Surah As-Saaffaat
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا: ان کی قسم جو باقاعدہ صفیں باندھے ہوئے ہیں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے چند گروہوں کی قسم یاد فرمائی،ان کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد فرشتوں کے گروہ ہیں جو نمازیوں کی طرح صف بستہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر رہتے ہیں ۔دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے علماء ِدین کے گروہ مراد ہیں جو تَہَجُّد اور تمام نمازوں میں صفیں باندھ کر عبادت میں مصروف رہتے ہیں ۔تیسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد غازیوں کے گروہ ہیں جو راہِ خدا میں صفیں باندھ کر دشمنانِ حق کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں ۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱، ص۹۹۷، ملخصاً)
جہاد میں اور نماز میں صفیں باندھنے والوں کی فضیلت:
یہاں صف باندھنے والوں کی قسم ارشاد فرمانے سے معلوم ہو اکہ صف باندھنا بہت اہمیت اور فضیلت کا باعث ہے، اسی مناسبت سے یہاں جہاد میں صف باند ھ کر لڑنے کی اور نماز میں صف باندھنے کی فضیلت ملاحظہ ہو، چنانچہ جہاد میں صفیں باندھ کر لڑنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ‘‘(الصف:۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ ان لوگوں سے محبت فرماتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صفیں باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی دیوار ہیں۔
اور نماز میں صف باندھنے کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(اے لوگو!) نماز میں صف کو قائم کرو کیونکہ صف کو قائم کرنا نماز کے حسن میں سے ہے۔( بخاری، کتاب الاذان، باب اقامۃ الصفّ من تمام الصلاۃ، ۱ / ۲۵۷، الحدیث: ۷۲۲)
{فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا: پھر ان کی قسم جو جھڑک کر چلانے والے ہیں ۔} اس سے پہلی آیت میں صفیں بنانے والوں کی تفسیر میں ذکر کردہ تین اَقوال میں سے پہلے قول کے مطابق یہاں جھڑک کر چلانے والوں سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بادل پر مقرر ہیں اور اس کو حکم دے کر چلاتے ہیں اور دوسرے قول کے مطابق ان سے علماء مراد ہیں جو وعظ و نصیحت سے لوگوں کو جھڑک کریعنی بعض اوقات موقع محل اور موضوع کی مناسبت سخت الفاظ کے ساتھ دین کی راہ پرچلاتے ہیں اور تیسرے قول کے مطابق ان سے غازی مراد ہیں جو گھوڑوں کو ڈپٹ کر جہاد میں چلاتے ہیں ۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۲، ص۹۹۷، ملخصاً)
{فَالتّٰلِیٰتِ ذِكْرًا: پھر قرآن کی تلاوت کرنے والوں کی قسم۔} اس آیت میں بھی قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے والوں سے مراد وہ فرشتے ہیں جو نماز میں تلاوت کرتے ہیں ، یا وہ علماء مراد ہیں جو اپنے درس اوربیانات میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہیں یا وہ غازی مراد ہیں جو جہاد کرتے وقت قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہیں ۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۳، ص۹۹۷، ملخصاً)
تلاوتِ قرآن بڑی اعلیٰ عبادت ہے:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے والوں کی قسم یاد فرمائی ،اس سے معلوم ہوا کہ تلاوتِ قرآن بڑی اعلیٰ عبادت ہے ، لہٰذا اسے سفر وحَضر کسی حال میں بھی نہ چھوڑا جائے۔ترغیب کے لئے یہاں اس سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم اپنی آنکھوں کو عبادت میں سے ان کا حصہ دیا کرو۔عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، عبادت میں سے آنکھوں کا حصہ کیا ہے؟ارشاد فرمایا: ’’دیکھ کرقرآنِ پاک کی تلاوت کرنا، اس (کی آیات اور معانی) میں غورو فکر کرنا اور اس میں ذکر کئے گئے عجائبات پڑھتے وقت نصیحت حاصل کرنا۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی القراء ۃ من المصحف، ۲ / ۴۰۸، الحدیث: ۲۲۲۲)
(2)…حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے امتی کی افضل عبادت قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا ہے۔( نوادر الاصول، الاصل الخامس والخمسون والمائتان، ۲ / ۱۰۴۱، الحدیث: ۱۳۴۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ عظیم کی تلاوت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{اِنَّ اِلٰهَكُمْ: بیشک تمہارا معبود۔} کفارِ مکہ تعجب کے طور پر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ
’’ اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ۚۖ-اِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ‘‘(سورۃ ص:۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا اس نے بہت سارے خداؤں کو ایک خدا کردیا؟بیشک یہ ضروربڑی عجیب بات ہے۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا چیزوں کی قسم یاد فرما کر ان کی عظمت و شرافت بھی بیان کر دی اور بتوں کے پجاریوں کا رد کرتے ہوئے فرمادیا کہ اے اہلِ مکہ! بیشک تمہارا معبود ضرور ایک ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ،لہٰذا تم بتوں کو اپنا معبود قرار نہ دو۔حقیقی اعتبار سے اس آیت میں تمام انسانوں سے خطاب کیا گیا ہے۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۱۴، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۴۴۶، ملتقطاً)
{رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: آسمانوں اور زمین کامالک ہے۔} اس آیت میں بیان فرمایا کہ آسمان اور زمین اور ان کی درمیانی کائنات اور تمام حدودو جِہات سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے تو کوئی دوسرا کس طرح عبادت کا مستحق ہوسکتا ہے، لہٰذا وہ شریک سے مُنَزَّہ ہے۔(روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۴۴۷، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۴، ملتقطاً)
ربُّ العالَمین کی بارگاہ میں سیّد المرسَلین کا مقام:
یہاں ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیّت اور اپنی صفات کوآیات میں مذکور چیزوں کی قسم کے ساتھ بیان کیا جبکہ قرآنِ پاک میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت و رسالت کو جب بیان کیا تو کسی جگہ قرآن کی قسم اور کسی جگہ اپنی رَبُوبِیّت کی قسم کے ساتھ بیان فرمایا، جیسا کہ سورۂ یٰسین میں ارشاد فرمایا:
’’وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘(یس:۲، ۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: حکمت والے قرآن کی قسم۔بیشک تم رسولوں میں سے ہو۔
سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا:’’فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ‘‘(النساء:۶۵)
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: تو اے حبیب! تمہارے رب کی قسم، یہ لوگ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنالیں ۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام بہت بلند ہے۔
{وَ رَبُّ الْمَشَارِقِ: اور مشرقوں کامالک ہے۔} اس آیت میں جمع کا صیغہ ’’مَشَارِق‘‘ ذکر کیا گیاہے،اس کے بارے میں مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ چونکہ سورج طلوع ہونے کی 360 جگہیں ہیں اسی طرح سورج غروب ہونے کی بھی 360 جگہیں ہیں اورہر روز سورج نئی جگہ سے طلوع ہوتا اور نئی جگہ میں غروب ہوتا ہے (اس لئے یہاں جمع کا صیغہ ذکر ہوا۔)(خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۴)
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اس آیت میں ’’مَشَارِق‘‘ جمع کا صیغہ ہر روز کے مشرق اور مغرب کے اعتبار سے ذکر کیا گیا ہے کیونکہ سال میں سورج طلوع اور غروب ہونے کی 360جگہیں ہیں اور ہر روز سورج ان میں سے ایک مشرق سے طلوع ہوتا ہے، اسی طرح ہر روز ایک مغرب میں غروب ہوتا ہے۔سور ہِ رحمٰن کی آیت میں جو ’’الْمَشْرِقَیْنِ‘‘ اور ’’الْمَغْرِبَیْنِ‘‘ تثنیہ کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے ، یہ گرمیوں اور سردیوں کے موسم میں سورج طلوع اور غروب ہونے کے اعتبار سے ہے اور سورہِ مُزّمِّل کی آیت میں جو ’’مَشْرِق‘‘ اور ’’مَغْرِب‘‘ واحد کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے یہ ہر سال کے مشرق اور مغرب کے اعتبار سے ہے۔(صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۵، ۵ / ۱۷۳۱)
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اور علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ سورہِ مزمل کی آیت میں ’’مَشْرِق‘‘ اور ’’مَغْرِب‘‘ واحد کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے یہ اس اعتبار سے ہے کہ یہاں مشرق اور مغرب کی جہت مراد ہے۔(خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۴-۱۵، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۴۴۷)
{اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا: بیشک ہم نے نیچے کے آسمان کو آراستہ کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں آسمان کو ستاروں سے سجانے کے دو فوائد بیان کئے گئے ہیں ۔
(1)…زینت کے لئے۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے نیچے کے آسمان کوجو دوسرے آسمانوں کی بہ نسبت زمین سے قریب تر ہے، ستاروں کے سنگھار سے آراستہ کیا کیونکہ دیکھنے والے کو سارے ستارے پہلے آسمان پر ایسے محسوس ہوتے ہیں جیسے کسی چادر پر رنگ برنگ موتی بکھرے ہوئے ہیں ۔
(2)…سرکش شیطانوں سے آسمان کی حفاظت کیلئے ۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے آسمان کو ہر ایک نافرمان شیطان سے محفوظ رکھنے کیلئے ستاروں سے سجایاکہ جب شَیاطین آسمان پر جانے کا ارادہ کریں تو فرشتے شِہاب مار کر ان کو دور کردیں۔(تفسیرکبیر،الصافات، تحت الآیۃ:۶، ۹ / ۳۱۷، خازن، والصافات،تحت الآیۃ: ۶-۷، ۴ / ۱۵، صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۵ / ۱۷۳۱-۱۷۳۲، ملتقطاً)
{لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰى: وہ شَیاطین عالَمِ بالا کی طرف کان نہیں لگاسکتے۔} شَیاطین آسمان کے قریب جاتے اور بعض اوقات فرشتوں کا کلام سن کر اس کی خبر کاہنوں کو دیتے اور کاہن اس بنا پر غیب کی باتیں جاننے کا دعویٰ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے شِہاب کے ذریعے شیطانوں کو آسمان تک پہنچنے سے روک دیا۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں ارشاد فرمایا کہ شَیاطین آسمان کے فرشتوں کی باتیں سننے کیلئے عالَمِ بالا کی طرف کان نہیں لگاسکتے اور وہ آسمان کے فرشتوں کی گفتگو نہیں سن سکتے اور جب وہ گفتگو سننے کی نیت سے آسمان کی طرف جائیں توانہیں دور کرنے کیلئے ہر طرف سے انگاروں کے ساتھ مارا جاتا ہے،یہ ان کا دنیا میں عارضی عذاب ہے جبکہ آخرت میں ان کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے، اور اگر کوئی شیطان ایک آدھ بار فرشتوں کی کوئی بات سن کربھاگنے لگے تو روشن انگارا اسے جلانے یاایذا پہنچانے کے لئے اس کے پیچھے لگ جاتا ہے ۔(خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۴ / ۱۵، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ص۹۹۸، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ص۳۷۳، ملتقطاً)
{فَاسْتَفْتِهِمْ: تو ان سے پوچھو۔} کفارِ مکہ دوبارہ زندہ کئے جانے کو عقلی طور پر محال سمجھتے تھے تواس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ کفارِ مکہ سے پوچھیں ’’ کیا اِن کی پیدائش زیادہ مضبوط ہے یا ہماری دوسری مخلوق مثلاًآسمان،زمین اور فرشتوں وغیرہ کی؟ تو جس قادرِ برحق کو آسمان و زمین جیسی عظیم مخلو ق کو پیدا کر دینا کچھ بھی مشکل اور دشوار نہیں تو انسانوں کو پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہوسکتا ہے۔بیشک ہم نے ا نسانوں کوچپکنے والی مٹی سے بنایا،یہ ان کے کمزور ہونے کی ایک اور دلیل ہے کہ ان کی پیدائش کا اصل مادہ مٹی ہے جو کوئی شدت اور قوت نہیں رکھتی اور اس میں ان پر ایک اور دلیل قائم فرمائی گئی ہے کہ چپکتی مٹی ان کا مادہِ پیدائش ہے تو اب جسم کے گل جانے اور حد یہ ہے کہ مٹی ہوجانے کہ بعد اُس مٹی سے پھر دوبارہ پیدائش کو وہ کیوں ناممکن جانتے ہیں ،جب مادہ موجود اور بنانے والا موجود توپھر دوبارہ پیدائش کیسے محال ہوسکتی ہے۔ (مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۹۹۸-۹۹۹، ملخصاً)
{بَلْ عَجِبْتَ: بلکہ تم نے تعجب کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے کفار ِمکہ کے انکار پر تعجب کیا کہ آپ کی رسالت اور مرنے کے بعد اٹھنے پر دلالت کرنے والی واضح نشانیاں اور دلائل ہونے کے باوجود وہ کس طرح انکار کرتے ہیں اور وہ کفار آپ کا اور آپ کے تعجب کرنے کا یا مرنے کے بعد اٹھنے کامذاق اڑاتے ہیں ، اور جب انہیں کسی چیز کے ذریعے سمجھایا جائے تو سمجھتے نہیں ،اور جب چاند کے ٹکڑے ہونا وغیرہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو کھلا جادوہی ہے۔(مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۵، ص۹۹۹)
{ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا: کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں کفارِ مکہ کا ایک سوال ذکر کیا گیا ہے کہ کیا ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ ضرور زندہ کیا جائے گا حالانکہ ہم تو مٹی ہو چکے ہوں گے اور ہماری صرف ہڈیاں باقی ہوں گی،اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا کو بھی دوبارہ زندہ کیا جائے گا حالانکہ انہیں مرے ہوئے ایک زمانہ گزر چکا ہے۔کفار کے نزدیک چونکہ اُن کے باپ دادا کا زندہ کیا جانا خود اُن کے زندہ کئے جانے سے زیادہ بعید تھا اس لئے انہوں نے یہ کہا ۔( صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶، ۵ / ۱۷۳۳-۱۳۳۴، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ص۹۹۹، ملتقطاً)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ ان کفار سے فرما دیں کہ ’’ہاں ! تم سب دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور اس وقت تمہارا حال یہ ہو گا کہ تم ذلیل و رُسوا ہوگے۔(روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۸، ۷ / ۴۵۲، ملخصاً)
{فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ: تو وہ تو ایک جھڑک ہی ہوگی۔} اس آ یت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرنے کا ارادہ فرمائے گاتو وہ نَفخۂ ثانیہ کی ایک ہی ہَولناک آوازہو گی اوروہ اسی وقت زندہ ہوکر اپنے اَفعال اور پیش آنے والے اَحوال دیکھنے لگیں گے اور کہیں گے: ہائے ہماری خرابی! فرشتے ان سے کہیں گے کہ’’ یہ انصاف کا دن ہے، یہ حساب و جزا کا دن ہے اوریہ وہ فیصلے کا دن ہے جسے تم دنیا میں جھٹلاتے تھے ۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۱، ص۹۹۹، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۱، ص۳۷۴، ملتقطاً)
قیامت کے18 نام اور ان کی وجوہِ تَسْمِیَہ:
آیت نمبر21 سے معلوم ہوا کہ قیامت کے بہت سے نام ہیں اور یہ نام اس دن کے کاموں کے لحاظ سے ہیں ، ان میں سے قرآنِ پاک میں ذکرکردہ کچھ نام یہاں مذکور ہیں ،
(1)… قیامت کا دن قریب ہے کیونکہ ہر وہ چیز جس کا آنا یقینی ہے وہ قریب ہے، ا س اعتبار سے اسے ’’یَوْمَ الْاٰزِفَةِ‘‘ یعنی قریب آنے والادن کہتے ہیں ۔
(2)…دنیا میں قیامت کے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے،اس اعتبار سے اسے ’’ یَوْمُ الْوَعِیْدِ‘‘ یعنی عذاب کی وعیدکا دن کہتے ہیں ۔
(3)…اس دن اللہ تعالیٰ سب کودوبارہ زندہ فرمائے گا ا س لئے وہ ’’یَوْمُ الْبَعْثِ‘‘ یعنی مرنے کے بعد زندہ ہونے کا دن ہے۔
(4)…اس دن لوگ اپنی قبروں سے نکلیں گے اس لئے وہ ’’یَوْمُ الْخُرُوْجِ‘‘ یعنی نکلنے کا دن ہے ۔
(5)…ا س دن اللہ تعالیٰ سب لوگوں کو حشر کے میدا ن میں جمع فرمائے گا اس لئے وہ ’’یَوْمُ الْجَمْع‘‘ اور ’’یَوْمُ الْحَشْر‘‘ یعنی جمع ہونے اور اکٹھا ہونے کا دن ہے ۔
(6)… اس دن تمام مخلوق حاضرہو گی اس لئے وہ ’’یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ‘‘ یعنی حاضری کا دن ہے۔
(7)…اس دن تمام مخلوق کے اعمال کا حساب ہو گا اس لئے وہ ’’یَوْمُ الْحِسَابِ‘‘ یعنی حساب کا دن ہے۔
(8)… اس دن بدلہ دیا جائے گااور انصاف کیا جائے گا لہٰذا وہ ’’ یَوْمُ الدِّیْنِ‘‘ یعنی بدلے اور انصاف کا دن ہے۔
(9)… دہشت،حساب اور جزاء کے اعتبار سے وہ بڑا دن ہے ،اس لئے اسے ’’یَوْمٌ عَظِیْمٌ‘‘ یعنی بڑا دن کہتے ہیں ۔
(10)… اس دن لوگوں کا فیصلہ یا ان میں فاصلہ اور جدائی ہو جائے گی اس لئے وہ ’’ یَوْمُ الْفَصْلِ‘‘ یعنی فیصلے یا فاصلے کا دن ہے۔
(11)… قیامت کے دن چونکہ کفار کے لئے اصلا ًکوئی بھلائی نہ ہوگی ، ا س اعتبار سے اسے ’’ یَوْمٌ عَقِیْمٌ‘‘ یعنی بانجھ دن کہتے ہیں ۔
(12)…برے حساب اور عذاب کے اعتبار سے وہ دن کافروں پر بہت سخت ہو گا ،اس لئے اسے ’’ یَوْمٌ عَسِیْرٌ‘‘ یعنی بڑا سخت دن کہتے ہیں ۔
(13)…اس دن مجرم عذاب میں گھیرلئے جائیں گے اس لئے وہ ’’ یَوْمٌ مُّحِیْطٌ‘‘ یعنی گھیر لینے والا دن ہے۔
(14)…اس دن کفار و مشرکین کو دردناک عذاب ہو گا ،اس اعتبار سے اسے ’’ یَوْمٌ اَلِیْمٌ‘‘ یعنی دردناک دن کہتے ہیں ۔
(15)…اس دن کی سختی کے اعتبار سے اسے ’’ یَوْمٍ كَبِیْرٍ‘‘ یعنی بڑی سختی والا دن کہتے ہیں ۔
(16)…اس دن لوگ نادم اور مغموم ہوں گے ،اس اعتبار سے اسے ’’ یَوْمُ الْحَسْرَةِ‘‘ یعنی حسرت زدہ ہونے کا دن کہتے ہیں۔
(17)…قیامت کے دن روحیں اور اَجسام ملیں گے،زمین والے اور آسمان والے ملیں گے، غیر ِخدا کی عبادت کرنے والے اور ان کے معبودملیں گے،عمل کرنے والے اور اعمال ملیں گے،پہلے اور آخری لوگ ملیں گے،ظالم اور مظلوم ملیں گے اور جہنمی عذاب دینے والے فرشتوں کے ساتھ ملیں گے ا س اعتبار سے اسے ’’یَوْمُ التَّـلَاقْ‘‘ یعنی ملنے کا دن کہتے ہیں ۔
(18)…قیامت کے دن مختلف اعتبارات سے جنّتیوں کی جیت اور کفار کی شکست ظاہر ہو جائے گی ا س لئے اسے ’’یَوْمُ التَّغَابُنْ‘‘ یعنی ہار ظاہر ہونے کا دن کہتے ہیں ۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جن اُمور کا قرانِ مجید میں ذکر ہے ان میں سے ایک قیامت ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے مَصائب کا ذکر کیا اور ا س کے بہت سے نام ذکر فرمائے تاکہ تم ا س کے ناموں کی کثرت سے اس کے معانی کی کثرت پر مطلع ہو جاؤ،زیادہ ناموں کا مقصد ناموں اور اَلقاب کو بار بار ذکر کرنا نہیں بلکہ اس میں عقلمند لوگوں کے لئے تنبیہ ہے کیونکہ قیامت کے ہر نام کے تحت ایک راز ہے اور ا س کے ہر وصف کے تحت ایک معنی ہے ، تو تجھے اس کے معانی کی معرفت اور پہچان حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الثانی، صفۃ یوم القیامۃ ودواہیہ واسامیہ، ۵ / ۲۷۵)
نوٹ:یہاں جو نام ذکر کئے گئے ان کے علاوہ قیامت کے اور نام بھی قرآنِ مجید میں مذکور ہیں ،نیزقیامت کے مزید ناموں اور اس دن لوگوں کوپیش آنے والے مَصائب کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے احیاء العلوم جلد4کا مطالعہ فرمائیں ۔
{اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا: ظالموں کو اکٹھا کردو۔} اس آیت اورا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ ظالموں اور ان کے ساتھیوں کواور اللہ تعالیٰ کے سواجن بتوں کی یہ پوجا کرتے تھے ان سب کو ایک ہی جگہ اکٹھا کردو،پھران سب کو جہنم کا راستہ دکھاؤ۔ اس آیت میں ظالموں سے مراد کافر ہیں اور اُن کے ساتھیوں سے مراد وہ شَیاطین ہیں جو دنیا میں ان کے ہم نشین اور پاس رہتے تھے ۔ہر ایک کافر اپنے شیطان کے ساتھ ایک ہی زنجیر میں جکڑدیا جائے گا اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ساتھیوں سے مراداس کی جنس کے دوسرے افراد ہیں ۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۳، ۴ / ۱۶، قرطبی، الصافات، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۳، ۸ / ۵۵، الجزء الخامس عشر، ملتقطاً)
{وَ قِفُوْهُمْ: اور انہیں ٹھہراؤ۔} جب کفار جہنم کے قریب پہنچیں گے تو فرشتوں سے کہا جائے گا کہ انہیں پل صراط کے پاس ٹھہراؤ، بیشک ان سے ابھی پوچھ گچھ کی جائے گی۔( قرطبی،الصافات،تحت الآیۃ:۲۴، ۸ / ۵۵، الجزء الخامس عشر، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۱۶، ملتقطاً)
قیامت کے دن ہونے والی پوچھ گچھ:
یاد رہے کہ قیامت کے دن جہنم کے خازن بھی مشرکین سے سوال کریں گے ، جیسا کہ سورہ ِزُمر میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَاۤ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ رَبِّكُمْ وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَاؕ-قَالُوْا بَلٰى وَ لٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ‘‘(زمر:۷۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کافروں کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے توجہنم کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے: کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں تمہارے اِس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں مگر عذاب کا قول کافروں پر ثابت ہوگیا۔
اور کفار کے علاوہ بھی ہر ایک سے اس کے اَقوال اور اَفعال کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی۔ حضرت ابو بَرزہ اسلمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن بندہ اپنی جگہ سے ا س وقت تک ہل نہ سکے گا جب تک اس سے چار باتیں نہ پوچھ لی جائیں ۔(1)اس کی عمر کہ کس کام میں گزری۔ (2)اس کا علم کہ اس پر کیا عمل کیا ۔(3) اُس کا مال کہ کہاں سے کمایا کہاں خرچ کیا ۔(4) اس کا جسم کہ اس کو کس کام میں لایا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب فی القیامۃ، ۴ / ۱۸۸، الحدیث: ۲۴۲۵)
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس بلانے والے نے کسی چیز (یعنی شرک اور گناہ) کی طرف بلایا ہو گا تو قیامت کے دن وہ ٹھہرا رہے گا اور اس چیز سے چمٹا ہوگا اور اس سے جدا نہ ہو گااگرچہ ایک ہی آدمی کو بلایا ہو،پھر آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں : ’’وَ قِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔوْلُوْنَۙ(۲۴) مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ‘‘۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الصافات، ۵ / ۱۵۶، الحدیث: ۳۲۳۹)
لہٰذا ان روایات کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کو بھی اپنے اَقوال اور اَعمال کے بارے میں ہونے والی پوچھ گچھ کے بارے میں فکر کرنی چاہئے اور کسی صورت بھی اس حوالے سے غفلت کا شکار نہیں ہوناچاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی زندگی میں ہی اپنے اُخروی حساب اور سوالات کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{مَا لَكُمْ: تمہیں کیا ہوا؟۔} یعنی جہنم کے خازن ڈانٹتے ہوئے مشرکین سے کہیں گے کہ آج تمہیں کیا ہوا،تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے حالانکہ دنیا میں تم ایک دوسرے کی مدد کرنے پر بہت گھمنڈرکھتے تھے۔( جلالین مع صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۲۵، ۵ / ۱۷۳۵)
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے شفاعت فرمائیں گے:
یاد رہے کہ قیامت کے دن مشرکین ایک دوسرے کی مدد نہ کر سکیں گے جبکہ اَنبیاء و اَولیاء و صُلحاء اللہ تعالیٰ کے اِذن سے اہلِ ایمان کی شفاعت فرما کر ان کی مدد فرمائیں گے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷) یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ‘‘(زخرف:۶۷،۶۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔ (ان سے فرمایا جائے گا) اے میرے بندو! آج نہ تم پر خوف ہے اور نہ تم غمگین ہوگے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗؕ-حَتّٰۤى اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَا ذَاۙ-قَالَ رَبُّكُمْؕ-قَالُوا الْحَقَّۚ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ‘‘(سبا:۲۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ کے پاس شفاعت کام نہیں دیتی مگر (اس کی) جس کے لیے وہ اجازت دیدے یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور فرمادی جاتی ہے تووہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں : حق فرمایا ہے اور وہی بلندی والا، بڑائی والاہے۔
البتہ یاد رہے کہ بزرگانِ دین کی شفاعت کی امید پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری چھوڑ دینا،اس کے عذاب سے بے خوف ہوجانا اورگناہوں میں مبتلا رہناکسی صورت درست نہیں ہے ۔امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :شفاعت کی امید پر گناہوں میں مبتلا ہونا اور تقویٰ کو چھوڑدینا ایسے ہے جیسے کوئی مریض کسی ایسے ماہر ڈاکٹر پر اعتماد کر کے بد پرہیزی میں مبتلا ہو جائے جو اس کا قریبی عزیز اور اس پر شفقت کرنے والا ہو جیسے باپ یا بھائی وغیرہ ، اور یہ اعتماد جہالت ہے کیونکہ ڈاکٹر کی کوشش ،اس کی ہمت اور مہارت بعض بیماریوں کے ازالے میں نفع دیتی ہے تمام بیماریوں کے ازالے کے لئے نہیں ،لہٰذا محض ڈاکٹرپر اعتماد کرکے مُطْلَقاً پر ہیز کو ترک کردینا جائز نہیں ۔ طبیب کا اثر ہوتا ہے لیکن معمولی اَمراض اور مُعتدل مزاج کے غلبہ کے وقت ہوتا ہے، اس لئے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور صلحاءِ عظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی عنایت ِشفاعت اپنوں اور غیروں کے لئے اسی انداز میں ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے خوف اور پر ہیز کو ترک نہیں کرنا چاہئے اور اسے کیسے ترک کرسکتے ہیں جبکہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بہتر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ تھے، لیکن وہ آخرت کے خوف سے تمنّا کرتے تھے کہ کاش وہ چوپائے ہوتے، حالانکہ ان کا تقویٰ کا مل ، اعمال عمدہ اور دل صاف تھے اور نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنت کا خصوصی وعدہ بھی سن چکے تھے اور وہ تمام مسلمانوں کے لئے عمومی طور پر شفاعت کے بارے میں بھی جانتے تھے، لیکن انہوں نے اس پر بھروسہ نہیں کیا اور ان کے دلوں سے خوف اور خشو ع جدا نہیں ہوا اور جو لوگ صحابیّت کے درجے پر بھی فائز نہیں اور انہیں اسلام لانے میں سبقت بھی حاصل نہیں وہ کس طرح خود پسندی میں مبتلا ہوسکتے ہیں اوروہ کیسے شفاعت پر بھروسہ کر کے بیٹھ سکتے ہیں۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الکبر والعجب، الشطر الثانی، بیان اقسام ما بہ العجب وتفصیل علاجہ، ۳ / ۴۶۰-۴۶۱)
{بَلْ هُمْ: بلکہ وہ۔} اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کفارعاجز و ذلیل ہو کر گردن جھکائے ہوئے ہوں گے اور کوئی حیلہ انہیں کام نہ آئے گا۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۱۷، ملخصاً)
{وَ اَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ: اور ان میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوگا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی پانچ آیات میں قیامت کے دن کفار کا آپس میں ہونے والا مُکالمہ بیان کیا گیا ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سردار اور ان کی پیروی کرنے والے آپس میں سوال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے اور پیروی کرنے والے اپنے سرداروں سے کہیں گے:دنیا میں تم ہمیں اپنی طاقت اور قوت کے زور پر گمراہی پر آمادہ کرتے تھے اور ہم تمہارے خوف کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبورہو گئے۔اس پر کفار کے سردار کہیں گے کہ’’ ہم نے تم پر کوئی زبردستی نہیں کی کہ اس کی وجہ سے تم ہماری پیروی کرنے پر مجبور ہو گئے ہوبلکہ تم پہلے ہی سے کافر اور سرکش تھے اور اپنے اختیارسے خود ہی ایمان سے اِعراض کرچکے تھے۔اب ہم پر ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کی وہ بات ثابت ہوگئی جو اُس نے فرمائی تھی کہ’’ میں ضرور جہنم کوجنوں اور انسانوں سے بھروں گا۔لہٰذا اس کے عذاب کا مزہ گمراہوں کو بھی اور گمراہ کرنے والوں کو بھی ضرور چکھنا ہے،ہم خود گمراہ تھے تو ہمارے پاس سے گمراہی ہی مل سکتی تھی، تم ہمار ے پاس آئے ہی کیوں۔(خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۲۷-۳۲، ۴ / ۱۷، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۲۷-۳۲، ص۱۰۰۰، ملتقطاً)
نوٹ: میدانِ محشر میں کفار کااسی طرح کاایک مُکالمہ سورۂ سبا کی آیت نمبر31میں بھی گزر چکا ہے۔
{فَاِنَّهُمْ یَوْمَىٕذٍ: تو اس دن وہ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن گمراہ بھی اور انہیں گمراہ کرنے والے سردار بھی سب عذاب میں شریک ہو ں گے اگرچہ ان کے عذاب کی کَیفِیّت میں فرق ہو گا کیونکہ یہ سب لوگ دنیا میں گمراہی میں شریک تھے اور ہم نے گمراہوں اور گمراہ کرنے والوں کے ساتھ جو کیا کہ عذاب میں انہیں جمع کر دیا،مجرموں کے ساتھ ہم ایسا ہی کرتے ہیں ۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ص۱۰۰۰، روح المعانی، الصافات، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۱۲ / ۱۱۲، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۷ / ۴۵۶، ملتقطاً)
{اِنَّهُمْ كَانُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَهُمْ: بیشک جب ان سے کہا جاتا تھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں کفار کے عذاب میں مبتلا ہونے کا سبب بیان کیا گیا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں تووہ تکبر کرتے تھے اورنہ توحید قبول کرتے اورنہ ہی اپنے شرک سے باز آتے بلکہ کہتے تھے کہ کیا ہم ایک دیوانے شاعر یعنی محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کہنے پراپنے معبودوں کو چھوڑدیں ؟( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ۴ / ۱۷، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ص۱۰۰۰، ملتقطاً)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ کہہ لیں اور جس نے ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ کہہ لیا تو اس نے شرعی حق کے علاوہ اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے بچا لی اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں (ایمان قبول کرنے سے) تکبر کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اِنَّهُمْ كَانُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُۙ-یَسْتَكْبِرُوْنَ‘‘ اور( جبکہ مسلمانوں کے بارے میں اسی کلمہ طیبہ کے حوالے سے )فرمایا: ’’اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَا‘‘(فتح:۲۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان:(اے حبیب! یاد کریں ) جب کافروں نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت کی ہٹ دھرمی جیسی ضد رکھی تو اللہ نے اپنا اطمینان اپنے رسول اور ایمان والوں پر اتارا اور پرہیزگاری کا کلمہ ان پر لازم فرمادیا اور مسلمان اس کلمہ کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔
اور وہ کلمہ ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ ہے۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۳۴۹، الحدیث: ۱۲۷۲)
{بَلْ جَآءَ بِالْحَقِّ: بلکہ وہ تو حق لائے ہیں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی بات کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ نبی دیوانے اور شاعر نہیں ،بلکہ وہ تو حق لائے ہیں اور انہوں نے دین، توحید اورشرک کی نفی میں اپنے سے پہلے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق فرمائی ہے۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۱۷، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۳۷، ۷ / ۴۵۷، ملتقطاً)
{اِنَّكُمْ: بیشک تم۔} اس آیت اور اس کے بعدوالی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن کافروں نے تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف شاعری اور جنون کی نسبت کی ،ان سے فرمایا گیا کہ بیشک تم ضرور آخرت میں دردناک عذاب چکھنے والے ہو اور تم جو دنیا میں شرک اور تکذیب کر آئے ہو تمہیں اسی کا بدلہ دیا جائے گا۔( تفسیر طبری، الصافات، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۱۰ / ۴۸۳، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹،۴ / ۱۷، ملتقطاً)
{اِلَّا: مگر۔} اس آیت میں مخلص بندوں کا عذاب کے حکم سے اِستثناء کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ البتہ جو اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے یعنی ایمان اوراخلاص والے بندے ہیں وہ درد ناک عذاب نہیں چکھیں گے اور ان کے حساب میں سوال وکلام نہ ہو گا بلکہ اگر ان سے کوئی خطا سرزد ہوئی ہو گی تو ا س سے در گزر کر دیا جائے گا اور انہیں ایک نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات سو گنا یا اس سے جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ چاہے دیا جائے گا۔( ابن کثیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۴۰، ۷ / ۱۰)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan