Surah Yusuf
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{ تِلْكَ:یہ۔} یعنی اس سورت میں جو آیات بیان ہوئیں یہ روشن کتاب یعنی قرآنِ مجید کی آیتیں ہیں۔ مبین کا معنی ہے روشن و ظاہر کردینے والی۔ قرآنِ پاک کا مبین ہونا یوں ہے کہ اس کا اپنی مثل لانے سے عاجز کر دینے والا ہونا ظاہر ہے نیز اس کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا واضح ہے نیز اس کے معانی روشن اور و اضح ہیں کہ قرآنی آیات کے معانی اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں نیز اس قرآن میں حلال و حرام،حدود و تعزیرات کے اَحکام صاف بیان فرمائے گئے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس میں سابقہ امتوں ،ان کے نبیوں اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اَحوال روشن طور پر مذکورہیں اور اس میں حق و باطل کو ممتاز کردیا گیا ہے۔(مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱، ص۵۱۹، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۲، ملتقطاً)
{اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا:بیشک ہم نے اس قرآن کو عربی نازل فرمایا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو عربی زبان میں نازل فرمایا کیونکہ عربی زبان سب زبانوں سے زیادہ فصیح ہے اور جنت میں جنتیوں کی زبان بھی عربی ہو گی اوراسے عربی میں نازل کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ تم اس کے معنی سمجھ کر ان میں غوروفکر کرو اور یہ بھی جان لو کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۹۴۱)
قرآنِ مجید کو سمجھ کر پڑھنا چاہئے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید کا مسلمانوں پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اسے سمجھیں اور اس میں غورو فکر کریں اور اسے سمجھنے کے لئے عربی زبان پر عبور ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ کلام عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس لئے جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں یا جنہیں عربی زبان پر عبور حاصل نہیں تو انہیں چاہئے کہ اہلِ حق کے مُسْتَنَد علما کے تراجم اور ان کی تفاسیر کا مطالعہ فرمائیں تاکہ وہ قرآنِ مجید کو سمجھ سکیں۔ افسوس! فی زمانہ مسلمانوں کی کثیر تعداد قرآنِ مجید کو سمجھنے اور اس میں غور وفکر کرنے سے بہت دور ہو چکی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے۔ عربی کا سیکھنا بحیثیت ِ مجموعی اُمت ِمُسلمہ کیلئے فرضِ کفایہ ہے۔
{نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ:ہم تمہارے سامنے سب سے اچھا واقعہ بیان کرتے ہیں۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم آپ کے سامنے سابقہ امتوں اور گزشتہ زمانوں کا سب سے اچھا واقعہ بیان کرتے ہیں جو کہ بہت سی عجیب و غریب حکمتوں اور عبرتوں پر مشتمل ہے اور اس میں دین و دنیا کے بہت فوائد ، بادشاہوں ، رعایا اور علماء کے اَحوال، عورتو ں کی عادات، دشمنوں کی ایذاؤں پر صبر اور ان پر قابو پانے کے بعد ان سے درگزر کرنے کا نفیس بیان ہے جس سے سننے والے میں نیک سیرتی اور پاکیزہ خصلتیں پیدا ہوتی ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲-۳ )نیز اس سورت کے ضمن میں ایک انسان کی زندگی کے جملہ مراحل کو بیان کردیا گیا کہ زندگی کے کن مراحل پر کیا کیا چیزیں انسان کو پیش آسکتی ہیں اور ان سے وہ بہترین انداز میں سبکدوش کیسے ہوسکتا ہے۔
{وَ اِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ:اگرچہ اس سے پہلے تم یقینا اس سے بے خبر تھے۔}یعنی یہ سورت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طر ف وحی کرنے سے پہلے آپ کو اس واقعے کی خبر تھی اور نہ آپ نے اس واقعے کو کبھی سنا تھا۔( ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۷۸)
علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ’’یہ تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک معجزہ ہے کہ آپ نے سب سے اچھے انداز اور بہترین طریقے سے گزشتہ اور آئندہ لوگوں کی خبر دی ہے۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۹۴۱)
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کو ’’ اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘فرمانے کی وجوہات:
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعے کو ’’ اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘ فرمانے کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے 3 وجوہات درج ذیل ہیں۔
(1)…حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں جس قدر عبرتیں اور حکمتیں بیان کی گئی ہیں اتنی اور کسی سورت میں بیان نہیں کی گئیں۔
(2)…حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے اپنے بھائیوں سے انتہائی اچھا سلوک فرمانے ،ان کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کرنے اور بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود انہیں معاف کر دینے کی وجہ سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کو ’’ اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘فرمایا گیا۔
(3)… حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعے میں انبیاءِ کرام، صالحین، فرشتوں ، شیطانوں ، جنوں ، انسانوں ، جانوروں اور پرندوں کا ذکر ہے اور اس میں بادشاہوں ، تاجروں ، عالموں ، جاہلوں ، مَردوں اور عورتوں کے طرزِ زندگی کا بیان اور عورتوں کے مکر وفریب کا ذکر ہے، اس کے علاوہ اس واقعے میں توحید، رسالت، فقہی اَحکام، خوابوں کی تعبیر، سیاست، مُعاشرت، تدبیرِمَعاش اور ان تمام فوائد کا بیان ہے جن سے دین و دنیا کی اصلاح ممکن ہے ،اس لئے اس واقعے کو ’’ اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘فرمایا گیا۔ (تفسیرقرطبی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۸۳، الجزء التاسع)
{اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وہ بات بیان کریں جو انہوں نے اپنے باپ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہی کہ اے میرے باپ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خواب:
مفسرین نے یہ واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے خواب دیکھا کہ آسمان سے گیارہ ستارے اترے اور ان کے ساتھ سورج اور چاند بھی ہیں ، ان سب نے آپ کو سجدہ کیا، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے یہ خواب جمعہ کی رات کو دیکھا اور یہ رات شبِ قدر تھی۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’خواب میں دیکھے گئے ستاروں کی تعبیرآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے گیارہ بھائی ہیں اور سورج آپ کے والد اور چاند آپ کی والدہ ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام راحیل ہے اورمفسرسدی کا قول ہے کہ چونکہ راحیل کا انتقال ہوچکا تھا اس لئے چاند سے آپ کی خالہ مراد ہیں۔ سجدہ کرنے سے مراد ایک قول کے مطابق تواضع کرنا اور فرمانبردار ہونا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ حقیقتاً سجدہ مراد ہے کیونکہ اس زمانہ میں سلام کی طرح سجدۂ تحیت یعنی تعظیم کا سجدہ بھی جائز تھا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی عمرشریف اس وقت بارہ سال کی تھی اور سات سال اور سترہ سال عمر ہونے کے قول بھی کتابوں میں مذکور ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۳)
{قَالَ یٰبُنَیَّ:فرمایا: اے میرے بچے!} مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بہت زیادہ محبت تھی ، اس لئے ان کے ساتھ ان کے بھائی حسد کرتے تھے اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ یہ بات جانتے تھے ، اس لئے جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے یہ خواب دیکھا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا اے میرے بچے! اپنا خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرنا کیونکہ وہ اس کی تعبیر کو سمجھ لیں گے تووہ تمہارے خلاف کوئی سازش کریں گے اور تمہاری ہلاکت کی کوئی تدبیر سوچیں گے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۴)
حضرت علامہ عبداللہ بن احمد نسفیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت کے لئے منتخب فرمائے گا اور دونوں جہان کی نعمتیں اور شرف عنایت کرے گا اس لئے آپ کو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے خلاف ان کے بھائیوں کی طرف سے حسد کا اندیشہ ہوا اور آپ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ اگر آپ نے اپنے بھائیوں سے اپنا خواب بیان کیا تو وہ تمہارے خلاف سازش کریں گے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵، ص۵۲۰)
خواب کس سے بیان کرنا چاہئے؟
اس سے معلوم ہو اکہ انسان جب کوئی اچھا خواب دیکھے تو ا س کے بارے میں صرف اس شخص کو خبر دے کہ جو اس سے محبت رکھتا ہو یا عقلمند ہو اور اس سے حسد نہ کرتا ہو اور اگر برا خواب دیکھے تو اسے کسی سے بیان نہ کرے۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۹۴۲)صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتاہے جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو اس کا ذکر صرف اسی سے کرے جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اگر ایسا خواب دیکھے کہ جو اسے پسندنہ ہو تو اس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اسے پناہ مانگنی چاہئے اور (اپنی بائیں طرف ) تین مرتبہ تھتکاردے اور اس خواب کو کسی سے بیان نہ کرے تو وہ کوئی نقصان نہ دے گا۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب ما اذا رأی ما یکرہ فلا یخبر بہا ولا یذکرہا، ۴ / ۴۲۳، الحدیث: ۷۰۴۴، مسلم، کتاب الرؤیا، ص۱۲۴۲، الحدیث: ۳(۲۲۶۱))
{اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ:بیشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔} آیت کے اس حصے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی اگر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اذیت اور تکلیف پہنچانےکی کوشش کریں گے تو اس کا سبب شیطانی وسوسہ ہوگا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۴)
{وَ كَذٰلِكَ:اور اسی طرح۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا ’’جس طرح اس عظمت و شرافت والے خواب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تیرا مقام بلند کیا اسی طرح تیرا رب عَزَّوَجَلَّ تمہیں نبوت و بادشاہت یا اہم کاموں کے لئے منتخب فرما لے گا۔
بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ’’ اِجْتِبَاءُ یعنی اللہ تعالیٰ کا کسی بندے کو چن لینا ‘‘کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو فیضِ رَبّانی کے ساتھ خاص کرے جس سے اس کو طرح طرح کے کرامات و کمالات، محنت و کوشش کے بغیر حاصل ہوں ، یہ مرتبہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ خاص ہے اور ان کی بدولت ان کے مقربین ،صدِّیقین ، شُہدا اور صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْبھی اس نعمت سے سرفراز کئے جاتے ہیں۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴، بیضاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۲۷۴، ملتقطاً)
{وَ یُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ:اور تجھے باتوں کا انجام نکا لنا سکھائے گا۔} آیت میں مذکور ’’ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ‘‘ سے خوابوں کی تعبیر نکالنا مراد ہے کیونکہ خواب اگر سچے ہوں تو وہ فرشتوں کی باتیں ہیں اور اگر سچے نہ ہوں تو وہ نفس یا شیطان کی باتیں ہیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک ’’ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ‘‘ سے سابقہ آسمانی کتابوں اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اَحادیث کی مُبْہَم باتوں کو ظاہر فرمانا مراد ہے۔ پہلا قول صحیح ہے۔(ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۸۱)
{وَ یُتِمُّ نِعْمَتَهٗ: اور وہ اپنا احسان مکمل فرمائے گا۔}امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت میں ’’ یَجْتَبِیْكَ‘‘ سے نبوت کے لئے منتخب فرمانا مراد لیا جائے تو اس صور ت میں نعمت پوری کرنے سے مراد دنیا اور آخرت کی سعادتیں عطا فرمانا ہے، دنیا کی سعادتیں یہ ہیں۔ (1) اولاد کی کثرت۔ (2) خدمت گاروں اور پیروی کرنے والوں کی کثرت۔ (3) مال اور شان وشوکت میں وسعت۔ (4) مخلوق کے دلوں میں عظمت و جلال کی زیادتی۔ (5) اچھی ثنا اور تعریف۔ آخرت کی سعادتیں یہ ہیں۔ (1) کثیر علوم۔ (2) اچھے اَخلاق۔ (3) اللہ تعالیٰ کی معرفت میں اِستغراق۔ اور اگر ’’ یَجْتَبِیْكَ‘‘ سے بلند درجات تک پہنچانا مراد لیا جائے تو اس صورت میں نعمت پوری کرنے سے مراد نبوت عطا فرمانا ہے، اس کی تائید ان باتوں سے ہوتی ہے۔
(1)…نعمت پورا کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نعمت کو اس طرح کامل کر دیاجائے کہ وہ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہو اور انسان کے حق میں ایسی نعمت صرف نبوت ہے مخلوق کے تمام مَناصب ،نبوت کے منصب کے مقابلے میں ناقص ہیں۔
(2)…حضرت یعقوبعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا :جس طرح اس نے پہلے تمہارے باپ دادا ابراہیم اور اسحق پر اپنی نعمت مکمل فرمائی، یہ بات واضح ہے کہ وہ نعمتِ تامہ جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت اسحق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو باقی انسانوں سے اِمتیاز حاصل ہوا ،وہ نبوت ہے ،لہٰذا اس آیت میں تکمیلِ نعمت سے مراد نبوت ہے۔(تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۴۲۱، ملتقطاً)
{لَقَدْ:بیشک۔} یعنی بے شک حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائیوں کے واقعے میں پوچھنے والوں کے لئے عظیم الشان نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت ِقاہرہ پر دلالت کرتی ہیں۔ (ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۸۲)
آیت’’ لَقَدْ كَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَ اِخْوَتِهٖۤ‘‘ سے متعلق دو باتیں :
اس آیت کے تعلق سے دو باتیں قابلِ ذکر ہیں
(1)… حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی پہلی بیوی لِیَا بنتِ لَیَانآپ کے ماموں کی بیٹی ہیں ، ان سے آپ کے 6 فرزند ہوئے (1) رُوْبِیلْ، (2) شمعون، (3) لاوِی ، (4) یہوذا (یا،یہودا)، (5) زبولون، (6) یَشْجُرْ جبکہ چار بیٹے (7) دَانْ، (8) نَفْتَالی، (9) جادْ، (10) آشر، دوسری دو بیویوں زلفہ اور بلہہ سے ہوئے۔ لیا کے انتقال کے بعد حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان کی بہن راحیل سے نکاح فرمایا ان سے دو فرزند ہوئے (11) حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور (12) بنیامین ۔ یہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بارہ صاحب زادے ہیں انہیں کو اَسباط کہتے ہیں۔
(2)…آیت میں سائلین یعنیپوچھنے والوں سے وہ یہودی مراد ہیں جنہوں نے رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حال اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد کے خطّۂ کنعان سے سرزمینِ مصر کی طرف منتقل ہونے کا سبب دریافت کیا تھا، جب سرکارِ دوعالَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات بیان فرمائے اور یہود یوں نے ان کو توریت کے مطابق پایا تو انہیں حیرت ہوئی کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے کتابیں پڑھنے اور علماء کی مجلسوں میں بیٹھنے اور کسی سے کچھ سیکھنے کے بغیر اس قدر صحیح واقعات کیسے بیان فرمائے۔ یہ ا س بات کی دلیل ہے کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ضرور نبی ہیں اور قرآنِ پاک ضرور اللہ تعالیٰ کی وحی ہے اوراللہ تعالیٰ نے آپ کو قُدسی علم سے مشرف فرمایا علاوہ بریں اس واقعہ میں بہت سی عبرتیں ، نصیحتیں اور حکمتیں ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۵)
{اِذْ قَالُوْا:یاد کرو جب انہوں نے کہا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے والدِ محترم حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان کے سگے بھائی بِنیامین کی طرف بہت مائل ہیں اور ان پر بڑی شفقت فرماتے ہیں تو کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! یوسف اور اس کا سگا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں اوروہ انہیں محبت میں ہم پر ترجیح دیتے ہیں حالانکہ وہ دونوں چھوٹے ہیں اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے جبکہ ہم دس مرد ہیں ، مضبوط ہیں ، زیادہ کام آسکتے ہیں ، زیادہ فائدہ پہنچاسکتے ہیں لہٰذا ہم اپنی کثیر تعداد اور زیادہ فائدہ مند ہونے کی وجہ سے ان دونوں بھائیوں کی بجائے محبت کے زیادہ حقدار ہیں ، بیشک ہمارے والد ان کی کھلی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائیوں نے یہ کہہ تو دیا لیکن یہ بات ان کے خیال میں نہ آئی کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائی کو صرف محبت میں ان پر ترجیح دی ہے اور دلی محبت کو دور کر دینا انسان کے بس میں نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ محبت و شفقت کا سبب یہ ہو کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی والدہ ان کی چھوٹی عمر میں انتقال فرما گئی تھیں نیز شفقت کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممیں ہدایت اور اچھی صفات کی وہ نشانیاں ملاحظہ فرما لیں جو دوسرے بھائیوں میں نہ تھیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۵-۶، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۸، ص۵۲۱، ملتقطاً)
{اُقْتُلُوْا یُوْسُفَ:یوسف کو مار ڈالو ۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں کو اپنے والد ماجد کا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے زیادہ محبت فرمانا شاق گزرا توانہوں نے باہم مل کر یہ مشورہ کیا کہ کوئی ایسی تدبیر سوچنی چاہیے جس سے ہمارے والد صاحب ہماری طرف زیادہ مائل ہوں۔ بہرحال مشورہ میں گفتگو اس طرح ہوئی کہ ’’والد محترم کی محبت حاصل کرنے کی دو ہی صورتیں ہیں پہلی یہ کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکوایک ہی بار مار ڈالو اور دوسری یہ کہ اگر مارنا نہیں تو کہیں دور دراز کی زمین میں پھینک آؤ جہاں بھیڑیے یادرندے کے کھا جانے یا اسی سرزمین میں انتقال کر جانے کی وجہ سے ان کا حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس واپس آجانا ممکن نہ رہے ۔ اگر تم نے ان دو صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل کر لیا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی توجہ تمہاری طرف ہو جائے گی اور وہ تم سے محبت کرنے لگیں گے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو قتل کردینے یا آبادیوں سے دور چھوڑ آنے کے بعد تم پھر توبہ کر کے نیک ہو جانا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۶، روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۱۹، ملتقطاً)
آیت’’اُقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائیوں کی یہ ساری حرکات صرف حضرت یعقوبعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامَ کو اپنی طر ف مائل کرنے کیلئے تھیں ، نفس کی خاطر نہ تھیں ، اس لئے ان کو سچی توبہ نصیب ہوگئی، قابیل کی حرکات چونکہ نفسِ اَمارہ کے لئے تھیں ، اس لئے اسے توبہ نصیب نہ ہوئی ۔
(2)… یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی جائز بلکہ اعلیٰ ترین مقصد کے حصول کیلئے بھی ناجائز ذریعہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں جیسے یہاں حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائیوں کا مقصد والد کی محبت کا حصول تھا جو کہ منصبِ نبوت پر فائز بھی تھے لیکن اس کیلئے ناجائز ذریعہ اختیار کیا اور اس کی مذمت کی گئی۔
{قَالَ قَآىٕلٌ مِّنْهُمْ:ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں میں سے یہودا یارُوبیل نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو کیونکہ قتل گناہِ عظیم ہے اور اسے کسی تاریک کنویں میں ڈال دو کہ کوئی مسافر وہاں سے گزرے اور انہیں کسی دوسرے ملک میں لے جائے، اس سے مقصد بھی پورا ہو جائے گا کہ نہ وہ یہاں رہیں گے اور نہ والد صاحب کی نظر عنایت ان پر ہوگی ، لہٰذا اگر تم کچھ کرنے والے ہو تو یہ کرو۔ اس میں اشارہ ہے کہ چاہئے تو یہ کہ کچھ بھی نہ کرو لیکن اگر تم نے ارادہ ہی کرلیا ہے تو بس اتنے ہی پر اکتفا کرو۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۲۱۹، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۶، ملتقطاً)
{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} اس آیت اورا س سے اگلی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائیوں نے جب آپس میں مشورہ کر لیا اور وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان جدائی کروا دینے پر متفق ہو گئے تو انہوں نے اپنے والد حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے کہا ’’ اے ہمارے باپ! آپ کو کیا ہوا کہ یوسف کے معاملے میں آپ ہمارا اعتبار نہیں کرتے اور جب ہم شہر سے باہر صحرا کی طرف جائیں تویوسف کو ہمارے ساتھ نہیں بھیجتے حالانکہ ہم یقینااس کے خیر خواہ ہیں۔آپ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ وہ تفریح مثلاً شکار اور تیر اندازی وغیرہ کے ذریعے لطف اندوز ہوں ، بیشک ہم اس کی پوری نگہداشت کریں گے ۔ (تفسیرطبری، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۱۵۵، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ص۵۲۲، ملتقطاً)
{قَالَ:فرمایا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائیوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ساتھ بھیجنے کا مطالبہ کیا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے ساتھ نہ بھیجنے کی دو وُجوہات بیان فرمائیں ، ایک یہ کہ تمہاراحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکولے جانا اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تمہارے ساتھ چلے جانا مجھے غمگین کر دے گا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا کچھ دیر کے لئے بھی ان سے جدا ہونا گوارا نہ تھا۔ دوسری وجہ یہ بیان کی کہ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم اپنے کھانے پینے اور کھیل کود میں مصروفیت کی وجہ سے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے غافل ہو جاؤ گے اور کوئی بھیڑیا آ کر انہیں کھا جائے گا۔یہ وجہ آپ نے اس لئے بیان فرمائی تھی کہ اس سرزمین میں بھیڑیے اور درندے بہت تھے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۷)
{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے جواب دیا ’’ہم دس مردوں کے وہاں موجود ہوتے ہوئے اگر اسے بھیڑیا کھا جائے جب تو ہم کسی کام کے نہ ہوئے لہٰذا انہیں ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر یونہی تھی کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اجازت دی اور روانگی کے وقت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وہ قمیص جوجنتی ریشم کی تھی اور جس وقت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو کپڑے اتار کر آگ میں ڈالا گیا تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے وہ قمیص آپ کو پہنائی تھی اور وہ قمیص مبارک حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حضرت اسحق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور ان سے ان کے فرزند حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو پہنچی تھی، حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے وہ قمیص تعویذ بنا کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گلے میں ڈال دی۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۷، روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۲۲۲، ملتقطاً)
{فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ:پھر جب وہ اسے لے گئے۔} جب حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے بھائیوں کے ساتھ بھیج دیا تو جب تک حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں دیکھتے رہے تب تک تو وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اپنے کندھوں پر سوار کئے ہوئے عزت و احترام کے ساتھ لے گئے اور جب دور نکل گئے اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نظروں سے غائب ہوگئے تو انہوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو زمین پر دے ٹپکا اور دلوں میں جو عداوت تھی وہ ظاہر ہوئی، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جس کی طرف جاتے تھے وہ مارتا اور طعنے دیتا تھا اور خواب جو کسی طرح انہوں نے سن لیا تھا اس پر برا بھلاکہتے تھے اور کہتے تھے اپنے خواب کوبلا، وہ اب تجھے ہمارے ہاتھوں سے چھڑائے۔ جب سختیاں حد کو پہنچیں تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہود اسے کہا: خدا سے ڈر، اور ان لوگوں کو ان زیادتیوں سے روک ۔ یہودا نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ تم نے مجھ سے کیا عہد کیا تھا کہ انہیں قتل نہیں کیا جائے گا، تب وہ ان حرکتوں سے باز آئے اور سب نے اتفاق کرلیا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تاریک کنویں میں ڈال دیں چنانچہ انہوں نے ایسا کیا۔ یہ کنواں کنعان سے تین فرسنگ (یعنی 9میل) کے فاصلہ پراُرْدُن کی سرزمین کے اَطراف میں واقع تھا، اوپر سے اس کا منہ تنگ تھا اور اندر سے کُشادہ، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاتھ پائوں باندھ کر قمیص اتار کر کنوئیں میں چھوڑا ،جب وہ اس کی نصف گہرائی تک پہنچے تو رسی چھوڑ دی تاکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پانی میں گر کر ہلاک ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل امینعَلَیْہِ السَّلَام پہنچے اور انہوں نے آپ کو کنویں میں موجود ایک پتھر پر بٹھا دیا اور آپ کے ہاتھ کھول دیئے۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۲۲۳)
{وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِ:اور ہم نے اسے وحی بھیجی۔}اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامکے واسطے سے یا اِلہام کے ذریعے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی کہ آپ غمگین نہ ہوں ،ہم آپ کو گہرے کنویں سے نکال کر بلند مقام پر پہنچائیں گے اور تمہارے بھائیوں کو حاجت مند بنا کر تمہارے پاس لائیں گے اور انہیں تمہارے زیرِ فرمان کریں گے اور اے پیارے یوسف! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ایک دن ایسا آئے گا کہ تم ضرور انہیں ان کایہ ظالمانہ کام یاد دلاؤ گے جو انہوں نے اِس وقت تمہارے ساتھ کیا اور وہ اُس وقت تمہیں نہ جانتے ہوں گے کہ تم یوسف ہو کیونکہ اس وقت آپ کی شان بلند ہوگی اور آپ سلطنت و حکومت کی مسند پر ہوں گے جس کی وجہ سے وہ آپ کو پہچان نہ سکیں گے۔ (ابو سعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۸۶، ملخصاً) قصہ مختصر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائی انہیں کنوئیں میں ڈال کر واپس ہوئے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قمیص جو اتار لی تھی اس کو ایک بکری کے بچے کے خون میں رنگ کر ساتھ لے لیا۔
{وَ جَآءُوْ:اور وہ آئے۔} مفسرین فرماتے ہیں کہ جب بھائیوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنویں میں ڈال دیا تو رات کے وقت اپنے والد کی طرف لوٹے تاکہ رات کے اندھیرے میں انہیں جھوٹا عذر پیش کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہو، جب وہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مکان کے قریب پہنچے تو انہوں نے رونا اور چیخنا چلانا شروع کر دیا، جب حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے چیخنے کی آواز سنی تو گھبرا کر باہر تشریف لائے اور فرمایا، ’’اے میرے بیٹو !میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں بکریوں میں کچھ نقصان ہوا؟ انہوں نے کہا :نہیں۔ پھر فرمایا ’’تو کیا مصیبت پہنچی اور یوسف کہاں ہیں ؟ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۹)
{قَالُوْا:کہنے لگے۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پوچھنے پر انہوں نے جوا ب دیا ’’اے ہمارے باپ ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دوڑ لگا رہے تھے کہ ہم میں سے کون آگے نکلتا ہے، اس دوڑ کے چکر میں ہم دور نکل گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا، اسی دوران جب ہم یوسف سے غافل ہوئے تو اسے بھیڑیا کھا گیا اور ہمیں علم ہے کہ آپ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے شدید محبت کی وجہ سے کسی طرح ہمارا یقین نہ کریں گے اگرچہ ہم سچے ہوں اور ہمارے ساتھ کوئی گواہ ہے نہ کوئی ایسی دلیل و علامت ہے جس سے ہماری سچائی ثابت ہو۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۹، ملخصاً)
{وَ جَآءُوْ عَلٰى قَمِیْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ:اور وہ اس کے کر تے پر ایک جھوٹا خون لگا لائے۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’انہوں نے بکری کے ایک بچے کو ذبح کر کے اس کا خون حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قمیص پر لگا دیا تھا لیکن قمیص کو پھاڑنا بھول گئے ، حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہ قمیص اپنے چہرہ مبارک پر رکھ کر بہت روئے اور فرمایا ’’ عجیب قسم کا ہوشیار بھیڑیا تھا جو میرے بیٹے کوتو کھا گیا اور قمیص کو پھاڑا تک نہیں۔ مزید فرمایا ’’حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ تمہارے دلوں نے تمہارے لئے ایک بات گھڑ لی ہے تومیرا طریقہ عمدہ صبر ہے اور تمہاری باتوں پر اللہ تعالیٰ ہی سے مدد چاہتا ہوں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۹-۱۰)
{وَ جَآءَتْ سَیَّارَةٌ:اور ایک قافلہ آیا۔} ایک قافلہ جو مدین سے مصر کی طرف جارہا تھا وہ راستہ بہک کر اُس جنگل کی طرف آ نکلا جہاں آبادی سے بہت دور یہ کنواں تھا اور اس کا پانی کھاری تھا مگر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی برکت سے میٹھا ہوگیا ، جب وہ قافلہ والے اس کنوئیں کے قریب اترے تو انہوں نے اپنا پانی لانے والا کنویں کی طرف بھیجا، اس کا نام مالک بن ذعر خزاعی تھا اور یہ شخص مدین کا رہنے والا تھا، جب وہ کنوئیں پر پہنچا اور اس نے اپنا ڈول ڈالا تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے وہ ڈول پکڑلیا اور اس میں لٹک گئے ، مالک نے ڈول کھینچا تو آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کنویں سے باہر تشریف لے آئے۔ جب اس نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا عالَم افروز حسن دیکھا تو نہایت خوشی میں آکر اپنے ساتھیوں کو مُژدہ دیا کہ آہا کیسی خوشی کی بات ہے، یہ تو ایک بڑا حسین لڑکا ہے۔ مالک بن ذعر اور اس کے ساتھیوں نے انہیں سامانِ تجارت قرار دے کر چھپالیا تاکہ کوئی اس میں شرکت کا دعویٰ نہ کر دے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی جو اس جنگل میں اپنی بکریاں چراتے تھے اور وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نگرانی بھی کررہے تھے ، آج جو انہوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنوئیں میں نہ دیکھا تو وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے قافلہ میں پہنچے، وہاں انہوں نے مالک بن ذعر کے پاس حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا تو وہ اس سے کہنے لگے کہ یہ غلام ہے، ہمارے پاس سے بھاگ آیا ہے ، کسی کام کا نہیں ہے اور نافرمان ہے، اگر خرید لو تو ہم اسے سستا بیچ دیں گے اور پھر اسے کہیں اتنی دور لے جانا کہ اس کی خبر بھی ہمارے سننے میں نہ آئے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے خوف سے خاموش کھڑے رہے اور آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کچھ نہ فرمایا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۱۰، ابو سعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۸۹، ملتقطاً)
{وَ شَرَوْهُ:اور بھائیوں نے اسے بیچ ڈالا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے انہیں مالک بن ذعر خزاعی کے ہاتھ بہت کم قیمت والے چند درہموں کے بدلے بیچ دیا ۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ وہ بیس درہم تھے۔ اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائی پہلے سے ہی ان میں کچھ رغبت نہ رکھتے تھے۔ پھر مالک بن ذعر اور اس کے ساتھی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مصر میں لائے، اس زمانے میں مصر کا بادشاہ ریان بن ولید بن نزدان عملیقی تھا اور اس نے اپنی عِنانِ سلطنت قطفیر مصری کے ہاتھ میں دے رکھی تھی، تمام خزائن اسی کے تحتِ تَصَرُّف تھے ، اس کو عزیزِ مصر کہتے تھے اور وہ بادشاہ کا وزیر اعظم تھا، جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممصر کے بازار میں بیچنے کے لئے لائے گئے تو ہر شخص کے دل میں آپ کی طلب پیدا ہوئی اور خریداروں نے قیمت بڑھانا شروع کی یہاں تک کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے وزن کے برابر سونا، اتنی ہی چاندی، اتنا ہی مشک اور اتنا ہی ریشم قیمت مقرر ہوئی اور عمر شریف اس وقت تیرہ یا سترہ سال کی تھی۔ عزیزِ مصر نے اس قیمت پر آپ کو خرید لیا اور اپنے گھر لے آیا۔ دوسرے خریدار اس کے مقابلہ میں خاموش ہوگئے۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۹۴۹، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۱۱، ملتقطاً)
{وَ قَالَ الَّذِی اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖ:اور مصر کے جس شخص نے انہیں خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مصر کے جس شخص نے حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خریدا اسے لوگ عزیزمصر کہتے تھے اور اس کا نام قطفیر تھا، اس نے اپنی بیوی زلیخا سے کہا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو عزت سے رکھو ، ان کی قیام گاہ نفیس ہو، لباس اور خوراک اعلیٰ قسم کی ہو، شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے اور ہمارے کاموں میں اپنے تدبر و دانائی سے ہمارے لئے نفع مند اور بہتر مددگار ثابت ہو نیز ہوسکتا ہے کہ سلطنت اور حکومت کے کاموں کو سر انجام دینے میں ہمارے کام آئے کیونکہ رُشد کے آثار ان کے چہرے سے ظاہر ہیں یا پھر ہم انہیں بیٹا بنالیں۔ یہ قطفیر نے اس لئے کہا کہ اس کے کوئی اولاد نہ تھی۔ (ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۹۰، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۱۱، ملتقطاً)
{وَ كَذٰلِكَ:اور اسی طرح ۔}یعنی جس طرح ہم نے قتل سے محفوظ کرکے اور کنویں سے سلامتی کے ساتھ باہر لا کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر احسان فرمایا اسی طرح ہم نے انہیں مصر کی سرزمین میں ٹھکانا دیا تاکہ ہم اسے مصر کے خزانوں پر تسلط عطا کریں اور خوابوں کی تعبیر نکالنا سکھائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے کام پر غالب ہے ،وہ جو چاہے کرے اور جیسا چاہے حکم فرمائے، اس کے حکم کو کوئی روکنے والا ہے نہ اس کی قضا کو کوئی ٹالنے والا ہے اور نہ ہی کوئی چیز اس پر غالب ہے ،مگر اکثر آدمی نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کیا کرنے والا ہے اور وہ ان سے کیاچاہتا ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۱۱)
{وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ:اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچے۔} یعنی جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی جوانی کی پوری قوت کو پہنچے اور شباب اپنی انتہا پر آیا اور عمر مبارک امام ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قول کے مطابق بیس سال، سدی کےقول کے مطابق تیس سال اور کلبی کے قول کے مطابق اٹھارہ اور تیس کے درمیان ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطا فرمائی۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں حکم سے درست بات اور علم سے خواب کی تعبیر مراد ہے اور بعض علما نے فرمایا ہے کہ چیزوں کی حقیقتوں کو جانناعلم اور علم کے مطابق عمل کرنا حکمت ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۱۱-۱۲)
انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکاعمومی علم مبارک علمِ لدنی ہوتا ہے:
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علمِ لدنی بخشا کہ استاد کے واسطے کے بغیر ہی علم و فقہ اور عملِ صالح عنایت کیا۔ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکاعمومی یا اکثر علم مبارک علمِ لدنی ہوتا ہے۔ حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘ (کہف:۶۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسے اپنا علم لدنی عطا فرمایا۔
اور ہمارے آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بارے میں فرمایا
’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ‘‘ (النساء:۱۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے۔
اور فرمایا
’’ اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ‘‘ (رحمٰن:۱، ۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:رحمٰن نے۔ قرآن سکھایا۔
لہٰذا دنیا کا کوئی علم والا نبیعَلَیْہِ السَّلَام کے برابر نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ لوگ دنیاوی استادوں کے شاگرد ہوتے ہیں اور نبیعَلَیْہِ السَّلَام ربُّ العالمین عَزَّوَجَلَّ سے سیکھتے ہیں۔
{هُوَ فِیْ بَیْتِهَا:وہ جس عورت کے گھر میں تھے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی انتہائی پاکدامنی بیان فرمائی ہے، آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انتہائی حسین و جمیل تھے، جب زلیخا نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے حسن و جمال کو دیکھا تو اس نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں لالچ کیا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ اسی گھر میں رہائش پذیر تھے جہاں زلیخا رہتی تھی، اس لئے زلیخا نے موقع پاکر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے مُقَدّس نفس کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی تا کہ وہ اس کے ساتھ مشغول ہو کر اس کی ناجائز خواہش کو پورا کریں۔زلیخا کے مکان میں یکے بعد دیگرے سات دروازے تھے، زلیخا نے ساتوں دروازے بند کر کے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے کہا ’’میری طرف آؤ ،یہ میں تم ہی سے کہہ رہی ہوں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ا س کی بات سن کر فرمایا’’میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں اور اسی سے اپنی حفاظت کا طلبگار ہوں کہ وہ مجھے اس قباحت سے بچائے جس کی تو طلب گار ہے۔ بے شک عزیز مصر قطفیر میری پرورش کرنے والا ہے اور اس نے مجھے رہنے کے لئے اچھی جگہ دی ہے اس کا بدلہ یہ نہیں کہ میں اس کے اہلِ خانہ میں خیانت کروں ، جو ایسا کرے وہ ظالم ہے۔(تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۳، ۶ / ۴۳۸، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۲، ملتقطاً)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہونا چاہیے اور اپنے مربی کا احسان ماننا انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا طریقہ ہے۔
{وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ:اور بیشک عورت نے یوسف کا ارادہ کیا۔} یعنی زلیخا نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے برائی کاا رادہ کیا اور اگرحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماپنے رب عَزَّوَجَلَّکی دلیل نہ دیکھ لیتے تو انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق وہ بھی عورت کی طرف مائل ہو جاتے لیکن حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے رب تعالیٰ کی دلیل دیکھی اور اس فاسد ارادے سے محفوظ رہے اور وہ دلیل وبُرہان عِصْمت ِنبوت ہے، اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاکیزہ نُفوس کو برے اَخلاق اور گندے اَفعال سے پاک پیدا کیا ہے اور پاکیزہ، مُقَدّس اور شرافت والے اَخلاق پر ان کی پیدائش فرمائی ہے، اس لئے وہ ہر ایسے کام سے باز رہتے ہیں جس کا کرنا منع ہو۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس وقت زلیخا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے درپے ہوئی اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو دیکھا کہ انگشت ِمبارک دندانِ اَقدس کے نیچے دبا کر اِجتناب کا اشارہ فرماتے ہیں۔ (ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۹۴-۹۵، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۱۴، ملتقطاً)
تنبیہ:ان آیات میں ذکر کئے گئے واقعے سے متعلق بحث کرنے سے بچناہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کیونکہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی کی عصمت کا ہے اور بحث کرنا کہیں ایمان کی بربادی کا سبب نہ بن جائے ۔
{كَذٰلِكَ:اسی طرح۔} یعنی جس طرح ہم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دلیل دکھائی اسی طرح ہم اس سے ہربرائی اور بے حیائی کو پھیر دیں گے اور بیشک حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہمارے ان بندوں میں سے ہے جنہیں ہم نے نبوت کے لئے منتخب فرما لیا ہے اور دوسرے لوگوں پر انہیں اختیار کیا ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۱۵)
پاک دامن رہنے اور قدرت کے باوجود گناہ سے بچنے کے فضائل:
اَحادیث میں پاک دامن رہنے اور قدرت کے باوجود بدکاری سے بچنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ، ترغیب کے لئے4 اَحادیث اور ایک حکایت درج ذیل ہے۔
(1)…حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو مجھے اپنے دونوں جبڑوں اور اپنی ٹانگوں کے درمیان والی چیز (یعنی زبان اور شرمگاہ) کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، ۴ / ۲۴۰، الحدیث: ۶۴۷۴)
(2)… حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اے قریش کے جوانو! اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو اور زِنا نہ کرو، سن لو! جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اس کے لئے جنت ہے۔(شعب الایمان، السابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۶۵، الحدیث: ۵۴۲۵)
(3)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ عورت جب اپنی پانچ نمازیں پڑھے اور اپنے ماہِ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے ۔ (حلیۃ الاولیائ، الربیع بن صبیح، ۶ / ۳۳۶، الحدیث: ۸۸۳۰)
(4)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے (عرش کے) سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے (عرش کے) سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (ان میں ایک) وہ شخص ہے جسے کسی منصب وجمال والی عورت نے (اپنے ساتھ برائی کرنے کے لئے) طلب کیا تو اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۳۶، الحدیث:۶۶۰)
ٹوکریاں بیچنے والا نوجوان:
حضرت ابوعبداللہ بلخی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ بنی اسرائیل میں ایک نوجوان تھا جس سے زیادہ حسن و جمال والا کوئی نوجوان کبھی دیکھا نہ گیا ،وہ ٹوکر یاں بیچا کرتا تھا ۔ ایک دن یوں ہواکہ وہ اپنی ٹوکریاں لے کر(انہیں بیچنے کے لئے) گھوم رہا تھا کہ بنی اسرائیل کے ایک بادشاہ کے محل سے ایک عورت نکلی ،جب اس نے نوجوان کو دیکھا تو جلدی سے واپس لوٹ گئی اور بادشاہ کی شہزادی سے کہا :میں نے گھر سے ایک نوجوان کو ٹوکریاں بیچتے ہوئے دیکھا ( وہ اتنا خوبصورت ہے کہ)میں نے اس سے زیادہ حسین و جمیل نوجوان کبھی نہیں دیکھا ۔( یہ سن کر) شہزادی نے کہا: اسے لے آؤ۔ وہ عورت ا س کے پاس گئی اور کہا: اے نوجوان!اندر آ جاؤ، ہم تم سے خریداری کریں گے ۔نوجوان (محل میں ) داخل ہو ا تو عورت نے اس کے پیچھے دروازہ بند کر دیا ،پھر ا س سے کہا: داخل ہو جاؤ۔ وہ داخل ہوا تو اس نے پیچھے سے دوسرا دروازہ بند کر دیا، پھر وہ عورت نوجوان کو شہزادی کے سامنے لے گئی جس نے اپنے چہرے سے نقاب اٹھایا ہوا تھا اور اس کا سینہ بھی عُریاں تھا۔ (جب نوجوان نے شہزادی کو اس حالت میں دیکھا) تواس نے شہزادی سے کہا: اللہ تعالیٰ تجھے معاف فرمائے، تم (اپنا چہرہ اور سینہ) چھپا لو۔ شہزادی نے کہا: ہم نے تمہیں نصیحت کرنے کے لئے نہیں بلایا بلکہ محض اس مقصد کے لئے بلایا ہے( کہ ہم تجھ سے اپنی شہوت کی تسکین کرنا چاہتے ہیں۔) نوجوان نے اس سے کہا : تو (اس معاملے میں ) اللہ تعالیٰ سے ڈر۔ شہزادی نے کہا: میری مراد پوری کرنے میں اگر تو نے میری بات نہ مانی تو میں بادشاہ کو بتا دوں گی کہ تم میرے پاس صرف میرے نفس پر غالب آنے کے لئے آئے ہو۔ نوجوان نے پھر انکار کیا اور اسے نصیحت کی ، جب ا س نے (نصیحت ماننے سے) انکار کر دیا تو نوجوان نے کہا : میرے لئے وضو کا انتظام کر دو۔ شہزادی نے کہا : کیا تو مجھے دھوکہ دینا چاہتا ہے؟ اے خادمہ: اس کے لئے محل کی چھت پر وضو کا برتن رکھ دو تا کہ یہ فرار نہ ہوسکے ۔ محل کی چھت زمین سے تقریباً 40 گز اونچی تھی، جب وہ نوجوان چھت پر پہنچ گیا تو اس نے (دعا مانگتے ہوئے ) عرض کی:اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے تیری نافرمانی کی طرف بلایا جا رہا ہے اور میں اپنے نفس سے صبر کرنے کو اختیار کر رہا ہوں ، (مجھے یہ منظور ہے کہ) اپنے آپ کو اس محل سے نیچے گرا دو ں اور گناہ نہ کروں ،پھر اس نے بِسْمِ اللہ پڑھی اور خود کو محل کی چھت سے نیچے گرا دیا ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جس نے اسے بازؤں سے پکڑا اور پاؤں کے بل زمین پر کھڑا کر دیا، جب وہ نوجوان زمین پر اتر آیاتو عرض کی : اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، اگر توچاہے تومجھے ایسا رزق دے سکتا ہے جو مجھے یہ ٹوکریاں بیچنے سے بے نیاز کر دے ۔ (جب اس نے یہ دعا کی) تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف ایک بوری بھیجی جو سونے سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے بوری سے سونا بھرنا شرو ع کردیا یہا ں تک کہ اس نے اپنا کپڑا بھر لیا۔ پھر اس نے عرض کی: ’’ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،
اگر یہ اسی رزق کا حصہ ہے جو تو نے مجھے دنیا میں دینا تھا تو مجھے اس میں برکت عطا فرما او راگر یہ میرے اس اجر و ثواب میں سے کچھ کم کر دے گا جو تیرے پاس آخرت میں ہے تو مجھے اس سونے کی حاجت نہیں۔ (جب اس نوجوان نے یہ کہا) تو اسے ایک آواز سنائی دی : جو سونا ہم نے تجھے عطا کیا ، یہ اس اجر کا پچیسواں حصہ ہے جو تجھے خود کو اس محل سے گرانے پر صبر کرنے سے ملا ہے۔ اس نوجوان نے کہا: ’’ اے میرے پروردگار! عَزَّوَجَلَّ، مجھے ایسے مال کی حاجت نہیں جو میرے اس ثواب میں کمی کا باعث بنے جو آخرت میں تیرے پاس ہے ۔ (جب نوجوان نے یہ بات کہی) تو وہ سونا اٹھا لیا گیا۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ الخامسۃ والعشرون بعد المائۃ، ص۱۴۲-۱۴۳)
{وَ اسْتَبَقَا الْبَابَ:اور وہ دونوں دروازے کی طرف دوڑے۔}جب زلیخا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درپے ہوئی اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے رب تعالیٰ کی بُرہان دیکھی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دروازے کی طرف بھاگے اور زلیخا ان کے پیچھے انہیں پکڑنے کے لئے بھاگی۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامجس جس دروازے پر پہنچتے جاتے تھے اس کا تالا کھل کر گرتا چلا جاتا تھا۔ آخر کار زلیخا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک پہنچی اور اس نے آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کرتا پیچھے سے پکڑ کر آپ کو کھینچا تاکہ آپ نکلنے نہ پائیں لیکن آپ غالب آئے اور دروازے سے باہر نکل گئے ۔ زلیخا کے قمیص کھینچنے کی وجہ سے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قمیص پیچھے سے پھٹ گئی تھی۔
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جیسے ہی باہر نکلے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیچھے زلیخا بھی نکلی تو انہوں نے زلیخا کے شوہر یعنی عزیز مصر کو دروازے کے پاس پایا، فوراً ہی زلیخا نے اپنی براء ت ظاہر کرنے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے مکر سے خوفزدہ کرنے کے لئے حیلہ تراشا اور شوہر سے کہنے لگی: اس شخص کی کیا سزا ہے جو تمہاری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے ؟ اتنا کہہ کر زلیخا کو اندیشہ ہوا کہ کہیں عزیز طیش میں آکر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے قتل کے درپے نہ ہوجائے اور یہ زلیخا کی شدّتِ محبت کب گوارا کرسکتی تھی اس لئے اس نے یہ کہا ’’یہی کہ اسے قید کردیا جائے یا دردناک سزا دی جائے یعنی اس کو کوڑے لگائے جائیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۱۵، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۵۲۶، ملتقطاً)
{قَالَ: فرمایا۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ زلیخا الٹا آپ پر الزام لگاتی ہے اور آپ کے لئے قید و سزا کی صورت پید ا کرتی ہے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی براء ت کا اظہار اور حقیقت ِحال کابیان ضروری سمجھا اور فرمایا ’’یہ مجھ سے برے فعل کی طلب گار ہوئی تو میں نے اس سے انکار کیا اور میں بھاگا۔ عزیز نے کہا’’ اس بات پر کس طرح یقین کیا جائے؟ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا کہ اس گھر میں ایک چار مہینے کا بچہ جھولے میں ہے جو زلیخا کے ماموں کا لڑکا ہے، اس سے دریافت کرنا چاہیے۔ عزیز نے کہا کہ’’چار مہینے کا بچہ کیا جانے اور کیسے بولے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کو گویائی دینے اور اس سے میری بے گناہی کی شہادت ادا کرا دینے پر قادر ہے۔ عزیز نے اس بچہ سے دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ بچہ بولنے لگا اور اس نے کہا: اگر اِن کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو پھر تو عورت سچی ہے اور یہ سچے نہیں اور اگر ان کا کرتا پیچھے سے چاک ہوا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے ہیں۔ یعنی اگر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آگے بڑھے اور زلیخا نے ان کو ہٹایا تو کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو گا اور اگر حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماس سے بھاگ رہے تھے اور زلیخا پیچھے سے پکڑ رہی تھی تو کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہو گا۔( خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۳ / ۱۵-۱۶، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ص۵۲۶-۵۲۷، ملتقطاً)
تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شان:
اس واقعے سے سرکار ِدوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان بھی معلوم ہوئی کہ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر تہمت لگی تو ان کی پاکیزگی کی گواہی بچے سے دلوائی گئی اگرچہ یہ بھی عظیم چیز ہے لیکن جب سیّدالمرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا پر تہمت لگی تو چونکہ وہ معاملہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت کا بھی تھا اس لئے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکی عِفت و عِصمت اور پاکیزگی کی گواہی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے خود دی۔
دودھ پینے کی عمر میں کلام کرنے والے بچے:
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: خیال رہے کہ چند شیر خوار بچوں نے کلام کیا ہے۔(1)حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ گواہ ۔ (2) ہمارے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پیدا ہوتے ہی حمدِ الہٰی کی۔ (3) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔(4)حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھا۔(5) حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ (6) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ۔ (7) اس عورت کا بچہ جس پر زنا کی تہمت لگائی گئی تھی اور وہ بے گناہ تھی۔ (8) خندق والی مصیبت زَدہ عورت کا بچہ یعنی اَصحابِ اُخدود۔ (9) حضرت آسیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکی کنگھی کرنے والی کا بچہ ۔ (10) مبارک یمامہ ، جس نے پیدا ہوتے ہی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے گواہی دی۔(11)جریج راہب کی گواہی دینے والا بچہ۔
{فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ:پھر جب عزیز نے اس کا کر تاپیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا۔} یعنی جب عزیز نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا اور جان لیا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سچے ہیں اور زلیخا جھوٹی ہے تو زلیخا سے کہا ’’تمہاری یہ بات کہ اس شخص کی کیا سزا ہے جو تمہاری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے ؟ یہ صرف تم عورتوں کا مکر ہے ، بیشک تمہارا مکر بہت بڑا ہے جس کی وجہ سے تم مردوں پر غالب آ جاتی ہو۔(مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۵۲۷)
{یُوْسُفُ: اے یوسف!} جب عزیز ِمصر کے سامنے زلیخا کی خیانت اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی براء ت ثابت ہو گئی تو عزیز نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف متوجہ ہو کر اس طرح معذرت کی ’’اے یوسف! تم اس بات سے درگزر کرو اور اس پر مغموم نہ ہو بے شک تم پاک ہو ۔ اس کلام سے یہ بھی مطلب تھا کہ اس کا کسی سے ذکر نہ کرو تاکہ چرچا نہ ہو اور شُہرہ عام نہ ہوجائے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۱۶)
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی برأت کی مزید علامتیں :
اس آیت کے علاوہ بھی حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی برأت کی بہت سی علامتیں موجود تھیں ایک تو یہ کہ کوئی شریف طبیعت انسان اپنے مُحسن کے ساتھ اس طرح کی خیانت روا نہیں رکھتا اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اچھے اَخلاق کی بلندیوں پر فائز ہوتے ہوئے کس طرح ایسا کرسکتے تھے۔ دوسری یہ کہ دیکھنے والوں نے آپ کو بھاگتے آتے دیکھا اور طالب کی یہ شان نہیں ہوتی بلکہ وہ درپے ہوتا ہے، آگے نہیں بھاگتا ۔بھاگتا وہی ہے جو کسی بات پر مجبور کیا جائے اور وہ اسے گوارا نہ کرے۔ تیسری یہ کہ عورت نے انتہا درجہ کا سنگار کیا تھا اور وہ غیر معمولی زیب و زینت کی حالت میں تھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رغبت و اہتمام محض اس کی طرف سے تھا ۔ چوتھی یہ کہ حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تقویٰ و طہارت جو ایک دراز مدت تک دیکھا جاچکا تھا اس سے آپ کی طرف ایسے برے فعل کی نسبت کسی طرح قابلِ اعتبار نہیں ہوسکتی تھی ۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲۹، ۳ / ۱۶)
{وَ اسْتَغْفِرِیْ لِذَنْۢبِكِ :اور اے عورت! تو اپنے گناہ کی معافی مانگ ۔} یعنی عزیز مصر زلیخا کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا ’’ اے عورت! تو اللہ تعالیٰ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگ جو تو نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر تہمت لگائی حالانکہ وہ اس سے بری ہیں۔ اپنے شوہر کے ساتھ خیانت کا ارادہ کرنے کی وجہ سے بیشک تو ہی خطاکاروں میں سے ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲۹، ۳ / ۱۶)
{وَ قَالَ نِسْوَةٌ فِی الْمَدِیْنَةِ:اور شہر میں کچھ عورتوں نے کہا۔} عزیز ِمصر نے اگرچہ اس قصہ کو بہت دبایا لیکن یہ خبر چھپ نہ سکی اور اس کا چرچا اورشہرہ ہو ہی گیا۔ شہر میں شُرفاء ِمصر کی عورتیں زلیخا اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ عزیز کی بیوی زلیخا اپنے نوجوان کا دل لبھانے کی کوشش کرتی ہے، بیشک ان کی محبت اس کے دل میں سماگئی ہے، ہم تو اس عورت کو کھلی محبت میں گم دیکھ رہے ہیں کہ اس دیوانے پن میں اس کو اپنے ننگ و ناموس اور پردے و عفت کا لحاظ بھی نہ رہا۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۱۶-۱۷، ملخصاً)
{فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ:تو جب اس عورت نے ان کی بات سنی۔} یعنی جب زلیخانے سنا کہ اَشرافِ مصر کی عورتیں اسے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی محبت پر ملامت کرتی ہیں تو اس نے چاہا کہ وہ اپنا عذر ان کے سامنے ظاہر کردے،چنانچہ اس کے لئے اس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور اس دعوت میں اشراف ِمصر کی چالیس عورتوں کو مدعو کرلیا، ان میں وہ سب عورتیں بھی تھیں جنہوں نے اس پر ملامت کی تھی، زلیخا نے ان عورتوں کو بہت عزت و احترام کے ساتھ مہمان بنایا اور ان کیلئے نہایت پرتکلف نشستیں تیار کردیں جن پر وہ بہت عزت و آرام سے تکیے لگا کر بیٹھیں ، دستر خوان بچھائے گئے اور طرح طرح کے کھانے اور میوے اس پرچنے گئے۔ پھر زلیخا نے ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دیدی تاکہ وہ اس سے کھانے کے لئے گوشت کاٹیں اور میوے تراش لیں ، اس کے بعد زلیخا نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عمدہ لباس پہننے کیلئے دیا اور کہا ’’ان عورتوں کے سامنے نکل آئیے۔ پہلے تو آپ نے اس سے انکار کیا لیکن جب اِصرار و تاکید زیادہ ہوئی توزلیخا کی مخالفت کے اندیشے سے آپ کو آنا ہی پڑا۔ جب عورتوں نے حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا توان کی بڑائی پکار اُٹھیں کیونکہ انہوں نے اس عالَم افروز جمال کے ساتھ نبوت و رسالت کے اَنوار ،عاجزی و اِنکساری کے آثار ،شاہانہ ہَیبت واِقتدار اور کھانے پینے کی لذیذ چیزوں اور حسین و جمیل صورتوں کی طرف سے بے نیازی کی شان دیکھی تو تعجب میں آگئیں اور آپ کی عظمت وہیبت دلوں میں بھر گئی اور حسن و جمال نے ایسا وارفتہ کیا کہ ان عورتوں کو خود فراموشی ہو گئی اور ان کے حسن و جمال میں گم ہوکر پھل کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور ہاتھ کٹنے کی تکلیف کا اصلاً احساس نہ ہوا۔ وہ پکار اٹھیں کہ سُبْحَانَ اللہ، یہ کوئی انسان نہیں ہے کہ ایسا حسن و جمال انسانوں میں دیکھا ہی نہیں گیا اور اس کے ساتھ نفس کی یہ طہارت کہ مصر کے اعلیٰ خاندانوں کی حسین و جمیل عورتیں ، طرح طرح کے نفیس لباسوں اور زیوروں سے آراستہ وپیراستہ سامنے موجود ہیں اور آپ کی شانِ بے نیازی ایسی کہ کسی کی طرف نظر نہیں فرماتے اور قطعاً اِلتفات نہیں کرتے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۷-۱۸، تفسیر کبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۶ / ۴۴۸، ملتقطاً)اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس واقعے کی طرف اشارہ کر کے بڑے حسین انداز میں شانِ مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زَناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پر مردانِ عرب
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے حسن میں فرق:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو حسن کا ایک حصہ عطا کیا گیا تھا اور ان کا حسن ظاہر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حسن کو اپنے جلال کے پردوں میں نہیں چھپایا ،اسی لئے آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حسن کا نظارہ کر کے عورتیں فتنے میں مبتلا ہو گئیں جبکہ حبیبِ پروردگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کامل حسن عطا کیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے جمال کو اپنے جلال کے پردوں میں چھپا دیا تھا جس کی وجہ سے آپ کا حسنِ کامل دیکھ کر بھی کوئی عورت فتنے میں مبتلا نہ ہوئی یہی وجہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سراپا اَقدس کی تفصیلات بڑے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مروی نہیں بلکہ چھوٹے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے منقول ہیں کیونکہ بڑے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے دلوں میں آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہبیت و جلال اس قدر تھی کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف نظر نہ اٹھا سکتے تھے۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۹۴۸، ملخصاً)
{قَالَتْ:زلیخا نے کہا۔} عورتوں نے جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا تو وہ ان کے حسن و جمال میں گم ہو گئیں ، یہ دیکھ کر زلیخا نے ان سے کہا ’’یہ ہیں وہ جن کے بارے میں تم مجھے طعنہ دیتی تھیں ،اب تم نے دیکھ لیا اور تمہیں معلوم ہوگیا کہ میرا دیوانہ پن کچھ قابلِ تعجب اور ملامت نہیں اور بیشک میں نے ان کا دل لبھانا چاہا تو اِنہوں نے اپنے آپ کو بچالیا اور کسی طرح میری طرف مائل نہ ہوئے۔ اس پر مصری عورتوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ آپ زلیخا کا کہنا مان لیجئے ۔ ان کی بات سن کرزلیخا بولی ’’ بیشک اگر یہ وہ کام نہ کریں گے جو میں ان سے کہتی ہوں تو ضرور قید میں ڈالے جائیں گے اور ضرور ذلت اٹھانے والوں میں سے ہوں گے اور چوروں ، قاتلوں اور نافرمانوں کے ساتھ جیل میں رہیں گے، کیونکہ انہوں نے میرا دل مجھ سے چھین لیا اور میری نافرمانی کی اور فراق کی تلوار سے میرا خون بہایا تو اب انہیں بھی خوشگوار کھانا پینا اور آرام کی نیند سونا میسر نہ ہوگا، جیسا میں جدائی کی تکلیفوں میں مصیبتیں جھیلتی اور صدموں میں پریشانی کے ساتھ وقت کاٹتی ہوں یہ بھی تو کچھ تکلیف اٹھائیں ،میرے ساتھ ریشم میں شاہانہ چارپائی پر عیش گوارا نہیں ہے تو قید خانے کے چبھنے والے بوریئے پر ننگے جسم کو دُکھانا گوارا کریں ، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یہ سن کر مجلس سے اٹھ گئے اور مصری عورتیں ملامت کرنے کے بہانے سے باہر آئیں اور ایک ایک نے آپ سے اپنی تمنّائوں اور مرادوں کا اظہار کیا ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی گفتگو بہت ناگوار ہوئی تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۸، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۵۲۸-۵۲۹، ملتقطاً)
{ثُمَّ بَدَا لَهُمْ:پھران کیلئے یہی بات ظاہر ہوئی۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے امید پوری ہونے کی کوئی شکل نہ دیکھی تو مصری عورتوں نے زلیخا سے کہا کہ اب مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب دو تین روز حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قید خانہ میں رکھا جائے تاکہ وہاں کی محنت و مشقت دیکھ کر انہیں نعمت و راحت کی قدر ہو اور وہ تیری درخواست قبول کرلیں۔ زلیخا نے اس رائے کو مانا اور عزیز ِمصر سے کہا کہ میں اس عبرانی غلام کی وجہ سے بدنام ہوگئی ہوں اور میری طبیعت اس سے نفرت کرنے لگی ہے ،مناسب یہ ہے کہ ان کو قید کیا جائے تاکہ لو گ سمجھ لیں کہ وہ خطاوار ہیں اور میں ملامت سے بری ہوں۔ یہ بات عزیز کے خیال میں آگئی اور اس نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قید خانے میں بھیج دیا۔ (تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۵، ۶ / ۴۵۲، ملخصاً)
{ وَ دَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیٰنِ:اور یوسف کے ساتھ قیدخانے میں دو جوان بھی داخل ہوئے ۔} ان دو جوانوں میں سے ایک تو مصر کے شاہِ اعظم ولید بن نزدان عملیقی کے باورچی خانے کا انچارج تھا اور دوسرا اس کاساقی، ان دونوں پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینا چاہا اور اس جرم میں دونوں قید کر دئیے گئے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب قید خانے میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے علم کا اظہار شروع کردیا اور فرمایا کہ میں خوابوں کی تعبیر کا علم رکھتا ہوں۔ ان دو جوانوں میں سے جو بادشاہ کا ساقی تھا اس نے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں ایک باغ میں ہوں اور وہاں ایک انگور کی بیل میں تین خوشے لگے ہوئے ہیں ، بادشاہ کا کاسہ میرے ہاتھ میں ہے اور میں نے ان انگوروں کا رس نچوڑ کر بادشاہ کو پلایا تو اس نے پی لیا۔ دوسرا یعنی کچن کا انچارج بولا ’’ میں نے خواب دیکھا کہ میں بادشاہ کے کچن میں اپنے سر پر کچھ روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں جن میں سے پرند ے کھا رہے ہیں۔ اے یوسف! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے۔ بیشک ہم آپ کو نیک لوگوں میں سے دیکھ رہے ہیں کہ آپ دن میں روزہ دار رہتے ہیں ، ساری رات نماز میں گزارتے ہیں ، جب کوئی جیل میں بیمار ہوتا ہے تو اس کی عیادت کرتے ہیں اور اس کی خبر گیری رکھتے ہیں ، جب کسی پر تنگی ہوتی ہے تو اس کے لئے کشائش کی راہ نکالتے ہیں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں تعبیر بتانے سے پہلے اپنے معجزے کا اظہار اور توحید کی دعوت شروع کردی اور یہ ظاہر فرما دیا کہ علم میں آپ کا درجہ اس سے زیادہ ہے جتنا وہ لوگ آپ کے بارے میں سمجھتے ہیں کیونکہ علمِ تعبیر ظن پر مبنی ہے اس لئے آپ نے چاہا کہ انہیں ظاہر فرما دیں کہ آپ غیب کی یقینی خبریں دینے پر قدرت رکھتے ہیں اور اس سے مخلوق عاجز ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے غیبی عُلوم عطا فرمائے ہوں اس کے نزدیک خواب کی تعبیر کیا بڑی بات ہے، اس وقت معجزے کا اظہار آپ نے اس لئے فرمایا کہ آپ جانتے تھے کہ ان دونوں میں ایک عنقریب سولی دیا جائے گا ،اس لئے آپ نے چاہا کہ اس کو کفر سے نکال کر اسلام میں داخل کریں اور جہنم سے بچا دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر عالم اپنی علمی منزلت کا اس لئے اظہار کرے کہ لوگ اس سے نفع اٹھائیں تو یہ جائز ہے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۵۲۹-۵۳۰، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۱۹-۲۰، روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳۸، ۴ / ۲۵۷، ۲۶۰، ملتقطاً)سُبْحَانَ اللہ! حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا جیل کی تنگ وتکلیف دِہ زندگی میں بھی کس قدر پیارا اور دلنواز کردار ہے ۔ کاش کہ ہم عافیت کی زندگی میں ہی ایسے کردار کو اپنانے کی کوشش کرلیں۔
قید کی حالت میں بھی تبلیغ:
تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت کے اَکابر اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بھی جہاں عافیت کی حالت میں دین کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتے رہے وہیں قیدو بند کی صعوبتوں میں بھی انہوں نے اپنے قول اور عمل کے ذریعے تبلیغِ دین کے سلسلے کو جاری و ساری رکھا، جن میں ایک بہت بڑا اور عظیم نام سیدنا مجدد الفِ ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ہے ، جب اکبر بادشاہ نے ملحدین اور بے دینوں کے ذریعے ایک نیا دین یعنی دینِ اکبری ایجاد کیا تو حضرت مجدد الف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ملک کے طُول وعَرض میں دینِ اکبری کے خلاف اور دینِ اسلام کے دفاع میں مکتوبات اور مریدین کی جماعت کے ذریعے اپنی تبلیغی کوششوں کو عام کر دیا پھر جب اکبر بادشاہ مر گیا اور اس کے بعد جہانگیر نے سلطنت کی زِمامِ کار سنبھالی تو اس نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کے بعد حضرت مجدد الفِ ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو اپنے دربار میں بلا یا اور تادیب کرنے ،تہذیب سکھانے اور دربارِ شاہی کی تعظیم نہ کرنے کو بہانا بنا کر انہیں قلعہ گوالیار میں قید کر دیا، لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے وہاں قیدیوں میں بھی اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو جاری رکھا جس کے نتیجے میں ہزاروں کافر و مشرک قیدی مشرف باسلام ہو گئے ، اسی طرح قید خانے سے مکتوبات کے ذریعے اپنے اہل و عیال، مریدوں اور اہلِ محبت کو اَحکامِ اسلام پر عمل کی دعوت دیتے رہے، ان میں سے ایک خط مُلاحظہ ہو، چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاپنے صاجزادوں خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد معصوم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِماکے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں ’’فرزندانِ گرامی! مصیبت کا وقت اگرچہ تلخ و بے مزہ ہے لیکن اس میں فرصت میسر آ جائے تو غنیمت ہے، اس وقت تمہیں چونکہ فرصت میسر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے کام میں مشغول ہو جاؤ اور ایک لمحہ بھی فارغ نہ بیٹھو، تین باتوں میں سے ہر ایک کی پابندی ضرور ہونی چاہئے (1) قرآنِ پاک کی تلاوت۔ (2) لمبی قراء ت کے ساتھ نماز۔ (3) کلمہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہْ‘‘ کی تکرار۔ کلمہ لَا کے ساتھ نفس کے خود ساختہ خداؤں کی نفی کریں ، اپنی مرادوں اور مقصدوں کی بھی نفی کریں ، اپنی مرادیں چاہنا (یعنی جو ہم چاہیں وہی ہوجائے گویا) خدائی کا دعویٰ کرنا ہے ا س لئے چاہئے کہ سینے میں کسی مراد کی کوئی گنجائش نہ رہے اور ہوس کا خیال تک نہ آنے پائے تاکہ حیات کی حقیقت متحقق ہو۔ نفسانی خواہشات جو کہ جھوٹے خدا ہیں کو کلمہ’’ لَا‘‘ کے تحت لائیں تاکہ ان سب کی نفی ہو جائے اور تمہارے سینے میں کوئی مقصد و مراد باقی نہ رہے حتّٰی کہ میری رہائی کی آرزوبھی جو اس وقت تمہاری سب سے اہم آرزوؤں میں ہے، نہ ہونی چاہئے، تقدیر اور اللہ تعالیٰ کے فعل و مشیت پر راضی رہیں ، جہاں بیٹھے ہوئے ہیں اسے اپنا وطن سمجھیں۔ یہ چند روزہ زندگی جہاں بھی گزرے اللہ تعالیٰ کی یاد میں گزرنی چاہئے۔ (مکتوبات امام ربانی، دفتر سوم، حصہ ہشتم، مکتوب دوم، ۲ / ۷-۸)
جیل میں تبلیغ کے حوالے سے ایک دوسرا واقعہ مُلا حظہ فرمائیں ،چنانچہ امامِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر نگہبانوں میں سے ایک شخص حسن بن قحطبہ نے امام اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے عرض کی: میرا کام آپ سے مخفی نہیں ہے ، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’اگر تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے کئے پر نادم ہو، اور جب تجھے کسی مسلمان کو قتل کرنے اور خود قتل ہونے میں اختیار دیا جائے تو تم اسے قتل کرنے پر اپنے قتل ہونے کو ترجیح دو اور اللہ تعالیٰ سے پختہ ارادہ کرو کہ آئندہ تم کسی مسلمان کو قتل نہیں کرو گے اور تم نے اس عہد کو پورا کر لیا تو سمجھ لینا کہ تیری توبہ قبول ہو گئی ہے۔(مناقب الامام الاعظم للکردری، الفصل السادس فی وفاۃ الامام رضی اللہ عنہ، ص۲۲، الجزء الثانی)
{قَالَ:فرمایا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان دونوں سے فرمایا: تمہیں جو کھانا دیا جاتا ہے اس کے تمہارے پاس آنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتا دوں گا جو تم نے میرے سامنے بیان کیا ہے۔ (بیضاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۸۷-۲۸۸) دوسری تفسیر یہ ہے کہ تم نے خواب میں جو کھانا دیکھا اور اس کے بارے میں مجھے خبر دی ہے، میں حقیقت میں اس طرح ہونے سے پہلے ہی تمہیں اس کی تعبیر بتا دوں گا۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ تمہارے گھروں سے جو کھانا تمہارے لئے آتا ہے اس کے آنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس کی مقدار ، اس کا رنگ ، تمہارے پاس آنے سے پہلے اس کے آنے کا وقت اور یہ کہ تم نے کیا کھایا ،کتنا کھایا اور کب کھایا بتا دوں گا۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۹۵۶، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۰، ملتقطاً)
{ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ:یہ ان علموں میں سے ہے جو مجھے میرے رب نے سکھایا ہے۔}حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر ان دونوں قیدیوں نے کہا ’’یہ علم تو کاہنوں اور نجومیوں کے پاس ہوتا ہے ،آپ کے پاس یہ علم کہاں سے آیا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا ’’ میں کاہن یا نجومی نہیں ہوں ، جس کے بارے میں ، میں تمہیں خبر دوں گا وہ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جو اس نے میری طرف فرمائی اور یہ وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھایا ہے۔ بیشک میں نے ان لوگوں کے دین کونہ مانا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۰)
یہاں خواب کی تعبیر سے متعلق ذکر ہوا،اس مناسبت سے ہم یہاں خواب بتانے کے آداب،خواب کی تعبیر بیان کرنے کے آداب،خواب کی تعبیر بیان کرنے والے مشہور علما اور اس موضوع پر مشتمل کتابوں کا ذکر کرتے ہیں اور خوابوں کی تعبیر سے متعلق حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا مبارک معمول بھی بیان کرتے ہیں :
خواب کے بارے میں تین اَحادیث :
(1)… صرف اس کے سامنے خواب بیان کیا جائے جو اس کی صحیح تعبیر بتا سکتا ہو یا وہ اس سے محبت رکھتا ہو یا وہ قریبی دوست ہو، حاسدوں اور جاہلوں کے سامنے خواب بیان کرنے سے بچنا چاہئے۔ صحیح بخاری میں ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتاہے جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو اس کا ذکر صرف اسی سے کرے جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اگر ایسا خواب دیکھے کہ جو اسے پسندنہ ہو تو اس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اسے پناہ مانگنی چاہئے اور (اپنی بائیں طرف )تین مرتبہ تھتکاردے اور اس خواب کو کسی سے بیان نہ کرے تو وہ کوئی نقصان نہ دے گا ۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب اذا رأی ما یکرہ فلا یخبر بہا ولا یذکرہا، ۴ / ۴۲۳، الحدیث: ۷۰۴۴)
(2)…اپنی طرف سے خواب بنا کر بیان نہ کیا جائے کہ اس پر حدیث پاک میں سخت وعید بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص ایسی خواب گھڑے جو اس نے دیکھی نہ ہو تو اسے اس چیز کا پابند کیا جائے گا کہ وہ جَوکے دو دانوں میں گرہ لگائے اوروہ ہر گزایسا نہ کرسکے گا۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب من کذب فی حلمہ، ۴ / ۴۲۲، الحدیث: ۷۰۴۲)
(3)…ڈراؤنے خواب دیکھنے سے متعلق حدیثِ پاک میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنی خواب سے گھبرا جائے تو کہہ لے ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَحْضُرُونِ‘‘ میں اللہ کے پورے کلمات کی پناہ لیتا ہوں اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے اور اس کے بندوں کے شر اور شیطانوں کے وسوسوں اور ان کی حاضری سے۔‘‘ تو تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچے گا۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۹۳-باب، ۵ / ۳۱۲، الحدیث: ۳۵۳۹)
خوابوں کی تعبیر بتانے کے آداب:
یاد رہے کہ خواب کی تعبیر بیان کرنا نہ ہر شخص کا کا م ہے اور نہ ہی ہر عالم خواب کی تعبیر بیان کر سکتا ہے بلکہ خواب کی تعبیر بتانے والے کے لئے ضروری ہے کہ اسے قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں بیان کی گئی خواب کی تعبیروں پر عبور ہو، الفاظ کے معانی، کنایا ت اور مجازات پر نظر ہو، خواب دیکھنے والے کے اَحوال اور معمولات سے واقفیت ہو اور خواب کی تعبیر بیان کرنے والا متقی و پرہیزگار ہو ۔موضوع کی مناسبت سے یہاں خواب کی تعبیر بیان کرنے کے 5آداب درج ذیل ہیں :
(1)…جب تعبیر بیان کرنے والے کے سامنے کوئی اپنا خواب بیان کر نے لگے تو وہ دعائیہ کلمات کے ساتھ اس سے کہے:جو خواب آپ نے دیکھا اس میں بھلائی ہو، آپ اپنا خواب بیان کریں۔
(2)…اچھے طریقے سے خواب سنے اور تعبیر بیان کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے۔
(3)…خواب سن کر ا س میں غور کرے ،اگر خواب اچھا ہو تو خواب بیان کرنے والے کو خوشخبری دے کر اس کی تعبیر بیان کرے اور اگر برا ہو تو اس کے مختلف اِحتمالات میں جو سب سے اچھا احتمال ہو وہ بیان کرے اور اگر خواب کا اچھا یا برا ہونا دونوں برابر ہوں تو اصول کی روشنی میں جسے ترجیح ہو وہ بیان کرے اور اگر ترجیح دینا ممکن نہ ہو تو خواب بیان کرنے والے کا نام پوچھ کر اس کے مطابق تعبیر بیان کر دے اور خواب بیان کرنے والے کو تعبیر سمجھا دے۔
(4)…سورج طلوع ہوتے وقت، زوال کے وقت اور غروب آفتاب کے وقت تعبیر بیان نہ کرے ۔
(5)…تعبیر بیان کرنے والے کو بتائے گئے خواب اس کے پاس امانت ہیں اس لئے وہ ان خوابوں کو کسی اور پر بلا ضرورت ظاہر نہ کرے۔
خواب کی تعبیر بیان کرنے والے مشہور علما اورتعبیر پر مشتمل کتابیں :
خوابوں کی تعبیر بیان کرنے میں مہارت رکھنے والے علما نے اس موضوع پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں ،ان میں سے ایک امام المعبرین حضرت امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب’’ تَفْسِیْرُ الْاَحْلَامِ الْکَبِیرْ‘‘ہے جو کہ’’ تعبیرُ الرُّؤیا‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور ایک کتاب علامہ عبد الغنی نابُلسیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ہے جو کہ ’’تَعْبِیْرُ الْمَنَامْ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
خواب کی تعبیر سے متعلق نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا معمول اور دو خوابوں کی تعبیریں:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں احادیثِ صحیحہ سے ثابت کہ حضورِ اقدس، سید عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ اسے (یعنی خواب کو) امرِ عظیم جانتے اور اس کے سننے، پوچھنے، بتانے، بیان فرمانے میں نہایت درجے کا اہتمام فرماتے ۔ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے ہے، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نمازِ صبح پڑھ کر حاضرین سے دریافت فرماتے: آج کی شب کسی نے کوئی خواب دیکھا؟ جس نے دیکھا ہوتا (وہ ) عرض کرتا (اور) حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،اس خواب کی ) تعبیر فرماتے ۔(بخاری، کتاب الجنائز، ۹۳-باب، ۱ / ۴۶۷، الحدیث: ۱۳۸۶)۔(فتاوی رضویہ، ۲۲ / ۲۷۰-۲۷۱)
اسی سلسلے میں دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا پیالہ لایا گیا، میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ ا س کی سیرابی میرے ناخنوں سے بھی نکلنے لگی، پھر میں نے اپنا بچا ہوا حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو دے دیا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس سے کیا مراد لیتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا (اس سے مراد) علم (ہے)۔(بخاری، کتاب التعبیر، باب اللبن، ۴ / ۴۱۱، الحدیث: ۷۰۰۶)
حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : میں نے دیکھا کہ گویا میں ایک باغ میں ہوں اور باغ کے درمیان میں ایک ستون ہے جس کی چوٹی پر ایک حلقہ ہے، مجھ سے کہا گیا کہ اس پر چڑھو، میں نے کہا: مجھ میں اتنی طاقت نہیں ، پھر میرے پاس ایک ملازم آیا اور اس نے میرے کپڑے سنبھالے تو میں چڑھ گیا اور میں نے اُس حلقے کو پکڑ لیا، جب میں بیدار ہوا تو میں نے حلقہ پکڑ اہوا تھا، پھر میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ خواب بیان کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’وہ باغ تواسلام کا باغ ہے اور وہ ستون بھی اسلام کا ستون ہے اور وہ حلقہ مضبوط حلقہ ہے یعنی آخری وقت تک تم اسلام کو ہمیشہ پکڑے رہو گے۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب التعلیق بالعروۃ والحلقۃ، ۴ / ۴۱۳، الحدیث: ۷۰۱۴)
{وَ اتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَآءِیْ:اور میں نے اپنے باپ دادا کا دین اختیار کیا۔} حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے معجزے کا اظہار فرمانے کے بعدیہ بھی ظاہر فرما دیا کہ آپ خاندانِ نبوت سے ہیں اور آپ کے آباء و اَجداد انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ، جن کا بلندمرتبہ دنیا میں مشہور ہے۔ اس سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا مقصد یہ تھا کہ سننے والے آپ کی دعوت قبول کریں اور آپ کی ہدایت مانیں اور فرمایا کہ ہمارے لئے ہرگز جائز نہیں کہ ہم کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائیں۔ نیز توحید اختیار کرنا اور شرک سے بچنا ہم پر اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے مگر اکثر لوگ اُن نعمتوں پر شکر نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کی ہیں اور ان کی ناشکری یہ ہے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی عبادت بجانہیں لاتے اور مخلوق پَرستی کرتے ہیں۔( تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۸، ۶ / ۴۵۶، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۲۰-۲۱، ملتقطاً)
{یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ:اے میرے قیدخانے کے دونوں ساتھیو!۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے قید خانے کے ساتھیوں سے فرمایا کہ کیا جدا جدا رب جیسا کہ بت پرستوں نے بنا رکھے ہیں کہ کوئی سونے کا ، کوئی چاندی کا ، کوئی تانبے کا ، کوئی لوہے کا ، کوئی لکڑی کا ، کوئی پتھر کا، کوئی اور کسی چیز کا، کوئی چھوٹا کوئی بڑا، مگر سب کے سب نکمے بے کار، نہ نفع دے سکیں نہ ضرر پہنچاسکیں ، ایسے جھوٹے معبود اچھے ہیں یا ایک اللہ تعالیٰ جو سب پر غالب ہے کہ نہ کوئی اس کا مقابل ہوسکتا ہے نہ اس کے حکم میں دخل دے سکتا ہے ، نہ اس کا کوئی شریک ہے نہ نظیر، سب پر اس کا حکم جاری اور سب اس کی ملک میں ہیں۔( خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۲۱، ملخصاً)
تبلیغ میں الفاظ نرم اور دلائل مضبوط استعمال کرنے چاہئیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تبلیغ میں الفاظ نرم اور دلائل قوی استعمال کرنے چاہئیں جیسے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نرم الفاظ کے ساتھ ان دو افراد کو اسلام قبول کرنے کی طرف مائل کیا۔
{مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً:تم اس کے سوا صرف ایسے ناموں کی عبادت کرتے ہو۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان قیدیوں کو جدا جدا خداؤں کے فساد پر آگاہ کیا توان کے سامنے بیان کیا کہ اِن بتوں کا معبود ہونا دور کی بات ہے ان کی تو اپنی کوئی حقیقت ہی نہیں چنانچہ فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا صرف ایسے ناموں کی عبادت کرتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے اپنی جہالت اور گمراہی کی وجہ سے تراش لیے ہیں ،خارج میں ان کا کوئی وجود ہی نہیں کہ وہ ان ناموں کے مِصداق قرار پائیں ، تم جن کی عبادت کرتے ہو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے درست ہونے پر کوئی دلیل نہیں اتاری۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے اور بتوں کی عبادت کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا حکم وہ ہے جو اس نے اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ذریعے دیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور یہی عقلمندی کا تقاضا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا عبادت کے لئے خاص ہونا ہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ دلائل سے جہالت کی وجہ سے نہیں جانتے کہ یہی سیدھا دین ہے اور وہ فرضی ناموں کی پوجا میں لگے ہوئے ہیں۔ (ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۱۰۹)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan