Surah Aal Imraan
{وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ: اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے وعدہ لیا۔} حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بعد جس کسی کو نبوت عطا فرمائی ،ان سے سیدُ الانبیاء، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے متعلق عہد لیا اور ان انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوموں سے عہد لیا کہ اگر ان کی حیات میں سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مبعوث ہوں تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لائیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مددو نصرت کریں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۸۱، ۱ / ۲۶۷-۲۶۸)
عظمتِ مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا بیان:
اس سے ثابت ہوا کہ ہمارے آقا و مولا، حبیب ِ خدا، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سب سے افضل ہیں۔اس آیت مبارکہ میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے عظیم فضائل بیان ہوئے ہیں۔ علماء کرام نے اس آیت کی تفسیر میں پوری پوری کتابیں تصنیف کی ہیں اور اس سے عظمت ِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بے شمار نکات حاصل کئے ہیں۔ چند ایک نکات یہ ہیں :
(1)…حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ محفل قائم فرمائی۔
(2)…خود عظمت ِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو بیان کیا۔
(3)…عظمت ِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سامعین کیلئے کائنات کے مقدس ترین افراد انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو منتخب فرمایا۔
(4)…کائنات وجود میں آنے سے پہلے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا ذکر جاری ہوا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی عظمت کا بیان ہوا۔
(5)…آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو تمام نبیوں کا نبی بنایا کہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بطورِ خاص آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور مدد کرنے کا حکم دیا۔
(6)…انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرمانے کے بعد باقاعدہ اس کا اقرار لیا حالانکہ انبیاء ِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کسی حکمِ الہٰی سے انکار نہیں کرتے۔
(7)…انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس اقرار کا باقاعدہ اعلان کیا۔
(8)…اقرار کے بعد انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک دوسرے پر گواہ بنایا۔
(9)…اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ تمہارے اس اقرار پر میں خود بھی گواہ ہوں۔
(10)… انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اقرار کرنے کے بعد پھر جانا مُتَصَوَّر نہیں لیکن پھر بھی فرمایا کہ اس اقرار کے بعد جو پھرے وہ نافرمانوں میں شمار ہوگا۔ اس آیتِ مبارکہ پر انتہائی نفیس کلام پڑھنے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ کی تصنیف ’’تَجَلِّیُ الْیَقِین بِاَنَّ نَبِیَّنَا سَیِّدُ الْمُرْسَلِین‘‘ (یقین کا اظہار اس بات کے ساتھ کہ ہمارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تمام رسولوں کے سردار ہیں )کا مطالعہ فرمائیں۔
{اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ: کیا اللہ کے دین کے علاوہ دین چاہتے ہیں۔}ارشاد فرمایا کہ’’ کیا لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین کے علاوہ کوئی اور دین چاہتے ہیں حالانکہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کوئی بھی ہے فرشتے، انسان اور جنات وہ سب کے سب خوشی سے یا مجبوری سے اسی کی بارگاہ میں جھکے ہوئے ہیں۔ فرشتے تو یوں خوشی سے فرمانبردار ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا ہی معصومیت پر کیا ہے اور مسلمان جن اور انسان اس طرح کہ دلائل میں نظر کرکے اور انصاف اختیار کرکے فرمانبردار ہیں اور یہ اطاعت و فرمانبرداری مفید بھی ہے جبکہ کافر کسی خوف یا موت کے وقت عذاب دیکھ لینے کے وقت گردن جھکادیتا ہے لیکن اس وقت کا ایمان قیامت میں نفع نہ دے گا۔
{قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ: اور تم یوں کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں۔} یہودیوں اور عیسائیوں نے تو یہ کیا کہ کچھ نَبِیُّوں اور کتابوں پر ایمان لائے اور کچھ پر نہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلمانوں سے فرمایا جارہا ہے کہ’’ تم سب نبیوں اور سب کتابوں پر ایمان لاؤ خواہ وہ ابراہیمی صحیفے ہوں یا حضرت موسیٰ و عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتابیں یا دیگر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحیفے۔ ہمیں سب کو ماننے کا حکم ہے البتہ ہمارا عمل صرف قرآن پر ہوگا اور ہماری اطاعت و اتباع صرف حضور پرنور، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ہوگی۔
}وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا:اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اوردین چاہے گا ۔{ اللہ تعالیٰ نے واضح طور قرآن پاک میں کئی جگہ فرمادیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک پسندیدہ دین صرف اسلام ہے اور اسلام کے علاوہ کوئی دین اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِ س زمانے میں معتبر نہیں۔ اسلام کے علاوہ کوئی کسی دین کی اخلاقی باتوں پر جتنا چاہے عمل کرلے جب تک مکمل طور پر بطورِ عقیدہ اسلام کو اختیار نہیں کرے گا اس کا کوئی عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں اور اب اسلام سے مراد وہ دین ہے جسے حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ لے کر آئے۔
{كَیْفَ یَهْدِی اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ: اللہ ایسی قوم کو کیسے ہدایت دے گا جنہوں نے ایمان کے بعد کفر کو اختیار کیا۔} حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ’’ یہ آیت ان یہودی ا ور عیسائی علماء کے متعلق نازل ہوئی جو نبیِّ آخر الزّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے لوگوں کو خوشخبریاں دیتے تھے ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے طفیل سے دعائیں کرتے تھے لیکن آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے بعداپنے مفادات اور حسد کی وجہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مخالف ہو گئے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۸۶، ۱ / ۲۷۰)
ان کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو کیوں ہدایت دے گا جنہوں نے ایمان کے بعد کفر کو اختیار کیا حالانکہ پہلے وہ اس بات کی گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول سچاہے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو کیسے ایمان کی توفیق دے جو جان پہچان کر منکر ہوگئی ہو یعنی ایسوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جان بوجھ کر حق کا انکار کرنے کی بہت نحوست ہے نیز معلوم ہوا کہ حسد نہایت خبیث بیماری ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی جانتے بوجھتے انکار کردیتا ہے اور یہ حسد بعض اوقات کفر تک پہنچا دیتا ہے۔
{ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ: مگر جنہوں نے کفر کے بعدتوبہ کرلی۔} حارث بن سُوَید انصاری کو کفارکے ساتھ جا ملنے کے بعد ندامت ہوئی تو انہوں نے اپنی قوم کے پاس پیغام بھیجا کہ سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دریافت کریں کہ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ،تب وہ مدینہ منورہ میں تائب ہو کر حاضر ہوئےاور سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ (در منثور، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۲۵۷)
یاد رہے کہ توبہ ہرگناہ سے مقبول ہے حتّٰی کہ اِرْتِداد سے بھی توبہ قبول ہے۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ: بیشک وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے۔} یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے کے بعد حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور انجیل کے ساتھ کفر کیا ،پھر کفر میں اور بڑھے اور سیدُ الانبیاء محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور قرآن کے ساتھ کفر کیا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت یہود و نصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی جورسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بعثت سے پہلے تو اپنی کتابوں میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت دیکھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان رکھتے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ظہور کے بعد کافر ہوگئے اور پھر کفر میں اور شدید ہوگئے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۰، ۱ / ۲۷۰)
ایمان و کفر میں شدت کی کیفیت کے اعتبار سے کمی زیادتی ہوتی ہے، جیسے قرآن پاک میں بکثرت ایمان میں اضافہ ہونے کی آیات ہیں ، اسی طرح کفر میں شدت کی آیات بھی ہیں۔ یہ آیات اس معنیٰ میں ہے کہ کسی کا ایمان زیادہ قوی اور مضبوط ہوتا ہے جبکہ کسی کا ایمان کمزور ہوتا ہے یونہی کسی کا کفرزیادہ شدید ہوتا ہے اورکسی کا کم شدت والا ہوتا ہے۔ آیت میں فرمایا کہ’’جو کفر کرے اور اس میں بڑھتا جائے اس کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی‘‘ اس کا یاتو یہ معنیٰ ہے کہ ’’ان کی معافی نہیں ،کیونکہ یہ توبہ ہی نہیں کرتے یا یہ معنیٰ ہے کہ’’ان کی توبہ مقبول نہیں ، کیونکہ ان کی توبہ دل سے نہیں بلکہ منافقانہ ہوتی ہے ، دل میں کفر بھرا ہوتا ہے اور زبان سے توبہ کررہے ہوتے ہیں ایسی توبہ ہرگز قبول نہیں۔ البتہ جو توبہ دل سے کی جائے وہ ضرور مقبول ہے۔
{وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ: اور کافر ہی مرے۔} آخرت کی نجات ایمان پر خاتمے پر ہے۔ کفر پر مرنے والا زمین بھر سونا بھی اپنے فدیے میں دیدے تب بھی اس کی نجات نہیں ہوسکتی۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ نجات کا دارومدار ایمان پر خاتمہ ہونے پر ہے۔ اگر کوئی شخص تمام عمر مومن رہا اورمرتے وقت کافر ہو گیا تو اس آیت میں شامل ہے اور اگر کوئی شخص ساری عمر کافر رہا لیکن مرتے وقت مومن ہو کر مرا تو وہ اس آیت سے خارج ہے۔اسی لئے صالحین سب سے زیادہ فکر ایمان پر خاتمے ہی کی کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے تھے۔ چنانچہ حضرتِ یوسف بن اَسباط رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں ایک مرتبہ حضرتِ سفیان ثَوری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ساری رات روتے رہے ۔ میں نے دریافت کیا : کیا آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِگناہوں کے خوف سے رو رہے ہیں ؟ تو آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ایک تنکا اٹھایا اور فرمایا کہ گناہ تواللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِس تنکے سے بھی کم حیثیت رکھتے ہیں ، مجھے تو اس بات کا خوف ہے کہ کہیں ایمان کی دولت نہ چھن جائے۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الخامسۃ، اصول سلوک طریق الخوف والرجاء، الاصل الثالث، ص۱۶۹)
فکرِ معاش بد بلا ہولِ معاد جانگزا
لاکھوں بلا میں پھنسنے کو روح بدن میں آئی کیوں
{لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا: تم ہرگزبھلائی کو نہیں پا سکو گے جب تک راہِ خدا میں خرچ نہ کرو۔} اس آیت میں بھلائی سے مراد تقویٰ اور فرمانبرداری ہے اور خرچ کرنے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ’’یہاں خرچ کرنے میں واجب اور نفلی تمام صدقات داخل ہیں۔ امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: جو مال مسلمانوں کو محبوب ہو اسے رضائے الہٰی کے لیے خرچ کرنے والا اس آیت کی فضیلت میں داخل ہے خواہ وہ ایک کھجور ہی ہو۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ:۹۲، ۱ / ۲۷۲)
راہِ خدا میں اپناپیارا مال خرچ کرنے کے5 واقعات:
اس آیتِ مبارکہ پر عمل کے سلسلے میں ہمارے اَسلاف کے 5 واقعات ملاحظہ ہوں :
(1)…صحیح بخاری اور مسلم کی حدیث میں ہے کہ’’حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینے میں بڑے مالدار تھے، انہیں اپنے اموال میں بَیْرُحَاء نامی ایک باغ بہت پسند تھا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں کھڑے ہو کر عرض کی: مجھے اپنے اموال میں ’’بَیْرُحَاء‘‘ باغ سب سے پیارا ہے، میں اسی کو راہِ خدا میں صدقہ کرتا ہوں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پر مسرت کا اظہار فرمایا اور پھر حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اشارے پر وہ باغ اپنے رشتے داروں میں تقسیم کردیا۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الاقارب، ۱ / ۴۹۳، الحدیث: ۱۴۶۱، مسلم ، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین۔۔۔ الخ، ص ۵۰۰، الحدیث: ۴۲(۹۹۸))
(2)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ابو موسیٰ اَشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو لکھا کہ’’میرے لئے ایک باندی خرید کر بھیج دو۔ جب وہ آئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بہت پسند آئی ،لیکن پھرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ آیت پڑھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے اس کو آزاد کردیا۔ (بغوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۲، ۱ / ۲۵۳)
(3)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نے اس آیت’’لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ‘‘ کی تلاوت کی تو میں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں غور کیا (کہ کون سی نعمت مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے، جب غور کیا) تو میں نے اپنی باندی کو اپنے نزدیک سب سے زیادہ پیارا پایا، اس پر میں نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ جس چیز کو میں نے اللہ تعالیٰ کے لئے کر دیا، اس کی طرف نہ لوٹوں گا تو میں اس باندی سے نکاح کر لیتا۔(مستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، ذکر عبد اللہ بن عمر۔۔۔ الخ، کان ابن عمر ازہد القوم واصوبہ رأیًا، ۴ / ۷۲۸، الحدیث: ۶۴۳۵)
(4)… حضرت عمرو بن دینار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : جب یہ آیت’’ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ‘‘ نازل ہوئی تو حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے (پسندیدہ) گھوڑے کو لے کر بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس گھوڑے کو صدقہ فرما دیں۔ تاجدار رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ گھوڑا ان کے بیٹے حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو عطا فرما دیا تو حضرت زیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: میں نے اس گھوڑے کو محض (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) صدقہ کرنے کا ارادہ کیا ہے !نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک تیرا صدقہ قبول کر لیا گیا ہے۔(ابن عساکر ، ذکر من اسمہ زید، زید بن حارثہ بن شراحیل، ۱۹ / ۳۶۷ )
(5)…حضرت عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شکر کی بوریاں خرید کر صدقہ کرتے تھے۔ ان سے کہا گیا: اس کی قیمت صدقہ کیوں نہیں کردیتے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: شکر مجھے محبوب ومرغوب ہے ، میں چاہتا ہوں کہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں اپنی پیاری چیز خرچ کروں۔ (مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۱۷۲)
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اپنی محبوب اور پسندیدہ چیزیں راہِ خدا میں دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین[1]
{وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ:اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔}یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم اس کی راہ میں عمدہ، نفیس اور اپنی پسندیدہ چیز خرچ کر رہے ہو یا ردی، ناکارہ اور اپنی ناپسندیدہ چیز خرچ کر رہے ہو، تو جیسی چیز تم خرچ کرو گے اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ تمہیں جزا عطا فرمائے گا۔(روح البیان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۲، ۲ / ۶۳)
[1] … صدقات کے فضائل واحکام اور ان سے متعلق دیگر معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’ضیائے صدقات‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا فائدہ مند ہے۔
{كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ : تمام کھانے بنی اسرائیل کے لئے حلال تھے۔}شانِ نزول: مدینہ منورہ کے یہودیوں نے سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراض کیا کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے آپ کو ملّتِ ابراہیمی پر خیال کرتے ہیں حالانکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اونٹ کا گوشت اور دودھ نہیں کھاتے تھے جبکہ آپ کھاتے ہیں ، تو آپ ملّتِ ابراہیمی پر کیسے ہوئے ؟ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر حلال تھیں۔ یہودی کہنے لگے کہ یہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بھی حرام تھیں ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بھی حرام تھیں اور ہم تک حرام ہی چلی آئیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اس میں بتایا گیا کہ یہودیوں کا یہ دعویٰ غلط ہے ،بلکہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم ،حضرت اسماعیل، حضرت اسحٰق اور حضرت یعقوبعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر حلال تھیں۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی سبب سے ان کو اپنے اوپر حرام فرمایا اور یہ حرمت ان کی اولاد میں باقی رہی ۔یہودیوں نے اس کا انکار کیا تو حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ تورات میں یہ مضمون موجود ہے، اگر تمہیں اس سے انکار ہے تو تورات لاؤ اور اس میں سے نکال کر دکھا دو کہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر حرام تھیں۔ اس پر یہودیوں کو اپنی ذلت و رسوائی کا خوف ہوا اور وہ تورات نہ لاسکے، ان کاجھوٹا ہونا ظاہر ہوگیا اور انہیں شرمندگی اٹھانی پڑی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۳، ۱ / ۲۷۳)
اس سے معلوم ہوا کہ احکام کا مَنسوخ ہونا ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔ لہٰذا قرآن کی بعض آیات کے منسوخ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس پر تفصیلی کلام سورۂ بقرہ کی آیت 106میں گزر چکا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا علم شریف اللہ تعالیٰ کی خاص عطا سے ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تورات و انجیل سے خبردار ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو غیبی علوم عطا فرمائے ہیں۔
فَمَنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ : پھر جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔} یعنی اس بات کی وضاحت تو ہوگئی کہ بنی اسرائیل پر جو کچھ کھانے حرام ہیں یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام سے نہیں ہیں بلکہ بعد میں حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حرام کرنے سے ہوئے، تو جو اِس حقیقت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے اور کہے کہ’’ ملتِ ابراہیمی میں اونٹوں کے گوشت اور دودھ اللہ تعالیٰ نے حرام کئے تھے‘‘ وہ ظالم ہے۔اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم کے باوجود گناہ کرنا زیادہ سخت ہے نیز حلال کو اپنی طرف سے بلا دلیل حرام کہنا اللہ تعالیٰ پر اِفتراء کرنا ہے۔
{فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا:لہٰذا تم ابراہیم کے دین پر چلو جو ہر باطل سے جدا تھے۔} اس آیت میں دین ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ’’ دین محمدی کی پیروی کرو ،کیونکہ اس کی پیروی ملتِ ابراہیمی کی پیروی ہے، دین محمدی اُس ملت کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔
{اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا ۔} یہودیوں نے کہا تھا کہ’’ ہمارا قبلہ یعنی بیتُ المقدس کعبہ سے افضل ہے کیونکہ یہ گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قبلہ رہا ہے، نیزیہ خانہ کعبہ سے پرانا ہے ۔ ان کے رد میں یہ آیتِ کریمہ اتری ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۶، ۱ / ۲۷۴)
اور بتا دیا گیا کہ روئے زمین پر عبادت کیلئے سب سے پہلے جو گھر تیار ہوا وہ خانہ کعبہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’کعبہ معظمہ بیتُ المقدس سے چالیس سال قبل بنایا گیا۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۱۱- باب، ۲ / ۴۲۷، الحدیث: ۳۳۶۶)
اور فرشتوں کا قبلہ بیتُ المعمور ہے جو آسمان میں ہے اورخانہ کعبہ کے بالکل اوپر ہے۔ (کنز العمال، کتاب الفضائل، باب فی فضائل الامکنۃ، ۷ / ۴۹، الجزء الرابع عشر، الحدیث: ۳۸۰۸۱)
کعبۂ معظمہ کی خصوصیات :
اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں کعبۂ معظمہ کی بہت سی خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔
(1)…سب سے پہلی عبادت گاہ ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے اس کی طرف نماز پڑھی۔
(2)…تمام لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیاجبکہ بیتُ المقدس مخصو ص وقت میں خاص لوگوں کا قبلہ رہا۔
(3)…مکہ معظمہ میں واقع ہے جہاں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ ہے۔
(4) …اس کا حج فرض کیا گیا ۔
(5)…حج ہمیشہ صرف اسی کا ہوا، بیتُ المقدس قبلہ ضرور رہا ہے لیکن کبھی اس کا حج نہ ہوا۔
(6) …اسے امن کا مقام قرار دیا۔
(7)…اس میں بہت سی نشانیاں رکھی گئیں جن میں ایک مقامِ ابراہیم ہے۔
{فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ : اس میں کھلی نشانیاں ہیں۔} خانۂ کعبہ کی عظمت و شان کا بیان چل رہا ہے، اسی ضمن میں فرمایا کہ خانۂ کعبہ میں بہت سی فضیلتیں اور نشانیاں ہیں جو اس کی عزت و حرمت اور فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ ان نشانیوں میں سے بعض یہ ہیں کہ پرندے کعبہ شریف کے اوپر نہیں بیٹھتے اور اس کے اوپر سے پرواز نہیں کرتے بلکہ پرواز کرتے ہوئے آتے ہیں تو ادھر ادھر ہٹ جاتے ہیں اور جو پرندے بیمار ہوجاتے ہیں وہ اپنا علاج یہی کرتے ہیں کہ ہوائے کعبہ میں ہو کر گزر جائیں ، اسی سے انہیں شِفا ہوتی ہے اور وحشی جانور ایک دوسرے کو حرم کی حدودمیں ایذا نہیں دیتے، حتّٰی کہ اس سرزمین میں کتے ہرن کے شکار کیلئے نہیں دوڑتے اور وہاں شکار نہیں کرتے نیز لوگوں کے دل کعبہ معظمہ کی طرف کھنچتے ہیں اور اس کی طرف نظر کرنے سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور ہر شب ِجمعہ کو ارواحِ اَولیا ء اس کے ارد گرد حاضر ہوتی ہیں اور جو کوئی اس کی بے حرمتی و بے ادبی کا ارادہ کرتا ہے برباد ہوجاتا ہے۔انہیں آیات میں سے مقامِ ابراہیم وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کا آیت میں بیان فرمایا گیا ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱ / ۲۷۶، تفسیرات احمدیہ، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۲۰۱-۲۰۲، ملتقطاً)
{مَقَامُ اِبْرٰهِیْمَ: ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔} مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکعبہ شریف کی تعمیر کے وقت کھڑے ہوئے تھے۔ یہ پتھر خانۂ کعبہ کی دیواروں کی اونچائی کے مطابق خود بخود اونچا ہوتا جاتا تھا۔ اس میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے قدمِ مبارک کے نشان تھے جو طویل زمانہ گزرنے اور بکثرت ہاتھوں سے مَس ہونے کے باوجود ابھی تک کچھ باقی ہیں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱ / ۲۷۶، ملتقطاً)
بزرگوں سے نسبت کی برکت:
اس سے معلوم ہوا کہ جس پتھر سے پیغمبر کے قدم چھو جائیں وہ مُتَبَرَّک اور شَعَآىٕرُ اللّٰهِ اور آیۃُ اللہ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانی بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ (بقرہ:۱۵۸) ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ دونوں پہاڑ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے قدم پڑجانے سے شَعَائِرُاللہ بن گئے۔
{وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا: اور جو اس میں داخل ہوا امن والاہوگیا۔} خانہ کعبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پورے حرم کی حدود کو امن والا بنادیا، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل وجرم کرکے حدودِحرم میں داخل ہوجائے تو وہاں نہ اس کو قتل کیا جائے گا اورنہ اس پر حد قائم کی جائے گی۔ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ’’اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے۔(مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۱۷۴)
حرم سے کیا مراد ہے؟
حرم سے مراد خانہ کعبہ کے ارد گرد کئی کلومیٹر پھیلا ہوا علاقہ ہے جہاں باقاعدہ نشانات وغیرہ لگا کر اسے ممتاز کردیا گیا ہے۔ جو لوگ حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں انہیں عموما ًاس کی پہچان ہوجاتی ہے کیونکہ وہاں جاکر جب لوگوں کا عمرہ کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو عمرہ کرنے کے لئے حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھ کر آنا ہوتا ہے۔
{وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔} اس آیت میں حج کی فرضیت کا بیان ہے اور اس کا کہ اِستِطاعت شرط ہے۔ حدیث شریف میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی تفسیر ’’ زادِ راہ ‘‘اور’’ سواری‘‘ سے فرمائی ہے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ اٰل عمران، ۵ / ۶، الحدیث: ۳۰۰۹)
حج فرض ہونے کے لئے زادِ راہ کی مقدار:
کھانے پینے کا انتظام اس قدر ہونا چاہئے کہ جا کر واپس آنے تک اس کے لئے کافی ہو اور یہ واپسی کے وقت تک اہل و عیال کے خرچے کے علاوہ ہونا چاہئے۔ راستے کا امن بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر حج کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی۔مزید تفصیل فقہی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں۔[1]
{وَ مَنْ كَفَرَ: اور جو منکر ہو۔} ارشاد فرمایا کہ ’’حج کی فرضیت بیان کردی گئی، اب جو اس کا منکر ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے بلکہ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی ظاہر ہوتی ہے اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فرضِ قطعی کا منکر کافر ہے۔
[1] …آسان انداز میں حج کے مسائل سیکھنے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تصنیف رفیق الحرمین(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
{لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ :تم اللہ کی آیتوں کا انکار کیوں کرتے ہو ۔}یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں سے مراد توریت کی وہ آیات ہیں جن میں سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف کا بیان ہے اور وہ عقلی دلائل مراد ہیں جو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں۔
{قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ: تم فرماؤ :اے اہلِ کتاب!} اس آیت میں بھی اہلِ کتاب ہی سے خطاب ہے کہ’’ اے اہلِ کتاب! تم ان لوگوں کو جن کے دلوں میں ابھی ایمان مضبوط نہیں ہوا، انہیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں توریت کی آیتیں چھپا کر اور یہ کہہ کر کیوں بہکاتے ہو کہ’’ یہ وہ نبی نہیں جن کی خبر توریت و انجیل میں ہے۔یہ کہہ کرتم انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے کیوں روکتے ہو؟ حالانکہ تم خود اس بات کے گواہ ہو کہ سید ِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان توریت میں لکھی ہوئی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں جو دین مقبول ہے وہ صرف دین اسلام ہی ہے۔
{اِنْ تُطِیْعُوْا: اگر تم اطاعت کرو۔}شاس بن قیس یہودی مسلمانوں کی مجلس کے قریب سے گزرا جس میں انصار کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج نہایت محبت سے باتیں کر رہے تھے، اسلام سے پہلے ان کی آپس میں بہت جنگ تھی اس یہودی کوان کے اتفاق سے بڑی تکلیف ہوئی چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی سے کہا کہ تم اِن کی گزشتہ جنگیں یاد دلا کر اِنہیں لڑا دو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور کچھ قصیدے پڑھے جن میں ان کی گزشتہ جنگوں کا ذکر تھا۔ ان قصائد کو سن کر انصار کو اپنی گزشتہ جنگیں یاد آگئیں اور وہ آپس میں لڑ پڑے۔ قریب تھا کہ خون ریزی ہوجائے، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فوراً موقع پر تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا جاہلیت کی حرکتیں کرتے ہوحالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔یہ سن کر انہوں نے ہتھیار پھینک دئیے اور روتے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے ۔ اس پر یہ آیت کریمہ اتری۔ (در منثور، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۸-۲۷۹)
اس سے معلوم ہوا کہ یہاں آیت میں کفر سے مراد کافروں والے کام ہیں یعنی اپنی’’ انا‘‘ کیلئے آپس میں جنگ کرنا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ فتنہ فساد برپا کرنا اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانا یہودیوں کا کام اور آپس میں پیار محبت پیدا کرنا اور صلح کروانا سراپا رَحمت،مجسمِ شفقت، شفیعِ امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت ہے۔
{وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ: او رتم کیوں کفر کرو گے؟ }یہاں ابتداء ً صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے خطاب ہے کہ اے جماعت ِصحابہ! (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم)تم کافروں کی طرح آپس میں کیسے لڑ سکتے ہوجبکہ تم حضور رحمۃللعالمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحبت یافتہ ہواور ان کی زبانِ مبارک سے قرآنِ مجید سنتے ہو۔ اس آیت میں عام مسلمانوں کو بھی اس اعتبار سے نصیحت ہے کہ ہمارے درمیان قرآن موجود ہے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیمات موجود ہیں تو پھر آپس میں نفسانی لڑائی کس طرح ہوسکتی ہے؟
{وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ : اور جس نے اللہ کا سہارامضبوطی سے تھام لیا۔}جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا سہارا تھاما یعنی اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اس کے دین کو مضبوطی سے تھام لیا اور زندگی کے جملہ امور میں اسی کی طرف رجوع کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کرم سے وہ ضرور ہدایت پاجائے گا۔
{اِتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ایسا ڈرو جیسا ڈرنے کا حق ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بَقدرِ طاقت اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ اس کی تفسیر وہ آیت ہے جس میں فرمایا گیا:
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ(تغابن:۱۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھتے ہو۔
نیز آیت کے آخری حصے میں فرمایا کہ اسلام پر ہی تمہیں موت آئے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی طرف سے زندگی کے ہر لمحے میں اسلام پر ہی رہنے کی کوشش کرو تاکہ جب تمہیں موت آئے تو حالت ِ اسلام پرہی آئے۔
{وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا: اور تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔} اس آیت میں اُن افعال و حرکات کی مُمانَعت کی گئی ہے جو مسلمانوں کے درمیان تفریق کا سبب ہوں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ’’تم سب مل کراللہ عَزَّوَجَلَّ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں فرقوں میں تقسیم نہ ہو جاؤ جیسے یہود و نصاریٰ نے فرقے بنالئے ۔
یاد رہے کہ اصل راستہ اور طریقہ مذہب ِاہل سنت ہے، اس کے سوا کوئی راہ اختیار کرنا دین میں تفریق کرنا ہے اور یہ ممنوع ہے۔ بعض لوگ یہ آیت لے کر اہلسنّت سمیت سب کو غلط قرار دیتے ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ حکم یہ ہے کہ جس طریقے پر مسلمان چلتے آرہے ہیں ، جو صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے جاری ہے اور سنت سے ثابت ہے اس سے نہ ہٹو۔ اہلِ سنت و جماعت تو سنت ِ رسول اور جماعت ِ صحابہ کے طریقے پر چلتے آرہے ہیں تو سمجھایا تو ان لوگوں کو جائے گا جو اس سے ہٹے نہ کہ اصل طریقے پر چلنے والوں کو کہا جائے کہ تم اپنا طریقہ چھوڑ دو۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک خاندان اتفاق و اتحاد کے ساتھ صحیح اصولوں پر زندگی گزار رہا ہو، ان میں سے ایک فرد غلط راہ اختیار کرکے اِنتشار پیدا کرے تو اُس جدا ہونے والے کو سمجھایا جائے گا نہ کہ خاندان والوں کو بھی اتحاد ختم کرکے غلط راہ چلنے کا کہنا شروع کردیا جائے۔ بِعَیْنِہٖ یہی صورتِ حال اہلسنّت اور دوسرے فرقوں کی ہے۔ اصل حقیقت کو سمجھے بغیر صلح کُلِّیَّت کی رٹ لگانا اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا سراسر جہالت ہے۔
’’حَبْلِ اللّٰهِ‘‘ کی تفسیر :
’’حَبْلِ اللّٰهِ‘‘ کی تفسیر میں مفسرین کے چند اقوال ہیں : بعض کہتے ہیں کہ اس سے قرآن مراد ہے۔ چنانچہ مسلم شریف میں ہے کہ قرآنِ پاک حَبْلُ اللہہے جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر ہے اورجس نے اُسے چھوڑا وہ گمراہی پر ہے۔ (مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ص۱۳۱۳، الحدیث: ۳۷(۲۴۰۸))
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ حَبْلُ اللہ سے جماعت مراد ہے (معجم الکبیر، ۹ / ۲۱۲، الحدیث: ۹۰۳۳)
اور فرمایا کہ تم جماعت کو لازم کرلو کہ وہ حَبْلُ اللہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا۔ (معجم الکبیر، ۹ / ۱۹۹، الحدیث: ۸۹۷۳)
یہ یاد رہے کہ جماعت سے مراد مسلمانوں کی اکثریت ہے ، یہ نہیں کہ تین آدمی مل کر’’ جماعتُ المسلمین ‘‘نام رکھ لیں اور بولیں کہ قرآن نے ہماری ٹولی میں داخل ہونے کا کہا ہے، اگر ایسا ہی حکم ہے تو پھر کل کوئی اپنا نام ’’رسول‘‘ رکھ کر بولے گا کہ قرآن نے جہاں بھی رسول کی اطاعت کا حکم دیا اس سے مراد میری ذات ہے لہٰذا میری اطاعت کرو۔ اَعُوذُ بِاللہِ مِنْ جَہْلِ الْجَاہِلِینْمیں جاہلوں کی جہالت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔
{وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ: اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو۔} اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو جن میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ اے مسلمانو! یاد کرو کہ جب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے اور تمہارے درمیان طویل عرصے کی جنگیں جاری تھیں حتّٰی کہ اوس اور خَزْرَج میں ایک لڑائی ایک سو بیس سال جاری رہی اور اس کے سبب رات دن قتل و غارت کی گرم بازاری رہتی تھی لیکن اسلام کی بدولت عداوت و دشمنی دور ہو کر آپس میں دینی محبت پیدا ہوئی اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہاری دشمنیاں مٹادیں اور جنگ کی آگ ٹھنڈی کردی اور جنگجو قبیلوں میں الفت و محبت کے جذبات پیدا کردیئے،تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے انہیں ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنا دیا ورنہ یہ لوگ اپنے کفر کی وجہ سے جہنم کے گڑھے کے کنارے پر پہنچے ہوئے تھے اور اگر اسی حال پر مرجاتے تو دوزخ میں پہنچتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے دولتِ ایمان عطا کرکے اس تباہی سے بچالیا۔
جہنم سے بچنے کا سب سے بڑ اوسیلہ:
اس سے معلوم ہوا کہ سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے لئے دوزخ سے بچنے کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں،چنانچہ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ کچھ فرشتے حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس وقت حاضر ہوئے جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سو رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا:یہ تو سوئے ہوئے ہیں۔دوسرے نے کہا: ان کی آنکھ سوتی اور دل جاگتا رہتا ہے ۔ فرشتوں نے کہا: آپ کے ان صاحب کی مثال ہے لہٰذا وہ مثال بیان کرو۔ ایک نے کہا: وہ تو سوئے ہوئے ہیں۔دوسرے نے کہا: ان کی آنکھ سوتی اور دل بیدار رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے گھر بنایا، اس میں دستر خوان بچھایا اور بلانے والے کو بھیجا تو جس نے اس کی دعوت قبول کر لی وہ گھر میں داخل ہو ا اور دستر خوان سے کھانا کھایا اور جس نے دعوت قبول نہ کی وہ نہ گھر میں داخل ہوا اور نہ دستر خوان سے کھانا کھا سکا۔ فرشتوں میں سے ایک نے کہا: اس کا مطلب بیان کیجئے تاکہ بات سمجھ میں آجائے۔ ان میں سے ایک نے کہا :یہ تو سو رہے ہیں۔دوسرے نے کہا: ان کی آنکھ سوتی اور دل بیدار رہتا ہے۔ فرشتوں نے کہا: گھر سے مراد جنت ہے اور بلانے والے سے مراد حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں تو جس نے محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ۔محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاچھے اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۴ / ۴۹۹، الحدیث: ۷۲۸۱)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب ا س آگ نے اردگرد کی جگہ کو روشن کر دیا تو اس میں پتنگے اور حشراتُ الارض گرنے لگے، وہ شخص ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہے اور وہ ا س پر غالب آ کر آگ میں دھڑا دھڑ گر رہے ہیں ، پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے ،میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں جہنم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنم کے پاس سے چلے آؤ اور تم لوگ میری بات نہ مان کر (پتنگوں کے آگ میں گرنے کی طرح) جہنم میں گرے چلے جا رہے ہو۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب شفقتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی امتہ۔۔۔ الخ، ص۱۲۵۴، الحدیث: ۱۸(۲۲۸۴))
سب سے اعلیٰ نعمت:
اور یہ بھی معلوم ہو اکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَربّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی سب سے اعلیٰ نعمت ہیں۔ آیت کے شروع میں فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت کو یاد کرو ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کو یاد کرنا اور ایک دوسرے کو یاد دلانا بہت عمدہ عبادت ہے۔ لہٰذا حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یاد کیلئے جو محفل منعقد کی جائے خواہ وہ میلاد شریف کی ہو یا معراج کی یا کوئی اور وہ سب بہت عمدہ ہیں اور حکمِ الہٰی پر عمل ہی کی صورتیں ہیں۔
{وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں۔} آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ چونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ تمام کے تمام مسلمان ایک ہی کام میں لگ جائیں لیکن اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ہو جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے، انہیں نیکی کی دعوت دے، اچھی بات کا حکم کرے اور بری بات سے منع کرے۔
تبلیغِ دین کا حکم :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر تبلیغِ دین فرضِ کفایہ ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہیں جیسے مصنفین کا تصنیف کرنا، مقررین کا تقریر کرنا، مبلغین کا بیان کرنا، انفرادی طور پر لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا وغیرہ، یہ سب کام تبلیغِ دین کے زمرے میں آتے ہیں اور بقدرِ اخلاص ہر ایک کو اس کی فضیلت ملتی ہے۔ تبلیغ قَولی بھی ہوتی ہے اور عملی بھی اور بسااوقات عملی تبلیغ قولی تبلیغ سے زیادہ مُؤثّر ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ جہاں کوئی شخص کسی برائی کو روکنے پر قادر ہو وہاں اس پر برائی سے روکنا فرضِ عین ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے جو برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے،اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان کے ذریعے روکے، اگر اس کی بھی قدرت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ کمزور ایمان والا ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان۔۔۔ الخ، ص ۴۴، الحدیث: ۷۸(۴۹))
تبلیغِ دین سے متعلق 5اَحادیث:
(1)…حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، تم یا تو ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے یا قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے تم پر عذاب بھیجے، پھر تم اس سے دعا مانگو گے مگر تمہاری دعا قبول نہ ہو گی۔ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، ۴ / ۶۹، الحدیث: ۲۱۷۶)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے یا اللہ تعالیٰ تم پر تم ہی میں سے برے لوگوں کو مُسلَّط کر دے گا،پھر تمہارے نیک لوگ دعا کریں گے تو وہ قبول نہیں کی جائے گی۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۳۷۷، الحدیث: ۱۳۷۹)
(3)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص کسی مقام پر کھڑے ہو کر حق بات کہہ سکتا ہے تو اس کیلئے درست نہیں کہ حق بات نہ کہے کیونکہ حق بات کہنا ا س کی موت کو مقدم کر سکتا ہے نہ اس کے لکھے ہوئے رزق سے اسے محروم کر سکتا ہے۔(شعب الایمان، الثانی والخمسون من شعب الایمان، ۶ / ۹۲، الحدیث: ۷۵۷۹)
(4)… حضرت عُرس بن عمیرہ کندی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جب زمین میں گناہ کیا جائے توجو وہاں موجود ہے مگر اسے برا جانتا ہے وہ اس کی مثل ہے جو وہاں نہیں ہے اور جو وہاں نہیں ہے مگر اس پر راضی ہے وہ اس کی مثل ہے جو وہاں حاضر ہے۔(ابو داؤد، اول کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۴۳۴۵)
(5)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے فرمایا کہ نیکیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا بہترین جہاد ہے۔(مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ص۱۷۸)
ہمارے معاشرے میں نیک کام کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے حوالے سے مجموعی طور پر صورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے، حکام اپنی رعایا کے اعمال سے صَرفِ نظر کئے ہوئے ہیں۔ عدل و انصاف کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کے منصب پر فائز حضرات عدل و انصاف کی دھجیاں اڑانے اور مجرموں کی پشت پناہی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ والدین اپنی اولاد، اَساتذہ اپنے شاگردوں اور افسر اپنے نوکروں کے برے اعمال سے چشم پوشی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو،بیوی اپنے شوہر کو،بھائی بہن اور عزیز رشتہ دار ایک دوسر ے کو نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں نہ قدرت کے باوجود انہیں برے افعال سے روکتے ہیں اور مسلمانوں کی اسی روش کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم قوم دنیا بھر میں جس ذلت و رسوائی کا شکار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی اوراسی وجہ سے رفتہ رفتہ یہ قوم تباہی کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے۔اس حقیقت کو درج ذیل حدیث میں انتہائی احسن انداز کے ساتھ سمجھایا گیا ہے ،چنانچہ
حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی حدود میں مداہنت کرنے والے (یعنی خلافِ شرع چیز دیکھ کر قدرت کے باوجود منع نہ کرنے والے) اور حدودُ اللہمیں واقع ہونے والے کی مثال یہ ہے کہ ایک قوم نے جہاز کے بارے میں قرعہ ڈالا، بعض اوپر کے حصہ میں رہے بعض نیچے کے حصہ میں ، نیچے والے پانی لینے اوپر جاتے اور پانی لے کر ان کے پاس سے گزرتے توان کو تکلیف ہوتی (انہوں نے اس کی شکایت کی تو) نیچے والے نے کلہاڑی لے کر نیچے کا تختہ کاٹنا شروع کر دیا۔ اوپر والوں نے دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے کہ تختہ توڑ رہے ہو؟اس نے کہا میں پانی لینے جاتا ہوں تو تم کو تکلیف ہوتی ہے اور پانی لینا مجھے ضروری ہے۔
(لہٰذا میں تختہ توڑ کر یہیں سے پانی لے لوں گا اور تم لوگوں کو تکلیف نہ دوں گا) پس اس صورت میں اگر اوپر والوں نے اس کا ہاتھ پکڑلیا اور تختہ کاٹنے سے روک دیا تو اسے بھی نجات دیں گے اور خودکو بھی بچا لیں گے اور اگر چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کریں گے اور خود بھی ہلاک ہوں گے(بخاری، کتاب الشہادات، باب القرعۃ فی المشکلات، ۲ / ۲۰۸، الحدیث: ۲۶۸۶)۔ ([1])
دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت
سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے
جو کچھ بھی ہے سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت
شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت سے گلا ہے
فریاد ہے اے کشتیِ امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
[1]۔۔۔۔۔تبلیغ دین کی ضرورت و اہمیت اور اس متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُھُمُ الْعَالِیَہ کی تصنیف ’’نیکی کی دعوت‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو آپس میں متفرق ہو گئے۔} ارشاد فرمایا کہ آپس میں تَفَرُّقَہ بازی اور اختلافات میں نہ پڑجانا جیسا کہ یہود ونصاریٰ آپس میں اختلافات میں پڑگئے اور ان میں ایک دوسرے کے ساتھ عناد اور دشمنی راسِخ ہوگئی یا آیت کا یہ معنیٰ ہے کہ آپس میں اُس طرح اختلاف و اِفتراق میں نہ پڑجانا جیسے تم زمانہ اسلام سے پہلے جاہلیت کے وقت میں متفرق تھے اورتمہارے درمیان بغض و عِناد تھا۔
اتفاق کا حکم اور اختلاف کے اسباب پیدا کرنے کی ممانعت:
اس آیتمیں مسلمانوں کو آپس میں اتفاق و اجتماع کا حکم دیا گیا اور اختلاف اور اس کے اسباب پیدا کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ احادیث میں بھی اس کی بہت تاکیدیں وارد ہیں اور مسلمانوں کی جماعت سے جدا ہونے کی سختی سے ممانعت فرمائی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرورِ کائناتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا دست ِرحمت جماعت پر ہے اور جو جماعت سے جدا ہوا وہ دوزخ میں گیا۔ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ، ۴ / ۶۸، الحدیث: ۲۱۷۳)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی،جب تم اختلاف دیکھو تو بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)
آج کل جو فرقہ پیدا ہوتا ہے وہ اس حکم کی مخالفت کرکے ہی پیدا ہوتا ہے اور مسلمانوں میں تفرقہ اندازی کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے اور حدیث کے مطابق وہ شیطان کا شکار ہے ۔(معجم الکبیر، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۸۶، الحدیث: ۴۸۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔ خیال رہے کہ نا
اتفاقی اور پھوٹ کا مجرم وہ شخص ہوگا جو مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر نئی راہ نکالے، جو اسلام کی راہ پر قائم ہے وہ مجرم نہیں۔
{یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ : جس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے۔} یہاں آیات میں قیامت کے دن کا منظر بیان ہوا ہے کہ قیامت کے دن کچھ چہرے روشن ہوں گے جو یقیناً اہلِ ایمان کے ہوں گے اورکچھ چہرے سیاہ ہوں گے جو یقیناً کفار کے ہوں گے اور کافروں سے کہا جائے گا کہ ’’کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوئے تھے؟ تو اب اپنے کفر کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔ یہاں فرمایا کہ’’ایمان کے بعد کافر ہوئے تھے ‘‘ اس سے اگر تمام کفار کو خطاب ہے تواس صورت میں ایمان سے روزِ میثاق کا ایمان مراد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اُن سے فرمایا تھا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ‘‘ توسب نے ’’ بَلٰی‘‘ یعنی ’’کیوں نہیں ‘‘کہا تھا اور ایمان لائے تھے ۔اب جو دنیا میں کافر ہوئے تو اُن سے فرمایا جاتا ہے کہ’’ روزِ میثاق ایمان لانے کے بعد تم کافر ہوگئے۔ امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ اس سے منافقین مراد ہیں جنہوں نے زبان سے اظہار ِایمان کیا تھا اور ان کے دل منکر تھے۔ حضرت عِکْرَمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ اس سے مراد اہلِ کتاب ہیں جورسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بعثت سے پہلے تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے اور ظہور کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انکا ر کرکے کافر ہوگئے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کے مخاطب مُرتَدّین ہیں جو اسلام لا کر پھر گئے اور کافر ہو گئے۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۱ / ۲۸۶)
ان سے کہا جائے گا کہ اپنے کفر کے بدلے اب عذاب کا مزہ چکھو۔
{فَفِیْ رَحْمَةِ اللّٰهِ: تواللہ کی رحمت میں ہوں گے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار مومن اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جگہ جنت میں ہوں گے اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۱ / ۲۸۷)
اللہ تعالیٰ اپنے اطاعت گزار اہلِ ایمان کے بارے میں ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ (یونس :۲۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بھلائی کرنے والوں کے لیے بھلائی ہے اور اس سے بھی زیادہ ہے اور ان کے منہ پر نہ سیاہی چھائی ہوگی اور نہ ذلت۔یہی جنت والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اور ارشاد فرمایا:
وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ مُّسْفِرَةٌۙ(۳۸) ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ (عبس: ۳۸، ۳۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بہت سے چہرے اس دن روشن ہوں گے۔ ہنستے ہوئے خوشیاں مناتے ہوں گے۔
قیامت کے دن روشن چہرے والے لوگ:
روشن چہرے والوں سے مراد کون لوگ ہیں ، درج ذیل روایات کی روشنی میں دیکھیں۔
تفسیر دُرمنثو ر میں ہے،حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما اس آیتِ کریمہ ’’ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ تَبْیَضُّ وُجُوْہُ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ وَ تَسْوَدُّ وُجُوْہُ اَہْلِ الْبِدَعِ وَ الضَّلَالَۃِ ‘‘یعنی قیامت کے دن اہلسنّت کے چہرے چمکتے ہوں گے اور بدعتی و گمراہوں کے چہرے سیا ہ ہوں گے ‘‘ اور اسی میں حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے ایک حدیث شریف روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ‘‘ کے بارے میں فرمایا’’ تَبْیَضُّ وُجُوْہُ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَ تَسْوَدُّ وُجُوْہُ اَہْلِ الْبِدَعِ ‘‘قیامت کے دن اہلسنّت والجماعت کے چہرے سفید چمکتے ہوں گے اور گمراہوں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے جو کہ حضرت ابوسعیدخدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیتِ کریمہ’’ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ‘‘تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا ’’تَبْیَضُّ وُجُوہُ اَھْلِ الْجَمَاعَاتِ وَالسُّنَّۃِ ، وَ تَسْوَدُّ وُجُوْہُ اَہْلِ الْبِدَعِ وَالْاَھْوَاءِ‘‘ یعنی قیامت کے دن اہلسنّت وجماعت کے چہرے سفید چمکتے ہوں گے اور بدعتی وگمراہوں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔(در منثور، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲ / ۲۹۱)
{وَ مَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِیْنَ: اور اللہ جہان والوں پر ظلم نہیں چاہتا۔} یعنی لوگ جہنم میں لے جانے والے اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور کسی کو بے جرم عذاب نہیں دیتا اور کسی کی نیکی کا ثواب کم نہیں کرتا۔
{ كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ :تم بہترین امت ہو۔} یہودیوں میں سے مالک بن صیف اور وہب بن یہودا نے حضرت عبداللہ بن مسعود وغیرہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے کہا کہ’’ہم تم سے افضل ہیں اور ہمارا دین تمہارے دین سے بہتر ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۱ / ۲۸۷)
اور اللہ تعالیٰ نے امت ِ محمدیہ کو تمام امتوں سے افضل قرار دیا۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مجھے وہ کچھ عطا کیا گیا جو کسی اور نبی کو عطا نہیں کیا گیا۔ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا ’’رُعب کے ساتھ میری مدد کی گئی، مجھے زمین کی کنجیاں عطا کی گئیں ، میرا نام احمد رکھا گیا، میرے لئے مٹی کو پاکیزہ کرنے والی بنا دیاگیا اور میری امت کو بہترین امت بنا دیا گیا۔ (مسند امام احمد، ومن مسند علی بن ابی طالب، ۱ / ۲۱۰، الحدیث: ۷۶۳)
چونکہ یہ بہترین امت ہے ،اس لئے اس امت کا اتفاق و اتحاد بہت بڑی دلیلِ شرعی ہے۔ جو اس سے ہٹ کر چلے وہ گمراہی کے راستے پر ہے چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے:
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَؕ-وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا(النساء: ۱۱۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جو اس کے بعد کہ اس کے لئے ہدایت بالکل واضح ہوچکی رسول کی مخالفت کرے اور مسلمانوں کے راستے سے جدا راستے کی پیروی کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھرگیا ہے اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ کتنی بری لوٹنے کی جگہ ہے۔‘‘
ترمذی شریف میں حضرت عبداللہبن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرورِ کائناتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اوراللہ تعالیٰ کا دست ِرحمت جماعت پر ہے اور جو جماعت سے جدا ہوا وہ دوزخ میں گیا۔(ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ، ۴ / ۶۸، الحدیث: ۲۱۷۳)
بنی اسرائیل اور امتِ محمدیہ کی افضلیت میں فرق:
اس آیت میں ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کوتمام امتوں سے افضل فرمایا گیااور بعض آیات میں بنی اسرائیل کو بھی عالَمین یعنی تمام جہانوں سے افضل فرمایا گیاہے ،لیکن ان کاافضل ہونا ان کے زمانے کے وقت ہی تھا جبکہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کا افضل ہونا دائمی ہے۔
یاد رہے کہ نیکی کی دعوت دینا وہ عظیم منصب اور عہدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمایا اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرما کر نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا تو اس نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت کو اس منصب سے سرفراز فرمادیا اور اس عظیم خوبی کی وجہ سے انہیں سب سے بہترین امت قرار دیا، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ بقدرِ توفیق نیکی کی دعوت دیتا اور برائی سے منع کرتا رہے۔احادیث میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ ا س سے متعلق 2 احادیث درج ذیل ہیں:
(1)… ایک حدیث میں ہے ، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی گئی: لوگوں میں بہتر کون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اپنے ربعَزَّوَجَلَّ سے زیادہ ڈرنے والا، رشتہ داروں سے صلہ رحمی زیادہ کرنے والا، سب سے زیادہ نیکی کا حکم دینے والا اور سب سے زیادہ برائی سے منع کرنے والا (سب سے بہتر ہے)۔(شعب الایمان، السادس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۲۲۰، الحدیث: ۷۹۵۰)
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں جو نہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سے ہیں نہ شہدا ء میں سے ، لیکن قیامت کے دن انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہداء اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا مقام دیکھ کر رشک کریں گے، وہ لوگ نور کے منبروں پر ہوں گے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا پیارا بندہ بنا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اس کے بندوں کا محبوب بنا دیتے ہیں اور وہ لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے زمین پر چلتے ہیں۔ میں نے عرض کی : وہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ کے بندوں کا محبوب بنا دیتے ہیں (یہ بات تو سمجھ میں آ رہی ہے) لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا پیارا بندہ کیسے بناتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کاموں کا حکم دیتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کاموں سے منع کرتے ہیں تو جب لوگ ان کی اطاعت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرمانے لگتا ہے(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الفصل الثانی، ۲ / ۲۷۳، الجزء الثالث، الحدیث: ۸۴۵۵) ۔[1]
{وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ: اور اگر اہلِ کتاب(بھی) ایمان لے آتے۔} یعنی اگر اہلِ کتاب بھی سیدُ الانبیاء ، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرایمان لے آتے تو ان کیلئے بھی بہتر ہوتا لیکن ان میں کچھ ہی لوگ ایمان والے ہوئے ، جیسے یہودیوں میں سے حضرت عبداللہبن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھی اور عیسائیوں میں سے حضرت نجاشی اور ان کے ساتھی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم۔ اس کے برعکس یہودونصاریٰ کی اکثریت نے اسلام قبول نہ کیا۔
[1] …نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کا جذبہ و ترغیب پانے اور اس کے فضائل حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ’’ دعوتِ اسلامی‘‘ کے ساتھ وابستہ ہو جانا ہے۔
{لَنْ یَّضُرُّوْكُمْ اِلَّاۤ اَذًى: یہ تمہیں ستانے کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔} یہودیوں میں سے جو لوگ اسلام لائے تھے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور اُن کے ساتھی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم، یہودیوں کے سردار ان کے دشمن ہوگئے تھے اور انہیں تکلیف پہنچانے کی فکر میں لگے رہتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۱۳۵، الجزء الرابع)
اور اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں کو مطمئن کردیا کہ زبانی طعن و تشنیع اور دھمکیوں کے علاوہ یہ اِن مسلمانوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچاسکیں گے اور غلبہ مسلمانوں ہی کو حاصل ہوگا اور یہودیوں کا انجام ذلت و رسوائی ہوگا۔ اور اگر یہ اہلِ کتاب مسلمانوں کے مقابلے میں آئے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے اور تمہارے مقابلہ کی تاب نہ لاسکیں گے ۔ یہ غیبی خبریں ایسی ہی واقع ہوئیں۔بعد میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے شام ، روم وغیرہ تمام علاقوں میں فتح حاصل کی اور یوں یہ غیبی خبر پوری ہوئی۔
{ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ: ان پر ذلت مسلط کردی گئی۔} اس آیت میں بیان فرمایا گیا کہ یہودیوں پر ذلت اور محتاجی لازم کر دی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس آیت میں استثناء بھی ہے’’اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ‘‘سوائے اس کے کہ انہیں اللہ کی طرف سے سہارا مل جائے یا لوگوں کی طرف سے سہارا مل جائے۔ اِستِثناء کے آنے سے معنی یہ بن گیا کہ (یہودی) ذلت و خواری سے کسی صورت اورکسی طرح نہیں بچ سکتے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّکی رسی کے ساتھ اور لوگوں کی رسی کے ساتھ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رسی کے ساتھ یوں کہ یہودی مسلمان ہو جائیں تو خواری سے بچ سکتے ہیں اور حقیقی عزت حاصل کر سکتے ہیں اور لوگوں کی رسی کی صورت یہ کہ لوگوں سے عہد و پیمان کریں ،اسلامی حکومت کے ذمی بن جائیں یا کافر حکومتوں سے بھیک مانگیں اور تعاون حاصل کریں تو دنیاوی عزت پا سکتے ہیں اور ایسی صورت میں ان کی سلطنت بھی بن سکتی ہے۔ فی زمانہ اگر دنیا کے کسی خطے میں کفار کے تعاون سے یہودی سلطنت وجو دمیں آئی ہے تو اس حکومت کا قائم ہونا قرآنِ کریمیا اسلام کی صداقت کے خلاف نہیں بلکہ قرآنِ کریم کی صداقت کی بڑی صاف اور واضح دلیل ہے کہ بحسب اِستثناء ’’وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ‘‘ صدیوں سے ذلیل و خوار یہودیوں کی ایک جماعت کو دنیاوی عزت مل گئی۔(فتاوی نوریہ، ۵ / ۱۹۴، ملخصاً)
{لَیْسُوْا سَوَآءً: یہ سب ایک جیسے نہیں۔} جب حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھی ایمان لائے تو یہودی علماء نے جل کر کہا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہم میں سے جو ایمان لائے ہیں وہ برے لوگ ہیں ، اگر یہ برے نہ ہوتے تو اپنے باپ دادا کا دین نہ چھوڑتے۔ اس پر یہ آیت نازل فرمائی گئی۔ (تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۲ / ۱۳۶، الجزء الرابع )
اور بتادیا گیا کہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی غلامی میں آنے والے ہی تو کام کے آدمی ہیں بقیہ کا حال تو انتہائی بدتر ہے۔ حضرت عطاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ یہاں جن لوگوں کی تعریف کی گئی ہے اس سے علاقہ نجران کے40 آدمی، حبشہ کے32 آدمی اور روم کے8 آدمی مراد ہیں جو دینِ عیسوی پر تھے، پھر حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۱ / ۲۹۰-۲۹۱)
آیتِ مبارکہ ’’ یَتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّیْلِ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نمازِ تہجد بہت اعلیٰ عبادت ہے کہ یہاں رات کو اٹھ کر عبادت کرنے والوں کی بطورِ خاص تعریف کی گئی ہے ، اس سے نمازِ عشاء و تہجد دونوں ہی مراد ہوسکتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے ارکانمیں سجدہ بہت افضل ہے کہ سجدے کا بھی بطورِخاص تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رات کی عبادت ، نماز اور تلاوت دن کی اِن عبادات سے افضل ہے کیونکہ جودل کی یکسوئی رات میں مُیَسَّر ہوتی ہے، دن میں نصیب نہیں ہوتی۔ ہمارے بزرگانِ دین اپنی راتیں عبادت و تلاوت میں گزارا کرتے تھے ،چنانچہ حضرت حسین بن علی کرابیسی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں نے کئی بار حضرت امام شافعیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ رات گزاری اور میں نے دیکھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک تہائی رات تک نماز پڑھتے اور پچاس آیات سے زیادہ تلاوت نہ کرتے ، اگر کبھی زیادہ پڑھتے تو بھی 100 آیات تک پہنچتے۔ جب کسی آیتِ رحمت کی تلاوت کرتے تو بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں اپنے لئے اور تمام مومنین کے لئے رحمت ملنے کی دعا کرتے اور جب آیتِ عذاب پڑھتے تو اس سے پناہ طلب کرتے اور اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نجات کی دعا کرتے۔ (تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ محمد واسم ابیہ ادریس، محمد بن ادریس بن العباس ابو عبد اللہ الشافعی،۲ / ۶۱)
حضرت فاطمہ بنت عبد الملک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہا فرماتی ہیں ’’ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے زیادہ نماز پڑھتا اور روزے رکھتا ہو لیکن میں نے لوگوں میں کوئی ایسا شخص کبھی نہیں دیکھا جو حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے زیادہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّسے ڈرتا ہو۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ(رات کے وقت) جب گھر تشریف لاتے تو سجدے میں سر رکھ کر روتے اور دعا کرتے رہتے یہاں تک کہ نیند آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی آنکھوں پر غالب آجاتی اور رات میں پھر جب بیدار ہوتے تو اسی طرح کرتے(حلیۃ الاولیاء، عمر بن عبد العزیز، ۵ / ۲۹۴، رقم: ۷۱۷۴)۔[1]
[1]…عبادت کی لگن و شوق پانے اور اس میں یکسوئی حاصل کرنے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے تحریر کردہ مدنی انعامات پر عمل کرنا اور دعوتِ اسلامی کے مدنی قافلوں میں سفر کرناانتہائی مفید ہے۔
{یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ : یہ اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔} گزشتہ آیت اور اِس آیت میں مجموعی طور پر ایمان والوں کے یہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ (1) رات کو عبادت میں قیام کرنا، (2)نماز پڑھنا، (3) رات کا ایک حصہ عبادت میں گزارنا، (4) رات کے وقت قرآن کی تلاوت کرنا، (5)اللہ تعالیٰ اور آخرت پر کامل ایمان رکھنا، (6)نیکی کا حکم دینا، (7) برائی سے منع کرنا، (8) نیکیوں میں سبقت لیجانا، (9) نیکی کو اختیار کرنا۔ ایک کامل ایمان والے کے بھی یہی اوصاف ہونے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کاملین میں داخل فرمائے۔
{فَلَنْ یُّكْفَرُوْهُ:ہرگز اِن کی ناقدری نہیں کی جائے گی ۔} یہودیوں نے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھیوں سے کہا تھا کہ تم دین اسلام قبول کرکے خسارے میں پڑے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ وہ تو بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں بلند درجات کے مستحق ہوئے اور وہ تو اپنی نیکیوں کی جزا پائیں گے جبکہ یہودیوں کی گفتگو بے معنیٰ ہے۔
{لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـا: ان کے مال اور ان کی اولاد ان کو اللہ کے عذاب سے کچھ بچا نہ سکیں گے۔} شانِ نزول: یہ آیت بنی قُرَیْظہ اور بنی نَضیِر کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہودی سرداروں نے مال و دولت کی خاطر سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ دشمنی کی تھی،اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشادفرمایا کہ ان کے مال و اولاد ان کے کچھ کام نہ آئیں گے، یہ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دشمنی میں ناحق اپنی عاقبت برباد کررہے ہیں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۱ / ۲۹۱)
ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت مشرکینِ قریش کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ ابوجہل کو اپنی دولت پر بڑا فخر تھا، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت تمام کفار کے متعلق عام ہے ۔ (تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۳ / ۳۳۵-۳۳۶)
ان سب کو بتایا گیا کہ مال و اولاد میں سے کوئی بھی کام آنے والا اور عذابِ الٰہی سے بچانے والا نہیں۔صرف رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دامن سے وابستہ ہونا ہی نجات کا ذریعہ ہے۔
{مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا : اس دنیاوی زندگی میں خرچ کرنے والوں کی مثال۔}اس آیت میں کافر کے خرچ اور ریاکاری کے طور پر خرچ کرنے والے کی مثال بیان فرمائی گئی کہ ان کے خرچ کو ان کا کفر یا ریاکاری ایسے تباہ کردیتی ہے جیسے برفانی ہو اکھیتی کو برباد کردیتی ہے اور ان کے ساتھ یہ معاملہ کوئی ظلم و زیادتی نہیں بلکہ یہ ان کے کفر یا نفاق یا ریاکاری کا انجام ہے تو یہ خود اِن کا اپنی جانوں پر ظلم ہے۔ مفسرین کا قول ہے کہ اس خرچ سے یہودیوں کا وہ خرچ مراد ہے جو وہ اپنے علماء اور سرداروں پر کرتے تھے ،وہ خرچہ بے فائدہ ہے، اس کا انہیں کوئی ثواب نہ ملے گا۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں اس سے کفار کے تمام صدقات مراد ہیں کہ ان کا کوئی ثواب نہیں اور وہ صدقات ضائع ہیں اورایک قول یہ ہے کہ یہاں ریا کارکا خرچ کرنا مراد ہے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۱ / ۲۹۱-۲۹۲)
کیونکہ اس کا خرچ کرنا یا دنیاوی نفع کے لئے ہوگا یاآخرت کے نفع کے لئے۔ اگرصرف دنیاوی نفع کے لئے ہو تو آخرت میں اس سے کیا فائدہ اور ریاکار کو تو آخرت اور رضائے الٰہی مقصود ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کا عمل تودکھاوے اور نمائش کے لئے ہوتا ہے ایسے عمل کا آخرت میں کیا نفع ہوگا جبکہ کافر کے تمام اعمال برباد ہیں ،وہ اگرچہ آخرت کی نیت سے بھی خرچ کرے تو نفع نہیں پاسکتا ،ان لوگوں کے لئے وہ مثال بالکل مطابق ہے جو اس آیت میں ذکر فرمائی جارہی ہے۔
{لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ:غیروں کو راز دار نہ بناؤ۔} بعض مسلمان اپنے قرابت دار اور رشتہ دار یہودیوں وغیرہ سے قرابت یا پڑوس کی بنا پر دوستی اور میل جول رکھتے تھے۔ ان کے متعلق یہ آیتِ کریمہ اتری۔ (صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۱ / ۳۰۶)
کفار سے تعلقات کے بارے میں اسلام کی تعلیمات:
اس سے معلوم ہوا کہ کفار سے دوستانہ تعلقات، دلی محبت و اخلاص حرام ہے اور انہیں اپنا راز دار بنانا بھی ناجائز ہے اور تجربات سے بھی یہی ثابت ہے کہ کفار مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کمی نہیں کرتے۔ نیزاس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان حکمران کافروں اور مرتدوں کو اہم ترین عہدوں پر نہ لگائے جس سے یہ لوگ غداری کرنے کا موقعہ پائیں کیونکہ یہ لوگ تمہاری برائی چاہنے میں کوئی کمی نہیں کریں گے، ان کی تو خواہش ہی یہ ہے کہ مسلمان تکلیف و مشقت میں پڑے رہیں نیز ان کی دشمنیاں ان کے الفاظ اور کردار سے ظاہر ہیں جو وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے ۔ جب زبانی دشمنی بھی سامنے آتی رہتی ہے تو جو دشمنی اور مسلمانوں سے بغض و عداوت ان کے دلوں میں ہوگی وہ کس قدر ہوگی؟ یقینا ان کے دلوں میں موجود دشمنی ظاہری دشمنی سے بڑھ کر ہے۔ لہٰذا اے مسلمانو! اِن سے دوستی نہ کرو۔اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں کھول کر بیان فرماتا ہے۔قرآنِ پاک کی جامعیت اور حقانیت کو اگر سمجھنا ہو تو ان آیات کو سامنے رکھ کر تمام دنیا کے مسلمان اور کافر ممالک کے حالات کا جائز ہ لیں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بیان فرمایا وہ قطعی طور پر حق اور سچ نہیں ہے؟ یقینا سچ ہے۔ تاریخِ عالم، تاریخِ اسلام اور موجودہ حالات تمام کے تمام قرآن کی ان آیات کی صداقت پر دلالت کررہے ہیں لیکن افسوس کہ ابھی بھی ہماری آنکھیں خواب ِ غفلت میں ہیں ، ہمارے لوگ ابھی بھی انہی کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا مان رہے ہیں جنہیں اپنے راز بتانے سے بھی اللہ تعالیٰ ہمیں منع فرمارہا ہے ۔
{تُحِبُّوْنَهُمْ وَ لَا یُحِبُّوْنَكُمْ: تم انہیں چاہتے ہو اور وہ تمہیں پسند نہیں کرتے ۔} ارشاد فرمایا گیا کہ اے مسلمانو! یہ صرف تم ہو جو رشتہ داری اور دوستی وغیرہ تعلقات کی بناء پر ان سے محبت کرتے ہو جبکہ وہ تمہیں پسند نہیں کرتے اور دینی مخالفت کی بنا پر تم سے دشمنی رکھتے ہیں حالانکہ تم قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہو اور ان کی کتابوں پر بھی لیکن وہ تمہاری کتاب پر ایمان نہیں رکھتے توجب وہ اپنے کفر میں اتنے پختہ ہیں تو تم اپنے ایمان میں پختہ کیوں نہیں ہوتے اوران میں سے جو منافقین ہیں ان کا حال یہ ہے کہ جب وہ تم سے ملتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم ایمان لاچکے ہیں اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو غصے کے مارے تم پر انگلیاں چباتے ہیں۔ جب ان کا یہ حال ہے تو اے مسلمانو! تم ان سے بچو۔ان کے اِس غیض و غضب پر اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ تم مرتے دم تک اپنے غصے پر قائم رہواور اِس جلن میں جلتے رہولیکن یاد رکھو کہ اس وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کا کچھ نہیں بگڑے گاالبتہ تمہارے لئے یہ غصہ عذاب کا باعث بن جائے گا کیونکہ تمہاری یہ قلبی حالت اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے جودلوں کی باتیں بھی جانتا ہے ۔
{ اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ: اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگتا ہے۔} کفار کی عمومی حالت یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگتا ہے اور اگر مسلمانوں کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ خوش ہوتے ہیں لہٰذا مسلمانوں کو کافروں سے محبت و دوستی نہیں رکھنی چاہے۔ ان کے مقابلے میں مسلمان اگر صبر اور تقویٰ کو اپنا شعار بنالیں تو کافروں کا کوئی داؤ مسلمانوں پر نہ چل سکے گا۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan