READ

Surah Aal Imraan

اٰلِ عِمْرَان
200 Ayaat    مدنیۃ


3:121
وَ  اِذْ  غَدَوْتَ  مِنْ  اَهْلِكَ  تُبَوِّئُ  الْمُؤْمِنِیْنَ  مَقَاعِدَ  لِلْقِتَالِؕ-وَ  اللّٰهُ  سَمِیْعٌ  عَلِیْمٌۙ(۱۲۱)
اور یاد کرو اے محبوب! جب تم صبح کو (ف۲۲۶) اپنے دولت خانہ سے برآمد ہوئے مسلمانوں کو لڑائی کے مور چوں پر قائم کرتے (ف۲۲۷) اور اللہ سنتا جانتا ہے،

{وَ  اِذْ  غَدَوْتَ  مِنْ  اَهْلِكَ: اور یاد کرو اے حبیب! جب صبح کے وقت تم اپنے دولت خانہ سے نکلے۔} یہاں سے غزوۂ احد کا بیان ہورہا ہے اور اس کے بعد غزوۂ بدر کا تذکرہ ہے۔

جنگِ احد کا بیان:

            یہاں رکوع کی ابتداء میں جنگ ِاُحد کا بیان ہے جس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ جنگِ بدر میں شکست کھانے سے کفار کو بڑا رنج تھا، اس لئے اُنہوں نے انتقام کے ارادے سے مسلمانوں سے جنگ کیلئے ایک بڑا بھاری لشکر تیار کرلیا۔ جب سرکارِ عالی وقارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر ملی کہ لشکرِکفار اُحد میں پہنچا ہوا ہے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ فرمایا، اس مشورے میں منافقوں کے سردار عبداللہ بن اُبی بن سلول کو بھی بلایا گیا جو اس سے پہلے کبھی کسی مشورے کے لئے نہیں بلایا گیا تھا ۔اکثر انصار کی اور عبداللہ بن ابی کی یہ رائے تھی کہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمدینہ طیبہ میں ہی ٹھہرے رہیں اور جب کفار یہاں آئیں تب اُن سے مقابلہ کیا جائے۔ یہی سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مرضی تھی لیکن بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی رائے یہ ہوئی کہ مدینہ طیبہ سے باہر نکل کر لڑنا چاہئے اور اس پر انہوں نے اصرار کیا۔ سرورِ کائناتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے دولت کدہ میں تشریف لے گئے اور اسلحہ زیب تن فرما کر باہر تشریف لائے ۔اب تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو دیکھ کر ان صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ندامت ہوئی اور انہوں نے عرض کیا کہ’’ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رائے دینا اور اس پر اصرار کرنا ہماری غلطی تھی، اس کو معاف فرمائیے اور جوآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارادہ ہو وہی کیجئے ، ہم حاضر ہیں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ نبی کی شان کے لائق نہیں کہ ہتھیار پہن کر جنگ سے پہلے اُتار دے۔

             مشرکین دو تین دن سے اُحد میں پہنچے ہوئے تھے ۔سلطانِ عَرَبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جمعہ کے روز نمازِ جمعہ کے بعد ایک انصاری کی نمازِ جنازہ پڑھ کر روانہ ہوئے اور پندرہ شوال 3ہجری بروز اتوار اُحد میں پہنچے اور پہاڑ کا ایک درہ جو لشکرِاسلام کے پیچھے تھا، اس طرف سے اندیشہ تھا کہ کسی وقت دشمن پشت پر سے آکر حملہ کرے ،اس لئے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہبن جُبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ وہاں مقرر فرما دیا کہ اگر دشمن اس طرف سے حملہ آور ہو تو تیروں کے ذریعے ا س کا حملہ دفع کردیا جائے اور حکم دیا کہ کسی حال میں یہاں سے نہ ہٹنا اور اس جگہ کو نہ چھوڑنا، خواہ فتح ہو یا شکست ہو ۔ عبداللہ بن اُبی بن سلول منافق جس نے مدینہ طیبہ میں رہ کر جنگ کرنے کی رائے دی تھی اپنی رائے کے خلاف کیے جانے کی وجہ سے برہم ہوا اور کہنے لگا کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نو عمر لڑکوں کا کہنا تو مانا اور میری بات کی پروانہ کی۔ اس عبداللہ بن اُبی کے ساتھ تین سو منافق تھے اُن سے اِس نے کہا کہ جب دشمن لشکر ِ اسلام کے مقابل آجائے اُس وقت بھاگ جانا تاکہ لشکر اسلام میں ابتری پھیل جائے اور تمہیں دیکھ کر اور لوگ بھی بھاگ نکلیں۔ مسلمانوں کے لشکر کی کل تعداد ان منافقین سمیت ایک ہزار تھی اور مشرکین تین ہزار تھے۔ مقابلہ شروع ہوتے ہی عبداللہ بن اُبی منافق اپنے تین سو منافقوں کو لے کر بھاگ نکلا اور حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سات سو صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم  آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو ثابت قدم رکھا یہاں تک کہ مشرکین کو شکست ہوئی۔مسلمان مشرکوں کے پیچھے بھاگے تو پہاڑی درے پر موجود صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی بھاگتے ہوئے مشرکین کے پیچھے پڑ گئے اور تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جہاں قائم رہنے کے لئے فرمایا تھا وہاں قائم نہ رہے تو اللہ تعالیٰ نے اِنہیں یہ دکھا دیا کہ بدر میں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی فرمانبرداری کی برکت سے فتح ہوئی تھی جبکہ یہاں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کی مخالفت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ  تعالیٰ نے مشرکین کے دلوں سے رُعب و ہیبت دور کردی اور وہ پلٹ پڑے اور مسلمانوں کونقصان اٹھانا پڑا۔ شَہَنْشاہِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ ایک جماعت رہ گئی جس میں حضرت ابوبکر ،حضرت علی ،حضرت عباس ،حضرت طلحہ اور حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم تھے۔ اسی جنگ میں دندانِ اقدس شہید ہوئے اور چہرئہ اقدس پر زخم آیا ۔ اسی کے متعلق یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۱ / ۲۹۴-۲۹۵)

3:122
اِذْ  هَمَّتْ  طَّآىٕفَتٰنِ  مِنْكُمْ  اَنْ  تَفْشَلَاۙ-وَ  اللّٰهُ  وَلِیُّهُمَاؕ-وَ  عَلَى  اللّٰهِ  فَلْیَتَوَكَّلِ  الْمُؤْمِنُوْنَ(۱۲۲)
جب تم میں کے دو گروہوں کا ارادہ ہوا کہ نامردی کرجائیں (ف۲۲۸) اور اللہ ان کا سنبھالنے والا ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہئے،

{اِذْ  هَمَّتْ  طَّآىٕفَتٰنِ  مِنْكُمْ  اَنْ  تَفْشَلَا :جب تم میں سے دو گروہوں نے ارادہ کیا کہ بزدلی دکھائیں۔} یہ دونوں گروہ انصار میں سے تھے ایک قبیلہ بنی سلمہ جس کا تعلق خَزْرَجْ سے تھا اور ایک بنی حارثہ جس کا تعلق اَوس سے تھا۔ یہ دونوں لشکر کے بازو تھے ،جب عبداللہ بن اُبی بن سلول منافق بھاگا تو ان قبیلوں نے بھی واپسی کا ارادہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور انہیں اس سے محفوظ رکھا اور یہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ یہاں اس نعمت و احسان کا ذکر فرمایا ہے۔ آیت کے آخر میں توکل کی عظمت کو بھی بیان فرمایا۔ توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اپنا کام کسی کے سپرد کر کے اس پر اعتماد کرنا،اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی کارساز ہونے کا یقین رکھتے ہوئے اپنے کام ا س کے سپرد کر دینا۔ (احیاءعلوم الدین، کتاب التوحید والتوکل، الشطر الثانی، بیان حال التوکل، ۴ / ۳۲۱، ملخصاً)

3:123
وَ  لَقَدْ  نَصَرَكُمُ  اللّٰهُ  بِبَدْرٍ  وَّ  اَنْتُمْ  اَذِلَّةٌۚ-فَاتَّقُوا  اللّٰهَ  لَعَلَّكُمْ  تَشْكُرُوْنَ(۱۲۳)
اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے (ف۲۲۹) تو اللہ سے ڈرو کہیں تم شکر گزار ہو،

{وَ  لَقَدْ  نَصَرَكُمُ  اللّٰهُ  بِبَدْرٍ : اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی۔} یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے عظیم احسان کو بیان فرما رہا ہے کہ غزوۂ بدر میں جب مسلمانوں کی تعداد بھی کم تھی اوران کے پاس ہتھیاروں اور سواروں کی بھی کمی تھی جبکہ کفار تعداد اور جنگی قوت میں مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھے۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کفار پر فتح و کامرانی عطا فرمائی۔ جنگ بدر 17رمضان 2ہجری میں جمعہ کے دن ہوئی۔ مسلمان 313تھے جبکہ کفار تقریباً ایک ہزار۔ بدر ایک کنواں ہے جو ایک شخص بدر بن عامر نے کھودا تھا، اس کے نام پر اس علاقے کا نام ’’بدر‘‘ ہوگیا۔(یہ علاقہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے )(صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۱ / ۳۱۰)

اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا مدد کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کا مدد کرنا ہے:

             اس آیتِ مبارکہ سے اہلسنّت کا ایک عظیم عقیدہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جنگِ بدر میں مسلمانوں کی مدد کیلئے فرشتے نازل ہوئے جیسا کہ اگلی آیتوں میں موجود ہے، جنگ میں فرشتے لڑے، انہوں نے مسلمانوں کی مدد کی لیکن ان کی مدد کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے پیارے جب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مدد فرماتے ہیں تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّہی کی مدد ہوتی ہے۔ لہٰذا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْجو مدد فرمائیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد قرار پائے گی اور اسے کفر و شرک نہیں کہا جائے گا۔

3:124
اِذْ  تَقُوْلُ  لِلْمُؤْمِنِیْنَ  اَلَنْ  یَّكْفِیَكُمْ  اَنْ  یُّمِدَّكُمْ  رَبُّكُمْ  بِثَلٰثَةِ  اٰلٰفٍ  مِّنَ  الْمَلٰٓىٕكَةِ  مُنْزَلِیْنَؕ(۱۲۴)
جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتہ اتار کر،

{اِذْ  تَقُوْلُ  لِلْمُؤْمِنِیْنَ : جب تم مسلمانوں سے فرمارہے تھے۔} شَہَنْشاہِ مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو حوصلہ دیتے ہوئے اور ان کی ہمت بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’تم اپنی ہمت بلند رکھو ، کیا تمہیں یہ کافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد فرمائے ۔ اس کے بعد فرمان ہے کہ تین ہزار فرشتوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اگرتم صبر و تقویٰ اختیار کرو او راس وقت دشمن تم پر حملہ آور ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ پانچ ہزار ممتاز فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد فرمائے گا۔ یہ ایک غیبی خبر تھی جو بعد میں پوری ہوئی اور صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے صبر و تقویٰ کی بدولت اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار فرشتوں کو نازل فرمایا جنہوں نے میدانِ بدر میں مسلمانوں کی مدد کی۔

واقعۂ بدر سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت اور واقعہ سے 3 باتیں معلوم ہوئیں :

(1)… بدر میں شرکت کرنے والے تمام مہاجرین و انصار صابر اور متقی ہیں کیونکہاللہ تعالیٰ نے اپنی مدد اتارنے کیلئے صبر اور تقویٰ کی شرط رکھی تھی اور چونکہ فرشتے بعد میں نازل ہوئے تو اس سے معلوم ہوا کہ شرط پائی گئی تھی ،یعنی صحابۂ  کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے صبر و تقویٰ کا مظاہرہ کیا تھا، لہٰذاصحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے صبر اور تقویٰ پر قرآن گواہ ہے۔

(2)… بدر میں تشریف لانے والے فرشتے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں کہ رب عَزَّوَجَلَّ نے ان پر خاص نشان لگا دئیے تھے جن سے وہ دوسروں سے ممتا ز ہوگئے اور احادیث میں اس کی صراحت بھی موجود ہے کہ بدر میں اترنے والے فرشتے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں۔

(3)… سرورِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت اور مجاہدین کی مدد اعلیٰ عبادت ہے کہ یہ فرشتے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی خدمت اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مدد کیلئے نازل ہوئے اور دوسرے فرشتوں سے افضل قرار پائے۔ لہٰذا حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمتمام مسلمانوں سے افضل ہیں کہ یہ وہ خوش نصیب حضرات ہیں جنہیں حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت نصیب ہوئی۔ حدیث میں ہے’’اللہ تعالیٰ نے اصحابِ بدر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں فرمایا ’’تم جو چاہے عمل کرو تمہارے لئے جنت واجب ہو چکی ہے۔(بخاری، کتاب المغازی، باب فضل من شہد بدرًا، ۳ / ۱۲، الحدیث: ۳۹۸۳)

            شہداء بدر ہی کی فضیلت پر ضمناً دلالت کرنے والی یہ حدیث بھی ملاحظہ ہو۔حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ فرماتے ہیں ’’غزوۂ بدر کے دن حضرت حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید ہو گئے تو ان کی والدہ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ مجھے حارثہ کتنا پیارا تھا، اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کروں اور ثواب کی امید رکھوں اور اگر خدانخواستہ معاملہ برعکس ہے تو آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تجھ پر افسوس ہے ،کیا تو پگلی ہو گئی ہے ؟کیا خدا کی ایک ہی جنت ہے؟ اس کی جنتیں تو بہت ساری ہیں اور بے شک حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنت الفردوس میں ہے۔(بخاری، کتاب المغازی، باب فضل من شہد بدرًا، ۳ / ۱۲، الحدیث: ۳۹۸۲)

3:125
بَلٰۤىۙ-اِنْ  تَصْبِرُوْا  وَ  تَتَّقُوْا  وَ  یَاْتُوْكُمْ  مِّنْ  فَوْرِهِمْ  هٰذَا  یُمْدِدْكُمْ  رَبُّكُمْ  بِخَمْسَةِ  اٰلٰفٍ  مِّنَ  الْمَلٰٓىٕكَةِ  مُسَوِّمِیْنَ(۱۲۵)
ہا ں کیوں نہیں اگر تم صبرو تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا (ف۲۳۰)

3:126
وَ  مَا  جَعَلَهُ  اللّٰهُ  اِلَّا  بُشْرٰى  لَكُمْ  وَ  لِتَطْمَىٕنَّ  قُلُوْبُكُمْ  بِهٖؕ-وَ  مَا  النَّصْرُ  اِلَّا  مِنْ  عِنْدِ  اللّٰهِ  الْعَزِیْزِ  الْحَكِیْمِۙ(۱۲۶)
اور یہ فتح اللہ نے نہ کی مگر تمہاری خوشی کے لئے اور اسی لئے کہ اس سے تمہارے دلوں کو چین ملے (ف۲۳۱) اور مدد نہیں مگر اللہ غالب حکمت والے کے پاس سے (ف۲۳۲)

{وَ  مَا  جَعَلَهُ  اللّٰهُ  اِلَّا  بُشْرٰى  لَكُمْ: اور اللہ نے اس امداد کو صرف تمہاری خوشی کے لئے کیا۔} فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اتار کر جو تمہاری مدد فرمائی وہ صرف تمہاری خوشی کے لئے کی اور اس لئے کہ اس سے تمہارے دلوں کو اطمینان نصیب ہواور دشمن کی کثرت اور اپنی قِلَّت سے تمہیں پریشانی او ربے قراری نہ ہو ۔ مسلمانوں کو ویسے ہی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حقیقی مدد اسباب سے نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے ہوتی ہے لہٰذا چاہئے کہ بندہ صرف اَسباب پر نہیں بلکہ  مُسَبِّبُ الاسباب پر نظر رکھے اور اسی پر توکل کرے۔

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عظمت:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی خوشی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے کہ ان کی خوشی کیلئے ان کی مدد کی گئی۔

3:127
لِیَقْطَعَ  طَرَفًا  مِّنَ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْۤا  اَوْ  یَكْبِتَهُمْ  فَیَنْقَلِبُوْا  خَآىٕبِیْنَ(۱۲۷)
اس لئے کہ کافروں کا ایک حصہ کاٹ دے (ف۲۳۳) یا انہیں ذلیل کرے کہ نامراد پھر جائیں،

{لِیَقْطَعَ  طَرَفًا  مِّنَ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْا: اس لئے کہ وہ کافروں کا ایک حصہ کاٹ دے۔} اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد اس لئے بھی فرمائی کہ کافروں کے بڑے بڑے سردار مارے جائیں ، گرفتار کئے جائیں اور اس کے ذریعے کافروں کی قوت ختم ہو، چنانچہ بدر میں ایسا ہی ہوا۔

3:128
لَیْسَ   لَكَ  مِنَ  الْاَمْرِ  شَیْءٌ  اَوْ  یَتُوْبَ  عَلَیْهِمْ  اَوْ  یُعَذِّبَهُمْ  فَاِنَّهُمْ  ظٰلِمُوْنَ(۱۲۸)
یہ بات تمہارے ہاتھ نہیں یا انہیں توبہ کی توفیق دے یا ان پر عذاب کرے کہ وہ ظالم ہیں،

{لَیْسَ   لَكَ  مِنَ  الْاَمْرِ  شَیْءٌ : اے حبیب! آپ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔} ہجرت کے چوتھے سال صفر کے مہینے میں سرکارِ عالی وقارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ستر قاری صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو مکہ اور عسفان کے درمیان ایک جگہ بئر معونہ کی طرف بھیجا تاکہ وہاں لوگوں کو قرآنِ پاک اور دینی مسائل کی تعلیم دیں ، عامر بن طفیل نے دھوکے سے انہیں شہید کر دیا، ان کافروں کے خلاف حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بربادی کی دعا کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روک دیا، اس کے متعلق یہ آیتِ کریمہ اتری ۔(صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۱ / ۳۱۱-۳۱۲، مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ص۱۸۴، ملتقطاً)

            اور فرمادیا گیا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کیلئے کوئی دعا نہ کریں۔ ان کا معاملہ اللہ  تعالیٰ پر چھوڑ دیں ، اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں توبہ کی توفیق دے اور چاہے تو عذاب دے۔ یہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی وہ مبارک تربیت ہے جو ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّنے خود فرمائی اور ہرجگہ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کامل رہنمائی فرمائی۔

3:129
وَ  لِلّٰهِ  مَا  فِی  السَّمٰوٰتِ  وَ  مَا  فِی  الْاَرْضِؕ-یَغْفِرُ  لِمَنْ  یَّشَآءُ  وَ  یُعَذِّبُ  مَنْ  یَّشَآءُؕ-وَ  اللّٰهُ  غَفُوْرٌ  رَّحِیْمٌ۠(۱۲۹)
اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب کرے، اور اللہ بخشنے والا مہربان،

3:130
یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  لَا  تَاْكُلُوا  الرِّبٰۤوا  اَضْعَافًا  مُّضٰعَفَةً۪-  وَّ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  لَعَلَّكُمْ  تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰)
اے ایمان والوں سود دونا دون نہ کھاؤ (ف۲۳۴) اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے،

{ لَا  تَاْكُلُوا  الرِّبٰۤوا  اَضْعَافًا  مُّضٰعَفَةً: دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ۔} اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا۔ زمانۂ جاہلیت میں سود کی ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی، اگر اس وقت مقروض ادا نہ کرپاتا تو قرض خواہ سود کی مقدار میں اضافہ کردیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا رہتا۔ اسے دُگنا دَر دُگنا کہا جارہا ہے۔

سود سے متعلق وعیدیں :

سود حرامِ قطعی ہے، اسے حلال جاننے والا کافر ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ سورۂ بقرہ کی آیت 275 ،276 ،278 میں بھی سود کی حرمت کا بیان موجود ہے اور حدیث میں ہے۔

(1)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب لعن آکل الرباومؤکلہ، ص ۸۶۲، الحدیث: ۱۰۶(۱۵۹۹))

(2)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زناکرے۔(مستدرک، کتاب البیوع، انّ اربی الربا عرض الرجل المسلم، ۲ / ۳۳۸، الحدیث: ۲۳۰۶)

(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے ۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، ۴ / ۳۹۵، الحدیث: ۵۵۲۳)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر  سے نظر آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا، ۳ / ۷۱، الحدیث: ۲۲۷۳)

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہِ کبیرہ کرلینے سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ یہاں سود کی حرمت بیان کرتے ہوئے لوگوں سے ’’اے ایمان والو‘‘ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔ [1]


[1] …سود سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے رسالہ’’سوداوراس کاعلاج‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔

3:131
وَ  اتَّقُوا  النَّارَ  الَّتِیْۤ  اُعِدَّتْ  لِلْكٰفِرِیْنَۚ(۱۳۱)
اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار رکھی ہے (ف۲۳۵)

{وَ  اتَّقُوا  النَّارَ : اور اس آگ سے بچو۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: اس آیت میں ایمانداروں کو تہدید (دھمکی) ہے کہ سود وغیرہ جو چیزیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حرام فرمائی ہیں ان کو حلال نہ جانیں کیونکہ حرام قطعی کو حلال جاننا کفر ہے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۱ / ۳۰۰)

3:132
وَ  اَطِیْعُوا  اللّٰهَ  وَ  الرَّسُوْلَ  لَعَلَّكُمْ  تُرْحَمُوْنَۚ(۱۳۲)
اور اللہ و رسول کے فرمانبردار رہو (ف۲۳۶) اس امید پر کہ تم رحم کیے جاؤ،

{وَ  اَطِیْعُوا  اللّٰهَ  وَ  الرَّسُوْلَ : اوراللہ اور رسول کی فرمانبردار ی کرتے رہو ۔} فرمایا گیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو اور یہ بات یقینی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی اطاعت اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کو کہتے ہیں ،رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نافرمانی کرنے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا فرمانبردار نہیں ہوسکتا۔

3:133
وَ  سَارِعُوْۤا  اِلٰى  مَغْفِرَةٍ  مِّنْ  رَّبِّكُمْ  وَ  جَنَّةٍ  عَرْضُهَا  السَّمٰوٰتُ  وَ  الْاَرْضُۙ-اُعِدَّتْ  لِلْمُتَّقِیْنَۙ(۱۳۳)
اور دوڑو (ف۲۳۷) اپنے رب کی بخشش اور ایسی جنت کی طرف جس کی چوڑان میں سب آسمان و زمین پرہیزگاروں کے لئے تیار کر رکھی ہے

{وَ  سَارِعُوْۤا  اِلٰى  مَغْفِرَةٍ  مِّنْ  رَّبِّكُمْ : اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو۔} فرمایا گیا کہ گناہوں سے توبہ کرکے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرائض کو ادا کرکے، نیکیوں پر عمل پیرا ہوکر اور تمام اعمال میں اخلاص پید اکرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بخشش اور جنت کی طرف جلدی کرو۔ پھر جنت کی وسعت اس طرح بیان فرمائی کہ لوگ سمجھ سکیں کیونکہ لوگ جو سب سے وسیع چیز دیکھتے ہیں وہ آسمان و زمین ہی ہے، اس سے وہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگرتمام آسمانوں اور زمینوں کوترتیب سے ایک لائن میں رکھ کرجوڑ دیا جائے تو جو وسعت بنے گی اُس سے جنت کی چوڑائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنت کتنی وسیع ہے ۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے دریافت کیا گیا کہ جنت آسمان میں ہے یا زمین میں ؟ فرمایا: کون سی زمین اور کون سا آسمان ایسا ہے جس میں جنت سما سکے۔ عرض کیا گیا :پھر کہاں ہے؟ فرمایا: آسمانوں کے اوپر ، عرش کے نیچے۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳۳، ۱ / ۳۰۱)

            جنت نہایت عظیمُ الشان جگہ ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دیدارکا مقام ہے۔ قرآنِ پاک میں جنت کی عظمت کو بکثرت بیان کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے ہمیں جنت الفردوس میں اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پڑوس نصیب فرمائے۔ یہ بات بھی سامنے رکھیں کہ اس آیت اور اس سے اوپر کی آیت ’’وَ  اتَّقُوا  النَّارَ  الَّتِیْۤ  اُعِدَّتْ  لِلْكٰفِرِیْنَ‘‘ سے ثابت ہوا کہ جنت و دوزخ پیدا ہوچکی ہیں اور دونوں موجود ہیں کیونکہ دونوں آیتوں میں ماضی کے زمانے میں جنت و دوزخ کے تیار ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

3:134
الَّذِیْنَ  یُنْفِقُوْنَ  فِی  السَّرَّآءِ  وَ  الضَّرَّآءِ  وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ-وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴)
(ف۲۳۹) وہ جو اللہ کے راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں (ف۲۴۰) اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے، اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں،

{اَلَّذِیْنَ  یُنْفِقُوْنَ  فِی  السَّرَّآءِ  وَ  الضَّرَّآءِ : وہ جو خوشحالی اور تنگدستی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔} آیتِ مبارکہ میں متقین کے چار اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ (1) خوشحالی اور تنگدستی دونوں حال میں اللہتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا، (2) غصہ پی جانا، (3) لوگوں کو معاف کردینا، (4) احسان کرنا۔

راہِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب:

            راہ خدا میں خرچ کرنے کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَهُوَ یُخْلِفُهٗۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ (سبا:۳۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والاہے۔

 اور ارشاد فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ(۲۹) لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ (فاطر: ۲۹، ۳۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے پوشیدہ اوراعلانیہ کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو ہرگز تباہ نہیں ہوگی ۔تاکہ اللہ انہیں ان کے ثواب بھرپور دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ عطا کرے بیشک وہ بخشنے والا، قدر فرمانے والا ہے۔

اور بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’خرچ کرو تم پر خرچ کیا جائے گا ۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب وکان عرشہ علی الماء، ۳ / ۲۴۵، الحدیث: ۴۶۸۴، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی النفقۃ وتبشیر المنفق بالخلف، ص۴۹۸، الحدیث: ۳۶(۹۹۳))

یعنی تم خدا عَزَّوَجَلَّکی راہ میں خرچ کرو ،تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے ملے گا۔

غصے پر قابو پانے کے چار فضائل:

احادیث میں غصے پر قابو پانے کے کثیر فضائل مذکور ہیں ان میں سے 4فضائل درج ذیل ہیں۔

(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھے۔(بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، ۴ / ۱۳۰، الحدیث: ۶۱۱۴)

(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنی زبان کو محفوظ رکھے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّاس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جو اپنے غصے کو روکے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا عذاب اس سے روک دے گا اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عذر کرے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے عذر کو قبول فرمائے گا۔(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان، فصل فی ترک الغضب۔۔۔ الخ، ۶ / ۳۱۵، الحدیث: ۸۳۱۱)

(3)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’جو اپنے غصہ میں مجھے یاد رکھے گا میں اسے اپنے جلال کے وقت یاد کروں گا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اسے ہلاک نہ کروں گا۔(فردوس الاخبار، باب القاف، ۲ / ۱۳۷، الحدیث: ۴۴۷۶)

(4)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے بندے نے غصہ کا گھونٹ پیا، اس سے بڑھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک کوئی گھونٹ نہیں(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان، فصل فی ترک الغضب۔۔۔ الخ، ۶ / ۳۱۴، الحدیث: ۸۳۰۷)۔[1]

عفو و درگزر کے فضائل:

احادیث میں عفوو درگزر کے بھی کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے دو فضائل درجِ ذیل ہیں۔

(1)…حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں ) محل بنایا جائے اور ا س کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کر ے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔(مستدرک، کتاب التفسیر، شرح آیۃ: کنتم خیر امّۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۲، الحدیث: ۳۲۱۵)

(2)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک مُنادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پھر دوسری بار اعلان کرے گا کہ جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے۔منادی کہے گا : ان کا جو لوگوں (کی خطاؤں ) کو معاف کرنے والے ہیں۔ پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا:جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۵۴۲، الحدیث: ۱۹۹۸)

حلم وعفو کے دو عظیم واقعات:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، اچانک ایک دیہاتی نے آپ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپ کی مبارک گردن پر خراش آ گئی۔ وہ کہنے لگا:اللہ تعالیٰ کاجو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیے کہ اس میں سے کچھ مجھے مل جائے۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دئیے،پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔(بخاری، کتاب فرض الخمس، باب ما کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعطی المؤلفۃ قلوبہم۔۔۔الخ، ۲ / ۳۵۹، الحدیث: ۳۱۴۹)

(2)…امام زین العابدین علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی لونڈی وضو کرواتے ہوئے ان پر پانی ڈال رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے برتن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے چہرے پر گر گیا جس سے چہرہ زخمی ہو گیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ’’اور غصہ پینے والے‘‘ امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: میں نے اپنا غصہ پی لیا۔ اس نے پھر عرض کی: وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِ’’اور لوگوں سے در گزر کرنے والے‘‘ ارشادفرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے۔ پھر عرض گزار ہوئی: وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَ’’اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ ارشاد فرمایا: جا ! تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔(ابن عساکر، ذکر من اسمہ علی، علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب، ۴۱ / ۳۸۷)


[1] …غصے کی عادت ختم کرنے کے لئے امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’غصے کا علاج‘‘ پڑھنا بہت فائدہ مند ہے۔

3:135
وَ  الَّذِیْنَ  اِذَا  فَعَلُوْا  فَاحِشَةً  اَوْ  ظَلَمُوْۤا  اَنْفُسَهُمْ  ذَكَرُوا  اللّٰهَ  فَاسْتَغْفَرُوْا  لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ  مَنْ  یَّغْفِرُ  الذُّنُوْبَ  اِلَّا  اللّٰهُ  ﳑ  وَ  لَمْ  یُصِرُّوْا  عَلٰى  مَا  فَعَلُوْا  وَ  هُمْ  یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵)
اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں (ف۲۴۱) اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں (ف۲۴۲) اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے، اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اڑ نہ جائیں،

{ذَكَرُوا  اللّٰهَ  فَاسْتَغْفَرُوْا  لِذُنُوْبِهِمْ: اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔} پرہیزگاروں کے اوصاف  کا بیان جاری ہے اوریہاں ان کا مزید ایک وصف بیان فرمایا، وہ یہ کہ اگر اُن سے کوئی کبیرہ یا صغیرہ گناہ سرزد ہوجائے تو وہ فوراً اللہ عَزَّوَجَلَّ کو یاد کرکے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ، اپنے گناہ پر شرمندہ ہوتے ہیں اور اسے چھوڑ دیتے ہیں اور آئندہ کیلئے اس سے باز رہنے کا پختہ عزم کرلیتے ہیں اور اپنے گناہ پر اِصرار نہیں کرتے اور یہی مقبول توبہ کی شرائط ہیں۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ’’ تیہان نامی ایک کھجور فروش کے پاس ایک حسین عورت کھجوریں خریدنے آئی۔ دکاندار نے کہا کہ یہ کھجوریں اچھی نہیں ہیں ، بہترین کھجوریں گھر میں ہیں ، یہ کہہ کراس عورت کو گھر لے گیا اور وہاں جا کر اس کا بوسہ لے لیااور اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ اس عورت نے کہا : اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر۔ یہ سنتے ہی تیہان نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور شرمندہ ہو کر حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں سارا ماجرا عرض کیا۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ ایک روایت یہ ہے کہ’’ دو شخصوں میں بڑا پیار تھا، ان میں سے ایک جہاد کے لئے گیااور اپنا گھر بار دوسرے کے سپرد کر گیا۔ ایک روز اُس مجاہد کی بیوی نے اُس انصاری سے گوشت منگایا ، وہ آدمی گوشت لے آیا،جب اُس مجاہد کی بیوی نے گوشت لینے کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا تواس نے ہاتھ چوم لیالیکن چومتے ہی اسے سخت شرمندگی ہوئی اور وہ جنگل میں نکل گیا اور منہ پر طمانچے مارنا اور سرپر خاک ڈالنا شروع کردی۔ جب وہ مجاہد اپنے گھر واپس آیا تو اپنی بیوی سے اپنے اُس دوست کا حال پوچھا۔ عورت بولی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسے دوست سے بچائے۔ وہ مجاہد اُس کو تلاش کرکے حضور سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں لایا۔ اس کے حق میں یہ آیات اتریں۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳۵، ۱ / ۳۰۲)ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں واقعے اس آیت کا شانِ نزول ہوں۔

3:136
اُولٰٓىٕكَ  جَزَآؤُهُمْ  مَّغْفِرَةٌ  مِّنْ  رَّبِّهِمْ  وَ  جَنّٰتٌ  تَجْرِیْ  مِنْ  تَحْتِهَا  الْاَنْهٰرُ  خٰلِدِیْنَ  فِیْهَاؕ-وَ  نِعْمَ  اَجْرُ  الْعٰمِلِیْنَؕ(۱۳۶)
ایسوں کو بدلہ ان کے رب کی بخشش اور جنتیں ہیں (ف۲۴۳) جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں اور کامیوں (نیک لوگوں) کا اچھا نیگ (انعام، حصہ) ہے (ف۲۴۴)

3:137
قَدْ  خَلَتْ  مِنْ  قَبْلِكُمْ  سُنَنٌۙ-فَسِیْرُوْا  فِی  الْاَرْضِ   فَانْظُرُوْا  كَیْفَ  كَانَ  عَاقِبَةُ  الْمُكَذِّبِیْنَ(۱۳۷)
تم سے پہلے کچھ طریقے برتاؤ میں آچکے ہیں (ف۲۴۵) تو زمین میں چل کر دیکھو کیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا (ف۲۴۶)

{قَدْ  خَلَتْ  مِنْ  قَبْلِكُمْ  سُنَنٌ: تم سے پہلے کئی طریقے گزر چکے ہیں۔} اس آیت میں فرمایا گیا کہ اے لوگو! کافروں کو شروع میں مہلت دینے اور پھر ان کی گرفت کرنے کے حوالے سے تم سے پہلے بھی کئی طریقے گزر چکے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے دنیا کی حرص اور اس کی لذّات کی طلب میں انبیاء و مرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر بھی مہلتیں عطا فرمائیں۔ اس کے باوجود وہ راہ ِراست پر نہ آئے تو انہیں ان کے اعمال کے سبب مختلف عذابوں کے ذریعے ہلاک و برباد کردیا۔ تو اے لوگو! ان زمینوں کی طرف سفر کرو جہاں پہلے کفار آباد تھے جنہوں نے اپنے رسولوں کی مخالفت کی، جس کی وجہ سے ان پر عذابِ الٰہی آیا اور وہ تباہ کر دئیے گئے۔ ان کی اجڑی بستیاں دیکھ کر عبرت پکڑو اور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاؤ۔ یاد رہے کہ عبرت و نصیحت اور صحیح مقصد کیلئے سیر و سیاحت کرنے میں بہت فوائد ہیں۔ نیزیہ بھی یاد رکھیں کہ جیسے عذاب کی جگہ جاکر عبرت حاصل ہوتی ہے ایسے ہی رحمت کی جگہ جاکر برکت و نصیحت حاصل ہوتی ہے۔ جیسے کسی ولی کے مزار پر جائیں تو جاکر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ  تعالیٰ اپنے پیاروں کی دنیا میں ہی کیسی عزت افزائی فرماتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی کیسی محبت ڈال دیتا ہے؟ اس لئے ایسی رحمت والی جگہوں پر بھی برکت و نصیحت کیلئے جانا چاہیے۔

3:138
هٰذَا  بَیَانٌ  لِّلنَّاسِ   وَ  هُدًى  وَّ  مَوْعِظَةٌ  لِّلْمُتَّقِیْنَ(۱۳۸)
یہ لوگوں کو بتانا اور راہ دکھانا اور پرہیزگاروں کو نصیحت ہے،

{هٰذَا  بَیَانٌ  لِّلنَّاسِ   وَ  هُدًى: یہ لوگوں کے لئے ایک بیان اور رہنمائی ہے۔} قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت اور نصیحت کیلئے نازل فرمایا لہٰذا قرآن کا حق ہے کہ اس کی تلاوت کے وقت اس پہلو کو بھی سامنے رکھا جائے اور اس میں مذکور اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کرنے والی قوموں کا انجام،قیامت کی سختیاں اور جہنم کے دردناک عذابات وغیرہ کے بارے میں پڑھ کر عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

3:139
وَ  لَا  تَهِنُوْا  وَ  لَا  تَحْزَنُوْا  وَ  اَنْتُمُ  الْاَعْلَوْنَ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ(۱۳۹)
اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ (ف۲۴۷) تم ہی غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو،

{وَ  لَا  تَهِنُوْا : اور سستی نہ کرو۔} غزوۂ احد میں نقصان اٹھانے کے بعد مسلمان بہت غمزدہ تھے اور اس کی وجہ سے بعض کے دل سستی کی طرف مائل تھے۔ ان کی اصلاح کے لئے فرمایا کہ جنگ اُحد میں جو تمہارے ساتھ پیش آیاہے اس کی وجہ سے غم نہ کرو اور سستی کا مظاہرہ نہ کرو ۔ جنگ بدر میں شکست کے باوجود ان کافروں نے ہمت نہ ہاری اور تم سے مقابلہ کرنے میں سُستی سے کام نہ لیا تو تمہیں بھی سُستی اور کم ہمتی نہیں کرنی چاہئے لہٰذا تم ہمت جواں رکھو۔ اگر تم سچے ایمان والے ہو اور اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنے والے ہو تو بالاخر تم ہی کامیاب ہوگے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس حکم پر عمل کر کے دکھایا اور خلفائے راشدین کے زمانہ مبارکہ میں مسلمانوں کو ہر طرف فتح و نصرت حاصل ہوئی۔

3:140
اِنْ  یَّمْسَسْكُمْ  قَرْحٌ  فَقَدْ  مَسَّ  الْقَوْمَ  قَرْحٌ  مِّثْلُهٗؕ-وَ  تِلْكَ  الْاَیَّامُ  نُدَاوِلُهَا  بَیْنَ  النَّاسِۚ-وَ  لِیَعْلَمَ  اللّٰهُ  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  وَ  یَتَّخِذَ  مِنْكُمْ  شُهَدَآءَؕ-وَ  اللّٰهُ  لَا  یُحِبُّ  الظّٰلِمِیْنَۙ(۱۴۰)
اگر تمہیں (ف۲۴۸) کوئی تکلیف پہنچی تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف پاچکے ہیں (ف۲۴۹) اور یہ دن ہیں جن میں ہم نے لوگوں کے لیے باریاں رکھی ہیں (ف۲۵۰) اور اس لئے کہ اللہ پہچان کرادے ایمان والوں کی (ف۲۵۱) اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ دے اور اللہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو،

{اِنْ  یَّمْسَسْكُمْ  قَرْحٌ: اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے۔} اس آیت کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ اے مسلمانو! یاد رکھو کہ اگر اِس وقت میدانِ احد میں تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف اس سے پہلے میدانِ بدر میں پاچکے ہیں اور یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں کہ کبھی ایک کی فتح ہوتی ہے تو کبھی دوسرے کی۔ نیز یہ بھی یاد رکھو کہ کبھی کبھار جوکافروں کو غلبہ حاصل ہوجاتا ہے تووہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی پہچان کروانا چاہتا ہے کہ ان میں کون ہر حال میں صبر و استقامت کا پیکر رہتا ہے اور کون بزدل بنتا ہے نیز کافروں کی فتح کے ذریعے اللہ تعالیٰ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ عطافرمانا چاہتا ہے تو کافروں کے غلبے میں بھی بہت سی حکمتیں ہوتی ہیں ، لہٰذا ہر حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّکی رضا پر راضی رہو۔ درس: یہاں آیاتِ مبارکہ میں مسلمانوں کو بار بار بلند ہمت، باحوصلہ، چست اور ہوشیار ہونے کا فرمایا ہے اور کم ہمتی، سستی و کاہلی سے منع فرمایا ہے۔

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان

گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

3:141
وَ  لِیُمَحِّصَ   اللّٰهُ  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  وَ  یَمْحَقَ  الْكٰفِرِیْنَ(۱۴۱)
اور اس لئے کہ اللہ مسلمانوں کا نکھار کردے (ف۲۵۲) اور کافروں کو مٹادے (ف۲۵۳)

{وَ  لِیُمَحِّصَ   اللّٰهُ : اوراس لئے کہ اللہ  نکھار دے۔} کافروں سے جہاد کی ایک اور حکمت بیان کی جارہی ہے کہ کافروں سے جو مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچتی ہیں وہ تو مسلمانوں کے لئے شہادت اورپاکیزگی کا ذریعہ بنتی ہیں جبکہ مسلمان جن کفار کو قتل کرتے ہیں تو یہ کفار کی بربادی کا ذریعہ بنتا ہے۔

3:142
اَمْ  حَسِبْتُمْ  اَنْ  تَدْخُلُوا  الْجَنَّةَ  وَ  لَمَّا  یَعْلَمِ  اللّٰهُ  الَّذِیْنَ  جٰهَدُوْا  مِنْكُمْ  وَ  یَعْلَمَ  الصّٰبِرِیْنَ(۱۴۲)
کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی اللہ نے تمہارے غازیوں کا امتحان نہ لیا اور نہ صبر والوں آزمائش کی(ف۲۵۴)

{اَمْ  حَسِبْتُمْ  اَنْ  تَدْخُلُوا  الْجَنَّةَ : کیا تم اس گمان میں ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے؟ }یہاں مسلمان پر آنے والی آزمائشوں کی حکمت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر تمہیں آزمائشیں آتی ہیں تو اس پر بے قرار اور حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں کہ ہم تو مسلمان ہیں ، ہمیں اللہ تعالیٰ کیوں تکلیفوں میں مبتلا فرما رہا ہے؟یاد رکھو کہ تمہارا امتحان کیا جائے گا، تمہیں ایمان کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لئے کیسے زخم کھاتے اور تکلیف اُٹھاتے ہو اور کتنا ثابت قدم رہتے ہو۔ تھوڑی سی تکلیف پر چِلّا اٹھنا اور دہائی دینا شروع کردینا ایمان والوں کا شیوہ نہیں۔ جنت میں داخلہ مطلوب ہے تو ان آزمائشوں پر پورا اترنا پڑے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں قربانی دینا پڑے گی اور ہر حال میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔

زباں پہ شکوہِ رنج و اَلَم لایا نہیں کرتے

      نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے

             اِس میں اُن لوگوں کو سرزنش (تنبیہ) ہے جو اُحد کے دن کفار کے مقابلہ سے بھاگے تھے۔نیز اس آیت کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے اعمال اور اپنی حالت پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر ہمیں راہِ خدا میں اپنا مال یا وقت دینا پڑے تو ہم اس میں کتنا پورا اترتے ہیں ؟ افسوس کہ ہماری حالت کچھ اچھی نہیں۔ فضولیات میں خرچ کرنے کیلئے پیسہ بھی ہے اور وقت بھی لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرتے وقت نہ پیسہ باقی رہتا ہے اور نہ وقت۔

            تنبیہ: آیت میں علم کا لفظ ہے ، یہاں اس سے مراد آزمائش کرنا ہے۔

3:143
وَ  لَقَدْ  كُنْتُمْ  تَمَنَّوْنَ  الْمَوْتَ  مِنْ  قَبْلِ  اَنْ  تَلْقَوْهُ۪-فَقَدْ  رَاَیْتُمُوْهُ  وَ  اَنْتُمْ  تَنْظُرُوْنَ۠(۱۴۳) 
اور تم تو موت کی تمنا کیا کرتے تھے اس کے ملنے سے پہلے (ف۲۵۵) تو اب وہ تمہیں نظر آئی آنکھوں کے سامنے،

{وَ  لَقَدْ  كُنْتُمْ  تَمَنَّوْنَ  الْمَوْتَ : اورتم موت کی تمنا کیا کرتے تھے۔} جب بدر کے شہداء کے درجے اور مرتبے اور ان پراللہ تعالیٰ کے انعام و احسان بیان فرمائے گئے تو جو مسلمان غزوہ بدر میں شریک نہ ہوئے تھے انہیں حسرت ہوئی اور انہوں نے آرزو کی کہ کاش کسی جہاد میں انہیں حاضری میسر آئے اور شہادت کے درجات ملیں ، اِنہی لوگوں نے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اُحد پر جانے کے لئے اِصرار کیا تھا اُن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ۔(مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ص۱۸۸)

کہ پہلے توشہادت کی موت کی تمنا کرتے تھے مگرجب میدانِ جنگ میں پہنچے تو بھاگنے لگے، یہ کیا ہے؟ یہ گویا ان کی تفہیم ہے یعنی انہیں سمجھایا گیا ہے۔

3:144
وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ-قَدْ  خَلَتْ  مِنْ  قَبْلِهِ  الرُّسُلُؕ-اَفَاۡىٕنْ  مَّاتَ  اَوْ  قُتِلَ  انْقَلَبْتُمْ  عَلٰۤى  اَعْقَابِكُمْؕ-وَ  مَنْ  یَّنْقَلِبْ  عَلٰى  عَقِبَیْهِ  فَلَنْ  یَّضُرَّ  اللّٰهَ  شَیْــٴًـاؕ-وَ  سَیَجْزِی  اللّٰهُ  الشّٰكِرِیْنَ(۱۴۴)
اور محمد تو ایک رسول (ف۲۵۶) ان سے پہلے اور رسول ہوچکے (ف۲۵۷) تو کیا اگر وہ انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤں گے اور جو الٹے پاؤں پھرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، اور عنقریب اللہ شکر والوں کو صلہ دے گا،

{وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌ: اور محمد تو ایک رسول ہی ہیں۔} شانِ نزول: جنگ اُحد میں جب کافروں نے شور مچایا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شہید ہوگئے اور شیطان نے یہ جھوٹی اَفواہ مشہور کردی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بہت اِضطراب ہوا اور ان میں سے کچھ لوگ میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے لیکن پھر جب ندا کی گئی کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ صحیح سلامت تشریف رکھتے ہیں تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت واپس آگئی۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں یوں بھاگ جانے پر ملامت کی تواُنہوں نے عرض کیا : ہمارے ماں ، باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فدا ہوں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شہادت کی خبر سن کر ہمارے دِل ٹوٹ گئے اور ہم سے ٹھہرا نہ گیا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۴۴، ۳ / ۳۷۶)

اور فرمایا گیا کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد بھی امتوں پر اُن کے دین کی پیروی لازم رہتی ہے تو اگر ایسا ہوتا بھی کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَشہید ہوجاتے یا ان کا وصال ہوجاتا توبھی حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین کی پیروی اور اس کی حمایت لازم رہتی کیونکہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرے ہیں لیکن ان کے پیروکار اُن کے بعد اُن کے دین پر قائم رہے ۔ رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بعثت کا مقصد تورسالت کی تبلیغ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کاپیغام پہنچانا ہوتا ہے نہ کہ اپنی قوم کے درمیان ہمیشہ موجود رہنا،تو جیسے پہلے رسول گزر گئے اسی طرح حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی دنیا سے تشریف لے جائیں گے لہٰذا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دین پر ثابت قدم رہو۔ یہ کیا بات ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے تشریف لے جانے کے بعد ان کے دین ہی سے پھرجاؤ۔ جو ایسا کرے گا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا تو کچھ نہیں بگاڑے گا بلکہ اپنا ہی نقصان کرے گا جبکہ جو دین اسلام سے نہ پھرے اور اپنے دین پر ثابت رہے وہ شکرگزاروں میں شمار کیا جائے گا کیونکہ اُنہوں نے اپنی ثابت قدمی سے نعمت ِاسلام کا شکر ادا کیا، ایسے لوگ اللہ تعالیٰ سے ثواب وجزا کے امیدوار ہیں۔

3:145
وَ  مَا  كَانَ  لِنَفْسٍ  اَنْ  تَمُوْتَ  اِلَّا  بِاِذْنِ  اللّٰهِ  كِتٰبًا  مُّؤَجَّلًاؕ-وَ  مَنْ  یُّرِدْ  ثَوَابَ  الدُّنْیَا  نُؤْتِهٖ  مِنْهَاۚ-وَ  مَنْ  یُّرِدْ  ثَوَابَ  الْاٰخِرَةِ  نُؤْتِهٖ  مِنْهَاؕ-وَ  سَنَجْزِی  الشّٰكِرِیْنَ(۱۴۵)
اور کوئی جان بے حکم خدا مر نہیں سکتی (ف۲۵۹) سب کا وقت لکھا رکھا ہے (ف۲۶۰) اور دنیا کا انعام چاہے ۰ف۲۶۱) ہم اس میں سے اسے دیں اور جو آخرت کا انعام چاہے ہم اس میں سے اسے دیں (ف۲۶۲) اور قریب ہے کہ ہم شکر والوں کو صلہ عطا کریں،

{كِتٰبًا  مُّؤَجَّلًا: سب کا وقت لکھا ہوا ہے۔} اس آیت میں جہاد کی ترغیب ہے اور مسلمانوں کو دُشمن کے مقابلہ پر جری بنایا جارہا ہے کہ کوئی شخص بغیر حکمِ الٰہی کے مر نہیں سکتا، چاہے وہ کتنی ہی ہلاکت خیزلڑائی میں شرکت کرے اورکتنے ہی تباہ کن میدانِ جنگ میں داخل ہوجائے ، جبکہ اس کے برعکس جب موت کا وقت آتا ہے تو کوئی تدبیر نہیں بچاسکتی خواہ وہ ہزاروں پہرے دار اور محافظ مقرر کرلے اور قلعوں میں جاچھپے کیونکہ ہر ایک کی موت کا وقت لکھا ہوا ہے ،وہ وقت آگے پیچھے نہیں ہوسکتا ۔

{وَ  مَنْ  یُّرِدْ  ثَوَابَ  الدُّنْیَا: اور جو دنیا کا انعام چاہتا ہے۔} یہاں سے لوگوں کے دو گروہوں کا تذکرہ شروع ہوتا ہے اور فرمایا جاتا ہے کہ جو شخص صرف دنیاکی نعمتیں اور آسائشیں چاہتا ہے اور اس کے عمل سے صرف دنیا کا حصول مقصود ہوتا ہے ہم اسے دنیا دیدیتے ہیں یعنی اُس کے عمل پر اُسے دنیا کا فائدہ مل جاتا ہے اور چونکہ آخرت اس کا مطلوب نہیں لہٰذا آخرت کے ثواب سے وہ محروم رہتا ہے۔ جبکہ جو شخص اپنے عمل سے آخرت کا طالب ہوتا ہے اسے اُخروی ثواب عطا فرمایا جاتا ہے اور دنیا تو سب کو مل ہی جاتی ہے۔

اعمال کے ثواب کا دارو مدار نیت پر ہے:

            اس سے معلوم ہوا اعمال میں دارومدار نیت پر ہے جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث ہے ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتْ‘‘ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔(بخاری، کتاب بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۵، الحدیث: ۱)

            جیسے یہاں جہاد کی بات چل رہی ہے تو جس کا مقصد جہاد سے صرف شہرت ، دولت اور مالِ غنیمت ہوگا ، ہوسکتا ہے کہ اسے یہ چیزیں مل جائیں لیکن آخرت کا ثواب ہرگز نہیں ملے گا جبکہ اگر وہ آخرت کا طلبگارہو تو آخرت کا ثواب تو اسے ملے گا ، اس کے ساتھ وہ عزت و شہرت اور مالِ غنیمت سے بھی محروم نہیں رہے گا۔

3:146
وَ  كَاَیِّنْ  مِّنْ  نَّبِیٍّ  قٰتَلَۙ-مَعَهٗ  رِبِّیُّوْنَ  كَثِیْرٌۚ-فَمَا  وَ  هَنُوْا  لِمَاۤ  اَصَابَهُمْ  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  وَ  مَا  ضَعُفُوْا  وَ  مَا  اسْتَكَانُوْاؕ-وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الصّٰبِرِیْنَ(۱۴۶)
اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا ان کے ساتھ بہت خدا والے تھے، تو نہ سست پڑے ان مصیبتوں سے جو اللہ کی راہ میں انہیں پہنچیں اور نہ کمزور ہوئے اور نہ دبے (ف۲۶۳) اور صبر والے اللہ کو محبوب ہیں،

{وَ  كَاَیِّنْ  مِّنْ  نَّبِیٍّ  قٰتَلَ:اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا۔} مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا جارہا ہے اور انہیں بتایا جارہا ہے کہ تم سے پہلے بہت سے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاد کیا، ان کے ساتھ ان کے صحابہ بھی ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے جہاد کی تکالیف کے باوجود ہمت نہ ہاری اور کمزوری نہ دکھائی اور کافروں کے سامنے پَسپائی کا مظاہرہ نہ کیا بلکہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّمیں ڈٹے رہے اور مردانہ وار تمام تکالیف و مصائب کو برداشت کرتے رہے اور صبر و استقامت کے پیکر بنے رہے تو اے مسلمانو! تم تو وہ ہو کہ تمہارے نبی اُن تمام نبیوں کے سردار ہیں اور تم اُن تمام امتوں سے افضل ہو تو چاہیے کہ تمہاری بہادری اور استقامت ان سے زیادہ ہو، تمہاری ہمت اور حوصلہ ان سے بڑھ کر ہو، تم میں صبر کا مادہ ان سے زیادہ ہو، لہٰذا تم بھی اپنے اندر وہی اوصاف پیدا کرو۔اس آیت کے شروع میں بیان ہوا کہ بہت سے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاد کیا اور ان کے ساتھ رَبّانی لوگ تھے۔ دونوں چیزوں کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جہاد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے شرو ع ہوا، سب سے پہلے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاد فرمایا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے کسی نبی نے جہاد نہ کیا تھا۔ البتہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد بہت سے پیغمبروں کی شریعت میں جہاد تھا جیسے حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت یوشععَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وغیرہا اور ربانی لوگوں سے مراد علماء، مشائخ اور متقی لوگ ہیں جو اللہ عَزَّوَجَلَّکو راضی کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۲ / ۱۰۰)

آیت’’وَ  كَاَیِّنْ  مِّنْ  نَّبِیٍّ‘‘ سے حاصل ہونے والا درس:

            اس آیتِ مبارکہ میں بہت سے درس ہیں ،ان میں سے 2یہ ہیں :

(1)… افضل کو افضل نیکیاں کرنی چاہئیں ، وہ تمام ماتحتوں سے عمل میں بڑھ کر ہونا چاہیے، لہٰذا سیدوں ، عالموں اور پیروں کو دوسروں سے زیادہ نیک ہونا چاہیے۔

(2)… دوسروں کے اعمال دکھا کر، سنا کرکسی کو جوش دِلانا سنت ِالٰہیہ ہے بلکہ تاریخی حالات کا جاننا اس نیت سے بہت بہتر ہے۔ اسی لئے مختلف محفلوں ، عرسوں ، بزرگانِ دین کے ایام میں ان کی عبادت و ریاضت، زہد وتقویٰ کے واقعات بیان کئے جاتے ہیں تاکہ عمل کا جذبہ پیدا ہو۔

3:147
وَ  مَا  كَانَ  قَوْلَهُمْ  اِلَّاۤ  اَنْ  قَالُوْا  رَبَّنَا  اغْفِرْ  لَنَا  ذُنُوْبَنَا  وَ  اِسْرَافَنَا  فِیْۤ  اَمْرِنَا  وَ  ثَبِّتْ  اَقْدَامَنَا  وَ  انْصُرْنَا  عَلَى  الْقَوْمِ  الْكٰفِرِیْنَ(۱۴۷)
اور وہ کچھ بھی نہ کہتے تھے سوا اس دعا کے (ف۲۶۴) کہ اے ہمارے رب بخش دے ہمارے گناہ اور جو زیادتیاں ہم نے اپنے کام کیں (ف۲۶۵) اور ہمارے قدم جما دے اور ہمیں ان کافر لوگوں پر مدد دے(ف۲۶۶)

{وَ  مَا  كَانَ  قَوْلَهُمْ  اِلَّاۤ  اَنْ  قَالُوْا  رَبَّنَا: اور وہ اپنی اس دعا کے سوا کچھ بھی نہ کہتے تھے کہ اے ہمارے رب !۔}  یعنی رسولوں کے ساتھی تکالیف پر بے صبری نہ دکھاتے اوردین کی حمایت اورجنگ کے مقامات میں اُن کی زبان پر کوئی ایسا کلمہ نہ آتا جس میں گھبراہٹ ،پریشانی اور تَزَلْزُل (ڈگمگانے) کا شائبہ بھی ہوتا بلکہ وہ ثابت قدم رہتے اور مغفرت، ثابت قدمی اورفتح و نصرت کی دُعا کرتے۔ انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحابہ کی جو دعا بیان کی گئی ہے اس میں انہوں نے اپنے آپ کو گنہگارکہا ہے، یہ عاجزی، اِنکساری اور بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے آداب میں سے ہے۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ وہ خود کو گنہگار کہہ رہے ہیں اور ان کا پروردگار عَزَّوَجَلَّ انہیں رَبّانی یعنی اللہ والے فرما رہا ہے۔ اور حقیقت میں لطف کی بات یہی ہے بندہ خود کو گنہگار کہے اور اس کا رب عَزَّوَجَلَّ اسے ابرار (نیکو کار) فرمائے۔ کسی بزرگ کا فرمان ہے کہ’’ ساری دنیا مجھے مردود کہے اور ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ، میں مقبول قرار پاؤں یہ اس سے بہتر ہے کہ ساری دنیا مجھے مقبول کہے اور رب کریم عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں ، میں مردود قرار پاؤں۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنے سے پہلے توبہ و استغفار کرناآدابِ دعا میں سے ہے۔

3:148
فَاٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  ثَوَابَ  الدُّنْیَا  وَ  حُسْنَ  ثَوَابِ  الْاٰخِرَةِؕ-وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَ۠(۱۴۸)
تو اللہ نے انہیں دنیا کا انعام دیا (ف۲۶۷) اور آخرت کے ثواب کی خوبی (ف۲۶۸) اور نیکی والے اللہ کو پیارے ہیں،

{فَاٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  ثَوَابَ  الدُّنْیَا : تو اللہ نے انہیں دنیا کا انعام (بھی) عطا فرمایا۔}انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَعِیَّت میں دینِ خدا عَزَّوَجَلَّ کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کی حسنِ نیت اور حسنِ عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں دونوں جہان کی کامیابیاں عطا فرمائیں ، دنیا میں انہیں فتح و نصرت سے نوازا اور دشمنوں پر غلبہ عطا فرمایا جبکہ آخرت میں ان کیلئے مغفرت، جنت اوررضائے الہٰی کا انعام رکھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کا ثواب دنیا کے انعام سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ آخرت کے ثواب پر لفظ’’حُسْنَ‘‘ زیادہ فرمایا ہے اوریہ بھی معلوم ہوا کہ دین کی خدمت کرنے والے کو دنیا بھی ملتی ہے۔

3:149
یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْۤا  اِنْ  تُطِیْعُوا  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْا  یَرُدُّوْكُمْ  عَلٰۤى  اَعْقَابِكُمْ  فَتَنْقَلِبُوْا  خٰسِرِیْنَ(۱۴۹)
اے ایمان والو! اگر تم کافروں کے کہے پر چلے (ف۲۶۹) تو وہ تمہیں الٹے پاؤں لوٹادیں گے (ف۲۷۰) پھر ٹوٹا کھا کے پلٹ جاؤ گے (ف۲۷۱)

{اِنْ  تُطِیْعُوا  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْا: اگر تم کافروں کی اطاعت کرو گے۔} یہاں مسلمانوں کو بہت واضح الفاظ میں سمجھایا گیا ہے کہ اگر تم کافروں کے کہنے پر چلو گے یا ان کے پیچھے چلو گے خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی یامنافق یامشرک، جس کے کہنے پر بھی چلو گے وہ تمہیں کفر ، بے دینی، بدعملی اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف ہی لے کر جائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم آخرت کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا بھی تباہ کربیٹھو گے۔ کتنے واضح اور کھلے الفاظ میں فرمادیا کہ کافروں سے ہدایات لے کر چلو گے تو وہ تمہاری دنیا و آخرت تباہ کردیں گے اور آج تک کا ساری دنیامیں مشاہدہ بھی یہی ہے لیکن حیرت ہے کہ ہم پھر بھی اپنا نظام چلانے میں ، اپنے کردار میں ، اپنے کلچر میں ، اپنے گھریلو معاملات میں ، اپنے کاروبار میں ہرجگہ کافروں کے کہنے پر اور ان کے طریقے پر ہی چل رہے ہیں ، جس سے ہمارا ربّ کریم عَزَّوَجَلَّہمیں بار بار منع فرمارہا ہے۔

3:150
بَلِ  اللّٰهُ  مَوْلٰىكُمْۚ-وَ  هُوَ  خَیْرُ  النّٰصِرِیْنَ(۱۵۰)
بلکہ اللہ تمہارا مولا ہے اور وہ سب سے بہتر مددگار،

{بَلِ  اللّٰهُ  مَوْلٰىكُمْ: بلکہ اللہ ہی تمہارا مدد گارہے۔} کافروں کی بات ماننے سے روکنے کے بعد فرمایا کہ یاد رکھو کہ یہ  کافر تمہارے مددگار نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی تمہارا مدد گارہے اور وہی سب سے بہترین مددگار ہے، لہٰذا تم اس کی اطاعت کرو کیونکہ ہر ایک اپنے مولا کی اطاعت کرتا ہے توجب اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارا مولا ہے تو تم اسی کی اطاعت کرو۔

3:151
سَنُلْقِیْ  فِیْ  قُلُوْبِ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوا  الرُّعْبَ  بِمَاۤ  اَشْرَكُوْا  بِاللّٰهِ  مَا  لَمْ  یُنَزِّلْ  بِهٖ  سُلْطٰنًاۚ-وَ  مَاْوٰىهُمُ  النَّارُؕ-وَ  بِئْسَ  مَثْوَى  الظّٰلِمِیْنَ(۱۵۱)
کوئی دم جاتا ہے کہ ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈالیں گے (ف۲۷۲) کہ انہوں نے اللہ کا شریک ٹھہرایا جس پر اس نے کوئی سمجھ نہ اتاری اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور کیا برا ٹھکانا ناانصافوں کا،

{سَنُلْقِیْ  فِیْ  قُلُوْبِ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوا  الرُّعْبَ: عنقریب ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے۔} اس آیت میں غیب کی خبر ہے، جب ابو سفیان وغیرہ جنگ احد کے بعد واپس ہوئے تو راستہ میں خیال کیا کہ کیوں لوٹ آئے، سب مسلمانوں کو ختم کیوں نہ کر دیا حالانکہ یہ اچھا موقعہ تھا۔ جب واپس ہونے پر آمادہ ہوئے تو قدرتی طور پر ان تمام کے دلوں میں مسلمانوں کا ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ مکہ چلے گئے اور یہ خبر پوری ہوئی۔ (بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۱، ۲ / ۱۰۲)

3:152
وَ  لَقَدْ  صَدَقَكُمُ  اللّٰهُ  وَعْدَهٗۤ  اِذْ  تَحُسُّوْنَهُمْ  بِاِذْنِهٖۚ-حَتّٰۤى  اِذَا  فَشِلْتُمْ  وَ  تَنَازَعْتُمْ  فِی  الْاَمْرِ  وَ  عَصَیْتُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِ  مَاۤ  اَرٰىكُمْ  مَّا  تُحِبُّوْنَؕ-مِنْكُمْ  مَّنْ  یُّرِیْدُ  الدُّنْیَا  وَ  مِنْكُمْ  مَّنْ  یُّرِیْدُ  الْاٰخِرَةَۚ-ثُمَّ  صَرَفَكُمْ  عَنْهُمْ  لِیَبْتَلِیَكُمْۚ-وَ  لَقَدْ  عَفَا  عَنْكُمْؕ-وَ  اللّٰهُ  ذُوْ  فَضْلٍ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۵۲)
اور بیشک اللہ نے تمہیں سچ کر دکھایا اپنا وعدہ جب کہ تم اس کے حکم سے کافروں کو قتل کرتے تھے (ف۲۷۳) یہاں تک کہ جب تم نے بزدلی کی اور حکم میں جھگڑا ڈالا (ف۲۷۴) اور نافرمانی کی (ف۲۷۵) بعد اس کے کہ اللہ تمہیں دکھا چکا تمہاری خوشی کی بات (ف۲۷۶) تم میں کوئی دنیا چاہتا تھا (ف۲۷۷) اور تم میں کوئی آخرت چاہتا تھا (ف۲۷۸) پھر تمہارا منہ ان سے پھیردیا کہ تمہیں آزمائے (ف۲۷۹) اور بیشک اس نے تمہیں معاف کردیا، اور اللہ مسلمانوں پر فضل کرتا ہے،

{وَ  لَقَدْ  صَدَقَكُمُ  اللّٰهُ  وَعْدَهٗ: اور بیشک اللہ نے تمہیں اپنا وعدہ سچاکر دکھایا۔} یہاں غزوۂ احد کی بات ہورہی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ’’بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جنگ اُحد میں اپنا وعدہ پورا فرمادیا کہ’’وَ  اَنْتُمُ  الْاَعْلَوْنَ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ‘‘ یعنی تم ہی غالب ہوگے اگر تم سچے ایمان والے ہو۔تو تم غالب تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے کافروں کو قتل کر رہے تھے لیکن جب تم نے بزدلی دکھائی اوررسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو ایک پہاڑی درے پر جمے رہنے کا حکم دیا تھا اس میں آپس میں اختلاف کیا اوراس حکم میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت کی حالانکہاللہ  تعالیٰ تمہیں تمہاری پسندیدہ کامیابی دکھا چکا تھا لیکن تم میں سے بعض نے مالِ غنیمت حاصل کرنے کی خاطر دنیا طلبی کیلئے درہ چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمہیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کی شکست کے بعد حضرت عبداللہبن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ جو تیر انداز تھے وہ آپس میں کہنے لگے کہ مشرکین کو شکست ہوچکی ہے، لہٰذا اب یہاں ٹھہر کر کیا کریں گے۔چلو ،کچھ مال غنیمت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ بعض حضرات نے یہ سن کر کہا کہ یہ جگہ مت چھوڑو کیونکہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تاکید کے ساتھ حکم فرمایاتھا کہ تم اپنی جگہ ٹھہرے رہنا اورکسی حال میں یہ جگہ نہ چھوڑنا، جب تک میرا حکم نہ آجائے، مگر لوگ غنیمت کے لئے چل پڑے اور حضرت عبداللہ بن جبیر رَضِیَ ا للہُ  تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ دس سے کم صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم رہ گئے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۱ / ۳۱۱)

دنیا طلب کرنے والوں سے مرادوہ لوگ ہیں جنہوں نے وہ درہ چھوڑ دیا اورمالِ غنیمت حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے اور آخرت کے طلبگاروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہے حتّٰی کہ شہید ہوگئے ۔آیت کے آخر میں فرمایا کہ غزوۂ احد میں اِس مقام پر جن لوگوں نے خطا کی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرمادیا۔ لہٰذا یاد رہے کہ جو اس طرح کے واقعات کو لے کر صحابۂ کرام رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی شان میں گستاخی کرے وہ بدبخت ہے کہ ان کی معافی کا اعلان ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّخود فرماچکا۔

3:153
اِذْ  تُصْعِدُوْنَ  وَ  لَا  تَلْوٗنَ  عَلٰۤى  اَحَدٍ  وَّ  الرَّسُوْلُ  یَدْعُوْكُمْ  فِیْۤ  اُخْرٰىكُمْ  فَاَثَابَكُمْ  غَمًّۢا  بِغَمٍّ  لِّكَیْلَا  تَحْزَنُوْا  عَلٰى  مَا  فَاتَكُمْ  وَ  لَا  مَاۤ  اَصَابَكُمْؕ-وَ  اللّٰهُ  خَبِیْرٌۢ  بِمَا  تَعْمَلُوْنَ(۱۵۳)
جب تم منہ اٹھائے چلے جاتے تھے اور پیٹھ پھیر کر کسی کو نہ دیکھتے اور دوسری جماعت میں ہمارے رسول تمہیں پکار رہے تھے (ف۲۸۰) تو تمہیں غم کا بدلہ غم دیا (ف۲۸۱) اور معافی اس لئے سنائی کہ جو ہاتھ سے گیا اور جو افتاد پڑی اس کا رنج نہ کرو اور اللہ کوتمہارے کاموں کی خبر ہے،

{فَاَثَابَكُمْ  غَمًّۢا  بِغَمٍّ: تو اللہ نے تمہیں غم کے بدلے غم دیا۔} جنگ احد میں جب کفار پیچھے سے آپڑے تو مسلمان گھبرا کر بھاگ پڑے مگر سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور کچھ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اپنی جگہ سے نہ ہٹے اور ثابتقدم رہے۔ ثابت قدم رہنے والی جماعت سے دوسری جماعت کو آوازیں دی جارہی تھیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندو! ادھر آؤ مگر گھبراہٹ اور شور میں یہ لوگ نہ سن سکے۔ اس آیت میں اسی کا ذکر ہے اور اسی کے حوالے سے فرمایا جارہا ہے کہ اے مسلمانو!یاد کروجب تم افراتفری میں منہ اٹھائے چلے جارہے تھے اور کسی کو پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھتے تھے اور تمہارے پیچھے ثابت قدم رہ جانے والی دوسری جماعت میں ہمارے رسول تمہیں پکار رہے تھے لیکن تم سن ہی نہ رہے تھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں غم دیا اس لئے کہ تم نے اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات نہ مان کرانہیں غم پہنچایا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ تمہیں معافی کی بشارت بھی سنا دی تا کہ راہِ خدا میں اخلاص کے ساتھ کوشش کرنے کے باوجود جو مالِ غنیمت تمہارے ہاتھ سے نکل گیاتم اس پر غم نہ کرو اورچونکہ تمہارے بہت سے ساتھی اس جنگ میں شہید ہوئے اور تمہیں بھی بہت سے زخم آئے تواللہ تعالیٰ کے معافی کا اعلان کردینے کی وجہ سے تمہارے دلوں پر مرہم ہوجائے۔ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ  تعالیٰ کوحضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا اور خوشی کس قدر عزیز ہے کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی وجہ سے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو صدمہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی صدمے میں مبتلا کیا اور پھر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی جا ں نثاری اور اخلاص کی بھی کتنی قدر فرمائی کہ چونکہ ان کی خطا بری نیت سے نہ تھی بلکہ اِجْتِہادی طور پر وہاں خطا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دلجوئی کیلئے ان کی معافی کا اعلان بھی فرمادیا۔

3:154
ثُمَّ  اَنْزَلَ  عَلَیْكُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِ  الْغَمِّ  اَمَنَةً  نُّعَاسًا  یَّغْشٰى  طَآىٕفَةً  مِّنْكُمْۙ-وَ  طَآىٕفَةٌ  قَدْ  اَهَمَّتْهُمْ  اَنْفُسُهُمْ  یَظُنُّوْنَ  بِاللّٰهِ  غَیْرَ  الْحَقِّ  ظَنَّ  الْجَاهِلِیَّةِؕ-یَقُوْلُوْنَ  هَلْ  لَّنَا  مِنَ  الْاَمْرِ  مِنْ  شَیْءٍؕ-قُلْ  اِنَّ  الْاَمْرَ  كُلَّهٗ  لِلّٰهِؕ-یُخْفُوْنَ  فِیْۤ  اَنْفُسِهِمْ  مَّا  لَا  یُبْدُوْنَ  لَكَؕ-یَقُوْلُوْنَ  لَوْ  كَانَ  لَنَا  مِنَ  الْاَمْرِ  شَیْءٌ  مَّا  قُتِلْنَا  هٰهُنَاؕ-قُلْ  لَّوْ  كُنْتُمْ  فِیْ  بُیُوْتِكُمْ  لَبَرَزَ  الَّذِیْنَ  كُتِبَ  عَلَیْهِمُ  الْقَتْلُ  اِلٰى  مَضَاجِعِهِمْۚ-وَ  لِیَبْتَلِیَ  اللّٰهُ  مَا  فِیْ  صُدُوْرِكُمْ  وَ  لِیُمَحِّصَ   مَا  فِیْ  قُلُوْبِكُمْؕ-وَ  اللّٰهُ  عَلِیْمٌۢ  بِذَاتِ  الصُّدُوْرِ(۱۵۴)
پھر تم پر غم کے بعد چین کی نیند اتاری (ف۲۸۲) کہ تمہاری ایک جماعت کو گھیرے تھی (ف۲۸۳) اور ایک گروہ کو (ف۲۸۴) اپنی جان کی پڑی تھی (ف۲۸۵) اللہ پر بے جا گمان کرتے تھے (ف۲۸۶) جاہلیت کے سے گمان، کہتے کیا اس کام میں کچھ ہمارا بھی اختیار ہے تم فرمادو کہ اختیار تو سارا اللہ کا ہے (ف۲۸۷) اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں (ف۲۸۸) جو تم پر ظاہر نہیں کرتے کہتے ہیں، ہمارا کچھ بس ہوتا (ف۲۸۹) تو ہم یہاں نہ مارے جاتے، تم فرمادو کہ اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے جب بھی جن کا مارا جانا لکھا جاچکا تھا اپنی قتل گاہوں تک نکل آتے (ف۲۹۰) اور اس لئے کہ اللہ تمہارے سینوں کی بات آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلو ں میں ہے (ف۲۹۱) اسے کھول دے اور اللہ دلوں کی بات جانتا ہے(ف۲۹۲)

{ثُمَّ  اَنْزَلَ  عَلَیْكُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِ  الْغَمِّ  اَمَنَةً  نُّعَاسًا:پھراس نے تم پر غم کے بعد چین کی نیند اتاری ۔} غزوۂ احد میں  تکالیف اٹھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلص مومنوں پر خاص کرم نوازی ہوئی، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پریشانی دور کرنے کے لئے ان پر غم کے بعد چین کی نیند اتاری جو صرف مخلص صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر ہی اتری، اس کی برکت سے مسلمانوں کے دلوں میں جو رعب اور ہیبت طاری تھا وہ ختم ہوگیا اور مسلمان سکون و اطمینان کی کَیْفِیَّت میں آگئے۔ حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں کہ روزِ اُحد نیند ہم پر چھا گئی ہم میدان میں تھے تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹ جاتی تھی پھر اُٹھاتا تھا پھر چھوٹ جاتی تھی۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب امنۃ نعاسًا، ۳ / ۱۹۵، الحدیث: ۴۵۶۲)

دوسری طرف منافقوں کاگروہ تھا جنہیں صرف اپنی جان کی فکر پڑی ہوئی تھی ،وہ اللہ تعالیٰ پر معاذ اللہبدگمانیاں کررہے تھے کہ اللہ  تعالیٰ حضور سید ُالمرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد نہ فرمائے گا یا یہ کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شہید ہوگئے لہٰذا اب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین باقی نہ رہے گا۔ (صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۱ / ۳۲۵)

یہ صرف جاہلیت کے گمان تھے۔ پھر منافقین کے بارے میں فرمایا کہ یہ اپنے دلوں میں اپنا کفر ، اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر بھروسہ نہ ہونا اور جہاد میں مسلمانوں کے ساتھ آنے پر افسوس کرنا چھپائے ہوئے ہیں ، ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وعدے معاذاللہ سچے نہیں ہیں لیکن یہ باتیں مسلمانوں کے سامنے ظاہر نہیں کرسکتے۔ یہ کہتے ہیں کہ اگرہماری بھی کچھ چلتی ہوتی اور جنگ اُحدکے بارے میں ہمارا مشورہ مان لیا جاتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی بدگمانیوں اور بدکلامیوں کے رد میں فرمایا کہ’’ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،تم فرمادو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے جب بھی جن کا مارا جانا تقدیر میں لکھا جاچکا تھا وہ اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل کر آجاتے کیونکہ جیسے موت کا وقت مقرر ہے ایسے ہی موت کی جگہ بھی مُتَعَیَّن ہے۔ جس نے جہاں ،جیسے مرنا ہے، وہ وہاں ویسے ہی مرے گا۔ گھروں میں بیٹھ رہنا کچھ کام نہیں آتااورتقدیر کے سامنے ساری تدبیریں اور حیلے بے کار ہوجاتے ہیں۔ اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے غزوہ احد میں پیش آنے والے واقعات کی حکمت بیان فرمائی کہ غزوہ اُحد میں جو کچھ ہواوہ اس لئے ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے دلوں کے اخلاص اورمنافقت آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں پوشیدہ ہے اسے سب کے سامنے کھول کر رکھ دے۔

آیت’’ثُمَّ  اَنْزَلَ  عَلَیْكُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِ  الْغَمِّ  اَمَنَةً‘‘ سے حاصل ہونے والا درس:

اس آیت میں مذکور واقعے میں بہت سے درس ہیں۔

(1)…آزمائش کے وقت ہی کھرے کھوٹے کی پہچان ہوتی ہے۔

(2)… مسلمان صابر جبکہ منافق بے صبرا ہوتا ہے۔

(3)… مسلمان کو سب سے زیادہ فکر دین کی ہوتی ہے جبکہ منافق کو صرف اپنی جان کی فکر ہوتی ہے۔

(4)…مومن ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھتا ہے جبکہ منافق معمولی سی تکلیف پر اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانیوں کا شکار ہوجاتا ہے۔

(5)…اللہ تعالیٰ کے وعدے پر کامل یقین رکھنا کامل ایمان کی نشانی ہے ۔

(6)…موت سے کوئی شخص فرار نہیں ہوسکتا، جس کی موت جہاں لکھی ہے وہاں آکر ہی رہے گی لہٰذا جہاد سے فرار مسلمان کی شان کے لائق نہیں۔

(7)…غزوۂ اُحد میں منافقین کے علاوہ جتنے مسلمان تھے وہ سب اللہ تعالیٰ کے پیارے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر خصوصی کرم نوازی فرمائی۔

3:155
اِنَّ  الَّذِیْنَ  تَوَلَّوْا  مِنْكُمْ  یَوْمَ  الْتَقَى  الْجَمْعٰنِۙ-اِنَّمَا  اسْتَزَلَّهُمُ  الشَّیْطٰنُ  بِبَعْضِ   مَا  كَسَبُوْاۚ-وَ  لَقَدْ  عَفَا  اللّٰهُ  عَنْهُمْؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  غَفُوْرٌ  حَلِیْمٌ۠(۱۵۵)
بیشک وہ جو تم میں سے پھرگئے (ف۲۹۳) جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں انہیں شیطان ہی نے لغزش دی ان کے بعض اعمال کے باعث (ف۲۹۴) اور بیشک اللہ نے انہیں معاف فرمادیا، بیشک اللہ بخشنے والا حلم والا ہے،

{اِنَّ  الَّذِیْنَ  تَوَلَّوْا  مِنْكُمْ : بیشک تم میں سے وہ لوگ جو اس دن بھاگ گئے۔}جنگ ِاحد میں چودہ اصحاب رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سوا جن میں حضرت ابو بکر صدیق ،حضرت عمر فاروق ،حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی شامل ہیں جو حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ رہے باقی تمام اصحاب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے قدم اکھڑ گئے تھے اور خصوصاً وہ حضرات جنہیں نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پہاڑی مورچے پر مقرر کیا تھا اور ہر حال میں وہیں ڈٹے رہنے کا حکم دیا تھا لیکن وہ ثابت قدم نہ رہ سکے بلکہ جب پہلے حملے ہی میں کفار کے قدم اکھڑ گئے اورمسلمان غالب آئے، تب ان دَرّے والوں نے کہا کہ چلو ہم بھی مالِ غنیمت جمع کریں۔ حضرت عبداللہ بن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے منع فرمایا مگر یہ لوگ سمجھے کہ فتح ہو چکی، اب ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے۔ دَرَّہ چھوڑ دیا، بھاگتے ہوئے کفار نے درہ کو خالی دیکھا تو پلٹ کر درہ کی راہ سے مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا جس سے جنگ کا نقشہ بدل گیا، یہاں اسی کا ذکر ہے۔ ان حضرات سے یہ لغزش ضرور سرزد ہوئی لیکن چونکہ ان کے ایمان کامل تھے اور وہ مخلص مومن اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچے غلام تھے اور آگے پیچھے کئی مواقع پر یہی حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اپنی جانیں قربان کرنے والے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کی معافی کا اعلان فرمادیا تاکہ اگر ان کی لغزش سامنے آئے تورب کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ان کی عظمت بھی سامنے رہے۔

3:156
یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  لَا  تَكُوْنُوْا  كَالَّذِیْنَ  كَفَرُوْا  وَ  قَالُوْا  لِاِخْوَانِهِمْ  اِذَا  ضَرَبُوْا  فِی  الْاَرْضِ   اَوْ  كَانُوْا  غُزًّى  لَّوْ  كَانُوْا  عِنْدَنَا  مَا  مَاتُوْا  وَ  مَا  قُتِلُوْاۚ-لِیَجْعَلَ  اللّٰهُ  ذٰلِكَ  حَسْرَةً  فِیْ  قُلُوْبِهِمْؕ-وَ  اللّٰهُ  یُحْیٖ  وَ  یُمِیْتُؕ-وَ  اللّٰهُ  بِمَا  تَعْمَلُوْنَ  بَصِیْرٌ(۱۵۶)
اے ایمان والو! ان کافروں (ف۲۹۵) کی طرح نہ ہونا جنہوں نے اپنے بھائیوں کی نسبت کہا کہ جب وہ سفر یا جہاد کو گئے (ف۲۹۶) کہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ مارے اتے اس لئے اللہ ان کے دلوں میں اس کا افسوس رکھے، اور اللہ جِلاتا اور مارتا ہے (ف۲۹۷) اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے،

{لَا  تَكُوْنُوْا  كَالَّذِیْنَ  كَفَرُوْا: کافروں کی طرح نہ ہونا۔}یہاں کافروں سے مراد اصلی کافر بھی بیان کئے گئے ہیں اور منافق بھی۔ ہم منافقین والا معنیٰ سامنے رکھ کر تفسیر کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! عبداللہ بن اُبی اور ان جیسے کافروں منافقوں کی طرح نہ ہونا جن کے نسبی بھائی یا منافقت میں بھائی بندسفر میں گئے اور مرگئے یا جہاد میں گئے اور مارے گئے تو یہ منافق کہتے ہیں کہ اگریہ جانے والے ہمارے پاس رہتے اور سفر و جہاد میں نہ جاتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے۔ اس پر ایمان والوں سے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! تم ان کافروں کی طرح کی کوئی بات نہ کہنا تاکہ ان کی بات اور ان کا یہ عقیدہ کہ اگر سفروجہاد میں نہ جاتے تو نہ مرتے ان کے دلوں میں باعث ِ حسرت بن جائے۔ حقیقی مسلمان تو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ موت و حیات اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو مسافر اور غازی کو سلامت لے آئے اور محفوظ گھر میں بیٹھے ہوئے کو موت دیدے۔کیا گھروں میں بیٹھا رہنا کسی کو موت سے بچا سکتا ہے اور جہاد میں جانے سے کب موت لازم ہے اور اگر آدمی جہاد میں مارا جائے تو وہ موت گھر کی موت سے کئی درجے بہتر ہے۔ لہٰذا منافقین کا یہ قول باطل اور فریب ہے اوران کا مقصد مسلمانوں کو جہاد سے نفرت دلانا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں ارشا دہوتا ہے۔

3:157
وَ  لَىٕنْ  قُتِلْتُمْ  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَوْ  مُتُّمْ  لَمَغْفِرَةٌ  مِّنَ  اللّٰهِ  وَ  رَحْمَةٌ  خَیْرٌ  مِّمَّا  یَجْمَعُوْنَ(۱۵۷)
اور بیشک اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جاؤ یا مرجاؤ تو اللہ کی بخشش اور رحمت (ف۲۹۹) ان کے سارے دھن دولت سے بہتر ہے،

{وَ  لَىٕنْ  قُتِلْتُمْ  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ: اور بیشک اگر تم اللہ کی راہ میں شہید کردیے جاؤ۔ }آیت میں فرمایا گیا کہ اگر تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں شہید کردیے جاؤ یا تمہیں طبعی موت ہی آئے لیکن تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں ہو تو یہ موت مغفرت اور رحمت کا سبب ہوگی اور ایسی موت دنیا کے دھن دولت سے بہتر ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں مرنا یہ ہے کہ جہاد کے راستے میں موت آئے اور اسی حکم میں یہ بھی داخل ہے کہ عبادت کرتے ہوئے یا ذکر کرتے ہوئے یا علمی خدمت کرتے ہوئے یا تبلیغِ دین کرتے ہوئے موت آجائے اس حال میں موت بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں موت ہے اور اس کا نتیجہ بھی ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی رحمت اور مغفرت ہے ۔

3:158
وَ  لَىٕنْ  مُّتُّمْ  اَوْ  قُتِلْتُمْ  لَاِالَى  اللّٰهِ  تُحْشَرُوْنَ(۱۵۸)
اور اگر تم مرو یا مارے جاؤ تو اللہ کی طرف اٹھنا ہے (ف۳۰۰)

{وَ  لَىٕنْ  مُّتُّمْ: اور اگر تم مرجاؤ ۔ } صدرُالافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہاں نہایت پُر لطف تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : یہاں مقاماتِ عبدیت کے تینوں مقاموں کا بیان فرمایاگیا پہلا مقام تو یہ ہے کہ بندہ بخوفِ دوزخ اللہ(عَزَّوَجَلَّ) کی عبادت کرے تو اُس کو عذابِ نار سے امن دی جاتی ہے، اس کی طرف’’لَمَغْفِرَةٌ  مِّنَ  اللّٰهِ ‘‘ میں اشارہ ہے۔ دُوسری قسم وہ بندے ہیں جو جنت کے شوق میں اللہ(عَزَّوَجَلَّ) کی عبادت کرتے ہیں اس کی طرف ’’وَرَحْمَۃٌ‘‘ میں اشارہ ہے کیونکہ رحمت بھی جنت کا ایک نام ہے۔ تیسری قِسم وہ مخلص بندے ہیں جو عشقِ الہٰی اور ا س کی ذاتِ پاک کی محبت میں اِس کی عبادت کرتے ہیں اور اُن کا مقصود اُس کی ذات کے سوا اور کچھ نہیں ہے اِنہیں حق سبحانہُ وتعالیٰ اپنے دائرۂ کرامت میں اپنی تَجلّی سے نوازے گا اِس کی طرف ’’لَاِالَى  اللّٰهِ  تُحْشَرُوْنَ‘‘ میں اشارہ ہے ۔ (خزائن العرفان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ص۱۴۱)

3:159
فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-وَ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ۪-  فَاعْفُ  عَنْهُمْ  وَ  اسْتَغْفِرْ  لَهُمْ  وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ-فَاِذَا  عَزَمْتَ  فَتَوَكَّلْ  عَلَى  اللّٰهِؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  یُحِبُّ  الْمُتَوَكِّلِیْنَ(۱۵۹)
تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب! تم ان کے لئے نرم دل ہوئے (ف۳۰۱) اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے (ف۳۰۲) تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ او ر ان کی شفاعت کرو (ف۳۰۳) اور کاموں میں ان سے مشورہ لو (ف۳۰۴) اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو (ف۳۰۵) بیشک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں،

{فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ: تو اللہکی کتنی بڑی رحمت ہے۔} اس آیت میں رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ کریمہ کا بیان کیا جارہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ’’اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہتعالیٰ کی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پر کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نرم دل، شفیق اور رحیم و کریم بنایا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزاج میں اِس درجہ لُطف و کرم اور شفقت ورحمت پیدا فرمائی کہ غزوہ اُحد جیسے موقع پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے غضب کا اظہار نہ فرمایا حالانکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو اس دن کس قدر اَذِیَّت و تکلیف پہنچی تھی اور اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سخت مزاج ہوتے اور میل برتاؤ میں سختی سے کام لیتے تو یہ لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دور ہوجاتے۔ تو اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَآپ ان کی غلطیوں کو معاف کردیں اور ان کیلئے دعائے مغفرت فرمادیں تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سفارش پر اللہ تعالیٰ بھی انہیں معاف فرمادے۔

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ کریمہ کی ایک جھلک :

حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ کریمانہ کی تو کیا شان ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّنے تورات و انجیل میں بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ عالیہ کا ذکر فرمایا تھا: چنانچہ حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جب اللہ  تعالیٰ نے زید بن سعنہ کی ہدایت کا ارادہ فرمایا تو زید بن سعنہ نے کہا: میں نے جب حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے روئے انور کی زیارت کی تو اسی وقت آپ میں نبوت کی تمام علامات پہچان لیں ،البتہ دو علامتیں ایسی تھیں جن کی مجھے خبر نہ تھی(کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیں ہیں یا نہیں ) ایک یہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غضب پر سبقت لے جاتا ہے اور دوسری یہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جتنا زیادہ جہالت کا برتاؤ کیا جائے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا ۔ میں موقع کی تلاش میں رہا تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم دیکھ سکوں۔ ایک دن نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے حجروں سے باہر تشریف لائے اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ تھے کہ دیہاتی جیسا ایک شخص اپنی سواری پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی :فلاں قبیلے کی بستی میں رہنے والے قحط اور خشک سالی کی مصیبت میں مبتلا ہیں ،میں نے ان سے کہا کہ اگر تم لوگ اسلام قبول کر لو تو تمہیں کثیر رزق ملے گا۔انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے ، یا رسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے ڈر ہے کہ جس طرح وہ رزق ملنے کی امید پر اسلام میں داخل ہوئے کہیں وہ رزق نہ ملنے کی وجہ سے اسلام سے نکل نہ جائیں۔ اگر ممکن ہو تو ان کی طرف کوئی ایسی چیز بھیج دیں جس سے ان کی مدد ہو جائے۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس شخص کی طرف دیکھا اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو دکھایا تو انہوں نے عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، اس میں سے کچھ باقی نہیں بچا۔ زید بن سعنہ کہتے ہیں : میں حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب ہوا اور کہا:اے محمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کیاآپ ایک مقررہ مدت تک فلاں قبیلے کے باغ کی معین مقدار میں کھجوریں مجھے بیچ سکتے ہیں ؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اے یہودی !ایسے نہیں ، میں ایک مقررہ مدت تک اور مُعَیَّن مقدار میں کھجوریں تمہیں بیچوں گا لیکن کسی باغ کو خاص نہیں کروں گا۔ زید بن سعنہ کہتے ہیں : میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ میں نے ایک مقررہ مدت تک معین مقدار میں کھجوروں کے بدلے 80مثقال سونا حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو دے دیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ سونا اس شخص کو دے کر فرمایا ’’یہ سونا ان لوگوں کے درمیان تقسیم کر دو اورا س کے ذریعے ان کی مدد کرو ۔

زید بن سعنہ کہتے ہیں،جب وہ مدت پوری ہونے میں دویا تین دن رہ گئے تو میں نے مسجد میں آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا دامنِ اقدس پکڑ کر تیز نگاہ سے دیکھتے ہوئے یوں کہا: اے محمد! میرا حق ادا کرو ۔ اے عبدالمطلب کے خاندان والو! تم سب کا یہی طریقہ ہے کہ تم لوگ ہمیشہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں دیر لگایا کرتے ہو اورٹال مٹول کرنا تم لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ اس دوران میں نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں ان کے چہرے پر گھوم رہی تھیں ،انہوں نے جلال بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے مجھ سے فرمایا : اے دشمن خدا ! کیا تم رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے ایسی بات اور ایسی حرکت کر رہے ہو!اس خدا کی قسم جس نے انہیں حق کے ساتھ بھیجا،اگر مجھے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا لحاظ نہ ہو تا تو میں ابھی اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا۔ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سکون انداز میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی طرف دیکھنے لگے اور مسکرائے ،پھر ارشاد فرمایا’’ہم دونوں کو ا س کے علاوہ چیز کی زیادہ ضرورت تھی کہ تم مجھے اچھے طریقے سے ادائیگی کا کہتے اور اسے اچھے انداز میں مطالبہ کرنے کا کہتے ۔ اے عمر ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،تم اسے اس کا حق دے دو اور بیس صاع کھجوریں ا س کے حق سے زیادہ دے دینا ۔

زید بن سعنہ کہتے ہیں :(جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مجھے زیادہ کھجوریں دیں ) تو میں نے کہا : اے عمر!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، مجھے زیادہ کھجوریں کیوں دی جا رہی ہیں ؟ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’مجھے رسول اللہ صَلَّیاللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حکم دیا ہے کہ جو میں نے تمہیں ڈانٹا ا س کے بدلے اتنی کھجوریں تمہیں زیادہ دے دوں۔ میں نے کہا :اے عمر!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ جانتے ہیں کہ میں کون ہوں ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’نہیں۔ میں نے کہا :میں یہودیوں کا عالم زید بن سعنہ ہوں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’پھر تم نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، کو جو باتیں کہیں اور ان کے ساتھ جو حرکت کی وہ کیوں کی؟میں نے کہا: میں نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرہ انور کی زیارت کرتے ہی آپ میں نبوت کی تمام علامات پہچان لی تھیں ، البتہ ان دو علامتوں کو دیکھنا باقی تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غضب پر سبقت لے جاتا ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جتنا زیادہ جہالت کا برتاؤ کیا جائے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا ۔ بے شک میں نے یہ علامتیں بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیں پا لی ہیں ، تو اے عمر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، آپ گواہ ہو جائیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے ربّ ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہوا ۔ میں بہت مالدار ہوں ،آپ گواہ ہو جائیں کہ میں نے اپنا آدھا مال تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت پر صدقہ کر دیا۔پھر حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہا ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ  تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور محمد مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اس کے بندے اور رسول ہیں۔(مستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم، ذکر اسلام زید بن سعنۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۷۹۲، الحدیث: ۶۶۰۶)

{وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِ:اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔ } یعنی اہم کاموں میں ان سے مشورہ بھی لیتے رہیں کیونکہ اِس میں اِن کی دِلداری بھی ہے اور عزت افزائی بھی اور یہ فائدہ بھی کہ مشورہ سنت ہوجائے گا اور آئندہ امت اِس سے نفع اُٹھاتی رہے گی،پھرجب مشورے کے بعد آپ کسی بات کا پختہ ارادہ کرلیں تو اپنے کام کو پورا کرنے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں بیشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور ان کی مدد کرتا اور انہیں ا س چیز کی طرف ہدایت دیتا ہے جو ان کے لئے بہتر ہو ۔

مشورہ اور تَوَکُّل کے معنی اور توکل کی ترغیب:

مشورہ کے معنی ہیں کسی معاملے میں دوسرے کی رائے دریافت کرنا۔ مشورہ لینے کے ساتھ اللہتعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ’’مشورے کے بعد جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی چیز کا پختہ ارادہ کرلیں تو اسی پر عمل کریں اور اللہ عَزَّوَجَلَّپر توکل کریں۔ توکل کے معنی ہیں اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی پر اعتماد کرنا اور کاموں کو اُس کے سپرد کردینا۔ مقصود یہ ہے کہ بندے کا اعتماد تمام کاموں میں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ہونا چاہئے ، صرف اسباب پر نظر نہ رکھے ۔

حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ عَزَّوَجَلَّپر بھروسہ کرے تو ہر مشکل میں اللہتعالیٰ اسے کافی ہو گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو اور جو دنیا پر بھروسہ کرے تو اللہتعالیٰ اسے دنیا کے سپرد فرما دیتا ہے ۔(معجم الاوسط، باب الجیم، من اسمہ جعفر، ۲ / ۳۰۲، الحدیث: ۳۳۵۹)

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر اللہ عَزَّوَجَلَّپر جیسا چاہیے ویسا توکل کرو تو تم کو ایسے رزق دے جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو شکم سیر لوٹتے ہیں۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب فی التوکل علی اللہ.الحدیث: ۲۳۵۱)

3:160
اِنْ  یَّنْصُرْكُمُ  اللّٰهُ  فَلَا  غَالِبَ  لَكُمْۚ-وَ  اِنْ  یَّخْذُلْكُمْ  فَمَنْ  ذَا  الَّذِیْ  یَنْصُرُكُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِهٖؕ-وَ  عَلَى  اللّٰهِ  فَلْیَتَوَكَّلِ  الْمُؤْمِنُوْنَ(۱۶۰)
اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا (ف۳۰۶) اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو ایسا کون ہے جو پھر تمہاری مدد کرے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہئے،

{اِنْ  یَّنْصُرْكُمُ  اللّٰهُ: اگر اللہ  تمہاری مدد کرے۔ } ارشاد فرمایا کہ’’ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور یہ یاد رکھو کہ اللہ  تعالیٰ کی مدد وہی پاتا ہے جو اپنی قوت وطاقت پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ اللہ  تعالیٰ کی قدرت و رحمت کا امیدوار رہتا ہے اور اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے چھوڑنے کے بعد کون تمہاری مدد کرسکتا ہے ؟ یقینا کوئی نہیں۔ غزوہ بَدر و حنین سے دونوں باتیں واضح ہوجاتی ہیں۔ غزوۂ بدر میں کفار کا لشکر تعداد، اسلحہ اور جنگی طاقت کے اعتبار سے مسلمانوں سے بڑھ کر تھالیکن مسلمانوں کا پورا بھروسہ اللہ  تعالیٰ کی ذات پر تھا جس کا نتیجہ مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی شکل میں ظاہر ہوا اورفرشتوں کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوئی جبکہ غزوہ حنین میں بعض مسلمانوں نے اپنی عددی کثرت پر فخر کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا ۔ پورا واقعہ سورۂ توبہ آیت 25 میں مذکور ہے ۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اٰلِ عِمْرَان
اٰلِ عِمْرَان
  00:00



Download

اٰلِ عِمْرَان
اٰلِ عِمْرَان
  00:00



Download