Surah An-Nahl
{ثُمَّ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ:پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ۔} اس آیت میں پیروی سے مراد عقائد اور اصولِ دین میں مُوافقت کرنا ہے۔ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس پیروی کا جو حکم دیا گیا ،اس میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت ومنزلت اور رفعت ِدرجات کا اظہار ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین ِابراہیمی کی موافقت فرمانا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے اُن کے تمام فضائل و کمالات میں سب سے اعلیٰ فضل و شرف ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَکْرَمُ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ یعنی اَوّلین و آخرین میں سب سے زیادہ مُکرّ م ہیں (صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۳ / ۱۱۰۰، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ص۶۱۳، روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۵ / ۹۴، ملتقطاً) جیسا کہ ترمذی شریف کی حدیث میں ہے۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۵۴، الحدیث: ۳۶۳۶) اور تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ساری مخلوق سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرتبہ افضل و اعلیٰ ہے۔
{اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِیْنَ:ہفتہ صرف انہی لوگوں پر مقرر کیا گیا تھا ۔} یہودیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہفتے کے دن کی تعظیم کرنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی شریعت ہے اور وہ (اس دن کی تعظیم کر کے ) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کر رہے ہیں جبکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کا حکم تو دیتے ہیں لیکن جمعہ کے دن کی تعظیم کر کے ان کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایاکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی شریعت میں ہفتے کے دن کی تعظیم ہے ہی نہیں جس کی پیروی کا تم دعویٰ کر رہے ہو بلکہ ان کی شریعت میں جمعہ کے دن کی تعظیم تھی اور اسی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے لئے جمعہ کا دن منتخب فرمایا کیونکہ یہ نعمت پوری ہونے کا دن ہے اور جنت میں بھی اسی دن نعمتیں زیادہ عطاکی جائیں گی۔ ہفتے کے دن کی تعظیم تو ان لوگوں پر فرض کی گئی تھی جنہوں نے اس کے بارے میں اپنے نبی سے اس وقت اختلاف کیا تھا جب انہوں نے لوگوں سے کہاکہ وہ جمعے کے دن کی تعظیم کریں اور اس دن کام کاج چھوڑ کر اپنے آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے فارغ کر لیں تو لوگوں نے ان سے اختلاف کیا اور اس کام کے لئے ہفتے کے دن کا انتخاب کیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں اس کی اجازت دے دی ،پھر اس دن عبادت کرنے میں ان پر سختی کی گئی اور ہفتے کے دن ان پر شکار کرنا حرام کر دیا گیا۔ ایک عرصے کے بعد انہوں نے ہفتے کے دن شکار کرنا شروع کر دیا اور بالآخر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں مَسخ کر دئیے گئے۔( صاوی، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۳ / ۱۱۰۱، خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۳ / ۱۵۱، مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ص۶۱۳، ملتقطاً)
نوٹ:ہفتے کے دن شکار کرنے والوں کے مسخ ہونے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۂ اَعراف کی آیت نمبر 163 میں بیان ہوچکا ہے۔
{وَ اِنَّ رَبَّكَ:اور بیشک تمہارا رب ۔} یعنی یہودی ہفتے کے بارے میں جو اختلاف کرتے تھے اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے درمیان اس طرح فیصلہ فرما دے گا کہ اطاعت کرنے والوں کو ثواب عطا کرے گا اور نافرمانوں کو عذاب میں مبتلا کر دے گا۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۳ / ۱۵۱)
{اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ:اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تین طریقوں سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم فرمایا۔ (1) حکمت کے ساتھ۔ اس سے وہ مضبوط دلیل مراد ہے جو حق کو واضح اور شُبہات کو زائل کردے۔ (2) اچھی نصیحت کے ساتھ۔ اس سے مراد ترغیب و ترہیب ہے یعنی کسی کام کو کرنے کی ترغیب دینا اور کوئی کام کرنے سے ڈرانا ۔ (3) سب سے اچھے طریقے سے بحث کرنے کے ساتھ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف اس کی آیات اور دلائل سے بلائیں ۔(خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۳ / ۱۵۱، ملخصاً)اس سے معلوم ہوا کہ دعوتِ حق اور دین کی حقانیت کو ظاہر کرنے کے لئے مناظرہ جائز ہے۔
اَمر بالمعروف کے آداب اور چند مسائل:
اس آیت کی مناسبت سے یہاں امر بالمعروف کے آداب اور اس سے متعلق 6 شرعی مسائل ملاحظہ ہوں
(1)…امربالمعروف یہ ہے کہ کسی کو اچھی بات کا حکم دینا مثلاً کسی سے نماز پڑھنے کو کہنا۔ اور نَہی عَنِ الْمُنْکَر کا مطلب یہ ہے کہ بری باتوں سے منع کرنا۔
(2)…کسی کو گناہ کرتے دیکھے تو نہایت مَتانت اور نرمی کے ساتھ اسے منع کرے اور اسے اچھی طرح سمجھائے پھر اگر اس طریقہ سے کام نہ چلا اوروہ شخص باز نہ آیا تو اب سختی سے پیش آئے، اس کو سخت الفاظ کہے، مگر گالی نہ دے، نہ فحش لفظ زبان سے نکالے اور اس سے بھی کام نہ چلے تو جو شخص ہاتھ سے کچھ کرسکتا ہے کرے۔ لیکن اس صورت میں فتنے اور قانونی پہلو کو سامنے رکھے یعنی نہ خلافِ قانون کرے اور نہ ایسا طریقہ اختیار کرے جس سے فتنہ ہو۔
(3)…امربالمعروف کے لیے پانچ چیزوں کی ضرورت ہے۔ (۱) علم۔ کیونکہ جسے علم نہ ہو وہ اس کام کو اچھی طرح انجام نہیں دے سکتا۔ (۲)اس سے مقصود رضائے الٰہی اور دینِ اسلام کی سربلندی ہو۔ (۳) جس کو حکم دیتا ہے اس کے ساتھ شفقت و مہربانی کرے اور نرمی کے ساتھ کہے۔ (۴)حکم کرنے والا صابر اور بُردبار ہو۔ (۵) حکم کرنے والا خود اس بات پر عامل ہو، ورنہ قرآن کے اس حکم کا مِصداق بن جائے گا، کیوں کہتے ہو وہ جس کو تم خود نہیں کرتے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک ناخوشی کی بات ہے یہ کہ ایسی بات کہو، جس کو خود نہ کرو۔ اور یہ بھی قرآنِ مجید میں فرمایا کہ ’’کیا لوگوں کو تم اچھی بات کا حکم کرتے ہو اور خودا پنے کو بھولے ہوئے ہو۔
(4)…امربالمعروف کی کئی صورتیں ہیں ۔ اگر غالب گمان یہ ہے کہ یہ ان سے کہے گا تو وہ اس کی بات مان لیں گے اور بری بات سے باز آجائیں گے، توبری بات سے منع کرنا واجب ہے، اس کو باز رہنا جائز نہیں اور اگر گمان غالب یہ ہے کہ وہ طرح طرح کی تہمت باندھیں گے اور گالیاں دیں گے تو ترک کرنا افضل ہے اور اگر یہ معلوم ہے کہ وہ اسے ماریں گے اور یہ صبر نہ کرسکے گا یا اس کی وجہ سے فتنہ و فساد پیدا ہوگا، آپس میں لڑائی ٹھن جائے گی جب بھی چھوڑنا افضل ہے اور اگر معلوم ہو کہ وہ اگر اسے ماریں گے تو صبر کرلے گا تو ان لوگوں کو برے کام سے منع کرے اور یہ شخص مجاہد ہے اور اگر معلوم ہے کہ وہ مانیں گے نہیں مگر نہ ماریں گے اورنہ گالیاں دیں گے تو اسے اختیار ہے اور افضل یہ ہے کہ بری بات سے منع کرے۔
(5)…عام شخص کسی قاضی (یعنی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والے جج) ،مفتی یا مشہور و معرو ف عالم کو امر بالمعروف نہ کرے کہ یہ بے ادبی ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ کسی خاص مصلحت کی وجہ سے ایک فعل کرتے ہیں ، جس تک عوام کی نظر نہیں پہنچتی اور یہ شخص سمجھتا ہے، کہ جیسے ہم نے کیا انہوں نے بھی کیا، حالانکہ دونوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یہ حکم ان علما کے بارے میں ہے، جو احکامِ شرع کے پابند ہیں اور اتفاقاً کبھی ایسی چیز ظاہر ہوئی جو عوام کی نظر میں بری معلوم ہوتی ہے۔ وہ لوگ مراد نہیں جو حلال و حرام کی پروا نہیں کرتے اور نامِ علم کو بدنام کرتے ہیں ۔
(6)… جس نے کسی کو برا کام کرتے دیکھا اور خود یہ بھی اس برے کام کو کرتا ہے تو اس برے کام سے منع کردے کیونکہ اس کے ذمہ دو چیزیں واجب ہیں برے کام کو چھوڑنا اور دوسرے کو برے کام سے منع کرنا اگر ایک واجب کا تارک ہے تو دوسرے کا کیوں تارک بنے۔
نوٹ: مزید معلومات کے لئے بہار شریعت جلد 3حصہ 16سے ’’امر بالمعروف‘‘ کا بیان مطالعہ فرمائیں ۔([1])
{اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ:بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی ذمہ داری صرف لوگوں تک اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کا پیغام پہنچانا اور ان تین طریقوں سے دینِ اسلام کی دعوت دینا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ گمراہ ہونے والوں اور ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے اور وہ ہر ایک کو ا س کے عمل کی جزا دے گا۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۳ / ۱۵۱-۱۵۲)
[1] ۔۔۔’’امر بالمعروف‘‘ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب’’نیکی کی دعوت‘‘ کا مطالعہ بھی بہت مفید ہے۔
{وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ:اور اگر تم سزا دینے لگو۔} یعنی اگر تم کسی کوسزا دینے لگو تو وہ سزا جرم کے حساب سے ہو، اُس سے زیادہ نہ ہو اور اگر تم صبر کرو اور انتقام نہ لو تو بیشک صبر والوں کیلئے صبر سب سے بہتر ہے۔ شانِ نزول: جنگ ِاُحد میں کفار نے مسلمانوں کے شُہداء کے چہروں کو زخمی کرکے اُن کی شکلوں کو تبدیل کیا تھا ، اُن کے پیٹ چاک کئے اور ان کے اعضاء کاٹے تھے ، ان شہداء میں حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب انہیں دیکھا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت صدمہ ہوا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قسم کھائی کہ ایک حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بدلہ ستر کافروں سے لیا جائے گا اور ستر کا یہی حال کیا جائے گا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی توحضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ ارادہ ترک فرمایا اور اپنی قسم کا کفارہ دے دیا۔ یاد رہے کہ مُثلہ یعنی ناک کان وغیرہ کاٹ کر کسی کی ہَیئت کو تبدیل کرنا شریعت میں حرام ہے۔( مدارک، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۶، ص۶۱۴، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۶، ص۲۲۸، ملتقطاً)
{وَ اصْبِرْ:اور صبر کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں کفار کی طرف سے آپ کوجواَ ذِیَّتیں پہنچیں ان پر صبر فرمائیں اور آپ کا صبر کرنا اللّٰہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے ہے اورآپ ان مشر کین کا غم نہ کھائیں جو آپ کو جھٹلاتے ہیں ، قرآنِ پاک کا انکار کرتے اور آپ کی نصیحتوں سے اِعراض کرتے ہیں اور مشرکین آپ کی طرف جو جادو گر اور کاہن ہونے کی نسبت کرتے ہیں اور لوگوں کو دین ِاسلام سے دور کرنے کی جو سازشیں کرتے ہیں آپ اس سے دل تنگ نہ ہوں کیونکہ ہم آپ کے ناصر و مددگار ہیں ۔( تفسیر طبری، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۷ / ۶۶۶، جلالین، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ص۲۲۸، ملتقطاً)
{اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ:بیشک اللّٰہ ان لوگوں کے ساتھ ہے۔}یعنی اے انسان ! اگر تو چاہتا ہے کہ میری مدد، میرا فضل اور میری رحمت تیرے شاملِ حال ہو تو تو ان لوگوں میں سے ہوجا جو مجھ سے ڈرتے ہیں اور نیکیاں کرنے والے ہیں ۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۳ / ۱۵۳)
حضرت ہرم بن حیان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی وصیت:
سورہِ نحل کی آخری تین آیات انتہائی شاندار احکام پر مشتمل ہیں ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ ان آیتوں میں بیان کئے گئے احکام پر عمل کو اپنی زندگی کا خاص وظیفہ بنا لے اور اپنے متعلقین کو بھی اس کی نصیحت کرتا رہے تاکہ وہ بھی ان پر عمل کی کوشش میں مصروف ہو جائیں ، ہمارے بزرگان دین بھی اس کی وصیت فرمایا کرتے تھے، چنانچہ منقول ہے کہ حضرت ہرم بن حیان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان سے عرض کی گئی: آپ کوئی وصیت کر دیں ۔ انہوں نے فرمایا: ’’وصیت تو مال کے بارے ہوتی ہے اور میرے پاس کوئی مال نہیں البتہ میں تمہیں سورہِ نحل کی آخری آیتوں یعنی ’’اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ‘‘ سے لے کر سورت کے آخر تک کی وصیت کرتا ہوں (کہ ان میں جو احکام بیان ہوئے ان پر مضبوطی سے عمل پیرا ہو جاؤ۔)( روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۵ / ۱۰۱)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan