Surah An-Nisaa
{وَ اَخْذِهِمُ الرِّبٰوا:اور ان کے سود لینے کی وجہ سے۔} یہودیوں میں اعتقادی خرابیوں کے ساتھ عملی برائیاں بھی موجود تھیں چنانچہ سود کھانا اور رشوت لینا ان میں عام تھا۔ فیصلہ کرنے میں رشوت لیتے حتّٰی کہ رشوت کی خاطر شرعی احکام بھی بدل دیتے۔
سود اور رشوت کی مذمت:
اس آیت سے سود کی حرمت اور رشوت کی قباحت و خباثت بھی معلوم ہوئی۔ سود لینا شدید حرام ہے۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’بے شک سود سترگناہوں کا مجموعہ ہے ،ان میں سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا، ۳ / ۷۲، الحدیث: ۲۲۷۴)
سود سے متعلق مزید کلام سورۂ بقرہ آیت نمبر 275تا278 اور سورۂ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 130کے تحت گزر چکا ہے، اور رشوت کے بارے میں حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ’’سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رشوت لینے والے، دینے والے اور اُن کے مابین لین دین میں مدد کرنے والے پر لعنت فرمائی۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، ومن حدیث ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ، ۸ / ۳۲۷، الحدیث: ۲۲۴۶۲)
{لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ: لیکن ان میں علم میں پختگی والے ۔} یہودیوں کی اکثریت گمراہ اور بدکردار تھی لیکن ان میں کچھ لوگ اچھے بھی تھے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور اُن کے ساتھی جو گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر ایمان، راسخ و مضبوط علم ،صاف عقل اور کامل بصیرت رکھتے تھے، انہوں نے اپنے علم سے دین ِاسلام کی حقانیت کو جانا اور سید ِانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے۔
رَاسِخْ فِی الْعِلْمکی تعریف:
رَاسِخْ فِی الْعِلْم وہ عالم ہے جس کا علم اس کے دل میں اتر گیا ہو جیسے مضبوط درخت وہ ہے جس کی جڑیں زمین میں جگہ پکڑ چکی ہوں ، اس سے مراد خوش عقیدہ اور با عمل علماء ہیں۔ اس سے معلو م ہوا کہ عالمِ باعمل کا ثواب دوسروں سے زیادہ ہے کیونکہ با عمل عالم خود بھی نیک ہے اور وہ دوسروں کو بھی نیک بنا دیتا ہے۔ چاہیے کہ عالم کا عمل سنتِ نَبَوِی کا نمونہ ہو اور اس کی ہر ادا تبلیغ کرے۔ اس سے اشارۃً یہ بھی معلوم ہوا کہ بے دین یا بے عمل عالم کا عذاب بھی دوسروں سے زیادہ ہے کیونکہ وہ گمراہ بھی ہے اور گمراہ کُن بھی او ر اس کی بد عملی دوسروں کو بھی بد عمل بنا دے گی۔
{اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ:بیشک ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی۔} اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا تھا کہ اُن کے لئے آسمان سے یکبارگی کتاب نازل کی جائے تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت پر ایمان لے آئیں گے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ان پر حجت قائم کی گئی کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے سوا بکثرت انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہیں جن میں سے گیارہ کے اَسماء شریفہ یہاں آیت میں بیان فرمائے گئے ہیں ، اہلِ کتاب اُن سب کی نبوت کو مانتے ہیں ، توجب اس وجہ سے ان میں سے متعدد کی نبوت تسلیم کرنے میں اہلِ کتاب کو کچھ پس و پیش نہ ہوا تو امامُ الانبیاء، سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت تسلیم کرنے میں کیا عذر ہے؟ نیز رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھیجنے کا مقصد مخلوق کی ہدایت اور ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید ومعرفت کا درس دینا اور ایمان کی تکمیل اور عبادت کے طریقوں کی تعلیم ہے اورکتاب کے متفرق طور پر نازل ہونے سے یہ مقصد بڑے کامل طریقے سے حاصل ہوجاتا ہے کیونکہ تھوڑا تھوڑا بہ آسانی دل نشین ہوتا چلا جاتا ہے، اس حکمت کو نہ سمجھنا اور اعتراض کرنا کمال درجے کی حماقت ہے۔سُبْحَانَ اللہ! کیسا دل نشین اور پیارا جواب ہے۔
{وَ رُسُلًا: اور بہت سے رسول۔} ارشاد فرمایا گیا کہ بہت سے رسول وہ ہیں جن کا قرآن شریف میں نام لے کر ذکر ہوچکا اور بہت سے وہ ہیں جن کا اب تک ان کے ناموں کی تفصیل کے ساتھ قرآنِ پاک میں ذکر نہیں فرمایا گیا۔ ان سب رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں وہ کتنے ہیں جن پر یکبارگی کتاب اتری۔ تو جب سب نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یکبارگی کتاب نہیں اتری تو نبی ِآخر الزّمانصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر یکبارگی کتاب نہ اترنا یہودیوں کیلئے کیوں باعث ِ اعتراض بنا ہوا ہے؟
{وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًا: اور اللہ نے موسیٰ سے کلام فرمایا۔} یہ بھی یہودیوں کے اعتراض کے جواب کا حصہ ہے کہجس طرح حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے بے واسطہ کلام فرمانا دوسرے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کیلئے انکار کا ذریعہ نہیں ہوسکتا جن سے اس طرح کلام نہیں فرمایا گیا توایسے ہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر کتاب کا یکبارگی نازل ہونا بھی دوسرے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کے انکار کا ذریعہ نہیں ہوسکتا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶۴، ۱ / ۴۵۲)
آیت کے اس حصے سے دو مسئلے معلوم ہوئے :ایک یہ کہ حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممیں بہت شان والے ہیں کہ ان کا ذکر خصوصیت سے علیحدہ ہوا۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خاص عظمتیں بخشی ہیں ، ایک نبی کی خصوصیت تمام نبیوں میں ڈھونڈنا غلطی ہے جیسے ہر نبی کَلِیْمُ اللہ نہیں۔
{رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ: رسول بھیجے خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے۔} رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تشریف آوری کا مقصد نیک اعمال پر ثواب کی بشارت اور برے اعمال پرعذاب سے ڈرانا ہے اور ایک حکمت یہ ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تشریف آوری کے بعد لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے کہ اگر ہمارے پاس رسول آتے تو ہم ضرور ان کا حکم مانتے اوراللہ عَزَّوَجَلَّکے مطیع و فرمانبردار ہوتے۔ اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہتعالیٰ رسولوں کی بعثت سے پہلے مخلوق پر عذاب نہیں فرماتا جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا(۱۵)(بنی اسرائیل:۱۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔
{لٰكِنِ اللّٰهُ یَشْهَدُ: لیکن اللہ گواہی دیتا ہے۔} اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں دو طرح کے اقوال ہیں ، ان کا خلاصہ یہ ہے
(1)… مَشْہُودْ لَہٗ یعنی جس کے حق میں گواہی دی جارہی ہے وہ قرآنِ پاک ہے کیونکہ یہودیوں نے آسمان سے یکبارگی کتاب اتارنے کا مطالبہ کیا تھا ۔(النساء ،آیت ۱۵۳)
اس آیت میں ان کے مطالبے کا جواب ہے۔ اس صورت میں مفہوم یہ بنتا ہے کہ یہودی اگرچہ قرآن کے آسمانی کتاب ہونے کو نہ مانیں لیکن اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کی طرف اترنے والے قرآن کی حقانیت کی گواہی دیتا ہے اور اس کے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نازل ہونے کے فرشتے بھی گواہ ہیں ، اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی گواہی کافی ہے۔
(2)… دوسرا مفہوم یہ ہے کہ مَشْہُودْ لَہٗ یعنی جس کے حق میں گواہی ہے وہ خاتَمُ الْمُرْسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت ہے اور جس کے ذریعے گواہی دی جارہی ہے وہ قرآنِ پاک ہے اور معنیٰ یہ بنا کہ یہودیوں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی گواہی قرآن کے ذریعے دی اور فرشتے بھی نبوت پر گواہ ہوئے۔(تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶۶، ۴ / ۲۶۸-۲۶۹، صاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۶۶، ۲ / ۴۶۰، ملتقطاً)
