Surah An-Nisaa
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ: اے لوگو۔} اس آیتِ مبارکہ میں تمام بنی آدم کو خطاب کیا گیا ہے اور سب کو تقویٰ کا حکم دیا ہے۔ کافروں کیلئے تقویٰ یہ ہے کہ وہ ایمان لائیں اور اعمالِ صالحہ کریں اور مسلمانوں کیلئے تقویٰ یہ ہے کہ ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اعمالِ صالحہ بجالائیں۔ ہر ایک کو اس کے مطابق تقویٰ کا حکم ہوگا۔اس کے بعدیہاں چند چیزیں بیان فرمائیں :
(1)…اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جان یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پیدا کیا۔
(2)… حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وجود سے ان کا جوڑا یعنی حضرت حوا رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کو پیدا کیا۔
(3)… انہی دونوں حضرات سے زمین میں نسل درنسل کثرت سے مرد و عورت کا سلسلہ جاری ہوا۔
(4)…چونکہ نسلِ انسانی کے پھیلنے سے باہم ظلم اور حق تَلفی کا سلسلہ بھی شروع ہوا لہٰذا خوف ِ خدا کا حکم دیا گیا تاکہ ظلم سے بچیں اور چونکہ ظلم کی ایک صورت اور بدتر صورت رشتے داروں سے قطع تَعَلُّقی ہے لہٰذا اس سے بچنے کا حکم دیا۔
انسانوں کی ابتداء کس سے ہوئی؟:
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسانوں کی ابتداء حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے ہوئی اور اسی لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ابوالبشر یعنی انسانوں کا باپ کہا جاتا ہے۔ اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے انسانیت کی ابتداء ہونا بڑی قوی دلیل سے ثابت ہے مثلاً دنیا کی مردم شماری سے پتا چلتا ہے کہ آج سے سو سال پہلے دنیا میں انسانوں کی تعداد آج سے بہت کم تھی اور اس سے سو برس پہلے اور بھی کم تو اس طرح ماضی کی طرف چلتے چلتے اس کمی کی انتہاء ایک ذات قرار پائے گی اور وہ ذات حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں یا یوں کہئے کہ قبیلوں کی کثیر تعداد ایک شخص پر جاکر ختم ہوجاتی ہیں مثلاً سیّد دنیا میں کروڑوں پائے جائیں گے مگر اُن کی انتہاء رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک ذات پر ہوگی، یونہی بنی اسرائیل کتنے بھی کثیر ہوں مگر اس تمام کثرت کا اختتام حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ایک ذات پر ہوگا۔ اب اسی طرح اور اوپر کو چلنا شروع کریں تو انسان کے تمام کنبوں ، قبیلوں کی انتہاء ایک ذات پر ہوگی جس کا نام تمام آسمانی کتابوں میں آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہے اور یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک شخص پیدائش کے موجود طریقے سے پیدا ہوا ہو یعنی ماں باپ سے پیدا ہوا ہو کیونکہ اگر اس کے لئے باپ فرض بھی کیا جائے تو ماں کہاں سے آئے اور پھر جسے باپ مانا وہ خود کہاں سے آیا؟ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی پیدائش بغیر ماں باپ کے ہو اور جب بغیر ماں باپ کے پیدا ہوا تو بالیقین وہ اِس طریقے سے ہٹ کر پیدا ہوا اور وہ طریقہ قرآن نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مٹی سے پیدا کیا جو انسان کی رہائش یعنی دنیا کا بنیادی جز ہے۔ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب ایک انسان یوں وجود میں آگیا تو دوسرا ایسا وجود چاہیے جس سے نسلِ انسانی چل سکے تو دوسرے کو بھی پیدا کیا گیا لیکن دوسرے کو پہلے کی طرح مٹی سے بغیر ماں باپ کے پیدا کرنے کی بجائے جو ایک شخص انسانی موجود تھا اسی کے وجود سے پید افرما دیا کیونکہ ایک شخص کے پیدا ہونے سے نوع موجود ہوچکی تھی چنانچہ دوسرا وجود پہلے وجود سے کچھ کم تر اور عام انسانی وجود سے بلند تر طریقے سے پیدا کیا گیا یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ایک بائیں پسلی ان کے آرام کے دوران نکالی اور اُن سے اُن کی بیوی حضرت حوا رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کو پیدا کیا گیا۔ چونکہ حضرت حوا رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا مرد وعورت والے باہمی ملاپ سے پیدا نہیں ہوئیں اس لئے وہ اولاد نہیں ہو سکتیں۔ خواب سے بیدار ہو کر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے پاس حضرت حوا رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہاکو دیکھا تو ہم جنس کی محبت دل میں پیدا ہوئی ۔ مخاطب کرکے حضرت حوا رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا سے فرمایا تم کون ہو؟ انہوں نے عرض کیا: عورت۔ فرمایا: کس لئے پیدا کی گئی ہو؟ عرض کیا: آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تسکین کی خاطر، چنانچہ حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اُن سے مانوس ہوگئے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۳۴۰)
یہ وہ معقول اور سمجھ میں آنے والا طریقہ ہے جس سے نسلِ انسانی کی ابتداء کا پتا چلتا ہے۔ بقیہ وہ جو کچھ لوگوں نے بندروں والا طریقہ نکالا ہے کہ انسان بندر سے بنا ہے تویہ پرلے درجے کی نامعقول بات ہے۔ یہاں ہم سنجیدگی کے ساتھ چند سوالات سامنے رکھتے ہیں۔ آپ ان پر غور کرلیں ، حقیقت آپ کے سامنے آجائے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر انسان بندر ہی سے بنا ہے تو کئی ہزار سالوں سے کوئی جدید بندر انسان کیوں نہ بن سکا اور آج ساری دنیا پوری کوشش کرکے کسی بندر کو انسان کیوں نہ بنا سکی؟ نیز بندروں سے انسان بننے کا سلسلہ کب شروع ہوا تھا ؟کس نے یہ بنتے دیکھا تھا؟ کون اس کا راوی ہے؟ کس پرانی کتاب سے یہ بات مطالعہ میں آئی ہے؟نیز یہ سلسلہ شروع کب ہوا اور کب سے بندروں پر پابندی لگ گئی کہ جناب! آئندہ آپ میں کوئی انسان بننے کی جرأت نہ کرے۔ نیز بندر سے انسان بنا تو دُم کا کیا بنا تھا؟ کیا انسان بنتے ہی دُم جھڑ گئی تھی یا کچھ عرصے بعد کاٹی گئی یا گھسٹ گھسٹ کر ختم ہوگئی اور بہرحال جو کچھ بھی ہوا ،کیا اس بات کا ثبوت ہے کہ دُم والے انسان پائے جاتے تھے۔ الغرض بندروں والی بات بندر ہی کرسکتا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا بھر میں جس بات کا شور مچایا ہوا ہے اس کی کوئی کَل سیدھی نہیں ، اس کی کوئی کَڑی سلامت نہیں ، اس کی کوئی تاریخ نہیں۔ بس خیالی مفروضے قائم کرکے اچھے بھلے انسان کو بندر سے جاملایا۔
{وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو۔}
ارشاد فرمایا کہ اس اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے مانگتے ہو یعنی کہتے ہو کہ اللہ کے واسطے مجھے یہ دو، وہ دو۔ نیز رشتے داری توڑنے کے معاملے میں اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرو۔
رشتے داری توڑنے کی مذمت:
قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں رشتہ داری توڑنے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِۙ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ(رعد: ۲۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہ کا عہد اسے پختہ کرنے کے بعد توڑدیتے ہیں اور جسے جوڑنے کا اللہ نے حکم فرمایا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کیلئے لعنت ہی ہے اور اُن کیلئے برا گھر ہے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس قوم میں رشتہ داری توڑنے والاہوتا ہے اس پر رحمت نہیں اترتی۔ (شعب الایمان، السادس والخمسون من شعب الایمان، ۶ / ۲۲۳، الحدیث: ۷۹۶۲)
اور حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دیدی جائے اور اس کے لئے آخرت میں بھی عذاب رہے وہ بغاوت اور قَطع رَحمی سے بڑھ کر نہیں۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۵۷-باب، ۴ / ۲۲۹، الحدیث: ۲۵۱۹)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ رشتے داری توڑنے سے بچے اور رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات جوڑ کر رکھنے کی بھرپور کوشش کرے۔
{وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ:اور یتیموں کو ان کا مال دو۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک شخص کی نگرانی میں اُس کے یتیم بھتیجے کا بہت زیادہ مال تھا، جب وہ یتیم بالغ ہو ا اور اس نے اپنا مال طلب کیا تو چچا نے دینے سے انکار کردیا اِس پر یہ آیت نازل ہوئی جسے سن کر اُس شخص نے یتیم کا مال اُس کے حوالے کردیا اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرتے ہیں۔(بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۱۴۱)
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب یتیم اپنا مال طلب کریں تو ان کا مال ان کے حوالے کردو جب کہ دیگر شرعی تقاضوں کو پورا کرلیا ہے اور اپنے حلال مال کے بدلے یتیم کا مال نہ لو جو تمہارے لئے حرام ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اپنا گھٹیا مال یتیم کو دے کر اس کا عمدہ مال لے لو۔ یہ تمہارا گھٹیا مال تمہارے لئے عمدہ ہے کیونکہ یہ تمہارے لئے حلال ہے اور یتیم کا عمدہ مال تمہارے لئے گھٹیا اور خبیث ہے کیونکہ وہ تمہارے لئے حرام ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جب یتیم کا مال اپنے مال سے ملا کر کھانا حرام ہوا یعنی گھٹیا معاوضہ دے کر کھانا بھی حرام ہے تو بغیر معاوضہ کے کھالینا تو بطریق اَولیٰ حرام ہوا۔ ہاں شریعت نے جہاں ان کا مال ملا کر استعمال کی اجازت دی وہ جدا ہے جس کا بیان سورہ ٔبقرہ آیت 220 میں ہے۔
یتیموں سے متعلق چند اہم مسائل:
یتیم اس نابالغ لڑکے یا لڑکی کو کہتے ہیں جس کا باپ فوت ہوجائے۔ آیتِ مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں یتیموں سے متعلق چند اہم مسائل بیان کئے جاتے ہیں :
(1)… یتیم کوتحفہ دے سکتے ہیں مگر اس کاتحفہ لے نہیں سکتے ۔
(2)… کوئی شخص فوت ہو اور اس کے ورثاء میں یتیم بچے بھی ہوں تو اس ترکے سے تیجہ، چالیسواں ، نیاز، فاتحہ اور خیرات کرنا سب حرام ہے اور لوگوں کا یتیموں کے مال والی اُس نیاز، فاتحہ کے کھانے کو کھانا بھی حرام ہے ۔ یہ مسئلہ بہت زیادہ پیش آنے والا ہے لیکن افسوس کہ لوگ بے دھڑک یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں۔
(3)… ایسے موقع پر جائز نیاز کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ورثاء خاص اپنے مال سے نیاز دلائیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہاں وہ دعوت مراد نہیں ہے جو تدفین کے بعد یا سوئم کے دن کی پکائی جاتی ہے کیونکہ وہ دعوت تو بہر صورت ناجائز ہے خواہ اپنے مال سے کریں۔ مسئلہ: تیجہ، فاتحہ کا ایصالِ ثواب جائز ہے لیکن رشتے داروں اور اہلِ محلہ کی جو دعوت کی جاتی ہے یہ ناجائز ہے، وہ کھانا صرف فقراء کو کھلانے کی اجازت ہے۔ اس کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 9ویں جلد سے ان دو رسائل کامطالعہ فرمائیں (1) اَلْحُجَّۃُ الْفَائِحہْ لِطِیْبِ التَّعْیِیْنِ وَالْفَاتِحَہْ۔(دن متعین کرنے اور مروجہ فاتحہ،سوئم وغیرہ کا ثبوت)(2) جَلِیُّ الصَّوْتْ لِنَھْیِ الدَّعْوَۃِ اَمَامَ مَوْتْ۔(کسی کی موت پردعوت کرنے کی ممانعت کا واضح بیان)
{وَ اِنْ خِفْتُمْ: اور اگر تمہیں ڈر ہو۔} اِس آیت کے معنی میں چندا قوال ہیں۔
(1)… امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ پہلے زمانہ میں مدینہ کے لوگ اپنی زیرِ سرپرستی یتیم لڑکیوں سے اُن کے مال کی وجہ سے نکاح کرلیتے حالانکہ اُن کی طرف انہیں کوئی رغبت نہ ہوتی تھی، پھر اُن یتیم لڑکیوں کے حقوق پورے نہ کرتے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرتے اور اُن کے مال کے وارث بننے کے لئے اُن کی موت کے منتظر رہتے، اِس آیت میں اُنہیں اِس حرکت سے روکا گیا۔ (صاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۳،۲ / ۳۵۹)
(2)… دوسرا قول یہ ہے کہ لوگ یتیموں کی سرپرستی کرنے سے توناانصافی ہوجانے کے ڈرسے گھبراتے تھے لیکن زنا کی پرواہ نہ کرتے تھے، اِنہیں بتایا گیا کہ اگر تم ناانصافی کے اندیشہ سے یتیموں کی سرپرستی سے گریز کرتے ہو تو زنا سے بھی خوف کرو اور اُس سے بچنے کے لئے جو عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں اُن سے نکاح کرو اور حرام کے قریب مت جاؤ۔ (تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۴۸۵)
(3)… تیسرا قول یہ ہے کہ لوگ یتیموں کی سرپرستی میں تو ناانصافی کرنے سے ڈرتے تھے لیکن بہت سے نکاح کرنے میں کچھ خطرہ محسوس نہیں کرتے تھے، اُنہیں بتایا گیا کہ جب زیادہ عورتیں نکاح میں ہوں تو اُن کے حق میں ناانصافی سے بھی ڈرو جیسے یتیموں کے حق میں ناانصافی کرنے سے ڈرتے ہو اور اُتنی ہی عورتوں سے نکاح کرو جن کے حقوق ادا کرسکو۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۳، ص۲۰۹)
(4)… حضرت عِکْرمَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت کیا کہ قریش دس دس بلکہ اس سے زیادہ عورتیں کرتے تھے اور جب اُن کابوجھ نہ اٹھا سکتے تو جو یتیم لڑکیاں اُن کی سرپرستی میں ہوتیں اُن کے مال خرچ کر ڈالتے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۳۴۰)
اِس آیت میں فرمایا گیا کہ اپنی مالی پوزیشن دیکھ لو اور چار سے زیادہ نہ کرو تاکہ تمہیں یتیموں کا مال خرچ کرنے کی حاجت پیش نہ آئے۔
نکاح سے متعلق 2 شرعی مسائل:
(1)…اِس آیت سے معلوم ہوا کہ آزاد مرد کے لئے ایک وقت میں چار عورتوں تک سے نکاح جائز ہے۔
(2)…تمام امّت کا اِجماع ہے کہ ایک وقت میں چار عورتوں سے زیادہ نکاح میں رکھنا کسی کے لئے جائز نہیں سوائے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اور یہ بات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خصوصیات میں سے ہے۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اسلام قبول کیا، اس کی آٹھ بیویاں تھیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اِن میں سے صرف چار رکھنا۔ (ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب فی من اسلم وعندہ نسائ۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۹۶، الحدیث: ۲۲۴۱)
{فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا: پھر اگر تمہیں عدل نہ کرسکنے کا ڈر ہو۔} آیت میں چار تک شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ اگر تمہیں اس بات کا ڈر ہو کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی صورت میں سب کے درمیان عدل نہیں کرسکو گے تو صرف ایک سے شادی کرو۔اسی سے یہ معلوم ہوا کہ اگرکوئی چار میں عدل نہیں کرسکتا لیکن تین میں کرسکتا ہے تو تین شادیاں کرسکتا ہے اور تین میں عدل نہیں کرسکتا لیکن دو میں کرسکتا ہے تو دو کی اجازت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا فرض ہے، اس میں نئی، پرانی، کنواری یا دوسرے کی مُطَلَّقہ، بیوہ سب برابر ہیں۔ یہ عدل لباس میں ، کھانے پینے میں ، رہنے کی جگہ میں اوررات کوساتھ رہنے میں لازم ہے۔ ان امور میں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔
{وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً: اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو۔}اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں کو ان کے مہر خوشی سے ادا کریں پھر اگر ان کی بیویاں خوش دلی سے اپنے مہر میں سے انہیں کچھ تحفے کے طور پر دے دیں تو وہ اسے پاکیزہ اورخوشگوار سمجھ کر کھائیں ، اس میں ان کا کوئی دُنیوی یااُ خروی نقصان نہیں ہے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۴، ۱ / ۳۴۴، جلالین مع صاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۳۶۰، ملتقطاً)
اس آیت سے کئی چیزیں معلوم ہوئیں :
(1)… مہر کی مستحق عورتیں ہیں نہ کہ ان کے سرپرست ، لہٰذا اگر سرپرستوں نے مہر وصول کرلیا ہو تو انہیں لازم ہے کہ وہ مہر اس کی مستحق عورت کو پہنچادیں۔
(2)…مہر بوجھ سمجھ کر نہیں دینا چاہیے بلکہ عورت کا شرعی حق سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی نیت سے خوشی خوشی دینا چاہیے۔
(3)… مہر دینے کے بعد زبردستی یا انہیں تنگ کرکے واپس لینے کی اجازت نہیں۔
(4)… اگر عورتیں خوشی سے پورا یا کچھ مہر تمہیں دیدیں تو وہ حلال ہے اسے لے سکتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں لوگ عورتوں کو مہر واپس دینے یا معاف کرنے پر باقاعدہ تو مجبور نہیں کرتے لیکن کچھ اپنی چرب زبانی سے اور کچھ اپنے روئیے کو بگاڑ کر اور موڈ آف کرکے اور میل برتاؤ میں انداز تبدیل کرکے مہر کی معافی یا واپسی پر عورت کو مجبور کرتے ہیں۔یہ سب صورتیں ممنوع ہیں بلکہ بعض اعتبار سے اِس میں زیادہ خباثت اور کمینگی ہے۔ ایسے لوگ مہر معاف بھی کروالیتے ہیں اور اپنے نفس کو بھی راضی رکھتے ہیں کہ ہم نے کون سا مجبور کیا ہے؟ اِنہیں اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دے ۔
{وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمْ: اور کم عقلوں کو ان کے مال نہ دو۔} اس آیت میں چند احکام بیان فرمائے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جن بچوں کی پرورش تمہارے ذمہ ہے اور ان کا مال تمہارے پاس ہے اور وہ بچے اتنی سمجھ نہیں رکھتے کہ مال کا مَصرف پہچانیں بلکہ وہ اسے بے محل خرچ کرتے ہیں اور اگران کا مال اُن پر چھوڑ دیا جائے تو وہ جلد ضائع کردیں گے حالانکہ مال کی بہت اہمیت ہے کہ اسی کے ساتھ زندگی کی بقا ہے لہٰذا جب تک مال کی اچھی طرح سمجھ بوجھ انہیں حاصل نہ ہوجائے تب تک ان کے مال ان کے حوالے نہ کرو بلکہ ان کی ضروریات جیسے کھانے پینے اور پہننے کے اخراجات وغیرہ اِن کے مال سے پورے کرتے رہو۔ البتہ ان سے اچھی بات کہتے رہو جس سے اِن کے دل کو تسلی رہے اور وہ پریشان نہ ہوں مثلاً ان سے کہو کہ بھائی! مال تمہارا ہی ہے اور جب تم ہوشیار، سمجھدار ہوجاؤ گے تو یہ تمہارے حوالے کردیا جائے گا۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۵، ص۲۱۰)
اچھی بات کہنے کا معنیٰ یہاں مفسرین نے وہ لیا ہے جو اوپر بیا ن ہو االبتہ مطلقاً اچھی بات میں بہت سی چیزیں داخل ہیں ، یہ بھی اس میں داخل ہے کہ ان کو آدابِ زندگی سکھاؤ، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، بات چیت کرنے سب کاموں میں ان کی تربیت کرو۔
{وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰى: اور یتیموں کو آزماتے رہو۔}اس آیتِ مبارکہ میں یتیموں کے حوالے سے بہت واضح احکام دئیے ہیں ، چنانچہ فرمایا کہ جن یتیموں کا مال تمہارے پاس ہو ان کی سمجھداری کو آزماتے رہو جس کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کا مال دے کر وقتاً فوقتاً انہیں دیکھتے رہو کہ کیسے خرچ کرتے ہیں۔ یوں انہیں آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں یعنی بالغ ہوجائیں تو اگر تم ان میں سمجھداری کے آثار دیکھو کہ وہ مالی معاملات اچھے طریقے سے کرلیتے ہیں تو ان کے مال ان کے حوالے کردو۔ یہاں تک ان کے بارے میں حکم دینے کے بعد اب سرپرستوں کو بطورِ خاص چند ہدایات دی ہیں چنانچہ فرمایا کہ یتیموں کے مال کو فضول خرچی سے استعمال نہ کرو اور ان کامال جلدی جلدی نہ کھاؤ اس ڈر سے کہ جب وہ بڑے ہو جائیں گے تو چونکہ تمہیں اُن کے مال واپس کرنا پڑیں گے لہٰذا جتنا زیادہ ہوسکے ان کا مال کھا جاؤ، یہ حرام ہے۔ مزید ہدایت یہ ہے کہ یتیم کا سرپرست اگر خودمالدار ہویعنی اسے یتیم کا مال استعمال کرنے کی حاجت نہیں تو وہ اُس کا مال استعمال کرنے سے بچے اور جو حاجت مند ہو وہ بقدر مناسب کھاسکتا ہے یعنی جتنی معمولی سی ضرورت ہو ۔ اس میں کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کم سے کم کھائے۔ (جَمَل، النساء، تحت الآیۃ: ۶، ۲ / ۱۳)
آیت کے آخر میں مزید پہلے والے حکم کے بارے میں فرمایا کہ جب تم یتیموں کے مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو اِس بات پر گواہ بنالو تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا نہ ہو۔ یہ حکم مستحب ہے۔
{وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ: اور عورتوں کا بھی وراثت میں حصہ ہے۔} زمانہ جاہلیت میں عورتوں اور بچوں کو وراثت سے حصہ نہ دیتے تھے، اِس آیت میں اُس رسم کو باطل کیا گیا۔ اِس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ بیٹے کو میراث دینا اور بیٹی کو نہ دینا صریح ظلم اور قرآن کے خلاف ہے دونوں میراث کے حقدار ہیں اور اس سے اسلام میں عورتوں کے حقوق کی اہمیت کا بھی پتا چلا۔
{وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى: اور جب تقسیم کرتے وقت رشتہ دار آجائیں۔} جن افراد کا وراثت میں حصہ ہے ان کا بیان تو تفصیل کے ساتھ بعد کی آیتوں میں مذکور ہے ان کے علاوہ دیگر رشتے داروں اور محتاج افراد کے بارے میں فرمایا کہ انہیں بھی وراثت تقسیم کرنے سے پہلے مال میں سے کچھ دیدیا کرو اور ان سے اچھی بات کہو جیسے یہ کہ یہ مال تودرحقیقت وارثوں کا حصہ ہے لیکن تمہیں ویسے ہی تھوڑا سا دیا گیا ہے، یونہی ان کیلئے دعا کردی جائے۔
وراثت تقسیم کرنے سے پہلے غیر وارثوں کو دینا :
اس آیت میں غیر وارثوں کو وراثت کے مال میں سے کچھ دینے کا جوحکم دیا گیا ہے، یہ دینا مستحب ہے ۔ امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مروی ہے حضرت عبیدہ سلمانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے میراث تقسیم کی تو اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے ایک بکری ذبح کروا کر کھانا پکوایا پھر یتیموں میں تقسیم کر دیا اور کہا اگر یہ آیت نہ ہوتی تو میں یہ سب خرچہ اپنے مال سے کرتا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۸، ۱ / ۳۴۸)
تفسیر قرطبی میں یوں ہے کہ’’یہ عمل عبیدہ سلمانی اور امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما دونوں نے کیا۔ (قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۳۶، الجزء الخامس)
در منثور میں ایک روایت یہ ہے کہ’’حضرت عبد الرحمٰن بن ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے جب اپنے والد کی میراث تقسیم کی تو اُسی مال سے ایک بکری ذبح کروا کر کھانا پکوایا، جب یہ بات حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کی بارگاہ میں عرض کی گئی تو انہوں نے فرمایا: عبد الرحمٰن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے قرآن پر عمل کیا۔(در منثور، النساء، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۴۴۰)
اس مستحب حکم پر یوں بھی عمل ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات کوئی بیٹا یتیم بچے چھوڑ کر فوت ہوجاتا ہے اور اس کے بعد باپ کا انتقال ہوتا ہے تو وہ یتیم بچے چونکہ پوتے بنتے ہیں اور چچا یعنی فوت ہونے والے کا دوسرا بیٹا موجود ہونے کی وجہ سے یہ پوتے داد ا کی میراث سے محروم ہوتے ہیں تو دادا کو چاہیے کہ ایسے پوتوں کو وصیت کر کے مال کا مستحق بنا دے اور اگر دادا نے ایسا نہ کیا ہو تو وارثوں کو چاہیے کہ اوپر والے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے حصہ میں سے اسے کچھ دے دیں۔ اس حکم پر عمل کرنے میں مسلمانوں میں بہت سستی پائی جاتی ہے بلکہ اس حکم کا علم ہی نہیں ہوتا۔ البتہ یہ یاد رہے کہ نابالغ اور غیر موجود وارث کے حصہ میں سے دینے کی اجازت نہیں۔
{وَ لْیَخْشَ: اور چاہیے کہ ڈریں۔} یتیموں کے سرپرستوں کو فرمایا جارہا ہے کہ وہ یتیموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں اوراُن کی یہ سمجھ کر پرورش کریں کہ اگر ہمارے بچے یتیم رہ جائیں اور کوئی دوسرا ان کی پرورش کرے تو وہ کیسی پرورش چاہتے ہیں ، تو ایسی ہی پرورش وہ دوسرے کے یتیموں کی کریں۔ یہ آیتِ کریمہ اخلاق کی بہترین تعلیم ہے ۔ ہمیشہ دوسرے کے ساتھ وہ معاملہ کرنا چاہیے جو اپنے ساتھ پسند ہے اورجو اپنے لئے پسند نہ ہو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند نہیں ہونا چاہیے۔ حدیث ِ مبارک میں بھی فرمایا گیا کہ تم میں کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کیلئے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحبّ لاخیہ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۶، الحدیث: ۱۳)
لہٰذا یتیموں کے سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ یتیموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور ان سے اچھی اور صحیح بات کہیں مثلاً یہ کہ تم فکر نہ کرو ہم بھی تمہارے باپ جیسے ہیں ، تمہیں پریشانی نہیں آنے دیں گے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۹، ۱ / ۳۴۹، مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۹، ص۲۱۲، ملتقطاً)
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا:بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں۔} اس سے پہلی آیات میں یتیموں کا مال ناحق کھانے سے منع کیا گیا اور ا س آیت میں یتیموں کا مال ناحق کھانے پر سخت وعید بیان کی گئی ہے اور یہ سب یتیموں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کیونکہ وہ انتہائی کمزور اور عاجز ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے مزید لطف و کرم کے حقدارتھے۔اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا گیا کہ’’ وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں ‘‘اس سے مراد یہ ہے کہ یتیموں کا مال ناحق کھانا گویا آگ کھانا ہے کیونکہ یہ مال کھانا جہنم کی آگ کے عذاب کا سبب ہے۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۵۰۶)
یتیموں کا مال ناحق کھانے کی وعیدیں :
احادیثِ مبارکہ میں بھی یتیموں کا مال ناحق کھانے پر کثیر وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،ان میں سے 3وعیدیں درجِ ذیل ہیں:
(1)…حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ایک قوم اپنی قبروں سے اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے مونہوں سے آگ نکل رہی ہو گی۔عرض کی گئی: یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا ’’کیا تم نے اللہتعالیٰ کے اس فرمان کو نہیں دیکھا ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا‘‘ بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔(کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، ۲ / ۹، الجزء الرابع، الحدیث: ۹۲۷۹)
(2)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے لوگ مقرر تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑتے پھر ان کے مونہوں میں آگ کے پتھر ڈالتے جو ان کے پیچھے سے نکل جاتے۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل! عَلَیْہِ السَّلَام، یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کامال ظلم سے کھاتے تھے۔ (تہذیب الآثار، مسند عبد اللہ بن عباس، السفر الاول، ذکر من روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ رأی، ۲ / ۴۶۷، الحدیث: ۷۲۵)
(3)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ چار شخص ایسے ہیں جنہیں جنت میں داخل نہ کرنا اور اس کی نعمتیں نہ چکھانا اللہ تعالیٰ پر حق ہے۔ (1) شراب کا عادی۔ (2) سود کھانے والا۔ (3) ناحق یتیم کا مال کھانے والا۔ (4) والدین کا نافرمان۔(مستدرک، کتاب البیوع، انّ اربی الربا عرض الرجل المسلم، ۲ / ۳۳۸، الحدیث: ۲۳۰۷)
یتیم کا مال کھانے سے کیا مراد ہے؟
یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ قرآنِ پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس میں بھی پرواہ نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں ، انہیں اِس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ یہاں ایک اور اہم مسئلے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ یتیم کا مال کھانے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی باقاعدہ کسی بری نیت سے کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی کو حرام کا علم بھی نہیں ہوتا اور وہ یتیموں کا مال کھانے کے حرام فعل میں مُلَوَّث ہوجاتا ہے جیسے جب میت کے ورثاء میں کوئی یتیم ہے تو اس کے مال سے یا اس کے مال سمیت مشترک مال سے فاتحہ تیجہ وغیرہ کا کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے، لہٰذا یہ کھانے صرف فقراء کیلئے بنائے جائیں اور صرف بالغ موجود ورثاء کے مال سے تیار کئے جائیں ورنہ جو بھی جانتے ہوئے یتیم کا مال کھائے گا وہ دوزخ کی آگ کھائے گااور قیامت میں اس کے منہ سے دھواں نکلے گا۔
یتیم کی اچھی پرورش کے فضائل:
جس کے زیر سایہ کوئی یتیم ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس یتیم کی اچھی پرورش کرے ، اَحادیث میں یتیم کی اچھی پرورش کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 4فضائل درجِ ذیل ہیں:
(1)…حضرت سہلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ پھراپنی شہادت والی اور در میان والی انگلی سے اشارہ فرمایا اور انہیں کشادہ کیا۔(بخاری، کتاب الطلاق، باب اللعان، ۳ / ۴۹۷، الحدیث: ۵۳۰۴)
(2)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، امامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے مسلمانوں کے کسی یتیم بچے کے کھانے پینے کی ذمہ داری لی، اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے جنت میں داخل فرمائے گا مگر یہ کہ وہ ایسا گناہ کرے جس کی معافی نہ ہو۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الیتیم، وکفالتہ، ۳ / ۳۶۸، الحدیث: ۱۹۲۴)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ مسلمانوں کے گھروں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم سے اچھاسلوک کیا جائے اور مسلمانوں کے گھروں میں سے برا گھر وہ ہے جس میں یتیم سے برا سلوک کیا جائے۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب حق الیتیم، ۴ / ۱۹۳، الحدیث: ۳۶۷۹)
(4)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رحمت ِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس نے یتیم کے سر پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کیلئے ہاتھ رکھا تواس کے لئے ہر بال کے بدلے جن پر اس کا ہاتھ گزرا نیکیاں ہیں۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی، ۸ / ۳۰۰، الحدیث: ۲۲۳۴۷)
{یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ:اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے۔} وراثت کے احکام میں کافی تفصیل ہے، انہیں جب تک باقاعدہ کسی کے پاس بیٹھ کر مشق کے ذریعے حل نہ کیا جائے تب تک سمجھنا مشکل ہے اس لئے انہیں سمجھنے کیلئے باقاعدہ کسی علم میراث کے عالم کے پاس بیٹھ کر سمجھیں۔ یہاں آیات مبارکہ کی تفسیر کے پیشِ نظر آیات میں مذکور ورثاء کی مکمل صورتیں تحریر کردی ہیں۔ انہیں دیکھ لیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ یہاں بیان کردہ حصوں کے ساتھ بہت سے اصول و قواعد کو ملا کر میراث کا مسئلہ حل کیا جاتا ہے لہٰذا مزید تفصیلات کیلئے میراث کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ نیز یہاں تفسیر میں تمام ورثاء کے حالات بیان نہیں کئے گئے بلکہ صرف ان کے بیان کئے ہیں جن کی صورت یہاں آیات میں مذکور ہے۔
ورثا میں وراثت کا مال تقسیم کرنے کی صورتیں :
(1)… باپ کی تین صورتیں ہیں :(۱) اگرمیت کاباپ ہو اور ساتھ میں بیٹا بھی ہو تو باپ کو 1 / 6 ایک بٹا چھ ملے گا۔ (۲) اگرمیت کاباپ ہو اور ساتھ میں بیٹا نہ ہوبلکہ صرف بیٹی ہوتو باپ کو 1 / 6ایک بٹاچھ ملے گا اور بقیہ ورثاء کو دینے کے بعد اگرکچھ بچ جائے تووہ باپ کو بطورِ عَصبہ کے ملے گا۔ (۳) اگرمیت کاباپ ہو اور ساتھ میں نہ کوئی بیٹا ہو اور نہ کوئی بیٹی ہو تو باپ کوبطور عصبہ کے ملے گا۔
(2)…ماں شریک بھائی کی تین صورتیں ہیں : (۱)اَخیافی بھائی اگر ایک ہو تو اخیافی بھائی کو 1 / 6 ایک بٹا چھ ملے گا۔ (۲) اخیافی بھائی اگر دو یا دو سے زیادہ ہوں خواہ بھائی ہو یا بہنیں یا دونوں مل کر توانہیں 1 / 3 ایک بٹا تین ملے گا۔ (۳) باپ، دادا، بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی کے ہوتے ہوئے اخیافی بھائی محروم ہوجائے گا۔ اسی طرح اخیافی بہن کے بھی یہی تین احوال ہیں۔
(3)…شوہرکی دوصورتیں ہیں : (۱)اگرفوت ہونے والی کی اولاد ہے تو شوہر کو 1 / 4 ایک بٹا چار ملے گا۔ (۲) اگر فوت ہونے والی کی اولاد نہیں تو شوہر کو 1 / 2 ایک بٹا دوملے گا۔
(4)… بیوی کی دو صورتیں ہیں : (۱) اگر فوت ہونے والے کی اولاد ہے توبیوی کو 1 / 8 ایک بٹا آٹھ ملے گا۔ (۲) اگر فوت ہونے والے کی اولاد نہیں ہے تو بیوی کو 1 / 4 ایک بٹا چار ملے گا۔
(5)… بیٹی کی تین صورتیں ہیں : (۱) اگر بیٹی ایک ہو تو 1 / 2 ایک بٹا دو یعنی آدھا مال ملے گا۔ (۲) اگر دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں ہوں توان کو2 / 3 دو بٹا تین ملے گا۔ (۳) اگربیٹیوں کے ساتھ بیٹابھی ہوتوبیٹیاں عصبہ بن جائیں گی اور لڑکے کولڑکی سے دوگنا دیا جائے گا۔
(6)…ماں کی تین صورتیں ہیں : (۱) اگر میت کا بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی یاکسی بھی قسم کے دوبہن بھائی ہوں تو ماں کوکل مال کا 1 / 6 ایک بٹا چھ ملے گا۔ (۲) اگر میت کا بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی کوئی نہ ہو اور بہن بھائیوں میں سے دو افراد نہ ہوں خواہ ایک ہو تو ماں کوکل مال کا1 / 3 ایک بٹاتین ملے گا۔ (۳) اگر میت نے بیوی اورماں باپ یا شوہر اور ماں باپچھوڑے ہوں توبیوی یا شوہر کواس کاحصہ دینے کے بعد جو مال باقی بچے ا س کا1 / 3 ایک بٹا تین ماں کودیا جائے گا۔
اس کے علاوہ دو اہم اصول :
… (1) بیٹے کو بیٹی سے دگنا ملتا ہے اور جہاں بھائی عصبہ بنتے ہوں وہاں انہیں بہنوں سے دگنا ملتا ہے اور کئی جگہ بہنیں بھی عصبہ بن جاتی ہیں اور اصحابِ فرائض کو دینے کے بعد بقیہ سارا مال لے لیتی ہیں۔
(2) … ایک اور اہم قاعدہ ہے کہ قریبی کے ہوتے ہوئے دور والا محروم ہوجاتا ہے جیسے بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتا، باپ کے ہوتے ہوئے دادا، بھائی کے ہوتے ہوئے بھائی کی اولاد وغیرہ۔
{تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ: یہ اللہ کی حدیں ہیں۔} وراثت کے مسائل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حدود قرار دیا اور ان کے توڑنے کو اللہ کی حدیں توڑنا قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ میراث کی تقسیم میں ظلم کرنا عذابِ الٰہی کا باعث ہے۔ اس سے ان مسلمانوں کو عبرت پکڑنی چاہیے جو لڑکیوں یا دوسرے وارثوں کو وراثت سے محروم کرتے ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے’’ جو اپنے وارث کو میراث سے محروم کرے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے جنت میں ا س کے حصے سے محروم کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الوصایا، باب الحیف فی الوصیۃ، ۳ / ۳۰۴، الحدیث: ۲۷۰۳)
{وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ:اور جو اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے تو اللہ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا۔} اِس آیت میں سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت پر جنت کا وعدہ ہے اور اگلی آیت میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی پر جہنم کی وعید ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت فرض ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی حرام ہے۔ نیز کسی بھی حد ِ شرعی کو توڑنا حرام ہے لیکن تمام حدود کو توڑنے والا کافر ہی ہے یعنی جو ایمان کی حد بھی توڑ دیتا ہے اور اگلی آیتوں میں یہی مراد ہے کیونکہ وہاں نافرمان کیلئے ہمیشہ جہنم میں داخلے کی وعید ہے اور جہنم میں ہمیشہ کافر ہی رہے گا مسلمان نہیں۔
{فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَیْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ: ان پر اپنوں میں سے چار مردوں کی گواہی لو۔} مسلمانوں میں سے جو عورتیں زنا کا اِرتِکاب کریں ان کے بارے حکم دیا گیا کہ ان پر زنا کے ثبوت کیلئے چار مسلمان مردوں کا گواہ ہوناضروری ہے جو عورتوں کے زنا پر گواہی دیں۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں حکام سے خطاب ہے یعنی وہ چار مردوں سے گواہی سنیں۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵، ۱ / ۳۵۷)
زنا کے ثبوت کے لئے گواہی کی شرائط:
زنا کا ثبوت گواہی سے ہو تو ضروری ہے کہ زنا کے گواہ چار عاقل ،بالغ ، مسلمان مرد ہوں کوئی عورت نہ ہو، چاروں نیک اور متقی ہوں ، اور انہوں نے ایک وقتِ مُعَیَّن میں زنا کا یوں مشاہدہ کیا ہو جیسے سرمہ دانی میں سلائی نیز یہ چاروں گواہ حلفِ شرعی کے ساتھ گواہی دیں۔ اگر ان میں سے ایک بات بھی کم ہوئی تو زنا ثابت نہ ہو گا اور گواہی دینے والے شرعاً اسّی اسّی کوڑوں کے مستحق ہوں گے۔(فتاوی رضویہ، ۱۳ / ۶۲۳، ملخصاً)
{فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِی الْبُیُوْتِ: ان عورتوں کو گھر میں بند کر دو۔} زانیہ عورتوں کو موت آنے تک گھروں میں قید رکھنے کا حکم زنا سے متعلق کوڑوں اور رَجم کی سزا مقرر ہونے سے پہلے تھا جب زنا کی حد کے بارے میں احکام ناز ل ہو ئے تو یہ حکم مَنسوخ ہو گیا۔(تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۲۴۰)
زنا اور قَذف کی سزا کا بیان سورۂ نور آیت نمبر 2اور 4 میں بیان ہواہے۔
زنا کی مذمت:
اس آیت میں زنا کرنے والوں کی سزا سے متعلق بعض ا حکام بیان ہوئے،اس مناسبت سے ہم یہاں زنا کی مذمت پر 4 اَحادیث ذکر کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں پر زنا کی قَباحت و برائی مزید واضح ہو اور وہ ا س برے فعل سے بچنے کی کوشش کریں ، چنانچہ
(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو عورت کسی قوم میں اس کو داخل کردے جو اس قوم سے نہ ہو (یعنی زنا کرایا اور اُس سے اولاد ہوئی) تو اُسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت کا حصہ نہیں ملے گا اور اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل نہ فرمائے گا۔ (ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب التغلیظ فی الانتفاء، ۲ / ۴۰۶، الحدیث: ۲۲۶۳)
(2)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو اُنہوں نے اپنے لیے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب کو حلال کرلیا۔ (مستدرک، کتاب البیوع، اذا ظہر الزنا والربا فی قریۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۳۹، الحدیث: ۲۳۰۸)
(3)…حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا، وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا، وہ رُعب میں گرفتار ہوگی۔ (مشکٰوۃ المصابیح، کتاب الحدود، الفصل الثالث، ۱ / ۶۵۶، الحدیث: ۳۵۸۲)
(4)…حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں بوڑھے زانی پر لعنت کرتی ہیں اور زانیوں کی شرمگاہ کی بدبو جہنم والوں کو ایذا دے گی۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحدود والدیات، باب ذم الزنا ، ۶ / ۳۸۹، الحدیث: ۱۰۵۴۱)
{فَاٰذُوْهُمَا:ان دونوں کوتکلیف پہنچاؤ۔}بے حیائی کا اِرتکاب کرنے والوں کے متعلق سزا کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ایذاء دو جیسے جھڑک کر، برا بھلا کہہ کر، شرم دلا کر، جوتیاں وغیرہ مار کرزبانی اور بدنی دونوں طرح سے ایذا دو۔ زنا کی سزا پہلے ایذا دینا مقرر کی گئی، پھر قید کرنا، پھر کوڑے مارنا یا سنگسار کرنا۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۲۱۷)
یہ آیت بھی حدِزنا کی آیت سے منسوخ ہے۔ بعض علماء نے فرمایا کہ پچھلی آیت میں فاحشہ سے مرا د خود عورت کا عورت سے بے حیائی کا کام کرنا ہے اور ’’وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِهَا ‘‘ سے مرد کا مرد سے لِواطَت کرنا مراد ہے۔ اس صورت میں یہ آیت مَنسوخ نہیں بلکہ مُحکم ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لواطت اور مساحقت (عورتوں کی عورتوں سے بے حیائی) میں حد مقرر نہیں بلکہ تَعزیر ہے۔ یعنی قاضی کی صوابدید پر ہے وہ جو چاہے سزا دے۔ یہ ہی امامِ اعظم ابو حنیفہ کا قول ہے۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۵۲۸، تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۲۴۲، ملتقطاً)
یہی وجہ ہے کہ لواطت کے مرتکب کو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے مختلف سزائیں دیں اگر لواطت میں حد ہوتی تو ایک ہی سزا دی جاتی اس میں اختلاف نہ ہوتا۔ ’’حد‘‘ مخصوص ہوتی ہے جیسے سو کوڑے، اسّی کوڑے وغیرہ۔ جبکہ تعزیر وہاں ہوتی ہے جہاں شرعی حد مقرر نہ ہو بلکہ قاضی کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے ،چاہے تو دس کوڑے مارنے کا فیصلہ کردے اور چاہے تو بیس کا اور چاہے تو کوئی اور سزا دیدے۔
{فَاِنْ تَابَا وَ اَصْلَحَا:پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں۔}فرمایا گیا کہ بے حیائی کا ارتکاب کرنے والے اگر پچھلے گناہوں پر نادم ہو جائیں اور آئندہ کے لئے اپنی اصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو ۔اس سے معلوم ہوا کہ تعزیر کا مستحق مجرم اگر تعزیر سے پہلے صحیح معنی میں توبہ کر لے تو ا س پر خواہ مخواہ تعزیر لگانا ضروری نہیں۔
توبہ کے معنی:
توبہ کے معنی ہوتے ہیں رجوع کرنا، لوٹنا۔ اگر یہ بندے کی صفت ہو تو معنی ہوں گے گناہ یا ارادہِ گناہ سے رجوع کرنااور اگر رب تعالیٰ کی صفت ہو تو معنی ہوں گے بندے کی توبہ قبول فرمانا یا اپنی رحمت کو بندے کی طرف متوجہ کرنا۔
{ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ:پھر تھوڑی دیر میں توبہ کر لیں۔} اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت ہے کہ گناہ کے بعد توبہ کرنے پر معاف فرما دیتا ہے اور موت کے وقت تک توبہ قبول فرماتا ہے ۔ یہاں فرمایا گیا کہ جو گناہ کرکے تھوڑی دیر میں توبہ کرلیں تو یہاں تھوڑی دیر سے مراد ایک آدھ گھنٹا یا دو چار سال نہیں بلکہ موت سے پہلے جب بھی توبہ کرلی وہ قریب ہی شمار ہوگی ۔ ہاں جب موت کا عالَم طاری ہوجائے اور غیب کا معاملہ ظاہر ہوجائے تو اس وقت توبہ مقبول نہیں۔
{وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا:اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔} اسلام میں توبہ کا قانون بنانا عین حکمت و علم پر مَبنی ہے ۔ جن دینوں میں توبہ نہیں ان کے ماننے والے گناہ پر زیادہ دلیر ہوتے ہیں کیونکہ مایوسی جرم پر دلیر کر دیتی ہے اور معافی کی امید توبہ پر ابھارتی ہے۔ جس شخص کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہو اسے سب سے جدا قید میں رکھا جاتا ہے تا کہ کسی اور کو قتل نہ کر دے کیونکہ وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوچکا ہے اور جسے ایک مقررہ مدت تک سزا کے بعد رہائی کا حکم ہو اسے دیگر مجرموں کے ساتھ قید میں رکھا جاتا ہے، اس سے یہ خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ اسے رہائی کی امید ہے۔[1]
1…توبہ کی ترغیب اورفضائل واحکام وغیرہ جاننے کے لئے کتاب’’ توبہ کی روایات وحکایات ‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کیجئے۔
{وَ لَیْسَتِ
التَّوْبَةُ:اور توبہ قبول نہیں۔} اوپر
والی آیت میں توبہ کی قبولیت کا جووعدہ گزرا اس کی وضاحت کردی گئی ، اب ان افراد
کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ جن کی توبہ قبول نہ ہو گی۔ آیت میں ’’سَیِّاٰت ‘‘سے مراد گناہ ہوں تو معنی یہ ہو گا کہ جو
لوگ کفر کے علاوہ دیگر گناہوں میں مُلَوَّث رہے جب موت کے آثار ظاہر ہوئے،
عذاباتِ الٰہی کا مشاہدہ کر لیا اور روح حلق تک آپہنچی، اب توبہ کریں تو مقبول
نہیں لیکن یہ وقت آنے سے ایک لمحہ پہلے بھی اگر توبہ کر لی تو قبول ہے
اور اگر ان مسلمانوں کی توبہ مقبول نہ بھی ہو تب بھی وہ افراد ہمیشہ جہنم میں
نہ رہیں گے اللہ تعالیٰ چاہے تو
انہیں بخش دے، چاہے تو سزا دے لیکن سزا پوری ہونے کے بعد جنت میں جائیں گے
البتہ وہ لوگ جو کافر مرے قیامت کے دن ان کی توبہ قبول نہیں یعنی کسی صورت
نجات نہ پائیں گے، ہمیشہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ایک قول یہ ہے کہ
آیت میں ’’سَیِّاٰت ‘‘ سے مراد
کفر ہے ،اس صورت معنی یہ ہو گا کہ وہ کفار جو موت کے آثار دیکھ کر یعنی غیب
کا مشاہدہ کرنے کے بعد اپنے کفر سے توبہ کریں اور اپنے ایمان کا اقرار کریں
تو ان کی یہ توبہ اور اقرارِ ایمان قابل قبول نہیں ، ایسی توبہ تو فرعون نے بھی کی
تھی یونہی وہ لوگ جو حالت کفر میں مر گئے یعنی بوقت موت بھی توبہ نہ کی تو وہ
ہمیشہ کے لئے جہنم کی سزا پائیں گے۔(تفسیر قرطبی، النساء، تحت
الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۶۶،
الجزء الخامس، تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۱۸، ۴ /
۸، ملتقطاً)
کافر کے لئے دعائے مغفرت
کرنے کا شرعی حکم:
جو
کسی کافر کے لئے ا س کے مرنے کے بعد اس کے کفر کا علم ہونے کی صورت میں دعائے
مغفرت کرے یا کسی مردہ مرتد کو مرحوم یا مغفور کہے یا کسی مرے ہوئے ہندو کو بیکنٹھ
باشی (یعنی جنتی) کہے وہ خود کافر
ہے۔(بہار شریعت، حصہ اول،
ایمان وکفر کا بیان، ۱ / ۱۸۵)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا
اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ
الْجَحِیْمِ( توبہ: ۱۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے
لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ ان کے لئے واضح ہوچکا ہے کہ
وہ دوزخی ہیں۔
{لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا:تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔} اسلام سے پہلے اہلِ عرب کا یہ دستور تھا کہ لوگ مال کی طرح اپنے رشتہ داروں کی بیویوں کے بھی وارث بن جاتے تھے پھر اگر چاہتے تو مہر کے بغیر انہیں اپنی زوجیت میں رکھتے یا کسی اور کے ساتھ شادی کردیتے اور ان کا مہر خود لے لیتے یا انہیں آگےشادی نہ کرنے دیتے بلکہ اپنے پاس ہی رکھتے تاکہ انہیں جو مال وراثت میں ملا ہے وہ اِن لوگوں کو دیدیں اور تب یہ ان کی جان چھوڑیں یا عورتوں کو اس لئے روک رکھتے کہ یہ مرجائیں گی تو یہ روکنے والے لوگ ان کے وارث بن جائیں۔ الغرض وہ عورتیں ان کے ہاتھ میں بالکل مجبور ہوتیں اور اپنے اختیار سے کچھ بھی نہ کرسکتی تھیں اس رسم کو مٹانے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی گئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب لا یحلّ لکم ان ترثوا النساء کرہًا، ۳ / ۲۰۳، الحدیث: ۴۵۷۹، تفسیر قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۶۷، الجزء الخامس، ملتقطاً)
{لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ: تاکہ جو مہر تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ لے لو۔}حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے فرمایا یہ آیت اُس شخص کے متعلق ہے جو اپنی بیوی سے نفرت رکھتا ہو اور اُس کے ساتھ بدسلوکی ا س لئے کرتا ہو کہ وہ پریشان ہو کر مہر واپس کردے یا مہر معاف کردے، اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا۔ ایک قول یہ ہے کہ لوگ عورت کو طلاق دیتے پھر رجوع کرلیتے پھر طلاق دیتے اس طرح عورت کو مُعَلَّق (لٹکا ہوا) رکھتے تھے ، وہ نہ ان کے پاس آرام پاسکتی نہ دوسری جگہ شادی کر کے گھر بسا سکتی، اس کو منع فرمایا گیا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۹، ۱ / ۳۶۰)
بیویوں پر ظلم وستم کرنے والے غور کریں :
یہاں جو حالات زمانہ ِجاہلیت کے بیان کئے جارہے ہیں ان پر غور کریں کہ کیا انہی حالات پر اِس وقت ہمارا معاشرہ نہیں چل رہا۔ بیویوں کو تنگ کرنا، جبری طور پر مہر معاف کروانا، ان کے حقوق ادا نہ کرنا، ذہنی اَذیتیں دینا، کبھی عورت کو اس کے ماں باپ کے گھر بٹھا دینا اور کبھی اپنے گھر میں رکھ کر بات چیت بند کردینا، دوسروں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ کرنا، لتاڑنا، جھاڑنا وغیرہ۔ عورت بیچاری شوہر کے پیچھے پیچھے پھر رہی ہوتی ہے اور شوہر صاحب فرعون بنے آگے آگے جارہے ہوتے ہیں ، عورت کے گھر والوں سے صراحتاً یا بیوی کے ذریعے نت نئے مطالبے کئے جاتے ہیں ، کبھی کچھ دلانے اور کبھی کچھ دلانے کا۔ الغرض ظلم و سِتم کی وہ کون سی صورت ہے جو ہمارے گھروں میں نہیں پائی جارہی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کرے کہ قرآن کی یہ آیتیں ان لوگوں کو سمجھ آجائیں اور وہ اپنی اس بری رَوِش سے باز آ جائیں۔نیز ان آیات کی روشنی میں وہ لوگ بھی کچھ غور کریں جو اسلام سے شرمندہ شرمندہ سے رہتے ہیں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں کہتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں پر بہت سختیاں ہیں۔ وہ دیکھیں کہ اسلام میں عورتوں پر سختیاں کی گئی ہیں یا انہیں سختیوں سے نجات دلائی گئی ہے؟
{فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا: توہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو۔} گھروں کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے ایک بہت عمدہ نفسیاتی طریقہ بیان کیا جارہا ہے ۔ بیوی کے حوالے سے فرمایا کہ اگر بدخُلقی یا صورت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے عورت تمہیں پسند نہ ہو تو صبر کرو اور بیوی کو طلاق دینے میں جلدی نہ کرو کیونکہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی بیوی سے تمہیں ایسی اولاد دے جو نیک اور فرماں بردار ہو، بڑھاپے کی بیکسی میں تمہارا سہارا بنے۔
مثبت ذہنی سوچ کے فوائد:
یہ طریقہ صرف میاں بیوی کے تعلقات میں نہیں بلکہ زندگی کے ہزاروں معاملات میں کام آتا ہے۔اس طریقے کو ’’مثبت ذہنی سوچ‘‘ کہتے ہیں یعنی اگر کسی کام یا چیز میں خرابی کی کوئی صورت پائی جارہی ہے تو اس کے اچھے پہلوؤں پر بھی غور کرلو۔ ہوسکتا ہے کہ اچھے پہلو زیادہ ہوں یا اچھا پہلو زیادہ فائدے مند ہو مثلاً کسی کی بھی بیوی بدصورت ہے لیکن اسی سے آدمی کو نیک اولاد حاصل ہے، یہاں اگر بدصورتی کو گوارا کرلے تو اس کی زندگی امن سے گزرے گی لیکن اگر طلاق دیدے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ بیوی تو چھوٹ ہی جائے گی لیکن اس کے ساتھ بچے بھی چھوٹ جائیں گے اور ساری زندگی ایسی تلخیوں ، ذہنی اذیتوں ، اولاد کے حصول کی جنگ اور حقوق کی لڑائی میں گزرے گی کہ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ یونہی کسی آدمی کو ادارے میں رکھا ہوا ہے جو کسی وجہ سے ناپسند ہے لیکن اسی کی وجہ سے نظام بہت عمدہ چل رہا ہے، اب اُس آدمی کو رکھنا اگرچہ پسند نہیں لیکن صرف ناپسندیدگی کی وجہ سے اُسے نکال دینا پورے نظام کو تباہ کردے گا تو ایسی جگہ فوائد پر نظر رکھتے ہوئے اُسے برداشت کرلینا ہی بہتر ہے۔ یہ دو مثالیں عرض کی ہیں ، اِن کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی کے بہت سے معاملات کو حل کیا جاسکتا ہے۔ صرف ’’مثبت ذہنی سوچ‘‘ پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ہماری زندگی کی بہت سی تلخیاں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔ اِسی ’’مثبت ذہنی سوچ‘‘ کا ایک پہلو یہ ہوتا ہے کہ آدمی پریشانیوں کی بجائے نعمتوں کو سامنے رکھے یعنی آدمی اگر ایک تکلیف میں ہے تو اُسی وقت میں وہ لاکھوں نعمتوں اور سینکڑوں کامیابیوں میں بھی ہوتا ہے تو کیا ضرورت ہے کہ پریشانی اور ناکامی کی یاد تو اپنا وظیفہ بنالے اور خوشی اور کامیابی کو بھولے سے بھی نہ سوچے۔ اِس نسخے پر عمل کرکے دیکھیں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں بھر جائیں گی۔
{وَ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا:اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو۔} چونکہ عورتوں کے حقوق کا بیان چل رہا ہے۔ یہاں مزید ان کے حقوق بیان فرمائے گئے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارا ارادہ بیوی کو چھوڑنے کا ہو تو مہر کی صورت میں جومال تم اسے دے چکے ہو تواس میں سے کچھ واپس نہ لو ۔ا ہلِ عرب میں یہ بھی طریقہ تھا کہ اپنی بیوی کے علاوہ کوئی دوسری عورت انہیں پسند آجاتی تو ا پنی بیوی پر جھوٹی تہمت لگاتے تاکہ وہ اس سے پریشان ہو کر جو کچھ لے چکی ہے واپس کردے اور طلاق حاصل کر لے۔(بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۲۰، ۲ / ۱۶۳)
اسی کو فرمایا کہ کیا تم بہتان اور گناہ کے ذریعے ان سے مال لینا چاہتے ہو، یہ حرام ہے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 229کی تفسیر میں وضاحت سے ہم خُلع اور دیگر صورتوں میں مال لینے اور نہ لینے کی صورتیں بیان کرچکے ہیں۔ اس کا مطالعہ بھی یہاں کرلینا چاہیے۔
زیادہ مہر مقرر کرنا جائز ہے:
اس آیت میں ڈھیروں مال دینے کا تذکرہ ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زیادہ مہر مقرر کرنا جائز ہے اگرچہ بہتر کم مہر ہے یا اتنا مہر کہ جس کی ادائیگی آسان ہو۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ برسر منبر فرمایا: عورت کے مہر زیادہ مقرر نہ کرو۔ ایک عورت نے یہی آیت پڑھ کر کہا : اے امیر المؤمنین! اللہ ہمیں دیتا ہے اور تم منع کرتے ہو۔ اس پر حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا اے عمر! تم سے ہر شخص زیادہ سمجھ دار ہے، (اے لوگو!) تم جو چاہو مہر مقرر کرو۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۲۱۹)
سُبْحَانَ اللہ! حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شانِ انصاف اور طہارت ِنفس کس قدر اعلیٰ تھی، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
{وَ كَیْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ :اور تم وہ (مال) کیسے واپس لے سکتے ہو۔} مہر کی واپسی کا بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا تم وہ مال عورتوں سے کیسے واپس لے سکتے ہو حالانکہ تم تنہائی میں ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور وہ تم سے مضبوط عہد بھی لے چکی ہیں۔ وہ عہد اللہ تعالیٰ کا یہ ارشا دہے:
فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ (بقرہ: ۲۲۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کہ اچھے طریقے سے انہیں رکھو گے اور اگرچھوڑو گے تو اچھے طریقے سے چھوڑو گے۔
خَلْوَتِ صحیحہ کی تعریف اور ا س کا حکم:
اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خلوتِ صحیحہ ہو جانے سے پور امہر دینا پڑتا ہے۔ خلوتِ صحیحہ یہ ہے کہ میاں بیوی کسی ایسی جگہ جمع ہو جائیں جہاں ہم بستری کرنے سے کوئی چیز رکاوٹ نہ ہو۔ اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لئے بہار شریعت حصہ 7کا مطالعہ کیجئے۔
{ وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ: اور اپنے باپ دادا کی منکوحہ سے نکاح نہ کرو۔} زما نہ ٔجاہلیت میں رواج تھا کہ باپ کے انتقال کے بعد بیٹا اپنی سگی ماں کو چھوڑ کر باپ کی دوسری بیوی سے شادی کر لیتا تھا، اس آیت میں ایسا کرنے سے منع کیا گیا۔(تفسیر قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۷۳، الجزء الخامس)
یہاں اگر نکاح سے مراد عَقدِ نکاح ہے تو معلوم ہوا کہ سوتیلی ماں سے نکاح حرام ہے اگرچہ باپ نے خلوت سے پہلے اسے طلاق دے دی ہو اور اگر نکاح سے مراد صحبت ہے تو معلوم ہوا کہ جس عورت سے اپنا باپ صحبت کرے خواہ نکاح کر کے یا زنا کی صورت میں یا لونڈی بنا کر بہر صورت وہ عورت بیٹے پر حرام ہے کیونکہ یہ بیٹے کی ماں کی طرح ہے۔
{مَا قَدْ سَلَفَ:جو ہو گزرا۔} یعنی جاہلیت کے زمانہ میں تم نے جو ایسے نکاح کر لئے اور اب وہ عورتیں مر بھی چکیں تم پر اس کا گناہ نہیں کیونکہ وہ گناہ قانون بننے سے پہلے تھے۔ یہاں ایک مسئلہ یاد رکھیں کہ اگر مجوسی اسلام لائے اور اس کے نکاح میں اپنی ماں یا بہن ہے تو اسے چھوڑ دینا فرض ہے لیکن اس نے زمانہ کفر میں جو نکاح کئے ہوں ، ان سے جو اولاد ہو چکی ہو وہ اولاد حلالی ہو گئی، کیونکہ کفار پر اس طرح کے شرعی احکام جاری نہیں۔
{حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ:تم پر حرام کردی گئیں تمہاری مائیں۔}نسب کی وجہ سے سات عورتیں حرام ہیں وہ یہ ہیں
(1) ماں ، اسی طرح وہ عورت جس کی طرف باپ یا ماں کے ذریعے سے نسب بنتا ہو یعنی دادیاں ونانیاں خواہ قریب کی ہوں یا دور کی سب مائیں ہیں اور اپنی والدہ کے حکم میں داخل ہیں۔ سوتیلی ماؤں کی حرمت کا ذکر پہلے ہو چکا۔ (2) بیٹی، پوتیاں اور نواسیاں کسی درجہ کی ہوں بیٹیوں میں داخل ہیں۔ (3) بہن (4) پھوپھی (5) خالہ (6) بھتیجی (7) بھانجی، اس میں بھانجیاں ، بھتیجیاں اور ان کی اولاد بھی داخل ہے خلاصہ یہ ہے کہ اپنی اولاد اور اپنے اصول حرام ہیں۔ اس کی تصریح خود اسی آیت میں آگے آرہی ہے۔
{وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ:تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا۔}رضاعی رشتے دودھ کے رشتوں کو کہتے ہیں۔ رضاعی ماؤں اور رضاعی بہن بھائیوں سے بھی نکاح حرام ہے بلکہ رضاعی بھتیجے، بھانجے، خالہ، ماموں وغیرہ سب سے نکاح حرام ہے۔ حدیثِ مبارک میں فرمایا گیا کہ جو رشتہ نسب سے حرام ہوتا ہے وہ رضاعت سے بھی حرام ہوتا ہے۔(بخاری، کتاب الشہادات، باب الشہادۃ علی الانساب۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۹۱، الحدیث: ۲۶۴۵)
{وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىٕكُمْ: اور تمہاری بیویوں کی مائیں۔} چار طرح کی عورتیں مُصاہَرت کی وجہ سے حرام ہیں اور وہ یہ ہیں (1) وہ بیوی جس سے صحبت کی گئی ہو ا س کی لڑکیاں۔ (2) بیوی کی ماں ، دادیاں ، نانیاں۔ (3) باپ داد ا وغیرہ ا صول کی بیویاں۔ (4) بیٹے پوتے وغیرہ فروع کی بیویاں۔
{وَ رَبَآىٕبُكُمْ:اور تمہاری سوتیلی بیٹیاں۔} جن بیویوں سے صحبت کر لی ہو ان کی دوسرے شوہر سے جو بیٹی ہو اس سے نکاح حرام ہے اگرچہ وہ شوہر کی پرورش میں نہ ہو کیونکہ پرورش کی قید اتفاقی ہے مگر یہ سوتیلی لڑکی صرف شوہر کیلئے حرام ہے، شوہر کی اولاد کے لئے حلال اور شوہر کیلئے بھی جب حرام ہے جبکہ بیوی سے صحبت کر لی ہواور اگر بغیر صحبت طلاق دی یا وہ فوت ہو گئی تو اس کی بیٹی حلال ہے۔
{وَ حَلَآىٕلُ اَبْنَآىٕكُمْ:تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں۔}اس سے معلوم ہوا کہ منہ بولے بیٹوں کی عورتوں کے ساتھ نکاح جائز ہے اور رضاعی بیٹے کی بیوی بھی حرام ہے کیونکہ وہ نسبی بیٹے کے حکم میں ہے اور پوتے پر پوتے بھی بیٹوں میں داخل ہیں۔
{وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ:اور دو بہنوں کو اکٹھاکرنا۔} یعنی ایک بہن نکاح میں موجود ہے اور دوسری سے نکاح کرلینا، یہ حرام ہے اور حدیث شریف میں پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی کونکاح میں جمع کرنا بھی حرام فرمایا گیا ہے۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب لا تنکح المرأۃ علی عمّتہا، ۳ / ۴۳۵، الحدیث: ۵۱۰۹)
نوٹ تفصیلی معلومات کے لئے فتاوی رضویہ جلد نمبر 11سے اور بہار شریعت حصہ 7سے’’محرمات کا بیان ‘‘پڑھئے۔
{وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ:اور شوہر والی عورتیں۔} ان عورتوں کا بیان جاری ہے جن سے نکاح حرام ہے، یہاں بتایا جا رہا ہے کہ وہ عورت جس کا شوہر ہو وہ دوسرے مرد پر اس وقت تک حرام ہے جب تک پہلے کے نکاح یا اس کی عدت میں ہو البتہ کافروں کی وہ عورتیں جن کے مسلمان مالک بن جائیں وہ ان کے لئے حلال ہیں ، اس کی صورت یہ ہے کہ میدانِ جنگ سے کفار کی عورتیں گرفتار ہوں اور ان کے شوہر دارُ الحَرْب میں ہوں تو بادشاہِ اسلام یا لشکر کامجاز امیر ان عورتوں کو مجاہدین میں تقسیم کر دے اور جو قیدی عورت جس مجاہد کے حصے میں آئے وہ اس کے لئے حلال ہے کہ ملک مختلف ہونے کی وجہ سے ان کا سابقہ نکاح ختم ہو گیا، وہ عورت اگر حاملہ ہے تو وضع حمل کے بعد ورنہ ایک ماہواری آجانے کے بعد اس سے ہم بستری کر سکتا ہے۔
جنگی قیدیوں سے متعلق اسلام کی تعلیمات:
فی زمانہ جنگی قیدیوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، ان پر جو ظلم و ستم ڈھائے جاتے ہیں ان کا تَصَوُّر تک لَرزا دینے والا ہوتا ہے۔ اسلام نے جنگی قیدیوں کے مسئلے میں ایسا بہترین حل پیش کیا کہ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی، وہ یہ کہ جنگ میں قید ہونے والے مردوں کو غلام بنا لیا جائے اور عورتوں کو لونڈیاں ، پھر انہیں بھوکا پیاسا رکھنے، طرح طرح کی اذیتیں دینے یا دن رات ان سے جبری مزدوری لینے کی بجائے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی ہدایت کی، بلکہ فدیہ لئے بغیر یا فدیہ لے کر ہی سہی انہیں چھوڑ دینے کی ترغیب بھی دی، آزاد کرنے پر ثواب کی بے شمار بشارتیں سنائیں ، جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانا لازمی قرار نہیں دیا بلکہ مُکافاتِ عمل کے طور پر صرف اجازت دی کیونکہ اس دور میں جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے کا رواج تھا جس کو اوپر بیان کردہ طریقوں کے مطابق تَدریجا ًختم کیا گیا۔
{وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ:اور ان کے علاوہ سب تمہارے لئے حلال ہیں۔} یعنی جن عورتوں سے نکاح حرام ہے ان کے علاوہ تمام عورتوں سے نکاح حلال ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ مزید کچھ عورتیں ایسی ہیں کہ جن کا ذکر مذکورہ بالا آیات میں اگرچہ نہیں مگر ان سے نکاح حرام ہے جیسے چار عورتوں کے نکاح میں ہوتے ہوئے پانچویں سے نکاح، مُشرکہ عورت سے نکاح، تین طلاقیں دینے کے بعد حلالہ سے پہلے اسی عورت سے دوبارہ نکاح، اسی طرح پھوپھی بھتیجی، خالہ بھانجی کو ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا یونہی طلاق یا وفات کی عدت میں نکاح کرنا حرام ہے البتہ ان سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام نہیں ، نکاح میں جو رکاوٹ ہے وہ ختم ہونے کے بعد ان سے نکاح ہو سکتا ہے۔
{اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ:تم اپنے مالوں کے ذریعے تلاش کرو۔} عورت سے نکاح مہر کے بدلے کیا جائے اور اس نکاح سے مقصود محض لذت نفس اور شہوت پورا کرنا نہ ہو بلکہ اولاد کا حصول، نسل کی بقا اور اپنے نفس کو حرام سے بچانا مقصود ہو۔ یہاں زانی کو تنبیہ کی جا رہی ہے کیونکہ اس کے پیشِ نظر یہ باتیں نہیں ہوتیں بلکہ اس کا مقصود صرف نفسانی خواہش کی تکمیل ہوتا ہے اور یوں وہ اپنے نطفہ ا ور مال کو ضائع کرکے دین و دنیا کے خسارے میں گرفتار ہو جاتا ہے۔
مہر کے چندضروری مسائل:
اس آیت میں مہر کا ذکر ہوا اس مناسبت سے یہاں مہر سے متعلق چند ضروری مسائل ذکر کئے جاتے ہیں :
(1)…مہر کی کم از کم مقدار دس درہم ہے، چاندی میں ا س کا وزن دو تولے ساڑھے سات ماشے ہے، اس کی جو قیمت بنتی ہو وہ مہر کی کم از کم مقدار ہے، زیادہ کی کوئی حد نہیں باہمی رضا مندی سے جتنا چاہے مقرر کیا جاسکتا ہے لیکن یہ خیال رکھیں کہ مہر اتنا مقرر کریں جتنا دے سکتے ہوں۔
(2)…مہر کا مال ہونا ضروری ہے اور جو چیز مال نہیں وہ مہر نہیں بن سکتی، مثلا ًمہر یہ ٹھہرا کہ شوہر عورت کو قرآنِ مجید یا علمِ دین پڑھا دے گا تواس صورت میں مہرِ مثل واجب ہو گا۔
(3)… نکاح میں مہر کا ذکر ہی نہ ہوا یا مہر کی نفی کر دی کہ مہر کے بغیر نکاح کیا تو نکاح ہو جائے گا اور اگر خلوتِ صحیحہ ہو گئی یا دونوں میں سے کوئی مر گیا اور نکاح کے بعد میاں بیوی میں کوئی مہر طے نہیں پایا تھا تو مہرِ مثل واجب ہے ورنہ جو طے پایا تھا وہ واجب ہے۔ مہر سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت حصہ 7کا مطالعہ کیجئے۔
{فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ: توان میں سے جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہو۔} یعنی جن عورتوں سے تم شرعی نکاح کر کے جماع وغیرہ کافائدہ حاصل کرنا چاہو تو انہیں ان کے مقرر کردہ مہر ادا کرو۔
عورت سے نفع اٹھانے کی جائز صورتیں :
یاد رہے کہ اسلام میں عورت سے نفع اٹھانے کی صرف دو صورتیں جائز ہیں جو قرآنِ پاک میں بیان کی گئی ہیں : (1) شرعی نکاح کے ذریعے۔ (2) عورت جس صورت میں لونڈی بن جائے۔ لہٰذا اس کے علاوہ ہر صورت حرام ہے۔ شروعِ اسلام میں کچھ وقت کیلئے نکاح سے کچھ ملتا جلتا معاہدہ کرکے فائدہ اٹھانے کی اجازت تھی لیکن بعد میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام فرما دیا۔ جیساکہ حضرت سَبُرَہ جُہَنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے (متعہ کی صورت میں ) نفع اٹھانے کی اجازت دی تھی اور اب اللہتعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کر دیا ہے تو جس کے پاس کوئی ایسی عورت ہو وہ اسے چھوڑ دے اور جو انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ نہ لو۔(مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعۃ وبیان انّہ ابیح ثمّ نسخ۔۔۔ الخ، ص۷۲۹، الحدیث: ۲۱(۱۴۰۶))
اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ غزوۂ خیبر کے موقع پرنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے متعہ سے منع فرما دیا۔ (ترمذی، کتاب النکاح، باب ما جاء فی نکاح المتعۃ، ۲ / ۳۶۵، الحدیث: ۱۱۲۴)
{وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا:اور تم میں سے جو کوئی قدرت نہ رکھتا ہو۔} جو شخص آزاد عورت سے نکا ح کی قدرت اور وسعت نہ رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ کسی مسلمان کی مومِنہ کنیز سے ا س کے مالک کی اجازت کے ساتھ نکاح کر لے۔ اپنی کنیز سے نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مالک کے لئے نکاح کے بغیر ہی حلال ہے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۱ / ۳۶۷)
باندی سے نکاح کرنے کے متعلق 2 شرعی مسائل:
(1)… جو شخص آزاد عورت سے نکاح کی قدرت رکھتا ہو اسے بھی مسلمان کنیز سے نکاح کرنا جائز ہے البتہ اگر آزاد عورت نکاح میں ہو تو اب باندی سے نکاح نہیں کر سکتا۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۱ / ۳۶۸)
(2)… احناف کے نزدیک کِتابِیَہ لونڈی سے نکاح بھی کر سکتا ہے جبکہ مومنہ کنیز کے ساتھ مستحب ہے۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۲۲۲)
{وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِكُمْ:اوراللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے۔} اہلِ عرب اپنے نسب پر فخر کرتے اور لونڈیوں سے نکا ح کو باعث ِعار سمجھتے تھے، ان کے اس خیال کی تردید کی گئی کہ نسب میں تم سب برابر ہو کہ سبھی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد ہو لہٰذا لونڈیوں سے نکاح کرنا باعثِ شرم نہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ تم سب ایمان میں مُشْتَرَک ہو کہ تمہارا دین اسلام ہے اور ایمان والا ہونا بڑی فضیلت کا حامل ہے بلکہ فضیلت کا دارومدار تو ایمان اور تقویٰ پر ہے اس لئے جب لونڈیوں سے نکاح کی حاجت ہو تو شرماؤ نہیں ، ان کا ایمان والا ہونا کافی ہے۔ (تفسیرکبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۴ / ۴۹، جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۳۹، ملتقطاً)
{فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ:تو اگر وہ کسی بے حیائی کا اِرْتِکاب کریں۔} نکاح کے بعد اگر لونڈی زنا کرے تو آزاد عورت کے مقابلے میں اس کی سزا آدھی ہے یعنی آزاد کنواری عورت زنا میں مُلَوَّث ہو تو اس کی سزا سو کوڑے ہے اور لونڈی کی سزا اس سے آدھی یعنی پچاس کوڑے ہے۔ لونڈی چاہے کنواری ہو یا شادی شدہ اس کی سزا پچاس کوڑے ہی ہے ،شادی شدہ لونڈی کو آزاد عورت کی طرح رَجم نہیں کیا جائے گا کیونکہ رجم میں تَنصِیف یعنی اس سزا کو آدھا کرنا ممکن نہیں۔(قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۱۰۲، الجزء الخامس)
{ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ:یہ اس شخص کے لئے مناسب ہے جسے زنا کا اندیشہ ہے۔} یعنی آزاد عورت کی بجائے باندی سے نکاح کرنا اس شخص کے لئے مناسب ہے جسے غلبۂ شہوت کی وجہ سے زنا میں پڑجانے کاڈرہو اور اگر وہ اس خوف کے باوجود صبر کرے اور پرہیز گار رہے تو یہ بہتر ہے اور جہاں تک ممکن ہو لونڈی سے نکاح نہ کرے کیونکہ کنیز سے نکاح کرنے کی صورت میں جو اولاد ہو گی وہ اس کے مالک کی غلام بنے گی اور لونڈی اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شوہر کی خدمت کے لئے بھی نہ آ سکے گی۔(بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۱۷۴)
پھر اگر صبر نہیں کر سکتا تو لونڈی سے نکاح کر لے۔ یاد رہے کہ فی زمانہ بین الاقوامی طور پر مرد کو غلام اور عورت کو لونڈی بنانے کا قانون ختم ہو چکا ہے۔
مرد کے لئے نکاح کا شرعی حکم یہ ہے کہ اعتدال کی حالت میں یعنی نہ شہوت کا زیادہ غلبہ ہو اور وہ نا مرد بھی نہ ہو، نیز مہر اور نان نفقہ دینے پر قدرت رکھتا ہو تو اس کے لئے نکاح کرنا سنتِ مؤکَّدہ ہے۔ لیکن اگر اسے زنا میں پڑنے کا اندیشہ ہے اور وہ زوجیت کے حقوق پورے کرنے پر قادر ہے تو اس کے لئے نکاح کرنا واجب ہے اور اگر اسے زنا میں پڑنے کا یقین ہو تو ا س پر نکاح کرنا فرض ہے۔ اگر اسے زوجیت کے حقوق پورے نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو اس کانکاح کرنا مکروہ اور حقوق پورے نہ کرسکنے کا یقین ہو تو اس کے لئے نکاح کرنا حرام ہے۔ (بہار شریعت، حصہ ہفتم، ۲ / ۴-۵، ملخصاً)
عورت کے لئے نکاح کا شرعی حکم یہ ہے کہ جس عورت کو اپنے نفس سے اس بات کا خوف ہو کہ غالباً وہ شوہر کی اطاعت نہ کر سکے گی اور شوہر کے واجب حقوق اس سے ادا نہ ہو سکیں گے تو اسے نکاح کرنا ممنوع وناجائز ہے، اگر کرے گی تو گناہگار ہو گی۔ اگر اسے ان چیزوں کا خوف یقینی ہو تو اسے نکاح کرنا حرام قطعی ہے۔ جس عورت کو اپنے نفس سے ایسا خوف نہ ہو اسے اگر نکاح کی شدید حاجت ہے کہ نکاح کے بغیر مَعَاذَ اللہ گناہ میں مبتلاء ہو جانے کا ظنِ غالب ہے تو ایسی عورت کو نکاح کرنا واجب ہے اور اگر نکاح کے بغیر گناہ میں پڑنے کا یقین کلی ہو تو اس پر نکاح کرنا فرض ہے۔ اگر حاجت کی حالت اعتدال پر ہو یعنی نہ نکاح سے بالکل بے پروائی ہو، نہ اس شدت کا شوق ہو کہ نکاح کے بغیر گناہ میں پڑنے کا ظنِ غالب ہو تو ایسی حالت میں اس کے لئے نکاح کرنا سنت ہے جبکہ وہ اپنے آپ پر اس بات کا کافی اطمینان رکھتی ہو کہ ا س سے شوہر کی اطاعت ترک نہ ہوگی اور وہ شوہر کے حقوق اصلاً ضائع نہ کرے گی۔ (فتاوی رضویہ، ۱۲ / ۲۹۱-۲۹۳، ملخصاً)
{وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ:اور تمہیں تم سے پہلے لوگوں کے طریقے بتادے۔} اس سے مراد یہ ہے کہ ما قبل آیات میں تمہارے لئے جو عورتیں حرام یا حلال ہیں بیان ہوئیں یہی عورتیں پچھلی شریعتوں میں بھی اسی طرح حرام و حلال تھیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ تمہارے لئے جس کام میں بہتری ہے اللہ تعالیٰ وہ بیان کر دے جیسا کہ پہلے لوگوں سے بیان کیا تھا۔ (جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۴۱، خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۳۶۹، ملتقطاً) اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جو شرعی احکام قرآن یا حدیث میں تردید کے بغیر منقول ہوئے وہ ہمارے لئے بھی لائق عمل ہیں اور جوممانعت کے ساتھ نقل ہوئے ان پر ہمیں عمل جائز نہیں۔
{وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ:اور جو لوگ نفسانی خواہشات کی پیروی کررہے ہیں۔} شانِ نزول: یہود و نصاریٰ اور مجوسی بھائی اور بہن کی بیٹیوں سے نکاح حلال سمجھتے تھے جب اللہ تعالیٰ نے ان سے نکاح کرنے کوحرام فرمایا تو وہ مسلمانوں سے کہنے لگے کہ جس طرح آپ خالہ اور پھوپھی کی بیٹی سے نکاح جائز سمجھتے ہو جبکہ خالہ اور پھوپھی تم پر حرام ہے اسی طرح تم بھائی اور بہن کی بیٹیوں سے بھی نکاح کرو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح زنا میں پڑ جاؤ۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۲۲۳، تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۵۴-۵۵، جلالین، النساء، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۷۵، ملتقطاً)
{یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْ:اللہ چاہتا ہے کہ تم پرآسانی کرے۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے بندوں پر آسانی چاہتا ہے اسی لئے انہیں نرم احکام عطا فرماتا ہے اور کئی جگہ رخصتیں عطا فرماتا ہے، لوگوں کی طاقت کے مطابق ہی انہیں حکم دیتا ہے اور ان کے فطری تقاضوں کی رعایت فرماتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان فطری طور پر کمزور پیدا کیا گیا ہے اوراسی فطری کمزوری کا یہ نتیجہ ہے کہ مرد عورت کی طرف بڑی جلدی مائل ہو جاتا ہے، اس کے لئے عورت اور شہوت سے صبر دشوار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرماتے ہوئے مردوں کے لئے عورتوں سے شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے نفع اٹھانے کی اجازت دی اور صرف ان عورتوں سے منع کیا جن سے نفع اٹھانے میں فسادِ عظیم اور بڑے نقصان کا خدشہ تھا۔ اسی لئے مُتقی، پرہیزگار اور گناہوں کا تقاضا اور موقع موجود ہونے کے باوجود گناہوں سے بچ رہنے والے اللہ عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں بڑے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کیلئے اپنی کمزوری کا مقابلہ کیا اور اپنی خواہشات کو پس پشت ڈالا۔ ترغیب کیلئے ایک ایسے ہی متقی بزرگ کا واقعہ پیشِ خدمت ہے:
مشک کی خوشبو میں بسے ہوئے بزرگ:
بصرہ میں ایک بزرگ مِسکی یعنی ’’مشک کی خوشبو میں بسا ہوا ‘‘ کے نام سے مشہور تھے، کسی نے بَاِ صْرار اس خوشبو سے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا ’’ میں کوئی خوشبو نہیں لگاتا، میرا قصہ بڑا عجیب ہے، میں بغدادِ معلیٰ کا رہنے والا ہوں ، جوانی میں بہت حسین وجمیل تھا اور صاحبِ شرم و حیاء بھی۔ ایک کپڑے والے کی دوکان پر میں نے ملازمت اختیار کی، ایک روز ایک بڑھیا آئی اور اس نے کچھ قیمتی کپڑے نکلوائے اور دوکاندار سے کہا: میں ان کپڑوں کو گھر لے جانا چاہتی ہوں ، اس نوجوان کو میرے ساتھ بھیج دیں ، جوکپڑے پسند آئیں گے وہ رکھ لیں گے پھر ان کی قیمت اور بقیہ کپڑے اس نوجوان کے ہاتھ بھیج دیں گے۔ چنانچہ مالک ِدکان کے کہنے پر میں بڑھیا کے ساتھ ہو لیا۔ وہ مجھے ایک عالیشان کوٹھی پر لے آئی اور مجھے ایک کمرے میں بٹھا دیا۔ کچھ دیر بعد ایک نوجوان عورت کمرے میں داخل ہوئی اور اس نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا، پھر میرے قریب بیٹھ گئی، میں گھبرا کر نگاہیں نیچی کئے فورا ًوہاں سے ہٹ گیا مگر اس پر شہوت سوار تھی وہ میرے پیچھے پڑ گئی، میں نے بہت کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر ،وہ ہمیں دیکھ رہا ہے لیکن وہ میرے ساتھ منہ کالا کرنے پر مُصِرّ تھی۔ میرے ذہن میں اس گناہ سے بچنے کی ایک تجویز آئی تو میں نے اس سے کہا: مجھے بیتُ الْخَلاء جانے دو، اس نے اجازت دے دی۔ میں نے بیت الخلاء میں جا کر دل مضبوط کر کے وہاں کی نجاست اپنے ہاتھ منہ اور کپڑوں پر مل لی، اب جوں ہی باہر آیا تو میری عاشقہ گھبرا کر بھاگی اور کوٹھی میں ’’پاگل، پاگل‘‘ کا شور اٹھا۔ میں نے وہاں سے بھاگ کر ایک باغ میں پناہ لی، غسل کیا اور کپڑے پاک کر کے وہاں سے چل دیا۔ رات جب میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ کوئی آیا ہے اور میرے چہرے اور لباس پر اپنا ہاتھ پھیر رہا ہے اور کہہ رہا ہے: مجھے جانتے ہو میں کون ہوں ؟سنو! میں جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام ہوں۔ جب میری آنکھ کھلی تو میرے سارے بدن اور لباس میں خوشبو آ رہی تھی جو آج تک قائم ہے اور یہ سب حضرت سیدنا جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کے ہاتھ کی برکت ہے۔(روض الریاحین،الحکایۃ السابعۃ عشرۃ بعد الاربع مائۃ، ص۳۳۴-۳۳۵)
{لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ:باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔} نکاح کے ذریعے نفس میں تصرف کی وضاحت کے بعد اب مال میں تصرف کا شرعی طریقہ بیان کیا جا رہا ہے، اس آیت میں باطل طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۱ / ۳۷۰)
اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبا لینا، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور پرچیاں بھیج کر ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
حرام مال کمانے کی مذمت:
حرام کمانا اور کھانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے 4 احادیث درج ذیل ہیں ،
(1)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُ س میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ، ۲ / ۳۳، الحدیث: ۳۶۷۲)
(2)…حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، ۲ / ۸، الجزء الرابع، الحدیث: ۹۲۵۷)
(3)… تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ارشاد فرمایا: ’’اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہترہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۵ / ۳۴، الحدیث: ۶۴۹۵)
(4)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، ص۵۰۶، الحدیث: ۶۵(۱۰۱۵))
{اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ:مگریہ کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو۔} یعنی باہمی رضامندی سے جو تجارت کرو وہ تمہارے لئے حلال ہے۔ باہمی رضامندی کی قید سے معلوم ہوا کہ خرید و فروخت کی وہ تمام صورتیں جن میں فریقین کی رضامندی نہ ہو درست نہیں جیسے اکثرضبط شدہ چیزوں کی نیلامی خریدنا کہ اس میں مالک راضی نہیں ہوتا یونہی کسی کی دکان ،مکان زمین یا جائیداد پر جبری قبضہ کر لینا حرام ہے۔ یاد رہے کہ مال کا مالک بننے کے تجارت کے علاوہ اور بھی بہت سے جائز اَسباب ہیں جیسے تحفے کی صورت میں ، وصیت یا وراثت میں مال حاصل ہو تو یہ بھی جائز مال ہے ۔ تجارت کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ مالک بننے کی اختیاری صورت ہے۔
تجارت کے فضائلـ:
احادیث میں تجارت کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 4 احادیث درج ذیل ہیں:
(1)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’سچا اور امانت دار تاجر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء فی التجار وتسمیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایاہم، ۳ / ۵، الحدیث: ۱۲۱۲)
(2)… حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پاکیزہ کمائی ان تاجروں کی ہے جو گفتگو کے وقت جھوٹ نہیں بولتے، وعدہ کریں تو خلاف ورزی نہیں کرتے، جب ان کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت نہیں کرتے، جب کوئی چیز خریدیں تو اس کی برائی بیان نہیں کرتے اور جب کچھ بیچیں تو ا س کی تعریف نہیں کرتے، جب ان پر کسی کا آتا ہو تو دینے میں پس و پیش نہیں کرتے اور جب انہوں نے کسی سے لینا ہو تو اس پر تنگی نہیں کرتے۔(در منثور، النساء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۴۹۵)
(3)… حضرت رفاعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن تاجر فاسق اٹھائے جائیں گے سوا ئے اس تاجر کے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرے ،بھلائی کرے اور سچ بولے۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء فی التجار وتسمیۃ النبیصلی اللہ علیہ وسلم ایاہم، ۳ / ۵، الحدیث: ۱۲۱۴)
(4)… حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا جس کے پاس اس کی روح قبض کرنے فرشتہ آیا تو اس سے کہا گیا: کیا تو نے کوئی نیکی کی ہے؟ وہ بولا: میں نہیں جانتا ۔اس سے کہا گیا :غور تو کر۔ کہنے لگا: اس کے سوا کچھ اور نہیں جانتا کہ میں دنیا میں لوگوں سے تجارت کرتا تھا اور ان سے (اپنی رقم کا) تقاضا کرتا تو امیر کو مہلت دیتا تھا اور غریب کو معاف کر دیتا تھا، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے فرشتو! اس سے درگزر کرو ۔(مسند امام احمد ،حدیث حذیفۃ بن الیمان، ۹ / ۹۸، الحدیث: ۲۳۴۱۳، مسلم، کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب فضل انظار المعسر، ص۸۴۳، الحدیث: ۲۶(۱۵۶۰))
تجارت کے آداب:
اس سے پہلے تجارت کے فضائل بیان کئے گئے اور ذیلی سطور میں تجارت کے 14 آداب بیان کئے گئے ہیں جن میں سے اکثر آداب ایسے ہیں جن پر عمل کرنا ہر تاجر کے لئے شرعا ًلازم ہے۔
(1)…تاجر کو چاہئے کہ وہ روزانہ صبح کے وقت اچھے ارادے یعنی نیتیں دل میں تازہ کرے کہ بازار اس لئے جاتا ہوں تاکہ حلال کمائی سے اپنے اہل وعیال کی شِکم پروری کروں اور وہ مخلوق سے بے نیاز ہو جائیں اور مجھے اتنی فراغت مل جائے کہ میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتا رہوں اورراہِ آخرت پر گامزن رہوں۔ نیز یہ بھی نیت کرے کہ میں مخلوق کے ساتھ شفقت، خلوص اور امانت داری کروں گا، نیکی کا حکم دوں گا، برائی سے منع کروں گا اور خیانت کرنے والے سے باز پُرس کروں گا۔
(2)…تجارت کرنے والا جعلی اور اصلی نوٹوں کو پہچاننے کا طریقہ سیکھے اور نہ خود جعلی نوٹ لے نہ کسی اور کو دے تاکہ مسلمانوں کا حق ضائع نہ ہو ۔
(3)…اگر کوئی جعلی نوٹ دے جائے (اور دینے والے کا پتا نہ چلے) تو وہ کسی اور کو نہیں دینا چاہئے (اور اگر دینے والے کاپتا چل جائے تو اسے بھی وہ جعلی نوٹ واپس نہیں دینا چاہئے) بلکہ پھاڑ کے پھینک دے تاکہ وہ کسی اور کو دھوکہ نہ دے سکے۔
(4)…اپنے مال کی حد سے زیادہ تعریف نہ کرے کہ یہ جھوٹ اور فریب ہے اور اگر خریدار ا س مال کی صفات سے پہلے ہی آگاہ ہو تو اس کی جائز اور صحیح تعریف بھی نہ کرے کہ یہ فضول ہے۔
(5)… عیب دار مال ہی نہ خریدے اگر خریدے تو دل میں یہ عہد کرے کہ میں خریدار کو تمام عیب بتا دوں گا اور اگر کسی نے مجھے دھوکہ دیا تو اس نقصان کو اپنی ذات تک محدود رکھوں گا دوسروں پر نہ ڈالوں گا کیونکہ جب یہ خود دھوکہ باز پر لعنت کر رہا ہے تو اپنی ذات کو دوسروں کی لعنت میں شامل نہیں کرنا چاہئے۔
(6)…اگر اپنے پاس موجود صحیح مال میں کوئی عیب پیدا ہو گیا تو اسے گاہک سے نہ چھپائے ورنہ ظالم اور گناہگار ہو گا۔
(7)…وزن کرنے اور ناپنے میں فریب نہ کرے بلکہ پورا تولے اور پورا ناپے۔
(8)…اصل قیمت کو چھپا کر کسی آدمی کو قیمت میں دھوکہ نہیں دینا چاہئے۔
(9)…بہت زیادہ نفع نہ لے اگرچہ خریدار کسی مجبوری کی وجہ سے اس زیادتی پر راضی ہو۔
(10)… محتاجوں کا مال زیادہ قیمت سے خریدے تاکہ انہیں بھی مسرت نصیب ہو جیسے بیوہ کا سُوت اور وہ پھل جو فقراء کے ہاتھ سے واپس آیا ہو کیونکہ اس طرح کی چشم پوشی صدقہ سے بھی زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
(11)…قرض خواہ کے تقاضے سے پہلے اس کا قرض ادا کر دے اور اسے اپنے پاس بلا کر دینے کی بجائے اس کے پاس جا کر دے۔
(12)…جس شخص سے معاملہ کرے ،اگر وہ معاملہ کے بعد پریشان ہو تو ا س سے معاملہ فسخ کر دے ۔
(13)…دنیا کا بازار اسے آخرت کے بازار سے نہ روکے اور آخرت کا بازار مساجد ہیں۔
(14)…بازار میں زیادہ دیر رہنے کی کوشش نہ کرے مثلا ًسب سے پہلے جائے اور سب کے بعد آئے۔(کیمیائے سعادت، رکن دوم در معاملات، اصل سوم آداب کسب، ۱ / ۳۲۶-۳۴۰، ملتقطاً)
{وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ:اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔} یعنی ایسے کام کر کے جو دنیا و آخرت میں ہلاکت کا باعث ہوں اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۱ / ۳۷۰)
خود کو ہلاک کرنے کی صورتیں :
خود کو ہلاک کرنے کی مختلف صورتیں ہیں ، اور ان میں سے 4 صورتیں درج ذیل ہیں :
(1)… مسلمانوں کا ایک دوسرے کو قتل کرنا خود کو ہلاک کرنا ہے کیونکہ احادیث میں مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند فرمایا گیا ہے، جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تم مسلمانوں کو دیکھو گے کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کرنے، دوستی رکھنے اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی مانند ہوں گے چنانچہ جسم کے جب کسی بھی حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم جاگنے اور بخار وغیرہ میں اس کا شریک ہوتا ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الناس والبہائم، ۴ / ۱۰۳، الحدیث: ۶۰۱۱)
حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ مسلمان (باہم) ایک شخص کی طرح ہیں ، اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو ا س کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے ۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم وتعاضدہم، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۷(۲۵۸۶))
جب مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو قتل کرنا ایسا ہے جیسے ا س نے خود کو قتل کیا۔
(2)…ایسا کام کرنا جس کی سز امیں اسے قتل کر دیا جائے جیسے کسی مسلمان کو قتل کرنا، شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرنا یامُرْتَدْہونا بھی خود کو ہلاک کرنے کی صورتیں ہیں۔ یاد رہے کہ زنا کرنا اور کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گنا ہ ہے، زنا کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(بنی اسرائیل:۳۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
اور کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والے کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(النساء:۹۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گااور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اورمُرْتَدْ ہونے والوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(بقرہ:۲۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے پھر کافر ہی مرجائے تو ان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اور وہ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
(3)… خود کو ہلاک کرنے کی تیسری صورت خود کشی کرنا ہے۔ خود کشی بھی حرام ہے ۔حدیث شریف میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ جس نے اپنا گلا گھونٹا تو وہ جہنم کی آگ میں اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جس نے خود کو نیزہ مارا وہ جہنم کی آگ میں خود کو نیزہ مارتا رہے گا۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی قاتل النفس، ۴ / ۴۶۰، الحدیث: ۱۳۶۵)
ان ہی سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جو پہاڑ سے گر کر خود کشی کرے گا وہ نارِ دوزخ میں ہمیشہ گرتا رہے گا اور جو شخص زہر کھا کر خود کشی کرے گا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ زہر کھاتا رہے گا۔ جس نے لوہے کے ہتھیار سے خود کشی کی تو دوزخ کی آگ میں وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ اس سے اپنے آپ کو ہمیشہ زخمی کرتا رہے گا ۔(بخاری، کتاب الطب، باب شرب السمّ والدواء بہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۳، الحدیث: ۵۷۷۸)
(4)…ایسا کام کرناجس کے نتیجے میں کام کرنے والا دنیا یا آخرت میں ہلاکت میں پڑجائے جیسے بھوک ہڑتال کرنا یا باطل طریقے سے مال کھانا وغیرہ۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مجھے غزوۂ ذاتُ السلاسل کے وقت ایک سرد رات میں احتلام ہو گیا، مجھے غسل کرنے کی صورت میں ( سردی سے) ہلاک ہونے کا خوف لاحق ہوا تو میں نے تیمم کر لیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ لی۔ انہوں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ اے عمرو! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، تم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ا س حال میں نماز پڑھ لی کہ تم جنبی تھے۔ میں نے غسل نہ کرنے کا عذر بیان کیا اور عرض کی :میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا ہے:
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(النساء:۲۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔
یہ سن کر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکرا دئیے اور کچھ نہ فرمایا۔(ابو داؤد، کتاب الطہارۃ، باب اذا خاف الجنب البرد۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۵۳، الحدیث: ۳۳۴)
{وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا:اور جو ظلم و زیادتی سے ایسا کرے گا ۔} یہاں ظلم و زیادتی کی قید اس لئے لگائی کہ جن صورتوں میں مومن کا قتل جائز ہے اس صورت میں قتل کرنا جرم نہیں جیسےمُرْتَد کو سزا میں یا قاتل کو قِصاص میں یا شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے میں یا ڈاکو کو مقابلے یا سزا میں یا باغیوں کو لڑائی میں قتل کرنا یہ سب حکومت کیلئے جائز ہے بلکہ حکومت کو اس کا حکم ہے۔ قتل کے بارے میں مزید تفصیل سورہ مائدہ کی متعدد آیات کے تحت آئے گی۔
{اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ:اگر کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو ۔} اس سے پہلی آیات میں بعض کبیرہ گناہ کرنے پر وعید بیان کی گئی اور اس آیت میں کبیرہ گناہوں سے بچنے پر (صغیرہ گناہ بخشنے اور عزت کی جگہ داخل کرنے کا) وعدہ ذکر کیا گیا ہے۔ (البحر المحیط، النساء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۴۳)
کبیرہ گناہ کی تعریف اور تعداد:
کبیرہ گناہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ گناہ جس کا مُرْتَکِب قرآن وسنت میں بیان کی گئی کسی خاص سخت وعید کا مستحق ہو۔(الزواجر، مقدمۃ فی تعریف الکبیرۃ، ۱ / ۱۲)
کبیرہ گناہوں کی تعداد مختلف بیان کی گئی ہے چنانچہ 7، 10، 17، 40 اور 700 تک بیان کی گئی ہے۔
گناہوں سے متعلق3 احادیث:
(1)… حضرت ابو ثعلبہ خُشَنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کئے ہیں لہٰذا تم انہیں ہرگز ضائع نہ کرو، کچھ چیزیں حرام کی ہیں انہیں ہرگز ہلکا نہ جانو، کچھ حدیں قائم کی ہیں تم ہرگزان سے تجاوز نہ کرو، اور اس نے تم پر رحمت فرماتے ہوئے جان بوجھ کر کچھ چیزوں کے متعلق کچھ نہیں فرمایاتوان کی جستجونہ کرو۔(دار قطنی، کتاب الرضاع، ۴ / ۲۱۷، الحدیث: ۴۳۵۰)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے، جب وہ اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور توبہ واستغفار کر لیتا ہے تو ا س کادل صاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ پھر گناہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بڑھتا ہے یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ویل للمطففین، ۵ / ۲۲۰، الحدیث: ۳۳۴۵)
(3)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’اے گناہ گار! تُو گناہ کے انجامِ بد سے کیوں بے خوف ہے؟ حالانکہ گناہ کی طلب میں رہنا گناہ کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے، تیرا دائیں ، بائیں جانب کے فرشتوں سے حیا نہ کرنا اور گناہ پرقائم رہنا بھی بہت بڑا گناہ ہے یعنی توبہ کئے بغیر تیرا گناہ پر قائم رہنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے، تیرا گناہ کرلینے پر خوش ہونا اور قہقہہ لگانا اس سے بھی بڑا گناہ ہے حالانکہ تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ کیا سلوک فرمانے والا ہے، اور تیرا گناہ میں ناکامی پر غمگین ہونا اس سے بھی بڑاگناہ ہے، گناہ کرتے ہوئے تیز ہوا سے دروازے کا پردہ اٹھ جائے تو تو ڈر جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی اس نظر سے نہیں ڈرتا جو وہ تجھ پر رکھتا ہے تیرا یہ عمل اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔(الزواجر، مقدمۃ فی تعریف الکبیرۃ، ۱ / ۲۷)
کبیرہ گناہوں کے بارے میں مشہور حدیث:
بڑے بڑے کبیرہ گناہوں کے بارے میں مشہور حدیث یہ ہے: حضرت عمرو بن حزم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عالیشان ہے :’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑے گناہ یہ ہوں گے: (1) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ شرک کرنا۔ (2) مسلمان کو ناحق قتل کرنا۔ (3) جنگ کے دن راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد سے فرار ہونا۔ (4) والدین کی نافرمانی کرنا۔ (5) پاکدامن عورتوں پر تہمت لگا نا۔ (6) جادو سیکھنا۔ (7) سود کھانا اور (8) یتیم کا مال کھانا۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الزکاۃ، باب کیف فرض الصدقۃ، ۴ / ۱۴۹، الحدیث: ۷۲۵۵)
چالیس گناہوں کی فہرست:
یہاں مسلمانوں کے فائدے کیلئے ہم چالیس گناہوں کی ایک فہرست بیان کرتے ہیں جن میں اکثر کبیرہ ہیں تاکہ کم از کم یہ تو علم ہو کہ یہ گناہ ہیں اور ہمیں ان سے بچنا ہے۔ (1)اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک ٹھہرانا۔ (2) ریاکاری۔ (3) کینہ۔ (4) حسد۔ (5) تکبر۔ (6) اور خود پسندی میں مبتلا ہونا۔ (7) تکبر کی وجہ سے مخلوق کو حقیر جاننا۔ (8) بد گمانی کرنا۔ (9) دھوکہ دینا۔ (10) لالچ۔ (11) حرص۔ (12) تنگدستی کی وجہ سے فقراء کا مذاق اڑانا۔ (13) تقدیر پر ناراض ہونا۔ (14) گناہ پر خوش ہونا۔ (15) گناہ پر اصرار کرنا۔ (16) نیکی کرنے پر تعریف کا طلبگار ہونا۔ (17) حیض والی عورت سے صحبت کرنا۔ (18) جان بوجھ کر نماز چھوڑ دینا۔ (19) صف کو سیدھا نہ کرنا۔ (20) نماز میں امام سے سبقت کرنا۔ (21) زکٰوۃ ادا نہ کرنا۔ (22) رمضان کا کوئی روزہ چھوڑ دینا۔ (23) قدرت کے باوجود حج نہ کرنا۔ (24) ریشمی لباس پہننا۔ (25) مرد و عورت کا ایک دوسرے سے مشابہت اختیار کرنا۔ (26) عورتوں کا باریک لباس پہننا۔ (27) اترا کر چلنا۔ (28) مصیبت کے وقت چہرہ نوچنا، تھپڑ مارنا یا گریبان چاک کرنا۔ (29) مقروض کو بلا وجہ تنگ کرنا۔ (30) سود لینا دینا۔ (31) حرام ذرائع سے روزی کمانا۔ (32) ذخیرہ اندوزی۔ (33) شراب بنانا، پینا، بیچنا۔ (34) ناپ تول میں کمی کرنا۔ (35) یتیم کا مال کھانا۔ (36) گناہ کے کام میں مال خرچ کرنا۔ (37) مشترکہ کاروبار میں ایک شریک کا دوسرے سے خیانت کرنا۔ (38) غیر کے مال پر ظلماً قابض ہو جانا۔ (39) اجرت دینے میں تاخیر کرنا۔ (40) اور امانت میں خیانت کرنا۔ یہ چندباطنی اور ظاہری گناہ ذکر کئے ہیں ، ان سب گناہوں کی معلومات حاصل کرنا اور ان کے احکام سیکھنا ضروری ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ان گناہوں کی تعریفیں تک یاد نہیں کہ یہ ہوتے کیا ہیں؟ ([1])
{نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ: ہم تم سے دوسرے گناہ مٹا دیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو گے اور اس کے ساتھ دیگر عبادات بجالاتے رہو گے تو ہم تمہارے دوسرے صغیرہ گناہوں کو اپنے فضل سے معاف فرما دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ یعنی جنت میں داخل کریں گے۔ یاد رہے کہ یہ معاملہ بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مَشِیَّت اور مرضی پر ہے۔ یہ بیان صغیرہ گناہوں کے متعلق ہے، کبیرہ گناہ توبہ ہی سے معاف ہوتے ہیں ، البتہ حجِ مقبول پر بھی یہ بشارت ہے۔ اس کی مزید تحقیق کیلئے فتاویٰ رضویہ شریف کی چوبیسویں جلد میں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی نہایت تحقیقی کتاب ’’اَعْجَبُ الْاِمْدَاد فِیْ مُکَفِّرَاتِ حُقُوْقِ الْعِبَاد‘‘(بندوں کے حقوق کے معاف کروانے کے طریقے) کا مطالعہ فرمائیں۔([2])
1…کبیرہ گناہوں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’جہنم میں لے جانے والے اعمال ‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا بہت مفید ہے۔
[2]…اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی یہ کتاب تسہیل وتخریج کے ساتھ بنام’’حقوق العباد کیسے معاف ہوں؟‘‘مکتبۃ المدینہ نے بھی شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے، وہاں سے خرید کر اس کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ:اور ا س کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے بڑائی دی۔} جب ایک انسان دوسرے کے پاس کوئی ایسی نعمت دیکھتا ہے جو اس کے پا س نہیں تو ا س کا دل تَشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے ایسی صورت میں اس کی حالت دو طرح کی ہوتی ہے(1) وہ انسان یہ تمنا کرتا ہے کہ یہ نعمت دوسرے سے چھن جائے اور مجھے حاصل ہو جائے۔ یہ حسد ہے اور حسد مذموم اور حرام ہے۔ (2) دوسرے سے نعمت چھن جانے کی تمنا نہ ہو بلکہ یہ آرزو ہو کہ ا س جیسی مجھے بھی مل جائے، اسے غبطہ کہتے ہیں یہ مذموم نہیں۔ (تفسیرکبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۶۵)
لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جس بندے کو دین یا دنیا کی جِہت سے جو نعمت عطا کی اسے اس پر راضی رہنا چاہئے۔ شانِ نزول: جب آیتِ میراث میں ’’لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘‘والا حصہ نازل ہوا اور میت کے ترکہ میں مرد کا حصہ عورت سے دگنا مقرر کیا گیا تو مردوں نے کہا کہ ہمیں اُمید ہے کہ آخرت میں نیکیوں کا ثواب بھی ہمیں عورتوں سے دگنا ملے گا اور عورتوں نے کہا کہ ہمیں اُمید ہے کہ گناہ کا عذاب ہمیں مردوں سے آدھا ہوگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اِس میں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس کو جو فضیلت دی وہ عین حکمت ہے بندے کو چاہئے کہ وہ اُس کی قضا پر راضی رہے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۳۲، ۱ / ۳۷۲)
دل کے صبر و قرار کا نسخہ:
دل کے صبر و قرار کا نسخہ ہی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا پر راضی رہنا ہے ورنہ دنیا میں کوئی شخص کسی نعمت کی انتہاء کو نہیں پہنچا ہوا اور اگر بالفرض کوئی پہنچا بھی ہو تو کسی دوسری نعمت میں ضرور کم تر ہوگا تو اگر دل کو انہی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز بنا کر رکھا تو ہزاروں نعمتوں کا مالک ہوکر بھی دل کو قرار نہیں مل سکتا، جیسے ایک آدمی ایک ارب روپے کا مالک ہے لیکن خوبصورت نہیں تو اگر وہ خوبصورتی کی تمنا کرتا رہے گا تو جینا دوبھر ہوجائے گا اور اگر ایک آدمی خوبصورت ہے لیکن جیب میں پیسہ نہیں اور وہ پیسے کو روتا رہے گا تو بھی بے قرار رہے گا اور جس کے پاس پیسہ اور خوبصورتی کچھ نہ ہو لیکن وہ کہے کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّکی رضا پر راضی ہوں اور پھر وہ صبر کرکے آخرت کے ثواب کو پیشِ نظر رکھے تو یقینا ایسا آدمی دل کا سکون پالے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اگر ابنِ آدم کے پا س مال کی دو وادیاں بھی ہوں تو وہ یہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس تیسری وادی بھی ہو اور اس کاپیٹ تو مٹی ہی بھر سکتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا جو توبہ کرے۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب ما یتقی من فتنۃ المال، ۴ / ۲۲۸، الحدیث: ۶۴۳۶)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: تم اپنے سے نیچے والے کو دیکھو اور جو تم سے اوپر ہو اسے نہ دیکھو ،یہ اس سے بہتر ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی اپنے اوپر نعمت کو حقیر جانو۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۴، الحدیث: ۹(۲۹۶۳))
{لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْا: مردوں کے لئے ان کی کمائی سے حصہ ہے۔} میاں بیوی میں سے ہر ایک کو اس کے اپنے نیک اعمال کی جزا ملے گی، دونوں کا نیک اور پرہیز گار ہونا انہیں اعمال سے بے نیاز نہ کرے گا۔
شانِ نزول : اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہانے فرمایا کہ ہم بھی اگر مرد ہوتے تو جہاد کرتے اور مردوں کی طرح جان فدا کرنے کا ثوابِ عظیم پاتے۔ (جلالین، النساء، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۲۷)
اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اِنہیں تسکین دی گئی کہ مرد جہاد سے ثواب حاصل کرسکتے ہیں تو عورتیں شوہروں کی فرمانبرداری اور پاکدامنی سے ثواب حاصل کرسکتی ہیں۔
{وَ سْــٴَـلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖ:اور اللہ سے اس کا فضل مانگو۔} سُبْحَانَ اللہ، دلوں کے قرار کا کتنا پیارا بیان فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اس کا فضل مانگو کہ حقیقت میں سب سے بڑی چیز اللہ کریم کا فضل و کرم ہے۔ اعمال میں کسی کو دوسرے سے لاکھ گنا زیادہ بھی ثواب ملتا ہو لیکن اس کے باوجود وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل ہی کا محتاج ہے کیونکہ اس کا جنت میں داخلہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل ہی سے ہوگا ۔ بغیر فضل کے اپنے عمل سے کوئی جنت میں نہیں جائے گا لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اس کا فضل مانگنا چاہیے۔
{وَ الَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُكُمْ:اور جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے۔} اس سے عَقْدِمُوَالات مراد ہے اس کی صورت یہ ہے کہ ایسا شخص جس کا نسب مجہول ہو وہ دوسرے سے یہ کہے کہ تو میرا مولیٰ ہے میں مرجاؤں تو تو میرا وارث ہو گا اور میں کوئی جرم کروں تو تجھے دِیَت دینی ہوگی۔ دوسرا کہے: میں نے قبول کیا۔ اِس صورت میں یہ عقد صحیح ہوجاتا ہے اور قبول کرنے والا وارث بن جاتا ہے اور دِیَت بھی اُس پر آجاتی ہے اور دوسرا بھی اِسی کی طرح سے مجہولُ النَّسب ہو اور ایسا ہی کہے اور یہ بھی قبول کرلے تو اُن میں سے ہر ایک دوسرے کا وارث اور اُس کی دِیَت کا ذمہ دار ہوگا۔ یہ عقد ثابت ہے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اِس کے قائل ہیں۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۲۲۵)
{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ:مرد عورتوں پرنگہبان ہیں۔} عورت کی ضروریات، اس کی حفاظت ،اسے ادب سکھانے اور دیگر کئی امور میں مرد کو عورت پر تَسَلُّط حاصل ہے گویا کہ عورت رعایا اور مرد بادشاہ، ا س لئے عورت پر مرد کی اطاعت لازم ہے ،اس سے ایک بات یہ واضح ہوئی کہ میاں بیوی کے حقوق ایک جیسے نہیں بلکہ مرد کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں اور ایسا ہونا عورت کے ساتھ نا انصافی یا ظلم نہیں بلکہ عین انصاف اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے ۔شانِ نزول: حضرت سعد بن ربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی بیوی حبیبہ کو کسی خطا پر ایک طمانچہ مارا جس سے ان کے چہرے پر نشان پڑ گیا، یہ اپنے والد کے ساتھ حضورسیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اپنے شوہر کی شکایت کرنے حاضر ہوئیں۔ سرور ِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قصاص لینے کا حکم فرمایا، تب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے قصاص لینے سے منع فرما دیا۔ (بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۳۴، ۱ / ۳۳۵)
لیکن یہ یاد رہے کہ عورت کو ایسا مارنا ناجائز ہے۔
{بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ:اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی۔} مرد کو عورت پر جو حکمرانی عطا ہوئی اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے۔
مرد کے عورت سے افضل ہونے کی وجوہات:
مرد کے عورت سے افضل ہونے کی وجوہات کثیر ہیں ، ان سب کا حاصل دو چیزیں ہیں علم اور قدرت۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرد عقل اور علم میں عورت سے فائق ہوتے ہیں ، اگرچہ بعض جگہ عورتیں بڑھ جاتی ہیں لیکن مجموعی طور پر ابھی بھی پوری دنیا پر نگاہ ڈالیں تو عقل کے امور مردوں ہی کے سپرد ہوتے ہیں۔ یونہی مشکل ترین اعمال سرانجام دینے پر انہیں قدرت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ مرد عقل و دانائی اور قوت میں عورتوں سے فَوقِیّت رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ جتنے بھی انبیاء، خُلفاء اور ائمہ ہوئے سب مرد ہی تھے۔ گھڑ سواری، تیر اندازی اور جہاد مرد کرتے ہیں۔ امامت ِ کُبریٰ یعنی حکومت وسلطنت اور امامت ِصغریٰ یعنی نماز کی امامت یونہی اذان، خطبہ ، حدود و قصاص میں گواہی بالاتفاق مردوں کے ذمہ ہے۔ نکاح، طلاق، رجوع اور بیک وقت ایک سے زائد شادیاں کرنے کا حق مرد کے پاس ہے اور نسب مردوں ہی کی طرف منسوب ہوتے ہیں ، یہ سب قرائن مرد کے عورت سے افضل ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ مردوں کی عورتوں پر حکمرانی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مرد عورتوں پر مہر اور نان نفقہ کی صورت میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ا س لئے ان پر حاکم ہیں۔ خیال رہے کہ مجموعی طور پر جنسِ مرد جنسِ عورت سے افضل ہے نہ کہ ہر مرد ہر عورت سے افضل ۔بعض عورتیں علم ودانائی میں کئی مردوں سے زیادہ ہیں جیسے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا، ہم جیسے لاکھوں مرد اُن کے نعلین کی خاک کے برابر بھی نہیں۔ یونہی صحابیہ عورتیں غیر صحابی بڑے بڑے بزرگوں سے افضل ہیں۔
{فَالصّٰلِحٰتُ:نیک عورتیں۔} نیک اور پارسا عورتوں کے اوصاف بیان فرمائے جا رہے ہیں کہ جب ان کے شوہر موجود ہوں تو ان کی اطاعت کرتی اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں مصروف رہتی اور شوہر کی نافرمانی سے بچتی ہیں اور جب موجود نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔
نیک بیوی کے اوصاف اور فضائل:
کثیر احادیث میں نیک اور پارسا بیویوں کے اوصاف اور ان کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 2 احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تقویٰ کے بعد مومن کے لئے نیک بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں کہ اگروہ اُسے حکم دے تو وہ اطاعت کرے اوراگر اسے دیکھے تو خوش کر دے اور اس پر قسم کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دے اور کہیں چلا جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں بھلائی کرے۔(ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب افضل النساء، ۲ / ۴۱۴، الحدیث: ۱۸۵۷)
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جسے چار چیزیں ملیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی ملی۔ (1) شکر گزار دل۔ (2) یادِ خدا کرنے والی زبان۔ (3) مصیبت پر صبر کرنے والا بدن (4) ایسی بیوی کہ اپنے نفس اور شوہر کے مال میں گناہ کی مُتلاشی (یعنی اس میں خیانت کرنے والی) نہ ہو۔ (معجم الکبیر، طلق بن حبیب عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۰۹، الحدیث: ۱۱۲۷۵)
نکاح کیسی عورت سے کرنا چاہئے؟:
نکاح کے لئے عورت کے انتخاب کے وقت اس کی دینداری دیکھ لی جائے اور دین والی ہی کو ترجیح دی جائے ۔ جو لوگ عورت کا صرف حسن یامالداری یا عزت و منصب پیش نظر رکھتے ہیں وہ اس حدیث پر غور کر لیں ، حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی عورت سے اس کی عزت کے سبب نکاح کرے، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی ذلت میں زیادتی کرے گا اور جو کسی عورت سے اس کے مال کی وجہ سے نکاح کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی ہی بڑھائے گا اور جو اس کے حسب (خاندانی مرتبے) کے سبب نکاح کرے گا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے کمینہ پن میں زیادتی کرے گا۔(معجم الاوسط، من اسمہ ابراہیم، ۲ / ۱۸، الحدیث: ۲۳۴۲)
{وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ:اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں ڈر ہو۔} اس آیت میں نافرمان عورت کی اصلاح کا طریقہ بڑے احسن پیرائے میں بیان فرمایا گیا ہے ۔
نافرمان بیوی کی اصلاح کا طریقہ:
سب سے پہلے نافرمان بیوی کو اپنی اطاعت کے فوائد اور نافرمانی کے نقصانات بتاؤ نیز قرآن وحدیث میں اس تعلق سے منقول فضائل اور وعیدیں بتا کر سمجھاؤ، اگر اس کے بعد بھی نہ مانیں تو ان سے اپنے بستر الگ کر لو پھر بھی نہ مانیں تو مناسب انداز میں انہیں مارو۔ اس مار سے مراد ہے کہ ہاتھ یا مسواک جیسی چیز سے چہرے اور نازک اعضاء کے علاوہ دیگر بدن پر ایک دو ضربیں لگا دے۔ وہ مار مراد نہیں جو ہمارے ہاں جاہلوں میں رائج ہے کہ چہرے اور سارے بدن پر مارتے ہیں ، مُکّوں ، گھونسوں اور لاتوں سے پیٹتے ہیں ، ڈنڈا یا جو کچھ ہاتھ میں آئے اس سے مارتے اور لہو لہان کردیتے ہیں یہ سب حرام و ناجائز ، گناہ ِ کبیرہ اور پرلے درجے کی جہالت اور کمینگی ہے۔
شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں :
عورت اور مرد دونوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں ، اس سلسلے میں 5 احادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت عمرو بن احوص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں ، وہ تمہارے پاس مُقَیّدہیں ، تم ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کیمُرتَکِبہوں ، اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں میں علیحدہ چھوڑ دو، (اگر نہ مانیں تو) ہلکی مار مارو، پس اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ تمہارے عورتوں پر اور عورتوں کے تمہارے ذمہ کچھ حقوق ہیں۔ تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو تمہارے نا پسندیدہ لوگوں سے پامال نہ کرائیں اور ایسے لوگوں کو تمہارے گھروں میں نہ آنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو۔ تمہارے ذمے ان کا حق یہ ہے کہ ان سے بھلائی کرو، عمدہ لباس اور اچھی غذا دو۔ (ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی حقّ المرأۃ علی زوجہا، ۲ / ۳۸۷، الحدیث: ۱۱۶۶)
(2)…حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورِعِین کہتی ہیں : خدا عَزَّوَجَلَّتجھے قتل کرے، اِسے ایذا نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آجائے گا۔(ترمذی، کتاب الرضاع، ۱۹-باب، ۲ / ۳۹۲، الحدیث: ۱۱۷۷)
(3)… اُم المؤمنین حضرت ام سلمہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس پر راضی تھا وہ جنت میں داخل ہو گئی۔ (ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی حقّ الزوج علی المرأۃ، ۲ / ۳۸۶، الحدیث: ۱۱۶۴)
(4)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں اور پسلیوں میں سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دے گا اور اگر ویسی ہی رہنے دے تو ٹیڑھی باقی رہے گی۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء، ۳ / ۴۵۷، الحدیث: ۵۱۸۵)
(5)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ عورت پسلی سے پیدا کی گئی وہ تیرے لئے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔(مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء، ص۷۷۵، الحدیث: ۶۱(۱۴۶۸))
{فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ:پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرلیں۔} یعنی جب گناہ کے بعدتوبہ کرنے کی صورت میں اللہتعالیٰ تمہاری توبہ قبول فرما لیتا ہے تو تمہیں بھی چاہئے کہ تمہاری زیر دست عورت جب قصور کرنے کے بعد معافی طلب کرے اور نافرمانی چھوڑ کر اطاعت گزار بن جائے تو اس کی معذرت قبول کرلو اور توبہ کے بعد اسے تنگ نہ کرو۔
بیوی جب اپنی غلطی کی معافی مانگے تو اسے معاف کر دیا جائے:
اِس آیت سے اُن لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو عورت کے ہزار بار معذرت کرنے، گڑ گڑا کر پاؤں پڑنے، طرح طرح کے واسطے دینے کے باوجود اپنی ناک نیچی نہیں کرتے اور صنف ِنازک کو مَشقِ ستم بنا کر اپنی بزدلی کو بہادری سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِن بہادروں کو عاجزی اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
{وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا:اور اگر تم کو میاں بیوی کے جھگڑے کا خوف ہو۔} جب بیوی کو سمجھانے، الگ رکھنے اور مارنے کے باجود اصلاح کی صورت نہ بن رہی ہو تو نہ مرد طلاق دینے میں جلدی کرے ،نہ عورت خُلع کے مطالبے پر اِصرار کرے بلکہ دونوں کے خاندان کے خاص قریبی رشتہ داروں میں سے ایک ایک شخص کو مُنصِف مقرر کر لیا جائے، اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ چونکہ رشتے دار ایک دوسرے کے خانگی معاملات سے واقف ہوتے ہیں ، فریقَین کو ان پر اطمینان ہوتا ہے اور ان سے اپنے دل کی بات کہنے میں کوئی جھجک بھی نہیں ہوتی، یہ منصف مناسب طریقے سے ان کے مسئلے کا حل نکال لیں گے اور اگر منصف ،میاں بیوی میں صلح کروانے کا ارادہ رکھتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کے مابین اتفاق پیدا کر دے گا اس لئے حتّی المقدور صلح کے ذریعے اس معاملے کو حل کیا جائے لیکن یہ یاد رکھیں کہ انہیں میاں بیوی میں جدائی کروا دینے کا اختیار نہیں یعنی یہ جدائی کا فیصلہ کریں تو شرعاً ان میں جدائی ہوجائے، ایسا نہیں ہوسکتا۔
{وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ:اور اللہ کی عبادت کرو ۔} اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں کے حقوق کی تعلیم دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرایا جائے اور بندوں کے آپس میں حقوق یہ ہیں :
(1)…والدین کے ساتھ احسان کرنا: ان کے ساتھ احسان یہ ہے کہ والدین کا ادب اور اطاعت کرے، نافرمانی سے بچے، ہر وقت ان کی خدمت کے لئے تیار رہے اور ان پر خرچ کرنے میں بقدرِ توفیق و استطاعت کمی نہ کرے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ فرمایا :اُس کی ناک خاک آلود ہو۔ کسی نے پوچھا:یارسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کون؟ ارشاد فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں کو یاان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا ۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب رغم من ادرک ابویہ او احدہما عند الکبر۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۱، الحدیث: ۹(۲۵۵۱))
(2)…رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا: ان سے حسن سلوک یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے اور قطع تعلقی سے بچے۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر لمبی ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔(بخاری، کتاب البیوع، باب من احبّ البسط فی الرزق، ۲ / ۱۰، الحدیث: ۲۰۶۷)
حضرت جُبَیر بن مطعم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتہا، ص۱۳۸۳، الحدیث: ۱۸(۲۵۵۶))
صلۂ رحمی کا مطلب بیان کرتے ہوئے صدرُالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا، ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلۂ رحم واجب ہے اور قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) حرام ہے۔( بہارِ شریعت، حصہ شانزدہم، سلوک کرنے کا بیان، ۳ / ۵۵۸)
(3،4)…یتیموں اور محتاجوں سے حسنِ سلوک کرنا: یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کی پرورش کرے، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اور ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرے ۔ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جو شخص یتیم کی کفالت کرے میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے۔ حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سافاصلہ کیا۔(بخاری، کتاب الطلاق، باب اللعان، ۳ / ۴۹۷، الحدیث: ۵۳۰۴)
اور مسکین سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کی امداد کرے اور انہیں خالی ہاتھ نہ لوٹائے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: بیوہ اور مسکین کی امداد و خبر گیری کرنے والا راہ ِخدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔(بخاری، کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ علی الاہل، ۳ / ۵۱۱، الحدیث: ۵۳۵۳)
(5)… ہمسائیوں سے حسنِ سلوک کرنا: قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہوا ور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔(تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۲۷۵)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔(بخاری، کتاب الآدب، باب الوصاۃ بالجار، ۴ / ۱۰۴، الحدیث: ۶۰۱۴)
(6)… پاس بیٹھنے والوں سے حسنِ سلوک کرنا: اس سے مراد بیوی ہے یا وہ جو صحبت میں رہے جیسے رفیق ِسفر، ساتھ پڑھنے والایا مجلس و مسجد میں برابر بیٹھے حتّٰی کہ لمحہ بھر کے لئے بھی جو پاس بیٹھے اس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا حکم ہے۔
(7)… مسافر کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا: اس میں مہمان بھی داخل ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایتہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اِکرام کرے۔(مسلم، کتاب الایمان والنذور، باب الحث علی اکرام الجار۔۔۔ الخ، ص۴۳، الحدیث: ۷۴(۴۷))
(8)…لونڈی غلام کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا۔ ان سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ انہیں اُن کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے ، سخت کلامی نہ کرے اور کھانا کپڑا وغیرہ بقدرِ ضرورت دے۔ حدیث میں ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: غلام تمہارے بھائی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے، تو جو تم کھاتے ہو اس میں سے انہیں کھلاؤ، جو لباس تم پہنتے ہو، ویسا ہی انہیں پہناؤ، اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسا ہو تو تم بھی ساتھ میں ان کی مدد کرو۔(مسلم، کتاب، باب اطعام المملوک مما یاکل۔۔۔ الخ، ص۹۰۶، الحدیث: ۳۸(۱۶۶۱))
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا:بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر، فخرکرنے والا ہو۔} کسی کو خود سے حقیر سمجھنا اور حق بات قبول نہ کرنا تکبر ہے، یہ انتہائی مذموم وصف اور کبیرہ گناہ ہے ، حدیث میں ہے: قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہرجانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَالْ‘‘یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴۷-باب، ۴ / ۲۲۱، الحدیث: ۲۵۰۰)۔([1])
1۔۔۔تکبر کی اقسام، ان کے احکام اور اس کے علاج سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب "تکبر" (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کیجئے۔
{اَلَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ:وہ لوگ جو خود بخل کرتے ہیں۔} لغتِ عرب میں بخل سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جومال دیا اس میں سے سائل کو نہ دینا اور بخل کی شرعی تعریف یہ ہے کہ جو چیز ذمہ میں واجب ہو اسے ادا نہ کرنا۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۱ / ۳۳۹)
اور صدرُالاَفاضِل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بخل یہ ہے کہ خود کھائے دوسرے کو نہ دے۔ شُحْ یہ ہے کہ نہ کھائے نہ کھلائے۔ سَخایہ ہے کہ خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے ،جودیہ ہے کہ آپ نہ کھائے دوسرے کو کھلائے۔(خزائن العرفان، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۱۶۶، مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۲۲۷)
یہاں بخل سے مراد یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے توریت میں مذکور اوصاف بیان کرنے میں بخل کرنا اورا س کا حکم دینا۔ شانِ نزول: یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو توریت میں مذکورسیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف بیان کرنے میں بخل کرتے اور چھپاتے تھے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۱ / ۳۷۹)
یک قول یہ ہے کہ اس سے مراد مال خرچ کرنے میں بخل کرنا ہے۔ (تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۷۸)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’دو خصلتیں کسی مومن میں جمع نہیں ہو سکتیں ،بخل اور بدخلقی۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی البخل، ۳ / ۳۸۷، الحدیث: ۱۹۶۹)
تنبیہ: اس سے موجودہ زمانے کے ان علماء کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصافِ حمیدہ خود بھی بیان نہیں کرتے اور بیان کرنے والوں کو بھی طرح طرح کے حیلے بہانے کر کے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اعلیٰ حضرترَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
ذکر روکے فضل کاٹے نقص کا جویاں رہے
پھر کہے مَردَک کہ ہوں امت رسولُ اللہ کی
نوٹ:بخل کے بارے میں کافی تفصیل سورہ ٔآلِ عمران آیت180 میں گزر چکی ہے۔
{وَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ:اور اللہ نے جو انہیں اپنے فضل سے دیا ہے اسے چھپاتے ہیں۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ جو نعمت عطا فرمائے اسے اچھی نیت کے ساتھ موقع محل کی مناسبت سے حکمت کو سامنے رکھتے ہوئے ظاہر کرنا چاہیے۔ حضرت ابو الاحوص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میرے والد پَراگندہ بال اور ناپسندیدہ ہَیئت میں سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کیا تیرے پاس مال نہیں ؟ عرض کی:یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال عطا فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ بندے کو جب کوئی نعمت عطا فرمائے تو اس کا اثر بندے پر دیکھنا پسند فرماتا ہے۔(مسند امام احمد، مسند المکیین، حدیث مالک بن نضلۃ ابی الاحوص رضی اللہ تعالی عنہ، ۵ / ۳۸۴، الحدیث: ۱۵۸۹۲)
مسئلہ:اللہ عَزَّوَجَلَّکی نعمت کا اظہار اخلاص کے ساتھ ہو تو یہ بھی شکر ہے اور اس لئے آدمی کو اپنی حیثیت کے لائق جائز لباسوں میں بہتر پہننا مستحب ہے۔
{وَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآءَ النَّاسِ: اور وہ لوگ جو اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔} بخل کی برائی بیان فرمانے کے بعد اب ان لوگوں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ جو محض دکھاوے اور شہرت کے لئے مال خرچ کرتے ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کا حصول ان کا مقصد نہیں ہوتا۔ یہ بھی اسی حکم میں داخل ہیں جو اوپر گزرا۔
ریا کاری کی مذمت:
اس سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہئے کہ جو نیک کاموں میں لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن مقصد صرف واہ واہ کروانا ہوتا ہے، بکثرت خیرات کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ شرط رکھتے ہیں کہ اخبار میں خبر اور تصویر ضرور آنی چاہیے، اسی طرح شادیوں کی فضول رسومات میں لاکھوں روپے اڑا دینے والے بھی عبرت حاصل کریں جو صرف اس لئے رسمیں کرتے ہیں کہ اگر یہ رسمیں بھر پور انداز میں نہ کی گئیں ،تو لوگ کیا کہیں گے، فلاں نے اتنا خرچ کیا تھا، میں کیوں پیچھے رہوں وغیرہ ۔حضرت محمود بن لُبَید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مجھے تم پر سب سے زیادہ شرکِ اصغر یعنی دکھاوے میں مبتلا ہونے کا خوف ہے،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کچھ لوگوں کو ان کے حساب کے وقت ارشاد فرمائے گا کہ ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کے لئے دنیا میں تم دکھاوا کرتے تھے اور دیکھو کہ کیا تم ان کے پاس کوئی جزا پاتے ہو؟ (مسند امام احمد، حدیث محمود بن لبید رضی اللہ عنہ، ۹ / ۱۶۱، الحدیث: ۲۳۶۹۷)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم روزانہ چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے،اللہ تعالیٰ نے یہ وادی اُمتِ محمدیہ کے ان ریاکاروں کے لئے تیار کی ہے جو قرآنِ پاک کے حافظ،راہِ خدامیں صدقہ کرنے والے، اللہ تعالیٰ کے گھر کے حاجی اور راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں نکلنے والے ہوں گے (لیکن یہ سارے کام صرف ریاکاری کیلئے کررہے ہوں گے۔ ) (معجم الکبیر، الحسن عن ابن عباس، ۱۲ / ۱۳۶، الحدیث: ۱۲۸۰۳)۔([1])
{وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا:اورجس کا ساتھی شیطان بن جائے۔} دنیا میں شیطان کا ساتھی اس طرح ہو گا کہ وہ شیطانی کام کر کے اسے خوش کرے کیونکہ جو شیطان کو خوش کرتا ہے شیطان اس کے ساتھ رہتا ہے حتّٰی کہ کھانے پینے ، رات بسر کرنے اور دیگر کئی معاملات میں شریک ہو جاتا ہے اسی لئے یہ حکم ہے کہ ہر جائز کام بِسْمِ اللہْ پڑھ کر شروع کیا جائے تاکہ شیطان کے لئے روک ہو اورا ٓخرت میں شیطان کا ساتھی ہونا یوں ہوگا کہ وہ ایک شیطان کے ساتھ آتشی زنجیر میں جکڑا ہو گا۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۳۸، ۱ / ۳۷۹)
یہ وعید خاص گناہوں کے ذریعے شیطان کا ساتھی بننے والے کے بارے میں ہے اور جس کا ساتھی شیطان ہو وہ اپنے انجام پر خود ہی غور کرلے کہ کیساہو گا۔
شیطان کے بہکانے کاانداز:
شیطان مختلف انداز سے انسان کو بہکانے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و فرمانبرداری کرنے سے روکتا ہے جیسے شیطان پہلے انسان کو اللہ تعالیٰ کی طاعت و عبادت سے روکتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ انسان کو شیطان سے محفوظ کر لیتا ہے تو انسان شیطان کویہ کہہ کر دور کر دیتا ہے کہ مجھے اللہتعالیٰ کی طاعت و عبادت کی بہت سخت ضرورت ہے کیونکہ مجھے ا س دارِ فانی سے آخرت کے لئے توشہ اور زادِ راہ تیار کرنا بہت ضروری ہے کہ اس کے بغیر آخرت کا سفر ممکن نہیں۔
جب انسان شیطان کے اس مکر سے بچ جاتا ہے تو شیطان اسے اس طرح بہکانے اور گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اسے عبادت کرنے میں کاہلی اور سستی کا حکم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آج رہنے دو کل کر لینا۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اس سے بھی محفوظ کر لیتا ہے تو وہ شیطا ن کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیتا ہے کہ میری موت میرے قبضے میں نہیں ،نیز اگر میں آج کا کام کل پر چھوڑوں گا تو کل کا کام کس دن کروں گا کیونکہ ہر دن کے لئے ایک کام ہے۔
جب شیطان اس حیلے سے بھی ناامید ہو جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے انسان! تم اللہ تعالیٰ کی عبادت جلدی جلدی کرو تاکہ فلاں فلاں کام کے لئے فارغ ہو سکو۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اس حیلے سے بھی بچا لے تو انسان شیطان کو یہ کہہ کر دفع کر دیتا ہے کہ تھوڑی اور کامل عبادت زیادہ مگر ناقص عبادت سے کہیں بہتر ہے۔
اگر شیطان اس حیلے میں بھی ناکام و نامراد ہو جاتا ہے تو وہ انسان کو ریاکاری کے ساتھ عبادت کرنے کی ترغیب دیتا اور اسے ریاکاری میں مبتلا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس حیلے سے محفوظ ہوگیا تو وہ یہ کہہ کر ریا کاری کے وسوسے کو ٹھکرا دیتا ہے کہ میں کسی اور کی نمائش اور دکھاوے کے لئے عبادت کیوں کروں ، کیا اللہ تعالیٰ کا دیکھ لینا میرے لئے کافی نہیں۔
جب شیطان اپنے اس ہتھکنڈے سے بھی ناکام ہو جاتا ہے تو وہ انسان کو خود پسندی میں مبتلاء کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے کتنا عمدہ کام کیا اور تم نے کتنی زیادہ شب بیداری کی۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بار بھی محفوظ رہا اور خود پسندی میں مبتلاء ہونے سے بچ گیا تو وہ شیطان کے اس وسوسے کو یہ کہہ کر رد کر دیتا ہے کہ مجھ میں کوئی خوبی اور بزرگی نہیں ،یہ تو سب اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ ا س نے مجھ جیسے گناہگار کو خاص توفیق عطا فرمائی اور یہ بھی اسی کا فضل و کرم ہے کہ ا س نے میری حقیر اور ناقص عبادت کو شرف قبولیت عطا فرمایا، اگر ا س کا فضل و کرم شامل حال نہ ہوتا تو میرے گناہوں کے مقابلے میں میری ان عبادتوں کی حیثیت ہی کیا تھی۔
جب لعین شیطان ان تمام تدبیروں سے ناکام ہو جاتا ہے تو پھر یہ حَربہ استعمال کرتا ہے جو سب سے زیادہ خطرناک ہے اور شیطان کے اس حربے سے بہت عقلمند اور ہوشیار دل شخص کے علاوہ کوئی اور نہیں بچ سکتا، چنانچہ شیطان کہتا ہے کہ اے نیک بخت انسان ! تم لوگوں سے چھپ چھپ کر نیکیاں کرنے میں کوشاں ہو اوراللہ تعالیٰ تمہاری ان نیکیوں کو عنقریب تمام لوگوں میں مشہور کر دے گا تو لوگ تمہیں اللہ تعالیٰ کا مقرب بندہ کہہ کر یاد کیا کریں گے۔ اس طرح شیطان اسے ریا کاری میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و عنایت سے انسان کو شیطان کے اس حربے سے بھی محفوظ فرما دے تو وہ شیطان کو یہ کہہ کر ذلیل و خوار اور نامراد کر دیتا ہے کہ اے ملعون! ابھی تک تو تو میرے پاس میرے اعمال کو فاسد و بے کار کرنے آیا کرتا تھا اور اب ان اعمال کی اصلاح و درستی کے لئے آتا ہے تاکہ میرے اعمال کو بالکل ختم کر دے ،چل دفع ہو جا، میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو ں ، وہی میرا آقا و مولیٰ ہے، میں اپنی نیکیوں کی شہرت کا مشتاق اور طلبگار نہیں ہوں ، میرا پروردگار چاہے میرے اعمال ظاہر و مشہور کر دے چاہے پوشیدہ رکھے، چاہے مجھے عزت و مرتبہ عطا فرمائے چاہے مجھے ذلیل و رسوا کر دے ۔سب کا سب اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے، مجھے ا س کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے میرے اعمال کا اظہار فرمائے یا نہ فرمائے۔ انسانوں کے قبضے میں کوئی چیز نہیں ہے۔
اگر انسان شیطان کے اس وار سے بھی بچ جائے تو وہ انسان کے پاس آ کر کہتا ہے کہ تجھے اعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ انسان کے نیک اور بد ہونے کا فیصلہ تو روزِ اول میں ہو چکا ہے ،اس دن جو برا ہو گیا وہ برا ہی رہے گا اور جو اچھا اور نیک ہو گیاوہ نیک ہی رہے گا اس لئے اگر تجھے نیک بخت پیدا کیا گیا ہے تو اعمال کو چھوڑنا تمہارے لئے نقصان دہ نہیں اور اگر تجھے بدبخت و شقی پیدا کیاگیا ہے تو تمہارا عمل تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے انسان کو شیطان کے اس وار سے بچا لیا تو انسان شیطان مردود سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ میں تواللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور بندے کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آقا و مولیٰ کے احکام بجا لائے اور اللہ تعالیٰ سارے جہان کا پروردگار ہے، جو چاہتا ہے حکم کرتا اور جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ یقینا اعمال میرے لئے فائدہ مند ہیں کسی صورت میں بھی نقصان دہ نہیں ہوسکتے کیونکہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے علم میں نیک بخت ہوں تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں زیادہ ثواب کا محتاج ہوں اور اگر خدانخواستہ علمِ الٰہی میں میرا نام بدبختوں میں ہے تو بھی عبادت کرنے سے اپنے آپ پر ملامت تو نہیں کروں گا کہ اللہتعالیٰ مجھے طاعت و عبادت کرنے پر سزا نہ دے گا اور کم از کم اتنا تو ضرور ہے کہ نافرمان ہو کر دوزخ میں جانے سے فرمانبردار ہو کر دوزخ میں جانا بہتر ہے اور پھر یہ کہ سب محض اِحتِمالات ہیں ورنہ ا س کاوعدہ بالکل حق ہے اور ا س کا فرمان بالکل سچ ہے اور اللہ تعالیٰ نے طاعت و عبادت پر ثواب عطافرمانے کا بے شمار مقامات پر وعدہ فرمایا ہے تو جو شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایمان اور طاعت کے ساتھ حاضر ہو گا وہ ہر گز ہر گز جہنم میں داخل نہ ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اورا س کے سچے و مقدس وعدے کی وجہ سے جنت میں جائے گا۔
لہٰذا (اے لوگو!) تم خوابِ غفلت سے بیدار ہو جاؤ، شیطان کے حیلوں سے ہوشیار رہو، ہر وقت اللہتعالیٰ سے مدد طلب کرتے رہو اور شیطان مردود سے اسی کی پناہ مانگتے رہو کیونکہ تمام معاملات اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں اور وہی توفیق عطا فرمانے والا ہے، گناہوں سے بچنے اور طاعت و عبادت کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ملتی ہے۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الثالث: الشیطان، ص۶۱-۶۲)
1…ریاکاری کے بارے میں مفید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’ریاکاری‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کیجئے۔
{وَ مَا ذَا عَلَیْهِمْ:اور ان کا کیا نقصان تھا۔} نامْوَری اور دکھاوے کے طور پر مال خرچ کرنے والوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ یہ اگر اللہ تعالیٰ پر اور آخرت پر صحیح ایمان لاتے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دئیے ہوئے مال میں سے اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کیلئے خرچ کرتے تواِس میں سراسر اُن کا نفع ہی تھا۔ معلوم ہوا کہ راہِ خدا میں خرچ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کی نیت ہونی چاہئے، بصورت ِدیگر عمل ضائع ہو جائے گا اور اس پر سزا بھی ملے گی۔
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ:بیشک اللہ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں فرماتا۔} اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وہ کسی پر ایک ذرے جتنا بھی ظلم فرمائے۔ یہاں یہ بات اس معنیٰ میں ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی کے نیک اعمال بغیر کسی وجہ کے ضائع فرماکر ان کی جزا سے محروم کر دے یا کسی مجرم کو اس کے جرم سے زیادہ سزا دیدے، یہ اس کی شان کے لائق نہیں بلکہ اپنے فضل ورحمت سے نیکی کا ثواب عمل کے مقابلے میں بہت زیادہ عطا فرماتا ہے۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ظلم سے پاک ہے مومن نیکی کرتا ہے تو دنیا میں رزق اور آخرت میں جنت کی صورت میں ثواب پاتا ہے اور کافر کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کے بدلے دنیا میں ہی اسے رزق دے دیا جاتا ہے اور قیامت کے دن اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہو گی جس پر اسے کوئی جزا ملے۔(مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب جزاء المؤمن بحسناتہ فی الدنیا والآخرۃ۔۔۔ الخ، ص۱۵۰۸، الحدیث: ۵۶(۲۸۰۸))
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan