Surah Aal Imraan
{وَ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ: اور کسی نبی کا خیانت کرنا ممکن ہی نہیں۔ } نبی عَلَیْہِ السَّلَام کا خیانت کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ شانِ نبوّت کے خلاف ہے، نیزانبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں لہٰذا اُن سے ایسا ممکن نہیں۔ وہ نہ تو وحی کے معاملے میں خیانت کرتے ہیں اور نہ کسی اور معاملے میں۔ شانِ نزول: ایک جنگ میں مالِ غنیمت میں ایک چادر گم ہو گئی ۔ بعض منافقوں نے کہا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے لئے رکھ لی ہوگی ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ (جمل علی الجلالین، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۶۱،۱ / ۵۰۵)
اس سے کئی مسئلے معلوم ہوئے ۔ ایک یہ کہ غنیمت کی تقسیم کے بغیر ناجائز طریقہ پر کچھ لینا سخت حرام ہے۔ دو سرا یہ کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَامگناہوں سے معصوم ہیں۔ گناہ اور نبوت میں وہی نسبت ہے جو اندھیرے اور اجالے میں ہے ۔تیسرا یہ کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام پر بد گمانی منافقوں کا کام ہے اور کفر ہے۔ چوتھا یہ کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام ربُّ العالمین عَزَّوَجَلَّ کے ایسے پیارے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر سے لوگوں کی تہمتیں دور فرماتا ہے ۔
خیانت کی مذمت:
اس آیت میں خیانت کی مذمت بھی بیان فرمائی کہ جو کوئی خیانت کرے گا وہ کل قیامت میں اس خیانت والی چیز کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ احادیث میں بھی خیانت کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے ، چنانچہ سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جہنمیوں میں ایسے شخص کو بھی شمار فرمایا جس کی خواہش اور طمع اگرچہ کم ہی ہو مگر وہ اسے خیانت کا مرتکب کر دے۔(مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنۃ واہل النار، ص۱۵۳۲، الحدیث: ۶۳(۲۸۶۵))
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جو امانتدار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(مسند امام احمد، مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند انس بن مالک بن النضر، ۴ / ۲۷۱، الحدیث: ۱۲۳۸۶)
حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’مومن ہر عادت اپنا سکتا ہے مگر جھوٹااور خیانت کرنے والانہیں ہوسکتا ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی، ۸ / ۲۷۶، الحدیث: ۲۲۲۳۲)
{اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللّٰهِ:کیا وہ شخص جواللہ کی خوشنودی کے پیچھے چلا۔ }اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مستحق دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ کہاں وہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے سچی محبت کرنے والا، اس کی اطاعت کرنے والا ، اس کی خوشنودی کیلئے سب کچھ قربان کردینے والا جیسے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور ان کے بعد کے صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور کہاں اللہتعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا، اس کے احکام سے منہ موڑنے والا، اس کی ناراضی کی پرواہ نہ کرنے والا اور اپنی خواہش کو رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا پر ترجیح دینے والاجیسے کفارو منافقین اور ان کے پیروکار نافرمان لوگ، یہ دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ان لوگوں کے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں مختلف درجات ہیں ، ہر ایک کی منزلیں اور مقامات جدا گانہ ہیں۔ بروں کے الگ مقام اور اچھوں کے الگ جیسا کہ اس سے اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے ۔
{لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ:بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا۔ }عربی میں مِنَّت عظیم نعمت کو کہتے ہیں۔ مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عظیم احسان فرمایا کہ انہیں اپنا سب سے عظیم رسول عطا فرمایا۔ کیسا عظیم رسول عطا فرمایا کہ اپنی ولادتِ مبارکہ سے لے کر وصالِ مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہار ہے ہیں بلکہ ہمارا تو وجود بھی حضور سید دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقہ سے ہے کہ اگر آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ ہوتے تو کائنات اور اس میں بسنے والے بھی وجود میں نہ آتے ۔ پیدائشِ مبارکہ کے وقت ہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم امتیوں کو یاد فرمایا،شبِ معراج بھی ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں یادفرمایا، وصال شریف کے بعد قبرِ انور میں اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لب ہائے مبارکہ پر امت کی نجات و بخشش کی دعائیں تھیں۔ آرام دہ راتو ں میں جب سارا جہاں محو اِستراحت ہوتا وہ پیارے آقا حبیب کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنا بستر مبارک چھوڑ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ہم گناہگاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے ہیں۔ عمومی اور خصوصی دعائیں ہمارے حق میں فرماتے رہتے۔قیامت کے دن سخت گرمی کے عالم میں شدید پیاس کے وقت ربِّ قہار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ہمارے لئے سر سجدہ میں رکھیں گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے ۔ کہیں امتیوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری کریں گے ، کہیں پل صراط سے سلامتی سے گزاریں گے ، کہیں حوضِ کوثر سے سیراب کریں گے ، کبھی جہنم میں گرے ہوئے امتیوں کو نکال رہے ہوں گے ،کسی کے درجات بلند فرما رہے ہوں گے ، خود روئیں گے ہمیں ہنسائیں گے ، خود غمگین ہوں گے ہمیں خوشیاں عطا فرمائیں گے ، اپنے نورانی آنسوؤں سے امت کے گناہ دھوئیں گے اوردنیا میں ہمیں قرآن دیا، ایمان دیا ، خدا کا عرفان دیا اور ہزار ہا وہ چیزیں جن کے ہم قابل نہ تھے اپنے سایہ رحمت کے صدقے ہمیں عطا فرمائیں۔ الغرض حضور سید دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احسانات اس قدر کثیر در کثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔ اس آیتِ مبارکہ کے الفاظ کی وضاحت کیلئے سورہ بقرہ آیت نمبر129کی تفسیر دیکھیں۔
{اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ:کیا جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچی۔ }یہاں غزوہ اُحد کا بیان ہے ۔ اسی پیرائے میں یہاں بیان کیا جارہا ہے کہ تمہیں میدانِ اُحدمیں تکلیف پہنچی کہ تم میں سے ستّر شہید ہوئے جبکہ میدانِ بدر میں کفار کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر گرفتار ہوئے تو کفار کا نقصان تو دُگنا ہوا۔ اس پر فرمایا کہ جب تمہیں میدانِ احد میں ایسی تکلیف پہنچی جس سے دگنی تکلیف تم کافروں کومیدانِ بدر میں پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ ہمیں یہ تکلیف کیسے آگئی؟ جبکہ ہم مسلمان ہیں اور ہم میں سید المرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف فرما ہیں۔ اس پر انہیں جواب دیا گیا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،تم ان سے فرمادو کہ یہ تمہاری اپنی ہی طرف سے آئی ہے کہ تم نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مرضیکے خلاف مدینہ طیبہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے پر اِصرار کیا، پھر وہاں پہنچنے کے بعد تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شدید ممانعت کے باوجود غنیمت کے لئے مرکز کوچھوڑا ۔ یہی بات تمہارے قتل اور نقصان کا سبب بنی ہے۔مزید اگلی آیت میں فرمایا کہ میدانِ اُحد میں کافروں اور مسلمانوں کے مقابلے کے دن تمہیں جو تکلیف پہنچی تووہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے تھی اور اس لئے پہنچی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایمان والوں کی پہچان کرادے لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فیصلے پر راضی رہو ۔
{ وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا: اور تاکہ منافقوں کی پہچان کروادے ۔ } غزوہ اُحد میں مسلمانوں کے نقصان اٹھانے کی حکمتوں کو متعدد مقامات پربیان فرمایا گیا ہے جس میں بہت بڑی حکمت مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز ظاہر کرنا تھا چنانچہ یہاں پر بھی فرمایا گیا کہ مسلمان لشکر کو میدانِ اُحد میں اس لئے تکلیف پہنچی تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ لوگوں کومنافقوں کی پہچان کرادے ، کیونکہ منافقوں کی حالت یہ تھی کہ جب جنگِ اُحد شروع ہونے سے پہلیعبداللہبن اُبی وغیرہ منافقوں سے کہا گیا کہ ا ٓؤ اللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں جہاد کرویا صرف ہمارے ساتھ مل کر ہماری تعداد بڑھاؤ جس سے ایک قسم کا دفاع مضبوط ہوگا تو یہ منافق کہنے لگے کہ’’اگر ہم اچھے طریقے سے لڑنا جانتے ‘‘یا کہنے لگے کہ’’ اگر ہم اس لڑائی کو صحیح سمجھتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے ۔ ان منافقین کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ درحقیقت اس دن اپنے ظاہری ایمان کی نسبت کھلے کفر کے زیادہ قریب تھے۔ یہ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں یعنی یہ منہ سے تو یہ کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں لیکن ہم جنگ کر نا نہیں جانتے لیکن دل میں یہ کہتے ہیں کہ’’ کفا ر کو اپنا دشمن نہ بنا ؤ،مسلمانوں کو ان کے ہاتھوں تباہ ہو جانے دو۔
{اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ: جنہوں نے اپنے بھائیوں کے متعلق کہا ۔ }منافقین نے اُحد میں شہید ہونے والوں کے بارے میں کہا کہ اگر یہ لوگ ہماری بات مان لیتے اور ہماری طرح گھر بیٹھے رہتے تو مارے نہ جاتے ۔ ان کے جواب میں فرمایا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو اپنے سے موت کو دور کرکے تو دکھاؤ۔ یقینا موت تو بہرحال آکر ہی رہے گی خواہ آدمی گھر میں چھپ کر بیٹھ جائے ،تو یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ’’ اگر لوگ ہماری بات مان کر جہاد میں نہ جاتے تو نہ مارے جاتے۔
{وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا: اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا ۔} شانِ نزول: اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت شہداء احد کے حق میں نازل ہوئی ۔ حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جب تمہارے بھائی اُحد میں شہید ہوئے تواللہتعالیٰ نے ان کی اَرواح کو سبز پرندوں کے جسم عطا فرمائے ،وہ جنتی نہروں پر سیر کرتے پھرتے ہیں ، جنتی میوے کھاتے ہیں ، سونے کی اُن قندیلوں میں رہتے ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں۔جب ان شہداء کرام نے کھانے ، پینے اور رہنے کے پاکیزہ عیش پائے تو کہا کہ پیچھے دنیا میں رہ جانے والے ہمارے بھائیوں کو کون خبر دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں تاکہ وہ جہادسے بے رغبتی نہ کریں اور جنگ سے بیٹھ نہ رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں انہیں تمہاری خبر پہنچاؤں گا۔ پس یہ آیت نازل فرمائی۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی فضل الشہادۃ، ۳ / ۲۲، الحدیث: ۲۵۲۰)
شہداء کی شان :
اس سے ثابت ہوا کہ اَرواح باقی ہیں جسم کے فنا ہونے کے ساتھ فنا نہیں ہوتیں۔ یہاں آیت میں شہدا ء کی کئی شانیں بیان ہوئی ہیں : فرمایا کہ وہ کامل زندگی والے ہیں ،وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاس ہیں ،انہیں رب کریم کی طرف سے روزی ملتی رہتی ہے، وہ بہت خوش باش ہیں۔ شہداء کرام زندوں کی طرح کھاتے پیتے اورعیش کرتے ہیں۔ آیتِ مبارکہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ شہیدوں کے روح اور جسم دونوں زندہ ہیں۔علماء نے فرمایا کہ شہداء کے جسم قبروں میں محفوظ رہتے ہیں ، مٹی ان کو نقصان نہیں پہنچاتی اور صحابہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے زمانے میں اور اس کے بعداس بات کا بکثرت معائنہ ہوا ہے کہ اگر کبھی شہداء کی قبریں کھل گئیں تو ان کے جسم تر و تازہ پائے گئے ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۶۹، ۱ / ۳۲۳)
{فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ:اس پر خوش ہیں جو اللہنے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے ۔ } شہداء کرام کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ وہ اللہتعالیٰ کے فضل و کرم، انعام و احسان، اعزازو اکرام اور موت کے بعد اعلیٰ قسم کی زندگی دئیے جانے پر خوش ہیں نیز اس پر خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا مقرب بنایا، جنت کا رزق اور اس کی نعمتیں عطا فرمائیں اور جنت کی منزلیں حاصل کرنے کے لئے شہادت کی توفیق عطا فرمائی۔ نیز وہ اس بات پر بھی خوشی منارہے ہیں کہ ان کے بعد دنیا میں رہ جانے والے ان کے مسلمان بھائی دنیا میں ایمان اور تقویٰ پر قائم ہیں اور جب وہ بھی شہید ہوکر اِن کے ساتھ ملیں گے تو وہ بھی اِن کرم نوازیوں کو پائیں گے اور قیامت کے دن امن اور چین کے ساتھ اٹھائے جائیں گے ۔
{یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ:وہ اللہ کی نعمت اور فضل پر خوشیاں منارہے ہیں۔ } شہداء اللہتعالیٰ کے فضل اور اس کی نعمت پر خوشیاں مناتے ہیں اور ان کے ہر زخم کے بدلے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارشیں ان پر نازل ہوتی ہیں۔
شہدا ء کے چھ فضائل:
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ جس کسی کے راہِ خدا عَزَّوَجَلَّمیں زخم لگا وہ روزِ قیامت ویسا ہی آئے گا جیسا زخم لگنے کے وقت تھا ، اس کے خون میں خوشبو مشک کی ہوگی اور رنگ خون کا۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من یجرح فی سبیل اللہ عزوجل، ۲ / ۲۵۴، الحدیث: ۲۸۰۳)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، ،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’شہید کو قتل سے تکلیف نہیں ہوتی مگر ایسی جیسی کسی کو ایک خراش لگے۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل المرابط، ۳ / ۲۵۲، الحدیث: ۱۶۷۴)
(3) …حضرت عبداللہبن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’شہید کے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں سوائے قرض کے ۔(مسلم ، کتاب الامارۃ، باب من قتل فی سبیل اللہ کفرت خطایاہ الا الدّین، ص۱۰۴۶، الحدیث: ۱۱۹(۱۸۸۶))
(4)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جنت میں جانے کے بعد شہید یہ تمنا کرے گا کہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے اور دس بار (اللہکے راستے میں ) قتل کیا جاؤں۔ (مسلم ، کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللہ تعالی، ص۱۰۴۳، الحدیث: ۱۰۹(۱۸۷۷))
(5)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے: میری یہ تمنا ہے کہ میں اللہتعالیٰ کے راستے میں جہاد کروں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں پھر شہید کیا جاؤں۔ (مسلم ، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۳(۱۸۷۶))
(6) …حضرت اسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ دعا مانگی ’’اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِی شَہَادَۃً فِی سَبِیلِکَ، وَاجْعَلْ مَوْتِی فِی بَلَدِ رَسُولِکَ‘‘اے اللہ عَزَّوَجَلَّ، مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور مجھے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شہر میں وفات نصیب فرما۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۳ باب، ۱ / ۶۲۲، الحدیث: ۱۸۹۰)
{اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ : وہ لوگ جو اللہ اور رسول کے بلانے پر حاضر ہوگئے۔}شانِ نزول: جنگ احد سے فارغ ہونے کے بعد جب ابوسفیان ، اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ’’رَوحاء‘‘نامی جگہ پہنچا تو انہیں افسوس ہوا کہ وہ واپس کیوں آگئے، مسلمانوں کا بالکل خاتمہ ہی کیوں نہ کردیا۔ یہ خیال کرکے انہوں نے پھر واپس ہونے کا ارادہ کیا توتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ابوسفیان کے تَعاقُب کے لئے روانگی کا اعلان فرمادیا ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت جن کی تعداد ستر تھی اورجو جنگ احد کے زخموں سے چور ہورہے تھے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اعلان پر حاضر ہوگئے اور آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس جماعت کو لے کر ابوسفیان کے تعاقب میں روانہ ہوگئے ۔ جب حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ’’حَمْرَاء الاَسَد‘‘ نامی جگہ پر پہنچے جو مدینہ منورہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے تو وہاں معلوم ہواکہ مشرکین خوفزدہ ہو کر بھاگ گئے ہیں۔اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ۔ (مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ص۱۹۷)
اس آیت میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عظمت و ہمت کا بیان بھی ہے کہ زخموں سے چور چور ہونے کے باوجود سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم پر فوراً حاضر ہوگئے۔
یہ غازی یہ تیرے پُراَسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے دریا و صحرا
سمٹ کر پہاڑ اِن کی ہیبت سے رائی
{اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ: یہ وہ لوگ ہیں جن سے لوگوں نے کہا ۔ } شانِ نزول: جنگ اُحد سے واپس ہوتے ہوئے ابوسفیان نے نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوپکار کر کہہ دیا تھا کہ اگلے سال ہماری آپ کی مقامِ بدر میں جنگ ہوگی۔ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے جواب میں فرمایا: ’’اِنْ شَآءَ اللہ‘‘ جب وہ وقت آیا اور ابوسفیان اہلِ مکہ کو لے کر جنگ کے لیے روانہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں خوف ڈالا اور انہوں نے واپس ہونے کا ارادہ کیا ۔ اس موقع پر ابوسفیان کی نُعَیْم بن مسعود سے ملاقات ہوئی جو عمرہ کرنے آیا تھا۔ ابوسفیان نے اس سے کہا کہ اے نُعَیْم ! اِس زمانہ میں میری لڑائی مقامِ بدر میں محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ طے ہوچکی ہے اور اس وقت مجھے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ میں جنگ میں نہ جاؤں بلکہ واپس چلاجاؤں۔ لہٰذا تم مدینے جاؤ اور حکمت و تدبیر کے ساتھ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں جانے سے روک دو۔ اس کے عوض میں تجھے دس اونٹ دوں گا۔ نُعَیْم نے مدینہ پہنچ کر دیکھا کہ مسلمان جنگ کی تیاری کررہے ہیں ، یہ دیکھ کر اُن سے کہنے لگا کہ تم جنگ کے لئے جانا چاہتے ہو ، اہلِ مکہ نے تمہارے لئے بڑے لشکر جمع کئے ہیں۔ خدا کی قسم !تم میں سے ایک بھی سلامت واپس نہ آئے گا۔ حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم، میں ضرور جاؤں گا چاہے میرے ساتھ کوئی بھی نہ ہو۔ چنانچہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ستر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ساتھ لے کر ’’ حَسْبُنَا اﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ‘‘ پڑھتے ہوئے روانہ ہوئے اور بدر میں پہنچے ، وہاں آٹھ دن قیام کیا، مال تجارت ساتھ تھااسے فروخت کیا اورخوب نفع ہوا اور پھر سلامتی کے ساتھ مدینہ طیبہ واپس آئے اور جنگ نہیں ہوئی۔ چونکہ ابو سفیان اور اہلِ مکہ خوف زَدہ ہو کر مکہ مکرمہ کو واپس ہوگئے تھے اس واقعہ کے متعلق یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ۱ / ۳۲۵-۳۲۶)
اس واقعہ کو بدر ِصغریٰ کا واقعہ کہتے ہیں۔ اِس واقعہ سے بھی صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عظمت واضح ہوتی ہے کہ جب انہیں کافروں کے بڑے بڑے لشکروں سے ڈرایا جارہا ہے تو بجائے ڈرنے اور بزدلی دکھانے کے ان کی ہمت اور جوانمردی اور بڑھ جاتی ہے ، ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان کی زبانوں پر ایک ہی وظیفہ جاری ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کافی ہے اور وہی سب سے اچھا کارساز ہے۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
{اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّیْطٰنُ : بیشک وہ تو شیطان ہی ہے ۔ }یہاں پچھلے واقعے ہی کا بیان ہے کہ وہ تو شیطان ہے جو مسلمانوں کو مشرکین کی کثرت سے ڈراتا ہے جیسا کہ نعیم بن مسعود نے کیا کہ وہ اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ان منافقین اور مشرکین کا خوف نہ کرو جو شیطان کے دوست ہیں ، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ ایمان کا تقاضا ہی یہ ہے کہ بندے کو خداعَزَّوَجَلَّہی کا خوف ہو اور جب یہ خوف پیدا ہوجاتا ہے تو پھر کسی دوسرے کا خوف باقی نہیں رہتا۔ اس آیتِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ مسلمانوں کو کافروں سے ڈرانا، مسلمانوں کے حوصلے پَست کرنا، ان کے سامنے کافروں کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تاکہ مسلمان ہمت ہار بیٹھیں اور کفار سے مقابلے کا نام تک نہ لیں یہ سب حرکتیں کفار و منافقین کی ہیں۔ ایسے لوگوں کی ہمارے زمانے میں کمی نہیں جنہیں مسلمانوں کو تو ہمت وحوصلہ دینے کی توفیق نہیں لیکن وہ کفار کی طاقت کو ایسا بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے کہ مسلمان ان سے مقابلے کا نام لینے سے بھی گھبرائیں۔ اخبار وغیرہ کا مطالعہ کرنے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں۔
{وَ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ: اور اے حبیب!تم ان کا کچھ غم نہ کرو جو کفرمیں دوڑے جاتے ہیں۔} حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کیلئے یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان لوگوں کا غم نہ کریں جو کفر میں دوڑے جاتے ہیں اور اس کیلئے کوشش کرتے ہیں خواہ وہ کفارِ قریش ہوں یا منافقین یایہودیوں کے سردار یا مرتدین ، یہ سب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلہ کے لیے کتنے ہی لشکر جمع کرلیں ، کامیاب نہ ہوں گے۔ اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ملنے والے ثواب میں ان کا کوئی حصہ نہ رکھے اسی لئے اس نے انہیں ان کے کفر و سرکشی میں بھٹکتا چھوڑ دیا اور ان کے لئے اخروی ثواب سے مکمل طور پر محرومی کے ساتھ ساتھ جہنم کا بڑا عذاب بھی ہے تو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن کے لئے ناکامی، محرومی اور دردناک عذاب مقدر ہو چکا ہے ان سے کوئی اندیشہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ : بے شک وہ جنہوں نے ایمان کے بدلے کفر اختیار کیا۔ } ارشاد فرمایا کہ وہ منافقین جو کلمہ ایمان پڑھنے کے بعد کافر ہوئے یا وہ لوگ جو ایمان پر قادر ہونے کے باوجود کافر ہی رہے اور ایمان نہ لائے یہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے بلکہ ان کے کفر کا وبال انہی کے سَر آئے گا۔
{وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اور کافر ہرگز یہ گمان نہ رکھیں۔ } اللہتعالیٰ عموما ًفوری طور پر کسی گناہ پر گرفت نہیں فرماتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور دنیاوی آسائشوں کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے اس سے بہت سے لوگ اس دھوکے میں پڑے رہتے ہیں کہ ان کا کفر اور ان کی حرکتیں کچھ نقصان دہ نہیں ہیں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ کافروں کو لمبی عمر ملنا، انہیں فوری عذاب نہ ہونا اور انہیں مہلت دیا جانا ایسی چیز نہیں کہ جسے وہ اپنے حق میں بہتر سمجھیں بلکہ توبہ نہ کرنے کی صورت میں یہی مہلت ان کے گناہوں میں اضافے اور ان کی تباہی و بربادی کا سبب بننے والی ہوتی ہے ۔ لہٰذا اِس مہلت کو اپنے حق میں ہرگز بہتر نہ سمجھیں۔
لمبی عمر پانا کیسا ہے ؟
لمبی عمر پانا اچھا بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی ۔ جیساکہ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، ایک شخص نے حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا کہ کون شخص اچھا ہے ؟ ارشاد فرمایا ، جس کی عمر دراز ہو اور عمل اچھے ہوں۔ عرض کیا گیا: اور بدتر کون ہے؟ ارشاد فرمایا، جس کی عمر دراز ہو اور عمل خراب ہوں۔(ترمذی، کتاب الفتن، ۲۲-باب منہ، ۴ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۳۷)
اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’قضاعہ قبیلے کے دو شخص نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے، ان میں ایک تو شہید ہو گیا اور دوسرا مزید ایک سال تک زندہ رہا، حضرت طلحہ بنعبیداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں : میں نے دیکھا کہ بعد میں مرنے والا شہید سے بھی پہلے جنت میں داخل ہو گیا،مجھے اس پر تعجب ہوا تو صبح میں نے یہ واقعہ حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیاتو ارشاد فرمایا : کیا اس نے اس کے بعد ایک رمضان کے روزے نہ رکھے تھے اور چھ ہزار رکعت نماز اور اتنی اتنی سنتیں نہ پڑھی تھیں ؟ (مسند امام احمد ، مسند ابی ہریرۃ ، ۳ / ۲۲۹، الحدیث: ۸۴۰۷)
{مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِ: اللہ کی یہ شان نہیں کہ مسلمانوں کو اس حال پر چھوڑے جس پر (ابھی) تم ہو ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے صحابہ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم، یہ حال نہیں رہے گا کہ منافق و مومن ملے جلے رہیں بلکہ عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے مسلمانوں اور منافقوں کو جدا جدا کردے گا۔ اس آیت ِمبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’میری امت کی پیدائش سے پہلے جب میری امت مٹی کی شکل میں تھی اس وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی جیسا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر پیش کی گئی اور مجھے علم دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا۔ یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے اِستِہزاء کے طور پر کہا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کون ان پر ایمان لائے گا اورکون کفر کرے گا، جبکہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ہمیں پہچانتے نہیں۔اس پر حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن (اعتراض) کرتے ہیں ، آج سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : حذافہ ،پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کھڑے ہوکر عرض کی :یا رسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّکی ربوبیت پر راضی ہوئے، اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوئے، قرآن کے امام و پیشواہونے پر راضی ہوئے ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہوئے، ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معافی چاہتے ہیں۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: کیا تم باز آؤ گے؟ کیا تم باز آؤ گے؟ پھر منبر سے اتر آئے اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۱ / ۳۲۸)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایسے سوالات کئے گئے جو ناپسند تھے جب زیادہ کئے گئے تو آپ ناراض ہو گئے ،پھر لوگوں سے فرمایا کہ جو چاہو مجھ سے پوچھ لو ۔ ایک شخص عرض گزار ہوا:میرا باپ کون ہے؟ارشاد فرمایا’’تمہارا باپ حُذافہ ہے۔پھر دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا:یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرا باپ کون ہے ؟ارشاد فرمایا’’سالم مولی شیبہ ہے۔جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرۂ انور کی حالت دیکھی تو عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف توبہ کرتے ہیں۔(بخاری، کتاب العلم، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۱، الحدیث:۹۲)
دوسری روایت یوں ہے : حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ سورج ڈھلنے پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَباہر تشریف لائے اور نماز ظہر پڑھی، پھر منبر پر کھڑے ہو کر قیامت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس میں بڑے بڑے امور ہیں۔پھر فرمایا’’جو کسی چیز کے بارے میں مجھ سے پوچھنا چاہتا ہو تو پوچھ لے اور تم مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہیں پوچھو گے مگر میں تمہیں اسی جگہ بتا دوں گا، پس لوگ بہت زیادہ روئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کھڑے ہو کر عرض گزار ہوئے : میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’تمہارا باپ حذافہ ہے۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گھٹنوں کے بل ہو کر عرض گزار ہوئے:ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش ہو گئے،پھر فرمایا’’ابھی مجھ پر جنت اور جہنم ا س دیوار کے گوشے میں پیش کی گئیں ،میں نے ایسی بھلی اور بری چیز نہیں دیکھی۔(بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الظہر عند الزوال، ۱ / ۲۰۰، الحدیث: ۵۴۰)
ان اَ حادیث سے ثابت ہوا کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قیامت تک کی تمام چیزوں کا علم عطا فرمایا گیا ہے اوریہ بھی معلوم ہوا کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب میں اعتراض کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔ آیت میں فرمایا گیا کہ’’اے عام لوگو! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے رسولوں کو منتخب فرمالیتا ہے اوران برگزیدہ رسولوں کو غیب کا علم دیتا ہے اور سیدُ الانبیاء ،حبیبِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رسولوں میں سب سے افضل اور اعلیٰ ہیں ، انہیں سب سے بڑھ کر غیب کا علم عطا فرمایا گیا ہے۔ اس آیت سے اور اس کے سوا بکثرت آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو غیب کے علوم عطا فرمائے اور غیبوں کا علم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزہ ہے۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ’’ اے لوگو ! تمہیں غیب کا علم نہیں دیا جاتا ، تمہارا کام یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، جس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اس بات کی تصدیق کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ رسولوں کو غیب پر مطلع کیا ہے۔
علمِ غیب سے متعلق 10 احادیث:
(1)… حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّکو دیکھا، اس نے اپنا دستِ قدرت میرے کندھوں کے درمیان رکھا، میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی، اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا۔ (سنن ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵ / ۱۶۰، الحدیث: ۳۲۴۶)
(2)…سنن ترمذی میں ہی حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی روایت میں ہے کہ ’’جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب میرے علم میں آگیا ۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵ / ۱۵۸، الحدیث: ۳۲۴۴)
(3)…حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک میرے سامنے اللہ عَزَّوَجَلَّنے دنیا اٹھالی ہے اور میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کچھ ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے ا پنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ، اس روشنی کے سبب جو اللہتعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے روشن فرمائی جیسے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے روشن کی تھی۔(حلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب،۶ / ۱۰۷، الحدیث:۷۹۷۹)
(4)…حضرت حذیفہ بن اُسید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’گزشتہ رات مجھ پر میری اُمّت اس حجرے کے پاس میرے سامنے پیش کی گئی، بے شک میں ان کے ہر شخص کو اس سے زیادہ پہچانتا ہوں جیسا تم میں کوئی اپنے ساتھی کو پہچانتاہے ۔ (معجم الکبیر، حذیفہ بن اسید۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۸۱، الحدیث: ۳۰۵۴)
(5)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم لوگوں میں کھڑے تھے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں مخلوق کی پیدائش سے بتانا شروع کیا حتّٰی کہ جنتی اپنے منازل پر جنت میں داخل ہوگئے اور جہنمی اپنے ٹھکانے پر جہنم میں پہنچ گئے ۔ جس نے اس بیان کو یاد رکھا اس نے یادرکھا جو بھول گیا سو بھول گیا۔(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللہ تعالی: وہو الذی یبدء الخلق۔۔۔الخ، ۲ / ۳۷۵، الحدیث: ۳۱۹۲ )
(6)…مسلم شریف میں حضرت عمر و بن اخطب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، ایک دن حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نمازِ فجر سے غروبِ آفتاب تک خطبہ ارشادفرمایا،بیچ میں ظہر و عصر کی نمازوں کے علاوہ کچھ کام نہ کیا اس میں وہ سب کچھ ہم سے بیان فرمادیا جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا اور ہم میں زیادہ علم والا وہ ہے جسے زیادہ یاد رہا۔(مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب اخبار النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیما یکون الی قیام الساعۃ، ص ۱۵۴۶، الحدیث: ۲۵ (۹۲ ۲۸ ))
(7)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُحد پہاڑ پر تشریف لے گئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ابو بکر وعمر و عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی تھے ، ناگاہ پہاڑ لرزنے لگا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے فرمایا: اے احد !ٹھہر جا کہ تجھ پر ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔(بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لو کنت متخذًا خلیلًا، ۲ / ۵۲۴، الحدیث: ۳۶۷۵)
(8)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ غزوۂ بدر سے ایک دن پہلے نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں اہلِ بدر کے گرنے یعنی مرنے کی جگہیں دکھائیں اور فرمایا :کل فلاں شخص کے گرنے یعنی مرنے کی یہ جگہ ہے۔
حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا : جو نشان رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جس کے لئے لگایا تھا وہ اسی پر گرا ۔ (مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب عرض مقعد المیت من الجنۃ او النار علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۵۳۶، الحدیث: ۷۶(۲۸۷۳))
(9)…حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں کہ سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرے جن میں عذاب ہورہا تھا توارشاد فرمایا : ’’انہیں عذاب ہورہا ہے اور ان کو عذاب کسی ایسی شے کی وجہ سے نہیں دیا جارہا جس سے بچنا بہت مشکل ہو، ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا۔(بخاری، کتاب الوضو ء، ۵۹-باب، ۱ / ۹۶، الحدیث: ۲۱۸)
(10)…حضرت عبداللہبن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : صلح حدیبیہ سے واپسی پر ایک جگہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اونٹ مُنتَشِر ہو گئے ،سب اپنے اپنے اونٹ واپس لے آئے لیکن حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اونٹنی نہ ملی ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ وہاں سے اونٹنی لے آؤ، تو میں نے اونٹنی کو اسی حال میں پکڑ لیا جیسا مجھ سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تھا۔(معجم الکبیر، ۱۰ / ۲۲۵، الحدیث: ۱۰۵۴۸)
{اَلَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ: وہ جو بخل کرتے ہیں۔ }اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں بخل کرنے والوں کے بارے میں شدید وعید بیان کی گئی ہے اوراکثر مفسرین نے فرمایا کہ یہاں بخل سے زکوٰۃ کا نہ دینا مراد ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴) یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ(توبہ:۳۴، ۳۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہکی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔ جس دن وہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا)یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا تو اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو ۔
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ’’جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی، روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ۱ / ۴۷۴، الحدیث: ۱۴۰۳)
بخل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف وعادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ زکوٰۃ صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے اور دوست احباب،عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ البخل وذمّ حبّ المال، بیان حدّ السخاء والبخل وحقیقتہما، ۳ / ۳۲۰، ملخصاً)
بخل کی مذمت:
قرآنِ مجید اورکثیر احادیث میں بخل کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ(محمد:۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہاں ہاں یہ جو تم لوگ ہو تم بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے ، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا : ’’آدمی کی دو عادتیں بری ہیں (1) بخیلی جو رلانے والی ہے۔ (2) بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے ۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الجرأۃ والجبن، ۳ / ۱۸، الحدیث: ۲۵۱۱)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مالدار بخل کرنے کی و جہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔ (فردوس الاخبار، باب السین، ۱ / ۴۴۴، الحدیث: ۳۳۰۹)
حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا : ’’کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا ۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، ۳ / ۱۲۵، الحدیث: ۴۰۶۶)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’بخیل اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دورہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی السخاء، ۳ / ۳۸۷، الحدیث: ۱۹۶۸)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے ، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔(شعب الایمان، الرابع و السبعون من شعب الایمان، ۷ / ۴۳۵، الحدیث: ۱۰۸۷۷)
بخل کا علاج یوں ممکن ہے کہ بخل کے اسباب پر غور کر کے انہیں دور کرنے کی کوشش کرے ،جیسے بخل کا بہت بڑا سبب مال کی محبت ہے ، مال سے محبت نفسانی خواہش اور لمبی عمر تک زندہ رہنے کی امید کی وجہ سے ہوتی ہے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے اور بکثر ت موت کی یادا ور دنیا سے جانے والوں کے حالات پر غور کر کے دور کرے ۔ یونہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی فضیلت، حُبّ مال کی آفات پر مشتمل اَحادیث و روایات اور حکایات کا مطالعہ کر کے غورو فکر کرنا بھی اس مُہلِک مرض سے نجات حاصل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو گا۔(کیمیائے سعادت، رکن سوم، اصل ششم، علاج بخل، ۲ / ۶۵۰-۶۵۱، ملخصاً)
{لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ: بیشک اللہ نے سن لیا۔ }اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ’’مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا‘‘ کہ کون ہے جو رب تعالیٰ کو اچھا قرض دے ،تو یہود یوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگ رہا ہے تو ہم غنی ہوئے اوراللہ تعالیٰ فقیر ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ اتری ۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۱، ۳ / ۴۴۶)
اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن گستاخوں کی بات سن لی ہے جنہوں نے کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ محتاج ہے اور ہم مالدار ہیں۔ اب ہم ان کے اعمال ناموں میں ان کی کہی ہوئی بات اور ان کے دوسرے کفریات جیسے ان کا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنا لکھ رکھیں گے اورقیامت کے دن اِن کی اِن گستاخیوں کے بدلے میں کہیں گے کہ’’ اب جلا دینے والے عذاب کا مزہ چکھو ۔
انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی گستاخی اللہتعالیٰ کی گستاخی ہے:
یہاں آیت میں اللہ تعالیٰ کی گستاخی اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے کو ساتھ ساتھ بیان کرکے عذاب کی ایک ہی وعید بیان کی ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں جرم بہت عظیم ترین ہیں اور قباحت میں برابر ہیں اور شانِ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں گستاخی کرنے والا شانِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں گستاخی کرنے والے کی طرح جہنم کا مستحق ہے کیونکہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی گستاخی اللہتعالیٰ کی گستاخی ہے ۔
{اَلَّذِیْنَ قَالُوْا: وہ جو کہتے ہیں۔}اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ ہم سے توریت میں عہد لیا گیا ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والا جو شخص ایسی قربانی پیش نہ کرسکے جسے آسمان سے سفید آگ اتر کر کھائے ،اس پر ہم ہرگز ایمان نہ لائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ:۱۸۳ ،۱ / ۵۲۳)
اور اُن کے اِس خالص جھوٹ اور بہتان کو باطل قرار دیا گیا کیونکہ اِس شرط کا توریت میں نام و نشان بھی نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ نبی کی تصدیق کے لیے معجزہ کافی ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو، جب نبی نے کوئی معجزہ دکھادیا تواس کے سچا ہونے پر دلیل قائم ہوگئی ، اب اُس کی تصدیق کرنا اور اُس کی نبوت کو ماننا لازم ہوگیا ۔ نبوت کی صداقت ثابت ہوجانے کے بعد پھر کسی خاص معجزے کا اصرارکرنا حقیقت میں نبی کی تصدیق کا انکار ہے۔پھر یہ بات بھی بیان فرمادی کہ گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامبعض اوقات وہی معجزات لے کر آئے جس کا تم نے ان سے مطالبہ کیا، جیسے بعض انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قربانی لانے والا معجزہ بھی دکھا دیا لیکن اس کے باوجود تم نے انہیں نہ مانا بلکہ بہت سے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کردیا ، اگر تم سچے تھے تو ان کو کیوں شہید کیا؟ تمہارا سابقہ کردار اس بات کی گواہی دیتاہے کہ تمہارا مقصد صرف حیلے بہانے کر کے اسلام قبول کرنے سے بچنا اور اپنے جاہلوں کو ورغلانا ہے ورنہ دلیل نام کی کوئی چیز تمہارے پاس نہیں۔
اوپر کی پوری گفتگو سے ایک بہت مفید بات سامنے آتی ہے کہ جب کوئی چیز کسی معقول دلیل سے ثابت ہو جائے تو اسے مان لینا لازم ہے۔ دلیل سے ثابت ہوجانے کے بعد خواہ مخواہ مخصوص قسم کی دلیل کا مطالبہ کرنا یہودیوں کا کام ہے اور اس میں بھی ایسے لوگوں کامقصد ماننا نہیں ہوتا بلکہ مفت کی بحث کرنا ہوتا ہے۔ جیسے مسلمانوں میں رائج بہت سے معمولات ایسے ہیں جو معقول شرعی دلیل سے ثابت ہیں لیکن بعض لوگوں کا خواہ مخواہ اِصرار ہوتا ہے کہ نہیں ، اسے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے سے ثابت کرو، اسے بخاری سے ثابت کرو۔ یہ طرزِ عمل سراسر جاہلانہ ہے اور ایسے لوگوں کو سمجھانا بے فائدہ ہوتا ہے۔
{فَاِنْ كَذَّبُوْكَ: تو اگر وہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں۔ } یہاں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی جارہی ہے کیونکہ جب کوئی حق پر ہو اور اس کی حقانیت سورج سے زیادہ روشن ہو لیکن پھر بھی ایک گروہ اسے جھٹلائے اور اس کی حقانیت تسلیم نہ کرے تو اسے قلبی رنج ضرور ہوتا ہے اور رسول اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چونکہ اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں اس لئے اللہتعالیٰ قرآن میں بار بار سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتا ہے، چنانچہ یہاں بھی اِسی کا بیان ہوا اور فرمایا گیا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،اگر یہ کفار تمہاری تکذیب کرتے ہیں تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غمزدہ نہ ہوں کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے رسولوں کی بھی تکذیب کی گئی ہے جو صاف نشانیاں ، صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی ان کی طرح صبر و اِستِقامت سے تبلیغِ دین فرماتے رہیں۔
{ كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے ۔ } یعنی انسان ہو ں یا جن یا فرشتہ، غرض یہ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے سوا ہر زندہ کو موت آنی ہے اور ہر چیز فانی ہے ۔
موت کی یاد اور اس کی تیاری کی ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہتعالیٰ نے ہر جاندار پر موت مقرر فرما دی ہے اوراس سے کسی کو چھٹکارا ملے گا اور نہ کوئی اس سے بھاگ کر کہیں جا سکے گا۔ موت روح کے جسم سے جدا ہونے کا نام ہے اور یہ جدائی انتہائی سخت تکلیف اور اذیت کے ساتھ ہو گی اور اس کی تکلیف دنیا میں بندے کو پہنچنے والی تمام تکلیفوں سے سخت تر ہو گی۔موت اور اس کی سختی کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَ جَآءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّؕ-ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِیْدُ(ق:۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور موت کی سختی حق کے ساتھ آگئی، (اس وقت کہا جاتا ہے)یہ وہ (موت)ہے جس سے تو بھاگتا تھا ۔
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے فرمایا’’اے کعب! رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُُ، ہمیں موت کے بارے میں بتائیے۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :اے امیر المؤمنین ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،موت ایک ایسی کانٹے دار ٹہنی کی طرح ہے جسے کسی آدمی کے پیٹ میں داخل کیا جائے اور اس کا ہر کانٹا ایک ایک رگ میں پیوست ہو جائے ،پھر کوئی طاقتور شخص اس ٹہنی کو اپنی پوری قوت سے کھینچے تو اس ٹہنی کی زد میں آنے والی ہر چیز کٹ جائے اور جو زد میں نہ آئے وہ بچ جائے ۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۱۰)
حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مومن پر دنیا اور آخرت کا کوئی خوف موت سے بڑھ کر نہیں ، یہ خوف آروں سے چیرنے ،قینچیوں سے کاٹنے اور ہانڈیوں میں ابالنے سے بھی زیادہ سخت ہے ۔اگر کوئی میت قبر سے نکل کر دنیا والوں کو موت کی سختیاں بتا دے تو وہ نہ زندگی سے نفع اٹھا سکیں گے اور نہ نیند سے لذت حاصل کر سکیں گے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۹)
مروی ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصال ہو ا تو اللہتعالیٰ نے ان سے فرمایا: اے میرے خلیل! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تم نے موت کو کیسا پایا؟ آپ نے عرض کی : جس طرح گرم سیخ کو تر روئی میں رکھا جائے پھر اسے کھینچ لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ہم نے آپ پر موت کو آسان کیا ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۹)
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :بے شک رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے پانی کا ایک برتن رکھا ہو اتھا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے دونوں ہاتھ پانی میں داخل کرتے، پھر انہیں چہرۂ انور پر ملتے اور کہتے : بے شک موت میں تکلیف ہوتی ہے ۔پھر دستِ مبارک اٹھاکر فرماتے ’’رفیق اعلیٰ میں۔ یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی روح قبض کر لی گئی اور دستِ مبارک جھک گیا ۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۰)
حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا نے فرمایا ’’میں نے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصال کے وقت جو سختی دیکھی اس کے بعد مجھے کسی کی آسان موت پر رشک نہیں ہے۔(ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی التشدید عند الموت، ۲ / ۲۹۵، الحدیث: ۹۸۱)
جب حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کے بیٹے نے ان سے کہا : اے بابا جان! آپ کہا کرتے تھے کہ کوئی عقلمند انسان مجھے نَزع کے عالَم میں مل جائے تو میں اس سے موت کے حالات دریافت کروں ، تو آپ سے زیادہ عقل مند کون ہو گا ،برائے مہربانی آپ ہی مجھے موت کے حالات بتا دیجئے ۔ آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’اے بیٹے ! خدا کی قسم،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے دونوں پہلو ایک تخت پر ہیں اور میں سوئی کے نکے کے برابر سوراخ سے سانس لے رہا ہوں اور ایک کانٹے دار شاخ میرے قدموں کی طرف سے سر کی جانب کھینچی جا رہی ہے ۔(التذکرہ للقرطبی، باب ما جاء انّ للموت سکرات۔۔۔ الخ، ص۲۴)
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم تو سر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اورہمارے اوپر موت کی سختیوں کے علاوہ نجانے اور کتنی مصیبتیں آئیں گی اس لئے عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ موت کو بکثرت یاد کیا جائے اور دنیا میں رہ کر موت اور اس کے بعد کی تیاری کی جائے ۔
حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنا تابعدار بنا لے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور عاجز وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات پر چلتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی کرتا ہو ۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ تھا کہ ایک انصاری آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سلام کیا اور عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، کونسا مومن افضل ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’جس کے اخلاق عمدہ ہوں۔ اس نے عرض کی : سب سے زیادہ عقلمندکون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہو اور اس کی اچھی طرح تیاری کرتا ہو تو وہی سب سے زیادہ عقلمند ہے ۔(ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ، ۴ / ۴۹۶، الحدیث: ۴۲۵۹)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں وہاں موجود افراد میں سے دسواں تھا ۔ اسی دوران ایک انصاری شخص آئے اور عرض کی :یا رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ،لوگوں میں سب سے زیادہ عقلمند اور محتاط کون ہے؟نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’وہ لوگ جوموت آنے سے پہلے اسے زیادہ یاد کرتے اور اس کے لئے زیادہ تیاری کرتے ہیں وہی عقلمند ہیں ،وہ دنیا کی شرافت اور آخرت کی بزرگی لے گئے۔(معجم الکبیر، ۱۲ / ۳۱۸، الحدیث: ۱۳۵۳۶)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمیرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ موت کی یاد اور اس کے بعد کی تیاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جب اس دار فنا سے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہی ہے تو عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہاں کی تیاری کرے جہاں ہمیشہ رہنا ہے ۔
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے فرمایا، دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر بلکہ راہ چلتا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: کن فی الدنیا کانّک غریب۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۲۳، الحدیث: ۶۴۱۶)
تو مسافر جس طرح ایک اجنبی شخص ہوتا ہے اور راہ گیر راستے کے کھیل تماشوں میں نہیں لگتا کہ منزل مقصود تک پہنچنے میں ناکامی ہو گی اسی طرح مسلمان کو چاہیے کہ دنیا اور اس کی رنگینیوں میں نہ پھنسے اور نہ ایسے تعلقات پیدا کرے کہ مقصود اصلی حاصل کرنے میں آڑے آئیں اور موت کو کثرت سے یاد کرے کہ دنیا اور اس کی لذتوں میں مشغول ہونے سے روکے گی، حدیث میں ہے : لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو کثرت سے یاد کرو ۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی ذکر الموت، ۴ / ۱۳۸، الحدیث: ۲۳۱۴)
مگر کسی مصیبت پر موت کی آرزو نہ کرے کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے اور ناچار کرنی ہی پڑے تو یوں کہے، یااللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک میری زندگی میرے لئے بہتر ہو، اور موت دے جب میرے لئے بہتر ہو۔(بخاری، کتاب المرضی، باب تمنّی المریض الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۱)
یونہی مسلمان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے نیک گمان رکھے اوراس کی رحمت کا امیدوار رہے ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک نوجو ان کے پاس اس حال میں تشریف لے گئے کہ وہ مرنے کے قریب تھا۔ ارشادفرمایا: تو اپنے آپ کو کس حال میں پاتا ہے؟ عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہتعالیٰ سے امید ہے اور اپنے گناہوں سے ڈر ۔ ارشاد فرمایا : ’’یہ دونوں خوف اور امیداس موقع پر جس بندے کے دل میں ہوں گے اللہ تعالیٰ اسے وہ دے گا جس کی امید رکھتا ہو اور اس سے امن میں رکھے گا جس سے خوف کرتا ہے۔ (ترمذی، کتاب الجنائز، ۱۱-باب، ۲ / ۲۹۶، الحدیث: ۹۸۵)
یاد رکھئے! رُوح قبض ہونے کا وقت بہت ہی سخت وقت ہے کہ اسی پر سارے اعمال کا دارومدار ہے بلکہ ایمان کے اُخْرَوی نتائج اسی پر مُرَتَّب ہوں گے کہ اعتبار خاتمہ ہی کا ہے اور شیطان لعین ایمان لینے کی فکر میں ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس کے مکر و فریب سے بچائے اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے وہ ہی مراد کو پہنچا۔ (بہار شریعت، موت آنے کا بیان، حصہ چہارم،۱ / ۸۰۶-۸۰۷، ملخصاً)
اللہتعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل ہم سب کا خاتمہ اچھا فرمائے اور ہم پر موت کی سختیاں آسان فرمائے ۔ ([1])
{وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ:اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ تمہارے اچھے برے اعمال کی جزا قیامت کے دن تمہیں پوری پوری دی جائے گی، تو اس دن جسے جہنم کی آگ سے بچا لیا گیا اور اس سے نجات دے کر جنت میں داخل کر دیاگیا اسی نے حقیقی کامیابی حاصل کی۔(روح البیان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۵، ۲ / ۱۳۸)
یاد رہے کہ برے اعمال کی وجہ سے دنیا میں جو عذاب آتا ہے یا مرنے کے بعد قبر میں جو عذاب ہوتا ہے، یونہی نیک اعما ل پر قبر میں جو راحتیں نصیب ہوتی ہیں یہ اعمال کی پوری جزا نہیں بلکہ آخرت میں ملنے والی جزا کا ایک نمونہ ہے جبکہ اعمال کی پوری جزا قیامت کے دن ہی ملے گی۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت میں حقیقی کامیابی یہ ہے کہ بندے کو جہنم سے نجات دے کر جنت میں داخل کر دیا جائے جبکہ دنیا میں کامیابی فی نفسہ کامیابی تو ہے لیکن اگر یہ کامیابی آخرت میں نقصان پہنچانے والی ہے تو حقیقت میں یہ خسارہ ہے۔ اور خصوصاً وہ لوگ کہ دنیا کی کامیابی کے لئے سب کچھ کریں اور آخرت کی کامیابی کیلئے کچھ نہ کریں وہ تو یقینا نقصان ہی میں ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسے اعمال کی طرف زیادہ توجہ دے اور ان کے لئے زیادہ کوشش کرے جن سے اسے حقیقی کامیابی نصیب ہو سکتی ہے اور ان اعمال سے بچے جو اس کی حقیقی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
{وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ:اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔} یعنی دنیا کی لذتیں ، اس کی خواہشات اور رعنائیاں صرف دھوکے کا سامان ہے کیونکہ ان کا ظاہر تو بہت خوبصورت نظر آتا ہے لیکن ان کا باطن فساد سے بھرپور ہے۔
دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے :
اس آیت سے معلوم ہو اکہ دنیا کی عیش و عشرت اور زیب و زینت اگرچہ کتنی ہی زیادہ ہو، یہ دھوکے کے سامان کے علاوہ کچھ نہیں ،لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا کی رنگینیوں سے ہر گز دھوکہ نہ کھائے ، ذلیل دنیا کو حاصل کرنے کے لئے اپنی قیمتی ترین ٓخرت کو ہر گز تباہ نہ کرے ،اسی کی ترغیب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ٘-وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ (لقمان:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں کوئی باپ اپنی اولاد کے کام نہ آئے گا اور نہ کوئی بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دینے والاہوگا۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا دھوکہ دینے والا تمہیں اللہ کے علم پر دھوکے میں نہ ڈالے۔
اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ،سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اپنی دنیا سے محبت کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچا لیتا ہے اور شخص اپنی آخرت سے محبت کرتا ہے تو وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے،لہٰذا تم فنا ہوجانے والی (دنیا) پر باقی رہنے والی (آخرت )کو ترجیح دو۔(مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری، ۷ / ۱۶۵، الحدیث: ۱۹۷۱۷)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک بزرگ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’اے لوگو! اس فرصت کے وقت میں نیک عمل کرلو اور اللہتعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ امیدوں پر پھولے مت سماؤ اوراپنی موت کو نہ بھولو۔ دنیا کی طرف مائل نہ ہوجاؤ، بے شک یہ دھوکے باز ہے اور دھوکے کے ساتھ بن ٹھن کر تمہارے سامنے آتی ہے اور اپنی خواہشات کے ذریعے تمہیں فتنے میں ڈال دیتی ہے، دنیا اپنی پیروی کرنے والوں کے لیے اس طرح سجتی سنورتی ہے جیسے دلہن سجتی ہے۔ دنیا نے اپنے کتنے ہی عاشقوں کو ہلاک کردیا اور جنہوں نے اس سے اطمینان حاصل کرنا چاہا انہیں ذلیل ورسوا کر دیا، لہٰذا اسے حقیقت کی نگاہ سے دیکھو کیونکہ یہ مصیبتوں سے بھرپور مقام ہے، اس کے خالق نے اس کی مذمت کی، اس کا نیا پرانا ہوجاتا ہے اور اسے چاہنے والا بھی مرجاتا ہے۔ اللہتعالیٰ تم پر رحم فرمائے، غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور اس سے پہلے نیند سے آنکھیں کھول لو کہ یوں اعلان کیا جائے: فلاں شخص بیمار ہے اور اس کی بیماری نے شدت اختیار کرلی ہے،کیاکوئی دوا ہے؟ یا کسی ڈاکٹر تک جانے کی کوئی صورت ہے؟ اب تمہارے لیے حکیموں (اور ڈاکٹروں ) کو بلایاجاتا ہے، لیکن شفا کی امید ختم ہو جاتی ہے، پھر کہاجاتا ہے: فلاں نے وصیت کی اور اپنے مال کا حساب کیا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے: اب اس کی زبان بھاری ہوگئی، اب وہ اپنے بھائیوں سے بات نہیں کرتا اور پڑوسیوں کو نہیں پہچانتا، اب تمہاری پیشانی پر پسینہ آگیا، رونے کی آوازیں آنے لگیں اور تمہیں موت کا یقین ہوگیا، تمہاری پلکیں بند ہونے سے موت کا گمان یقین میں بدل گیا، زبان تھر تھرا رہی ہے، تیرے بہن بھائی رو رہے ہیں ، تمہیں کہا جاتا ہے کہ یہ تمہارا فلاں بیٹا ہے، یہ فلاں بھائی ہے ،لیکن تو کلام کرنے سے روک دیا گیا ہے، پس تو بول نہیں سکتا، تمہاری زبان پر مہر لگ گئی جس کی وجہ سے آواز نہیں نکلتی، پھر تمہیں موت آگئی اور تیری روح اعضاء سے پوری طرح نکل گئی، پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا گیا، اس وقت تمہارے بھائی جمع ہوتے ہیں ، پھر تمہارا کفن لاتے ہیں اور تمہیں غسل دے کر کفن پہناتے ہیں۔ اب تمہاری عیادت کرنے والے خاموش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور تجھ سے حسد کرنے والے بھی آرام پاتے ہیں، گھر والے تمہارے مال کی طرف متوجہ ہوجاتے اور تمہارے اعمال گروی ہوجاتے ہیں۔(احیاءعلوم الدین، کتاب ذمّ الدنیا، بیان المواعظ فی ذم الدنیا وصفتہا، ۳ / ۲۶۰، ملتقطاً)
اللہتعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں دنیا کی حقیقت کو پہچاننے ،اس کے دھوکے اور فریب کاری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
[1] …اپنے دل میں موت کی یاد کو مضبوط کرنے کے لئے رسالہ’’موت کاتصور‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا مفید ہے۔
{لَتُبْلَوُنَّ: تم ضرور آزمائے جاؤ گے ۔} مسلمانوں سے خطاب فرمایا گیا کہ تم پر فرائض مقرر ہوں گے، تمہیں حقوق کی ادائیگی کرنا پڑے گی، زندگی میں کئی معاملات میں نقصان اٹھانا پڑے گا، جان ومال کے کئی معاملات میں تکلیفیں برداشت کرنا ہوں گی ، بیماریاں ، پریشانیاں اور بہت قسم کی مصیبتیں زندگی میں پیش آئیں گی، یہ سب تمہارے امتحان کیلئے ہوگا لہٰذا اس کیلئے تیار رہنا اوراللہ کریمعَزَّوَجَلَّ کی رضا اور اس کے ثواب پر نظر رکھ کر ان تمام امتحانات میں کامیاب ہوجانا کیونکہ ان امتحانات کے ذریعے ہی تو کھرے اور کھوٹے میں فرق کیا جاتا ہے، سچے اور جھوٹے میں امتیاز ظاہر ہوتا ہے۔ دینی معاملات میں مشرکوں ، یہودیوں اور عیسائیوں سے تمہیں بہت تکالیف پہنچیں گی ۔ ان معاملات میں اور زندگی کے دیگر تمام معاملات میں اگر تم صبر کرو ، اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرتے رہو اور پرہیزگاری اختیار کئے رہو تو یہ تمہارے لئے نہایت بہتر رہے گا کیونکہ یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔
{وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ : اور جب اللہ نے عہد لیا۔ }اللہ تعالیٰ نے توریت و انجیل کے علماء پر واجب کیا تھا کہ ان دونوںکتابوں میں سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر دلالت کرنے والے جو دلائل ہیں وہ لوگوں کو خوب اچھی طرح واضح کرکے سمجھادیں اور ہر گز نہ چھپائیں لیکن انہوں نے رشوتیں لے کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اُن اوصاف کو چھپایا جو توریت و انجیل میں مذکور تھے۔
علمِ دین چھپانا گناہ ہے:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علمِ دین کو چھپانا گناہ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس شخص سے کچھ دریافت کیا گیا جس کو وہ جانتا ہے اور اس نے اس کو چھپایا روزِ قیامت اسے آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم، ۴ / ۲۹۵، الحدیث: ۲۶۵۸)
علماء پر واجب ہے کہ اپنے علم سے فائدہ پہنچائیں اور حق ظاہر کریں اور کسی غرض فاسد کے لئے اس میں سے کچھ نہ چھپائیں۔
{لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا: ہر گزگمان نہ کرو ان لوگوں کو جو اپنے اعمال پر خوش ہوتے ہیں۔ } یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو لوگوں کو دھوکا دینے اور گمراہ کرنے پر خوش ہوتے اور نادان اورجاہل ہونے کے باوجود یہ پسند کرتے کہ انہیں عالم کہا جائے ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۱ / ۳۳۴)
خود پسندی اور حب جاہ کی مذمت :
اس آیت میں خود پسندی کرنے والوں کے لئے وعید ہے اوران کے لئے جوحب ِجاہ یعنی عزت ، تعریف ، شہرت کے حصول کی تمنا میں مبتلا ہیں۔ جب کسی شخص کے دل میں یہ آرزو پیدا ہونے لگے کہ لوگ اس کے شیدائی ہوں ، ہر زبان اس کی تعریف میں تر ہو ، سب میرے کمال کے مُعترف ہوں ، مجھے ہر جگہ عزت سے نوازا جائے ، عالم نہیں ہوں پھر بھی علامہ صاحب کہا جائے ، ملک و قوم کی کوئی خدمت نہیں کی پھر بھی مِعمارِ قوم کہا جائے، نجات دہندہ سمجھا جائے، محسنِ قوم قرار دیا جائے ، میرا تعارف بہترین القابات کے ساتھ ہو،ملاقات پرتپاک انداز میں کی جائے ، سلام جھک کر کیا جائے تو اسے چاہئے کہ اپنے دل پرغور کر لے کہ کہیں وہ حبِّ جاہ کا شکار تو نہیں ہو چکا،اگر ایسا ہو تو اس آیت سے سبق حاصل کرتے ہوئے فوراً سے پیشتر اُس سے چھٹکارے کی کوشش کرے ۔ یاد رکھئے خود پسندی اور حب جاہ کے مرض میں مبتلا شخص اخروی انعامات سے محرومی کا شکار ہوتا ہے اور دل میں مُنافقت کی زیادتی ، قلبی نورانیت سے محرومی ، دین کی خرابی میں مبتلا ہوجاتا ہے نیز برائی سے منع کرنے اور نیکی کی دعوت دینے سے محرومی، ذلت و رسوائی کا سامنا، اخروی لذت سے محرومی، قلبی سکون کی بربادی اور دولتِ اخلاص سے محرومی جیسے نقصانات کا سامنا کر سکتا ہے، لہٰذا اسے چاہئے کہ دنیا کی بے ثباتی، تعریف پسندی کی مذمت، منصب و مرتبہ کے تعلق سے اخروی معاملات اور بزرگان دین کے حالات و اقوال کا بکثرت مطالعہ کرے تا کہ ان مذموم امراض سے نجات کی کوئی صورت ہو ۔ ترغیب کے لئے ہم یہاں خودپسندی اور حب جاہ سے متعلق چند احادیث اور بزرگان دین کے احوال و اقوال ذکر کرتے ہیں ، چنانچہ
حضرت جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شہرت طلب کرے گا( قیامت کے دن) اس کے عیبوں کی تشہیر ہو گی اورجو شخص لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرے گا اللہتعالیٰ اسے اس کا بدلہ دے گا ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب الریاء والسمعۃ، ۴ / ۲۴۷، الحدیث: ۶۴۹۹)
حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دو بھوکے بھیڑئیے بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور مرتبے کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دِہ ہے ۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۴۳-باب، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۳۸۳)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر خود پسندی انسانی شکل میں ہوتی تو وہ سب سے بد صورت انسان ہوتی ۔(الفردوس بماثور الخطاب، باب اللام، ۲ / ۱۹۳، الحدیث: ۵۰۶۴)
حضرت حسن بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’خود پسند ی 70سال کے عمل کو برباد کر دیتی ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، حرف العین، ۲ / ۲۰۵، الجزء الثالث، الحدیث: ۷۶۶۶)
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُخود پسندی سے بہت زیادہ ڈرتے تھے اور جب لوگ آپ کی تعریف کرتے تو آپ دعا مانگتے :یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے اس سے بہتر بنا دے جو کچھ یہ کہتے ہیں اور جو کچھ یہ نہیں جانتے میرا وہ عمل بخش دے ۔
اسی طرح جب لوگ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تعریف کرتے تو وہ دعا مانگتے :یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں اس چیز کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو کچھ یہ کہتے ہیں اور تجھ سے اس عمل کی بخشش چاہتا ہوں جس کا انہیں علم نہیں۔(تنبیہ المغترین، الباب الرابع فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم عدم العجب ۔۔۔ الخ، ص۲۴۱-۲۴۲)
حضرت عمر بن عبد العزیزرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب منبر پر خطبہ دیتے تو خود پسندی سے ڈرتے ہوئے گفتگو چھوڑ کر اس عمل کی طرف منتقل ہو جاتے جس میں خود پسندی نہ ہو اور بعض اوقات ایسا ہوتا کہ خط لکھتے وقت خود پسندی کے خوف سے پھاڑ دیتے اور کہتے :یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں نفس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (تنبیہ المغترین، الباب الرابع فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم عدم العجب ۔۔۔ الخ، ص۲۳۹-۲۴۰)
حضرت بشر حافی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا جو شہرت کا طالب ہو اور اس کا دین برباد نہ ہوا ہو اور ا س کے حصے میں رسوائی نہ آئی ہو۔(کیمیائے سعادت، رکن سوم ، اصل ہفتم، اندر علاج دوستی جاہ وحشمت، ۲ / ۶۵۹)
حضرت محمد بن واسع رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے زمانے کے عبادت گزاروں سے فرماتے تھے: تم پر افسوس ہے ، تمہارے اعمال کم ہونے کے باوجود ان میں خود پسندی داخل ہو گئی اور تم سے پہلے لوگ اپنے اعمال کی کثرت کے باوجود ان پر تکبر نہیں کرتے تھے۔ اللہ کی قسم ! پہلے لوگوں کی عبادت کو دیکھا جائے تو (اس کے مقابلے میں )تم محض کھیلنے والے ہو ۔(تنبیہ المغترین، الباب الرابع فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم عدم العجب ۔۔۔ الخ، ص۲۴۲)
{وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اور اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔}اس آیت میں ان گستاخوں کا رد کیا گیا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فقیر ہے۔ ان کے رد میں فرمایا گیا کہ جو زمین و آسمان کے دائرے میں آنے والی ہر چیز کا مالک ہے ا س کی طرف فقر کی نسبت کس طرح کی جا سکتی ہے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۹، ۱ / ۳۳۵)
اللہ تعالیٰ کی شان:
یہاں ہم اللہ تعالیٰ کی عظمت و شان سے متعلق ایک حدیثِ قدسی ذکر کرتے ہیں جس سے ان گستاخوں کی جہالت اور اللہ تعالیٰ کی شان مزید ظاہر ہوتی ہے، چنانچہ
حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام کر دیا لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔اے میرے بندو! جسے میں ہدایت دوں اس کے علاوہ تم سب گمراہ ہو،اس لئے تم مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو!جسے میں کھلاؤں اس کے سوا تم سب بھوکے ہو،تو تم مجھ سے کھانا طلب کرو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو!جسے میں لباس پہناؤں اس کے علاوہ تم سب بے لباس ہو لہٰذا تم مجھ سے لبا س مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب رات دن گناہ کرتے ہو اور میں گناہ بخشتا ہوں ،تم مجھ سے بخشش طلب کرو میں تمہیں بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! تم کسی نقصان کے مالک نہیں ہو کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور تم کسی نفع کے مالک نہیں ہو کہ مجھے نفع پہنچا سکو۔ اے میرے بندو! تمہارے پہلے اور آخری،تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کی طرح ہو جائیں تو میرے ملک میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے اور اگر تمہارے پہلے اور آخری،تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ بدکار شخص کی طرح ہو جائیں تو میرے ملک سے کوئی چیز کم نہیں کر سکتے اور اے میرے بندو! تمہارے پہلے اور آخری ،تمہارے انسان اور جن کسی ایک جگہ کھڑے ہو کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کا سوال پورا کر دوں تو جو کچھ میرے پاس ہے اس سے صرف اتنا کم ہو گا جس طرح سوئی کو سمندر میں ڈال کر (نکالنے سے ) ا س میں کمی ہوتی ہے۔اے میرے بندو!یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے جمع کر رہا ہوں ، پھر میں تمہیں ان کی پوری پوری جزا ء دوں گا تو جو شخص خیر کو پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جس کو خیر کے سوا کوئی چیز (جیسے آفت یا مصیبت) پہنچے وہ اپنے نفس کے سوا اور کسی کو ملامت نہ کرے۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۳، الحدیث: ۵۵(۲۵۷۷))
{لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ: عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔}حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ، میں حضرت میمونہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کے گھر رات میں ٹھہرا اورا س دن سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی اُن کے ہاں آرام فرما تھے، جب رات کا تہائی حصہ گزرا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیدار ہو ئے پھر آسمان کی طرف نظر ا ٹھا کران آیاتِ مبارکہ کی تلاوت فرمائی۔(بخاری، کتاب الادب، باب رفع البصر الی السماء، ۴ / ۱۵۹، الحدیث: ۶۲۱۵)
ایک روایت میں ہے کہ تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا:’’اس پر افسوس ہے جویہ آیت پڑھے اوراس میں غور نہ کرے۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الرقائق، باب التوبۃ، ۲ / ۸، الحدیث: ۶۱۹)
سائنسی علوم حاصل کرنا کب باعثِ ثواب ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ جغرافیہ اور سائنس حاصل کرنا بھی ثواب ہے جبکہ اچھی نیت ہو جیسے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت یااللہ تعالیٰ کی عظمت کا علم حاصل کرنے کیلئے، لیکن یہ شرط ہے کہ اسلامی عقائد کے خلاف نہ ہو۔ اِس آیت مبارکہ میں آسمان و زمین کی تَخلیق میں قدرت ِ الٰہی کی نشانیوں کا فرمایا گیا ہے لہٰذا اسی کے پیش نظراِس تفکر کی ایک جھلک آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں : امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ فرماتے ہیں ’’قدرتِ الٰہی کی چھٹی نشانی آسمانوں ، ستاروں کی مملکت اور ان کے عجائب میں ہے ، کیونکہ جو کچھ زمین کے اندر اور روئے زمین پر ہے وہ سب کچھ ا س کے مقابلے میں کم ہے۔آسمان اور ستاروں کے عجائب میں تفکر کرنے کے لئے قرآنِ پاک میں تنبیہ فرمائی گئی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ۚۖ-وَّ هُمْ عَنْ اٰیٰتِهَا مُعْرِضُوْنَ (انبیاء:۳۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور وہ لوگ اس کی نشانیوں سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(مومن۵۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش آدمیوں کی پیدائش سے بہت بڑی ہے لیکن بہت لوگ نہیں جانتے ۔
تو تمہیں حکم دیاگیاہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں غوروفکر کرو ۔آسمان کی نیلاہٹ اور ستاروں کی ٹمٹماہٹ کو دیکھ لینا غور نہیں کہ یہ تو جانور بھی کر لیتے ہیں بلکہ مقامِ افسوس تو یہ ہے کہ تو اپنے عجائب اور اپنی ذات کو جو تیرے پاس ہیں اور وہ زمین و آسمان کے عجائب کی بہ نسبت ایک ذرہ بھی نہیں جس کو تو پہچان سکتا تو پھر زمین و آسمان کے عجائب کو کیسے پہچان سکے گا۔ تجھے بَتَدریج معرفت کے درجات پر ترقی کرنی چاہئے۔تجھے پہلے اپنی ذات کو پہچاننا چاہئے ،پھر زمین اور ا س کی تمام اَشیاء کا عرفان حاصل کرنا چاہئے،پھر ہوا ،بادل وغیرہ کے عجائب کی پہچان کرنی چاہئے،پھر آسمان اور ستاروں کی معرفت حاصل کرنی چاہئے ، پھر کرسی اور عرش کو پہچاننا چاہئے،پھر عالَمِ اَجسام سے نکل کر عالمِ ارواح کی سیر کرنی چاہئے،پھر فرشتوں ، جنوں اور شیطانوں کو جاننا چاہئے ،پھر فرشتوں کے درجات اور مقامات کاعرفان حاصل کرنا چاہئے،آسمان اور ستاروں کی گردش، ان کی حرکت اور ان کے مَشارق و مَغارب کو دیکھنا چاہئے کہ ان کی حقیقت کیا ہے۔ستاروں کی کثرت پر غور و فکرکرنا چاہئے۔ انہیں کوئی بھی شمار نہیں کر سکتا،ان میں ہر ستارے کا رنگ مختلف ہے،کچھ چھوٹے ہیں اور کچھ بڑے ہیں۔ پھر ان میں سے ہر ایک کی شکل مختلف ہے مثلاً کچھ بیل کی شکل کے ہیں اور کچھ بچھو کی شکل کے۔پھر انسان ان کی مختلف حرکات پر غور کرے ، کئی ایک ماہ میں سارے آسمان کو طے کر جاتے ہیں۔کچھ سال بھر لگاتے ہیں ،کئی انہیں طے کرنے میں بارہ سال لگاتے ہیں ،کئی ستارے تیس سالوں میں سارے آسمانوں کی گردش پوری کرتے ہیں ،اکثر ستارے 30,000 سال میں سارے آسمانوں کی مساحت طے کرتے ہیں۔ جب تو نے زمین کے کچھ عجائبات کو جان لیا تو یہ بھی سمجھ لے کہ عجائبات کا فرق ہر ایک چیز کی شکل کے اختلاف کے مطابق ہوتا ہے ، کیونکہ زمین اگرچہ اتنی وسیع ہے کہ کوئی ا س کی حد کو نہیں چھو سکتا مگر سورج زمین سے بڑا ہے۔اس سے معلوم ہو جانا چاہئے کہ آفتاب کتنا دور ہے جو اتنا چھوٹا نظر آتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہو اکہ وہ کتنی تیزی سے حرکت کرتا ہے کہ آدھی ساعت میں آفتاب کا تمام گھیرا زمین سے نکلتا ہے ۔۔۔۔ یونہی آسمان پر ایک ستارہ ہے جو زمین سے سو گُنا بڑا ہے۔وہ بلندی کی وجہ سے چھوٹا نظر آتا ہے،ایک ستارہ اگر اتنا بڑا ہے تو سارے آسمان کا اندازہ لگائیں کہ وہ کتنا بڑا ہو گا۔ان سب کی عظمت و بزرگی کے باو جو د تیری نگاہوں میں چھوٹاکر دیا گیا تاکہ تو اس سے مالک ِحقیقی کی عظمت وفضیلت سے آگاہی حاصل کر سکے۔(کیمیائے سعادت، رکن چہارم، اصل ہفتم، ۲ / ۹۱۷-۹۱۸)
{اَلَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ: وہ جواللہ کو یاد کرتے ہیں۔} یہاں عقلمند لوگوں کا بیان ہے کہ وہ ہیں کون؟ اور ان کے چند اہم کام بیان فرمائے گئے ہیں۔
عقلمند لوگوں کے اہم کام:
(1)…عقلمند لوگ کھڑے، بیٹھے اور بستروں پر لیٹے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ مولیٰ کریم کی یاد ہر وقت ان کے دلوں پر چھائی رہتی ہے۔
(2)…عقلمند لوگ کائنات میں غوروفکر کرتے ہیں ، آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور کائنات کے دیگر عجائبات میں غور کرتے ہیں اور ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنا ہے۔
(3)…کائنات میں غور وفکر کے بعد اللہتعالیٰ کی عظمت ان پر آشکار ہوتی ہے اور ان کے دل اللہ عَزَّوَجَلَّکی عظمت کے سامنے جھک جاتے ہیں اور ان کی زبانیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت کے ترانے پڑھتی ہیں۔
(4)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام چیزیں کاملُ الایمان لوگوں کے اوصاف ہیں ، ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہے ۔ ہمارے اَسلاف اللہ عَزَّوَجَلَّکی یاد میں بہت رَغبت رکھتے تھے، چنانچہ حضرت سری سقطی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت جرجانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پا س ستو دیکھے جس سے وہ بھوک مٹا لیتے تھے۔ میں نے کہا: آپ کھانا اور دوسری اشیا ء کیوں نہیں کھاتے ؟ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: میں نے چبانے اور یہ ستو کھا کر گزارہ کرنے میں نوے تسبیحات کا فرق پایا ہے، لہٰذا چالیس سال سے میں نے روٹی نہیں چبائی تا کہ ان تسبیحات کا وقت ضائع نہ ہو۔
حضرت جنید بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا معمول یہ تھا کہ آپ با زار جاتے اور اپنی دکان کھول کر اس کے آگےپردہ ڈال دیتے اور چار سو رکعت نفل ادا کر کے دکان بند کر کے گھر واپس آ جاتے ۔(مکاشفۃ القلوب، الباب الحادی عشر فی طاعۃ اللہ ومحبۃ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۳۸)
کائنات میں تَفَکُّر کی ضرورت:
جس طرح کسی کی عظمت ، قدرت ، حکمت اور علم کی معرفت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ اس کی بنائی ہوئی چیز ہوتی ہے کہ اس میں غورو فکر کرنے سے یہ سب چیزیں آشکار ہو جاتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت، حکمت، وحدانیت اور ا س کے علم کی پہچان حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ اس کی پیدا کی ہوئی یہ کائنات ہے،اس میں موجود تما م چیزیں اپنے خالق کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی اور ا س کے جلال و کبریائی کی مُظہِر ہیں اور ان میں تفکر اور تَدَبُّر کرنے سے خالقِ کائنات کی معرفت حاصل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اس کائنات میں موجود مختلف چیزوں جیسے انسانوں کی تخلیق،زمین و آسمان کی بناوٹ ، زمین کی پیداوار،ہوا اور بارش، سمندر میں کشتیوں کی روانی، زبانوں اور رنگوں کا اختلاف وغیرہ بے شمار اَشیاء میں غور وفکر کرنے کی دعوت اورترغیب دی گئی تاکہ انسان ا ن میں غورو فکر کے ذریعے اپنے حقیقی رب عَزَّوَجَلَّ کو پہچانے ، صرف اسی کی عبادت بجا لائے اور ا س کے تمام احکام پر عمل کرے۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’آسمان اپنے ستاروں ،سورج، چاند، ان کی حرکت اور طلوع و غروب میں ان کی گردش کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔زمین کا مشاہدہ ا س کے پہاڑوں ،نہروں ،دریاؤں ،حیوانات،نَباتات اور ان چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے اورجو آسمان اور زمین کے درمیان ہیں جیسے بادل،بارش،برف،گرج چمک، ٹوٹنے والے ستارے اور تیز ہوائیں۔یہ وہ اَجناس ہیں جو آسمانوں ،زمینوں اور ان کے درمیان دیکھی جاتی ہیں ،پھر ان میں سے ہر جنس کی کئی اَنواع ہیں ، ہر نوع کی کئی اقسام ہیں ،ہر قسم کی کئی شاخیں ہیں اور صفات ،ہَیئت اور ظاہری و باطنی معانی کے اختلاف کی وجہ سے اس کی تقسیم کا سلسلہ کہیں رکتا نہیں۔زمین و آسمان کے جمادات،نباتات،حیوانات،فلک اور ستاروں میں سے ایک ذرہ بھی اللہ تعالیٰ کے حرکت دئیے بغیر حرکت نہیں کر سکتا اور ان کی حرکت میں ایک حکمت ہو یا دو ،دس ہوں یا ہزار ، یہ سب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہیں اور ا س کے جلال و کبریائی پر دلالت کرتی ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں اور علامات ہیں۔(احیاء علوم الدین، کتاب التفکر، بیان کیفیۃ التفکر فی خلق اللہ تعالٰی، ۵ / ۱۷۵)
فی زمانہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں غورو فکر کرنے اور ا س کے ذریعے اپنے رب تعالیٰ کے کمال وجمال اور جلال کی معرفت حاصل کرنے اور اس کے احکام کی بجا آوری کرنے سے انتہائی غفلت کاشکار ہیں اور ان کے علم کی حد صرف یہ رہ گئی ہے جب بھوک لگی تو کھانا کھا لیا، جب پیاس لگی تو پانی پی لیا، جب کام کاج سے تھک گئے تو سو کر آرام کر لیا، جب شہوت نے بے تاب کیا تو حلال یا حرام ذریعے سے اس کی بے تابی کو دور کر لیا اور جب کسی پر غصہ آیا تو ا س سے جھگڑا کر کے غصے کو ٹھنڈا کر لیا الغرض ہر کوئی اپنے تن کی آسانی میں مست نظر آرہا ہے۔
امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ فرماتے ہیں ’’اندھا وہ ہی ہے جو اللہتعالیٰ کی تمام صَنعتوں کو دیکھے لیکن انہیں پیدا کرنے والے خالق کی عظمت سے مدہوش نہ ہو اوراس کے جلال و جمال پر عاشق نہ ہو۔ ایسا بے عقل انسان حیوانوں کی طرح ہے جو فطرت کے عجائبات اور اپنے جسم میں غور و فکر نہ کرے،اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل جو تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے اسے ضائع کر دے اور ا س سے زیادہ علم نہ رکھے کہ جب بھوک لگے تو کھانا کھا لیا،کسی پر غصہ آئے تو جھگڑا کر لیا ۔(کیمیائے سعادت، رکن چہارم، اصل ہفتم، پیدا کردن تفکر در عجایب خلق خدای تعالٰی، ۲ / ۹۱۰)
اللہتعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے ۔آمین۔
{رَبَّنَا : اے ہمارے رب۔}رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاسے لے کر اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ تک بہت پیاری دعا ہے۔ اسے اپنے معمولات میں شامل کرلینا چاہیے۔
{رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا: اے ہمارے رب!بیشک ہم نے ایک ندادینے والے کو سنا۔ }اس منادی سے مراد سید الانبیاء، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں جن کی شان میں ’’دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ‘‘ وارد ہوا ہے یا اس سے قرآنِ کریم مراد ہے۔
{وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ:اور ہمیں نیک لوگوں کے گروہ میں موت عطا فرما ۔} یہاں اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ دعا کرو کہ موت بھی نیک لوگوں کے ساتھ ہو یعنی ان کی فرمانبرداری کرتے ہوئے موت آئے اور ان کی مَعِیَّت نصیب ہوجائے۔
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی ترغیب:
یاد رہے کہ نیک لوگوں کی صحبت بہت عظیم چیز ہے۔ ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّنے فرمایا:
كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (توبہ:۱۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
اورصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو صحبت نے ہی عظیم ترین مرتبے پر فائز کیا۔زندگی میں نیک لوگوں کا ساتھ تو نعمت ہے ہی، مرنے کے بعد بھی نیکوں کا ساتھ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے چنانچہ پسندیدہ بندے کو موت کے وقت فرمایا جاتا ہے :
یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُۗۖ(۲۷) ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ(۲۸) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ(۲۹) وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(فجر: ۲۷-۳۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اے اطمینان والی جان اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آ کہ تو اس سے راضی ہووہ تجھ سے راضی ہو۔ پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہوجااور میری جنت میں داخل ہوجا۔
دیکھیں ، فوت ہونے والی روح سے کہا جاتا ہے کہ میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئےکہ وہ اپنی زندگی میں نیک لوگوں کے ساتھ رہے اور انہی کے گروہ میں موت ملنے کی دعا کرے تاکہ ان کے صدقے جنت کی اعلیٰ ترین نعمتوں سے فیضیاب ہواور موت کے بعد نیک لوگوں کے قرب میں دفن ہونے کی وصیت کرے۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’اپنے مردوں کو نیک لوگوں کے درمیان دفن کرو کیونکہ میت برے پڑوسی سے اسی طرح اَذِیَّت پاتی ہے جس طرح زندہ انسان برے پڑوسی سے اذیت پاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الموت، قسم الاقوال، الفصل السادس، ۸ / ۲۵۴، الجزء الخامس عشر،الحدیث: ۴۲۳۶۴)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں نے حضرت میاں صاحب قبلہ قُدِّسَ سِرُّہٗ کو فرماتے سنا : ایک جگہ کوئی قبر کھل گئی اور مردہ نظر آنے لگا ۔ دیکھا کہ گلاب کی دو شاخیں اس کے بد ن سے لپٹی ہیں اور گلاب کے دو پھول اس کے نتھنو ں پر رکھے ہیں۔ اس کے عزیزوں نے اِس خیال سے کہ یہاں قبر پانی کے صدمہ سے کھل گئی، دو سری جگہ قبر کھود کر اس میں رکھیں ، اب جو دیکھیں تو دو اژدہے اس کے بدن سے لپٹے اپنے پھَنوں سے اس کا منہ بھَموڑ رہے ہیں ، حیران ہوئے ۔ کسی صاحبِ دل سے یہ واقعہ بیان کیا، انہوں نے فرمایا: وہاں بھی یہ اژدہا ہی تھے مگر ایک ولیُّ اللہ کے مزار کا قرب تھا اس کی برکت سے وہ عذاب رحمت ہوگیا تھا، وہ اژدھے درخت ِگُل کی شکل ہوگئے تھے اوران کے پھَن گلاب کے پھول۔ اِس کی خیریت چاہو تو وہیں لے جاکر دفن کرو۔ وہیں لے جاکر رکھا پھروہی درختِ گل تھے اور وہی گلاب کے پھول۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، حصہ دوم، ص۲۷۰)
{فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ: تو ان کے رب نے ان کی دعاقبول فرمالی۔}ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں وہ عطا کر دیا جو انہوں نے مانگا اور ان سے فرمایا کہ اے ایمان والو ! میں تم میں سے کسی مرد یا عورت کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا بلکہ ا س عمل کا ثواب عطا فرماؤں گا۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱ / ۳۳۸)
دعا قبول ہونے کے لئے ایک عمل:
یہاں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی۔اس کے بارے میں علماء کرام نے فرمایا ہے کہ یہاں دعا میں پانچ بار ’’رَبَّنَا‘‘ آیا ہے اور اس کے بعد دعا کی قبولیت کی بات ہورہی ہے، تو اگر دعا میں پانچ مرتبہ ’’یَا رَبَّنَا‘‘ کہہ دیا جائے تو قبولیت ِدعا کی امید ہے۔
{بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ:تم آپس میں ایک ہی ہو۔}اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم سب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرات حواء رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کی اولاد ہی ہو ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اطاعت پر ثواب ملنے اور نافرمانی پر سزا ملنے میں تم سب ایک ہی ہو ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱ / ۳۳۸)
{فَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا:پس جنہوں نے ہجرت کی۔ }ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت کے لئے اپنے وطنوں سے ہجرت کی اور وہ مشرکوں کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں کے سبب اپنے ان گھروں سے نکلنے پر مجبور ہو گئے جہاں وہ پلے بڑھے تھے اور مجھ پر ایمان لانے اور میری وحدانیت کا اقرار کرنے کی وجہ سے انہیں مشرکوں کی طرف سے ستایا گیااورانہوں نے میری راہ میں کافروں کے ساتھ جہاد کیا اور شہیدکردیے گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹادوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ان کے لئے اجر ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔ (روح البیان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۲ / ۱۵۱)
ہجرت اور جہاد سے متعلق احادیث:
اس آیت میں ہجرت اور جہاد کے ثواب کابیان ہوا اس مناسبت سے ہم یہاں ہجرت اور جہاد سے متعلق 3 احادیث ذکر کرتے ہیں ،چنانچہ
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اورہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ، تو جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہی ہے اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تو اسی چیز کی طرف ہے جس کی جانب اس نے ہجرت کی۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب ما جاء انّ الاعمال بالنیۃ والحِسبۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۴، الحدیث: ۵۴)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ جسے راہِ خدا میں کوئی زخم آئے تو وہ قیامت کے دن ا س طرح آئے گا کہ ا س کے زخم سے سرخ رنگ کا خون بہہ رہا ہو گا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہو گی۔(بخاری، کتاب الذبائح والصید۔۔۔ الخ، باب المسک، ۳ / ۵۶۶، الحدیث: ۵۵۳۳)
حضرت شداد بن ہادرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک اعرابی حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لایا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سامنے سر تسلیم خَم کیا، پھر عرض کی : میں ہجرت کر کے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ رہنا چاہتاہوں۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (اسے ہجرت کی اجازت عطا فرمائی اور)اپنے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اس (کے رہن سہن وغیرہ کا انتظام کرنے ) کے بارے میں کچھ حکم فرمایا۔ جب ایک غزوہ میں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چند قیدی بطور غنیمت حاصل ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان قیدیوں کوتقسیم فرما دیا اور اس اعرابی کا حصہ نکال کر صحابۂ کرام رَضِی َاللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سپرد کر دیا۔ وہ اعرابی صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُان کے پیچھے پہرہ دیاکرتے تھے(تاکہ دشمن اچانک حملہ نہ کر دے) ۔ جب وہ (پہرے کی جگہ سے) آیا تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ا س کا حصہ اسے دیا۔اس نے عرض کی:یہ کیا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے فرمایا’’ یہ تمہارا حصہ ہے ،جو نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے عطافرمایا ہے۔وہ اعرابی اپنے حصے کو لے کر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگا ہ میں حاضرہوئے اور عرض کی ’’یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،یہ کیا ہے ؟آپ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا’’میں نے یہ تمہارا حصہ نکالا ہے ۔اس نے عرض کی ’’یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،میں نے مال کے حصول کے لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی نہیں کی بلکہ میں نے تو اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کی ہے تاکہ مجھے یہاں گلے پر تیر لگے اور میں شہید ہو کر جنت میں داخل ہوجاؤں۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اگر تم (اپنی بات میں مخلص اور) سچے ہوتو اللہتعالیٰ تمہاری یہ خواہش ضرورپوری فرمائے گا ۔اس کے بعد لوگ کچھ دیر کے لئے ٹھہرے رہے، پھر دشمن کے ساتھ جہاد کے لئے اٹھے تو(جہاد کے دوران) کچھ آدمی اُس اعرابی کو اِس حال میں سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں لائے کہا اسے وہیں تیر لگا ہو اتھا جہاں تیر لگنے کااس نے اشارہ کیا تھا۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا یہ وہی شخص ہے ؟عرض کیا گیا: جی ہاں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا’’ یہ اپنی بات میں مخلص تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش پوری فرمادی۔حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے(برکت کے لئے ) اسے اپنے جبہ مبارکہ میں کفن دیا ،پھر اسے اپنے سامنے رکھا اور اس کا جنازہ پڑھایا۔اس کی نماز جنازہ میں جو دعا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمائی وہ یہ تھی
’’اَللّٰھُمَّ ھَذَاعَبْدُکَ خَرَجَ مُھَاجِرًا فِیْ سَبِیْلِکَ فَقُتِلَ شَھِیْدًااَنَاشَھِیْدٌ عَلٰی ذٰلِک‘‘
اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، یہ تیرا وہی بندہ ہے جس نے تیری راہ میں ہجرت کی اور شہید ہوگیا اور میں اس چیز کا گواہ ہوں۔(نسائی، کتاب الجنائز، الصلاۃ علی الشہداء، ص۳۳۰، الحدیث: ۱۹۵۰)
{لَا یَغُرَّنَّكَ: تجھے ہرگز دھوکہ نہ دے۔ }شانِ نزول: مسلمانوں کی ایک جماعت نے کہا کہ کفار ومشرکین اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمن ہیں لیکن یہ تو عیش و آرام میں ہیں اور ہم تنگی او رمشقت میں مبتلا ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۶،۲ / ۱۳۵)
اور انہیں بتایا گیا کفار کا یہ عیش و آرام دنیوی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے جبکہ ان کا انجام بہت برا ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ کسی کو کہا جائے بھائی آپ دس منٹ دھوپ میں کھڑے ہوجائیں ، اس کے بعداُسے ہمیشہ کیلئے ائیر کنڈیشنڈ بنگلہ دیدیا جائے اور دوسرے شخص کو دس منٹ سائے دار درخت کے نیچے بٹھا نے کے بعد ہمیشہ کیلئے تپتے ہوئے صحرا میں رکھا جائے تو دونوں میں فائدے میں کون رہا؟ یقینا پہلے والا ۔ مسلمان کی حالت پہلے شخص کی طرح بلکہ اس سے بھی بہتر ہے اور کافروں کی حالت دوسرے شخص سے بھی بدتر ہے۔
{لَهُمْ جَنّٰتٌ: ان کیلئے جنتیں ہیں۔ }کافروں کی دنیاوی ، عارضی اورفانی راحت و آرام کے ذکر کے بعد مسلمانوں کے آخرت کے دائمی، اَبدی راحت و آرام یعنی جنت کا بیان ہورہا ہے۔
دنیا کی راحتیں اور جنت کی ابدی نعمتیں کس کے لئے ہیں ؟:
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درِ رحمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ سلطانِ کونین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَایک بوریئے پر آرام فرما رہے ہیں ، سرِ اقدس کے نیچے چمڑے کا تکیہ ہے جس میں ناریل کے ریشے بھرے ہوئے ہیں اور جسم مبارک پر بوریئے کے نشانات نقش ہو گئے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر سیدنا فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رو پڑے۔ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رونے کا سبب دریافت کیا تو عرض کیا کہ’’ یا رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیصر و کسریٰ تو عیش وآرام میں ہوں اور آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہو کر اس حالت میں۔ نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اے عمر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، کیا تمہیں پسند نہیں کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت ۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب تبتغی مرضاۃ ازواجک۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۵۹، الحدیث: ۴۹۱۳)
حضرت جابر بنعبداللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ایک دن سرکارِ عالی وقارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت فاطمۃُ الزہراء رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کے گھر تشریف لے گئے، آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا اونٹ کے بالوں سے بنا موٹا لباس پہنے چکی میں آٹا پیس رہی تھیں ، جب نَبِیُّوں کے سلطانصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ان پر نظر پڑی تو آنکھوں سے سَیلِ اشک رواں ہو گیا ، رحمت عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’دنیا کی تنگی و سختی کا گھونٹ پی لوتاکہ جنت کی ابدی نعمتیں حاصل ہوں۔(احیاء العلوم، کتاب الفقر والزہد، بیان تفضیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۸۷)
حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ایک مرتبہ پانی طلب فرمایا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو شہد کا پیالہ پیش کیا گیا،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس پیالے کو اپنے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا ’’اگر میں اسے پی لوں تو اس کی مٹھاس چلی جائے گی لیکن ا س کا حساب (میرے ذمے ) باقی رہے گا۔ آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی، پھر وہ پیالہ ایک شخص کو دے دیا اور ا س نے وہ شہد پی لیا۔ (اسد الغابہ، باب العین والمیم، عمر بن الخطاب، ۴ / ۱۶۷)
حضرت ابن ابی ملیکہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ُ فرماتے ہیں ’’حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنے سامنے کھانا رکھا ہوا تھا ، اس دوران ایک غلام نے آ کر عرض کی : حضرت عتبہ بن ابی فرقد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُدروازے پر کھڑے ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں اند رآنے کی اجازت دی۔جب حضرت عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آئے تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کھانے میں سے کچھ انہیں دیا۔ حضرت عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اسے کھایا تو وہ ایسا بد مزہ تھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسے نگل نہ سکے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کی : اے امیر المؤمنین!رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُُ، کیا آپ کو حواری نامی کھانے میں رغبت ہے (تاکہ آپ کی بارگاہ میں وہ کھاناپیش کیا جائے) ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’کیا وہ کھانا ہر مسلمان کو مُیَسَّر ہے ؟ حضرت عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: خدا کی قسم! نہیں۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’اے عتبہ ! تم پر افسوس ہے ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں دُنیَوی زندگی میں مزیدار کھانا کھاؤں اور آسودگی کے ساتھ زندگی گزاروں۔ (اسد الغابہ، باب العین والمیم، عمر بن الخطاب، ۴ / ۱۶۸)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اللہتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ نعمتیں تیار کر رکھی ہیں کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ،نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا۔(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۱، الحدیث: ۳۲۴۴)
{وَ اِنَّ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: اور بیشک کچھ اہلِ کتاب ۔ } حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ یہ آیت حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے بارے میں نازل ہوئی، اُن کی وفات کے دن سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا ،چلو اور اپنے بھائی کی نماز ِ جنازہ پڑھو جس نے دوسرے ملک میں وفات پائی ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بقیع شریف تشریف لے گئے اور حبشہ کی سرزمین آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے کی گئی اورحضرت نجاشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا جنازہ سامنے ہوگیا ۔اس پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چار تکبیروں کے ساتھ نماز ِ جنازہ پڑھی اور اس کے لئے اِستغفار فرمایا ۔ (سُبْحَانَ اللہ، کیا نظر ہے اور کیا شان ہے کہ سرزمینِ حبشہ مدینہ منورہ میں سامنے پیش کردی جاتی ہے۔ ) منافقین نے اِس پراعتراض کیا اور کہا کہ دیکھو ،حبشہ کے نصرانی پر نماز پڑھتے ہیں جس کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی دیکھا بھی نہیں اور وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین پر بھی نہ تھا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۹، ۱ / ۳۳۹)
اور اُن کی شان میں فرمایا گیا کہ منافق جن کو عیسائی کہہ رہے ہیں حقیقت میں وہ مسلمان ہیں کیونکہ کچھ اہلِ کتاب ایسے ہیں جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر اورپچھلی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ پر نازل ہونے والے قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اوران کی حالت یہ ہے کہ ان کے دل عاجزی و اِنکساری اور تواضُع و اخلاص کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حضور جھکے ہوئے ہیں اوریہودی سرداروں کی طرح وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں بیچ کر ذلیل قیمت نہیں لیتے بلکہ سچے دل سے ایمان رکھتے ہیں۔ توان لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اجرو ثواب کا خزانہ ہے۔
{اِصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا:صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو۔}صبر کا معنی ہے نفس کو اس چیز سے روکنا جو شریعت اور عقل کے تقاضوں کے مطابق نہ ہو ۔ اور مُصَابَرہ کا معنی ہے دوسروں کی ایذا رسانیوں پر صبر کرنا ۔ صبر کے تحت ا س کی تمام اقسام داخل ہیں جیسے توحید،عدل،نبوت اور حشرو نَشر کی معرفت حاصل کرنے میں نظر و اِستدلال کی مشقت برداشت کرنے پر صبر کرنا ۔ واجبات اور مُستحَبات کی ادائیگی کی مشقت پر صبر کرنا ۔ ممنوعات سے بچنے کی مشقت پر صبر کرنا ۔ دنیا کی مصیبتوں اور آفتوں جیسے بیماری ، محتاجی قحط اور خوف وغیرہ پر صبر کرنا اور مُصَابرہ میں گھر والوں ،پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی بد اخلاقی برداشت کرنا اور برا سلوک کرنے والوں سے بدلہ نہ لینا داخل ہے ، اسی طرح نیکی کا حکم دینا ، برائی سے منع کرنا اور کفار کے ساتھ جہاد کرنا بھی مُصَابرہ میں داخل ہے ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۱ / ۳۴۰، تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۳ / ۴۷۳، ملتقطاً)
{وَ رَابِطُوْا:اور اسلامی سرحد کی نگہبانی کرو۔ } اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں (1) سرحد پر اپنے جسموں اور گھوڑوں کو کفار سے جہاد کے لئے تیار رکھو ۔ (2)اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر کمر بستہ رہو ۔(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۲ / ۱۳۷)
اسلامی سرحد کی نگہبانی کرنے کے فضائل:
اسلامی ملک کی سرحد کی حفاظت کے لئے وہاں رکنے کی بہت فضیلت ہے ،چنانچہ
حضرت سہل بن سعد ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’راہِ خدا میں ایک دن سرحد کی نگہبانی کرنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ، ۲ / ۲۷۹، الحدیث: ۲۸۹۲)
حضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا : ’’ایک دن اور ایک رات سرحد کی حفاظت کرنا ایک مہینے کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے، حفاظت کرنے والا اگر مر گیا تو اس کے اِس عمل کا اجر جاری رہے گا اور وہ فتنۂ قبر سے محفوظ رہے گا ۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرباط فی سبیل اللہ عزوجل، ص ۱۰۵۹، الحدیث: ۱۶۳(۱۹۱۳))
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan