READ

Surah An-Nahl

اَلنَّحْل
128 Ayaat    مکیۃ


16:81
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمُ الْحَرَّ وَ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمْ بَاْسَكُمْؕ-كَذٰلِكَ یُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ(۸۱)
اور اللہ نے تمہیں اپنی بنائی ہوئی چیزوں (ف۱۷۸) سے سائے دیئے (ف۱۷۹) اور تمہارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہ بنائی (ف۱۸۰) اور تمہارے لیے کچھ پہنادے بنائے کہ تمہیں گرمی سے بچائیں اور کچھ پہناوے (ف۱۸۱) کہ لڑائیں میں تمہاری حفاظت کریں (ف۱۸۲) یونہی اپنی نعمت تم پر پوری کرتا ہے (ف۱۸۳) کہ تم فرمان مانو (ف۱۸۴)

{وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا:اور اللّٰہ نے تمہیں  اپنی بنائی ہوئی چیزوں  سے سائے دیئے۔} یعنی اے لوگو! تم پر اللّٰہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں  بھی ہیں  کہ اس نے تمہیں  اپنی بنائی ہوئی چیزوں  مکانوں  دیواروں  چھتوں  درختوں  اور بادل وغیرہ سے سائے دیئے جس میں  تم آرام کرکے گرمی کی شدت سے بچتے ہو اور تمہارے لیے پہاڑوں  میں  غار وغیرہ چھپنے کی جگہیں  بنائیں  تاکہ امیر وغریب سب ان میں  آرام کرسکیں  اور تمہارے پہننے کے لیے کچھ لباس ایسے بنائے جو تمہیں  گرمی، سردی سے بچاتے ہیں  اور کچھ لباس جیسے زرہ اور بازو بند وغیرہ ایسے بنائے جو لڑائی کے وقت تمہاری حفاظت کرتے ہیں  اور تیر، تلوار، نیزے وغیرہ سے تمہارے بچاؤ کا سامان ہوتے ہیں ۔ اے لوگو! جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ چیزیں  پیدا فرمائیں  اسی طرح دنیا میں  تمہاری ضروریات کا سامان پیدا فرما کر وہ تم پر اپنی نعمت پوری کرتا ہے تاکہ تم اس کی اطاعت کرواور اس کی نعمتوں  کا اعتراف کرکے اسلام لاؤ اور دین ِبرحق قبول کرلو۔( جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۲۲۳-۲۲۴، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۱۳۶-۱۳۷، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۶۰۴-۶۰۵، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۸۱، ۵ / ۶۷، ملتقطاً)

{فَاِنْ تَوَلَّوْا:پھر اگر وہ منہ پھیریں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر کفار ِمکہ آپ پر ایمان لانے اور آپ کی تصدیق کرنے سے اعراض کریں  اور اپنے کفر پر ہی جمے رہیں  تو آپ غمزدہ نہ ہوں ، آپ پر صرف صاف صاف تبلیغ کردینا لازم ہے اور جب آپ نے ان تک اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا تو آپ کا کام پورا ہوچکا اوراب نہ ماننے کا وبال اُن کی گردن پر ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۱۳۷، ملخصاً)

16:82
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(۸۲)
پھر اگر وہ منہ پھیریں (ف۱۸۵) تو اے محبوب! تم پر نہیں مگر صاف پہنچا دینا، (ف۱۸۶)

16:83
یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ یُنْكِرُوْنَهَا وَ اَكْثَرُهُمُ الْكٰفِرُوْنَ۠(۸۳)
اللہ کی نعمت پہنچانتے ہیں (ف۱۸۷) پھر اس سے منکر ہوتے ہیں (ف۱۸۸) اور ان میں اکثر کافر ہیں، (ف۱۸۹)

{یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ:وہ اللّٰہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں  ۔} یعنی جو نعمتیں  ا س سورت میں  ذکر کی گئیں  کفارِ مکہ اُن سب کو پہچانتے ہیں  اور جانتے ہیں  کہ یہ سب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے ہیں  پھر بھی اس کاشکر بجا نہیں  لاتے۔ مشہور مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مراد ہیں ۔ اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہیں  کہ وہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہچانتے ہیں  اور سمجھتے ہیں  کہ آپ کا وجود اللّٰہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے اور اس کے باوجود پھر اس نعمت کاانکار کردیتے ہیں  یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہیں  لاتے اور اس طرح ان میں  اکثر کافر ہی ہیں  اور وہ دینِ اسلام قبول نہیں  کرتے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۸۳، ۳ / ۱۳۸، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۶۰۵، خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۵۱۵، ملتقطاً)

16:84
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ(۸۴)
اور جس دن (ف۱۹۰) ہم اٹھائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہ (ف۱۹۱) پھر کافروں کو نہ اجازت ہو (ف۱۹۲) نہ وہ منائے جائیں، ف۱۹۳)

{وَ یَوْمَ نَبْعَثُ:اور یاد کروجس دن ہم اٹھائیں  گے۔} اس سے پہلی آیتوں  میں  اللّٰہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں  بیان فرمایا کہ انہوں  نے اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں  کو پہچاننے کے باوجود ان کا انکار کر دیا، اور یہ بھی بیان فرمایا کہ ان میں  سے اکثر کافر ہیں  جبکہ ان آیتوں  میں  اللّٰہ تعالیٰ نے ان کفار پر عذاب کی وعید اور قیامت کے دن ان کا جو حال ہو گا اسے بیان فرمایا۔ آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جب قیامت کے دن ہم ہر امت سے ایک گواہ اٹھائیں  گے جو اُن کی تصدیق و تکذیب اور ایمان و کفر کی گواہی دے گا اور یہ گواہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں  ، پھر کافروں  کومعذرت کرنے کی یا کسی کلام کی یا دنیا کی طرف لوٹنے کی اجازت نہیں  دی جائے گی اور نہ ا س دن انہیں  ا س بات کا مُکَلَّف کیا جائے گا کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو راضی کریں  کیونکہ آخرت عمل کرنے کی جگہ نہیں ۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۱۳۸، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۶۰۵، ملتقطاً)

16:85
وَ اِذَا رَاَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمْ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ(۸۵)
اور ظلم کرنے والے (ف۱۹۴) جب عذاب دیکھیں گے اسی وقت سے نہ وہ ان پر سے ہلکا ہو نہ انہیں مہلت ملے،

{وَ اِذَا رَاَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ:اور ظلم کرنے والے جب عذاب دیکھیں  گے۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو جھٹلانے والے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنے والے اور وہ لوگ جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قوم کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں  ، جب وہ عذاب دیکھیں  گے توکوئی چیز انہیں  اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات نہ دے سکے گی کیونکہ انہیں  کلام کرنے کی اجازت نہ ہو گی کہ کوئی عذر بیان کر سکیں  اور ان سے عذاب ہلکاہو جائے اور نہ ہی انہیں  مہلت دی جائے گی کیونکہ توبہ کا وقت ختم ہو چکا، یہاں  صرف اعمال کی جزا ملے گی۔( تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۸۵، ۷ / ۶۳۱)

16:86
وَ اِذَا رَاَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا شُرَكَآءَهُمْ قَالُوْا رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ شُرَكَآؤُنَا الَّذِیْنَ كُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِكَۚ-فَاَلْقَوْا اِلَیْهِمُ الْقَوْلَ اِنَّكُمْ لَكٰذِبُوْنَۚ(۸۶)
اور شرک کرنے والے جب اپنے شریکوں کو دیکھیں گے (ف۱۹۵) کہیں گے اے ہمارے رب! یہ ہیں ہمارے شریک کہ ہم تیرے سوا پوجتے تھے، تو وہ ان پر بات پھینکیں گے کہ تم بیشک جھوٹے ہو، (ف۱۹۶)

{وَ اِذَا رَاَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا شُرَكَآءَهُمْ:اورمشرک جب اپنے شریکوں  کو دیکھیں  گے۔} یعنی جب اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے قیامت کے دن بتوں  وغیرہ ان چیزوں  کو دیکھیں  گے جن کی عبادت کیا کرتے تھے تو وہ اس وقت کہیں  گے’’ اے ہمارے رب! یہ ہمارے وہ شریک ہیں  جن کی ہم تیرے سوا عبادت کیا کرتے تھے۔وہ شریک کہیں  گے ’’اے مشرکو! بے شک تم جھوٹے ہو ، ہم نے تمہیں  اپنی عبادت کی دعوت نہیں  دی تھی۔( تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۸۶، ۷ / ۶۳۱)

16:87
وَ اَلْقَوْا اِلَى اللّٰهِ یَوْمَىٕذِ ﹰالسَّلَمَ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(۸۷)
اور اس دن (ف۱۹۷) اللہ کی طرف عاجزی سے گریں گے (ف۱۹۸) اور ان سے گم ہوجائیں گی جو بناوٹیں کرتے تھے، ف۱۹۹)

{وَ اَلْقَوْا اِلَى اللّٰهِ یَوْمَىٕذِ ﹰالسَّلَمَ:اور وہ مشرک اس دن اللّٰہ کی طرف صلح کی پیشکش کریں  گے۔} مشرکین دنیا میں  اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اورفرمانبرداری سے منہ موڑ تے رہے جبکہ قیامت کے دن وہ اللّٰہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہونا چاہیں  گے لیکن یہ فرمانبرداری انہیں  کوئی نفع نہ دے گی اورجب مشرکوں  کے معبود انہیں جھوٹا قرار دے کر ان سے اپنی براء ت کا اظہار کریں  گے تواس وقت مشرکین کی من گھڑت باتیں  کہ یہ معبود اُن کے مددگار ہیں  اور ان کی شفاعت کریں  گے، بے کار اور باطل ہوجائیں  گی ۔( جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۸۷، ۳ / ۱۰۸۵، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۶۰۵، ملتقطاً)

16:88
اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ(۸۸)
جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا ہم نے عذاب پر عذاب بڑھایا (ف۲۰۰) بدلہ ان کے فساد کا،

{اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا:جنہوں  نے کفر کیا۔} اس سے پہلی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے ان کافروں  کی وعید بیان فرمائی جنہوں  نے صرف خود کفر کیا جبکہ ا س آیت میں ان کافروں  کی وعید بیان فرمائی جو خود بھی کافر تھے اور دوسروں  کو اللّٰہ تعالیٰ کے راستے سے روک کر(اور گمراہ کر کے) انہیں  کافر بناتے تھے۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۸۸، ۷ / ۲۵۷)       آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن لوگوں  نے آپ کی نبوت کا انکار کیا اور جو آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس سے لائے، اسے جھٹلایا اور لوگوں  کو اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے سے روکا تو ہم قیامت کے دن جہنم میں  انہیں  اس عذاب سے زیادہ عذاب دیں  گے جس کے وہ صرف اپنے کفر کی وجہ سے حقدار ہوئے تھے۔ انہیں  دگنا عذاب اس لئے ہو گا کہ دنیا میں  یہ خود بھی اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے تھے اور دوسرے لوگوں  کو اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیتے تھے۔( تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۸۸، ۷ / ۶۳۲-۶۳۳)

گمراہ گر کوزیادہ عذاب ہوگا:

            اس سے معلوم ہوا کہ گمراہ گر کا عذاب گمراہ سے زیادہ ہے کیونکہ اس کا جرم بھی زیادہ ہے ایک تو خود گمراہ ہونا اور دوسرا، دوسروں  کو گمراہ کرنا۔ یہ جتنوں  کو گمراہ کرے گا اتنے ہی لوگوں  کا عذاب اِسے دیا جائے گا، چنانچہ اس کی آگ زیادہ تیز ہوگی، اس کے سانپ بچھو زیادہ زہریلے اور تمام دوزخیوں  کا خون و پیپ اس کی غذا ہوگی۔

16:89
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا عَلَیْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیْدًا عَلٰى هٰۤؤُلَآءِؕ-وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ۠(۸۹)
اور جس دن ہم ہر گروہ میں ایک گواہ انہیں میں سے اٹھائیں گے کہ ان پر گواہی دے (ف۲۰۱) اور اے محبوب! تمہیں ان سب پر (ف۲۰۲) شاہد بناکر لائیں گے، اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے (ف۲۰۳) اور ہدایت اور رحمت اور بشارت مسلمانوں کو،

{وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا عَلَیْهِمْ:اور جس دن ہم ہر امت میں  ان پر ایک گواہ اٹھائیں  گے۔} اس آیت میں  گواہ سے مراد انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہیں ، یہ قیامت کے دن اپنی اپنی امتوں  کے متعلق گواہی دیں  گے کہ انہوں  نے اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام ان تک پہنچایا اوراِن لوگوں  کو ایمان قبول کرنے کی دعوت دی۔( قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۵ / ۱۲۰، الجزء العاشر)

{ وَجِئْنَا بِكَ شَهِیْدًا عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ:اور اے محبوب! تمہیں  ان سب پر گواہ بناکر لائیں  گے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم تمہیں  اُمتوں  اور ان کے خلاف گواہی دینے والے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر گواہ بنا کر لائیں  گے جیسا کہ دوسری آیت میں  ارشاد ہوا

’’فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا‘‘(نساء:۴۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں  سے ایک گواہ لائیں  گے اور اے حبیب! تمہیں  ان سب پر گواہ اور نگہبان بناکر لائیں  گے۔( ابوسعو د، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۳ / ۲۸۷، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۵ / ۶۹، ملتقطاً)

{تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ:جو ہر چیز کا روشن بیان ہے۔} اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’قرآن عظیم گواہ ہے اور ا س کی گواہی کس قدر اعظم ہے کہ وہ ہر چیز کا تِبیان ہے اور تبیان اس روشن اور واضح بیان کو کہتے ہیں  جو اصلاً پوشیدگی نہ رکھے کہ لفظ کی زیادتی معنی کی زیادتی پر دلیل ہوتی ہے اور بیان کے لئے ایک تو بیان کرنے والا چاہئے، وہ اللّٰہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی ہے اور دوسرا وہ جس کے لئے بیان کیا جائے اور وہ وہ ہیں  جن پر قرآن اترا(یعنی) ہمارے سردار رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔اور اہلِ سنت کے نزدیک ’’شَیْءٍ‘‘ ہر موجود کو کہتے ہیں  تو اس میں  جملہ موجودات داخل ہو گئے ،فرش سے عرش تک، شرق سے غرب تک، ذاتیں  اور حالتیں ، حرکات اور سکنات، پلک کی جنبشیں  اور نگاہیں ، دلوں  کے خطرے اور ارادے اور ان کے سوا جو کچھ ہے (وہ سب اس میں  داخل ہو گیا) اور انہیں  موجودات میں  سے لوحِ محفوظ کی تحریر ہے، تو ضروری ہے کہ قرآنِ عظیم میں  ان تمام چیزوں  کابیان روشن اور تفصیل کامل ہو اور یہ بھی ہم اسی حکمت والے قرآن سے پوچھیں  کہ لوح میں  کیا کیا لکھا ہوا ہے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے

’’ كُلُّ صَغِیْرٍ وَّ كَبِیْرٍ مُّسْتَطَرٌ‘‘(قمر:۵۳)

(ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہر چھوٹی اور بڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔)

اور فرماتا ہے

’’ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ‘‘(یس:۱۲)

(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ایک ظاہر کردینے والی کتاب (لوحِ محفوظ) میں  ہر چیز ہم نے شمار کررکھی ہے۔)

اور فرماتا ہے

’’وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ‘‘(انعام:۵۹)

(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور نہ ہی زمین کی تاریکیوں  میں  کوئی دانہ ہے مگر وہ ان سب کو جانتا ہے۔ اور کوئی تر چیز نہیں  اور نہ ہی خشک چیز مگر وہ ایک روشن کتاب میں  ہے۔)

اور بے شک صحیح حدیثیں  فرما رہی ہیں  کہ روزِ اول سے آخر تک جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو گا سب لوحِ محفوظ میں  لکھا ہے بلکہ یہاں  تک ہے کہ جنت و دوزخ والے اپنے ٹھکانے میں  جائیں  ،اور وہ جو ایک حدیث میں  فرمایا کہ ابد تک کا سب حال اس میں  لکھا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے ،اس لئے کہ کبھی ابد بولتے ہیں  اور اس سے آئندہ کی مدتِ طویل مراد لیتے ہیں  جیسا کہ بیضاوی میں  ہے، ورنہ غیر مُتناہی چیز کی تفصیلیں  متناہی چیز نہیں  اٹھا سکتی ،جیسا کہ پوشیدہ نہیں  اور اسی کو مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ کہتے ہیں ، اور بے شک علمِ اصول میں  بیان کر دیا گیا کہ نکرہ مقامِ نفی میں  عام ہوتا ہے تو جائز نہیں  کہ اپنی کتاب میں  اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی چیز بیان سے چھوڑ دی ہو اور’’ كُل ‘‘ کا لفظ تو عموم پر ہر نص سے بڑھ کر نص ہے تو روا نہیں  کہ روشن بیان اور تفصیل سے کوئی چیز چھوٹ گئی ہو۔( الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ، النظر الخامس فی الدلائل المدعی من الاحادیث والاقوال والآیات، ۷۵-۸۳)

قرآنِ کریم تمام علوم کی جامع کتاب ہے:

             آیت کے اس حصے

’’ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان:قرآن ہر چیز کا روشن بیان ہے۔

            نیز ایک اور آیت کے اس حصے

’’مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ‘‘(انعام:۳۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہم نے اس کتاب میں  کسی شے کی کوئی کمی نہیں  چھوڑی۔

            سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے جو تمام علوم کی جامع ہے ، اور یہی بات اَحادیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال میں  بھی بیان کی گئی ہے ،چنانچہ ترمذی کی حدیث میں  ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پیش آنے والے فتنوں  کی خبر دی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اُن سے خلاصی کاطریقہ دریافت کیا۔ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللّٰہ کی کتاب، جس میں  تم سے پہلے واقعات کی بھی خبر ہے ،تم سے بعد کے واقعات کی بھی اور تمہارے آپس کے فیصلے بھی ہیں۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل القرآن، ۴ / ۴۱۴، الحدیث: ۲۹۱۵)

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’جو علم چاہے وہ قرآن کو لازم کرلے کیونکہ اس میں  اَوّلین و آخرین کی خبریں  ہیں ۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الاوائل، باب اول ما ومن فعلہ، ۸ / ۳۳۷، الحدیث: ۱۰۷)

امام شافعی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اُمت کے سارے علوم حدیث کی شرح ہیں  اور حدیث قرآن کی اور یہ بھی فرمایا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو کوئی حکم بھی فرمایا وہ وہی تھا جو آپ کو قرآنِ پاک سے مفہوم ہوا۔( الاتقان فی علوم القرآن، النوع الخامس والستون فی العلوم المستنبطۃ من القرآن، ۲ / ۴۷۶)

حضرت ابوبکر بن مجاہد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے انہوں  نے ایک روز فرمایا کہ عالَم میں  کوئی چیز ایسی نہیں  جو کتابُ اللّٰہ یعنی قرآن شریف میں  مذکور نہ ہو۔ اس پر کسی نے اُن سے کہا: سَراؤ ں  کا ذکر کہاں  ہے: آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا اس آیت ’’ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِیْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ(اس بارے میں  تم پر کچھ گناہ نہیں  کہ ان گھروں  میں  جاؤ جو خاص کسی کی رہائش نہیں  جن میں  تمہیں  نفع اٹھانے کا اختیار ہے۔)‘‘(النور:۲۹) میں  ہے۔( الاتقان فی علوم القرآن، النوع الخامس والستون فی العلوم المستنبطۃ من القرآن، ۲ / ۴۷۷)

 ابن ابوالفضل مرسی نے کہا کہ اَوّلین و آخرین کے تمام علوم قرآنِ پاک میں  ہیں ۔( روح المعانی، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۷ / ۶۰۸) غرض یہ کتاب جمیع علوم کی جامع ہے اور جس کسی کو اس کاجتنا علم ملا ہے وہ اتنا ہی جانتا ہے۔

نوٹ: اس آیتِ مبارکہ سے متعلق مزید تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عظیم الشان تصنیف ’’اِنْبَاءُ الْحَیْ اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُوْنْ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْءْ‘‘(قرآن ہر چیز کا بیان ہے) کا مطالعہ فرمائیں ۔

{هُدًى وَّ رَحْمَةً:ہدایت اور رحمت۔} یعنی جس نے قرآن کی تصدیق کی ،اس میں  موجود اللّٰہ تعالیٰ کی حدوں  پر اور اَمر و نہی پر عمل کیا، قرآن نے جن چیزوں  کو حلال کیا اسے حلال سمجھا اور جن چیزوں  کو حرام کیا انہیں  حرام جانا تو اس کے لئے قرآن ہدایت اور رحمت ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے اوراس کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے کو قرآن آخرت میں  بہترین ثواب اور عظیم مرتبے کی بشارت دیتا ہے۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۷ / ۶۳۳)

16:90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(۹۰)
بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی (ف۲۰۴) اور رشتہ داروں کے دینے کا (ف۲۰۵) اور منع فرماتا بے حیائی (ف۲۰۶) اور برُی بات (ف۲۰۷) اور سرکشی سے (ف۲۰۸) تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو،

{اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ:بیشک اللّٰہ عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے۔}عدل اور انصاف کا (عام فہم) معنی یہ ہے کہ ہر حق دار کو اس کا حق دیاجائے اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے ، اسی طرح عقائد، عبادات اور معاملات میں  اِفراط و تفریط سے بچ کر درمیانی راہ اختیار کرنا بھی عدل میں  داخل ہے جیسے بندہ نہ تو دہریوں  کی طرح اللّٰہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرے اور نہ مشرکوں  کی طرح اللّٰہ تعالیٰ کو شریک ٹھہرانے لگے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کو موجود، واحد اور لاشریک مانے، اسی طرح نہ تو یہ نظریَہ رکھے کہ اللّٰہ تعالیٰ مومن بندے کے کسی گناہ کا مُؤاخذہ نہیں  فرمائے گا اور نہ ہی یہ عقیدہ رکھے کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ جہنم میں  رہے گا بلکہ یہ عقیدہ رکھے کہ گنہگار مسلمان کا معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر مَوقوف ہے وہ چاہے تواسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف کر دے اور کبیرہ گناہ کرنے والا مسلمان ہے، وہ اگر جہنم میں  گیا تو ہمیشہ جہنم میں  نہ رہے گا بلکہ اپنے گناہوں  کی سزا پوری ہونے کے بعد جنت میں  داخل ہو گا۔ یونہی بندہ عبادات میں  اس قدر مصروف نہ ہو جائے کہ اس وجہ سے بیوی بچوں ، عزیز رشتہ داروں،  پڑوسیوں  اور دیگر لوگوں  کے شرعی حقوق ہی ادا نہ کر سکے اور نہ عبادات سے اس قدر غافل ہو کہ فرائض و واجبات ہی ترک کرنا شروع کر دے بلکہ فرائض و واجبات اور سُنَن کی ادائیگی تو ضرور کرے البتہ نفلی عبادت و ریاضت اتنی کرے کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں  کے شرعی حقوق بھی آسانی کے ساتھ ادا کر سکے ، ایسے ہی سخاوت کرنا بہت عمدہ فعل ہے لیکن یہ نہ اتنی کم ہو کہ بندہ بخل کے دائرے میں  داخل ہوجائے اور نہ ہی اتنی زیادہ ہو کہ وہ فضول خرچی میں  شامل ہو جائے بلکہ ان دونوں  کے درمیان ہو۔( روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۵ / ۷۰-۷۱، ملخصاً)

مفسرین نے عدل اور احسان کے اور معنی بھی بیان فرمائے ہیں  ، چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ عدل یہ ہے کہ آدمی لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ کی گواہی دے اور احسان فرائض کو ادا کرنے کا نام ہے۔

آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہی سے ایک اور روایت ہے کہ عدل شرک کو ترک کرنے کا نام ہے اور احسان یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرنا گویا وہ تمہیں  دیکھ رہا ہے اور دوسروں  کے لئے وہی پسند کرنا جو اپنے لئے پسند کرتے ہو مثلاً اگر وہ مومن ہو تو اُس کے ایمان کی برکات کی ترقی تمہیں  پسند ہو اور اگر وہ کافر ہو تو تمہیں  یہ پسند آئے کہ وہ تمہارا مسلمان بھائی ہوجائے۔

حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے ایک اور روایت میں  ہے کہ عدل توحیدکا اور احسان اِخلاص کا نام ہے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۳۹، ملخصاً)ان تمام روایتوں  کا طرزِ بیان اگرچہ جدا جدا ہے لیکن مقصود ایک ہی ہے۔

اور حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں  ’’عدل یہ ہے کہ تمہارا ظاہر اور باطن دونوں (اطاعت اور فرمانبرداری میں ) برابر ہو اور احسان یہ ہے کہ باطن کا حال ظاہر سے بہتر ہو۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۳۹)

ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ابنِ عربی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں  : عدل کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق بندے اور ا س کے رب کے درمیان ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کے مطالبے پر اپنے رب تعالیٰ کے حق کو ترجیح دے، اپنی خواہشات پر اس کی رضا کو مقدم کرے ، گناہوں  سے اِجتناب کرے اور نیک اعمال بجا لائے۔ عدل کی دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق بندے اور ا س کے نفس کے درمیان ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کو ان چیزوں  سے روکے جس میں  ا س کی ہلاکت ہے، پیروی کرنے والے سے اپنی طمع ختم کر دے اور ہر حال میں  قناعت کو اپنے اوپر لازم کر لے۔ عدل کی تیسری قسم وہ ہے جس کا تعلق بندے اور مخلوق کے درمیان ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بندہ لوگوں  کو خوب نصیحت کرے،قلیل و کثیر ہر چیز میں  خیانت کرنا چھوڑ دے، ہر صورت میں  لوگوں  کے ساتھ انصاف کرے، اس کی طرف سے کسی کو بھی قول سے، فعل سے، پوشیدہ یا اِعلانیہ کوئی برائی نہ پہنچے اورلوگوں  کی طرف سے اِس پر جو مصیبت اور آزمائش آئے اُس پر صبر کرے۔(تفسیرقرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰،۵ / ۱۲۱، الجزء العاشر)

عدل اور احسان دونوں  پر عمل کیا جائے:

ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں  کے اُمور میں  عدل اور احسان دونوں  سے کام لے اور صرف عدل کرنے پر اِکتفا نہ کرے ۔چنانچہ اسی بات کو سمجھاتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللّٰہ تعالیٰ نے عدل و احسان دونوں  کا حکم دیا ہے اور عدل ہی نجات کاباعث ہے اور تجارت میں  وہ مالِ تجارت کی طرح (ضروری) ہے اور احسان کامیابی اور خوش بختی کا سبب ہے اور تجارت میں  یہ نفع کی طرح ہے لہٰذا وہ آدمی عقل مند لوگوں  میں  شمار نہیں  ہوتا جو دُنْیوی معاملات میں  صرف مال پر اِکتفا کرے اسی طرح آخرت کا معاملہ ہے لہٰذا دیندار آدمی کے لئے مناسب نہیں  کہ عدل قائم کرنے اور ظلم سے بچنے پر ہی اِکتفا کرے اور احسان کے دروازوں  کو چھوڑ دے۔(احیاء علوم الدین، کتاب آداب الکسب والمعاش، الباب الرابع فی الاحسان فی المعاملۃ، ۲ / ۱۰۱)

{وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى:اور رشتے داروں  کو دینے کا۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ رشتہ داروں  کے ساتھ صلہ رحمی اور نیک سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ رشتے دار قریب کے ہوں  یا دور کے،اللّٰہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں  سے حاجت سے زائد کچھ مال انہیں  دے کر ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنا اور اگر اپنے پا س زائد مال نہ ہو تو رشتہ داروں کے ساتھ محبت سے پیش آنا اور ان کے لئے دعائے خیر کرنا مستحب ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۳۹)

 رشتے داروں  کے ساتھ صِلہ رحمی اور حسنِ سلوک کرنے کے فضائل:

رشتے داروں  کے ساتھ صِلہ رحمی اور حسنِ سلوک کرنے کی بڑی فضیلت ہے،اس سے متعلق 3اَحادیث درج ذیل ہیں :

(1)… حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ میں  حاضر ہو کر عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے ایسے عمل کے بارے میں  بتائیے جو مجھے جنت میں  داخل کر دے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور ا س کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رشتہ داروں  کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ، ۱ / ۴۷۱، الحدیث: ۱۳۹۶)

(2)…حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میں  اللّٰہ ہوں  اور میں  رحمٰن ہوں ، رحم (یعنی رشتے داری) کو میں  نے پیدا کیا اور اس کا نام میں  نے اپنے نام سے مُشْتَق کیا، لہٰذا جو اسے ملائے گا، میں  اسے ملاؤں  گا اور جو اسے کاٹے گا، میں  اسے کاٹوں  گا۔( ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی قطیعۃ الرحم، ۳ / ۳۶۳، الحدیث: ۱۹۱۴)

(3)…حضرت عاصم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں  درازی ہو اور رزق میں  وسعت ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور رشتہ والوں  سے سلوک کرے۔( مستدرک، کتاب البرّ والصلۃ، من سرّہ ان یدفع عنہ میتۃ السوء فلیصل رحمہ، ۵ / ۲۲۲، الحدیث: ۷۲۶۲)

{وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ:اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہر شرمناک اورمذموم قول و فعل سے نیز شرک ، کفر ،گناہ اور تمام ممنوعاتِ شرعیہ سے منع فرمایا ہے۔

حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ فرماتے ہیں  ’’ فَحْشَاء ، مُنْکَرْ اور بَغْی یہ ہے کہ ظاہر اچھا ہو اور باطن ایسا نہ ہو ۔ بعض مفسرین نے فرمایا ’’ اس پوری آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے تین چیزوں  کا حکم دیا اور تین سے منع فرمایا ہے ۔

 (1)…عدل کا حکم دیا ۔عدل ،اَقوال اور اَفعال میں  انصاف و مُساوات کا نام ہے اس کے مقابل فَحْشَاء یعنی بے حیائی ہے۔ اس سے مراد قبیح اقوال اور افعال ہیں ۔

 (2)… احسان کا حکم فرمایا ۔ احسان یہ ہے کہ جس نے ظلم کیا اس کو معاف کرو اور جس نے برائی کی اس کے ساتھ بھلائی کرو ۔ اس کے مقابل مُنْکَرْ ہے یعنی محسن کے احسان کا انکار کرنا ۔

(3)… رشتہ داروں  کو دینے ، اُن کے ساتھ صلہ رحمی کرنے اور شفقت و محبت سے پیش آنے کا حکم فرمایا۔ اس کے مقابل بَغْیہے ۔ اس کا مطلب اپنے آپ کو اونچا قرار دینااور اپنے تعلق داروں  کے حقوق تَلف کرنا ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۳۹-۱۴۰، ملخصاً)

{یَعِظُكُمْ:وہ تمہیں  نصیحت فرماتا ہے۔} یعنی اس آیت میں  جس چیز کا حکم دیا گیا اور جس سے منع کیا گیا ا س میں  حکمت یہ ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو اور وہ کام کرو جس میں  اللّٰہ تعالیٰ کی رضا ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۴۰)

سورۂ نحل کی آیت نمبر 90سے متعلق بزرگانِ دین کے اَقوال:

            سورۂ نحل کی اس آیتِ مبارکہ سے متعلق حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ یہ آیت تمام خیر و شر کے بیان کو جامع ہے۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر الآیۃ الجامعۃ للخیر والشرّ فی سورۃ النحل، ۲ / ۴۷۳، الحدیث: ۲۴۴۰)

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’طاعات فرض بھی ہیں  اور نوافل بھی ، اور آدمی ان سب میں  صبر کا محتاج ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان سب کو ا س میں  جمع فرما دیا

’’اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک اللّٰہ عدل اور احسان اور رشتے داروں  کو دینے کا حکم فرماتا ہے۔

            عدل فرض، احسان نفل اور قرابت داروں  کو دینا مُرَوَّت اور صلہ رحمی ہے اور یہ تمام اُمور صبر کے محتاج ہیں  ۔ دوسری قسم گناہوں  پر مشتمل ہے اور ان پر صبر کرنے کی بھی بہت زیادہ حاجت ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے مختلف قسم کے گناہوں  کو اپنے اس ارشادِ گرامی میں  جمع فرما دیا

’’وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب الصبر والشکر، بیان مظان الحاجۃ الی الصبر وانّ العبد لا یستغنی عنہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۸۷)

تفسیر مدارک میں  ہے کہ یہی آیت حضرت عثمان بن مظعون رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اسلام کا سبب ہوئی ،وہ فرماتے ہیں  کہ اس آیت کے نزول سے ایمان میرے دل میں جگہ پکڑ گیا ۔ اس آیت کا اثر اتنا زبردست ہوا کہ ولید بن مغیرہ اور ابوجہل جیسے سخت دل کفار کی زبانوں  پر بھی اس کی تعریف آ ہی گئی۔ یہ آیت اپنے حسنِ بیان اور جامعیت کی وجہ سے ہر خطبہ کے آخر میں  پڑھی جاتی ہے۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۹۰، ص۶۰۶، ملخصاً)

16:91
وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(۹۱)
اور اللہ کا عہد پورا کرو (ف۲۰۹) جب قول باندھو اور قسمیں مضبوط کرکے نہ توڑو اور تم اللہ کو (ف۲۱۰) اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو، بیشک تمہارے کام جانتا ہے،

{وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ:اور اللّٰہ کا عہد پورا کرو۔} اس سے پہلی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے کرنے والے کاموں  اور نہ کرنے والے کاموں  کا اِجمالی طور پر ذکر فرمایا اور ا س آیت سے بعض اِجمالی اَحکام کو تفصیل سے بیان فرما رہا ہے اور ان میں  سب سے پہلے عہد پورا کرنے کا ذکر کیا کیونکہ اس حق کو ادا کرنے کی تاکید بہت زیادہ ہے۔ یہ آیت ان لوگوں  کے بارے میں  نازل ہوئی جنہوں  نے(بیعتِ رضوان کے موقع پر) رسول کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اسلام پر بیعت کی تھی، انہیں  اپنے عہد پورے کرنے کا حکم دیا گیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے وہ عہد ہے جسے انسان اپنے اختیار سے اپنے اوپر لازم کر لے اور اس میں  وعدہ بھی داخل ہے کیونکہ وعدہ عہد کی قسم ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۱۴۰)حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  ’’وعدہ عہد ہی کی ایک قسم ہے۔ حضرت میمون بن مہران رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’تم جس شخص سے بھی عہد کرو تواسے پورا کرو ، خواہ وہ شخص مسلمان ہو یا کافر ، کیونکہ تم نے اس عہد پر اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کا نام لیا(اور اسے ضامن بنایا)ہے۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۷ / ۲۶۳)

          حضرت علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عہد سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے پورا کرنا انسان پر لازم ہے خواہ اسے پورا کرنا اللّٰہ تعالیٰ نے بندے پر لازم کیا ہو یا بندے نے خود اسے پورا کرنا اپنے اوپر لازم کر لیا ہو جیسے پیرانِ عظام کے اپنے مریدین سے لئے ہوئے عہد کیونکہ ان میں  مریدین اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور کسی کام میں  اللّٰہ تعالیٰ کی مخالفت نہ کرنے کو اپنے اوپر لازم کر لیتے ہیں  لہٰذا مریدین پر اسے پورا کرنا لازم ہے۔( صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۱۰۸۸-۱۰۸۹)

وعدہ پورا کرنے کی فضیلت اور عہد شکنی کی مذمت:

            اس آیت میں  عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیااس مناسبت سے ہم یہاں  وعدہ پورا کرنے کی فضیلت اور عہد شکنی کی مذمت پر مشتمل3اَحادیث ذکرکرتے ہیں :

(1)…حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میرے لیے چھ چیزوں  کے ضامن ہوجاؤ  میں  تمہارے لیے جنت کا ذمہ دار ہوتا ہوں ۔ (۱)جب بات کرو سچ بولو۔ (۲) جب وعدہ کرو اسے پورا کرو۔ (۳) جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے اسے ادا کرو ۔ (۴)اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرو۔ (۵) اپنی نگاہیں  نیچی رکھو ۔ (۶) اپنے ہاتھوں  کو روکو۔‘‘(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث عبادۃ بن الصامت رضی اللّٰہ عنہ، ۸ / ۴۱۲،  الحدیث: ۲۲۸۲۱) یعنی ہاتھ سے کسی کو ایذا نہ پہنچاؤ ۔

(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن عہد شکنی کرنے والے کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں  بن فلاں  کی عہد شکنی ہے۔‘‘(بخاری، کتاب الادب، باب ما یدعی الناس بآبائہم، ۴ / ۱۴۹، الحدیث: ۶۱۷۷)

(3)…حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا ہو گا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔(بخاری، کتاب الحیل، باب اذا غصب جاریۃ فزعم انّہا ماتت۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۹۴، الحدیث: ۶۹۶۶)

{وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا:اور قسموں  کو مضبوط کرنے کے بعد نہ توڑو۔} قسموں  کو مضبوط کرنے سے مراد یہ ہے کہ قسم کھاتے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے اَسماء اور صفات زیادہ ذکر کئے جائیں  اور قسم توڑنے کی ممانعت مضبوط کرنے کے ساتھ خاص نہیں  بلکہ مُطْلَقاً قسم توڑنا منع ہے۔ یا قسم مضبوط کرنے سے مراد یہ ہے کہ قصداً قسم کھائی جائے، اس صورت میں  لَغْو قسم اس حکم سے خارج ہو جائے گی۔( تفسیر جمل، النحل، تحت الآیۃ: ۹۱، ۴ / ۲۶۲، ملخصاً)

قسم سے متعلق چند مسائل:

             یہاں  قسم سے متعلق چند اہم مسائل یاد رکھیں :

(1)…قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں  تک ہو سکے کم قسم کھانا بہتر ہے اور بات بات پر قسم نہیں  کھانی چاہیے ، بعض لوگوں  نے قسم کو تکیہ کلام بنا رکھا ہے کہ قصداً اور بلا قصد زبان پر جاری ہوجاتی ہے اور اس کابھی خیال نہیں  رکھتے کہ بات سچی ہے یا جھوٹی، یہ سخت معیوب ہے ۔ غیرِ خدا کی قسم مکروہ ہے اور یہ شرعاً قسم بھی نہیں  یعنی اس کے توڑنے سے کفارہ لازم نہیں ۔( بہار شریعت، حصہ نہم، قسم کا بیان، ۲ / ۲۹۸،ملخصاً)

(2)…بعض قسمیں  ایسی ہیں  کہ اُنہیں  پورا کرنا ضروری ہے مثلًا کوئی ایسا کام کرنے کی قسم کھائی جو بغیر قسم کرنا ضروری تھا یا گناہ سے بچنے کی قسم کھائی تو اس صورت میں  قسم سچی کرنا ضروری ہے۔ مثلاً یوں  کہا کہ خدا کی قسم ظہر پڑھوں  گا یا چوری یا زنا نہ کروں  گا۔ دوسری وہ کہ اُس کا توڑنا ضروری ہے مثلاً گناہ کرنے یا فرائض و واجبات ادانہ کرنے کی قسم کھائی، جیسے قسم کھائی کہ نماز نہ پڑھوں  گا یا چوری کروں  گا یا ماں  باپ سے کلام نہ کروں  گا تو ایسی قسم توڑ دے۔ تیسری وہ کہ اُس کا توڑنا مستحب ہے مثلاً ایسے کام کی قسم کھائی کہ اُس کے غیر میں  بہتری ہے تو ایسی قسم کو توڑ کروہ کرے جو بہتر ہے۔ چوتھی وہ کہ مباح کی قسم کھائی یعنی کرنا اور نہ کرنا دونوں  یکساں  ہیں  اس میں  قسم کو باقی رکھنا افضل ہے۔( بہار شریعت، حصہ نہم، قسم کا بیان، ۲ / ۲۹۹، ملخصاً)

(3)…قسم کا کفارہ غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں  کو کھانا کھلانا یا اُن کو کپڑے پہنانا ہے یعنی یہ اختیار ہے کہ ان تین باتوں  میں  سے جو چاہے کرے۔( تبیین الحقائق، کتاب الایمان، ۳ / ۴۳۰)

   نوٹ:قسم سے متعلق مسائل کی تفصیلی معلومات کے لئے بہار شریعت حصہ 9سے ’’قسم کا بیان ‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔([1])


[1] ۔۔۔نیز اس کے ساتھ ساتھ امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’قسم کے بارے میں  مدنی پھول‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ بھی بہت مفید ہے۔

16:92
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًاؕ-تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِیَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍؕ-اِنَّمَا یَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖؕ-وَ لَیُبَیِّنَنَّ لَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(۹۲)
اور (ف۲۱۱) اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سُوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑ دیا (ف۲۱۲) اپنی قسمیں آپس میں ایک بے اصل بہانہ بناتے ہو کہ کہیں ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادہ نہ ہو (ف۲۱۳) اللہ تو اس سے تمہیں آزماتا ہے (ف۲۱۴) اور ضرور تم پر صاف ظاہر کردے گا قیامت کے دن (ف۲۱۹) جس بات میں جھگڑتے تھے، (ف۲۱۶)

{وَ لَا تَكُوْنُوْا:اور تم نہ ہونا۔} یعنی تم اپنے معاہدے اور قسمیں  توڑ کراس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے اپنا سوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑ دیا۔ مکہ مکرمہ میں  ربطہ بنت عمرو نامی ایک عورت تھی جس کی طبیعت میں  بہت وہم تھا اور عقل میں  فتور، وہ دوپہر تک محنت کرکے سوت کاتا کرتی اور اپنی باندیوں  سے بھی کتواتی اور دوپہر کے وقت اس کاتے ہوئے کو توڑ کر ریزہ ریزہ کرڈالتی اور باندیوں  سے بھی تڑوا دیتی ،یہی اس کا معمول تھا ۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۲، ۳ / ۱۴۰)  آیت کا معنی یہ ہے کہ اپنے عہد کو توڑ کر اس عورت کی طرح بے وقوف نہ بنو۔

{تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ:( ایسا نہ ہوکہ) تم اپنی قسموں  کو اپنے درمیان دھوکے اور فساد کا ذریعہ بنالو۔} امام مجاہد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ لوگوں  کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ایک قوم سے معاہدہ کرتے اور جب دوسری قوم اُس سے زیادہ تعداد ،مال یا قوت میں  پاتے تو پہلوں  سے جو معاہدے کئے تھے وہ توڑ دیتے اور اب دوسرے سے معاہدہ کرتے، اللّٰہ تعالیٰ نے اس طرح کرنے سے منع فرمایا اور عہد پورا کرنے کا حکم دیا۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۲، ۳ / ۱۴۰-۱۴۱ملخصاً)

باہمی تعلقات سے متعلق لوگوں  کا رویہ:

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰیعَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس چیز کے نظارے ہمارے معاشرے میں  بھی عام نظر آتے ہیں  کہ جب تک کوئی اپنے منصب اور مقام و مرتبے پر قائم ہے تب تک لوگ اس کی جی حضوری کرتے ہیں  اور جب اسے معزول کر دیاجائے یا اس کا مرتبہ کم کر دیا جائے تولوگ اسے چھوڑ دیتے ہیں  ، اس کی طرف توجہ تک نہیں  کرتے اور اس کے ساتھ ایسے ہوجاتے ہیں گویا اسے پہچانتے ہی نہ ہوں ۔( صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۹۲، ۳ / ۱۰۸۹)یہ حالات تقریباً300سال پہلے کے ہیں  اور فی زمانہ تو اس اعتبار سے حالات مزید بگڑ چکے ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے۔

{اِنَّمَا یَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ:اللّٰہ تو اس کے ذریعے تمہیں  صرف آزماتا ہے۔} یعنی تمہیں  جو عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ تمہیں  صرف آزماتا ہے تاکہ تم میں  سے اطاعت گزاروں  اور نافرمانوں  کو ظاہر کر دے اور تم دنیا کے اندر عہد وغیرہ کے بارے میں  جو جھگڑتے تھے، اللّٰہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ضرورتمہارے لئے صاف ظاہر کردے گا کہ عہد توڑنے والے کو عذاب دے گااور پورا کرنے والے کو ثواب سے نوازے گا۔( جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۲۲۵، ملخصاً)

16:93
وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ یُّضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ لَتُسْــٴَـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۹۳)
اور اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت کرتا (ف۲۱۷) لیکن اللہ گمراہ کرتا ہے (ف۲۱۸) جسے چاہے، اور راہ دیتا ہے (ف۲۱۹) جسے چاہے، اور ضرور تم سے (ف۲۲۰) تمہارے کام پوچھے جائیں گے، (ف۲۲۱)

{وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً:اور اگر اللّٰہ چاہتا تو سب کو ایک ہی امت بنادیتا ۔} فرمایا گیا کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب ایک ہی دین پر ہوتے لیکن اللّٰہ تعالیٰ کی اپنی مَشِیَّت اور حکمت ہے جس کے مطابق وہ فیصلے فرماتا ہے تو وہ اپنے عدل سے جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور اپنے فضل سے جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اس میں  کسی دوسرے کو دخل کی ہمت ہے نہ اجازت، البتہ یہ یاد رہے کہ لوگ اس مشیت کو سامنے رکھ کر گناہوں  پر جَری نہ ہوجائیں  کیونکہ قیامت کے دن لوگوں  سے ان کے اعمال کے بارے میں  ضرور پوچھا جائے گا لہٰذا مشیت کا معاملہ جدا ہے اور حکمِ الٰہی کا جدا۔

16:94
وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعْدَ ثُبُوْتِهَا وَ تَذُوْقُوا السُّوْٓءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-وَ لَكُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۹۴)
اور اپنی قسمیں آپس میں بے اصل بہانہ نہ بنالو کہ کہیں کوئی پاؤں (ف۲۲۲) جمنے کے بعد لغزش نہ کرے اور تمہیں برائی چکھنی ہو (ف۲۲۳) بدلہ اس کا کہ اللہ کی راہ سے روکتے تھے اور تمہیں بڑا عذاب ہو (ف۲۲۴)

{وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ:اورتم اپنی قسموں  کو اپنے درمیان دھوکے اور فساد کا ذریعہ نہ بناؤ۔} اس سے پہلی آیات میں  اللّٰہ تعالیٰ نے عہد اور قسمیں  توڑنے سے منع فرمایا تھا ،اب یہاں  دوبارہ ا س کام سے تاکیداً منع فرمانے میں  اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ معاہدہ اور قسمیں  پورا کرنے کا معاملہ انتہائی اہم ہے کیونکہ عہد کی خلاف ورزی میں  دین و دنیا کا نقصان ہے اور عہد پورا کرنے میں  دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ تم اپنی قسموں  کو اپنے درمیان دھوکے اور فساد کا ذریعہ نہ بناؤورنہ تمہارے قدم اسلام کے صحیح راستے پرثابت قدمی کے بعد پھسل جائیں  گے اور تم خود عہد کی خلاف ورزی کرنے یا دوسروں  کو عہد پورا کرنے سے روکنے کی وجہ سے دنیا میں  عذاب کا مزہ چکھو گے کیونکہ تم عہد توڑ کر گناہ کا ایک طریقہ رائج کرنے کا ذریعہ بنے ہوگے اور تمہارے لئے آخرت میں  بہت بڑا عذاب ہوگا۔( جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۹۴، ۴ / ۱۰۹۰)    بعض مفسرین کے نزدیک ا س آیت میں  بیعتِ اسلام کو توڑنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ثابت قدمی کے بعد قدموں  کے پھسل جانے کی وعید اسی کے مناسب ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۱۴۱)

عہد کی پاسداری کے3 واقعات:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ اسلام میں  عہد کی پاسداری کی بہت اہمیت ہے، اسی مناسبت سے یہاں عہد کی پاسداری سے متعلق 3 واقعات ملاحظہ ہوں

(1)…صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت ابو جندل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیڑیوں  میں  بندھے ہوئے کسی طرح حدیبیہ کے مقام پر پہنچ گئے توان کے باپ سہیل بن عمرو نے ان کی واپسی کا مطالبہ کر دیا اور اس کے بغیر معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ جب حضرت ابو جندل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معلوم ہوگیا کہ اب وہ کفار کی طرف دوبارہ لوٹا دیئے جائیں  گے تو گڑگڑا کر مسلمانوں  سے فریاد کرنے لگے ۔ چونکہ کفار سے معاہدہ ہو چکا تھا اس لئے حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے موقع کی نزاکت کا خیال فرماتے ہوئے حضرت ابوجندل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا کہ تم صبر کرو۔ عنقریب اللّٰہ تعالیٰ تمہارے لئے اور دوسرے مظلوموں  کے لئے ضرور ہی کوئی راستہ نکالے گا۔ ہم صلح کا معاہدہ کرچکے اب ہم ان لوگوں  سے بدعہدی نہیں  کرسکتے۔ غرض حضرت ابوجندل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اسی طرح پھر مکہ واپس جانا پڑا۔( سیرت ابن ہشام، امر الحدیبیۃ فی آخر سنۃ ست وذکر بیعۃ الرضوان۔۔۔الخ، علیّ یکتب شروط الصلح،ص۴۳۲، ملخصاً)

(2)… حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’میں  اور حضرت حُسَیلرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہیں  سے آرہے تھے کہ راستے میں  کفار نے ہم دونوں  کو روک کر کہا ’’ تم دونوں  بدر کے میدان میں  حضرت محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی مدد کرنے کے لئے جا رہے ہو۔ ہم نے جواب دیا: ہمارا بدر جانے کا ارادہ نہیں  ہم تو مدینے جا رہے ہیں ۔ کفار نے ہم سے یہ عہد لیا کہ ہم صرف مدینے جائیں  گے اور جنگ میں  رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ شریک نہ ہوں  گے ۔ اس کے بعد جب ہم دونوں  (بدر کے میدان میں ) بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ بیان کیا تو حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم دونوں  واپس چلے جاؤ، ہم ہر حال میں  کفار سے کئے ہوئے عہد کی پابندی کریں  گے اور ہمیں  کفار کے مقابلے میں  صرف اللّٰہ تعالیٰ کی مدد درکار ہے۔( مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الوفاء بالعہد، ص۹۸۸، الحدیث: ۹۸(۱۷۸۷))

(3)… حضرت سلیم بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور رومیوں  کے درمیان ایک معاہدہ تھا، حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان کے شہروں  کی طرف تشریف لے گئے تاکہ جب معاہدہ ختم ہو تو ان پر حملہ کر دیں  لیکن اچانک ایک آدمی کو چارپائے یا گھوڑے پر دیکھا وہ کہہ رہا تھا: اللّٰہ اکبر! عہد پورا کرو، عہد شکنی نہ کرو۔ کیا دیکھتے ہیں  کہ یہ شخص حضرت عمرو بن عَبْسَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے اس کے بارے میں  پوچھا تو انہوں  نے بتایا کہ میں  نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ’’جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو وہ ا س معاہدے کو نہ توڑے اور نہ باندھے جب تک کہ اس کی مدت ختم نہ ہو جائے یا وہ برابری کی بنیاد پر اس کی طرف پھینک نہ دے۔ راوی فرماتے ہیں ’’یہ سن کر حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ لوگوں  کو لے کر واپس لوٹ گئے۔( ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی الغدر، ۳ / ۲۱۲، الحدیث:۱۵۸۶)

 

16:95
وَ لَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًاؕ-اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹۵)
اور اللہ کے عہد پر تھوڑے دام مول نہ لو (ف۲۲۵) بیشک وہ (ف۲۲۶) جو اللہ کے پاس ہے تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو،

{وَ لَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا:اور اللّٰہ کے عہد کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لو ۔} یعنی اسلا م کا عہد توڑنے کی صورت میں  اگر تمہیں  دنیا کی کوئی بھلائی ملے تو اس کی طرف توجہ مت دو کیونکہ اسلام پر قائم رہنے کی صورت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جو بھلائی تیار کی ہے وہ اس سے بہت بہتر ہے جو تم اسلام کا عہد توڑ کر دنیا میں  پاؤ گے۔ اگر تم دنیا اور آخرت کی بھلائیوں  کے مابین فرق جانتے تو یہ بات سمجھ جاتے۔( تفسیر کبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۹۵، ۷ / ۲۶۶)اگلی آیت میں  اِسی بات کی مزید وضاحت فرمائی گئی ہے۔

16:96
مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍؕ-وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْۤا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹۶)
جو تمہارے پاس ہے (ف۲۲۷) ہوچکے گا اور جو اللہ کے پاس ہے (ف۲۲۸) ہمیشہ رہنے والا، اور ضرور ہم صبر کرنے والوں کو ان کا وہ صلہ دیں گے جو ان کے سب سے اچھے کام کے قابل ہو، (ف۲۲۹)

{مَا عِنْدَكُمْ:جو تمہارے پاس ہے۔} یعنی تمہارے پاس جو دنیا کا سامان ہے یہ سب فنا اور ختم ہو جائے گا اور اللّٰہ تعالیٰ کے پاس جو خزانۂ رحمت اور آخرت کا ثواب ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کو پچھلی آیت میں  بیان فرمایا کہ جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پاس ہے وہ تمہاری دنیوی کمائی سے بہتر ہے لہٰذا اپنے عہد کو تھوڑی سی قیمت کے بدلے نہ توڑو۔

دنیا و آخرت کا مُوازنہ:

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  : جس شخص کو اس بات کی معرفت حاصل ہوجائے کہ جو کچھ اللّٰہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ باقی ہے اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے(تو اس کے لئے باقی اور بہتر کے بدلے فانی اور ناقص کو بیچ دینا مشکل نہیں  ہوتا )جس طرح برف کے مقابلے میں  جواہر بہتر اور باقی رہنے والے ہیں  اور برف کے مالک پر برف کو جواہر اور موتیوں  کے بدلے میں  بیچنا مشکل نہیں  ہوتا، اسی طرح دنیا اور آخرت کا معاملہ ہے، دنیا اس برف کی طرح ہے جو دھوپ میں  رکھی ہوئی ہو، وہ ختم ہونے تک پگھلتی رہتی ہے اور آخرت اس جوہر کی طرح ہے جو فنا نہیں  ہوتا، لہٰذا دنیا اور آخرت کے درمیان تَفاوُت کے بارے میں  جس قدر یقین اور معرفت مضبوط ہوگی اسی قدراس کا سودا کرنے اور معاملہ کرنے میں  رغبت مضبوط ہوگی حتّٰی کہ جس شخص کا یقین مضبوط ہوتا ہے وہ اپنے نفس اور مال دونو ں کو بیچ دیتا ہے جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ‘‘(توبہ:۱۱۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللّٰہ نے مسلمانوں  سے ان کی جانیں  اور ان کے مال اس بدلے میں  خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے۔

پھر بتایا کہ انہیں  اس سودے میں  نفع ہوا،چنانچہ ارشاد فرمایا

’’فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ‘‘(توبہ:۱۱۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان:تو اپنے اس سودے پر خوشیاں  مناؤ جو سودا تم نے کیا ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، الشطر الثانی من الکتاب فی الزہد، بیان حقیقۃ الزہد، ۴ / ۲۶۸)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دنیا کے فنا اور زائل ہو جانے اور آخرت کے ہمیشہ باقی رہنے میں  خوب غورو فکر کرے اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دے اور دنیا کی فانی نعمتوں  اور لذتوں  سے بے رغبتی اختیار کرے۔

 

16:97
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةًۚ-وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹۷)
جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور ہو مسلمان (ف۲۳۰) تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جِلائیں گے (ف۲۳۱) اور ضرور انہیں ان کا نیگ (اجر) دیں گے جو ان کے سب سے بہتر کام کے لائق ہوں،

{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ:جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور وہ مسلمان ہو۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور وہ مسلمان ہو تو ہم ضرور اسے دنیا میں  حلال رزق اور قناعت عطا فرما کر اور آخرت میں  جنت کی نعمتیں  دے کرپاکیزہ زندگی دیں  گے۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اچھی زندگی سے عبادت کی لذت مراد ہے ۔ حکمت :مومن اگرچہ فقیر بھی ہو اُس کی زندگانی دولت مند کافر کے عیش سے بہتر اور پاکیزہ ہے کیونکہ مومن جانتا ہے کہ اس کی روزی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے جو اُس نے مقدر کیا اس پر راضی ہوتا ہے اور مومن کا دل حرص کی پریشانیوں  سے محفوظ اور آرام میں  رہتا ہے اور کافر جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر نظرنہیں  رکھتا وہ حریص رہتا ہے اور ہمیشہ رنج ، مشقت اور تحصیلِ مال کی فکر میں  پریشان رہتا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیک اعمال پر ثواب ملنے کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے ، کافر کے تمام نیک اعمال بیکار ہیں ۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۱۴۱-۱۴۲، ملخصاً)

16:98
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ(۹۸)
تو جب تم قرآن پڑھو تو اللہ کی پناہ مانگو شیطان مردود سے، (ف۲۳۲)،

{فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ:تو جب تم قرآن پڑھنے لگو۔} یعنی قرآنِ کریم کی تلاوت شروع کرتے وقت اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْپڑھو۔ یہ مستحب ہے۔( جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۱۰۹۰)

نوٹ:یاد رہے کہ تَعَوُّذْ کے مسائل سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں  گزر چکے ہیں ۔

{اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ:بیشک اسے کوئی قابو نہیں ۔} یعنی شیطان کو ان لوگوں  پر تَسَلُّط حاصل نہیں  جو ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں  لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے مومن شیطانی وسوسے قبول نہیں  کرتے یعنی اگرچہ شیطان کوشش بھی کرے تو اسے کامیابی نہیں  ملتی ۔

{اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ:اس کا قابو تو انہیں  پر ہے۔} یعنی شیطان کو ان لوگوں  پر تسلط حاصل ہے جو اسے اپنا دوست بناتے ہیں  اور اس کے وسوسوں  کی پیروی کرتے ہیں  اور وہ شیطان کے وسوسوں  کی وجہ سے مختلف چیزوں  کو اللّٰہ تعالیٰ کا شریک بنا لیتے ہیں ۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۶۰۸، ملخصاً)اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کوئی زور زبردستی نہیں  کرتا بلکہ جو خود ہی اس کی طرف مائل ہوتا ہے اور اسے دوست بناتا ہے وہی اس کا اثر قبول کرتا ہے۔

 

16:99
اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ(۹۹)
بیشک اس کا کوئی قابو ان پر نہیں جو ایمان لائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں (ف۲۳۳)

16:100
اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَهٗ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِهٖ مُشْرِكُوْنَ۠(۱۰۰)
اس کا قابو تو انہیں پر ہے جو اس سے دوستی کرتے ہیں اور اسے شریک ٹھہراتے ہیں،

16:101
وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍۙ-وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۰۱)
اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدلیں (ف۲۳۴) اور اللہ خوب جانتا ہے جو اتارتا ہے (ف۲۳۵) کافر کہیں تم تو دل سے بنا لاتے ہو (ف۲۳۶) بلکہ ان میں اکثر کو علم نہیں، (ف۲۳۷)

{وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ:اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیں ۔}شانِ نزول: مشرکینِ مکہ اپنی جہالت کی وجہ سے آیتیں  منسوخ ہونے پر اعتراض کرتے تھے اور اس کی حکمتوں  سے ناواقف ہونے کے باعث اس چیز کا مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ایک روز ایک حکم دیتے ہیں  اور دوسرے روزدوسرا حکم دیدیتے ہیں  ۔ وہ اپنے دل سے باتیں  بناتے ہیں  اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں  اور اپنی حکمت سے ایک حکم کو منسوخ کرکے دوسرا حکم دیتے ہیں  تو اس میں  (کوئی نہ کوئی) حکمت ہوتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو وہ اتارتا ہے کہ اس میں  کیا حکمت اور اس کے بندوں  کے لئے اس میں  کیا مصلحت ہے لیکن کافر نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہتے ہیں : تم خود گھڑ لیتے ہو حالانکہ حقیقت یہ نہیں  ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ کافروں کی اکثریت جاہل ہے اور وہ نَسخ اور تبدیلی کی حکمت و فوائد سے خبردار نہیں  اور یہ بھی نہیں  جانتے کہ قرآنِ کریم کی طرف اِفتراء کی نسبت ہو ہی نہیں  سکتی کیونکہ جس کلام کی مثل بنانا انسان کی طاقت سے باہر ہے تو وہ کسی انسان کا بنایا ہوا کیسے ہوسکتا ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۱۴۳، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۵ / ۸۱، خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۵۱۸-۵۱۹، ملتقطاً)

16:102
قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ(۱۰۲)
تم فرماؤ اسے پاکیزگی کی روح (ف۲۳۸) نے اتارا تمہارے رب کی طرف سے ٹھیک ٹھیک کہ اس سے ایمان والوں کو ثابت قدم کرے اور ہدایت اور بشارت مسلمانوں کو،

{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو لوگ قرآن کے بارے میں  آپ پر بہتان لگا رہے ہیں  آپ ان سے فرما دیں  کہ اسے میرے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس سے حضرت جبریلعَلَیْہِ السَّلَام حق کے ساتھ لے کر آئے ہیں  اور اس قرآن کے ناسِخ و مَنسوخ کو میرے ربعَزَّوَجَلَّ نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامکے ذریعے مجھ پر نازل فرمایا ہے تاکہ وہ ایمان والوں  کو ثابت قدم کردے اور ناسخ و منسوح کی تصدیق کی وجہ سے ان کے ایمانوں  کو اور مضبوط کر دے اور یہ قرآن مسلمانوں  کیلئے ہدایت اور خوشخبری ہے۔(تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۱۴ / ۶۴۷، ملخصاً)

16:103
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ بَشَرٌؕ-لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْهِ اَعْجَمِیٌّ وَّ هٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ(۱۰۳)
اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں، یہ تو کوئی آدمی سکھاتا ہے، جس کی طرف ڈھالتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ روشن عربی زبان (ف۲۳۹)

{وَ لَقَدْ نَعْلَمُ:اور بیشک ہم جانتے ہیں ۔} جب قرآنِ کریم کی حلاوت اور اس کے علوم کی نورانیت دلوں  کی تسخیر کرنے لگی اور کفار نے دیکھا کہ دنیا اس کی گرویدہ ہوتی چلی جارہی ہے اور کوئی تدبیر اسلام کی مخالفت میں  کامیاب نہیں  ہوتی تو اُنہوں  نے طرح طرح کے بہتان لگانے شروع کر دئیے ، کبھی قرآن پاک کو سِحر بتایا، کبھی پہلوں  کے قصے اور کہانیاں  کہا، کبھی یہ کہا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ خود بنالیا ہے اور ہر طرح کوشِش کی کہ کسی طرح لوگ اس مقدس کتاب کی طرف سے بدگمان ہوں  ،انہیں  مکاریوں  میں  سے ایک مکر یہ بھی تھا کہ انہوں  نے ایک عجمی غلام کے بارے میں  یہ کہا کہ وہ محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھاتا ہے ۔اس کے رد میں  یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ ایسی باطل باتیں  دنیا میں  کون قبول کرسکتا ہے، جس غلام کی طرف کفار نسبت کرتے ہیں  وہ تو عجمی ہے، ایسا کلام بنانا اس کے لئے تو کیا ممکن ہوتا ،تمہارے فُصحاء و بُلغاء جن کی زبان دانی پر اہلِ عرب کو فخر و ناز ہے وہ سب کے سب حیران ہیں  اور چند جملے قرآن کی مثل بنانا ان کے لئے محال اور اُن کی قدرت سے باہر ہے تو ایک عجمی کی طرف ایسی نسبت کس قدر باطل اور ڈھٹائی کا فعل ہے۔ خدا کی شان کہ جس غلام کی طرف کفار یہ نسبت کرتے تھے اس کو بھی اس کلام کے اِعجاز نے تسخیر کیا اور وہ بھی رسول کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اطاعت گزاروں  کے حلقے میں  داخل ہوا اور صدق و اِخلاص کے ساتھ اسلام لایا۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۳ / ۱۴۳-۱۴۴، ملخصاً)

16:104
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۙ-لَا یَهْدِیْهِمُ اللّٰهُ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)
بیشک وہ جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اللہ انھیں راہ نهیں دیتا اور ان کے لے درد ناک عذاب ہے، (ف۲۴۸)

{اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ:بیشک جو اللّٰہ کی آیتوں  پر ایمان نہیں  لاتے ۔} یعنی بیشک وہ لوگ جو اللّٰہ تعالیٰ کی حجتوں  اور دلائل پر ایمان نہیں  لاتے تاکہ (ان پر ایمان لا کر )وہ اس کی تصدیق کرتے جس پر یہ حجتیں  دلالت کرتی ہیں ، تو اللّٰہ تعالیٰ دنیا میں  انہیں  حق بات قبول کرنے کی توفیق اورسیدھے راستے کی ہدایت نہیں  دیتا، جب قیامت کے دن یہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں  حاضر ہوں  گے اس وقت ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۷ / ۶۵۰، ملخصاً)

16:105
اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)
جھوٹ بہتان دہی باندھتے ہین جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور دہی جھوٹے ہیں،

{اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ:جھوٹا بہتان وہی باندھتے ہیں ۔} کافروں  کی طرف سے قرآنِ پاک سے متعلق رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جو اپنی طرف سے قرآن بنالینے کا بہتان لگایا گیا تھا اس آیت میں  اس کا رد کیا گیا ہے۔ آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنابے ایمانوں  ہی کا کام ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۱۴۴، ملخصاً)

جھوٹ کی مذمت:

           اس آیت سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کبیرہ گناہوں  میں  بدترین گناہ ہے۔ قرآنِ مجید میں  ا س کے علاوہ بہت سی جگہوں  پر جھوٹ کی مذمت فرمائی گئی اور جھوٹ بولنے والوں  پر اللّٰہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی۔ بکثرت اَحادیث میں  بھی جھوٹ کی برائی بیان کی گئی ہے ، ان میں  سے 4اَحادیث یہاں  ذکر کی جاتی ہیں:

(1)… حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’صدق کو لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے ۔آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں  تک کہ وہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فُجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں  تک کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب قول اللّٰہ تعالی: یا ایّہا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ وکونوا مع الصادقین، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۴، مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، ص۱۴۰۵، الحدیث: ۱۰۵(۲۶۰۷))

(2)… حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور جھوٹ باطل ہی ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے) اس کے لیے جنت کے کنارے میں  مکان بنایا جائے گا اور جس نے جھگڑا کرنا چھوڑا حالانکہ وہ حق پر ہو یعنی حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہیں  کرتا، اس کے لیے جنت کے وسط میں  مکان بنایا جائے گا اور جس نے اپنے اَخلاق اچھے کیے، اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں  مکان بنایا جائے گا۔( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۰)

(3)…حضرت سفیان بن اَسِید حَضْرَمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بڑی خیانت کی یہ بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں  سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی المعاریض، ۴ / ۳۸۱، الحدیث: ۴۹۷۱)

(4)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں  کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں  گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے اور زبان کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے، وہ اس سے کہیں  زیادہ ہے جتنی قدم سے لغز ش ہوتی ہے۔(شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۱۳، الحدیث: ۴۸۳۲)

نوٹ: جھوٹ سے متعلق مزید معلومات کے لئے بہار شریعت حصہ 16 سے’’جھوٹ کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

16:106
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىٕنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۱۰۶)
جو ایمان لا کر اللہ کا منکر ہو سوا اس کے مجبور کیا جا ےٴ اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو، ہاں وہ جو دل کھول کر کافر ہو ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کو بڑاعذاب ہے،

{مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖ:جو ایمان لانے کے بعد اللّٰہ کے ساتھ کفر کرے۔} شانِ نزول :یہ آیت حضرت عمار بن یاسررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں  نازل ہوئی۔ حضرت عمار، ان کے والد حضرت یاسر ، ان کی والدہ حضرت سمیہ، حضرت صہیب، حضرت بلال، حضرت خباب اور حضرت سالم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو پکڑ کر کفار نے سخت سخت ایذائیں  دیں  تاکہ وہ اسلام سے پھر جائیں  (لیکن یہ حضرات اسلام سے نہ پھرے تو) کفار نے حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے والدین کو بڑی بے رحمی سے شہیدکر دیا۔ حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (ضعیف تھے جس کی وجہ سے بھاگ نہیں  سکتے تھے، انہوں ) نے مجبور ہو کر جب دیکھا کہ جان پر بن گئی تو بادلِ نخواستہ کلمۂ  کفر کا تَلَفُّظ کردیا ۔ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر دی گئی کہ حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کافر ہوگئے توآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ہرگز نہیں  ، حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سر سے پاؤں  تک ایمان سے پُر ہیں  اور اس کے گوشت اور خون میں  ذوقِ ایمانی سرایت کرگیا ہے۔ پھر حضرت عماررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روتے ہوئے خدمتِ اقدس میں  حاضر ہوئے تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کیا ہوا؟ حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: اے خدا کے رسول! بہت ہی برا ہوا اور بہت ہی برے کلمے میری زبان پر جاری ہوئے۔ سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس وقت تیرے دل کا کیا حال تھا؟ حضرت عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی ’’دل ایمان پر خوب جما ہوا تھا۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شفقت و رحمت فرمائی اور فرمایا کہ اگر پھر ایسا اتفاق ہو تو یہی کرنا چاہیے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۳ / ۱۴۴ملخصاً)

حالتِ اِکراہ میں  کلمۂ کفر کہنے سے متعلق 4 شرعی مسائل:

(1)…اس آیت سے معلوم ہوا کہ حالت ِاکراہ میں  اگر دل ایمان پر جما ہوا ہو تو کلمۂ کفر کا زبان پر جاری کرنا جائز ہے جب کہ آدمی کو (کسی ظالم کی طرف سے) اپنی جان یا کسی عُضْوْ کے تَلف ہونے کا (حقیقی) خوف ہو ۔(اور اس میں  یہ بھی ضروری ہے کہ اگر کوئی دو معنی والی بات کہنے میں  گزارا چل سکتا ہو جس سے کفار اپنی مراد لیں  اور کہنے والا اس کی درست مراد لے تو ضروری ہے کہ ایسی دو معنی والی بات ہی کہے جبکہ اس طرح کہنا جانتا ہو۔ )۔

(2)… اگر اس حالت میں  بھی صبر کرے اور قتل کر ڈالا جائے تو اسے اجر ملے گا اور وہ شہید ہوگا جیسا کہ حضرت خُبَیب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے صبر کیا اور وہ سولی پر چڑھا کر شہید کر ڈالے گئے۔ سرکارِ دو عالَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں سیّدُ الشُّہداء فرمایا ۔

(3)… جس شخص کو مجبور کیا جائے اگر اس کا دل ایمان پر جما ہوا نہ ہو تو وہ کلمۂ کفر زبان پر لانے سے کافر ہوجائے گا ۔

(4)… اگر کوئی شخص بغیر مجبوری کے مذاق کے طور پر یا علم نہ ہونے کی وجہ سے کلمۂ  کفر زبان پر جاری کرے وہ کافر ہوجائے گا(تفسیرات احمدیہ، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ص۵۰۱)۔([1])


[1] ۔۔۔کفریہ کلمات سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کیلئے امیر ِاہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب ’’کفریہ کلمات کے بارے میں  سوال جواب‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ ضرور فرمائیں۔

16:107
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا عَلَى الْاٰخِرَةِۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۱۰۷)
یہ اس لےٴ کہ انھوں نے دنیا کی زندگی آخرت سے پیاری جانی، اور اس لےٴ کہ اللہ (ایسے) کافروں کو راہ نہیں دیتا،

{ذٰلِكَ:یہ۔} یعنی جو لوگ دل کھول کر کافر ہوں  ان کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کے غضب اور بڑے عذاب کی وعید کا ایک سبب یہ ہے کہ انہوں  نے آخرت کی بجائے دنیا کی زندگی کوپسند کرلیا اور دنیا کی محبت ان کے کفر کا سبب ہے۔دوسرا سبب یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ایسے کافروں  کو ہدایت نہیں  دیتاجو سمجھ بوجھ کے باوجود بھی کفر پر ڈٹے رہیں ۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ص۶۱۰، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۳ / ۱۴۵، ملتقطاً)

{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ:یہی وہ لوگ ہیں ۔} یعنی یہی وہ لوگ ہیں  جن کے دلوں  ، کانوں  اور آنکھو ں  پر اللّٰہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے، نہ وہ غورو فکر کرتے ہیں ، نہ وعظ و نصیحت پرتوجہ دیتے ہیں ، نہ سیدھے اور ہدایت والے راستے کو دیکھتے ہیں  اور یہی غفلت کی انتہا کوپہنچے ہوئے ہیں  کہ اپنی عاقبت اور انجام کار کے بارے میں  نہیں  سوچتے۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۶۱۰)

{لَا جَرَمَ:حقیقت میں ۔} یعنی حقیقت میں  یہ لوگ آخرت میں  برباد ہونے والے ہیں  کہ ان کے لئے جہنم کادائمی عذاب ہے۔(جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۲۲۶)

سب سے بڑی بد نصیبی اور خوش نصیبی:

            اس سے معلوم ہوا کہ سب سے بڑی بد نصیبی دل کی غفلت ہے اور سب سے بڑی خوش نصیبی دل کی بیداری ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں  کو غفلت سے محفوظ فرمائے اور ہمیں  دل کی بیداری نصیب فرمائے ۔

16:108
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ سَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ(۱۰۸)
یہ ہیں وه جن کے دل اور کان اور آنکھو ں پر اللہ نے مہر کر دی ہے اور وہی غفلت مین پڑے ہیں،

16:109
لَا جَرَمَ اَنَّهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۱۰۹)
آپ ہی ہوا کہ آخرت میں وہی خراب (ف۲۴۹)

16:110
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَ صَبَرُوْۤاۙ-اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۱۰)
پھر بیشک تمہارا رب ان کے لیے جنہوں نے اپنے گھر چھوڑے (ف۲۵۰) بعد اس کے کہ ستائے گئے (ف۲۵۱) پھر انہوں نے (ف۲۵۲) جہاد کیا اور صابر رہے بیشک تمہارا رب اس (ف۲۵۳) کے بعد ضرور بخشنے والا ہے مہربان،

{ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ:پھر بیشک تمہارا رب ۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک وہ لوگ جنہیں  ہجرت سے پہلے ان کے دین کے بارے میں  مشرکین کی طرف سے تکلیفیں  اور اَذِیَّتیں  دی گئیں  ،اس کے بعد انہوں  نے ہجرت کی اور اپنے شہر، گھر اور خاندانوں  کو چھوڑ کر اہلِ اسلام کے شہر مدینہ طیبہ منتقل ہو گئے۔ پھر انہوں  نے اپنے ہاتھوں ، تلواروں  اور زبانوں  کے ساتھ مشرکین اور ان کے جھوٹے معبودوں  کے خلاف جہاد کیا اور جہاد کرنے پر صبر کیا تو بیشک یہ بخشش کے مستحق ہیں  ، اس لئے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ان کی اس آزمائش کے بعد انہیں  ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۷ / ۶۵۳، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ص۲۲۶، ملتقطاً)

16:111
یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۱۱۱)
جس دن ہر جان اپنی ہی طرف جھگڑتی آئے گی (ف۲۵۴) اور ہر جان کو اس کا کیا پورا بھردیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہوگا (ف۲۵۵)

{یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ:یاد کرو جس دن ہر جان آئے گی۔} یعنی قیامت کے دن ہر انسان اپنی ذات کے بارے جھگڑتا ہوا آئے گا، ہر ایک نفسی نفسی کہتا ہوگا اور سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ جھگڑے سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک اپنے دنیوی عملوں  کے بارے میں  عذر بیان کر ے گا۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۶۱۱)

قیامت کے دن انسانوں  کا جھگڑناـ:

            حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں  میں  جھگڑا یہاں  تک بڑھے گا کہ روح اور جسم میں  بھی جھگڑا ہوگا، روح کہے گی: یارب! (جسم میں  داخل ہونے سے پہلے )نہ میرے ہاتھ تھے کہ میں  ان سے کسی کو پکڑتی ، نہ پاؤں  تھے کہ ان کے ذریعے چلتی، نہ آنکھ تھی کہ اس سے دیکھتی (گویا میں  قصور وار نہیں   بلکہ جسم ہی قصور وار ہے۔) جسم کہے گا: یارب! تو نے مجھے لکڑی کی طرح پیدا کیا، نہ میرا ہاتھ پکڑسکتا تھا ، نہ پاؤں  چل سکتا تھا،نہ آنکھ دیکھ سکتی تھی، جب یہ روح نوری شعاع کی طرح آئی تو اس سے میری زبان بولنے لگی، آنکھ بینا ہوگئی اور پاؤں  چلنے لگے، (جو کچھ کیا اُس نے کیا ہے) ۔ اللّٰہ تعالیٰ ایک مثال بیان فرمائے گا کہ ایک اندھا اور ایک لنگڑا دونوں  ایک باغ میں  گئے، اندھے کو توپھل نظر نہیں  آتے تھے اور لنگڑے کا ہاتھ ان تک نہیں  پہنچتا تھا تواندھے نے لنگڑے کو اپنے اوپر سوار کرلیا اس طرح انہوں  نے پھل توڑے تو سزا کے وہ دونوں  مستحق ہوئے (اس لئے روح اور جسم دونوں  ملز م ہیں ۔)( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۳ / ۱۴۶)

16:112
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىٕنَّةً یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْ عِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۱۱۲)
اور اللہ نے کہاوت بیان فرمائی (ف۲۵۶) ایک بستی (ف۲۵۷) کہ امان و اطمینان سے تھی (ف۲۵۸) ہر طرف سے اس کی روزی کثرت سے آتی تو وہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے لگی (ف۲۵۹) تو اللہ نے اسے یہ سزا چکھائی کہ اسے بھوک اور ڈر کا پہناوا پہنایا (ف۲۶۰) بدلہ ان کے کیے کا،

{وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً:اور اللّٰہ نے ایک بستی کی مثال بیان فرمائی۔}اس آیت میں  جس بستی کی مثال بیان فرمائی گئی، ممکن ہے کہ اس سے مراد مکہ مکرمہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد مکہ مکرمہ کے علاوہ کوئی اور بستی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے سابقہ امتوں  کی کوئی بستی مراد ہو جس کا حال اس آیت میں  بیان کیا گیا ہو، اکثر مفسرین کے نزدیک اس بستی سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہ کلام ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں  کہ مقاتل اور بعض مفسرین کے قول کے مطابق یہ آیت مدنی ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس بستی کی 6 صفات بیان فرمائی ہیں  اور یہ تمام صفات اہلِ مکہ میں  موجود تھیں  تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی مثال اہلِ مدینہ کے سامنے بیان فرمائی تاکہ وہ انہیں  ڈرائے کہ اگر انہوں  نے مکہ والوں  جیسے کام کئے تو جو بھوک اور خوف اُنہیں  پہنچا وہ اِنہیں  بھی پہنچ سکتا ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۳ / ۱۴۷) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بستی جیسے کہ مکہ کے رہنے والے جوامن و اطمینان سے تھے، ان پر لٹیرے اور ڈاکو چڑھائی کرتے نہ وہ قتل اور قید کی مصیبت میں  گرفتار کئے جاتے، ہر طرف سے ان کے پاس ان کا رزق کثرت سے آتا تھا تو وہ لوگ نافرمانیاں  کرکے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں  کی ناشکری کرنے لگے اور ا نہوں  نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کی تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے ان کے اعمال کے بدلے میں  انہیں  بھوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکھایا کہ سات برس تک نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعائے ضَرَر کی وجہ سے قحط اور خشک سالی کی مصیبت میں  گرفتار رہے یہاں  تک کہ مردار کھاتے تھے پھر امن واِ طمینان کی بجائے خوف و ہراس ان پر مُسَلَّط ہوا اور ہر وقت مسلمانوں  کے حملے اور لشکر کشی کا اندیشہ رہنے لگا ،یہ ان کے اعمال کا بدلا تھا۔( ابوسعود، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۳ / ۲۹۷، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۳ / ۱۴۶-۱۴۷، ملتقطاً)

 

16:113
وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ(۱۱۳)
اور بیشک ن کے پاس انہیں میں سے ایک رسول تشریف لایا (ف۲۶۱) تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں عذاب نے پکڑا (ف۲۶۲) اور وہ بے انصاف تھے،

{وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ:اور بیشک ان کے پاس انہیں  میں  سے ایک رسول تشریف لایا۔} یعنی اہلِ مکہ کے پاس انہیں  کی جنس سے ایک عظیم رسول یعنی انبیاء کے سردارمحمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے ، اہلِ مکہ نے انہیں  جھٹلایا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اہلِ مکہ کو بھوک اور خوف کے عذاب میں  مبتلا کر دیا اور ان کا حال یہ تھا کہ وہ کفر کرنے والے تھے۔( جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۳ / ۱۰۹۸)

16:114
فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪-وَّ اشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۱۴)
تو اللہ کی دی ہوئی روزی (ف۲۶۳) حلال پاکیزہ کھاؤ (ف۲۶۴) اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اسے پوجتے ہو،

{فَكُلُوْا:تو کھاؤ!} جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں  مسلمانوں  سے خطاب ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! تم لوٹ، غصب اور خبیث پیشوں  سے حاصل کئے ہوئے جوحرام اور خبیث مال کھایا کرتے تھے ان کی بجائے حلال اور پاکیزہ رزق کھاؤ اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی نعمت کا شکر اداکرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۳ / ۱۴۸، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ص۶۱۲، ملتقطاً)

{ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمْ:تم پر تو یہی حرام کیا ہے۔}آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے صرف یہ چیزیں  حرام کی ہیں  جن کا بیان اس آیت میں  ہوا نہ کہ بحیرہ سائبہ وغیرہ جانور جنہیں  کفار اپنے گمان کے مطابق حرام سمجھتے تھے۔ نیز جو شخص آیت میں  مذکور حرام چیزوں  میں  سے کچھ کھانے پر مجبور ہو جائے تووہ ضرورت کے مطابق ان میں  سے کھا سکتا ہے۔( ابو سعود، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۳ / ۲۹۹، ملخصاً)

نوٹ:اس آیت کی تفصیلی تفسیر سورۂ بقرہ، آیت نمبر 173، سورۂ مائدہ، آیت نمبر 3 اور سورۂ انعام، آیت نمبر 145 میں  گزر چکی ہے۔

دین ِاسلام کی خصوصیت:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین ِاسلام انتہائی پاکیزہ دین ہے اور اس دین کو اللّٰہ تعالیٰ نے ہر گندی اور خبیث چیز سے پاک فرمایا ہے اور اس دین میں  مسلمانوں  کو طہارت و پاکیزگی کی اعلیٰ تعلیمات دی گئی ہیں  ۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ فرماتے ہیں  :بے شک اسلام پاکیزہ دین ہے ، اللّٰہ تعالیٰ نے اسے ہر بری چیز سے پاک فرمایا ہے اور اے انسان! اللّٰہ تعالیٰ نے تیرے لئے اس دین میں  وسعت بھی رکھی ہے ( کہ) جب تو اس آیت میں  بیان کی گئی چیزوں  میں  سے کسی چیز کو کھانے پر مجبور ہو جائے( تو اسے ضرورت کے مطابق کھا سکتا ہے)( در منثور، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۵ / ۱۷۴)

 

16:115
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖۚ-فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۱۵)
تم پر تو یہی حرام کیا ہے مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح کرتے وقت غیر خدا کا نام پکارا گیا (ف۲۶۵) پھر جو لاچار ہو (ف۲۶۶) نہ خواہش کرتا اور نہ حد سے بڑھتا (ف۲۶۷) تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

16:116
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّ هٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَؕ(۱۱۶)
اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھو (ف۲۶۸) بیشک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا،

{وَ لَا تَقُوْلُوْا:اور نہ کہو۔} زمانۂ جاہلیت کے لوگ اپنی طرف سے بعض چیزوں  کو حلال ، بعض چیزوں  کو حرام کرلیا کرتے تھے اور اس کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف کردیا کرتے تھے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۳ / ۱۴۸) اس آیت میں  اس کی ممانعت فرمائی گئی اور اس کو اللّٰہ تعالیٰ پر اِفترا فرمایا گیا اور افترا کرنے والوں  کے بارے میں  فرمایا گیا کہ بیشک جو اللّٰہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں  وہ کامیاب نہ ہوں  گے۔

اپنی طرف سے کسی چیز کو شرعاً حرام کہنا اللّٰہ تعالیٰ پر اِفترا ہے:

            آج کل بھی جو لوگ اپنی طرف سے حلال چیزوں  کو حرام بتادیتے ہیں  جیسے میلاد شریف کی شیرینی، فاتحہ، گیارہویں ، عرس وغیرہ ایصالِ ثواب کی چیزیں  جن کی حرمت شریعت میں  وارد نہیں  ہوئی انہیں  اس آیت کے حکم سے ڈرنا چاہئے کہ ایسی چیزوں  کی نسبت یہ کہہ دینا کہ یہ شرعاً حرام ہیں  اللّٰہ تعالیٰ پر افترا کرنا ہے۔

{مَتَاعٌ قَلِیْلٌ:تھوڑاسا فائدہ اٹھانا ہے۔} یعنی ان جاہلوں  کیلئے تھوڑاسا فائدہ اٹھانا اور دنیا کی چند روزہ آسائش ہے جو باقی رہنے والی نہیں  جبکہ ان کے لیے آخرت میں  دردناک عذاب ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۳ / ۱۴۹)

16:117
مَتَاعٌ قَلِیْلٌ۪-وَّ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۱۷)
تھوڑا برتنا ہے (ف۲۶۹) اور ان کے لیے دردناک عذاب (ف۲۷۰)

16:118
وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُۚ-وَ مَا ظَلَمْنٰهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۱۱۸)
اور خاص یہودیوں پر ہم نے حرام فرمائیں وہ چیزیں جو پہلے تمہیں ہم نے سنائیں (ف۲۷۱) اور ہم نے ان پر ظلم نہ کیا ہاں وہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے، (ف۲۷۲)

{وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا: اور ہم نے صرف یہودیوں  پر۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے صرف یہودیوں  پروہ چیزیں  حرام کی تھیں  جو اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے سورۂ انعام میں  آیت وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ۔۔۔الآیہ۔ (اور ہم نے یہودیوں  پر ہر ناخن والا جانور حرام کردیا) میں  آپ کے سامنے بیان کی ہیں  اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان چیزوں  کو حرام قرار دے کر ان پر ظلم نہیں  کیا بلکہ وہ خود ہی بغاوت و مَعصِیَت کا اِرتکاب کرکے اپنی جانوں  پر ظلم کرتے تھے جس کی سزا میں  وہ چیزیں  اُن پر حرام ہوئیں  جیسا کہ آیت فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ(تو یہودیوں  کے بڑے ظلم کے سبب ہم نے وہ بعض ستھری چیزیں  کہ ان کے لئے حلال تھیں  ان پر حرام فرما دیں ) میں  ارشاد فرمایا گیا۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۳ / ۱۴۹)

نوٹ:اس آیت کی تفسیر سورۂ نساء، آیت نمبر 160 اور سورۂ انعام، آیت نمبر146میں  گزر چکی ہے۔

16:119
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ عَمِلُوا السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْۤاۙ-اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۱۹)
پھر بیشک تمہارا رب ان کے لیے جو نادانی سے (ف۲۷۳) برائی کر بیٹھیں پھر اس کے بعد توبہ کریں اور سنور جائیں بیشک تمہارا رب اس کے بعد (ف۲۷۴) ضرور بخشنے والا مہربان ہے،

{ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ:پھر بیشک تمہارا رب۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے کافروں  کو اسلام میں  داخل ہونے اور گناہگاروں  کو گناہ چھوڑنے اور ان سے توبہ کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس آیت سے مقصود اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی رحمت و مغفرت کی وسعت کا بیان ہے، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ نادانی سے کفر ومعصیت کا اِرتکاب کر بیٹھیں  ، پھر ان سے توبہ کر لیں  اور آئندہ اپنی توبہ پر قائم رہ کر اپنے اعمال درست کر لیں  تو اللّٰہ تعالیٰ ان پر رحم فرماتے ہوئے ان کی توبہ قبول فرما لے گا۔( صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۳ / ۱۰۹۹، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۳ / ۱۴۹، ملتقطاً)

16:120
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ-وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ(۱۲۰)
بیشک ابراہیم ایک امام تھا (ف۳۷۵) اللہ کا فرمانبردار اور سب سے جدا (ف۲۷۶) اور مشرک نہ تھا، (ف۲۷۷)

{اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ:بیشک ابراہیم ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے 9 اَوصافِ حمیدہ بیان فرمائے ہیں ۔ (1) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تمام اچھی خصلتوں  اور پسندیدہ اَخلاق کے مالک تھے۔ (2) اللّٰہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے۔ (3) دین ِاسلام پر قائم تھے۔ (4) مشرک نہ تھے۔ کفارِ قریش اپنے آپ کو دینِ ابراہیمی پر خیال کرتے تھے ،اس میں  ان کفار کے اس نظریے کا رد ہے ۔ (5) اللّٰہ تعالیٰ کے احسانات پر شکر کرنے والے تھے۔ (6) اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  اپنی نبوت و خُلَّت کے لئے منتخب فرما لیا تھا۔ (7) انہیں  سیدھے راستے یعنی دین ِاسلام کی طرف ہدایت دی تھی۔ (8) دنیا میں  بھی انہیں  بھلائی دی گئی۔ اس سے مراد رسالت، اَموال، اولاد ،اچھی تعریف اور قبولیتِ عامہ ہے کہ تمام اَدیان والے مسلمان، یہودی ، عیسائی اور عرب کے مشرکین سب اُن کی عظمت بیان کرتے اور اُن سے محبت رکھتے ہیں ۔ (9) آخرت میں  قرب والے بندوں  میں  سے ہوں  گے۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۰-۱۲۲، ص۶۱۳، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۰-۱۲۲، ۳ / ۱۴۹-۱۵۰، ملتقطاً)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلنَّحْل
اَلنَّحْل
  00:00



Download

اَلنَّحْل
اَلنَّحْل
  00:00



Download