Surah An-Nahl
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ: اللّٰہ کا حکم آگیا۔} شانِ نزول: جب کفار نے تکذیب اور اِستہزاء کے طور پر اس عذاب کے نازل ہونے اور قیامت قائم ہونے کی جلدی کی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتادیا گیا کہ جس کی تم جلدی کرتے ہو وہ کچھ دور نہیں بلکہ بہت ہی قریب ہے اور اپنے وقت پر یقینا واقع ہوگا اور جب واقع ہوگا تو تمہیں اس سے چھٹکارے کی کوئی راہ نہ ملے گی۔(روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۲، ملخصاً)
قیامت قریب ہے:
جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی تو رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ مجھے اور قیامت کو اس طرح بھیجا گیا ہے اور اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا پھر انہیں دراز کر دیا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۱۲، بخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعثت انا والساعۃ کہاتین، ۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۳)
ایک اور روایت میں ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میں قیامت کے بالکل قریب بھیجا گیا ہوں ، تو مجھے قیامت سے صرف اتنی سبقت حاصل ہے جتنی ا س انگلی یعنی درمیانی انگلی کو شہادت کی انگلی پر حاصل ہے۔ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعثت انا والساعۃ کہاتین۔۔۔ الخ، ۴ / ۹۱، الحدیث: ۲۲۲۰)
{سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ:(اللّٰہ) ان کے شرک سے پاک اور بلندوبالا ہے۔} کافروں نے کہا ’’اے محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) آپ نے جویہ بات کہی کہ دنیا یا آخرت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں عذا ب میں مبتلا کر دینے کا حکم نازل فرمایا ہے، چلیں ہم نے اس بات کومان لیا لیکن جن بتوں کی ہم عبادت کر رہے ہیں یہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کر دیں گے تو ان بتوں کی شفاعت کی وجہ سے ہمیں عذاب سے نجات مل جائے گی، ان کے رد میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور بلندوبالا ہے۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۱۶۸)
{یُنَزِّلُ الْمَلٰٓىٕكَةَ:اللّٰہ فرشتوں کو نازل فرماتا ہے ۔} اس آیت میں ملائکہ سے مراد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ہیں ، ان کی تعظیم کے لئے جمع کا صیغہ ’’ملائکہ ‘‘ ذکر فرمایا گیا اور روح سے مراد وحی ہے۔ و حی کو روح اس لئے فرمایا گیا کہ جس طرح روح کے ذریعے جسم زندہ ہوتا ہے اور روح نہ ہو تو جسم مردہ ہو جاتا ہے اسی طرح وحی کے ذریعے دل زندہ ہوتا ہے اور اسی سے ابدی سعادت کا پتا چلتا ہے اور جو دل وحی سے دور ہو وہ مردہ ہو جاتا ہے ۔ (جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۱۰۵۶)
بعض مفسرین کا قول ہے کہ ملائکہ سے حضرت جبریلعَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے ساتھ آ نے والے وہ فرشتے مراد ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے وحی کی حفاظت پر مامور ہیں ۔ (ابوسعود، النحل، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۲۴۴)آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ’’ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ نے اپنے جن بندوں کو نبوت ، رسالت اور مخلوق کی طرف وحی کی تبلیغ کے لئے منتخب فرما لیا ہے ان پر وحی کے ساتھ فرشتوں کو نازل فرماتا ہے تا کہ وہ لوگوں کو میرا انکار کرنے اور عبادت کے لائق ہونے میں بتوں کو میرا شریک ٹھہرانے پر میرے قہر و غضب سے ڈرائیں ۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۱۱۲-۱۱۳، تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۲، ۷ / ۵۵۷-۵۵۸، ملتقطاً)
{خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ:اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ بنایا۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور اپنے معبود ہونے پر بطورِ دلیل ان چیزوں کا ذکر فرمایا ہے کہ جنہیں پیدا کرنے پر اللّٰہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی قادر نہیں۔(مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۳، ص۵۸۹)آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! تمہارے ربعَزَّوَجَلَّ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے باطل اور بیکار نہیں بنایا اور وہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے میں یکتا ہے، انہیں عدم سے وجود میں لانے میں اس کا کوئی شریک نہیں اور نہ ہی انہیں پیداکرنے پر کسی نے اللّٰہ تعالیٰ کی مدد کی ہے تو اللّٰہ تعالیٰ کا شریک کہا ں سے آ گیا؟ اے لوگو! تمہارا ربعَزَّوَجَلَّ تمہارے شرک اور تمہارے اس دعوے کہ’’ اللّٰہ کے سوا اور بھی معبود ہیں ‘‘ سے بلند و بالا ہے اور اس کی شان اتنی بلند ہے کہ کوئی ا س کا مثل، شریک یا مددگار ہو ہی نہیں سکتا۔ (تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۳، ۷ / ۵۵۹، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۶، ملتقطاً)
{خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ:اس نے انسان کو منی سے پیدا کیا۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور قدرت پر ایک اور دلیل ذکر فرمائی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو منی سے پیدا کیا ،جس میں نہ حِس ہوتی ہے نہ حرکت اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ایک ناپاک قطرے سے عجیب وغریب مخلوق بنائی، ماں کے پیٹ میں اس قطرے کو مختلف شکلوں میں ڈھالتا رہا،پھر اس کی تخلیق پوری کرنے اورا س میں روح پھونکنے کے بعد اسے دنیا کی روشنی میں لے کر آیا، اسے غذا اور رزق دیا اورا س کی پرورش کرتا رہا ،حتّٰی کہ جب وہ اپنے قدموں پر چلنے کے قابل ہو گیا تو اس نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّکی نعمتوں کی ناشکری کی اور اپنے پیدا کرنے والے کو ماننے سے انکار کر دیا اور ان بتوں کی عبادت کرنے میں مصروف ہوگیا جو اسے نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور یہ کہنے لگا کہ ’’مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ هِیَ رَمِیْمٌ‘‘یعنی ایسا کون ہے جو ہڈیوں کو زندہ کردے جبکہ وہ بالکل گلی ہوئی ہوں ۔ جبکہ وہ اس ہستی کو بھول گیا جس نے اسے گندے قطرے سے ایسی حسین شکل عطا کی تھی۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۵۵۹، بیضاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۳۸۶، ملتقطاً) شانِ نزول: یہ آیت اُبی بن خلف کے بارے میں نازل ہوئی، یہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کا انکار کرتا تھا، ایک مرتبہ کسی مردے کی گلی ہوئی ہڈی اٹھالایا اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے کہنے لگا ’’ آپ کا یہ خیال ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس ہڈی کو زندگی دے گا! اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۱۱۳)اور نہایت نفیس جواب دیا گیا کہ ہڈی تو کچھ نہ کچھ عُضْو اور شکل رکھتی بھی ہے، اللّٰہ تعالیٰ تو منی کے ایک چھوٹے سے بے حس و حرکت قطرے سے تجھ جیسا جھگڑالو انسان پیدا کردیتا ہے، یہ دیکھ کر بھی تو اس کی قدرت پر ایمان نہیں لاتا۔ علامہ صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اُبی بن خلف کا رد ہے اور ہر اس شخص کا بھی رد ہے جو اُبی بن خلف کے طریقے کو اپنائے ہوئے ہے۔(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۱۰۵۶)
{وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَا:اور اس نے جانور پیدا کئے۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا اور اس کے بعد انسان کی پیدائش کا ذکر فرمایا جبکہ اس آیت اور اس کے بعد والی چند آیات میں ان چیزوں کا ذکر فرمایا جن سے انسان اپنی تمام ضروریات میں نفع اٹھاتے ہیں اور چونکہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت کھانا اور لباس ہے کیونکہ ان سے بدنِ انسانی تَقوِیَت اور حفاظت حاصل کرتا ہے ا س لئے سب سے پہلے ان جانوروں کا ذکر کیا گیا جن سے یہ فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اونٹ، گائے اور بکریاں وغیرہ جانور پیدا کئے ، ان کی کھالوں اور اُون سے تمہارے لیے گرم لباس تیار ہوتے ہیں اوراس کے علاوہ بھی ان جانوروں میں بہت سے فائدے ہیں جیسے تم ان کی نسل سے دولت بڑھاتے ہو، اُن کے دودھ پیتے ہو، اُن پر سواری کرتے ہو اور تم ان کا گوشت بھی کھاتے ہو۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۱۱۳)
{وَ لَكُمْ فِیْهَا جَمَالٌ:اور تمہارے لئے ان میں زینت ہے ۔} یعنی جب تم ان جانوروں کو شام کے وقت چراگاہوں سے واپس لاتے ہو اور جب صبح کے وقت انہیں چرنے کے لئے چھوڑتے ہو تو اس وقت ان جانوروں کی کثرت اور بناوٹ دیکھ کر تمہیں خوشی حاصل ہوتی ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں تمہاری عزت، وجاہت اور مقام و مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۱۱۴، ملخصاً) جیسے ہمارے زمانے میں صبح کسی کے گھر سے اعلیٰ درجے کی گاڑی نکلے اور شام کو واپس آئے تو لوگوں کی نظر میں اس کی بڑی قدر ہوتی ہے۔
{وَ تَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ:اور وہ جانورتمہارے بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔} یعنی وہ جانور تمہارا سامان اور سفر کے دوران کام آنے والے آلات اس شہر تک لے جاتے ہیں جہاں تم اپنی جان کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے، بیشک تمہارا رب نہایت مہربان، رحم والا ہے کہ اس نے تمہارے لئے یہ نفع دینے والی چیزیں پیدا کی ہیں ۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۱۱۴)
جانور پر سواری کرنا اور بوجھ لادنا جائز ہے:
ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے ثابت ہوا کہ جانوروں پر سواری کرنا اور ان پر سامان لادنا جائز ہے البتہ جتنی ان میں بوجھ برداشت کرنے کی قوت ہو اسی حساب سے ان پر سامان لادا جائے۔ (قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۵۴، الجزء العاشر)
جانوروں سے متعلق اسلام کی عظیم تعلیمات:
کثیر احادیث میں جانوروں کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آنے ، ان کے لئے آسانی کرنے اور ان کے دانہ پانی کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جب تم سرسبزی کے زمانے میں سفر کرو تو زمین سے اونٹوں کو ان کا حصہ دو اور جب تم خشکی کے سال میں سفر کرو تو زمین سے جلدی گزرو (تاکہ اونٹ کمزور نہ ہو جائیں ) اور جب تم رات کے وقت آرام کے لئے اترو تو راستے سے الگ اترو کیونکہ وہ جانوروں کے راستے اور رات میں کیڑے مکوڑوں کے ٹھکانے ہیں۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب مراعاۃ مصلحۃ الدواب فی السیر۔۔۔ الخ، ص۱۰۶۳، الحدیث: ۱۷۸(۱۹۲۶))
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں ، حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو مسلمان بھی کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیت اگاتا ہے، اس سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کچھ کھالیں تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے ۔ (بخاری، کتاب الحرث والمزارعۃ، باب فضل الزرع والغرس اذا اکل منہ، ۲ / ۸۵، الحدیث: ۲۳۲۰)
حضرت سہل بن حَنْظَلِیَّہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک ایسے اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی پیٹھ پیٹ سے مل گئی تھی تو ارشاد فرمایا’’ ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، ان پر اچھی طرح سوار ہوا کرو اور انہیں اچھی طرح کھلایا کرو۔(ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب ما یؤمر بہ من القیام علی الدواب والبہائم، ۳ / ۳۲، الحدیث: ۲۵۴۸)
حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے (جانوروں کے) چہرے پر مارنے اور چہرے کو داغنے سے منع فرمایا۔ مزید فرماتے ہیں ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے پاس سے ایک گدھا گزرا جس کے منہ کو داغا گیا تھا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اسے داغا ہے ا س پر اللّٰہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔( مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ ووسمہ فیہ، ص۱۱۷۱،۱۱۷۲ الحدیث: ۱۰۶ (۲۱۱۶)، ۱۰۷(۲۱۱۷))
حضرت مسیب بن دارم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک شتربان کو مارا اور ا س سے فرمایا ’’ تم نے اپنے اونٹ پرا س کی طاقت سے زیادہ سامان کیوں لادا ہے؟( الطبقات الکبری لابن سعد، تسمیۃ من نزل البصرۃ من اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومن کان بعدہم۔۔۔ الخ، الطبقۃ الاولی من الفقہاء المحدثین۔۔۔ الخ، المسیب بن دارم، ۷ / ۹۱)
{وَ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ:اور گھوڑے اور خچر۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے گھوڑے،خچر اور گدھے بھی تمہارے نفع کے لئے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ی کرو اور ان میں تمہارے لئے سواری اور دیگر جو فوائد ہیں ان کے ساتھ ساتھ یہ تمہارے لئے زینت ہیں۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۸، ۷ / ۵۶۲)
اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت:
علما فرماتے ہیں ’’ ہمیں اونٹ، گائے، بکری، گھوڑا اور خچر وغیرہ جانوروں کا مالک بنا دینا، انہیں ہمارے لئے نرم کر دینا، ان جانوروں کو اپنا تابع کرنا اور ان سے نفع اٹھانا ہمارے لئے مباح کر دینا اللّٰہ تعالیٰ کی ہم پر رحمت ہے۔ (قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۸، ۵ / ۵۵، الجزء العاشر)
{وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ:اور( ابھی مزید) ایسی چیزیں پیدا کرے گاجو تم جانتے نہیں۔} یعنی جانوروں کی جو اقسام تمہارے سامنے بیان کی گئیں ان کے علاوہ ابھی مزید ایسی عجیب و غریب چیزیں اللّٰہ تعالیٰ پیدا کرے گاجن کی حقیقت اور پیدائش کی کیفیت تم نہیں جانتے ۔(ابوسعود، النحل، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۲۴۷، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۸، ص۲۱۶، ملتقطاً) اس میں وہ تمام چیزیں آگئیں جو آدمی کے فائدے، راحت و آرام اورآسائش کے کام آتی ہیں اور وہ اس وقت تک موجود نہیں ہوئی تھیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ کو ان کا آئندہ پیدا کرنا منظور تھا جیسے کہ بحری جہاز ، ریل گاڑیاں ، کاریں ، بسیں ، ہوائی جہاز اور اس طرح کی ہزاروں ، لاکھوں سائنسی ایجادات ۔ اور ابھی آئندہ زمانے میں نہ جانے کیا کیا ایجاد ہوگا لیکن جو بھی ایجاد ہوگا وہ اس آیت میں داخل ہوگا۔
{وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ:اور درمیان کا سیدھا راستہ (دکھانا)اللّٰہ کے ذمہ کرم پر ہی ہے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے رسول بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر سیدھے راستے کو بیان کرنا اپنے ذمہ کرم پر لیا ہو ا ہے،یہ ا س کا فضل اور احسان ہے لہٰذا جو ہدایت حاصل کرے گا تو وہ اپنے فائدے کیلئے کرے گا اور جو گمراہ ہو گا تو گمراہی کا نقصان بھی اسی کو ہے۔ (صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۹،۳ / ۱۰۵۸، تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۹، ۷ / ۵۶۴، ملتقطاً)نیز سیدھا راستہ وہی ہے جو اللّٰہ تک پہنچانے والا ہو۔
{وَ مِنْهَا جَآىٕرٌ:اور ان راستوں میں سے کوئی ٹیڑھا راستہ بھی ہے۔} یعنی ان راستوں میں سے کچھ راستے ایسے ہیں جو صراطِ مستقیم سے مُنحرف ہیں اور ان پر چلنے والا منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ۔کفر او ر گمراہی کی تمام راہیں جیسے یہودیت، عیسائیت اور مجوسیت وغیرہ یونہی اپنی خواہشات سے نئے نئے مسلک بنا نے والے سب اس میں داخل ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ’’ قَصْدُ السَّبِیْلِ‘‘ سے مراد دینِ اسلام اور اہلسنّت والجماعت ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم، حسنِ اعتقاد اور اچھے اعمال پر اِستقامت عطا فرمائے اور کفر ،گمراہی اور بد مذہبی سے ہماری حفاظت فرمائے۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۹، ۵ / ۱۳)
{وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ:اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دیدیتا۔} یعنی اگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّچاہتا تو تم سب کو سیدھے راستے تک پہنچا دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں چاہا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ازل سے یہ بات جانتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو جنت میں جانے کے قابل ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو جہنم میں جانے کے لائق ہیں لہٰذا سب کو ہدایت نصیب نہ ہو گی۔ (صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۱۰۵۸)
{هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً:وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے ان احسانات کا ذکر فرمایا جو خاص انسانوں پر فرمائے اورا س آیت میں ان نعمتوں کو بیان فرمایا ہے کہ جو صرف انسانوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تمام حیوانات کے لئے بھی ہیں وہ یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا جو پینے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے نَباتات اگتی ہیں جن سے تمام جانور نفع اٹھاتے ہیں ۔ (صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۱۰۵۸)
{یُنْۢبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ:اس پانی سے وہ تمہارے لیے کھیتی اگاتاہے۔} جس طرح سابقہ آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے حیوانات کا تفصیلی اور اِجمالی طورپر ذکر فرمایا اسی طرح اس آیت میں پھلوں کا تفصیلی اور اجمالی دونوں طرح سے ذکر فرمایا ہے۔ اس آیت میں چار اَجناس کا صراحت کے ساتھ ذکر فرمایا (1) کھیتی ۔ اس سے مراد وہ دانہ ہے جس سے غذا حاصل کی جاتی ہے جیسے گندم ، جَو اور ان جیسی دوسری چیزیں کیونکہ ان سے بدنِ انسانی تقوِیَت پاتا ہے۔ (2) زیتون ۔ یہ سالن اور تیل کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور یہ پھل برکت والا بھی ہے۔ (3) کھجور۔ اس پھل میں غذائیت ہے اور یہ میوہ ہے۔ (4) انگور۔ یہ غذائیت اور میوہ ہونے میں کھجور کی طرح ہے۔ اس کے بعد’’ وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ‘‘ فرما کر تمام پھلوں کا اجمالی طور پر ذکر کر دیا تاکہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور مخلوق پر اس کے انعامات سے آگاہ ہوں ۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۱۱۵، ملخصاً)
{ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ:بیشک اس میں غور وفکر کرنے والوں کیلئے نشانی ہے ۔} یعنی پانی نازل کرنے اور اس سے طرح طرح کی اجناس پیدا کرنے میں ان لوگوں کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کے کمالِ علم،قدرت ،حکمت اور صرف اسی کے معبود ہونے پر دلالت کرنے والی بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو اس کی صنعتوں میں غورو فکر کر کے ایمان قبول کر لیتے ہیں ۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱، ۵ / ۱۶، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۲۱۶، ملتقطاً)
{وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ:اور اس نے تمہارے لیے رات اور دن کو کام پر لگا دیا۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو عالَم سُفْلِی یعنی زمین اور اس پر موجود تمام چیزوں میں ہیں اور اس آیت میں ان نعمتوں کو بیان فرمایا جو عالَم عُلوی یعنی بادلوں ، آسمانوں اور ان میں موجود تمام چیزوں میں ہیں اور یہ سب نعمتیں کائنات کے نظام کی تکمیل اور عالَم کے نفع کے لئے ہیں۔ (صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۱۰۵۹، ملخصاً)
نوٹ:دن رات، سورج چاند اور ستاروں کی تسخیر کی تفسیر سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر33میں گزر چکی ہے۔
{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ:بیشک اس میں عقل مندوں کیلئے نشانیاں ہیں۔} یعنی جو لوگ صحیح اور سلیم عقل رکھتے ہیں وہ ان چیزوں میں غور کر کے سمجھ جائیں گے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہی اپنے اختیار سے ہر کام کرنے والا ہے اور تمام مخلوق اسی کی قدرت کے تحت ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۱۱۶)
آیت’’وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے درج ذیل تین چیزیں بھی معلوم ہوئیں ،
(1)… ہر ذرہ معرفتِ الہٰی کا دفتر ہے، لیکن اس کیلئے صحیح عقل کی ضرورت ہے۔
(2)… اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک وہی عقل اچھی ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کو پہچانے جبکہ جو عقل اس کی معرفت تک نہ پہنچائے وہ بے عقلی ہے۔
(3)… علمِ طب، ریاضی و فلکیات وغیرہ بہت عمدہ و اعلیٰ علوم ہیں کہ ان سے اللّٰہ تعالیٰ کی معرفت میں مدد ملتی ہے۔
{وَ مَا ذَرَاَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ:اور وہ چیزیں جواس نے تمہارے لیے زمین میں پیدا کیں ۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں بھی تمہارے کام پر لگا دیا جو اس نے تمہارے لئے زمین میں حیوانات، درخت اور پھل وغیرہ پیدا کئے ہیں اوروہ اپنی کثیر تعداد کے باوجود خلقت، ہیئت، کیفیت اور رنگ میں مختلف ہیں حتّٰی کہ ان میں سے کوئی مکمل طور پر دوسرے کی طرح نہیں ہوتا، اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال پر بڑی مضبوط دلیل ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۱۱۶)
{وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ:اور وہی ہے جس نے سمندر تمہارے قابو میں دیدئیے۔} سمندر کی تسخیر کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کو سمندر سے نفع اٹھانے کی قدرت عطا کر دی ہے، وہ کشتیوں اور بحری جہازوں کے ذریعے اس میں سفر کر سکتے ہیں ،غوطے لگا کر اس کی تہہ میں پہنچ سکتے ہیں اور اس میں سے شکار کر سکتے ہیں ۔ (بیضاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۳۸۹، ملخصاً)
{لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا:تا کہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ ۔} سمندر میں انسانوں کے لئے بے شمار فوائد ہیں ، ان میں سے تین فوائد اللّٰہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائے ہیں ۔
پہلا فائدہ: تم اس میں سے تازہ گوشت کھاتے ہو۔ اس سے مراد مچھلی ہے ۔یاد رہے کہ سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کا گوشت حلال ہے۔
دوسرا فائدہ: تم سمندرمیں سے زیور نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو۔ زیور سے مراد گوہر و مرجان ہیں اور پہننے سے مراد عورتوں کا پہننا ہے کیونکہ زیور عورتوں کی زینت ہے اور چونکہ عورتوں کازیوروں کے ذریعے سجنا سنورنا مردوں کی وجہ سے ہوتا ہے ا س لئے گویا کہ یہ مردوں کی زینت اور لباس ہے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۱۴، ۷ / ۱۸۸)
تیسرا فائدہ: اور تم اس میں کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں ۔ یعنی اگر تم میں سے کوئی سمندر پر جائے تو وہ دیکھے گا کہ ہوا کا رخ ایک طرف ہونے کے باوجود (بادبانی) کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی آ جا رہی ہیں ۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۱۴، ۵ / ۱۹، ملخصاً)
{وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ:تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔} یعنی سمندر کو تمہارے قابو میں اس لئے دیا تاکہ تم تجارت کی غرض سے سمندر میں سفر کرو اور اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے نفع حاصل کرو اور جب تم اللّٰہ تعالیٰ کا فضل اور احسان پاؤ تو تمہیں چاہئے کہ ا س پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۱۴، ۷ / ۱۸۹)
{وَ اَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ:اور اس نے زمین میں لنگر ڈالے۔} اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے زمین میں جو نعمتیں پیدا فرمائی ہیں ان میں سے بعض کا ذکر اس آیت میں فرمایا۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے زمین میں مضبوط پہاڑوں کے لنگر ڈالے تاکہ وہ تمہیں لے کر حرکت نہ کرتی رہے اور اس نے زمین میں نہریں بنائیں اور راستے بنائے جن پر تم اپنے سفر کے دوران چلتے ہو اور اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہو تاکہ تم اپنی منزلوں تک راستہ پا لو اور بھٹک نہ جاؤ۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۱۵، ۷ / ۱۸۹، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۱۱۶، ملتقطاً)
{وَ عَلٰمٰتٍ:اور کئی نشانیاں بنائیں ۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے راستوں کی پہچان کیلئے کئی نشانیاں بنائیں جیسے پہاڑ کہ دن میں لوگ ان کے ذریعے راستہ پاتے ہیں اور رات کے وقت لوگ خشکی اور تری میں ستاروں سے بھی راستہ پالیتے ہیں اورا س سے انہیں قبلہ کی پہچان ہوتی ہے۔ (جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۲۱۷، ملخصاً)
{اَفَمَنْ یَّخْلُقُ:تو کیا جو پیداکرنے والا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور صنعت کے عجائبات اور انوکھی مخلوقات کا ذکر فرمایا، یہ سب چیزیں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال اور اس کی وحدانیت پر اور تمام مخلوقات کو پیدا کرنے میں اس کے یکتا ہونے پر دلالت کرتی ہیں جبکہ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے کلام فرمایا جو اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت چھوڑ کر عاجز اور ناکارہ بتوں کی عبادت میں مشغول ہیں ۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ جو اپنی قدرت اور حکمت سے اِن تمام چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے ، کیاوہ ان بتوں جیسا ہے جو اپنے عاجز و بے قدرت ہونے کی وجہ سے کچھ بھی نہیں بناسکتے؟ جب اللّٰہ تعالیٰ ان جیساہے ہی نہیں توعقلمند کو کب سزاوار ہے کہ ایسے خالق و مالک کی عبادت چھوڑ کر عاجز و بے اختیار بتوں کی پرستش کرے یا انہیں عبادت میں اس کا شریک ٹھہرائے؟ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۱۱۷، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۲۱۷، ملتقطاً)
{وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ:اور اگر تم اللّٰہ کی نعمتیں گنو۔} یعنی اوپر بیان کردہ نعمتیں اور ان کے علاوہ بندے کی تخلیق میں اللّٰہ تعالیٰ کی جتنی نعمتیں ہیں جیسے تندرست بدن، آفات سے محفوظ جسم، صحیح آنکھیں ، عقلِ سلیم، ایسی سماعت جوچیزوں کو سمجھنے میں مددگار ہے، ہاتھوں کا پکڑنا، پاؤں کا چلنا وغیرہ اور جتنی نعمتیں بندے پر فرمائی ہیں ، جیسے بندے کی دینی اور دنیوی ضروریات کی تکمیل کے لئے پیدا کی گئیں تمام چیزیں ، یہ اتنی کثیر ہیں کہ ان کا شمار ممکن ہی نہیں حتّٰی کہ اگر کوئی اللّٰہ تعالیٰ کی چھوٹی سی نعمت کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرے تو وہ حاصل نہ کر سکے گا تو ان نعمتوں کاکیا کہنا جنہیں تمام مخلوق مل کر بھی شمار نہیں کر سکتی، اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اگر تم اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنے کی کوشش کرو اور ا س کام میں اپنی زندگیاں صَرف کر دو تو بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۱۱۷)
نوٹ: نعمتیں شمار نہ کر سکنے کی کچھ تفصیل ہم سورہ ٔ ابراہیم آیت نمبر 34 میں کرآئے ہیں ، وہاں ملاحظہ فرمائیں ۔
{اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ:بیشک اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں پر جیسا شکر اداکرنا تم پر لازم ہے اگر تم ویسا نہ کر سکو تو بے شک اللّٰہ تعالیٰ تمہاری تقصیر معاف کرنے والا ہے ،وہ شکرادا کرنے میں تمہاری تقصیر کے باوجود تم پر نعمتیں وسیع فرماتا ہے اور گناہوں کی وجہ سے تمہیں اپنی نعمتوں سے محروم نہیں فرماتا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۱۱۷)
{وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ:اور اللّٰہ جانتا ہے۔} یعنی تم اپنے عقائد و اعمال میں سے جو چھپاتے اور ظاہر کرتے ہووہ سب اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے۔(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۱۰۶۰-۱۰۶۱)
چھپ کر گناہ کرنے والوں کو نصیحت :
اس آیت میں بیان ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمارے تمام ظاہری و باطنی اعمال جانتا ہے، اس میں ہر اس شخص کے لئے بڑی عبرت و نصیحت ہے جو لوگوں سے چھپ کر برے اعمال کرتا ہے اور اپنا برا عمل لوگوں پر ظاہر ہونے سے ڈرتا ہے جبکہ وہ اس رب تعالیٰ سے نہیں ڈرتا جو ان کی تنہائیوں اور خَلْوَتوں کے اَعمال بھی جانتا ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
چھپ کے لوگوں سے کئے جس کے گناہ
وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے
کام زنداں کے کئے اور ہمیں
شوقِ گلزار ہے کیا ہونا ہے
{وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ:اور اللّٰہ کے سوا جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں ۔} مُستند مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس آیت میں مذکور لفظ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ یعنی عبادت کرنا لکھا ہے جیساکہ ابو سعید عبداللّٰہ بن عمر بیضاوی، امام جلال الدین سیوطی، ابو سعود محمد بن محمد اور علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن معبودوں کی کفار عبادت کرتے ہیں۔(تفسیر بیضاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۳۹۱، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۲۱۷، ابو سعود، النحل،تحت الآیۃ:۲۰،۳ / ۲۵۶، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۲۳-۲۴) علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس آیت کے لفظ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں لفظ’’ دعا‘‘ عبادت کے معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۲۳)ابو اللیث سمرقندی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کفار اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں وہ ا س بات پر قادر نہیں کہ کوئی چیز پیدا کر سکیں بلکہ وہ خود پتھروں اور لکڑی وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں ۔(سمرقندی، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۲ / ۲۳۲) امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں وہ اپنی ذات میں بھی ناقص ہیں کہ انہیں دوسروں نے بنایا ہے اور اپنی صفات میں بھی ناقص ہیں کہ یہ کسی چیز کو پیدا ہی نہیں کر سکتے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۰، ۷ / ۱۹۵، ملخصاً)
{اَمْوَاتٌ:بے جان ہیں} امام ابنِ ابی حاتم اور امام محمد بن جریر طبری رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِما اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں’’یہ بت جن کی اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے بے جان ہیں ، ان میں روحیں نہیں اور نہ ہی یہ اپنی عبادت کرنے والوں کو کوئی نفع پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں۔(تفسیر ابن ابی حاتم، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۷ / ۲۲۸۰، تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۷ / ۵۷۳-۵۷۴) انہی بزرگوں کے حوالے سے امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ا س آیت کی یہی تفسیر دُرِّ منثور میں رقم فرمائی ۔( در منثور، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۵ / ۱۱۹)امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں اگر یہ حقیقی معبود ہوتے تویہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرح زندہ ہوتے انہیں کبھی موت نہ آتی حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ بے جان ہیں ، زندہ نہیں اور ان بتوں کو خبر نہیں کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے تو ایسے مجبور ، بے جان اور بے علم معبود کیسے ہوسکتے ہیں۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۷ / ۱۹۵، ملخصاً) امام علی بن محمد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی کتاب تفسیر خازن میں فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر یہ بت معبود ہوتے جیسا کہ تمہارا گمان ہے تو یہ ضرور زندہ ہوتے انہیں کبھی موت نہ آتی کیونکہ جو معبود عبادت کا مستحق ہے وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہ آئے گی اور بت چونکہ مردہ ہیں زندہ نہیں لہٰذا یہ عبادت کے مستحق نہیں ۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۱۱۸)ان کے علاوہ دیگرتمام مُستند تفاسیر جیسے تفسیر طبری، تفسیر سمرقندی، تفسیر بغوی ،تفسیر ابو سعود، تفسیر قرطبی اورتفسیر صاوی وغیرہ میں صراحت ہے کہ اس آیت میں ’’اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ‘‘سے مراد بت ہیں ، کسی بھی مستند مفسر نے ان آیات کا مصداق انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْکو قرار نہیں دیا۔
{اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ:تمہارا معبود ایک معبود ہے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے ماقبل آیات میں ذکر کئے گئے قطعی دلائل سے ثابت ہوا کہ تمہاری عبادت کا مستحق ایک معبود یعنی اللّٰہ تعالیٰ ہے، وہ اپنی ذات و صفات میں نظیر و شریک سے پاک ہے تو وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کاانکار کرنے والے ہیں اور وہ متکبر ہیں کہ حق ظاہر ہوجانے کے باوجود اس کی پیروی نہیں کرتے۔(مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۵۹۳، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۲۱۷، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۱۱۸، ملتقطاً)
قرآنی اُسلوب کی شان:
یہاں آیات میں نہایت نفیس ترتیب ہے کہ پہلے کثرت کے ساتھ دلائل کوبیان کیا گیا اور اب ان سب دلائل کا اہم ترین نتیجہ توحید ِ باری تعالیٰ کی صورت میں بیان فرمایا گیا اور دلائل و نتیجہ میں بھی کس قدر عمدہ کلام فرمایا گیا کہ کوئی منطق کی باریکیاں اور فلسفے کی موشگافیاں نہیں بلکہ انتہائی عام فہم انداز میں فطرت ِ انسانی کے قریب ترین دلائل کو جمع کرتے ہوئے بات کو سمجھادیا گیا۔ یہی وہ قرآنی اُسلوب ہے جو دل و دماغ کو تسخیر کردینے والا ہے۔
{لَا جَرَمَ: حقیقت یہ ہے ۔} یعنی حقیقت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کے دلوں کے انکار اور ان کے غرور و تکبر کو جانتا ہے، بے شک اللّٰہ تعالیٰ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۲۳، ۵ / ۲۴)
تکبر کی تعریف:
یاد رہے کہ تکبر کرنے والا مومن ہو یا کافر، اللّٰہ تعالیٰ اسے پسند نہیں فرماتا اور تکبر سے متعلق حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۷(۹۱))
تکبر کرنے والوں کا انجام:
قرآن و حدیث میں تکبر کرنے والوں کا بہت برا انجام بیان کیا گیا ہے ،چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ‘‘(اعراف: ۱۴۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور میں اپنی آیتوں سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق اپنی بڑا ئی چاہتے ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ‘‘(مومن:۶۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں جائیں گے۔
اور حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تکبر کرنے والے لوگ قیامت کے دن مردوں کی صورت میں چیونٹیوں کی طرح جمع کیے جائیں گے اور ہر جگہ سے ان پر ذلت چھا جائے گی ،پھر انہیں جہنم کے ایک’’بُوْلَسْ‘‘ نامی قید خانہ کی طرف ہانکا جائے گا، ان پر آگوں کی آگ چھا جائے گی اور وہ دوزخیوں کی پیپ طِیْنَۃُ الْخَبَّالْ سے پلائے جائیں گے ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴۷-باب، ۴ / ۲۲۱، الحدیث: ۲۵۰۰)
حضرت ابو ہر یرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور لوگ ان کوروندیں گے کیوں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ہوگی۔ (رسائل ابن ابی دنیا، التواضع والخمول، ۲ / ۵۷۸، الحدیث: ۲۲۴)
حضرت محمد بن واسع رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں حضرت بلال بن ابو بردہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس گیا اور ان سے کہا :اے بلا ل ! آپ کے والد نے مجھ سے ایک حدیث بیان کی ہے وہ اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ) سے اور وہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے روایت کرتے ہیں ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جسے ہبہب کہتے ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ اس میں تمام تکبر کرنے والوں کو ٹھہرائے گا۔‘‘ اے بلال! تم اس میں ٹھہرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ (مسند ابو یعلی، حدیث ابی موسی الاشعری، ۶ / ۲۰۷، الحدیث: ۷۲۱۳)
تکبر کے دو علاج:
تکبر کے برے انجام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتنا خطرناک باطنی مرض ہے ،اس لئے جو اپنے اندر تکبر کا مرض پائے اسے چاہئے کہ وہ اس کا علاج کرنے کی خوب کوشش کرے ،اَحادیث میں تکبر کے جو علاج بیان کئے گئے ان میں سے دو علاج درج ذیل ہیں ۔
(1)…اپنے کام خود کرنا: چنانچہ حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اپنا سامان خود اٹھایا وہ تکبر سے بری ہو گیا۔(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی التواضع، ۶ / ۲۹۲، الحدیث: ۸۲۰۱)
(2)…عاجزی اختیار کرنا اور مسکین کے ساتھ بیٹھنا: چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’عاجزی اختیار کرو اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھا کرو، اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمہارا مرتبہ بلند ہو جائے گا اور تکبر سے بھی بری ہو جاؤ گے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۴۹، الحدیث: ۵۷۲۲، الجزء الثالث)
امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکی عاجزی:
ایک مرتبہ امام حسینرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا گزر چند مسکینوں کے پاس سے ہوا، وہ لوگ کچھ کھا رہے تھے ، انہوں نے حضرت امام حسینرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھ کر کہا ’’اے ابو عبداللّٰہ ! آپ بھی یہ غذا کھا لیجئے۔ امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی سواری سے اتر کر ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمایا ’’اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ‘‘ یعنی بیشک اللّٰہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ پھران کے ساتھ کھانا شروع کر دیا، جب کھانے سے فارغ ہوئے تو ان مسکینوں سے فرمایا ’’میں نے تمہاری دعوت قبول کی ہے اس لئے اب تم میری دعوت قبول کرو، چنانچہ وہ تمام مسکین امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ ان کے درِ دولت پر گئے ،امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے انہیں کھانا کھلایا ، پانی پلایا اور انہیں کچھ عطا فرمایا، فراغت کے بعد وہ سب وہاں سے چلے گئے(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۰۶۱)۔([1])
[1] ۔۔۔ تکبر اور عاجزی سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے لئے کتاب ’’احیاء العلوم (مترجم)‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) جلد تین سے تکبر کا بیان ،اور کتاب ’’تکبر‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ:اور جب ان سے کہا جائے۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت پر اور بتوں کی پوجا کرنے والوں کے رد میں دلائلِ قاہرہ بیان فرمائے جبکہ ان آیات میں سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنے والوں کے شبہات اور ان کے جوابات بیان فرمائے ہیں ۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۴،۷ / ۱۹۷) شانِ نزول: یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی، اس نے بہت سی کہانیاں یاد کرلی تھیں ، اس سے جب کوئی قرآنِ کریم کی نسبت دریافت کرتا تو وہ یہ جاننے کے باوجود کہ قرآن شریف عاجز کر دینے والی کتاب اور حق و ہدایت سے بھری ہوئی ہے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے یہ کہہ دیتا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ، ایسی کہانیاں مجھے بھی بہت یاد ہیں ۔ (خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۵۰۳، ملخصاً)بعض مفسرین فرماتے ہیں ’’یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مکہ مکرمہ کے داخلی راستوں کو باہم تقسیم کر لیا تھا ،یہ لوگ حج کے لئے آنے والوں کو سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مُتَنفر کرنے کی کوشش کرتے اور جب کوئی شخص ان سے دریافت کرتا کہ تمہارے رب نے محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر کیا نازل فرمایا ہے تو وہ کہتے ’’ پہلے لوگوں کے جھوٹے افسانےہیں کوئی ماننے کی بات نہیں ۔ جبکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے جب ان کی ملاقات ہوتی تو وہ انہیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت اور نبوت کے بارے میں بتاتے تھے۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۵۹۳)
{لِیَحْمِلُوْۤا اَوْزَارَهُمْ:کہ اپنے بوجھ اٹھائیں ۔} یعنی جن کافروں نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے قرآنِ پاک کو پہلے لوگوں کی داستانیں کہا ، ان کا انجام یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے گناہوں اور گمراہی کے بوجھ پورے اٹھائیں گے اور اس کے ساتھ ان لوگوں کے گناہوں کے بوجھ اٹھائیں گے جنہیں اپنی جہالت سے گمراہ کررہے ہیں ۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۱۱۸)
آیت ’’لِیَحْمِلُوْۤا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…’’كَامِلَةً‘‘ فرمانے سے معلوم ہو اکہ کافروں پر دنیا میں آنے والی مصیبتوں کی وجہ سے قیامت کے دن ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہو گی بلکہ انہیں تمام گناہوں کی سزا ملے گی جبکہ مومنوں پر دنیا میں آنے والی مصیبتیں ان کے گناہوں کو مٹا دیں گی یا ان کے درجات بلند کر دیں گی۔ (صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۱۰۶۲) مصیبتوں سے مومن کے گناہ مٹنے کے بارے میں حضرت بریدہ اسلمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’مسلمان کو جو مصیبت پہنچتی ہے حتّٰی کہ کانٹا بھی چبھے تو اس کی وجہ سے یاتو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاس کا کوئی ایساگناہ مٹادیتا ہے جس کا مٹانا اسی مصیبت پر مَوقوف تھا یا اسے کوئی بزرگی عطا فرماتا ہے کہ بندہ اس مصیبت کے علاوہ کسی اور ذریعے سے اس تک نہ پہنچ پاتا ۔(الترغیب والترھیب، کتاب الجنائز وما یتقدّمہا، الترغیب فی الصبر سیّما لمن ابتلی فی نفسہ او مالہ، ۴ / ۱۴۳، الحدیث: ۲۴)
(2)…قوم کا امیر ،سردار یار ہنما جو برا طریقہ ایجاد کرے اور لوگ اس کی پیروی کریں تو اسے برا طریقہ ایجاد کرنے کا گناہ بھی ہو گا اور جو لوگ اس برے طریقے پر عمل کریں گے ان کے گناہ کے برابر ایجاد کرنے والے کو بھی گناہ ہو گا ۔اس کی مزید وضاحت درج ذیل دواَحادیث میں ہے۔
(۱)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے ا س ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور پیروی کرنے والوں کے اجروں میں کوئی کمی نہ ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی اسے اس گمراہی کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ ہو گا اور پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہو گی ۔ (مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیّئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۸، الحدیث: ۱۶(۲۶۷۴))
(۲)…حضرت جریر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے اچھا طریقہ جاری کیا پھر ا س پر عمل کیا گیا تو ا س کے لئے اپنا ثواب بھی ہے اور اسے عمل کرنے والوں کے برابر ثواب بھی ملے گا جبکہ ان کے ثوابوں میں کوئی کمی نہ ہو گی اور جس نے برا طریقہ جاری کیا ،پھر وہ طریقہ اپنایا گیا تو اس کے لئے اپنا گناہ بھی ہے اور اسے عمل کرنے والوں کے برابر گناہ بھی ملے گا جبکہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب من دعا الی ہدی فاتبع۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۰۷، الحدیث: ۲۶۸۴)
{قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ:بیشک ان سے پہلے لوگوں نے مکرو فریب کیا تھا۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مکرو فریب کرتے تھے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلی اُمتوں نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ مکر کرنے کے لئے کچھ منصوبے بنائے تھے اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں خود اُنہیں کے منصوبوں میں ہلاک کردیا اور اُن کا حال ایسا ہوا جیسے کسی قوم نے کوئی بلند عمارت بنائی پھر وہ عمارت ان پر گر پڑی اور وہ ہلاک ہوگئے، اسی طرح کفار اپنی مکاریوں سے خود برباد ہوئے ۔ مفسرین نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس آیت میں اگلے مکر کرنے والوں سے نمرود بن کنعان مراد ہے ،یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے زمانے میں روئے زمین کا سب سے بڑا بادشاہ تھا ،اس نے بابِل میں بہت اونچی ایک عمارت بنائی جس کی بلندی پانچ ہزار گز تھی اور اس کا مکریہ تھا کہ اُس نے یہ بلند عمارت اپنے خیال میں آسما ن پر پہنچنے اور آسمان والوں سے لڑنے کے لئے بنائی تھی اور اللّٰہ تعالیٰ نے ہوا چلائی اور وہ عمارت ان پر گر پڑی اور وہ لوگ ہلاک ہوگئے۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۵۹۳، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۱۱۹، ملتقطاً)
{ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُخْزِیْهِمْ:پھر قیامت کے دن اللّٰہ انہیں رسوا کرے گا ۔} اس میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ کفار پر صرف اس قدر ہی عذاب نہ ہو گا کہ ان پر صرف دنیا میں عذاب ہوجائے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن بھی انہیں رسوا کرے گا اور انہیں سختی سے فرمائے گا ’’وہ کہاں ہیں جنہیں تم اپنے گمان میں میرا شریک سمجھتے تھے اور ان کے بارے میں تم مومنوں سے جھگڑتے تھے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۷، ۷ / ۱۹۹، ملخصاً)
{قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ:علم والے کہیں گے۔} کفار دنیا میں اہلِ ایمان کا مذاق اڑاتے تھے، جب قیامت کے دن اہلِ ایمان کو طرح طرح کی عظمتوں اور شرافتوں سے نوازا جائے گا اور کافروں کو رسوا ئی کے ساتھ مختلف قسم کے عذابوں میں گرفتار کیا جائے گا تو ا س وقت اُن اُمتوں کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور علماء جو اُنہیں دنیا میں ایمان کی دعوت دیتے اور نصیحت کرتے تھے اور یہ لوگ اُن کی بات نہ مانتے تھے ،وہ حضرات اِن کافروں سے کہیں گے’’ بیشک آج ساری رسوائی اور عذاب کافروں پر ہے۔(مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۵۹۴، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۱۱۹-۱۲۰، ملتقطاً)
آخرت میں بھی علماء کا درجہ اعلیٰ ہو گا:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علماء کا درجہ دنیا میں بھی اعلیٰ ہے اور آخرت میں بھی اعلیٰ ہوگا کہ اللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰینے ان ہی کا قول نقل فرمایا ہے۔
{ اَلَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ:وہ کہ فرشتے ان کی جان نکالتے ہیں۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ فرشتے جب کافروں کی جان نکالتے ہیں تو یہ کفر کی حالت یقینا ایسی ہوتی ہے کہ وہ حقیقت میں اپنی جانوں پر ظلم ہوتا ہے لیکن جب ان کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کی عبودیت کا اقرار کرتے اور اسلام قبول کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو کوئی شرک نہیں کیا کرتے تھے۔ فرشتے ان کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہاں ، کیوں نہیں ! بے شک اللّٰہ تعالیٰ تمہارے شرک اور تکذیب کو جانتا ہے۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۲۸، ۵ / ۲۸، تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۲۸، ۷ / ۲۰۰، ملتقطاً)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ حالت ِ کفر میں مرنے والے یہ لوگ جب قیامت کے دن عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو خوف کی شدت سے اپنے دنیوی طرزِ عمل کے برخلاف اسلام کی حقانیت تسلیم کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم تو دنیا میں کوئی شرک نہیں کیا کرتے تھے،یوں وہ اپنے کفر و سرکشی سے مکر جائیں گے۔ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور علما ء ان کا رد کرتے ہوئے کہیں گے ’’ ہاں کیوں نہیں ، بیشک اللّٰہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے وہ تمہیں ان کی سزا دے گا، لہٰذا تمہارے انکار کا کوئی فائدہ نہیں۔(مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۵۹۴، ملخصاً)
{وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا:اور متقی لوگوں سے کہاجائے ۔} یعنی جب ایمانداروں سے کہا جائے کہ تمہارے ربعَزَّوَجَلَّ نے محمد مصطفٰیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرکیا نازل فرمایا؟ تو وہ ا س کے جواب میں کہتے ہیں ’’ ہمارے ربعَزَّوَجَلَّ نے قرآن شریف نازل فرمایا جو تمام خوبیوں کا جامع اور حسنات و برکات کا منبع اور دینی و دنیوی اور ظاہری وباطنی کمالات کا سرچشمہ ہے۔( روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰،۵ / ۲۹) شانِ نزول: عرب کے قبائل حج کے دنوں میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حال کی تحقیق کے لئے مکہ مکرمہ قاصد بھیجتے تھے ،یہ قاصد جب مکہ مکرمہ پہنچتے توشہر کے داخلی راستوں پر انہیں کفار کے کارند ے ملتے (جیسا کہ سابقہ آیات میں ذکر ہوچکا ہے) اُن سے یہ قاصد رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حال دریافت کرتے تو وہ چونکہ لوگوں کوبہکانے پر مامور ہی ہوتے تھے ا س لئے ان میں سے کوئی سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ساحر کہتا، کوئی کاہن، کوئی شاعر، کوئی کذّاب، کوئی مجنون کہتا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیتے کہ تم ان سے نہ ملنا یہی تمہارے حق میں بہتر ہے ۔ اس پر قاصد کہتے کہ اگر ہم مکہ مکرمہ پہنچ کر اُن سے ملے بغیر اپنی قوم کی طرف واپس ہوں تو ہم برے قاصد ہوں گے اور ایسا کرنا قاصد کے منصبی فرائض کا ترک اور قوم کی خیانت ہوگی۔ ہمیں تحقیق کے لئے بھیجا گیا ہے ا س لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے اپنے اور بیگانوں سب سے اُن کے حال کی تحقیق کریں اور جو کچھ معلوم ہو اس میں کوئی کمی بیشی کئے بغیراپنی قوم کو مطلع کریں ۔اس خیال سے وہ لوگ مکہ مکرمہ میں داخل ہو کر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے بھی ملتے تھے اور اُن سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے حال کی تحقیق کرتے تھے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم انہیں تمام حال بتاتے تھے اورحضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حالات ، کمالات اور قرآن کریم کے مَضامین سے مطلع کرتے تھے ان کا ذکر اس آیت میں فرمایا گیا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۱۲۰)
{لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا:جنہوں نے اس دنیا میں بھلائی کی۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جن لوگوں نے دنیا کی زندگی میں اچھے عمل کئے تو ان کے لئے آخرت میں اچھا اجر ہے۔اچھے اجر سے مراد ثوابِ عظیم ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک اچھے اجر سے مراد یہ ہے کہ ان کی نیکیوں کا ثواب دس سے لے کر سات سوگنا تک بڑھا دیا جائے گایا بے حساب اجر عطا کیاجائے گا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے انہیں دنیا میں بھی اچھا اجر ملے گا۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ۷ / ۲۰۱-۲۰۲، ملخصاً)
دنیا میں نیک مسلمانوں کا اجر:
دنیا میں حاصل ہونے والے اچھے اجر کی ایک صورت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کے دلوں میں ان کی محبت اور عقیدت پیدا کر دے گا، مسلمان ان کے فضائل و مناقب بیان کریں گے اور ان کی عزت و تعظیم کریں گے۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ۷ / ۲۰۲، ملخصاً)
اولیاءِ کرام کے حوالے سے بطورِ خاص اس بات کا مشاہدہ ہے اور قرآنِ مجید میں ہی ایک اور مقام پرنیک مسلمانوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا‘‘(مریم:۹۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک وہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے عنقریب رحمٰن ان کے لیے (لوگوں کے دلوں میں )محبت پیدا کردے گا ۔
اسی طرح حدیثِ پاک میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’جب اللّٰہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو ند اکی جاتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَاماس سے محبت کرتے ہیں ۔ پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامآسمانی مخلوق میں ندا کرتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر زمین والوں (کے دلوں ) میں ان کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۲، الحدیث: ۳۲۰۹)
دنیا میں اچھا اجر ملنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں اس دنیا میں پاکیزہ زندگی ، فتح و کامیابی اور وسیع رزق وغیرہ نعمتیں عطا فرمائے گا ۔ (جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۲۱۸، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۱۲۰، ملتقطاً)
نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَوصاف چھپانا کن کا طریقہ ہے؟
آیت ِ مبارکہ کے مضمون اور اس کے شانِ نزول سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف کو چھپانا کفار کا طریقہ جبکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عظمت و شان بیان کرنا صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا طریقہ ہے۔
{جَنّٰتُ عَدْنٍ:ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں ۔} یعنی آخرت کا گھر ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں جن میں پرہیزگار داخل ہوں گے، ان باغات میں جنتیوں کے گھروں ، محلات اور رہائش گاہوں کے نیچے سے نہریں جاری ہیں ، ان کیلئے ان باغوں میں وہ تما م چیزیں ہیں جو وہ چاہیں گے اوریہ بات جنت کے سوا کسی کو کہیں بھی حاصل نہیں ، اللّٰہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو ایسا ہی صلہ دیتا ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۲۰)
{اَلَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ:وہ جن کی فرشتے جان نکالتے ہیں ۔} اس آیت میں پرہیز گاروں کا وصف بیان کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ فرشتے ان کی جان پاکیزگی کی حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ شرک اور کفر سے پاک ہوتے ہیں اور ان کے اقوال ، افعال ،اخلاق اور خصلتیں پاکیزہ ہوتی ہیں ،نیکیاں ان کے ساتھ ہوتی ہیں ، حرام اور ممنوع اَفعال کے داغوں سے ان کادامنِ عمل میلا نہیں ہوتا، روح قبض ہونے کے وقت اُن کو جنت و رِضوان اوررحمت و کرامت کی بشارتیں دی جاتی ہیں ، اس حالت میں موت انہیں خوشگوار معلوم ہوتی ہے، جان فرحت و سُرور کے ساتھ جسم سے نکلتی ہے اور ملائکہ عزت کے ساتھ اس کو قبض کرتے ہیں۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۲۰-۱۲۱، ملخصاً)
{یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْكُمُ:کہتے ہیں : تم پر سلامتی ہو۔} حضرت محمد بن کعب قُرَظی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ جب مومن بندے کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اس کے پاس فرشتہ آکر کہتا ہے’’ اے اللّٰہ کے دوست! تجھ پر سلام اور اللّٰہ تعالیٰ تجھے سلام فرماتا ہے۔ (شعب الایمان، التاسع من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی عذاب القبر، ۱ / ۳۶۱، روایت نمبر: ۴۰۲)
{اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ:تم اپنے اعمال کے بدلے میں جنت میں داخل ہوجاؤ۔} یعنی آخرت میں یا روح نکلتے وقت اُن سے کہا جائے گا کہ تم اپنے اعمال کے بدلے میں جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۵۹۴، صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۰۶۵، ملتقطاً)
نوٹ:یاد رہے کہ اس آیت اور اس جیسی وہ تمام آیات جن میں اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہونے کا ذکر ہے ان کا معنی یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ کئے ہوئے نیک اعمال کی وجہ سے بندہ ا س وقت جنت میں جائے گا جب اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل سے ان اعمال کو قبول فرمائے گا محض نیک عمل کر لینے سے کوئی جنت میں داخل نہ ہو گا (کیونکہ جنت میں داخلے کا سبب ِحقیقی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل ہے۔) (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۲۱)
{هَلْ یَنْظُرُوْنَ:یہ کس چیز کا انتظار کررہے ہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن لوگوں نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ شرک کیا اور آپ کی نبوت کو ماننے سے انکار کر دیا،یہ اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے آجائیں یا تمہارے ربعَزَّوَجَلَّ کا دنیا میں یاروزِ قیامت والے عذاب کاحکم آجائے ۔ ان سے پہلی امتوں کے کفار نے بھی ایسے ہی کیا تھا ،انہوں نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تو وہ ہلاک کر دئیے گئے اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے انہیں عذاب میں مبتلا کر کے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود ہی کفر اختیار کرکے اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۱۲۱، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۲۱۸، ملتقطاً)
{فَاَصَابَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا:تو ان کے اعمال کی برائیاں ان پر آ پڑیں ۔} یعنی انہوں نے اپنے خبیث اعمال کی سزا پائی اور جس عذاب کا یہ مذاق اڑاتے تھے وہ ان پر نازل ہو گیا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۱۲۱)
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا:اور مشرک کہنے لگے۔} مکہ کے مشرکین مذاق کے طور پرسیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ کہتے تھے کہ’’اگر اللّٰہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرتے اور نہ اس کے حکم کے بغیر ہم بحیرہ و سائبہ (جانور) وغیرہکسی چیز کو حرام قرار دیتے۔ اس سے اُن کی مراد یہ تھی کہ اُن کا شرک کرنا اور اُن چیزوں کو حرام قرار دے لینا اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت اور مرضی سے ہے، اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ان سے پہلے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا کہ اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تکذیب کی ، حلال کو حرام کیا اور ایسی ہی مذاق اڑانے والی باتیں کہیں ، رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر تو صاف صاف تبلیغ کردینا یعنی حق کو ظاہر کردینا اور شرک کے باطل اور قبیح ہونے پر مطلع کردینا ہی لازم ہے ہدایت دینا ان پر لازم نہیں ۔ (جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۲۱۸، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۵۹۵، ملتقطاً)
اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت کو دلیل بنانا اور اس کے حکم کی پرواہ نہ کرنا جہالت ہے:
اِس آیت میں اور اِس سے اگلی آیت میں کفار کی اس جہالت کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے کہ مَشِیَّت ِ الٰہی کو تو کفار اپنی حرکتوں کی دلیل بنارہے ہیں لیکن حکمِ الٰہی کی ان کو کوئی پرواہ نہیں ۔ ہمارے زمانے میں بعض مسلمان بھی اپنے برے افعال کی یہی دلیل دیتے ہیں کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ نہ چاہتا تو میں یہ گناہ، فلاں جرم اور وہ مَعصِیَت نہ کرتا، اگر میں نے ایسا کیا ہے تو اس میں میرا قصور ہی کیا ہے،یہ لوگ خود ہی غور کر لیں کہ ان کا طرزِ عمل کن سے مل رہا ہے؟
{وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا:اور بیشک ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا ۔} یعنی جس طرح ہم نے تم میں محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھیجا اسی طرح ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا اور ہر رسول کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم سے فرمائیں کہ اے لوگو!اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرو اور شیطان کی پیروی کرنے سے بچو تو ان اُمتوں میں کسی کو اللّٰہ تعالیٰ نے ہدایت دیدی تووہ ایمان سے مشرف ہوئے اور کسی پر علمِ الٰہی میں گمراہی ثابت ہوگئی تووہ اپنی اَزلی شقاوت کی وجہ سے کفر پر مرے اور ایمان سے محروم رہے۔ اے کفارِ مکہ! تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں کاکیسا انجام ہوا؟ انہیں اللّٰہ تعالیٰ نے ہلاک کر دیا اور اُن کے شہر ویران کر دئیے ،ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اُن کی بربادی کی خبر دیتی ہیں ،اس کو دیکھ کر سمجھو کہ اگر تم بھی اُن کی طرح کفر و تکذیب پر مُصِر رہے تو تمہارا بھی ایسا ہی انجام ہونا ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۱۲۲، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۵۹۵، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۲۱۸، ملتقطاً)
اِس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ کسی نبی سے سب لوگوں نے ہدایت حاصل نہ کی جیسے سورج سے سب نور حاصل نہیں کرتے، چمگادڑ محروم رہتا ہے، بارش سے ہر زمین سرسبز نہیں ہوتی، بنجر زمین بے فیض رہتی ہے تو اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر بعض بد بخت آپ پر ایمان نہیں لاتے تو آپ غمگین کیوں ہوتے ہیں ۔ یاد رہے کہ آیت کے شروع میں جو یہ فرمایا گیا کہ ہر امت میں رسول بھیجا تو اس سے یہ مراد نہیں کہ ہر قبیلے یا ہر علاقے میں رسول بھیجا گیا بلکہ کسی جگہ رسول بھیجا گیا اور کسی جگہ اس کی رسالت کا پیغام پہنچا دیا گیا۔
آیت ’’ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اِس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… عذابِ الٰہی اور قہرِ ربّانی کا مشاہدہ کرنا ہو تو کفار کی بستیاں دیکھی جاسکتی ہیں اور یونہی اگر رحمتِ الٰہی کا نظارہ کرنا ہو، تو اولیائُ اللّٰہ کے آستانے دیکھے جائیں ۔
(2)… تاریخ و جغرافیہ کا علم سیکھنا بہت مفید ہے کہ اس سے اللّٰہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے لیکن یہ جب ہی ہے کہ تاریخ و جغرافیہ صحیح ہو اور صحیح نیت سے پڑھے۔
{اِنْ تَحْرِصْ عَلٰى هُدٰىهُمْ:اگر تم ان کی ہدایت کی حرص کرتے ہو۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ لوگ اُن میں سے ہیں جن کی گمراہی ثابت ہوچکی اور اُن کی شقاوت ازلی ہے۔ ا س کے باوجود اگر آپ ان مشرکین کی ہدایت کی حرص کریں تو بے شک جسے اللّٰہ تعالیٰ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں لہٰذا اس بارے میں آپ کوشش نہ فرمائیں اور جس چیز کے ساتھ آپ کو بھیجا گیا ہے وہ ان تک پہنچا دیں تاکہ حجت تمام ہو جائے اور جب اللّٰہ تعالیٰ ان کے عذاب کا ارادہ فرمائے توکوئی بھی ایسا نہیں جو اللّٰہ تعالیٰ اور ان کے عذاب کے درمیان حائل ہو کر ان کی مدد کر ے۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۵۹۵، تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۳۷، ۷ / ۵۸۳، ملتقطاً)
{وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ:اور انہوں نے بڑی کوشش کرکے اللّٰہ کی قسم کھائی۔} شانِ نزول: ایک مشرک ایک مسلمان کا مقروض تھا، مسلمان نے مشرک سے اپنے قرض کا تقاضا کیا ، دورانِ گفتگو اس نے اِس طرح اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی قسم کھائی کہ اس کی قسم! جس سے میں مرنے کے بعد ملنے کی تمنا رکھتا ہوں ۔ اس پر مشرک نے کہا ’’ کیا تیرا یہ خیال ہے کہ تو مرنے کے بعد اٹھے گا اور مشرک نے قسم کھاکر کہا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مردے نہ اُٹھائے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کیوں مُردوں کو نہیں اٹھائے گا؟ یقینا اٹھائے گا۔ یہ اس کا سچا وعدہ ہے لیکن اکثر لوگ اِس اُٹھائے جانے کی حکمت اور اُس کی قدرت نہیں جانتے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۱۲۲)
{لِیُبَیِّنَ لَهُمْ:تاکہ انہیں واضح کر کے بتادے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ انہیں اس لئے اٹھائے گا تاکہ انہیں واضح کر کے وہ بات بتا دے جس میں وہ مسلمانوں سے جھگڑتے تھے کہ مرنے کے بعد اٹھایا جانا حق ہے اور اس لئے اٹھائے گاتاکہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے اورمردوں کو زندہ کئے جانے کا انکار غلط تھا۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۵۹۵)
{اِنَّمَا:صرف ۔} یعنی جب ہم کسی چیز کو وجود میں لانے کا ارادہ کریں تو ا س سے ہم صرف اتنا کہہ دیتے ہیں کہ ہو جا تو وہ اسی وقت وجود میں آ جاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ ہر مقدور چیز کو وجود میں لانا اللّٰہ تعالیٰ کے لئے اتنا زیادہ آسان ہے تو مرنے کے بعد اٹھانا اس کے لئے کیا مشکل ہے ۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۵۹۶)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan