READ

Surah Taaha

طٰهٰ
135 Ayaat    مکیۃ


20:41
وَ اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِیْۚ(۴۱)
اور میں نے تجھے خاص اپنے لیے بنایا (ف۴۷)

20:42
اِذْهَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْكَ بِاٰیٰتِیْ وَ لَا تَنِیَا فِیْ ذِكْرِیْۚ(۴۲)
تو اور تیرا بھائی دونوں میری نشانیاں (ف۴۸) لے کر جاؤ اور میری یاد میں سستی نہ کرنا،

{اِذْهَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْكَ بِاٰیٰتِیْ:تم اور تمہارا بھائی دونوں  میری نشانیاں  لے کر جاؤ ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ!عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تم اور تمہارا بھائی میرے دئیے ہوئے معجزات اور نشانیاں  لے کر جاؤ اور ہر حال میں  میرا ذکر کرتے رہنا،تم دونوں  فرعون کے پاس جاؤ بیشک اس نے رب ہونے کا دعویٰ کر کے سرکشی کی ہے۔(روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۳،۵ / ۳۸۶-۳۸۸)

                اِس آیت سے ذکرِ الٰہی کے نہایت مرغوب و مطلوب ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مُبَلِّغ کو تبلیغ کے ساتھ ذکر ِ الٰہی کو بھی اپنا معمول رکھنا چاہیے۔

20:43
اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰىۚۖ(۴۳)
دونوں فرعون کے پاس جاؤ بیشک اس نے سر اٹھایا،

20:44
فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى(۴۴)
تو اس سے نرم بات کہنا (ف۴۹) اس امید پر کہ وہ دھیان کرے یا کچھ ڈرے (ف۵۰)

{فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا:توتم اس سے نرم بات کہنا ۔} یعنی جب تم فرعون کے پاس جاؤ تو اسے نرمی کے ساتھ نصیحت فرمانا۔ بعض مفسرین کے نزدیک فرعون کے ساتھ نرمی کا حکم اس لئے تھا کہ اس نے بچپن میں  حضرت موسیٰعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت کی تھی اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ نرمی سے مراد یہ ہے کہ آپ اس سے وعدہ کریں  کہ اگر وہ ایمان قبول کرے گا تو تمام عمر جوان رہے گا کبھی بڑھاپا نہ آئے گا ، مرتے دم تک اس کی سلطنت باقی رہے گی ، کھانے پینے اور نکاح کی لذتیں  تادمِ مرگ باقی رہیں  گی ا ور مرنے کے بعد جنت میں  داخلہ نصیب ہو گا ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون سے یہ وعدے کئے تو اسے یہ بات بہت پسند آئی لیکن وہ کسی کام پر ہامان سے مشورہ لئے بغیر قطعی فیصلہ نہیں  کرتا تھا اور اس وقت ہامان موجود نہ تھا (اس لئے ا س نے کوئی فیصلہ نہ کیا) جب وہ آیا تو فرعون نے اسے یہ خبر دی اور کہا کہ میں  چاہتا ہوں  کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہدایت پر ایمان قبول کر لوں ۔ یہ سن کر ہامان کہنے لگا: میں  تو تجھے عقلمند اور دانا سمجھتا تھا (لیکن یہ کیا کہ ) تو رب ہے اور بندہ بننا چاہتا ہے ، تو معبود ہے اور عابد بننے کی خواہش کرتا ہے ؟ فرعون نے کہا: تو نے ٹھیک کہا (یوں  وہ ایمان قبول کرنے سے محروم رہا)۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۵۴)

{لَعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى:اس امید پر کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈرجائے۔} یعنی آپ کی تعلیم اور نصیحت اس امید کے ساتھ ہونی چاہیے کہ آپ کواجر و ثواب ملے اور اس پر حجت لازم ہو جائے اور اس کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے اور حقیقت میں  ہونا تو وہی ہے جو  اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۶۹۲، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۵۵، ملتقطاً)

نرمی کے فضائل:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ دین کی تبلیغ نرمی کے ساتھ کرنی چاہیے اور تبلیغ کرنے والے کوچاہیے کہ وہ پیار محبت سے نصیحت کرے کیونکہ اس طریقے سے کی گئی نصیحت سے یہ امید ہوتی ہے کہ سامنے والا نصیحت قبول کر لے یا کم از کم اپنے گناہ کے معاملے میں   اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرے۔ نیز یاد رہے کہ دین کی تبلیغ کے علاوہ دیگر دینی اور دُنْیَوی معاملات میں  بھی جہاں  تک ممکن ہو نرمی سے ہی کام لینا چاہئے کہ جو فائدہ نرمی کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے وہ سختی کرنے کی صورت میں  حاصل ہو جائے یہ ضروری نہیں ۔ ترغیب کے لئے یہاں  نرمی کے فضائل پر مشتمل 4 اَحادیث درج ذیل ہیں ۔

(1)…حضرت جریر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو شخص نرمی سے محروم رہاوہ بھلائی سے محروم رہا۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق، ص۱۳۹۸، الحدیث: ۷۴(۲۵۹۲))

(2)…حضرت ابو درداء رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کو نرمی سے حصہ دیا گیا اسے بھلائی سے حصہ دیا گیا اور جسے نرمی کے حصے سے محروم رکھا گیا اسے بھلائی کے حصے سے محروم رکھا گیا۔( ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی الرفق، ۳ / ۴۰۷، الحدیث: ۲۰۲۰)

(3)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اے عائشہ! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا،  اللہ تعالیٰ رفیق ہے اور رِفق یعنی نرمی کو پسند فرماتا ہے اور  اللہ تعالیٰ نرمی کی وجہ سے وہ چیزیں  عطا کرتا ہے جو سختی یا کسی اور وجہ سے عطا نہیں  فرماتا۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق، ص۱۳۹۸، الحدیث: ۷۷(۲۵۹۳))

(4)…اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاسے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’نرمی جس چیز میں  بھی ہوتی ہے وہ اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال دی جاتی ہے اسے بد صورت کر دیتی ہے۔(مسلم، کتاب البرّ الصلۃ والآادب، باب فضل الرفق، ص۱۳۹۸، الحدیث: ۷۸(۲۵۹۴))

رحمت ِالٰہی کی جھلک:

            اس آیت سے  اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جھلک بھی نظر آتی ہے کہ اپنی بارگاہ کے باغی اور سرکش کے ساتھ کس طرح اس نے نرمی فرمائی اور جب اپنے نافرمان بندے کے ساتھ اس کی نرمی کا یہ حال ہے تو اطاعت گزار اور فرمانبردار بندے کے ساتھ اس کی نرمی کیسی ہو گی۔ حضرت یحیٰ بن معاذ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت کی گئی تو آپ رونے لگے اور عرض کی : (اے اللّٰہ!) یہ تیری اس بندے کے ساتھ نرمی ہے جو کہتا ہے کہ میں  معبود ہوں  تو اس بندے کے ساتھ تیری نرمی کا کیا حال ہو گا جو کہتاہے کہ صرف تو ہی معبود ہے اور یہ تیری اس بندے کے ساتھ نرمی ہے جو کہتا ہے: میں  تم لوگوں  کا سب سے اعلیٰ رب ہوں  تو اس بندے کے ساتھ تیری نرمی کا کیا عالَم ہو گا جو کہتا ہے :میرا وہ رب پاک ہے جو سب سے بلند ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۶۹۲)

 

20:45
قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ یَّفْرُطَ عَلَیْنَاۤ اَوْ اَنْ یَّطْغٰى(۴۵)
دونوں نے عرض کیا، اے ہمارے رب! بیشک ہم ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا شرارت سے پیش آئے،

{قَالَا رَبَّنَا:دونوں  نے عرض کیا: اے ہمارے رب!} جب  اللہ تعالیٰ نے موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو یہ وحی فرمائیاس وقت حضرت ہارونعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممصر میں  تھے،  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حکم دیا کہ وہ حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آئیں  اور حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وحی کی کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ملیں ، چنانچہ وہ ایک منزل (یعنی تقریباً 18 میل) چل کر آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ملے اور جو وحی انہیں  ہوئی تھی اس کی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اطلاع دی ۔فرعون چونکہ ایک ظالم وجابر شخص تھا اس لیے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے عرض کی: اے ہمارے رب! بیشک ہم اس بات سے ڈرتے ہیں  کہ وہ ہمیں  رسالت کی تبلیغ کرنے سے پہلے ہی قتل کر کے ہم پر زیادتی کرے گایا مزید سرکشی پر اتر آئے گا اور تیری شان میں  نازیبا کلمات کہنے لگے گا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۲۵۵، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۳۹۰، ملتقطاً)

مخلوق سے اِیذا کا خوف توکّل کے خلاف نہیں :

             اس سے معلوم ہوا کہ اَسباب ، مُوذی انسان اور موذی جانوروں  سے خوف کرنا شانِ نبوت اور توکل کے خلاف نہیں ۔ وہ جو کثیر آیتوں  میں  ’’لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ‘‘فرمایا گیا ہے ،وہ اس کے خلاف نہیں  کیونکہ ان آیات میں  خوف نہ ہونے سے مراد قیامت کے دن خوف نہ ہونا ہے ،یااِس سے اُس خوف کا نہ ہونا مراد ہے جو نقصان دِہ ہو اور خالق سے دور کردے، جبکہ انہیں  مخلوق کی طرف سے ایذاء پہنچنے کا خوف ہو سکتا ہے۔ اسی مناسبت سے یہاں  ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ کسی شخص نے حضر ت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ سے کہا کہ عامر بن عبد اللہ اپنے ساتھیوں  کے ساتھ ایک مرتبہ شام کی طرف جا رہے تھے کہ ان کو پیاس لگی اور وہ ایک جگہ پانی پیناچاہتے تھے مگر پانی اور ان کے درمیان ایک شیر حائل تھا وہ پانی کی طرف گئے اور پانی پی لیا تو ان سے کسی نے کہا کہ آپ نے اپنی جان خطرہ میں  ڈالی تو عامر بن عبداللّٰہنے کہا کہ اگر میرے پیٹ میں  نیزے گھونپ دئیے جائیں  تووہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہیں  کہ میں  اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی سے ڈروں ۔ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے اس شخص کوجواب دیا کہ جوشخص عامر بن عبد اللہ سے بہت افضل تھے وہ تواللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے غیر سے ڈرے تھے اور وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہیں ۔( قرطبی، طہ، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۹۹، الجزء الحادی عشر)

            مراد یہ ہے کہ خوفِ خدا کا یہ مطلب نہیں  کہ آدمی دُنْیَوی مُوذی اَشیاء سے بھی نہ ڈرے ، اگر یہ مطلب ہوتا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خوف کا اظہار نہ کرتے۔ البتہ یہاں  یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بعض بندگانِ خدا پر بعض اوقات بعض خاص اَحوال طاری ہوتے ہیں  جس کی وجہ سے وہ اس طرح کے بے خوفی کے افعال کرتے ہیں  اور وہ احوال بھی ناپسندیدہ نہیں  ہیں  بلکہ بہت مرتبہ وہ کرامت کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں ۔

{قَالَ لَا تَخَافَا:فرمایا: تم ڈرو نہیں ۔} حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی عرض کے جواب میں   اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ تم ڈرو نہیں ، بیشک میں  اپنی مدد کے ذریعے تمہارے ساتھ ہوں  اور میں  سب سن رہا ہوں  اور سب دیکھ بھی رہا ہوں ۔

20:46
قَالَ لَا تَخَافَاۤ اِنَّنِیْ مَعَكُمَاۤ اَسْمَعُ وَ اَرٰى(۴۶)
فرمایا ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں (ف۵۱) سنتا اور دیکھتا (ف۵۲)

20:47
فَاْتِیٰهُ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ وَ لَا تُعَذِّبْهُمْؕ-قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكَؕ-وَ السَّلٰمُ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى(۴۷)
تو اس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں تو اولاد یعقوب کو ہمارے ساتھ چھوڑ دے (ف۵۳) اور انہیں تکلیف نہ دے (ف۵۴) بیشک ہم تیرے رب کی طرف سے نشانی لائے ہیں (ف۵۵) اور سلامتی اسے جو ہدایت کی پیروی کرے (ف۵۶)

{فَاْتِیٰهُ:پس تم اس کے پاس جاؤ ۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ تم ڈرو نہیں  اور فرعون کے پاس جاکر کہو : ہم تیرے رب عَزَّوَجَلَّکے بھیجے ہوئے ہیں  ،لہٰذا اے فرعون ، تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں بندگی و اَسیری سے رہا کر دے اور ان سے محنت و مشقت کے سخت کام لے کر انہیں  تکلیف نہ دے۔ بیشک ہم تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے معجزات لے کر آئے ہیں  جو ہماری نبوت کی صداقت کی دلیل ہیں ۔ فرعون نے کہا: وہ معجزات کیا ہیں ؟ تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ہاتھ روشن ہونے کا معجزہ دکھایا (اور فرمایا) جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے لئے دونوں  جہان میں  سلامتی ہے اور وہ عذاب سے محفوظ رہے گا ۔بیشک ہماری طرف وحی ہوتی ہے کہ عذاب اس پر ہے جو ہماری نبوت کو اور ان اَحکام کو جھٹلائے جو ہم لائے ہیں  اور ہماری ہدایت سے منہ پھیرے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ص۶۹۲، جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ص۲۶۳، ملتقطاً)

20:48
اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَاۤ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰى مَنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰى(۴۸)
بیشک ہماری طرف وحی ہوتی ہے کہ عذاب اس پر ہے جو جھٹلائے (ف۵۷) اور منہ پھیرے (ف۵۸)

20:49
قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا یٰمُوْسٰى(۴۹)
بولا تو تم دونوں کا خدا کون ہے اے موسیٰ،

{قَالَ:فرعون بولا۔} حضرت موسیٰ و حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب فرعون کو یہ پیغام پہنچا دیا تو وہ بولا : اے موسیٰ ! تو تم دونوں  کارب کون ہے جس نے تمہیں  بھیجا ہے؟ حضرت موسیٰعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا: ہمارا ربعَزَّوَجَلَّ وہ ہے جس نے محض اپنی رحمت سے ہر چیز کو اس کی خاص شکل و صورت دی ،جیسا کہ ہاتھ کو اس کے لائق ایسی شکل دی کہ وہ کسی چیز کو پکڑ سکے ، پاؤں  کو اس کے قابل کہ وہ چل سکے ، زبان کو اس کے مناسب کہ وہ بول سکے ، آنکھ کو اس کے موافق کہ وہ دیکھ سکے اور کان کو ایسی شکل و صورت دی کہ وہ سن سکے ، پھر راہ دکھائی اور اس کی معرفت دی کہ دنیا کی زندگانی اور آخرت کی سعادت کے لئے  اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں  کو کس طرح کام میں  لایا جائے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۰، ص۶۹۲-۶۹۳، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۰، ۵ / ۳۹۴، ملتقطاً)

20:50
قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْۤ اَعْطٰى كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى(۵۰)
کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے لائق صورت دی (ف۵۹) پھر راہ دکھائی (ف۶۰)

20:51
قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى(۵۱)
بولا (ف۶۱) اگلی سنگتوں (قوموں) کا کیا حال ہے (ف۶۲)

{قَالَ:فرعون بولا۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی وحدانیت اور اس کے رب عَزَّوَجَلَّ ہونے پر اتنی واضح دلیل دی توفرعون گھبرا گیا اور اس کواپنی خود ساختہ خدائی تباہ ہوتی نظر آئی تو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی توجہ بدلنے کے لیے آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کودوسری باتوں  میں  الجھانے لگا اور کہنے لگا کہ جو پہلی قومیں  گزر چکی ہیں  مثلاً قومِ عاد، قومِ ثمودوغیرہ اور وہ بتوں  کوپوجتی تھیں  اور مرنے کے بعد زندہ کیے جانے کی منکر تھیں  ان کا کیا ہوا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۵۵)

20:52
قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ كِتٰبٍۚ-لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَى٘(۵۲)
کہا ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں ہے (ف۶۳) میرا رب نہ بہکے نہ بھولے،

{قَالَ:موسیٰ نے فرمایا۔} فرعون کی بات سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا: پہلی قوموں  کے حال کا علم میرے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس ایک کتاب لَوحِ محفوظ میں  ہے جس میں  ان کے تمام اَحوال لکھے ہوئے ہیں  اور قیامت کے دن انہیں  ان اعمال پر جزا دی جائے گی ۔

            یہاں  یہ بات ذہن میں  رہے کہ آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے جو جواب دیا کہ اس کاعلم لوحِ محفوظ میں  ہے اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ آپ کوگذشتہ قوموں  کے حالات معلوم نہ تھے بلکہ وجہ یہ تھی کہ وہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوتبلیغ ِدین سے نہ پھیر سکے ۔ مزید فرمایا کہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ گویا فرمایا کہ تمام اَحوال کا لوحِ محفوظ میں  لکھنا، اس لئے نہیں  کہ رب تعالیٰ کے بھولنے بہکنے کا اندیشہ ہے بلکہ یہ تحریر اپنی دوسری حکمتوں  کی وجہ سے ہے جیسے فرشتوں  اور اپنے محبوب بندوں  کو اطلاع دینے کیلئے ہے جن کی نظر لوحِ محفوظ پر ہے۔

20:53
الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّ سَلَكَ لَكُمْ فِیْهَا سُبُلًا وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًؕ-فَاَخْرَجْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى(۵۳)
وہ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا کیا اور تمہارے لیے اس میں چلتی راہیں رکھیں اور آسمان سے پانی اتارا (ف۶۴) تو ہم نے اس سے طرح طرح کے سبزے کے جوڑے نکالے (ف۶۵)

{اَلَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا:وہ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا کہ میرا ربعَزَّوَجَلَّ وہ ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا تاکہ تمہارے لئے اس پر زندگی بسر کرنا ممکن ہو اور تمہارے لیے اس میں  راستے آسان کردیے تاکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں  تمہیں  آسانی ہو اوراس نے آسمان سے پانی نازل فرمایا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام تو یہاں  پورا ہو گیا اب اس کلام کو مکمل کرتے ہوئے  اللہ تعالیٰ اہلِ مکہ کو خطاب کر کے فرماتا ہے کہ اے اہلِ مکہ !تو ہم نے اس پانی سے مختلف قسم کی نباتات کے جوڑے نکالے جن کے رنگ،خوشبوئیں  اور شکلیں  مختلف ہیں  اور ان میں  سے بعض آدمیوں  کے لئے ہیں  اور بعض جانوروں  کے لئے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۲۵۶، جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۲۶۳)

20:54
كُلُوْا وَ ارْعَوْا اَنْعَامَكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّهٰى۠(۵۴)
تم کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو چَراؤ (ف۶۶) بیشک اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کو،

{كُلُوْا وَ ارْعَوْا اَنْعَامَكُمْ:تم کھاؤ اور اپنے مویشیوں  کو چراؤ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے جو یہ نباتات نکالی ہیں ، ان میں  سے تم خود بھی کھاؤ اور اپنے مویشیوں  کو بھی چراؤ۔ یاد رہے کہ اس آیت میں  جو حکم دیا گیا ہے یہ اِباحت اور  اللہ تعالیٰ کی نعمت یاد دلانے کے لئے ہے یعنی ہم نے یہ نباتات تمہارے لئے اس طور پر نکالی ہیں  کہ انہیں  کھانا اور اپنے جانوروں  کو چَرانا تمہارے لئے مباح و جائز ہے۔(مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۶۹۳)

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّهٰى:بیشک اس میں  عقل والوں  کیلئے نشانیاں  ہیں ۔} یعنی زمین کو بچھونا بنانے، اس میں  سفر کے لئے راستوں  کو آسان کرنے، آسمان سے پانی نازل کرنے اور زمین سے مختلف اَقسام کی نباتات اگانے میں  عقل رکھنے والے لوگوں  کے لئے  اللہ تعالیٰ کے صانع ہونے، اس کی وحدت، اس کی عظیم قدرت اور اس کی ظاہر و باہر حکمت پر دلالت کرنے والی کثیر، واضح اور عظیم نشانیاں  ہیں ۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۵۴، ۵ / ۳۹۶)

20:55
مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَ فِیْهَا نُعِیْدُكُمْ وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى(۵۵)
ہم نے زمین ہی سے تمہیں بنایا (ف۲۷) اور اسی میں تمہیں پھر لے جائیں گے (ف۶۸) اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے (ف۶۹)

{مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ:ہم نے زمین ہی سے تمہیں  بنایا ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے تمہارے جد ِاعلیٰ ،حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زمین سے پیدا کر کے تمہیں  اس سے ہی بنایا اور تمہاری موت اور دفن کے وقت اسی زمین میں  تمہیں  پھر لوٹائیں  گے اور قیامت کے دن اسی زمین سے تمہیں  دوبارہ نکالیں  گے۔( جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۲۶۳)

میت کی تدفین کے بعد ایک مُسْتحب عمل:

            یہاں  ایک بات یاد رہے کہ جب کسی مسلمان کو انتقال کے بعد دفن کر دیا جائے اور اس کی قبر پرتختے لگانے کے بعد مٹی دی جائے تو اس وقت مستحب یہ ہے کہ ا س کے سرہانے کی طرف دونوں  ہاتھوں  سے تین بار مٹی ڈالیں ۔ پہلی بار کہیں ’’مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ‘‘ دوسری بار ’’ وَ فِیْهَا نُعِیْدُكُمْ‘‘ اورتیسری بار ’’ وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى‘‘ کہیں۔( عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل السادس، ۱ / ۱۶۶)

20:56
وَ لَقَدْ اَرَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَ اَبٰى(۵۶)
اور بیشک ہم نے اسے (ف۷۰) اپنی سب نشانیاں (ف۷۱) دکھائیں تو اس نے جھٹلایا اور نہ مانا (ف۷۲)

{وَ لَقَدْ اَرَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا كُلَّهَا:اور بیشک ہم نے اس کواپنی سب نشانیاں  دکھائیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے فرعون کو وہ تمام نو نشانیاں  دکھا دیں  جو  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمائی تھیں  تو اس نے انہیں  جھٹلایا اور نہ مانا اور ان نشانیوں  کو جادو بتایا اور حق قبول کرنے سے انکار کیا اور کہنے لگا: اے موسیٰ! کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں  اپنے جادو کے ذریعے ہماری سرزمین مصرسے نکال کر خود اس پر قبضہ کرلو اور بادشاہ بن جاؤ۔ تو ضرور ہم بھی تمہارے آگے ویسا ہی جادو لائیں  گے اور جادو میں  ہمارا تمہارا مقابلہ ہو گا تو ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک مدت اور جگہ مقرر کرلو جس کی خلاف ورزی نہ ہم کریں  اور نہ تم اور وہ جگہ ہموار ہو اور اس میں  دونوں  فریقین کے درمیان برابر فاصلہ ہو تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ مقابلہ دیکھ سکیں ۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۵۶-۵۸، ۳ / ۲۵۶، مدارک، ، طہ، تحت الآیۃ: ۵۶-۵۸، ص۶۹۴، ملتقطاً)

            فرعون حضرت موسیٰعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات دیکھ کر سمجھ تو گیا تھا کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامحق پر ہیں  اور جادوگر نہیں  ہیں  کیونکہ اس کے ملک میں  اس سے پہلے بھی کئی جادوگر موجود تھے جو خود اس کے ماتحت تھے اور کسی نے بھی کبھی ایسی بات نہ کی تھی لیکن پھر بھی اس نے کوشش کی کہ کسی طرح حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شکست ہوجائے اور اس کی سلطنت بچ جائے۔

20:57
قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ یٰمُوْسٰى(۵۷)
بولا کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اپنے جادو کے سبب ہماری زمین سے نکال دو اے موسیٰ (ف۷۳)

20:58
فَلَنَاْتِیَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهٖ فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهٗ نَحْنُ وَ لَاۤ اَنْتَ مَكَانًا سُوًى(۵۸)
تو ضرور ہم بھی تمہارے آگے ویسا ہی جادو لائیں گے (ف۷۴) تو ہم میں اور اپنے میں ایک وعدہ ٹھہرادو جس سے نہ ہم بدلہ لیں نہ تم ہموار جگہ ہو،

20:59
قَالَ مَوْعِدُكُمْ یَوْمُ الزِّیْنَةِ وَ اَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى(۵۹)
موسیٰ نے کہا تمہارا وعدہ میلے کا دن ہے (ف۷۵) اور یہ کہ لوگ دن چڑھے جمع کیے جائیں (ف۷۶)

{قَالَ:موسیٰ نے فرمایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرعون کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: تمہارا وعدہ میلے کا دن ہے اور اس دن یہ بھی ہونا چاہئے کہ لوگ دن چڑھے جمع کرلئے جائیں  تاکہ خوب روشنی پھیل جائے اور دیکھنے والے اطمینان کے ساتھ دیکھ سکیں  اور انہیں  ہر چیز صاف صاف نظر آئے ۔ اس آیت میں  جس میلے کا ذکر ہوا اس سے فرعونیوں  کا وہ میلہ مراد ہے جو ان کی عید تھی اور اس میں  وہ بہت سج سنور کر جمع ہوتے تھے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ وہ دن عاشوراء یعنی دسویں  محرم کا تھا۔ اس سال یہ تاریخ ہفتے کے دن واقع ہوئی تھی اور اس دن کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اس لئے معین فرمایا کہ یہ دن ان کی انتہائی شوکت کا دن تھا اور اسے مقرر کرنے میں  اپنی قوت کے کمال کا اظہار ہے، نیز اس میں  یہ بھی حکمت تھی کہ حق کا ظہور اور باطل کی رسوائی کے لئے ایسا ہی وقت مناسب ہے جب کہ اَطراف و جوانب کے تمام لوگ اکھٹے ہوں ۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۲۵۶-۲۵۷، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۶۹۴، جمل، طہ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۵ / ۸۰، ملتقطاً)

کفار کے میلے میں  جانے کا شرعی حکم:

            اس سے معلوم ہوا کہ شرعی ضرورت کے وقت مسلمان کو کفا رکے میلے میں  جانا جائز ہے جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مقابلہ کے لئے کفار کے میلہ میں  گئے اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بت شکنی کے لئے بت خانہ میں  گئے۔ اور شرعی ضرورت کے علاوہ تجارت یاکسی اور غرض سے جانے کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ میلہ کفار کا مذہبی ہے جس میں  جمع ہوکر اعلانِ کفر اور شرکیہ رسمیں  ادا کریں  تو تجارت کی غرض سے بھی جانا ناجائز ومکروہِ تحریمی ہے، اور ہر مکروہِ تحریمی صغیرہ، اور ہر صغیرہ اِصرار سے کبیرہ گناہ بن جاتا ہے۔ اور اگر وہ مجمع کفار کا مذہبی نہیں  بلکہ صرف لہوولعب کامیلہ ہے تو محض تجارت کی غرض سے جانا فی نفسہٖ ناجائز وممنوع نہیں  جبکہ یہ کسی گناہ کی طرف نہ لے جاتا ہو۔ پھر بھی کراہت سے خالی نہیں  کہ وہ لوگ ہروقت مَعَاذَ اللہ لعنت اترنے کامحل ہیں  اس لئے اُن سے دوری ہی بہتر ہے۔۔۔نیز یہ جواز بھی اُسی صورت میں  ہے کہ اسے وہاں  جانے میں  کسی معصیت کاارتکاب نہ کرنا پڑے مثلاً جلسہ ناچ رنگ کا ہو اور اسے اس جلسے سے دور اور لاتعلق علاقے میں  جگہ نہ ہو تو یہ جانا معصیت کو مستلزم ہوگا اور ہر وہ چیز جو معصیت کومستلزم ہووہ معصیت ہوتی ہے اور یہ جانا محض تجارت کی غرض سے ہو نہ کہ تماشا دیکھنے کی نیت سے کیونکہ اس نیت سے جانا مطلقاً ممنوع ہے اگرچہ وہ مجمع غیرمذہبی ہو۔( فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۵۲۳-۵۲۶،ملخصاً)

20:60
فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَیْدَهٗ ثُمَّ اَتٰى(۶۰)
تو فرعون پھرا اور اپنے داؤں (فریب) اکٹھے کیے (ف۷۷) پھر آیا (ف۷۸)

{فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ:تو فرعون منہ پھیر کر چلا گیا۔} جب مقابلہ کادن طے ہوگیا تو فرعون منہ پھیر کر چلا گیا اور اس نے مقابلے کے لیے کثیر تعداد میں  جادوگروں  کوجمع کیا اور انہیں  طرح طرح کے انعامات کا لالچ دیا حتّٰی کہ انہیں  اپنا مُقرب بنانے کا وعدہ کیا ۔ اس کے بعد پھر بڑی شان وشوکت کے ساتھ اپنی فوج کولے کر وعدے کے دن میدان میں  پہنچ گیا۔

{قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰى وَیْلَكُمْ:ان سے موسیٰ نے فرمایا: تمہاری خرابی ہو۔} جب فرعون اور اس کے جمع کردہ جادو گر مقابلہ کے لیے پہنچ گئے توحضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان جادو گروں  سے فرمایا ’’ تمہاری خرابی ہو ، تم کسی کو  اللہ تعالیٰ کا شریک کر کے اس پر جھوٹ نہ باندھو ورنہ وہ تمہیں  اپنے پاس موجود عذاب سے ہلاک کردے گا اور بیشک وہ ناکام ہوا جس نے  اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا۔( جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۲۶۳-۲۶۴)

20:61
قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰى وَیْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا فَیُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍۚ-وَ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى(۶۱)
ان سے موسیٰ نے کہا تمہیں خرابی ہو اللہ پر جھوٹ نہ باندھو (ف۷۹) کہ وہ تمہیں عذاب سے ہلاک کردے اور بیشک نامراد رہا جس نے جھوٹ باندھا (ف۸۰)

20:62
فَتَنَازَعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ وَ اَسَرُّوا النَّجْوٰى(۶۲)
تو اپنے معاملہ میں باہم مختلف ہوگئے (ف۸۱) اور چھپ کر مشاورت کی،

{فَتَنَازَعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ:تو وہ اپنے معاملہ میں  باہم مختلف ہوگئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جادوگروں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ کلام سنا تو آپس میں  ان کا اختلاف ہو گیا ، بعض کہنے لگے کہ یہ بھی ہماری طرح جادوگر ہیں  ، بعض نے کہا کہ یہ باتیں  جادوگروں  کی ہیں  ہی نہیں  ، کیونکہ وہ  اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے سے منع کررہے ہیں  ۔ انہوں  نے چھپ کر مشورہ کیا تاکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو معلوم نہ چلے اور ا س مشورے میں  بعض جادو گر دوسروں  سے کہنے لگے: بیشک حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دونوں  یقینا جادوگر ہیں  ، یہ چاہتے ہیں  کہ اپنے جادوکے زور سے تم پر غالب آ کر تمہیں  تمہاری سرزمین مصر سے نکال دیں  اور تمہارا بہت شرف و بزرگی والا دین لے جائیں  ۔تو تم اپنے لائے ہوئے جا دو کے تمام داؤ جمع کرلو پھر صف باندھ کر آ جاؤ تاکہ تمہاری ہیبت زیادہ ہو اور بیشک آج وہی کامیاب ہوگا جو غالب آئے گا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۶۲-۶۴، ۵ / ۴۰۰، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۶۲-۶۴، ۳ / ۲۵۷، ملتقطاً)

20:63
قَالُوْۤا اِنْ هٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَ یَذْهَبَا بِطَرِیْقَتِكُمُ الْمُثْلٰى(۶۳)
بولے بیشک یہ دونوں (ف۸۲) ضرور جادوگر ہیں چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہاری زمین زمین سے اپنے جادو کے زور سے نکال دیں اور تمہارا اچھا دین لے جائیں،

20:64
فَاَجْمِعُوْا كَیْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّاۚ-وَ قَدْ اَفْلَحَ الْیَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰى(۶۴)
تو اپنا داؤ (فریب) پکا کرلو پھر پرا باندھ (صف باندھ) کر آ ؤ آج مراد کو پہنچا جو غالب رہا،

20:65
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰى(۶۵)
بولے (ف۸۳) اے موسیٰ یا تو تم ڈالو (ف۸۴) یا ہم پہلے ڈالیں (ف۸۵)

{قَالُوْا یٰمُوْسٰى:انہوں  نے کہا اے موسیٰ!} جب جادو گروں  نے صف بندی کر لی تو انہوں  نے کہا: اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ پہلے اپنا عصا زمین پر ڈالیں  گے یاہم پہلے اپنے سامان ڈال دیں  ۔ جادوگروں  نے ادب کی وجہ سے مقابلے کی ابتداء کرنا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی رائے مبارک پر چھوڑا اور اس کی برکت سے آخر کار  اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان کی دولت سے مشرف فرما دیا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۶۹۵)  

20:66
قَالَ بَلْ اَلْقُوْاۚ-فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَ عِصِیُّهُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰى(۶۶)
موسیٰ نے کہا بلکہ تمہیں ڈالو (ف۸۶) جبھی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے ان کے خیال میں دوڑتی معلوم ہوئیں (ف۸۷)

{قَالَ بَلْ اَلْقُوْا:موسیٰ نے فرمایا: بلکہ تمہی ڈالو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جادو گروں  سے یہ اس لئے فرمایا کہ اُن کے پاس جو کچھ جادو کے مکر و حیلے ہیں  پہلے وہ سب ظاہر کرلیں  اس کے بعد آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنا معجزہ دکھائیں  اور جب حق باطل کو مٹائے اور معجزہ جادو کو باطل کردے تو دیکھنے والوں  کو بصیرت و عبرت حاصل ہو۔ چنانچہ جادوگروں  نے رسیاں  لاٹھیاں  وغیرہ جو سامان وہ لائے تھے سب ڈال دیا اور لوگوں  کی نظر بندی کر دی توحضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے دیکھا کہ زمین سانپوں  سے بھر گئی اور میلوں  کے میدان میں  سانپ ہی سانپ دوڑ رہے ہیں  اور دیکھنے والے اس باطل نظر بندی سے مَسحور ہو گئے، اور کہیں  ایسا نہ ہو کہ بعض لوگ معجزہ دیکھنے سے پہلے ہی اس نظر بندی کے گرویدہ ہو جائیں  اور معجزہ نہ دیکھیں  ،اس وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے دل میں  قوم کے حوالے سے خوف محسوس کیا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انسانی فطرت کے مطابق اپنے دل میں  اس بات کا خوف محسوس کیا کہ  کہیں  وہ سانپ ان کی طرف ہی نہ آ جائیں ۔  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے فرمایا: تم ڈرو نہیں  ،بے شک تم ہی ان پر غالب آؤ گے اور تمہیں  ہی ان پر غلبہ و کامیابی نصیب ہو گی۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۶۶-۶۸، ص۶۹۵-۶۹۶، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۶۶-۶۸، ۳ / ۲۵۷-۲۵۸، ملتقطاً)

 

 

20:67
فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِهٖ خِیْفَةً مُّوْسٰى(۶۷)
تو اپنے جی میں موسیٰ نے خوف پایا،

20:68
قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى(۶۸)
ہم نے فرمایا ڈر نہیں بیشک تو ہی غالب ہے،

20:69
وَ اَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْاؕ-اِنَّمَا صَنَعُوْا كَیْدُ سٰحِرٍؕ-وَ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰى(۶۹)
اور ڈال تو دے جو تیرے داہنے ہاتھ میں ہے (ف۸۸) اور ان کی بناوٹوں کو نگل جائے گا، وہ جو بناکر لائے ہیں وہ تو جادوگر کا فریب ہے، اور جادوگر کا بھلا نہیں ہوتا کہیں آوے (ف۸۹)

{وَ اَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِكَ:اور تم بھی اسے ڈال دو جو تمہارے دائیں  ہاتھ میں  ہے۔}  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تم ان کی رسیوں  لاٹھیوں  کی کثرت کی پرواہ نہ کرو اور تم بھی اپنا وہ عصا ڈال دو جو تمہارے دائیں  ہاتھ میں  ہے، وہ ان کی بنائی ہوئی چیزوں  کو نگل جائے گا۔ بیشک جو انہوں  نے بنایا ہے وہ تو صرف جادوگروں  کا مکر وفریب ہے اور جادوگر کامیاب نہیں  ہوتا جہاں  بھی آجائے۔ پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا عصا ڈالا تو وہ جادوگروں  کے تمام اژدہوں  اور سانپوں  کو نگل گیا اور آدمی اس کے خوف سے گھبرا گئے اور جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے اپنے دست ِمبارک میں  لیا تو پہلے کی طرح عصا ہو گیا۔ یہ دیکھ کر جادوگروں  کو یقین ہوگیا کہ یہ معجزہ ہے جس سے جادو مقابلہ نہیں  کر سکتا اور جادو کی فریب کاری اس کے سامنے قائم نہیں  رہ سکتی۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۶۹۶، تفسیر کبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۶۹، ۸ / ۷۴-۷۵، ملتقطاً)

20:70
فَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَ مُوْسٰى(۷۰)
تو سب جادوگر سجدے میں گرالیے گئے بولے ہم اس پر ایمان لائے جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے (ف۹۰)

{فَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا:تو سب جادوگر سجدے میں  گرا دئیے گئے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا معجزہ دیکھ کر جاد وگر اتنی تیزی سے سجدے میں  گئے کہ اس سے یوں  محسوس ہوا جیسے انہیں  پکڑ کر سجدے میں  گرا دیا گیا ہو، پھروہ کہنے لگے کہ ہم حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے رب عَزَّوَجَلَّپر ایمان لائے۔ سُبْحَانَ اللّٰہ! کیا عجیب حال تھا کہ جن لوگوں  نے ابھی کفر و انکار اور سرکشی کے لئے رسیاں  اور لاٹھیاں  ڈالی تھیں ، ابھی معجزہ دیکھ کر انہوں  نے شکر و سجود کے لئے اپنے سر جھکا دیئے اور اپنی گردنیں  ڈال دیں  ۔ منقول ہے کہ اس سجدے میں  انہیں  جنت اور دوزخ دکھائی گئی اور انہوں  نے جنت میں  اپنے منازل دیکھ لئے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۶۹۶)

20:71
قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْؕ-اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَۚ-فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ٘-وَ لَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبْقٰى(۷۱)
فرعون بولا کیا تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں، بیشک وہ تمہارا بڑا ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا (ف۹۱) تو مجھے قسم ہے ضرور میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا (ف۹۲) اور تمہیں کھجور کے ڈھنڈ (تنے) پر سُولی چڑھاؤں گا، اور ضرور تم جان جاؤ گے کہ ہم میں کس کا عذاب سخت اور دیرپا ہے (ف۹۳)

{ قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ:فرعون بولا: کیا تم اس پر ایمان لائے۔} فرعون نے جادو گروں  کے ایمان لانے کا منظر دیکھ کرانہیں  ڈانٹتے ہوئے کہا: کیا تم میری اجازت ملنے سے پہلے ہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر ایمان لے آئے ہو! بیشک وہ جادو میں  استادِ کامل اور تم سب سے فائق ہے اور اس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے ، (اور سورۂ اَعراف میں  یہ بھی ہے کہ فرعون نے کہا کہ یہ تم سب کی سازش ہے جو تم نے میرے خلاف بنائی ہے تاکہ یہاں  کے رہنے والوں  کو اِس سرزمین سے نکال دو) تو مجھے قسم ہے، میں  ضرور تمہارے دائیں  طرف کے ہاتھ اور بائیں  طرف کے پاؤں  کاٹ دوں  گا اور تمہیں  کھجور کے تنوں  پر پھانسی دیدوں  گا اور اس وقت ضرور تم جان جاؤ گے کہ ہم میں  کس کا عذاب زیادہ شدید اور زیادہ باقی رہنے والاہے ۔اس سے فرعون ملعون کی مراد یہ تھی کہ اس کا عذاب سخت تر ہے یا ربُّ العالَمین کا عذاب زیادہ سخت ہے۔

20:72
قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰى مَا جَآءَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَاۤ اَنْتَ قَاضٍؕ-اِنَّمَا تَقْضِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاؕ(۷۲)
بولے ہم ہرگز تجھے ترجیح نہ دیں گے ان روشن دلیلوں پر جو ہمارے پاس آئیں (ف۹۴) ہمیں اپنے پیدا کرنے والے والے کی قسم تو تُو کر چُک جو تجھے کرنا ہے (ف۹۵) تو اس دنیا ہی کی زندگی میں تو کرے گا (ف۹۶)

{ قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} فرعون کا یہ مُتکبّرانہ کلمہ سن کر ان جادوگروں  نے کہا: ہم ان روشن دلیلوں  پر ہرگز تجھے ترجیح نہ دیں  گے جو ہمارے پاس آئی ہیں ۔ روشن دلیلوں  کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ۔ بعض مفسرین کے نزدیک ان سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا روشن ہاتھ اور عصا مراد ہے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جادو گروں  کا اِستدلال یہ تھا : اگر تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزہ کو بھی جادو کہتا ہے تو بتا وہ رسّے اور لاٹھیاں  کہاں  گئیں  اور بعض مفسرین کہتے ہیں  کہ روشن دلیلوں  سے مراد جنت اور اس میں  اپنی مَنازل کا دیکھنا ہے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۲۵۸)

{وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا:ہمیں  اپنے پیدا کرنے والے کی قسم !} جادوگروں  نے فرعون سے کہا کہ ہمیں  اپنے پیدا کرنے والے کی قسم ! تو جو کرنے والا ہے کر لے ہمیں  اس کی کچھ پرواہ نہیں  اور تو ہمارے ساتھ جو کچھ بھی کرے گا اس دنیا کی زندگی میں  ہی توکرے گا ، اس سے آگے تو تیری کچھ مجال نہیں  اور دنیا کا حال تو یہ ہے کہ وہ زائل اور یہاں  کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور اگر تو ہم پر مہربان بھی ہو تو ہمیں  ہمیشہ کے لئے بقا نہیں  دے سکتا، پھر دنیا کی زندگانی اور اس کی راحتوں  کے زوال کا کیا غم، خاص طور پر اسے جو جانتا ہے کہ آخرت میں  دنیا کے اعمال کی جزا ملے گی۔( تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۸ / ۷۷-۷۸)

            اس آیت میں  بیان ہو اکہ جادوگروں  نے مومن ہو کر فرعون سے کہہ دیا کہ جو ہو سکے تو کرلے ہمیں  اس کی پرواہ نہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ مومن کے دل میں  جرأت ہوتی ہے اور وہ ایمان لانے کی صورت میں  مخلوق کی طرف سے اَذِیَّت پہنچنے کی پرواہ نہیں  کرتا۔ اس سے واضح ہوا کہ قادیانی کا نبی ہونا تو بڑی دور کی بات وہ تو مومن بھی نہیں  تھا کیونکہ وہ لوگوں  سے اتنا ڈرتا تھا کہ ان کے خوف کی وجہ سے حج ہی نہ کر سکا۔

 

20:73
اِنَّاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَاۤ اَكْرَهْتَنَا عَلَیْهِ مِنَ السِّحْرِؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى(۷۳)
بیشک ہم اپنے رب پر ایمان لائے کہ وہ ہماری خطائیں بخش دے اور وہ جو تو نے ہمیں مجبور کیا جادو پر (ف۹۷) اور ا لله بہتر ہے (ف۹۸) اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا (ف۹۹)

{اِنَّاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا:بیشک ہم اپنے رب پر ایمان لائے۔} جادوگروں  نے کہا کہ بیشک ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّپر ایمان لائے تاکہ وہ ہماری خطائیں  بخش دے اور وہ جادو بھی جس پر تو نے ہمیں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقابلے میں  مجبور کیا تھا ۔اور اگر ہم  اللہ تعالیٰ کی طاعت کریں  تو وہ تیرے مقابلے میں  فرمانبرداروں  کو ثواب دینے میں  بہتر ہے اور اگر ہم اس کی نافرمانی کریں  تو وہ نافرمانوں  پر عذاب کرنے کے لحاظ سے سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔

             فرعون نے جادوگروں  کو جو جادو پر مجبور کیا تھا اس کے بارے میں  بعض مفسرین نے فرمایا کہ فرعون نے جب جادوگروں  کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے بلایا تو جادوگروں  نے فرعون سے کہا تھا کہ ہم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں  ،چنانچہ اس کی کوشش کی گئی اور انہیں  ایسا موقع فراہم کر دیا گیا ، انہوں  نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خواب میں  ہیں  اور عصاء شریف پہرہ دے رہا ہے۔ یہ دیکھ کر جادوگروں  نے فرعون سے کہا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جادوگر نہیں ، کیونکہ جادوگر جب سوتا ہے تو اس وقت اس کا جادو کام نہیں  کرتا مگر فرعون نے انہیں  جادو کرنے پر مجبور کیا ۔ اس کی مغفرت کے وہ جادوگر  اللہ تعالیٰ سے طالب اور امیدوار ہیں ۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۲۵۹)

20:74
اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَؕ-لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَ لَا یَحْیٰى(۷۴)
بیشک جو اپنے رب کے حضور مجرم (ف۱۰۰) ہوکر آئے تو ضرور اس کے لیے جہنم ہے جس میں نہ مرے (ف۱۰۱) نہ جئے (ف۱۰۲)

{اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا:بیشک جو اپنے رب کے حضور مجرم ہوکر آئے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ یہ جادو گروں  کے کلام کا حصہ ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں  سے  اللہ تعالیٰ کا کلام شروع ہو رہا ہے، اور ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور فرعون کی طرح کافر ہوکر آئے گا تو ضرور اس کے لیے جہنم ہے جس میں  نہ مرے گا کہ مرکر ہی اس سے چھوٹ سکے اور نہ ہی اس طرح زندہ رہے گا جس سے کچھ نفع اٹھا سکے اور جن کا ایمان پر خاتمہ ہوا ہو اور انہوں  نے اپنی زندگی میں  نیک عمل کئے ہوں  ، فرائض اور نوافل بجا لائے ہوں  تو ان کیلئے بلند درجات ہیں  اور وہ درجات ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں  جن کے نیچے نہریں  جاری ہیں ، ہمیشہ ان میں  رہیں  گے اور یہ اس کی جزا ہے جو کفر کی نجاست اور گناہوں  کی گندگی سے پاک ہوا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۲۵۹)

{فَاُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰى:تو ان کیلئے بلند درجات ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں  نے نیک اعمال کئے ان کے لئے بلند درجات ہیں ۔ بلند درجات والوں  کے مقام کے بارے میں  سننِ ترمذی اورا بنِ ماجہ میں  حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے روایت ہے ، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’بلند درجات والوں  کو نچلے درجات والے ایسے دیکھیں  گے جیسے تم اُفق میں  طلوع ہونے والے ستاروں  کو دیکھتے ہو۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا ان میں  سے ہیں  اوریہ اسی کے اہل ہیں ۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی  اللہ عنہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۳۷۲، الحدیث: ۳۶۷۸)

{وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَكّٰى:اور یہ اس کی جزا ہے جو پاک ہوا۔} اس آیتِ مبارکہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہر عقلمند کو چاہئے کہ اگر وہ کفر و شرک کی نجاست سے آلودہ ہے تو وہ  اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا اقرار کر کے اور اسلام کے بیان کردہ عقائد اختیار کر کے کفر و شرک کی نجاست سے فوری طور پر پاک ہو جائے اور اس کے بعد خود کوگناہوں  کی گندگی سے پاک صاف رکھے، یونہی ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ تمام گناہوں ، مذموم نَفسانی اَخلاق اور برے شیطانی اَوصاف سے خود کو پاک کرے تاکہ قیامت کے دن اسے  اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ ملے اور اس کے فضل وکرم کے صدقے جنت میں  بلند درجات نصیب ہوں ۔

             اے  اللہ !عَزَّوَجَلَّ، ہمارے تمام گناہوں  اور ساری خطاؤں  کو معاف فرما، ہمیں  گناہوں  سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق مَرحمت فرما، ہماری زندگی اور موت دونوں  کو بہتر فرما، دینِ اسلام پر ہمیں  ثابت قدمی نصیب فرما، حشر کے دن ہمیں  اپنے حبیبصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت اور ان کے صدقے میزانِ عمل اور پل صراط پر آسانی عطا فرما اور ہم تیرے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے صدقے تجھ سے جنت ،اس میں  بلند درجات اور تیرے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پڑوس مانگتے ہیں ،اے  اللہ !عَزَّوَجَلَّ، اپنی رحمت اور فضل و کرم کے صدقے ہمیں  یہ عطا فرما۔اٰمین۔

20:75
وَ مَنْ یَّاْتِهٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰىۙ(۷۵)
اور جو اس کے حضور ایمان کے ساتھ آئے کہ اچھے کام کیے ہوں (ف۱۰۳) تو انہیں کے درجے اونچے،

20:76
جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَكّٰى۠(۷۶)
بسنے کے باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ان میں رہیں، اور یہ صلہ ہے اس کا جو پاک ہوا (ف۱۰۴)

20:77
وَ لَقَدْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى ﳔ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًاۙ-لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّ لَا تَخْشٰى(۷۷)
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو وحی کی (ف۱۰۵) کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے چل (ف۱۰۶) اور ان کے لیے دریا میں سوکھا راستہ نکال دے (ف۱۰۷) تجھے ڈر نہ ہوگا کہ فرعون آلے اور نہ خطرہ (ف۱۰۸)

{وَ لَقَدْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى:اور بیشک ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات دیکھ کر فرعون راہ پر نہ آیا اور اس نے نصیحت حاصل نہ کی اور وہ بنی اسرائیل پر پہلے سے زیادہ ظلم و ستم کرنے لگا تو  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی طرف وحی فرمائی کہ راتوں  رات میرے بندوں  کو مصر سے لے چلو اور جب آپ لوگ دریا کے کنارے پہنچیں  اور فرعونی لشکر پیچھے سے آئے تو اندیشہ نہ کرنا اور ان کے لیے اپنا عصا مار کر دریا میں  خشک راستہ نکال دو۔ تجھے ڈر نہ ہوگا کہ فرعون پکڑ لے اور نہ تجھے دریا میں  غرق ہونے کا خطرہ ہوگا۔( ابو سعود، طہ، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۴۷۹، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۶۹۸، ملتقطاً)

20:78
فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِهٖ فَغَشِیَهُمْ مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَهُمْؕ(۷۸)
تو ان کے پیچھے فرعون پڑا اپنے لشکر لے کر (ف۱۰۹) تو انہیں دریا نے ڈھانپ لیا جیسا ڈھانپ لیا، (ف۱۱۰)

{فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِهٖ:تو فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کے پیچھے چل پڑا ۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  اللہ تعالیٰ کا حکم پا کررات کے پہلے وقت میں  بنی اسرائیل کو اپنے ہمراہ لے کر مصر سے روانہ ہو گئے تو فرعون قبطیوں  کا لشکر لے کر ان کے پیچھے چل پڑا اور جب فرعون اپنے لشکر کے ساتھ دریا میں  بنے ہوئے راستوں  میں  داخل ہوگیا تو انہیں  دریا نے اس طرح ڈھانپ لیا اور اس کا پانی ان کے سروں  سے اس طرح اونچا ہو گیا جس کی حقیقت  اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ، یوں  فرعون اور اس کا لشکر غرق ہو گیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماپنی قوم کے ساتھ فرعون کے ظلم و ستم اور دریا میں  ڈوبنے سے نجات پا گئے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۶۹۸، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۲۵۹، ملتقطاً)

20:79
وَ اَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهٗ وَ مَا هَدٰى(۷۹)
اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور راہ نہ دکھائی (ف۱۱۱)

{وَ اَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهٗ:اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا۔} یعنی فرعون نے اپنی قوم کو ایسا راستہ دکھایا جس پر چل کر وہ دین اور دنیا دونوں  میں  نقصان اٹھا گئے کہ کفر کی وجہ سے وہ دنیا میں  ہولناک عذاب میں  مبتلا ہو کر مر گئے اور اب وہ آخرت کے اَبدی عذاب کا سامنا کر رہے ہیں  اور فرعون نے اپنی قوم کو کبھی ایسا راستہ نہ دکھایا جس پر چل کر وہ دین اور دنیا کی بھلائیوں  تک پہنچ جاتے۔(ابو سعود، طہ، تحت الآیۃ: ۷۹،  ۳ / ۴۸۰)

            اس سے معلوم ہو ا کہ قوم کے دینی اور دُنْیَوی نقصان یا بھلائی میں  قوم کے سربراہ اور حکمران کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے، اگر یہ سدھر جائے تو قوم دنیا میں  بھی حقیقی کامیابی پا سکتی ہے اور آخرت میں  بھی حقیقی فلاح سے سرفراز ہو سکتی ہے اور اگر یہ بگڑ جائے تو قوم دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے بے پناہ نقصان اٹھاتی ہے ۔

20:80
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ قَدْ اَنْجَیْنٰكُمْ مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَ وٰعَدْنٰكُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَیْمَنَ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى(۸۰)
اے بنی اسرائیل بیشک ہم نے تم کو تمہارے دشمن (ف۱۱۲) سے نجات دی اور تمہیں طور کی داہنی طرف کا وعدہ دیا (ف۱۱۳) اور تم پر من اور سلوی ٰ اتارا (ف۱۱۴)

{یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:اے بنی اسرائیل!} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون اور ا س کی قوم کے غرق ہونے کے بعد  اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ اے بنی اسرائیل! بیشک ہم نے تمہیں  تمہارے دشمن فرعون اور ا س کی قوم سے نجات دی جو تمہارے بیٹوں  کو ذبح کرتے ،بیٹیوں  کو زندہ رکھتے اور تم سے انتہائی محنت و مشقت والے کام لیتے تھے، اور ہم نے اپنے نبی عَلَیْہِ  السَّلَامکے ذریعے تمہارے ساتھ کوہِ طور کی دائیں  جانب کا وعدہ کیا کہ ہم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو وہاں  توریت عطا فرمائیں  گے جس پر عمل کیا جائے اور ہم نے تم پر تیہ کے میدان میں  مَنّ و سَلْویٰ اتارا اور فرمایا ’’ ہم نے جو پاکیزہ رزق تمہیں  دیا ہے اس میں  سے کھاؤ اور اس میں  ناشکری اور نعمت کا انکار کر کے اور ان نعمتوں  کو مَعاصی اور گناہوں  میں  خرچ کر کے یا ایک دوسرے پرظلم کر کے زیادتی نہ کرو ورنہ تم پر میرا غضب اتر آئے گااور جس پر میرا غضب اتر آیا توبیشک وہ جہنم میں  گرگیا اور ہلاک ہوا اور بیشک میں  اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں  جس نے شرک سے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر آخری دم تک ہدایت پر رہا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۲، ۵ / ۴۱۰-۴۱۱، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۲، ۳ / ۲۵۹-۲۶۰، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۲، ص۶۹۸-۶۹۹، ملتقطاً)

توبہ کی اہمیت اور ا س کی قبولیت:

            اس سے معلوم ہوا کہ توبہ ایسی اہم ترین چیز ہے جس سے بندہ  اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش اور مغفرت کا پروانہ حاصل کر سکتا ہے ۔ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :جان لو کہ توبہ صابن کی طرح ہے تو جس طرح صابن ظاہری میل کچیل کو دور کر دیتا ہے اسی طرح توبہ باطنی یعنی گناہوں  کے میل اور گندگیوں  کو صاف کر دیتی ہے۔(روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵ / ۴۱۲)البتہ یہاں  یہ بات یاد رہے کہ وہی توبہ مقبول اور فائدہ مند ہے جو سچی ہو اور سچی توبہ اپنے گناہ کا اقرار کرنے ، اس پر نادم و شرمسار ہونے اور آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کے پختہ ارادے کا نام ہے اور جو لوگ فقط زبان سے توبہ کے الفاظ دہرا لینے یا ہاتھ سے توبہ توبہ کے اشارے کر لینے کو کافی سمجھتے ہیں  تو وہ یاد رکھیں  کہ یہ حقیقی توبہ نہیں  ہے۔

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

طٰهٰ
طٰهٰ
  00:00



Download

طٰهٰ
طٰهٰ
  00:00



Download