Surah An-Nisaa
{وَ یَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ: اور کہتے ہیں :ہم نے فرمانبرداری کی۔} یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ،جو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سامنے کہتے تھے کہ ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ کی اطاعت ہم پر فرض ہے لیکن وہاں سے اٹھ کر اس کے خلاف کرتے تھے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۸۱، ۱ / ۴۰۵)
ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کے سب منصوبے ان کے نامۂ اعمال میں لکھے جا رہے ہیں اور اِنہیں اُس کا بدلہ بھی ملے گا۔ لیکن چونکہ یہ ظاہراً کلمہ پڑھتے تھے اور ظاہری طور پر کفر نہیں کرتے تھے اس لئے ان کے بارے میں کہا گیا کہ ان سے چشم پوشی کرو یعنی ان کے کافروں کی طرح دنیوی احکام نہیں ہیں۔ ہاں چونکہ ان کی طرف سے خطرہ پایا جاتا ہے تو اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر بھروسہ رکھو، ان کی طرف سے اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو کفایت کرے گا۔
{اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ: تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے۔} یہاں قرآن کی عظمت کا بیان ہے اور لوگوں کو اس میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ قرآنِ حکیم میں غور نہیں کرتے اور اس کے عُلوم اور حکمتوں کو نہیں دیکھتے کہ اِس نے اپنی فصاحت سے تمام مخلوق کو اپنے مقابلے سے عاجز کردیا ہے اور غیبی خبروں سے منافقین کے احوال اور ان کے مکروفریب کو کھول کر رکھ دیاہے اور اوّلین و آخرین کی خبریں دی ہیں۔ اگر قرآن میں غور کریں تو یقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام ہے اور اسے لانے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا رسول ہے۔
قرآنِ مجید میں غورو فکر کرنا عبادت ہے لیکن!
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن میں غور و فکر کرنا اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ احیاء العُلوم میں فرماتے ہیں کہ ایک آیت سمجھ کر اور غور و فکر کر کے پڑھنا بغیر غور و فکر کئے پورا قرآن پڑھنے سے بہتر ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب التفکر، بیان مجاری الفکر، ۵ / ۱۷۰)
قرآن کا ذکر کرنا، اسے پڑھنا، دیکھنا، چھونا سب عبادت ہے۔ قرآن میں غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ قرآن میں وہی غوروفکر مُعْتَبر اور صحیح ہے جو صاحب ِ قرآنصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرامین اور حضور پُرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحبت یافتہ صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور ان سے تربیت حاصل کرنے والے تابعین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْکے علوم کی روشنی میں ہو کیونکہ وہ غور و فکر جو اُس ذات کے فرامین کے خلاف ہو جن پر قرآن اترا اور اس غور و فکر کے خلاف ہو جو وحی کے نزول کا مُشاہدہ کرنے والے بزرگوں کے غوروفکر کے خلاف ہو، وہ یقینا معتبر نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے دورِ جدید کے اُن نت نئے مُحققین سے بچنا ضروری ہے جو چودہ سو سال کے علماء ، فُقہاء،محدثین ومفسرین اور ساری امت کے فَہم کو غلط قرار دے کر قولاً یا عملاً یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ قرآن اگر سمجھا ہے تو ہم نے ہی سمجھا ہے ، پچھلی ساری امت جاہل ہی گزر گئی ہے۔ یہ لوگ یقینا گمراہ ہیں۔
{وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ: اور اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا۔}یہاں قرآنِ پاک کی حقانیت پر ایک نہایت آسان اور واضح دلیل دی جارہی ہے کہ اگر قرآنِ پاک اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف ہوتا، اس میں جو غیب کی خبریں دی گئی ہیں وہ سو فیصد پوری نہ ہوتیں بلکہ کوئی بات توپوری ہوجاتی اور کوئی نہ ہوتی لیکن جب ایسا نہ ہوا بلکہ قرآنِ پاک کی تما م غیبی خبریں بالکل سچی ثابت ہورہی ہیں تو ثابت ہوا کہ یقیناً یہ کتاب، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے نیز اس کے مضامین میں بھی باہم اختلاف نہیں کہ کہیں کوئی بات کہہ دی اور کہیں اس کے برخلاف کوئی دوسری بات کہہ دی۔ اسی طرح فصاحت و بلاغت میں بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ مخلوق کا کلام فصیح بھی ہو تو سب یکساں نہیں ہوتا کچھ بلاغت سے بھرپور ہوتا ہے تو کچھ رکیک و گھٹیا قسم کا ہوتا ہے جیسا کہ شُعراء اور زباندانوں کے کلام میں دیکھا جاتا ہے کہ بڑے سے بڑے شاعر کا کوئی کلام بڑا شاندار ہوتا ہے اور کوئی بالکل گیا گزرا۔ لیکن قرآن چونکہ اللہتعالیٰ کا کلام ہے اوراللہ تعالیٰ ہی کے کلام کی شان ہے کہ اس کا تمام کلام فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ مرتبے پر ہے۔
{وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ: اور جب امن یا خوف کی کوئی بات ان کے پاس آتی ہے۔} یہاں اگرچہ ایک خاص سیاق و سباق میں ایک چیز بیان کی گئی ہے لیکن اِس میں جو حکم بیان کیا گیا ہے یہ ہماری زندگی کے ہزاروں گوشوں میں اصلاح کیلئے کافی ہے۔ خلاصہ کلام یہ فرمایا گیا کہ جب کبھی امن مثلاًمسلمانوں کی فتح یا خوف مثلاً مسلمانوں کی شکست کی کوئی بات لوگوں کے پاس آتی ہے جو فساد کا باعث بن سکتی ہے تو وہ فوراً اُسے پھیلانے لگتے ہیں حالانکہ اگر اس بات کو یہ لوگ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اپنے بااختیار لوگوں جیسے اکابر صحابہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم جو صاحبِ رائے اور صاحبِ بصیر ت ہیں کی خدمت میں پیش کرتے اور خود کچھ دخل نہ دیتے تو سمجھدار لوگ ضرور اپنی عقل و دانش یا اپنی تحقیق کی روشنی میں اُ س خبر کی حقیقت کوجان لیتے اور یوں بات کا بتنگڑ بننے کی بجائے حقیقت ِ حال کھل کر سامنے آجاتی ۔
زندگی کی اصلاح کا ایک اہم اصول:
اس آیت کو سامنے رکھ کر ہم اپنے گھروں کے معاملات بلکہ ملکی و بین الاقوامی معاملات اور صحافتی معاملات کو جانچ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا حال یہ ہے کہ ایک بات کو کوئی شخص اچھالتا ہے اور پھر وہ موجودہ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں گردش کرنے لگتی ہے اور کچھ عرصے بعد پتا چلتا ہے کہ اس بات کا کوئی سر پیر ہی نہیں اور وہ سراسر جھوٹی ہے۔ مسلمانوں کو اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے ایسی سازشیں ، افواہیں اور خبریں دن رات پھیلائی جارہی ہیں حتّٰی کہ بعض جگہوں پر یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ مسلمانوں کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس وقت تک جنت میں نہیں جائے گا جب تک وہ کسی ایک کافر کو قتل نہیں کرلے گا۔ اَ لْاَمان وَالْحفیظ، کیسا جھوٹ اور کیسی دیدہ دلیری ہے۔ کفار کے ممالک میں مسلمانوں کا جو تشخص پھیلایا جارہا ہے وہ بھی اسی طرح کی جھوٹی افواہوں کے ذریعے ہے اور پھر ایسی ہی باتیں سن کر مغرب سے مرعوب کچھ پڑھے لکھے سمجھے جانے والے ہمارے لوگ اِن باتوں کو اسلام کے نام پر پیش کرکے اِسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ یہی معاملہ گھروں میں ہے کہ کسی نے کچھ بات کہی ، وہ پھیلتے پھیلتے دس مرتبہ اضافوں کے ساتھ ایسی ہوگئی کہ خاندانوں میں لڑائیاں چھڑگئیں اور تباہیاں مچ گئیں۔ ایسی سینکڑوں باتوں کا ہم سب کو تجربہ ہوگا۔ ان سب کیلئے قرآن نے یہ اصول دیا ہے کہ جب ایسی کوئی بات پہنچے تو اہلِ دانش اور سمجھدار لوگوں تک پہنچا دی جائے وہ غور و فکر اور تحقیق سے اس کی حقیقت ِ حال معلوم کرلیں گے اور یوں بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ نہیں بنے گا۔ حضرت حفص بن عاصم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے۔(مسلم، باب النہی عن الحدیث بکلّ ما سمع، ص۸، الحدیث: ۵(۵))
ایک اہم مسئلہ:
مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ قیاس جائز ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک علم تو وہ ہے جو قرآن و حدیث سے صراحت سے حاصل ہوتا ہے اور ایک علم وہ ہے جوقرآن و حدیث سے اِستِنباط و قیاس کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔یہ بھی معلوم ہواکہ امور دینیہ میں ہر شخص کو دخل دینا جائز نہیں جو اِس کا اہل ہووہی اِس میں غور کرے۔
{فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: تو اے حبیب! اللہکی راہ میں جہاد کریں۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ بدر صغریٰ (چھوٹا غزوہ بدر، اُس) کی جنگ جو ابوسفیان سے طے تھی جب اس کا وقت آپہنچا تو سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہاں جانے کے لئے لوگوں کو دعوت دی، بعض لوگوں پر یہ گراں ہوا تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو حکم دیا کہ آپ جہاد نہ چھوڑیں اگرچہ تنہا ہوں اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا ناصرو مددگار ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ سچا ہے۔ یہ حکم پا کر رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بدرصغریٰ کی جنگ کے لئے روانہ ہوئے اور صرف ستّر سوار ہمراہ تھے۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۲۴۲)
چنانچہ فرمایا گیا کہ آپ جہاد کیلئے جائیں اور آپ کو آپ کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جائے گی خواہ کوئی آپ کا ساتھ دے یا نہ دے اور اگرچہ آپ اکیلے رہ جائیں ، ہاں مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اور بس۔ پھراللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ اللہ کریم کافروں کی سختی کو روک دے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مسلمانوں کے اس چھوٹے سے لشکرسے کفار ایسے مرعوب ہوئے کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں میدان میں نہ آسکے ۔
سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َکی شجاعت:
اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدارِ مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شجاعت میں سب سے اعلیٰ ہیں کہ آپ کو تنہا کفار کے مقابل تشریف لے جانے کا حکم ہوا اور آپ آمادہ ہوگئے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حبیبِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام لوگوں سے زیادہ شُجاع اور بہادر تھے۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب فی شجاعۃ النبی علیہ السلام وتقدّمہ للحرب، ص۱۲۶۲، الحدیث: ۴۸(۲۳۰۷))
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ بہادر اور طاقتور، سخی اور پسندیدہ کسی کو نہیں دیکھا۔ (الشفا، القسم الاول، الباب الثانی، فصل وامّا الشجاعۃ والنجدۃ، ص۱۱۶، الجزء الاول)
حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بے مثل شجاعت و بہادری کا یہ عالم تھا کہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم جیسے بہادر صحابی کا یہ قول ہے: جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدّت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں حضور سیدُ المُرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(الشفا، القسم الاول، الباب الثانی، فصل وامّا الشجاعۃ والنجدۃ، ص۱۱۶، الجزء الاول)
غزوۂ حنین کے دن جب ابتداء ًمسلمان کفار کے حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے میدانِ جنگ سے فرار ہوئے تو ایسے نازک وقت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی جانب پیش قدمی فرماتے رہے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب فی غزوۃ حنین، ص۹۷۸، الحدیث: ۷۶(۱۷۷۵))
غزوۂ اَحزاب کے موقع پر خندق کھودتے ہوئے ایک ایسی چٹان ظاہر ہوئی جو کسی سے نہ ٹوٹ سکی، سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وار سے وہ چٹان پارہ پارہ ہو گئی۔ (نسائی، کتاب الجہاد، غزوۃ الترک والحبشۃ، ص۵۱۷، الحدیث: ۳۱۷۳)
ایک رات اہلِ مدینہ ایک خوفناک آواز سن کر دہشت زدہ ہو گئے تو اس آواز کی سمت سب سے پہلے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے گئے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق والسخائ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۰۸، الحدیث: ۶۰۳۳)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
تم ہو حفیظ و مُغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث
تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود
{مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً:جو اچھی سفارش کرے ۔} اچھی سفارش وہ ہے جس میں کسی کو جائز نفع پہنچایا جائے یا تکلیف سے بچایا جائے، اس پر ثواب ہے جیسے کوئی نوکری کا واقعی مستحق ہے اور کسی دوسرے کی حق تَلفی نہیں ہورہی تو سفارش کرنا جائز ہے یا کوئی مظلوم ہے اور پولیس سے انصاف دلوانے میں مدد کیلئے سفارش کی جائے۔ بری سفارش وہ ہے جس میں غلط سفارش کی جائے، ظالم کو غلط طریقے سے بچایا جائے یا کسی کی حق تلفی کی جائے جیسے کسی غیر مستحق کو نوکری دلانے کیلئے سفارش کی جائے یا کسی کو شراب یا سینما کے لائسنس دلوانے کیلئے سفارش کی جائے، یہ حرام ہے۔
{وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ: اور جب تمہیں کسی لفظ سے سلام کیا جائے۔} اسلام سے پہلے اہلِ عرب کی عادت یہ تھی کہ جب وہ ایک دوسرے سے ملتے تو کہتے ’’حَیَّاکَ اللہُ‘‘ یعنی اللہتعالیٰ تجھے زندہ رکھے اور جب دینِ اسلام آیا تو اُس میں ا س کلمے کو ’’سلام ‘‘سے تبدیل کر دیا گیا اور یہ کلمہ ’’حَیَّاکَ اللہُ‘‘ کے مقابلے میں زیادہ کامل ہے کیونکہ جو شخص سلامت ہو گا تو وہ لازمی طور پر زندہ ہو گا اور صرف زندہ شخص سلامت نہیں ہو سکتا کیونکہ ا س کی زندگی مصیبتوں اور آفات سے ملی ہو ئی ہے۔ (تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۸۶، ۴ / ۱۶۱)
سلام سے متعلق شرعی مسائل:
اس آیت میں سلام کے بارے میں بیان ہوا ،اس مناسبت سے ہم یہاں سلام سے متعلق چند شرعی مسائل ذکر کرتے ہیں :
(1)… سلام کرنا سنت ہے اور جواب دینا فرض اور جواب میں افضل یہ ہے کہ سلام کرنے والے کے سلام پر کچھ بڑھائے مثلاً پہلا شخص اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے تو دوسرا شخص وَعَلَیْکُمُ السَّلَامْ وَرَحْمَۃُ اللہِ کہے اور اگر پہلے نے وَرَحْمَۃُ اللہِ بھی کہا تھا تو یہ وَبَرَکَاتُہٗ اور بڑھائے پس اس سے زیادہ سلام و جواب میں اور کوئی اضافہ نہیں ہے۔
(2)… کافر، گمراہ، فاسق اور اِستِنجا کرتے مسلمانوں کو سلام نہ کریں۔ یونہی جو شخص خطبہ ،تلاوت ِقرآن ،حدیث، مذاکرہ ِعلم، اذان اور تکبیر میں مشغول ہو ،اس حال میں ان کو بھی سلام نہ کیا جائے اور اگر کوئی سلام کردے تو اُن پر جواب دینا لازم نہیں۔
(3)…جو شخص شطرنج ،چوسر ،تاش، گنجفہ وغیرہ کوئی ناجائز کھیل کھیل رہا ہویا گانے بجانے میں مشغول ہو یا پاخانہ یا غسل خانہ میں ہو یا بَرہنہ ہو اس کو سلام نہ کیا جائے۔
(4)… آدمی جب اپنے گھر میں داخل ہو تو بیوی کو سلام کرے، بعض جگہ یہ بڑی غلط رسم ہے کہ میاں بیوی کے اتنے گہرے تعلقات ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو سلام کرنے سے محروم کرتے ہیں حالانکہ سلام جس کو کیا جاتا ہے اس کے لیے سلامتی کی دعا ہے۔
(5)…بہتر
سواری والا، کمتر سواری والے کو اور کمتر سواری والا، پیدل چلنے والے کو اور پیدل
چلنے والا، بیٹھے ہوئے کو اور چھوٹا بڑے کو اور تھوڑے زیادہ کو سلام کریں۔ سلام سے
متعلق شرعی مسائل کی مزید معلومات کے لئے بہار شریعت حصہ 16کا مطالعہ کیجئے۔
{وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا:اوراللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّسے زیادہ کس کی بات سچی یعنی اس سے زیادہ سچا کوئی نہیں اس لیے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کاجھوٹ بولنا ناممکن و محال ہے کیونکہ جھوٹ عیب ہے اور ہر عیب اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے محال ہے، وہ جملہ عیوب سے پاک ہے۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی کلام میں جھوٹ کا ممکن ہونا ذاتی طور پر محال ہے اوراللہ تعالیٰ کی تمام صفات مکمل طور پر صفاتِ کمال ہیں اور جس طرح کسی صفتِ کمال کی اس سے نفی ناممکن ہے اسی طرح کسی نقص و عیب کی صفت کا ثبوت بھی اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی فرمان
وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اوراللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔
ا س عقیدے کی بہت بڑی دلیل ہے ،چنانچہ اس آیت کے تحت علامہ عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت میں اِستِفہامِ انکاری ہے یعنی خبر، وعدہ اور وعید کسی بات میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچا نہیں کہ اس کا جھوٹ تو بِالذَّات محال ہے کیونکہ جھوٹ خود اپنے معنی ہی کی رو سے قبیح ہے کہ جھوٹ واقع کے خلاف خبر دینے کا نام ہے۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۲۴۳)
علامہ بیضاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ اس آیت میں اس سے انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہتعالیٰ سے زیادہ سچا ہو کیونکہ اس کی خبر تک تو کسی جھوٹ کو کسی طرح راہ ہی نہیں کہ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال ہے۔ (بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۸۷، ۲ / ۲۲۹)
نیز اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗ (بقرہ:۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو اللہہرگز وعدہ خلافی نہیں کرے گا۔
اس آیت کے تحت امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر وعدہ اور وعید میں جھوٹ سے پاک ہے ،ہمارے اصحاب اہلِ سنت و جماعت ا س دلیل سے کذبِ الہٰی کو ناممکن جانتے ہیں کیونکہ جھوٹ صفتِ نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے اور مُعتَزِلہ اس دلیل سے اللہ تعالیٰ کے جھوٹ کو مُمْتَنِع مانتے ہیں کیونکہ جھوٹ فِی نَفْسِہٖ قبیح ہے تو اللہ تعالیٰ سے ا س کا صادر ہونا محال ہے۔ الغرض ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا جھوٹ بولنا اصلاً ممکن ہی نہیں۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ:۸۰، ۱ / ۵۶۷، ملخصاً)
شاہ عبدُ العزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ا س آیت کے تحت فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کی خبر اَزلی ہے ، کلام میں جھوٹ ہونا عظیم نقص ہے لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں ہر گز راہ نہیں پا سکتا کہ اللہ تعالیٰ تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، اس کے حق میں خبر کے خلاف ہونا سراپا نقص ہے۔ (تفسیر عزیزی(مترجم)، البقرۃ، تحت الآیۃ:۸۰، ۲ / ۵۴۷، ملخصاً)
اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًاؕ-لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(انعام:۱۱۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور سچ اور انصاف کے اعتبار سے تیرے رب کے کلمات مکمل ہیں۔ اس کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں :یہ آیت ا س چیز پر دلالت کرتی ہے کہ اللہتعالیٰ کی بات بہت سی صفتوں کے ساتھ موصوف ہے، ان میں سے ایک صفت اس کاسچا ہو نا ہے اور ا س پر دلیل یہ ہے کہ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث کے دلائل کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے کہ اللہتعالیٰ کے کذب کو محال مانا جائے ۔(تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۵ / ۱۲۵)
نیز جھوٹ فِی نَفسِہٖ دو باتوں سے خالی نہیں ، یا تو وہ نقص ہو گا یا نہیں ہو گا اور یہ بات ظاہر ہے کہ جھوٹ ضرور نقص ہے اور جب یہ نقص ہے تو بالاتفاق اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہو گیا کیونکہ وہ ہر نقص و عیب سے پاک ہے۔ دوسری صورت میں اگر جھوٹ کو نقص و عیب نہ بھی مانا جائے تو بھی یہ اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے کیونکہ اگر جھوٹ نقص نہیں تو کمال بھی نہیں اوراللہ تعالیٰ نہ صرف نقص و عیب سے پاک ہے بلکہ وہ ہر اس شئے سے بھی پاک ہے جو کمال سے خالی ہو اگرچہ وہ نقص وعیب میں سے نہ بھی ہو کیونکہ اللہتعالیٰ کی ہر صفت صفتِ کمال ہے اور جس میں کوئی کمال ہی نہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفت کس طرح ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ لوگوں کے جھوٹ بولنے پر قادر ہونے اور اللہ تعالیٰ کے لئے جھوٹ ناممکن و محال ہونے سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ لوگوں کی قدرت مَعَاذَاللہ ،اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بڑھ گئی یعنی یہ کہنا کہ بندہ جھوٹ بول سکے اور اللہ تعالیٰ جھوٹ نہ بول سکے ، اس سے لازم آتا ہے کہ انسان کی قدرت مَعَاذَاللہ ، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بڑھ جائے گئی، یہ بات سراسر غلط ہے نیز اگر یہ بات سچی ہو کہ آدمی جو کچھ کر سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ بھی کر سکتا ہے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ جس طرح نکاح کرنا اور بیوی سے ہم بستری کرنا وغیرہ انسان کی قدرت میں ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی مَعَاذَاللہ یہ کر سکتا ہے، یونہی اگر وہ بات سچی ہوتو اس سے یہ لازم آئے گا کہ جس طرح آدمی کھانا کھانے، پانی پینے، اپنے آپ کو دریا میں ڈبو دینے، آگ سے جلانے، خاک اور کانٹوں پر لٹانے کی قدرت رکھتا ہے تو پھر یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ بھی اپنے لئے کر سکتا ہو گا۔ ان صورتوں میں انسان ہر طرح خدائی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سب باتیں اپنے لئے کر سکتا ہو تووہ ناقص و محتاج ہوا اور ناقص و محتاج خدا نہیں ہو سکتا اور اگر نہ کر سکا تو عاجز ٹھہرے گا اور کمالِ قدرت میں آدمی سے کم ہو جائے گا اور عاجز خدا نہیں ہو سکتا۔ جبکہ ہمارا سچا خدا سب عیبوں سے اور محال پر قدرت کی تہمت سے پاک اور مُنَزَّہ ہے،نہ کوئی ممکن اس کی قدرت سے باہر ہے نہ کسی کی قدرت ا س کی قدرت کے ہمسر، نہ اپنے لئے کسی عیب و نقص پر قادر ہونا اس کی قُدُّوسی شان کے لائق ہے۔
نوٹ:اس مسئلے پر تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 15ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ان رسائل کا مطالعہ فرمائیں: (1)سُبْحٰنُ السُّبُّوْحْ عَنْ عَیْبِ کِذْبٍ مَقْبُوْحْ (جھوٹ جیسے بد ترین عیب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاک ہونے کا بیان )۔ (2) دَامَانِ بَاغِ سُبْحٰنِ السُّبُّوْحْ۔(رسالہ سُبْحٰنُ السُّبُّوح کے باغ کا دامن) (3)اَلْقَمْعُ الْمُبِینْ لِآمَالِ الْمُکَذِّبِینْ(اللہ تعالیٰ کے لئے جھوٹ ممکن ماننے والوں کے استدلال کا رد)۔
{فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ: تو تمہیں کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہوگئے ؟ }اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ منافقین کی ایک جماعت کھلم کھلا مرتد ہوکر مشرکین سے جاملی۔ ان کے بارے میں صحابۂ کرام رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دوگروہ ہوگئے ۔ایک فرقہ ان کو قتل کرنے پراصرار کررہا تھا اور ایک اُن کے قتل سے انکار کرتا تھا۔ اس معاملہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۲۴۳)
اور فرمایا کہ اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ بن گئے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ارتداد اور مشرکوں کے ساتھ جاملنے کی وجہ سے ان کے دلوں کو الٹا دیا ہے، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جسے اللہ تعالیٰ نے گمراہ کردیا اسے ہدایت کی راہ دکھا دو! یہ محال ہے کیونکہ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے تو تم اس کے لئے ہدایت کاکوئی راستہ نہ پاؤ گے۔(روح البیان،النساء ، تحت الایۃ : ۸۸،۲ / ۲۵۶)
{ وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا: وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ کافر ہوئے کاش کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہوجاؤ ۔} اس سے پہلی آیات میں منافقوں کی اپنی سرکشی کا بیان ہوا اور اس آیت میں ان کے کفر و سرکشی میں حد سے بڑھنے کا بیان ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! جو منافق ایمان چھوڑ کر کفر و ارتداد کی طرف پلٹ گئے وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ کافر ہوئے کاش کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہوجاؤ پھرتم سب کفر میں ایک جیسے ہو جاؤ اور جب ان کا یہ حال ہے توتم ان میں سے کسی کو اس وقت تک اپنا دوست نہ بناؤ جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت نہ کریں اور اِس سے اُن کے ایمان کا ثبوت نہ مل جائے کہ ان کا ایمان اللہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رضا کے لئے ہے کسی دنیوی مقصد کے لئے نہیں ہے، پھر اگر وہ ہجرت کرنے سے منہ پھیریں اور کفر پر قائم رہنے کو اختیار کریں تو اے مسلمانو! تم انہیں پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرو اور اگر وہ تمہاری دوستی کا دعویٰ کریں اور دشمنوں کے خلاف تمہاری مدد کے لیے تیار ہوں تو ان کی مدد نہ قبول کرو کیونکہ یہ بھی دشمن ہیں۔(روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۲۵۶، خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۸۹، ۱ / ۴۱۱، ملتقطاً)
آیت ’’وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ‘‘سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
(1)… دوسرے کو کافر کرنے کی کوشش کرنا کفر ہے۔
(2)… کافر، مرتد ، بد مذہب کو دوست بنانا اور ان سے دلی محبت رکھنا حرام ہے اگرچہ وہ کلمہ پڑھتا ہو اور اپنے کو مسلمان کہتا ہو جیسے اُس زمانے کے منافق تھے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کفار اور مشرکین سے اتحاد ووداد حرامِ قطعی ہے قرآنِ عظیم کی نُصوص اُس کی تحریم سے گونج رہے ہیں اور کچھ نہ ہو تو اتنا کافی ہے کہ
وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ(مائدہ:۵۱)
واحد قہار فرماتا ہے کہ تم میں جوکوئی ان سے دوستی رکھے گا وہ بے شک انہیں میں سے ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۲۲۹)
(3)… دینی امور میں مشرک سے مد د نہ لی جائے۔ حضرت ابو حُمید ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ہم مشرکین سے مدد نہیں لیں گے۔ (مستدرک، کتاب الجہاد، لا نستعین بالمشرکین علی المشرکین، ۲ / ۴۵۶، الحدیث: ۲۶۱۰)
{اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍ: مگر جو ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔ }گزشتہ آیت میں قتل کا حکم دیا گیا تھا، اب فرمایا جارہا ہے کہ کچھ لوگ اس حکم سے خارج ہیں ، وہ یہ ہیں :
(1)…وہ لوگ جن کا ایسی قوم سے تعلق ہو جن سے تمہارا امن کا معاہدہ ہوچکا ہو۔
