Surah As-Saaffaat
{اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ رِزْقٌ: ان کے لیے روزی ہے۔} اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت قبول کرنے سے انکار کرنے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے انکار پر قائم رہنے والوں کا حال بیان کرنے کے بعد یہاں سے ایمان والے مخلص بندوں کے ثواب کی کیفِیَّت بیان کی جا رہی ہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 3آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے مخلص بندوں کے لئے جنت میں وہ روزی ہے جو (قرآن کے ذریعے) معلوم (ہوچکی) ہے یا جو ہمارے علم میں ہے اور وہ روزی پھل میوے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت میں پیدا فرمائے ہیں اور وہ انتہائی نفیس، لذیذ،خوش ذائقہ، خوشبودار اور خوش منظر ہوں گے اور یہ روزی انتہائی عزت و تعظیم کے ساتھ انہیں پیش کی جائے گی اور وہ چین کے باغوں میں ایک دوسرے سے مانوس اور مَسرورتختوں پر آمنے سامنے ہوں گے۔( تفسیر کبیر، الصافات ، تحت الآیۃ: ۴۱- ۴۴، ۹ / ۳۳۲ ، تفسیر طبری ، الصافات ، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۴، ۱۰ / ۴۸۴، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۴، ص۱۰۰۱، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۴، ۴ / ۱۷، ملتقطاً)
{یُطَافُ عَلَیْهِمْ: ان پر دَور ہوں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں ا یمان والے مخلص بندوں کو جنت میں ملنے والی شراب اور ا س کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں ،چنانچہ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جنتی شراب کی پاکیزہ نہریں ان کی نگاہوں کے سامنے جاری ہوں گی اور وہ خالص شراب ہوگی جس کے جام کے ان پر دَور ہوں گے، اس شراب کے اوصاف یہ ہیں ۔(1)دودھ سے بھی زیادہ سفید رنگ کی شراب ہوگی۔(2)پینے والوں کے لیے لذت بخش ہوگی، جبکہ دنیا کی شراب میں یہ وصف نہیں بلکہ وہ بدبودار اور بدذائقہ ہوتی ہے اور پینے والا اس کو پیتے وقت منہ بگاڑ تا رہتا ہے۔(3) جنتی شراب میں خُمار نہیں ہے جس سے عقل میں خَلَل آئے۔(4) جنتی اس شراب سے نشے میں نہیں آئیں گے۔ جبکہ دنیا کی شراب میں یہ اوصاف نہیں بلکہ اس میں بہت سے فسادات اور عیب ہیں ،اس سے پیٹ میں بھی درد ہوتا ہے اور سر میں بھی، پیشاب میں بھی تکلیف ہوجاتی ہے، طبیعت متلانے لگتی ہے، قے آتی ہے، سر چکراتا ہے اور عقل ٹھکانے نہیں رہتی۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۷، ۴ / ۱۷-۱۸، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۷، ص۳۷۵، ملتقطاً)
{وَ عِنْدَهُمْ: اور ان کے پاس۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں ایمان والے مخلص بندوں کوجنت میں ملنے والی حوروں کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں ۔ وہ اوصاف یہ ہیں ۔(1)وہ حوریں شوہروں کے سوا دوسری طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں گی کہ اس کے نزدیک اس کاشوہر ہی صاحب ِحسن اور پیارا ہے۔ (2)بڑی اور خوبصورت آنکھوں والی ہوں گی۔(3) وہ گردوغبار سے پاک اوراس قدر صاف شفاف اور سفید ہوں گی گویا کہ وہ چھپا کر رکھے ہوئے انڈے ہیں۔(جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۴۸-۴۹، ص۳۷۵، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۴۸-۴۹، ۴ / ۱۸، ملتقطاً)
{فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ: پھر جنتی ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 7 آیات میں بیان کی گئی اہلِ جنت کی باہمی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ جنتی شرابِ طَہور پینے کے دوران آپس میں سوال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو ں گے کہ دنیا میں کیا حالات اور واقعات پیش آئے۔ان میں سے ایک کہنے والاکہے گا: دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا جو مرنے کے بعد اُٹھنے کا منکر تھا اور اس کے بارے میں طنز کے طور پرمجھ سے کہا کرتا تھا کہ کیا تم مرنے کے بعد اُٹھنے کو سچ مانتے ہو؟اورکیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہمیں جزا سزا دی جائے گی اور ہم سے حساب لیا جائے گا ؟ یہ بیان کرکے وہ جنتی اپنے جنتی دوستوں سے کہے گا :کیا تم جھانک کر دیکھو گے کہ میرے اس ہم نشین کا جہنم میں کیا حال ہے۔وہ جواب دیں گے کہ تم ہم سے زیادہ اسے جانتے ہو ۔ پھرجب وہ جھانکے گا تو اپنے اس دنیا کے ساتھی کو بھڑکتی آگ کے درمیان میں دیکھے گا کہ عذاب کے اندر گرفتار ہے ،تو وہ جنتی اس سے کہے گا: خدا کی قسم! قریب تھا کہ تو ضرورمجھے بھی راہ ِراست سے بہکا کر ہلاک کردیتا ۔ اوراگر میرے رب عَزَّوَجَلَّ کا احسان نہ ہوتا اور وہ اپنی رحمت و کرم سے مجھے تیرے بہکانے سے محفوظ نہ رکھتا اور اسلام پر قائم رہنے کی توفیق نہ دیتا تو ضرور میں بھی تیرے ساتھ جہنم میں موجود ہوتا۔( خازن، و الصافات ، تحت الآیۃ: ۵۰- ۵۷، ۴ / ۱۸ ، مدارک ، الصافات ، تحت الآیۃ: ۵۰- ۵۷، ص ۱۰۰۲، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۷، ص۳۷۵، ملتقطاً)
{اَفَمَا نَحْنُ بِمَیِّتِیْنَ: تو کیا ہم مریں گے نہیں ؟} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب موت ذبح کردی جائے گی تو اہل ِجنت فرشتوں سے کہیں گے :کیا ہم دنیا میں ہو جانے والی پہلی موت کے سوا مریں گے نہیں اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا؟ فرشتے کہیں گے: نہیں یعنی اب تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ اس پر جنتی کہیں گے کہ بیشک یہ بڑی کامیابی ہے جو ہمیں نصیب ہوئی ۔یاد رہے کہ اہلِ جنت کا یہ دریافت کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ لذّت حاصل کرنے کیلئے ہوگا اور اس لئے ہوگا تاکہ وہ دائمی حیات کی نعمت اور عذاب سے مامون ہونے کے احسان پر اللہ کی نعمت کو یاد کریں اور اس ذکر سے انہیں سُرور حاصل ہوگا۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۵۸-۶۰، ۴ / ۱۸، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۵۸-۶۰، ص۱۰۰۲، ملتقطاً)
{لِمِثْلِ هٰذَا: ایسی ہی کامیابی کے لیے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے بدلے ثواب اور اُخروی انعامات حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ عمل کرنے والوں کو ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنا چاہیے۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۶۱، ۴ / ۱۸-۱۹)
اُخروی کامیابی کے لئے ہی عمل کرنا چاہئے:
اس آیت ِمبارکہ سے معلوم ہوا کہ اصل اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان کو جہنم کے عذاب سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، لہٰذا اسی کامیابی کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے ۔نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عملِ مبارک میں بھی اس کی ترغیب موجود ہے، چنانچہ حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دست ِاَقدس میرے ہاتھ میں تھا،اسی دوران آپ نے ایک جنازہ دیکھا تو آپ جلدی جلدی چلنے لگے حتّٰی کہ قبر کے پاس پہنچ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور اتنا روئے کہ آپ کے مبارک آنسوؤں سے مٹی تر ہو گئی، پھر ارشاد فرمایا:
’’لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: ایسی ہی کامیابی کیلئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔( در منثور، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۱، ۷ / ۹۵)
اور ہمارے دیگر بزرگانِ دین بھی اسی کی ترغیب دیتے رہے ہیں ،چنانچہ منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے وفات کے وقت آنکھیں کھولیں ،پھر مسکرائے اور فرمایا:
’’لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔( تاریخ دمشق، حرف المیم فی اسماء آباء العبادلۃ، عبد اللّٰہ بن المبارک بن واضح۔۔۔ الخ، ۳۲ / ۴۷۶)
حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں نے حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو خواب میں دیکھا گویا کہ وہ جنت میں ایک درخت سے دوسرے درخت کی طرف پرواز کر رہے ہیں اور یہ فرما رہے ہیں :
ؔ’’لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الاول، الباب الثامن، بیان منامات المشایخ۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۶۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی آخرت کو کامیاب بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{اَذٰلِكَ خَیْرٌ نُّزُلًا: تو یہ مہمان نوازی بہتر ہے۔} یعنی جنت کی نعمتیں ، لذتیں ،وہاں کے نفیس و لطیف کھانے اور مشروبات ، دائمی عیش اور بے ا نتہا راحت و سُرور بہتر ہے یا جہنم میں ملنے والا زَقوم کا درخت جو نہایت تلخ، انتہائی بدبودار، حد درجہ کا بدمزہ اور سخت ناگوار ہے،اس سے دوزخیوں کی میزبانی کی جائے گی اور ان کو اس کے کھانے پر مجبور کیا جائے گا۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۱۰۰۲، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۱۹، ملتقطاً)
جہنمی درخت زقوم کی کیفیت:
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زقوم کے درخت کا ایک قطرہ بھی دنیا والوں پر گرا دیا جائے تو ان کی زندگی برباد ہو جائے گی تو ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جن کا کھانا ہی زقوم ہو گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ جہنم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، ۴ / ۲۶۳، الحدیث: ۲۵۹۴)
اللہ تعالیٰ ہمارا ایمان سلامت رکھے اور جہنم کے اس عذاب سے ہماری حفاظت فرمائے،اٰمین۔
{اِنَّا جَعَلْنٰهَا: بیشک ہم نے اس درخت کو بنا دیا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ بے شک ہم نے زقوم کے درخت کو آخرت میں کافروں کے لئے عذاب بنا دیا ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ بیشک ہم نے اس درخت کو دنیا میں کافروں کیلئے آزمائش بنادیا ہے ۔ جب کفار نے جہنم میں اس درخت کے بارے میں سنا تو وہ ا س کی وجہ سے فتنے میں پڑگئے اوروہ فتنہ یہ کہ اس کے سبب قرآن اور نبوت پر طعن کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آگ میں درخت ہو حالانکہ آگ تو درختوں کو جلاڈالتی ہے ۔یہ لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے جانتے نہیں کہ جو رب تعالیٰ ایسا حیوان پیدا کرنے پر قدرت رکھتا ہے جو آگ میں زندگی گزارتا اور آگ سے لذت حاصل کرتا ہے تو وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ آگ میں درخت پیدا فرما دے اورا سے جلنے سے محفوظ رکھے ۔ (روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۳، ۷ / ۴۶۴-۴۶۵)
{اِنَّهَا شَجَرَةٌ: بیشک وہ ایک درخت ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں کافروں کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ بیشک زقوم ایک درخت ہے جو جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے اور اس کی شاخیں جہنم کے ہر طبقے میں پہنچتی ہیں ، اس کا شگوفہ بد صورتی میں ایسے ہے جیسے شیطانوں کے سرہوں یعنی نہایت بدہَیئت اور قبیح المَنظر ، سانپوں کے پَھن کی طرح۔چونکہ کفار کا کفر دل میں تھا اور بد اَعمالیاں ظاہری جسم میں اور وہ خود انسانی شکل میں شیطان تھے۔ اس لئے انہیں سزا بھی اسی قسم کی دی گئی ،نیز جب ا س درخت کا اصل عُنصر ہی آگ ہے تو آگ اسے کیسے جلائے گی؟( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۴-۶۵، ۷ / ۴۶۵، ملخصاً)
{فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا: پھر بیشک وہ اس میں سے کھائیں گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں جہنم میں کفار کے کھانے اور مشروب کا بیان کیا گیا ہے ۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار بھوک کی شدت سے مجبور ہو کر جہنمی تھوہڑ میں سے کھائیں گے ، یہاں تک کہ اس سے ان کے پیٹ بھر جائیں گے، وہ تھوہڑجلتا ہوگا اور ان کے پیٹوں کو جلائے گا، اس کی سوزش سے پیاس کا غلبہ ہوگا اور وہ ایک عرصے تک تو پیاس کی تکلیف میں رکھے جائیں گے۔ پھر جب پینے کو دیا جائے گا تو گرم کھولتا پانی، اس کی گرمی اور سوزش، اُس تھوہڑ کی گرمی اور جلن سے مل کر تکلیف و بے چینی اوربڑھادے گی۔(مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۶-۶۷، ص۱۰۰۳)
{ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ: پھر بیشک ان کا لوٹنا۔} ارشاد فرمایا کہ پھر بیشک ان کا لوٹنا ضرور بھڑکتی آگ کی طرف ہے کیونکہ زقوم کھلانے اور گرم پانی پلانے کے لئے ان کو اپنے دَرکات یعنی عذاب کے مقام سے دوسرے درکات میں لے جایا جائے گا اس کے بعد پھر اپنے درکات کی طرف لوٹائے جائیں گے۔(مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۱۰۰۳)
{اِنَّهُمْ: بیشک انہوں نے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں کفار کے عذاب کامستحق ہونے کی وجہ بیان فرمائی گئی کہ اپنے باپ دادا کوگمراہ پانے کے باوجود وہ انہیں کے نشانِ قدم پر دوڑے جارہے ہیں اور گمراہی میں ان کی پیروی کرتے ہیں جبکہ حق کے واضح دلائل سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں ۔ (مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۹-۷۰، ص۱۰۰۳، ملخصاً)
گمراہوں کی پیروی ہلاکت میں مبتلا ہونے کا سبب ہے :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح نیک بندوں کی پیروی ہدایت حاصل ہونے کا ذریعہ ہے اسی طرح گمراہوں کی پیروی ہلاکت میں مبتلا ہونے کا سبب ہے ۔ اس آیت سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جن کے پاس غیر شرعی رسم ورواج کے صحیح ہونے کی دلیل صرف خاندان میں عرصۂ دراز سے اسی طرح ہوتے آنا ہے یا آج تک کسی سے اس کا ناجائز ہونا نہ سننا ہے۔یونہی ان لوگوں کے لئے بھی نصیحت ہے جو غیر عالم سے سنے ہوئے غلط مسائل پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور جب انہیں درست مسائل بتائے جائیں تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے یہ مسئلہ اتنے لوگوں سے سنا ہے اور ہمیں آج تک کسی نے نہیں کہاکہ یہ غلط ہے اور تم نے دو چار لفظ کیا پڑھ لئے اب ہمیں سمجھانے بیٹھ گئے ہو ۔انہیں چاہئے کہ رسم ورواج پر عمل کرنا ہو یا انہیں کوئی شرعی مسئلہ درپیش ہو تو اپنے بڑے بوڑھوں کے عمل اور عام لوگوں کے جواب کو دلیل بنا کر پیش کرنے کی بجائے مُستَنَد سنی عالمِ دین سے شرعی رہنمائی لے کر ہی اس پر عمل کریں ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے،آمین۔
{وَ لَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ: اور بیشک ان سے پہلے گمراہ ہوئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک کفارِ قریش سے پہلے بہت سے اگلے لوگ اسی وجہ سے گمراہ ہوئے کہ اُنہوں نے اپنے باپ دادا کی غلط راہ نہ چھوڑی اور حجت و دلیل سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا،اور بیشک ہم نے ان میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھیجے جنہوں نے ان کو گمراہی اور بدعملی کے برے انجام کا خوف دلایا لیکن انہوں نے اپنے جاہل باپ داداؤں کی پیروی نہ چھوڑی اورانبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کہنا نہ مانا جس کی وجہ سے ان ڈرائے جانے والوں کا انجام یہ ہوا کہ وہ عذاب سے ہلاک کر دئیے گئے جبکہ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے ایمانداربندے عافیت میں رہے اور انہوں نے اپنے اخلاص کے سبب عذاب سے نجات پائی۔ (مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۴، ص۱۰۰۳، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۴، ۴ / ۱۹، ملتقطاً)
{وَ لَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ: اور بیشک نوح نے ہمیں پکارا۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے 7 واقعات بیان فرمائے،سب سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرمایا اوراس کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ،حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ، حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ، حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ،حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرمایا۔ان تما م واقعات کو بیان فرمانے سے مقصود حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا اور ان کی امت میں سے کفر کرنے والوں کو عذاب سے ڈرانا ہے۔( صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۵، ۵ / ۱۷۴۲)
جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواپنی قوم کے ایمان قبول کرنے کی امید نہ رہی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی،
’’اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ‘‘(قمر:۱۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: میں مغلوب ہوں تو تومیرا بدلہ لے۔
اور عرض کی:
’’رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا(۲۶)اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَ لَا یَلِدُوْۤا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا‘‘(نوح:۲۶، ۲۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے میرے رب! زمین پر کافروں میں سے کوئی بسنے والا نہ چھوڑ۔ بیشک اگر تو انہیں چھوڑ دے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور یہ اولاد بھی ایسی ہی جنیں گے جو بدکار، بڑی ناشکری ہوگی۔
زیرِ تفسیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہمیں پکارا اور ہم سے اپنی قوم پر عذاب نازل کرنے اور انہیں ہلاک کر دینے کی درخواست کی تو ہم کیا ہی اچھے جواب دینے والے ہیں کہ ہم نے اُن کی دعا قبول کی اور دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کی اور اُن کے دشمنوں سے پورا انتقام لیا کہ انہیں غرق کرکے ہلاک کردیا۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۱۰۰۳ ، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۳۷۶، قرطبی، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۵، ۸ / ۶۶، الجزء الخامس عشر، ملتقطاً)
{وَ نَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ: اور ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی۔} یعنی ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور جو ان پر ایمان لایا انہیں غرق ہونے سے نجات دی۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۱۰۰۳)
{وَ جَعَلْنَا ذُرِّیَّتَهٗ: اور ہم نے اسی کی اولاد کو کر دیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہی باقی رکھی تو اب دنیا میں جتنے انسان ہیں سب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسل سے ہیں ۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کشتی سے اترنے کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد اور ان کی بیویوں کے علاوہ جتنے مرد و عورت تھے سبھی آگے کوئی نسل چلائے بغیر فوت ہوگئے ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولادسے دنیا کی نسلیں چلیں ۔عرب ، فارس اور روم آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرزند سام کی اولاد سے ہیں ۔ سوڈان کے لوگ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے حام کی نسل سے ہیں ۔ ترک اوریاجوج ماجوج وغیرہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صاحب زادے یافث کی اولاد سے ہیں ۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۷۷، ۴ / ۱۹-۲۰، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۱۰۰۳-۱۰۰۴، ملتقطاً)
{وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ: اور ہم نے اس کی تعریف باقی رکھی۔} یعنی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد والے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کی اُمتوں میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکرِ جمیل باقی رکھا۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۷۸، ۴ / ۲۰)
وفات کے بعد دنیا میں ذکر ِخیر رہنا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ وفات کے بعد دنیا میں ذکر ِخیر رہنا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور دنیا میں لوگوں کا اچھے الفاظ میں یاد کرنا کس قدر باعثِ رحمت ہے اس کا اندازہ اس حدیثِ پاک سے لگایا جا سکتا ہے۔چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک جنازہ گزرا،لوگوں نے اس کی تعریف کی توحضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’واجب ہوگئی ،واجب ہو گئی ،واجب ہو گئی۔ جب دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی مذمت کی۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ واجب ہوگئی، واجب ہو گئی ،واجب ہو گئی۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ،ایک جنازہ گزرا اور لوگوں نے ا س کی اچھائی بیان کی تو آپ نے تین بارفرمایا’’ واجب ہو گئی! اور ایک دوسرا جنازہ گزرا،لوگوں نے اس کی برائی بیان کی تو بھی آپ نے تین بار فرمایا: ’’واجب ہو گئی !تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس جنازے کی تم نے تعریف کی اس پر جنت واجب ہو گئی اور جس جنازے کی تم نے مذمت بیان کی ا س پر جہنم واجب ہو گئی ۔ تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو ، تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو، تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔( مسلم، کتاب الجنائز، باب فیمن یثنی علیہ خیر او شرّ من الموتی، ص۴۷۳، الحدیث: ۶۰(۹۴۹))
{سَلٰمٌ: سلام ہو۔} یعنی فرشتے ،جنات اور انسان سب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر قیامت تک سلام بھیجتے رہیں گے۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۱۰۰۴)
بچھو کے ڈنگ اور زہریلے جانوروں سے محفوظ رہنے کاوظیفہ:
حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ جو شخص شام کے وقت یہ آیت ’’سَلٰمٌ عَلٰى نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ‘‘ پڑھ لیا کرے تو اسے بچھو نہیں کاٹے گا۔( التمہید لابن عبد البر، سہیل بن ابی صالح، ۸ / ۵۶۵، تحت الحدیث: ۶۱۱)اور بعض بزرگوں نے فرمایا کہ جو شخص یہ آیت صبح شام پڑھ لیا کرے وہ زہریلے جانوروں سے امن میں رہے اور اگر کشتی میں سوار ہوتے وقت پڑھ لے تو ڈوبنے سے محفوظ رہے۔
{اِنَّا كَذٰلِكَ: بیشک ہم ایسا ہی۔} یعنی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرما کر،ان کی نسل کو باقی رکھ کر، بعد والوں میں ان کی تعریف باقی چھوڑ کر اور تمام جہان والوں میں ان پر سلام بھیج کر جو انہیں مقام اور مرتبہ عطا کیا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نیکوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔( صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۰، ۵ / ۱۷۴۲، ملخصاً)
{اِنَّهٗ: بیشک وہ۔} یعنی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نیک ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔اسے بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ سب سے اعلیٰ درجہ اور سب سے زیادہ عزت کا مقام اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کی طاعت کے آگے سرِ تسلیم خَم کر دینا ہے۔پھر جو اِس ایمان و اطاعت میں جتنا زیادہ ہے وہ اتنا ہی مُقَرّب ہے۔
{ثُمَّ اَغْرَقْنَا: پھر ہم نے ڈبو دیا۔} اس آیت کا تعلق آیت نمبر76کے ساتھ ہے اور معنی یہ ہے کہ ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں کو غرق ہونے سے نجات دی،پھر ان کی قوم کے تمام کافروں کو غرق کر دیا۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan