READ

Surah As-Saaffaat

اَلصّٰٓفّٰت
182 Ayaat    مکیۃ


37:81
اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱)
بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہے،

37:82
ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ(۸۲)
پھر ہم نے دوسروں کو ڈبو دیا (ف۸۱)

37:83
وَ اِنَّ مِنْ شِیْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِیْمَۘ(۸۳)
اور بیشک اسی کے گروہ سے ابراہیم ہے (ف۸۲)

{وَ اِنَّ مِنْ شِیْعَتِهٖ: اور بیشک اسی کے گروہ سے۔} یہاں  سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔اس آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین و ملت اور انہیں  کے طریقے پر ہیں۔

            حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان دو ہزار سے زیادہ برس کے زمانے کا فرق ہے اور دونوں  حضرات کے درمیان جو زمانہ گزرا اس میں صرف دو نبی، حضرت ہود اورحضرت صالح عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے تین نبی، حضرت ادریس،حضرت شیث اور حضرت آدم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے،اس طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ساتویں  نبی ہیں ۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۸۳، ۴ / ۲۰، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۱۰۰۴، صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۳، ۵ / ۱۷۴۳، ملتقطاً)

37:84
اِذْ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ(۸۴)
جبکہ اپنے رب کے پاس حاضر ہوا غیر سے سلامت دل لے کر (ف۸۳)

{اِذْ جَآءَ رَبَّهٗ: جبکہ اپنے رب کے پاس حاضر ہوا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور عبادت کی دعوت دی تو اس وقت ان کے دل میں  اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص تھا اور انہوں  نے دنیا کی ہر چیز سے اپنے دل کوفارغ کرلیا تھا۔( قرطبی،الصافات،تحت الآیۃ:۸۴، ۸ / ۶۸،الجزء الخامس عشر، مدارک،الصافات،تحت الآیۃ:۸۴،ص۱۰۰۴،ملتقطاً)
37:85
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا ذَا تَعْبُدُوْنَۚ(۸۵)
جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا (ف۸۴) تم کیا پوجتے ہو،

{اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ: جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا۔} اس آیت اورا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم بتوں  کی پوجا کرتی تھی ،اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے عرفی باپ آزر اور اپنی قوم سے عتاب کے طور پر فرمایا: ’’تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟ کیا تم بہتان باندھ کر اللہ تعالیٰ کے سوا اور معبودوں کی عبادت کرتے ہو؟ تمہارا رب العالمین پرکیا گمان ہے کہ جب تم اس کے سوا دوسرے کی پوجا کرو گے تو کیا وہ تمہیں  عذاب دئیے بغیر چھوڑ دے گا، حالانکہ تم جانتے ہو کہ وہی در حقیقت نعمتیں  عطا کرنے والا اور عبادت کا مستحق ہے۔ قوم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جواب دیا کہ ’’ کل کے دن ہماری عید ہے ،جنگل میں  میلہ لگے گا ،ہم نفیس کھانے پکا کر بتوں  کے پاس رکھ جائیں  گے اور میلے سے واپس آکر تَبَرُّک کے طور پر وہ کھانے کھائیں  گے۔ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں  اور مجمع اور میلہ کی رونق دیکھیں  ،وہاں  سے واپس آ کر بتوں  کی زینت ، سجاوٹ اور ان کا بناؤ سنگار دیکھیں ، یہ تماشا دیکھنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں  کہ آپ بت پرستی پر ہمیں  ملامت نہیں  کریں  گے۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۵-۸۷، ۷ / ۴۶۹، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۸۵-۸۷، ۴ / ۲۰، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۵-۸۷، ص۱۰۰۴، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۵-۸۷، ص۳۷۶، ملتقطاً)

37:86
اَىٕفْكًا اٰلِهَةً دُوْنَ اللّٰهِ تُرِیْدُوْنَؕ(۸۶)
کیا بہتان سے اللہ کے سوا اور خدا چاہتے ہو،

37:87
فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۸۷)
تو تمہارا کیا گمان سے رب العالمین پر (ف۸۵)

37:88
فَنَظَرَ نَظْرَةً فِی النُّجُوْمِۙ(۸۸)
پھر اس نے ایک نگاہ ستاروں کو دیکھا (ف۸۶)

{فَنَظَرَ نَظْرَةً: پھر اس نے ایک نگاہ دیکھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قوم کا جواب سن کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا ئی اور ایک نظر ستاروں  کی طرف ایسے دیکھا جیسے ستارہ شناس اور علمِ نجوم کے ماہر ستاروں  کے ملنے اور جدا ہونے کی جگہ کو دیکھاکرتے ہیں ،اس کے بعد فرمایا: ’’ میں  بیمار ہونے والا ہوں ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم چونکہ ستاروں  کی بہت معتقد تھی ا س لئے وہ سمجھی کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ستاروں  سے اپنے بیمار ہونے کا حال معلوم کرلیا ہے۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۸۸-۸۹، ص۱۰۰۴، ملخصاً)

          نوٹ:یاد رہے کہ علمِ نجوم حق ہے اوریہ علم سیکھنے میں  مشغول ہونا منسوخ ہوچکا ہے۔
37:89
فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ(۸۹)
پھر کہا میں بیمار ہونے والا ہوں (ف۸۷)

37:90
فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِیْنَ(۹۰)
تو وہ اس پر پیٹھ دے کر پھر گئے (ف۸۸)

{فَتَوَلَّوْا عَنْهُ: تو قوم کے لوگ اس سے پھر گئے۔} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ستاروں  کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ میں  بیمار ہونے والا ہوں  تو اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ اپنی عید گاہ کی طرف پھر گئے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس لئے ساتھ لے کر نہ گئے تاکہ ان کے اعتقاد کے مطابق آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری اُڑ کر انہیں  نہ لگ جائے۔(روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۰، ۷ / ۴۷۰، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۸۹-۹۰، ۴ / ۲۰، ملتقطاً)

{فَرَاغَ اِلٰۤى اٰلِهَتِهِمْ: پھر ان کے خداؤں  کی طرف چھپ کر چلے۔} جب قوم کے لوگ چلے گئے تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان سے نگاہ بچاتے ہوئے ا ن کے بت خانے کی طرف چلے،پھر وہاں  جاکر بتوں  کا مذاق اڑاتے ہوئے ان سے فرمایا:کیا تم اس کھانے کو نہیں  کھاتے جو تمہارے سامنے وہ لوگ اس لئے رکھ گئے ہیں  تاکہ برکت والاہو جائے؟ ان بتوں  کی تعدادکافی زیادہ تھی،ان میں  سے بعض بت پتھر کے تھے،بعض لکڑی کے،بعض سونے کے،بعض چاندی کے، بعض تانبے کے،بعض لوہے کے اور بعض سیسے کے بنے ہوئے تھے،سب سے بڑا بت سونے کا بنا ہوا تھا اور اس پر جواہرات لگے ہوئے تھے ۔ (ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۱،۴ / ۴۱۴، جمل، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۱، ۶ / ۳۴۱، ملتقطاً)

{مَا لَكُمْ: تمہیں  کیا ہوا۔} جب بتوں  نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات کا کوئی جواب نہ دیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’تمہیں  کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ؟ پھربھی بتوں  کی طرف سے کوئی جواب نہ آیااور وہ جواب ہی کیا دیتے کیونکہ وہ تو بے جان تھے۔

37:91
فَرَاغَ اِلٰۤى اٰلِهَتِهِمْ فَقَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَۚ(۹۱)
پھر ان کے خداؤں کی طرف چھپ کر چلا تو کہا کیا تم نہیں کھاتے (ف۸۹)

37:92
مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُوْنَ(۹۲)
تمہیں کیا ہوا کہ نہیں بولتے (ف۹۰)

37:93
فَرَاغَ عَلَیْهِمْ ضَرْبًۢا بِالْیَمِیْنِ(۹۳)
تو لوگوں کی نظر بچا کر انہیں دہنے ہاتھ سے مارنے لگا (ف۹۱)

{فَرَاغَ عَلَیْهِمْ ضَرْبًۢا: تو لوگوں  سے نظر بچا کر انہیں  مارنے لگے۔} جب بتوں  نے بالکل کوئی جواب نہ دیا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں  سے نظر بچا کر دائیں  ہاتھ میں  کلہاڑا اٹھا یا اور ان بتوں  کو مارنے لگے یہاں  تک کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بتوں  کو مار مار کر پارہ پارہ کردیا ۔(بحرالمیحط، الصافات، تحت الآیۃ:۹۳،۷ / ۳۵۱، قرطبی،الصافات،تحت الآیۃ:۹۳،۸ / ۷۰،الجزء الخامس عشر،ملتقطاً)

          نوٹ:اس واقعہ کی تفصیل سورۂ اَنبیاء آیت نمبر57،58میں  بیان ہو چکی ہے۔

{فَاَقْبَلُوْۤا اِلَیْهِ: تو کافر اس کی طرف آئے۔} جب کافروں  کو اس بات کی خبر پہنچی تو وہ بہت جلد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آئے اور ان سے کہنے لگے کہ ہم تو ان بتوں  کو پوجتے ہیں  اورتم انہیں  توڑتے ہو۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۹۴، ۴ / ۲۱، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۴، ص۳۷۶-۳۷۷، ملتقطاً)

37:94
فَاَقْبَلُوْۤا اِلَیْهِ یَزِفُّوْنَ(۹۴)
تو کافر اس کی طرف جلدی کرتے آئے (ف۹۲)

37:95
قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَۙ(۹۵)
فرمایا کیا اپنے ہاتھ کے تراشوں کو پوجتے ہو،

{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ گفتگو کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کافروں  سے فرمایا: کیا تم ان بتوں  کی عبادت کرتے ہوجنہیں  تم خود اپنے ہاتھوں  سے تراشتے ہو؟ حالانکہ تمہیں  اور تمہارے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور جوخالق ہے وہی در حقیقت عبادت کے لائق ہے جبکہ مخلوق کسی طرح بھی عبادت کی مستحق نہیں  ۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۵-۹۶، ۷ / ۴۷۱)
37:96
وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ(۹۶)
اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو (ف۹۳)

37:97
قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْهُ فِی الْجَحِیْمِ(۹۷)
بولے اس کے لیے ایک عمارت چنو (ف۹۴) پھر اسے بھڑکتی آگ میں ڈال دو،

{قَالُوْا: قوم نے کہا۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جواب سن کر وہ لوگ حیران ہوگئے اور اُن سے کوئی جواب نہ بن پایا تو کہنے لگے کہ’’ اس کے لیے پتھر کیلمبی چوڑی چار دیواری بناؤ ، پھر اس کو لکڑیوں  سے بھر دو اور ان میں  آگ لگادو، یہاں  تک کہ جب آگ زور پکڑلے تو پھرانہیں بھڑکتی آگ میں  ڈال دو۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۹۷، ۴ / ۲۱، ملتقطاً) چنانچہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی قوم نے انہیں  ایک کمرے میں  بند کر دیا اور ان کے لئے لکڑیاں  جمع کرنے لگ گئے اور سب نے جوش و خروش سے حصہ لیا ،جب انہوں  نے کثیر تعداد میں  لکڑیاں  جمع کر کے آگ لگائی تو ا س کے شعلے اتنے بلند ہوئے کہ اگر اس طرف سے کوئی پرندہ گزرتا تو وہ اس کی تپش سے جل جاتا تھا۔جب لوگوں  نے عمارت کے کنارے تک حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بلند کیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سر اٹھا کر آسمان کی طر ف دیکھا، اس وقت آسمانوں ، زمینوں ، پہاڑوں  اور فرشتوں  نے فریاد کی: ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تیرے نام کو بلند کرنے کی پاداش میں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جَلایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’مجھے یہ بات معلوم ہے،اگر وہ تمہیں پکارے تو تم ا س کی مدد کرنا ۔جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو عرض کی: ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو واحد ہے اور میں  زمین میں  واحد ہوں  اور زمین میں  میرے علاوہ اور کوئی بندہ ایسا نہیں  جو تیری عبادت کرے۔مجھے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بہت ہی اچھا کارساز ہے۔تب اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا: ’’یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ‘‘(الانبیاء:۶۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔( در منثور، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۷، ۷ / ۱۰۱-۱۰۲)

          نوٹ:اس واقعے کی بعض تفصیل سورۂ اَنبیاء کی آیت نمبر68کی تفسیر میں  گزر چکی ہے۔

 

37:98
فَاَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَسْفَلِیْنَ(۹۸)
تو انہوں نے اس پر داؤں چلنا (فریب کرنا) چاہا ہم نے انہیں نیچا دکھایا (ف۹۵)

{فَاَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا: تو انہوں  نے اس کے ساتھ فریب کرنا چاہا۔} ارشاد فرمایا کہ کفارنے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں  ڈال کر ان کے ساتھ فریب کرنا چاہا تو ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس آگ میں  سلامت رکھ کر کفار کے فریب کو باطل کر کے انہیں  ذلیل کر دیا ۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۸، ۷ / ۴۷۱، ملخصاً)

نوٹ:اس واقعہ کی مزید تفصیل سورۂ اَنبیاء آیت نمبر68تا70میں  گزر چکی ہے۔

37:99
وَ قَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ(۹۹)
اور کہا میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں (ف۹۶) اب وہ مجھے راہ دے گا (ف۹۷)

{وَ قَالَ: اور فرمایا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ سے نجات عطا فرما دی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے اہلِ خانہ کو ہجرت کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: بیشک میں  اس کفر کے مقام سے ہجرت کرکے وہاں  جانے والا ہوں  جہاں  جانے کا میرا رب عَزَّوَجَلَّ  حکم دے، اب وہ مجھے میرے مقصد کی طرف راہ دکھائے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سرزمینِ شام میں  ارضِ مُقَدَّسہ کے مقام پر پہنچے۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۹، ۷ / ۴۷۲، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۳۷۷، ملتقطاً)

 ہجرت اورفتنے کے اَیّام میں  گوشہ نشینی کی اصل:

            ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’یہ آیت ِمبارکہ ہجرت اور (فتنے کے اَیام میں ) گوشہ نشینی کی اصل ہے اور سب سے پہلے جس نے ہجرت کی وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔( تفسیر قرطبی، الصافات، تحت الآیۃ: ۹۹، ۸ / ۷۲، الجزء الخامس عشر)

            اورحضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال اس کی بکریاں  ہوں  گی جن کے پیچھے وہ پہاڑوں  کی چوٹیوں  اور چٹیل میدانوں  میں  اپنے دین کو فتنوں  سے بچانے کی خاطر بھاگتا پھرے گا۔( بخاری، کتاب الایمان، باب من الدِّین الفرار من الفتن، ۱ / ۱۸، الحدیث: ۱۹)

             اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے کہیں  جانا اللہ تعالیٰ کی طرف جانا ہے کیونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہجرت کر کے شام کی طرف تشریف لے گئے تھے ، لیکن آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف جانے والا ہوں ۔

 

37:100
رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰۰)
الٰہی مجھے لائق اولاد دے،

{رَبِّ: اے میرے رب!} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب ارضِ مُقَدَّسہ کے مقام پر پہنچے تو اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس اولاد نہیں  تھی ، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  دعا کی: ’’اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے نیک اولاد عطا فرما جو کہ دینِ حق کی دعوت دینے اورتیری عبادت کرنے پر میری مددگار ہو اور پردیس میں  مجھے اس سے اُنسِیَّت حاصل ہو ۔( ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۴ / ۴۱۵)

نیک اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیک اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس لئے جب بھی اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعا مانگی جائے تو نیک اور صالح اولاد کی دعا مانگنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے کامل ایمان والوں  کا ایک وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ نیک، صالح اورمتقی بیویوں  اور اولاد کی دعا نگتے ہیں تاکہ اُن کے اچھے عمل دیکھ کر نیز اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت دیکھ کر ان کی آنکھیں  ٹھنڈی اور دل خوش ہوں ، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا‘‘(فرقان:۷۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ جو عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہماری بیویوں  اور ہماری اولاد سے ہمیں  آنکھوں  کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں  پرہیزگاروں  کا پیشوا بنا۔

{فَبَشَّرْنٰهُ: تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی۔} اس آیت میں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوتین بشارتیں  دی گئیں۔ (1)ان کے ہاں  جو اولاد ہو گی وہ لڑکا ہو گا۔(2)وہ بالغ ہونے کی عمر کو پہنچے گا۔(3)وہ عقلمند اور بُردبار ہو گا۔( ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۴ / ۴۱۵)

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصف:

             اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حلیم اور بُردبار لڑکے کی بشارت دی اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود بھی حلیم تھے،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۱۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا، بہت برداشت کرنے والا تھا۔

اورارشاد فرمایا: ’’اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ‘‘(ہود:۷۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بڑے تحمل والا ،بہتآہیں  بھرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔

 اللہ تعالیٰ کے مقبول بند وں  کو علومِ خَمسہ کی خبر دی جاتی ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بند وں  کو علوم ِخمسہ کی خبر دی جاتی ہے،کیونکہ بیٹے کی ولادت سے پہلے اس کی خبر دے دینا علمِ غیب بلکہ ان پانچ علوم میں  سے ہے جن کے علم کا اللہ تعالیٰ کے پاس ہونا بطورِ خاص قرآن میں  مذکور ہوا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِۚ-وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَۚ-وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًاؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘(لقمان:۳۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس  ہے اور وہ بارش اتارتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں  کے پیٹ میں  ہے اور کوئی شخص نہیں  جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کوئی شخص نہیں  جانتا کہ وہ کس زمین میں  مرے گا۔ بیشک اللہ علم والا، خبردار ہے۔

 

37:101
فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۱۰۱)
تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایک عقل مند لڑکے کی،

37:102
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۰۲)
پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا میں تجھے ذبح کرتا ہوں (ف۹۸) اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے (ف۹۹) کہا اے میرے باپ کی جیئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے، خدا نے چاہتا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے،

{فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ: پھر جب وہ اس کے ساتھ کوشش کرنے کے قابل عمر کو پہنچ گیا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرزندعطا فرمایا ،وہ پلتے بڑھتے جب اس عمر تک پہنچ گئے جس میں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حاجت اور ضروریات میں  ان کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو گئے تو ان سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ اے میرے بیٹے! میں  نے خواب دیکھا ہے کہ میں  تمہیں  ذبح کررہا ہوں  اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خواب حق ہوتے ہیں  اور ان کے افعال اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا کرتے ہیں ، اب تو دیکھ لے کہ تیری کیا رائے ہے؟ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ اس لئے کہا تھا کہ ان کے فرزند کو ذبح ہونے سے وحشت نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کے لئے رغبت کے ساتھ تیار ہوجائیں  ،چنانچہ اس فرزندِ اَرْجْمند نے اللہ تعالیٰ کی رضا پر فدا ہونے کا کمالِ شوق سے اظہار کرتے ہوئے فرمایا’’ اے میرے باپ! آپ وہی کریں  جس کا آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیاجارہا ہے۔اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو عنقریب آپ مجھے ذبح پرصبر کرنے والوں  میں  سے پائیں  گے۔( ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۴ / ۴۱۵-۴۱۶، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۴ / ۲۲، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۳۷۷، ملتقطاً)

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

37:103
فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ(۱۰۳)
تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ (ف۱۰۰)

{فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا: تو جب ان دونوں  نے (ہمارے حکم پر) گردن جھکادی۔} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے فرزند نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر ِتسلیم خم کر دیا اور جب حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے فرزند کو ذبح کرنے کا ارادہ فرمایا تو ان کے فرزند نے عرض کی’’اے والد ِمحترم ! اگر آپ نے مجھے ذبح کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو پہلے مجھے رسیوں  کے ساتھ مضبوطی سے باندھ لیں  تاکہ میں  تڑپ نہ سکوں  اور اپنے کپڑے بھی سمیٹ لیں  تاکہ میرے خون کے چھینٹے آپ پر نہ پڑیں  اور میرا اجر کم نہ ہو کیونکہ موت بہت سخت ہوتی ہے اور اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کر لیں  تا کہ وہ مجھ پر آسانی سے چل جائے اور جب آپ مجھے ذبح کرنے کے لئے لٹائیں  تو پہلو کے بل لٹانے کی بجائے پیشانی کے بل لٹائیں  کیونکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ جب آپ کی نظر میرے چہرے پر پڑے گی تو ا س وقت آپ کے دل میں  رقت پیدا ہو گی اور وہ رقت اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور آپ کے درمیان حائل ہو سکتی ہے اور اگر آپ مناسب سمجھیں  تو میری قمیص میری ماں  کو دیدیں  تاکہ انہیں  تسلی ہو اور انہیں  مجھ پر صبر آ جائے ۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’ اے میرے بیٹے! تم اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں  میرے کتنے اچھے مددگار ثابت ہو رہے ہو۔ اس کے بعد فرزند کی خواہش کے مطابق پہلے اسے اچھی طرح باندھ دیا، پھر اپنی چھری کو تیز کیا اوراپنے فرزند کومنہ کے بل لٹا کر ان کے چہرے سے نظر ہٹا لی، پھر ان کے حَلق پر چھری چلادی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں  چھری کو پلٹ دیا،اس وقت انہیں  ایک ندا کی گئی ’’اے ابراہیم ! تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا اور اپنے فرزند کو ذبح کے لئے بے دریغ پیش کر کے اطاعت وفرمانبرداری کمال کو پہنچادی، بس اب اتنا کافی ہے،یہ ذبیحہ تمہارے بیٹے کی طرف سے فدیہ ہے اسے ذبح کر دو۔ یہ واقعہ منیٰ میں  واقع ہوا۔( بغوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۴ / ۲۸-۲۹، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۱۰۰۶، ملتقطاً)

             جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے فرزند کو ذبح کرنے کیلئے چلے تو شیطان ایک مرد کی صورت میں  حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس آیا اور کہنے لگا’’کیا آپ جانتی ہیں  کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آپ کے صاحبزادے کو لے کر کہاں  گئے ہیں ؟آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا’’وہ اس گھاٹی میں  لکڑیاں  لینے کیلئے گئے ہیں ۔ شیطان نے کہا’’خدا کی قسم! ایسانہیں ،وہ تو آپ کے بیٹے کو ذبح کرنے کیلئے لے گئے ہیں ۔حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا’’ہر گز ایسا نہیں  ہو سکتا کیونکہ وہ تو اپنے فرزند پر بہت شفقت کرتے اور اس سے بڑا پیار کرتے ہیں ۔ شیطان نے کہا’’ان کا گمان یہ ہے کہ انہیں  اللہ تعالیٰ نے اس بات کا حکم دیا ہے۔حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا: ’’اگر انہیں  اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو پھر اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے رب تعالیٰ کی اطاعت کریں ۔یہاں  سے نامراد ہو کر شیطان حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچا اور ان سے کہا ’’اے لڑکے!کیا تم جانتے ہو کہ آپ کے والد آپ کو کہاں  لے کر جا رہے ہیں ؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ہم اپنے اہلِ خانہ کے لئے اس گھاٹی سے لکڑیاں  لینے جا رہے ہیں ۔ شیطان نے کہا: ’’خدا کی قسم! وہ آپ کو ذبح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے فرمایا’’ وہ اس چیز کا ارادہ کیوں  رکھتے ہیں ؟شیطان نے کہا’’ان کے رب تعالیٰ نے انہیں  یہ حکم دیا ہے۔ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایاپھر تو انہیں  اپنے رب تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنا چاہئے، مجھے بسر و چشم یہ حکم قبول ہے۔ جب شیطان نے یہاں  سے بھی منہ کی کھائی تو وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچا اور کہنے لگے’’اے شیخ! آپ کہاں  جا رہے ہیں ؟حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اس گھاٹی میں  اپنے کسی کام سے جارہا ہوں ۔ شیطان نے کہا’’اللہ کی قسم! میں  سمجھتا ہوں  کہ شیطان آپ کے خواب میں  آیا اور ا س نے آپ کو اپنا فرزند ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔اس کی بات سن کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے پہچان لیا اور فرمایا’’اے دشمنِ خدا! مجھ سے دور ہٹ جا ،خدا کی قسم ! میں  اپنے رب تعالیٰ کے حکم کو ضرور پورا کروں  گا۔یہاں  سے بھی شیطان ناکام و نامراد ہی لوٹا۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۴ / ۲۳)

غریب و سادہ و رنگیں  ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حُسین ابتدا ہے اسماعیل

37:104
وَ نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُۙ(۱۰۴)
اور ہم نے اسے ندائی فرمائی کہ اے ابراہیم،

{اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ: ہم نیکی کرنے والوں  کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے صاحبزادے ا س اطاعت میں  نیکی کرنے والے تھے تو جس طرح ہم نے ان دونوں  نیک ہستیوں  کو جزا دی اسی طرح ہم ہر نیکی کرنے والے کو جز ا دیں  گے۔ (تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۹ / ۳۵۰)

{اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ: بیشک یہ ضرور کھلی آزمائش تھی۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جان، مال اور وطن کی قربانیاں  پہلے ہی پیش فرمادی تھیں  اور اب اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے اس فرزند کو بھی قربانی کے لئے پیش کر دیا جسے اپنی آخری عمر میں  بہت دعاؤں  کے بعد پایا، جو گھر کا اجالا ، گود کا پالا اور آنکھوں  کا نور تھا اور یہ سب سے سخت آزمائش تھی۔

{وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ: اور ہم نے اسماعیل کے فدیے میں ایک بڑا ذبیحہ دیدیا۔} علامہ بیضاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  اس ذبیحہ کی شان بہت بلند ہونے کی وجہ سے اسے بڑا فرمایا گیا کیونکہ یہ اس نبی عَلَیْہِ السَّلَام کا فدیہ بنا جن کی نسل سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں  ۔ (بیضاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵ / ۲۲)
37:105
قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَاۚ-اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۰۵)
بیشک تو نے خواب سچ کردکھایا (ف۱۰۱) ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو،

37:106
اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ(۱۰۶)
بیشک یہ روشن جانچ تھی،

37:107
وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ(۱۰۷)
اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے کر اسے بچالیا (ف۱۰۲)

37:108
وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَۖ(۱۰۸)
اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی،

37:109
سَلٰمٌ عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ(۱۰۹)
سلام ہو ابراہیم پر (ف۱۰۳)

37:110
كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۱۰)
ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو،

37:111
اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱)
بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں،

37:112
وَ بَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۱۲)
اور ہم نے اسے خوشخبری دی اسحاق کی کہ غیب کی خبریں بتانے والا نبی ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں (ف۱۰۴)

{وَ بَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ: اور ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری دی۔} ذبح کا واقعہ بیان کرنے کے بعدحضرت اسحق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خوشخبری دینااس بات کی دلیل ہے کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔

{وَ بٰرَكْنَا عَلَیْهِ وَ عَلٰۤى اِسْحٰقَ: اور ہم نے اس پر اور اسحاق پربرکت اتاری۔} یعنی ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر دینی اور دُنْیَوی ہر طرح کی برکت اتاری اور ظاہری برکت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں  کثرت کی اور حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسل سے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک بہت سے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مبعوث کئے۔(مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۱۰۰۸)

{وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهِمَا مُحْسِنٌ: اور ان کی اولاد میں  کوئی اچھا کام کرنے والاہے۔} یعنی ان دونوں  کی اولاد میں  سے کوئی ایمان لا کر اچھا کام کرنے والا ہے اور کوئی کفر کر کے اپنی جان پر صریح ظلم کرنے والاہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی باپ کے بکثرت فضائل والا ہونے سے اولاد کا بھی ویسا ہی ہونا لازم نہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی شانیں  ہیں  کہ کبھی نیک سے نیک پیدا کرتا ہے کبھی بد سے بد اور کبھی بد سے نیک ،تاکہ نہ اولاد کا بدہونا آباء کے لئے عیب ہو اورنہ آباء کی بَدی اولاد کے لئے باعث ِعار ہو ۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۱۰۰۸، خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۴ / ۲۴، ملتقطاً)

37:113
وَ بٰرَكْنَا عَلَیْهِ وَ عَلٰۤى اِسْحٰقَؕ-وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَّ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ مُبِیْنٌ۠(۱۱۳)
اور ہم نے برکت اتاری اس پر اور اسحاق پر (ف۱۰۵) اور ان کی اولاد میں کوئی اچھا کام کرنے والا (ف۱۰۶) اور کوئی اپنی جان پر صریح ظلم کرنے والا (ف۱۰۷)

37:114
وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَۚ(۱۱۴)
اور بیشک ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان فرمایا (ف۱۰۸)

{وَ لَقَدْ مَنَنَّا: اور بیشک ہم نے احسان فرمایا۔} یہاں  سے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر کئے گئے انعامات اور احسانات بیان کئے جارہے ہیں ،اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر احسان فرمایا کہ انہیں  نبوت و رسالت عنایت فرمائی اور اس کے علاوہ دینی اور دُنْیَوی نعمتوں  سے نوازا۔( صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۵ / ۱۷۴۸، ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۴ / ۴۱۸، ملتقطاً)

{وَ نَجَّیْنٰهُمَا وَ قَوْمَهُمَا: اور انہیں  اور ان کی قوم کو نجات بخشی۔} ایک احسان یہ فرمایا کہ ہم نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو بہت بڑی سختی سے نجات بخشی کہ انہیں  فرعون اور ا س کی قوم قِبطیوں  کے ظلم و ستم سے رہائی دی۔ بنی اسرائیل کی مَظلُومِیَّت کا سبب یہ ہواتھا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آباء و اَجداد اپنے والد حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ان کی سلطنت مصرمیں  تشریف لے آئے اور وہیں  قیام پذیر رہے، جب فرعون کی حکومت آئی تو اس نے تکبر و سرکشی کی اور بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا اور انہیں  قبطیوں  کا خدمتگار بنا دیا۔( جلالین مع صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۵ / ۱۷۴۸)

{وَ نَصَرْنٰهُمْ: اور ہم نے ان کی مدد فرمائی۔} ایک احسان یہ فرمایا کہ ہم نے قبطیوں  کے مقابلے میں  دلائل اور معجزات کے ساتھ ان کی مدد فرمائی تو وہی فرعون اور اس کی قوم پر ہر حال میں غالب رہے اور آخر کار انہیں  سلطنت اور حکومت بھی عطا فرمائی۔(جلالین ، الصافات ، تحت الآیۃ : ۱۱۶ ، ص۳۷۷ ، مدارک ، الصافات ، تحت الآیۃ : ۱۱۶، ص۱۰۰۸، تفسیر کبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۹ / ۳۵۲، ملتقطاً)

 

37:115
وَ نَجَّیْنٰهُمَا وَ قَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ(۱۱۵)
اور انہیں اور ان کی قوم (ف۱۰۹) کو بڑی سختی سے نجات بخشی (ف۱۱۰)

37:116
وَ نَصَرْنٰهُمْ فَكَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَۚ(۱۱۶)
اور ان کی ہم نے مدد فرمائی (ف۱۱۱) تو وہی غالب ہوئے (ف۱۱۲)

37:117
وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)
اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی (ف۱۱۳)

{وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَ: اور ہم نے ان دونوں  کو روشن کتاب عطا فرمائی۔} ایک احسان یہ فرمایا کہ ہم نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو روشن کتاب عطا فرمائی جس کا بیان بلیغ اور وہ حدود و اَحکام وغیرہ کی جامع ہے ۔اس کتاب سے مراد توریت شریف ہے۔( جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ص۳۷۷) جو کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بلاواسطہ عطاہوئی اور حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واسطے سے عطا ہوئی۔

{وَ هَدَیْنٰهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ: اور انہیں  سیدھی راہ دکھائی۔} ایک احسان یہ فرمایا کہ انہیں  عقلی اور سمعی دلائل سے دینِ حق پر مضبوطی سے قائم رہنے ، باطل سے بچے رہنے اور حق سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائی۔(تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۹ / ۳۵۲)
37:118
وَ هَدَیْنٰهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۚ(۱۱۸)
اور ان کو سیدھی راہ دکھائی،

37:119
وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِمَا فِی الْاٰخِرِیْنَۙ(۱۱۹)
اور پچھلوں میں ان کی تعریف باقی رکھی،

{وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِمَا فِی الْاٰخِرِیْنَ: اور پچھلوں  میں  ان کی تعریف باقی رکھی۔} ایک احسان یہ فرمایا کہ بعد میں  آنے والوں  میں  ان کے اچھے ذکر کو باقی رکھا۔ یہاں  بعد میں  آنے والوں  سے مراد حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے اور اچھے ذکر سے ان کی تعریف و توصیف اور ثناءِ جمیل مراد ہے۔( تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۹ / ۳۵۲)

{سَلٰمٌ عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ: موسیٰ اور ہارون پرسلام ہو۔} ا س آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ قیامت تک مخلوق ان دونوں  بزرگوں  پر سلام بھیجتی رہے گی اور ان کا ذکرِ خیر کرتی رہے گی۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۷ / ۴۸۰)دوسرا معنی یہ ہے کہ خالق کی طرف سے وہ دونوں  ہمیشہ امن و سلامتی میں  رہیں  گے۔

37:120
سَلٰمٌ عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(۱۲۰)
سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر،

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلصّٰٓفّٰت
اَلصّٰٓفّٰت
  00:00



Download

اَلصّٰٓفّٰت
اَلصّٰٓفّٰت
  00:00



Download