اللہ عَزَّوَجَلَّکی گواہی یہ ہے کہ اس نے گزشتہ کتابوں میں سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خبر دی اور سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معجزات عطا فرمائے جیسے وزیر یا حاکم کا شاہی تمغہ بادشاہ کی گواہی ہے۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: بیشک جنہوں نے کفر کیا۔} یہاں یہودیوں کی حالت کا بیان ہے کہ انہوں نے نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کیا اورحضور تاجدارِ انبیاءصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت وصفت چھپا کر اور لوگوں کے دلوں میں شبہ ڈال کر لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ سے روکا، بے شک وہ ان حرکتوں کی وجہ سے دور کی گمراہی میں جا پڑے کیونکہ ان میں گمراہ ہونا اور گمراہ کرنا دونوں چیزیں جمع ہو گئیں۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: بیشک جنہوں نے کفر کیا۔} یہاں بھی یہودیوں کا بیان ہے کہ انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّکے ساتھ کفر اور کتابِ الٰہی یعنی تورات میں موجود سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اوصاف بدل کر اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرکے ظلم کیا تو ایسے لوگ جب تک اپنے کفر پر قائم رہیں اور کفر پر مریں ان کی بخشش کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ انہیں کسی صحیح راہ کی ہدایت ملے گی البتہ جہنم کا راستہ ان کیلئے ضرور کھلا ہواہے اور وہ بالکل واضح ہوگا۔
{قَدْ جَآءَكُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ: بیشک تمہارے پاس یہ رسول حق کے ساتھ تشریف لے آئے۔} تمام بنی نوعِ انسان کو عظیم خوشخبری سنائی جارہی ہے کہ اے لوگو! تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حق کے ساتھ تشریف لاچکے، وہ خود بھی حق ہیں اور ان کا ہر قول ، ہر ادا حق ہے، ان کی شریعت حق ہے، ان کی طبیعت حق ہے، ان کی تعلیم حق ہے، وہاں باطل کا گزر نہیں۔ لہٰذا ان پر ایمان لے آؤ، اس میں تمہارے لئے خیر ہی خیر ہے اور اگر تم خاتَمُ الْمُرْسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا انکار کروگے تو اس میں ان کا کچھ ضرر نہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے ایمان سے بے نیاز ہے۔
{یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ: اے اہلِ کتاب۔} اس سے پہلے والی آیات میں یہودیوں کی دین میں زیادتیوں اور ان کے جرائم کو بیان فرمایا، اب عیسائیوں کے دین میں غُلُوّ اور حد سے بڑھنے کے بارے میں بیان فرمایا جا رہا ہے۔
عیسائیوں کے فرقے اور ان کے عقائد:
عیسائی چار بڑے فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے (1) یعقوبیہ۔ (2) ملکانیہ۔ (3) نسطوریہ۔ (4) مرقوسیہ۔ ان میں سے ہر ایک حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں جداگانہ کفریہ عقیدہ رکھتا تھا۔ یعقوبیہ اور ملکانیہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کہتے تھے۔ نسطوریہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے جبکہ مرقوسیہ فرقے کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ تین میں سے تیسرے ہیں ، اور اس جملے کا کیا مطلب ہے اس میں بھی ان میں اختلاف تھا ، بعض تین اُقْنُوم (یعنی وجود) مانتے تھے اور کہتے تھے کہ باپ ،بیٹا، روحُ القدس تین ہیں اور باپ سے ذات، بیٹے سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورروحُ القدس سے ان میں حُلُول کرنے والی حیات مراد لیتے تھے گویا کہ اُن کے نزدیک اِلٰہ تین تھے اور اس تین کو ایک بتاتے تھے۔ بعض کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ناسُوتِیَّت (یعنی انسانیت) اور الُوہیت کے جامع ہیں ، ماں کی طرف سے اُن میں ناسوتیت آئی اور باپ کی طرف سے الوہیت آئی ’’تَعَالَی اللہُ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا‘‘ (اللہ تعالیٰ ظالموں کی بات سے پاک ہے اور بہت ہی بلندو بالاہے)یہ فرقہ بندی عیسائیوں میں ایک یہودی نے پیدا کی جس کا نام بَوْلَسْ تھا ، اُس نے اُنہیں گمراہ کرنے کے لیے اس طرح کے عقیدوں کی تعلیم دی۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۷۱، ۱ / ۴۵۴)
اس آیت میں اہلِ کتاب کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں افراط وتفریط سے باز رہیں ، انہیں خدا اور خدا کا بیٹا بھی نہ کہیں اور حلول و اِتّحاد کے عیب لگا کر ان کی تَنقیص بھی نہ کریں ، بلکہ ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت مریم رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کے بیٹے ہیں ،ان کے لیے اس کے سوا اورکوئی نسب نہیں ، صرف اللہ تعالیٰ کے رسول اور اس کا ایک کلمہ ہیں جو رب تعالیٰ نے حضرت مریم رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کی طرف بھیجا اور اللہتعالیٰ کی طرف سے ایک خاص روح ہیں۔ لہٰذا ا نہیں چاہئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسولوں پرایمان لائیں اور تصدیق کریں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایک ہے، بیٹے اور اولاد سے پاک ہے اور اس کے رسولوں کی تصدیق کریں اور اس کی کہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّکے رسولوں میں سے ہیں۔
{وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ:اور نہ کہو (کہ معبود) تین ہیں۔}بعض عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے، بعض انہیں تیسرا خدا مانتے تھے اور بعض انہیں کو خدا مانتے تھے، ان تینوں فرقوں کی تردید کے لئے یہ آیتِ کریمہ اتری۔ لفظ ’’اللہُ‘‘ میں ایک فرقے کی تردید ہے۔’’وَاحِدٌ ‘‘میں دوسرے کی اور’’سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ‘‘ میں تیسرے کی۔ عقل مند انسان خود ہی غور کر لے آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے،جتنے انسان ہیں سب اسی کے بندے اور مملوک ہیں انہی میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت مریم رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا بھی داخل ہیں اور جب یہ بھی بندے اور مملوک ہیں تو ان کا بیٹا اور بیوی ہونا کیسے مُتَصَوَّر ہو سکتا ہے؟ بلا شُبہ اللہ تعالیٰ ان سب بیہودہ باتوں سے پاک اور مُنَزّہ ہے۔
{لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ:مسیح اللہ کا بندہ بننے سے ہر گز عار نہیں کرتا ۔} نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا: آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو عیب لگاتے ہیں کہ انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ َ کا بندہ کہتے ہیں۔ اس پر یہ آیت اتری(بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ۲ / ۲۸۴)
جس میں فرمایا گیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بندہ ہونا باعثِ فخر ہے نہ کہ باعثِ شرم۔ نیز اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت سے نفرت کرنا اور اس میں شرم محسوس کرنا کافر کا کام ہے مسلمان کا نہیں۔
{فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: تو جو ایمان والے ہیں۔} یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندگی کو اپنا اعزاز اوراپنے سر کا تاج سمجھنے والوں یعنی مومنین صالحین کو بشارت اوراللہ عَزَّوَجَلَّکی بندگی سے نفرت و تکبر کرنے والوں کو وعید بیان کی گئی ہے۔ پہلے گروہ کو بھر پور اجر ملے گا اور اس کے ساتھ ان پرفضل الٰہی کی مزید بارش برسے گی جس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا دیدار بھی شامل ہے۔ اس کے برعکس عبادت ِ الٰہی کے منکروں اور اس سے تکبر کرنے والوں کو دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔
{ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ: اے لوگو!۔} یہاں تمام انسانوں سے خطاب ہے ، وہ کہیں کے ہوں اورکبھی بھی ہوں۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شان کا بیان:
اس سے معلوم ہوا کہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کسی زمانے، کسی جگہ اور کسی قوم کے ساتھ خاص نہیں۔ عام اعلان فرما دیا گیا، اے لوگو! تمہارے پاس وہ تشریف لائے جو سرتاپا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی معرفت کی دلیل ہیں جن کی صداقت پر اُن کے معجزے گواہ ہیں اور وہ منکرین کی عقلوں کو حیران کر دیتے ہیں۔ جس قدر معجزے پہلے پیغمبروں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ملے ان سے زائد حضور سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا ہوئے ۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ از سر تا قدمِ پاک خود اللہ تعالیٰ کی وَحدانِیَّت اور ذات وصِفات کی دلیل ہیں چنانچہ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا بال شریف معجزہ کہ حضرت خالد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ٹوپی میں رہا تو ان کو ہمیشہ دشمنوں پر فتح ہوتی رہی۔ ہرقل کی پگڑی میں رہا تو اس کے سر کے درد کو آرام رہا۔ حضرت سیدنا عمرو بن عاص رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے کفن میں تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بال شریف رکھ دئیے جائیں تاکہ قبر کی مشکل آسان ہو۔ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے وصیت فرمائی کہ مجھے غسل دے کر میری آنکھوں اور لَبوں پر سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ناخن اور بال شریف رکھ دئیے جائیں تاکہ حسابِ قبر میں آسانی ہو ۔ معلوم ہو اکہ بال مبارک قبر کی مشکل آسان کرتے ہیں۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بیماروں کو بال مبارک کا غسل شدہ پانی پلایا کرتے تھے۔ حضرت طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے گھر ایک بار بال مبارک پہنچ گئے تو انہوں نے ساری رات ملائکہ کی تسبیح و تَہلیل سنی۔
سوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہو جائے چھائے رحمت کی گھٹا بن کے تمہارے گیسو
ہم سیہ کاروں پہ یا رب تپشِ محشر میں سایہ اَفگن ہوں ترے پیارے کے پیارے گیسو
آنکھ شریف کا معجزہ کہ قیامت تک کے واقعات کو دیکھا، جنت و دوزخ، عرش و کرسی کو ملاحظہ فرمایا، بلکہ خود رب عَزَّوَجَلَّکو دیکھا۔ نمازِ کُسوف میں جنت و دوزخ کو مسجد کی دیوار میں دیکھا۔ پیچھے مقتدی جو کچھ کریں ا س کو ملاحظہ فرما دیں۔ ناک مبارک کا معجزہ کہ جس نے محبت کی خوشبو یمن سے آتی ہوئی سونگھی۔ زبان کامعجزہ کہ جن کی ہر بات وحیِ خدا اور وہ زبان جو کہ کُن کی کُنجی ہے۔ منہ کا لُعاب معجزہ کہ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر ہانڈی میں ڈال دیا تو ہانڈی کی ترکاری میں برکت ہوئی۔ آٹے میں ڈال دیا تو چار سیر آٹا ہزاروں آدمیوں نے کھایا پھر بھی اُتنا ہی رہا۔ خیبر میں حضر ت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی دکھتی آنکھ میں لگا دیا تو آنکھ کو آرام ہو گیا۔ حضرت صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے پاؤں میں غار میں سانپ نے کاٹا اس پر لگا دیا تواس کو آرام۔ کھاری کنویں میں ڈال دیا تو اس کا پانی میٹھا ہو گیا۔ ہاتھ مبارک بھی دلیل کہ بدر کے دن ایک مٹھی کنکر کفار کو مارے تورب تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ آپ نے نہ پھینکے بلکہ ہم نے پھینکے۔ اسی ہاتھ میں آ کر کنکروں نے کلمہ شریف پڑھا۔ اس ہاتھ سے بیعت لی گئی تو رب عَزَّوَجَلَّنے فرمایا کہ’’ ان کے ہاتھوں پر ہمارا ہاتھ ہے۔ انگلیاں معجزہ کہ ایک پیالہ پانی میں انگلیاں رکھ دیں ، اس سے پانی کے چشمے جاری ہو گئے۔ انگلی ہی کے اشارے سے چاند چیر دیا۔
پاؤں مبار ک بھی معجزہ کہ پتھر پر چلیں تو پتھر ان کا اثر لے لے اور فرش پر بھی چلیں اور عرش پر بھی ۔ غرض کہ ان کا ہر ہر عُضْوِ پاک اور ہر ہر بال مبارک رب عَزَّوَجَلَّکے پہچاننے کی دلیل ہے۔ پسینہ مبارک معجزہ کہ جس میں گلاب کی بے مثل خوشبو۔ جاگنا اور سونا معجزہ کہ ہر ایک کی نیند وضو توڑ دے مگرسرکارِ عالی وقارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نیند وضو نہیں توڑتی۔ تمام جسم پاک سایہ سے محفوظ کہ سایہ بھی کسی کے قدم کے نیچے نہ آئے غرض کہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ہر وصف معجزہ اورہر حالت رب تعالیٰ کی قدرت کی دلیل ہے ۔
{وَ اَنْزَلْنَاۤ
اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا:اور ہم نے تمہاری طرف روشن
نورنازل کیا۔} روشن نور سے مراد قرآنِ پاک ہے جو حضور ِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ذریعے ہمیں ملا۔
{فَسَیُدْخِلُهُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍ: تو عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا۔} ایمان والوں کو رحمت، فضل اور سیدھے راستے کی بشارت عطا فرمائی گئی ہے۔ رحمت جنت ہے اور فضل جنت میں کرم بالائے کرم والے اُمور ہیں اور سیدھا راستہ دین اسلام ہے جو سیدھا قرب ِ الٰہی تک لیجاتا ہے۔
{یَسْتَفْتُوْنَكَ: تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں۔} آیتِ مبارکہ میں کَلَالَہ کی وراثت کا بیان کیا گیا ہے۔ کَلَالَہ اس کو کہتے ہیں جو اپنے بعد نہ باپ چھوڑے، نہ اولاد۔ اس آیت کے شانِ نزول کے متعلق بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیمار تھے تو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ ان کی عیاد ت کے لئے تشریف لائے، حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بے ہوش تھے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وضو فرما کراس کا پانی اُن پر ڈالا توانہیں اِفاقہ ہوا (آنکھ کھول کر دیکھا تونبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف فرما تھے)۔ عرض کیا، یارسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں اپنے مال کا کیا انتظام کروں ؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(بخاری، کتاب الفرائض، باب قول اللہ تعالی: یوصیکم اللہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۱۲، الحدیث: ۶۷۲۳، مسلم، کتاب الفرائض، باب میراث الکلالۃ، ص۸۷۲، الحدیث: ۵(۱۶۱۶))
ابوداؤد کی روایت میں یہ بھی ہے کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا، اے جابر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، میرے علم میں تمہاری موت اس بیماری سے نہیں ہے۔(ابو داؤد، کتاب الفرائض، باب من کان لیس لہ ولد ولہ اخوات، ۳ / ۱۶۵، الحدیث: ۲۸۸۷)
اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے۔
(1)… بزرگوں کا وضو کا پانی تبرک ہے اور اس کو حصولِ شفا کے لئے استعمال کرنا سنت ہے۔
(2)… مریضوں کی عیادت سنت ہے۔
(3)…نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ نے عُلومِ غیب عطا فرمائے ہیں اس لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو معلوم تھا کہ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی موت اس مرض میں نہیں ہے۔
کلالہ کی وراثت کے احکام:
آیت میں جو مسائل بیان ہوئے ان کا خلاصہ و وضاحت یہ ہے:
(1)…اگر کوئی شخص فوت ہو اور اس کے ورثاء میں باپ اور اولاد نہ ہو تو سگی اور باپ شریک بہن کو وراثت سے مال کا آدھا حصہ ملے گاجبکہ صرف ایک ہو اور اگر دو یا دو سے زیادہ ہوں تو دو تہائی حصہ ملے گا۔
(2)…اور اگر بہن فوت ہوئی اور ورثاء میں نہ باپ ہو نہ اولاد تو بھائی اُس کے کل مال کا وارث ہوگا۔
(3)…اگر فوت ہونے والے نے بہن بھائی دونوں چھوڑے تو بھائی کو بہن سے دگنا حصہ ملے گا۔
اہم تنبیہ: وراثت کے مسائل میں بہت وسعت اور قُیود ہوتی ہیں۔ آیت میں جو صورتیں موجود تھیں ان کو بیان کردیا لیکن اگر وراثت کا کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بغیر کسی ماہرِ میراث عالم کے خود حل نہ نکالیں۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan