READ

Surah As-Saaffaat

اَلصّٰٓفّٰت
182 Ayaat    مکیۃ


37:121
اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۲۱)
بیشک ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو،

{اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ: بیشک نیکی کرنے والوں  کوہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔} یعنی جس طرح ہم نے فرعون کے مَظالِم سے نجات دے کر ، قِبطیوں  کے مقابلے میں  ان کی مدد کر کے،حدود و اَحکام کی جامع کتاب عطا فرما کر اور قیامت تک ذکر خیر باقی رکھ کے حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جز اعطا فرمائی اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں  کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔( صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۵ / ۱۷۴۹، ملخصاً)

             ا س سے معلوم ہوا کہ نیکی کرنے والوں  کو دیگر ثوابوں  کے علاوہ دنیا میں  ذکر ِخیر اور امن و سلامتی بھی عطا ہوتی ہے۔

{اِنَّهُمَا: بیشک وہ دونوں ۔} اس آیت سے اس بات پر تَنبیہ کرنا مقصود ہے کہ سب سے بڑی فضیلت اور سب سے اعلیٰ شرف کامل ایمان سے حاصل ہوتا ہے۔ (تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۹ / ۳۵۲)

37:122
اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)
بیشک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں،

37:123
وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۲۳)
اور بیشک الیاس پیغمبروں سے ہے (ف۱۱۴)

{وَ اِنَّ اِلْیَاسَ: اور بیشک الیاس۔} یہاں  سے حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں  سے ہیں  اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بہت عرصہ بعد بَعْلَبَکْ اور ان کے اطراف کے لوگوں  کی طرف مبعوث ہوئے۔

چار پیغمبروں  کی ابھی تک ظاہری وفات نہیں  ہوئی :

            یاد رہے کہ چار پیغمبر ابھی تک زندہ ہیں ۔دو آسمان میں ،(1) حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام (2) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اوردوزمین پر۔(1)حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ (2) حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سمندر پر اور حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خشکی پر مُنْتَظِم ہیں ۔ (روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۱۳۲، ۷ / ۴۸۱، ۴۸۳)جب قیامت قریب آئے گی تو اس وقت وفات پائیں  گے اوربعض بزرگوں  کی ان سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔
37:124
اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَلَا تَتَّقُوْنَ(۱۲۴)
جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا کیا تم ڈرتے نہیں (ف۱۱۵)

{اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ: جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’اے لوگو! کیا تمہیں  اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں  اور تم اللہ تعالیٰ کے علاوہ معبود کی عبادت کرنے پر ا س کے عذاب سے ڈرتے نہیں ؟کیا تم بعل کی پوجا کرتے ہو اور ا س سے بھلائیاں  طلب کرتے ہو جبکہ اس رب تعالیٰ کی عبادت کو ترک کرتے ہوجو بہترین خالق ہے اور وہ تمہارا رب ہے اور تمہارے اگلے باپ دادا کا بھی رب ہے ۔

            ’’بَعْل‘‘ اُن لوگوں کے بت کا نام تھاجو سونے کا بنا ہوا تھا ،اس کی لمبائی 20 گز تھی اور ا س کے چار منہ تھے، وہ لوگ اس کی بہت تعظیم کرتے تھے، جس مقام میں  وہ بت تھا اس جگہ کا نام ’’بک‘‘ تھا اس لئے ا س کا نام بَعلبک مشہور ہوگیا، یہ ملک شام کے شہروں  میں  سے ایک شہر ہے۔( تفسیرطبری، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۴-۱۲۵، ۱۰ / ۵۲۰، ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۴ / ۴۱۹، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۴-۱۲۶، ۷ / ۴۸۱)

37:125
اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّ تَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَۙ(۱۲۵)
کیا بعل کو پوجتے ہو (ف۱۱۶) اور چھوڑتے ہو سب سے اچھا پیدا کرنے والے اللہ کو،

37:126
اللّٰهَ رَبَّكُمْ وَ رَبَّ اٰبَآىٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ(۱۲۶)
جو رب ہے تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا (ف۱۱۷)

37:127
فَكَذَّبُوْهُ فَاِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَۙ(۱۲۷)
پھر انہو ں نے اسے جھٹلایا تو وہ ضرور پکڑے آئیں گے (ف۱۱۸)

{فَكَذَّبُوْهُ: پھر انہو ں  نے اسے جھٹلایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قوم نے حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تو وہ اپنے جھٹلانے کی وجہ سے قیامت کے دن ضرور ہمارے عذاب میں حاضر کئے جائیں  گے اور ہمیشہ جہنم میں  رہیں  گے البتہ اس قوم میں  سے اللہ تعالیٰ کے وہ بَرگُزیدہ بندے جو حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے انہوں  نے عذاب سے نجات پائی۔( روح البیان،الصافات،تحت الآیۃ:۱۲۷-۱۲۸،۷ / ۴۸۲، خازن،والصافات، تحت الآیۃ: ۱۲۷-۱۲۸، ۴ / ۲۶، ملتقطاً)

37:128
اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ(۱۲۸)
مگر اللہکے چُنے ہوئے بندے (ف۱۱۹)

37:129
وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ(۱۲۹)
اور ہم نے پچھلوں میں اس کی ثنا باقی رکھی،

{سَلٰمٌ عَلٰۤى اِلْ یَاسِیْنَ: الیاس پرسلام ہو۔} اِل یاسین بھی الیاس کی ایک لغت ہے۔ جیسے سینا اور سِیْنِیْن دونوں  ’’طورِ سینا ‘‘ ہی کے نام ہیں  ،ایسے ہی الیاس اور اِلْ یاسین ایک ہی ذات کے نام ہیں ۔اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر سلام ہو اور دوسرا معنی یہ ہے کہ قیامت تک بندے ان کے حق میں  دعا کرتے اور ان کی تعریف بیان کرتے رہیں  گے ۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۷ / ۴۸۲، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ص۳۷۸، ملتقطاً)

37:130
سَلٰمٌ عَلٰۤى اِلْ یَاسِیْنَ(۱۳۰)
سلام ہو الیاس پر،

37:131
اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۳۱)
بیشک ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو،

37:132
اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۳۲)
بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہے،

37:133
وَ اِنَّ لُوْطًا لَّمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۳۳)
اور بیشک لوط پیغمبروں میں ہے،

{وَ اِنَّ لُوْطًا: اور بیشک لوط۔} یہاں  سے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اہلِ سدوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا ،ان لوگوں  نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنے کا ارادہ کر لیا، اس وقت حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا مانگی’’اے میرے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے اورمیرے گھر والوں  کو ان لوگوں  کے عمل سے نجات دے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں  اور ان کے سب گھر والوں  کو نجات بخشی البتہ ایک بڑھیا عذاب کے اندر رہ جانے والوں  میں  شامل ہو گئی ،یہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی ’’واہلہ‘‘ تھی جو کافرہ اور خائنہ تھی ،پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے کفار پر پتھر برسا کر اور ان کی بستیوں  کا تختہ الٹ کر سب کو ہلاک کر دیا۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۳۳-۱۳۶، ۷ / ۴۸۴-۴۸۵، ملخصاً)

          نوٹ:حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ سورۂ ہود اور سورۂ شعراء میں  تفصیل سے گزر چکا ہے۔

 

37:134
اِذْ نَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اَجْمَعِیْنَۙ(۱۳۴)
جبکہ ہم نے اسے اور اس کے سب گھر والوں کو نجات بخشی،

37:135
اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ(۱۳۵)
مگر ایک بڑھیا کہ رہ جانے والوں میں ہوئی (ف۱۲۰)

37:136
ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیْنَ(۱۳۶)
پھر دوسروں کو ہم نے ہلاک فرمادیا (ف۱۲۱)

37:137
وَ اِنَّكُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْهِمْ مُّصْبِحِیْنَ(۱۳۷)
او ربیشک تم (ف۱۲۲) ان پر گزرتے ہو صبح کو،

{وَ اِنَّكُمْ: او ربیشک تم۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  کفارِ مکہ سے فرمایا گیا کہ اے کفارِ مکہ!تم ملک ِشام کی طرف اپنے کاروباری سفروں  کے دوران صبح و شام ان بستیو ں  سے گزرتے ہو اور ان کی ہلاکت و بربادی کے آثار کا تم اپنی آنکھوں  سے مشاہدہ کرتے ہو تو کیا تمہیں  عقل نہیں  کہ ان کی اجڑی ہوئی بستیوں  سے عبرت حاصل کرو اور ا س بات سے ڈرو کہ جیسا عذاب اہلِ سدوم پر نازل ہوا ویسا تم پر بھی نازل ہو سکتا ہے کیونکہ جو رب تعالیٰ کفر اور تکذیب کی وجہ سے اہلِ سدوم کو ہلاک کرنے پر قادرہے تو اے کفارِمکہ! وہ تمہیں  بھی ہلاک کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۳۷-۱۳۸، ۷ / ۴۸۵)
37:138
وَ بِالَّیْلِؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠(۱۳۸)
اور رات میں (ف۱۲۳) تو کیا تمہیں عقل نہیں (ف۱۲۴)

37:139
وَ اِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۳۹)
اور بیشک یونس پیغمبروں سے ہے،

{وَ اِنَّ یُوْنُسَ: اور بیشک یونس۔} یہاں  سے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام یونس بن متیٰ ہے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں  سے ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا لقب ذُو النُّون اور صَاحِبُ الْحُوْتْ ہے، آپ بستی نِیْنَوٰی کے نبی تھے جو مُوصَل کے علاقہ میں  دجلہ کے کنارے پر واقع تھی۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چالیس سال ان لوگوں  کو بت پرستی چھوڑنے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کرنے کی دعوت دی لیکن انہوں  نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور اپنے شرک سے باز نہ آئے، تب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں  تین دن کے بعد عذاب آجانے کی خبردی ۔ (روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۳۹، ۷ / ۴۸۶)

{اِذْ اَبَقَ: جب وہ نکل گیا۔} حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو عذاب آ نے کی جو خبر دی تھی جب اس میں  تاخیر ہوئی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم کے کفر و نافرمانی پر اِصرار کرنے کی وجہ سے غضبناک ہو کر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ہی ہجرت کے ارادے سے چل دئیے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر کوئی تنگی نہیں  کرے گااورنہ ہی اس فعل پرمجھ سے کوئی بازپُرس ہوگی۔ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہجرت کرنے اور غضبناک ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اس شخص کو قتل کر دیتے تھے جس کا جھوٹاہونا ثابت ہو جائے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یقینی طور پر سچے تھے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے وحیِ الٰہی سے ہی انہیں  بتایاکہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تم پر اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا عذاب آئے گا لیکن چونکہ فی الحال عذاب آیا نہیں  تھا تو قوم کی نظر میں  آپ کا کہنا واقع کے خلاف تھا اسی لئے وہ آپ کے قتل کے درپے تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسی اندیشے سے وہاں  سے چل دئیے حالانکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے عذاب کا تو فرمایا تھا لیکن انہیں  کوئی مُتَعَیَّن وقت نہیں  بتایا تھا کہ جس پر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو مَعَاذَ اللہ آپ کی قوم جھوٹا کہہ سکتی۔

            حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت وہب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا قول ہے کہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے عذاب کا وعدہ کیا تھا،جب اس میں  تاخیر ہوئی تو (قتل سے بچنے کے لئے) آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اُن سے چھپ کر نکل گئے ، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دریائی سفر کا قصد کیا اور بھری کشتی پر سوار ہوگئے، جب کشتی دریا کے درمیان پہنچی تو ٹھہر گئی اور اس کے ٹھہرنے کا کوئی ظاہری سبب موجود نہ تھا۔ملاحوں  نے کہا: اس کشتی میں  اپنے مولا سے بھاگا ہوا کوئی غلام ہے ،قرعہ اندازی کرنے سے ظاہر ہوجائے گا کہ وہ کون ہے۔ چنانچہ قرعہ اندازی کی گئی توا س میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی کانام نکلا،اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میں  ہی وہ غلام ہوں ۔ اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پانی میں  ڈال دیئے گئے کیونکہ ان لوگوں  کادستور یہی تھا کہ جب تک بھاگا ہوا غلام دریا میں  غرق نہ کردیاجائے اس وقت تک کشتی چلتی نہ تھی۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۰، ۴ / ۲۶، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۰، ص۱۰۰۹، ملتقطاً)

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے اجتہاد کی وجہ سے کشتی میں  سوار ہوئے تھے کیونکہ جب عذاب میں  تاخیر ہوئی تو حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ گمان ہوا کہ اگر وہ اپنی قوم میں  ٹھہرے رہے تو وہ انہیں  شہید کر دیں  گے کیونکہ ان لوگوں  کا دستوریہ تھا کہ جس کا جھوٹاہونا ثابت ہو جائے تو وہ اسے قتل کر دیتے تھے لہٰذا حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کشتی میں  سوار ہونا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں  اور نہ ہی کوئی کبیرہ یا صغیرہ گنا ہ تھا اور مچھلی کے پیٹ میں  قید کر کے ان کا جو مُؤاخذہ ہوا وہ اَولیٰ کام کی مخالفت کی بنا پر ہوا کیونکہ ان کے لئے اَولیٰ یہی تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کرتے۔( صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۰، ۵ / ۱۷۵۲، ملخصاً)

37:140
اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ(۱۴۰)
جبکہ بھری کشتی کی طرف نکل گیا (ف۱۲۵)

37:141
فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَۚ(۱۴۱)
تو قرعہ ڈالا تو ڈھکیلے ہوؤں میں ہوا،

{فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ: پھر انہیں  مچھلی نے نگل لیا۔} جب حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دریا میں  ڈال دئیے گئے تو انہیں  ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا اور اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حال یہ تھا کہ آپ خودکو ا س بات پر ملامت کر رہے تھے کہ نکلنے میں  جلدی کیوں  کی اور قوم سے جدا ہونے میں  اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کیوں  نہ کیا۔ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کواِلہام فرمایا: ’’میں  نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تیرے لئے غذا نہیں  بنایا بلکہ تیرے پیٹ کو اس کے لئے قید خانہ بنایا ہے لہٰذا تم نہ تو ان کی کوئی ہڈی توڑنا اور نہ ہی ان کے گوشت کو کاٹنا۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۷ / ۴۸۷، ملخصاً)

37:142
فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَ هُوَ مُلِیْمٌ(۱۴۲)
پھر اسے مچھلی نے نگل لیا اور وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا تھا (ف۱۲۶)

37:143
فَلَوْ لَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَۙ(۱۴۳)
تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا (ف۱۲۷)

{فَلَوْ لَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ: تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ذکر ِالٰہی کی کثرت کرنے والے اور مچھلی کے پیٹ میں  ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ پڑھنے والے نہ ہو تے تو ضرورقیامت کے دن تک اس مچھلی کے پیٹ میں  رہتے۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۳-۱۴۴، ۴ / ۲۷)

دعا قبول ہونے کا وظیفہ:

            حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مچھلی کے پیٹ میں  حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دعا مانگی: ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ اور جو مسلمان اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے گا تو اس کی دعا قبول کی جائے گی۔( ابن عساکر، حرف السین فی آبائہم، عمر بن سعد بن ابی وقاص۔۔۔ الخ، ۴۵ / ۳۸)

            مفسرین فرماتے ہیں : ’’تم آسانی کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو تو وہ تمہیں  تمہاری سختی اور مصیبت کے وقت یاد کرے گا کیونکہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے تھے، جب وہ مچھلی کے پیٹ میں  گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں  فرمایا:

’’ فَلَوْ لَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَۙ(۱۴۳) لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا۔ تو ضرور اس دن تک اس مچھلی کے پیٹ میں  رہتا جس دن لوگ اٹھائے جائیں  گے۔

             اس کے برعکس فرعون ساری زندگی تو سرکش، نافرمان اور اللہ تعالیٰ کو بھولا رہا لیکن جب وہ ڈوبنے لگا توخدا کو یاد کرکے کہنے لگا:

’’اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ‘‘(یونس:۹۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: میں  اِس بات پر ایمان لایا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں  جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں ۔

            تواللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ ﰰ لْــٴٰـنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ‘‘(یونس:۹۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: (اُسے کہا گیا)کیا اب (ایمان لاتے ہو؟) حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمان رہا۔( تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۳-۱۴۴، ۹ / ۳۵۷)

{فَنَبَذْنٰهُ بِالْعَرَآءِ: پھر ہم نے اسے میدان میں  ڈال دیا۔} جب حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا مانگی تواللہ تعالیٰ نے انہیں  مچھلی کے پیٹ سے نکال کر میدان میں  ڈال دیا اور مچھلی کے پیٹ میں  رہنے کی وجہ سے آپ ایسے کمزور، دبلے پتلے اور نازک ہوگئے تھے جیسے بچہ پیدائش کے وقت ہوتا ہے،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم کی کھال نرم ہوگئی تھی اوربدن پر کوئی بال باقی نہ رہا تھا۔( روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۷ / ۴۸۸)

            حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مچھلی کے پیٹ میں  رہنے کی مدت کے بارے میں  مختلف اَقوال ہیں ۔ اُسی دن یا3دن یا7دن یا20دن یا40دن کے بعد آپ مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے ۔( جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ص۳۷۸)

37:144
لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَۚ(۱۴۴)
ضرور اس کے پیٹ میں رہتا جس دن تک لوگ اٹھائے جائیں گے (ف۱۲۸)

37:145
فَنَبَذْنٰهُ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ سَقِیْمٌۚ(۱۴۵)
پھر ہم نے اسے (ف۱۲۹) میدان میں ڈال دیا اور وہ بیمار تھا (ف۱۳۰)

37:146
وَ اَنْۢبَتْنَا عَلَیْهِ شَجَرَةً مِّنْ یَّقْطِیْنٍۚ(۱۴۶)
اور ہم نے اس پر (ف۱۳۱) کدو کا پیڑ اگایا (ف۱۳۲)

{وَ اَنْۢبَتْنَا عَلَیْهِ شَجَرَةً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ: اور ہم نے اس پرکدو کا پیڑ اگادیا۔} جس جگہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مچھلی کے پیٹ سے باہرتشریف لائے وہاں  کوئی سایہ نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سایہ کرنے اور انہیں  مکھیوں  سے محفوظ رکھنے کے لئے کدو کا پیڑ اگا دیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزانہ ایک بکری آتی اور اپنا تھن حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دہنِ مبارک میں  دے کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو صبح و شام دودھ پلا جاتی یہاں  تک کہ جسم مبارک کی جلد شریف یعنی کھال مضبوط ہوئی اور اپنے مقام سے بال اگ آئے اور جسم میں  توانائی آئی۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۴ / ۲۷)

             یاد رہے کہ کدو کی بیل ہوتی ہے جو زمین پر پھیلتی ہے مگر یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا معجزہ تھا کہ یہ کدو کا درخت قد والے درختوں  کی طرح شاخ رکھتا تھا اور اس کے بڑے بڑے پتوں  کے سائے میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آرام کرتے تھے۔

بزرگانِ دین کی پسندیدہ سبزی:

             کدو (یعنی لوکی) کو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت پسند فرماتے تھے ،جیسا کہ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کدو شریف پسند فرماتے تھے۔( ابن ماجہ، کتاب الاطعمۃ، باب الدبّائ، ۴ / ۲۷، الحدیث: ۳۳۰۲)

            ایک مرتبہ کسی نے عرض کی: ’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کدو شریف بہت پسند فرماتے ہیں ۔رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ہاں ،یہ میرے بھائی حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا درخت ہے۔( بیضاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۵ / ۲۷)

            یونہی صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور بزرگانِ دین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بھی کدو بہت پسند فرماتے تھے، چنانچہ حضرتِ انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان فرماتے ہیں  کہ ایک درزی نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کھانے کی دعوت کی ،میں  بھی حضورپُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ گیا ، جَوکی روٹی اور شور با حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے لایا گیا جس میں  کدو اور خشک کیا ہوا نمکین گوشت تھا، کھانے کے دوران میں  نے حضورِانور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا کہ پیالے کے کناروں  سے کدو کی قاشیں  تلاش کررہے ہیں ، اسی لئے میں  اس دن سے کدو پسند کرنے لگا۔( بخاری، کتاب البیوع، باب ذکر الخیّاط، ۲ / ۱۷، الحدیث: ۲۰۹۲)

            حضرت ابو طالوت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں  حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس حاضر ہوا،وہ کدو کھا رہے تھے اور فرما رہے تھے ’’اے درخت!تیری کیا شان ہے،تو مجھے کس قدر محبوب ہے (اور یہ محبت صرف) اس لئے (ہے) کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تجھے محبوب رکھا کرتے تھے۔( ترمذی، کتاب الاطعمۃ، باب ما جاء فی اکل الدبّائ، ۳ / ۳۳۶، الحدیث: ۱۸۵۶)

             امامِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے شاگردامام ابو یوسف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے سامنے جب اِس روایت کا ذکر آیا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کدو پسند فرماتے تھے ،تومجلس کے ایک شخص نے کہا:لیکن مجھے پسند نہیں  ۔یہ سن کر امام ابو یوسف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے تلوار کھینچ لی اور ا س سے فرمایا: ’’جَدِّدِ الْاِیْمَانَ وَ اِلاَّ لَاَقْتُلَنَّکَ‘‘ تجدیدِ ایمان کر، ورنہ میں  تمہیں  قتل کئے بغیر نہ چھوڑوں  گا۔( مرقاۃالمفاتیح، کتاب الصلاۃ،باب الجماعۃ وفضلہا، الفصل الثالث، ۳ / ۱۶۶، تحت الحدیث: ۱۰۸۳۔)

کدو (لوکی) کے طبی فوائد:

            لوکی کا استعما ل نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت ہے ۔طب کے ماہرین نے اس کے بہت سے طبی فوائد بھی بیان کئے ہیں  ،یہاں  ان میں  سے 7طبی فوائد ملاحظہ ہوں ۔

(1)… لوکی میں  موجود قدرتی وٹامن سی ، سوڈیم ، پوٹاشیم اور فولاد نہ صرف طاقت بخش ثابت ہوتا ہے بلکہ اس کا روزانہ استعمال پیٹ کے مختلف اَمراض کے خلاف مُؤثّر حفاظت بھی فراہم کرتا ہے۔

(2)… لوکی میں  پائے جانے والے اَجزا کی تاثیر قدرتی طور پر ٹھنڈی ہوتی ہے جو گرمی کا اثر کم کرنے کے ساتھ ساتھ تھکن کا احساس بھی گھٹا دیتا ہے۔

(3)…لوکی کھانے سے خوب بھوک لگتی ہے اور کمزوری دور ہوتی ہے۔

 (4)… قبض کے مریضوں  کے لئے لوکی بہت فائدہ مند ہے ۔

(5)… کدو جگر کے درد کو دور کرنے میں  مفید ہے۔

(6)… پیشاب کے امراض، معدے کے امراض اور یرقان کے مرض میں  بہت فائدہ دیتا ہے۔

(7)… اس کے بیجوں  کا تیل دردِ سر اور سر کے بالوں  کیلئے بہت مفید ہے اور نیند لاتا ہے۔

37:147
وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَۚ(۱۴۷)
اور ہم نے اسے (ف۱۳۳) لاکھ آدمیوں کی طرف بھیجا بلکہ زیادہ،

{وَ اَرْسَلْنٰهُ: اور ہم نے اسے بھیجا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہلے کی طرح موصل کی سرزمین میں  قومِ نِینَویٰ کے ایک لاکھ بلکہ اس سے کچھ زیادہ آدمیوں  کی طرف انتہائی عزت واحترام کے ساتھ بھیجا،انہوں  نے عذاب کے آثار دیکھ کر توبہ کر لی تھی ، پھر حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دوبارہ تشریف لانے پر باقاعدہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیعت کی اور اللہ تعالیٰ نے آخری عمر تک انہیں  آسائش کے ساتھ رکھا ۔

          نوٹ: حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی توبہ کا بیان سورۂ یونس آیت نمبر98میں  گزر چکا ہے اور اس واقعہ کا بیان سورۂ انبیاء کی آیت نمبر 87،88میں  بھی گزرچکا ہے۔

37:148
فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍؕ(۱۴۸)
تو وہ ایمان لے آئے (ف۱۳۴) تو ہم نے انہیں ایک وقت تک برتنے دیا (ف۱۳۵)

37:149
فَاسْتَفْتِهِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَ لَهُمُ الْبَنُوْنَۙ(۱۴۹)
تو ان سے پوچھو کیا تمہارے رب کے لیے بیٹیاں ہیں (ف۱۳۶) اور ان کے بیٹے (ف۱۳۷)

{فَاسْتَفْتِهِمْ: تو ان سے پوچھو۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے گزشتہ نبیوں  اور رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمانے کے بعد ان آیات میں  قبیلہ جُہَیْنَہ اور بنی سلمہ وغیرہ کفار کے اس عقیدے ’’فرشتے اللہ کی بیٹیاں  ہیں ‘‘کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار سے پوچھیں  کہ کیا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کے لیے بیٹیاں  ہیں اور ان کیلئے بیٹے ہیں ؟تم اپنے لئے تو بیٹیاں  گوارا نہیں  کرتے اور انہیں  بُری جانتے ہواور پھر ایسی چیز کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہو ۔( تفسیر قرطبی ، الصافات ، تحت الآیۃ : ۱۴۹ ، ۸ / ۹۸ ، الجزء الخامس عشر ، خازن ، و الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۹، ۴ / ۲۷، ملتقطاً)

کفار کا اپنی بیٹیوں  سے نفرت کا حال:

             کفار خود بیٹیوں  سے کس قدر نفرت کرتے اور انہیں  اپنے لئے کتنا باعث ِعار سمجھتے تھے، ا س کا حال بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ(۵۸) یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖؕ-اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ‘‘(نحل:۵۸،۵۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ان میں  کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ  غصے سے بھرا ہوتا ہے۔ اس بشارت کی برائی کے سبب لوگوں  سے چھپا پھرتا ہے۔ کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں  دبا دے گا؟ خبردار! یہ کتنا برا فیصلہ کررہے ہیں ۔

            اور یہ کتنا افسوس کا مقام ہے کہ جس چیز سے وہ اتنی نفرت کرتے ہیں  اور اپنے لئے اتنا باعث ِعار سمجھتے ہیں  کہ اسے زندہ دفن کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں ، اسی چیز کو وہ اولاد ہی سے پاک رب تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْاُنْثٰى(۲۱)تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِیْزٰى‘‘(النجم:۲۱،۲۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تمہارے لئے بیٹا اور اس کیلئے بیٹی ہے۔ جب تو یہ سخت بری تقسیم ہے۔

37:150
اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓىٕكَةَ اِنَاثًا وَّ هُمْ شٰهِدُوْنَ(۱۵۰)
یا ہم نے ملائکہ کو عورتیں پیدا کیا اور وہ حاضر تھے (ف۱۳۸)

{اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓىٕكَةَ اِنَاثًا: یا ہم نے ملائکہ کو عورتیں  پیدا کیاتھا۔} کفار فرشتوں  کو عورتیں  سمجھتے تھے ،ان کی یہ بات اس وقت درست ثابت ہو سکتی ہے کہ انہوں  نے فرشتوں  کو پیدا ہوتے ہوئے دیکھا ہو،یا کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام نے انہیں  اس کی خبر دی ہو یا ان کے پاس اس کی کوئی واضح دلیل ہو۔پہلی صورت کا رد اسی آیت میں  ہے کہ کفار فرشتوں  کی پیدائش کے وقت وہاں  موجود نہیں  تھے لہٰذا ان کی بات درست نہیں  ۔اسی طرح ایک اور مقام پر کفار کے اس نظریے کا رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ جَعَلُوا الْمَلٰٓىٕكَةَ الَّذِیْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًاؕ-اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْؕ-سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَ یُسْــٴَـلُوْنَ‘‘(زخرف:۱۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور انہوں  نے فرشتوں  کو عورتیں  ٹھہرایاجو کہ رحمٰن کے بندے ہیں ۔ کیا یہ کفار ان کے بناتے وقت موجود تھے؟ ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے جواب طلب ہوگا۔

             دوسری صورت کا ردآیت نمبر151تا154 میں  فرمایا کہ انہیں  کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام نے خبر نہیں  دی بلکہ ان کے فاسدمذہب کی بنیاد صریح اور بد ترین بہتان پر ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اَلَاۤ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْكِهِمْ لَیَقُوْلُوْنَۙ(۱۵۱) وَلَدَ اللّٰهُۙ-وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(۱۵۲)اَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِیْنَؕ(۱۵۳) مَا لَكُمْ- كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: خبردار! بیشک وہ اپنے بہتان سے یہ بات کہتے ہیں ۔کہ اللہ کی اولاد ہے اور بیشک وہ ضرور جھوٹے ہیں ۔ کیا اللہ نے بیٹے چھوڑ کر بیٹیاں  پسند کیں ۔ تمہیں  کیا ہے؟ تم کیسا حکم لگاتے ہو؟

            اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ اِنَاثًاؕ-اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا‘‘(بنی اسرائیل:۴۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تمہارے رب نے تمہارے لئے بیٹے چن لئے اور اپنے لیے فرشتوں  سے بیٹیاں  بنالیں ۔ بیشک تم بہت بڑی بات بول رہے ہو۔

          تیسری صورت یہ تھی کہ ان کے پاس اپنا عقیدہ ثابت کرنے کے لئے کوئی واضح دلیل ہوتی اور وہ ان کے پاس موجود نہیں ،اس کے بارے میں  آیت نمبر155تا157میں ارشاد فرمایا:

’’ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَۚ(۱۵۵) اَمْ لَكُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵۶) فَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیا تم دھیان نہیں  کرتے؟یا تمہارے لیے کوئی کھلی دلیل ہے؟تو اپنی کتاب لاؤ اگر تم سچے ہو۔

            لہٰذا ثابت ہوا کہ فرشتوں  کو عورتیں  سمجھنے والا کفار کا نظریہ ہر اعتبار سے باطل ہے۔( تفسیرکبیر، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۹ / ۳۵۹، روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۷ / ۴۹۲، ملتقطاً)

37:151
اَلَاۤ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْكِهِمْ لَیَقُوْلُوْنَۙ(۱۵۱)
سنتے ہو بیشک وہ اپنے بہتان سے کہتے ہیں،

37:152
وَلَدَ اللّٰهُۙ-وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(۱۵۲)
کہ اللہ کی اولاد ہے اور بیشک وہ ضرور جھوٹے ہیں،

37:153
اَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِیْنَؕ(۱۵۳)
کیا اس نے بیٹیاں پسند کیں بیٹے چھوڑ کر،

37:154
مَا لَكُمْ- كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ(۱۵۴)
تمہیں کیا ہے، کیسا حکم لگاتے ہو (ف۱۳۹)

37:155
اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَۚ(۱۵۵)
تو کیا دھیان نہیں کرتے (ف۱۴۰)

37:156
اَمْ لَكُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵۶)
یا تمہارے لیے کوئی کھلی سند ہے،

37:157
فَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۱۵۷)
تو اپنی کتاب لاؤ (ف۱۴۱) اگر تم سچے ہو،

37:158
وَ جَعَلُوْا بَیْنَهٗ وَ بَیْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًاؕ-وَ لَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَۙ(۱۵۸)
اور اس میں اور جنوں میں رشتہ ٹھہرایا (ف۱۴۲) اور بیشک جنوں کو معلوم ہے کہ وہ (ف۱۴۳) ضرور حاضر لائے جائیں گے (ف۱۴۴)

{وَ جَعَلُوْا بَیْنَهٗ وَ بَیْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا: اور انہوں  نے اللہ اور جنوں  کے درمیان نسب کا رشتہ ٹھہرایا۔} بعض مشرکین کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جِنّات میں  شادی کی جس سے فرشتے پیدا ہوئے۔ (مَعَاذَ اللہ) اس آیت میں  ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ مشرکین اللہ تعالیٰ اور جنوں  کے درمیان نسب کا رشتہ ٹھہرا کر کیسے عظیم کفر کے مُرتکِب ہوئے اور بیشک جنوں  کو معلوم ہے کہ یہ بے ہودہ بات کہنے والے ضرور جہنم میں  عذاب کے لئے حاضر کئے جائیں  گے۔بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں  جِنّات سے مراد فرشتے ہیں  کیونکہ وہ لوگوں  کی نظروں سے پوشیدہ ہیں  اور کفار نے فرشتوں  اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو نسبی رشتہ ٹھہرایا اس سے مراد ان کا یہ کہنا ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں  ہیں۔(مَعَاذَ اللہ)(مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ص۱۰۱۰-۱۰۱۱، جلالین، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ص۳۷۹، ملتقطاً)

37:159
سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یَصِفُوْنَۙ(۱۵۹)
پاکی ہے اللہ کو ان باتوں سے کہ یہ بتاتے ہیں،

{سُبْحٰنَ اللّٰهِ: اللہ پاک ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا ایک معنی یہ ہے مشرکین اللہ تعالیٰ کے بارے میں  جو باتیں  کہتے ہیں  اللہ تعالیٰ ان سے پاک ہے اور اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے ایماندار بندے ان تمام باتوں  سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں  جو کفارِ نابَکار کہتے ہیں ۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ ان تمام بیہودہ باتوں  سے پاک ہے جو مشرکین ا س کے بارے میں  کہتے ہیں  نیز اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے مومن اور متقی بندے جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں  گے۔( مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۵۹-۱۶۰، ص۱۰۱۱، ملخصاً)

37:160
اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ(۱۶۰)
مگر اللہ کے چُنے ہوئے بندے (ف۱۴۵)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلصّٰٓفّٰت
اَلصّٰٓفّٰت
  00:00



Download

اَلصّٰٓفّٰت
اَلصّٰٓفّٰت
  00:00



Download