Surah An-Nahl
{وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ:اور جنہوں نے اللّٰہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے۔} شانِ نزول:حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’ یہ آیت رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ان صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے حق میں نازل ہوئی جن پر اہلِ مکہ نے بہت ظلم کئے اور انہیں دین کی خاطر وطن چھوڑنا ہی پڑا ،بعض اُن میں سے حبشہ چلے گئے پھر وہاں سے مدینہ طیبہ آئے اور بعض مدینہ شریف ہی کو ہجرت کر گئے۔ ان کی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے مدح فرمائی اور ان کے اجر کو بہت بڑا اجر قرار دیا ۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۱۲۳ملخصاً)
مہاجر صحابۂ کرا م رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے فضائل:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ بڑی فضیلت والے ہیں اول تو یوں کہ ان کے لئے بڑے اجر کا وعدہ ہے اور دوسرا یوں کہ ان کے خالصتاً رضائے الٰہی کیلئے ہجرت کرنے کی گواہی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے خود دی ہے۔ قرآنِ مجید کی اور آیات سے بھی ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے ، چنانچہ ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’فَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ‘‘ (اٰلِ عمران:۱۹۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: پس جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں انہیں ستایا گیا اورانہوں نے جہاد کیا اور قتل کردیے گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹا دوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (یہ) اللّٰہ کی بارگاہ سے اجر ہے اور اللّٰہ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْۙ-اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ‘‘(توبہ:۲۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان:وہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللّٰہ کی راہ میں جہاد کیا اللّٰہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ‘‘(حشر:۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: ان فقیر مہاجروں کے لیے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اس حال میں کہ اللّٰہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں اور اللّٰہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ،وہی سچے ہیں ۔
اسی طرح اَحادیث سے بھی ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے فضائل ظاہر ہیں ، چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھ سے ارشاد فرمایا ’’ کیا تم میری امت کے اس گروہ کو جانتے ہو جوسب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا؟ میں نے عرض کی :اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن مہاجرین جنت کے دروازے کے پاس آ کر اسے کھلوانا چاہیں گے تو جنت کے خازن ان سے کہیں گے: کیا آپ سے حساب لے لیا گیا ہے؟ وہ کہیں گے :ہم سے کس چیز کا حساب لیا جائے گا حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر تھیں حتّٰی کہ اسی حال میں ہمارا انتقال ہو گیا۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں کہ ’’ان کے لئے (جنت کا دروازہ )کھول دیاجائے گا تو وہ دوسرے لوگوں کے جنت میں داخل ہونے سے پہلے 40 سال تک جنت میں قیلولہ کریں گے۔ (مستدرک، کتاب الجہاد، اوّل زمرۃ تدخل الجنّۃ المہاجرون، ۲ / ۳۸۷، الحدیث: ۲۴۳۶)
حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :ہم ایک دوسرے دن تاجدارِ رسالتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس وقت حاضر تھے جب سورج طلوع ہوا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’عنقریب قیامت کے دن کچھ لوگ آئیں گے جن کا نور سورج کی روشنی کی طرح ہو گا۔ ہم نے عرض کیـ: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا ’’فُقراء مہاجرین جن کے صدقے ناپسندیدہ چیزوں سے بچا جاتا ہے، ان میں سے کسی کا انتقال اس حال میں ہوتا ہے کہ اس کی حاجت اس کے سینے میں ہی رہتی ہے(یعنی پوری نہیں ہوتی اور حاجت مند ہی فوت ہوجاتا ہے)، وہ زمین کے کناروں سے جمع کئے جائیں گے۔ (مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالی عنہما، ۲ / ۵۹۱، الحدیث: ۶۶۶۲)
رضاءِ الٰہی کی نیت کے بغیر نیک عمل کرنے کی فضیلت نہیں ملتی:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو ہجرت صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر نہ ہو اس کی کوئی فضیلت نہیں ، وہ ایسے ہے جیسے ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہونا۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اَعمال نیت سے ہیں اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی تو جس کی ہجرت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور ا س کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف ہے اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تواس کی ہجرت اسی طرف ہے جس کی جانب اس نے ہجرت کی۔(بخاری، کتاب الایمان، باب ما جاء انّ الاعمال بالنیۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۴، الحدیث: ۵۴)اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر وہ نیک عمل جس میں اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت نہ ہو تو اس نیک عمل کو کرنے والا اس کی فضیلت پانے سے محروم رہےگا۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا حاصل کرنے کی نیت سے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین
{لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً:ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے۔} اچھی جگہ سے مراد مدینہ طیبہ ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہجرت کی جگہ بنایا۔ مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب اپنے زمانۂ خلافت میں کسی مہاجر صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو کوئی چیز بطورِ عطیہ و نذرانہ کے دیتے تو ا س سے فرماتے ’’اللّٰہ تعالیٰ تمہارے لئے اس میں برکت دے، اسے لے لوکیونکہ یہ وہ ہے جس کا دنیا میں اللّٰہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا ہے اور آخرت میں جو آپ کے لئے تیار کر رکھا ہے وہ ا س سے کہیں بہتر ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہی آیت تلاوت فرماتے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۱۲۳)
مدینہ منورہ کی فضیلت:
اس آیت سے مدینہ منورہ کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ یہاں اسے حَسَنَۃً فرمایا گیاہے۔ صحیح مسلم میں حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’مدینہ لوگوں کے لیے بہتر ہے اگر جانتے، مدینہ کو جو شخص بطورِ اِعراض چھوڑے گا، اللّٰہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے گا روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا۔(مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۰۹، الحدیث: ۴۵۹ (۱۳۶۳))
{لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ:اگر لوگ جانتے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اگر کافر یہ بات جانتے کہ آخرت کا ثواب ان کی پسندیدہ دنیا کی تمام نعمتوں سے زیادہ بڑا ہے تو وہ اس کی طرف راغب ہوتے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر مہاجرین کو معلوم ہو جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے لئے آخرت میں کتنی بڑی نعمتیں تیار کی ہیں تو جو مصیبتیں اور تکلیفیں انہیں پہنچیں ، ان پر صبر کرنے کی اور زیادہ کوشش کرتے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۱۲۳)تیسرا معنی یہ ہے کہ جو لوگ ہجرت کرنے سے رہ گئے وہ اگر جانتے کہ ہجرت کا اجر کتنا عظیم ہے تووہ بھی ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہوتے۔ (جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۲۱۹)
{اَلَّذِیْنَ صَبَرُوْا:جنہوں نے صبر کیا ۔} یعنی عظیم ثواب کے حقدار وہ ہیں جنہوں نے اپنے اس وطن مکہ مکرمہ سے جدا ہونے پر صبر کیا حالانکہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکا حرم ہے اور ہر ایک کے دل میں اس کی محبت بسی ہوئی ہے۔ یونہی کفار کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر اور جان ومال خرچ کرنے پر صبر کیا اور وہ اپنے ربعَزَّوَجَلَّ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کے دین کی وجہ سے جو پیش آئے اس پر راضی ہیں اور مخلوق سے رشتہ منقطع کرکے بالکل حق کی طرف متوجہ ہیں اور سالک کے لئے یہ انتہائے سلوک کا مقام ہے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۲، ۷ / ۲۱۰، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۴۲، ۵ / ۳۶، ملتقطاً)
مہاجرین کا توکّل:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہجرت کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا توکل بہت عظیم تھا اورا س کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے ربعَزَّوَجَلَّ کی رضا کی خاطر اپنا مال و دولت اور گھر بار چھوڑ دیا ،وہ عزت کے بدلے لوگوں کی نظروں میں پائی جانے والی حقارت پر اور مالداری کے بدلے فقر و فاقہ پر راضی ہو گئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں کی نظروں میں پائی جانے والی ان کی اس حقارت کو عزت میں اور فقر کو مالداری میں تبدیل فرما کر انہیں جزا دی اوروہ دنیا و آخرت میں تمام لوگوں کے سردار ہو گئے۔ امام بوصیری رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (قصیدہ بردہ شریف میں )فرماتے ہیں : ’’حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے نقیبوں اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے حواریوں میں کوئی بھی ایسانہیں جو فضیلت میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْکی طرح ہو۔(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۱۰۶۹)
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا:اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے ۔} شانِ نزول : یہ آیت مشرکینِ مکہ کے جواب میں نازل ہوئی جنہوں نے سیّد المرسَلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کا یہ دلیل دے کر انکار کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی شان اس سے برتر ہے کہ وہ کسی بشر کو رسول بنائے۔ اُنہیں بتایا گیا کہ سنتِ الٰہی اسی طرح جاری ہے، ہمیشہ اس نے انسانوں میں سے مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۱۲۳-۱۲۴)
{فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ:اے لوگو! علم والوں سے پوچھو ۔} اس آیت میں علم والوں سے مراد اہلِ کتاب ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ نے کفار ِمکہ کو اہلِ کتاب سے دریافت کرنے کا حکم اس لئے دیا کہ کفارِ مکہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ اہلِ کتاب کے پاس سابقہ کتابوں کا علم ہے اور ان کی طرف اللّٰہ تعالیٰ نے رسول بھیجے تھے ، جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وغیرہ، اور وہ ان کی طرح بشر تھے تو جب کفار ِمکہ اہلِ کتاب سے پوچھتے تو وہ انہیں بتا دیتے کہ جو رسول ان کی طرف بھیجے گئے وہ سب بشر ہی تھے، اس طرح ان کے دلوں سے یہ شبہ زائل ہو جاتا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۱۲۴)
جو مسئلہ معلوم نہ ہو وہ علماءِ کرام سے پوچھا جائے:
اس آیت کے الفاظ کے عموم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس مسئلے کا علم نہ ہو اس کے بارے میں علماء کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے (ایک شخص کی وفات کا سبب سن کر)ارشاد فرمایا ’’ جب (رخصت کے بارے) انہیں معلوم نہ تھا تو انہوں نے پوچھا کیوں نہیں کیونکہ جہالت کی بیماری کی شفاء دریافت کرنا ہے۔(ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، باب فی المجروح یتیمّم، ۱ / ۱۵۴، الحدیث: ۳۳۶)اور حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عالم کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنے علم پر خاموش رہے اور جاہل کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنی جہالت پر خاموش رہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘ (یعنی اے لوگو! اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو۔) لہٰذا مومن کو دیکھ لینا چاہئے کہ اس کا عمل ہدایت کے مطابق ہے یا اس کے خلاف ہے۔( در منثور، النحل، تحت الآیۃ: ۴۳، ۵ / ۱۳۳)
تقلید جائز ہے:
یاد رہے کہ یہ آیتِ کریمہ تقلید کے جواز بلکہ حکم پر بھی دلالت کرتی ہے جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی کتاب ’’اَلْاِکْلِیْلْ‘‘ میں فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے علماء نے فروعی مسائل میں عام آدمی کے لئے تقلید کے جواز پر استدلال فرمایا ہے ۔ (الاکلیل، سورۃ النحل، ص۱۶۳)بلکہ آیت فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِتقلید واجب ہونے کی صریح دلیل ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس آیت میں ’’اَهْلَ الذِّكْرِ‘‘ سے مسلمان علماء نہیں بلکہ اہل کتاب کے علماء مراد ہیں لہٰذا اس آیت کا تقلید کی بحث سے کوئی تعلق نہیں ، ان کا یہ کہنا نری جہالت ہے کیونکہ یہ اس قانون کے خلاف ہے کہ اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ مخصوص سبب کا۔( فتاویٰ رضویہ، ۲۱ / ۵۸۲)
تقلید کی تعریف:
تقلید کے شرعی معنی یہ ہیں کہ کسی کے قول اور فعل کو یہ سمجھ کر اپنے اوپر لازمِ شرعی جاننا کہ اس کا کلام اور اس کا کام ہمارے لئے حجت ہے کیونکہ یہ شرعی محقق ہے۔
تقلید سے متعلق چند اہم مسائل:
(1)…عقائد اور صریح اسلامی احکام میں کسی کی تقلید جائز نہیں ۔
(2)…جو مسائل قرآن و حدیث یا اِجماعِ امت سے اِجتہاد اور اِستنباط کر کے نکالے جائیں ان میں غیر مُجتَہد پر چاروں آئمہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا واجب ہے۔
(3)…اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مذاہبِ اربعۂ اہلسنت سب رشد و ہدایت ہیں جو ان میں سے جس کی پیروی کرے اور عمر بھر اسی کا پیرورہے ،کبھی کسی مسئلے میں اس کے خلاف نہ چلے وہ ضرور صراطِ مستقیم پر ہے اس پر شرعاً کوئی الزام نہیں ، ان میں سے ہر مذہب انسان کیلئے نجات کو کافی ہے۔ تقلید ِشخصی کو شرک یا حرام ماننے والے گمراہ، ضالین، مُتَّبِعْ غَیْرِ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْن (یعنی مومنوں کے راستے کے علاوہ کی پیروی کرنے والے) ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ، ۲۷ / ۶۴۴)
نوٹ: تقلید سے متعلق تفصیلی معلومات کے لئے کتاب ’’جاء الحق ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔
مُقَلِّد کا ایمان درست ہے یا نہیں ؟
جو شخص تقلید کے طور پر ایمان لایا اس کا ایمان صحیح ہونے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک تقلیدی ایمان درست نہیں ، بعض کے نزدیک تقلیدی ایمان درست ہے لیکن وہ غورو فکر اور اِستدلال ترک کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو گا، اور بعض کے نزدیک تقلیدی ایمان درست ہے اور ایسے ایمان لانے والا گناہگار بھی نہیں ہو گا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان علماء کے اَقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ’’بے شک ایمان نور کی ایک تجلی ہے اور وہ (جہالت کا ) پردہ اٹھانا اور سینہ کھولنا ہے ، اللّٰہ تعالیٰ وہ نور اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہے ڈالتا ہے خواہ یہ نور کا داخل ہونا غورو فکر سے ہو یا محض کسی کی بات سننے سے حاصل ہو، اور کسی عقلمند کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کہے :ایمان نظر و استدلال کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا بلکہ خدا کی قسم! بسا اوقات اس شخص کا ایمان جو استدلال کا طریقہ نہیں جانتا اُس سے کامل تر اور مضبوط تر ہوتا ہے جو بحث و مناظرے میں آخری حد تک پہنچا ہوا ہو، تو جس کا سینہ اللّٰہ تعالیٰ اسلام کے لئے کھول دے اور وہ اپنے دل کو ایمان پر مطمئن پائے تو وہ قطعی طور پر مومن ہے اگرچہ وہ نہ جانتا ہو کہ اسے یہ عظیم نعمت کہاں سے ملی ہے، اور آئمہ اربعہ وغیرہ محققین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اَجْمَعِیْن نے جو فرمایا کہ ’’مقلد کا ایمان صحیح ہے‘‘ اس کا یہی معنی ہے ،مقلد سے ان کی مراد وہ شخص ہے جو استدلال کرنا، بحث کے اسلوب اور گفتگو کے مختلف طریقے نہ جانتا ہو، رہا وہ شخص جس نے اپنے سینے کو اس یقین کے ساتھ اپنی طرف سے کشادہ نہ کیا تو اس نے ویسے ہی کہا جیسے منافق اپنی قبر میں کہتا ہے :ہائے ہائے! مجھے نہیں معلوم ،میں لوگوں کو کچھ کہتے سنتا تھا تو ان سے سن کر میں بھی کہا کرتا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اللّٰہ تعالیٰ کے ایک ہونے کی تصدیق اس لئے کرے کہ مثلاً اس کا باپ اس بات کی تصدیق کرتا تھا اور وہ اپنے دل سے اللّٰہ تعالیٰ کے ایک ہونے پر یقین رکھتے ہوئے تصدیق نہ کرے تو ایسے شخص کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں اور تقلیدی ایمان کی نفی کرنے والوں کی بھی یہی مراد ہے ۔(المعتمد المستند شرح المعتقد المنتقد، الخاتمۃ فی بحث الایمان، ص۱۹۹-۲۰۰)
{وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ:اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن اس لئے نازل فرمایا تاکہ آپ اس کتاب میں موجود اَحکام ،وعدہ اور وعید کو اپنے اَقوال اور اَفعال کے ذریعے لوگوں سے بیان کر دیں ۔ (قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۷۹، الجزء العاشر)
حدیث پاک بھی حجت ہے:
ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی تفسیر ’’اَلْجَامِعُ لِاَحْکَامِ الْقُرْآنْ‘‘ کی ابتدا میں فرماتے ہیں ’’اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں موجود مُجمل چیزوں کو بیان کرنے، مشکل کی تفسیر کرنے اور کئی اِحتمال رکھنے والی چیزوں کی تحقیق کرنے کا منصب اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو عطا فرمایا تاکہ رسالت کی تبلیغ کے ساتھ آپ کی یہ خصوصیت بھی ظاہر ہو جائے اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰیَ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد قرآنِ پاک کے معانی کو اَخذ کرنے اور قرآنِ پاک کے اصول کی طرف اشارہ کرنے کی خدمت علماء کے سپرد فرمائی تاکہ وہ قرآنِ پاک کے الفاظ میں غورو فکرکر کے ان کی مراد جان جائیں ،یوں علماء دیگر امتیوں سے ممتاز ہو گئے اور اِجتہاد کا ثواب ملنے کی خصوصیت بھی انہیں حاصل ہوئی، خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک اصل ہے اور حدیثِ پاک اس کا بیان ہے اور علماء کا اِستنباط ا س کی وضاحت ہے۔(قرطبی، خطبۃ المصنّف، ۱ / ۲۴، الجزء الاوّل)اس آیتِ کریمہسے معلوم ہو اکہ قرآنِ پاک کی طرح حدیث پاک بھی معتبر، قابلِ قبول اور لائقِ عمل ہے کیونکہ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو قرآنِ پاک میں موجود احکام وغیرہ کو اپنے اقوال اور افعال کے ذریعے لوگوں سے بیان کرنے کا منصب عطا فرمایا ہے اور حدیث نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اَقوال اور اَفعال ہی کا تو نام ہے ۔اس کے علاوہ اور آیات بھی حدیثِ پاک کے حجت ہونے پر دلالت کرتی ہیں ،جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘(سورۂ جمعہ :۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللّٰہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتاہے اور بیشک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔
اس آیت کے علاوہ بکثرت آیات ایسی ہیں جن میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا حکم مانا جائے یہاں تک کہ واضح طور فرما دیا کہ’’ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(النساء:۶۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللّٰہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت اسی صورت ممکن ہے جب ان کے قول اور فعل کی پیروی کی جائے ، اگر یوں نہ کیا جائے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثَت کا جو مقصد ہے وہی فوت ہو جائے گا۔
اور ارشاد فرمایا ’’وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘(حشر:۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اوررسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللّٰہ سے ڈرو بیشک اللّٰہ سخت عذاب دینے والاہے۔
عقلی طور پر بھی دیکھا جائے تو حدیثِ پاک کو حجت مانے بغیر چارہ ہی نہیں کیونکہ قرآنِ پاک میں اسلام کے بنیادی اَحکام جیسے نماز ،روزہ ،حج اور زکوٰۃ کا اِجمالی بیان کیا گیا ہے ، ان پر عمل اسی صورت ممکن ہے جب حدیث پاک پر عمل کیا جائے کیونکہ ان تمام احکام کی تفصیل کا بیان صرف اَحادیث میں ہے۔
{وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ:اورتاکہ وہ غوروفکر کریں ۔} یعنی قرآن نازل کرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور ان میں موجود حقائق اور عبرت انگیز چیزوں پر مطلع ہوں اور اُن کاموں سے بچیں جن کی وجہ سے سابقہ امتیں عذاب میں مبتلا ہو گئیں ۔ (ابوسعود، النحل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۶۸، ملخصاً)
قرآنِ کریم میں غورو فکر اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے:
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں غورو فکر کرنا اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے لہٰذا قاری سے عالم باعمل افضل ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ قرآنِ مجید کو سمجھ کر اور اس میں بیان کئے گئے احکام، عبرت انگیز واقعات،موت کے وقت کی آفات، گناہگاروں اور کافروں پر ہونے والے جہنم کے عذابات اور نیک مسلمانوں کو ملنے والے جنت کے انعامات وغیرہ میں غورو فکر کرتے ہوئے ا س کی تلاوت کرے تاکہ اسے قرآن کریم کی برکتیں اچھی طرح حاصل ہوں اور اس کے دل پر اگر گناہوں کی سیاہی غالب آ چکی ہو تو وہ بھی صاف ہو جائے ۔حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا: ان دلوں میں بھی زنگ لگ جاتا ہے، جس طرح لوہے میں پانی لگنے سے زنگ لگتا ہے۔ عرض کی گئی، یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،اس کی جِلا(یعنی صفائی) کس چیز سے ہوگی؟ ارشاد فرمایا ’’کثرت سے موت کو یادکرنے اور تلاوتِ قرآن سے۔(شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ادمان تلاوتہ، ۲ / ۳۵۲، الحدیث: ۲۰۱۴)
حضرت ابراہیم خواص رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :دل کی دوا پانچ چیزیں ہیں ۔ (1) غورو فکر کرتے ہوئے قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا، (2) بھوکا رہنا، (3) رات میں نوافل ادا کرنا، (4) سَحری کے وقت اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرنا، (5) نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا، (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۳۸)
{اَفَاَمِنَ:تو کیا بے خوف ہوگئے۔} اس آیت اورا س کے بعد والی دو آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو چار طرح کے عذابوں سے ڈرایا ہے ۔ (1) زمین میں دھنسادیئے جانے سے۔ (2) آسمان سے عذاب نازل کر دینے سے۔ (3) ایسی آفات سے جو یکبارگی ا س طرح آئیں کہ ان کی علامات اور دلائل انہیں معلوم نہ ہوں ۔ (4) ایسی آفات سے جو تھوڑی تھوڑی آئیں یہاں تک کہ ان کا آخری فرد بھی ہلاک ہو جائے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۷، ۷ / ۲۱۲-۲۱۳)اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے خلاف سازشیں کرتے ہیں ، انہیں ایذائیں پہنچانے کی کوشش میں رہتے ہیں اور چھپ چھپ کر فساد پھیلانے کی تدبیریں کرتے ہیں ،کیا وہ ا س بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّانہیں زمین میں دھنسادے جیسے قارون کو دھنسادیا تھا یا ان پر آسمان سے اچانک عذاب نازل ہو جائے جیسے قومِ لوط پر ہو اتھا۔( روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۳۸، بیضاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۴۰۰، ملتقطاً)
بعض مفسرین نے فرمایا کہ ’’مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ(جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہو)‘‘ سے بدر کا دن مراد ہے کیونکہ کفار کے بڑے بڑے سردار اس دن ہلاک کر دئیے گئے اور ان کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی ہلاکت کا گمان بھی نہ رکھتے تھے۔(تفسیر قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۷۹، الجزء العاشر)
{اَوْ یَاْخُذَهُمْ فِیْ تَقَلُّبِهِمْ:یا انہیں چلتے پھرتے پکڑ لے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ کیا وہ اس بات سے ڈرتے نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ سفر کی حالت میں ان پر عذاب نازل کر دے کیونکہ جس طرح اللّٰہ تعالیٰ انہیں ان کے شہروں میں ہلاک کرنے پر قادر ہے، اسی طرح سفر کے دوران بھی انہیں ہلاک کرنے پر قادر ہے،وہ کسی دور دراز کے علاقے میں جاکر اللّٰہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے بلکہ وہ جہاں بھی ہوں اللّٰہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کر سکتا ہے۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۶، ۷ / ۲۱۲)دوسری تفسیر یہ ہے کہ کیا وہ اس بات سے ڈرتے نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ رات اوردن میں بلکہ ہر ایک حال میں ان کی پکڑ کرنے پر قادر ہے اور وہ فرار ہو کر اللّٰہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ ان پر ہر طرح سے قادر ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۱۲۴)
{اَوْ یَاْخُذَهُمْ:یا انہیں پکڑلے ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ شروع سے ہی انہیں عذاب میں گرفتار نہیں کرے گا بلکہ پہلے انہیں خوف میں مبتلا کرے گا پھر اس کے بعدانہیں عذاب میں گرفتار کر دے گا۔ خوف میں مبتلا کرنے کی صورت یہ ہو گی کہ اللّٰہ تعالیٰ ایک گروہ کو ہلاک کر دے گا تو اس کے قریب والے ا س خوف میں مبتلا ہو جائیں گے کہ کہیں ان پر بھی ویساہی عذاب نازل نہ ہو جائے۔ ایک طویل عرصہ تک وہ اس خوف اور وحشت میں مبتلا رہیں گے ، اس کے بعد ان پر عذاب نازل ہو گا۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان پر فوراًعذاب نازل نہیں کرے گا بلکہ ان کی جانوں اور مالوں کو تھوڑا تھوڑا کم کرتا رہے گا یہاں تک کہ سب ہلاک ہو جائیں گے ۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۷،۷ / ۲۱۲-۲۱۳)
{فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ:تو بیشک تمہارا رب نہایت مہربان رحمت والا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ چونکہ بہت مہربان اور رحمت والا ہے اس لئے وہ اکثر اُمور میں مہلت دے دیتا ہے ا ور عذاب نازل کرنے میں جلدی نہیں فرماتا۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۷، ۷ / ۲۱۳)
{اَوَ لَمْ یَرَوْا:اور کیا انہوں نے نہ دیکھا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے سایہ دار جو چیز بھی پیدا فرمائی ہے اس کا حال یہ ہے کہ سورج طلوع ہوتے وقت اُس کا سایہ دائیں طرف جھک جاتا ہے اور سورج غروب ہوتے وقت اس کا سایہ بائیں طرف جھک جاتا ہے اور سائے کا ایک سے دوسری طرف منتقل ہونا اللّٰہ تعالیٰ کو سجدہ کرنا اور اس کی بارگاہ میں اپنی عاجزی، انکساری اور کمزوری کا اظہار کرنا ہے کیونکہ سایہ دائیں اور بائیں جھکنے میں اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کا پابند اور اسی کا اطاعت گزار ہے، اسی کے سامنے عاجز اور اسی کے آگے مسخر ہے اوراس میں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کا کمال ظاہر ہے اور جب کفار سایہ دار چیزوں کا یہ حال اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اس میں غورو فکر کر کے عبرت و نصیحت حاصل کریں کہ سایہ و ہ چیز ہے جس میں عقل،فہم اور سماعت کی صلاحیت نہیں رکھی گئی تو جب وہ اللّٰہ تعالیٰ کا اطاعت گزار ہے اور صرف اسی کو سجدہ کر رہا ہے تو انسان جسے عقل،فہم اور سماعت کی صلاحیت دی گئی ہے اسے زیادہ چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور صرف اسی کے آگے سجدہ ریز ہو۔ (تفسیرسمرقندی، النحل، تحت الآیۃ: ۴۸،۲ / ۲۳۷، تاویلات اہل السنہ، النحل، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۸۹-۹۰، ملتقطاً)
{وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ:اور اللّٰہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں ۔} علما ء فرماتے ہیں سجدہ دو طرح کا ہوتا ہے ۔ (1) سجدۂ عبادت ، جیسا کہ مسلمانوں کا اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے لئے سجدہ۔ (2) سجد ہ بہ معنی اطاعت اور عاجزی ، جیسا کہ سایہ وغیرہ کا سجدہ۔ ہر چیز کا سجدہ اس کی حیثیت کے مطابق ہے ،مسلمانوں اور فرشتوں کا سجدہ، سجدۂ عبادت ہے اور ان کے ماسوا کا سجدہ ، سجدہ بہ معنی اطاعت اور عاجزی ہے۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۱۲۵، تفسیر کبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۹، ۷ / ۲۱۶ملتقطاً)
یاد رہے کہ یہاں سجدہ سے مراد اطاعت ہے نہ کہ اصطلاحی سجدہ، اور اگر باقاعدہ سجدہ ہی مراد ہو تو بھی حق ہے کہ کسی چیز کی حقیقت ہمیں معلوم نہ ہونا ہمارے علم کی کمی کی دلیل ہے ، اس بات کی نہیں کہ وہ چیز ہی نہیں ہوسکتی جیسے آج کل کی لاکھوں سائنسی ایجادات سے پہلے لوگوں کو اِن چیزوں کا بالکل علم نہیں تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ چیزیں ہوہی نہیں سکتی تھیں ، یہی صورت سایوں کے سجدہ کرنے میں سمجھ لی جائے اور یہی جواب مخالفینِ اسلام کے سائنسی اعتبار سے اسلام کے خلاف اکثر اعتراضوں کا ہے۔
نوٹ:یاد رہے کہ یہ آیت آیاتِ سجدہ میں سے ہے ، اس کے پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت لازم ہو جائے گا۔ سجدۂ تلاوت کے چند احکام سورۂ اَعراف آیت نمبر 206میں گزر چکے ہیں ، مزید مسائل جاننے کے لئے بہار شریعت حصہ 4سے’’ سجدۂ تلاوت کا بیان‘‘ مطالعہ کیجئے۔
{وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ:اور فرشتے غرور نہیں کرتے۔} اس آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتے تمام گناہوں سے معصوم ہیں کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وہ غرور نہیں کرتے ا س بات کی دلیل ہے کہ فرشتے اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے کے اطاعت گزار ہیں اور وہ کسی بات اور کسی کام میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۴۹، ۷ / ۲۱۷) مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ صرف فرشتے او ر پیغمبر معصوم ہیں ، ان کے سوا کوئی معصوم نہیں ۔
{یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ:وہ اپنے اوپر اپنے رب کا خوف کرتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرشتے اپنے اوپر اللّٰہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہونے سے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتاہے ،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے رب عَزَّوَجَلَّکی نافرمانی نہیں کی بلکہ انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کے ہر حکم کو پورا کیا اور ممنوعہ کاموں سے باز رہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتے مُکَلَّف ہیں ۔ (مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۵۹۷، صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۱۰۷۱، ملتقطاً)
{وَ قَالَ اللّٰهُ:اور اللّٰہ نے فرمادیا۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ بتا دیاکہ آسمان و زمین کی تمام کائنات اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی کرنے والی،اس کے حکم کی اطاعت کرنے والی اور اسی کی عبادت کرنے والی ہے اور سب اس کی ملکیت میں اور اسی کی قدرت وتَصَرُّف کے تحت ہیں جبکہ ا س آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے شرک سے اور دو خدا ٹھہرانے سے ممانعت فرمائی ہے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۱۲۶)
{وَ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:اورجو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔} یعنی آسمانوں اور زمین میں موجود ہر چیز کا مالک اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے، ان میں سے کسی چیز میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی نے انہیں پیدا کیا، وہی انہیں رزق دیتا ہے ،اسی کے دستِ قدرت میں ان کی زندگی اور موت ہے اور ہمیشہ کے لئے اطاعت و فرمانبرداری کا وہی مستحق ہے، تو اے لوگو! کیا تم اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے سوا کسی اور سے خوف کھاؤگے اور اس بات سے ڈرو گے کہ اگر تم نے صرف اپنے رب تعالیٰ کی عبادت کی تو وہ تم سے اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتیں چھین نہ لے۔(تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۲، ۷ / ۵۹۵-۵۹۶) یاد رہے کہ فرمانبرداری کا حق ہمیشہ اللّٰہ تعالیٰ کیلئے ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت کرنا، والدین کی اطاعت کرنا اور اُولِی الْاَمْر کی اطاعت کرنا بھی درحقیقت اللّٰہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔(صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۱۰۷۲)
حقیقی خوف صرف اللّٰہ تعالیٰ کا ہونا چاہئے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کے سلسلے میں دنیا کی نعمتیں،سہولتیں اور آسائشیں چھن جانے کا خوف نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اس معاملے میں صرف اس رب تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے جس کے دستِ قدرت میں سب نعمتیں ہیں اور جو تمام نعمتوں کا حقیقی مالک ہے ۔اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی نصیحت ہے جو مسلمان ہونے کے باوجود اسلام کے اَحکام پر عمل کرنے میں اپنی دنیوی ترقی نہ ہونے ، معاشی خوشحالی نہ آنے اور نفسانی خواہشات پوری نہ ہونے کاخوف کھاتے ہیں اور وہ ا س بات سے ڈرتے ہیں کہ نمازوں کی پابندی کرنے اور داڑھی رکھنے سے دنیا میں شہرت اور اچھی جگہ نوکری نہ ملے گی اور نہ ہی کوئی مالدار گھرانے والا انہیں رشتہ دینے کو تیار ہو گا، یونہی اگر وہ سودی کاروبار اور رشوت کا لین دین نہ کریں اور کاروبار میں جھوٹ، دھوکہ، ملاوٹ اور خیانت سے کام نہ لیں تو وہ معاشی طور پر انتہائی پَستی کا شکار ہو جائیں گے، اسی طرح اگر وہ نیک صورت مسلمان نظر آئیں گے تو دنیا کی رنگین اور عیش و عشرت سے لبریز پارٹیوں سے لطف اندوز کس طرح ہو ں گے اور عیش و نشاط کے مزے کس طرح لوٹیں گے ۔ اے کاش !یہ لوگ ان چیزوں سے خوف کھانے اور ڈرنے کی بجائے اللّٰہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ، اسی سے ڈرتے اور اسی کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی انتہائی قلیل دنیوی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے تو آخرت میں ایسی عظیم اور دائمی نعمتیں پاتے جن کے آگے دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ ترین نعمتوں کی ذرہ بھر بھی حیثیت اور وقعت نہیں ہے۔ [1]
[1] ۔۔۔ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کا خوف رکھنے سے متعلق مزید ترغیب پانے کے لئے کتاب’’خوفِ خدا‘‘(مطبوعہ مکتبہ المدینہ) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
{وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ:اور تمہارے پاس جو نعمت ہے۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ عقلمند پر لازم ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے نہ ڈرے جبکہ ان آیات میں بیان فرمایا کہ عقلمند پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کا شکر نہ کرے کیونکہ شکر نعمت کے بدلے میں ہوتا ہے اور انسان کو جو نعمت بھی ملی ہے وہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے۔ (تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۵۳، ۷ / ۲۲۱) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! تمہارے بدنوں میں جو عافیت، صحت اور سلامتی ہے اور تمہارے مالوں میں جو نَشوونُما ہو رہی ہے ،تمہارے پاس یہ سب نعمتیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں کسی اور کی طرف سے نہیں کیونکہ ساری نعمتیں اللّٰہ تعالیٰ ہی کے دستِ قدرت میں ہیں اور جب تمہارے بدن کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں کوئی عارضہ لاحق ہوتا ہے اور تمہاری عیش و عشرت میں کمی واقع ہوتی ہے تو تم صرف اللّٰہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہو اور اسی سے مدد طلب کرتے ہو تاکہ وہ تم سے یہ مصیبت دور کر دے۔ (تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۳، ۷ / ۵۹۷)
{ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ:پھر جب وہ تم سے برائی ٹال دیتا ہے۔} یعنی پھر جب اللّٰہ تعالیٰ تمہاری بدنی بیماریاں دور کر کے تمہیں عافیت عطا کر دے، تمہاری معاشی پریشانی ختم کر دے اور تم پر آنے والی مصیبتیں ٹال دے تو تم میں سے ایک گروہ اپنی عبادت میں غیروں کواللّٰہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے لگ جاتا ہے ، بتوں کی عبادت میں مشغول ہونے کے ساتھ بتوں کا شکر اداکرتے ہوئے ان کے نام پر جانور ذبح کرتا ہے اور اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا نہیں کرتا جس نے ان کی مشکلات دور کر کے انہیں آسانیاں عطا کی ۔(تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۴، ۷ / ۵۹۸)
{لِیَكْفُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْ:تاکہ وہ ہماری دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کریں۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ لوگوں نے مصیبت دور کرنے میں بتوں کو اللّٰہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا اور شریک ٹھہرانے سے ان کا مقصود یہ تھا کہ وہ اِن نعمتوں کے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا انکار کر دیں ۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے کہ جب ان کے مرض کی تکلیف بڑھتی ہے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرتے ہیں اور ا س تکلیف کے دور ہونے کی دعائیں مانگتے ہیں اور جب اللّٰہ تعالیٰ ان کی تکلیف دور فرما دے تو وہ یوں کہنے لگتے ہیں کہ فلاں دوائی سے یا فلاں ڈاکٹر کے علاج سے میری یہ تکلیف دور ہوئی، یونہی جب زلزلہ، طوفان یا سیلاب وغیرہ کی مصیبت آتی ہے تو اس وقت بھی اللّٰہ تعالیٰ کے حضور التجائیں کرتے ہیں ، روتے اور گڑگڑاتے ہیں لیکن جب زلزلے، طوفان یا سیلاب وغیرہ کا سلسلہ ختم ہو جائے تو دوبارہ انہی کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں جن میں پہلے سے مصروف تھے۔ لوگوں کی اسی حالت کی وضاحت اللّٰہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمائی ہے۔ (تفسیر کبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۵۵، ۷ / ۲۲۲-۲۲۳، ملخصاً) اگرچہ طبیب یا دوا کی طرف شفا کی نسبت کرنا گناہ نہیں لیکن صرف انہی پر بھروسہ رکھنا اور شفا و صحت کو اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت شمار کرنے اور اس پر شکر ادا کرنے کا اصلاً نہ سوچنا ضرور غلط ہے۔
مَصائب و آلام کے وقت لوگوں کا حال اور بعد کی صورتِ حال:
امام رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے کلام کو سامنے رکھتے ہوئے فی زمانہ بھی اگر لوگوں کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو شاید لاکھوں میں ایک انسان بھی ایسانظر نہ آئے جو بیماری ، تکلیف اور پریشانی کی حالت میںاللّٰہ تعالیٰ سے دعائیں نہ مانگتا ہو، دوسروں کو دعاؤں کے لئے نہ کہتا ہو اور اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے اپنی مشکلات کے حل کے لئے دعائیں نہ کرواتا ہو، یونہی ایسی حالت میں اپنے گناہوں اور نافرمانیوں سے توبہ نہ کرتا ہو اور آئندہ کے لئے تمام گناہوں سے کنارہ کش ہونے کے ارادے نہ کرتاہو ، لیکن جب یہ مصائب و آلام ختم ہو جاتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی بجائے اپنی گناہوں کی سابقہ سڑک پر پہلے سے بھی تیز دوڑنا شروع کر دیتے ہیں ،اسی طرح ہمارے مشاہدے میں ہے کہ بہت مرتبہ زلزلے ،طوفان اور سیلاب کی وجہ سے لوگوں کا حال یہ ہوا کہ وہ بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنی عافیت و سلامتی کی دعائیں مانگنے میں مصروف ہو گئے اور وقتی طور پر نماز،روزہ اور ذکر و درو د میں مشغول ہو گئے ،لیکن یہ آفات ختم ہو جانے کے بعد اب ان کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
{فَتَمَتَّعُوْا:تو فائدہ اٹھالو۔} اس آیت میں ان لوگوں کے لئے وعید ہے جن کے اوصاف مذکورہ بالا آیات میں بیان ہوئے ،اللّٰہ تعالیٰ ان سے ارشاد فرماتا ہے کہ تم اس دنیا کی زندگی میں اپنی مدت پوری ہونے تک فائدہ اٹھا لو اور جب تم اپنی زندگی کا وقت پورا کر کے اپنے رب عَزَّوَجَلَّسے ملو گے تو اس وقت اپنے کئے ہوئے اعمال کا وبال جان جاؤ گے اور اپنے برے کاموں کا انجام دیکھ لو گے۔اس وقت تمہیں ندامت تو بہت ہو گی لیکن وہ ندامت تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ (تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۵، ۷ / ۵۹۸)
{وَ یَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا:اور (کافر) انجانی چیزوں کیلئے حصہ مقرر کرتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین کو اللّٰہ تعالیٰ نے جو فصلیں اور مویشی عطا فرمائے وہ اِن میں سے اُن بتوں کے لئے حصہ مقرر کرتے ہیں جنہیں وہ معبود کہتے ہیں اور ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بت نفع اور نقصان پہنچا سکتے ہیں اور وہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ان کی شفاعت کریں گے حالانکہ بتوں میں یہ اَوصاف موجود ہی نہیں کیونکہ وہ تو پتھر ہیں ،نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت کہاں سے رکھیں گے۔اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ کی قسم!اے لوگو! تم سے اُس کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا جوتم بتوں کو معبود ، تقرب کے لائق اوربت پرستی کو خدا کا حکم بتاکر اللّٰہ تعالیٰ پرجھوٹ باندھتے تھے۔( جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۲۲۰، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۵۹۸-۵۹۹، ملتقطاً)
{وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ:اوروہ اللّٰہ کے لیے بیٹیاں قرار دیتے ہیں ۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے توبیٹیاں قرار دیتے ہیں جیسے بنو خزاعہ اور کنانہ کے لوگ فرشتوں کو اللّٰہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے اور اس کی شان میں ایسا کہنا بہت بے ادبی اور کفر ہے۔ان کافروں میں کفر کے ساتھ بدتمیزی کی انتہا یہ بھی ہے کہ وہ اپنے لئے توبیٹے پسند کرتے ہیں اور بیٹیاں ناپسند کرتے ہیں جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے جو مُطلقاً اولاد سے مُنَزّہ اور پاک ہے اور اس کے لئے اولاد ثابت کرنا ہی عیب لگانا ہے، اس کے لئے اولاد میں بھی وہ ثابت کرتے ہیں جس کو اپنے لئے حقیر اور عار کا سبب جانتے ہیں ۔(جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۱۰۷۳، ملخصاً)
{وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى:اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعدوالی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جومشرکین اللّٰہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں قرار دے رہے ہیں جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو غم، پریشانی اور پسند نہ ہونے کی وجہ سے سارا دن ا س کے چہرے کا رنگ بدلاہوا رہتا ہے اور وہ غصے سے بھرا ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جب مشرکین اپنے لئے ا س بات کو پسند نہیں کرتے کہ بیٹی ان کی طرف منسوب ہو تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف بیٹی کی نسبت کرنے کو انہوں نے کیسے پسند کر لیا۔ (خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۱۲۷، ملخصاً)
لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں کا طریقہ ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں کا طریقہ ہے، فی زمانہ مسلمانوں میں بھی بیٹی پیدا ہونے پرغمزدہ ہو جانے، چہرے سے خوشی کا اظہار نہ ہونے، مبارک باد ملنے پر جھینپ جانے، مبارک باد دینے والے کو باتیں سنا دینے، بیٹی کی ولادت کی خوشی میں مٹھائی بانٹنے میں عار محسوس کرنے، صرف بیٹیاں پیدا ہونے کی وجہ سے ماؤں پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں طلاقیں دے دینے تک کی وبا عام ہے، حالانکہ بیٹی پیدا ہونے اور اس کی پرورش کرنے کی بہت فضیلت ہے ، رسولِ کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جب کسی شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے ہاں فرشتوں کو بھیجتا ہے، وہ آ کر کہتے ہیں : اے گھر والو! تم پر سلامتی نازل ہو، پھر اس بیٹی کا اپنے پروں سے اِحاطہ کر لیتے ہیں اور اس کے سر پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ ایک کمزور لڑکی ایک کمزور عورت سے پیدا ہوئی ہے، جو اس کی کفالت کرے گا توقیامت کے دن اس کی مدد کی جائے گی۔ (معجم الصغیر، باب الالف، من اسمہ: احمد، ص۳۰، الجزء الاول)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے ، اُسے ذلیل نہ سمجھے اور اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی فضل من عال یتیماً، ۴ / ۴۳۵، الحدیث: ۵۱۴۶)
اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کوعقلِ سلیم عطا کرے اور جس طرح وہ بیٹا پیدا ہونے پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے اسی طرح بیٹی پیدا ہونے پر بھی خوشی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
{یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ:لوگوں سے چھپا پھرتا ہے ۔}مفسرین فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں دستور یہ تھا کہ جب کسی شخص کی بیوی کے ہاں زچگی کے آثار ظاہر ہوتے تو وہ شخص بچہ پیدا ہو جانے تک اپنی قوم سے چھپا رہتا، پھر اگر اسے معلوم ہوتا کہ بیٹا پیدا ہوا ہے تو وہ خوش ہوجاتا اور اپنی قوم کے سامنے آ جاتا اور جب اسے پتا چلتا کہ اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے تو وہ غمزدہ ہو جاتا اور شرم کے مارے کئی دنوں تک لوگوں کے سامنے نہ آتا اورا س دوران غور کرتا رہتا کہ اس بیٹی کے ساتھ وہ کیا کرے؟ آیا ذلت برداشت کر کے ا س بیٹی کو اپنے پاس رکھے یا اسے زندہ درگور کر دے جیسا کہ مُضَر، خُزَاعہ اور تمیم قبیلے کے کئی لوگ اپنی لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۱۲۷-۱۲۸، ملخصاً)
زمانۂ جاہلیت میں بیٹیوں سے متعلق کفار کا دستور اور اسلام کا کارنامہ:
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’زمانۂ جاہلیت میں کفار مختلف طریقوں سے اپنی بیٹیوں کو قتل کردیتے تھے، ان میں سے بعض گڑھا کھود تے اور بیٹی کو اس میں ڈال کر گڑھا بند کر دیتے حتّٰی کہ وہ مر جاتی، اور بعض اسے پہاڑ کی چوٹی سے پھینک دیتے ، بعض ا سے غرق کر دیتے اور بعض اسے ذبح کر دیتے تھے ،ان کا بیٹیوں کو قتل کرنا بعض اوقات غیرت اور حَمِیَّت کی وجہ سے ہوتا تھا اور بعض اوقات فقر و فاقہ اور نان نفقہ لازم ہونے کے خوف سے وہ ایسا کرتے تھے۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۵۹،۷ / ۲۲۶، ملخصاً) یہ اسلام ہی کا کارنامہ ہے جس نے دنیا میں سب سے پہلے عورت کو حقوق عطا فرمائے اور اسے عزت و وقار سے نوازا۔ زندہ درگور ہونے والی کو جینے کاحق دیا اور اس کی پوری زندگی کے حقوق کی ایک فہرست بیان فرما دی، اس کے باوجود اگر کوئی جاہل اسلام کی تعلیمات کوعورتوں کے حقوق کے مخالف سمجھتا ہے تو اسے اپنی جہالت اور دماغ کی خرابی کا علاج کرنے کی طرف بھرپور توجہ دینی چاہئے۔
{اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ:خبردار! یہ کتنا برا فیصلہ کررہے ہیں ۔} یعنی ان مشرکین نے جو فیصلہ کیا ہے وہ کتنا برا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں ثابت کرتے ہیں جو اپنے لئے انہیں انتہائی ناگوار ہیں اور یونہی یہ بات کتنی بری ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں جو رزق دیاہے اس میں بتوں کو اللّٰہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں حالانکہ وہ نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت ہی نہیں رکھتے اور جس رب عَزَّوَجَلَّ نے انہیں پیدا کیا اوران پر احسانات فرمائے ہیں اسے چھوڑ کر بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔( تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۵۹، ۷ / ۶۰۰)
{وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ:اور اگر اللّٰہ لوگوں کو ان کے ظلم کی بنا پر پکڑ لیتا ۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کے بہت بڑے کفر اور برے اَقوال کا بیان فرمایا جبکہ اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کافروں پر جلدی عذاب نازل نہ فرما کر انہیں ڈھیل دیتا ہے تاکہ اس کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کا اظہار ہو۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۶۱، ۷ / ۲۲۷) چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے گناہوں پر پکڑ لیتا اور عذاب میں جلدی فرماتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا بلکہ سب کو ہلاک کردیتا۔ایک قول یہ ہے کہ زمین پر چلنے والے سے کافر مراد ہیں جیسا کہ دوسری آیت میں ہے
’’اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا‘‘(انفال:۵۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یعنی بیشک جانوروں میں سب سے بدتر، اللّٰہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا۔
بعض مفسرین نے فرمایا ’’آیت کے معنی یہ ہیں کہ روئے زمین پر کسی چلنے والے کو باقی نہیں چھوڑتا جیسا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے زمانہ میں جو کوئی زمین پر تھا اُن سب کو ہلاک کردیا ، صرف وہی باقی رہے جو زمین پر نہ تھے بلکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کشتی میں تھے۔ ا س آیت کے معنی میں ایک قول یہ بھی ہے کہ’’ اللّٰہ تعالیٰ ان کے ظالم باپ دادا کو ان کے ظلم کی وجہ سے ہلاک کردیتا تو اُن کی نسلیں منقطع ہوجاتیں اور زمین میں کوئی باقی نہ رہتا۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۱۲۸، ملخصاً)
{وَ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى:لیکن وہ انہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ ان کے ظلم پر پکڑ نہیں فرماتا بلکہ اپنے فضل و کرم اور حِلم کی وجہ سے انہیں زندگی کا وقت پورا ہونے تک یا قیامت آنے تک مہلت دیتا ہے۔ پھر جب ان کی مقررہ مدت آجائے گی تو وہ اس مدت سے نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی آگے بڑھیں گے۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۱۲۸، ملخصاً)
{وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ:اور اللّٰہ کے لیے وہ قرار دیتے ہیں ۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین اپنے لئے بیٹیاں بھی ناپسند کرتے ہیں اور یہ بات بھی کہ ان کی ملکیت میں کوئی دوسرا ان کا شریک بنے لیکن اللّٰہ تعالیٰ کیلئے انہی چیزوں کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ یونہی اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ناقص مال علیحدہ کرتے ہیں اور بتوں کے لئے اعلیٰ مال جدا کرتے ہیں اورا س کے باوجود بھی اپنے آپ کو حق پر گمان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سچے ہوں اور مخلوق مرنے کے بعد پھر اُٹھائی جائے تو جنت ہمیں ہی ملے گی کیونکہ ہم حق پر ہیں ۔ان کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ان کی جھوٹی بات کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ حقیقت میں ان کے لئے آگ ہے اور یہ کہ وہ جہنمیوں کے آگے آگے جانے والے ہوں گے اور جہنم ہی میں چھوڑ دیئے جائیں گے۔(مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۵۹۹، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۱۲۹، صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۱۰۷۵، ملتقطاً)
{تَاللّٰهِ:اللّٰہ کی قسم!} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم بیان کر کے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم نے آپ سے پہلے سابقہ امتوں کی طرف جتنے رسول بھیجے، انہوں نے بھی آپ کی طرح اپنی امتوں کو توحید کی دعوت دی، صرف ایک اللّٰہ کی عبادت کرنے کا کہا اور جھوٹے معبودوں کو چھوڑ دینے کا حکم دیا جبکہ شیطان نے اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر کرنے اور بتوں کی عبادت پر قائم رہنے کو ان کی نظروں میں خوشنما بنادیا یہاں تک کہ انہوں نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلا یا اور اللّٰہ تعالیٰ کے اَحکامات کو رد کر دیا تو دنیا(یا آخرت) میں شیطان ہی ان کاساتھی ہے اور وہ نہایت برا ساتھی ہے۔ قیامت کے دن جب یہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو ا س وقت شیطان کی مدد انہیں کوئی نفع نہ دے گی بلکہ اس وقت ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا۔( تفسیرطبری، النحل، تحت الآیۃ: ۶۳، ۷ / ۶۰۵)
اللّٰہ تعالیٰ نے تاجدارِ رسالتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دی :
ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں: اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دے رہا ہے کہ( صرف آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی قوم نے ہی آپ کو نہیں جھٹلایا بلکہ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی ان کی امتوں نے جھٹلایا تھا۔(قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۳، ۵ / ۸۷، الجزء العاشر)
{وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ:اور ہم نے تم پر یہ کتاب اس لئے نازل فرمائی ہے۔} یعنی اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لئے نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کیلئے اُمورِ دین سے وہ بات واضح کردیں جس میں انہیں اختلاف ہے جیسے توحید، عبادات اور معاملات کے اَحکام وغیرہ ،یوں آپ کے بیان کے ذریعے ان پر حجت قائم ہو جائے اور ہم نے قرآ ن ا س لئے نازل فرمایا ہے کہ یہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے کیونکہ ایمان والے ہی اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں ۔( تفسیرقرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۴، ۵ / ۸۸، الجزء العاشر، جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۱۰۷۶، ملتقطاً)
قرآن کریم کے اَحکام اور حقائق بیان کرنے کا منصب:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’عام لوگوں کے سامنے قرآنِ کریم کے اَحکام کو بیان کرنے اور خاص لوگوں کے سامنے قرآنِ مجید کے حقائق کو بیان کرنے کا منصب اصلا ًنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہے اور ان کی پیروی کرتے ہوئے زمانہ در زمانہ ان کے وارثوں کا ہے چنانچہ علماء ِظاہر واضح بیان کے ساتھ لوگوں کے ان اختلافات کا تَصفِیَہ کرتے ہیں جو ان کے ظاہر کے ساتھ متعلق ہیں اور علماء ِباطن صحیح کشف کے ساتھ لوگوں کے ان اختلافات کو دور کرتے ہیں جن کا تعلق ان کے باطن کے ساتھ ہے،ان میں سے ہر ایک کا مَشرب ہے اور اسے تھامنے والا نامراد نہیں ہوتا، یہ دین کے ستون اور مسلمانوں کے سلطان ہیں۔( روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۶۴، ۵ / ۴۷)
{ وَ اللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً:اور اللّٰہ نے آسمان سے پانی اتارا۔} اس آیت سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے پھر اپنی نعمتوں اور قدرت کے کمال کو بیان فرمایا ہے ، چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا تو اس کے ذریعے زمین کو خشک اور بے سبزہ ہونے کے بعد سرسبزی و شادابی بخش کر زندہ کردیا۔ یہ سب اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے لیکن اس بات کو سمجھنا ان لوگوں کا کام ہے جو دل سے سنتے ہیں اورسن کر سمجھتے اور غور کرتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جو قادر برحق زمین کو اس کی موت یعنی نَشو و نَما کی قوت فنا ہوجانے کے بعد پھر زندگی دیتا ہے وہ انسان کو اس کے مرنے کے بعد بے شک زندہ کرنے پر قادر ہے۔( قرطبی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۵،۵ / ۸۸، الجزء العاشر، جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۱۰۷۶، ملتقطاً)
{وَ اِنَّ لَكُمْ:اور بیشک تمہارے لیے ۔} فرمایا گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کی نشانیاں ہر چیز میں موجود ہیں حتّٰی کہ اگر تم اپنے مویشیوں میں بھی غور کرو تو تمہیں غور وفکر کرنے کی بہت سی باتیں مل جائیں گی اور اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت کے عجائب اورا س کی قدرت کے کمال پر تمہیں آگاہی حاصل ہوجائے گی۔ تم غورکرو کہ ہم تمہیں ان جانوروں کے پیٹوں سے گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ نکال کرپلاتے ہیں جو پینے والے کے گلے سے آسانی سے اترنے والا ہے، جس میں کسی چیز کی آمیزش کا کوئی شائبہ نہیں حالانکہ حیوان کے جسم میں غذا کا ایک ہی مقام ہے جہاں چارا ،گھاس ، بھوسہ وغیرہ پہنچتا ہے اور دودھ، خون گوبر سب اسی غذا سے پیدا ہوتے ہیں اوران میں سے ایک دوسرے سے ملنے نہیں پاتا ۔ دودھ میں نہ خون کی رنگت کا شائبہ ہوتا ہے نہ گوبر کی بوکا، نہایت صاف اور لطیف برآمد ہوتا ہے، اس سے اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت کی عجیب کاریگری کا اِظہار ہے ۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۶۶، ۳ / ۱۲۹-۱۳۰، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۶۰۰، خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۵۱۰، ملتقطاً)
کفار کے شُبہات کا ازالہ:
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(اس سے ) اوپر(والی آیت میں ) مسئلۂ بعث کا بیان ہوچکا ہے یعنی مُردوں کو زندہ کئے جانے کا،کفار اس کے منکر تھے اورانہیں اس میں دو شُبہے در پیش تھے، ایک تویہ کہ جو چیز فاسد ہوگئی اور اس کی حیات جاتی رہی اس میں دوبارہ پھر زندگی کس طرح لوٹے گی؟ اس شبہ کا ازالہ تو اس سے پہلی آیت میں فرما دیا گیا کہ تم دیکھتے رہتے ہو کہ ہم مردہ زمین کو خشک ہونے کے بعد آسمان سے پانی برسا کر حیات عطا فرمادیا کرتے ہیں تو قدرت کا یہ فیض دیکھنے کے بعد کسی مخلوق کا مرنے کے بعد زندہ ہونا ایسے قادرِ مُطْلَق کی قدرت سے بعید نہیں ۔دوسراشبہ کفار کا یہ تھا کہ جب آدمی مرگیا اور اس کے جسم کے اَجزامُنْتَشر ہوگئے اور خاک میں مل گئے، وہ اجزاء کس طرح جمع کئے جائیں گے اور خاک کے ذروں سے اُن کوکس طرح ممتاز کیا جائے گا؟ اِس آیتِ کریمہ میں جو صاف دودھ کا بیان فرمایا اس میں غورکرنے سے وہ شبہ بالکل نیست و نابُود ہوجاتا ہے کہ قدرتِ الٰہی کی یہ شان تو روزانہ دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ غذا کے مخلوط اجزاء میں سے خالص دودھ نکالتا ہے اور اس کے قرب و جوار کی چیزوں کی آمیزش کا شائبہ بھی اس میں نہیں آتا، اُس حکیم برحق کی قدرت سے کیا بعید کہ انسانی جسم کے اجزاء کو منتشر ہونے کے بعد پھر مُجتَمع (یعنی جمع) فرمادے ۔( خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۵۱۰-۵۱۱)صوفیاءِ کرام فرماتے ہیں کہ اے انسان! جیسے تیرے رب نے تجھے خالص دودھ پلایا جس میں گوبر، خون کی بال بھر آمیزش نہیں ہے توتو بھی اپنے رب عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں خالص عبادت پیش کر جس میں ریا وغیرہ کی آمیزش نہ ہو۔( نور العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۴۳۷، ملخصاً)
{وَ مِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَ الْاَعْنَابِ:اور کھجور اور انگور کے پھلوں میں سے۔} اِس آیت میں رزقِ الہٰی کے کچھ دوسرے خزانوں کا بیان کیا گیا جنہیں ان کی اصل حالت میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور انسانی محنت کے بعد والی حالت میں بھی استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ فرمایا کہ اے لوگو! تم جوکھجور اور انگور کے بعض پھلوں کے رس سے نبیذ بنا کر پیتے ہو اور اچھا رزق یعنی چھوہارے ،کشمش، سرکہ اورمُنَقّٰی بناتے ہو اس میں بھی تمہارے لئے غورو فکر کا مقام ہے کہ یہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کی بندوں پر عظیم نعمت ہے اور یہی اللّٰہ کریم کی عظمت و شانِ تخلیق کی بھی دلیل ہے کہ وہی تمام چیزوں کا خالق ہے اوروہی ہر کام کی تدبیر فرمانے والا ہے۔
{وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ:اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے گوبر اور خون کے درمیان سے صاف و شفاف دودھ نکالنے ، کھجور اور انگور کے پھلوں سے نبیذ اور اچھا رزق نکالنے کا ذکر فرمایا جبکہ ان آیات میں مکھی سے شہد نکالنے کا ذکر فرمایا جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے اوریہ سب چیزیں اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کی قدرت اور عظمت پر دلالت کرتی ہیں ۔( صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۱۰۷۷)
چنانچہ اس آیت اوراس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ بعض پہاڑوں ، درختوں اور چھتوں میں گھر بنائے،پھر میٹھے ، کڑوے ،پھیکے ہر قسم کے پھلوں اور پھولوں میں سے کھائے اور ان کی تلاش میں اپنے رب کے بنائے ہوئے نرم و آسان راستوں پر چلتی رہے جن کا اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے اسے اِلہام کیا گیا ہے حتّٰی کہ اسے ان راستوں پرچلنا پھر نادشوار نہیں اور وہ کتنی ہی دور نکل جائے را ستہ نہیں بھٹکتی اور اپنے مقام پر واپس آجاتی ہے۔ اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز یعنی شہد سفید ، زَرد اور سُرخ رنگوں میں نکلتا ہے ،اس میں لوگوں کیلئے شفا ہے اور یہ نافع ترین دواؤں میں سے ہے اور بکثرت معجونوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ بیشک اس میں غور وفکر کرنے والوں کیلئے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت پر نشانی ہے کہ اُس نے ایک کمزور اور ناتوان مکھی کو ایسی زِیر کی و دانائی عطا فرمائی اور ایسی پیچیدہ صَنعتیں مَرحَمَت کیں ، وہ پاک ہے اور اپنی ذات و صفات میں شریک سے مُنَزَّہ ہے، اس سے غوروفکر کرنے والوں کو اس پر بھی تنبیہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی قدرتِ کاملہ سے ایک ادنیٰ ضعیف سی مکھی کو یہ صفت عطا فرماتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے پھولوں اور پھلوں سے ایسے لطیف (ملائم) اجزا حاصل کرے جن سے نفیس شہد بنے جو نہایت خوشگوار ہو، طاہر و پاکیزہ ہو، فاسد ہونے اور سڑنے کی اس میں قابلیت نہ ہو تو جو قادر حکیم ایک مکھی کواس (شہد)کے مادے جمع کرنے کی قدرت دیتا ہے وہ اگر مرے ہوئے انسان کے مُنْتَشر اَجزا کو جمع کردے تو اس کی قدرت سے کیا بعید ہے ،مرنے کےبعد زندہ کئے جانے کو محال سمجھنے والے کس قدر احمق ہیں ۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۶۸-۶۹، ص۶۰۱، جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۶۸-۶۹، ۳ / ۱۰۷۷-۱۰۷۸، خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۵۱۱، ملتقطاً)
{وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ:اور اللّٰہ نے تمہیں پیدا کیا ۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے حیوانات کے عجیب و غریب اَفعال ذکر فرما کر اپنے خالق اور قادر ہونے کی دلیل بیان فرمائی اور اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی قدرت کے وہ آثار ظاہر فرمائے جو خود لوگوں میں اور اُن کے اَحوال میں نمایاں ہیں ۔
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں وجود بخشا حالانکہ تم کچھ بھی نہ تھے، کیسی عجیب قدرت ہے ، پھر وہ اس وقت تمہاری جان قبض کرے گا اور تمہیں زندگی کے بعد موت دے گا جب تمہاری وہ مدت پوری ہو جائے جو اس نے مقرر فرمائی ہے، چاہے بچپن میں پوری ہو یا جوانی میں یا بڑھاپے میں ، اور تم میں کوئی سب سے گھٹیا عمر کی طرف پھیرا جاتا ہے جس کا زمانہ انسانی عمر کے مَراتب میں ساٹھ سال کے بعد آتا ہے کیونکہ اس وقت اعضا اور حواس سب ناکارہ ہونے کے قریب ہوتے ہیں اور انسان کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے اور نادانی میں بچوں سے زیادہ بدتر ہوجائے ۔ ان تَغَیُّرات میں قدرتِ الٰہی کے کیسے عجائبات مشاہدے میں آتے ہیں ۔ حضرت عکرمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جس نے قرآن پاک پڑھا وہ اس اَرْذَل عمر کی حالت کو نہ پہنچے گا کہ علم کے بعد محض بے علم ہوجائے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۱۳۳، ملخصاً)
نکمے پن کی عمر سے پناہ مانگنے کی دعا:
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یوں دعا مانگا کرتے تھے ’’اَعُوْذُ بِکَ مِنْ الْبُخْلِ وَالْکَسَلِ وَاَرْذَلِ الْعُمُرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَفِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ‘‘ یعنی( اے اللّٰہ!)میں بخل سے ،سستی سے،نکمے پن کی عمر سے ،قبر کے عذاب سے ،دجال کے فتنے سے، زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النحل، باب ومنکم من یردّ الی ارذل العمر، ۳ / ۲۵۷، الحدیث: ۴۷۰۷) اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے ہمیں بھی ان تمام چیزوں سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
{وَ اللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ:اور اللّٰہ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر رزق میں برتری دی ہے۔}
اس آیت میں بڑے نفیس اور دلنشین انداز میں بت پرستی کا رد کیا گیا ہے ۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر رزق میں برتری دی ہے ،تو تم میں کوئی غنی ہے کوئی فقیر، کوئی مالدار ہے کوئی نادار، کوئی مالک ہے اور کوئی مملوک، تو جنہیں رزق کی برتری دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں اور باندیوں کو نہیں دیتے کہ کہیں وہ اس رزق میں ان کے برابر نہ ہوجائیں اور جب تم اپنے غلاموں کو اپنا شریک بنانا گوارا نہیں کرتے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے بندوں اور اس کے مملوکوں کو اس کا شریک ٹھہرانا کس طرح گوارا کرتے ہو؟( جلالین مع صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۱۰۷۹-۱۰۸۰، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۱۳۳-۱۳۴، ملتقطاً)
{وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا:اور اللّٰہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے عورتیں بنائیں ۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے عورتیں بنائیں تاکہ تم ان سے اُنْسِیَّت حاصل کرو اور ان کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرو اور تمہارے لیے تمہاری عورتوں سے بیٹے اور پوتے ، نواسے پیدا کیے جو ضرورت کے وقت تمہاری مدد کرتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں ستھری چیزوں یعنی طرح طرح کے غلوں ،پھلوں اورکھانے پینے کی چیزوں سے روز ی دی تو کیاوہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی ان نعمتوں کے باوجود شرک اور بت پرستی پر ایمان لاتے ہیں اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے احسان کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔( روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۷۲، ۵ / ۵۸، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۱۳۴، ملتقطاً)
اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و نعمت سے کیا مراد ہے؟
علامہ احمد بن محمود نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و نعمت سے مراد سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ گرامی ہے یا اس سے وہ نعمتیں مراد ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے لئے حلال کیں۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۶۰۲)
{وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ:اور اللّٰہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہیں ۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت پر دلالت کرنے والی مختلف چیزیں بیان فرمائیں اور اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے بتوں کی عبادت کرنے والوں کا رد فرمایا ہے۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۷۳، ۷ / ۲۴۵) چنانچہ اس آیت اورا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین اللّٰہ تعالیٰ کے سوا ایسے بتوں کی عبادت کر رہے ہیں جو انہیں آسمان سے کچھ بھی روزی دینے کا اختیار نہیں رکھتے کیونکہ وہ زمین کی خشکی دور کرکے اس میں شادابی لانے کیلئے آسمانوں سے ایک قطرہ پانی تک نازل کرنے پر قادر نہیں اور نہ ہی وہ زمین سے کچھ روزی دینے کا اختیار رکھتے ہیں کیونکہ زمین سے نباتا ت اور پھل نکالنے پر انہیں کوئی قدرت حاصل نہیں اور نہ ہی ان کے بت زمین وآسمان میں سے کسی چیز کے مالک ہیں بلکہ زمین، آسمان اور ان میں موجود ہر چیز کا (حقیقی) مالک صرف اللّٰہ تعالیٰ ہے۔ تو تم اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے شریک نہ ٹھہراؤ بیشک اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے کہ مخلوق میں اس کا کوئی مثل نہیں ہے اور تم یہ بات نہیں جانتے۔(تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۷۳-۷۴، ۷ / ۶۲۰-۶۲۱، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۶۰۲-۶۰۳، ملتقطاً)
{ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا:اللّٰہ نے ایک بندے کی مثال بیان فرمائی۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے دو شخصوں کی مثال بیان فرما کرشرک کا رد فرمایا ہے۔ اس مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص ایسا ہے جو خود کسی کی ملکیت میں ہے اوروہ مالک نہ ہونے کی وجہ سے کسی چیز پر قادر نہیں ، جبکہ ایک شخص ایسا ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے اچھی روزی عطا فرما رکھی ہے تو وہ اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتا ہے ،جیسے چاہتا ہے ا س میں تَصَرُّف کرتا ہے تو پہلا شخص عاجز ہے، مملوک اور غلام ہے جبکہ دوسرا شخص آزاد، مالک اور صاحبِ مال ہے اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے قدرت و اختیار بھی رکھتا ہے تو کیا یہ دونوں برابر ہوجائیں گے؟ ہر گز نہیں ، تو جب غلام اور آزاد شخص برابر نہیں ہوسکتے حالانکہ یہ دونوں اللّٰہ تعالیٰ کے بندے ہیں توخالق ،مالک اور قادر رب تعالیٰ کے ساتھ قدرت و اختیارنہ رکھنے والے بت کیسے شریک ہوسکتے ہیں اور ان کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا مثل قرار دینا کیسا بڑا ظلم اورجہل ہے۔( جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۲۲۳، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۷۵، ۵ / ۵۹-۶۰، خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۵۱۳، ملتقطاً)
{ وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ:اور اللّٰہ نے دو مردوں کی مثال بیان فرمائی۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے مومن اور کافر کی ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص گونگا ہے جو کسی شے پر قدرت نہیں رکھتا کیونکہ نہ وہ اپنی کسی سے کہہ سکتا اور نہ دوسرے کی سمجھ سکتا ہے اور وہ اپنے آقا پر صرف بوجھ ہے ، اس کا آقا اسے جہاں بھی کسی کام کے لئے بھیجتا ہے تووہ اس کاکوئی کام کر کے نہیں آتا ۔یہ مثال کافر کی ہے۔ اور دوسرا وہ شخص ہے جس کے حواس سلامت ہیں ،بھلائی اور دیانت داری کی وجہ سے بہت فائدہ مند ہے ، وہ لوگوں کوعدل کا حکم کرتا ہے اور ا س کی سیرت بھی اچھی ہے، یہ مثال مومن کی ہے ۔ معنی یہ ہیں کہ کافر ناکارہ گونگے غلام کی طرح ہے وہ کسی طرح اس مسلمان کی مثل نہیں ہوسکتا جو عدل کا حکم کرتا ہے اور صراطِ مستقیم پر قائم ہے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ گونگے ناکارہ غلام سے بتوں کو تشبیہ دی گئی اور انصاف کا حکم دینے میں شانِ الٰہی کا بیان ہے ،اس صورت میں معنی یہ ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ بتوں کو شریک کرنا باطل ہے۔ کیونکہ انصاف قائم کرنے والے بادشاہ کے ساتھ گونگے اور ناکارہ غلام کو کیا نسبت۔( جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۲۲۳، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۶۰۳، خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۵۱۳، ملتقطاً)
{وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:اورآسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم اللّٰہ ہی کے لیے ہے۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کے کمال کا بیان ہے ۔علم کے کمال کا بیان آیت کے اس حصے میں ہے’’وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ‘‘ یعنی اللّٰہ تعالیٰ ہی تمام غیبوں کا جاننے والا ہے اور اس پر کوئی چیزپوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس سے مراد قیامت کا علم ہے ۔ قدرت کے کمال کابیان آیت کے اس حصے میں ہے ’’ وَ مَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ‘‘یعنی قیامت قائم کرنے کا معاملہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت میں صرف ایک پلک جھپکنے کی طرح ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے کیونکہ پلک مارنا بھی زمانہ چاہتا ہے جس میں پلک کی حرکت حاصل ہو اور اللّٰہ تعالیٰ جس چیز کا ہونا چاہے وہ کُنْ فرماتے ہی ہوجاتی ہے۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۷۷، ۷ / ۲۴۹-۲۵۰، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۱۳۶، ملتقطاً)
{وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ:اور اللّٰہ نے تمہیں پیدا کیا ۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرت پر دلالت کرنے والے مزید مَظاہِر بیان فرمائے، اور وہ یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں پیدا کیا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اپنی پیدائش کی ابتداء اور اوّل فِطرت میں علم و معرفت سے خالی تھے، پھر اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے کان ، آنکھیں اور دل بنائے، یہ حواس ا س لئے عطا کیے تا کہ تم ان سے اپنا پیدائشی جہل دور کرو اور تم شکر گزار بنو، علم و عمل سے فیض یاب ہو جاؤ اور یہ حواس اس لئے عطا کئے تاکہ تم نعمتیں عطا کرنے والے کا شکر بجالاؤ اور اس کی عبادت میں مشغول ہوجاؤ اور اس کی نعمتوں کے حقوق ادا کرو۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۶۰۴، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۱۳۶، ملتقطاً) لہٰذا ہر عضو کا ’’شکر‘‘ یہ ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگایا جائے اور ناشکری یہ ہے کہ اس عضو کو اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال کیا جائے۔
{اَلَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ: کیا انہوں نے پرندوں کی طرف نہ دیکھا ۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے پرندوں کی پرواز سے اپنی قدرت پر اِستدلال فرمایا ۔چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیالوگوں نے پرندوں کی طرف نہ دیکھا جو آسمان کی فضا میں اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے حکم کے پابند ہیں ۔ انہیں ہوا میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی گرنے سے نہیں روکتا حالانکہ بھاری جسم اپنی طبیعت کے اعتبار سے گرنا چاہتا ہے لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے پرندوں میں یہی نظام بنایا ہوا ہے۔ اس میں ایمان والوں کیلئے نشانیاں ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے پرندوں کوایسا پیدا کیا کہ وہ ہوا میں پرواز کرسکتے ہیں اور اپنے بھاری جسم کی طبیعت کے برخلاف ہوا میں ٹھہرے رہتے ہیں ، گرتے نہیں اور ہوا کو ایسا پیدا کیا کہ اس میں اُن کی پرواز ممکن ہے۔ ایماندار اس میں غور کرکے قدرتِ الٰہی کا اعتراف کرتے ہیں۔(تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۷۹، ۷ / ۲۵۲، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۲۲۳، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۷۹، ۵ / ۶۴، ملتقطاً)
ہوائی جہاز کی پرواز کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت پر اِستدلال:
اس آیت میں پرندوں کی پرواز کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت پر استدلال کیاگیا ہے اور اگر لوگ چاہیں تو فی زمانہ پرندوں سے کہیں بڑی اور ان سے انتہائی وزنی چیز ہوائی جہاز کے ذریعے بھی اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت پر دلیل حاصل کر سکتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی عقل ،سمجھ اور قدرت دی کہ اس نے ایسی چیز بنا لی جو ٹنوں کے حساب سے وزنی ہے اور بڑی اتنی ہے کہ سینکڑوں انسانوں کو اپنے اندر سمو لیتی ہے اور پھر اپنے وزن، سینکڑوں انسانوں اور ان کے ساز و سامان کے وزن کے ساتھ گھنٹوں ہوا میں پرواز بھی کر لیتی ہے اور اس کا یہ پرواز کرنا بظاہر اگرچہ مشینی آلات کی وجہ سے ہے لیکن در حقیقت یہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت اور اسی کے اثر سے ہوا میں مَحوِ پرواز ہے کیونکہ ہوا کو پرواز کے قابل اللّٰہ تعالیٰ نے بنایا ہے کسی انسان نے نہیں بنایا، یونہی ہوائی جہاز بھی انسان نے اللّٰہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل،سمجھ اور قدرت سے بنایا ہے، از خود کوئی کہاں اس قابل تھا کہ ایسی چیز بنا سکے۔
{وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُیُوْتِكُمْ سَكَنًا: اور اللّٰہ نے تمہارے گھروں کو تمہاری رہائش بنایا۔}اِس آیت میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل اور بندوں پر اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔( تفسیرکبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۸۰، ۷ / ۲۵۲) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری رہائش کیلئے اینٹوں اور پتھروں سے تمہارے گھروں کو بنایا جن میں تم آرام کرتے ہو اور اس نے تمہارے لیے جانوروں کی کھالوں سے خیموں کی شکل میں کچھ گھر بنائے جنہیں تم اپنے سفر کے دنوں میں اٹھاکر چلتے وقت اور منزلوں پر قیام کے وقت لگانے کیلئے بڑا ہلکا پھلکا پاتے ہو اور اسی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہارے لئے بھیڑوں کی اُون، اونٹوں کی پشم اور بکریوں کے بالوں سے گھریلو سامان مثلاً بچھانے ، اوڑھنے کی چیزیں اور ایک مدت تک فائدہ اٹھانے کے اَسباب بنائے۔( جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۲۲۳، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۱۳۶-۱۳۷، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan