Surah An-Nisaa
{فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ:تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں۔} اس آیت میں کفار و منافقین اور یہودو نصاریٰ کے لئے شدید وعیدہے کہ جب قیامت کے دن تمام انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی امت کے ہر نیک اور بد کے ایمان، کفر ،نفاق اور تمام اچھے برے اعمال کی گواہی دیں گے ،پھر ان سب پر حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو گواہ بنایا جائے گا تو ان کا انجام کیا ہو گا۔ قیامت کے دن دی جانے والی اس گواہی کی تفصیل سورۂ بقرہ کی آیت نمبر143 کے تحت گزر چکی ہے۔
{یَوْمَىٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اس دن کافر تمنا کریں گے۔} قیامت کے دن کی ہولناکی اور اپنے اعمال کا بدلہ دیکھ کر کفار تمنا کریں گے کہ کاش ہمیں پیدا ہی نہ کیا گیا ہوتا۔ کاش! زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں دفن ہو جائیں۔ کاش! ہمیں بھی جانوروں کی طرح مٹی کر دیا جاتا پھر جب ان کی خطاؤں پر باز پُرس ہو گی تو قسمیں کھا کر کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم مشرک نہ تھے، تب ان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی پھرا ن کے اعضا ء بول اٹھیں گے اور سب اعمال بیان کر دیں گے،اس طرح یہ اپنی پوری کوشش کے باوجود اللہ تعالیٰ سے کوئی بات بھی چھپا نہ سکیں گے۔
اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ہر ایک کو ڈرنا چاہئے:
یہ آیت تو کافروں کے بارے میں نازل ہوئی لیکن بہرحال دنیا میں تو ہر آدمی کو اللہ عَزَّوَجَلَّکے عذاب سے ڈرنا چاہیے یہی وجہ ہے قیامت کی ہولناکی اور عذابِ جہنم کی شدت کے پیشِ نظر ہمارے اَکابِر اَسلاف اور بزرگانِ دین بھی تمنا کرتے تھے کہ کاش وہ پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے۔ امیرُ المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک بار پرندے کودیکھ کر ارشاد فرمایا: اے پرندے !کاش! میں تمہاری طرح ہوتا اور مجھے انسان نہ بنایا جاتا۔ امیرُ المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا فرمان ہے : میری تمناہے کہ میں ایک مینڈھا ہوتا جسے میرے اہلِ خانہ اپنے مہمانوں کے لئے ذبح کر دیتے۔ حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے :کاش! میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔ امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایا کرتے: میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ مجھے وفات کے بعد نہ اٹھایا جائے۔ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرمایا کرتے: کاش! ہم پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے۔ امُ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرمایا کرتیں : کاش! میں کوئی بھولی بسری چیز ہوتی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایا کرتے کاش! میں راکھ ہوتا۔(قوت القلوب، الفصل الثانی والثلاثون، شرح مقام الخوف ووصف الخائفین۔۔۔ الخ،۱ / ۴۵۹-۴۶۰، ملخصاً)
یہ کلمات ان ہستیوں کے ہیں جو زبانِ رسالت سے قطعی جنتی ہونے کی بشارت سے بہرہ مند ہوئے، جبکہ اب کے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ عمل نام کی کوئی چیز پلے نہیں اور بے حساب مغفرت کایقین دل میں سجائے بیٹھے ہیں۔ اے کاش! ہمیں بھی حقیقی معنوں میں ایمان پر خاتمے کی فکر، قبرو حشر کے پُر ہَول لمحات کی تیاری کی سوچ ، عذابِ جہنم سے ڈر اور جَبّار و قَہّار رب عَزَّوَجَلَّ کا خوف نصیب ہو جائے۔
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو! } شانِ نزول: حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کچھ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی دعوت کی، جس میں کھانے کے بعد شراب پیش کی گئی، بعض حضرات نے شراب پی لی کیونکہ اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی پھر مغرب کی نماز پڑھی، امام نے نشے کی حالت میں سورۂ کافرون کی تلاوت کی اور کلمہ ’’لَا‘‘ چھوڑ گئے جس سے ’’نہ‘‘ کی جگہ ’’ہاں ‘‘کا معنی بن گیا۔ اس سے معنی غلط ہوگئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع فرما دیا گیا، (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۴۳، ۱ / ۳۸۲)
چنانچہ مسلمانوں نے نماز کے اوقات میں شراب ترک کردی، اس کے بعد سورۂ مائدہ میں شراب کو بالکل حرام کردیا گیا۔
نشے کی حالت میں کلمۂ کفر بولنے کا حکمـ:
مذکورہ واقعہ سے معلوم ہوا کہ اگر نشے کی حالت میں کوئی شخص کفریہ کلمہ بول دے تو وہ کافر نہیں ہوتا کیونکہ’’قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَ ‘‘میں دونوں جگہ’’ لَا ‘‘ کا ترک کفر ہے کیونکہ اس سے معنیٰ بنے گا کہ اے کافرو! جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو ان کی میں بھی عبادت کرتا ہوں۔ اور یہ کلمہ یقینا کفریہ ہے لیکن چونکہ یہاں نشے کی حالت تھی اس لئے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس پر کفر کا حکم نہ فرمایا بلکہ قرآنِ پاک میں اُن کو ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘سے خطاب فرمایا گیا۔([1])
{وَ لَا جُنُبًا: اور نہ حالت ِ جنابت میں۔} آیت میں پہلا حکم تھا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ جب تم جنابت کی حالت میں ہو تو جب تک غسل نہ کرلو تب تک نماز کے قریب نہ جاؤ یعنی پہلے غسل کرنا فرض ہے۔ ہاں اگر سفر کی حالت میں ہو اور پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھ لو۔ یہاں سفر کی قید اس لئے ہے کہ پانی نہ ملنا اکثر سفر ہی میں ہوتا ہے ورنہ نہ تو سفر میں تیمم کی کلی اجازت ہے اور نہ تیمم کی اجازت سفر کے ساتھ خاص ہے یعنی اگر سفر میں پانی مُیَسّر ہو تو تیمم کی اجازت نہ ہوگی اور یونہی اگر سفر کی حالت نہیں لیکن بیماری وغیرہ ہے جس میں پانی کا استعمال نقصان دِہ ہو تو تیمم کی اجازت ہے۔
{وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰى: اور اگر تم بیمار ہو۔} آیت میں تیسری بات جو ارشاد فرمائی گئی اس میں تیمم کے حکم میں تفصیل بیان کردی گئی جس میں یہ بھی داخل ہے کہ تیمم کی اجازت جس طرح بے غسل ہونے کی صورت میں ہے اسی طرح بے وضو ہونے کی صورت میں ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو اور تمہیں وضو یا غسل کی حاجت ہے یا تم بیتُ الْخَلاء سے قضائے حاجت سے فارغ ہوکر آؤ اور تمہیں وضو کی حاجت ہو یا تم نے عورتوں سے ہم بستری کی ہو اور تم پر غسل فرض ہوگیا ہو تو ان تمام صورتوں میں اگر تم پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو خواہ پانی موجود نہ ہونے کے باعث یا دور ہونے کے سبب یا اس کے حاصل کرنے کا سامان نہ ہو نے کے سبب یا سانپ، درندہ، دُشمن وغیرہ کے ڈر سے تو تیمم کرسکتے ہو۔ یاد رہے کہ جب عورت کوحَیض و نِفاس سے فارغ ہونے کے بعد غسل کی حاجت ہو اور اگر اس وقت پانی پر قدرت نہ پائے تو اس صورت میں اسے بھی تیمّم کی اجازت ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔
{فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا: تو پاک مٹی سے تیمم کرو ۔} آیت کے آخر میں تیمم کرنے کا طریقہ بھی ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ اور چند احکام یہ ہیں :
تیمم کرنے والا پاکی حاصل کرنے کی نیت کرے اور جو چیز مٹی کی جنس سے ہو جیسے گرد، ریت، پتھر، مٹی کا فرش وغیرہ ، اس پر دو مرتبہ ہاتھ مارے، ایک مرتبہ ہاتھ مار کر چہرے پر پھیرلے اور دوسری مرتبہ زمین پر ہاتھ پھیر کر کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں پر پھیرلے ۔
تیمم کے 2 احکام
(1)… ایک تیمم سے بہت سے فرائض و نوافل پڑھے جاسکتے ہیں۔
(2)…تیمم کرنے والے کے پیچھے غسل اور وضو کرنے والے کی اقتدا صحیح ہے۔
نوٹ :تیمم کے بارے میں مزید احکام جاننے کے لئے بہار شریعت، جلد1، حصہ نمبر2 ’’تیمم کابیان‘‘ مطالعہ فرمائیں۔
آیتِ مبارکہ کے آخری جز کا شانِ نزول یہ ہے کہ غزوۂ بنی مُصْطَلَق میں جب لشکرِ اسلام رات کے وقت ایک بیابان میں ٹھہرا جہاں پانی نہ تھا اور صبح وہاں سے کوچ کرنے کا ارادہ تھا، وہاں اُمّ المومنین حضرت عائشہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کا ہار گم ہوگیا، اس کی تلاش کے لئے سیّد ِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہاں قیام فرمایا، صبح ہوئی تو پانی نہ تھا۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔ یہ دیکھ کر حضرت اُسَیْدْ بن حضیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ’’ اے آلِ ابوبکر! یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے یعنی تمہاری برکت سے مسلمانوں کو بہت آسانیاں ہوئیں اور بہت فوائد پہنچے۔ پھر جب اونٹ اٹھایا گیا تو اس کے نیچے ہار مل گیا۔(بخاری، کتاب التیمم، باب التیمم، ۱ / ۱۳۳، الحدیث: ۳۳۴)
ہار گم ہونے اور رحمت ِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے نہ بتانے میں بہت سی حکمتیں تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کے ہار کی وجہ سے نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا وہاں قیام فرمانا حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی فضیلت و مرتبے کو ظاہر کرتا ہے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے ہار تلاش کرنے میں اس بات کی ہدایت ہے کہ حضور تاجدارِ انبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات کی خدمت مؤمنین کی سعادت ہے، نیز اس واقعے سے تیمم کا حکم بھی معلوم ہوگیا جس سے قیامت تک مسلمان نفع اٹھاتے رہیں گے۔ سُبْحَانَ اللہ ۔
1…کفریہ جملوں اور الفاظ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تصنیف’’کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب‘‘ کا مطالعہ ضرور کیجئے۔
{اَلَمْ تَرَ: کیا تم نے نہ دیکھا۔} یہاں یہودیوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی تورات ملی جس سے اُنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی نبوت کوتو پہچانا لیکن اِمامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق جو کچھ تورات میں بیان کیا تھا اس حصّہ سے محروم رہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے منکر ہوگئے۔ اس لئے فرمایا کہ انہیں کتاب کا ایک حصہ ملا ۔ گویا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب رکھنے کے باوجود ہدایت کی بجائے گمراہی کے پیروکار ہوئے اور اس کے ساتھ اے مسلمانو! تمہیں بھی گمراہ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ہدایت کا دارومدار ہی حضور سید ِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کامل ایمان لانے پر ہے۔
{وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآىٕكُمْ: اور اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور اُس نے تمہیں بھی اُن کی عداوت (دشمنی) پر خبردار کردیا ہے لہٰذا تمہیں چاہئے کہ اُن دشمنوں سے بچتے رہو۔ یقینا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم سے زیادہ ہمارے دشمنوں کو جانتا ہے لہٰذا جسے وہ دشمن فرما دے وہ یقینا ہمارا دشمن ہے جیسے شیطان اور کفار و منافقین۔
{مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا: یہودیوں میں کچھ وہ ہیں۔} آیت کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ بہت سے یہودیوں کی خصلت و عادت نہایت ہی بری اور قبیح ہے، ان میں کئی بری عادتیں ہیں : پہلی یہ کہ توریت شریف میں اللہ تعالیٰ نے حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شان میں جو بیان فرمایاہے ، یہودی ان کلمات کو بدل دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جب تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں کچھ حکم فرماتے ہیں تویہ زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہم نے مان لیا لیکن دل سے کہتے ہیں کہ ہم نے قبول نہیں کیا۔ تیسری بات یہ کہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں کئی طرح سے منافقت کرتے ہیں جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے ایسے جملے بولتے ہیں جن کے دو معنیٰ بنتے ہوں ، ایک اچھے اور دوسرے برے۔ اور ان یہودیوں کا طریقہ یہ ہے کہ ظاہراً تو اچھے معنی کا تأثُّردیتے ہیں لیکن دل میں وہی خبیث معنی مراد لیتے ہیں جیسے کہتے ہیں کہ سنئے اور آپ کو نہ سنایا جائے۔ ’’نہ سنایا جائے‘‘ سے ظاہری معنی یہ نکلتا کہ کوئی ناگوار بات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سننے میں نہ آئے اور دوسرا معنی جو وہ مراد لیتے یہ ہوتا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو سننا نصیب نہ ہو ۔ اور اسی کی دوسری مثال’’رَاعِنَا ‘‘ کا کلمہ ہے جس کا ظاہری معنی ’’ہماری رعایت فرمائیے‘‘ ہے اور یہودی اس کا معنی وہ لیتے جو شانِ مبارک کے لائق نہ ہو حالانکہ اس لفظ کے استعمال سے منع فرما دیا گیا تھا۔ پھر اس کے ساتھی یہودی اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے کہ ہم تو محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو برا بھلا کہتے ہیں ،اگر آپ نبی ہوتے تو آپ اِس کو جان لیتے ۔اللہ تعالیٰ نے اُن کے اندر کی خباثت کو یہاں ظاہر فرما دیا۔ ا س سے معلوم ہوا کہ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم پر طعن کرنا درحقیقت دین ِاسلام پر طعن کرنا ہے اور یہ یہودیوں کا طریقہ ہے ۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ بھی اہلِ ادب کا طریقہ اختیار کرتے اور انہی کی طرح کہتے کہ ’’یا رسولَ اللہ ! ہم نے سنا اور دل و جان سے تسلیم کیا، حضور ! ہماری بات سنئے اور ہم پر نظر ِکرم فرمائیں ‘‘تو یہ ان کیلئے دنیا وآخرت ہر اعتبار سے بہتر ہوتا۔ لیکن چونکہ یہ ملعون ہیں لہٰذا انہیں ادب کی توفیق نہیں ہوگی۔
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ:اے کتاب والو!} یہاں یہودیوں سے خطاب ہے کہ اے اہلِ کتاب! ہم نے قرآن اتارا ہے جو تمہارے پاس موجود کتاب یعنی توریت کی تصدیق کرنے والا ہے اس پر ایمان لے آؤ ورنہ ایسا نہ ہو کہ ہم تمہارے چہرے سے آنکھ، ناک کان، ابرو وغیرہ مٹا کرتمہاری شکلیں بگاڑ دیں اور تمہارے چہرے کو آگے سے بھی ایک ایسی کھال کی طرح کردیں جیسے سر کا پچھلا حصہ ہوتا ہے کہ اس میں نہ آنکھیں رہیں ، نہ ناک منہ وغیرہ اور یا اِن یہودیوں پر بھی ہم ایسے ہی لعنت کریں جیسے ہفتہ کے دن نافرمانی کرنے والے یہودی گروہ پر لعنت کی گئی تھی۔ لعنت تو یہودیوں پر ایسی پڑی کہ دنیا انہیں ملعون کہتی ہے۔ اس آیت کے متعلق مفسّرین کے چند اقوال ہیں : بعض کہتے ہیں کہ یہ وعید دنیا کے اعتبار سے ہے اور بعض اسے آخرت کے اعتبار سے قرار دیتے ہیں نیز بعض کہتے ہیں کہ لعنت ہوچکی ہے اور وعید واقع ہوگئی ہے اور بعض کہتے ہیں ابھی انتظار ہے۔ بعض کا قول ہے کہ چہرے بگڑنے کی یہ وعید اس صورت میں تھی جبکہ یہود یوں میں سے کوئی ایمان نہ لاتا اور چونکہ بہت سے یہودی ایمان لے آئے اِس لئے شرط نہیں پائی گئی اور وعید اُٹھ گئی۔
حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قبولِ اسلام:
حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو بہت بڑے یہودی عالم تھے، اُنہوں نے ملکِ شام سے واپس آتے ہوئے راستے میں یہ آیت سنی اور اپنے گھر پہنچنے سے پہلے اسلام لا کرنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسولَ اللہ !میں نہیں خیال کرتا تھا کہ میں اپنا منہ پیٹھ کی طرف پھر جانے سے پہلے اور چہرے کا نقشہ مٹ جانے سے قبل آپ کی خدمت میں حاضر ہوسکوں گا یعنی اس خوف سے اُنہوں نے ایمان لانے میں جلدی کی کیونکہ توریت شریف سے اُنہیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے رسولِ برحق ہونے کا یقینی علم تھا۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۴۷، ۱ / ۳۹۰-۳۹۱)
حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قبولِ اسلام:
حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو علماءِ یہود میں بڑی قدرومنزلت رکھتے تھے انہوں نے ایک رات کسی شخص سے یہی آیت سنی تو خوفزدہ ہوئے اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر مسلمان ہو گئے۔ (فتوح الشام، ذکر فتح مدینۃ بیت المقدس، ص۲۳۴-۲۳۵، الجزء الاول)
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ: بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے۔} آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ جو کفر پر مرے اس کی بخشش نہیں ہوگی بلکہ اس کے لئے ہمیشگی کا عذاب ہے اور جس نے کفر نہ کیا ہو وہ خواہ کتنا ہی گنہگاراور کبیرہ گناہوں میں مُلَوَّث ہو اور بے توبہ بھی مر جائے تب بھی اُس کے لئے جہنم میں ہمیشہ کا داخلہ نہیں ہوگا بلکہ اُس کی مغفرت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مَشِیَّت (یعنی اس کے چاہنے) پرہے، چاہے تووہ کریم معاف فرما دے اور چاہے تو اُس بندے کو اس کے گناہوں پر عذاب دینے کے بعد پھر اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے ۔ اس آیت میں یہودیوں کو ایمان لانے کی ترغیب ہے ۔
مغفرت کی امید پر گناہ کرنا بہت خطرناک ہے:
یہ یاد رہے کہ کفر کے علاوہ قیامت کے دن ہر گناہ کے بخشے جانے کا امکان ضرور ہے مگر اس امکان کی امید پر گناہوں میں پڑنا بہت خطرناک ہے بلکہ بعض صورتوں میں گناہ کو ہلکا سمجھنے کی صورت میں خود کفر ہوجائے گا۔ کتنا کریم ہے وہ خدا عَزَّوَجَلَّجو لاکھوں گناہ کرنے والے بندے کو معافی کی امید دلا رہا ہے اور کتنا گھٹیا ہے وہ بندہ جو ایسے کریم کے کرم و رحمت پر دل و جان سے قربان ہوکر اس کی بندگی میں لگنے کی بجائے اس کی نافرمانیوں پر کمر بستہ ہے۔
حضرت وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا قبولِ اسلام:
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ وحشی جس نے حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہید کیا تھا وہ سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: مجھے امان دیجئے تا کہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خدا کا کلام سنوں کہ ا س میں میری مغفرت اور نجات ہے۔ ارشاد فرمایا: مجھے یہ پسند تھا کہ میری نظر تم پر اس طرح پڑتی کہ تو امان طلب نہ کر رہا ہوتا لیکن اب تو نے امان مانگی ہے تو میں تمہیں امان دیتا ہوں تاکہ تو خدا عَزَّوَجَلَّ کا کلام سن سکے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ(الفرقان :۶۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہکے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے۔
وحشی نے کہا: میں شرک میں مبتلا رہا ہوں اور میں نے ناحق خون بھی کیا ہے اور زنا کا بھی مرتکب ہوا ہوں کیا ان گناہوں کے ہوتے حق تعالیٰ مجھے بخش دے گا؟ اس پرسرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے خاموشی اختیار فرمائی اور کوئی کلام نہ فرمایا، پھر یہ آیت نازل ہوئی:
اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا(الفرقان:۷۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: مگر جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے۔
وحشی نے کہا: اس آیت میں شرط کی گئی ہے کہ گناہوں سے مغفرت اسے حاصل ہو گی جو توبہ کرلے اور نیک عمل کرے،جبکہ میں نیک عمل نہ کر سکا تو میرا کیا ہو گا؟ تب یہ آیت تلاوت فرمائی:
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ(النساء:۴۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے۔
اب وحشی نے کہا: اس آیت میں مَغفرت مَشِیَّتِ الٰہی کے ساتھ وابستہ ہے، ممکن ہے میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کے ساتھ حق تعالیٰ کی مشیت ِمغفرت وابستہ نہ ہو،ا س کے بعد یہ آیت نازل ہوئی :
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ(الزمر :۵۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔
یہ آیت سن کر وحشی نے کہا:اب میں کوئی قید اور شرط نہیں دیکھتا اور اسی وقت مسلمان ہو گیا(مدارج النبوہ، قسم سوم، باب ہفتم: ذکر سال ہفتم وفتح مکہ، ۲ / ۳۰۲)
مدارج کے علاوہ بقیہ کتابوں میں یہ مذکور ہے کہ یہ عرض معروض نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں نہ ہوئی بلکہ دوسرے ذریعے سے ہوئی۔
{اَلَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ: جو خود اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔} یہ آیت یہود و نصارٰی کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنے آپ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بیٹا اور اُس کا پیارا بتاتے تھے اور کہتے تھے کہ یہود و نصارٰی کے سوا کوئی جنت میں نہ داخل ہوگا اور یوں اپنی تعریف آپ کرتے تھے اور وہ بھی جھوٹی۔
خود پسندی کی مذمت:
اس آیتِ کریمہ میں خود پسندی کی مذمت کا بیان ہے۔ خود پسندی یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے دینی یا دنیاوی کوئی نعمت عطا کی ہو وہ یہ تَصوُّر کرے کہ ا س نعمت کا ملنا میری ذاتی کاوش کا نتیجہ ہے اور اس پر ناز کرنے لگے۔(کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات، اصل نہم، حقیقت عجب وادلال، ۲ / ۷۲۵)
خود پسندی ایک مذموم باطنی مرض ہے اور فی زمانہ مسلمانوں کی اکثریت ا س میں مبتلا نظر آتی ہے۔ اپنے علم وعمل پر ناز کرنا، کثرت عبادت پر اترانا، عزت، منصب اور دولت پر نازاں ہونا، فنی مہارت پر کسی کی انگشت نمائی برداشت نہ کرسکنا، کسی اور کو خاطر میں ہی نہ لانا بہت عام ہے۔ ایسے حضرا ت کو چاہئے کہ ِان روایات کا بغور مطالعہ کریں :
(1)…رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی نیک عمل پر اپنی تعریف کی تو اس کا شکر ضائع ہوا اور عمل برباد ہو گیا۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، العجب، ۲ / ۲۰۶، الجزء الثالث، الحدیث: ۷۶۷۴)
(2)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’تین چیزیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں : (1) لالچ جس کی اطاعت کی جائے (2) خواہش جس کی پیروی کی جائے (3) بندے کا اپنے عمل کو پسند کرنا یعنی خود پسندی۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۴ / ۲۱۲، الحدیث: ۵۷۵۴)
(3)…نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اے سراقہ! کیا میں تمہیں جنتی اور جہنمی لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟عرض کی: یا رسولَ اللہ ! ضرور بتائیے۔ ارشاد فرمایا :’’ہر سختی کرنے والا، اِترا کر چلنے والا، اپنی بڑائی چاہنے والا جہنمی ہے جبکہ کمزور اور مغلوب لوگ جنتی ہیں۔(معجم الکبیر، علی بن رباح عن سراقۃ بن مالک، ۷ / ۱۲۹، الحدیث: ۶۵۸۹)
