Surah Aal Imraan
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{الٓمَّٓ:}ان حروف کو’’حروفِ مُقَطَّعات ‘‘ کہتے ہیں ،ان کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ:اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔} مفسرین نے فرمایا کہ’’یہ آیت نجران نامی علاقے کے وفد کے متعلق نازل ہوئی جو ساٹھ افراد پر مشتمل تھا، اس میں چودہ سردار تھے اور تین قوم کے بڑے مقتدا و پیشوا آدمی تھے۔ ان تین میں سے ایک ’’ابو حارثہ بن علقمہ‘‘ تھا جو عیسائیوں کے تمام علماء اور پادریوں کا پیشوا ئے اعظم تھا، عیسائی حکمران بھی اس کی عزت کرتے تھے۔ یہ تمام لوگ عمدہ اور قیمتی لباس پہن کر بڑی شان وشوکت سے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے مناظرہ کرنے کے ارادے سے آئے۔ جب یہ مسجد نبوی شریف عَلٰی صَاحِبَہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں داخل ہوئے توحضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اس وقت نماز عصر ادا فرمارہے تھے۔ ان لوگوں کی نماز کا وقت بھی آگیا اور انہوں نے بھی مسجد نبوی شریف عَلٰی صَاحِبَہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی میں مشرق یعنی بیتُ المقدس کی طرف منہ کرکے اپنی نماز شروع کردی۔ نماز کے بعدنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے گفتگو شروع کی ۔ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا :’’تم اسلام لے آؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ’’ ہم آپ سے پہلے اسلام لاچکے ہیں۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’ تمہارا اسلام کا دعویٰ غلط ہے اور تمہارے اسلام کے غلط ہونے کا سبب یہ ہے کہ تم کہتے ہو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اولاد ہے، نیز تمہارا صلیب کی پوجا کرنا بھی اسلام سے مانع ہے اور تمہارا خنزیر کھانا بھی اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ’’اگر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خدا کے بیٹے نہ ہوں تو بتائیے ان کا باپ کون ہے؟ پھر وہ سب بولنے لگے۔ حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’کیا تم نہیں جانتے کہ بیٹا باپ سے ضرور مشابہ یعنی ملتا جلتا ہوتا ہے؟ انہوں نے اقرار کیا۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ’’حَیٌّ لَایَمُوْتُ‘‘ہے، اس کے لیے موت ناممکن ہے اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر موت آنے والی ہے؟ انہوں نے اس کا بھی اقرار کیا ۔ پھر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ کیا تم نہیں جانتے کہ ہمار ارب عَزَّوَجَلَّ بندوں کا کار ساز، ان کی حقیقی حفاظت کرنے والا اور روزی دینے والا ہے؟ انہوں نے کہا :جی ہاں۔ اس پرنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ کیا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی ایسے ہی ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا ’’نہیں۔ اس پر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ پر آسمان و زمین کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ؟ انہوں نے اقرار کیا۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’کیا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بتائے بغیر اس میں سے کچھ جانتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’ کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامحمل میں رہے اور پیدا ہونے والوں کی طرح پیدا ہوئے اور بچوں کی طرح انہیں غذا دی گئی اور وہ کھاتے پیتے تھے اور ان میں بھی بشری تقاضے تھے؟ عیسائیوں نے اس کا اقرار کیا۔ اس گفتگو پر حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ ان تمام چیزوں کے باوجود پھر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیسے خدا ہوسکتے ہیں جیسا کہ تمہارا گمان ہے ؟ اس پر وہ سب خاموش رہ گئے اور ان سے کوئی جواب نہ بن سکا۔ اس پر سورہ ٔآلِ عمران کی شروع سے لے کر تقریباً اسّی 80آیتیں نازل ہوئیں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۲۲۸)
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ صحیح عقائد کو ثابت کرنے اور ان کے دفاع کیلئے مناظرہ کرنا سنت ہے۔
’’حَیٌّ ‘‘ اور’’قَیُّوْم ‘‘ کا معنی:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات ’’حَیٌّ ‘‘ اور’’قَیُّوْم ‘‘ کا بیان ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں ’’حَیٌّ ‘‘ ’’دائم و باقی‘‘ کے معنیٰ میں ہے ،یعنی اس کا معنیٰ ہے کہ’’ ایسا ہمیشہ رہنے والا جس کی موت ممکن نہ ہو ۔ جبکہ’’قَیُّوْم ‘‘ وہ ہے جو قائم بِالذّات یعنی بغیر کسی دوسرے کی محتاجی اور تَصَرُّف کے خود قائم ہو اور مخلوق کی دنیااور آخرت کی زندگی کی حاجتوں کی تدبیر فرمائے۔
{مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ: اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔} اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک کے بعد کوئی کتاب آنے والی نہیں اور نہ کوئی نیا نبی تشریف لانے والا ہے کیونکہ قرآن مجید نے گزشتہ کتابوں کی تصدیق کی ہے، بعد میں نہ کسی کتاب کے آنے کا تذکرہ کیا اور نہ اس کی بشارت دی جبکہ قرآن پاک کو چونکہ تورات و انجیل کے بعد آنا تھا اس لئے ان کتابوں میں قرآن کی بشارت پہلے سے دیدی گئی۔
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یَخْفٰى عَلَیْهِ شَیْءٌ:بیشک اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔} آسمان و زمین کی ہر چیز، ہر وقت، تمام تر تفصیلات کے ساتھ بغیر کسی کی تعلیم و خبر کے جاننا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے ،یہ وصف کسی بندے میں نہیں ، کیونکہ مخلوق کو جو علم ہے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے بتانے سے ہے اور وہ بھی مُتَناہی اور قابلِ فناہے، یعنی اس کی کوئی نہ کوئی انتہاء ہے اور وہ ختم بھی ہوسکتا ہے ، نیز وہ تب سے ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے بتایا اور تب تک ہے جب تک اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے۔ ایسے علم کو علمِ عطائی کہتے ہیں ، جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامکے متعلق ارشاد فرمایا:
’’وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ‘‘ (انعام:۷۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ہم یونہی ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھاتے ہیں۔
اس آیت میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو مشاہدہ ِ ارض و سَماء کے ذریعے علم عطا کئے جانے کاذکر ہے۔
{هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُكُمْ فِی الْاَرْحَامِ: وہی ہے جوماؤں کے پیٹوں میں تمہاری صورت بناتا ہے ۔} ایک بے قدر چیز کو انسانی شکل میں ڈھال دینا، اسے مرد یا عورت، گورا یا کالا، خوب صورت یا بدصورت بنانا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہے۔ ماں کے پیٹ میں بچے کی شکل بنانا، اس میں روح پھونکنا، اس کی تقدیر لکھنا یہ سب کچھ فرشتہ کرتا ہے لیکن فرشتہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اختیار سے کرتا ہے لہٰذا فرمایا کہ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے جو ماؤں کے پیٹوں میں تمہاری صورتیں بناتا ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تم میں سے ہر ایک کی خِلْقَت اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع رکھی جاتی ہے، پھر وہ خون کے لوتھڑے کی صورت ہو جاتا ہے، پھر گوشت کی بوٹی کی طرح ہو جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جسے چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل ،رزق، دنیا میں رہنے کی مدت اور بد بخت یا سعادت مند ہونا لکھو۔ پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۱، الحدیث: ۳۲۰۸)
{اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ: صاف معنیٰ رکھنے والی آیتیں۔} قرآن پاک میں دو طرح کی آیات ہیں :
(1)… مُحْکَمْ، یعنی جن کے معانی میں کوئی اِشْتِبَاہ نہیں بلکہ قرآن سمجھنے کی اَہلیت رکھنے والے کو آسانی سے سمجھ آجاتے ہیں۔
(2)… مُتَشَابِہْ، یعنی وہ آیات جن کے ظاہری معنیٰ یا تو سمجھ ہی نہیں آتے جیسے حروفِ مقطعات ،یعنی بعض سورتوں کے شروع میں آنے والے حروف جیسے سورۂ بقرہ کے شروع میں ’’الٓمّٓ‘‘ہے اور یا متشابہ وہ ہے جس کے ظاہری معنیٰ سمجھ تو آتےہیں لیکن وہ مراد نہیں ہوتے جیسے اللہ تعالیٰ کے ’’یَدْ‘‘یعنی ’’ہاتھ‘‘ اور ’’وَجْہٌ‘‘یعنی ’’چہرے ‘‘ والی آیات ۔ ان کے ظاہری معنیٰ معلوم تو ہیں لیکن یہ مراد نہیں ، جبکہ ان کے حقیقی مرادی معنیٰ میں کئی احتمال ہوسکتے ہیں اور ان میں سے کون سا معنیٰ اللہ تعالیٰ کی مراد ہے یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے یا وہ جسے اللہ تعالیٰ اس کاعلم دے۔پہلی قسم یعنی مُحْکَمْ کے بارے میں فرمایا کہ’’ یہ کتاب کی اصل ہیں ، یعنی احکام شرعیہ میں ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور حلال و حرام میں انہیں پر عمل کیا جاتا ہے ۔
{اَلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ: وہ لوگ جن کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہے۔} یہاں سے دو گروہوں کا تذکرہ ہے ۔ پہلا گروہ گمراہ اور بدمذہب لوگوں کا ہے جو اپنی خواہشاتِ نفسانی کے پابند ہیں اور متشابہ آیات کے ظاہری معنٰی لیتے ہیں جو کہ صریح گمراہی بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہوتا ہے یا ایسے لوگ متشابہ آیات کی غلط تاویل کرتے ہیں۔ دوسرا گروہ سچے مومنوں کا ہے جو متشابہ آیات کے معانی کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ محکم و متشابہ سارے کا سارا قرآن ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جو معنی متشابہ کی مراد ہیں وہ حق ہیں اوراس کا نازل فرمانا حکمت ہے۔
کسی کومتشابہات کا علم عطا ہوا یا نہیں :
اللہ تعالیٰ کسی کو متشابہات کا علم عطا فرماتا ہے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں محققین علماء نے فرمایا ہے کہ’’ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شان اس سے اَرفَع و اعلیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی اس کا علم عطا نہ فرمائے بلکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صدقے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُمت کے اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْکو بھی اس کا علم ملتا ہے۔
{وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ: اور علم میں پختہ لوگ۔} حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رَاسِخْ فِی الْعِلْم وہ عالمِ باعمل ہے جو اپنے علم کی پیروی کرنے والا ہو۔ مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ رَاسِخْ فِی الْعِلْموہ ہیں جن میں یہ چار صفتیں ہوں : (1) اللہ عَزَّوَجَلَّکا تقویٰ، (2) لوگوں کے ساتھ تواضع، (3) دنیا سے زُہد، (4) نفس سے مجاہدہ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷، ۱ / ۲۳۲)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے تھے کہ’’ میں رَاسِخِینْ فِی الْعِلْم سے ہوں اور حضرت مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی فرمایا کہ’’ میں ان میں سے ہوں جو متشابہ کی تاویل جانتے ہیں۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۱۵، الجزء الرابع)
{اُولُوا الْاَلْبَابِ: عقل والے ۔} ارشاد فرمایا کہ’’ عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عقل بہت بڑی فضیلت اور خوبی ہے، عقل کے ذریعے ہدایت و نصیحت ملتی ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ جس عقل سے ہدایت نہ ملے وہ بدترین حماقت ہے، جیسے طاقت اچھی چیز ہے لیکن جو طاقت ظلم کیلئے استعمال ہو وہ کمزوری سے بھی بدتر ہے۔
{رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا: اے ہمارے رب !ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر۔} ہدایت ملنا بہت بڑی چیز ہے لیکن اس کا فائدہ تبھی ہے جب یہ باقی بھی رہے۔ اگر ساری زندگی کوئی ہدایت پر رہے لیکن مرتے وقت ہدایت چھن جائے تو ایسی ہدایت کا کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیمِ‘‘ اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے۔(بخاری، کتاب القدر، باب العمل بالخواتیم، ۴ / ۲۷۴، الحدیث: ۶۶۰۷)
اسی لئے بڑے سے بڑا مومن بھی اپنے خاتمے کے بارے میں خوف کرتا رہے اور لمحہ بھر کے لئے بھی برے خاتمے سے بے خوف نہ ہو۔ اِس آیتِ مبارکہ کا بکثرت پڑھتے رہنا یعنی یہ دعا مانگتے رہنا بھی خاتمہ بالخیر کیلئے مفید ہے۔[1]
[1] ۔۔۔۔ خاتمہ بالخیر کی فکر اجاگر کرنے کے لئے امیرِ اہلِسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رسالے ،، برے خاتمے کے اسباب،، کا مطالعہ کیجئے۔
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ: بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔} اللہ تعالیٰ جھوٹ سے پاک ہے لہٰذا وہ وعدہ خلافی نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ بولنے کی نسبت قطعی کفر ہے اور یہ کہنا کہ’’ جھوٹ بول سکتا ہے‘‘ یہ بھی کفر ہے۔ تفصیل کیلئے فتاوی رضویہ کی 15ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت ، امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ کی کتاب ’’سُبْحٰنُ السُّبُوْحْ عَنْ کِذْبِ عَیْبٍ مَقْبُوْحٍ‘‘(جھوٹ جیسے بد ترین عیب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاک ہونے کا بیان ) اور ’’دَامَانِ بَاغِ سُبْحٰنُ السُّبُوْح‘‘(رسالہ سُبْحٰنُ السُّبُّوح کے باغ کا دامن)کا مطالعہ فرمائیں۔
{ كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَۙ-وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: جیسا فرعون کے ماننے والوں اور ان سے پہلے لوگوں کا طریقہ تھا۔} یعنی نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے زمانے کے کافروں کا طریقہ ویسا ہی ہے جیسا فرعون کے ماننے والوں اور ان سے پہلے لوگوں کا طریقہ تھا کہ انہوں نے بھی ہماری آیتوں کو جھٹلایااور اِن کافروں نے بھی ہماری آیات کو جھٹلایا، تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے گناہوں پر انہیں پکڑلیا اسی طرح اِ ن کے گناہوں پر اِن کی بھی پکڑ فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو جھٹلانے والوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب بڑا سخت ہے۔
{سَتُغْلَبُوْنَ: عنقریب تم مغلوب ہوجاؤگے۔ }حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ جب بدر میں کفار کو رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ شکست دے کر مدینہ طیبہ واپس تشریف لائے تو یہودیوں نے کہا کہ’’ قریش تو فُنونِ حَرب (جنگی طریقوں ) سے نا آشنا ہیں ، (اسی لئے شکست کھا گئے۔) اگر ہم سے مقابلہ ہوا تو معلوم ہوجائے گا کہ لڑنے والے کیسے ہوتے ہیں۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی (در منثور، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۱۵۸)
اور انہیں یہ غیبی خبر دی گئی کہ’’ وہ دنیا میں مغلوب ہوں گے، قتل کئے جائیں گے ،گرفتار کئے جائیں گے اور ان پر جِزیَہ مقرر کیا جائے گا اور آخرت میں دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کچھ ہی عرصے میں یہودی قتل بھی ہوئے، گرفتار بھی کئے گئے اور اہلِ خبیر پر جزیہ بھی مقرر کیا گیا اور قیامت کے دن انہیں جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔
{قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ: بیشک تمہارے لئے بڑی نشانی ہے۔} یہ آیت غزوۂ بدرکے متعلق نازل ہوئی اور اس میں یہودیوں یا تمام کافروں یا مسلمانوں یا مذکورہ بالا سب کو خطاب ہے کیونکہ غزوۂ بدر میں مسلمانوں اور کافروں سب کیلئے عبرت و نصیحت تھی۔ غزوہ بدر 17رمضان 2ہجری بروز جمعہ ہوا۔ اس میں کفار تقریباً ایک ہزار تھے اور ان کے ساتھ بہت زیادہ سامان جنگ تھاجبکہ مسلمان تین سو تیرہ (313) تھے اور ان میں سے بھی اکثر نہتے تھے، مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے، چھ زرہیں ، آٹھ تلواریں اور ستر اونٹ تھے۔(جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱ / ۳۷۶) اس کے باوجود مسلمانوں کو کامل فتح ہوئی اور کفار کو شکستِ فاش، لہٰذا یہ فتح اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیوں میں سے بڑی نشانی ہے۔
{ یَرَوْنَهُمْ مِّثْلَیْهِمْ: وہ انہیں خود سے دگنا دیکھ رہے تھے۔}جنگِ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی کئی اعتبار سے مدد فرمائی ایک تو فرشتے نازل فرمائے ، دوسرا یہ ہوا کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی نظروں میں کافروں کو اور کافروں کی نظروں میں مسلمانوں کو کم کرکے دکھایا تاکہ مسلمانوں کا حوصلہ بڑھے اور کافر مسلمانوں کو قلیل دیکھ کر لڑائی کے لئے آگے بڑھیں اور مسلمانوں سے جنگ شروع کرنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہ کریں۔ یہ لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہوا پھر جب لڑائی شروع ہوگئی تو اِس آیت میں مذکور واقعہ رونما ہوا۔ (جمل علی الجلالین، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱ / ۳۷۷)
کہ انہوں نے ان کو دگنا دیکھا۔اِ س جملے کے کئی معنیٰ کئے گئے ہیں۔ (1) کفار نے مسلمانوں کو خود سے دگنا دیکھا یعنی مسلمانوں کی تعداد کفار کودو ہزار نظر آئی۔ (2) کفار نے مسلمانوں کو مسلمانوں کی تعداد سے دگنا دیکھا یعنی مسلمانوں کی تعداد انہیں 626نظر آئی حالانکہ وہ 313تھے ۔(3) مسلمانوں نے کفار کو خود سے دگنا دیکھا یعنی مسلمانوں کو کفارکی تعداد 626 نظر آئی حالانکہ وہ ایک ہزار تھے۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۱۵۷-۱۵۸)
بہر صورت یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تائید تھی۔ اسی پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مدد سے جس کی چاہتا ہے تائید فرماتا ہے خواہ اس کی تعداد قلیل ہی ہو اور سروسامان کی کتنی ہی کمی ہو۔
{زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ: لوگوں کے لئے ان کی خواہشات کی محبت کو آراستہ کردیا گیا۔} لوگوں کیلئے من پسند چیزوں کی محبت کو خوشنما بنادیا گیا، چنانچہ عورتوں ، بیٹوں ، مال و اولاد، سونا چاندی، کاروبار، باغات، عمدہ سواریوں اور بہترین مکانات کی محبت لوگوں کے دلوں میں رچی ہوئی ہے اور اِس آراستہ کئے جانے اوران چیزوں کی محبت پیدا کئے جانے کا مقصد یہ ہے کہ خواہش پرستوں اور خدا پرستوں کے درمیان فرق ظاہر ہوجائے ،چنانچہ سورۂ کہف ، آیت7 میں صراحت سے ارشاد فرمایا:
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(الکہف:۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک ہم نے زمین پر موجود چیزوں کو اس لئے زینت بنایا تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے۔
چنانچہ یہ چیزیں ایسی مرغوب ہوئیں کہ کافر تو بالکل ہی آخرت سے غافل ہو گئے اور کفر میں جاپڑے جبکہ دوسرے لوگ بھی انہی چیزوں کی محبتوں کے اسیر ہوگئے حالانکہ یہ تو دنیاوی زندگی گزارنے کا سامان ہے کہ اس سے کچھ عرصہ نفع پہنچتا ہے پھر یہ سامانِ دنیا فنا ہوجاتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ دنیا کے سامان کو ایسے کا م میں خرچ کرے جس میں اس کی عاقبت کی درستی اور آخرت کی سعادت ہو۔یہ تمام چیزیں اگر دنیا کے لئے رکھی جائیں تو دنیا ہیں اور اگراطاعت ِ الٰہی میں ر اپنے دین کی حفاظت اوراللہ تعالیٰ کی اطاعت میں معاونت کیلئے ہوں تو یہی چیزیں قرب ِ الٰہی کا ذریعہ ہیں جیسے حضرت عثما نِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مال دنیا نہیں ، دین تھا۔ اس کے ساتھ فرمایا کہ’’ دنیا کا سامان تو محض ایک سامان ہی ہے، رغبت و محبت اور حرص و طلب کے قابل تو رضائے الٰہی کا مقام یعنی جنت ہے لہٰذا اس کی رغبت کرنی چاہیے اور اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے لئے اس آیت میں بہت اعلیٰ درس ہے ۔ ہم مسلمانوں کی اکثریت بھی انہی دنیاوی چیزوں کی محبت میں مبتلا ہے، اہلِ خانہ اور اولاد کی وجہ سے حرام کمانا، مال و دولت کو اپنا مقصودِ اصلی سمجھنا، اسی کیلئے دن رات کوشش کرنا،بینک بیلنس بڑھانا، اپنے اثاثوں میں اضافہ کرنا، بہترین لباس، عمدہ مکانات اورشاندار گاڑی ہی تقریباًہر کسی کا نَصبُ العَین اور مقصود و مطلوب ہے۔ اس آیت مبارکہ کو سامنے رکھ کر ہمیں بھی اپنی زندگی پر کچھ غور کرنا چاہیے۔ [1]
...[1]اپنی زندگی قرآن وسنّت کے احکامات کے مطابق گزارنے کے لئے امیرِ اہلِسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے عطا کردہ ،، مدنی انعامات،، پر عمل بہت مفید ہے۔
{قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ:تم فرماؤ ،کیا میں تمہیں ان چیزوں سے بہتر چیز بتادوں ؟} سُبْحَانَ اللہ! دنیا کی حقیقت بیان کرنے کے بعد کتنے دلنشین اور حسین انداز میں جنت اور رضائے الٰہی کی طرف دعوت دی جارہی ہے چنانچہ اس فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ’’ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، دنیا کی حقیقت اور فنائیت سمجھانے کے بعد تم لوگوں سے فرمادو کہ کیا میں تمہیں عورتوں ، بیٹوں ، مال و اولاد، سونا چاندی، کاروبار، باغات، عمدہ سواریوں اور بہترین مکانات سے اچھی، عمدہ اور بہتر چیز بتادوں ؟ سنو، وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے قرب کا گھر یعنی جنت ہے جس میں دودھ، شہد، شراب کی نہریں بہہ رہی ہیں ، جس میں ایسی پاکیزہ بیویاں ہوں گی جوہر قسم کے زَنانہ عوارض اور ہر ناپسند و قابلِ نفرت چیز سے پاک ہوں گی، اور اس جنت میں پرہیزگاروں کو ہمیشہ رہنا ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے جو سب سے اعلیٰ نعمت ہے۔ دعا: اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت نکال کر اپنی محبت ڈال دے، دنیا کی حرص نکال کر آخرت کی طلب داخل کر دے۔
{اَلصّٰبِرِیْنَ: صبر کرنے والے۔} دنیا کے طالبوں کا ذکر کرنے کے بعد مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کی طلب رکھنے والے مُتَّقین کا بیان کیا گیا تھا۔ یہاں ان کے کچھ اوصاف بیان کئے جارہے ہیں۔
(1)… متقی لوگ عبادت و ریاضت کے باوجود اپنی اطاعت پر ناز نہیں کرتے بلکہ اپنے مولیٰ عَزَّوَجَلَّسے گناہوں کی مغفرت اورعذاب ِ جہنم سے نجات کا سوال کرتے ہیں۔
(2)… متقی لوگ طاعتوں اور مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں نیز گناہوں سے بچنے پر ڈٹے رہتے ہیں۔
(3)… متقی لوگوں کے قول ،ارادے اورنیّتیں سب سچی ہوتی ہیں۔
(4)… متقی لوگ اللہ تعالیٰ کے سچے فرمانبردار ہوتے ہیں۔
(5)… متقی لوگ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے والے ہوتے ہیں۔
(6)… متقی لوگ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، توبہ و استغفار کرتے ہیں ، رب تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری اور مناجات کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ رات کا آخری پہر نہایت فضیلت والا ہے، یہ وقت خَلْوَت اور دعاؤں کی قبولیت کا ہے۔ حضرت لقمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے فرزند سے فرمایا تھا کہ’’ مرغ سے کم نہ رہنا کہ وہ تو سَحری کے وقت ندا کرے اور تم سوتے رہو۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۶، ۱ / ۲۳۶)
{شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ: اوراللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔} شانِ نزول: ملکِ شام کے علماء میں سے دوافراد سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب انہوں نے مدینہ طیبہ کو دیکھا تو ایک نے دوسرے سے کہا کہ’’نبیِّ آخر الزّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے شہر کی یہی صفت ہے جو اس شہر میں پائی جاتی ہے۔ پھر جب حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی صورتِ مبارکہ اور اوصاف ِ کریمہ کو تَورات کے مطابق دیکھ کر فوراً آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو پہچان لیااور عرض کیا :کیا آپ محمد ہیں ؟ تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ہاں۔ انہوں نے پھر عرض کی: کیا آپ احمد ہیں ؟ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ہاں۔ انہوں نے عرض کیا: ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایک سوال کریں گے، اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے درست جواب دیدیا تو ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئیں گے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’سوال کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ’’ کتابُ اللہ میں سب سے بڑی شہادت کون سی ہے؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اِسے سن کر وہ دونوں شامی علماء مسلمان ہوگئے۔(جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸، ۱ / ۳۸۳)
اس آیت میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اور اہلِ علم یعنی انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْنے گواہی دی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ علم بڑی عزت والے ہیں کہ ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ نے انہیں اپنی توحید کا گواہ اپنے ساتھ بنایا،لیکن علماء دین سے مراد علماء ربانی ہیں یعنی صحیحُ العقیدہ اور صالحین علماء ۔ علماء ربانی وہ ہیں جو خود اللہ عَزَّوَجَلَّ والے ہیں اور لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ والا بناتے ہیں ، جن کی صحبت سے خدا عَزَّوَجَلَّکی کامل محبت نصیب ہوتی ہے، جس عالم کی صحبت سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف اورحضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی محبت میں کمی آئے وہ عالم نہیں ، ظالم ہے۔
{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ: بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔} ہر نبی کا دین اسلام ہی تھا لہٰذا اسلام کے سوا کوئی اور دین بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مقبول نہیں لیکن اب اسلام سے مراد وہ دین ہے جو حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَلائے، چونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کیلئے رسول بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو آخری نبی بنایا، تو اب اگر کوئی کسی دوسرے آسمانی دین کی پیروی کرتا بھی ہو لیکن چونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اِس قطعی اور حَتمی دین اور نبی کو مکمل طور پر نہیں مان رہا لہٰذااس کا آسمانی دین پر عمل بھی مردود ہے۔ یہود و نصاریٰ وغیرہ کفار جو اپنے دین کو افضل و مقبول کہتے ہیں اس آیت میں ان کے دعویٰ کو باطل فرمایا گیا ہے۔
{وَ مَا اخْتَلَفَ: اور انہوں نے اختلاف نہ کیا۔} یہ آیت یہود و نصاریٰ کے بارے میں اتری جنہوں نے اسلام کو چھوڑا اور سیدُالانبیاء ،محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت میں اختلاف کیا اور یہ اختلاف بھی علم کے بعد کیا کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں سیدِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت دیکھ چکے تھے اور انہوں نے پہچان لیا تھا کہ یہی وہ نبی ہیں جن کی کتبِ الٰہیہ میں خبریں دی گئی ہیں ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ماننے سے انکار کیا اور اس انکار و اختلاف کا سبب ان کا حسد اور دنیاوی منافع کی طمع تھی۔
{فَاِنْ حَآجُّوْكَ: پھر اگر وہ تم سے جھگڑا کریں۔} دینِ اسلام کی حقانیت بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، اگر وہ تم سے تمہارے یا اسلام کے حق ہونے کے بارے میں جھگڑا کریں تو تم انہیں فرما دو کہ تم مانو یا نہ مانو، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،میں اور میرے پیروکار تو اللہ تعالیٰ کے فرمانبردارو مطیع ہیں۔ نیز ان اہلِ کتاب یعنی یہودیوں ، عیسائیوں اوران پڑھوں یعنی اَن پڑھ اہلِ کتاب اور مشرکوں سے مزید یہ بھی فرمادو کہ کیا ہماری طرح تم بھی اسلام قبول کرتے ہو؟ اگریہ اسلام قبول کرلیں تب تو یہ بھی سیدھی راہ والے ہوجائیں گے لیکن اگر یہ اسلام قبول کرنے سے منہ پھیریں تو تمہاری شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ تمہارے اجر و ثواب میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ تمہارے اوپرتواللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف اتنی ذمہ داری ہے کہ تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا حکم انہیں پہنچادو۔ بقیہ ان کا معاملہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حوالے کردو ، اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں اور اپنے سب بندوں کودیکھ رہا ہے۔
{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ: بیشک وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔} یہاں بنی اسرائیل کے تین جرائم کا بیان کیا گیا ہے: (1)اللہ عَزَّوَجَلَّکی آیات کا انکار کرنا۔ (2) انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنا۔ (3) انصاف کا حکم دینے والوں کو قتل کرنا۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے ایک مرتبہ صبح کے وقت تینتالیس نَبِیُّوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا پھر جب ان میں سے ایک سو بارہ عابدوں نے اٹھ کر انہیں نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے منع کیا تو اسی روز شام کو انہیں بھی قتل کردیا۔(مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۱۵۴)
{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ: یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال برباد ہوگئے۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے اور یہ بھی کہ کفر سے تمام اعمال برباد ہوجاتے ہیں کیونکہ یہودیوں نے اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا تھا جو سخت ترین بے ادبی ہے اور اس پر ان کے اعمال برباد کردئیے گئے۔
{اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ: کیا تم نے ان لوگوں کونہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں کو توریت شریف عطا کی گئی اور اس کے علوم و احکام سکھائے گئے۔ اسی توریت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف و احوال اور دینِ اسلام کی حقانیت کا بیان بھی تھا تو اس سے لازمآتا تھا کہ جب حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تشریف لائیں اوربنی اسرائیل کو قرآن کریم کی طرف دعوت دیں تو وہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر اور قرآن شریف پر ایمان لائیں اور اس کے احکام کی تعمیل کریں لیکن ان میں سے اکثر نے ایسا نہیں کیا۔آیت میں کتابُ اللہ کی طرف بلانے کا ذکر ہے۔ جو تفسیر اوپر ذکر کی گئی اس کے مطابق یہاں ’’کتابُ اللہ‘‘ سے مراد’’ قرآن‘‘ ہے اور اگر ’’کتابُ اللہ‘‘ سے مراد ’’توریت ‘‘ہو تومعنیٰ یوں ہوں گے کہ جب یہودیوں کو توریت کی طرف بلایاجاتا ہے تاکہ وہ توریت ہی ان کے درمیان نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور قرآن کی حقانیت کا فیصلہ کردے تو وہ توریت سے بھی منہ پھیر لیتے ہیں۔
{وَ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ: اور وہ منہ پھیرنے والے ہیں۔} اس آیت کے شانِ نزول میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ آئی ہے کہ ایک مرتبہ رحمت ِعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ایک جگہ تشریف لے گئے اور وہاں یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا، اے محمد! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ آپ کس دین پر ہیں ؟ فرمایا، ملت ِ ابراہیم پر۔ وہ کہنے لگے ،حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو یہودی تھے۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’توریت لاؤ ،ابھی ہمارے، تمہارے درمیان فیصلہ ہوجائے گا ۔ وہ اس مطالبے پر نہ ٹھہر سکے اور منکر ہوگئے۔ اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی ۔ (در منثور، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۳، ۲ / ۱۷۰)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے اس آیت کے شانِ نزول کی دوسری روایت یہ ہے کہ ’’خیبر کے یہودیوں میں سے ایک مرد نے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا تھا۔ توریت میں ایسے گناہ کی سزا پتھر مار مار کر ہلاک کردینا ہے لیکن چونکہ یہ لوگ یہودیوں میں اونچے خاندان کے تھے اس لئے انہوں نے ان کو سنگسار کرنا گوارہ نہ کیا اور اس معاملہ کو اس امید پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس لائے کہ شاید آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سنگسار کرنے کا حکم نہ دیں مگر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان دونوں کے سنگسار کرنے کا حکم دیا، اس پر یہودی طیش میں آگئے اور کہنے لگے کہ’’ اس گناہ کی یہ سزا نہیں ہے، آپ نے ظلم کیا ہے۔ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ فیصلے کا دارو مدار توریت پر رکھ لو۔ انہوں نے کہا: یہ انصاف کی بات ہے۔ چنانچہ توریت منگوائی گئی اور یہودیوں کے بڑے عالم عبداللہبن صوریا نے توریت پڑھنی شروع کی، جب رجم کی آیت آئی جس میں سنگسار کرنے کا حکم تھا تو عبداللہبن صوریا نے اس پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کو چھوڑ دیا۔ حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کا ہاتھ ہٹا کر آیت پڑھدی۔ یہودی اس حرکت پر ذلیل و رسواہوئے اور وہ یہودی مردو عورت جنہوں نے زنا کیا تھا حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حکم سے سنگسار کئے گئے ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱ / ۲۳۹)
{ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا: یہ جرأت انہیں اس لئے ہوئی کہ وہ کہتے ہیں۔} آیت میں فرمایا گیا کہ یہودیوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب اور اس کے احکام سے منہ پھیرنے کی یہ جرأت اس لئے ہوئی کہ انہوں نے اپنی نجات و بخشش کے من گھڑت خیالات پال رکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں : ہمیں جہنم کی آگ ہرگز نہ چھوئے گی مگر گنتی کے چنددن یعنی چالیس دن یا ایک ہفتہ پھر کچھ غم نہیں۔ یا یہودی کہتے تھے کہ’’ ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے ہیں (المائدہ : ۱۸) اللہ تعالیٰ نے اس طرزِ عمل پر فرمایا کہ’’ ان کی ایسی ہی من گھڑت باتوں نے ان کے دین کے بارے میں انہیں دھوکے میں ڈالا ہوا ہے۔
عمل سے منہ پھیر کر امید کی دنیا میں گھومنے کا انجام:
ہمارے لئے اس میں درسِ عبرت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی تباہی اسی صورت میں ہوتی ہے جب وہ عمل سے منہ پھیر کر صرف آرزو اور امید کی دنیا میں گھومتی رہتی ہے۔ جو شخص لاکھوں روپے کمانے کی تمنا رکھتا ہے لیکن اس کیلئے محنت کرنے کو تیار نہیں وہ کبھی ایک روپیہ بھی نہیں کما سکتا۔ جو قوم ترقی کرنے کی خواہشمند ہو لیکن اپنی بداعمالیاں ، کام چوریاں اور خیانتیں چھوڑنے کو تیار نہیں وہ کبھی ترقی کی شاہراہ پر قدم نہیں رکھ سکتی۔ یونہی جو لوگ اطاعت ِ الٰہی اور اتباعِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے قریب بھی نہ آئیں اور اپنی نسبتوں پر پھولتے پھریں وہ بھی احمقوں کی دنیاکے باسی ہیں اور افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسوں کی کثرت ہے ۔ہمارے واعظین، خطباء اور پیر صاحبان جو کچھ بیان فرماتے ہیں سب کے سامنے ہے۔ خوفِ خدا، قبر کی تیاری، آخرت کی فکر، بارگاہِ الٰہی کی جواب دہی پر شاید ہی کبھی کلام ہو اور رحمت کے موضوع پر اس قدر بیان کہ لوگ جَری ہوچکے ہیں۔اور اس کے نتیجے میں قوم کی عملی حالت کہاں پہنچی ہوئی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔اس حوالے سے امت کے حکیم، امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا حقیقت شَناس کلام پڑھئے۔ آپ نے کیمیائے سعادت میں تحریر فرمایا ہے: (اگر) علماء بھی وعظ و نصیحت کی بجائے بازاری مقررین کا انداز اختیار کر لیں ،لغویات وواہیات، بیہودہ گوئی اور بیکار باتوں سے دل بہلانا شروع کر دیں جو عموماً دیکھا گیا ہے تو لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں گے کہ کوئی بات نہیں ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں رحمت ِخداوندی ہمارے شامل حال رہے گی تو قوم کا حال غافلین سے بد تر ہو جائے گا۔ ظاہر ہے جب عام آدمی مجلسِ وعظ میں ایسی خرافات سنے گالازماً ویسی ہی صفات اس میں پید ا ہوں گی ، آخرت کے خطرات سے ڈرنا تو در کنار، اس کے دل سے آخرت کا خیال بھی نکل جائے گا، پھر اسے جو کچھ بھی کہا جائے وہ یہی کہتا رہے گا : اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑا رحیم وکریم ہے، میرے گناہوں سے اس کا کیا بگڑتا ہے؟ اورا س کی جنت کوئی تنگ و تاریک معمولی سی کوٹھڑی تھوڑی ہے بلکہ وہ تو زمین و آسمان سے بھی زیادہ وسیع وکشادہ ہے وہاں تو کروڑوں انسان بآسانی سما جائیں گے تو مجھ جیسے گناہگار سے اللہ تعالیٰ کا تنگ آ جانا خدا کی رحمت سے بعید ہے۔ ایسی ایسی لغویات اس کے دل و دماغ پر مسلط ہو جاتی ہیں۔ (کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات،اصل دہم، علاج غفلت ونادانی، ۲ / ۷۳۲) ذرا غور کریں کہ کیا امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فرمان ہمارے آج کے معاشرے پر صادق نہیں آتا۔
{فَكَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ:تو کیسی حالت ہوگی جب ہم انہیں اکٹھا کریں گے۔} یہاں من گھڑت امیدوں کی سواری پر بیٹھ کر خیالات کی دنیا میں سیاحت کرنے والوں کی بات ہورہی ہے جو عقیدۂ صحیحہ سے لاتعلق اور اعمالِ صالحہ سے دور ہونے کے باوجود خواب و خیال میں اپنے آپ کو جنت کے بلند و بالا محلات میں قیام پذیر سمجھتے ہیں ان کے متعلق فرمایا کہ قیامت کے دن ان لوگوں کی کیسی حالت ہوگی جب ہم انہیں جمع کریں گے اور جب انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
{قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ: یوں عرض کرو، اے اللہ! مُلک کے مالک! }فتحِ مکہ کے وقت سیدُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی امت کوایران و روم کی سلطنت کی بشارت دی کہ یہ مسلمانوں کے ہاتھ آئے گی۔ اس پر یہود و منافقین کو بڑا تعجب ہوا اور کہنے لگے، کہاں محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور کہاں فارس و روم کے ملک؟ یہ تو بڑے زبردست اور نہایت محفوظ ملک ہیں اس پر یہ آیت ِ کریمہنازل ہوئی اور آخر کار حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا وہ وعدہ پورا ہوکر رہا۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۲۴۰)
سلطنت و حکومت بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی ملک ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔ کتنی بڑی بڑی سلطنتیں گزریں جن کے زمانے میں کوئی تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ یہ بھی کبھی فنا ہوں گی لیکن اللہ، مالکُ الملک کی زبردست قوت وقدرت کا ایسا ظہور ہوا کہ آج ان کے نام و نشان مٹ گئے۔ یونان کا سکندرِ اعظم، عراق کا نمرود، ایران کا کسریٰ ونوشیرواں ، ضحاک، فریدوں ، جمشید، مصر کے فرعون، منگول نسل کے چنگیز اور ہلاکو خان بڑے بڑے نامور حکمران اب صرف قصے کہانیوں میں رہ گئے اور باقی ہے تو ربُّ العالَمین کا نام اور حکومت باقی ہے اور اسی کو بقا ہے۔ یونہی عزت و ذلت دینا اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے۔ دور دراز کے گاؤں ، بستیوں سے ، چھوٹے اور غریب خاندانوں سے اٹھا کرتخت ِ حکومت پر بٹھا دینا، غلاموں کو بادشاہت عطا کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اور معاشرے کے معزز ترین بلکہ دوسروں کو عزتیں اور خلعتیں بخشنے والوں کو ذلت و گمنامی کے عمیق گڑھوں میں پھینک دینا اُسی اَحکَم ُالحاکمین مولیٰ تعالیٰ کی قدرت ہے۔
{تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ: تو رات کا کچھ حصہ دن میں داخل کردیتا ہے۔} گرمیوں میں رات چھوٹی اور دن بڑے کردینا، سردیوں میں دن چھوٹے اور رات لمبی کردینا اللہ تعالیٰ ہی کے نظام کی وجہ سے ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں اتنا بڑا نظام ہے اس کیلئے فارس و روم سے ملک لے کر غلامانِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو عطا کردینا کیا بعید ہے۔
{وَ تُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ: اورتو مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے۔} مردہ سے زندہ کا نکالنایوں ہے جیسے زندہ انسان کو بے جان نطفے سے اور پرندے کے زندہ بچے کو بے روح انڈے سے اور زندہ دل مؤمن کو مردہ دل کافر سے۔ یونہی زندہ سے مردہ نکالنا اس طرح جیسے کہ زندہ انسان سے بے جان نطفہ اور زندہ پرندے سے بے جان انڈا اور زندہ دل ایمان دار سے مردہ دل کافر۔
{لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں۔} حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگِ اَحزاب کے موقع پر سید ِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ میرے ساتھ پانچ سو یہودی ہیں جو میرے حلیف ہیں ، میری رائے ہے کہ میں دشمن کے مقابلے میں ان سے مدد حاصل کروں۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور کافروں کو دوست اور مدد گار بنانے کی ممانعت فرمائی گئی۔(جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۸، ۱ / ۳۹۳)
کفار سے دوستی و محبت ممنوع و حرام ہے، انہیں راز دار بنانا، ان سے قلبی تعلق رکھنا ناجائز ہے۔ البتہ اگر جان یا مال کا خوف ہو تو ایسے وقت صرف ظاہری برتاؤ جائز ہے۔ یہاں صرف ظاہری میل برتاؤ کی اجازت دی گئی ہے، یہ نہیں کہ ایمان چھپانے اور جھوٹ بولنے کو اپنا ایمان اور عقیدہ بنا لیا جائے بلکہ باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانا اور اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرنا افضل و بہتر ہوتا ہے جیسے سیدناامامِ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جان دے دی لیکن حق کو نہ چھپایا۔ آیت میں کفار کو دوست بنانے سے منع کیا گیا ہے اسی سے اس بات کا حکم بھی سمجھاجاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے اتحاد کرنا کس قدر برا ہے۔
{یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ: جس دن ہر شخص پائے گا۔} سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 29، 30ہر شخص کی اصلاح کیلئے کافی ہے۔ اس آیت پر جتنا زیادہ غور کریں گے اتنا ہی دل میں خوفِ خدا پیدا ہوگا اور گناہوں سے نفرت پیدا ہوگی۔ چنانچہ فرمایا کہ تم فرمادو کہ اگر تم اپنے دل کی باتیں چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ عَزَّوَجَلَّ کو سب معلوم ہے۔ تمہارے دلوں کا ایمان و نفاق، قلوب کی طہارت و خباثت، اچھے برے خیالات، نیک و بد ارادے، صحیح و فاسد منصوبے ساری دنیا سے چھپ سکتے ہیں مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ عالِم ُا لغَیب و الشَّہادۃ کے حضور سب ظاہر ہے۔ وہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب جانتا ہے ۔ وہ تمہیں فرماتا ہے کہ تم اپنے دل کی بات چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ عَزَّوَجَلَّ کو سب معلوم ہے اور اس دن کو یاد رکھو جس دن ہر شخص اپنے تمام اچھے اور برے اعمال اپنے سامنے موجود پائے گا۔ خَلْوَتوں ، جَلْوَتوں میں کئے ہوئے اعمال، پہاڑوں ، سمندروں ، غاروں ، صحراؤں ، جزیروں اور کائنات کے کسی بھی کونے میں کئے گئےاعمال کا ایک ایک ذرہ آدمی کے سامنے موجود ہوگا اور اس وقت برے اعمال والا تمنا کرے گاکہ کاش اس کے درمیان اور اس کے اعمال کے درمیان کوئی دور دراز کی مسافت حائل ہوجائے اور کسی طرح ان اعمال سے چھٹکارا ہوجائے مگر ایسا نہ ہوسکے گا۔آیت ِ مبارکہ کے حوالے سے سلف و صالحین کے طرزِ عمل کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ذیل کے واقعات کا مطالعہ فرمائیں :
عمر اور گناہوں کا حساب کرنے والے بزرگ:
حضرت توبہ بن صمہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے نفس کامحاسبہ کرتے ہوئے ایک دن حساب لگایا تو ان کی عمر 60 سال تھی، دنوں کا حساب کیا تو وہ 21500تھے، انہوں نے چیخ ماری اور فرمایا: ہائے افسوس! (اگر میں نے روزانہ ایک گناہ کیا ہو تو) میں حقیقی بادشاہ سے 21500گناہوں کے ساتھ ملاقات کروں گا اور جب روزانہ 10,000گناہ ہوں ، تو کیا صورت حال ہو گی یہ سوچ کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ غش کھا کر گر پڑے اور آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔(احیاء علوم الدین،کتاب المراقبۃ والمحاسبۃ، بیان حقیقۃ المحاسبۃ بعد العمل، ۵ / ۱۳۹)
نیند سے پاک رب تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے:
ایک شخص کسی عورت پر فریفتہ ہوگیا ۔جب وہ عورت کسی کام سے قافلے کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئی تو یہ آدمی بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ جب جنگل میں پہنچ کر سب لوگ سو گئے تو اس آدمی نے اس عورت سے اپنا حالِ دل بیان کیا۔ عورت نے اس سے پوچھا:کیا سب لوگ سو گئے ہیں ؟ یہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ شاید یہ عورت بھی میری طرف مائل ہو گئی ہے، چنانچہ وہ اٹھا اور قافلے کے گرد گھوم کر جائزہ لیا تو سب لوگ سورہے تھے ۔ واپس آکر اس نے عورت کو بتایا کہ ہاں ! سب لوگ سو گئے ہیں۔ یہ سن کر وہ عورت کہنے لگی :اللہ تعالیٰ کے بارے میں تم کیا کہتے ہو،کیا وہ بھی اس وقت سو رہا ہے؟مرد نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ نہ سوتا ہے ،نہ اسے نیند آتی ہے اور نہ اسے اونگھ آتی ہے ۔ عورت نے کہا :جو نہ کبھی سویا اور نہ سوئے گا اوروہ ہمیں بھی دیکھ رہاہے اگرچہ لوگ نہیں دیکھ رہے تو ہمیں اس سے زیادہ ڈرنا چاہئے۔ یہ بات سن کر اس آدمی نے اللہ تعالیٰ کے خوف کے سبب اس عورت کو چھوڑ دیا اور گناہ کے ارادے سے باز آگیا۔ جب اس شخص کا انتقال ہوا تو کسی نے اسے خواب میں دیکھا اور پوچھا’’مَافَعَلَ اللہُ بِکَ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ تو اس نے جواب دیا:اللہ تعالیٰ نے مجھے گناہ چھوڑ دینے اور اپنے خوف کے سبب بخش دیا۔(مکاشفۃ القلوب، الباب الثانی فی الخوف من اللہ تعالٰی۔۔۔ الخ، ص۱۱)
{قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ جب ہی سچا ہوسکتا ہے جب آدمی سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اتباع کرنے والاہو اور حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اطاعت اختیار کرے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ قریش کے پاس تشریف لائے جنہوں نے خانۂ کعبہ میں بت نصب کئے تھے اور انہیں سجا سجا کر ان کو سجدہ کررہے تھے۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا، اے گروہِ قریش !خدا عَزَّوَجَلَّکی قسم ،تم اپنے آباء و اجداد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے دین سے ہٹ گئے ہو۔ قریش نے کہا: ہم ان بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں پوجتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے قریب کریں۔اس پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۱، ۱ / ۲۴۳)
اور بتایا گیا کہ محبت ِالہٰی کا دعویٰ حضورسید ِکائناتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اتباع اور فرماں برداری کے بغیر قابلِ قبول نہیں۔ جو اس دعوے کا ثبوت دینا چاہتا ہے وہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی غلامی اختیار کرے اور چونکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے بت پرستی سے منع فرمایا ہے تو بت پرستی کرنے والا سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا نافرمان اور محبتِ الٰہی کے دعوے میں جھوٹا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم کوحضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اتبا ع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم تو اللہ عَزَّوَجَلَّکے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ تب یہ آیت اتری۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۱، ۱ / ۲۴۳)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہی قول قوی ہے کیونکہ سورۂ آلِ عمران مدنی ہے۔
رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی پیروی ضروری ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو حضورپرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اتباع اور پیروی کرنا ضروری ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ۪-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(اعراف:۱۵۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:تم فرماؤ: اے لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو تاکہ تم ہدایت پالو۔
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک مرتبہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے اور عرض کی: ہم یہودیوں کی کچھ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں بھلی لگتی ہیں کیا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اجازت دیتے ہیں کہ کچھ لکھ بھی لیا کریں ؟نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ کیا تم یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح حیران ہو! میں تمہارے پاس روشن اور صاف شریعت لایا اور اگر آج حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا ۔ (شعب الایمان، الرابع من شعب الایمان، ذکر حدیث جمع القرآن، ۱ / ۱۹۹، الحدیث: ۱۷۶)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی پیروی کے جذبے کا اندازہ ان واقعات سے لگایا جاسکتا ہے :
(1)… حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا ’’خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہر گز بوسہ نہ دیتا۔ (مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف، ص۶۶۲، الحدیث: ۲۵۱(۱۲۷۰))
اور سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ (نسائی، کتاب مناسک الحج، تقبیل الحجر، ص۴۷۸، الحدیث: ۲۹۳۴)
(2)…حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ایک بار پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر آپ مسکرانے لگے اور ساتھیوں سے فرمایا ’’ کیاتم مجھ سے اس چیز کے بارے میں پوچھو گے نہیں جس نے مجھے مسکرایا؟ انہوں نے عرض کی: اے امیرُ المؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ کس چیز کی وجہ سے مسکرائے تھے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’ایک بارحضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ا س جگہ کے قریب ہی وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرائے تھے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا تھا ’’کیاتم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ کس چیز نے مجھے مسکرایا؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کیـ: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کس چیز نے آپ کو مسکرایا؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بندہ جب وضو کا پانی منگوائے پھر اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کے گناہ مٹا دیتا ہے،پھر اپنی کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے ،سر کا مسح کرے تو سر کے اور اپنے قدموں کو دھوئے تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (تو میں نے انہی کی ادا کو اداء کیا ہے۔) (مسند امام احمد، مسند عثمان بن عفان، ۱ / ۱۳۰، الحدیث: ۴۱۵)
(3)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے ۔لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا’’ میں (اس کی حکمت) نہیں جانتا، مگر اس جگہ میں نے تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ایسا کرتے دیکھا تھا اس لئے میں بھی ایساکر رہا ہوں۔(شفا شریف، الباب الاول: فرض الایمان بہ، فصل واما ماورد عن السلف فی اتباعہ، ص۱۵، الجزء الثانی)
{اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ: اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو۔} حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جب یہ آیت ’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ‘‘ نازل ہوئی تو عبد اللہبن اُبی منافق نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اپنی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرح قرار دے رہے ہیں اور یہ حکم کر رہے ہیں کہ ہم ان سے اسی طرح محبت کریں جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(البحر المحیط، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۲، ۲ / ۴۴۹) اور فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ نے میری اطاعت اس لئے واجب کی کہ میں اس کی طرف سے رسول ہوں اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ اس کے رسول ہی ہیں اس لئے ان کی اطاعت و فرمانبرداری لازمی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اطاعت سے منہ پھیریں تو انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہ ہو گی اور اللہ تعالیٰ انہیں سزادے گا۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۹۸، جلالین، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۴۹، ملتقطاً)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت کی اہمیت:
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اطاعت ہی محبتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی دلیل ہے اور اسی پر نجات کا دارو مدار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کاحصول، اپنی خوشنودی اور قرب کو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی غیر مشروط اطاعت کے ساتھ جوڑ دیا۔ اب کسی کو رضا و قربِ الٰہی ملے گا تو محبوبِ رب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی غلامی کے صدقے ملے گا ورنہ دنیا جہاں کے سارے اعمال جمع کرکے لے آئے، اگر اس میں حقیقی اطاعتِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ موجود نہ ہوگی وہ بارگاہ ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں یقینا قطعا ًمردود ہوگا۔
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میری ساری امت جنت میں داخل ہو گی مگر جس نے انکار کیا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی: یارسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انکار کون کرے گا؟ ارشاد فرمایا ’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو ا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۴ / ۴۹۹، الحدیث: ۷۲۸۰)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بے شک میری مثال اور اس کی جس کے ساتھ مجھے مبعوث فرمایا گیا ہے اس شخص جیسی ہے جس نے اپنی قوم کے پاس آکر کہا: اے قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے ایک فوج دیکھی ہے، میں تمہیں واضح طور پر اس سے ڈرانے والا ہوں لہٰذا اپنے آپ کو بچا لو۔ چنانچہ اس کی قوم کے ایک گروہ نے ا س کی بات مانی اور راتوں رات نکل کر پناہ گاہ میں جا چھپے اور ہلاکت سے بچ گئے جبکہ ایک گروہ نے اسے جھٹلایا اور صبح تک اپنے مقامات پر ہی رہے،صبح سویرے لشکر نے ان پر حملہ کر دیا اور انہیں ہلاک کر کے غارت گری کا بازار گرم کیا۔پس یہ مثال ہے اس کی جس نے میری اطاعت کی اور جو میں لے کر آیا ہوں اس کی پیروی کی اور اس شخص کی مثال ہے جس نے میری نافرمانی کی اور جو حق میں لے کر آیا ہوں اسے جھٹلایا۔(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۴ / ۵۰۰، الحدیث: ۷۲۸۳)
حضرت مقدام بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’سن لو !عنقریب ایک آدمی کے پاس میری حدیث پہنچے گی اور وہ اپنی مسہری پر تکیہ لگائے بیٹھا ہوا کہے گا: ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب(کافی ہے) ہم جو چیزا س میں حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اور اسے حرام سمجھیں گے جسے قرآن میں حرام پائیں گے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے بھی اسی طرح حرام کیا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ما نہی عنہ انّہ یقال عند حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۴ / ۳۰۲، الحدیث: ۲۶۷۳)
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
{اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ: بیشک اللہ نے آدم کو چن لیا۔} یہودیوں نے کہا تھا کہ ہم حضرت ابراہیم ،حضرت اسحٰق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں اور انہیں کے دین پر ہیں ،اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور بتادیا گیا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو اسلام کے ساتھ برگزیدہ کیا تھا اور اے یہودیو! تم اسلام پر نہیں ہو تو تمہارا یہ دعویٰ غلط ہے۔ اسآیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ، چنے ہوئے، منتخب بندوں کی عظمت و شان کو بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، جیسے یہاں پر برگزیدہ بندوں کا تذکرہ ہوا اور اس کے آگے کی آیتوں میں مُقربینِ بارگاہِ الٰہی کا تفصیل سے تذکرہ ہوا۔
{ذُرِّیَّةًۢ: یہ ایک نسل ہے۔}یعنی ان بر گزیدہ بندوں میں باہم نسلی تعلقات بھی ہیں اوردین کے اندر یہ حضرات ایک دوسرے کے معاون و مددگار بھی ہیں۔
{اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ: جب عمران کی بیوی نے عرض کی۔ } عمران دو ہیں ایک عمران بن یَصْہُرْبن قاہِثْ بن لاوٰی بن یعقوب یہ تو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد ہیں اور دوسرے عمران بن ماثان یہ حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی والدہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے والد ہیں ان دونوں عمرانوں کے درمیان ایک ہزار آٹھ سو برس کا فرق ہے ،یہاں دوسرے عمران مراد ہیں ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱ / ۲۴۳،جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱ / ۴۰۰، ملتقطاً)
ان کی بیوی یعنی حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکی والدہ کا نام حَنَّہ بنت فاقوذا ہے ۔یہاں آیت میں انہی کاواقعہ بیان ہورہا ہے ۔ کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی تھی کہ اے اللہ! میں تیرے لئے نذر مانتی ہوں کہ میرے پیٹ میں جو اولاد ہے وہ خاص تیرے لئے وقف ہے ۔ تیری عبادت کے سوا دنیا کا کوئی کام اس کے متعلق نہ ہو اور بیتُ المقدس کی خدمت اس کے ذمہ ہو۔ علماء نے واقعہ اس طرح ذکر کیا ہے کہ حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اور حضرت عمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دونوں ہم زُلف تھے ۔فاقوذا کی دُختر اِیشاع حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی زوجہ تھیں اور یہ حضرت یحییٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامکی والدہ ہیں اور ان کی بہن حضرت حَنَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا حضرت عمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیوی تھیں اور یہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی والدہ ہیں۔ ایک زمانہ تک حضرت حَنَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے ہاں اولاد نہیں ہوئی یہاں تک کہ بڑھاپا آگیا اور مایوسی ہوگئی، یہ صالحین کا خاندان تھا اور یہ سب لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندے تھے۔ ایک روز حضرت حَنَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے ایک درخت کے سایہ میں ایک چڑیا دیکھی جو اپنے بچہ کو بھرا رہی تھی یعنی دانہ کھلا رہی تھی۔ یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے دل میں اولاد کا شوق پیدا ہوا اور بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں دعا کی کہ یارب ! عَزَّوَجَلَّ،اگر تو مجھے بچہ دے تو میں اس کو بیت المقدس کا خادم بناؤں گی اور اس خدمت کے لیے حاضر کردوں گی ۔چنانچہ جب وہ حاملہ ہوئیں اور انہوں نے یہ نذر مان لی تو ان کے شوہر نے فرمایا: یہ تم نے کیا کیا ،اگر لڑکی ہوگی تو وہ اس قابل کہاں ہوگی؟اس زمانہ میں بیتُ المقدس کی خدمت کے لیے لڑکوں کودیا جاتا تھا اور لڑکیاں اپنے مخصوص معاملات ، زنانہ کمزوریوں اور مردوں کے ساتھ نہ رہ سکنے کی وجہ سے اس قابل نہیں سمجھی جاتی تھیں۔ اس لیے حضرت عمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شدید فکر لاحق ہوئی ۔ حضرت حَنَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکے ہاں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی ولادت سے پہلے حضرت عمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا انتقال ہو گیا تھا۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱ / ۲۴۴)
{فَلَمَّا وَضَعَتْهَا: تو جب عمران کی بیوی نے بچی کو جنم دیا۔} چونکہ حضرت عمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپہلے ہی اپنے خدشے کا اظہار کرچکے تھے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت کہ بیٹے کی بجائے بیٹی کی ولادت ہوئی اس پر حضرت حَنَّہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اظہارِ افسوس کے طور پر یہ کلمہ کہا۔ انہیں حسرت و غم اس وجہ سے ہوا کہ چونکہ لڑکی پیدا ہوئی ہے لہٰذا نذر پوری نہیں ہوسکے گی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کا یہ عرض کرنا منت کے پورا نہ کرسکنے پرافسوس کی وجہ سے تھا، اس وجہ سے نہیں کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو لڑکی پیدا ہونے کا افسوس تھا کیونکہ یہ کفار کا طریقہ ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جو لڑکی عطا فرمائی تھی اس کے بارے میں فرمایا کہ کوئی لڑکا اس لڑکی کی طرح نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ تمام جہان کی عورتوں سے افضل ہوگی، روحُ اللہ ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی ماں ہوں گی، یہ رب عَزَّوَجَلَّ کی خاص عطا ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض عورتیں بعض مردوں سے افضل ہوسکتی ہیں۔ خیال رہے کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا اپنے زمانے میں تمام جہان کی عورتوں سے افضل تھیں ، یہ نہیں کہ ان کا مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت خدیجۃُ الکُبریٰ اورحضرت فاطمۃ الزہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے بھی بڑھ کر ہو۔ مریم کے معنی عابدہ اورخادمہ ہیں۔(بغوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۶، ۱ / ۲۲۷)
{وَ اِنِّیْۤ اُعِیْذُهَا بِكَ:اور میں اسے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔} حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکی والدہ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہااور ان کی اولاد کیلئے شیطان کے شر سے پناہ مانگی اور اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا۔ لہٰذا یہ مقبول الفاظ ہیں ، اپنی اولاد کیلئے ان الفاظ کے ساتھ دعا مانگتے رہنا چاہیے،اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کرم ہوگا۔
{فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ: تو اس کے رب نے اسے اچھی طرح قبول کیا ۔}اللہ تعالیٰ نے نذر میں لڑکے کی جگہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو قبول فرما لیااور انہیں احسن انداز میں پروان چڑھایا۔ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا دوسرے بچوں کی بَنسبت بہت تیزی کے ساتھ بڑھتی رہیں۔ حضرت حَنَّہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے ولادت کے بعد حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر بیتُ المقدس کے علماء کے سامنے پیش کردیا تاکہ وہ انہیں اپنی کفالت میں لے لیں۔ ان علماء کو بہت معزز شمار کیا جاتا تھا، یہ علماء حضرت ہارون عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی اولاد میں سے تھے اور بیتُ المقدس کی خدمت پر مقرر تھے۔ چونکہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا حضرت عمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیٹی تھیں جو ان علماء میں ممتاز تھے اور ان کا خاندان بھی بنی اسرائیل میں بہت اعلیٰ اور صاحب ِ علم خاندان تھا اس لئے اُن سب علماء نے جن کی تعداد ستائیس تھی حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو اپنی پرورش میں لینے میں رغبت ظاہر کی ۔ حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے فرمایا کہ میں ان کا سب سے زیادہ حقدار ہوں کیونکہ میرے گھر میں ان کی خالہ ہیں ، معاملہ اس پر ختم ہوا کہ قرعہ اندازی کی جائے چنانچہ قرعہ حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامہی کے نام پر نکلا اوریوں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاحضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی کفالت میں چلی گئیں۔ (مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۱۵۸)
{ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا: ان کے پاس نیا پھل پاتے۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو بہت عظمت عطا فرمائی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے پاس بے موسم کے پھل آتے جو جنت سے اترتے اور حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے کسی عورت کا دودھ نہ پیا۔ جب حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے پاس جاتے تو وہاں بے موسم کے پھل پاتے۔ ایک مرتبہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے سوال کیا کہ یہ پھل تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟ تو حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے بچپن کی عمر میں جواب دیا کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے۔ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے یہ کلام اس وقت کیا جب وہ پالنے یعنی جُھولے میں پرورش پارہی تھیں جیسا کہ ان کے فرزند حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے اسی حال میں کلام فرمایا۔ حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامنے جب یہ دیکھا توخیال فرمایا ،جو پاک ذات حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو بے وقت بے موسم اور بغیرظاہری سبب کے میوہ عطا فرمانے پر قادر ہے وہ بے شک اس پر بھی قادر ہے کہ میری بانجھ بیوی کو نئی تندرستی دیدے اور مجھے اس بڑھاپے کی عمر میں اولاد کی امید ختم ہوجانے کے بعد فرزند عطا فرمادے۔ اس خیال سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے دعا کی جس کا اگلی آیت میں بیان ہے۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۷، ۱ / ۲۴۶)
یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ سورہ مریم آیت 2تا 15میں مذکور ہے۔ مذکورہ بالا آیت سے اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْکی کرامات بھی ثابت ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے ہاتھوں پر خوارق یعنی خلافِ عادت چیزیں ظاہر فرماتا ہے۔
{ هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗ: وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگی۔} حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے جب اس جگہ پر اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی دیکھی تو وہیں یعنی بیت ُالمقدس کی محراب میں دروازے بند کرکے پاکیزہ اولاد کی دعا مانگی۔
آیت’’هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗ‘‘ سے معلوم ہونے والے دعا کے آداب:
اس آیت سے چند چیزیں معلوم ہوئیں۔
(1)… جس جگہ رحمت ِ الٰہی کا نزول ہوا ہو وہاں دعا مانگنی چاہیے جیسے جس مقام پر حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو غیب سے رزق ملتا تھا وہیں حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامنے دعا مانگی۔ اسی وجہ سے خانہ کعبہ اور تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضہ اقدس اور مزاراتِ اولیاء پر دعا مانگنے میں زیادہ فائدہ ہے کہ یہ مقامات رحمت ِ الٰہی کی بارش برسنے کے ہیں۔
(2)…علماءِ کرام نے اس جگہ کو مقبولیت کے مقامات سے شمار کیا جہاں کسی کی دعا قبول ہوئی ہو۔ لہٰذا جہاں اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا وجود ہو یا جہاں وہ رہے ہوں وہاں دعا کرنی چاہیے کیونکہ اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بکثرت دعا کرتے ہیں اور ان کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں تو جہاں وہ رہے ہوں گے وہاں دعائیں ضرور قبول ہوئی ہوں گی۔
(3)… حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے پاکیزہ اولاد کی دعا مانگی۔ معلوم ہوا کہ صرف اولاد کی دعا نہیں کرنی چاہیے کہ اولاد تو زبردست آزمائش بھی بن سکتی ہے۔ لہٰذا پاکیزہ کرداروعمل والی اولاد کی دعا کرنی چاہیے تاکہ اس سے دنیا و آخرت کا سکھ ملے۔
{فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ: تو فرشتوں نے اسے پکار کر کہا۔} حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام بڑے عالم تھے، بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّمیں قربانیاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہی پیش کیا کرتے تھے اور مسجد شریف میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اجازت کے بغیر کوئی داخل نہیں ہوسکتا تھا، جس وقت محراب میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنماز میں مشغول تھے اور باہر آدمی داخلے کی اجازت کا انتظار کررہے تھے، دروازہ بند تھا، اچانک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ایک سفید پوش جوان کودیکھا، وہ حضرتِ جبریل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامتھے، انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرزند کی بشارت دی جو ’’ اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ‘‘ میں بیان فرمائی گئی۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ:۳۹، ۱ / ۲۴۶)
یہ غیب کی خبر حضرت جبرئیل اور حضرت زکریا عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دونوں کو معلوم ہوگئی۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بشارت ملی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایسا بیٹا عطا کیا جائے گا جس کا نام’’ یحییٰ‘‘ ہوگا اور وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کلمہ یعنی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق کرے گا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکوکَلِمَۃُ اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کلمۂ ’’کُن‘‘ فرما کر بغیر باپ کے پیدا کیا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام پر سب سے پہلے ایمان لانے اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام ہیں جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام سے عمر میں چھ ماہ بڑے تھے۔ حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامکی والدہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے ملیں تو انہیں اپنے حاملہ ہونے پر مطلع کیا ،حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے فرمایا: میں بھی حاملہ ہوں۔ حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ نے کہا: اے مریم! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہامجھے یوں لگتا ہے کہ میرے پیٹ کا بچہ تمہارے پیٹ کے بچے کو سجدہ کرتا ہے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۹، ۱ / ۲۴۷)
{سَیِّدًا: سردار۔} آیت ِمبارکہ میں حضرت یحییٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے چار اوصاف بیان فرمائے،
(1)…مصدق: تصدیق کرنے والا۔ اس کا بیان اوپر گزرا۔
(2)…سید یعنی سردار: سید اس رئیس کو کہتے ہیں جو مخدوم و مُطاع ہو یعنی لوگ اس کی خدمت و اطاعت کریں۔ حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَاممؤمنین کے سردار اور علم و حلم اور دین میں ان کے رئیس تھے۔
(3)…حَصُوْرًا: عورتوں سے بچنے والا۔ حصوروہ شخص ہوتا ہے جو قوت کے باوجود عورت سے رغبت نہ کرے ۔
(4)… صالحین میں سے ایک نبی۔
{اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ: میرے ہاں لڑکا کیسے پیدا ہوگا! } حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو جب بیٹے کی بشارت دی گئی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے تعجب کے طور پر عرض کیا :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میرے ہاں لڑکا کیسے پیدا ہوگا حالانکہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے ؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّیوں ہی جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس وقت حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی عمر ایک سو بیس سال کی ہوچکی تھی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی زوجہ کی عمر اٹھانوے سال تھی۔ سوال سے مقصود یہ تھا کہ بیٹا کس طرح عطا ہوگا ؟آیا میری جوانی واپس لوٹائی جائے گی اور زوجہ کا بانجھ ہونا دور کیا جائے گا یا ہم دونوں اپنے حال پر رہیں گے؟فرمایا گیا کہ بڑھاپے میں فرزند عطا کرنا اس کی قدرت سے کچھ بعید نہیں لہٰذا اس بڑھاپے کی حالت میں فرزند ملے گا ۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan