نافرمان، محبت میں سچے اور محبت کے صرف دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اکثرقوم کا ایمان نہ لانا، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آگ میں ڈالا جانا، فرزند کو قربان کرنا، حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بیماری میں مبتلا کیا جانا ،ان کی اولاد اور اموال کو ختم کر دیا جانا، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مصرسے مدین جانا، مصر سے ہجرت کرنا، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ستایا جانا اور انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا شہید کیا جانا یہ سب آزمائشوں اور صبر ہی کی مثالیں ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی آزمائشیں اور صبر ہر مسلمان کے لئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا ہر مسلمان کوچاہئے کہ اسے جب بھی کوئی مصیبت آئے اوروہ کسی تکلیف یا اَذِیَّت میں مبتلا ہو تو صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے ۔صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب( اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ کسی مصیبت اور) مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو کس قدر خداکو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور یہ تو بڑے رتبہ والوں کی شان ہے کہ( وہ) تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا( استقبال کرتے ہیں ) مگر ہم جیسے کم سے کم اتنا تو کریں کہ (جب کوئی مصیبت یا تکلیف آئے تو )صبر و استقلال سے کام لیں اور جَزع و فَزع (یعنی رونا پیٹنا) کرکے آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ (جانے) دیں اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہو ئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس بڑے ثواب(جو احادیث میں بیان کیاگیا ہے) سے محرومی دوہری مصیبت ہے۔(بہار شریعت، کتاب الجنائز، بیماری کا بیان، ۱ / ۷۹۹)
اور کثیر احادیث میں مسلمان پر مصیبت آنے کا جو ثواب بیان کیا گیا ہے ان میں سے چند احادیث یہ ہیں ،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہتعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے تکالیف میں مبتلا کرتا ہے۔(بخاری، کتاب المرضی، باب شدۃ المرض، ۴ / ۴، الحدیث: ۵۶۴۶)
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے مروی ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان کو جو تکلیف ،رنج، ملال اور اَذِیَّت و غم پہنچے، یہاں تک کہ ا س کے پیر میں کوئی کانٹا ہی چبھے تو اللہ تعالیٰ ان کے سبب اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (بخاری، کتاب المرضی، باب ما جاء فی کفارۃ المرض، ۴ / ۳، الحدیث: ۵۶۴۱)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ مسلمان مرد و عورت کے جان و مال اور اولاد میں ہمیشہ مصیبت رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ اللہتعالیٰ سے اس حال میں ملتا ہےکہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (ترمذی ، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۷)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو آرام و سکون والے تمنا کریں گے ،کاش! دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کاٹ دی گئی ہوتیں۔ (ترمذی ، کتاب الزہد، ۵۹-باب، ۴ / ۱۸۰، الحدیث: ۲۴۱۰)
{اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ:وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے۔}اس سے پہلی آیت میں مصیبتوں پر صبر کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی اور اس آیت میں یہ بتایاگیا کہ صبر کرنے والے وہ لوگ ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہتعالیٰ ہی کے مملوک اور اسی کے بندے ہیں وہ ہمارے ساتھ جو چاہے کرے اور آخرت میں ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(جلالین، البقرۃ، تحت الایۃ: ۱۵۶، ص۲۲)
’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھنے کے فضائل:
احادیث میں مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 5فضائل یہ ہیں :
(1)…اُم المؤمنین حضرت ام سلمہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :میں نے سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان پر کوئی مصیبت آئے اور وہ اللہتعالیٰ کے حکم کے مطابق ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ (پڑھے اور یہ دعا کرے) ’’اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا ’’اے اللہ!میری ا س مصیبت پر مجھے اجر عطا فرما اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما ‘‘تو اللہتعالیٰ اس کو اس سے بہتر بدل عطا فرمائے گا۔ حضرت ام سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :جب حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فوت ہو گئے تو میں نے سوچا کہ مسلمانوں میں حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے بہتر کون ہو گا؟ وہ تو پہلے گھر والے ہیں جنہوں نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف ہجرت کی۔ بہر حال میں نے یہ دعاکہہ لی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے مجھے رسولاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ عطا فرما دئیے (جو کہ حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بہت بہتر تھے)(مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ، ص۴۵۷، الحدیث: ۳(۹۱۸))
(2)…حضرت امام حسین بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس مسلمان مرد یا عورت پر کوئی مصیبت پہنچی اور وہ اسے یاد کر کے ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ کہے، اگرچہ مصیبت کا زمانہ دراز ہو گیا ہو تو اللہتعالیٰ اُس پر نیا ثواب عطا فرماتا ہے اور ویسا ہی ثواب دیتا ہے جیسا اس دن دیا تھا جس دن مصیبت پہنچی تھی ۔ (مسند امام احمد، حدیث الحسین بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ، ۱ / ۴۲۹، الحدیث: ۱۷۳۴)
(3)…ایک مرتبہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا چراغ بجھ گیا تو آپ نے ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا۔ عرض کی گئی کیا یہ بھی مصیبت ہے ؟ ارشاد فرمایا: جی ہاں ! اور ہر وہ چیزجو مومن کو اَذِیَّت دے وہ اس کے لئے مصیبت ہے اور اس پر اجر ہے۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۱ / ۳۸۰)
(4)…ایک اورحدیث شریف میں ہے کہ مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھنا رحمت ِالٰہی کا سبب ہوتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۱۲۲، الجزء الثالث، الحدیث: ۶۶۴۶)
(5)…حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’میری امت کو ایک ایسی چیز دی گئی ہے جو پہلی امتوں میں سے کسی کو نہیں دی گئی ،وہ چیز مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھنا ہے۔(معجم الکبیر، ۱۲ / ۳۲، الحدیث: ۱۲۴۱۱)
{اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ: یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت۔} صبر کرنے والے اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوتے ہیں ، ان کیلئے بخشش اور ہدایت و رحمت ہے۔
مصیبت پر صبرکے آداب:
مصیبت پر صبر کرنے کے کئی آداب ہیں ، ان میں سے 4آداب یہ ہیں جنہیں علامہ ابن قدامہ مقدسی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اپنی کتاب’’مختصر مِنہاجُ القَاصِدین‘‘ کے صفحہ277 پر ذکر فرمایا ہے۔
(1)… جب مصیبت پہنچے تو اسی وقت صبر و اِستِقلال سے کام لیا جائے، جیسا کہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ صبر صدمہ کی ابتداء میں ہوتاہے۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور، ۱ / ۴۳۳، الحدیث: ۱۲۸۳)
(2)… مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا جائے ،جیسا کہ حضرت ام سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کا عمل اوپر گزرا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے انتقال پر ’’ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا۔
(3)… مصیبت آنے پرزبان اور دیگر اعضا سے کوئی ایسا کلام یا فعل نہ کیا جائے جو شریعت کے خلاف ہو جیسے زبان سے اللہتعالیٰ کی بارگاہ میں شکوہ و شکایت کے کلمات بولنا، سینہ پیٹنا اورگریبان چاک کر لینا وغیرہ۔
(4)…صبر کی سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ مصیبت زدہ پر مصیبت کے آثار ظاہر نہ ہوں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’ حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے بطن سے حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ایک لڑکا فوت ہو گیا۔ حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اپنے گھر والوں سے کہا:حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو ان کے بیٹے کے انتقال کی خبر اس وقت تک نہ دینا جب تک میں خود انہیں نہ بتا دوں۔ جب حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آئے تو حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے انہیں شام کا کھانا پیش کیا،انہوں نے کھانا کھایا اور پانی پیا،پھر حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے پہلے کی بہ نسبت زیادہ اچھا بناؤ سنگھار کیا۔حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے ازدواجی عمل کیا جب حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیکھا کہ وہ سیر ہو گئے اور اپنی فطری خواہش بھی پوری کر لی ہے تو پھر انہوں نے کہا:اے ابو طلحہ!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، یہ بتائیں کہ اگر کچھ لوگ کسی کو عاریت کے طور پر کوئی چیز دیں پھر وہ اپنی چیز واپس لے لیں تو کیا وہ ان کو منع کر سکتے ہیں ؟ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا :نہیں۔ حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے کہا تو پھر آپ اپنے بیٹے کے متعلق یہی گمان کر لیں (کہ وہ ہمارے پاس اللہتعالیٰ کی امانت تھا جو اس نے واپس لے لی یعنی اس کا انتقال ہو چکا ہے)(مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی طلحۃ الانصاری رضی اللہ تعالی عنہ، ص۱۳۳۳، الحدیث: ۱۰۷(۲۱۴۴))
اورحضرت مطرف رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا بیٹا فوت ہوگیا۔ لوگوں نے انہیں بڑا خوش و خرم دیکھا تو کہا کہ کیا بات ہے کہ آپ غمزدہ ہونے کی بجائے خوش نظر آرہے ہیں۔ فرمایا: جب مجھے اس صدمے پر صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے درود و رحمت اور ہدایت کی بشارت ہے تو میں خوش ہوں یا غمگین؟ (مختصرمنہاج القاصدین، کتاب الصبر والشکر، فصل فی آداب الصبر، ص۲۷۷)
اورامام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ’’ احیاء العلوم ‘‘میں فرماتے ہیں : ’’ حضرت فتح موصلی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی زوجہ پھسل گئیں تو ان کا ناخن ٹوٹ گیا،اس پر وہ ہنس پڑیں ،ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو درد نہیں ہو رہا؟ انہوں نے فرمایا: ’’اس کے ثواب کی لذت نے میرے دل سے درد کی تلخی کو زائل کر دیا ہے۔(احیاء العلوم، کتاب الصبر والشکر، بیان مظان الحاجۃ الی الصبر۔۔۔ الخ، ۴ / ۹۰)
{اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ:بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔}صبر اورصابرین کے اِجمالی بیان کے بعد اب صبر کا ایک مشہور اور عظیم واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ صفاو مروہ مکہ مکرمہ کے دو پہاڑ ہیں جو کعبہ معظمہ کے بالمقابل مشرقی جانب واقع ہیں ،حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہااور حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان دونوں پہاڑوں کے قریب اس مقام پر جہاں زمزم کا کنواں ہے حکمِ الہٰی سے سکونت اختیار فرمائی۔ اس وقت یہ مقام سنگلاخ بیابان تھا، نہ یہاں سبزہ تھا نہ پانی، نہ خوردو نوش کا کوئی سامان۔ رضائے الہٰی کے لیے ان مقبول بندوں نے صبر کیا۔ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت کم عمر تھے،انہیں پیاس لگی اور جب پیاس کی شدت بہت زیادہ ہوگئی تو حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا بے تاب ہو کر کوہِ صفا پر تشریف لے گئیں وہاں بھی پانی نہ پایا تواُتر کر نیچے کے میدان میں دوڑتی ہوئی مروہ تک پہنچیں۔اس طرح سات چکر لگائے۔(صاوی، ابراہیم، تحت الایۃ: ۳۷، ۳ / ۱۰۲۷-۱۰۲۸)
اور اللہ تعالیٰ نے ’’اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ‘‘’’اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘کا جلوہ اس طرح ظاہر فرمایا کہ غیب سے ایک چشمہ زمزم نمودار کیا اور ان کے صبر و اخلاص کی برکت سے ان کے اتباع میں ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دوڑنے والوں کو مقبولِ بارگاہ قرار دیا اور ان دونوں پہاڑوں کو قبولیتِ دعا کا مقام بنادیا۔ اس واقعہ کا ذکر سورۂ ابراہیم آیت 13میں بھی مذکور ہے۔
{مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ:اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔} شَعَآىٕرِ اللّٰهِسے دین کی نشانیاں مراد ہیں خواہ وہ مکانات ہوں جیسے کعبہ ،عرفات، مُزدلفہ ، تینوں جَمرات (جن پر رمی کی جاتی ہے)، صفا،مروہ، منیٰ،مساجد یا وہ شعائر زمانے ہوں جیسے رمضان، حرمت والے مہینے ، عیدالفطر وعیدالاضحی ، یومِ جمعہ، ایاّمِ تشریق یا وہ شعائر کوئی دوسری علامات ہوں جیسے اذان، اقامت ، نمازِ با جماعت، نمازِ جمعہ، نماز عیدَین، ختنہ یہ سب شعائر ِدین ہیں۔(تفسیر بغوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۱ / ۹۱ملخصاً)
نیک لوگوں سے نسبت کی برکت:
اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس چیز کو صالحین سے نسبت ہو جائے وہ چیز عظمت والی بن جاتی ہے، جیسے صفا مروہ پہاڑ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکے قدم کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی نشانی بن گئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مُعَظَّم چیزوں کی تعظیم و توقیر دین میں داخل ہے اسی لئے صفا مروہ کی سعی حج میں شامل ہوئی۔
{فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ: تو اس پر کوئی حرج نہیں۔}اس آیت کاشان نزول یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں صفا و مروہ پر دو بت رکھے تھے، صفا پر جو بت تھا اس کا نام اُساف اور جو بت مروہ پر تھا اس کا نام نائلہ تھا۔ کفار جب صفاومروہ کے در میان سعی کرتے تو ان بتوں پر تعظیماًہاتھ پھیرتے،زمانۂ اسلام میں یہ بت تو توڑ دیئے گئے لیکن چونکہ کفار یہاں مشرکانہ فعل کرتے تھے اس لیے مسلمانوں کو صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا گراں محسوس ہوتا تھا کیونکہ اس میں کفار کے مشرکانہ فعل کے ساتھ کچھ مشابہت بنتی ہے ،اس آیت میں ان کا اطمینان فرما دیا گیا۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۲ / ۱۳۸)
کہ چونکہ تمہاری نیت خالص عبادت الہٰی کی ہے لہٰذا تمہیں مشابہت کا اندیشہ نہیں کرنا چاہیے اور جس طرح خانہ کعبہ کے اندر زمانہ جاہلیت میں کفار نے بت رکھے تھے اب عہد اسلام میں بت اٹھادیئے گئے اور کعبہ شریف کا طواف درست رہا اور وہ شعائر ِدین میں سے رہا اسی طرح کفار کی بت پرستی سے صفا و مروہ کے شعائر ِدین ہونے میں کچھ فرق نہیں آیا۔
یہاں ایک مسئلہ ذہن نشین رکھیں کہ حج میں سعی (یعنی صفا و مروہ کے سات چکر) واجب ہے۔ اس کے ترک کرنے سے دم دینا یعنی قربانی واجب ہوتی ہے۔اس کے بارے میں تفصیلی احکام کیلئے بہارِ شریعت حصہ 6کا مطالعہ فرمائیں۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى:بیشک وہ لوگ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں۔} یہ آیت ان علماء یہود کے بارے میں نازل ہوئی جو توریت شریف کے احکام اور اس میں موجود نعت مصطفٰی کی آیتیں چھپاتے تھے۔(صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۱ / ۱۳۳)
دینی مسائل کوچھپانا گناہ ہے خواہ اس طرح کہ ضرورت کے وقت بتائے نہ جائیں یا اس طرح کہ غلط بتائے جائیں بلکہ غلط بتانے پر تو بہت سخت وعیدیں ہیں۔ یہ دونوں گناہ علماء یہود کرتے تھے کہ حضورپر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت بتاتے نہ تھے اور زنا کی سزا بدل دیتے تھے کہ بجائے رجم کے منہ کالا کراتے تھے۔ (تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۱ / ۱۴۰)
سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 79میں بھی یہودیوں کی اس طرح کی حرکتوں کا بیان گزر چکا ہے۔
دینی مسائل چھپانے کی وعیدیں :
احادیث میں دینی مسائل چھپانے کی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی جسے وہ جانتا ہے لیکن وہ اسے چھپاتا ہے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام دی جائے گی۔‘‘(ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم، ۴ / ۲۹۵، الحدیث: ۲۶۵۸)
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو علم کے بغیر فتویٰ دے ا س پر زمین و آسمان کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔(ابن عساکر، محمد بن اسحاق بن ابراہیم۔۔۔ الخ، ۵۲ / ۲۰)
غلط مسائل بیان کرنے والوں ، بغیر پڑھے عالم و مفتی و محدث و مفسر کہلانے والوں اور قرآن و حدیث کی غلط تشریحات و توضیحات کرنے والوں کی آج کل کمی نہیں اور یہ سب مذکورہ آیت و احادیث کی وعید میں داخل ہیں۔ اسی وعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہیں تو محض کوئی آرٹیکل یا کالم لکھنے والے لیکن دین کو بھی اپنے قلم سے تختہ مشق بناتے ہیں۔
{یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ: اللہ ان پر لعنت فرماتا ہے۔} اسلام کی حقانیت، حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت اور شریعت کے احکام چھپانے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور دیگر حضرات یعنی ملائکہ و مومنین کی بھی لعنت ہے۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan