Surah As-Saaffaat
{فَاِنَّكُمْ: تو تم۔} اس سے پہلی آیات میں کفار کا مذہب فاسد ہونے پر دلائل بیان کئے گئے جبکہ اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں فرمایا گیا کہ اے کفارِ مکہ!تمہارے سب کے سب بت اور تم اللہ تعالیٰ کے خلاف کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے، البتہ اسے گمراہ کر سکتے ہوجس کی قسمت ہی میں یہ ہے کہ وہ اپنی بدکرداری کی وجہ سے جہنم کا مستحق ہو۔(تفسیر کبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶۱-۱۶۳، ۹ / ۳۶۱، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶۱-۱۶۳، ص۱۰۱۱، ملتقطاً)
{وَ مَا مِنَّا: ہم میں ہر ایک کیلئے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے کفار!جن فرشتوں کو تم اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے ہو، اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے درمیان نسب ثابت کر کے ان کی عبادت کرتے ہو،ان فرشتوں کا اقرار تو یہ ہے کہ ہم رب تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور ہم سب کے مقامات علیحدہ ہیں جہاں رہ کر اس کی بتائی ہوئی عبادت کرتے ہیں ، اور جب وہ اپنی عَبْدِیَّت اور اللہ تعالیٰ کی معبودِیَّت کا اقرار کررہے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد کس طرح ہو سکتے ہیں ۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے حضور سید المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم فرشتوں کے گروہوں میں سے ہر ایک کیلئے ایک جگہ مقرر ہے جس میں وہ اپنے رب تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ آسمانوں میں بالِشْت بھر بھی جگہ ایسی نہیں ہے جس میں کوئی فرشتہ نماز نہ پڑھتا ہو یا تسبیح نہ کرتا ہو۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶۴، ۷ / ۴۹۴-۴۹۵، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۶۴، ۴ / ۲۸، ملتقطاً)
حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے، میں وہ باتیں سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔آسمان چَرچَرایا اورا س کا چرچرانا حق ہے،اس میں چار انگلی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں فرشتے اپنی پیشانی رکھے اللہ تعالیٰ کے لئے سجدے میں نہ ہوں ۔( ترمذی، کتاب ا لزہد، باب فی قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لو تعلمون ما اعلم۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۴۰، الحدیث: ۲۳۱۹)
{وَ اِنَّا لَنَحْنُ الصَّآفُّوْنَ:اور بیشک ہم (حکم کے انتظار میں )صف باندھے ہوئے ہیں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ فرشتے کہتے ہیں : بیشک ہم اطاعت کے مقامات اور خدمت کی جگہوں میں پر پھیلائے اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر ہیں ۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ جس طرح لوگ زمین میں صفیں باند ھ کر نماز پڑھتے ہیں اسی طرح ہم (آسمان میں ) صفیں باندھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہیں ۔تیسری تفسیر یہ ہے کہ ہم عرش کے ارد گرد اللہ تعالیٰ کے حکم کے انتظار میں صفیں باندھے ہوئے ہیں ۔( ابو سعود ، الصافات ، تحت الآیۃ : ۱۶۵ ، ۴ / ۴۲۴ ، خازن ، و الصافات ، تحت الآیۃ : ۱۶۵، ۴ / ۲۸، روح المعانی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶۵، ۱۲ / ۲۰۵، ملتقطاً)
{وَ اِنْ كَانُوْا لَیَقُوْلُوْنَ: اور بیشک وہ کہتے تھے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کے کفار و مشرکین تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے کہا کرتے تھے کہ اگر ہمیں بھی پہلے لوگوں پر نازل ہونے والی کتابوں تورات اور انجیل کی طرح کوئی کتاب ملتی تو ضرور ہم اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندے ہوتے ،ہم اس کی اطاعت کرتے اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت بجالاتے اور جس طرح انہوں نے جھٹلایا اس طرح ہم نہ جھٹلاتے اور جس طرح انہوں نے مخالفت کی ا س طرح ہم مخالفت نہ کرتے،پھر جب تمام کتابوں سے افضل و اشرف اور اپنی مثل لانے سے عاجز کر دینے والی کتاب انہیں ملی یعنی قرآن مجید نازل ہوا تو یہی لوگ اس کے منکر ہوگئے، پس عنقریب یہ لوگ اپنے کفر کا انجام جان لیں گے۔ (مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۶۷-۱۷۰، ص۱۰۱۲، ملخصاً)
{وَ لَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا: اور بیشک ہمارا کلام گزر چکا ہے۔} کفار کو ان کے انجام سے ڈرانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہاں سے ایساکلام فرمایا ہے جس سے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دل کو تَقْوِیَت حاصل ہو۔ چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک ہمارے بھیجے ہوئے بندوں کے لیے ہمارا کلام لوحِ محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے کہ بیشک انہی کی مدد کی جائے گی اورجس کی ہم مدد کریں وہ کبھی مغلوب نہ ہو گا اور بیشک رسولوں اور ان کی پیروی کرنے والے اہلِ ایمان کالشکرہی اپنے دشمنوں پر دنیا اور آخرت میں غالب ہوگا ،تو اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ نے جان لیا کہ نصرت اور غلبہ آپ کا اورآپ کی پیروی کرنے والوں کا ہو گا تو آپ ان مشرکین سے منہ پھیر لیں اور ان کی اَذِیَّتوں پر صبر فرمائیں یہاں تک کہ آپ کو ان کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیدیا جائے اور جب ان پر عذاب نازل ہو تو انہیں دیکھتے رہیں ، عنقریب وہ لوگ دنیا و آخرت میں طرح طرح کے عذاب دیکھیں گے۔(تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۷۱-۱۷۵، ۹ / ۳۶۳، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۷۱-۱۷۵، ۷ / ۴۹۷- ۴۹۸، خازن، والصافات،تحت الآیۃ:۱۷۱-۱۷۵،۴ / ۲۹، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۷۱-۱۷۵، ص۱۰۱۲، ملتقطاً)
{وَ تَوَلَّ عَنْهُمْ: اور ان سے منہ پھیرلو۔} یہاں دوبارہ یہ کلام عذاب کی وعید کوتاکید کے ساتھ بیان کرنے کے لئے کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت نمبر174اور175میں کفار کے دُنْیَوی اَحوال کے بارے میں کلام فرمایا گیا اور اب یہاں سے ان کے اُخروی اَحوال کے بارے میں کلام فرمایا جارہا ہے۔اس صورت میں آیات میں تکرار نہیں ہے۔(خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۷۸، ۴ / ۲۹)
{سُبْحٰنَ رَبِّكَ: تمہارا رب پاک ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا عزت والا رب ان تمام باتوں سے پاک اور بَری ہے جو کافر اس کی شان میں کہتے ہیں اور اس کے لئے شریک اور اولاد ٹھہراتے ہیں ۔( تفسیر طبری، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۸۰، ۱۰ / ۵۴۳، ملخصاً)
{وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ: اور رسولوں پر سلام ہو۔} اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ اور وسیلہ چونکہ رسول ہیں ا س لئے ان کی شان کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرمایاکہ رسولوں پر سلام ہو جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے توحید اور احکامِ شرع پہنچائے کیونکہ انسانی مَراتب میں سب سے اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ وہ خود کامل ہواور دوسروں کی تکمیل کرے، یہ شان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہے ،لہٰذا ہر ایک پر ان حضرات کی پیروی اور ان کی اِقتدا لازم ہے۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۸۱، ۷ / ۵۰۰، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۸۱، ۴ / ۲۹، ملتقطاً)اور ہم چونکہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہیں ا س لئے ہم پر ان کی پیروی لازم ہے۔
سورہِ صافّات کی آخری3آیات کی فضیلت:
سورہِ صافّات کی ان آخری 3آیات کی بہت فضیلت ہے ،چنانچہ
حضرت ارقم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے ہر نماز کے بعد تین مرتبہ کہا: ’’سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ(۱۸۰) وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ(۱۸۱) وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ ’’تو ا س نے اپنا اجر کا پیمانہ بھر لیا۔( معجم الکبیر، عبد اللّٰہ بن زید بن ارقم عن ابیہ، ۵ / ۲۱۱، الحدیث: ۵۱۲۴)
اورحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں ،جسے یہ پسند ہو کہ قیامت کے دن اسے اجر کا پیمانہ بھر بھر کے دیا جائے تو اسے چاہئے کہ اس کی مجلس کا آخری کلام یہ ہو:’’ سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ(۱۸۰) وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ(۱۸۱) وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘(تفسیر بغوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۸۲، ۴ / ۴۰)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan