READ

Surah Taaha

طٰهٰ
135 Ayaat    مکیۃ


20:81
كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ لَا تَطْغَوْا فِیْهِ فَیَحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبِیْۚ-وَ مَنْ یَّحْلِلْ عَلَیْهِ غَضَبِیْ فَقَدْ هَوٰى(۸۱)
کھاؤ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں روزی دیں اور اس میں زیادتی نہ کرو (ف۱۱۵) کہ تم پر میرا غضب اترے اور جس پر میرا غضب اترا بیشک وہ گرا (ف۱۱۶)

20:82
وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى(۸۲)
اور بیشک میں بہت بخشنے والا ہوں اسے جس نے توبہ کی (ف۱۱۷) اور ایمان لایا اور اچھا کام کیا پھر ہدایت پر رہا (ف۱۱۸)

20:83
وَ مَاۤ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ یٰمُوْسٰى(۸۳)
اور تو نے اپنی قوم سے کیوں جلدی کی اے موسیٰ (ف۱۱۹)

{وَ مَاۤ اَعْجَلَكَ:اور تجھے کس چیز نے جلدی میں  مبتلا کردیا؟} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب اپنی قوم میں  سے ستر آدمیوں  کو منتخب کر کے توریت شریف لینے کوہِ طور پر تشریف لے گئے، پھر  اللہ تعالیٰ سے کلام کے شوق میں  ان آدمیوں  سے آگے بڑھ گئے اور انہیں  پیچھے چھوڑتے ہوئے فرمایا کہ میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ ، تواس پر  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تجھے اپنی قوم سے کس چیز نے جلدی میں  مبتلا کردیا؟ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے عرض کی :وہ یہ میرے پیچھے ہیں  اور اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  نے تیری طرف اس لئے جلدی کی تاکہ تیرے حکم کو پورا کرنے میں  میری جلدی دیکھ کر تیری رضا اور زیادہ ہو۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۸۳-۸۴، ص۶۹۹، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۸۳-۸۴، ۵ / ۴۱۲، ملتقطاً)

کلیم اور حبیب کی رضا میں  فرق:

            یہاں  ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے یہاں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بارے میں  بتایا کہ ’’ انہوں  نے خدا کی رضاچاہی ‘‘ اور اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لیے اور مقامات پر بتایا: خدا نے ان کی رضا چاہی۔ چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’ فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا‘‘(بقرہ:۱۴۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو ضرور ہم تمہیں  اس قبلہ کی طرف پھیر دیں  گے جس میں  تمہاری خوشی ہے۔

اور ارشاد فرماتا ہے

’’وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى‘‘(والضحی)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں  اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔

            اس سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ  اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس میں  اضافہ کرنے کیلئے کوشاں  ہیں  جبکہ  اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رضا چاہ رہاہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کیا خوب فرماتے ہیں :

خدا کی رضا چاہتے ہیں  دو عالَم

   خدا چاہتا ہے رضائے محمد

 

 

20:84
قَالَ هُمْ اُولَآءِ عَلٰۤى اَثَرِیْ وَ عَجِلْتُ اِلَیْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى(۸۴)
عرض کی کہ وہ یہ ہیں میرے پیچھے اور اے میرے رب تیری طرف میں جلدی کرکے حاضر ہوا کہ تو راضی ہو، (ف۱۲۰)

20:85
قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَ اَضَلَّهُمُ السَّامِرِیُّ(۸۵)
فرمایا، تو ہم نے تیرے آنے کے بعد تیری قوم (ف۱۲۱) بلا میں ڈالا اور انہیں سامری نے گمراہ کردیا، (ف۱۲۲)

{قَالَ:فرمایا۔}  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ!عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ہم نے تیرے پہاڑ کی طرف آنے کے بعد تیری قوم جنہیں  آپ نے حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ چھوڑا ہے کو آزمائش میں  ڈال دیا اور سامری نے انہیں  بچھڑا پوجنے کی دعوت دے کر گمراہ کردیا ہے۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۴۱۳، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۲۶۰، ملتقطاً)

سبب کی طرف نسبت کرنا جائز ہے:

            اس آیت میں اِضلال یعنی گمراہ کرنے کی نسبت سامری کی طرف فرمائی گئی کیونکہ وہ اس کا سبب اور باعث بنا تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ کسی چیز کو اس کے سبب کی طرف منسوب کرنا جائز ہے، اسی طرح یوں  کہہ سکتے ہیں  کہ ماں  باپ نے پرورش کی ، دینی پیشواؤں  نے ہدایت کی ، اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ مْ نے حاجت روائی فرمائی اور بزرگوں  نے بلا دفع کی ۔

20:86
فَرَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ﳛ قَالَ یٰقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا۬ؕ-اَفَطَالَ عَلَیْكُمُ الْعَهْدُ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْ(۸۶)
تو موسیٰ اپنی قوم کی طرف پلٹا (ف۱۲۳) غصہ میں بھرا افسوس کرتا (ف۱۲۴) کہا اے میری قوم کیا تم سے تمہارے رب نے اچھا وعدہ نہ تھا (ف۱۲۵) کیا تم پر مدت لمبی گزری یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب اترے تو تم نے میرا وعدہ خلاف کیا (ف۱۲۶)

{فَرَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ:تو موسیٰ اپنی قوم کی طرف لوٹے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے چالیس دن پورے کئے اور وہیں   اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتا دیا گیا کہ تمہاری قوم گمراہی میں  مبتلا ہوگئی ہے ۔ اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام توریت لے کر اپنی قوم کی طرف غضبناک ہوکر لوٹے اوران کے حال پر افسوس کرتے ہوئے فرمانے لگے: اے میری قوم ! کیا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے تم سے اچھا وعدہ نہ کیا تھا کہ وہ تمہیں  توریت عطا فرمائے گا جس میں  ہدایت ہے، نور ہے ، ہزار سورتیں  ہیں  اور ہر سورت میں  ہزار آیتیں  ہیں  ؟ کیا میرے تم سے جدا ہونے کی مدت تم پر لمبی ہوگئی تھی یا تم نے یہ چاہا کہ تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا غضب اتر آئے؟ پس تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی اور ایسا ناقص کام کیا ہے کہ بچھڑے کو پوجنے لگے ، تمہارا وعدہ تو مجھ سے یہ تھا کہ میرے حکم کی اطاعت کرو گے اور میرے دین پر قائم رہو گے۔(مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۶۹۹، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۶، ۳ / ۲۶۰، ملتقطاً)

  اللہ تعالیٰ کے لئے راضی یا ناراض ہونا چاہئے:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اس سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی دیکھ کر  اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نافرمانی کرنے والے پر غصہ ہونا اور اس کے حال پر افسوس کا اظہار کرنا کامل انسان کی فطرت کے لَوازمات میں  سے ہے، لہٰذا ہر عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ مْکے طریقے کی پیروی کرے اور جب کوئی برائی ہوتی دیکھے تو  اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے اس پر ناراضی اور غصہ کا اظہار کرے۔(روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۸۹، ۵ / ۴۱۶)

             اللہ تعالیٰ کے لئے راضی یا ناراض ہونے کے بارے میں حضرت عمرو بن حَمِق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’بندہ ایمان کی حقیقت کو نہیں  پا سکتایہاں  تک کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے لئے غضب کرے اور  اللہ تعالیٰ کے لئے راضی ہو اور جب اس نے ایسا کر لیا تو وہ ایمان کی حقیقت کا مستحق ہوگیا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۱۹۴، الحدیث: ۶۵۱)

            اور اس سلسلے میں  تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کے بارے میں  حضرت عائشہ صدیقہرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا  فرماتی ہیں : رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی ذات کا کسی سے انتقام نہیں  لیا البتہ اگر کوئی  اللہ تعالیٰ کی حرمت کے خلاف کرتا تو اس سے  اللہ تعالیٰ کے لئے انتقام لیا کرتے تھے۔( بخاری، کتاب المناقب، باب صفۃ النبی صلی  اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۴۸۹، الحدیث: ۳۵۶۰)

            حضرت ابو مسعود انصاری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک آدمی نے عرض کی:یا رسولَ  اللہ!صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہو سکتا ہے کہ میں  نماز میں  شامل نہ ہو سکوں  کیونکہ فلاں  ہمیں  بہت لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ (راوی فرماتے ہیں  کہ)  میں  نے نصیحت کرنے میں  سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس دن سے زیادہ کبھی ناراض نہیں  دیکھا تھا۔ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ‘‘اے لوگو! تم مُتَنَفِّر کرتے ہو! تم میں  سے جو لوگوں  کو نماز پڑھائے وہ تخفیف کرے کیونکہ ان میں  بیمار، کمزور اور حاجت مند بھی ہوتے ہیں ۔( بخاری، کتاب العلم، باب الغضب فی الموعظۃ ۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۰، الحدیث: ۹۰)

افسوس! فی زمانہ لوگوں  کا حال یہ ہے کہ ان کے ماتحت کام کرنے والا اگر ان کے کسی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ بسا اوقات اس پر موسلا دھار بارش کی طرح برس پڑتے ہیں  لیکن اگر یہی لوگ ان کے سامنے  اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نافرمانی کرتے ہیں  تو ان کے ماتھے پر شکن تک نہیں  آتی۔  اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت عطا فرمائے، اٰمین۔

 اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا ایک سبب:

            یہاں  یہ بات بھی یاد رہے کہ کچھ بندوں  کو  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  وہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ اگر وہ بندے کسی پر غصہ کریں  تو  اللہ تعالیٰ بھی اس پر غضب فرماتا ہے اور اگر وہ بندے کسی سے راضی ہوں  تو  اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہوتا ہے گویا کہ انہیں ناراض کرنے سے  اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوتا ہے اور انہیں  راضی کرنے سے  اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوتا ہے۔ حدیث ِقُدسی میں  ہے،  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: جس نے میرے کسی ولی کی توہین کی اس نے میر ے ساتھ جنگ کا اعلان کر دیا۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۱۸۴، الحدیث: ۶۰۹) لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ مْ کا ادب کرے اور ہر ایسے کام سے بچے جو ان کی ناراضی کا سبب بن سکتا ہو۔

20:87
قَالُوْا مَاۤ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَ لٰكِنَّا حُمِّلْنَاۤ اَوْزَارًا مِّنْ زِیْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَى السَّامِرِیُّۙ(۸۷)
بولے ہم نے آپ کا وعدہ اپنے اختیار سے خلاف نہ کیا لیکن ہم سے کچھ بوجھ اٹھوائے گئے اس قوم کے گہنے کے (ف۱۲۷) تو ہم نے انہیں (ف۱۲۸) ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے ڈالا (ف۱۲۹)

{قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بات سن کر لوگوں  نے کہا: ہم نے اپنے اختیار سے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وعدے کی خلاف ورزی نہیں  کی لیکن فرعون کی قوم کے کچھ زیورات جو ہم نے ان سے عارِیَّت کے طور پر لئے تھے انہیں  ہم نے سامری کے حکم سے آگ میں  ڈال دیا ،پھر اسی طرح سامری نے ان زیوروں  کوڈال دیا جو اس کے پاس تھے اور اس خاک کو بھی ڈال دیا جو حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام کے گھوڑے کے قدم کے نیچے سے اس نے حاصل کی تھی۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۷، ۳ / ۲۶۰-۲۶۱)

20:88
فَاَخْرَ جَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا هٰذَاۤ اِلٰهُكُمْ وَ اِلٰهُ مُوْسٰى۬-فَنَسِیَؕ(۸۸)
تو اس نے ان کے لیے ایک بچھڑا نکالا بے جان کا دھڑ گائے کی طرح بولتا (ف۱۳۰) یہ ہے تمہارا معبود اور موسیٰ کا معبود تو بھول گئے (ف۱۳۲)

{فَاَخْرَ جَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا:تو اس نے ان لوگوں  کے لیے ایک بے جان بچھڑا نکال دیا۔}یہ بچھڑا سامری نے بنایا اور اس میں  کچھ سوراخ اس طرح رکھے کہ جب ان میں  ہوا داخل ہو تو اس سے بچھڑے کی آواز کی طرح آواز پیدا ہو ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ اَسْپِ جبریل کی خاک زیرِ قدم ڈالنے سے زندہ ہو کر بچھڑے کی طر ح بولتا تھا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۲۶۱)

{فَقَالُوْا:تولوگ کہنے لگے۔} یعنی بچھڑے سے آواز نکلتی دیکھ کرسامری اور اس کے پیروکار کہنے لگے: یہ تمہارا معبود ہے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا معبود ہے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممعبود کو بھول گئے اور اسے یہاں  چھوڑ کر اس کی جستجو میں  کوہِ طور پر چلے گئے ہیں ۔ (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) بعض مفسرین نے کہا کہ اس آیت کے آخری لفظ ’’نَسِیَ‘‘کا فاعِل سامری ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ سامری نے بچھڑے کو معبود بنایا اور وہ اپنے ربّ کو بھول گیا یا یہ معنی ہے کہ سامری اَجسام کے حادث ہونے سے اِستدلال کرنا بھول گیا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۷۰۰، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۲۶۱، ملتقطاً)

20:89
اَفَلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِعُ اِلَیْهِمْ قَوْلًا ﳔ وَّ لَا یَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا۠(۸۹)
تو کیا نہیں دیکھتے کہ وہ (ف۱۳۳) انہیں کسی بات کا جواب نہیں دیتا اور ان کے سوا کسی برے بھلے کا اختیار نہیں رکھتا (ف۱۳۴)

{اَفَلَا یَرَوْنَ:تو کیا وہ نہیں  دیکھتے۔} ارشاد فرمایا کہ بچھڑے کو پوجنے والے کیا اس بات پر غور نہیں  کرتے کہ وہ بچھڑا انہیں  کسی بات کا جواب نہیں  دیتا اور نہ ہی وہ ان سے کسی نقصان کو دور کر سکتا ہے اور نہ انہیں  کوئی نفع پہنچا سکتا ہے اور جب وہ بات کا جواب دینے سے عاجز ہے اور نفع نقصان سے بھی بے بس ہے تو وہ معبود کس طرح ہوسکتا ہے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۹، ۳ / ۲۶۱، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۸۹، ص۷۰۰، ملتقطاً)

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ روشن آیات اور معجزات دیکھنے کے بعد بصیرت کا اندھا پن اور عقل والوں  کی عقل و فَہم کا سَلب ہو جانا بہت بڑی بد بختی ہے۔  اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین۔

20:90
وَ لَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ یٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖۚ-وَ اِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَ اَطِیْعُوْۤا اَمْرِیْ(۹۰)
اور بیشک ان سے ہارون نے اس سے پہلے کہا تھا کہ اے میری قوم یونہی ہے کہ تم اس کے سبب فتنے میں پڑے (ف۱۳۵) اور بیشک تمہارا رب رحمن ہے تو میری پیروی کرو اور میرا حکم مانو،

{وَ لَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ:اور بیشک ہارون نے ان سے پہلے ہی کہا تھا۔} ارشاد فرمایا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قوم کی طرف لوٹنے سے پہلے بے شک حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے لوگوں  کو نصیحت کی اور انہیں  اس معاملے کی حقیقت سے آگاہ کیا اور فرمایا تھا’’ اے میری قوم ! اس بچھڑے کے ذریعے صرف تمہاری آزمائش کی جارہی ہے تو تم اسے نہ پوجو اور بیشک تمہارا رب جو عبادت کا مستحق ہے وہ رحمٰن عَزَّوَجَلَّ ہے نہ کہ بچھڑا، تو میری پیروی کرو اور بچھڑے کی پوجا چھوڑ دینے میں  میرے حکم کی اطاعت کرو۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۹۰،ص۷۰۰، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۵ / ۴۱۷، ملتقطاً)

وعظ و نصیحت کی عمدہ ترتیب:

            حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے قوم کو اس ترتیب سے نصیحت فرمائی کہ سب سے پہلے انہیں  باطل چیز کے بارے میں  تنبیہ فرمائی کہ تمہیں  بچھڑے کے ذریعے آزمایا جا رہا ہے،پھر آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے انہیں   اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کی دعوت دی کہ تمہارا رب بچھڑا نہیں  بلکہ تمہارا رب رحمٰن عَزَّوَجَلَّ ہے، پھر انہیں  نبوت کو پہچاننے کی دعوت دی کہ میں  نبی ہوں  اس لئے تم سامری کی بجائے میری پیروی کرو، اس کے بعد آپ نے انہیں  شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا حکم دیا کہ میں  نے تمہیں  بچھڑے کی پوجا نہ کرنے کا جو حکم دیا ہے اسے پورا کرو۔ یہ وعظ و نصیحت کرنے کے معاملے میں  انتہائی عمدہ ترتیب ہے اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سیرتِ مبارکہ میں  وعظ و نصیحت کی اس ترتیب کا انتہائی اعلیٰ نمونہ موجود ہے کہ آپ صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی جا ن کے دشمنوں  کو اعلانیہ طور پر ان کے باطل معبودوں  اور بتوں  کی عبادت کے معاملے میں  تنبیہ فرمائی اور انہیں  بتایا کہ یہ مٹی، پتھر اور دھاتوں  سے بنائے گئے خود ساختہ اور ہر طرح سے عاجز بت تمہارے معبود ہو ہی نہیں  سکتے بلکہ تمہارا معبود وہ ہے جس نے تمہیں  اور تم سے پہلے لوگوں  کو یہ انسانی وجود عطا کیا اور وہی حقیقی طور پر نعمتیں  عطا فرمانے والا اور نقصانات دور کرنے والا ہے ،پھرآپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے انہیں  اپنی نبوت و رسالت اور اپنے مقام و مرتبے کی پہچان کروائی اور اس کے بعد انہیں  دینِ اسلام کے اَحکامات پر عمل کا حکم دیا۔

 

20:91
قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْهِ عٰكِفِیْنَ حَتّٰى یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰى(۹۱)
بولے ہم تو اس پر آسن مارے جمے (پوجا کے لیے بیٹھے) رہیں گے (ف۱۳۶) جب تک ہمارے پاس موسیٰ لوٹ کے آئیں (ف۱۳۷)

{قَالُوْا:بولے ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحت کے جواب میں  لوگوں  نے کہا ’’ہم تو اس وقت تک بچھڑے کی پوجا کرنے پر قائم رہیں  گے اور آپ کی بات نہ مانیں  گے جب تک ہمارے پاس حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لوٹ کر نہ آجائیں  اور ہم دیکھ لیں  کہ وہ بھی ہماری طرح اس کی پوجا کرتے ہیں  یا نہیں  اور کیا سامری نے سچ کہا ہے یا نہیں ۔ اس پر حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان سے علیحدہ ہو گئے اور ان کے ساتھ بارہ ہزار وہ لوگ بھی جدا ہو گئے جنہوں  نے بچھڑے کی پوجا نہ کی تھی ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام واپس تشریف لائے تو آپ نے ان لوگوں  کے شور مچانے اور باجے بجانے کی آوازیں  سنیں  جو بچھڑے کے گرد ناچ رہے تھے، تب آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے ہمراہ ستر لوگوں  سے فرمایا ’’یہ فتنہ کی آواز ہے۔ جب آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قریب پہنچے اور حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا تو اپنی فطری دینی غیرت سے جوش میں  آکر ان کے سر کے بال دائیں  ہاتھ اور داڑھی بائیں  میں  پکڑلی اور فرمایا ’’اے ہارون! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، جب تم نے انہیں  گمراہ ہوتے دیکھا تھا تو تمہیں  کس چیز نے میرے پیچھے آکر مجھے خبر دینے سے منع کیا تھا اور جب انہوں  نے تمہاری بات نہ مانی تھی تو تم مجھ سے کیوں  نہیں  آ ملے تا کہ تمہارا ان سے جدا ہونا بھی ان کے حق میں  ایک سرزنش ہوتی، کیا تم نے میرا حکم نہ مانا؟(خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹۱-۹۳، ۳ / ۲۶۱-۲۶۲، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۹۱-۹۳، ص۷۰۰، ملتقطاً)

 

20:92
قَالَ یٰهٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَیْتَهُمْ ضَلُّوْۤاۙ(۹۲)
موسیٰ نے کہا، اے ہارون! تمہیں کس بات نے روکا تھا جب تم نے انہیں گمراہ ہوتے دیکھا تھا کہ میرے پیچھے آتے (ف۱۳۸)

20:93
اَلَّا تَتَّبِعَنِؕ-اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ(۹۳)
تو کیا تم نے میرا حکم نہ مانا،

20:94
قَالَ یَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْۚ-اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ(۹۴)
کہا اے میرے ماں جائے! نہ میری ڈاڑھی پکڑو اور نہ میرے سر کے بال مجھے یہ ڈر ہوا کہ تم کہو گے تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور تم نے میری بات کا انتظار نہ کیا (ف۱۳۹)

{قَالَ:کہا۔}حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اے میری ماں  کے بیٹے! میری داڑھی اور میرے سر کے بال نہ پکڑو بیشک مجھے ڈر تھا کہ اگر میں  انہیں  چھوڑ کر آپ کے پیچھے چلا گیا تو یہ گروہوں  میں  تقسیم ہو کر ایک دوسرے سے لڑنے لگیں گے اور یہ دیکھ کر آپ کہیں  گے کہ اے ہارون!تم نے بنی اسرائیل میں  تَفْرِقہ ڈال دیا اوران کے بارے میں  تم نے میرے حکم کا انتظار نہ کیا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۲۶۲، جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۹۴، ص۲۶۶، ملتقطاً)

20:95
قَالَ فَمَا خَطْبُكَ یٰسَامِرِیُّ(۹۵)
موسیٰ نے کہا اب تیرا کیا حال ہے اے سامری! (ف۱۴۰)

{فَمَا خَطْبُكَ یٰسَامِرِیُّ:اے سامری! تو تیرا کیا حال ہے؟} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جواب سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سامری کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’اے سامری! تو نے ایسا کیوں  کیا؟ اس کی وجہ بتا ۔ سامری نے کہا: میں  نے وہ دیکھا جو بنی اسرائیل کے لوگوں  نے نہ دیکھا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا ’’تو نے کیا دیکھا؟ اس نے کہا: میں  نے حضرت جبریل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا اور انہیں  پہچان لیا ،وہ زندگی کے گھوڑے پر سوار تھے ،اس وقت میرے دل میں  یہ بات آئی کہ میں  ان کے گھوڑے کے نشانِ قدم کی خاک لے لوں  تو میں  نے وہاں  سے ایک مٹھی بھر لی پھر اِسے اُس بچھڑے میں  ڈال دیا جو میں  نے بنایا تھا اور میرے نفس نے مجھے یہی اچھا کر کے دکھایا اور یہ فعل میں  نے اپنی ہی نفسانی خواہش کی وجہ سے کیا کوئی دوسرا اس کا باعث و مُحرِّک نہ تھا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۹۵-۹۶، ص۷۰۱، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹۵-۹۶، ۳ / ۲۶۲، ملتقطاً)

20:96
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِهٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُهَا وَ كَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ(۹۶)
بولا میں نے وہ دیکھا جو لوگوں نے نہ دیکھا (ف۱۴۱) تو ایک مٹھی بھر لی فرشتے کے نشان سے پھر اسے ڈال دیا (ف۱۴۲) اور میرے جی کو یہی بھلا لگا (ف۱۴۳)

20:97
قَالَ فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِی الْحَیٰوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ۪-وَ اِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَهٗۚ-وَ انْظُرْ اِلٰۤى اِلٰهِكَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْهِ عَاكِفًاؕ-لَنُحَرِّقَنَّهٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا(۹۷)
کہا تو چلتا بن (ف۱۴۴) کہ دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہ ہے کہ (ف۱۴۵) تو کہے چھو نہ جا (ف۱۴۶) اور بیشک تیرے لیے ایک وعدہ کا وقت ہے (ف۱۴۷) جو تجھ سے خلاف نہ ہوگا اور اپنے اس معبود کو دیکھ جس کے سامنے تو دن بھر آسن مارے (پوجا کے لیے بیٹھا) رہا (ف۱۴۸) قسم ہے ہم ضرور اسے جلائیں گے پھر ریزہ ریزہ کرکے دریا میں بہائیں گے (ف۱۴۹)

{قَالَ فَاذْهَبْ:موسیٰ نے فرمایا: توتو چلاجا۔} سامری کی بات سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اس سے فرمایا ’’تو یہاں  سے چلتا بن اور دور ہو جا، پس بیشک زندگی میں  تیرے لئے یہ سزا ہے کہ جب تجھ سے کوئی ایسا شخص ملنا چاہے جو تیرے حال سے واقف نہ ہو، تو تُو اس سے کہے گا ’’ کوئی مجھے نہ چھوئے اور نہ میں  کسی سے چھوؤں ۔ چنانچہ لوگوں  کو مکمل طور پر سے ملنا منع کر دیا گیا اور ہر ایک پر اس کے ساتھ ملاقات ، بات چیت ، خرید و فروخت حرام کر دی گئی اور اگر اتفاقاً کوئی اس سے چھو جاتا تو وہ اور چھونے والا دونوں  شدید بخار میں  مبتلا ہوتے ، وہ جنگل میں  یہی شور مچاتا پھرتا تھا کہ کوئی مجھے نہ چھوئے اور وہ وحشیوں  اور درندوں  میں  زندگی کے دن انتہائی تلخی اور وحشت میں  گزارتا تھا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۷۰۱ ، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۲۶۲، ملتقطاً)

{وَ اِنَّ لَكَ مَوْعِدًا:اور بیشک تیرے لیے ایک وعدہ کا وقت ہے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے مزید فرمایا کہ اے سامری! تیرے شرک اور فساد انگیزی پر دنیا کے اس عذاب کے بعد تیرے لئے آخرت میں  بھی عذاب کا وعدہ ہے جس کی تجھ سے خلاف ورزی نہ کی جائے گی اور اپنے اس معبود کو دیکھ جس کے سامنے تو سارا دن ڈٹ کر بیٹھا رہا اور اس کی عبادت پر قائم رہا ،قسم ہے :ہم ضرور اسے آگ سے جلائیں  گے پھر ریزہ ریزہ کرکے دریا میں  بہا دیں  گے، چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس بچھڑے کے ساتھ ایسا ہی کیا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۷۰۱، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۲۶۲-۲۶۳، ملتقطاً)

{اِنَّمَاۤ اِلٰهُكُمُ اللّٰهُ:تمہارا معبود تو وہی  اللہ ہے۔}یعنی تمہاری عبادت اور تعظیم کا مستحق صرف وہی  اللہ ہے جس کےسوا کوئی معبود نہیں  اور اس کا علم ہر چیز کا اِحاطہ کئے ہوئے ہے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹۸، ۳ / ۲۶۳)

20:98
اِنَّمَاۤ اِلٰهُكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-وَسِعَ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا(۹۸)
تمہارا معبود تو وہی اللہ ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں ہر چیز کو اس کا علم محیط ہے،

20:99
كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ مَا قَدْ سَبَقَۚ-وَ قَدْ اٰتَیْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًاۖۚ(۹۹)
ہم ایسا ہی تمہارے سامنے اگلی خبریں بیان فرماتے ہیں اور ہم نے تم کو اپنے پاس سے ایک ذکر عطا فرمایا (ف۱۵۰)

{ كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ:ہم تمہارے سامنے اسی طرح خبریں  بیان کرتے ہیں ۔}اس سے پہلی آیات میں  فرعون اور سامری کے ساتھ ہونے والا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا واقعہ بیان کیا گیا اور اب یہاں  سے ارشاد فرمایا گیا کہ اے حبیب!صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،جس طرح ہم نے آپ کے سامنے یہ واقعات بیان کئے اسی طرح ہم آپ کے سامنے سابقہ امتوں  کی خبریں  اور ان کے احوال بیان کرتے ہیں  تاکہ آپ کی شان ، آپ کی نشانیوں ا ور معجزات میں  اضافہ ہو اور لوگ ان میں  زیادہ غوروفکر کر سکیں  اور بے شک ہم نے آپ کو اپنے پاس سے قرآن کریم عطافرمایا کہ یہ ذکر ِعظیم ہے اور جو اس کی طرف متوجہ ہو اس کے لئے اس کتابِ کریم میں  نجات اور برکتیں  ہیں  اور اس مقدس کتاب میں  سابقہ امتوں  کے ایسے حالات کا ذکر و بیان ہے جو فکر کرنے اور عبرت حاصل کرنے کے لائق ہیں۔(تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۸ / ۹۷، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۷۰۲، ملتقطاً)

20:100
مَنْ اَعْرَضَ عَنْهُ فَاِنَّهٗ یَحْمِلُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وِزْرًاۙ(۱۰۰)
جو اس سے منہ پھیرے (ف۱۵۱) تو بیشک وہ قیامت کے دن ایک بوجھ اٹھائے گا (ف۱۵۲)

{مَنْ اَعْرَضَ عَنْهُ:جو اس سے منہ پھیرے گا۔} ارشاد فرمایا کہ جو اس قرآن سے منہ پھیرے اور اس پر ایمان نہ لائے اور اس کی ہدایتوں  سے فائدہ نہ اٹھائے تووہ قیامت کے دن گناہوں  کا ایک بڑا بوجھ اٹھائے گا۔( بغوی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۱۹۴)

{خٰلِدِیْنَ فِیْهِ:وہ ہمیشہ اس میں  رہیں  گے۔} یعنی وہ ہمیشہ اس گناہ کے عذاب میں  رہیں  گے اور وہ قیامت کے دن ان کیلئے بہت برا بوجھ ہوگا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۲۶۳)

            یہاں  یہ بات یاد رہے ہمیشہ عذاب میں  وہ شخص رہے گا جس کا خاتمہ کفر کی حالت میں  ہوا ہو گا اور جس کا خاتمہ ایمان پر ہوا وہ اگرچہ کتنا ہی گنہگار ہواسے ہمیشہ عذاب نہ ہوگا۔

20:101
خٰلِدِیْنَ فِیْهِؕ-وَ سَآءَ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ حِمْلًاۙ(۱۰۱)
وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے (ف۱۵۳) اور وہ قیامت کے دن ان کے حق میں کیا ہی بڑا بوجھ ہوگا،

20:102
یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَ نَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَىٕذٍ زُرْقًاۚۖ(۱۰۲)
جس دن صُور پھونکا جائے گا (ف۱۵۴) اور ہم اس دن مجرموں کو (ف۱۵۵) اٹھائیں گے نیلی آنکھیں (ف۱۵۶)

{یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ:جس دن صُور میں  پھونکا جائے گا ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کو وہ دن یاد دلائیں  جس دن لوگوں  کومحشر میں  حاضر کرنے کے لئے دوسری بار صُور میں  پھونکا جائے گا اور ہم اس دن کافروں  کو اس حال میں  اٹھائیں  گے کہ ان کی آنکھیں  نیلی اور منہ کالے ہوں  گے۔(روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۵ / ۴۲۵، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۳ / ۲۶۳، ملتقطاً)

{یَتَخَافَتُوْنَ بَیْنَهُمْ:وہ آپس میں  آہستہ آہستہ باتیں  کریں  گے۔} آخرت کی ہولناکیاں  اور وہاں  کی خوفناک منازل دیکھ کر کفار کو دُنْیَوی زندگی کی مدت بہت قلیل معلوم ہو گی اور وہ آپس میں  آہستہ آہستہ باتیں  کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم تو دنیا میں  زیادہ عرصہ نہیں  رہے بلکہ دس راتیں  رہے ہیں ۔(تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۸ / ۹۸)

20:103
یَّتَخَافَتُوْنَ بَیْنَهُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا(۱۰۳)
آپس میں چپکے چپکے کہتے ہوں گے کہ تم دنیا میں نہ رہے مگر دس رات (ف۱۵۷)

20:104
نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اِذْ یَقُوْلُ اَمْثَلُهُمْ طَرِیْقَةً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا۠(۱۰۴)
ہم خوب جانتے ہیں جو وہ (ف۱۵۸) کہیں گے جبکہ ان میں سب سے بہتر رائے والا کہے گا کہ تم صرف ایک ہی دن رہے تھے (ف۱۵۹)

{نَحْنُ اَعْلَمُ:ہم خوب جانتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ کفار دنیا میں  ٹھہرنے کی مدت کے بارے آپس میں  جو آہستہ آہستہ باتیں  کریں  گے اسے ہم خوب جانتے ہیں ۔ کچھ لوگ تو دس راتیں  رہنے کا کہیں  گے جبکہ ان میں  سب سے بہتر رائے والا قیامت کی ہولناکیاں  دیکھ کر کہے گا کہ تم تو صرف ایک ہی دن دنیا میں  رہے تھے۔ بعض مفسرین کے نزدیک کفار کو دنیا میں  ٹھہرنے کی مدت بہت کم معلوم ہو گی جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، جبکہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ وہ اس دن کی سختیاں  دیکھ کر اپنے دنیا میں  رہنے کی مقدار ہی بھول جائیں  گے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۳ / ۲۶۳)

وقت ایک قیمتی جوہر ہے اسے ضائع نہ کریں :

            یہاں  یہ بات یاد رہے کہ وقت ایک نفیس نقدی اور لطیف جوہر ہے، اسے کسی حقیر اور فانی چیز کو پانے کے لئے خرچ نہ کیا جائے بلکہ اس سے وہ چیز حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جو انتہائی اعلیٰ اور ہمیشہ رہنے والی ہے ، لہٰذا ہر عقلمند آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنے وقت کو صرف دُنْیَوی زندگی کو پرسکون بنانے، اس کی لذتوں  اور رنگینیوں  سے لطف اندوز ہونے اور اس کے عیش و عشرت کے حصول میں  صَرف کر کے اسے ضائع نہ کرے بلکہ اپنی آخرت بہتر سے بہتر بنانے میں  اپنا کامل وقت استعمال کرے کیونکہ دنیا کسی کا مستقل ٹھکانہ نہیں  اور دنیا کا عیش بہت تھوڑا اور ا س کا خطرہ بہت بڑ اہے اور  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اس کی قدر انتہائی کم ہے حتّٰی کہ  اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر برابر بھی دنیا کی حیثیت نہیں  اس لئے دنیا کے دھوکے میں  مبتلا ہو کر اپنی اُخروی زندگی کو عذاب میں  ڈال دینا سمجھدار کے شایانِ شان نہیں ۔

             دنیا کے بارے میں  امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  : جو شخص دنیا کے دھوکے میں  آتا ہے اس کا ٹھکانہ ذلت ہے اور جو آدمی اس کے ذریعے تکبر کرتا ہے اس کی منزل کفِ افسوس ملنا ہے۔ دنیا کا کام طلب کرنے والوں  سے بھاگنا اور بھاگنے والوں  کو تلاش کرنا ہے۔ جو دنیا کی خدمت کرتا ہے تو یہ اس سے چلی جاتی ہے اور جو اس سے منہ پھیرتا ہے یہ اس کے پاس آتی ہے۔ دنیا صاف بھی ہو تو آلودگیوں  کے شائبے سے خالی نہیں  ہوتی اور اگر یہ سُرور بھی پہنچائے تو وہ پریشانیوں  سے خالی نہیں  ہوتا۔ دنیا کی سلامتی اپنے پیچھے بیماری لاتی ہے اور اس کی جوانی بڑھاپے کی طرف لے جاتی ہے۔ دنیا کی نعمتیں  حسرت اور ندامت کے سوا کچھ نہیں  دیتیں  تو یہ دنیا دھوکے باز، مکار، اڑنے والی اور بھاگنے والی ہے اور اپنے چاہنے والوں  کے لیے ہمیشہ بن سنور کر رہتی ہے، یہاں  تک کہ جب وہ اس کے دوست بن جاتے ہیں  تو یہ ان پر دانت نکالتی (یعنی ان کی بے بسی پر ہنستی یا انہیں  دھمکاتی ) ہے۔ دنیا اپنے اَسباب کے مقامات بکھیر دیتی ہے اور اپنے تعجب کے خزانے ان دوستوں  کے لیے کھول دیتی ہے، پھر انہیں  اپنے زہر سے ہلاکت کا مزہ چکھاتی اور اپنے تیروں  سے زخمی کرتی ہے۔ جب دنیا دار خوشی کی حالت میں  ہوتے ہیں  تو یہ اچانک ان سے منہ پھیرلیتی ہے اور یوں  لگتا ہے گویا وہ پریشان خواب تھے ،پھر ان پر حملہ آور ہوکر انہیں  کفن میں  چھپا کر مٹی کے نیچے رکھ دیتی ہے۔ اگر ان میں  سے کوئی ایک پوری دنیا کا مالک بھی بن جائے تویہ اسے یوں  کاٹ کر رکھ دیتی ہے کہ گویا کل اس کا وجودہی نہ تھا۔ دنیا کو چاہنے والے خوشی کی تمنا کرتے ہیں  اور یہ ان کو دھوکے کا وعدہ دیتی ہے حتّٰی کہ وہ بہت زیادہ امید رکھتے ہیں  اور محلات بناتے ہیں  اور پھر ان کے محلات قبروں  کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔ ان کی جماعت ہلاک ہوجاتی ہے ان کی کوشش بکھرا ہوا غبار بن جاتی ہے اور ان کی دعا تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الدنیا، ۳ / ۲۴۸)

 

20:105
وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُهَا رَبِّیْ نَسْفًاۙ(۱۰۵)
اور تم سے پہاڑوں کو پوچھتے ہیں (ف۱۶۰) تم فرماؤ انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا،

{وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ:اور آپ سے پہاڑوں  کے بارے میں  سوال کرتے ہیں۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا کہ قبیلہ ثقیف کے ایک آدمی نے رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا کہ قیامت کے دن پہاڑوں  کا کیا حال ہوگا؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ، اور  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ سے پہاڑوں  کے بارے میں  سوال کرتے ہیں ۔ آپ ان سے فرما دیں  کہ انہیں  میرا رب عَزَّوَجَلَّ ریت کے ذروں  کی طرح ریزہ ریزہ کر دے گا پھر انہیں  ہواؤں  کے ذریعے اڑا دے گا اور پہاڑوں  کے مقامات کی زمین کو ہموار چٹیل میدان بنا چھوڑے گا اور زمین اس طرح ہموار کر دی جائے گی کہ تو اس میں  کوئی پستی اور اونچائی نہ دیکھے گا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۵-۱۰۷، ۳ / ۲۶۳-۲۶۴، جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۵-۱۰۷، ص۲۶۷، ملتقطاً)

20:106
فَیَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًاۙ(۱۰۶)
تو زمین کو پٹ پر (چٹیل میدان) ہموار کر چھوڑے گا

20:107
لَّا تَرٰى فِیْهَا عِوَجًا وَّ لَاۤ اَمْتًاؕ(۱۰۷)
کہ تو اس میں نیچا اونچا کچھ نہ دیکھے،

20:108
یَوْمَىٕذٍ یَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ لَا عِوَجَ لَهٗۚ-وَ خَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا هَمْسًا(۱۰۸)
اس دن پکارنے والے کے پیچھے دوڑیں گے (ف۱۶۱) اس میں کجی نہ ہوگی (ف۱۶۲) اور سب آوازیں رحمن کے حضو ر (ف۱۶۳) پست ہوکر رہ جائیں گی تو تُو نہ سنے گا مگر بہت آہستہ آواز (ف۱۶۴)

{یَوْمَىٕذٍ یَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ:اس دن پکارنے والے کے پیچھے چلیں  گے ۔} ارشاد فرمایا کہ جس دن پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے اڑا دئیے جائیں  گے اس دن لوگ قبروں  سے نکلنے کے بعد پکارنے والے کے پیچھے چلیں  گے جو انہیں  قیامت کے دن مَوقِف کی طرف بلا ئے گا اور ندا کرے گا: رحمٰن عَزَّوَجَلَّکے حضور پیش ہونے کے لئے چلو ، اور یہ پکارنے والے حضرت اسرافیل عَلَیْہِ  السَّلَامہوں  گے ۔ لوگ اس بات پر قادر نہ ہو ں  گے کہ وہ دائیں  بائیں  مڑ جائیں  اور اس کے پیچھے نہ چلیں  بلکہ وہ سب تیزی سے پکارنے والے کے پیچھے چلیں  گے اور اس دن سب آوازیں  رحمٰن کے حضو ر ہیبت و جلال کی وجہ سے پَست ہوکر رہ جائیں  گی اور حال یہ ہو گا کہ تو ہلکی سی آواز کے سوا کچھ نہ سنے گا۔ اس کی کیفیت کے بارے حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَانے فرمایا ’’وہ ہلکی سی آواز ایسی ہو گی کہ اس میں  صرف لبوں  کی جنبش ہوگی۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۵ / ۴۲۸، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۳ / ۲۶۴، جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۲۶۷، ملتقطاً)

20:109
یَوْمَىٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَهٗ قَوْلًا(۱۰۹)
اس دن کسی کی شفاعت کام نہ دے گی، مگر اس کی جسے رحمن نے (ف۱۶۵) اذن دے دیا ہے اور اس کی بات پسند فرمائی،

{یَوْمَىٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ:اس دن کسی کی شفاعت کام نہ دے گی۔} ارشاد فرمایا کہ جس دن یہ ہَولناک اُمور واقع ہوں  گے اس دن شفاعت کرنے والوں  میں  سے کسی کی شفاعت کام نہ دے گی البتہ اس کی شفاعت کام دے گی جسے  اللہ تعالیٰ نے شفاعت کرنے کی اجازت دیدی ہو اور اس کی بات پسند فرمائی ہو۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۵ / ۴۲۹)

اہلِ ایمان کی شفاعت کی دلیل:

            علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے قیامت کے دن مومن کے علاوہ کسی اور کی شفاعت نہ ہو گی اور کہا گیا ہے کہ شفاعت کرنے والے کا درجہ بہت عظیم ہے اور یہ اسے ہی حاصل ہو گا جسے  اللہ تعالیٰ اجازت عطا فرمائے گا اور وہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پسندیدہ ہو گا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۲۶۴)

شفاعت سے متعلق6 اَحادیث:

            یاد رہے کہ  اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے مقبول بندوں  کو گناہگار مسلمانوں  کی شفاعت کرنے کی اجازت عطا فرمائے گا اور یہ مقرب بندے  اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اجازت سے گناہگاروں  کی شفاعت کریں  گے، اس مناسبت سے یہاں  شفاعت سے متعلق 6 اَحادیث ملاحظہ ہوں

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میں  قیامت کے دن حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد کا سردار ہوں  گا، سب سے پہلے میری قبر کھلے گی، سب سے پہلے میں  شفاعت کروں  گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی۔( مسلم، کتاب الفضائل، باب تفضیل نبیّنا صلی  اللہ علیہ وسلم علی جمیع الخلائق، ص۱۲۴۹، الحدیث: ۳(۲۲۷۸))

(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، چند صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نبی اکرم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے انتظار میں  بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں  آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے، جب قریب پہنچے تو صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کو کچھ گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ ان میں  سے بعض نے کہا: تعجب کی بات ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں  سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اپنا خلیل بنایا، دوسرے نے کہا: یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے  اللہ تعالیٰ کے ہم کلام ہونے سے زیادہ تعجب خیز تو نہیں ۔ ایک نے کہا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  اللہ تعالیٰ کاکلمہ اور روح ہیں ۔ کسی نے کہا :حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو  اللہ تعالیٰ نے چن لیا، حضور پُرنور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَان کے پاس تشریف لائے، سلام کیا اور فرمایا ’’ میں  نے تمہاری گفتگو اور تمہارا تعجب کرنا سنا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خلیلُ  اللہ ہیں ، بیشک وہ ایسے ہی ہیں ، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نَجِیُّ  اللہ ہیں  ، بے شک وہ اسی طرح ہیں ، حضرت عیسیٰعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روح ُ اللہ اور کلمۃُ  اللہ ہیں ، واقعی وہ اسی طرح ہیں ۔ حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو  اللہ تعالیٰ نے چن لیا وہ بھی یقینا ایسے ہی ہیں ۔ سن لو! میں   اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں  اور کوئی فخر نہیں ۔ میں  قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں  اور کوئی فخر نہیں ۔ قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کرنے والا بھی میں  ہی ہوں  اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور کوئی فخر نہیں ۔ سب سے پہلے جنت کا کُنڈا کھٹکھٹانے والا بھی میں  ہی ہوں ،  اللہ تعالیٰ میرے لئے اسے کھولے گا اور مجھے داخل کرے گا، میرے ساتھ فقیر   مومن ہوں  گے اور کوئی فخر نہیں ۔ میں  اَوّلین و آخرین میں  سب سے زیادہ مکرم ہوں  لیکن کوئی فخر نہیں۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبی صلی  اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۵۴، الحدیث: ۳۶۳۶)

(3)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہرنبی کی ایک دعا قبول ہوتی ہے، پس ہرنبی نے وہ دعا جلد مانگ لی اور میں  نے اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے بچا کر رکھا ہوا ہے اور یہ اِنْ شَاءَ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ میری امت میں  سے ہرشخص کوحاصل ہوگی جواس حال میں  مرا کہ اس نے اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو۔( مسلم، کتاب الایمان، باب اختباء النبیصلی  اللہ علیہ وسلم دعوۃ الشفاعۃ لامّتہ، ص۱۲۹، الحدیث: ۳۳۸(۱۹۹))

(4)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری شفاعت میری امت کے ان لوگوں  کے لئے ہو گی جن سے کبیرہ گناہ سرزد ہوئے ہوں  گے۔( سنن ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب فی الشفاعۃ، ۴ / ۳۱۱، الحدیث: ۴۷۳۹)

(5)…حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن تین لوگ شفاعت کریں  گے ۔ (1) انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ (2)پھر علماء۔ (3) پھر شہداء۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الشفاعۃ، ۴ / ۵۲۶، الحدیث: ۴۳۱۳)

(6)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن لوگ صفیں  باندھے ہوئے ہوں  گے، (اتنے میں ) ایک دوزخی ایک جنتی کے پاس سے گزرے گا اور اس سے کہے گا: کیا آپ کو یاد نہیں  کہ آپ نے ایک دن مجھ سے پانی مانگا تو میں  نے آپ کوپلا دیا تھا؟ اتنی سی بات پر وہ جنتی اس دوزخی کی شفاعت کرے گا۔ ایک جہنمی کسی دوسرے جنتی کے پاس سے گزرے گا تو کہے گا: کیا آپ کو یاد نہیں  کہ ایک دن میں  نے آپ کووضو کیلئے پانی دیا تھا؟ اتنے ہی پر وہ اس کاشفیع ہوجائے گا۔ ایک کہے گا: آپ کو یاد نہیں  کہ فلاں  دن آپ نے مجھے فلاں  کام کوبھیجا تومیں  چلا گیا تھا؟ اسی قدر پر یہ اس کی شفاعت کرے گا۔( ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل صدقۃ الماء، ۴ / ۱۹۶، الحدیث: ۳۶۸۵)

 

 

20:110
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا(۱۱۰)
وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے (ف۱۶۶) اور ان کا علم اسے نہیں گھیر سکتا (ف۱۶۷)

{یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ:وہ جانتا ہے جو کچھ ان لوگوں  کے آگے ہے ۔} یعنی  اللہ تعالیٰ کا علم بندوں  کی ذات و صفات، ان کے گزشتہ اور آئندہ کے تمام اَحوال اور دنیا و آخرت کے جملہ اُمور کا اِحاطہ کئے ہوئے ہے ۔

{وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا:اور لوگوں کا علم اسے نہیں  گھیر سکتا ۔} یعنی پوری کائنات کا علم  اللہ تعالیٰ کی ذات کا احاطہ نہیں  کر سکتا ، اس کی ذات کا اِدراک کائنات کے علوم کی رسائی سے برتر ہے ، وہ اپنے اَسماء و صفات ، آثارِ قدرت اور حکمت کی صورتوں  سے پہچانا جاتا ہے ۔ فارسی کا ایک شعر ہے:

کجا دریابد او را عقلِ چالاک

 کہ اوبالا تر است ازحدِ ادراک

نظر کن اندر اسماء وصفاتَش

 کہ واقف نیست کس از کنہِ ذاتَش

            یعنی تیز عقل ا س کی ذات کا ادراک کس طرح کر سکتی ہے کیونکہ وہ تو فہم و ادراک کی حد سے ہی بالا تر ہے، لہٰذا تم اس کے اسماء و صفات میں  غورو فکر کرو کہ اس کی ذات کی حقیقت سے کوئی واقف ہی نہیں ۔

            بعض مفسرین نے اس آیت کے معنی یہ بیان کئے ہیں  کہ مخلوق کے علوم  اللہ تعالیٰ کی معلومات کا احاطہ نہیں  کر سکتے۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۵ / ۴۳۰، ابو سعود، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۳ / ۴۹۲، ملتقطاً)

20:111
وَ عَنَتِ الْوُجُوْهُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِؕ-وَ قَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا(۱۱۱)
اور سب منہ جھک جائیں گے اس زندہ قائم رکھنے والے کے حضور (ف۱۶۸) اور بیشک نامراد رہا جس نے ظلم کا بوجھ لیا (ف۱۶۹)

{وَ عَنَتِ الْوُجُوْهُ:اور تمام چہرے جھک جائیں  گے ۔} ارشاد فرمایا کہ حشر کے دن تمام چہرے اس خدا کے حضور جھک جائیں  گے جو خود زندہ ، دوسروں  کوقائم رکھنے والا ہے اور ہر ایک شانِ عجز و نیاز کے ساتھ حاضر ہو گا ، کسی میں  سرکشی نہ رہے گی اور  اللہ تعالیٰ کے قہر و حکومت کا کامل ظہور ہو گا اور بیشک وہ شخص ناکام رہا جس نے ظلم کا بوجھ اٹھایا۔ یہاں  ظلم سے مراد شرک ہے اور بے شک شرک شدید ترین ظلم ہے اور جو اس ظلم کے بوجھ تلے دبے ہوئے مَوقِفِ قیامت میں  آئے گا تو اس سے بڑھ کر نامراد کون ہے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۱،۳ / ۲۶۴، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۷۰۳-۷۰۴، ملتقطاً)

20:112
وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّ لَا هَضْمًا(۱۱۲)
اور جو کچھ نیک کام کرے اور ہو مسلمان تو اسے نہ زیادتی کا خوف ہوگا اور نہ نقصان کا (ف۱۷۰)

{وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ:اور جو کوئی اسلام کی حالت میں  کچھ نیک اعمال کرے۔} ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اسلام کی حالت میں  کچھ نیک اعمال کرے تو اسے اس بات کا خوف نہ ہو گا کہ وعدے کے مطابق وہ جس ثواب کا مستحق تھا وہ اسے نہ دے کر اس کے ساتھ زیادتی کی جائے گی اور نہ ہی اسے کم ثواب دئیے جانے کا اندیشہ ہو گا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۵ / ۴۳۱)

نیک اعمال کی قبولیت ایمان کے ساتھ مشروط ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ طاعت اور نیک اعمال سب کی قبولیت ایمان کے ساتھ مشروط ہے کہ ایمان ہو تو سب نیکیاں  کار آمد ہیں  اور ایمان نہ ہو تویہ سب عمل بے کار ،ہاں  ایمان لانے کے بعد کفر کے زمانے کی نیکیاں  بھی قبول ہو جاتی ہیں ، جیسا کہ حدیث شریف میں  ہے۔

 نیک اعمال اور لوگوں  کا حال:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : اس آیت سے معلوم ہو ا کہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نیک اعمال میں  مشغول رہے اور گناہوں  سے رک جائے کیونکہ قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کے درخت کا پھل پائے گا اور جیسے اس کے اعمال ہوں  گے ویسے انجام تک وہ پہنچ جائے گا اور نیک اعمال میں  سب سے افضل فرائض کو ادا کرنا اور حرام و ممنوع کاموں  سے بچنا ہے ۔ (اسی سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ) ایک مرتبہ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے حضرت ابو حازم رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ سے عرض کی : مجھے نصیحت کیجئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے فرمایا ’’تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّکی پاکی بیان کرتے رہو اور اس بات کو بہت بڑ اجانو کہ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ تمہیں  وہاں  دیکھے جہاں  اس نے تمہیں  منع کیا ہے اور وہاں  تجھے موجود نہ پائے جہاں  موجود ہونے کا اس نے تمہیں  حکم دیا ہے۔

            اور نیک اعمال کے سلسلے میں  لوگوں  کی ایک تعدادکا یہ حال ہے کہ وہ نفلی کاموں  میں  تو بہت جلدی کرتے ہیں  ، لمبے لمبے اور کثیر اوراد ووظائف پابندی سے پڑھتے ہیں ، مشکل اور بھاری نفلی کام کرنے میں  رغبت رکھتے ہیں  جبکہ وہ کام جنہیں  کرنا ان پر فرض و واجب ہے ان میں  سستی سے کام لیتے ہیں  اور انہیں  صحیح طریقے سے ادا بھی نہیں  کرتے ۔

ایک بزرگ فرماتے ہیں  : نفسانی خواہش کی پیروی کی ایک علامت یہ ہے کہ بندہ نفلی نیک کام کرنے میں  تو بہت جلدی کرے اور واجبات کے حقوق ادا کرنے میں  سستی سے کام لے۔

            حضرت ابومحمد مرتعش رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :میں  نے کئی حج ننگے پاؤں  اور پید ل سفر کر کے کئے ۔ ایک دن رات کے وقت میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ ہاجرہ کو پانی پلا دو، تو مجھے یہ کام بہت بھاری لگا، اس سے میں  نے جان لیا کہ پیدل حج کرنے پر میں  نے اپنے نفس کی جو بات مانی اس میں  میرے نفس کی لذت کا عمل دخل تھا کیونکہ اگر میرا نفس ختم ہو چکا ہوتا تو (والدہ کی اطاعت کا) وہ کام مجھے بھاری محسوس نہ ہوتا جو شریعت کا حق تھا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۵ / ۴۳۱، ملخصاً)

20:113
وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا وَّ صَرَّفْنَا فِیْهِ مِنَ الْوَعِیْدِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ اَوْ یُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا(۱۱۳)
اور یونہی ہم نے اسے عربی قرآن اتارا اور اس میں طرح طرح سے عذاب کے وعدے دیے (ف۱۷۱) کہ کہیں انہیں ڈر ہو یا ان کے دل میں کچھ سوچ پیدا کرے (ف۱۷۲)

{وَ كَذٰلِكَ:اور یونہی۔} اس آیت میں  قرآنِ مجید کی دو صفات بیان کی گئیں  (1) قرآن کریم کو عربی زبان میں  نازل کیا گیا، تاکہ اہلِ عرب اسے سمجھ سکیں  اور وہ اس بات سے واقف ہوجائیں  کہ قرآن پاک کی نظم عاجز کر دینے والی ہے اور یہ کسی انسان کا کلام نہیں ۔ (2) قرآنِ مجیدمیں  مختلف انداز سے فرائض چھوڑنے اور ممنوعات کا اِرتکاب کرنے پر عذاب کی وَعِیدیں  بیان کی گئیں  تاکہ لوگ ڈریں  اور قرآن عظیم ان کے دل میں  کچھ نصیحت اور غوروفکر پیدا کرے جس سے انہیں  نیکیوں  کی رغبت اور بدیوں  سے نفرت ہو اور وہ عبرت و نصیحت حاصل کریں ۔( تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۸ / ۱۰۳، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۳ / ۲۶۴-۲۶۵، ملتقطاً)

20:114
فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّۚ-وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰۤى اِلَیْكَ وَحْیُهٗ٘-وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا(۱۱۴)
تو سب سے بلند ہے ا لله سچا بادشاہ (ف۱۷۳) اور قرآن میں جلدی نہ کرو جب تک اس کی وحی تمہیں پوری نہ ہولے (ف۱۷۴) اور عرض کرو کہ اے میرے رب! مجھے علم زیادہ دے،

{فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّۚ:تو وہ  اللہ بہت بلند ہے جو سچا بادشاہ ہے۔}ارشاد فرمایا کہ وہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ بہت بلند ہے جو سچا بادشاہ اور اصل مالک ہے اور تمام بادشاہ اس کے محتاج ہیں  اور اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی طرف قرآن کی وحی کے ختم ہونے سے پہلے قرآن پڑھنے میں  جلدی نہ کریں ۔ اس کاشانِ نزول یہ ہے کہ جب حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَامقرآنِ کریم لے کر نازل ہوتے تھے توسیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے اور جلدی کرتے تھے تاکہ خوب یاد ہو جائے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ یاد کرنے کی مشقت نہ اٹھائیں  ۔ سورۂ قیامہ میں   اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو جمع کرنے اور اسے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبان مبارک پر جاری کرنے کا خود ذمہ لے کر آپ کی اور زیادہ تسلی فرما دی ۔

{وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا: اور عرض کرو:اے میرے رب! میرے علم میں  اضافہ فرما۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو علم میں  اضافے کی دعا مانگنے کی تعلیم دی ، اس سے معلوم ہوا کہ علم سے کبھی سیر نہیں  ہونا چاہیے بلکہ مزید علم کی طلب میں  رہنا چاہئے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ علم کی حرص اچھی چیز ہے، جیسے نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام مخلوق میں  سب سے بڑے عالم ہیں  مگر انہیں حکم دیا گیا کہ زیادتی ٔعلم کی دعا مانگو۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا علم ہمیشہ ترقی میں  ہے،  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى‘‘(والضحی:۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور بیشک تمہارے لئے ہر پچھلی گھڑی پہلی سے بہتر ہے۔

 

20:115
وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا۠(۱۱۵)
اور بیشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے ایک تاکیدی حکم دیا تھا (ف۱۷۵) تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس کا قصد نہ پایا،

{وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ:اور بیشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے تاکیدی حکم دیا تھا۔} اس سے پہلے سورۂ بقرہ، سورۂ اَعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں  مختلف حکمتوں  کی وجہ سے حضرت آدمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہو ا اور اب یہاں  سے چھٹی بار ان کا واقعہ بیان کیا جا رہاہے اور اسے ذکر کرنے میں  یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ لوگوں  کو معلوم ہو جائے شیطان انسانوں  کا بڑ اپرانا دشمن ہے ا س لئے ہر انسان کو چاہئے کہ وہ شیطان کی فریب کاریوں  سے ہوشیار رہے اور اس کے وسوسوں  سے بچنے کی تدابیر اختیار کرے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس زمانے سے پہلے تاکیدی حکم دیا تھا کہ وہ ممنوعہ درخت کے پاس نہ جائیں  لیکن یہ حکم انہیں  یاد نہ رہا اور آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ممنوعہ درخت کے پاس چلے گئے البتہ اس جانے میں  ان کی طرف سے  اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔

آیت ’’وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ‘‘ سے معلوم ہونے والے عقائد و مسائل:

            اس آیت سے تین باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… حضرت آدمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جان بوجھ کر ممنوعہ درخت سے نہیں  کھایا بلکہ اس کی وجہ  اللہ تعالیٰ کا حکم یاد نہ رہنا تھا اور جو کام سہواً ہو وہ نہ گناہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی مُؤاخذہ ہوتا ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’قرآن عظیم کے عُرف میں  اِطلاقِ معصیت عمد (یعنی جان بوجھ کر کرنے ) ہی سے خاص نہیں ، قال  اللہ تعالٰیوَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ‘‘( طہٰ:۱۲۱) آدم نے اپنے رب کی معصیت کی۔ حالانکہ خود فرماتا ہے ’’فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا‘‘ آدم بھول گیا ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔ لیکن سہو نہ گناہ ہے نہ اس پر مؤاخذہ۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۰۰)

            اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ آیت ِ مبارکہ حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عِصمت کو بڑے واضح طور پر بیان کرتی ہے کیونکہ خود  اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ آدمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھول گئے تھے اور ان کا نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں  تھا۔

(2)… ہم جیسوں  کے لئے بھول چوک معاف ہے مگر انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پران کی عظمت و شان کی وجہ سے اس بنا پر بھی بعض اوقات پُرسش ہوجاتی ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’جتنا قرب زائد اسی قدر احکام کی شدت زیادہ ۔ ع

جن کے رتبے ہیں  سوا اُن کو سوا مشکل ہے۔

            بادشاہِ جبّار، جلیل القدر ایک جنگلی گنوار کی جو بات سن لے گا (اور اس کے ساتھ) جو برتاؤ گوارا کرے گا (وہ) ہر گز شہریوں  سے پسند نہ کرے گا (اور) شہریوں  میں  بازاریوں  سے معاملہ آسان ہوگا اور خاص لوگوں  سے سخت اور خاصوں  میں  درباریوں  اور درباریوں  میں  وزراء ، (الغرض) ہر ایک پربار دوسرے سے زائد ہے، اس لیے وارد ہوا ’’حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ‘‘نیکوں  کے جو نیک کام ہیں  مقربوں  کے حق میں  گناہ ہیں ۔ وہاں  ترکِ اَولیٰ کو بھی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ ترک اولیٰ ہر گز گناہ نہیں۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۰۰)

(3)… ہر شخص شیطان سے ہوشیار رہے کہ حضرت آدمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم تھے اور جنت محفوظ جگہ تھی پھر بھی ابلیس نے اپنا کام کردکھایا، تو ہم لوگ کس شمار میں  ہیں ۔

20:116
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى(۱۱۶)
اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب سجدہ میں گرے مگر ابلیس، اس نے نہ مانا،

{وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ:اور جب ہم نے فرشتوں  سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ وقت یاد کریں  جب ہم نے فرشتوں  سے فرمایا کہ حضرت آدمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کرو تو فرشتوں  کے ساتھ رہنے والے ابلیس کے سوا سب فرشتے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے سجدے میں  گرگئے اور ابلیس نے یہ کہہ کر حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوسجدہ کرنے سے انکار کردیا کہ میں  حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بہتر ہوں ۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۵ / ۴۳۴-۴۳۵، جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ص۲۶۸، ملتقطاً)

تعظیم کے طور پر غیرِ خدا کو سجدہ کرنا حرام اور اس سے بچنا فرض ہے:

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’سجدۂ تحیت، اگلی شریعتوں  میں  جائز تھا۔ ملائکہ نے بحکمِ الٰہی حضرت سیدنا آدم عَلَیْہِ  السَّلَام کو سجدہ کیا۔ حضرت سیدنا یعقوب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی زوجہ مقدسہ اور ان کے گیارہ صاحبزادوں  نے حضرت یوسف عَلَیْہِ  السَّلَام کو سجدہ کیا۔ ۔۔۔ ہاں  ہماری شریعت ِمطہرہ نے غیرِ خدا کے لئے سجدۂ تحیت حرام کیا ہے اس سے بچنا فرض ہے۔( فتاوی رضویہ، ۲۲ / ۴۱۷-۴۱۸)

20:117
فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷)
تو ہم نے فرمایا، اے آدم! بیشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہے (ف۱۷۶) تو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے (ف۱۷۷)

{فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ:تو ہم نے فرمایا، اے آدم!}اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ابلیس کے انکار کے بعد  اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے فرمایا ’’اے آدم! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، بیشک یہ ابلیس تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، تو یہ ہرگز تم دونوں  کو جنت سے نکال دئیے جانے کا سبب نہ بن جائے ورنہ تم مشقت میں  پڑجاؤ گے اور اپنی غذا اور خوراک کے لئے زمین جوتنے ، کھیتی کرنے ، دانہ نکالنے ، پیسنے ، پکانے کی محنت میں  مبتلا ہو جاؤ گے۔ بیشک تیرے لیے یہ ہے کہ تو جنت میں  بھوکا نہیں  ہوگا کیونکہ جنت کی تمام نعمتیں  ہر وقت حاضر ہوں  گی اور نہ ہی تو اس میں  ننگا ہوگا کیونکہ تمام ملبوسات جنت میں  موجود ہوں  گے ،اور تیرے لئے یہ بھی ہے کہ تو جنت میں  کبھی پیاسا نہ ہوگاکیونکہ اس میں  ہمیشہ کے لئے نہریں  جاری ہیں  اور نہ تجھے جنت میں  دھوپ لگے گی کیونکہ جنت میں  سور ج نہیں  ہے اور اہلِ جنت ہمیشہ رہنے والے دراز سائے میں  ہوں  گے، الغرض ہر طرح کا عیش و راحت جنت میں  موجود ہے اور اس میں  محنت اور کمائی کرنے سے بالکل امن ہے(لہٰذا تم شیطان کے وسوسوں  سے بچ کر رہنا)۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۷-۱۱۹،۳ / ۲۶۵-۲۶۶، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ:۱۱۷-۱۱۹،۵ / ۴۳۵-۴۳۶، ملتقطاً)

شیطان کی حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے دشمنی کی وجہ:

             آیت نمبر 117 میں  شیطان کا حضرت آدمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرنا آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ اس کی دشمنی کی دلیل قرار دیا گیا ہے ،یہاں  اس دشمنی کی وجہ وضاحت سے بیان کی جاتی ہے ۔ جب ابلیس نے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر  اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور یہ حسد ا س کی دشمنی کا ایک سبب تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور وہ اس کی ہلاکت چاہتا اور اس کا حال خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 117 تا 119 سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ان آیات سے تین باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… فضل و شرف والے کی فضیلت کو تسلیم نہ کرنا اور اس کی تعظیم و احترام بجا لانے سے اِعراض کرنا حسد و عداوت کی دلیل ہے۔

(2)… حضرت آدمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسی مشہور جنت میں  رکھے گئے تھے جو بعد ِقیامت نیکوں  کو عطا ہو گی ،وہ کو ئی دُنْیَوی باغ نہ تھا کیونکہ اس باغ میں  تو دھوپ بھی ہوتی ہے اور وہاں  بھوک بھی لگتی ہے ۔

(3)…جنتی نعمتوں  کی بڑی اہمیت ہے ،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان نعمتوں  کی قدر کرے اور شیطان کی پیروی کر کے ان عظیم نعمتوں  سے خود کو محروم نہ کرے۔

 

20:118
اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْ عَ فِیْهَا وَ لَا تَعْرٰىۙ(۱۱۸)
بیشک تیرے لیے جنت میں یہ ہے کہ نہ تو بھوکا ہو اور نہ ننگا ہو،

20:119
وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى(۱۱۹)
اور یہ کہ تجھے نہ اس میں پیاس لگے نہ دھوپ (ف۱۷۸)

20:120
فَوَسْوَسَ اِلَیْهِ الشَّیْطٰنُ قَالَ یٰۤاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَ مُلْكٍ لَّا یَبْلٰى(۱۲۰)
تو شیطان نے اسے وسوسہ دیا بولا، اے آدم! کیا میں تمہیں بتادوں ہمیشہ جینے کا پیڑ (ف۱۷۹) اور وہ بادشاہی کہ پرانی نہ پڑے (ف۱۸۰)

{فَوَسْوَسَ اِلَیْهِ الشَّیْطٰنُ:تو شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا۔} اس سے پہلی آیات میں   اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عظمت بیان فرمائی کہ اس نے انہیں  فرشتوں  سے سجدہ کروایا اور اس کے بعد بیان فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی زوجہ حضرت حوا رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکو شیطان کی دشمنی کی پہچان کروا دی اور جنتی نعمتوں  کی اہمیت بیان فرما دی اور اب اس آیت میں  بیان فرمایا جا رہا ہے کہ شیطان نے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وسوسہ ڈالا اور کہنے لگا: اے آدم! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، کیا میں  آپ کو ایک ایسے درخت کے بارے میں  بتادوں  جسے کھا کر کھانے والے کو دائمی زندگی حاصل ہو جاتی ہے اور ایسی بادشاہت کے متعلق بتادوں  جو کبھی فنا نہ ہوگی اور اس میں  زوال نہ آئے گا۔( تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۸ / ۱۰۷، جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ص۲۶۸، ملتقطاً)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

طٰهٰ
طٰهٰ
  00:00



Download

طٰهٰ
طٰهٰ
  00:00



Download