(2)…وہ لوگ جو تم سے لڑائی نہ کریں۔
(3)…وہ لوگ جوتمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم سے لڑیں۔ ان سب لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا مزید احسان بیان فرمایا کہ اگراللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو ضرور انہیں تم پر مُسلَّط کر دیتا تو وہ بے شک تم سے لڑتے اور تم پر غالب بھی آجاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھا۔
{فَاِنِ اعْتَزَلُوْكُمْ: پھر اگر وہ تم سے دور رہیں۔} یہاں فرمایا کہ اگر کفار تم سے دور رہیں اور نہ لڑیں بلکہ صلح کا پیغام بھیجیں تو اس صورت میں تمہیں اجازت نہیں کہ تم ان سے جنگ کرو۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اب اسلامی سلطان کو صلح کرنے، نہ کرنے کا اختیار ہے۔(جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۹۹، خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۹۰، ۱ / ۴۱۲، ملتقطاً)
{سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ: عنقریب تم کچھ دوسروں کو پاؤ گے۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں اسد و غطفان دو قبیلوں کے لوگ ریاکاری کے طور پر کلمہ پڑھتے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے اور جب ان میں سے کوئی اپنی قوم سے ملتا اور وہ لوگ ان سے کہتے کہ تم کس چیز پر ایمان لائے؟ تویہ کہتے کہ بندروں بچھوؤں وغیرہ پر (یعنی اسلام کا مذاق اڑاتے)۔ اس انداز سے ان کا مطلب یہ تھا کہ دونوں طرف تعلقات رکھیں اور کسی جانب سے انہیں نقصان نہ پہنچے یہ لوگ منافقین تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۹۱، ۱ / ۴۱۲)
اور ان کے متعلق فرمایا کہ یہ لوگ تم سے بھی امن چاہتے ہیں اور اپنی قوم سے بھی لیکن حقیقت میں تمہارے ساتھ نہیں ہیں کیونکہ جب انہیں کسی فتنے مثلاً شرک یا مسلمانوں سے جنگ کی طرف بلایا جاتا ہے تویہ مسلمانوں کے دشمنوں ہی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ مزیدان کے متعلق فرمایا کہ اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ جنگ کرنے سے باز آکرایک طرف نہ ہوجائیں اور تمہارے ساتھ صلح نہ کریں تو ان کے کفر اور غداری اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے سبب ہم نے تمہیں ان کے قتل کرنے کا کھلااختیار دیا ہے۔
{وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا: اور کسی مسلمان کیلئے دوسرے مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں۔}یہ آیت ِ مبارکہ عیاش بن ربیعہ مخزومی کے بارے میں نازل ہوئی ۔ ان کا واقعہ یوں ہے کہ وہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں مسلمان ہوگئے اور گھر والوں کے خوف سے مدینہ طیبہ جا کر پناہ گزیں ہوگئے۔ ان کی ماں کو اس سے بہت بے قراری ہوئی اور اس نے حارث اور ابوجہل اپنے دونوں بیٹوں سے جو عیاش کے سوتیلے بھائی تھے یہ کہا کہ خدا کی قسم نہ میں سایہ میں بیٹھوں گی اور نہ کھانا چکھوں گی اور نہ پانی پیوں گی جب تک تم عیاش کو میرے پاس نہ لے کر آؤ۔ وہ دونوں حارث بن زید کو ساتھ لے کر تلاش کے لیے نکلے اور مدینہ طیبہ پہنچ کر عیاش کو پالیا اور ان کوماں کے جزع فزع کرنے، بے قراری اور کھانا پینا چھوڑنے کی خبر سنائی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر یہ عہد کیا کہ ہم دین کے متعلق تجھ سے کچھ نہ کہیں گے، بس تم مکہ مکرمہ چلو۔ اس طرح وہ عیاش کو مدینہ سے نکال لائے اور مدینہ سے باہر آکر اس کو باندھا اور ہر ایک نے سو سو کوڑے مارے پھر ماں کے پاس لائے تو ماں نے کہا میں تیری مشکیں نہ کھولوں گی جب تک تو اپنا دین ترک نہ کرے گا، پھر عیاش کو دھوپ میں بندھا ہوا ڈال دیا اور ان مصیبتوں میں مبتلا ہو کر عیاش نے ان کا کہا مان لیا اور اپنا دین ترک کردیا۔ اس پر حارث بن زید نے عیاش کو ملامت کی اور کہا تواسلام پر تھا، اگر یہ حق تھا تو تو نے حق کو چھوڑ دیا اور اگر باطل تھا توتو باطل دین پر رہا۔ یہ بات عیاش کو بڑی ناگوار گزری اور عیاش نے حارث سے کہا کہ میں تجھے اکیلا پاؤں گا تو خدا کی قسم ،ضرور تمہیں قتل کردوں گا اس کے بعد عیاش اسلام لے آئے اور انہوں نے مدینہ طیبہ ہجرت کرلی اور ان کے بعد حارث بھی اسلام لے آئے اور وہ بھی ہجرت کرکے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں پہنچ گئے لیکن اس روز عیاش موجود نہ تھے اور نہ انہیں حارث کے اسلام کی اطلاع ہوئی۔ قباء شریف کے قریب عیاش نے حارث کو دیکھ لیا اور قتل کردیا تو لوگوں نے کہا، اے عیاش! تم نے بہت برا کیا، حارث اسلام لاچکے تھے ۔اس پر عیاش کو بہت افسوس ہوا اور انہوں نے رحمت ِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کیا اور کہا کہ مجھے قتل کے وقت تک ان کے اسلام کی خبر ہی نہ ہوئی اس پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی اور کفارے کی صورت بیان کی گئی۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۹۲، ۱ / ۳۶۸)
{وَ مَنْ قَتَلَ: اور جو قتل کرے۔} یہاں آیت میں قتل کی چار صورتوں کا بیان ہے اور پھر تین صورتوں میں کفارے کا بیان ہے۔
پہلی صورت یہ کہ مسلمان کا کسی دوسرے مسلمان کو ناحق قتل کرنا حرام ہے۔
دوسری صورت یہ کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو غلطی سے قتل کردے جیسے شکار کو مار رہا ہومگر گولی مسلمان
کو لگ جائے یا کسی کو حربی کافر سمجھ کر مارا لیکن قتل کے بعد معلوم ہوا کہ مقتول تو مسلمان ہے۔ اس صورت میں قاتل پر ایک غلام یا لونڈی کو آزاد کرنا لازم ہے اور اس کے ساتھ وہ دِیت بھی ادا کرے گا جومقتول کے وارثوں کو دی جائے گی اوروہ اسے میراث کی طرح تقسیم کرلیں۔دِیت مقتول کے ترکہ کے حکم میں ہے، اس سے مقتول کا قرضہ بھی ادا کیا جائے گا اور وصیت بھی پوری کی جائے گی۔ ہاں اگر مقتول کے وُرثاء دیت معاف کردیں تو وہ معاف ہوجائے گی۔
تیسری صورت یہ ہے کہ اگر وہ مقتول دشمن قوم سے ہو لیکن وہ مقتول بذات ِخود مسلمان ہو تو صرف ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا لازم ہے اور دیت وغیرہ کچھ لازم نہ ہوگی۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ اگر مقتول ذِمّی ہو یا مسلمان حکومت کی اجازت سے مسلمان ملک میں آیا ہو جسے مُستامن کہتے ہیں تو اس کو قتل کرنے کی صورت میں اس کے گھر والوں کو دیت دی جائے گی اور ایک مسلمان غلام یا لونڈی کو آزاد کیا جائے گاالبتہ اگر غلام لونڈی نہ ملے جیسے ہمارے زمانے میں غلام لونڈی ہیں ہی نہیں تو پھر دومہینے کے مسلسل روزے رکھے جائیں گے۔ یہ یاد رہے کہ قتل خطا کے کفارہ میں کافر غلام آزاد نہ کیا جائے گا۔ باقی کفّارات میں حنفی مذہب میں ہر طرح کا غلام آزاد کر سکتے ہیں جیسے روزے کا یا ظہار کا کفار ہ ہو۔
{وَ مَنْ یَّقْتُلْ: اور جو قتل کرے۔} اس سے پہلی آیت میں غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر دینے کا حکم بیان کیا گیا اور اس آیت میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کی اُخروی وعید بیان کی گئی ہے۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۹۳، ۴ / ۱۸۲)
مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت:
کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 4احادیث درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، ۴ / ۳۵۸، الحدیث: ۶۸۷۱)
(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص۲۰۵ ، الجزء الاول)
(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۳، الحدیث: ۳۱)
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، ۳ / ۲۶۲، الحدیث: ۲۶۲۰)
افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔
مسلمانوں کا باہمی تعلق کیساہونا چاہئے؟
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق کیسا ہونا چاہئے، اس بارے میں 5 احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری، کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۵، الحدیث: ۱۰)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِکائناتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسندکرتا ہے۔(بخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحبّ لاخیہ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۶، الحدیث: ۱۳)
(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے ۔ تقویٰ یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا۔ انسان کے لیے یہ برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ۔ مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے ، اس کا خون، اس کا مال، اس کی آبرو۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۶، الحدیث: ۳۲(۲۵۶۴))
(4)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے ،سرورِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ و ہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور اچھی باتوں کا حکم نہ دے اور بری باتوں سے منع نہ کرے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، ۳ / ۳۶۹، الحدیث: ۱۹۲۸)
(5)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: سباب المسلم۔۔۔ الخ ، ص۵۲، الحدیث: ۱۱۶(۶۴))
اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔ آیت میں ’’خَالِدًا ‘‘کا لفظ ہے اس کا ایک معنیٰ ہمیشہ ہوتا ہے اور دوسرا معنیٰ عرصہ دراز ہوتا ہے یہاں دوسرے معنیٰ میں مذکور ہے۔
{اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَتَبَیَّنُوْا: جب تم اللہ کے راستے میں چلو تو خوب تحقیق کرلیا کرو۔}اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ مِرْدَاس بن َنہِیْک جو فدک کے رہنے والے تھے اور اُن کے سوا اُن کی قوم کاکوئی شخص اسلام نہ لایا تھا، اس قوم کو خبر ملی کہ لشکرِ اسلام ان کی طرف آرہا ہے تو قوم کے سب لوگ بھاگ گئے مگر مِرْدَاس ٹھہرے رہے۔ جب انہوں نے دور سے لشکر کو دیکھا تواس خیال سے کہ کہیں کوئی غیر مسلم جماعت نہ ہو یہ پہاڑ کی چوٹی پر اپنی بکریاں لے کر چڑھ گئے ۔جب لشکر آیا اور انہوں نے اللہُ اکْبَر کے نعروں کی آوازیں سنیں تو یہ خود بھی تکبیر پڑھتے ہوئے اتر آئے اور کہنے لگے: لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ، السّلام علیکم۔ مسلمانوں نے خیال کیا کہ اہلِ فدک تو سب کافر ہیں یہ شخص دھوکہ دینے کے لیے ایمان کا اظہار کررہا ہے۔ اس خیال سے حضرت اُسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کو قتل کردیا اور بکریاں لے آئے۔ جب تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حضور میں حاضر ہوکر تمام ماجرا عرض کیا تو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہایت رنج ہوا اور فرمایا تم نے اس کے سامان کے سبب اس کو قتل کردیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ مقتول کی بکریاں اس کے اہلِ خانہ کو واپس کردو۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۹۴، ۱ / ۴۱۷)
یہ روایت الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ بخاری اور دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہے۔ یہاں اسی کے متعلق فرمایا جارہا ہے کہ اے ایمان والو! جب تم اللہ تعالیٰ کے راستے میں چلو تو خوب تحقیق کرلیا کرو اور جو تمہیں سلام کرے یا جس میں اسلام کی علامت و نشانی پاؤ تواس سے ہاتھ روک لو اور جب تک اس کا کفر ثابت نہ ہو جائے اس پر ہاتھ نہ ڈالو اور اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں۔ ابوداؤد اور تر مذی شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب کوئی لشکر روانہ فرماتے توحکم دیتے کہ اگرتم کوئی مسجد دیکھو یا اذان سنو تو قتل نہ کرنا۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی دعاء المشرکین، ۳ / ۶۰، الحدیث: ۲۶۳۵، ترمذی، کتاب السیر، ۲-باب، ۳ / ۱۹۴، الحدیث: ۱۵۵۴)
{كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ:پہلے تم بھی ایسے ہی تھے۔ } مسلمانوں کو سمجھانے کیلئے مزید فرمایا کہ پہلے تم بھی ایسے ہی تھے یعنی جب تم اسلام میں داخل ہوئے تھے تو تمہاری زبان سے کلمہ شہادت سن کر تمہارے جان و مال محفوظ کر دیئے گئے تھے اور تمہارا اظہارِ ایمان بے اعتبار نہ قرار دیا گیا تھا ایسا ہی اسلام میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تمہیں بھی سلوک کرنا چاہئے اور یہ تم پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ تمہیں اِسلام پر اِستِقامت بخشی اور تمہارا مؤمن ہونا مشہور کیا، لہٰذا خوب تحقیق کرلیا کرو کہ کہیں تمہارے ہاتھوں کوئی ایمان دار قتل نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ جو مسلمان کافروں میں رہتا ہو اور اس کے ایمان کی مسلمانوں کو خبر نہ ہو تو اس کے قتل سے نہ کفارہ واجب ہو گا اورنہ دیت۔ یاد رہے کہ پچھلی آیت میں وہ صورت مذکور ہوئی جہاں مسلمان کا اسلام سب کو معلوم ہو مگر اندھیرے وغیرہ کی وجہ سے پتا نہ لگے اور مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جائے اور اس آیت میں وہ صورت بیان ہوئی ہے جس میں مسلمان کا ایمان کسی کو معلوم نہیں۔ لہٰذا ان دونوں آیات میں تَعارُض نہیں۔
{لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ: عذر والوں کے علاوہ جو مسلمان جہاد سے بیٹھے رہے وہ برابر نہیں۔} اس آیت میں جہاد کی ترغیب ہے کہ بیٹھ رہنے والے اور جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں بلکہ مجاہدین کے لیے بڑے درجات و ثواب ہیں ، اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ بیماری یا بڑھاپے یا ناطاقتی یا نابینائی یا ہاتھ پاؤں کے ناکارہ ہونے اور عذر کی وجہ سے جہاد میں حاضر نہ ہوں وہ فضیلت سے محروم نہ کئے جائیں گے جبکہ اچھی نیت رکھتے ہوں۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ جب اس آیت کاپہلا حصہ نازل ہوا کہ مجاہدین اور غیر مجاہدین برابر نہیں تو حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو نابیناصحابی تھے عرض کرنے لگے کہ’’یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نابینا ہوں ، جہاد میں کیونکر جاؤں اس پر آیت ’’غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ‘‘ نازل ہوئی یعنی معذوروں کو مُستثنیٰ کر دیا گیا۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب قول اللہ: لا یستوی القاعدون۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶۳، الحدیث: ۲۸۳۲)
اور بخاری شریف میں ہی حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (غزوہ تبوک سے واپسی کے وقت ) فرمایا: کچھ لوگ مدینہ میں رہ گئے ہیں ہم کسی گھاٹی یا آبادی میں نہیں چلتے مگر وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں ، انہیں عذر نے روک لیا ہے۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من حبسہ العذر عن الغزو، ۲ / ۲۶۵، الحدیث: ۲۸۳۹)
اس سے معلوم ہوا کہ نیت بہت عظیم عمل ہے کہ حقیقتاً عمل کئے بغیر بھی سچی نیت ہونے کی صورت میں ثواب مل جاتا ہے۔ ہاں یہ ہے جو عذر کی وجہ سے جہاد میں حاضر نہ ہوسکے اگر چہ وہ نیت کا ثواب پائیں گے لیکن جہاد کرنے والوں کو عمل کی فضیلت اس سے زیادہ حاصل ہے۔ راہِ خدا میں جان و مال خرچ کرنے کی کتنی عظیم فضیلت ہے اس کیلئے ذیل کی 4احادیث کو ملاحظہ فرمائیں:
(1)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں عرض کی گئی : یارسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،لوگوں میں سے کون سا شخص افضل ہے؟ ارشاد فرمایا ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرتاہے۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب افضل الناس مؤمن یجاہد بنفسہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۴۹، الحدیث: ۲۷۸۶)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی گئی :کیا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہا دکے برابر بھی کوئی عبادت ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تم ا س کی اِستِطاعت نہیں رکھتے۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے سوال پھر دھرایا، یا تین بار پوچھا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہر بار فرمایا کہ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ تیسری بار فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا جہاد سے واپسی تک اس شخص کی طرح ہے جو روزے دار ہو، قیام کرنے والا ہو، اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر عمل کرنے والا ہو، روزے اور نماز سے تھکتا یا اُکتاتا نہ ہو ۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللہ تعالٰی، ص۱۰۴۴، الحدیث: ۱۱۰(۱۸۷۸))
(3)…حضرت خُریم بن فاتک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ خرچ کیا اس کے لئے سات سوگناثواب لکھا جاتا ہے۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل النفقۃ فی سبیل اللہ، ۳ / ۲۳۳، الحدیث: ۱۶۳۱)
…(4)حضرت معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ کی راہ میں(نکل کر)ذکر کرنے کا ثواب مال خرچ کرنے سے سات لاکھ گُنا زیادہ ہے۔(مسند امام احمد، مسند المکیین، حدیث معاذ بن انس الجہنی رضی اللہ تعالٰی عنہ، ۵ / ۳۱۴، الحدیث: ۱۵۶۴۷)
{دَرَجٰتٍ مِّنْهُ: اس کی طرف سے بہت سے درجات۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کا اجر بیان فرمایا کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کے بہت سے درجات، ان کے گناہوں کی بخشش اور جنت کی نعمتیں ہے اور اللہ تعالیٰ جہاد کرنے والوں کو بخشنے والا اور ان پر مہربان ہے۔(تفسیر سمرقندی، النساء، تحت الآیۃ: ۹۶، ۱ / ۳۸۰)
جنت میں مجاہدین کے درجات اور مجاہدین کی بخشش:
احادیث میں مجاہدین کے جنتی درجات کے بارے میں تفصیل بیان کی گئی ہے ،چنانچہ اس سے متعلق 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لئے جنت میں سو درجے مہیا فرمائے، ہر دو درجوں میں اتنا فاصلہ ہو گا جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۰، الحدیث: ۲۷۹۰)
(2)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اے ابو سعید! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، جو شخص اللہ تعالیٰ کے ربّ ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے نبی ہونے پر راضی ہو گیا اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ حضرت ابو سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو یہ بات اچھی لگی تو عرض کرنے لگے :یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،اس بات کو دوبارہ ارشاد فرمائیں۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دوبارہ اسی طرح فرمایا، پھر ارشاد فرمایا ’’ایک بات اور بھی ہے جس کی وجہ سے بندے کے سو درجات بلند ہوتے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے ۔میں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ درجہ کس چیز سے ملتا ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے،اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب بیان ما اعدّ اللہ تعالٰی للمجاہد فی الجنّۃ من الدرجات، ص۱۰۴۵، الحدیث: ۱۱۶(۱۸۸۴))
)3( …حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا :جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرے اور اس کا گھر سے نکلنا صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے اور اس کے دین کی تصدیق کی خاطر ہو تواللہ تعالیٰ اس کے لئے اس بات کا ضامن ہو جاتا ہے کہ)اگر وہ شہید ہو گیا تو( اس کو جنت میں داخل کرے گا یااجر اور غنیمت کے ساتھ ا س کو ا س کے مَسکَن میں واپس کر دے گا جہاں سے وہ روانہ ہو اتھا۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۴(۱۸۷۶))
{ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ: اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے۔} یہ آیت اُن لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے کلمہ اسلام تو زبان سے ادا کیا مگر جس زمانہ میں ہجرت فرض تھی اس وقت ہجرت نہ کی اور جب مشرکین جنگ بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے گئے تو یہ لوگ ان کے ساتھ ہوئے اور کفار کے ساتھ ہی مارے بھی گئے۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب انّ الذین توفّاہم الملائکۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۰۹، الحدیث: ۴۵۹۶، سنن الکبری للبیہقی، کتاب السیر، باب فرض الہجرۃ، ۹ / ۲۲، الحدیث: ۱۷۷۴۹)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک وہ لوگ جن کی روح فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ فرض ہجرت ترک کر کے اور کافروں کا ساتھ دے کر اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں ، ان کی موت کے وقت فرشتے انہیں جھڑکتے ہوئے کہتے ہیں : تم اپنے دین کے معاملے میں کس حال میں تھے؟ وہ عذر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور لوگ تھے اور (کافروں کی سرزمین میں رہنے کی وجہ سے) دین کے احکام پر عمل کرنے سے عاجز تھے۔ تو فرشتے ان کا عذر رد کرتے اور انہیں ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں : کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم کفر کی سرزمین سے ایسی جگہ ہجرت کر کے چلے جاتے جہاں تم دین کے احکام پر عمل کر سکتے؟ توجن لوگوں کے برے احوال یہاں بیان ہوئے یہ وہ لوگ ہیں جن کا آخرت میں ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کتنی بری لوٹنے کی جگہ ہے۔(جلالین، النساء، تحت الآیۃ: ۹۷، ص ۸۵، روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۹۷، ۲ / ۲۶۸-۲۶۹، ملتقطاً)
اس آیت سے ثابت ہوا کہ جو شخص کسی شہر میں اپنے دین پر قائم نہ رہ سکتا ہو اور یہ جانے کہ دوسری جگہ جانے سے اپنے فرائض دینی ادا کرسکے گا اس پر ہجرت واجب ہوجاتی ہے۔ اس حکم کو سامنے رکھ کر کافروں کے درمیان رہنے والے بہت سے مسلمانوں کو غور کرنے کی حاجت ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ توفیق عطا فرمائے۔ حدیث میں ہے جو شخص اپنے دین کی حفاظت کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا اگرچہ ایک بالشت ہی کیوں نہ ہو اس کے لیے جنت واجب ہوئی اور اس کو حضرت ابراہیم اور محمد مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رَفاقت مُیَسَّر ہوگی۔ (تفسیر سمرقندی، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۶، ۲ / ۵۴۲)
ہجرت کی اقسام اور ان کے احکام:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ہجرت کی اقسام بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک قسم کہ دارُالاسلام سے ہجرت ہو، اس بارے میں فرماتے ہیں :
رہا دارُالاسلام ،اس سے ہجرتِ عامہ حرام ہے کہ اس میں مساجد کی ویرانی وبے حرمتی، قبورِ مسلمین کی بربادی، عورتوں بچوں اور ضعیفوں کی تباہی ہوگی اور ہجرتِ خاصہ میں تین صورتیں ہیں ،
(1)… اگر کوئی شخص کسی خاص وجہ سے کسی خاص مقام میں اپنے دینی فرائض بجانہ لاسکے اور دوسری جگہ انہیں بجا لانا ممکن ہوتو اگر یہ خاص اسی مکان میں ہے تو اس پر فرض ہے کہ یہ مکان چھوڑ کر دوسرے مکان میں چلاجائے، اور اگر اس محلہ میں معذور ہوتو دوسرے محلہ میں چلا جائے اور اس شہر میں مجبور ہوتو دوسرے شہر میں چلا جائے۔
(2)… یہاں اپنے مذہبی فرائض بجالانے سے عاجز نہیں اور اس کے ضعیف ماں یا باپ یا بیوی یا بچے جن کا نفقہ اس پر فرض ہے وہ نہ جاسکیں گے یا نہ جائیں گے اور اس کے چلے جانے سے وہ بے وسیلہ رہ جائیں گے تو اس کو دارُالاسلام سے ہجرت کرنا حرام ہے،
حدیث میں ہے:کسی آدمی کے گنہگار ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ اسے ضائع کردے جس کا نفقہ اس کے ذمے تھا۔
یا وہ عالم جس سے بڑھ کر اس شہر میں عالم نہ ہو اسے بھی وہاں سے ہجرت کرنا حرام ہے۔
(3)… نہ فرائض سے عاجز ہے نہ اس کی یہاں حاجت ہے، اسے اختیار ہے کہ یہاں رہے یا چلا جائے ، جو اس کی مصلحت سے ہو وہ کر سکتا ہے ، یہ تفصیل دارُالاسلام میں ہے۔(فتاوی رضویہ، ۱۴ / ۱۳۱- ۱۳۲، ملخصاً)
{اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ:مگر وہ مجبور مرد اور عورتیں اور بچے۔}اس آیت اور ا س کےبعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ مجبور مرد اور عورتیں اور بچے جو نہ ہجرت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں ، نہ ان کے پاس اخراجات ہوں اور نہ ہی وہ ہجرت گاہ کا راستہ جانتے ہوں تو ایسے عاجز اور مجبور لوگ ہجرت نہ کرنے پر قابلِ گرفت نہیں ، عنقریب اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے درگزر فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ معاف فرمانے والا، بخشنے والا ہے۔ (جلالین، النساء، تحت الآیۃ: ۹۸، ص ۸۵، روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۹۷، ۲ / ۲۶۹، ملتقطاً)
{وَ مَنْ یُّهَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے۔} شانِ نزول : اس سے پہلی آیت جب نازل ہوئی تو حضرت جُنْدَع بن ضَمرہ اَللّیْثِیْ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اِسے سنا، یہ بہت بوڑھے شخص تھے ،کہنے لگے کہ میں مُستَثنیٰ لوگوں میں تو ہوں نہیں کیونکہ میرے پاس اتنا مال ہے کہ جس سے میں مدینہ طیبہ ہجرت کرکے پہنچ سکتا ہوں۔ خدا کی قسم ، اب میں مکہ مکرمہ میں ایک رات نہ ٹھہروں گا، مجھے لے چلو چنانچہ ان کو چار پائی پر لے کرچلے لیکن مکہ مکرمہ کے بالکل قریب ہی مقامِ تَنعیم میں آکر ان کا انتقال ہوگیا۔ آخری وقت انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور کہا، یارب! عَزَّوَجَلَّ، یہ تیرا ہے اور یہ تیرے رسول کاہے ،میں اُس چیز پر بیعت کرتا ہوں جس پر تیرے رسول نے بیعت لی ۔ سُبْحَانَ اللہ، یہ خبر پا کر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے فرمایا، کاش وہ مدینہ پہنچتے توان کا اجر کتنا بڑا ہوتا اور مشرک ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ جس مطلب کے لئے نکلے تھے وہ نہ ملا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۱ / ۳۷۵)
اور ان کی عظمت و شان کو بہترین انداز میں بیان فرمایا کہ جو راہِ خدا میں ہجرت کرے پھر اسے منزل تک پہنچنے سے پہلے موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کریم کے وعدے اور اس کے فضل و کرم سے اس کے ذمۂ کرم پر ہے ، یوں نہیں کہ اس پر بطورِ معاوضہ واجب ہے کیونکہ اس طور پر کوئی چیزاللہ عَزَّوَجَلَّ پر واجب نہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّکی شان اس سے بلند ہے۔
نیکی کا ارادہ کر کے نیکی کرنے سے عاجز ہوجانے والا اس نیکی کا ثواب پائے گا:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو کوئی نیکی کا ارادہ کرے اور اس کو پورا کرنے سے عاجز ہوجائے وہ اس نیکی کا ثواب پائے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس شخص نے نیکی کا ارادہ کیا اور نیکی نہیں کی تو ا س کی ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور نیکی کر لی تو اس کے لئے دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیا ں لکھ دی جاتی ہیں اور جس نے گناہ کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہیں کیا تو اس کا گناہ نہیں لکھا جاتا اور اگر وہ گناہ کر لے تو ایک گناہ لکھ دیاجاتا ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب اذا ہمّ العبد بحسنۃ کتبت۔۔۔ الخ، ص۷۹، الحدیث: ۲۰۶(۱۳۰))
کن کاموں کے لئے وطن چھوڑنا ہجر ت میں داخل ہے:
صدرُالاَفاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ طلب ِ ِعلم، جہاد، حج و زیارت ِ مدینہ، نیکی کے کام، زہد و قناعت اور رزقِ حلال کی طلب کے لیے ترک ِوطن کرنا خدا اور رسول کی طرف ہجرت ہے، اس راہ میں مرجانے والا اجر پائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے مروی ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جسے علم حاصل کرتے ہوئے موت آ گئی وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان صرف درجۂ نبوَّت کا فرق ہو گا۔(معجم الاوسط، باب الیاء، من اسمہ یعقوب، ۶ / ۴۷۵، الحدیث: ۹۴۵۴)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جو حج کے لئے نکلا اور مر گیا، قیامت تک اس کے لئے حج کرنے والے کاثواب لکھا جائے گا اور جو عمرہ کے لئے نکلا اور مر گیا، اس کے لئے قیامت تک عمرہ کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا۔ (مسند ابو یعلی، مسند ابی ہریرۃ، ۵ / ۴۴۱، الحدیث: ۶۳۲۷)
{وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ:اور جب تم زمین میں سفر کرو ۔} اس آیت میں نماز کو قَصر کرنے کا مسئلہ بیان کیا گیاہے یعنی سفر کی حالت میں ظہر ، عصر اور عشاء میں چار فرضوں کی بجائے دو پڑھیں گے۔
نمازِ قصر کے بارے میں 4مسائل:
یہاں آیت کی مناسبت سے نما زِ قصر سے متعلق 4شرعی مسائل ملاحظہ ہوں
(1)…اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں چار رکعت والی نماز کو پورا پڑھنا جائز نہیں ہے۔
(2)… کافروں کا خوف قصر کے لیے شرط نہیں ، چنانچہ حضرت یعلیٰ بن امیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عمر رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا کہ ہم تو امن میں ہیں ( پھر ہم کیوں قصر کرتے ہیں ؟ ) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا، اس کا مجھے بھی تعجب ہوا تھا تو میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا ۔ اس پر حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے صدقہ ہے تم اس کا صدقہ قبول کرو۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب صلاۃ المسافرین وقصرہا، ص۳۴۷، الحدیث: ۴(۶۸۶))
آیت کے نازل ہونے کے وقت چونکہ سفر اندیشہ سے خالی نہ ہوتے تھے اس لیے آیت میں اس کا ذکر ہوا ہے ورنہ خوف اور اندیشہ کا ہونا کوئی شرط نہیں ہے، نیز صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا بھی یہی عمل تھا کہ امن کے سفروں میں بھی قصر فرماتے جیسا کہ اوپر کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اور احادیث سے بھی یہ ثابت ہے ۔
(3)…جس سفر میں قصر کیا جاتا ہے اس کی کم سے کم مدت تین رات دن کی مسافت ہے جو اونٹ یا پیدل کی متوسط رفتار سے طے کی جاتی ہو اور اس کی مقداریں خشکی اور دریا اور پہاڑوں میں مختلف ہوجاتی ہیں۔ ہمارے زمینی، میدانی سفر کے اعتبار سے فی زمانہ اس کی مسافت بانوے کلومیٹر بنتی ہے ۔
(4)… قصر صرف فرضوں میں ہے، سنتوں میں نہیں اور سفر میں سنتیں پڑھنی چاہئیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضر کی نماز اور سفر کی نماز کو فرض فرمایا تو ہم حضر میں فرض نماز سے پہلے بھی نماز پڑھا کرتے تھے اور بعد میں بھی اور سفر میں فرض نماز سے پہلے بھی نماز پڑھا کرتے تھے اور بعد میں بھی۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب التطوع فی السفر، ۱ / ۵۶۱، الحدیث: ۱۰۷۲)
نمازِ قصر کے بارے میں مزید مسائل جاننے کے بہار شریعت حصہ4 سے ’’نماز مسافر کا بیان‘‘مطالعہ فرمائیں۔
{وَ اِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ: اور جب تم ان میں ہو۔} اس آیت میں نمازِ خوف کی جماعت کا طریقہ بیان کیا گیا ہے ۔ اس کا شانِ نزول یہ ہے کہ غزوۂ ذاتُ الرِّقاع میں جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مشرکین نے دیکھا کہ آپ نے تمام صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ساتھ نمازِ ظہر باجماعت ادا فرمائی تو انہیں افسوس ہوا کہ انہوں نے اس وقت میں کیوں نہ حملہ کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ کیا ہی اچھا موقع تھا۔ ان میں بعضوں نے کہا کہ اس کے بعد ایک اور نماز ہے جو مسلمانوں کو اپنے ماں باپ سے زیادہ پیاری ہے یعنی نمازِ عصر، لہٰذا جب مسلمان اس نماز کے لیے کھڑے ہوں تو پوری قوت سے حملہ کرکے انہیں قتل کردو۔ اس وقت حضرت جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام نازل ہوئے اور انہوں نے حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا :یا رسولَ اللہ ! یہ نماز ِخوف ہے یعنی اب یوں نماز پڑھیں۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۱ / ۴۲۳)
آیت میں بیان کیا گیانماز ِ خوف کا طریقہ:
اس آیت میں نمازِ خوف کا طریقہ یہ بیان کیا گیا کہ حاضرین کو دو جماعتوں میں تقسیم کردیا جائے ،ان میں سے ایک آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ رہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں نماز پڑھائیں اور ایک جماعت دشمن کے مقابلہ میں کھڑی رہے۔ پہلی جماعت ایک رکعت پڑھ کر اور مغرب میں دو رکعتیں پڑھ کر دشمن کے مقابل چلی جائے اور دوسری جماعت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے پیچھے آجائے پھر بعد میں وہ اپنی ایک ایک بقیہ رکعت پڑھ لیں اور جن کی دو باقی ہیں وہ دو پڑھ لیں اور دونوں جماعتیں ہروقت اسلحہ ساتھ رکھیں یعنی نماز میں بھی مُسلّح رہیں۔ معلوم ہوا کہ نماز کی جماعت ایسی اَہم ہے کہ ایسی سخت جنگ کی حالت میں بھی جماعت کا طریقہ سکھایا گیا ۔افسوس ان پر جو بلاوجہ جماعت چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ اس میں ستائیس گنا زیادہ ثواب ہے۔
{وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور کافرچاہتے ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ تمہیں حفاظت کا سامان اور ہتھیار ساتھ رکھنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ کافریہ چاہتے ہیں کہ اگرتم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے غافل ہو جاؤ تو وہ ایک ہی دفعہ تم پرحملہ کردیں اوراگر ہتھیار تمہارے پاس ہوں گے تو دشمن تم پر اچانک حملہ کرنے کی جرأت نہ کرے گا۔ آیت کے اس حصے کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوۂ ذاتُ الرّقاع سے جب فارغ ہوئے اور دشمن کے بہت آدمیوں کو گرفتار کیا اور اموالِ غنیمت ہاتھ آئے اور کوئی دشمن مقابلے میں باقی نہ رہا تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قضائے حاجت کے لیے جنگل میں تنہا تشریف لے گئے ، دشمن کی جماعت میں سے غورث بن حارث یہ خبر پا کر تلوار لیے ہوئے چھپ چھپ کرپہاڑ سے اترا اور اچانک تاجدارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس پہنچا اور تلوار کھینچ کر کہنے لگا یامحمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ۔اور ساتھ ہی حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی۔ جب اُس نے سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر تلوار چلانے کا ارادہ کیا تواوندھے منہ گر پڑا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ تلوار لے کر فرمایا کہ تجھے مجھ سے کوئی بچائے گا؟ کہنے لگا، میرا بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ رحمت ِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ اَشْھَدُاَنْ لَّآاِلٰـہَ اِلَّااللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ پڑھ تو تیری تلوار تجھے دے دوں گا، اس نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ میں اس کی شہادت دیتا ہوں کہ میں کبھی آپ سے نہ لڑوں گا اور زندگی بھر آپ کے کسی دشمن کی مدد نہ کروں گا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی تلوار اس کو دے دی کہنے لگا، یا محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) آپ مجھ سے بہت بہتر ہیں ؟نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا، ہاں !ہمارے لائق یہی ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ہتھیار اور بچاؤ کا سامان ساتھ رکھنے کا حکم دیا گیا۔ (ابو سعود، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۱ / ۵۷۹)
{اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى: اگر تمہیں کوئی تکلیف ہو۔} حکم تھا کہ اپنی حفاظت کا سامان ہر وقت ساتھ رکھولیکن حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ زخمی تھے اور اس وقت ہتھیار رکھنا ان کے لیے بہت تکلیف دہ تھا، ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور حالتِ عذر میں ہتھیار کھول رکھنے کی اجازت دی گئی۔ (قرطبی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۳ / ۲۵۶، الجزء الخامس)
{فَاذْكُرُوا اللّٰهَ: تو اللہ کو یاد کرو۔} یعنی ذکرِ الٰہی کی ہر حال میں ہمیشگی کرو اور کسی حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر سے غافل نہ رہو۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے ہر فرض کی ایک حد معیَّن فرمائی سوائے ذکر کے کہ اس کی کوئی حد نہ رکھی بلکہ فرمایا کہ ذکر کرو کھڑے بیٹھے کروٹوں پر لیٹے، رات میں ہو یا دن میں ،خشکی میں ہو یا تری میں ،سفر میں اور حضر میں ، غناء میں اور فقر میں ، تندرستی اور بیماری میں پوشیدہ اور ظاہر۔ (تفسیر طبری، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۴ / ۲۶۰)
اللہ تعالیٰ کے ذکر سے متعلق2شرعی مسائل:
یہاں آیت کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے متعلق 2 شرعی مسائل ملاحظہ ہوں:
(1)…اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نمازوں کے بعد جو کلمہ توحیدکا ذکر کیا جاتا ہے وہ جائز ہے جیسا کہ مشائخ کی عادت ہے اور بخاری و مسلم کی احادیثِ صحیحہ سے بھی یہ ذکرثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضورِا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہر فرض نماز کے بعد یوں کہا کرتے تھے ’’لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ، وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ، اَللّٰہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ‘‘ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اے اللہ ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی دولت مند کو تیرے مقابلے پر دولت نفع نہیں دے گی۔(بخاری، کتاب الاذان، باب الذکر بعد الصلاۃ، ۱ / ۲۹۴، الحدیث: ۸۴۴)
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہر نماز میں سلام پھیرنے کے بعد یہ فرماتے تھے :لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللہُ وَلَا نَعْبُدُ اِلاَّ اِیَّاہُ لَہُ النِّعْمَۃُ وَلَہُ الْفَضْلُ وَلَہُ الثَّنَائُ الْحَسَنُ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ ‘‘ اور حضرت عبد اللہ بن زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے کہاکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر نماز کے بعد یہ کلمات بلند آوازسے فرماتے تھے ۔ (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ، ص۲۹۹، الحدیث: ۱۳۹(۵۹۴))
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں :بلند آواز سے ذکر کرنا جبکہ لوگ فرض نماز سے فارغ ہو جاتے یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے عہد مبارک میں رائج تھا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں :جب میں اس (بلند آواز سے ذکر کرنے) کو سنتا تو اسی سے لوگوں کے (نماز سے) فارغ ہونے کو جان لیتا تھا۔(بخاری، کتاب الاذان، باب الذکر بعد الصلاۃ، ۱ / ۲۹۳، الحدیث: ۸۴۱، مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب الذکر بعد الصلاۃ، ص۲۹۹، الحدیث: ۱۲۲(۵۸۳))
البتہ یہ یاد رہے کہ ذکر کرتے وقت اتنی آواز سے ذکر کیا جائے کہ کسی نمازی یا سونے والے کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔
(2)…ذکر میں تسبیح، تحمید، تہلیل ،تکبیر، ثناء، دعا سب داخل ہیں۔
{ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا: مقررہ وقت پر فرض ہے۔}نماز کے اوقات مقرر ہیں لہٰذا لازم ہے کہ ان اوقات کی رعایت کی جائے۔
سفر میں دو نمازوں کو جمع کرنے کا شرعی حکم:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سفر میں دو نمازیں جمع نہیں ہو سکتیں۔ احادیث میں بھی سفر کے دوران دو نمازوں کو جمع کرنے کی نفی کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے کبھی کوئی نماز ا س کے غیر وقت میں پڑھی ہو مگر دو نمازیں کہ ایک ان میں سے نمازِمغرب ہے جسے مُزدلفہ میں عشاء کے وقت پڑھا تھا اور وہاں فجر بھی روز کے معمولی وقت سے پہلے تاریکی میں پڑھی تھی۔ (مسلم، کتاب الحج، باب استحباب زیادۃ التغلیس بصلاۃ الصبح۔۔۔ الخ، ص۶۷۱، الحدیث: ۲۹۲(۱۲۸۹))
حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ایک بار کے سوا کبھی کسی سفر میں مغرب و عشاء ملاکر نہ پڑھی ۔ (ابو داؤد، کتاب صلاۃ المسافر، باب الجمع بین الصلاتین، ۲ / ۹، الحدیث: ۱۲۰۹)
یاد رہے کہ جس سفر میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھا وہ حجۃ الوداع کا سفر تھا اور نویں ذی ا لحجہ کو مزدلفہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان دونوں نمازوں کو ملا کر پڑھا تھا اوردیگر جن احادیث میں دو نمازیں جمع کرنے کا ذکر ہے وہاں جمع صوری مراد ہے یعنی پہلی نماز آخر ی وقت میں اور دوسری نماز اول وقت میں ادا کی گئی جیساکہ درج ذیل دو روایات سے واضح ہے، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو دیکھا کہ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو پہنچنے کی جلدی ہوتی تو (آخری وقت سے کچھ دیر پہلے) مغرب کی اقامت کہہ کر نماز پڑھ لیتے ،سلام پھیر کر کچھ دیر ٹھہرتے پھر عشاء کی اقامت ہوتی اور نماز عشاء کی دو رکعتیں پڑھتے۔(بخاری، کتاب تقصیر الصلاۃ، باب یصلی المغرب ثلاثاً فی السفر، ۱ / ۳۷۴، الحدیث: ۱۰۹۲ )
حضرت نافع اور حضرت عبداللہ بن واقد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے مؤذن نے نماز کے لئے کہا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:چلتے رہو، یہاں تک کہ جب شَفَق ڈوبنے کے قریب ہوئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اتر کر نمازِ مغرب پڑھی، پھر انتظار فرمایا یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی ، اس وقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے نمازِ عشاء پڑھی ،پھر فرمایا ’’حضور سیّدعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جب (کسی کام کی وجہ سے) جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے جیسامیں نے کیا۔ (ابو داؤد، کتاب صلاۃ المسافر، باب الجمع بین الصلاتین، ۲ / ۱۰، الحدیث: ۱۲۱۲)
نوٹ:اس مسئلے سے متعلق تفصیلی اور تحقیقی معلومات حاصل کرنے لئے فتاوی رضویہ کی پانچویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام حمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی کتاب ’’حَاجِزُ الْبَحْرَیْنْ اَلْوَاقِیْ عَنْ جَمْعِ الصَّلَاتَینْ‘‘ (دو نمازیں ایک وقت میں پڑھنے کی ممانعت پر رسالہ)کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ لَا تَهِنُوْا فِی ابْتِغَآءِ الْقَوْمِ: اور کافروں کی تلاش میں سستی نہ کرو ۔} اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ احدکی جنگ سے جب ابو سفیان اور ان کے ساتھی واپس ہوئے توسرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے جو صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اُحد میں حاضر ہوئے تھے انہیں مشرکین کے تَعاقُب میں جانے کا حکم دیا، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم زخمی تھے، انہوں نے اپنے زخموں کی شکایت کی اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۱ / ۴۲۶)
اور فرمایا گیا کہ اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو انہیں بھی پہنچی ہے نیز تمہیں تو تکلیفیں اٹھانے پراللہ عَزَّوَجَلَّ سے ثواب کی امید ہے جبکہ کافروں کو ایسی کوئی امید نہیں تو تم پیچھا کرنے میں سستی نہ کرو۔
{اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ:اے حبیب!بیشک ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر کے ایک شخص طُعْمَہ بن اُبیر ِق نے اپنے ہمسایہ قتادہ بن نعمان کی زرہ چرا کر آٹے کی بوری میں ایک یہودی کے ہاں چھپادی جب زرہ کی تلاش ہوئی اور طعمہ پر شُبہ کیا گیا تو وہ انکار کرگیا اور قسم کھا گیا۔ بوری پھٹی ہوئی تھی اور آٹا اس میں سے گرتا جاتا تھا، اس کے نشان سے لوگ یہودی کے مکان تک پہنچے اور بوری وہاں پائی گئی، یہودی نے کہا کہ طعمہ اس کے پاس رکھ گیا ہے اور یہودیوں کی ایک جماعت نے اس کی گواہی دی اور طعمہ کی قوم بنی ظفر نے یہ عَزم کرلیا کہ یہودی کو چور قرار دیں گے اور اس پر قسم کھالیں گے تاکہ ہماری قوم رسوا نہ ہو اور ان کی خواہش تھی کہ رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ طعمہ کو بری کردیں اور یہودی کو سزا دیں۔ اسی لیے انہوں نے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے طعمہ کے حق میں اور یہودی کے خلاف جھوٹی گواہی دی۔ تب یہ آیتِ کریمہ اتری۔(بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۲ / ۲۴۸)
حکام فیصلہ کرنے میں کوتاہی نہ کریں :
اس آیت میں بظاہر خطاب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ہے لیکن در حقیقت قیامت تک کے حکام کو سنانا مقصود ہے کہ فیصلہ کرنے میں کوتاہی نہ کیا کریں اور صحیح ملزم کو بغیر رُو رعایت سزا پوری دیا کریں۔ طعمہ بظاہر مومن تھا اور یہودی کافر تھا مگر فیصلہ اس موقعہ پر یہودی کے حق میں ہوا۔
تَعَصُّب کا رد:
اسی آیت سے تعصب کا رد بھی ہوتا ہے کہ اسلام میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ آدمی اپنی قوم یا خاندان کی ہر معاملے میں تائید کرے اگرچہ وہ باطل پر ہوں بلکہ حق کی اِتّباع کرنا ضروری ہے۔ اس میں رنگ و نسل، قوم وعلاقہ، ملک و صوبہ، زبان و ثقافت کے ہر قسم کے تعصب کا رد ہے۔ کثیر احادیث میں بھی تعصب کا شدید رد کیا گیا ہے ، چنانچہ ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت فُسِیلہرَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : میرے والد نے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا بھی تعصب ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نے ارشاد فرمایا ’’نہیں ، بلکہ اپنی قوم کی ظلم میں مدد کرنا تعصب ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العصبیۃ، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۴۹)
(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو بلا وجہ جنگ کرے یا تعصب کی جانب بلائے یا تعصب کی وجہ سے غصہ کرے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العصبیۃ، ۴ / ۳۲۶، الحدیث: ۳۹۴۸)
(3)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بد ترین شخص وہ ہو گا جس نے کسی کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت برباد کر لی۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب اذا التقی المسلمان بسیفہما، ۴ / ۳۳۹، الحدیث: ۳۹۶۶)
{وَ لَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ: اور خیانت کرنے والوں کی طرف سے نہ جھگڑنا} گزشتہ آیت میں اور اِس آیت میں فرمایا کہ خیانت کرنے والوں کی طرف سے نہ جھگڑو۔
خیانت کرنے والوں کا ساتھ دینے کی مذمت:
اس سے وکالت کا پیشہ کرنے والوں کوغور کرنا چاہیے کہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ وکیل کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا موکل مجرم و خائن ہے لیکن وہ مال بٹورنے کے چکر میں مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بنا دیتا ہے اور ظالم کی طرف داری کرتا ہے، اس کی طرف سے دلائل پیش کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، دوسرے فریق کا حق مارتا ہے اور نہ جانے کن کن حرام کاموں کا مُرْتَکِب ہوتا ہے۔ کورٹ کچہری سے تعلق رکھنے والے حضرات ان باتوں کو بخوبی جانتے ہیں۔ ان حضرات کی خدمت میں گزارش ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس فرمان کو بغور پڑھیں ، نیز اللہ تعالیٰ کے ان فرامین پر غور کریں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۴۲)(بقرہ:۴۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(بقرہ:۱۸۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پرجان بوجھ کر کھالو۔
اور ارشاد فرمایا:
وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(ال عمران:۱۶۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو خیانت کرے تووہ قیامت کے دن اس چیزکو لے کرآئے گاجس میں اس نے خیانت کی ہوگی پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ان ارشادات پر غور کریں اور اپنے برے افعال سے توبہ کریں ، چنانچہ حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو خیانت کرنے والے کی پردہ پوشی کرے تو وہ بھی اس ہی کی طرح ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب النہی عن الستر علی من غلّ، ۳ / ۹۳، الحدیث: ۲۷۱۶)
حضرت ابو بکر صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’وہ شخص ملعون ہے جو اپنے مسلمان بھائی کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے ۔ (تاریخ بغداد، ۲۶۲-محمد بن احمد بن محمد بن جابر۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۶۰)
یہ بھی یاد رہے کہ جھوٹی وکالت کی اجرت حرام ہے۔
{ یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ:وہ لوگوں سے شرماتے ہیں۔} یعنی طعمہ اور ا س کی قوم کے افراد لوگوں سے حیا کرنے کی بنا پر اور ان کی طرف سے نقصان پہنچنے کے ڈر سے اُن سے تو شرماتے اور چھپتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں شرماتے حالانکہ وہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے حیا کی جائے اور اس کے عذاب سے ڈرا جائے کیونکہ وہ ان کے احوال کو جانتا ہے اور اس سے ان کا کوئی عمل چھپا ہوا نہیں حتی کہ وہ ان کے ا س عمل سے بھی واقف ہے جب وہ اپنے دل میں ایسی بات تجویز کرتے ہیں اور رات میں ایسی بات کا مشورہ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کوپسند نہیں جیسے بے گناہ پر الزام لگانا، جھوٹی قسم کھانا اور جھوٹی گواہی دینا، اور اللہ تعالیٰ ان کے تمام ظاہری و باطنی تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ان کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں۔(جلالین، النساء، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۸۶، روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۲۷۹-۲۸۰، ملتقطاً)
یہ آیتِ مبارکہ تقویٰ و طہارت کی بنیاد ہے۔ اگر انسان یہ خیال رکھے کہ میرا کوئی حال اللہ عَزَّوَجَلَّسے چھپا ہوا نہیں تو گناہ کرنے کی ہمت نہ کرے۔ قرآنِ پاک میں جگہ جگہ اسی چیز کے ذریعے لوگوں کو گناہوں سے رکنے کا حکم دیا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ دیکھ رہا ہے۔ اس جملے کا اگر کوئی شخص مراقبہ کرلے اور اسے اپنے دل و دماغ میں بٹھالے تو گناہوں کا علاج نہایت آسان ہوجائے گا۔ حضرت سہل بنعبداللہ تستری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں تین سال کی عمر کا تھا کہ رات کے وقت اٹھ کر اپنے ماموں حضرت محمد بن سوار رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکو نماز پڑھتے دیکھتا۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے فرمایا: کیا تو اس اللہ تعالیٰ کو یاد نہیں کرتا جس نے تجھے پیدا کیا ہے؟ میں نے پوچھا :میں اسے کس طرح یاد کر وں ؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: جب لیٹنے لگو تو تین بار زبان کو حرکت دئیے بغیر محض دل میں یہ کلمات کہو: ’’اَللہُ مَعِیَ، اللہُ نَاظِرٌ اِلَیَّ، اللہُ شَاہِدٌ‘‘اللہ عَزَّوَجَلَّ میرے ساتھ ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّمجھے دیکھ رہا ہے، اللہ تعالیٰ میرا گواہ ہے۔
حضرت سہل رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں) میں نے چند راتیں یہ کلمات پڑھے اور پھر ان کو بتایا، انہوں نے فرمایا: ہر رات سات مرتبہ یہ کلمات پڑھو، میں نے ایسا ہی کیا اور پھر انہیں بتایا تو انہوں نے فرمایا: ہر رات گیارہ مرتبہ یہ کلمات پڑھو۔ میں نے اسی طرح پڑھا تو مجھے اپنے دل میں اس کی لذّت معلوم ہوئی۔ جب ایک سال گزر گیا تو میرے ماموں نے کہا: میں نے جو کچھ تمہیں سکھایا ہے اسے یاد رکھو اور قبر میں جانے تک ہمیشہ پڑھنا، یہ تمہیں دنیا و آخرت میں نفع دے گا۔ میں نے کئی سال تک ایسا کیا تو میں نے اپنے اندر اس کا مزہ پایا، پھر ایک دن میرے ماموں نے فرمایا: اے سہل! اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ ہو، اسے دیکھتا ہو اور ا س کا گواہ ہو ،کیا وہ اس کی نافرمانی کرتا ہے؟ تم اپنے آپ کو گناہوں سے بچا کر رکھو۔( احیاء علوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس وتہذیب الاخلاق۔۔۔ الخ، بیان الطریق فی ریاضۃ الصبیان۔۔۔ الخ، ۳ / ۹۱)
{هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ جٰدَلْتُمْ عَنْهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:سن لو، یہ تم ہی ہو جودنیا کی زندگی میں ان کی طرف سے جھگڑے۔} یہاں عام لوگوں سے اور بطورِ خاص طعمہ کی قوم سے خطاب فرمایا گیا ہے کہ اے لوگو! سن لو، تم جوآج دنیا کی زندگی میں ان خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑتے ہو توجب قیامت کے دن خیانت کرنے والا مجرم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں پیش ہوگا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے عذاب کا فیصلہ فرما دے گاتو اس وقت کون ان کی طرف سے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے جھگڑے گا یا کون ان کا وکیل و کارساز ہوگا؟ یعنی جیسے دنیا میں تم فیصلہ کرنے والے کو دھوکہ دیدیتے ہو اس طرح دھوکہ دینے کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں جھگڑنا ناممکن ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّسے کچھ پوشیدہ نہیں۔
شفاعت کا ثبوت:
یاد رہے کہ اس آیت میں شفاعت کا انکار نہیں کیونکہ محبوبوں کی شفاعت اور چھوٹے بچوں کا اپنے ماں باپ کی بخشش کے لئے رب تعالیٰ سے ناز کے طور پر جھگڑنا آیات و احادیث سے ثابت ہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ (سورۂ بقرہ: ۲۵۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے ہاں شفاعت کرسکے۔
اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن جب کچے بچے کے ماں باپ کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل کرے گاتو وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے جھگڑے گا۔ فرمایا جائے گا ’’اَیُّھَا السَّقْطُ الْمُرَاغِمُ رَبَّہٗ‘‘ اے کچے بچے اپنے رب عَزَّوَجَلَّسے جھگڑنے والے ! اپنے ماں باپ کو جنت میں لے جا، تب وہ انہیں اپنے ناف سے کھینچے گا حتّٰی کہ انہیں جنت میں داخل کردے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فیمن اصیب بسقط، ۲ / ۲۷۳، الحدیث: ۱۶۰۸)
مگر یہ جھگڑا رب کریم کی بارگاہ میں ناز کا ہو گانہ کہ مقابلے کا۔
{وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا: اور جوبرا عمل کرے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں تین چیزیں بیان فرمائی گئیں۔ پہلی یہ کہ جو شخص کوئی برا عمل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے معافی کا طلبگار ہواور سچی توبہ کرے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرے تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو غفور ورحیم پائے گا۔ سُبْحَانَ اللہ۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ جو گناہ کرے گا وہی اس گناہ کا وبال اٹھائے گا، یہ نہ ہوگا کہ گناہ کوئی کرے اور اس کا وبال کسی دوسرے کی گردن پر رکھ دیا جائے ۔
گناہ جارِیَہ کا سبب بننے والے کوگناہ کرنے والے کے گناہ سے بھی حصہ ملے گا:
یہاں یہ بات یادرہے کہ جو کسی گناہ جاریہ کا سبب بنا تو اسے گناہ کرنے والوں کے گناہ سے بھی حصہ ملے گا جیسے کسی نے سینما کھولا یا شراب خانہ کھولا یا بے حیائی کا اڈا کھولا یا اپنی دکان وغیرہ پر فلمیں چلائیں جہاں لوگ بیٹھ کر دیکھیں یا کسی کو غلط راہ پر لگادیا یا کسی کو شراب، جوا یا نشے کا عادی بنادیا تو اس صورت میں گناہ کا کام کرنے والے اور اُسے اِس راہ پر لگانے والے دونوں کو گناہ ہوگا۔ احادیث میں یہ مضمون بکثرت ملتا ہے ، چنانچہ ان میں سے4اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ہر وہ جان جسے ظُلماً قتل کیا جائے تو اُس کے خون کا گناہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پہلے بیٹے پرہو گا کیونکہ اس نے قتل کا طریقہ نکالا۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب خلق آدم صلوات اللہ علیہ وذرّیتہ، ۲ / ۴۱۳، الحدیث: ۳۳۳۵)
(2)… حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ نکالا پھر اس کے بعد اُس پر عمل کیا گیا تو عمل کرنے والے کے ثواب کی مثل ثواب اِس کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور اُن عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہو گی اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کیا پھر اس کے بعداُس پر عمل کیا گیا تو عمل کرنے والے کے گناہ کی مثل گناہ اُس کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور اِن عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔(مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۷، الحدیث: ۱۵(۲۶۷۳))
(3)…حضرت ابو مسعود انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی بھلائی کے کام پر رہنمائی کی تو اس کے لئے وہ کام کرنے والے کی طرح ثواب ہے۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل اعانۃ الغازی فی سبیل اللہ۔۔ الخ، ص۱۰۵۰، الحدیث: ۱۳۳(۱۸۹۳))
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا : جو ہدایت کی طرف بلائے تو اسے ویسا ثواب ملے گا جیسا اس کی پیروی کرنے والے کو ملے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی اور جو گمراہی کی طرف بلائے تو اسے ویسا گنا ہ ملے گا جیسا اس کی پیروی کرنے والے کو ملے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ ہو گی۔(مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۸، الحدیث: ۱۶(۲۶۷۴))
{وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا: اور جو کوئی غلطی یا گناہ کا اِرتِکاب کرے۔} اس آیت میں تیسری بات ارشاد فرمائی گئی کہ جس نے کسی بے گناہ پر الزام لگایا تو اس نے بہتان اور بہت بڑے گناہ کا بوجھ اٹھایا۔ آیت میں گناہ سے مراد گناہِ کبیرہ اور خطا سے مراد گناہِ صغیرہ ہے۔
بے گناہ پر تہمت لگانے کی مذمت:ـ
اس آیت سے معلوم ہو اکہ بے گناہ کو تہمت لگانا سخت جرم ہے وہ بے گناہ خواہ مسلمان ہو یا کافر کیونکہ طعمہ نے یہودی کافر کو بہتان لگایا تھا اس پراللہ تعالیٰ نے ا س کی مذمت فرمائی ۔احادیث میں بھی بے گناہ پرتہمت لگانے کی وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،چنانچہ
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تواللہ تعالیٰ اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔(اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک عذاب میں مبتلا رہے گا)(معجم الاوسط، من اسمہ مقدام، ۶ / ۳۲۷، الحدیث: ۸۹۳۶)
حضرت عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو ’’اے زانیہ‘‘ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں ان کے لئے کوئی حد نہیں۔ (مستدرک، کتاب الحدود، ذکر حد القذف، ۵ / ۵۲۸، الحدیث: ۸۱۷۱)
اسلام کا اعلیٰ اخلاقی اصول:
اس آیت سے ایک تو کسی پر بہتان لگانے کا حرام ہونا واضح ہوا اور دوسرا اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا علم ہوا کہ اسلام میں انسانی حقوق کا کس قدر پاس اور لحاظ ہے، حتّی کہ کافر تک کے حقوق اسلام میں بیان کئے گئے ہیں۔ یہ واقعہ اور آیات ِ مبارکہ کفار کے سامنے پیش کرنے کی ہیں کہ دیکھو اسلام کی تعلیمات کتنی حسین اور عمدہ ہیں۔
{لَهَمَّتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ: ان میں سے ایک گروہ نے ارادہ کیا تھا۔} یہاں سابقہ واقعہ کے اعتبار ہی سے کلام چل رہا ہے، چنانچہ فرمایا گیا کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تم پر بڑا فضل فرمایا اور رحمت کی کہ تمہیں نبی معصوم بنایا اور رازوں پر مطلع فرما یا۔ اگر پروردگارِ عالم نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معصوم نہ بنایا ہوتا اور آپ پر تمام عُلوم ظاہر نہ کر دئیے ہوتے تو یہ آپ کو بہکا دیتے۔ یہاں بہکانے سے مراد دھوکہ دے کر غلط فیصلہ کروا لینا ہے۔ وہ لوگ جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں یہ تو اپنے آپ کو گمراہ کررہے ہیں کیوں کہ اس کا وبال انہیں پر ہے، یہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دھوکا نہیں دے سکتے کیونکہ اُن کی حفاظت ان کا ربّ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے۔ نیز فرمایا کہ یہ لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو ہمیشہ کے لئے معصوم بنایا ہے۔
{وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ: اور تمہیں وہ سب کچھ سکھادیا جو تم نہ جانتے تھے۔} یہ آیتِ مبارکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی عظیم مدح پر مشتمل ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو دین کے اُمور ، شریعت کے احکام اور غیب کے وہ عُلوم عطا فرما دئیے جو آپ نہ جانتے تھے ۔
نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے علمِ غیب سے متعلق چند ضروری باتیں :
یہاں حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے علمِ غیب سے متعلق چند ضروری باتیں ذہن نشین رکھیں کہ مسلمانوں کا عقیدہ اس بارے میں کیا ہے۔ یہ باتیں پیشِ نظررہیں تو اِنْ شَآءَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ کوئی گمراہ بہکانہ سکے گا، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ فرماتے ہیں :
(1)…بے شک غیرِ خدا کے لیے ایک ذرہ کا علمِ ذاتی نہیں اس قدر (یعنی اتنی بات) خود ضروریاتِ دین سے ہے اور اس کامنکر کافر ہے۔
(2)…بے شک غیرِ خدا کا علم اللہ تعالیٰ کی معلومات کو حاوی نہیں ہوسکتا، برابر تو درکنار۔ تمام اَوّلِین و آخِرین، اَنبیاء ومُرسَلین، ملائکہ و مقربین سب کے علوم مل کر علومِ الہِٰیّہ سے وہ نسبت نہیں رکھ سکتے جو کروڑ ہا کروڑ سمندروں سے ایک ذرا سی بوند کے کروڑویں حصے کو ہے کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں حصہ دونوں مُتَناہی ہیں (یعنی ان کی ایک انتہا ہے)، اور متناہی کو متناہی سے نسبت ضرور ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ کے علوم وہ غیر متناہی در غیر متناہی در غیر متناہی ہیں (یعنی ان کی کوئی انتہا ہی نہیں )۔ اور مخلوق کے علوم اگرچہ عرش و فرش، مشرق ومغرب ،روزِ اول تا روزِآخر جملہ کائنات کو محیط ہوجائیں پھر بھی متناہی ہیں کہ عرش و فرش دو حدیں ہیں ، روزِ اول و روزِ آخر دو حدیں ہیں اور جو کچھ دو حدوں کے اندر ہو سب متناہی ہے۔
(3)…بالفعل غیر متناہی کا علمِ تفصیلی مخلوق کو مل ہی نہیں سکتا تو جملہ علومِ خَلق کو علمِ الٰہی سے اصلاً نسبت ہونی محالِ قطعی ہے نہ کہ مَعَاذَاللہتَوَہُّمِ مساوات۔
(4)… اس پر اجماع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے دیئے سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کثیر و وافر غیبوں کا علم ہے یہ بھی ضروریاتِ دین سے ہے جو اِس کا منکر ہو کافر ہے کہ سرے سے نبوت ہی کا منکر ہے۔
(5)…اور اس پر بھی اجماع ہے کہ اس فضل جلیل میں محمدٌ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حصہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامو تمام جہان سے اَتَمّ و اعظم ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے حبیبِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۵۰-۴۵۱، ملخصاً)
یاد رہے کہ یہاں ’’مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ‘‘ میں وہ سب کچھ داخل ہے جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہیں جانتے۔ معتبر تفاسیر میں اس کی صراحت موجود ہے۔چنانچہ درج ذیل پانچ تفاسیر میں اس کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے:
(1)… تفسیر البحر المحیط، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳،۳ / ۳۶۲ (2)…تفسیر طبری، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳، ۴ / ۲۷۵، (3)…نظم الدرر ، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳،۲ / ۳۱۷،(4)… زاد المسیر فی علم التفسیر، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳، ص۳۲۴، (5)…روح المعانی، النساء، تحت الایۃ: ۱۱۳، ۳ / ۱۸۷
{وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا:اور آپ پر اللہ کافضل بہت بڑا ہے۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے پوری مخلوق کو جو علم عطا فرمایا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا:
وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا (بنی اسرائیل:۸۵)
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
اسی طرح پوری دنیا کے بارے میں ارشاد فرمایا :
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ (النساء :۷۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے حبیب! تم فرما دو کہ دنیا کاسازو سامان تھوڑا ساہے۔
تو جس کے سامنے پوری دنیا کا علم اور خود ساری دنیا قلیل ہے وہ جس کے علم کوعظیم فرما دے ا س کی عظمتوں کا اندازہ کون لگا سکتا ہے ۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۴ / ۲۱۷)
{لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ:ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں۔} یہاں عام لوگوں کے حوالے سے بیان فرمایا گیا کہ ان کے زیادہ تر کلام اور مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی کیونکہ عوامی کلام زیادہ تر فضولیات پر مشتمل ہوتا ہے اور ان کے مشورے بے فائدہ مغز ماری پر مَبنی ہوتے ہیں جن کا نتیجہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ان کی بجائے وہ لوگ جو آپس میں اچھے کاموں کیلئے کلام یا مشورہ کرتے ہیں جیسے صدقہ دینے کا حکم دیتے ہیں یا لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہیں یا نیکی کی دعوت عام کرنے کیلئے مشورے کرتے ہیں یا لوگوں میں صلح کروانے کیلئے مل بیٹھتے ہیں تو ایسے لوگوں کے مشوروں میں خیر اور بھلائی ہے۔
آیت’’ لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ‘‘ کے چند پہلو:
اس آیت ِ مبارکہ میں اُس گروہ کے لئے نصیحت ہے جن کے مشورے فضولیات پر مشتمل ہوتے ہیں یا جو مَعَاذَاللہ گناہ کو پروان چڑھانے کیلئے مشورے کرتے ہیں جیسے سینما بنانے، بے حیائی کے سینٹر بنانے، فلمی صَنعت کی ترقی کیلئے مشورے کرتے ہیں یہ مشورے صرف خیر سے خالی نہیں بلکہ شَر سے بھر پور ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔ ان کے مقابلے میں آیتِ مبارکہ میں ان لوگوں کیلئے بشارت ہے جو نیکی کے کام کیلئے مشورے کرتے ہیں ، ملک کے مسائل حل کرنے کیلئے، قوم کی پریشانیاں دور کرنے کیلئے، عوام کے معاملات سلجھانے کیلئے، لڑنے والوں کے درمیان صلح کرنے والے کیلئے، میاں بیوی اور دیگر رشتے داروں کے جھگڑے ختم کروانے کیلئے، دوستوں میں ناراضگی ختم کرکے جائز دوستی کروانے کیلئے مشورے کرنے والے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ یونہی بطورِ خاص اِس آیت میں جن حضرات کا تذکرہ ہے وہ ہے نیکی کی دعوت کیلئے مشورے کرنے والے۔ ایسے تمام لوگوں کے مشورے خیر اور بھلائی سے بھرپور ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ نیکی کی دعوت عام ہو، مسلمانوں کا بچہ بچہ نمازی بنے، لوگ سنتوں کے پابند ہوں ، ان میں خوف ِ خدا اور عشقِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پیدا ہو، بے حیائی کا خاتمہ ہو، لڑائی جھگڑے ختم ہوجائیں ، مسلمان باعمل بن جائیں ، لوگوں کے گھر امن کا گہوارہ بن جائیں ، گھروں میں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ذکر ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیاروں کا ذکر ہو۔ الغرض جو لوگ ان کاموں کیلئے مشورے کرتے ہیں وہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے ہیں۔ آیت ِ مبارکہ کے چند پہلوؤں کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ورنہ حقیقت میں یہ آیت نجی معاملات سے لے کر صوبائی، قومی، ملکی اور بین الاقوامی معاملات سب کو شامل ہے۔
{وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ:اور جو اللہ کی رضامندی تلاش کرنے کے لئے یہ کام کرتا ہے۔} اچھے مشوروں پر اجرو ثواب ملتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرما دیا کہ یہ اس صورت میں ہے جبکہ یہ کام اللہ عَزَّوَجَلَّکی رضا کیلئے کئے جائیں تب اجرِ عظیم ہے ورنہ اگر ریاکاری کیلئے، اپنی واہ واہ کروانے کیلئے، خود کو بڑا لیڈر، یا مُصلِح کہلوانے کیلئے، لوگوں میں عزت و شہرت و دولت حاصل کرنے کیلئے، نیک نامی کیلئے ، بڑا عالم یا مبلغ یا متحرک کہلوانے کیلئے یہ عمل کئے تو سراسر تباہی اورخسارہ ہے۔
{وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ: اور جو رسول کی مخالفت کرے۔} اس آیت میں دو چیزوں سے منع کیا گیاہے جو حقیقت میں ایک ہیں۔ پہلی چیز کہ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت جائز نہیں اور دوسری بات کہ مسلمانوں کے راستے سے ہٹ کر چلنا جائز نہیں کیونکہ مسلمانوں کا راستہ اطاعت ِ رسول کا راستہ ہے تو اس سے ہٹنا اطاعتِ رسول سے ہٹنا ہوگا۔
مسلمانوں کا اجماع حجت اور دلیل ہے:
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کا اجماع و اتفاق حجت و دلیل ہے اور اس کی مخالفت جائز نہیں جیساکہ کتاب و سنت کی مخالفت جائز نہیں۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ص۲۵۳)
نیز اس سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا راستہ ہی صراطِ مستقیم ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جماعت پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ہاتھ ہے۔(نسائی، کتاب تحریم الدم، قتل من فارق الجماعۃ۔۔۔ الخ، ص۶۵۶، الحدیث: ۴۰۲۷)ایک اور حدیث میں ہے کہ سوادِ اَعْظَم یعنی بڑی جماعت کی پیروی کرو جو اس گروہ سے جدا ہوا وہ جہنم میں گرا۔ (مستدرک، کتاب العلم، من شذّ شذّ فی النار، ۱ / ۳۱۷، الحدیث: ۴۰۳)
اس سے واضح ہے کہ حق مذہب اہلِ سنت و جماعت ہے کیونکہ یہی مسلمانوں کی اکثریت کا ہے اور یہی بڑی جماعت ہے۔
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ: اللہ شرک کو نہیں بخشے گا۔}اِس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما کا قول ہے کہ یہ آیت ایک بوڑھے اَعرابی کے حق میں نازل ہوئی جس نے سیّدُالانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، یا نبیَّ اللہ! میں بوڑھا ہوں ، گناہوں میں غرق ہوں ، اس کے سوا کہ جب سے میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پہچانا اور اس پر ایمان لایا ہوں اس وقت سے کبھی میں نے اس کے ساتھ شرک نہیں کیا اور اس کے سوا کسی اور کو کارسازِ حقیقی نہیں بنایا اور جرأ ت و دلیری کے ساتھ گناہوں میں مبتلانہ ہوا اور ایک پل بھی میں نے یہ گمان نہ کیا کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے بھاگ سکتا ہوں ، میں شرمندہ ہوں ، تائب ہوں ، مغفرت چاہتا ہوں ،اللہ عَزَّوَجَلَّ کے یہاں میرا کیا حال ہوگا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۱ / ۴۳۰)
آیت’’ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
(1) …یہ آیت اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ شرک نہیں بخشا جائے گا جبکہ مشرک اپنے شرک پر مرے اور یہی حکم کفر کا ہے بلکہ علماء نے یہاں شرک سے مراد کفر لیا ہے۔ ہاں کافر و مشرک زندگی میں توبہ کرے تواس کی توبہ یقیناً مقبول ہے ۔
(2)…آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہِ کبیرہ ، حقوقُ اللہ اورحقوقُ العِباد تمام گناہ قابلِ مغفرت ہیں اگرچہ حقوقُ العِبادکی مغفرت کا طریقہ یہ ہوگا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ حق العبدصاحب ِحق سے معاف کرا دے گا۔
(3)…یہ بھی معلوم ہوا کہ کفر و شرک کے علاوہ گناہوں کی بخشش یقینی نہیں بلکہ امید ہے کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ جسے چاہے بخشے۔ اب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسے چاہے گا یہ معلوم نہیں لہٰذا یہ آیت گناہ پر دلیر نہیں کرتی بلکہ گناہ سے روکتی ہے۔
{ اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا:یہ شرک کرنے والے اللہ کے سوا عبادت نہیں کرتے مگر چند عورتوں کی۔} مشرکین کے بارے میں فرمایا کہ یہ کچھ عورتوں کو پوجتے ہیں یعنی مُؤنَّث بتوں کو پوجتے ہیں جیسے لات، عُزّٰی، مَنات وغیرہ یہ سب مؤنث نام ہیں۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۱ / ۳۸۴)
یونہی عرب کے ہر قبیلے کا ایک بت ہوتا تھا جس کی وہ عبادت کرتے تھے اور اس کو اس قبیلہ کی اُنثٰی یعنی عورت کہتے تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مشرکینِ عرب اپنے باطل معبودوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اس لئے آیت میں فرمایا کہ مشرک عورتوں کو پوجتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ مشرکین بتوں کو زیور وغیرہ پہنا کر عورتوں کی طرح سجاتے تھے۔ اس لئے انہیں عورتیں فرمایا گیا ہے۔(ابو سعود، النساء، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۱ / ۵۸۵)
ان مشرکین کے متعلق فرمایا کہ یہ حقیقت میں شیطان مردود کو پوجتے ہیں کیونکہ اسی کے بہکانے سے ہی یہ بت پرستی کرتے ہیں۔
{لَعَنَهُ اللّٰهُ: جس پر اللہ نے لعنت کی۔}یہاں شیطان مراد ہے ، اس پراللہ عَزَّوَجَلَّ نے لعنت کی اور اس نے کہا تھا کہ میں تیرے بندوں سے مقررہ حصہ ضرور لوں گا یعنی انہیں اپنا اطاعت گزار بناؤں گا ۔
{وَ لَاُضِلَّنَّهُمْ: اور میں ضرور انہیں گمراہ کروں گا۔} یہ شیطان کا کہنا تھا کہ میں ضرور لوگوں کو طرح طرح کی چیزوں کی، کبھی لمبی عمر کی، کبھی لَذّات ِدنیا کی، کبھی باطل خواہشات اور کبھی اور قسم کی امیدیں دلاؤں گا اور وہ ان امیدوں کی دنیا میں پھرتے رہیں گے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سے غافل رہیں گے۔
شیطان مردود کا بڑا مقصد لوگوں کو بہکانا اور عملی اعتبار سے ایساکر دینا ہے کہ نجات و مغفرت کا کوئی راستہ باقی نہ رہے، اس کے لئے وہ مختلف طریقے اپناتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ لمبے عرصے تک زندہ رہنے کی سوچ انسان کے دل، دماغ میں بٹھا کر موت سے غافل رکھتا ہے، حتّٰی کہ اسی آس امید پرجیتے جیتے اچانک وہ وقت آجاتا ہے کہ موت اپنے دردناک شکنجے میں کَس لیتی ہے پھر اب پچھتائے کیا ہَوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ،ناچار اپنے کئے اعمال کے انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ فی زمانہ لوگوں کی اکثریت موت کو بھول کر دنیا کی لمبی امیدوں میں کھوئی ہوئی ہے۔ امام غزالیرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ لمبی زندگی کی امید دل میں باندھ لینا جہالت اور نادانی کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر دنیا کی محبت کی وجہ سے۔ جہالت اور نادانی تو یہ ہے کہ آدمی اپنی جوانی پر بھروسہ کر بیٹھے اور بڑھاپے سے پہلے مرنے کا خیال ہی دل سے نکال دے، اسی طرح آدمی کی ایک نادانی یہ ہے کہ تندرستی کی حالت میں ناگہانی موت کو ناممکن سمجھے ۔لہٰذا ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ ان باتوں میں غور کرے’ ’کیا لاکھوں بچے جوانی کی دہلیز پر پہنچنے سے پہلے ہی راہیِ عدم نہ ہوئے؟ کیا ہزاروں انسان چڑھتی جوانی میں موت سے ہم آغوش نہ ہوئے؟ کیا سینکڑوں نوجوان بھری جوانی میں لقمۂ اَجَل نہ بنے؟ کیا دَسْیوں نوجوان بیماریوں کا شکار نہ ہوئے؟ ان باتوں میں غورو فکر کے ساتھ ایک اور بات دل میں بٹھا لے کہ موت اس کے اختیار میں نہیں کہ جب یہ چاہے گا تو اسی وقت آ ئے گی، اس طرح جوانی یا کسی اور چیز پر بھروسہ کرنا خود ہی ایک نادانی نظر آئے گی۔ لمبی زندگی کی امید کی دوسری وجہ دنیا کی محبت ہے، انسان اپنے دل کو تَسلّی دیتا رہتا ہے کہ ابھی تو زمانہ پڑا ہے، ابھی کس نے مرنا ہے میں پہلے یہ مکان بنا لوں ، فلاں کاروبار شروع کر لوں ، اچھی گاڑی خرید لوں ، سہولیات سے اپنی زندگی بھر لوں جب بڑھاپا آئے گا تو اللہ اللہکرنے لگ جائیں گے اس طرح ہر کام سے دس کام نکالتا چلا جاتا ہے حتّٰی کے ایک دن پیغامِ اجل آ پہنچتا ہے اب پچھتانے کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں بچتا۔ اس میں مبتلا شخص کو چاہئے کہ دنیا کی بے ثباتی اور اس کی حقیقت کے بارے میں معلومات حاصل کرے کیونکہ جس پر دنیا کی حقیقت آشکار ہو جائے کہ دنیا کی لذت چند روزہ ہے اور موت کے ہاتھوں اسے ایک دن ختم ہونا ہی ہے وہ اسے عزیز نہیں رکھ سکتا۔ (کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل دہم، اسباب طول امل، ۲ / ۹۹۵-۹۹۶، ملخصاً)
دِلا غافل نہ ہو یکدم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے
باغیچے چھوڑ کر خالی زمیں اندر سمانا ہے
{وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ: اور میں ضرور انہیں حکم دوں گا۔} یہ شیطان کا قول ہے کہ اس نے کہا میں لوگوں کو حکم دوں گا کہ وہ بتوں کے نام پر جانوروں کے کان چیریں یا اس طرح کی دوسری حرکتیں کریں۔ چنانچہ لوگوں نے ایسا ہی کیا کہ اونٹنی جب پانچ مرتبہ بچہ جن دیتی تو وہ اس کو چھوڑ دیتے اور اس سے نفع اٹھانا اپنے اوپر حرام کرلیتے اور اس کا دودھ بتوں کے لئے وقف کر دیتے اور اس کو بَحِیرہ کہتے تھے۔ شیطان نے اُن کے دِل میں یہ بات ڈال دی تھی کہ ایسا کرنا عبادت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلافِ شرع تبدیلیاں کرنے کا شرعی حکم:
شیطان نے ایک بات یہ کہی کہ وہ لوگوں کو حکم دے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزیں ضرور بدلیں گے۔
یاد رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلاف ِ شرع تبدیلیاں حرام ہیں۔ احادیث میں اس کی کافی تفصیل موجود ہے۔ ان میں سے4احادیث درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس مرد پر لعنت فرمائی جو عورت کا لباس پہنے اور اس عورت پر لعنت فرمائی جو مرد کا لباس پہنے۔(ابو داؤد، کتاب اللباس، باب فی لباس النساء، ۴ / ۸۳، الحدیث: ۴۰۹۸)
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’ ’نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے زَنانہ مَردوں اور مردانی عورتوں پر لعنت فرمائی اور ارشاد فرمایا: ’’انہیں اپنے گھروں سے باہر نکال دو۔(بخاری، کتاب اللباس، باب اخراج المتشبّہین بالنساء من البیوت، ۴ / ۷۴، الحدیث: ۵۸۸۶)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’عورتوں سے مُشابہت اختیار کرنے والے مرد اور مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتیں صبح شام اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے غضب میں ہوتے ہیں۔(شعب الایمان، السابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۶، الحدیث: ۵۳۸۵)
(4)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے بالوں میں دوسرے کے بال لگانے والی اور لگوانے والی اور بدن گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت فرمائی۔(مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ۔۔۔ الخ، ص۱۱۷۵، الحدیث: ۱۱۹(۲۱۲۴))
{یَعِدُهُمْ: شیطان انہیں وعدے دیتا ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کا طریقہ واردات بیان فرمایا کہ یہ لوگوں کو طرح طرح کی اُمیدیں دلاتا اور وسوسے ڈالتا ہے تاکہ انسان گمراہی میں پڑے جیسے مشرکوں کو ان کا شرک اچھا کر کے دکھاتا ہے، منافقوں کو ان کی منافقت پسند کرواتا ہے، گناہ کے کام کرنے والوں مثلاً فلمیں بنانے، گانے بجانے والوں کو ان کے کام کلچر، تہذیب، آزادی اور روشن خیالی جیسے ناموں سے مرغوب کرکے دکھاتا ہے، یونہی ریاکاری، شادی بیاہ کی غلط رسومات اورفضول خرچی کے کام لوگوں سے مقام و مرتبہ اور اسٹیٹس وغیرہ کے نام پر کرواتا ہے لیکن حقیقت ِ حال یہ ہے کہ شیطان انہیں دھوکہ دیتا ہے کیونکہ وہ جس چیز کے نفع اور فائدہ کی تَوَقُّع دلاتا ہے درحقیقت اس میں سخت ضَرَر اور نقصان ہوتا ہے۔
{اُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ:ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔} یعنی جو لوگ شیطان کو اپنا دوست بناتے اور اس کی باتوں پر عمل کرتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور یہ لوگ جہنم سے بچنے کی کوئی جگہ نہ پائیں گے بلکہ یہ جہنم میں ضرور داخل ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۱ / ۴۳۲)
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اور جو ایمان لائے۔} کفار کے بارے میں وعید بیان کرنے کے بعد یہاں ایمان والوں کے لئے جنت کے وعدہ کا بیان فرمایا گیا، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے تو عنقریب ہم انہیں ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے پانی، دودھ، شراب اور شہد کی نہریں بہتی ہیں ، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کی بات سچی نہیں۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۱ / ۴۳۲-۴۳۳، روح البیان، النساء، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۲۹۰، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan