READ

Surah Taaha

طٰهٰ
135 Ayaat    مکیۃ


20:121
فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ٘-وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى۪ۖ(۱۲۱)
تو ان دونوں نے اس میں سے کھالیا اب ان پر ان کی شرم کی چیزیں ظاہر ہوئیں (ف۱۸۱) اور جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے (ف۱۸۲) اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی (ف۱۸۶)

{فَاَكَلَا مِنْهَا:تو ان دونوں  نے اس درخت میں  سے کھالیا۔} ابلیس کے وسوسہ دلانے کے بعد حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہانے اس درخت میں  سے کھا لیا تو ان کے جنتی لباس اتر گئے اور ان پر ان کی شرم کے مقام ظاہر ہوگئے اور وہ اپنا ستر چھپانے اور جسم ڈھانکنے کے لئے جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے اور درخت سے کھا کر حضرت آدمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّکے حکم میں  لغزش واقع ہوئی توانہوں  نے اس سے جو مقصد چاہا تھا وہ نہ پایا اور اس درخت کے کھانے سے انہیں  دائمی زندگی نہ ملی۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۳ / ۲۶۶)

انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عِصمت سے متعلق اہلسنّت و جماعت کا عقیدہ:

            یاد رہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لغزش کا واقع ہونا ارادے اور نیت سے نہ تھا بلکہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا ارادہ اور نیت حکم کو پورا کرنے اور اس چیز سے بچنے کا تھا جو جنت سے نکال دئیے جانے کا سبب بنے، لہٰذا کسی شخص کے لئے تاویل کے بغیر حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی طرف نافرمانی کی نسبت کرنا جائز نہیں ۔  اللہ تعالیٰ حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے راضی ہے اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد بھی  اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی مخالفت کرنے سے معصوم ہیں۔( صاوی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۴ / ۱۲۸۳)

            یہاں  انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عِصمت سے متعلق اہلسنّت و جماعت کے عقیدے کے بارے میں   اعلیٰ حضرت امام احمد ر ضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے ایک کلام کا خلاصہ ملاحظہ ہو ’’اہلِ حق یعنی اہلِ اسلام اور اہلسنّت وجماعت شاہراہِ عقیدت پر چل کر منزلِ مقصود کو پہنچے جبکہ سرکشی کرنے والے اور اہلِ باطل تفصیلات میں  ڈوب کر اور ان میں  ناحق غور کرکے گمراہی کے گڑھے اور بددینی کی گمراہیوں  میں  جا پڑے، انہوں  نے کہیں  دیکھا ’’ وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى‘‘ کہ اس میں  عصیاں  اور بظاہر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل سے رو گردانی کی نسبت حضرت آدم عَلَیْہِ  السَّلَام کی جانب کی گئی ہے۔ کہیں  سنا ’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ جس سے ذنب یعنی گناہ اور ا س کی بخشش کی نسبت کا حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جنابِ والا کی جانب گمان ہوتا ہے۔ کبھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  السَّلَام اور قومِ فرعون کے قبطی کا قصہ یاد آیا کہ آپ نے قبطی کو ظلم پر آمادہ پاکر ایک گھونسا مارا اور وہ قبطی (مر کر) قبر کی گہرائی میں  پہنچا۔ کبھی حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کے ایک اُمتی اور یّاہ کا فسانہ سن پایا حالانکہ یہ حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یہودیوں  کا الزام تھا جسے انہوں  نے خوب اچھالا اور عوام الناس کی زبان پر عام ہوگیا حتّٰی کہ اس کی شہرت کی بنا پر احوال کی تحقیق اور تفتیش کے بغیر بعض مفسرین نے اس واقعہ کو من و عن بیان فرما دیا، جب کہ امام رازی فرماتے ہیں  کہ یہ واقعہ میری تحقیق میں  سراسر باطل و لغو ہے۔ غرض بے عقل ،بے دینوں  اور بے دین بدعقلوں  نے یہ افسانہ سن پایا توچون و چرا کرنے لگے، پھر خدا و رسول کی ناراضی کے سوا اور بھی کچھ پھل پایا؟ اور اُلٹا ’’خُضْتُمْ كَالَّذِیْ خَاضُوْا‘‘ (اور تم بے ہودگی میں  پڑے جیسے وہ پڑے تھے)نے ’’وَ لٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ‘‘ (مگر عذاب کا قول کافروں  پر ٹھیک اُترا)کا دن دکھایا۔

            مسلمان ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھیں  کہ حضرات انبیائے کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکبیرہ گناہوں  سے مُطلَقاً اور گناہِ صغیرہ کے عمداً ارتکاب، اور ہر ایسے امر سے جو مخلوق کے لیے باعثِ نفرت ہو اور مخلوقِ خدا اِن کے باعث اُن سے دور بھاگے، نیز ایسے افعال سے جو وجاہت و مروت اور معززین کی شان و مرتبہ کے خلاف ہیں  قبلِ نبوت اور بعدِ نبوت بِالاجماع معصوم ہیں ۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: اعتقاد الاحباب، عقیدۂ خامسہ، ۲۹ / ۳۵۹-۳۶۰)

20:122
ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَیْهِ وَ هَدٰى(۱۲۲)
پھر اس کے رب نے چن لیا تو اس پر اپنی رحمت سے رجوع فرمائی اور اپنے قرب خاص کی راہ دکھائی،

{ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ:پھر اس کے رب نے اسے چن لیا۔} زمین پر تشریف آوری کے بعد حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام   اللہ تعالیٰ کی توفیق سے توبہ و اِستغفار میں  مشغول ہوئے اور جب انہوں  نے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  سرکار دو عالم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلہ سے دعا کی تو  اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما کران پر اپنی رحمت سے رجوع فرمایا اور انہیں  اپنے خاص قرب کاراستہ دکھایا۔

20:123
قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِیْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى ﳔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰى(۱۲۳)
فرمایا تم دونوں مل کر جنت سے اترو تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے، پھر اگر تم سب کو میری طرف سے ہدایت آئے، (ف۱۸۴) تو جو میری ہدایت کا پیرو ہو ا وہ نہ بہکے (ف۱۸۵) نہ بدبخت ہو (ف۱۸۶)

{قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِیْعًۢا:فرمایا: تم دونوں  اکٹھے جنت سے اترجاؤ۔} جب حضرت آدمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لغزش صادر ہوئی تو ا س کے بعد  اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور حضرت حواء رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاسے فرمایا: تم دونوں  اپنی ذُرِّیَّت کے ساتھ مل کر اکٹھے جنت سے زمین کی طرف اترجاؤ، تمہاری اولاد میں  سے بعض بعض کے دشمن ہوں  گے ،دنیا میں  ایک دوسرے سے حسد اور دین میں  اختلاف کریں  گے، پھر اے اولادِ آدم! اگر تمہارے پاس میری طرف سے کتاب اور رسول کی صورت میں  کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ دنیا میں  نہ گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں  بدبخت ہوگا کیونکہ آخرت کی بدبختی دنیا میں  حق راستے سے بہکنے کا نتیجہ ہے تو جو کوئی  اللہ تعالیٰ کی کتاب اوراس کے برحق رسول کی پیروی کرے اور ان کے حکم کے مطابق چلے وہ دنیا میں  گمراہ ہونے سے اور آخرت میں  اس گمراہی کے عذاب و وبال سے نجات پائے گا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۳،  ۵ / ۴۴۰-۴۴۱، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ص۷۰۶، ملتقطاً)

دنیا میں  گمراہی اور آخرت میں  بدبختی سے بچنے کا ذریعہ:

            اِس سے معلوم ہوا کہ اِس امت کے لوگوں  کا قرآنِ مجید میں  دئیے گئے اَحکامات پر عمل کرنا اور سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی اطاعت کرنا انہیں  دنیا میں  گمراہی سے بچائے گا اور آخرت میں  بدبختی سے نجات دلائے گا، لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ وہ قرآنِ مجید کی پیروی کرے اور حضور پُر نورصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اِتباع کرے تاکہ وہ گمراہ اور بدبخت ہونے سے بچ جائے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی پیروی کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

’’وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ‘‘(انعام: ۱۵۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان:  اور یہ (قرآن)وہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ، بڑی برکت والا ہے تو تم اس کی پیروی کرو اور پرہیزگار بنو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ اتَّبِعُوْۤا اَحْسَنَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘(زمر:۵۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تمہارے رب کی طرف سے جو بہترین چیزتمہاری طرف نازل کی گئی ہے اس کی اس وقت سے پہلے پیروی اختیار کرلو کہ تم پر اچانک عذا ب آجائے اور تمہیں  خبر (بھی) نہ ہو۔

            اور اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ارشاد فرماتا ہے

’’قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ۪-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ‘‘(اعراف:۱۵۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اے لوگو!میں  تم سب کی طرف   اللہ کا رسول ہوں  جس کے لئے آسمانوں  اور زمین کی بادشاہت ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو ایمان لاؤ  اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں  ہیں ،  اللہ اور اس کی تمام باتوں  پر ایمان لاتے ہیں  اوران کی غلامی کرو تاکہ تم ہدایت پالو۔

            اورارشاد فرماتا ہے:

’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ‘‘(اٰل عمران۳۱،۳۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے حبیب! فرمادو کہ اے لوگو! اگر تم  اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤ  اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور  اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ تم فرمادو کہ  اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو پھراگر وہ منہ پھیریں  تو  اللہ کافروں  کو پسند نہیں  کرتا۔

اور جو لوگ قرآن عظیم کی پیروی اور رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع کریں  ان کے بارے میں  ارشاد فرماتاہے:  ’’اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(اعراف :۱۵۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان:  وہ جواس رسول کی اتباع کریں  جو غیب کی خبریں  دینے والے ہیں ،جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں  ہیں  ، جسے یہ (اہلِ کتاب )اپنے پاس تورات اور انجیل میں  لکھا ہوا پاتے ہیں ، وہ انہیں  نیکی کا حکم دیتے ہیں  اور انہیں  برائی سے منع کرتے ہیں  اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں  حلال فرماتے ہیں  اور گندی چیزیں  ان پر حرام کرتے ہیں  اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں  اتارتے ہیں جو ان پر تھیں تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں  اور اس کی تعظیم کریں  اور اس کی مدد کریں  اور اس نور کی پیروی کریں  جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔

             اللہ تعالیٰ ہمیں  قرآنِ مجید کی پیروی کرنے اور اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین۔

 

20:124
وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى(۱۲۴)
اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا (ف۱۸۷) تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگانی ہے (ف۱۸۸) اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے،

{وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ:اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا ۔} اس آیت میں  ذکر سے مراد قرآنِ مجید پر ایمان لانا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ دلائل ہیں  جنہیں  اسلام کی حقانیت کے ثبوت کے طور پر نازل کیا گیا ہے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ذکر سے سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مقدس ذات مراد ہو کیونکہ ذکر آپ ہی سے حاصل ہوتا ہے اور تنگ زندگی گزارنے کے مقام کے بارے میں  مفسرین کے 5 اَقوال درج ذیل ہیں :

(1)…دنیا میں  تنگ زندگی ہے۔ دنیا کی تنگ زندگی یہ ہے کہ بندہ ہدایت کی پیروی نہ کرے، برے عمل اور حرام فعل میں  مبتلا ہو، قناعت سے محروم ہو کر حرص میں  گرفتار ہو جائے اور مال و اَسباب کی کثرت کے باوجود بھی اس کو دل کی فراخی اور سکون مُیَسَّر نہ ہو ، دل ہر چیز کی طلب میں  اور حرص کے غموں  سے آوارہ ہو کہ یہ نہیں  وہ نہیں ، حال تاریک اور وقت خراب رہے اور توکّل کرنے والے مومن کی طرح اس کو سکون و فراغ حاصل ہی نہ ہو جسے حیاتِ طیّبہ یعنی پاکیزہ زندگی کہتے ہیں ۔

(2)…قبر میں  تنگ زندگی ہے۔ قبر کی تنگ زندگی یہ ہے کہ قبر میں  عذاب دیا جائے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا ’’یہ آیت اسود بن عبد العزیٰ مخزومی کے حق میں  نازل ہوئی اور قبر کی تنگ زندگی سے مراد قبر کا اِس سختی سے دبانا ہے جس سے ایک طرف کی پسلیاں  دوسری طرف آ جاتی ہیں ۔

            حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا’’کیا تم جانتے ہوکہ معیشت ِضَنک کیا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نے عرض کی کہ  اللہ تعالیٰ اور اس کارسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی زیادہ جانتے ہیں ۔ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’یہ قبر میں  کافر کا عذاب ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں  میری جان ہے کافر پر ننانوے تنین مُسلَّط کئے جائیں  گے کیا تم جانتے ہو کہ تنین کیا ہیں  ؟ وہ ننانوے سانپ ہیں  ہرسانپ کے سات پھن ہیں  وہ اس کے جسم میں  پھونکیں  ماریں  گے اور قیامت تک اس کو ڈستے اور نوچتے رہیں  گے۔( مسند ابی یعلی، مسند ابی ہریرۃ، شہر بن حوشب عن ابی ہریرۃ، ۵ / ۵۰۸، الحدیث: ۶۶۱۳)

(3)… آخرت میں  تنگ زندگی ہے۔ آخرت میں  تنگ زندگی جہنم کے عذاب میں  مبتلا ہونا ہے، جہاں  تھوہڑ، کھولتا پانی ، جہنمیوں  کے خون اور ان کے پیپ کھانے پینے کو دئیے جائیں  گے۔

(4)…دین میں  تنگ زندگی ہے۔ دین میں  تنگ زندگی یہ ہے کہ نیکی کی راہیں  تنگ ہو جائیں  اور آدمی حرام کمانے میں  مبتلا ہو۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ ’’ بندے کو تھوڑا ملے یا زیادہ، اگر خوفِ خدا نہیں  تو اس میں  کچھ بھلائی نہیں  اور یہ تنگ زندگانی ہے ۔

(5)…دنیا ، قبر، آخرت اور دین سب میں  تنگ زندگی ہے۔( تفسیرقرطبی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۶ / ۱۳۹، الجزء الحادی عشر، تفسیر کبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۸ / ۱۱۰-۱۱۱، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۳ / ۲۶۸، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ص۷۰۶، ملتقطًا)

{وَ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى:اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں  گے۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ ہم اپنے ذکر سے اِعراض کرنے والے کو قیامت کے دن اندھا اٹھائیں  گے اور اس وقت وہ کہے گا: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو نے مجھے اندھا کیوں  اٹھایا حالانکہ میں  تو دنیا میں  دیکھنے والا تھا؟ یاد رہے کہ کافر قیامت کا پورا عرصہ اندھا نہیں  رہے گا بلکہ قیامت کے بعض اَحوال میں  اس کی بینائی نہیں  ہو گی اور بعض احوال میں  اسے بینائی عطا کر دی جائے گی تاکہ وہ قیامت کے ہولناک مَناظِر دیکھ سکے۔

 

20:125
قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْۤ اَعْمٰى وَ قَدْ كُنْتُ بَصِیْرًا(۱۲۵)
کہے گا اے رب میرے! مجھے تو نے کیوں اندھا اٹھایا میں تو انکھیارا (بینا) تھا (ف۱۸۹)

20:126
قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَهَاۚ-وَ كَذٰلِكَ الْیَوْمَ تُنْسٰى(۱۲۶)
فرمائے گا یونہی تیرے پاس ہماری آیتیں آئیں تھیں (ف۱۹۰) تو نے انہیں بھلادیا اور ایسے ہی آج تیری کوئی نہ لے گا (ف۱۹۱)

{قَالَ: اللہ فرمائے گا۔}اس کے جواب میں   اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ دنیا میں  تیرے پاس میری نشانیاں  آئیں  لیکن تو ان پر ایمان نہ لایا اور تونے انہیں  پسِ پشت ڈال کران سے منہ پھیرلیا، اسی طرح آج ہم تجھے آگ میں  ڈال کر چھوڑ دیں گے اور تیرا حال پوچھنے والاکوئی نہ ہوگا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۶، ۳ / ۲۶۸)

 دونوں  جہاں  میں  گناہ اور نیکی کانتیجہ:

            اس سے معلوم ہوا کہ جیسے گناہ کا عذاب دنیا و آخرت میں  پڑتا ہے یونہی نیکی کا فائدہ دونوں  جہان میں  ملتا ہے ۔ جو مسلمان پانچوں  نمازیں  پابندی سے جماعت کے ساتھ ادا کرے اسے رزق میں  برکت ، قبر میں  فراخی نصیب ہوگی اور پل صراط پر آسانی سے گزرے گا اور جو جماعت کا تارک ہو گا اس کی کمائی میں  برکت نہ ہوگی، چہرے پر صالحین کے آثار نہ ہوں  گے ، لوگوں  کے دلوں  میں  اس سے نفرت ہوگی، پیاس و بھوک میں  جان کنی اور قبر کی تنگی میں  مبتلا ہوگا اور ا س کا حساب بھی سخت ہوگا۔

20:127
وَ كَذٰلِكَ نَجْزِیْ مَنْ اَسْرَفَ وَ لَمْ یُؤْمِنْۢ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖؕ-وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَدُّ وَ اَبْقٰى(۱۲۷)
اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں جو حد سے بڑھے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے، اور بیشک آخرت کا عذاب سب سے سخت تر اور سب سے دیرپا ہے،

{وَ كَذٰلِكَ نَجْزِیْ:اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم اس شخص کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں  جو اپنے رب کی نافرمانی کرنے میں  حد سے بڑھ جائے اور اپنے رب کی آیتوں  پر ایمان نہ لائے اور بیشک آخرت کا عذاب دُنْیَوی عذاب کے مقابلے میں سب سے شدید اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ لہٰذا جو  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات پانے اور ا س کا ثواب حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے میں  آنے والی دنیوی سختیوں  پر صبر کرے اور دنیا کی نفسانی خواہشات اور گناہوں  سے بچتا رہے کیونکہ جنت کو مصیبتوں  سے اور جہنم کو شہوتوں سے چھپایا گیا ہے۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۵ / ۴۴۲)

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَامکو بلاکر جنت کی طرف بھیجا اور ان سے فرمایا ’’تم جنت اور ان نعمتوں  کو دیکھو جو میں  نے اہلِ جنت کے لئے تیار کی ہیں  ۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام دیکھ کر واپس آئے اور عرض کی :تیری عزت کی قسم! جو ان نعمتوں  کے بارے میں  سن لے گا وہ ان میں  داخل ہو گا۔ جنت کو مصیبتوں  سے چھپا دیا گیا، پھر ارشاد فرمایا ’’تم جنت کی طرف دوبارہ جاؤ اور اسے دیکھو۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَامدیکھ کر واپس لوٹے اور عرض کی: تیری عزت کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ اس میں  کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔ پھر  اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَامکو جہنم کی طرف بھیجا اور ارشاد فرمایا ’’تم جہنم کی طرف جاؤ اور ان عذابات کو دیکھو جو میں  نے اہلِ جہنم کے لئے تیار کئے ہیں  ۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَامانہیں  دیکھ کر واپس آئے اور عرض کی :تیری عزت کی قسم! جس نے ان عذابات کے بارے میں  سنا وہ جہنم میں  داخل نہیں  ہو گا۔ جہنم کو شہوتوں  سے ڈھانپ دیا گیا ،پھر ارشاد فرمایا ’’جہنم کی طرف لوٹو اور اسے دیکھو۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَامدیکھ کر آئے اور عرض کی :تیری عزت کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ اس میں  داخل ہونے سے کوئی نہ بچے گا۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی  اللہ عنہ، ۳ / ۳۰۸، الحدیث: ۸۸۷۰)

 

20:128
اَفَلَمْ یَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰكِنِهِمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّهٰى۠(۱۲۸)
تو کیا انہیں اس سے راہ نہ ملی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی سنگتیں (قومیں) ہلاک کردیں (ف۱۹۲) کہ یہ ان کے بسنے کی جگہ چلتے پھرتے ہیں (ف۱۹۳) بیشک اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کو (ف۱۹۴)

{اَفَلَمْ یَهْدِ لَهُمْ:تو کیا انہیں  اس بات نے ہدایت نہ دی۔} ارشاد فرمایا کہ کیا کفارِقریش کو اس بات نے ہدایت نہ دی کہ ہم نے ان سے پہلے رسولوں  کو نہ ماننے والی کتنی قومیں  ہلاک کردیں  جن کی رہائش کی جگہوں  میں  یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں  اور اپنے سفروں  میں  ان کے علاقوں  سے گزرتے اور ان کی ہلاکت کے نشان دیکھتے ہیں ۔بیشک سابقہ قوموں  کو عذاب کے ذریعے ہلاک کر دینے میں  ان عقل والوں  کیلئے نشانیاں  ہیں  جو عبرت حاصل کریں  اور یہ سمجھ سکیں  کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تکذیب اور ان کی مخالفت کا انجام برا ہے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۳ / ۲۶۹، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ص۷۰۶، ملتقطاً)

20:129
وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَّ اَجَلٌ مُّسَمًّىؕ(۱۲۹)
اور اگر تمہارے رب کی ایک بات نہ گزر چکی ہوتی (ف۱۹۵) تو ضرور عذاب انھیں (ف۱۹۶) لپٹ جاتا اور اگر نہ ہوتا ایک وعدہ ٹھہرایا ہوا (ف۱۹۷)

{وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ:اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہو چکی ہوتی۔} ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک بات پہلے طے نہ ہو چکی ہوتی کہ محمد مصطفٰی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت ِ دعوت کے عذاب میں  قیامت تک تاخیر کی جائے گی اور سابقہ امتوں  کی طرح جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دینے والا عذاب ان پر نازل نہیں  کیا جائے گااور قیامت کے دن ان کے عذاب کی ایک مقررہ مدت نہ ہوتی تو ضرور عذاب انہیں  دنیا ہی میں  لپٹ جاتا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۵ / ۴۴۳)

اس امت پر عذابِ عام نہ آنے کی وجوہات:

اس سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی امت میں  سے جو لوگ آپ کو جھٹلائیں  گے اور آپ پر ایمان نہ لائیں  گے توان پر دنیا میں  ویسا عذاب نہیں  آئے گا جیسا پچھلی امتوں  کے کفار پر نازل کیا گیا تھا کہ ان کی تمام بستیاں  تباہ و برباد کر دی جائیں  اور ان میں سے کوئی کافر زندہ نہ بچے، مفسرین نے اس کی چند وجوہات بھی بیان کی ہیں  جو کہ درج ذیل ہیں :

(1)… اللہ تعالیٰ کے علم میں  ہے کہ ان جھٹلانے والوں  میں  سے بعض کفارایمان لے آئیں  گے اس لئے ان پر ویسا عذاب نازل نہ ہو گا۔

(2)… اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ان جھٹلانے والوں  کی نسل میں  کچھ ایسے لوگ پیداہوں  گے جومسلمان ہوجائیں  گے، اس لئے اگران پرعذاب نازل کردیاجائے تووہ لوگ بھی ہلاک ہوجائیں  گے ۔

(3)…بعض مفسرین کہتے ہیں  کہ اس میں  کوئی مصلحت پوشیدہ ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔

(4)… اللہ تعالیٰ مالک ومولیٰ ہے جسے چاہے عذاب دے اورجسے چاہے اپنے فضل کی وجہ سے عذاب سے مُستثنیٰ کردے۔(تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۸ / ۱۱۲)

(5)…علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں’’بے شک  اللہ تعالیٰ کے علم میں  تھا کہ وہ اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اِکرام کی وجہ سے ان کی امت سے عذابِ عام کو مُؤخَّر فرما دے گا اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس امت پر بھی ویسا ہی عذاب نازل ہوتا جیسا سابقہ امتوں  پر نازل ہوا تھا۔( صاوی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۴ / ۱۲۸۶)

عذاب مؤخر کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ جس نے (اپنے کفر و مَعاصی سے) توبہ کرنی ہے وہ توبہ کر لے اور جو (اپنے کفر و معاصی پر) قائم رہنا چاہتا ہے اس کی حجت ختم ہو جائے لہٰذا ہر عقلمند مُکَلَّف کو چاہئے کہ وہ قرآن مجید کی نصیحتوں  سے نصیحت حاصل کرے اور قادر و حکیم رب تعالیٰ سے ڈرے اور  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور ا س کی بارگاہ میں  سرِ تسلیم خم کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور انسان ہونے، اشرفُ المخلوقات ہونے اور تمام مصنوعات میں  سب سے بہترین ہونے کے باوجود جمادات سے بھی برا نہ بنے کہ قرآن پاک میں  ہے کہ  اللہ تعالیٰ کے خوف سے پتھر بھی اپنی جگہ سے گر جاتے ہیں  اور ان سے بھی پانی جاری ہوتا ہے۔

20:130
فَاصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَاۚ-وَ مِنْ اٰنَآئِ الَّیْلِ فَسَبِّحْ وَ اَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضٰى(۱۳۰)
تو ان کی باتوں پر صبر کرو اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے (ف۱۹۸) اور اس کے ڈوبنے سے پہلے (ف۱۹۹) اور رات کی گھڑیوں میں اس کی پاکی بولو (ف۲۰۰) اور دن کے کناروں پر (ف۲۰۱) اس امید پر کہ تم راضی ہو (ف۲۰۲)

{فَاصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ:تو آپ ان کی باتوں  پر صبر کریں ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو جھٹلانے والوں  سے عذاب مؤخر کر کے ہم نے انہیں  مہلت دی ہے ، اب اگر یہ اپنے کفر پر ہی قائم رہے تو ضرور عذاب میں  مبتلا ہوں  اس لئے آپ ان کی دل آزار باتوں  پر صبر کرتے رہیں  یہاں  تک کہ ان کے بارے میں  کوئی حکم نازل ہو جائے۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۵ / ۴۴۴)

{وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ:اوراپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے رہو۔} یہاں  سے سورج طلوع ہونے سے پہلے ، غروب ہونے سے پہلے ، رات کی کچھ گھڑیوں  میں اور دن کے کناروں  پر حمد کے ساتھ  اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنے کا حکم دیا گیا، سورج طلوع ہونے سے پہلے پاکی بیان کرنے سے مراد نمازِفجر ادا کرنا ہے ۔ سورج غروب ہونے سے پہلے پاکی بیان کرنے سے مراد ظہر و عصر کی نمازیں  ادا کرنا ہیں  جو کہ دن کے دوسرے نصف میں  سورج کے زوال اور غروب کے درمیان واقع ہیں  ۔ رات کی کچھ گھڑیوں  میں  پاکی بیان کرنے سے مغرب اور عشا کی نمازیں  پڑھنا مراد ہے۔ دن کے کناروں  میں  پاکی بیان کرنے سے فجر اور مغرب کی نمازیں  مراد ہیں  اور یہاں  تاکید کے طور پر ان نمازوں  کی تکرار فرمائی گئی ہے ۔ بعض مفسرین سورج غروب ہونے سے پہلے سے نمازِ عصر اور دن کے کناروں  سے نمازِ ظہر مراد لیتے ہیں  ، ان کی تَوجیہہ یہ ہے کہ نمازِ ظہر زوال کے بعد ہے اور اس وقت دن کے پہلے نصف اور دوسرے نصف کے کنارے ملتے ہیں  اور یہاں  پہلے نصف کی انتہا اور دوسرے نصف کی ابتدا ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ص۷۰۷، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۳ / ۲۶۹، ملتقطاً)

{لَعَلَّكَ تَرْضٰى: اس امید پر کہ تم راضی ہوجاؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان اوقات میں  اس امید پر  اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے رہیں  کہ آپ  اللہ تعالیٰ کے فضل و عطا اور اس کے انعام و اِکرام سے راضی ہوں ، آپ کو امت کے حق میں  شفیع بنا کر آپ کی شفاعت قبول فرمائے اور آپ کو راضی کرے۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۵ / ۴۴۴-۴۴۵، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۳ / ۲۶۹)

 اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رضا چاہتا ہے :

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  اس آیت کے تحت اپنی مشہور کتاب تفسیر صاوی میں  فرماتے ہیں  :اے بندے! اس لطف و کرم والے خطاب کو دیکھ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ کے حبیب ہیں  اور ساری مخلوق سے افضل ہیں  کیونکہ  اللہ تعالیٰ نے ان سے یوں  نہیں  ارشاد فرمایا ’’تاکہ میں  آپ سے راضی ہو جاؤں۔یونہی اس طرح کا کوئی اور کلام نہیں  فرمایا (جیسے یوں  نہیں  فرمایا ’’تاکہ آپ کو میری رضا حاصل ہو جائے) بلکہ یوں  ارشاد فرمایا ہے ’’لَعَلَّكَ تَرْضٰى‘‘ یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تاکہ آپ راضی ہو جائیں ۔ اور یہاں  نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ فرمان بھی ملحوظ رہے کہ میری آنکھوں  کی ٹھنڈک نماز میں  رکھی گئی ہے ‘‘اور حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کا یہ قول بھی پیش ِنظر رہے (جس میں آپ اپنے پیارے محبوب سے عرض کرتی ہیں  :یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،) میں  حضور کے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھتی ہوں  کہ وہ حضور کی خواہش میں  جلدی فرماتا ہے۔‘‘ پس رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نماز کا حکم ا س لئے نہیں  دیا گیا کہ ان کی کوئی خطا ہے جو معاف ہو جائے یا اس لئے نہیں  دیا گیا نماز ادا کرنے کی وجہ سے  اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو جائے بلکہ اس لئے دیاگیا ہے تاکہ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ راضی ہو جائیں  کیونکہ نماز میں  حضور پُر نورصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے ربعَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں  حاضری دیتے ہیں  جو کہ ان کی آنکھوں  کی ٹھنڈک ہے اور اس امت کے کامل عارف اولیاءِ کرام کو بھی اس مقام سے کچھ حصہ ملتا ہے۔( صاوی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۴ / ۱۲۸۷)

 

20:131
وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﳔ لِنَفْتِنَهُمْ فِیْهِؕ-وَ رِزْقُ رَبِّكَ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى(۱۳۱)
اور اے سننے والے اپنی آنکھیں نہ پھیلا اس کی طرف جو ہم نے کافروں کے جوڑوں کو برتنے کے لیے دی ہے جتنی دنیا کی تازگی (ف۲۰۳) کہ ہم انہیں اس کے سبب فتنہ میں ڈالیں (ف۲۰۴) اور تیرے رب کا رزق (ف۲۰۵) سب سے اچھا اور سب سے دیرپا ہے،

{وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى:اوراس کی طرف تو اپنی آنکھیں  نہ پھیلا۔} اس آیت میں  بظاہر خطاب نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ہے اور اس سے مراد آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے سننے والے! ہم نے کافروں  کے مختلف گروہوں  جیسے یہودیوں ، عیسائیوں  اور مشرکوں  وغیرہ کودنیا کا جو ساز و سامان فائدہ اٹھانے کیلئے دیا ہے وہ اس وجہ سے دیا ہے تاکہ ہم انہیں  اس کے سبب اس طرح آزمائش میں  ڈالیں  کہ ان پر جتنی نعمت زیادہ ہو اتنی ہی ان کی سرکشی اور ان کا طُغیان بڑھے اور وہ سزائے آخرت کے سزاوار ہوں  ،لہٰذا تو تعجب اور اچھائی کے طور پر اس کی طرف اپنی آنکھیں  نہ پھیلا اور آخرت میں  تیرے ربعَزَّوَجَلَّ کا رزق جنت اور ا س کی نعمتیں سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا رزق ہے۔( البحر المحیط، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۶ / ۲۶۹، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۱،ص۷۰۷، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۳ / ۲۶۹-۲۷۰، ملتقطاً)

کفار کی ترقی ان کے لئے آزمائش ہے:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ کافروں  کے دُنْیَوی سازو سامان،مال و دولت اور عیش و عشرت کافروں  کے لئے  اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش ہیں  اس لئے مومن کو چاہئے کہ وہ کفار کی ان چیزوں  کو تعجب اور اچھائی کی نظر سے نہ دیکھے۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ نافرمانوں  کی شان و شوکت اور رعب داب نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ گناہ اور معصیت کی ذلت کس طرح ان کی گردنوں  سے نمودار ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۱،ص۷۰۷)

                 اس میں  ان لوگوں  کے لئے بڑی نصیحت ہے جو فی زمانہ کفار کی دنیوی ٹیکنالوجی میں  ترقی، مال و دولت اور عیش عشرت کی فراوانی دیکھ کرتو ان سے انتہائی مرعوب اور دین ِاسلام سے ناراض دکھائی دیتے ہیں  جبکہ انہیں  یہ دکھائی نہیں  دیتا کہ اس ترقی اور دولت مندی کی وجہ سے وہ  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے اور ا س کے احکام سے سرکشی کرنے میں  کتنا آگے بڑھ چکے ہیں ، کیا انہوں  نے دیکھا نہیں  کہ اسی ترقی کے سبب آج کونسا گناہ ایسا ہے جو وہ نہیں  کر رہے …؟ فحاشی ، عُریانی ، بے حیائی اور بے شرمی کی کونسی ایسی حد ہے جو وہ پار نہیں  کر چکے…؟ ظلم و ستم ، سفاکی اور بے رحمی کی کونسی ایسی لکیر ہے جسے وہ مٹا نہیں  چکے…؟ مسلمانوں  کو ذلت و رسوائی میں  ڈبونے کے لئے کون سا ایسا دریا ہے جس کے بند وہ توڑ نہیں  چکے…؟ افسوس! ان سب چیزوں  کو اپنی جیتی جاگتی آنکھوں  سے دیکھنے ،سماعت سے بھر پور کانوں  سے سننے کے باوجود بھی لوگ عبرت نہیں  پکڑتے اور کفار کے عیش و عشرت اور ترقی و دولت کی داستانیں  سن سنا کر اور مسلمانوں  کی ذلت و غربت کا رونا رو کر نہ صرف خود اسلام سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں  بلکہ دوسرے مسلمانوں  کو بھی دین ِاسلام سے دور کرنے کی کوششوں  میں  مصروف ہیں ۔  اللہ تعالیٰ انہیں  عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے۔

 

20:132
وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ-لَا نَسْــٴَـلُكَ رِزْقًاؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكَؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى(۱۳۲)
اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور خود اس پر ثابت رہ، کچھ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے (ف۲۰۶) ہم تجھے روزی دیں گے (ف۲۰۷) اور انجام کا بھلا پرہیزگاری کے لیے،

{وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ:اور اپنے گھر والوں  کو نماز کا حکم دو۔}  ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح ہم نے آپ کو نماز ادا کرنے کا حکم دیا اسی طرح آپ بھی اپنے گھر والوں  کو نماز پڑھنے کا حکم دیں  اور خود بھی نماز ادا کرنے پر ثابت قدم رہیں ۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۲، ۵ / ۴۴۸)

            حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تونبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آٹھ ماہ تک حضرت علی کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے دروازے پرصبح کی نمازکے وقت تشریف لاتے رہے اور فرماتے: ’’اَلصَّلَاۃُ رَحِمَکُمُ اللّٰہُ،اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا‘‘(ابن عساکر، حرف الطاء فی آباء من اسمہ علی، علی بن ابی طالب۔۔۔ الخ، ۴۲ / ۱۳۶)

نماز اور مسلمانوں  کا حال:

            یاد رہے کہ اس خطاب میں  حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت بھی داخل ہے اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہر امتی کو بھی یہ حکم ہے کہ وہ اپنے گھروالوں  کو نماز ادا کرنے کا حکم دے اور خود بھی نماز ادا کرنے پر ثابت قدم رہے ۔

ایک اور مقام پر  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ‘‘(التحریم:۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں  اور اپنے گھر والوں  کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ، اس  پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں  جو  اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں  کرتے اور وہی کرتے ہیں  جو انہیں  حکم دیا جاتا ہے۔

            افسوس! فی زمانہ نماز کے معاملے میں  مسلمانوں  کا حال یہ ہے کہ گھر والے نمازیں  چھوڑدیں  ، انہیں  ا س کی پرواہ نہیں ۔خود کی نمازیں  ضائع ہو جائیں  ،انہیں  اس کی فکر نہیں  اورکوئی شخص نماز چھوڑنے پرانہیں  اُخروی حساب اور عذاب سے ڈرائے ،انہیں  اس کا احساس نہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت عطا فرمائے اورنہ صرف خود نمازیں  ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے بلکہ اپنے گھر والوں  کو بھی نمازی بنانے کی ہمت و توفیق نصیب کرے،اٰمین۔

{لَا نَسْــٴَـلُكَ رِزْقًا: ہم تجھ سے کوئی رزق نہیں  مانگتے۔} ارشاد فرمایا کہ ہم تجھ سے کوئی رزق نہیں  مانگتے اور اس بات کا پابند نہیں  کرتے کہ ہماری مخلوق کو روزی دے یا اپنے نفس اور اپنے اہل کی روزی کے ذمہ دار ہو بلکہ ہم تجھے روزی دیں  گے اور انہیں  بھی ، تو روزی کے غم میں  نہ پڑ ،بلکہ اپنے دل کو امر ِآخرت کے لئے فارغ رکھ کہ جو  اللہ تعالیٰ کے کام میں  ہوتا ہے  اللہ تعالیٰ اس کی کارسازی کرتا ہے اور آخرت کا اچھاانجام پرہیزگاری اختیار کرنے والوں  کے لیے ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۲، ص۷۰۷-۷۰۸)

 اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منہ موڑنے کا انجام:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندہ اس بات کا پابند ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے کسی کو روزی دینا اس کے ذمے نہیں  بلکہ سب کو روزی دینے والی ذات  اللہ تعالیٰ کی ہے ۔

اسی طرح ایک اور مقام پر  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :

’’وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ(۵۷)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ‘‘(الذاریات:۵۶۔۵۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور میں  نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔میں  ان سے کچھ رزق نہیں  مانگتا اور نہ  یہ چاہتا ہوں  کہ وہ مجھے کھلائیں ۔بیشک  اللہ ہی بڑا رزق دینے والا، قوت والا، قدرت والا ہے۔

            یاد رہے کہ ان آیتوں  کا مَنشاء یہ نہیں  کہ انسان کمانا چھوڑ دے،کیونکہ کمائی کرنے کا حکم قرآن و حدیث میں  بہت جگہ آیا ہے،بلکہ منشاء یہ ہے کہ بندہ کمائی کی فکر میں  آخرت سے غافل نہ ہو اوردنیاکمانے میں  اتنامگن نہ ہوجائے کہ حلال وحرام کی تمیزنہ کرے اور نماز،روزے ،حج ،زکوٰۃ سے غافل ہوجائے ۔

            افسوس! فی زمانہ مسلمان مال کمانے میں  اس قدر مگن ہو چکے ہیں  کہ صبح شام ،دن رات اسی میں  سرگرداں  ہیں  اور ان کے پاس اتنی فرصت نہیں  کہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  سجدہ ریز ہوسکیں  اوراس خالق ومالک کویاد کرسکیں  جوحقیقی روزی دینے والاہے ،اور اتنی محنت و کوشش کے باوجود ان کا جو معاشی حال ہے وہ سب کے سامنے ہے کہ آج ہر کوئی رزق کی کمی، مہنگائی، بیماری اور پوری نہیں  پڑتی کا رونا رو رہا ہے۔ اے کاش! مسلمان رزق حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اس ذمہ داری کو بھی پورا کرتے جو  اللہ تعالیٰ نے ان پر لازم کی ہے تو آج ان کا حال اس سے بہت مختلف ہوتا۔ عبرت کے لئے یہاں  3اَحادیث ملاحظہ فرمائیں :

(1)…حضرت انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ، تاجدار رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جسے آخر ت کی فکر ہو اللہ تعالیٰ اس کا دل غنی کر دیتا ہے اور اس کے بکھرے ہوئے کاموں  کو جمع کر دیتا ہے اور دنیاا س کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے  اور جسے دنیا کی فکر ہو، اللہ تعالیٰ محتاجی اس کی دونوں  آنکھوں  کے سامنے اور اس کے جمع شدہ کاموں  کو مُنْتَشر کر دیتا ہے اور دنیا (کامال ) بھی اسے اتنا ہی ملتا ہے جتنا اس کے لئے مقدر ہے۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۳۰-باب، ۴ / ۲۱۱، الحدیث: ۲۴۷۳)

(2)…حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’جو شخص تمام فکروں  کو چھوڑ کر ایک چیز(یعنی) آخرت کی فکر سے تعلق رکھے گا،  اللہ تعالیٰ اس کے تمام دُنْیَوی کام اپنے ذمے لے لے گااور جو دنیوی فکروں  میں  مبتلا رہے گاتو  اللہ تعالیٰ کو کچھ پرواہ نہیں  ،خواہ وہ کہیں  بھی مرے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الہمّ بالدنیا، ۴ / ۴۲۵، الحدیث: ۴۱۰۶)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اے انسان! تو میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا ،میں  تیرا سینہ غنا سے بھر دوں  گااور تیری محتاجی کا دروازہ بند کر دوں  گااور اگر تو ایسا نہ کرے گا تو تیرے دونوں  ہاتھ مَشاغل سے بھر دوں  گااور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہ کروں  گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۳۰-باب، ۴ / ۲۱۱، الحدیث: ۲۴۷۴)

روزی کے دروازے کھلنے کا ذریعہ:

            اس آیت سے اشارۃً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نیک اعمال سے روزی کے دروازے کھلتے ہیں ۔ایک اور مقام پر  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

’’ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ‘‘(سورۂ طلاق:۲،۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو  اللہ سے ڈرے  اللہ اس کے لیےنکلنے کا راستہ بنادے گا۔ اور اسے وہاں  سے روزی دے گا جہاں  اس کا گمان (بھی)نہ ہو۔

20:133
وَ قَالُوْا لَوْ لَا یَاْتِیْنَا بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-اَوَ لَمْ تَاْتِهِمْ بَیِّنَةُ مَا فِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰى(۱۳۳)
اور کافر بولے یہ (ف۲۰۸) اپنے رب کے پاس سے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے (ف۲۰۹) اور کیا انہیں اس کا بیان نہ آیا جو اگلے صحیفوں میں ہے (ف۲۱۰)

{وَ قَالُوْا:اور کافر وں  نے کہا۔} کثیر نشانیاں  آ جانے اور معجزات کا مُتَواتِر ظہور ہو نے کے باوجودکفار ان سب سے اندھے بنے اور انہوں  نے حضورپُرنورصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نسبت یہ کہہ دیا کہ آپ اپنے ربّ کے پاس سے کوئی ایسی نشانی کیوں  نہیں  لاتے جو آپ کی نبوت صحیح ہونے پر دلالت کرے ، اس کے جواب میں   اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’ کیا ان لوگوں  کے پاس پہلی کتابوں  میں  مذکور قرآن اور دو عالَم کے سردارصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بشارت اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت و بِعثت کا ذکر نہ آیا، یہ کیسی عظیم ترین نشانیاں  ہیں  اور ان کے ہوتے ہوئے اور کسی نشانی کو طلب کرنے کا کیا موقع ہے۔( ابو سعود، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۳، ۳ / ۵۰۰)

20:134
وَ لَوْ اَنَّاۤ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِـعَ اٰیٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَ نَخْزٰى(۱۳۴)
اور اگر ہم انہیں کسی عذاب سے ہلاک کردیتے رسول کے آنے سے پہلے تو (ف۲۱۱) ضرور کہتے اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں پر چلتے قبل اس کے کہ ذلیل و رسوا ہوتے،

{وَ لَوْ اَنَّاۤ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ:اور اگر ہم انہیں  رسول کے آنے سے پہلے کسی عذاب سے ہلاک کردیتے ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہم نبی کو بھیجے بغیر کفار پر عذاب بھیج دیتے توقیامت کے دن یہ لوگ شکایت کرتے کہ ہم میں  کوئی رسول توبھیجا ہوتا پھر اگر ہم اس کی اطاعت نہ کرتے تو عذاب کے مستحق ہوتے ۔اب انہیں  اس شکایت کا بھی موقعہ نہیں  کیونکہ اب سرکارِ دوعالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لاچکے ہیں ۔

 { قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوْا:تم فرماؤ:ہر کوئی انتظار کررہا ہے تو تم بھی انتظار کرو ۔}شانِ نزول:مشرکین نے کہا تھا کہ ہم زمانے کے حوادِث اور انقلاب کا انتظار کرتے ہیں  کہ کب مسلمانوں  پر آئیں  اور ان کا قصہ تمام ہو ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا کہ تم مسلمانوں  کی تباہی و بربادی کا انتظار کر رہے ہو اورمسلمان تمہارے عقوبت و عذاب کا انتظار کر رہے ہیں  ۔عنقریب جب خدا کا حکم آئے گا اور قیامت قائم ہو گی تو تم جان لوگے کہ سیدھے راستے والے کون تھے اور کس نے ہدایت پائی؟( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۵، ۳ / ۲۷۰)

20:135
قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوْاۚ-فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ اَصْحٰبُ الصِّرَاطِ السَّوِیِّ وَ مَنِ اهْتَدٰى۠(۱۳۵)
تم فرماؤ سب راہ دیکھ رہے ہیں (ف۲۱۲) تو تم بھی راہ دیکھو تو اب جان جاؤ گے (ف۲۱۳) کہ کون ہیں سیدھی راہ والے اور کس نے ہدایت پائی،

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

طٰهٰ
طٰهٰ
  00:00



Download

طٰهٰ
طٰهٰ
  00:00



Download