{اُنْظُرْ كَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ:دیکھو یہ اللہ پر کیسے جھوٹ باندھ رہے ہیں۔}جو لوگ اپنے آپ کو بے گناہ اور مقبولِ بارگاہ بتا تے ہیں حالانکہ وہ ایسے نہیں ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ دیکھو کہ یہ کیسے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔
{ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ: کیا تم نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ ملا۔} کعب بن اشرف اور اس کے ساتھ مزید ستر یہودی مشرکینِ مکہ کے پاس پہنچے اور انہیں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ قریش بولے کہ ہمیں خطرہ ہے کہ تم بھی کتابی ہو اور ان سے قریب ترہو۔ اگر ہم نے ان سے جنگ کی اور تم ان سے مل گئے تو ہم کیا کریں گے؟ اگر ہمیں اطمینان دلانا ہو تو ہمارے بتوں کو سجدہ کرو، ان بد نصیبوں نے سجدہ کر لیا۔ ابو سفیان نے کہا کہ بتاؤ ہم ٹھیک راستہ پر ہیں یا محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ؟ کعب بن اشرف نے کہا کہ تم ٹھیک راہ پر ہو۔ اس پر یہ آیت اتری۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۱۰۱، خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۳۹۲، ملتقطاً)
اور اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی کہ انہوں نے حضور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عداوت میں مشرکین کے بتوں تک کو پوجا۔
طاغوت کا معنی:
اس آیت میں ’’طاغوت‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ ’’طَغٰی‘‘ سے بنا ہے جس کا معنیٰ ہے ’’سرکشی‘‘ ۔جو رب عَزَّوَجَلَّ سے سرکش ہو اور دوسروں کو سرکش بنائے وہ طاغوت ہے خواہ شیطان ہو یا انسان۔ قرآنِ کریم نے سردارانِ کفر کو بھی طاغوت کہا ہے۔ چونکہ طاغوت کے لفظ میں سرکشی کا مادہ موجود ہے اس لئے مُقَرَّبینِ بارگاہِ الٰہی کیلئے یہ لفظ ہرگز استعمال نہیں ہوسکتا بلکہ جو اُن کیلئے یہ لفظ استعمال کرے وہ خود ’’طاغوت‘‘ ہے۔
{اَمْ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ: کیاان کے لئے سلطنت کا کچھ حصہ ہے؟} یہودی کہتے تھے کہ ہم ملک اور نبوت کے زیادہ حق دار ہیں تو ہم کیسے عربوں کی اتباع کریں ؟ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اِس دعوے کو جھٹلادیا کہ اُن کا ملک میں کیسے حصہ ہے یعنی کوئی حصہ نہیں ہے اور اگر بالفرض ان کا سلطنت میں کچھ حصہ ہوتا تو اِن کا بخل اس درجہ کا ہے کہ یہ لوگوں کوتِل برابر بھی کوئی شے نہ دیتے۔
{اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ: بلکہ یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں۔} اس آیت میں یہودیوں کے اصل مرض کو بیان فرمایا کہ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو نبوت عطا فرمائی اور ان کے ساتھ ان کے غلاموں کو جو نصرت، غلبہ، عزت وغیرہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان پر یہ لوگ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اہلِ ایمان سے حسد کرتے ہیں حالانکہ یہودیوں کا یہ فعل سراسر جہالت و حماقت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد پر فضل فرمایا تھا کہ کسی کو کتاب عطا فرمائی، کسی کو نبوت اور کسی کو حکومت اور کسی کو اکٹھی کئی چیزیں جیسے حضرت یوسف، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نوازا تو پھرا گر اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے حبیب، امامُ الانبیاء ، سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے کرم سے کتاب اور نبوت و رسالت عطا فرماتا ہے تو اے یہودیو! تم اس سے کیوں جلتے اور حسد کرتے ہو؟
{فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِهٖ: پھر ان میں کوئی تواس پر ایمان لے آیا۔} ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّکا فضل جاری و ساری رہا، اس نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سر پر رسالت کا تاج سجایا، کتاب عطا فرمائی اور انہیں عزت و غلبہ سے نوازا۔ پھر کسی کو تو ایمان لانے کی توفیق مل گئی جیسے حضرت عبداللہبن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور اُن کے ساتھ والے ایمان لے آئے اور کئی محروم رہے جیسے کعب بن اشرف وغیرہ۔ تو جونبی آخر الزمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لایا اس کیلئے جہنم کی بھڑکتی آگ کافی ہے۔
{كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ: جب کبھی ان کی کھالیں خوب جل جائیں گی۔} یہاں کافروں کے سخت عذاب کا تذکرہ ہے اور جہنم کے عذاب کی شدت کا بیان ہے کہ جہنم میں ایسا نہیں ہوگا کہ عذاب کی وجہ سے جل کر آدمی چھوٹ جائے بلکہ عذاب ہوتا رہے گا، کھالیں جلتی رہیں گی اور اللہ تعالیٰ نئی کھالیں پیدا فرماتا رہے گا تاکہ عذاب کی شدت میں کمی نہ آئے۔ یہ ایسے ہی ہوگا جیسے دنیا میں کسی کی کھال جل جائے تو کچھ عرصے بعد صحیح ہوجاتی ہے۔
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اور ایمان والے۔} کافروں کے عذاب اور جہنم کے ذکر کے بعد ایمان والوں پر کرم نوازیوں اور جنتوں کا بیان کیا گیا ہے۔ یہ قرآنِ پاک کا ایک انداز ہے کہ کافروں کے افعال و عذاب کے ذکر کے ساتھ اہل ِایمان کے اعمال و جزا کا ذکر عموماً ہوتا ہے۔ چنانچہ مومنوں کے متعلق فرمایا کہ انہیں باغوں میں داخل کیا جائے گا جہاں انہیں پاکیزہ بیویاں ملیں گے اور وہاں دھوپ نہیں ہوگی بلکہ رب کریم عَزَّوَجَلَّ کے نور کی تَجَلّی کی روشنی ہوگی اور درخت ہوں گے اور ایسی رحمت ہوگی کہ اس کی راحت و آسائش انسانی فہم اور بیان سے بالا تر ہے ۔
{اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے۔} یہاں آیت میں دو حکم بیان کئے گئے ۔ پہلا حکم یہ کہ امانتیں ان کے حوالے کردو جن کی ہیں اور دوسرا حکم یہ ہے کہ جب فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔
اسلامی تعلیمات کے شاہکار:
یہ دونوں حکم اسلامی تعلیمات کے شاہکار ہیں اور امن و امان کے قیام اور حقوق کی ادائیگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں کی کچھ تفصیل یوں ہے:
(1)…امانت کی ادائیگی: امانت کی ادائیگی میں بنیادی چیز تو مالی معاملات میں حقدار کو اس کا حق دیدینا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ اور بھی بہت سی چیزیں امانت کی ادائیگی میں داخل ہیں۔ جیسے حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے، رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو مسلمانوں کا حاکم بنا پھر اس نے ان پر کسی ایسے شخص کو حاکم مقرر کیاجس کے بارے میں یہ خود جانتا ہے کہ اس سے بہتر اور اس سے زیادہ کتاب و سنت کا عالم مسلمانوں میں موجود ہے تو اُس نے اللہ تعالیٰ، اُس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی۔(معجم الکبیر، عمرو بن دینار عن ابن عباس، ۱۱ / ۹۴، الحدیث: ۱۱۲۱۶)
(2)… انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا: نظامِ عدل و عدالت کی روح ہی یہ ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے۔ فریقَین میں سے اصلاً کسی کی رعایت نہ کی جائے۔ علماء نے فرمایا کہ حاکم کو چاہئے کہ پانچ باتوں میں فریقین کے ساتھ برابر سلوک کرے۔ (1) اپنے پاس آنے میں جیسے ایک کو موقع دے، دوسرے کو بھی دے۔ (2) نشست دونوں کو ایک جیسی دے۔ (3) دونوں کی طرف برابر مُتَوَجِّہ رہے۔ (4) کلام سننے میں ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طریقہ رکھے۔ (5) فیصلہ دینے میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دِلائے۔ حدیث شریف میں ہے کہ انصاف کرنے والوں کو قربِ الہٰی میں نورکے منبر عطا کئے جائیں گے۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل۔۔۔ الخ، ص۱۰۱۵، الحدیث: ۱۸(۱۸۲۷))
قاضی شریح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا عادلانہ فیصلہ:
مسلمان قاضیوں نے اسلام کے عادلانہ نظام اور برحق فیصلوں کی ایسی عظیمُ الشان مثالیں قائم کی ہیں کہ دنیا ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتی، اس موقع پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے: جنگِ صفین کے موقع پرحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی ایک زِرَہ گم ہو گئی، بعد میں جب آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکوفہ تشریف لائے تو وہ زِرہ ایک یہودی کےپاس پائی، اسے فرمایا: یہ زِرَہ میری ہے، میں نے تمہیں بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے۔ یہودی نے کہا: یہ زِرہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے۔ فرمایا: ہم قاضی صاحب سے فیصلہ کرواتے ہیں ، چنانچہ یہ قاضی شُرَیح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی عدالت میں پہنچے ، حضرت علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمان کے ساتھ تشریف فرما ہوئے ۔قاضی شریح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: اے امیرُ المؤمنین! ارشاد فرمائیے۔ فرمایا: اس یہودی کے قبضے میں جو زِرہ ہے وہ میری ہے، میں نے اسے نہ بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے۔ قاضی شریحرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے یہودی سے فرمایا: اے یہودی! تم کیا کہتے ہو؟ یہودی بولا: یہ زِرَہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے۔ قاضی صاحب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے کہا: اے امیر المؤمنین ! کیا آپ کے پاس کوئی دلیل ہے؟ فرمایا: ہاں ، قنبر اور حسن دونوں اس بات کے گواہ ہیں۔ قاضی صاحب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کہا: (کہ حسن آپ کے بیٹے ہیں اور شرعی اصول یہ ہے کہ) بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں جائز نہیں۔ جب اس یہودی نے قاضی صاحب کا عادلانہ فیصلہ سنا تو حیرت زدہ ہو کر کہنے لگا: اے امیر المومنین! آپ مجھے قاضی صاحب کے پاس لے کر آئے اور قاضی صاحب نے آپ ہی کے خلاف فیصلہ کر دیا! میں گواہی دیتا ہوں کہ یہی مذہب حق ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہتعالیٰ کے رسول ہیں ، یہ زِرہ آپ ہی کی ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْماس کے اسلام قبول کرنے سے بہت خوش ہوئے ،وہ زِرہ اور ایک گھوڑا اُسے تحفے میں دے دیا۔(تاریخ الخلفاء، ابو السبطین: علی بن ابی طالب، فصل فی نبذ من اخبار علی۔۔۔ الخ، ص۱۸۴-۱۸۵، الکامل فی التاریخ، سنۃ اربعین، ذکر بعض سیرتہ، ۳ / ۲۶۵)
{وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ: اور رسول کی اطاعت کرو۔} یہاں آیت میں رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی اطاعت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب یقاتل من وراء الامام ویتقی بہ، ۲ / ۲۹۷، الحدیث: ۲۹۵۷)
رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کے بعد امیر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ صحیح بخاری کی سابقہ حدیث میں ہی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب یقاتل من وراء الامام ویتقی بہ، ۲ / ۲۹۷، الحدیث: ۲۹۵۷)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت فرض ہے:
حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری فرض ہے، قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دیا گیا بلکہ رب تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا اورا س پر ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا اور تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نافرمانی پرعذاب جہنم کا مژدہ سنایا ،لہٰذا جس کام کا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم فرمایا اسے کرنا اور جس سے منع فرمایا اس سے رک جانا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(سورۂ حشر:۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں ، اُس سے باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: میری اور اس چیز کی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہنے لگا: اے میری قوم میں نے اپنی آنکھوں سے ایک لشکر دیکھا ہے، میں واضح طور پر تمہیں اُس سے ڈرا رہا ہوں ، اپنی نجات کی راہ تلاش کر لو۔ اب ایک گروہ اس کی بات مان کر مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راتوں رات وہاں سے چلا گیا وہ تو نجات پا گیا اور ایک گروہ نے اس کی بات نہ مانی اور وہیں رکا رہا تو صبح کے وقت لشکر نے ان پر حملہ کر کے انہیں ہلاک کردیا۔ تو جس نے میری اطاعت کی اور جو میں لایا اس پر عمل پیرا ہوا وہ اس گروہ جیسا ہے جو نجات پاگیا اور جس نے میری نافرمانی کی اور جو میں لایا اسے جھٹلایا تو وہ اس گروہ کی طرح ہے جو نہ مان کر ہلاکت میں پڑا۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب شفقتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی امتہ۔۔۔ الخ، ص۱۲۵۳، الحدیث: ۱۶(۲۲۸۳))
اِس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔نیز اس آیت سے معلوم ہوا کہ احکام تین قسم کے ہیں ایک وہ جو ظاہر کتاب یعنی قرآن سے ثابت ہوں۔ دوسرے وہ جو ظاہر حدیث سے ثابت ہوں اور تیسرے وہ جو قرآن و حدیث کی طرف قیاس کے ذریعے رجوع کرنے سے معلوم ہوں۔ آیت میں ’’اُولِی الْاَمْرِ‘‘ کی اطاعت کا حکم ہے ، اس میں اما م، امیر، بادشاہ، حاکم، قاضی، علماء سب داخل ہیں۔
{اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایمان لے آئے ہیں } شانِ نزول: بِشرنامی ایک منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا ہوگیا۔ یہودی نے کہا چلومحمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فیصلہ کروالیتے ہیں۔منافق نے خیال کیا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو کسی کی رعایت نہیں کریں گے اور اس سے میرا مطلب حاصل نہ ہوگا، اس لئے اُس نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود یہ کہا کہ کعب بن اشرف یہودی کو پنچ بناؤ (یہاں آیت میں طاغوت سے اس کعب بن اشرف کے پاس فیصلہ لے جانا مراد ہے) یہودی جانتا تھا کہ کعب بن اشرف رشوت خور ہے، اِس لئے اُس نے یہودی ہونے کے باوجو د اُس کو پنچ تسلیم نہ کیا ، ناچار منافق کو فیصلہ کے لئے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے حضور آنا پڑا۔ رسولِ صادق و امین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے جو فیصلہ دیا وہ یہودی کے موافق ہوا اور منافق کے خلاف۔ یہاں سے فیصلہ سننے کے بعد پھر منافق اُس یہودی کومجبور کرکے حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس لے آیا، یہودی نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کیا کہ میرا اور اس کا معاملہ آپ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ طے فرما چکے لیکن یہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے فیصلہ سے راضی نہیں بلکہ آپ سے فیصلہ چاہتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ہاں میں ابھی آکر اس کا فیصلہ کرتا ہوں ،یہ فرما کر مکان میں تشریف لے گئے اور تلوار لا کر اُس کو قتل کردیا اور فرمایا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلہ سے راضی نہ ہو اُس کا میرے پاس یہی فیصلہ ہے۔اس منافق کے ورثاء حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں آئے لیکن اِن آیات میں حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تائید نازل ہوگئی تھی لہٰذا ورثاء کے مطالبے کو مُسترد کردیا گیا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۶۰، ۱ / ۳۹۷)
{فَكَیْفَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ: تو کیسی ہوگی جب ان پر ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت آ پڑے} یہاں منافقوں کے بارے میں فرمایا کہ ویسے تو اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ سے منہ پھیرتے ہیں لیکن جب ان پر ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت آ پڑے جیسے بِشر منافق پر آپڑی تو کیا پھر بھییہ آپ سے اعراض کریں گے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس وقت اپنی کرتوتوں کی تاویلیں کرنے کے لئے قسمیں کھاتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں کہ ہمارا مقصد تو صرف بھلائی اور دوفریقوں میں اتفاق کرانا تھا، اس لئے ہمارا آدمی یہودیوں کے پاس فیصلے کیلئے جانے لگا تھا ۔
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ:اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔} یہاں رسولوں کی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ رسولوں کو بھیجتا ہی اس لئے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ اَنبیاء و رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معصوم بناتا ہے کیونکہ اگر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود گناہوں کے مُرتَکِب ہوں گے تو دوسرے ان کی اطاعت و اِتّباع کیا کریں گے۔ رسول کی اطاعت اس لئے ضروری ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کا طریقہ ہی رسول کی اطاعت کرنا ہے۔ اس سے ہٹ کر اطاعت ِ الہٰی کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں لہٰذا جو رسول کی اطاعت کا انکار کرے گا وہ کافر ہوگا اگرچہ ساری زندگی سر پر قرآن اٹھا کر پھرتا رہے۔
{وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے۔} آیت کے اس حصے میں اگرچہ ایک خاص واقعے کے اعتبار سے کلام فرمایا گیا، البتہ اس میں موجود حکم عام ہے اورقیامت تک آنے والے مسلمانوں کو سَرورِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر شفاعت طلب کرنے کا طریقہ بتا یا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کی بارگاہ میں آجائیں کہ یہ بارگاہ، رب کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ ہے، یہاں کی رضا، رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا ہے اور یہاں کی حاضری، رب ِ کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ کی حاضری ہے، یہاں آئیں اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے کے ساتھ حبیب ِ ربُّ العٰلَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھی شفاعت کیلئے عرض کریں اور نبی مُکَرَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کیلئے سفارش فرما دیں تو ان لوگوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت و مغفرت کی بارشیں برسنا شروع ہوجائیں گی اور اس پاک بارگاہ میں آکر یہ خود بھی گناہوں سے پاک ہوجائیں گے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بندوں کو حکم ہے کہ ان (یعنی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔ اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے، اس کا علم ،اس کا سَمع (یعنی سننا)، اس کا شُہود (یعنی دیکھنا) سب جگہ ایک سا ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔ قال تعالٰی:
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
اگر وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
حضور کے عالَم حیات ظاہری میں حضور (یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حاضر ہونا) ظاہر تھا، اب حضورِمزار پُر انوار ہے اور جہاں یہ بھی مُیَسَّر نہ ہو تو دل سے حضور پُر نور کی طرف توجہ ،حضور سے تَوَسُّل، فریاد، اِستِغاثہ، طلبِ شفاعت (کی جائے) کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اب بھی ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں۔ مولانا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْبَارِی شرح شفا شریف میں فرماتے ہیں ’’رُوْحُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حَاضِرَۃٌ فِیْ بُیُوْتِ اَھْلِ الْاِسْلَامِ‘‘ ترجمہ : نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں۔(فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۶۵۴)
یاد رہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اور وصالِ ظاہری کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزار پر انوار پر حاضری دے کر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے، اپنی مغفرت ونجات کی اِلتِجاء کرنے اور اپنی مشکلات کی دوری چاہنے کا سلسلہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے چلتا آ رہا ہے۔ چنانچہ ذیل میں ا س سے متعلق چند واقعات ملاحظہ ہوں :
بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر گناہوں کی معافی چاہنے کے 3 واقعات:
(1)…حضرت ابو لبابہ بن عبدا لمنذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر ایک خطا سرزد ہو گئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس قدر نادم ہوئے کہ خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا: جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرمائے گا تب تک نہ میں کچھ کھاؤں گا، نہ پیوں گا ،نہ کوئی چیز چکھوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے۔ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جب ان کے بارے میں پتا چلا تو ارشاد فرمایا: اگر یہ میرے پاس آ جاتا تو میں اس کے لئے مغفرت طلب کرتا لیکن اب اس نے خود کو باندھ لیا ہے تو جب تک اللہتعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے گا، میں نہیں کھولوں گا۔ سات دن تک حضرت ابو لبابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نہ کوئی چیز کھائی، نہ پی، نہ چکھی ، حتّٰی کہ ان پرغشی طاری ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، جب انہیں توبہ کی قبولیت کے بارے میں بتایا گیا تو فرمایا: خدا کی قسم! میں اس وقت تک خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لا کر اپنے دستِ اقدس سے مجھے نہیں کھولتے۔ چنانچہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتشریف لائے اور اپنے پیارے صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بندشوں سے آزاد فرمادیا۔ (دلائل النبوہ للبیہقی، باب مرجع النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الاحزاب ومخرجہ الی بنی قریظۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۳-۱۴، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۱۹۰)
(2)… بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں توبہ و رُجوع کی ایک دوسری روایت ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : میں نے ایک ایسابستر خریدا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے، میں نے آپ کے روئے انور پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عرض گزار ہوئی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھ سے جو نافرمانی ہوئی میں اس سے اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں۔ ارشاد فرمایا: یہ گدا یہاں کیوں ہے؟ عرض کی: میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے خریدا تھا تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس پر تشریف فرما ہوں اور اس سے ٹیک لگائیں۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ان تصویروں (کو بنانے) والے قیامت کے دن عذاب دئیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا: جو تم نے بنایا انہیں زندہ کرو۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: ’’جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔(بخاری، کتاب البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ لبسہ للرجال والنساء، ۲ / ۲۱، الحدیث: ۲۱۰۵)
(3)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ چالیس صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمجن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بھی تھے جمع ہوکر جَبر وقَدر میں بحث کرنے لگے تو روحُ الْاَمین حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی:یارسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ باہراپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں انہوں نے ایک نیا کام شروع کردیا ہے۔ چنانچہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ غصہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرہ مبارک سرخی میں اس طرح نمایاں تھا جیسے سرخ انار کا دانہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رخسار مبارک پر نچوڑا گیا ہو۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمحضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اس کیفیت کو دیکھ کر کھلے بازو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے استقبال کے لئے آگے بڑھے اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کے ہاتھ اور بازو کانپ رہے تھے اور عرض کی ’’ تُبْنَا اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ ہم نے اللہ تعالیٰ اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں توبہ پیش کی ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قریب تھا کہ تم اپنے اوپر جہنم کوواجب کرلیتے، میرے پاس جبرائیل امینعَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائے اور عرض کی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَباہر امت کے پاس تشریف لے جائیں ، انہوں نے نیا کام شروع کردیا ہے۔(معجم الکبیر، ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۵۹، الحدیث: ۱۴۲۳)
مزار پر انوار پر حاضر ہو کر حاجتیں اور مغفرت طلب کرنے کے5واقعات:
حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضری کا یہ طریقہ صرف آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات ِ مبارکہ میں نہ تھا بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے وصالِ مبارک کے بعد بھی یہ عرض و معروض باقی رہی اور آج تک ساری امت میں چلتی آرہی ہے۔چنانچہ
(1)…امیر المومنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دورِ خلافت میں قحط پڑ گیا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث المزنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی قبرِ انور پر حاضر ہو کر عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنی امت کے لئے بارش کی دعا فرما دیجئے وہ ہلاک ہو رہی ہے۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا: تم حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس جا کر میرا سلام کہو اور بشارت دے دو کہ بارش ہو گی اور یہ بھی کہہ دو کہ وہ نرمی اختیار کریں۔ حضرت بلال بن حارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اور خبر دے دی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہ سن کر رونے لگے ، پھر فرمایا: یا رب !عَزَّوَجَلَّ، میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اسی چیز میں کہ جس سے میں عاجز ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ۷ / ۴۸۲، الحدیث: ۳۵، وفاء الوفاء، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الفصل الثالث، ۲ / ۱۳۷۴، الجزء الرابع)
(2)…ایک مرتبہ مدینۂ منورہ میں شدید قحط پڑا، اہلِ مدینہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کی بارگاہ میں اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا: سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور دیکھو اور چھت میں ایک روشندان بناؤ حتّٰی کہ روضۂ منور اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے، اہلِ مدینہ نے جیسے ہی روشندان بنایا تو اتنی کثیر بارش ہوئی کہ سبز گھاس اُگ آئی اور اونٹ موٹے ہو گئے یہاں تک کہ گوشت سے بھر گئے۔ (سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالٰی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ، ۱ / ۵۶، الحدیث: ۹۲)
(3)…بادشاہ ابو جعفرمنصور نے حضرت امام مالک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مسجدِ نبوی شریف میں مناظرہ کیا، دورانِ مناظرہ ابو جعفر کی آواز کچھ بلند ہوئی تو امام مالک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اسے ( ڈانٹتے ہوئے) کہا: اے امیرُ المؤمنین! اس مسجد میں اپنی آواز اونچی نہ کرو کیونکہ اللہ تعا لیٰ نے ایک جماعت کو ادب سکھایا کہ’’تم اپنی آوازوں کو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آواز سے بلند مت کرو ۔‘‘اور دوسری جماعت کی تعریف فرمائی کہ’’بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں پَست کرتے ہیں۔‘‘ اور ایک قوم کی مذمت بیان کی کہ’’بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں۔‘‘ بے شک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت و حرمت اب بھی اسی طرح ہے جس طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات میں تھی۔ یہ سن کر ابو جعفر خاموش ہو گیا، پھر دریافت کیا: اے ابو عبداللہ! میں قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگوں یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف متوجہ ہو کر؟ فرمایا: تم کیوں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے منہ پھیرتے ہو حالانکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہارے اور تمہارے والد حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے بروز قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں وسیلہ ہیں بلکہ تم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی طرف متوجہ ہو کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے شفاعت مانگو پھر اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرمائے گا۔(شفا شریف، القسم الثانی، الباب الثالث، فصل واعلم انّ حرمۃ النبی۔۔۔ الخ، ص۴۱، الجزء الثانی)
(4)…مروان نے اپنے زمانۂ تَسَلُّطمیں ایک صاحب کو دیکھا کہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبر انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہیں ، مروان نے (ان کی گردن مبارک پکڑ کر) کہا: جانتے ہو کیا کر رہے ہو؟ اس پر ان صاحب نے اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ہاں ، میں کسی اینٹ پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں ، میں تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حضور حاضر ہوا ہوں ، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : دین پر نہ روؤ جب اس کا اہل اس پر والی ہو، ہاں اس وقت دین پر روؤ جبکہ نا اہل والی ہو۔ یہ صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔(مسند امام احمد، حدیث ابی ایوب الانصاری، ۹ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۶۴۶)
(5)… حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی وفات شریف کے بعد ایک اعرابی روضۂ اقدس پر حاضر ہوا اور روضۂ انور کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا:یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو آپ نے فرمایا، ہم نے سنا اور جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہوا ،اس میں یہ آیت بھی ہے’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا‘‘ میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا ہوں تو میرے رب عَزَّوَجَلَّ سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے ۔اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تجھے بخش دیا گیا۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۲۳۶)
الغرض یہ آیت ِ مبارکہ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظیم مدح و ثنا پر مشتمل ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بہت سے اشعار فرمائے ہیں۔ چنانچہ’’حدائق بخشش‘‘ میں فرماتے ہیں :
مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُوْكَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
اور فرمایا:
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
اور فرمایا:
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا
آیت’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا‘‘سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت سے 4باتیں معلوم ہوئیں۔
(1)… اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاجت پیش کرنے کے لئے اُس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا کامیابی کا ذریعہ ہے۔
(2)…قبرِ انور پر حاجت کے لئے حاضر ہونا بھی ’’جَآءُوْكَ‘‘ میں داخل اور خَیرُ القُرون کا معمول ہے۔
(3)… بعد ِوفات مقبولانِ حق کو ’’یا‘‘ کے ساتھ نِدا کرنا جائز ہے ۔
(4)… مقبولانِ بارگاہِ الہٰی مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے۔
{فَلَا وَ رَبِّكَ: تو اے حبیب! تمہارے رب کی قسم۔}اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ اہلِ مدینہ پہاڑ سے آنے والے پانی سے باغوں میں آبپاشی کرتے تھے۔ وہاں ایک انصاری کا حضرت زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے جھگڑا ہوا کہ کون پہلے اپنے کھیت کو پانی دے گا۔ یہ معاملہ حبیب ِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حضور پیش کیا گیا۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا، اے زبیر! تم اپنے باغ کو پانی دے کر اپنے پڑوسی کی طرف پانی چھوڑ دو۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پہلے پانی کی اجازت اس لئے دی گئی کہ ان کا کھیت پہلے آتا تھا، اس کے باوجود سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انصاری کے ساتھ بھی احسان کرنے کا فرما دیا لیکن مجموعی فیصلہ انصاری کو ناگوار گزرا اور اس کی زبان سے یہ کلمہ نکلا کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ باوجود اس کے کہ فیصلہ میں حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو انصاری کے ساتھ احسان کی ہدایت فرمائی گئی تھی لیکن انصاری نے اس کی قدر نہ کی تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ اپنے باغ کو سیراب کرکے پانی روک لو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب الصلح، باب اذا اشار الامام بالصلح۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۱۵، الحدیث: ۲۷۰۸)
اور بتادیا گیا کہ حبیب ِ خدا، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے حکم کو تسلیم کرنا فرضِ قطعی ہے۔ جو شخص تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا وہ کافر ہے، ایمان کا مدار ہی اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کو تسلیم کرنے پر ہے۔
آیت’’فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت ِ مبارکہ سے 7 مسائل معلوم ہوئے:
(1)…اللہ عَزَّوَجَلَّنے اپنے رب ہونے کی نسبت اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف فرمائی اور فرمایا اے حبیب! تیرے رب کی قسم۔ یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عظیم شان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی پہچان اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے سے کرواتا ہے۔
(2)…حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم ماننا فرض قرار دیا اور اس بات کو اپنے رب ہونے کی قسم کے ساتھ پختہ کیا۔
(3)…حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم ماننے سے انکار کرنے والے کو کافر قرار دیا۔
(4)…تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حاکم ہیں۔
(5)…اللہ عَزَّوَجَلَّ بھی حاکم ہے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبھی البتہ دونوں میں لامُتَناہی فرق ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بہت سی صفات جواللہ تعالیٰ کیلئے استعمال ہوتی ہیں اگر وہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے استعمال کی جائیں تو شرک لازم نہیں آتا جب تک کہ شرک کی حقیقت نہ پائی جائے۔
(6)…رسو لِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم دل و جان سے ماننا ضروری ہے اور اس کے بارے میں دل میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے ۔ اسی لئے آیت کے آخر میں فرمایا کہ پھر اپنے دلوں میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کے متعلق کوئی رکاوٹ نہ پائیں اور دل و جان سے تسلیم کرلیں۔
(7)…اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی احکام کا ماننا فرض ہے اور ان کو نہ ماننا کفر ہے نیز ان پر اعتراض کرنا، ان کا مذاق اڑانا کفر ہے۔ اس سے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو کافروں کے قوانین کو اسلامی قوانین پرفَوْقِیَّت دیتے ہیں۔
{وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ: اور اگر ہم ان پر فرض کردیتے۔} یہاں مخلص و منافق سب کے اعتبار سے فرمایا جارہا ہے کہ اگر ہم ان پر فرض کردیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرویا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے ہی ایسا کرتے جیسا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکل جانے اور توبہ کے لئے اپنے آپ کو قتل کا حکم دیا تھا۔ اس آیت کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ثابت بن قیس بن شَماس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ایک یہودی نے کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّنے ہم پر خود کو قتل کرنا اور گھر بار چھوڑ نا فرض کیا تھا، ہم اس کو بجالائے تھے۔ اس پر حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم پر فرض کرتا تو ہم بھی ضرور بجالاتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر طبری، النساء، تحت الآیۃ: ۶۶، ۴ / ۱۶۳)
کہ یہ کہنا تو آسان ہے لیکن اگر واقعی ایسا حکم دیدیا جاتا تو ایک بڑی تعداد اس حکم پر عمل نہ کرتی۔ اس میں بطورِ خاص منافقین یا نئے نئے مسلمان ہونے والے داخل ہوں گے جیسے منافقین اکثر جہاد سے فرار کی راہ ہی اختیار کرتے تھے اور نئے نئے مسلمان ہونے والے بھی کئی جنگوں میں ثابت قدم نہ رہ سکے۔ جہاں تک مُخلِصین یعنی جلیلُ القدر صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا تعلق ہے تو کتنے ہی صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ایسے ہیں جنہوں نے مختلف جنگوں میں خود کو سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے آگے کھڑا کردیا اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کردیں۔ مزید فرمایا کہ اگر تمہیں خود کو قتل کرنے یا اپنے گھروں سے نکل جانے کا حکم دیا جاتا تو تم میں سے تھوڑے لوگ ہی کرتے لیکن اگر وہ ہر اُس حکم پر عمل کریں جو انہیں دیا جائے خواہ خود کو جان سے ماردینے کا ہو یا گھروں سے نکل جانے کا بہرصورت یہ ان کیلئے بہت بہتر ہوتا اور ایمان پر ثابت قدمی کا ذریعہ ہوتا اور اس پر ہم انہیں عظیم اجروثواب عطا فرماتے اور انہیں صراط ِ مستقیم کی اعلیٰ درجے کی ہدایت عطا فرماتے۔
{وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ: اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے۔} آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تاجدارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کمال درجے کی محبت رکھتے تھے اور انہیں جدائی کی تاب نہ تھی۔ ایک روز اس قدر غمگین اور رنجیدہ حاضر ہوئے کہ چہرے کا رنگ بدل گیاتھا تو رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے دریافت فرمایا، آج رنگ کیوں بدلاہوا ہے ؟عرض کیا: نہ مجھے کوئی بیماری ہے اورنہ درد سوائے اس کے کہ جب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سامنے نہیں ہوتے تو اِنتہا درجہ کی وحشت و پریشانی ہوجاتی ہے، جب آخرت کو یاد کرتا ہوں تو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہاں میں کس طرح دیدار پاسکوں گا؟ آپ اعلیٰ ترین مقام میں ہوں گے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے جنت بھی دی تو اس مقام عالی تک رسائی کہاں ؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱ / ۴۰۰)
اور انہیں تسکین دی گئی کہ منزلوں کے فرق کے باوجودفرمانبرداروں کو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضری اور مَعِیَّت کی نعمت سے سرفراز فرمایا جائے گا اور انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے مخلص فرمانبردار جنت میں اُن کی صحبت ودیدار سے محروم نہ ہوں گے۔حدیث شریف میں ہے:آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرے۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب اخبار الرجل الرجل بمحبتہ ایاہ، ۴ / ۴۲۹، الحدیث: ۵۱۲۷)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا شوقِ رفاقت:
اس سے معلوم ہو اکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رفاقت صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بہت محبوب تھی اور دنیا کی رفاقت کے ساتھ ساتھ اُخروی رفاقت کا شوق بھی ان کے دلوں میں رچا بسا تھا اور وہ ا س کے لئے بڑے فکر مند ہو اکرتے تھے۔ ذیلی سُطور میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے شوقِ رفاقت کے چند اور واقعات ملاحظہ ہوں ، چنانچہ
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں رات کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمتِ اقدس میں رہا کرتا تھا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وضو کیلئے پانی لایا کرتا اور دیگر خدمت بھی بجا لایا کرتا تھا۔ایک روز آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھ سے فرمایا : سَلْ (مانگو) میں نے عرض کیا ’’اَسْئَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ‘‘میں آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنت میں آپ کا ساتھ مانگتا ہوں۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اس کے علاوہ اور کچھ؟ میں نے عرض کی: میرا مقصود تو وہی ہے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تو پھر زیادہ سجدے کر کے اپنے معاملے میں میری مدد کرو۔(مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹))
جنگ اُحد کے موقع پر حضرت ام عمارہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہانے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو جنت میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت گزاری کا شرف عطا فرمائے۔ اس وقت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کے لئے اور ان کے شوہر اور ان کے بیٹوں کے لئے اس طرح دعا فرمائی کہ ’’اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھُمْ رُفَقَائِیْ فِی الْجَنَّۃِ‘‘ یااللہ!عَزَّوَجَلَّ، ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنا دے۔ حضرت ام عمارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہازندگی بھر علانیہ یہ کہتی رہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اس دعاکے بعد دنیا میں بڑی سے بڑی مصیبت مجھ پر آجائے تو مجھ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔(الطبقات الکبری لابن سعد، ومن نساء بنی النجار ۔۔۔ الخ، امّ عمارۃبنت کعب، ۸ / ۳۰۵)
عاشقوں کے امام حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی زوجہ شدت ِغم سے فرمانے لگیں :ہائے غم۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: واہ! بڑی خوشی کی بات ہے کہ کل ہم اپنے محبوب آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے ملاقات کریں گے ۔(سیرت حلبیہ، باب استخفائہ صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ فی دار الارقم۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۲۲)
ایک جنگ کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ہاشم بن عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا ’’اے ہاشم! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،تم جنت سے بھاگتے ہو حالانکہ جنت تو تلواروں (کے سائے) میں ہے۔ آج میں اپنی محبوب ترین ہستیوں محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور ان کے ساتھیوں سے ملاقات کروں گا۔ چنانچہ اسی جنگ میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے شہادت پائی۔(اسد الغابہ، باب العین والمیم، عمار بن یاسر، ۴ / ۱۴۴)
جب حضرت خباب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُبیمار ہوئے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے (جب انہوں نے دیکھا کہ یہ اسی مرض میں وفات پا جائیں گے ) تو فرمایا ’’تم خوش ہو جاؤ، کل تم محبوب ترین ہستی محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ملاقات کرو گے۔ (البدایہ والنہایہ، ثمّ دخلت سنۃ سبع وثلاثین، ذکر من توفی فیہا من الاعیان، ۵ / ۴۱۷)
اللہ تعالیٰ ان مقدس ہستیوں کے شوقِ رفاقت کے صدقے ہمیں بھی اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبر و حشر اور جنت میں رفاقت نصیب فرمائے۔ اٰمین۔
صدق کے معنی اور اس کے مَراتِب:
اس آیت میں صِدّیقین کا لفظ آیا ہے۔ صدیقین انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے سچے مُتَّبِعین کو کہتے ہیں جواخلاص کے ساتھ اُن کی راہ پر قائم رہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں ہم اس کے معانی اور اس کے درجات بیان کرتے ہیں چنانچہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : صدق 6 معانی میں استعمال ہو تا ہے :(1) گفتگو میں صدق۔ (2) نیت و ارادہ میں صدق۔ (3) عَزم میں صدق۔ (4) عزم کو پورا کرنے میں صدق۔ (5) عمل میں صدق۔ (6) دین کے تمام مقامات کی تحقیق میں صدق۔ ان معانی کے اعتبار سے صادقین کے بہت سے درجات ہیں اور جس شخص میں کسی خاص چیز میں صدق پایا جائے تو وہ اسی چیز کی نسبت سے صادق کہلائے گا، چنانچہ :
پہلا صدق ’’زبان کا صدق ‘‘ہے اور یہ صرف خبریں دینے میں یا ان باتوں میں ہوتا ہے جو خبروں میں شامل ہوں اور ان سے آگاہی ہو اور اس میں وعدے کو پورا کرنا اور اس کی خلاف ورزی کرنا بھی داخل ہے،لہٰذا ہر بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے الفاظ کی حفاظت کرے اور (ہمیشہ) سچی بات ہی کہے۔
دوسرا صدق ارادے اور نیت سے متعلق ہے اور یہ اخلاص کی طرف لوٹتا ہے، یعنی بندے کی حَرکات و سَکَنات کا باعث صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے، اگر اس میں کوئی نَفسانی غرض بھی آ جائے تو صدقِ نیت باطل ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کو جھوٹاکہنا صحیح ہے لہٰذا ہر صادق کا مخلص ہونا ضروری ہے۔
تیسرا صدق ’’عزم کا صدق ‘‘ ہے کیونکہ بعض اوقات انسان کسی عمل کا پختہ ارادہ کرتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ اگراللہ تعالیٰ نے مجھے مال عطا فرمایا تو میں تمام مال صدقہ کر دوں گا یا یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کے راستے میں میرا دشمن سے مقابلہ ہو ا تو میں ا س سے لڑوں گا اور ا س لڑائی میں اگر میں قتل بھی ہو جاؤں تو مجھے اس کی پرواہ نہ ہو گی یا اگراللہتعالیٰ مجھے حکومت دے تو میں انصاف کروں گا اور ظلم کرنے اور مخلوق کی طرف میلان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔یہ عزم و ارادہ دل میں ہوتا ہے اور انتہائی پختہ اور سچا ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اس میں دوسری طرف میلان اور تَرَدُّد ہوتا ہے، نیز ایسی کمزوری ہوتی ہے جو عزم میں صدق کے مقابل اور اس کی ضد ہوتی ہے توصادق اور صدیق وہ شخص ہے جس کا پختہ ارادہ تمام نیکیوں میں قوتِ تامہ کے ساتھ ہوتاہے، اس میں کسی قسم کا میلان ،تردد اور کمزوری نہیں ہوتی اور ا س کا نفس ہمیشہ نیک کاموں پر پختہ ارادہ رکھتا ہے۔
چوتھا صدق ’’عزم کو پورا کرنے کا صدق‘‘ ہے کیونکہ بعض اوقات نفس فی الحال عزم کر لیتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وعدے اور عزم میں کوئی مشقت نہیں ہوتی اور اس میں محنت بھی کم ہوتی ہے لیکن جب حقیقت کا سامنا ہوتا ہے اور قدرت حاصل ہوجاتی ہے اور شہوت کازور ہوتا ہے تو عزم ختم ہو جاتا ہے اور خواہشات غالب ا ٓجاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ عزم کو پورا نہیں کر سکتا اور یہ بات صدق کے خلاف ہے۔
پانچواں صدق ’’اعمال کا صدق‘‘ ہے، یعنی انسان کوشش کرے حتّٰی کہ اس کے ظاہری اعمال ایسی بات پر دلالت نہ کریں کہ ا س کے دل میں جو کچھ ہے وہ ظاہر کے خلاف ہے۔ یہ کوشش اعمال کو چھوڑنے سے نہ ہو بلکہ باطن کو ظاہر کی تصدیق کی طرف کھینچنے سے ہو اور یہ بات تَرکِ ریاسے حاصل ہوتی ہے کیونکہ ریا کار تو یہی چاہتاہے کہ اس کے ظاہر سے باطن کی اچھی صفات سمجھی جائیں البتہ کئی نمازی نماز میں خشوع و خضوع کی صورت میں کھڑے ہوتے ہیں اور ان کا مقصد دوسروں کو دکھانا نہیں ہوتا لیکن ان کا دل نماز سے غافل ہوتا ہے اور جو شخص اسے دیکھتا ہے وہ اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑ ادیکھتا ہے جبکہ باطنی طورپر وہ خواہشات میں سے کسی خواہش کے سامنے بازار میں کھڑ اہوتا ہے ،اس طرح یہ اعمال زبانِ حال سے باطن کی خبر دیتے ہیں اور وہ اس میں جھوٹا ہوتا ہے اور اس سے اعمال میں صدق کی باز پُرس ہو گی۔ اسی طرح کوئی شخص سکون و وقار سے چل رہا ہوتا ہے حالانکہ ا س کا باطن سکون وو قار سے موصوف نہیں ہوتا تو یہ بھی اپنے عمل میں سچا نہیں اگرچہ ا س کی توجہ مخلوق کی طرف نہ ہو اور نہ ہی وہ ان کو دکھا رہا ہو ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر ظاہر کاباطن کے خلاف ہونا قصد وارادے سے ہو تو وہ ریا ہے اور ا س سے اخلاص ختم ہو جاتا ہے اور قصدو ارادے کے بغیر ہو تو اس سے صدق فوت ہو جاتا ہے اور اس قسم کی خرابی سے نجات کی صورت یہی ہے کہ ظاہر وباطن ایک جیسا ہو بلکہ باطن ظاہر سے بہتر ہو۔
چھٹا اور سب سے اعلیٰ و مُعَزَّز درجے کا صدق’’ مقامات دین میں صدق‘‘ ہے، جیسے خوف ، امید، تعظیم، زُہد، رضا، تَوَکُّل، محبت اور باقی اُمورِ دینیہ میں صدق پایا جانا ۔ان امور کی کچھ بنیادیں ہیں جن کے ظاہر ہونے سے یہ نام بولے جاتے ہیں ،پھر ان کے کچھ مقاصد اور حقائق ہیں تو حقیقی صادق وہ ہے جو ان امور کی حقیقت کو پا لے اور جب کوئی چیز غالب آ جائے اور اس کی حقیقت کامل ہو تو ا س سے موصوف شخص کو صادق کہا جاتا ہے۔(احیاءعلوم الدین، کتاب النیۃ والاخلاص والصدق، الباب الثالث، بیان حقیقۃ الصدق ومعناہ ومراتبہ، ۵ / ۱۱۷-۱۲۲)
یاد رہے کہ اس آیت میں صدیقین سے سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَکابِر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسب سے پہلے مراد ہیں جیسے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ شہداء سے مراد وہ حضرات ہیں جنہوں نے راہِ خدا میں جانیں دیں اور صالحین سے مراد وہ دیندار لوگ ہیں جو حق العِباد اور حقُّ اللہ دونوں ادا کریں اور اُن کے احوال و اعمال اور ظاہر و باطن اچھے اور پاک ہوں۔
{ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِ:یہ اللہ کا فضل ہے۔} معلوم ہوا کہ جنت میں حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قرب جنت کی بہت بڑی نعمت ہوگی کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے بطورِ خاص فضیلت میں شمار فرمایا اور اسے اپنا فضل قرار دیا ہے۔
{خُذُوْا حِذْرَكُمْ: ہوشیاری سے کام لو۔}اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں اپنے احکام سے محروم نہیں رکھا بلکہ ہر جگہ ہماری رہنمائی فرمائی۔ ماں باپ، بیوی بچے، رشتے دار، پڑوسی، اپنے بیگانے سب کے متعلق واضح ہدایات عطا فرمائیں۔ اسی سلسلے میں ہماری بھلائی کیلئے ہمیں ہوشیار رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ دنیا کے دیگر معاملات کی طرح دشمنوں کے مقابلے میں بھی ہوشیاری اور سمجھداری سے کام لو، دُشمن کی گھات سے بچو اور اُسے اپنے اوپر موقع نہ دو اور اپنی حفاظت کا سامان لے رکھو پھر موقع محل کی مناسبت سے دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہوکر نکلو یا اکٹھے چلو ۔ یعنی جہاں جو مناسب ہو امیر کی اطاعت میں رہتے ہوئے اور تجربات و عقل کی روشنی میں مفید تدبیریں اختیار کرو۔ یہ آیت ِ مبارکہ جنگی تیاریوں ، جنگی چالوں ، دشمنوں کی حربی طاقت کے اندازے لگانے، معلومات رکھنے، ان کے مقابلے میں بھرپور تیاری اور بہترین جنگی حکمت ِ عملی کے جملہ اصولوں میں رہنمائی کرتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسباب کا اختیار کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ بغیر اسباب لڑنا مرنے کے مُتَرادِف ہے، تَوَکُّل ترک ِ اَسباب کا نام نہیں بلکہ اسباب اختیار کرکے امیدیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے وابستہ کرنے کا نام ہے۔
جنگی تیاری کیلئے حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی ہدایا ت ملاحظہ فرمائیں:
(1)… حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ( اس آیت)’’وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ‘‘ اور ان کے لئے تیار رکھو جو قوت تم سے بن پڑ ے ۔ (کی تفسیر میں ) فرمایا ’’خبردار! وہ قوت تیر اندازی ہے، خبردار! وہ قوت تیر اندازی ہے، خبردار! وہ قوت تیر اندازی ہے۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی والحث علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۰۶۱، الحدیث: ۱۶۷(۱۹۱۷))
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مشرکین سے ،اپنے مال، ہاتھ اور زبان سے جہاد کرو ( یعنی دینِ حق کی اشاعت میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہو جاؤ)(نسائی، کتاب الجہاد، باب وجوب الجہاد، ص۵۰۳، الحدیث: ۳۰۹۳)
(3)…حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ کائنات، شاہِ موجوداتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ایک تیر کے بدلے تین افراد کو جنت میں داخل فرمائے گا (1) ثواب کی نیت سے تیر بنانے والے کو (2) تیر پھینکنے والے کو (3) تیر پکڑوانے والے کو۔ اور تیر اندازی اور گھڑ سواری میں مقابلہ کیا کرو، تمہارا تیر اندازی میں مقابلہ کرنا شَہسواری میں مقابلہ کرنے سے زیادہ مجھے پسند ہے اور جو تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس سے غفلت کرتے ہوئے چھوڑ دے تو اس نے ایک نعمت کو گنوا دیا۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الرمی، ۳ / ۱۹، الحدیث: ۲۵۱۳)
(4)… حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اہلِ شام کو خط لکھا کہ اپنی اولاد کو تیراکی اور گھڑ سواری سکھاؤ۔ (در منثور، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۰، ۴ / ۸۶)
{وَ اِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ: اور تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ضرور دیر لگائیں گے۔} یہاں منافقوں کا بیان ہے کہ منافقوں کی حالت یہ ہے کہ حتَّی الامکان میدانِ جنگ میں جانے میں دیر لگائیں گے تاکہ کسی طرح ان کی جان چھوٹ جائے اور اگر پھر واقعی ایسا ہوجائے کہ مسلمانوں کو کوئی مصیبت آپہنچے اور یہ منافقین وہاں موجود نہ ہوں تو بڑی خوشی سے کہیں گے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکا شکر ہے کہ میں وہاں موجود نہ تھا ورنہ میں بھی مصیبت میں پڑجاتا۔ اور اگر اس کی جگہ مسلمانوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خصوصی فضل ہوجائے کہ انہیں فتح حاصل ہوجائے اور مالِ غنیمت مل جائے تو پھر وہی جو تکلیف کے وقت اجنبی اور بیگانے بن گئے تھے اب کہیں گے کہ اے کاش کہ ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے تو ہمیں بھی کچھ مال مل جاتا۔ گویا منافقین کا اول وآخر صرف مال کی ہوس ہے۔ انہیں نہ مسلمانوں کی فتح سے خوشی اورنہ شکست سے رنج بلکہ شکست پر خوش اور فتح پر رنجیدہ ہوتے ہیں۔
خود غرضی اور مفاد پرستی کی مذمت:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خود غرضی، موقع شناسی، مفاد پرستی اور مال کی ہوس منافقوں کا طریقہ ہے۔ دنیا میں وہ شخص کبھی کامیاب نہیں ہوتا جو تکلیف کے موقع پر تو کسی کا ساتھ نہ دے لیکن اپنے مفاد کے موقع پر آگے آگے ہوتا پھرے۔ مفاد پرست اور خود غرض آدمی کچھ عرصہ تک تو اپنی منافقت چھپا سکتا ہے لیکن اس کے بعد ذلت و رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے۔
{فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: تواللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے۔} یہاں اہلِ ایمان کا بیان ہے کہ جن لوگوں کی نگاہیں آخرت کی زندگی پر لگی ہوئی ہیں اور وہ آخرت کی خاطر دنیا کی زندگی قربان کرنے کو تیار ہیں انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں لڑنا چاہیے اور اس میں دُنیوی نفع کا ہرگز خیال نہ کریں بلکہ ان کا مطلوب و مقصود اللہ عَزَّوَجَلَّکی رضا ،دینِ اسلام کی سربلندی اور حق کا بول بالاہونا چاہیے۔ جب اس نیت سے کوئی جہاد کرے گا تو وہ شہید ہوجائے یا بچ کر آجائے دونوں صورتوں میں بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوجائے گا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عظیم اَجر کا مُستحق ہوگا۔
حضرت انس بن نضررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا جذبۂ شہادت:
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میرے چچا حضرت انس بن نضررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غزوۂ بدر میں نہ جاسکے ، انہوں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی :آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مشرکین سے جو پہلی جنگ کی تھی میں اس میں حاضر نہ ہو سکا۔ اگراب اللہ تعالیٰ نے مجھے کسی غزوہ میں شرکت کاموقع دیا تو اللہ تعالیٰ دکھا دے گا جو میں کروں گا، پھر جب غزوۂ اُحد کا موقع آیا توکچھ لوگ بھاگنے لگے، حضرت انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ! ان بھاگنے والوں میں جومسلمان ہیں ، میں ان کی طرف سے معذرت خواہ ہوں اور جو مشرک ہیں ، میں اُن سے بری ہوں۔ پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تلوار لے کر میدانِ جنگ کی طرف دیوانہ وار بڑھے۔ راستے میں حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملاقات ہوئی تو فرمایا ’’اے سعد ! رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ، جنت۔ اس پاک پرورد گار عَزَّوَجَلَّ کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں اُحد پہاڑ کے قریب جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُ فرماتے ہیں : جیسا کارنامہ انہوں نے سر انجام دیا ہم ایسا نہیں کر سکتے ۔حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم نے انہیں شہیدوں میں اس حال میں پایا کہ ان کے جسم مبارک پر تیروں ، تلواروں اور نیزوں کے اسّی(80) سے زائد زخم تھے،اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اعضاء جگہ جگہ سے کاٹ دیئے گئے تھے ، آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پہچاننابہت مشکل ہوچکاتھا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ہمشیرہ نے آپ کواُنگلیوں کے نشانات سے پہچانا۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب قول اللہ تعالٰی: من المؤمنین رجال صدقوا۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۵، الحدیث: ۲۸۰۵، عیون الحکایات، الحکایۃ العاشرۃ، ص۲۷، ملتقطاً)
{وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں نہ لڑو۔} ارشاد فرمایا گیا کہ جہاد فرض ہے اور اس کے ترک کا تمہارے پاس کوئی عذر نہیں تو تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد نہ کرو حالانکہ دوسری طرف مسلمان مرد وعورت اور بچے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور اُن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں اور وہ ربُّ العٰلَمینعَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ ہمیں اس بستی کے ظالموں سے نجات عطا فرما اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار عطا فرما۔ تو جب مسلمان مظلوم ہیں اور تم ان کو بچانے کی طاقت رکھتے ہو تو کیوں ان کی مدد کیلئے نہیں اٹھتے۔
آیت’’وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے 3باتیں معلوم ہوئیں:
(1)… جہاد فرض ہے، بلاوجہ جہاد نہ کرنے والا ایسا ہی گنہگار ہوگا جیسے نماز چھوڑنے والا بلکہ کئی صورتوں میں اِس سے بھی بڑھ کر ہے۔ البتہ یہ خیا ل رہے کہ جہاد کی فرضیت کی کچھ شرائط ہیں جن میں ایک اہم شرط اِستِطاعت یعنی جنگ کی طاقت ہونا بھی ہے۔ جہاد یہ نہیں ہے کہ طاقت ہو نہیں اور چند مسلمانوں کو لڑائی میں جھونک کر مروا دیا جائے۔ جہاد کبھی فرضِ عین ہوتا ہے اور کبھی فرضِ کِفایہ۔
(2)…آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دینے کیلئے مسلمانوں کی مَظلومِیَّت کا بیان کرنا بہت مفید ہے۔ آیت میں جن کمزوروں کا تذکرہ ہے اس سے مراد مکہ مکرمہ کے مسلمان ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی گئی تاکہ وہ ان کمزور مسلمانوں کو کفار کے پنجۂ ظلم سے چھڑائیں جنہیں مکہ مکرمہ میں مشرکین نے قید کرلیا تھا اور طرح طرح کی ایذائیں دے رہے تھے اور اُن کی عورتوں اور بچوں تک پربے رحمانہ مظالم کرتے تھے اور وہ لوگ اُن کے ہاتھوں میں مجبور تھے اس حالت میں وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی خلاصی اور مددِ الٰہی کی دعا ئیں کرتے تھے ۔ یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اُن کا ولی و ناصر کیا اور انہیں مشرکین کے ہاتھوں سے چھڑایا اور مکۂ مکرمہ فتح کرکے اُن کی زبردست مدد فرمائی۔
(3)…آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیرُاللہ کو ولی اور ناصر (یعنی مددگار) کہہ سکتے ہیں۔
{اَلَمْ تَرَ: کیا تم نے نہ دیکھا۔} اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول یوں ہے کہ مشرکین مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو بہت ایذائیں دیتے تھے ۔ہجرت سے پہلے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی ایک جماعت نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ہمیں کافروں سے لڑنے کی اجازت دیجئے، انہوں نے ہمیں بہت ستایا ہے اور بہت ایذائیں دی ہیں۔ حضورِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ اُن کے ساتھ جنگ کرنے سے ابھی ہاتھ روک کر رکھو اور ابھی صرف نماز اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اسی کے متعلق فرمایا کہ کیا تم نے ان لوگوں کونہ دیکھا جن سے شروعِ اسلام میں مکہ مکرمہ میں کہا گیا کہ ابھی جہاد سے اپنے ہاتھ روکے رکھو اور ابھی صرف نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو ۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۷۷، ۱ / ۴۰۳)
لیکن پھر جب مدینہ منورہ میں ان پر جہاد فرض کیا گیا تو وہ اس وقت طبعی خوف کا شکار ہوگئے جو انسانی فطرت ہے اور حالت یہ تھی کہ ان میں ایک گروہ لوگوں سے ایسے ڈرنے لگا جیسے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنا ہوتا ہے یا اس سے بھی کچھ زیادہ ہی خوفزدہ تھا اور کہنے لگے: اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ؟ اس کی حکمت کیا ہے ؟
یہ سوال حکمت دریافت کرنے کے لئے تھا، اعتراض کرنے کیلئے نہیں۔اسی لئے اُن کو اس سوال پر توبیخ وزجرنہ فرمایا گیا بلکہ تسلی بخش جواب عطا کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان سے فرما دو کہ دنیا کا ساز و سامان تھوڑا ساہے، فنا ہونے والا ہے جبکہ پرہیز گاروں کے لئے آخرت تیار کی گئی ہے اور وہی ان کیلئے بہتر ہے ۔ لہٰذا جہاد میں خوشی سے شرکت کرو۔
{اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ:تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں ضرور پکڑ لے گی۔} لوگوں سے فرمایا گیا کہ اے جہاد سے ڈرنے والو! تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں ضرور پکڑ لے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہواور اس سے رہائی پانے کی کوئی صورت نہیں اور جب موت ناگزیر ہے تو بسترپر مرجانے سے راہ ِخدا میں جان دینا بہتر ہے کہ یہ سعادت آخرت کی کامیابی کا سبب ہے۔
{وَ اِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ: اور اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچے۔} یہاں سے منافقین کا بیان ہے کہ اگرانہیں کوئی بھلائی پہنچے جیسے مال میں فراوانی آجائے، کاروبار اچھا ہو جائے، پیداوار زیادہ ہوجائے تو کہتے ہیں یہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے ہے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچے جیسے قحط پڑجائے یا کوئی اور مصیبت آجائے تو کہتے ہیں : اے محمد! یہ آپ کی وجہ سے آئی ہے، جب سے آپ آئے ہیں ایسی ہی سختیاں پیش آرہی ہیں۔ محبوبِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دفاع میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان سے فرما دو کہ رزق میں کمی بیشی، قحط یا خوشحالی، رنج یا راحت، فتح یا شکست سب حقیقت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہیں یعنی ہر راحت و مصیبت اللہ عَزَّوَجَلَّکے ارادے سے آتی ہے، ہاں ہم اس کے اسباب مہیاکر لیتے ہیں نیز یہ بات بھی یاد رہے کہ نیکی راحت کا ذریعہ ہے اورگناہ مصیبت کا سبب ہے۔
{مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ: تجھے جو بھلائی پہنچتی ہے ۔} ارشادفرمایا گیا کہ اے مخاطب! تمہیں جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کریم کا فضل و رحمت ہے اور تجھے جو برائی پہنچتی ہے وہ تیری اپنی وجہ سے ہے کہ تو نے ایسے گناہوں کا ارتکاب کیا کہ تو اس کا مستحق ہوا۔ یہاں بھلائی کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف اور برائی کی نسبت بندے کی طرف کی گئی ہے جب کہ اوپر کی آیت میں سب کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہے ،خلاصہ یہ ہے کہ بندہ جب مُؤثّر ِ حقیقی کی طرف نظر کرے تو ہر چیز کو اُسی کی طرف سے جانے اور جب اسباب پر نظر کرے تو برائیوں کو اپنی شامت ِنفس کے سبب سے سمجھے۔
{وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا: اور اے حبیب! ہم نے تمہیں سب لوگوں کے لئے رسول بنا کربھیجا ہے۔} رسولِ کائنات
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتمام عرب و عجم اور ساری مخلوق کے لئے رسول بنائے گئے اور کل جہان آپ کا امتی کیا گیا۔ یہ سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے جلیلُ القدر منصب اورعظیمُ الْمَرتَبَت قدر و مَنزِلَت کا بیان ہے۔ اَوّلین وآخرین سارے انسانوں کے آپ نبی ہیں ، حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر یَوم قیامت تک سب انسان آپ کے امتی ہیں ، اسی لئے تمام نَبِیُّوں نے حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے نماز پڑھی۔
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا۔} آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مرتبہ فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکی اطاعت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّسے محبت کی، اِس پر آج کل کے گستاخ بددینوں کی طرح اُس زمانہ کے بعض منافقوں نے کہا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ چاہتے ہیں کہ ہم انہیں رب مان لیں جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو رب ماناہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اُن کے رد میں یہ آیت نازل فرما کر اپنے نبیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کلام کی تصدیق فرما دی کہ بے شک رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔(بغوی، النساء، تحت الآیۃ: ۸۰، ۱ / ۳۶۲)
تو جس نے ان کی اطاعت سے اِعراض کیا تو اس کا وبال اسی پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس لئے نہیں بھیجا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبہرصورت انہیں جہنم سے بچائیں بلکہ صرف تبلیغ کیلئے بھیجا ہے۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan