READ

Surah Taaha

طٰهٰ
135 Ayaat    مکیۃ


20:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

20:1
طٰهٰۚ(۱)
طٰهٰ

{طٰهٰ}یہ حروفِ مُقَطَّعات میں  سے ہے۔ مفسرین نے اس حرف کے مختلف معنی بھی بیان کئے ہیں  ،ان میں  سے ایک یہ ہے کہ’’ طٰہٰ ‘‘تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَسمائِ مبارکہ میں  سے ایک اسم ہے اور جس طرح  اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام ’’محمد‘‘ رکھا ہے اسی طرح آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام’’طٰہٰ‘‘ بھی رکھا ہے۔( تفسیرقرطبی، طہ، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۷۲، الجزء الحادی عشر)

{ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰى:اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہیں  نازل فرمایا کہ تم مشقت میں  پڑجاؤ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لیے نازل نہیں  فرمایا کہ آپ مشقت میں  پڑجائیں  اور ساری ساری رات قیام کرنے کی تکلیف اٹھائیں ۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں  بہت محنت فرماتے تھے اور پوری رات قیام میں  گزارتے یہاں  تک کہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے مبارک قدم سوج جاتے ۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام نے حاضر ہو کر  اللہ تعالیٰ کے حکم سے عرض کی :آپ اپنے پاک نفس کو کچھ راحت دیجئے کہ اس کا بھی حق ہے ۔ شانِ نزول کے بارے میں  ایک قول یہ بھی ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں  کے کفر اور ان کے ایمان سے محروم رہنے پر بہت زیادہ افسوس اور حسرت کی حالت میں  رہتے تھے اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے مبارک قلب پر اس وجہ سے رنج و ملال رہا کرتا تھا، تو اس آیت میں  فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ رنج و ملال کی کوفت نہ اٹھائیں  کیونکہ قرآنِ پاک آپ کی مشقت کے لئے نازل نہیں  کیا گیا ہے۔( مدارک ، طہ ، تحت الآیۃ: ۲ ، ص۶۸۶ ، خازن ، طہ ، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۲۴۸-۲۴۹، ابو سعود، طہ، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۴۴۸، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عظمت:

            اس آیتِ مبارکہ میں  سرکارِ دوعالَمصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اللّٰہعَزَّوَجَلَّ سے محبت اور شوقِ عبادت کا بیان بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی  اللہ تعالیٰ کی آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے محبت اور اس کی بارگاہ میں  آپ کی عظمت کا بیان بھی ہے کہ حضور پُرنور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو  اللہ تعالیٰ کی محبت اور عبادت کے شوق میں  کثرت سے عبادت کرتے او رمشقت اٹھاتے ہیں ، جبکہ  اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مشقت پر آپ کی راحت و آسانی کا حکم نازل فرماتا ہے۔

{ اِلَّا تَذْكِرَةً:مگر یہ اس کیلئے نصیحت ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لیے نازل نہیں  فرمایا کہ آپ مشقت میں  پڑجائیں  بلکہ یہ قرآن اُس کے لئے نصیحت ہے جو  اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے کیونکہ  اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہی نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۳،۵ / ۳۶۲، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۴۹، ملتقطًا)

 

20:2
مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲)
اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اتارا کہ مشقت میں پڑو (ف۲)

20:3
اِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَنْ یَّخْشٰىۙ(۳)
ہاں اس کو نصیحت جو ڈر رکھتا ہو (ف۳)

20:4
تَنْزِیْلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ وَ السَّمٰوٰتِ الْعُلٰىؕ(۴)
اس کا اتارا ہوا جس نے زمین اور اونچے آسمان بنائے،

{تَنْزِیْلًا:نازل کیا ہوا ہے۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی عظمت بیان فرمائی کہ یہ قرآن اس  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے جس نے زمینوں  اور بلند آسمانوں  کو پیدا فرمایا اور جس نے اتنی عظیم مخلوق پیدا فرمائی وہ خالق کتنا عظیم ہو گا اور جب ایسی عظیم ذات نے قرآن مجید نازل فرمایا ہے تو یہ قرآن کتنا عظمت والا ہو گا۔

قرآنِ مجید کی عظمت بیان کرنے کا مقصد:

            یہاں  قرآن کریم کی عظمت بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ لوگ اس کے معانی میں  غورو فکر کریں  اور اس کے حقائق میں  تَدَبُّر کریں  کیونکہ اس بات کا مشاہدہ ہے کہ جس پیغام کو بھیجنے والا انتہائی عظیم ہو تو اس پیغام کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور پوری توجہ سے اسے سنا جاتا ہے اور بھر پور طریقے سے اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ اور جب قرآن کریم کو نازل فرمانے والا سب سے بڑا عظیم ہے تو اس کی طرف سے بھیجے ہوئے قرآن عظیم کوسب سے زیادہ توجہ کے ساتھ سننا چاہئے اور اس میں  انتہائی غورو فکر کرنا اور کامل طریقے سے ا س کے دئیے گئے احکام پر عمل کرنا چاہئے ۔ افسوس! آج مسلمانوں  کی ایک تعداد ایسی ہے جو تلاوتِ قرآن کرنے سے ہی محروم ہے اور جو تلاوت کرتے بھی ہیں  تو وہ درست طریقے سے تلاوت نہیں  کرتے اور صحیح طریقے سے تلاوت کرنے والوں  کا بھی حال یہ ہے کہ وہ نہ قرآن مجید کو سمجھتے ہیں  ، نہ اس میں  غورو فکر کرتے ہیں  اور نہ ہی اس کے اَحکام پر عمل کرتے ہیں ۔

            حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :ہماری مصیبت سے بڑی کوئی مصیبت نہیں ، ہم میں  سے ایک شخص دن رات قرآن مجید پڑھتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں  کرتا حالانکہ یہ مکمل قرآن مجید ہماری طرف ہمارے رب کے پیغامات ہیں۔(تنبیہ المغترین، الباب الرابع فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم رضی  اللہ عنہم کثرۃ الاستغفار وخوف المقت ۔۔۔ الخ، ص۲۶۱)

            اور حضرت محمد بن کعب قرظی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : جس تک قرآن مجیدپہنچ گیا تو گویا  اللہ تعالیٰ نے اس سے کلام کیا۔ جب وہ ا س بات پر قادر ہو جائے تو قرآن مجید پڑھنے ہی کو اپنا عمل قرار نہ دے بلکہ اس طرح پڑھے جس طرح کوئی غلام اپنے مالک کے لکھے ہوئے خط کو پڑھتا ہے تاکہ وہ اس میں  غوروفکر کر کے اس کے مطابق عمل کرے۔( احیاء علوم الدین، کتاب آداب تلاوۃ القرآن، الباب الثالث فی اعمال الباطن فی التلاوۃ، ۱ / ۳۷۸)

                 اللہ تعالیٰ ہمیں  قرآن مجید کی تلاوت کرنے، اسے سمجھنے، اس میں  غورو فکر کرنے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

 

20:5
اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى(۵)
وہ بڑی مہر والا، اس نے عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے،

{اَلرَّحْمٰنُ:وہ بڑا مہربان ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید نازل کرنے والے کی شان یہ ہے کہ وہ بڑا مہربان ہے اور اس نے اپنی شان کے لائق عرش پر اِستواء فرمایا ہے اور جو کچھ آسمانوں  میں  ہے، جو کچھ زمین میں  ہے ،جو کچھ زمین و آسمان کے درمیان ہے اور جو کچھ اس گیلی مٹی یعنی زمین کے نیچے ہے سب کا مالک بھی وہی ہے، وہی ان سب کی تدبیر فرماتا اور ان میں  جیسے چاہے تَصَرُّف فرماتا ہے۔

عرش پر اِستوا فرمانے سے متعلق ایک اہم بات:

             اللہ تعالیٰ کے اپنی شان کے لائق عرش پر اِستواء فرمانے کی تفصیل سورۂ اَعراف کی آیت نمبر 54 کی تفسیر کے تحت گزر چکی ہے، یہاں  اس سے متعلق ایک اہم بات یاد رکھیں  ،چنانچہ حضرت امام مالک رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے آکر اس آیت کامطلب دریافت کیا کہ  اللہ تعالیٰ نے عرش پر کس طرح اِستواء فرمایا تو آپ نے تھوڑے سے تَوَقُّف کے بعد فرمایا ’’ ہمیں  یہ معلوم ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے عرش پر اِستواء فرمایا لیکن اس کی کَیفیت کیا تھی وہ ہمارے فہم سے بالاتر ہے البتہ اس پرایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں  گفتگو کرنا بدعت ہے۔( بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۵۴، ۲ / ۱۳۷)

20:6
لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا وَ مَا تَحْتَ الثَّرٰى(۶)
اس کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور جو کچھ ان کے بیچ میں اور جو کچھ اس گیلی مٹی کے نیچے ہے (ف۴)

20:7
وَ اِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَ اَخْفٰى(۷)
اور اگر تو بات پکار کر کہے تو وہ تو بھید کو جانتا ہے اور اسے جو اس سے بھی زیادہ چھپا ہے (ف۵)

{فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَ اَخْفٰى: تو بیشک وہ آہستہ آواز کو جانتا ہے اور اسے (بھی)جو اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے۔} اس آیت کے دو الفاظ ’’اَلسِّرَّ‘‘ اور ’’ اَخْفٰى‘‘ کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، جیسے ایک قول یہ ہے کہ سِروہ ہے جسے آدمی چھپاتا ہے اور’’ اس سے زیادہ پوشیدہ ‘‘وہ ہے جسے انسان کرنے والا ہے مگر ابھی جانتا بھی نہیں  اور نہ اُس سے اِس کے ارادے کا کوئی تعلق ہوا ، نہ اس تک اس کاخیال پہنچا ۔ ایک قول یہ ہے کہ سِر سے مراد وہ ہے جسے بندہ انسانوں  سے چھپاتا ہے اور ’’اس سے زیادہ چھپی ہوئی‘‘ چیز وسوسہ ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ بندے کا راز وہ ہے جسے بندہ خود جانتا ہے اور  اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور’’ اس سے زیادہ پوشیدہ ‘‘ربّانی اَسرار ہیں  جنہیں   اللہ تعالیٰ جانتا ہے بندہ نہیں  جانتا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۲۴۹، ملتقطًا)

 برے کاموں  سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی ترغیب:

            اس آیت میں  بیان ہوا کہ  اللہ تعالیٰ ہماری آہستہ آواز کو جانتا ہے اور جو اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے اسے بھی جانتاہے ۔اس کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ  اللہ تعالیٰ بندوں  کے ظاہری باطنی اَحوال ،آنکھوں  کی خیانت ، سینوں  میں  چھپی باتیں  اور ہمارے تمام کام جانتا ہے اور ہمارے تمام اَفعال کو دیکھ بھی رہا ہے،چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ‘‘(مائدہ:۹۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور  اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور جو تم چھپاتے ہو۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’ یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ‘‘(مومن:۱۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان:  اللہ آنکھوں  کی خیانت کوجانتا ہے اور اسےبھی جو سینے چھپاتے ہیں ۔

            اور ارشاد فرمایا

’’اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ‘‘(حم السجدہ:۴۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم جو چاہو کرتے رہو ۔بیشک وہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔

ان آیات میں  ہر بندے کے لئے یہ تنبیہ ہے کہ وہ خفیہ اور اِعلانیہ، ظاہری اور باطنی تمام گناہوں  سے پرہیز کرے کیونکہ کوئی ہمارے گناہوں  کو جانے یا نہ جانے اور کوئی انہیں  دیکھے یا نہ دیکھے لیکن وہ  اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے جو دنیا میں  کسی بھی وقت اس کی گرفت فرما سکتا ہے اور اگر اس نے دنیا میں  کوئی سزا نہ دی تو وہ آخرت میں  جہنم کی دردناک سزا دے سکتا ہے۔ نیز ان آیات میں  نیک اعمال کرنے کی ترغیب بھی ہے کہ لوگ  اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے کوئی نیکی چھپ کر کریں  یا سب کے سامنے ،  اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں  اس کی جزا عطا فرمائے گا۔

بلند آواز سے ذکر کرنے کا مقصد:

            ابو سعید عبد اللہ بن عمر رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے تفسیر ِبیضاوی میں  اس آیت میں  مذکور لفظ’’قول‘‘ سے  اللہ تعالیٰ کا ذکر اور دعا مراد لی ہے اور فرمایا ہے کہ اس آیت میں  اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ ذکر و دعا میں  جَہر  اللہ تعالیٰ کو سنانے کے لئے نہیں  ہے بلکہ ذکر کو نفس میں  راسخ کرنے اور نفس کو غیر کے ساتھ مشغول ہونے سے روکنے اور باز رکھنے کے لئے ہے۔( بیضاوی، طہ، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۴۱)

20:8
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى(۸)
اللہ کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں، اسی کے ہیں سب اچھے نام (ف۶)

{ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ:وہ  اللہ ہے ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔}یعنی  اللہ تعالیٰ معبودِ حقیقی ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں  اوروہ حقیقتاً واحد ہے اور اَسماء و صِفات کی کثرت اس کی ذات کو تعبیر کرنے کے مختلف ذرائع ہیں  ۔یہ نہیں  کہ صفات کی کثرت ذات کی کثرت پر دلالت کرے جیسے کسی آدمی کو کہیں  کہ یہ عالم بھی ہے اور سخی بھی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے عالم بھی کہہ سکتے ہیں  اور سخی بھی ، نہ یہ کہ دو نام رکھنے سے وہ ایک سے دو آدمی بن گئے۔

20:9
وَ هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ مُوْسٰىۘ(۹)
اور کچھ تمہیں موسیٰ کی خبر آئی (ف۷)

{وَ هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ مُوْسٰى:اور کیا تمہارے پاس موسیٰ کی خبر آئی۔}اس سے پہلی آیات میں  قرآنِ مجید اور نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حال بیان کیا گیا اور اب یہاں  سے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات بیان کئے جا رہے ہیں  تاکہ اس سے حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دل کو تَقْوِیَت حاصل ہو اور اس سلسلے میں  سب سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا واقعہ بیان کیا گیا کیونکہ انہیں  نبوت و رسالت کے فرائض کی ادائیگی میں  جس قدر مشقتوں  اور سختیوں  کا سامنا کرنا پڑا ہے اس میں  حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب مبارک کے لئے بہت تسلی ہے، چنانچہ یہاں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس سفر کا واقعہ بیان فرمایا جارہا ہے جس میں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت شعیب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اجازت لے کرمَدْیَن سے مصر کی طرف اپنی والدہ ماجدہ سے ملنے کے لئے روانہ ہوئے تھے ، آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اہلِ بیت ہمراہ تھے اور آپ نے شام کے بادشاہوں  (کی طرف سے نقصان پہنچنے) کے اندیشہ سے سڑک چھوڑ کر جنگل میں  مسافت طے کرنا اختیار فرمایا ،اس وقت زوجۂ محترمہ حاملہ تھیں  ، چلتے چلتے طور پہاڑکے مغربی جانب پہنچے تویہاں  رات کے وقت زوجۂ محترمہ کو دردِ زہ شروع ہوا ، یہ رات اندھیری تھی، برف پڑ رہی تھا اور سردی شدت کی تھی ،اتنے میں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو دور سے آگ معلوم ہوئی۔( تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۹، ۸ / ۱۵، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۲۴۹-۲۵۰، ملتقطًا)

20:10
اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى(۱۰)
جب اس نے ایک آگ دیکھی تو اپنی بی بی سے کہا ٹھہرو مجھے ایک آگ نظر پڑی ہے شاید میں تمہارے لیے اس میں سے کوئی چنگاری لاؤں یا آ گ پر راستہ پاؤں،

{اِذْ رَاٰ نَارًا:جب اس نے ایک آگ دیکھی۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آگ دیکھی تواپنی زوجۂ محترمہ سے فرمایا: آپ یہیں  ٹھہرو، میں  نے ایک جگہ آگ دیکھی ہے، اس لئے میں جا تا ہوں ، شاید میں  تمہارے پاس اس آگ میں  سے کوئی چنگاری لے آؤں  یا مجھے آگ کے پاس کو ئی ایسا شخص مل جائے جس سے درست راستہ پوچھ کر ہم مصرکی طرف روانہ ہو سکیں ۔

زوجہ اہلِ بیت میں  داخل ہے:

            اس آیت میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ کو’’ اہل ‘‘فرمایا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ بیوی اہلِ بیت میں  سے ہوتی ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواجِ مُطَہّرات رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُنَّ آپصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہلِ بیت میں  داخل ہیں  ۔  

20:11
فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِیَ یٰمُوْسٰىؕ(۱۱)
پھر جب آگ کے پاس آیا (ف۸) ندا فرمائی گئی کہ اے موسیٰ،

{فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا:پھر وہ جب آگ کے پاس آئے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس آگ کے پاس تشریف لائے تو وہاں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ایک سرسبز و شاداب درخت دیکھا جو اوپر سے نیچے تک انتہائی روشن تھا اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جتنا اس کے قریب جاتے اتنا وہ دور ہوجاتا اور جب آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامٹھہر جاتے ہیں  تو وہ قریب ہوجاتا ، اس وقت آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ندا فرمائی گئی کہ اے موسیٰ! بیشک میں  تیرا رب ہوں  تو تو اپنے جوتے اتار دے کہ اس میں  عاجزی کا اظہار، مقدس جگہ کا احترام اور پاک وادی کی خاک سے برکت حاصل کرنے کا موقع ہے ، بیشک تو اس وقت پاک وادی طُویٰ میں  ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ص۶۸۷)

آیت’’ فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت اور ا س کی تفسیر سے چار باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…پاک اور مقدس جگہ پر جوتے اتار کر حاضر ہونا چاہئے کہ یہ ادب کے زیادہ قریب ہے۔

(2)… اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  دعا اور مُناجات کرتے وقت جوتے اتار دینے چاہئیں ۔

(3)…مقدس جگہ سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کے ساتھ اپنابدن مَس کرسکتے ہیں ۔

(4)…مقدس جگہ کا ادب و احترام کرنا چاہئے کہ یہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ اسی وجہ سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ مْ کے مزارات اور اس سرزمین کا ادب کیا جاتا ہے جہاں  وہ آرام فرما ہیں ۔ ہمارے بزرگانِ دین مقدس مقامات کا ادب کس طرح کیا کرتے تھے اس سلسلے میں ایک حکایا ت ملاحظہ ہو ، چنانچہ

             حضرت امام شافعی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  : میں  نے (مدینہ منورہ میں ) حضرت امام مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے دروازے پر خراسان کے گھوڑوں  کا ایک ایسا ریوڑ دیکھا کہ میں  نے اس سے اچھا نہیں  دیکھا تھا۔ میں  نے حضرت امام مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے عرض کی: یہ کتنا خوبصورت ہے۔ انہوں  نے فرمایا ’’اے ابو عبداللّٰہ! یہ میری طرف سے تمہارے لئے تحفہ ہے۔ میں  نے عرض کی: آپ اس میں  سے ایک جانور اپنی سواری کے لئے رکھ لیں ۔ آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا: مجھے  اللہ تعالیٰ سے حیا آتی ہے کہ میں  اس مبارک مٹی کو جانور کے (اوپر سوار ہو کر اس کے) کھروں  سے روندوں  جس میں   اللہ تعالیٰ کے حبیبصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ(کا روضۂ انور) موجود ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الثانی فی العلم المحمود والمذموم واقسامہما۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۸)

ہاں  ہاں  رہِ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ

او پاؤں  رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے

 

 

20:12
اِنِّیْۤ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَۚ-اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًىؕ(۱۲)
بیشک میں تیرا رب ہوں تو تو اپنے جوتے اتار ڈال (ف۹) بیشک تو پاک جنگل طویٰ میں ہے (ف۱۰)

20:13
وَ اَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰى(۱۳)
اور میں نے تجھے پسند کیا (ف۱۱) اب کان لگا کر سن جو تجھے وحی ہوتی ہے،

{وَ اَنَا اخْتَرْتُكَ:اور میں  نے تجھے پسند کیا ۔}  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ارشاد فرمایا کہ میں  نے تیری قوم میں  سے تجھے نبوت و رسالت کے لئے پسند کر لیا اور تجھے اپنے ساتھ کلام کرنے کے شرف سے مشرف فرمایا تواب اسے غور سے سن جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے۔( جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۲۶۱، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۲۵۰، ملتقطاً)

            حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اس فضیلت کا ذکر ایک اور مقام پر صراحت کے ساتھ بھی موجود ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ ﳲ فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ ‘‘(اعراف:۱۴۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے موسیٰ! میں  نے اپنی رسالتوں  اور اپنےکلام کے ساتھ تجھے لوگوں  پر منتخب کرلیاتو جو میں  نے تمہیں  عطا فرمایاہے اسے لے لو اور شکر گزاروں  میں  سے ہوجاؤ۔

            نیز حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو ندا سنی اس کی کیفیت کے بارے میں  ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے یہ ندا اپنے بدن کے ہر جُزْو سے سنی اور سننے کی قوت ایسی عام ہوئی کہ پورا جسمِ اَقدس کان بن گیا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۲۵۰)

 

20:14
اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیْۙ-وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(۱۴)
بیشک میں ہی ہوں اللہ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ (ف۱۲)

{اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ:بیشک میں  ہی  اللہ ہوں ۔}ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، بیشک میں  ہی  اللہ ہوں  اور میرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو تم میری عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھو تاکہ تم اس میں  مجھے یاد کرو اور میری یاد میں  اخلاص ہوا ور میری رضا کے علاوہ کوئی دوسری غرض مقصود نہ ہو، اسی طرح اس میں  ریا کا دخل نہ ہو۔آیت کے آخری حصے ’’وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ‘‘ کا ایک معنی یہ بھی بیان کیاگیا ہے کہ تم میری نماز قائم رکھو تاکہ میں  تجھے اپنی رحمت سے یاد فرماؤں ۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۲۵۰، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۶۸۸، ملتقطاً)

آیت’’وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے 3 باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… ایمان کے بعد سب سے اہم فریضہ نماز ہے۔

(2)… نماز کی ادائیگی اخلاص کے ساتھ،  اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور اللّٰہعَزَّوَجَلَّکی یاد کیلئے ہونی چاہیے نہ کہ لوگوں  کو دکھانے کیلئے۔

(3)… نمازادا کرنے والے بندے کو اللّٰہعَزَّوَجَلَّ اپنی رحمت کے ساتھ یاد فرماتا ہے ۔

 

20:15
اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ اَكَادُ اُخْفِیْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا تَسْعٰى(۱۵)
بیشک قیامت آنے والی ہے قریب تھا کہ میں اسے سب سے چھپاؤں (ف۱۳) کہ ہر جان اپنی کوشش کا بدلہ پائے (ف۱۴)

{اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ:بیشک قیامت آنے والی ہے ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک قیامت لازمی طور پر آنے والی ہے اور قریب تھا کہ  اللہ تعالیٰ اسے سب سے چھپا کر رکھتا اور یہ فرما کر بندوں  کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ دیتا کہ بے شک قیامت آنے والی ہے، یعنی لوگوں  کو اِس بات کا علم ہی نہ ہوتا کہ کوئی قیامت کا دن بھی ہے (اگر ایسا ہوتا تو لوگ بالکل ہی غفلت و لاعلمی میں  مارے جاتے)۔ لیکن اس کے برعکس انہیں  قیامت آنے کی خبر دی گئی ہے جس میں  حکمت یہ ہے کہ لوگوں  کو معلوم ہو جائے کہ ہر جان کو اس کے اچھے برے اعمال کا بدلہ دیاجائے گا البتہ اِس کے ساتھ انہیں  مُتَعَیَّن وقت نہیں  بتایا گیا (کہ وہ بھی کئی اعتبار سے اکثر لوگوں  کیلئے غفلت کا سبب بن جاتا لہٰذا) اِس کی جگہ بغیر مُعَیَّن وقت بتائے محض قیامت کی خبر دیدی تاکہ اُس کے کسی بھی وقت آنے کے خوف سے لوگ گناہوں  کوترک کردیں ، نیکیاں  زیادہ کریں  اور ہر وقت توبہ کرتے رہیں ۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۶۸۸، ملتقطاً)

موت اور قیامت کا وقت چھپائے جانے کی حکمت:

            یاد رہے کہ اس آیت میں  یہ تو بتایا گیا ہے کہ قیامت آئے گی لیکن یہ نہیں  بتایا گیا کہ کب آئے گی، اسی طرح دیگر آیات میں  یہ تو بتایا گیا ہے کہ ہر جاندار کو موت آئے گی لیکن یہ نہیں  بتایا گیاکہ کب اور کس وقت آئے گی، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت اور موت دونوں  کے آنے کا وقت بندوں  سے چھپایا گیا ہے اور ان کا وقت چھپانے میں  بھی حکمت ہے، جیسے قیامت آنے کا وقت چھپانے کی جو حکمت اوپر بیان ہوئی کہ لوگ اس وجہ سے خوفزدہ رہیں  گے اور گناہ چھوڑ کر نیکیاں  زیادہ کریں  گے اور توبہ کرنے میں  مصروف رہیں  گے یہی حکمت موت کا وقت چھپانے میں  بھی ہے کیونکہ جب کسی انسان کو اپنی عمر ختم ہونے اور موت آنے کا وقت معلوم ہو گا تو وہ اس وقت کے قریب آنے تک گناہوں  میں  مشغول رہے گا اور جب موت کا وقت آنے والا ہو گا تو وہ گناہوں  سے توبہ کر کے نیک اعمال کرنے میں  مصروف ہو جائے گا اور اس طرح وہ گناہوں  کی سزا پانے سے بچ جائے گا اور جب انسان کو اپنی موت کا وقت ہی معلوم نہ ہو گا تو وہ ہر وقت خوف اور دہشت میں  مبتلا رہے گا اور یا تو گناہوں  کو مکمل طور پر چھوڑ دے گا یا ہر وقت اس ڈر سے گناہوں  سے توبہ کرتا رہے گا کہ  کہیں  ابھی موت نہ آ جائے۔

            افسوس! فی زمانہ لوگوں کی اکثریت حشر کے ہولناک دن اور اپنی موت کو یاد کرنے، اپنی آخرت کو بہتر بنانے کی جستجو کرنے اور اپنی موت کے لئے تیاری کرنے سے انتہائی غفلت کا شکار ہے اور قیامت کے دن راحت و چین مل جانے اور دنیا میں  اپنی عمر زیادہ ہونے کی لمبی لمبی امیدیں  باندھے ہوئے ہے۔  اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت عطا فرمائے اور اپنی قبر و آخرت کی بہتری کے لئے فوری طور پر بھرپور کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

            نوٹ: یاد رہے کہ قیامت آنے کا وقت  اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  سے چھپایا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں  کہ  اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بھی بندے کو اس کی اطلاع نہیں  دی بلکہ اَحادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوقیامت آنے کا وقت بھی بتا دیا ہے اور نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا قیامت کی نشانیاں  بیان فرمانا اور اس کامُتَعَیَّن  وقت امت کو نہ بتانا بھی حکمت کے پیشِ نظر ہے۔

20:16
فَلَا یَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَّا یُؤْمِنُ بِهَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ فَتَرْدٰى(۱۶)
تو ہرگز تجھے (ف۱۵) اس کے ماننے سے وہ باز نہ رکھے جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش کےم پیچھے چلا (ف۱۶) پھر تو ہلاک ہوجائے،

{فَلَا یَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَّا یُؤْمِنُ بِهَا:تو قیامت پر ایمان نہ لانے والا ہرگز تجھے اس کے ماننے سے باز نہ رکھے ۔} یہاں  آیت میں  خطاب بظاہر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے ہے اور اس سے مراد آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُمت ہے۔ چنانچہگویا کہ ارشاد فرمایا :اے میرے کلیم موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے امتی! قیامت پر ایمان نہ لانے والا اور  اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں  اپنی خواہش کی پیروی کرنے والا ہرگز تجھے قیامت کو ماننے سے باز نہ رکھے ورنہ تو ہلاک ہوجائے گا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۶۸۸)

20:17
وَ مَا تِلْكَ بِیَمِیْنِكَ یٰمُوْسٰى(۱۷)
اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ (ف۱۷)

{ وَ مَا تِلْكَ بِیَمِیْنِكَ یٰمُوْسٰى:اور اے موسیٰ! یہ تمہارے دائیں  ہاتھ میں  کیا ہے؟}اس سوال کی حکمت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے عصا کو دیکھ لیں  اور یہ بات قلب میں  خوب راسخ ہوجائے کہ یہ عصا ہے تاکہ جس وقت وہ سانپ کی شکل میں  ہو تو آپ کے خاطر مبارک پر کوئی پریشانی نہ ہو یا یہ حکمت ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مانوس کیا جائے تاکہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کلام کی ہیبت کا اثر کم ہو۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۶۸۸)

سوال پوچھنے کی وجہ لاعلمی ہونا ضرور ی نہیں :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ سوال ہمیشہ پوچھنے والے کی لا علمی کی بنا پر نہیں  ہوتا بلکہ اس میں  کچھ اور بھی حکمتیں  ہوتی ہیں ۔ لہٰذا کسی موقعہ پر حضور پُرنور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کسی سے کچھ پوچھنا حضور انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بے خبر ہونے کی دلیل نہیں ۔

20:18
قَالَ هِیَ عَصَایَۚ-اَتَوَكَّؤُا عَلَیْهَا وَ اَهُشُّ بِهَا عَلٰى غَنَمِیْ وَ لِیَ فِیْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى(۱۸)
عرض کی یہ میرا عصا ہے (ف۱۸) میں اس پر تکیہ لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور میرے اس میں اور کام ہیں (ف۱۹)

{قَالَ هِیَ عَصَایَ:عرض کی: یہ میرا عصا ہے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے عرض کی: یہ میرا عصا ہے ، جب تھک جاتا ہوں  تو اس پر ٹیک لگاتا ہوں  اور اس سے اپنی بکریوں  کے لیے خشک درختوں  سے پتے جھاڑتا ہوں  اور میری کئی ضروریات میں  بھی یہ میرے کام آتا ہے جیسے اس کے ذریعے توشہ اور پانی اٹھانا ، مُوذی جانوروں  کو دفع کرنا اور دشمنوں  سے لڑائی میں  کام لینا وغیرہ ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا اپنے عصا کے ان فوائد کو بیان کرنا  اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  کے شکر کے طور پر تھا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۲۵۱، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۶۸۸، ملتقطًا)

عصا رکھنے کے فوائد:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اپنے پاس عصا رکھنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی سنت ہے اور اس سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُفرماتے ہیں  ’’ عصا رکھنے میں  چھ فضیلتیں  ہیں  ۔ (1) یہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے ، (2)صُلحاکی زینت ہے، (3) دشمنوں  کے خلاف ہتھیار ہے ، (4)کمزورں  کا مددگار ہے ، (5)منافقین کے لیے پریشانی کاباعث ہے ، (6)عبادت میں  زیادتی کاباعث ہے۔( قرطبی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۸۹، الجزء الحادی عشر)

عصا کے ساتھ جنت میں  چہل قدمی:

            تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی عصا مبارک استعمال فرمایا کرتے تھے ،اسی سلسلے میں  ایک بہت پیاری حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ جب حضرت عبد اللہ بن انیس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُنے خالد بن سفیان ہزلی کو قتل کر دیا اور اس کا سر کاٹ کر مدینہ منورہ لائے اور تاجدارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے قدموں  میں  ڈال دیا تو حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت عبد اللہ بن انیس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی بہادری اور جان بازی سے خوش ہو کر انہیں  اپنا عصا عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ تم اسی عصا کو ہاتھ میں  لے کر جنت میں  چہل قدمی کرو گے۔ انہوں  نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیامت کے دن یہ مبارک عصا میرے پاس نشانی کے طور پر رہے گا۔ چنانچہ انتقال کے وقت انہوں  نے یہ وصیت فرمائی کہ اس عصا کو میرے کفن میں  رکھ دیا جائے۔( زرقانی علی المواہب، کتاب المغازی، سریۃ عبد  اللہ بن انیس، ۲ / ۴۷۳-۴۷۴ ملخصًا)

 

20:19
قَالَ اَلْقِهَا یٰمُوْسٰى(۱۹)
فرمایا اسے ڈال دے اے موسیٰ،

{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ارشاد فرمایا ’’اے موسیٰ !اس عصا کو زمین پر ڈال دو تاکہ تم اس کی شان دیکھ سکو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عصا زمین پر ڈال دیا تووہ اچانک سانپ بن کر تیزی سے دوڑنے لگا اور اپنے راستے میں  آنے والی ہر چیز کو کھانے لگا۔ یہ حال دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو (طبعی طور پر) خوف ہوا تو  اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا: اسے پکڑ لو اور ڈرو نہیں ، ہم اسے دوبارہ پہلی حالت پر لوٹا دیں  گے۔ یہ سنتے ہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا خوف جاتا رہا، حتّٰی کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنا دستِ مبارک اس کے منہ میں  ڈال دیا اور وہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاتھ لگاتے ہی پہلے کی طرح عصا بن گیا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۱، ۳ / ۲۵۱-۲۵۲، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۱، ص۶۸۹، ملتقطاً)

{فَاِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَسْعٰى:تو اچانک وہ سانپ بن گیا جو دوڑ رہا تھا۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے اس وقت ان کے عصا کو سانپ بنائے جانے کی مفسرین نے مختلف حکمتیں  بیان کی ہیں ، ان میں  سے دو حکمتیں  درج ذیل ہیں ۔

(1)… اللہ تعالیٰ نے ان کے عصا کو اس لئے سانپ بنایاتاکہ یہ ان کا معجزہ ہو جس سے ان کی نبوت کو پہچانا جائے ۔

(2)…اس مقام پر عصا کو سانپ اس لئے بنایا گیا تاکہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کا پہلے سے مشاہدہ کر لیں  اور جب فرعون کے سامنے یہ عصا سانپ بنے تو آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسے دیکھ کر خوفزدہ نہ ہوں ۔( تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۲۰، ۸ / ۲۷)

20:20
فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَسْعٰى(۲۰)
تو موسیٰ نے ڈال دیا تو جبھی وہ دوڑتا ہوا سانپ ہوگیا (ف۲۰)

20:21
قَالَ خُذْهَا وَ لَا تَخَفْٙ-سَنُعِیْدُهَا سِیْرَتَهَا الْاُوْلٰى(۲۱)
فرمایا اسے اٹھالے اور ڈر نہیں، اب ہم اسے پھر پہلی طرح کردیں گے (ف۲۱)

20:22
وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲)
اور اپنا ہاتھ اپنے بازو سے ملا (ف۲۲) خوب سپید نکلے گا بے کسی مرض کے (ف۲۳) ایک اور نشانی (ف۲۴)

{وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ:اور اپنے ہاتھ کو اپنے بازوسے ملا لو۔}  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک اور معجزہ عطا فرمایا جس کے بارے میں  یہاں  ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ! آپ اپنے دائیں  ہاتھ کی ہتھیلی بائیں  بازو کی بغل کے نیچے ملا کر نکالئے تو وہ ہاتھ سورج کی طرح چمکتا، نگاہوں  کو خیرہ کرتا اور کسی مرض کے بغیرخوب سفید ہو کر نکلے گا اور یہ عصا کے بعد آپ کی نبوت کی صداقت کی ایک اور نشانی ہے اسے بھی لیجئے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَافرماتے ہیں  کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دست مبارک سے رات میں  چاند اور دن میں  سورج کی روشنی کی طرح نور ظاہر ہوتا تھا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۶۸۹، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۲۵۲، ملتقطاً)

              جب حضرت موسیٰعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دوبارہ اپنا دست مبارک بغل کے نیچے رکھ کر بازو سے ملاتے تو وہ دستِ اَقدس اپنی سابقہ حالت پر آ جاتا تھا۔

 

20:23
لِنُرِیَكَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْكُبْرٰىۚ(۲۳)
کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں،

{لِنُرِیَكَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْكُبْرٰى:تاکہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں  دکھائیں ۔} یعنی اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ہم نے آپ کو عصا سانپ بن جانے اور ہاتھ روشن ہو جانے کے دو معجزات اس لئے عطا کئے تاکہ ان کے ذریعے ہم آپ کو اپنی بڑی بڑی نشانیاں  دکھائیں ۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۲۳، ۵ / ۳۷۷)

کلیم اور حبیب کو دکھائی گئی نشانیوں  میں  فرق:

            اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے ارشاد فرمایا:

’’لِنُرِیَكَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْكُبْرٰى‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: تاکہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں  دکھائیں ۔

 اور اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  ارشاد فرمایا کہ

’’ لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى‘‘ (نجم:۱۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اس نے اپنے رب کی بہت بڑینشانیاں  دیکھیں ۔

             ان میں  فرق یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوجو بڑی بڑی نشانیاں  دکھائی گئیں  ان کا تعلق فقط زمین کے عجائبات سے ہے جبکہ سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنے رب عَزَّوَجَلَّکی جو بڑی نشانیاں  دیکھی ہیں  ان کا تعلق زمین کے عجائبات سے بھی ہے اور آسمانوں  کے عجائبات سے بھی ہے۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۲۳، ۵ / ۳۷۷)

 

20:24
اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى۠(۲۴)
فرعون کے پاس جا (ف۲۵) اس نے سر اٹھایا (ف۲۶)

{اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ:فرعون کے پاس جاؤ۔} ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تم ہمارے رسول ہو کر فرعون کے پاس جاؤ، بیشک وہ سرکش ہوگیا ہے اور کفر میں  حد سے گزر گیا اور خدائی کا دعویٰ کرنے لگا ہے۔ حقیقت میں  تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرعون اور اس کے تمام ماننے والوں  کی طرف بھیجا گیا تھاالبتہ فرعون کوخاص طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے خدا ہونے کادعویٰ کیا تھا اور کفر میں  حد سے گزر گیا تھا۔( جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۲۶۲، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۵۲، ملتقطاً)

20:25
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ(۲۵)
عرض کی اے میرے رب میرے لیے میرا سینہ کھول دے (ف۲۷)

{قَالَ رَبِّ:موسیٰ نے عرض کی: اے میرے رب!}اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سر کش فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا گیا اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جان گئے کہ انہیں  ایک ایسے عظیم کا م کا پابند کیا گیا ہے جس کے لئے سینہ کشادہ ہونے کی حاجت ہے تو آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میرے لیے میرا سینہ کھول دے اور اسے رسالت کا بوجھ اٹھانے کے لئے وسیع فرما دے اور اسباب پیدا فرما کر دیگر رکاوٹیں  ختم کر کے میرے لیے میرا وہ کام آسان فرما دے جس کاتو نے مجھے حکم دیا ہے اور میری زبان کی گرہ کھول دے جو بچپن میں  آگ کا انگارہ منہ میں  رکھ لینے سے پڑ گئی ہے تاکہ وہ لوگ رسالت کی تبلیغ کے وقت میری بات سمجھیں ۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۸، ص۶۸۹-۶۹۰، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۸، ۳ / ۲۵۲-۲۵۳، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۸، ۵ / ۳۷۸، ملتقطاً)

{وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ:اور میری زبان سے گرہ کھول دے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی زبان میں  لُکْنت پیدا ہونے کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں  ایک دن فرعون نے آپ کواٹھایا تو آپ نے اس کی داڑھی پکڑ کر اس کے منہ پر زور سے طمانچہ مار دیا، اِس پر اُسے غصہ آیا اور اُس نے آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا، یہ دیکھ کر حضرت آسیہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہانے کہا: اے بادشاہ! یہ ابھی بچہ ہے اسے کیا سمجھ؟ اگر تو تجربہ کرنا چاہے تو تجربہ کرلے۔ اس تجربہ کے لئے ایک طشت میں  آگ اور ایک طشت میں  سرخ یاقوت آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے سامنے پیش کئے گئے۔ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یاقوت لینا چاہا مگر فرشتے نے آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہاتھ انگارہ پر رکھ دیا اور وہ انگارہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے منہ میں  دے دیا اس سے زبان مبارک جل گئی اور لکنت پیدا ہوگئی۔( بغوی، طہ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۱۸۲)

 

20:26
وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ(۲۶)
اور میرے لیے میرا کام آسان کر،

20:27
وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ(۲۷)
اور میری زبان کی گرہ کھول دے، (ف۲۸)

20:28
یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ۪(۲۸)
کہ وہ میری بات سمجھیں،

20:29
وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْۙ(۲۹)
اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیر کردے، (ف۲۹)

{وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ:اور میرے لیے میرے گھر والوں  میں  سے ایک وزیر کردے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی چھ آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے مزید عرض کی: میرے لیے میرے گھر والوں  میں  سے ایک وزیر کر دے جو میرا معاون اور مُعتمد ہواور وہ میرا بھائی ہارون ہو، اس کے ذریعے میری کمر مضبوط فرما اور اسے رسالت کی تبلیغ اور نبوت کے کام میں  میرا شریک کردے تاکہ ہم بکثرت تیری پاکی بیان کریں  اور نمازوں  میں  اور نمازوں  کے علاوہ بھی بکثرت تیرا ذکر کریں  بیشک تو ہمیں  دیکھ رہا ہے اور ہمارے اَحوال کو جانتا ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۵، ص۶۹۰، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۵، ۳ / ۲۵۳، ملتقطاً)

سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 29 تا 35 سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ان آیات سے8 باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا مقام اتنا بلند ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا سے ان کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو نبوت جیسا عظیم منصب عطا فرما دیا۔

(2)… اپنے عزیز کو اپنا جانشین بنا نا حرام نہیں ، اصل مدار اہلیّت پر ہے، اگر اولاد اہل ہے تو اسے جانشین بنانا درست ہے کہ اہل آدمی کا اولاد ہونا کوئی ایسا جرم نہیں  کہ اسے جانشین نہ بنایا جاسکے ،ہاں  کسی خارجی وجہ سے یہ فعل نہ کیا جائے تو وہ جدا بات ہے۔ اس معاملے میں  لوگوں  کی آراء میں  بہت اِفراط و تفریط پایا جاتا ہے ، لہٰذا انہیں  اِعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔

(3)…  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے قوت اور مدد حاصل کرنا نہ توکّل کے خلاف ہے اور نہ توحید کے مُنافی ہے۔

(4)…بہترین اور قابل لوگوں  کی صحبت اختیار کرنا اور انہیں  اپنا وزیر بنانا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا پسندیدہ عمل ہے۔

(5)…اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھنا اور اپنی قوت و شوکت پر غرور کرنا درست نہیں  ہے۔

(6)…جو چیز اپنے لئے پسند ہو وہی اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرنی چاہئے۔

(7)…نیکیاں  زیادہ کرنے کے معاملے میں  نیک آدمی کی صحبت اختیار کرنے کا بڑا عمل دخل ہے۔

(8)…  اللہ تعالیٰ کا ذکر جماعت کے ساتھ مل کر کرنا اور بزرگوں  کے پاس بیٹھ کرکرنا بہت افضل ہے۔

 

20:30
هٰرُوْنَ اَخِیۙ(۳۰)
وہ کون میرا بھائی ہارون،

20:31
اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْۙ(۳۱)
اس سے میری کمر مضبوط کر،

20:32
وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْۙ(۳۲)
اور اسے میرے کام میں شریک کر (ف۳۰)

20:33
كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًاۙ(۳۳)
کہ ہم بکثرت تیری پاکی بولیں،

20:34
وَّ نَذْكُرَكَ كَثِیْرًاؕ(۳۴)
اور بکثرت تیری یاد کریں (ف۳۱)

20:35
اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِیْرًا(۳۵)
بیشک تو ہمیں دیکھ رہا ہے (ف۳۲)

20:36
قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى(۳۶)
فرمایا اے موسیٰ تیری مانگ تجھے عطا ہوئی،

{ قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ: اللہ نے فرمایا: تجھے عطا کردیا گیا۔}حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اس درخواست پر  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تجھے وہ تمام چیزیں  عطا کر دی گئیں  جن کا تو نے ہم سے سوال کیا ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۶۹۰، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۲۵۳، ملتقطاً)

علماء اور نیک بندوں  کی صحبت اختیار کرنے کی ترغیب:

            یاد رہے کہ  اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو جاہلوں  کی صحبت سے محفوظ فرما دے اور علماء و صلحا کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا کر دے تو یہ اس کا بہت بڑا احسان اور انعام ہے کیونکہ یہ حضرات بندے سے گناہوں  کے بوجھ اتارنے میں  معاون و مددگار اور نیک اعمال کی راہ پر آسانی سے چلنے میں  ہادی و رہنما ہوتے ہیں  لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ علماء اور نیک لوگوں  کی صحبت اختیار کرے اور جو لوگ نیک اور پرہیزگار ہیں  وہ بھی علماء اور نیک لوگوں  کو ہی اپنا ہم نشین بنائیں  کیونکہ تلوار جتنی بھی عمدہ اور اعلیٰ ترین ہو اسے تیز کرنے کی ضرورت بہر حال پڑتی ہے۔ نیز ان آیات میں  ارباب ِاختیار اور سلطنت و حکومت پر قائم افراد کے لئے بھی بڑی نصیحت ہے کہ وہ اپنی وزارت اور مشاورت کے لئے ان افراد کا انتخاب کریں  جو نیک اور پارسا ہیں ۔ سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ تاجدار رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں  سے جو شخص حاکم ہو پھر  اللہ تعالیٰ اس کی بھلائی چاہئے تو  اللہ تعالیٰ اس کے لئے نیک وزیر بنا دے گا، اگر حکمران کوئی بات بھول جائے تو وہ اسے یاد دلا دے گااور اگر وہ یاد رکھے تو وہ اس کی مدد کرے گا۔( نسائی، کتاب البیعۃ، وزیر الامام، ص۶۸۵، الحدیث: ۴۲۱۰)

20:37
وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْكَ مَرَّةً اُخْرٰۤىۙ(۳۷)
اور بیشک ہم نے (ف۳۳) تجھ پر ایک بار اور احسان فرمایا

{وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْكَ:اور بیشک ہم نے تجھ پر احسان فرمایا۔} اس آیت میں  گویا کہ  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’ اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ہم نے آپ کے سوال کرنے سے پہلے بھی آپ کی مَصلحت کی نگہبانی فرمائی ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ آپ کے سوال کرنے کے بعد ہم آپ کی مراد آپ کو عطا نہ کریں ، اور جب ہم نے آپ کو پچھلے زمانے میں  آپ           کی ضرورت کی ہر چیز آپ کو عطا فرمائی اور پہلی حالت سے بلند درجہ عطا کیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم نے آپ کو اس بلند، اہم اور عظیم رتبے پر فائز کیا ہے کہ جس پر فائز شخص کو اس کی طلب کی گئی چیز سے منع نہیں  کیا جاتا۔( تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۳۷، ۸ / ۴۶)

20:38
اِذْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّكَ مَا یُوْحٰۤىۙ(۳۸)
جب ہم نے تیری ماں کو الہام کیا جو الہام کرنا تھا (ف۳۴)

{اِذْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّكَ:جب ہم نے تمہاری ماں  کے دل میں  وہ بات ڈال دی ۔} اس سے پہلی آیت میں   اللہ تعالیٰ نے جس احسان کا تذکرہ فرمایا یہاں  سے اس کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب آپ کی ولادت کے وقت آپ کی ماں  کویہ اندیشہ ہوا کہ فرعون آپ کو قتل کر ڈالے گا تو ہم نے اس کے دل میں  ڈال کر یا خواب کے ذریعے سے اِلہام کیا کہ اس بچے کو صندوق میں  رکھ کر دریائے نیل میں  ڈال دے، پھر دریا اسے کنارے پر ڈال دے گا تاکہ اسے وہ فرعون اٹھالے جو میرا بھی دشمن ہے اور اس کا بھی دشمن ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ نے ایک صندو ق بنایا اور اس میں  روئی بچھائی اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس میں  رکھ کر صندوق بند کر دیا اور اس کی درزیں  قیر کے روغن سے بند کر دیں ، پھر اس صندوق کو دریائے نیل میں  بہا دیا۔ اس دریا سے ایک بڑی نہر نکل کر فرعون کے محل میں  سے گزرتی تھی ۔ فرعون اپنی بیوی آسیہ کے ساتھ نہر کے کنارہ بیٹھا تھا ، اس نے نہر میں  صندوق آتا دیکھ کر غلاموں  اور کنیزوں  کو اسے نکالنے کا حکم دیا ۔ وہ صندوق نکال کر سامنے لایا گیا اور جب اسے کھولا گیا تو اس میں  ایک نورانی شکل کا فرزند جس کی پیشانی سے وجاہت و اِقبال کے آثار نمودار تھے نظر آیا،اسے دیکھتے ہی فرعون کے دل میں  بے پناہ محبت پیدا ہوئی۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۳ / ۲۵۳)

            نوٹ:یہاں  ایک بات یاد رہے کہ وحی صرف انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی طرف ہوتی ہے اور قرآن مجید میں  جہاں  بھی وحی کا لفظ غیر نبی کے لئے آیا ہے وہاں  اس سے ’’ اِلہام کرنا‘‘ مراد ہو تا ہے۔

 

 

20:39
اَنِ اقْذِفِیْهِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِفِیْهِ فِی الْیَمِّ فَلْیُلْقِهِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّیْ وَ عَدُوٌّ لَّهٗؕ-وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْكَ مَحَبَّةً مِّنِّیْ ﳛ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰى عَیْنِیْۘ(۳۹)
کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ کر دریا میں (ف۳۵) ڈال دے، و دریا اسے کنارے پر ڈالے کہ اسے وہ اٹھالے جو میرا دشمن اور اس کا دشمن (ف۳۶) اور میں نے تجھ پر اپنی طرف کی محبت ڈالی (ف۳۷) اور اس لیے کہ تو میری نگاہ کے سامنے تیار ہو (ف۳۸)

{وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْكَ مَحَبَّةً مِّنِّیْ:اور میں  نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈالی۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اپنا محبوب بنایا اور مخلوق کا محبوب کر دیا۔‘‘ اور جسے  اللہ تعالیٰ اپنی محبوبیت سے نوازتا ہے تودلوں  میں  اس کی محبت پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں  وارد ہوا، یہی حال حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تھا کہ جو آپ کو دیکھتا تھا اسی کے دل میں  آپ کی محبت پیدا ہو جاتی تھی ۔ حضرت قتادہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آنکھوں  میں  ایسی مَلاحت تھی جسے دیکھ کر ہر دیکھنے والے کے دل میں  محبت جوش مارنے لگتی تھی۔(خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۲۵۳، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۶۹۱، ملتقطاً)

                اس سے معلوم ہوا کہ محبوبیت و مقبولیت ِخَلق بھی بعض انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا معجزہ ہے۔ ہمارے حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہمیشہ مخلوق کے محبوب ہیں  اور یہ محبوبیت بھی حضور انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزہ ہے۔نیز آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں  کی پرورش کاانتظام بھی خود فرما دیتا ہے۔

 

20:40
اِذْ تَمْشِیْۤ اُخْتُكَ فَتَقُوْلُ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى مَنْ یَّكْفُلُهٗؕ-فَرَجَعْنٰكَ اِلٰۤى اُمِّكَ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ۬ؕ-وَ قَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّیْنٰكَ مِنَ الْغَمِّ وَ فَتَنّٰكَ فُتُوْنًا ﲕ فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ ﳔ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰى قَدَرٍ یّٰمُوْسٰى(۴۰)
تیری بہن چلی (ف۳۹) پھر کہا کیا میں تمہیں وہ لوگ بتادوں جو اس بچہ کی پرورش کریں (ف۴۰) تو ہم تجھے تیری ماں کے پاس پھیر لائے کہ اس کی آنکھ (ف۴۱) ٹھنڈی ہو اور غم نہ کرے (ف۴۲) اور تو نے ایک جان کو قتل کیا (ف۴۳) تو ہم نے تجھے غم سے نجات دی اور تجھے خوب جانچ لیا (ف۴۴) تُو تو کئی برس مدین والوں میں رہا (ف۴۵) پھر تو ایک ٹھہرائے وعدہ پر حاضر ہوا اے موسیٰ! (ف۴۶)

{اِذْ تَمْشِیْۤ اُخْتُكَ:جب تیری بہن چلتی جارہی تھی ۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہن کانام مریم تھا، جب آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ نے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوصندوق میں  بندکرکے دریا میں  ڈال دیا تھا تو اس وقت آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہن صندوق کے متعلق معلوم کرنے کہ وہ کہاں  پہنچتا ہے ا س کے ساتھ چلتی رہی یہاں  تک کے صندوق فرعون کے محل میں  پہنچ گیا، وہاں  فرعون اور اس کی بیوی آسیہ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے پاس رکھ لیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکواپنا بیٹابنالیا مگر جب دودھ پلانے کے لیے دائیاں  حاضر کی گئیں  تو آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی بھی دائی کادودھ قبول نہ کیا، اس پر آپ کی بہن نے کہا کہ مصر میں  ایک اور دائی بھی ہے جس کا دودھ نہایت عمدہ ہے، یہ بچہ اس کادودھ پی لے گا۔ چنانچہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ کوبلایا گیا تو آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دودھ پینا شروع کردیا، یوں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوپرورش کے لیے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ کے سپرد کر دیا گیا اور  اللہ تعالیٰ کافرمان پورا ہوا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ کی آنکھیں  ٹھنڈی ہوئیں ۔

{وَ قَتَلْتَ نَفْسًا:اور تم نے ایک آدمی کو قتل کردیا۔} یہاں  سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا گزشتہ زمانے میں  ہونے والا ایک اور واقعہ ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرعون کی قوم کے ایک کافر کو مارا تو وہ مرگیا تھا ۔ اس واقعہ پر آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرعون کی طرف سے اندیشہ ہوا تو  اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کے غم سے نجات دی۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۲۵۴)

{وَ فَتَنّٰكَ فُتُوْنًا:اور تمہیں  اچھی طرح آزمایا۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ فُتون کا معنی ہے ایک آزمائش کے بعد دوسری آزمائش میں  مبتلا ہونا اور  اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوان آزمائشوں  سے نجات عطا فرمائی۔ ان میں  سے پہلی آزمائش تویہ تھی کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ محترمہ کو اس سال حمل ہوا جس سال فرعون ہر پیدا ہونے والے بچے کو ذبح کروا دیتا تھا۔ دوسری آزمائش یہ تھی کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دریائے نیل میں  ڈال دیا گیا۔ تیسری آزمائش یہ تھی کہ آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی والدہ کے سوا کسی کا دودھ قبول نہ کیا۔ چوتھی آزمائش یہ تھی کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بچپن میں  فرعون کی داڑھی کھینچی جس کی وجہ سے اس نے آپ کوقتل کرنے کا اراد کرلیا۔ پانچویں  آزمائش یہ تھی کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے موتی کے بدلے انگارہ منہ میں  لے لیا۔ چھٹی آزمائش یہ تھی کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ظالم قبطی (فرعونی) کو تھپڑ مار کر قتل کر دیا اور فرعون کے خوف سے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممَدْیَن کی طرف تشریف لے گئے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۲۵۴)

{فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ:پھر تم کئی برس مدین والوں  میں  رہے۔} مدین ، مصر سے آٹھ منزل (تقریباً 144 میل) کے فاصلہ پر ایک شہر ہے، یہاں  حضرت شعیب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رہتے تھے ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مصر سے مدین آئے اور کئی برس تک حضرت شعیب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس اقامت فرمائی اور ان کی صاحبزادی صفوراء کے ساتھ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نکاح ہوا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۲۵۴)

{ثُمَّ جِئْتَ عَلٰى قَدَرٍ یّٰمُوْسٰى: پھر اے موسیٰ! تم ایک مقررہ وعدے پر حاضر ہوگئے۔} یعنی اپنی عمر کے چالیسویں  سال حاضر ہو گئے اور یہ وہ سال ہے کہ اس میں  انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی طرف وحی کی جاتی ہے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۲۵۴)

{وَ اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِیْ :اور میں  نے تجھے خاص اپنی ذات کیلئے بنایا۔} ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، میں  نے تجھے خاص اپنی وحی اور رسالت کے لئے بنایا تاکہ تو میرے ارادے اور میری محبت کے مطابق تَصَرُّف کرے اور میری حجت پر قائم رہے اور میرے اور میری مخلوق کے درمیان خطاب پہنچانے والا ہو۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۲۵۴)

 

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

طٰهٰ
طٰهٰ
  00:00



Download

طٰهٰ
طٰهٰ
  00:00



Download