Surah Aal Imraan
{قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً: عرض کی: اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما دے۔} حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامنے حمل ٹھہر جانے کی صورت میں علامت ظاہر ہونے کا عرض کیا تا کہ اس وقت اور زیادہ شکر و عبادت میں مصروف ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیری نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے صرف اشارہ سے بات چیت کرسکو گے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامکی زوجہ کو حمل ٹھہرا توآدمیوں کے ساتھ گفتگو کرنے سے زبان مبارک تین روز تک بند رہی اور تسبیح و ذکر پر آپ قادر رہے اوریہ ایک عظیم معجزہ ہے کہ جس میں اعضاء صحیح و سالم ہوں اور زبان سے تسبیح و تقدیس کے کلمات ادا ہوتے رہیں مگر لوگوں کے ساتھ گفتگو نہ ہوسکے اور یہ علامت اس لیے مقرر کی گئی کہ اس نعمتِ عظیمہ کے ادائے حق میں زبان ذکر و شکر کے سوا اور کسی بات میں مشغول نہ ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ صالح فرزند ملنے پر رب عَزَّوَجَلَّ کا شکریہ ادا کر نا چاہیے، عقیقہ، صدقہ ، خیرات، نوافل سب اسی نعمت کا شکریہ ہے اور چونکہ ہمارے آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیناور کائنات کی سب سے عظیم ترین نعمت ہیں اس لئے اس نعمت کا شکریہ ہم میلاد کی صورت میں ہمیشہ ادا کرتے رہتے ہیں۔
{ وَ سَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ: اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔}اگرچہ ہر وقت تسبیح و تہلیل بہتر ہے لیکن صبح شام خصوصیت سے زیادہ بہتر ہے کہ اس وقت دن رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں نیز آدمی کی صبح کی ابتداء اور انتہاء اللہ تعالیٰ کے ذکر پر ہونی چاہیے۔
{اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ: بیشک اللہ نے تمہیں چن لیاہے۔} اس آیت میں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی شان کا بیان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سے فضائل کیلئے منتخب فرمالیا مثلاً: عورت ہونے کے باوجود بیتُ المقدس کی خدمت کے لیے انہیں نذر میں قبول فرما لیا حالانکہ صرف مردوں کو ہی منتخب کیا جاتا تھا۔ لہٰذایہ بات ان کے سوا کسی عورت کو مُیَسَّر نہ ہوئی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کیلئے جنتی رزق بھیجا گیا، حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو ان کا کفیل بنایا گیا، نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں یہ فضیلتیں فرشتوں کی زبان سے سنائی گئیں۔ مزید حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے اور مردوں کے ان پر قدرت پانے سے پاکیزہ بنایا اورانہیں سارے جہان کی عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی کہ بغیر باپ کے بیٹا دیا اور ملائکہ کا کلام سنوایا۔
{یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّكِ: اے مریم! اپنے رب کی فرمانبرداری کرو۔}قنوت کا معنیٰ فرمانبرداری کرنا بھی ہوتا ہے اورادب سے کھڑا ہونا بھی۔ جب فرشتوں نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو آیت میں مذکور حکم سنایا تو حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے اتنا طویل قیام کیا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے قدم مبارک پر ورم آگیا اور پاؤں پھٹ کر خون جاری ہوگیا ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۳، ۱ / ۲۴۹)
{ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ: یہ غیب کی خبریں ہیں۔} اس آیت میں فرمایا گیا کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کا واقعہ غیب کی خبروں میں سے ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غیب کے علوم عطا فرمائے ہیں۔ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات جو قرآن و حدیث میں آئے سب غیب کی خبریں ہیں۔
{اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ: جب وہ اپنی قلموں سے قرعہ ڈال رہے تھے۔} چونکہ بہت سے لوگ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی پرورش کے امیدوار تھے۔ اس لئے آپس میں بحث و مباحثہ کے بعد انہوں نے قرعہ اندازی پر فیصلہ چھوڑ دیا چنانچہ جن قلموں سے تورات لکھا کرتے تھے ان کے ذریعے قرعہ اندازی کی اور طے یہ پایا کہ ہر کوئی اپنا قلم پانی میں رکھے، جس کا قلم پانی کے بہاؤ کے الٹی طرف بہنا شروع کر دے وہ کفالت کا حق دار ہو گا۔ سب نے اپنی اپنی قلم پانی میں ڈالی تو حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قلم الٹی طرف بہنا شروع ہو گیا ا س طرح حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کفالت میں آگئیں۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۱۹)
قرعہ اندازی کے ذریعے فیصلہ کرنا :
اس سے معلوم ہوا کہ عام معاملات میں قرعہ اندازی سے بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے جیسے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سفر میں ساتھ لے جانے کیلئے ازواجِ مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرمایا کرتے تھے۔
{اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ: بیشک اللہ تجھے بشارت دیتا ہے۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلمۃُ اللہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ’’ کُن‘‘ سے ہوئی، باپ اور ماں کے نطفہ سے نہ ہوئی۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(آل عمران:۵۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بےشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے۔ اُسے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے فرمایا ’’ہوجا‘‘ تو وہ ہوگیا۔
حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامکے بارے میں فرمایا کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلمہ ہیں ، نام مبارک عیسیٰ ہے، لقب مسیح ہے کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مَس کرکے یعنی چھو کر شفا دیتے تھے، دنیا و آخرت میں عزت و وجاہت والے ہیں اور رب کریم عَزَّوَجَلَّ کے مقرب بندے ہیں۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسبت باپ کی بجائے ماں کی طرف کی گئی ،اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامبغیر باپ کے صر ف ماں سے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا کوئی باپ ہوتاتو یہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسبت ماں کی طرف نہ ہوتی بلکہ باپ کی طرف ہوتی ۔جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ(احزاب: ۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:لوگوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک انصاف کے زیادہ قریب ہے۔
{وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ: اور وہ لوگوں سے جھولے میں کلام کرے گا۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تین شانیں یہاں بیان ہوئیں۔
(1)… بات کرنے کی عمر سے پہلے ہی کلام کریں گے چنانچہ سورۂ مریم آیت29تا33میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام مذکور ہے۔
(2)…پکی عمر میں لوگوں سے کلام فرمائیں گے اور وہ یوں کہ آسمان سے اترنے کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لوگوں سے کلام فرمائیں گے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آسمان سے زمین کی طرف اتریں گے جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے اور دَجال کو قتل کریں گے۔ لہٰذا جیسے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بچپن میں کلام کرنا معجزہ ہے، ایسے ہی پکی عمر میں اس طرح کلام کرنا معجزہ ہے ۔
(3)…اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ہیں۔
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صفات:
مجموعی طور پر سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 45اور 46میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہت سی صفات بیان ہوئیں:
(1)…کلمۃُ اللہ ہونا۔
(2)… مسیح ہونا۔
(3)… حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کا بیٹا ہونا۔
(4)…بغیر باپ کے پیدا ہونا۔
(5)… دنیا میں عزت والا ہونا کہ قرآن کے ذریعے سارے عالَم میں ان کے نام کی دھوم مچا دی گئی۔ آخرت میں خصوصی عزت والا ہونابہت سے طریقوں سے ہوگا، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قیامت میں انہی کے ذریعہ مخلوق کوحضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تک رہنمائی ملے گی۔
(6)… بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں بہت زیادہ قرب و منزلت رکھنے والا ہونا وغیرہ ۔ معلوم ہوا کہ پیغمبروں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نعت خوانی سنت اِلٰہیہ ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔
{اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ وَلَدٌ: میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا؟} جب فرشتوں نے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو بیٹے کی بشارت دی تو انہوں نے حیرت سے عرض کیا: یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا ؟مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ بھی نہیں لگایا اور دستور یہ ہے کہ بچہ عورت و مرد کے ملاپ سے ہوتا ہے تو مجھے بچہ کس طرح عطا ہوگا ، نکاح سے یا یوں ہی بغیر مرد کے؟ جواب ملا کہ اسی حالت میں یعنی تم کنواری ہی رہو گی اور فرزند پیدا ہو جائے گا، کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑی قدرت والا ہے اور اس کی شان یہ ہے جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرمالیتا ہے تو اسے صرف اتنا فرماتاہے ، ’’ ہوجا ‘‘تو وہ کام فوراً ہوجاتا ہے ۔
{وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ: اور بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور دلیل کے طور پر اس زمانے کے حالات کے موافق بہت سے معجزات عطا فرمائے۔ آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صرف بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ یہی بات موجودہ بائبل میں بھی موجود ہے۔ آیت میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پانچ معجزات کا بیان ہے۔ (1) مٹی سے پرندے کی صورت بنا کر پھونک مارنا اور اس سے حقیقی پرندہ بن جانا، (2)پیدائشی اندھوں کو آنکھوں کا نور عطا فرما دینا، (3)کوڑھ کے مریضوں کو شفایاب کردینا، (4)مردوں کو زندہ کردینا، (5)غیب کی خبریں دینا۔
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات کی تفصیل:
(1)…پرندے پیدا کرنا: جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نبوت کا دعویٰ کیااور معجزات دکھائے تو لوگوں نےدرخواست کی کہ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک چمگادڑ پیدا کریں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۲۵۱)
چمگادڑ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اڑنے والے جانوروں میں بہت عجیب ہے اور قدرت پر دلالت کرنے میں دوسروں سے بڑھ کر ہے کیونکہ وہ بغیر پروں کے اُڑتی ہے اور دانت رکھتی ہے اور ہنستی ہے اور اس کی مادہ کے چھاتی ہوتی ہے اوروہ بچہ جنتی ہے حالانکہ اُڑنے والے جانوروں میں یہ باتیں نہیں ہیں۔ (جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۴۱۸)
(2)…کوڑھیوں کو شفایاب کرنا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس مریض کو بھی شفا دیتے جس کا برص بدن میں پھیل ہوگیا ہو اور اَطِبّاء اس کے علاج سے عاجز ہوں چونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں طب کاعلم انتہائی عروج پر تھا اور طب کے ماہرین علاج کے معاملے میں انتہائی مہارت رکھتے تھے اس لیے ان کو اسی قسم کے معجزے دکھائے گئے تاکہ معلوم ہو کہ طب کے طریقہ سے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اس کو تندرست کردینا یقیناً معجزہ اور نبی کی نبوت کی دلیل ہے ۔ حضرت وہب بن منبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ اکثر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ایک ایک دن میں پچاس پچاس ہزار مریضوں کا اجتماع ہوجاتا تھا ،ان میں جو چل سکتا تھا وہ حاضر خدمت ہوتا تھا اور جسے چلنے کی طاقت نہ ہوتی اس کے پاس خود حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لے جاتے اور دعا فرما کر اس کو تندرست کرتے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی شرط کرلیتے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۲۵۱)
(3)…مردوں کو زندہ کرنا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چار شخصوں کو زندہ کیا ،ایک عازر جس کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مُخلصانہ محبت تھی، جب اس کی حالت نازک ہوئی تو اس کی بہن نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اطلاع دی مگر وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے تین روز کی مسافت کے فاصلہ پر تھا ۔جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تین روز میں وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کے انتقال کو تین روز ہوچکے ہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اس کی بہن سے فرمایا، ہمیں اس کی قبر پر لے چل ۔وہ لے گئی ،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی جس سے عازر حکمِ الٰہی سے زندہ ہو کر قبر سے باہر آگیا اور مدت تک زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد ہوئی ۔ دوسر اایک بڑھیا کا لڑکاتھا جس کا جنازہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے سامنے جارہا تھا ، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے لیے دعا فرمائی وہ زندہ ہو کر جنازہ اٹھانے والوں کے کندھوں سے اتر پڑا اور کپڑے پہنے، گھرآگیا ،پھر زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہوئی۔ تیسری ایک لڑکی تھی جوشام کے وقت مری اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے اس کو زندہ کیا۔ چوتھے سام بن نوح تھے جن کی وفات کو ہزاروں برس گزر چکے تھے ۔ لوگوں نے خواہش کی کہ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کو زندہ کریں۔چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نشاندہی سے قبر پر پہنچے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ سام نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے۔ ’’ اَجِبْ رُوْحَ اللہ‘‘ یعنی’’ حضرت عیسیٰ روحُ اللہعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بات سن‘‘ یہ سنتے ہی وہ مرعوب اور خوف زدہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمان ہوا کہ قیامت قائم ہوگئی، اس کی دہشت سے ان کے سر کے آدھے بال سفید ہوگئے پھر وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے درخواست کی کہ دوبارہ انہیں سَکراتِ موت کی تکلیف نہ ہو، اس کے بغیرانہیں واپس کیا جائے چنانچہ اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۷۴، الجزء الرابع، جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۴۱۹-۴۲۰، ملتقطاً)
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جسے زندہ فرماتے اسے’’ بِاِذْنِ اللہِ ‘‘یعنی ’’اللہ کے حکم سے‘‘ فرماتے ۔ اس فرمان میں عیسائیوں کا رد ہے جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُلُوہِیَّت یعنی خدا ہونے کے قائل تھے۔
(4)… غیب کی خبریں دینا۔ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیماروں کو اچھا کیا اور مردوں کو زندہ کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور کوئی معجزہ دکھائیے ،تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ جو تم کھاتے ہو اور جو جمع کر رکھتے ہو میں اس کی تمہیں خبر دیتا ہوں اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دستِ مبارک پر یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آدمی کو بتادیتے تھے جو وہ کل کھاچکا اور جو آج کھائے گا اور جو اگلے وقت کے لیے تیار کررکھا ہوتا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس بہت سے بچے جمع ہوجاتے تھے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں بتاتے تھے کہ تمہارے گھر فلاں چیز تیار ہوئی ہے، تمہارے گھر والوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے، فلاں چیز تمہارے لیے بچا کررکھی ہے، بچے گھر جاتے اورگھر والوں سے وہ چیز مانگتے۔ گھر والے وہ چیز دیتے اور ان سے کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا ؟بچے کہتے: حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ،تو لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس آنے سے روکا اور کہاکہ وہ جادو گر ہیں ، اُن کے پاس نہ بیٹھو اور ایک مکان میں سب بچوں کو جمع کردیا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا: وہ یہاں نہیں ہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا کہ پھر اس مکان میں کون ہے؟ انہوں نے کہا :سور ہیں۔ فرمایا، ایسا ہی ہوگا۔ اب جو دروازہ کھولا تو سب سور ہی سور تھے۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۷۴، الجزء الرابع، جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۴۲۰، ملتقطاً)
سورۂ آلِ عمرا ن کی آیت نمبر49 سے معلوم ہونے والے عقائد ومسائل:
اس آیتِ مبارکہ سے بہت سے عقائد و مسائل معلوم ہوتے ہیں۔
(1)…حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معجزات عطا ہوئے۔
(2)…انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزات عطا ہوتے ہیں۔
(3)…بہت سے معجزات انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اختیار سے ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا ان معجزات میں کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
(4)…معجزات بہت سی قسموں کے ہوسکتے ہیں حتّٰی کہ مُردوں کو زندہ کرنے کا بھی معجزہ ہوتا ہے۔
(5)…اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو اختیارات اور قدرتیں عطا فرماتا ہے۔
(6)…محبوبانِ خدا لوگوں کی حاجت روائی پر قدرت رکھتے ہیں اور ان کی مشکل کشائی فرماتے ہیں۔
(7)…محبوبانِ خدا عام عادت سے ہٹ کر مشکل کشائی کرتے ہیں۔
(8)…محبوبانِ خدا کی قدرتیں عام مخلوق کی قدرتوں سے بڑھ کر اور بالا تر ہوتی ہیں۔
(9)…محبوبانِ خدا شفا بھی بخشتے ہیں۔
(10)… اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی دعائیں قبول فرماتا ہے۔ اسی لئے بطورِ خاص اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور محبوبانِ خدا کی بارگاہ میں عرض کی جاتی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری سفارش فرمادیں اور ہمارے لئے دعا کردیں۔
(11)…محبوبانِ خدا کے تمام اختیارات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا اور اجازت سے ہوتے ہیں۔
(12)…محبوبانِ خدا کے اختیارات کا انکار کرنا سیدھا قرآن کا انکار کرنا ہے۔
(13)…محبوبانِ خدا کیلئے قدرت و اختیار ماننا شرک نہیں ورنہ معاذاللہ قرآن پاک کی تعلیمات کو کیا کہیں گے؟
(14)…شِفا دینے، مشکلات دور کرنے وغیرہ کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کیلئے استعمال کرنا شرک نہیں لہٰذا یہ کہنا جائز ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مشکل کشا اور دافعُ البلاء ہیں ،یا، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے اولاد دیتے ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میں مردے زندہ کرتا ہوں ، میں لاعلاج بیماروں کو اچھا کرتا ہوں ، میں غیبی خبریں دیتا ہوں ، حالانکہ یہ تمام کام ربّ عَزَّوَجَلَّ کے ہیں۔
(15)… محبوبانِ خدا غیب کی خبریں جانتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گھروں میں رکھی ہوئی چیزوں کو بھی جانتے تھے۔
(16)…محبوبانِ خدا کیلئے علومِ غَیْبِیَہ ماننا توحید کے منافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کا انکار کرنا توحید کے منافی ہے۔ اس آیت میں جتنا غور کرتے جائیں اتنا زیادہ عقائد ِ اہلسنّت واضح ہوتے جائیں گے۔
{وَ مُصَدِّقًا: اور تصدیق کرنے والا۔} حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام توریت کے کتابُ اللہ اور حق ہونے کی تصدیق کیلئے بھی تشریف لائے تھے اور اس کے بعض احکام کو منسوخ فرمانے بھی چنانچہ بعض وہ چیزیں جو شریعتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حرام تھیں جیسے اونٹ کاگوشت اورکچھ پرندے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں حلال فرما دیا۔ آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اذنِ خداوندی سے حلال و حرام فرمانے کے مختار ہیں کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میں حلال کرتا ہوں۔ حلال و حرام کرنے کی نسبت انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی طرف اور بھی کئی جگہوں پر کی گئی ہے چنانچہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بارے میں سورہ ٔاعراف آیت 157 میں یہی نسبت موجود ہے۔ اس کی مزید تفصیل جاننے کیلئے فتاوی رضویہ کی 30ویں جلد میں موجوداعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْْ کی کتاب ’’اَلْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلاَء ( مصطفٰی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کے لئے انعامات)‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔
{اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ: بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمانا اپنی عَبْدِیَّت یعنی بندہ ہونے کا اقرار اور اپنی ربوبیت یعنی رب ہونے کا انکار ہے اس میں عیسائیوں کا رد ہے۔ گویا فرمایا کہ میں اتنی قدرتوں اور علم کے باوجودبھی خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء واولیاء کے معجزات یا کرامات ماننا شرک نہیں اوراس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم نے انہیں رب مان لیا۔ اس سے مسلمانوں کو مشرک کہنے والوں کو عبرت پکڑنی چاہیے۔
{فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ: پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفرپایا ۔} یعنی جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ یہودی اپنے کفر پر قائم ہیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں اور اتنی روشن آیات اور معجزات سے بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے پہچان لیا تھا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی وہ مسیح ہیں جن کی توریت میں بشارت دی گئی ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے دین کو منسوخ کریں گے، تو جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعوت کا اظہار فرمایا تو یہ ان پر بہت شاق گزرا اور وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ایذاا ورقتل کے درپے ہوئے اور انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کفر کیا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس وقت فرمایا کہ کون ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہوکر میرا مددگار بنے ۔ اس پر حواریوں نے آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد کا وعدہ کیا۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۵۲، ۱ / ۲۵۳)
حواری وہ مخلصین ہیں جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین کے مددگار تھے اور آپ پر اوّل ایمان لائے، یہ بارہ اَشخاص تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بوقت ِمصیبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندوں سے مدد مانگنا سنت ِپیغمبر ہے۔ حواریوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور پھر کہا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے مسلمان ہونے پر گواہ بن جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان و اسلام ایک ہی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین اسلام تھا ، یہودیت و نصرانیت نہیں۔ اسی لئے ایمان لانے والوں نے اپنے آپ کو مسلمان کہا، عیسائی نہیں۔
{وَ مَكَرُوْا: اور انہوں نے خفیہ منصوبہ بنایا۔} یعنی بنی اسرائیل کے یہودیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مکر کیا کہ دھوکے کے ساتھ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قتل کا انتظام کیا اور اپنے ایک شخص کو اس کام پر مقرر کردیا۔ اللہتعالیٰ نے ان کے مکرکا یہ بدلہ دیا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آسمان پر اٹھالیا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شَباہت اس شخص پر ڈال دی جو ان کے قتل کے لیے آمادہ ہوا تھا چنانچہ یہودیوں نے اس کو اسی شبہ پر قتل کردیا۔ (صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۵۴، ۱ / ۲۷۶)
لفظ ’’مکر‘‘ کے معنی:
لفظ مَکَر لغت عرب میں ستر یعنی پوشیدگی کے معنی میں ہے اسی لئے خفیہ تدبیر کو بھی مَکَر کہتے ہیں اور وہ تدبیر اگر اچھے مقصد کے لیے ہو تو محمود اور کسی قبیح غرض کے لیے ہو تو مذموم ہوتی ہے مگر اردو زبان میں یہ لفظ فریب کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے اس لیے ہر گز شانِ الٰہی میں نہ کہا جائے گا اور اب چونکہ عربی میں بھی دھوکے کے معنیٰ میں معروف ہوگیا ہے اس لیے عربی میں بھی شانِ الٰہی میں اس کا اطلاق جائز نہیں آیت میں جہاں کہیں مذکور ہوا ہے وہاں وہ خفیہ تدبیر کے معنی میں ہے۔
{اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰى: جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ۔} اس آیتِ مبارکہ میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار باتیں فرمائی گئیں : (1) تَوَفّٰی یعنی پوری عمر کو پہنچانا،(2)اپنی طرف اٹھالینا، (3)کافروں سے نجات دینا، (4) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیروکاروں کو غلبہ دینا۔ اب ہم ان کو ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
پہلی بات تَوَفّٰی ہے۔مرزائیوں نے آیتِ پاک کے ان الفاظ کوبنیاد بنا کر یہود و نصاریٰ کی پیروی میں حضرت عیسی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا دعویٰ کیا اور یہ سراسر غلط ہے کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تَوَفّٰی کا حقیقی معنی ہے ’’پورا کرنا ‘‘ جیسے قرآن پاک میں ہے:
وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی(النجم:۳۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ابراہیم جو پورے احکام بجا لایا۔
اور یہ موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ ا س کا مجازی معنی ہے اور جب تک کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو اس وقت تک لفظ کا حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی مراد نہیں لیا جا سکتا، اور یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں کہ تَوَفّٰی کا معنی موت کیا جائے بلکہ ا س کا حقیقی معنی مراد لینے پر واضح قرائن بھی موجود ہیں اور وہ قرائن احادیثِ مبارکہ ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور قربِ قیامت میں واپس تشریف لائیں گے۔ لہٰذا اس آیت سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات ثابت نہیں ہوتی۔ دوسرے نمبر پر بالفرض اگر تَوَفّٰی کا معنیٰ ’’وفات دینا ‘‘ ہی ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وفات پاچکے ہیں۔ صرف یہ فرمایا ہے کہ’’اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دوں گا۔ تو یہ بات تو ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی وفات پائیں گے، یہ معنی نہیں ہے کہ ہم نے تجھے فوت کردیا۔ اب یہ بات کہ آیت میں تَوَفّٰی یعنی وفات دینے کاپہلے تذکرہ ہے اور اٹھائے جانے کا بعد میں اور چونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اٹھائے جاچکے ہیں لہٰذا ان کی وفات بھی پہلے ثابت ہوگئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ آیت میں ’’مُتَوَفِّیْكَ‘‘ اور ’’رَافِعُكَ‘‘کے درمیان میں ’’واؤ‘‘ ہے اور عربی زبان میں ’’واؤ‘‘ ترتیب کیلئے نہیں آتی کہ جس کا مطلب یہ نکلے کہ وفات پہلے ہوئی اور اٹھایا جانا بعد میں ، جیسے قرآن پاک میں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے فرمایا گیا:
وَ اسْجُدِیْ وَ ارْكَعِیْ(آلِ عمران:۴۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور سجدہ اور رکوع کر۔
یہاں سجدے کا پہلے تذکرہ ہے اور رکوع کا بعد میں ، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا رکوع بعد میں کرتی تھیں اور سجدہ پہلے ، ہر گز نہیں۔ لہٰذا جیسے یہاں ’’واؤ‘‘ کا آنا ترتیب کیلئے نہیں ہے ایسے ہی مذکورہ بالا آیت میں ’’واؤ‘‘ترتیب کیلئے نہیں ہے۔
دوسری بات حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اٹھایا جانا ہے۔ فرمایا گیا کہ ہم تمہیں بغیر موت کے اٹھا کر آسمان پر عزت کی جگہ اور فرشتوں کی جائے قرار میں پہنچا دیں گے ۔رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میری امت پر خلیفہ ہو کر نازل ہوں گے، صلیب توڑیں گے ،خنزیروں کو قتل کریں گے، چالیس سال رہیں گے، نکاح فرمائیں گے، اولاد ہوگی اور پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصال ہوگا۔ وہ امت کیسے ہلاک ہو جس کا اوّل میں ہوں اور آخر حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور وسط میں میرے اہلِ بیت میں سے حضرت مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُُ۔ (مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۱۶۳، ابن عساکر، ذکر من اسمہ عیسیٰ، عیسی بن مریم، ۴۷ / ۵۲۲)
مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام منارۂ شرقی دمشق پر نازل ہوں گے۔ (مسلم ، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ، ص۱۵۶۸، الحدیث: ۱۱۰(۲۹۳۷))
یہ بھی حدیث میں ہے کہ ’’حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حجرہ میں مدفون ہوں گے۔ (الوفاء باحوال المصطفٰی، ابواب بعثہ وحشرہ وما یجری لہ صلی اللہ علیہ وسلم، الباب الثانی فی حشر عیسی بن مریم مع نبینا، ص۳۲۵،الجزء الثانی)
تیسری بات کہ کفار سے نجات دلاؤں گا۔اس طرح کہ کفار کے نرغے سے تمہیں بچا لوں گا اور وہ تمہیں سولی نہ دے سکیں گے۔
چوتھی بات ماننے والوں کومنکروں پر غلبہ دینا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ماننے والوں سے مراد ہے ’’ان کو صحیح طور پر ماننے والے‘‘ اور صحیح ماننے والے یقینا صرف مسلمان ہیں کیونکہ یہودی تو ویسے ہی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دشمن ہیں اور عیسائی انہیں خدا مانتے ہیں تو یہ ’’ماننا ‘‘تو بدترین قسم کا ’’نہ ماننا‘‘ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامفرمائیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے سوا کسی کو معبود نہ مانو اور یہ کہیں ، نہیں ، ہم توآپ کو بھی معبود مانیں گے۔
{فَاُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا: تو میں انہیں سخت عذاب دوں گا۔} کافر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں سزا کے مستحق ہیں۔ دنیا میں سزا تو قتل، قیداور جزیہ لازم ہونا ہے اور آخرت کا عذاب دوزخ ہے۔
{اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى: بیشک عیسیٰ کی مثال۔} علاقہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں آیا اور وہ لوگ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کہنے لگے کہ’’ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ گمان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے ہیں۔ فرمایا:’’ ہاں ، اس کے بندے اور اس کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے کنواری پاک مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو عطا فرمایا۔ عیسائی یہ سن کر بہت غصہ میں آئے اور کہنے لگے: اے محمد! کیا تم نے کبھی بے باپ کا انسان دیکھا ہے؟ اس سے اُن کا مطلب یہ تھا کہ وہ خدا عَزَّوَجَلَّ کے بیٹے ہیں۔ (معاذاللہ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یہ بتایا گیا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو صرف بغیر باپ کے پیدا ہوئے جبکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو ماں اور باپ دونوں کے بغیر مٹی سے پیدا کیے گئے تو جب انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّکا مخلوق اور بندہ مانتے ہو تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مخلوق و بندہ ماننے میں کیا تعجب ہے؟ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۵۹، ۱ / ۲۵۷، تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۵۹، ۲ / ۷۹-۸۰، الجزء الرابع، ملتقطاً) لہٰذا جیسے حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بغیر نطفہ کے بنے،ایسے ہی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ۔تو جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خدا کے بیٹے نہ ہوئے تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامخدا عَزَّوَجَلَّکے بیٹے کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔
{اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ: حق تیرے رب کی طرف سے ہے۔} آیت کا معنیٰ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ جو واقعہ بیان ہوا یہ حق ہے اور تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے لہٰذا اس میں شک نہ کرواور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر حق تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے لہٰذا اس میں شک نہ کرو اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بھی اسی حق میں سے ہے جو تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے لہٰذا اس میں بھی شک نہ کرو۔
{فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ: جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں جھگڑا کریں۔}یہاں مباہلے کا ذکر ہورہا ہے اس کا معنیٰ سمجھ لیں ، مُباہَلہ کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ دو مدمقابل افراد آپس میں یوں دعا کریں کہ اگر تم حق پر اور میں باطل ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے ہلاک کرے اور اگر میں حق پر اور تم باطل پر ہو تواللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کرے۔ پھر یہی بات دوسرا فریق بھی کہے۔ اب واقعہ پڑھئے۔ جب سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے نجران کے عیسائیوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی اور مباہلہ کی دعوت دی تو کہنے لگے کہ ہم غور اور مشورہ کرلیں ، کل آپ کو جواب دیں گے۔ جب وہ جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سب سے بڑے عالم اور صاحب رائے شخص عاقب سے کہا کہ’’ اے عبدُ المسیح! مباہلہ کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اس نے کہا: اے نصاریٰ کی جماعت! تم پہچان چکے ہو کہ محمدنبی مُرْسَل تو ضرور ہیں۔ اگر تم نے ان سے مباہلہ کیا تو سب ہلاک ہوجاؤ گے۔ اب اگر نصرانیت پر قائم رہنا چاہتے ہو تو انہیں چھوڑ دو اور گھروں کو لوٹ چلو۔ یہ مشورہ ہونے کے بعد وہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ حضورانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گود میں تو امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں اور دستِ مبارک میں امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ہاتھ ہے اور حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا اور حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پیچھے ہیں اور حضورپر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان سب سے فرما رہے ہیں کہ’’ جب میں دعا کروں تو تم سب آمین کہنا۔ نجران کے سب سے بڑے عیسائی پادری نے جب ان حضرات کو دیکھا تو کہنے لگا :اے جماعت ِ نصاریٰ! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پہاڑ کو ہٹادینے کی دعا کریں تو اللہ تعالیٰ پہاڑ کو جگہ سے ہٹا دے، ان سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی باقی نہ رہے گا۔ یہ سن کر نصاریٰ نے سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کیا کہ’’ مباہلہ کی تو ہماری رائے نہیں ہے۔ آخر کار انہوں نے جزیہ دینا منظور کیا مگر مباہلہ کے لیے تیار نہ ہوئے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۶۱، ۱ / ۲۵۸)
سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ’’ اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، نجران والوں پر عذاب قریب آ ہی چکا تھا۔ اگر وہ مباہلہ کرتے تو بندروں اور سوروں کی صورت میں مسخ کردیئے جاتے اور جنگل آگ سے بھڑک اٹھتا اور نجران اور وہاں کے رہنے والے پرند ے تک نیست و نابود ہوجاتے اور ایک سال کے عرصہ میں تمام نصاریٰ ہلاک ہوجاتے۔(ابو سعود، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۶۱، ۱ / ۳۷۳)
مباہلہ کس میں ہونا چاہئے:
اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ مناظرہ سے اوپر درجہ مباہلہ کا ہے یعنی مخالف ِدین کے ساتھ بد دعا کرنی۔ دوسرے یہ کہ مباہلہ دین کے یقینی مسائل میں ہونا چاہیے نہ کہ غیر یقینی مسائل میں لہٰذا اسلام کی حقانیت پر تو مباہلہ ہوسکتا ہے۔ حنفی شافعی اختلافی مسائل میں نہیں۔
{اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ: بیشک یہی سچا بیان ہے۔} یعنی یہ کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس میں نصاریٰ کا بھی رد ہے اور تمام مشرکین کا بھی۔
{قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ: تم فرماؤ، اے اہلِ کتاب!۔} اہلِ کتاب کو تین چیزوں کی طرف دعوت دی پہلی یہ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور یہ وہ چیز ہے جس میں قرآن ،توریت اور انجیل سب متفق ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ دوسری یہ کہ ہم کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہرائیں نہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور نہ حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو نہ اور کسی کو اور یہ بات یقینا پہلی بات ماننے کے مُترادِف ہے۔ تیسری بات یہ کہ ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا رب نہ بنائے جیسے یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور پادریوں کو بنا رکھا تھا کہ ان کے احکام کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم کے برابر سمجھتے۔
اختلاف ختم کرنے کا عمدہ طریقہ:
اس آیت میں اختلاف ختم کرنے کا ایک عمدہ طریقہ بیان کیا ہے کہ جو مشترکہ اور متفقہ چیزیں ہیں انہیں طے کرلیا جائے تاکہ اختلافی امور ممتاز ہوجائیں اور ان کی تعداد کم ہو جائے اور بحث صرف انہی پر منحصر رہے۔ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ جب بحث کی جاتی ہے تو کبھی اختلافی موضوع زیرِ بحث آتا ہے اور کبھی اتفاقی پر بحث شروع ہوجاتی ہے۔
{لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ: تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ } نجران کے عیسائیوں اور یہودیوں کے علماء میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے متعلق مناظرہ ہوا۔ یہودی کہتے تھے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یہودی تھےلہٰذا ہمارا دین بڑا ہے۔ عیسائی کہتے تھے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عیسائی تھے لہٰذا ہمارا دین بڑا ہے۔ آخر کار ان دونوں نے سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اپنا حاکم بنایا، اس پر آیت اتری، (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۶۵، ۱ / ۲۶۰)
جس میں ان بیوقوفوں کی انتہائی جہالت ظاہر فرمائی گئی کہ یہودیت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور نصرانیت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جاری ہوئیں اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان دونوں بزرگوں سے کئی سو سال پہلے ہوئے ہیں تو وہ یہودی یا عیسائی کیسے ہو سکتے ہیں ؟ چنانچہ فرمایا: اے اہلِ کتاب !تم ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو کہ وہ یہودی یا عیسائی تھے؟ حالانکہ توریت اور انجیل تو اتری ہی ان کے بعد ہے ۔تو کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ؟ کہ کئی سوسال پہلے والا شخص بعد والے گروہ میں شامل نہیں ہوسکتا ۔
بزرگوں پر ہونے والے اعتراضات کو دور کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں سے لوگوں کے الزام دور کرنا سنت ِ الٰہیہ ہے، ان کی عظمت کی حمایت کرنا محبوب چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم، حضرت سلیمان اور دیگر بہت سے انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ہونے والے اعتراضات کو دور فرمایا ہے۔
علمِ تاریخ کی اہمیت:
اس آیتِ مبارکہ سے علمِ تاریخ کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے کہ یہاں تاریخ پر ہی حقیقت کا مدار ہے۔فی زمانہ علمِ تاریخ کی ویسے بھی بہت ضرورت ہے کیونکہ ہمارے زمانے کے بہت سے گمراہ لوگ تاریخ کو مسخ کرکے ہی لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ یونہی علمِ اَسماء ُالرِّجال حقیقتاً تاریخ پر ہی دارومدار رکھتا ہے نیز قوموں کے عروج و زوال اور اس کے اسباب تاریخ ہی سے معلوم ہوتے ہیں۔ البتہ اپنے طور پر ہر ایک کو تاریخ کی اجازت نہیں کیونکہ موجودہ تاریخ میں بہت سی گمراہ کن باتیں شامل ہیں۔ بے علم آدمی پڑھے گا تو مارا جائے گا۔ کسی مُستَنَد عالم کی رہنمائی میں تاریخ پڑھنی چاہیے۔
{هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ: سن لو: تم وہی لوگ ہو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ تم ہی ہو کہ تمہاری کتابوں میں نبیِّ آخر الزّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ظہور اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت کا بیان موجود ہے اس کے باوجود تم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لائے اور تم نے اس میں جھگڑا کیا تو جب معلوم باتوں میں تم جھگڑا کرتے ہو تو ان باتوں میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں ، یعنی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو یہودی یا نصرانی کہتے ہوحالانکہ تمہیں اس کا علم ہی نہیں ہے اورحقیقت حال یہ ہے کہ کسی یہودی یا نصرانی یا مشرک کا اپنے آپ کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پیروکار کہنا درست نہیں کیونکہ وہ نہ یہودی تھے، نہ عیسائی اور نہ مشرک بلکہ ہر باطل سے جدا، خالصتاً اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار مسلمان بندے تھے۔
{اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ: بیشک سب لوگوں سے زیادہ ابراہیم کے حق دار وہ ہیں۔} اوپر کی آیات میں بیان ہوا کہ کسی یہودی یا نصرانی یا مشرک کا اپنے آپ کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پیروکار کہنا درست نہیں کیونکہ وہ نہ یہودی تھے، نہ عیسائی اور نہ مشرک بلکہ ہر باطل سے جدا، خالصتاً اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار مسلمان بندے تھے۔ اس کے بعد فرمایا کہ لوگوں میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو ان کے زمانہِ نبوت میں ان پر ایمان لائے اور ان کی شریعت پر عمل پیرا رہے اور پھر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قریب یہ نبی محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور ان کے امتی ہیں۔
آیت’’اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے3 مسئلے معلوم ہوئے :
(1)… نبی سے قرب ان کی اطاعت سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ محض ان کی اولاد ہونے سے ،چنانچہ کنعان حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے قریب نہ ہوسکا کیونکہ وہ کافر تھا۔
(2)… مسلمان ہی سچے ابراہیمی ہیں چنانچہ اسی لئے تمام ابراہیمی سنتیں اسلام میں موجود ہیں جیسے: حج ، قربانی ، ختنہ، داڑھی وغیرہ ۔یہ سب ابراہیمی سنتیں ہیں اور ان یہود و نصاریٰ کے دین میں نہیں ہیں توصرف مسلمان ابراہیمی ہوئے۔
(3)… بزرگوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ نعمت ہے۔ جیسے یہاں آیت میں حقانیت کی علامت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے صحیح نسبت و تعلق کو بیان فرمایا ہے۔
{وَدَّتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: کتابیوں کا ایک گروہ دل سے چاہتا ہے۔} یہ آیت حضرت معاذ بن جبل ، حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عمار بن یاسررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے حق میں نازل ہوئی جن کو یہودی اپنے دین میں داخل کرنے کی کوشش کرتے اور یہودِیَّت کی دعوت دیتے تھے ،اس میں بتایا گیا کہ ’’یہ ان کی ہوس خام ہے ،وہ ان کو گمراہ نہ کرسکیں گے۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۸۴، الجزء الرابع )
اس میں مذکورہ بالا صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عظمت و شان بھی واضح ہوتی ہے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ کفار کے گروہ مسلمانوں کو اپنے دین میں داخل کرنے کیلئے کوششیں ہمیشہ کرتے رہیں گے۔ چنانچہ وقتاً فوقتاً کفرو اِرْتِداد کی تحریکیں چلتی رہتی ہیں اور اب تو فلموں ، ڈراموں ، مزاحیہ پروگراموں اور خصوصاً گانوں نے تو تباہی مچا رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔[1]
...[1] فلموں ڈراموں اور گانوں کی تباہ کاریاں جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رسائل ،، ٹی وی کی تباہ کاریاں،، اور ،،گانے باجے کے 35 کفریہ اشعار،،(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا ضرور مطالعہ کیجئے۔
{لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ: اللہ کی آیتوں کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو؟ }اہلِ کتاب سے فرمایا گیا کہ’’ اے کتابیو! تم اللہ عَزَّوَجَلَّکی آیتوں کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو حالانکہ تم خود اپنی کتابوں توریت و انجیل سے پڑھ کر قرآن اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی حقانیت کے گواہ ہو اور تمہاری کتابوں میں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت موجود ہے اور تم جانتے ہو کہ وہ نبی برحق ہیں اور ان کا دین سچا دین ہے۔
{لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ: حق کوباطل کے ساتھ کیوں ملاتے ہو؟} فرمایا کہ’’ اے کتابیو! اپنی کتابوں میں تحریف و تبدیل کرکے حق کوباطل کے ساتھ کیوں ملاتے ہو؟ اورذاتی مفادات کیلئے حق کیوں چھپاتے ہو ؟حالانکہ تم جانتے ہو کہ یہ نبی حق ہیں اور تم غلطی پر ہو۔
{وَ قَالَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: اور کتابیوں کے ایک گروہ نے کہا۔} یہودی اسلام کی مخالفت میں رات دن نئی نئی سازشیں کیا کرتے تھے۔ خیبرکے بارہ یہودی علماء نے آپس میں مشورہ کرکے یہ سازش تیار کی کہ ان کی ایک جماعت صبح کے وقت اسلام لے آئے اور شام کو مرتد ہوجائے اور لوگوں سے کہے کہ ہم نے اپنی کتابوں میں جو دیکھا تو ثابت ہوا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ وہ نبی نہیں ہیں جن کی ہماری کتابوں میں خبر ہے تاکہ اس حرکت سے مسلمانوں کواپنے دین میں شبہ پیدا ہوجائے اور یہ اپنے دین سے پھر جائیں (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷۲، ۱ / ۲۶۲-۲۶۳)
لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ان کا یہ راز فاش کردیا اور ان کا یہ مکر نہ چل سکا اور مسلمان پہلے سے خبردار ہوگئے۔ اس بات سے باخبر رہنا چاہیے کہ کافروں کی طرف سے سازشوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ آج بھی ایسی سازشیں پکڑی جاتی ہیں کہ جھوٹی فلموں ، جھوٹی رپورٹوں اور جھوٹی تصویروں کے ذریعے لوگوں کو اسلام سے مُتَنَفِّر کیا جاتا ہے۔ اس وقت کفار میڈیا کو اس مقصد کیلئے بطورِ خاص استعمال کررہے ہیں۔
{وَ لَا تُؤْمِنُوْۤا اِلَّا لِمَنْ تَبِـعَ دِیْنَكُمْ: اور صرف اسی کا یقین کروجو تمہارے دین کی پیروی کرنے والا ہو۔} یہودی ایک تو آپس میں سازشیں بناتے رہتے تھے اور دوسرا ایک دوسرے سے کہتے کہ صرف اسی کا یقین کروجو تمہارے دین کی پیروی کرنے والا ہو اور اس بات پر ہر گز یقین نہ کروکہ کسی اور کو بھی ویسی ہدایت، دین ،کتاب و حکمت اور شرافت وفضیلت مل سکتی ہے جو تمہیں ملی ہوئی ہے ۔ یہودیوں کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ نبوت صرف بنی اسرائیل کو ملی ہے، ان کے سوا کسی اور قبیلہ کو نہیں ملی اور چونکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بنی اسرائیل سے نہیں بلکہ بنی اسماعیل میں سے ہیں لہٰذا یہ نبی نہیں ہیں۔ یہودی اس بہانے سے لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے۔ یونہی ان کے علماء کا کہنا تھا کہ تم زبان سے اسلام کی حقانیت کا اقرار کر لینا مگر دل سے نہ کرنا۔ یہودیوں کے یہ دعوے سراسر جھوٹے تھے کہ نبوت ان کے علاوہ کسی اور کو نہیں مل سکتی کیونکہ اس بات کا ذکر کسی آسمانی کتاب میں نہیں تھا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے حبیب! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تم فرمادو کہ فضل تو یقینا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے، یعنی وہ جسے چاہتا ہے نبوت عطا فرماتا ہے ،تو جس چیز میں اللہ تعالیٰ نے قید نہ لگائی تم لگانے والے کون ہوتے ہو؟ نبوت میرا فضل ہے جسے چاہوں عطا کروں ،میں نے اس کو بنی اسرائیل کے لئے خاص نہ فرمایا۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبوت اعمال سے نہیں ملتی، یہ محضاللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل ہے ۔
{یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُ: وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے خاص فرما لیتا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ نبوت و رسالت کے ساتھ جسے چاہے خاص فرمالیتا ہے اور نبوت جس کسی کو ملتی ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے ملتی ہے اس میں ذاتی استحقاق کا دخل نہیں۔ ہاں اب اللہ تعالیٰ نے چونکہ نبوت کا دروازہ بند کردیا تو اب کسی کو نبوت نہ ملے گی۔
{وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ: اور اہلِ کتاب میں کوئی تو وہ ہے۔}یہ آیت اہلِ کتاب کے بارے میں نازل ہوئی اور اس میں ظاہر فرمایا گیا کہ’’ ان میں دوقسم کے لوگ ہیں : امانت دار اور بددیانت۔ بعض تو ایسے ہیں کہ ان کے پاس ڈھیروں ڈھیر مال بھی امانت کے طور پر رکھ دیا جائے تو وہ بغیر کسی کمی بیشی کے وقت پر ادا کردیں گے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جن کے پاس ایک قریشی نے بارہ سو اوقیہ یعنی تقریبا ً147کلوسونا امانت رکھا تھا، آپ نے اس کو ویسا ہی ادا کیا اور بعض اہلِ کتاب اتنے بددیانت ہیں کہ تھوڑے سے مال پر بھی ان کی نیت بگڑ جاتی ہے۔ جیسے کہ فَنْحَاص بِنْ عَازُورَاء نامی یہودی جس کے پاس کسی نے ایک اشرفی امانت رکھی تھی لیکن وہ واپسی کے وقت اس سے بھی مُکَرگیا۔(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷۵، ۲ / ۵۴)
تو ان دونوں قسم کے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ اہلِ کتاب میں کوئی تو وہ ہے کہ اگر تم اس کے پاس ایک ڈھیر بھی امانت رکھ دو تو وہ تمہیں پورا پورا واپس ادا کردے گا اور انہی میں سے کوئی وہ ہے کہ اگر تم اس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھ دو تو جب تک تم اس کے سر پر کھڑے نہیں رہو گے اور بار بار تقاضا نہیں کرتے رہو گے وہ تمہیں ادا نہیں کرے گا گویا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ڈر سے نہیں بلکہ لوگوں کے ڈر سے اور بار بار کے تقاضے پر ہی امانت ادا کرے گا اور ایسی امانت داری قابلِ تعریف نہیں جو بلند اخلاقی اور خوف ِ خدا کی وجہ سے نہ ہو بلکہ لوگوں کے ڈر سے ہو ۔ یہودی اس طرح بددیانتی کی حرکتیں کرتے اور اپنے نفس کو اس حیلے بہانے سے راضی کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں دوسرے دین والوں کے مال ہضم کرجانے کا حکم دیا ہے حالانکہ یہ خوب جانتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں کوئی ایسا حکم نہیں اور ان کی یہ بات اللہ تعالیٰ پر بہتا ن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دھوکے اور ظلم کے طور پر کسی کا مال دبا لینا حرام ہے اگرچہ وہ کسی دوسرے مذہب کا ہو۔ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہجرت کی رات حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ان لوگوں کی امانتوں کی ادائیگی کی ذمہ داری دے کر گئے جو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے قتل کا ارادہ کر رہے تھے اور جن سے تنگ آکر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہجرت کررہے تھے۔ سُبْحَانَ اللہ۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام، ہجرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، ص۱۹۲-۱۹۳)
اے کاش کہ ہمارے مسلمان بھائی غور فرمائیں کہ وہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی سنت پر عمل پیرا ہیں یا یہودیوں کے طریقے پر؟ اس وقت عمومی طور پر مسلمان دنیا میں نیک نام نہیں ہیں۔
{بَلٰى: کیوں نہیں۔} یہودیوں کی بات کہ’’ دوسرے مذہب والوں سے بددیانتی کرنے پران سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی‘ ‘ بیان کی گئی ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون بیان فرمادیا کہ دوسروں سے بددیانتی کرنے پر پوچھ گچھ کیوں نہیں ہوگی؟ وعدہ پورا کرنا اور امانت کا ادا کرنا دونوں چیزیں پرہیزگاری کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور پرہیزگاری اللہ تعالیٰ کو نہایت محبوب ہے تو جواللہ تعالیٰ کی پسند پر چلے گا وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بنے گا اور جو اللہ تعالیٰ کی پسند کی مخالفت کرے گا اس پر ضرور مواخذہ کیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو کسی سے وعدہ کیا جائے اسے ضرور پورا کیا جائے خواہ رب عَزَّوَجَلَّ سے کیا ہو یا عام انسانوں سے یا نبی سے یا اپنے پیر سے یا بوقت نکاح بیوی سے یا کسی اور عزیز سے۔
{ثَمَنًا قَلِیْلًا: تھوڑی سی قیمت۔} یہ آیت یہودیوں کے علماء اور ان کے کچھ سرداروں مثلاً ابو رافع، کعب بن اشرف اور حی بن اخطب وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا وہ عہد چھپایا تھا جو نبیِّ آخر الزّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کے متعلق ان سے توریت میں لیا گیا تھا، انہوں نے اس کو بدل دیا اور بجائے اس کے اپنے ہاتھوں سے کچھ کا کچھ لکھ دیا اور جھوٹی قسم کھائی کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور یہ سب کچھ انہوں نے اپنی جماعت کے جاہلوں سے رشوتیں اورمال و دولت حاصل کرنے کے لیے کیا۔ان کیلئے یہ شدید وعید بیان کی گئی کہ جو لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے وعدے اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑی سی قیمت لیتے ہیں ،اِن لوگوں کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن نہ توان سے کلام فرمائے گااور نہ ان کی طرف رحمت کی نظر کرے گااور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
جھوٹ بول کر مال حاصل کرنے کی وعید:
اس وعید میں جھوٹی قسم کھا کر مال لے لینے والے، رشوت لے کر جھوٹی گواہی دینے والے یا رشوت لے کر جھوٹے فیصلے کرنے و الے یا جھوٹی وکالت کرنے والے سب ہی داخل ہیں۔
حضرت ابوذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی مسلم شریف کی حدیث میں ہے ، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تین لوگ ایسے ہیں کہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ نہ ان سے کلام فرمائے گااور نہ ان کی طرف نظر رحمت کرے گا اورنہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گااور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے ۔اس کے بعد نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اس آیت کو تین مرتبہ پڑھا ، اس پر حضرت ابوذر غفاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی کہ’’ وہ لوگ بہت نقصان میں رہے۔ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہیں ؟ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تہہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا(یعنی تکبر کے طور پر) اور احسان جتانے والا اور اپنے تجارتی مال کو جھوٹی قسم سے رواج دینے والا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار۔۔۔ الخ، ص۶۷، الحدیث: ۱۷۱(۱۰۶))
حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو کسی مسلمان کا حق مارنے کے لیے قسم کھائے اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردیتا ہے اور دوزخ لازم کردیتا ہے۔ایک شخص نے عرض کی: یارسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگرچہ تھوڑی سی چیز ہو؟ فرمایا: اگرچہ پیلوکی شاخ ہی کیوں نہ ہو۔(مسلم، کتاب الایمان، باب وعید من اقتطع حق مسلم۔۔۔ الخ، ص۸۲، الحدیث: ۲۱۸ (۱۳۷))
{وَ اِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِیْقًا: اور یقیناان اہلِ کتاب میں سے کچھ وہ ہیں۔} یہودیوں کے بارے میں فرمایا کہ’’ وہ توریت پڑھتے ہوئے گڑبڑ کرتے ہیں اور اپنی طرف سے کچھ مفہوم ملا کراس انداز میں پڑھتے ہیں کہ لوگ سمجھیں کہ یہ بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام ہے حالانکہ وہ کتابُ اللہ کا حصہ نہیں ہوتا۔ یہ تاَثُّر دینے کے ساتھ بعض اوقات صراحت بھی کردیتے ہیں کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام ہے حالانکہ یہ صریح جھوٹ ہوتا ہے۔ آج کل بھی ایسے لوگ دیکھے ہیں جو توحیدکی آیتیں پڑھ کر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْکی شان کا انکار کرتے ہیں اور یہ تاَثُّر دیتے ہیں کہ یہ شانِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا انکار بھی قرآن میں ہے حالانکہ یہ صریح جھوٹ ہے۔ یونہی بہت سے لوگوں کو سود ، پردے، اسلامی سزاؤں اور دیگر کئی چیزوں کے بارے میں کلام کرتے سنا ہے وہ بھی قرآن پڑھتے ہیں اور درمیان میں اصل اسلامی احکام میں رد و بدل کرتے ہوئے اپنی بات اس انداز میں شامل کرتے ہیں کہ سننے والا سمجھے کہ شاید یہ بھی قرآن میں ہی ہے حالانکہ یہ واضح طور پر دھوکہ اور فریب ہوتا ہے۔
{مَا كَانَ لِبَشَرٍ: کسی آدمی کو یہ حق نہیں۔} یہاں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان کا بیان اور ان پر ہونے والے اعتراض کا جواب ہے جیسا کہ آیت کے شانِ نزول سے واضح ہے۔ فرمایا گیا کہ’’ کسی آدمی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے کمالِ علم و عمل عطا فرمائے اور اسے گناہوں سے معصوم بنائے اور وہ پھر لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دے ۔ یہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ناممکن ہے اور ان کی طرف ایسی نسبت بہتان ہے۔ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ربانی یعنی اللہ والے بننے کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ نجران کے عیسائیوں نے کہا کہ ’’ہمیں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حکم دیا ہے کہ ہم انہیں رب مانیں۔ تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ا س قول کی تکذیب کی اور بتایا کہ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان سے ایسا کہنا ممکن ہی نہیں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷۹، ۱ / ۲۶۶)
جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ ابو رافع یہودی اور ایک عیسائی نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کہا: اے محمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی عبادت کریں اور آپ کو رب مانیں۔ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ کہ میں غیرُاللہ کی عبادت کا حکم کروں۔ نہ مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کا حکم دیا اورنہ مجھے اس لیے بھیجاہے۔(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷۹، ۲ / ۵۶)
آیت میں ربّانی کا لفظ مذکور ہے۔ ربّانی کے معنی نہایت دیندار، عالم باعمل اورفقیہ کے ہیں۔ (تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷۹، ۲ / ۹۳، الجزء الرابع)
اس سے ثابت ہوا کہ علم و تعلیم کا ثمرہ یہ ہونا چاہیے کہ آدمی اللہ والا ہو جائے، جسے علم سے یہ فائدہ نہ ہو اس کا علم ضائع اور بے کار ہے۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan