Surah An-Nisaa
{مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِهٖ: جو کوئی برائی کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا۔} یہاں لوگوں سے فرمایا گیا کہ نجات کا دارومدار نہ توتمہاری جھوٹی امیدیں ہیں کہ اے مشرکو! تم نے سوچ رکھا ہے کہ بت تمہیں نفع پہنچائیں گے اور نہ ہی نجات اہلِ کتاب کی جھوٹی امیدوں پر ہے جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں ، ہمیں آگ چند روز سے زیادہ نہ جلائے گی یہود و نصاریٰ کا یہ خیال بھی مشرکین کی طرح باطل ہے بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قانون یہ ہے کہ جو کوئی برائی کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گاخواہ مشرکین میں سے ہو یا یہودو نصاریٰ میں سے اور کافر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوانہ کوئی اپنا حمایتی پائے گااور نہ مددگار، البتہ جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور وہ مسلمان بھی ہو تو یہی با عمل مسلمان لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور یہ اپنے عمل کی جس جزا کے مستحق ہیں اس میں سے تِل کے برابر بھی کم کر کے ان پر ظلم نہیں کیاجائے گا۔
{وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ: اور اُس سے بہتر کس کا دین جس نے اپنا چہرہ اللہ کے لئے جھکا دیا} کفار و مشرکین کے مذاہب کا باطل ہونا بیان کرنے کیلئے ایمان والوں کا بیان کیا گیا اور اب ایمان والوں کے امام و پیشوا اور قائد و رہنما حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیان کیا جارہا ہے کہ اچھا دین توتابع فرمان مسلمان کا ہے جو اطاعت و اخلاص اختیار کرے اور دینِ ابراہیمی کی پیروی کرے جوکہ دینِ اسلام کے مُوافق ہے ۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت و ملت سیدُالانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ملت میں داخل ہے اور دین محمدی کی خصوصیات اس کے علاوہ ہیں۔دین محمدی کی اتباع کرنے سے شریعت ِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی بھی ہوجاتی ہے۔ چونکہ عرب اور یہود و نصاریٰ سب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبت پر فخر کرتے تھے اور آپ کی شریعت ان سب کو مقبول تھی اور شریعت ِ محمدی اس پر حاوی ہے تو ان سب کو دینِ محمدی میں داخل ہونا اور اس کو قبول کرنا لازم ہے۔
{خَلِیْلًا: گہرا دوست۔} خُلَّت کے معنی ہیں غیر سے مُنقطع ہوجانا، یہ اس گہری دوستی کو کہا جاتا ہے جس میں دوست کے غیر سے اِنقِطاع ہو جائے۔ ایک معنیٰ یہ ہے کہ خلیل اس محب کو کہتے ہیں جس کی محبت کاملہ ہو اور اس میں کسی قسم کا خَلَل اور نقصان نہ ہو ۔یہ معنیٰ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں پائے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے خلیل و حبیب:
یہ یاد رہے کہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جو کمالات ہیں وہ سب کے سب سیدُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حاصل ہیں۔ حضور سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خلیل بھی ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اپنا خلیل بنایا اسی طرح مجھے بھی اپنا خلیل بنایا ہے۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النہی عن بناء المساجد علی القبور۔۔۔ الخ، ص۲۷۰، الحدیث: ۲۳(۵۳۲))
اور اس سے بڑھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب بھی ہیں جیسا کہ ترمذی شریف کی حدیث میں ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا حبیب ہوں اور یہ فخراً نہیں کہتا۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۱-تابع باب، ۵ / ۳۵۴، الحدیث: ۳۶۳۶)
خلیل اور حبیب کا فرق:
بزرگانِ دین نے خلیل و حبیب کے فرق کو یوں بیان فرمایا ہے:
(1)…حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے قیامت کے دن رسوائی سے بچنے کی دعا مانگی۔ (الشعراء:۸۷)
جبکہ اللہتعالیٰ نے خود اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صدقے ان کے صحابہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو قیامت کی رسوائی سے بچانے کا مژد ہ سنایا۔( التحریم:۸)
(2)…حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے رب تعالیٰ سے ملاقات کی تمنا کی۔(الصافات :۹۹)
جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خود بلاکر شَرف ملاقات سے سرفراز فرمایا۔ (بنی اسرائیل:۱)
(3)…حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہدایت کی آرزو فرمائی۔( الصافات:۹۹)
اور حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اور تمہیں سیدھی راہ دکھا دے۔(الفتح:۲)
(4)… حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس فرشتے معزز مہمان بن کر آئے ۔ (الذاریات:۲۴)
اور حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے رب تعالیٰ نے فرمایا:فرشتے ان کے لشکری وسپاہی بنے۔ (التوبہ:۱۰، ال عمران:۱۲۵، التحریم: ۴)
(5)… حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی امت کی مغفرت کی دعا مانگی۔ (ابراہیم:۴۱)
اور حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خود اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنی امت کی مغفرت مانگو ۔( محمد:۱۹)
(6)… حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بعد والوں میں اپنا ذکرِ جمیل باقی رہنے کی دعا کی۔(الشعراء:۸۴)
اور حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے خود ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: اور ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔(الم نشرح:۴)
(7)…حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انہوں نے قومِ لُوط سے عذاب دور کئے جانے میں بہت کوشش کی۔ (ہود: ۷۴،۷۶۔عنکبوت:۳۲)
اور حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ربِّ غفّار عَزَّوَجَلَّ نے ا رشاد فرمایا: اللہ ان کافروں پر بھی عذاب نہ کرے گا جب تک اے رحمتِ عالم تو ان میں تشریف فرما ہے۔(انفال:۳۳)
(8)… حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: اے اللہ ! میری دعا قبول فرما۔ (ابراہیم:۴۰)
اور حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے ماننے والوں سےاللہ ربُّ الْعٰلَمِیْن عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: تمہارا رب فرماتا ہے مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا(المؤمن: ۶۰)۔(فتاوی رضویہ،۳۰ / ۱۷۸-۱۸۲،ملخصاً)
{وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطًا: اور اللہ ہر شے کو گھیرے ہوئے ہے۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر شے کو محیط ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا علم اور قدرت ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور کسی شے کے جتنے پہلو ہوسکتے ہیں وہ تمام کے تمام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علم میں ہیں کوئی اس سے خارج نہیں۔ یہاں علمی اِفادے کے طور پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ایک عبارت پیشِ خدمت ہے ، فرماتے ہیں ’’ علم و قدرتِ الٰہی ہر شے کو محیط ہونے کے بھی یہ معنی نہیں کہ ا س کے علم و قدرت ہر جگہ مُتَمَکِّن ہیں کہ جگہ یا طرف میں ہونا جسم و جِسمانِیَّت کی شان ہے اور وہ اور اس کے صفات ان سے مُتَعالی، بلکہ اِحاطۂ علم کے معنی یہ ہیں کہ ہر شے واجب یا ممکن یامُمتَنِع معدوم یا موجود حادث یا قدیم اسے معلوم ہے ۔احاطۂ قدرت کے معنی یہ ہیں کہ ہر ممکن پر اسے قدرت ہے۔(فتاوی رضویہ، ۱۴ / ۶۲۰)
{وَ یَسْتَفْتُوْنَكَ فِی النِّسَآءِ: اور آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ مانگتے ہیں۔} شانِ نزول: زمانہِ جاہلِیَّت میں عرب کے لوگ عورت اور چھوٹے بچوں کو میت کے مال کا وارث قرار نہیں دیتے تھے۔ جب آیت ِمیراث نازل ہوئی تو انہوں نے عرض کیا، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا عورت اور چھوٹے بچے وارث ہوں گے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے اُن کو اِس آیت سے جواب دیا ۔ حضرت عائشہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا نے فرمایا کہ یتیموں کے اولیاء کا دستور یہ تھا کہ اگر یتیم لڑکی صاحب ِمال و جمال ہوتی تو اس سے تھوڑے مہر پر نکاح کرلیتے اور اگر حسن و مال نہ رکھتی تو اسے چھوڑ دیتے اور اگرحسنِ صورت نہ رکھتی اور ہوتی مالدار تو اس سے نکاح نہ کرتے اور اس اندیشہ سے دوسرے کے نکاح میں بھی نہ دیتے کہ وہ مال میں حصہ دار ہوجائے گا اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر انہیں ان عادتوں سے منع فرمایا۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۱ / ۴۳۵)
عورتوں اور کمزور لوگوں کو ان کے حقوق دلانااللہ تعالیٰ کی سنت ہے:
قرآنِ پاک میں یتیموں ، بیواؤں اور معاشرے کے کمزو ر و محروم افراد کیلئے بہت زیادہ ہدایات دی گئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یتیموں ، بیواؤں ، عورتوں ، کمزوروں اور محروم لوگوں کو ان کے حقوق دلانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سنت ہے اور اس کیلئے کوشش کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بہت پسند ہے۔ اس ضمن میں چند احادیث ملاحظہ ہوں:
(1)… حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، ایک شخص نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے ؟اس نے عرض کی: جی ہاں۔ ارشاد فرمایا: تیرے پاس کوئی یتیم آئے تو اس کے سر پہ ہاتھ پھیرو اور اپنے کھانے میں سے اسے کھلاؤ، تیرا دل نرم ہو جائے گا اور تیری حاجتیں بھی پوری ہوں گی۔(مصنف عبد الرزاق، کتاب الجامع، باب اصحاب الاموال، ۱۰ / ۱۳۵، الحدیث: ۲۰۱۹۸)
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے تین یتیموں کی پرورش کی وہ رات کو قیام کرنے والے، دن کو روزہ رکھنے والے اور صبح شام اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی تلوار سونتنے والے کی طرح ہے اورمیں اور وہ جنت میں دو بھائیوں کی طرح ہوں گے جیسا کہ یہ دو بہنیں ہیں۔‘‘ اوراپنی انگشت ِشہادت اور درمیانی انگلی کوملایا۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب حقّ الیتیم، ۴ / ۱۹۴، الحدیث: ۳۶۸۰)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’بیواؤں اور مسکینوں پر خرچ کرنے والا راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کرنے والے اور رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب الحث علی المکاسب، ۳ / ۶، الحدیث: ۲۱۴۰)
(4)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جو میرے کسی امتی کی حاجت پوری کرے اور اُس کی نیت یہ ہو کہ اِس کے ذریعے اُس امتی کو خوش کرے تو اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا ا س نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو خوش کیا اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکو خوش کیا اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ (شعب الایمان، الثالث والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۱۱۵، الحدیث: ۷۶۵۳)
{وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا: اور اگر کسی عورت کواپنے شوہر کی زیادتی کا اندیشہ ہو۔} قرآن نے گھریلو زندگی اور معاشرتی برائیوں کی اصلاح پر بہت زور دیا ہے اسی لئے جو گناہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں اور جو چیزیں خاندانی نظام میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں اور خرابیوں کو جنم دیتی ہیں ان کی قرآن میں بار بار اصلاح فرمائی گئی ہے جیسا کہ یہاں فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی عورت کواپنے شوہر کی زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہو، زیادتی تو اس طرح کہ شوہر اس سے علیحدہ رہے، کھانے پہننے کو نہ دے یا اس میں کمی کرے یا مارے یا بدزبانی کرے اور اِعراض یعنی منہ پھیرنایہ کہ بیوی سے محبت نہ رکھے، بول چال ترک کردے یا کم کردے۔تو ان پر کوئی حرج نہیں کہ آپس میں اِفہام و تفہیم سے صلح کرلیں جس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ عورت شوہر سے اپنے مُطالبات کچھ کم کردے اور اپنے کچھ حقوق کا بوجھ کم کردے اور شوہر یوں کرے کہ باوجود رغبت کم ہونے کے اس بیوی سے اچھا برتاؤ بَہ تکلف کرے۔ یہ نہیں کہ عورت ہی کو قربانی کا بکرا بنایا جائے۔ مردو عورت کا یوں آپس میں صلح کرلینا زیادتی کرنے اور جدائی ہوجانے دونوں سے بہتر ہے کیونکہ طلاق اگرچہ بعض صورتوں میں جائز ہے مگراللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں نہایت ناپسندیدہ چیز ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے ناپسند چیز طلاق دینا ہے۔(ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب کراہیۃ الطلاق، ۲ / ۳۷۰، الحدیث: ۲۱۷۸)
دل لالچ کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں :
میاں بیوی کے اعتبار سے بھی اور اس سے ہٹ کر بھی معاملہ یہ ہے کہ دل لالچ کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں، ہر ایک اپنی راحت و آسائش چاہتا ہے اور اپنے اوپر کچھ مشقت گوارا کرکے دوسرے کی آسائش کو ترجیح نہیں دیتا۔ لہٰذا جو شخص دوسرے کی راحت کو مقدم رکھتا ہے اور خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو سکون پہنچاتا ہے وہ بہت باہمت ہے، اسی طرح کی چیزوں کے بارے میں قرآنِ مجیدمیں فرمایا:
وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(سورۂ حشر:۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔
اورارشاد فرمایا:
لَتُبْلَوُنَّ فِیْۤ اَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ- وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَذًى كَثِیْرًاؕ-وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ(ال عمران:۱۸۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان:بے شک ضرور تمہاری آزمائش ہوگی تمہارے مال اور تمہاری جانوں میں اور بے شک ضرور تم اگلے کتاب والوں اورمشرکوں سے بہت کچھ برا سنو گے اور اگر تم صبرکرو اور بچتے رہو تو یہ بڑی ہمت کا کام ہے ۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ-اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ(۳۴)وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْاۚ-وَ مَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ(سورۂ حم السجدہ۳۴،۳۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور نیکی اور بدی برابر نہ ہوجائیں گی اے سننے والے برائی کو بھلائی سے ٹال جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہوجائے گا جیسا کہ گہرا دوست ۔اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صابروں کو اور اسے نہیں پاتا مگر بڑے نصیب والا ۔
حدیث شریف میں ہے، حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو تم سے قَطع تعلق کرے تم اس سے رشتہ جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے تم اس سے درگزر کرو۔(شعب الایمان، السادس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۲۲۲، الحدیث: ۷۹۵۷)
}وَ اِنْ تُحْسِنُوْا: اور اگر تم نیکی کرو۔{ یہاں بطورِ خاص عورتوں کے حوالے سے فرمایا گیا کہ اے مَردو! اگر تم نیکی اور خوف ِ خدا اختیار کرو اور نامرغوب ہونے کے باوجود اپنی موجودہ عورتوں پر صبر کرو اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور انہیں ایذا و رنج دینے سے اور جھگڑا پیدا کرنے والی باتوں سے بچتے رہو اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے میں نیک سلوک کرو اور یہ جانتے رہو کہ وہ تمہارے پاس امانتیں ہیں اوریہ جان کرحسن سلوک کرتے رہو تواللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔
{وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْۤا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ:اور تم سے ہرگز نہ ہوسکے گا کہ عورتوں کو برابر رکھو۔} یعنی اگر تمہاری ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تویہ تمہاری قدرت میں نہیں کہ ہر چیز میں تم انہیں برابر رکھو اور کسی چیز میں ایک کو دوسری پر ترجیح نہ ہونے دو، نہ میلان و محبت میں اور نہ خواہش ور غبت میں اور نہ نظر وتوجہ میں ، تم کوشش کرکے یہ تو کر نہیں سکتے لیکن اگر اتنا تمہاری قدرت میں نہیں ہے اور اس وجہ سے ان تمام پابندیوں کا بوجھ تمہارے اوپر نہیں رکھا گیا اور قلبی محبت اور طبعی مَیلان جو تمہارے اختیار میں نہیں ہے اس میں برابری کرنے کا تمہیں حکم نہیں دیا گیا تو یہ تو نہ کرو کہ ایک ہی بیوی کی طرف پورے پورے جھک جاؤ اور دوسری بیوی کے لازمی حقوق بھی ادا نہ کرو بلکہ تم پر لازم ہے کہ جہاں تک تمہیں قدرت و اختیار ہے وہاں تک یکساں برتاؤ کرو، محبت اختیار ی شے نہیں تو بات چیت، حسنِ اخلاق، کھانے، پہننے، پاس رکھنے اور ایسے امور جن میں برابری کرنا اختیار میں ہے ان امور میں دونوں کے ساتھ ضرور یکسا ں سلوک کرو۔
{وَ اِنْ یَّتَفَرَّقَا: اور اگر وہ دونوں جدا ہوجائیں۔} یعنی اگر میاں بیوی میں صلح نہ ہوسکے اور طلاق واقع ہو جائے تو دونوں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر توکل کریں ، اللہ کریم ،عورت کو اچھا خاوند اور مرد کو اچھی بیوی عطا فرما دے گا اور وسعت بھی بخشے گا۔
عورت اور مرد بالکل ایک دوسرے کے محتاج نہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نہ عورت بالکل مرد کی محتاج ہے اور نہ مرد بالکل عورت کا حاجت مند، سب رب عَزَّوَجَلَّ کے حاجت مند ہیں ، ایک دوسرے کے بغیر کام چل سکتا ہے۔ عام طور پر طلاق کے بعد عورت اور اس کے گھر والے بہت غمزدہ ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر اگر یہ آیتِ مبارکہ بار بار پڑھی جائے تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دل کو تسکین ملے گی اور اللہ عَزَّوَجَلَّمناسب حل بھی عطا فرما دے گا۔ اس میں شوہروں کو بھی ہدایت ہے کہ وہ اپنے آپ کو بیویوں کے مالک و مختار نہ سمجھیں اور یہ نہ سمجھیں کہ اگر انہوں نے چھوڑ دیا تو اب کائنات میں کوئی ان عورتوں کا سہارا نہیں رہے گا۔ نہیں نہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کو سہارا دے گا۔اسی سلسلے میں یہاں ایک مفید وظیفہ پیشِ خدمت ہے۔ اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہرَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں ’’میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس بندے کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ یہ دعا پڑھ لے ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ اللّٰہُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا ‘‘تو اللہ تعالیٰ اسے مصیبت پر ثواب عطا فرمائے گا اورا س سے بہتر چیز اسے عطا کرے گا۔ فرماتی ہیں : جب میرے شوہر حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا انتقال ہو اتو میں نے یہی دعا پڑھی، اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بہترین شوہر یعنی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَعطا فرما دئیے۔(مسلم،کتاب الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ، ص۴۵۷، الحدیث: ۴(۹۱۸))
{اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ اَیُّهَا النَّاسُ: اے لوگو! اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے۔}اللہ عَزَّوَجَلَّ کائنات سے غنی ہے۔ ساری کائنات اس کی عبادت کرنے لگے تو اس کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوجاتا اور ساری دنیا اس کی نافرمان ہوجائے تو اس کی شان میں کوئی کمی نہیں آتی۔ وہ غنی، بے پرواہ ہے وہ چاہے تو تم سب کو فنا کردے اور دوسرے لوگوں کو لے آئے، تمہیں موت دے کر دوسری قوم کو یہاں آباد کردے جیسے فرعون کے ملک کادوسروں کومالک بنا دیا۔ اس کی شان بلند ہے اور وہ ہرشے پر قادر ہے۔ حضرت ابوذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے میرے بندو ! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں لہٰذا مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گااور تم سب فقیر ہو سوائے اس کے جسے میں غنی کردوں لہٰذا مجھ سے مانگو ، میں تمہیں روزی دوں گااور تم سب مجرم ہو سوائے اس کے جسے میں سلامت رکھوں تو تم میں سے جو یہ جان لے کہ میں بخش دینے پر قادر ہوں پھر مجھ سے معافی مانگے تو میں اسے بخش دوں گا اور پرواہ بھی نہ کروں گا اور اگر تمہارے اگلے پچھلے ، زندہ مردے ، ترو خشک سب میرے بندوں میں سے سب سے نیک بندے کے دل پر ہوجائیں (یعنی سارے انسان اس نیک آدمی کی طرح ہو جائیں ) تو یہ ان کی نیکی میرے ملک میں مچھر کے پر برابر اضافہ نہ کرے گی اور اگر تمہارے اگلے پچھلے زندہ مردے ترو خشک میرے بندوں میں سے بدبخت ترین آدمی کے دل کے مطابق ہو جائیں تو ان کے یہ جرم میرے ملک سے مچھر کے پر برابر کم نہ کریں گے اور اگر تمہارے پچھلے زندہ مردے تر و خشک ایک میدان میں جمع ہوں اور پھر تم میں سے ہر شخص اپنی انتہائی تمنا وآرزو مجھ سے مانگے پھر میں ہر مانگنے والے کو دیدوں تو یہ میرے ملک کے مقابل ایسے ہی کم ہوگا جیسے تم میں سے کوئی دریا پر گزرے اوراس میں سوئی ڈبو ئے پھر اسے اٹھائے (یعنی کچھ بھی کم نہ ہوگا۔) یہ اس لیے ہے کہ میں عطا کرنے والا ہوں ، بہت دینے والا ہوں ، جو چاہتا ہوں کرتا ہوں میری عطا کیلئے صرف میرا فرما دینا کافی ہے اور میرے عذاب کیلئے صرف میرا فرما دینا ہی کافی ہے۔ میرا حکم کسی شئے کے متعلق یہ ہے کہ جب کچھ چاہتا ہوں تو صرف اتنا فرماتا ہوں ’’ہوجا ‘‘تووہ ہوجاتی ہے ۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴۸-باب، ۴ / ۲۲۲، الحدیث: ۲۵۰۳)
{مَنْ كَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الدُّنْیَا: جو دنیا کا انعام چاہے۔}اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جس کو اپنے عمل سے دنیا مقصود ہوتو وہ دنیا ہی پاسکتا ہے لیکن وہ ثواب ِآخرت سے محروم رہتا ہے اور جس نے عمل رضائے الٰہی اور ثواب آخرت کے لئے کیا ہو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ دنیا و آخرت دونوں میں ثواب دینے والا ہے تو جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ سے فقط دنیا کا طالب ہو وہ نادان، خسیس اور کم ہمت ہے۔ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاس دنیا و آخرت سب کچھ ہے تو اس سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگو، مانگنے والے میں ہمت چاہیے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نہ تو دنیا کو اپنا اصل مقصود بنایا جائے کہ آخرت کو فراموش کر دے اور نہ بالکل ترکِ دنیا ہی کر دینی چاہیے۔
{ كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ: انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ۔} اس آیتِ مبارکہ میں عدل و انصاف کے تقاضے پورا کرنے کا اہم حکم بیان کیا گیا اور جو چیزیں آدمی کو ناانصافی کی طرف مائل کرنے کا سبب بن سکتی ہیں ان کو وضاحت کے ساتھ بیان کردیا کہ یہ چیزیں انصاف کرنے میں آڑے نہ آئیں۔ اقرباء پروری، رشتے داروں کی طرف داری کرنا، تعلق والوں کی رعایت کرنا، کسی کی امیری کی وجہ سے اس کی حمایت کرنا یا کسی کی غریبی پر ترس کھاکر دوسرے فریق پر زیادتی کردینا، یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں رکاوٹ ہیں ان سب کو شمار کروا کر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ فیصلہ کرتے ہوئے اور گواہی دیتے ہوئے جو صحیح حکم ہے اس کے مطابق چلو اور کسی قسم کی تعلق داری کا لحاظ نہ کرو حتّٰی کہ اگر تمہارا فیصلہ یا تمہاری گواہی تمہارے سگے ماں باپ کے بھی خلاف ہو تو عدل سے نہ ہٹو۔
حق فیصلے کی عظیم ترین مثال:
اس کی عظیم ترین مثال اس حدیثِ مبارک کی روشنی میں ملاحظہ کریں۔ حضرت
عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں ’’ قبیلہ قریش کی ایک عورت نے چوری کی تو اس کے خاندان
والوں نے حضرت اسامہ بن زید رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو نبی اکرمصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں سفارش کرنے
کے لئے کہا: حضرت اسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سفارش کی تو تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدوں میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش
کرتے ہو؟ پھر کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا، پھر فرمایا: تم سے پہلے لوگوں کو
اس بات نے ہلاک کیا کہ جب ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور
جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد(رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا) بھی چوری کر لیتی تو میں اس کابھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۵۶-باب، ۲ / ۴۶۸، الحدیث: ۳۴۷۵)
{اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: اللہ اور اس کے رسول پرایمان رکھو۔} یہاں اہلِ ایمان کو مخاطب کرکے فرمایا ’’اٰمِنُوْا‘‘ ’’ایمان لاؤ‘‘ اگر یہ خطاب حقیقی مسلمانوں کو ہے تو اس کا معنیٰ ہوگا کہ ایمان پر ثابت قدم رہو ۔اور اگر یہ خطاب یہود و نصاریٰ سے ہو تو معنیٰ یہ ہوں گے کہ اے بعض کتابوں اور بعض رسولوں پر ایمان لانے والو! تم مکمل ایمان لاؤ یعنی تمام کتابوں اور تمام رسولوں پر جن میں قرآن اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی داخل ہیں۔ اور اگر یہ خطاب منافقین سے ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اے ایمان کا ظاہری دعویٰ کرنے والو ! اخلاص کے ساتھ ایمان لے آؤ ۔ یہاں جو فرمایا گیا کہ رسول اور کتاب پر ایمان لاؤ تو رسول سے سیدُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور کتاب سے قرآنِ پاک مراد ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ اہلِ ایمان کا لفظ حقیقی معنیٰ کے اعتبار سے موجودہ زمانے میں صرف مسلمانوں پر بولا جاسکتا ہے، کسی اور مذہب والے پر خواہ وہ یہودی ہو یا عیسائی اس لفظ کو نہیں بول سکتے۔ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ تم اللہ عَزَّوَجَلَّپر اور اس کے رسول، محمد مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور قرآن پر اور اس سے پہلی ہر کتاب اور رسول پر ایمان لاؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے مگر عمل صرف قرآن شریف پر ہی ہوگا۔ ان کتابوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بھیجی ہوئی کتابیں ہیں۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: بیشک جو ایمان لائے۔} شانِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمانے فرمایا کہ یہ آیت یہود یوں کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے پھر بچھڑے کی پوجا کر کے کافر ہوئے پھر اس کے بعد ایمان لائے پھر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور انجیل کا انکار کرکے کافر ہوگئے پھر محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآن کا انکار کرکے اور کفر میں بڑھ گئے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی کہ وہ ایمان لائے پھرایمان کے بعد کافر ہوگئے پھر ایمان لائے یعنی انہوں نے اپنے ایمان کا اظہار کیا تاکہ ان پر مؤمنین کے احکام جاری ہوں پھر کفر میں بڑھے یعنی کفر پر ان کی موت ہوئی۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ۱ / ۴۴۰)
ان کے متعلق فرمایا گیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں نہیں بخشے گا یعنی جبکہ یہ کفر پر رہیں اور کفر پر مریں کیونکہ کفر بخشا نہیں جاتا مگر جب کہ کافر توبہ کرے اور ایمان لائے توبخشش کا مستحق ہوگیا جیسا کہ ایک اور مقام پر فرمایا:
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ(انفال:۳۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:تم کافروں سے فرماؤ اگر وہ باز رہے تو جو ہو گزرا وہ انہیں معاف فرمادیا جائے گا۔
حدیث شریف میں ہے’’اسلام سارے سابقہ گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب کون الاسلام یہدم ما قبلہ۔۔۔ الخ، ص۷۴، الحدیث: ۱۹۲(۱۲۱))
{اَلَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ:وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔} اس سے پہلی آیتِ مبارکہ میں منافقوں کیلئے دردناک عذاب کی وعید بیان کی گئی ہے اور پھر منافقوں کی ایک کرتوت بھی بیان کی گئی ہے کہ یہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اسلام غالب نہ ہوگا اور اس لئے وہ کفار کو صاحبِ قوت و شوکت سمجھ کر ان سے دوستی کرتے تھے اور ان سے ملنے میں عزت جانتے تھے حالانکہ کفار کے ساتھ دوستی ممنوع ہے اور ان سے ملنے میں عزت سمجھنا باطل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کافروں سے محبت اور دوستی رکھنا منافقوں کی علامت ہے خصوصاً مسلمانوں کے مقابلہ میں۔ ایسے سب لوگوں کے متعلق فرمایا جارہا ہے کہ کیا یہ لوگوں کے پاس جاکر عزت تلاش کرتے ہیں حالانکہ تمام عزتوں کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّہے تو وہی خداوند ِ کریم ہی عزت والا ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے وہ عزت والے جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّعزت دے جیسے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور مؤمنین۔ منافقوں کے مذکورہ بالا طرزِ عمل کو سامنے رکھ کر آج دنیا کے حالات کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ مرض آج کل بکثرت پایا جارہا ہے، اپنوں کو چھوڑ کر بیگانوں سے دوستیاں ، مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے پیار، باہمی اتحاد سے عزت حاصل کرنے کی بجائے کفار کے قدموں میں بیٹھ کر عزت حاصل کرنے کی کوشش کرنامسلمان قوم میں کس طرح سرایت کئے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
{وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ: اور بیشک اللہ تم پر کتاب میں یہ حکم نازل فرماچکا ہے۔} اِس آیتِ مبارکہ میں واضح طور پر فرما دیا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں جب وہ اِس خبیث فعل میں مصروف ہوں تو ان کے پاس نہ بیٹھو بلکہ حکم یہ ہے کہ ایسی جگہ پر جاؤ ہی نہیں اور اگر جانا پڑجائے تو جب ہاتھ سے روکنا ممکن ہو تو ہاتھ سے روکو اور اگر زبان سے روک سکتے ہو تو زبان سے روکو اور اگر یہ بھی نہ کرسکو تو دل میں اس حرکت سے نفرت کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ جاؤ اور ان کی ہم نشینی ہرگز اختیار نہ کرو کیونکہ جب قرآن، شریعت یا دین کا مذاق اڑایا جارہا ہو اور اس کے باوجود کوئی آدمی وہاں بیٹھا رہے تو یاتو یہ خود اِس فعل میں مبتلا ہوجائے گا یا ان کی صحبت کی نحوست سے متاثر ہوگا یا کم از کم اتناتو ثابت ہوہی جائے گا کہ اِس شخص کے دل میں بھی دین کی قدر و قیمت نہیں ہے کیونکہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قرآنِ مجید اور دین مبین سے محبت ہوتی تو جہاں اِن کا مذاق اڑایا جارہا ہے وہاں ہرگز نہ بیٹھتا کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ جہاں آدمی کے پیارے کو برا کہا جائے وہاں وہ نہیں بیٹھتا جیسے کسی کے ماں باپ کو جس جگہ گالی دی جائے وہاں بیٹھنا آدمی برداشت نہیں کرسکتا۔ تو جب ماں باپ کی توہین اور گالی والی جگہ پر بیٹھناآدمی کو گوارا نہیں تو جہاں اللہ تعالیٰ، رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآن و دین کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہاں کوئی مسلمان کیسے بیٹھ سکتا ہے؟ کیا مَعَاذَاللہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی قدر ماں باپ کے بھی برابر نہیں ہے۔
اس آیت سے وہ لوگ سبق حاصل کریں جو فلموں ، ڈراموں ، گانوں ،تھیٹروں ، دوستوں کی گپوں اور بدمذہبوں کی صحبتوں میں دین کا مذاق اڑتا ہوا دیکھتے ہیں اور پھر بھی وہاں بیٹھتے رہتے ہیں بلکہ مَعَاذَاللہان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہوتے ہیں۔ بری صحبت کے بارے میں احادیث بکثرت ہیں۔ ان میں سے 5 احادیث درج ذیل ہیں:
(1)…رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’برے ساتھی سے بچ کہ تو اسی کے ساتھ پہچانا جائے گا (یعنی جیسے لوگوں کے پاس آدمی کی نشست وبرخاست ہوتی ہے لوگ اسے ویساہی جانتے ہیں۔)(ابن عساکر، الحسین بن جعفر بن محمد بن حمدان۔۔۔ الخ، ۱۴ / ۴۶)
(2)…حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: نیک اور برے ہم نشین کی مثال ایسی ہے جیسے ایک کے پاس مشک ہے اور دوسرا دھونکنی دھونک رہا ہے مشک والا یا تو تجھے مشک ویسے ہی دے گا یاتو اس سے خرید لے گا اور کچھ نہ سہی تو خوشبو توآئے گی اور وہ دوسرا تیرے کپڑے جلادے گا یاتو اس سے بدبوپائے گا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب فی العطار وبیع المسک، ۲ / ۲۰، الحدیث: ۲۱۰۱)
(3)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جو کسی بد مذہب کوسلام کرے یا اس سے بکشادہ پیشانی ملے یا ایسی بات کے ساتھ اس سے پیش آئے جس میں اس کا دل خوش ہو تواس نے اس چیز کی تحقیر کی جو اللہ تعالیٰ نے محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اتاری۔(تاریخ بغداد، ۵۳۷۸- عبد الرحمٰن بن نافع، ابوزیاد المخرّمی۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۲۶۲)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا: ’’تم ان سے دور رہو اور وہ تم سے دور رہیں کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور فتنے میں نہ ڈال دیں۔(صحیح مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحمّلہا، ص۹، الحدیث: ۷(۷))
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عالیشان ہے :’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی کررہا ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۴۵-باب، ۴ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۳۸۵)
مولانا معنوی قدّس سرّہ فرماتے ہیں :
صحبت صالح تُرا صالح کُنَد
صحبت طالح تُرا طالح کند
یعنی اچھے آدمی کی صحبت تجھے اچھا کر دے گی اور برے آدمی کی صحبت تجھے برا بنا دے گی۔[1]
1…اچھی صحبت اور نیک ماحول پانے کے لئے دعوت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہوجائیے۔
{اَلَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ: وہ جو تم پر انتظار کرتے ہیں۔} یہاں منافقوں کی حالت کا بیان ہے کہ اے مسلمانو! یہ منافق تمہارے اوپر گردشِ زمانہ کا انتظار کرتے ہیں پھر اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے تمہیں فتح ملے تو مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ لہٰذا ہمیں بھی مالِ غنیمت دو۔ اور اگر کافروں کوفتح نصیب ہوجائے تو ان سے کہتے ہیں کہ کیا ہم تم پر غالب نہ تھے کہ تمہیں پکڑ سکتے تھے مگر پھر بھی ہم نے تمہیں نہ پکڑ کرتمہاری مدد کی اور ہم نے مسلمانوں کو تم سے روکے رکھا لہٰذا ہمارا حصہ دو۔ الغرض منافقوں کی زندگی صرف اپنے مفاد کے گرد گھومتی ہے وہ کسی کے ساتھ بھی حقیقی طور پر مخلص نہیں۔
{اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ: بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دینا چاہتے ہیں۔} یہاں منافقوں کی ایک اور
بری خصلت کا بیان ہے وہ یہ کہ یہ اپنے گمان میں اللہ تعالیٰ
کو دھوکا دینا چاہتے ہیں ، حقیقتاً تو مسلمانوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں کیونکہ
حقیقت میں تو اللہ تعالیٰ کو فریب
دینا ممکن نہیں۔ ان کے اس فریب کا جواب انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ دے گا کہ انہیں غافل کرکے مارے گا، دنیا میں
انہیں رسوا کرے گا اور قیامت میں انہیں عذاب میں مبتلا کرے گا۔ ان منافقوں کی
علامت یہ ہے کہ جب مؤمنین کے ساتھ نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو مرے دل سے او ر
سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں ایمان تو ہے نہیں جس سے
عبادت کا ذوق اور بندگی کا لطف انہیں حاصل ہوسکے ،محض لوگوں کو دکھانے کیلئے نماز
پڑھتے ہیں۔
نماز میں سستی کرنا منافقوں کی علامت ہے:
اس
سے معلوم ہوا کہ نماز میں سستی کرنا منافقوں کی علامت ہے ۔نماز نہ پڑھنایا صرف
لوگوں کے سامنے پڑھنا جبکہ تنہائی میں نہ پڑھنا یالوگوں کے سامنے خشوع و خضوع سے
اور تنہائی میں جلدی جلدی پڑھنایا نماز میں ادھر ادھر خیال لیجانا، دلجمعی کیلئے
کوشش نہ کرنا وغیرہ سب سستی کی علامتیں ہیں۔
نماز میں خشوع و خضوع
پیدا کرنے کا آسان نسخہ:
کسی نے حضرت حاتم
اصم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ان کی نماز کے
بارے میں پوچھا تو فرمایا: جب نماز کا وقت قریب آتا ہے تو میں کامل وضو کرتا ہوں
پھر جس جگہ نماز ادا کرنے کا ارادہ ہوتا ہے وہاں آ کر اتنی دیر بیٹھ جاتا ہوں کہ
میرے اَعضا اکٹھے ہو جائیں، اس کے بعد یہ تصور باندھ کر نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں
کہ کعبہ معظمہ میرے سامنے ہے، پل صراط میرے قدموں کے نیچے ہے، جنت میرے دائیں طرف
اور جہنم بائیں طرف ہے، مَلَکُ الْموت عَلَیْہِ السَّلَام میرے پیچھے کھڑے ہیں اور میرا یہ گمان ہوتا
ہے کہ یہ میری آخری نماز ہے، پھر میں امید اور خوف کے درمیان قیام کرتا ہوں اور
جیسے تکبیر کہنی چاہئے ویسے تکبیر کہتا ہوں اور ٹھہر ٹھہر کر قراءت کرتا ہوں ،
عاجزی کے ساتھ رکوع کرتا ہوں ، ڈرتے ہوئے سجدہ کرتا ہوں، بائیں پنڈلی پر بیٹھ کر
اپنے قدم کا پچھلا حصہ بچھا دیتا ہوں اور دایاں قدم انگوٹھے پر کھڑا کر دیتا ہوں ،
پھر اخلاص کے ساتھ باقی افعال ادا کرتا ہوں اب میں نہیں جانتا کہ میری نماز قبول
بھی ہوئی یا نہیں۔(احیاء العلوم، کتاب اسرار الصلاۃ ومہماتہا، الباب
الاول، فضیلۃ الخشوع، ۱ / ۲۰۶)
{مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ: درمیان میں ڈگمگا رہے ہیں۔} یعنی منافقین کفر اور ایمان کے درمیان ڈگمگارہے ہیں کیونکہ نہ تو یہ حقیقی طور پر مومن اور مخلص ایمان والوں کے ساتھ ہیں اور نہ واضح طور پر کافر اور صریح شرک کرنے والوں کے ساتھ ہیں اور اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان منافقین کے راہِ راست پر آنے کی امید نہ رکھیں کیونکہ جسے ہدایت و توفیق کی لیاقت نہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے تو آپ ا س کے لئے کوئی ایسا راستہ نہ پائیں گے جس پر چل کر وہ حق تک پہنچ سکے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱ / ۴۴۲، روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۳۰۸، ملتقطاً)
{اَوْلِیَآءَ: دوست۔} اس آیت میں مسلمانوں کو بتایا گیا کہ کفار کو دوست بنانا منافقین کی خصلت ہے ، لہٰذا تم اس سے بچو۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ کافروں کو دوست بنا کر منافقت کی راہ اختیار کرو اور یوں اپنے خلاف اللہ تعالیٰ کی حجت قائم کرلو۔
{اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ:بیشک منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہیں۔}ارشاد فرمایا کہ بیشک منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے اور تو ہرگز ان کا کوئی مددگار نہ پائے گا جو انہیں عذاب سے بچا سکے اور جہنم کے سب سے نچلے طبقے سے انہیں باہرنکال سکے۔ (روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۲ / ۳۰۹)
یاد رہے کہ منافق کا عذاب کافر سے بھی زیادہ ہے کیونکہ وہ دنیا میں خود کو مسلمان کہہ کرکے مجاہدین کے ہاتھوں سے بچا رہاہے اور کافر ہونے کے باوجود مسلمانوں کو دھوکہ دینا اور اسلام کے ساتھ اِستِہزاء کرنا اس کا شیوہ رہا ہے۔
{اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا:مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفاق سے توبہ کر لی اور اپنے فاسد احوال کی اصلاح کر لی اور اللہ تعالیٰ کے دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا اور اپنا دین خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کرلیا اور اس کی اطاعت میں صرف اسی کی رضا چاہی تو ایسے لوگ جنت کے بلند درجات میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور انہیں ان کا سابقہ نفاق کوئی نقصان نہ دے گا اور عنقریب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بڑا ثواب دے گا جس میں یہ نفاق سے سچی توبہ کرنے والے بھی شریک ہوں گے اور اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن جاؤ اور ا س پرایمان لاؤتو اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ شکر گزار مسلمانوں کی قدر کرنے والا اور انہیں جاننے والاہے۔ (روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۶-۱۴۷، ۲ / ۳۰۹-۳۱۱)
{لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ:بری بات کا اعلان کرنااللہ پسند نہیں کرتا۔}ایک قول یہ ہے کہ بری بات کے اعلان سے مراد کسی کے پوشیدہ معاملات کو ظاہر کرنا ہے جیسے کسی کی غیبت کرنا یا کسی کی چغلی کھانا وغیرہ۔(جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۲ / ۱۴۴)
یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ کوئی شخص کسی کے پوشیدہ معاملات کو ظاہر کرے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ بری بات کے اعلان سے مراد گالی دینا ہے۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ص۲۶۱)
یعنی اللہ تعالیٰ اس بات کوپسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو گالی دے۔
ایک دوسرے کو گالی دینے کی مذمت:
گالی دینا گناہ اور مسلمان کی شان سے بعید ہے۔ اس کے بارے میں 3 اَحادیث درج ذیل ہیں۔
(1)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ اسے گالی دیتا ہے۔ (شرح السنہ، کتاب البر والصلۃ، باب الستر، ۶ / ۴۸۹، الحدیث: ۳۴۱۲)
(2)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفرہے۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لا ترجعوا بعدی کفّاراً۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۳۴، الحدیث: ۷۰۷۶)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: آپس میں گالی دینے والے دو آدمی جو کچھ کہیں تووہ (یعنی اس کا وَبال) ابتداء کرنے والے پر ہے جب تک کہ مظلوم حد سے نہ بڑھے۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النہی عن السباب، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۸(۲۵۸۷))
بری بات کا اعلان اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پسند نہیں البتہ مظلوم کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ ظالم کے ظلم کو بیان کرے، لہٰذا وہ چور یا غاصب کی نسبت کہہ سکتا ہے کہ اس نے میرا مال چرایایا غصب کیاہے۔ (جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۲ / ۱۴۵)
اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک شخص ایک قوم کا مہمان ہوا تھا اور انہوں نے اچھی طرح اس کی میزبانی نہ کی، جب وہ وہاں سے نکلا تو اُن کی شکایت کرتا ہوانکلا ۔ (بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۲ / ۲۷۲)
اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے متعلق نازل ہوئی۔ ایک شخص سرورِ کائناتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سامنے حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان میں زبان درازی کرتا رہا، حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خاموش رہے مگر وہ باز نہ آیا تو ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کو جواب دیدیا، اس پر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کیا، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ شخص مجھے برا بھلا کہتا رہا تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے کچھ نہ فرمایا اور میں نے ایک مرتبہ جواب دیا تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اٹھ گئے۔ ارشاد فرمایا ’’ ایک فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا اور جب تم نے جواب دیا تو فرشتہ چلا گیا اور شیطان آگیا۔ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۱ / ۴۴۴)
مہمان نوازی سے خوش نہ ہونے والوں کو نصیحت:
پہلے یعنی مہمان نوازی والے شانِ نزول کو لیں تو اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو میزبان کی مہمان نوازی سے خوش نہیں ہوتے اگرچہ گھر والے نے کتنی ہی تنگی سے کھانے کا اہتمام کیا ہو۔ خصوصاً رشتے داروں میں اور بِالخُصوص سسرالی رشتے داروں میں مہمان نوازی پر شکوہ شکایت عام ہے۔ ایک کھانا بنایا تو اعتراض کہ دو کیوں نہیں بنائے؟ دو بنائے تو اعتراض کہ تین کیوں نہیں بنائے؟ نمکین بنایا تو اعتراض کہ میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ میٹھا بنایا تو اعتراض کہ فلاں میٹھا کیوں نہیں بنایا؟ الغرض بہت سے مہمان ظلم و زیادتی اور ایذاء رَسانی سے باز نہیں آتے اور ایسے رشتے داروں کو دیکھ کر گھر والوں کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ حدیثِ مبارک میں مہمان کو حکم دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے، صحابۂ کرام رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا ہو گا اور حال یہ ہو گا کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جس سے وہ اس کی مہمان نوازی کر سکے۔(مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃ ونحوہا، ص۹۵۱، الحدیث: ۱۵(۱۷۲۶))
ظالم کے ظلم کو بیان کرنا جائز ہے:
آیت میں مظلوم کو ظلم بیان کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مظلوم، حاکم کے سامنے ظالم کی برائی بیان کر سکتا ہے، یہ غیبت میں داخل نہیں۔ اس سے ہزارہا مسائل معلوم ہو سکتے ہیں۔ حدیث کے راویوں کا فسق یا عیب وغیرہ بیان کرنا، چور یا غاصب کی شکایت کرنا، ملک کے غداروں کی حکومت کو اطلاع دینا سب جائز ہے۔ غیبت کے جواز کی جتنی بھی صورتیں ہیں وہ سب کسی نہ کسی بڑے فائدے کی وجہ سے ہیں۔
{اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا: اگر تم کوئی بھلائی اعلانیہ کرو۔} ارشاد فرمایا کہ اگر تم کوئی نیک کام اِعلانیہ کرو یا چھپ کریا کسی کی برائی سے درگزر کر و تو یہ افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سزا دینے پر ہر طرح سے قادر ہونے کے باوجود اپنے بندوں کے گناہوں سے درگزر کرتا اور انہیں معاف فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اپنے اوپر ظلم وستم کرنے والوں کو معاف کر دواور لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرو۔(تفسیر سمرقندی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۹، ۱ / ۴۰۱، روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۱۴۹، ۲ / ۳۱۲، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ظالم سے بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے لیکن ظالم سے بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود اس کے ظلم پر صبر کرنا اور اسے معاف کر دینا بہتر اور اجر و ثواب کا باعث ہے ،اسی چیز کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖؕ-وَ لَىٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ(نحل: ۱۲۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر تم (کسی کو) سزا دینے لگو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہو اور اگر تم صبر کرو تو بیشک صبر والوں کیلئے صبر سب سے بہتر ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ(شورٰی:۴۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور بیشک جس نے صبر کیااورمعاف کر دیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(شورٰی:۴۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(نور:۲۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور انہیں چاہیے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں ، کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری بخشش فرما دے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔(مستدرک، کتاب الحدود، اول سارق قطعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۵۴۶، الحدیث: ۸۲۱۶)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے عرض کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تیرے بندوں میں سے کون تیری بارگاہ میں زیادہ عزت والا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’وہ بندہ جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود معاف کر دے۔(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ترک الغضب۔۔۔ الخ، ۶ / ۳۱۹، الحدیث: ۸۳۲۷)
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مخلوقِ خدا پر شفقت و رحم کرنا اللہعَزَّوَجَل کو بہت محبوب ہے ۔ اَحادیث میں لوگوں پر شفقت و مہربانی اور رحم کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ترغیب کے لئے 4اَحادیث درجِ ذیل ہیں :
(1)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں کی بادشاہت کا مالک تم پر رحم کرے گا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ المسلمین، ۳ / ۳۷۱، الحدیث: ۱۹۳۱)
(2)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے ،نہ اس کی مدد چھوڑے اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت (پوری کرنے کی کوشش) میں ہو اللہ عَزَّوَجَلَّاس کی حاجت پوری فرما دیتا ہے اور جو شخص مسلمان سے کسی ایک تکلیف کو دور کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کی تکالیف میں سے اس کی ایک تکلیف دور کرے گا اور جو شخص مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا،اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ (بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلمُ المسلمَ ولا یسلمہ، ۲ / ۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۲)
(3)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے اورہمارے بڑے کی توقیر نہ کرے اوراچھی بات کا حکم نہ دے اور بری بات سے منع نہ کرے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، ۳ / ۳۶۹، الحدیث: ۱۹۲۸)
(4)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں اچھا وہ شخص ہے جس سے بھلائی کی امید ہو اور جس کے شر سے امن ہو اور تم میں برا وہ شخص ہے جس سے بھلائی کی امید نہ ہو اور جس کے شر سے امن نہ ہو۔(ترمذی، کتاب الفتن، ۷۶-باب، ۴ / ۱۱۶، الحدیث: ۲۲۷۰)
{ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ: اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں میں فرق کریں۔} یہ آیتِ مبارکہ یہود و نصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی کہ یہودی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام پر ایمان لائے لیکن حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور امامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ انہوں نے کفر کیا اور عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے لیکن انہوں نے سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کیا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۱ / ۴۴۴)
ان کے متعلق فرمایا کہ یہ لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے میں فرق کرتے ہیں اس طرح کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لائیں اور اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نہ لائیں اور انہی کے متعلق فرمایا کہ یہ پکے کافر ہیںکیونکہ صرف بعض رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر ایمان لانا کفر سے نہیں بچاتا بلکہ سب پر ایمان لانا ضروری اور ایک نبی کا انکار بھی تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے انکار کے برابر ہے۔
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ: اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے۔} یہاں آیت میں ایمان والوں سے اجرو ثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے اور اس میں کبیرہ گناہوں کا مُرْتَکِب بھی داخل ہے کیونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان رکھتا ہے۔
کبیرہ گناہ کرنے والا کافر نہیں :
مُعتَزِلہ فرقے والے کبیرہ گناہ کرنے والوں کیلئے ہمیشہ کے عذاب ِ جہنم کا عقیدہ رکھتے ہیں ، اس آیت سے ان کے اس عقیدہ کا بطلان (یعنی غلط ہونا) ثابت ہوگیا۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا(حجرات: ۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں۔
اس سے بھی معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کفر نہیں کیونکہ جنگ و جِدال گنا ہ ہے لیکن دونوں گروہوں کو مومن فرمایا گیا۔ نیز صحیح بخاری میں ہے، حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سفید کپڑے پہن کر آرام فرما رہے تھے ،پھر میں دوبارہ حاضر ہوا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیدار ہو چکے تھے ،چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو بندہ یوں کہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی وعدے پر اس کا انتقال ہو جائے تو وہ جنت میں داخل ہوا۔ میں نے عرض کی: خواہ ا س نے زنا یا چوری کی، ارشاد فرمایا ’’خواہ ا س نے زنا یا چوری کی۔ میں نے پھر عرض کی :اگرچہ وہ زنا یا چوری کرے! ارشاد فرمایا ’’اگرچہ وہ زنا یا چوری کرے ،میں نے پھرعرض کی: خواہ ا س نے زنا یا چوری کی، ارشاد فرمایا ’’خواہ ا س نے زنا یا چوری کی،خواہ ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو جائے۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب الثیاب البیض، ۴ / ۵۷، الحدیث: ۵۸۲۷)
اور حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میری شفاعت میری امت کے ان لوگوں کے لئے ہے جو کبیرہ گناہوں کے مُرْتَکِب ہوں۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۱۱-باب منہ، ۴ / ۱۹۸، الحدیث: ۲۴۴۴)
ان اَحادیث سے بھی معلوم ہو ا کبیرہ گناہ کرنے والا کافر نہیں کیونکہ کافر نہ تو کبھی جنت میں جائے گا اور نہ ہی سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی شفاعت فرمائیں گے بلکہ جنت میں صرف مسلمان جائیں گے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شفاعت بھی صرف مسلمانوں کو نصیب ہو گی اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوں۔
یاد رہے کہ اہلِ سنت کا اِجماع ہے کہ مومن کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا، چنانچہ شرح عقائدِ نَسْفِیَہ میں ہے ’’نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے سے لے کر آج تک امت کااس بات پر اجماع ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے جو شخص بغیر توبہ کے مر گیا تو اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے لئے دعا و اِستغفار بھی کی جائے گی اگرچہ اس کا گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہونا معلوم ہو حالانکہ اس بات پر پہلے ہی امت کا اتفاق ہے کہ مومن کے علاوہ کسی اور کے لئے نمازِ جنازہ اور دعا ء و استغفار جائز نہیں۔(شرح عقائد نسفیہ، مبحث الکبیرۃ، ص۱۱۰)
شرح فِقہِ اکبر میں ہے ’’ہم خارجیوں کی طرح کسی گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کریں گے اگرچہ وہ گناہِ کبیرہ ہو البتہ اگر وہ کسی ایسے گناہ کو حلال جانے جس کی حرمت قطعی دلیل سے ثابت ہو تو وہ کافر ہے، اور ہم معتزلہ کی طرح کسی کبیرہ گناہ کرنے والے سے ایمان کاوصف ساقط نہیں کریں گے اور کبیرہ گناہ کرنے والے کو حقیقی مومن کہیں گے کیونکہ اہلِ سنت و جماعت کے نزدیک ایمان دل سے تصدیق کرنے اور زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے جبکہ عمل کا تعلق کمالِ ایمان سے ہے ۔(شرح فقہ اکبر، الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الایمان، ص۷۱ و۷۴)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ آدمی حقیقۃً کسی بات سے مشرک نہیں ہوتا جب تک غیرِ خدا کو معبود یا مُستَقِل بِالذّات وواجب الوجود نہ جانے۔ بعض نصوص میں بعض افعال پر اطلاقِ شرک تَشبیہاًیا تَغلیظاً یا بارادہ و مقارنت باعتقاد منافی توحید وامثال ذلک من التاویلات المعروفۃ بین العلماء وارد ہوا ہے، جیسے کفر نہیں مگر انکارِ ضروریاتِ دین اگرچہ ایسی ہی تاویلات سے بعض اعمال پر اطلاقِ کفر آیا ہے یہاں ہر گز علی الاطلاق شرک وکفر مصطلح علم عقائد کہ آدمی کو اسلام سے خارج کردیں اور بے توبہ مغفور نہ ہوں زنہار مراد نہیں کہ یہ عقیدۂ اجماعیۂ اہلسنّت کے خلاف ہے، ہر شرک کفر ہے اور کفر مزیلِ اسلام، اور اہلسنّت کا اجماع ہے کہ مومن کسی کبیرہ کے سبب اسلام سے خارج نہیں ہوتا ایسی جگہ نصوص کو علی اطلاقہا کفر وشرک مصطلح پر حمل کرنا اشقیائے خوارج کا مذہب مطرود ہے۔(فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۱۳۱)
خلاصہ عبارت یہ ہے کہ آدمی صرف دو چیزوں سے مشرک ہوتا ہے (1) غیرِ خدا کو معبود ماننے سے ، (2) اللہ کے علاوہ کسی کو مستقل بِالذّات ماننے سے۔ا ن دوچیزوں کے علاوہ کسی تیسری چیز سے آدمی حقیقتاً مشرک نہیں ہوتا۔ اور بعض اَحادیث وغیرہ میں جو کچھ کاموں کو بغیر کسی قید کے شرک یا کفر کہا گیا ہے ان کی تاویلات و تَوجِیہات علماء میں مشہور ہیں یعنی یا تو وہاں کفر و شرک سے تشبیہ مراد ہوتی ہے یااس کام پر شریعت نے شدت ظاہر کرنے کیلئے لفظ ِ شرک استعمال کیا ہوتاہے یا وہاں شرک سے مراد وہ صورت ہوتی ہے کہ جب اس فعل کے ساتھ کوئی ایسا ارادہ یا اعتقاد ملا ہو جو توحید کے منافی ہو۔ (جیسے غیر خدا کو سجدہ کرنا مطلقاً شرک نہیں لیکن اگر اس کے ساتھ ارادہ ٔ شرک موجود ہو تو یقینا شرک ہے۔) تو غیر شرک کو جہاں شرک کہا گیا ہو وہاں وہ حقیقی کفر و شرک مراد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے خارج اور بغیر توبہ کے مرنے پر دائمی جہنمی قرار پائے کیونکہ اہلسنّت کا اجماع ہے کہ مسلمان کبیرہ گناہ کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ قرآن و حدیث کی مذکورہ بالا قِسم کی تصریحات کو ہماری بیان کردہ تفصیل کے ملحوظ رکھے بغیر حقیقی کفر و شرک قرار دینا خارجیوں کا مردود مذہب ہے۔
{یَسْــٴَـلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ:اہلِ کتاب آپ سے سوال کرتے ہیں۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہودیوں میں سے کعب بن اشرف اور فنحاص بن عازوراء نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے عرض کیا کہ اگر آپ نبی ہیں تو ہمارے پاس آسمان سے یکبارگی کتاب لائیے جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامتوریت لائے تھے۔ ان کایہ سوال ہدایت حاصل کرنے کے لئے نہ تھا بلکہ سرکشی و بغاوت کی وجہ سے تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۳، ۱ / ۴۴۵)
اور سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی کے طور پر فرمایا گیا کہ آپ ان کے سوالوں پر تعجب نہ کریں کہ یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے یکبارگی قرآن نازل ہونے کا سوال کرتے ہیں کیونکہ یہ سوال ان کی کمال درجے کی جہالت کی وجہ سے ہے اور اس قسم کی جہالتوں میں ان کے باپ دادا بھی گرفتار تھے۔ اگر ان کا سوال طلبِ ہدایت کے لئے ہوتا توپھر دیکھا جاتا مگر وہ تو کسی حال میں ایمان لانے والے نہ تھے۔ ان کے باپ داداؤں کے ایسے کردار کی وضاحت کیلئے ان کی دو حرکتوں کو بیان کیا جاتا ہے ۔ ایک یہ کہ اُنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے کوہ ِ طور پر تشریف لے جانے کے بعد بچھڑے کو معبود بنالیا اور دوسری بات یہ کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مطالبہ کیا کہ ہم آپ کااس وقت تک یقین نہیں کریں گے جب تک آپ ہمیں خدا اعلانیہ دکھا نہ دیں۔ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے تو یہ مطالبہ ہے کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یکبارگی کتاب نازل کروائیں تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کریں گے لیکن جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر یکبارگی تورات نازل ہوئی تو بجائے اطاعت کرنے کے اُنہوں نے خدا عَزَّوَجَلَّکے دیکھنے کا سوال کردیا اور اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ نہ کرنے کے سو بہانے ہوتے ہیں۔
{وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى
سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا: اور ہم نے موسیٰ کو روشن
غلبہ عطا فرمایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو روشن
غلبہ وتَسلُّط عطا فرمایا گیا کہ جب آپ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بنی اسرائیل کو توبہ کے
لئے خود ان کے اپنے قتل کا حکم دیا تو وہ انکار نہ کرسکے اور انہوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت کی۔
{وَ رَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّوْرَ: پھرہم نے ان پر کوہِ طور کو بلند کر دیا۔} یہودیوں کے متعلق مزید تین باتوں کا بیان کیا جارہا ہے۔ پہلی یہ کہ ان سے تورات پر عمل کرنے کا عہد لینے کیلئے کوہِ طور کو ان کے سروں پر مُعَلَّق کردیا۔ دوسری بات یہ کہ بیتُ المقدس یا اَرِیْحَانامی بستی کے دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے گزرنے کا حکم دیا جس کی انہوں نے نافرمانی کی۔ تیسری بات یہ کہ انہیں ہفتے کے دن شکار کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن انہوں نے تینوں باتوں میں خلاف ورزی کی اور اللہ عَزَّوَجَلَّسے مضبوط عہد کرکے توڑ دیا۔
{فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ: تو ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے۔} یہاں سے اہلِ کتاب کے جرائم کی ایک فہرست اور اس پر غضبِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا بیان شروع ہے۔ یہودیوں کے جرائم کی فہرست طویل ہے۔ اس آیت اور اس سے اگلی آیات میں ان کے نصف درجن سے زائد جرائم بیان کئے گئے ہیں :
(1)… یہودیوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کئے ہوئے عہد کو توڑا۔ اس کی تفصیل اس سے گزشتہ آیت میں گزر چکی۔
(2)…یہودیوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیوں کا انکار کیا جو انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی صداقت پر دلالت کرتی تھیں جیسا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامکے معجزات۔
(3)… یہودیوں نے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو شہید کیا اور یہودی خود سمجھتے تھے کہ ان کا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو شہید کرنا ناحق ہی تھا۔
(4)… یہودیوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ ہمارے دلوں پرغلاف چڑھے ہوئے ہیں ، چونکہیہ بھی ان کا جھوٹ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی دعوت کو ٹھکرانا تھا لہٰذا یہ بھی سبب ِ عذاب ہوا۔ پانچواں اور چھٹا جرم اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔
{بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ: بلکہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی۔}ارشاد فرمایا کہ یہودی کہتے ہیں ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے لہٰذا کوئی وعظ ونصیحت ان کے دلوں پر کارگر نہیں ہوسکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفر اور بد کاریاں دل پر مہر لگ جانے کا باعث ہوجاتی ہیں۔
{وَ بِكُفْرِهِمْ: اور ان کے کفر کی وجہ سے۔} یہودیوں کا پانچواں جرم یہ تھا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کفر کیا اور ان کا چھٹا جرم یہ تھا کہ انہوں نے حضرت مریم رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا پر تہمت لگائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکدامن عورت پر تہمت لگانا سخت گناہ ہے اور خصوصاً کسی مقدس عورت پر اور مقدس نسبت رکھنے والی پر تہمت لگانا اور بھی زیادہ سنگین ہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا پر تہمت لگانے والوں کی مذمت زیادہ بیان کی گئی۔
{وَ قَوْلِهِمْ: اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے۔} اس آیت میں یہودیوں کے ساتویں سنگین جرم کا بیان کیا گیا کہ یہودیوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کردیا ہے اور عیسائیوں نے اس کی تصدیق کی تھی اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی تکذیب فرما دی۔ کیونکہ واقعہ یوں ہوا کہ جو منافق شخص یہودیوں کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پتہ دینے کے لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے گھر میں داخل ہوا وہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا ہم شکل ہو گیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آسمان پر تشریف لے گئے۔ یہودیوں نے اسی منافق کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دھوکے میں سولی دے دی لیکن پھر خود بھی حیران تھے کہ ہمارا آدمی کہا ں گیا نیز اس کا چہرہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جیسا تھا اور ہاتھ پاؤں مختلف۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ص۲۶۳-۲۶۴)
اس کا ذکر ا س آیتِ کریمہ میں ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ شک میں پڑگئے اور یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ مقتول کون ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ یہ مقتول حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ چہرہ تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے لیکن جسم حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نہیں ،لہٰذا یہ وہ نہیں۔ یہودیوں کی پیروی میں آج کل قادیانی بھی اسی جہالت میں گرفتا ر ہیں۔
{بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِ: بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا تھا۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحیح سلامت آسمان پر اٹھائے جانے کے متعلق بکثرت اَحادیث وارد ہیں۔ اس کا کچھ بیان سورۂ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 55 کے تحت تفسیر میں گزر چکا ہے۔
{اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ: مگر وہ اس پر ایمان لائے گا۔} اس آیت کی تفسیر میں چند اقوال ہیں۔ایک قول یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ کو اپنی موت کے وقت جب عذاب کے فرشتے نظر آتے ہیں تو وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر ایمان لے آتے ہیں اور اس وقت کا ایمان مقبول و معتبر نہیں۔(قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۳ / ۲۹۸، الجزء الخامس، جلالین، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ص۹۱، ملتقطاً)
لیکن یہ قول ضعیف ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آیت کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہر کتابی اپنی موت سے پہلے اللہ تعالیٰ یا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے گا لیکن موت کے وقت کا ایمان مقبول نہیں ، اور اس سے کچھ نفع نہ ہوگا۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۹،۱ / ۳۹۷)
تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی وفات سے پہلے ہر یہودی اور عیسائی اور وہ افراد جو غیرِ خداکی عبادت کرتے ہوں گے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئیں گے حتّٰی کہ اس وقت ایک ہی دین ، دینِ اسلام ہو گا۔ اور یہ اس وقت ہو گا کہ جب آخری زمانے میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامآسمان سے زمین پر نزول فرمائیں گے۔ اُس وقت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شریعتِ محمدیہ عَلٰی صَاحِبَہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے مطابق حکم کریں گے اور دینِ محمدی کے اماموں میں سے ایک امام کی حیثیت میں ہوں گے اور عیسائیوں نے ان کے متعلق جو گمان باندھ رکھے ہیں انہیں باطل فرمائیں گے، دینِ محمدی کی اشاعت کریں گے اوراس وقت یہود و نصارٰی کو یا تو اسلام قبول کرنا ہو گا یا قتل کر ڈالے جائیں گے، جزیہ قبول کرنے کا حکم حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نزول کرنے کے وقت تک ہے۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۹،۱ / ۳۹۷، خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۱ / ۴۴۸-۴۴۹، صاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۱ / ۴۵۶، ملتقطاً)
اس قول سے معلوم ہوا کہ ابھی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات واقع نہیں ہوئی کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی وفات سے پہلے سارے اہلِ کتاب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر ایمان لائیں گے۔ حالانکہ ابھی یہودی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان نہیں لائے ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قریبِ قیامت زمین پر تشریف لائیں گے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اس آمد پر سارے یہودی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئیں گے اس طرح کہ سب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بندہ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک کلمہ ہونے کا اقرار کر کے مسلمان ہو جائیں گے۔
{ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا:وہ ان پر گواہ ہوں گے۔} یعنی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قیامت کے دن یہود یوں پر تو یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تکذیب کی اور آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حق میں زبانِ طعن دراز کی اور نصارٰی پر یہ گواہی دیں گے کہ اُنہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو رب ٹھہرایا اور خدا عَزَّوَجَلَّکا شریک جانا جبکہ اہلِ کتاب میں سے جو لوگ ایمان لے آئیں گے ان کے ایمان کی بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شہادت دیں گے۔
{فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا: تو یہودیوں کے بڑے ظلم کی وجہ سے۔} یہودیوں کی کرتوتیں اوپر بیان کی گئیں اور اس آیت میں ان کے جرائم کی سزا کی ایک صورت یہ بیان فرمائی گئی کہ ان کی زیادتیوں کی وجہ سے ان پر کئی حلال چیزیں بھی حرام کردی گئیں۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan