Surah Yusuf
{ اِرْجِعُوْۤا اِلٰۤى اَبِیْكُمْ:تم اپنے باپ کے پاس لوٹ کر جاؤ۔} جس بھائی نے مصر میں ہی ٹھہرنے کا عزم کیا تھا ا س نے بقیہ بھائیوں سے کہا کہ تم اپنے والدحضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس لوٹ کر جاؤ اور ان سے عرض کرو: اے ہمارے باپ! بیشک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بیٹے کی طرف چوری کی نسبت کی گئی اور ہم اتنی ہی بات کے گواہ ہیں جتنی ہمیں معلوم ہے کہ پیالہ اُن کے کجاوے میں سے نکلا اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے اور ہمیں خبر نہ تھی کہ یہ صورت پیش آئے گی، حقیقتِ حال اللّٰہعَزَّوَجَلَّ ہی جانے کہ کیا ہے اور پیالہ کس طرح بنیامین کے ساما ن سے برآمد ہوا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۳۷-۳۸، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۵۴۱، ملتقطاً)
{ وَ سْــٴَـلِ الْقَرْیَةَ:اور شہر والوں سے پوچھ لیجیے۔} بھائیوں کو یہ باتیں والد صاحب سے کہنے کا حکم دینے سے ا س کا مقصد یہ تھا کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے ان بھائیوں پر سے تہمت اچھی طرح زائل ہو جائے کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں یہ تہمت کا سامنا کر چکے تھے۔ پھر یہ لوگ اپنے والد کے پاس واپس آئے اور سفر میں جو کچھ پیش آیا تھا اس کی خبر دی اور بڑے بھائی نے جو کچھ بتادیا تھا وہ سب والد صاحب سے عرض کر دیا۔( خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۳۸)
{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ چوری کی نسبت بنیامین کی طرف غلط ہے اور چوری کی سزا غلام بنانا ، یہ بھی کوئی کیا جانے اگر تم فتویٰ نہ دیتے اور تم نہ بتاتے ، تمہارے نفس نے تمہارے لئے کچھ حیلہ بنا دیا ہے تو اب بھی میرا عمل عمدہ صبر ہے۔ عنقریب اللّٰہ تعالیٰ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکواور اُن کے دونوں بھائیوں کو میرے پاس لے آئے گا۔ بیشک وہی میرے افسوس اور غم کی حالت کو جانتا ہے اور اس نے کسی حکمت کی وجہ سے ہی مجھے اس میں مبتلا کیا ہے۔(روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۳، ۴ / ۳۰۴-۳۰۵)
{وَ تَوَلّٰى عَنْهُمْ:اور یعقوب نے ان سے منہ پھیرا۔} یعنی حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بنیامین کی خبرسن کر اپنے بیٹوں سے منہ پھیر لیا اور اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا حزن و ملال انتہا کو پہنچ گیا، جب بیٹوں سے منہ پھیرا تو فرمایا ’’ ہائے افسوس! یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جدائی پر۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے غم میں روتے رہے یہاں تک کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی آنکھ کی سیاہی کا رنگ جاتا رہا اور بینائی کمزور ہوگئی ۔ حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جدائی میں حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام 80برس روتے رہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۳۹)
یاد رہے کہ عزیزوں کے غم میں رونا اگر تکلیف اور نمائش سے نہ ہو اور اس کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت و بے صبری کا مظاہرہ نہ ہو تو یہ رحمت ہے، اُن غم کے دنوں میں حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبانِ مبارک پر کبھی کوئی بے صبری کاکلمہ نہ آیا تھا۔
{قَالُوْا:بھائیوں نے کہا۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے اپنے والد محترم سے کہا ’’ اللّٰہ کی قسم! آپ ہمیشہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یاد کرتے رہیں گے اور ان سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی محبت کم نہ ہوگی یہاں تک کہ شدّتِ غم کی وجہ سے آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مرنے کے قریب ہوجائیں گے یا فوت ہی ہوجائیں گے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۳۹)
{قَالَ:یعقوب نے کہا۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بیٹوں کی بات سن کر ان سے کہا ’’ میری پریشانی اور غم کم ہو یا زیادہ ،میں اس کی فریاد تم سے یا اور کسی سے نہیں بلکہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ ہی سے کرتا ہوں اور اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت اور احسان سے مجھے وہاں سے آسانی عطا کرے گا جہاں سے میرا گمان بھی نہ ہو گا۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ا س فرمان ’’ میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللّٰہ ہی سے کرتا ہوں ‘‘ سے معلوم ہوا کہ غم اور پریشانی میں اللّٰہ تعالیٰ سے فریا دکرنا صبر کے خلاف نہیں ، ہاں بے صبری کے کلمات منہ سے نکالنا یا لوگوں سے شکوے کرنا بے صبری ہے۔ نیز آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس فرمان ’’اور میں اللّٰہ کی طرف سے وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جانتے تھے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامزندہ ہیں اور ان سے ملنے کی تَوقّع ہے اور یہ بھی جانتے تھے کہ اُن کا خواب حق ہے اور ضرور واقع ہوگا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام سے دریافت کیا کہ تم نے میرے بیٹے یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی روح قبض کی ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا : نہیں ، اس سے بھی آپ کو اُن کی زندگانی کا اِطمینان ہوا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے فرزندوں سے فرمایا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۶، ۳ / ۴۰-۴۱، ملخصاً)
{یٰبَنِیَّ:اے بیٹو!} یعنی اے میرے بیٹو! تم مصر کی طرف جاؤ اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائی بنیامین کو تلاش کرو۔ بیٹوں نے کہا ’’ہم بنیامین کے معاملے میں کوشش کرنا تو نہیں چھوڑیں گے البتہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ اب زندہ نہیں ا س لئے ہم انہیں تلاش نہیں کریں گے۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کی صفات کو نہیں جانتے اور مومن چونکہ اللّٰہتعالیٰ اور اس کی صفات کو جانتا ہے ا س لئے وہ تنگی آسانی، غمی خوشی کسی بھی حال میںاللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۷، ۴ / ۳۰۹، ملخصاً)
اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہو نا چاہئے:
اس سے معلوم ہوا کہ زندگی میں پے در پے آنے والی مصیبتوں ،مشکلوں اور دشواریوں کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ حقیقی طور پر دنیا و آخرت کی تمام مشکلات کو دور کرنے والا اور تنگی کے بعد آسانیاں عطا کرنے والا اس کے سوا اور کوئی نہیں ۔
{فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیْهِ:پھر جب وہ یوسف کے پاس پہنچے۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا حکم سن کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائی پھر مصر کی طرف روانہ ہوئے، جب وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچے تو کہنے لگے : اے عزیز! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو تنگی ، بھوک کی سختی اور جسموں کے دبلا ہوجانے کی وجہ سے مصیبت پہنچی ہوئی ہے ، ہم حقیر سا سرمایہ لے کر آئے ہیں جسے کوئی سودا گر اپنے مال کی قیمت میں قبول نہ کرے۔ وہ سرمایا چند کھوٹے درہم اور گھر کی اشیاء میں سے چند پرانی بوسیدہ چیزیں تھیں ، آپ ہمیں پورا ناپ دیدیجئے جیسا کھرے داموں سے دیتے تھے اور یہ ناقص پونجی قبول کرکے ہم پر کچھ خیرات کیجئے بیشک اللّٰہ تعالیٰ خیرات دینے والوں کو صلہ دیتا ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۴۱، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۵۴۳، ملتقطاً)
{قَالَ:یوسف نے فرمایا۔} بھائیوں کا یہ حال سن کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر گریہ طاری ہوگیا اور مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا کیا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو مارنا ،کنوئیں میں گرانا، بیچنا، والد صاحب سے جدا کرنا اور اُن کے بعد اُن کے بھائی کو تنگ رکھنا، پریشان کرنا تمہیں یاد ہے اور یہ فرماتے ہوئے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو تبسم آگیا اور اُنہوں نے آپ کے گوہرِ دندان کا حسن دیکھ کر پہچانا کہ یہ تو جمالِ یوسفی کی شان ہے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۹، ص۵۴۳، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۹-۹۰، ۳ / ۴۲، ملتقطاً)
{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائیوں نے کہا ’’کیا واقعی آپ ہی یوسف ہیں ؟ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا ’’ہاں ، میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ،بیشک اللّٰہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا ، ہمیں جدائی کے بعد سلامتی کے ساتھ ملایا اور دین و دنیا کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ بے شک جو گناہوں سے بچے اور اللّٰہ تعالیٰ کے فرائض کی بجا آوری کرے، اپنے نفس کو ہر ا س بات یا عمل سے روک کر رکھے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے اس پر حرام فرمایا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کا ثواب اورا س کی اطاعت گزاریوں کی جزا ضائع نہیں کرتا۔ (تفسیر طبری، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۰، ۷ / ۲۹۰، ملخصاً)
{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے اپنی خطاؤں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ’’خدا کی قسم! بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو منتخب فرمایا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ہم پر علم ، عقل، صبر، حلم اور بادشاہت میں فضیلت دی، بے شک ہم خطاکار تھے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کوعزت دی، بادشاہ بنایا اور ہمیں مسکین بنا کر آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے لایا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۴۳، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۵۴۳، ملتقطاً)
{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا آج اگرچہ ملامت کرنے کا دن ہے ،لیکن میری جانب سے تم پر آج اور آئندہ کوئی ملامت نہ ہوگی، پھر بھائیوں سے جو خطائیں سرزد ہوئی تھیں ان کی بخشش کے لئے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔(مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۵۴۳)
حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائیوں کے بارے میں ناشائستہ کلمات کہنے کا حکم:
آج کل لوگ باہمی دھوکہ دہی میں مثال کیلئے برادرانِ یوسف کا لفظ بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں اس سے اِحتراز کرنا چاہیے۔ برادرانِ یوسف کا ادب و احترام کرنے کا حکم ہے اور ان کی تَوہین سخت ممنوع و ناجائز ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں’’ان کی نسبت کلماتِ ناشائستہ لانا بہر حال حرام ہے، ایک قول ان کی نبوت کا ہے ۔۔۔اور ظاہرِ قرآنِ عظیم سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے:قَالَ تَعَالٰی:
قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ٘-وَ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ(بقرہ:۱۳۶) |
( اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے)تم کہو: ہم اللّٰہ پر اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے اور اس پر جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف نازل کیا گیا اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو باقی انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا۔ ہم ایمان لانے میں ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللّٰہ کے حضور گردن رکھے ہوئے ہیں ۔(ت) |
اَسباط یہی اَبنائے یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ، اس تقدیر پر تو ان کی تَوہین کفر ہوگی ورنہ اس قدر میں شک نہیں کہ وہ اولیائے کرام سے ہیں اور جو کچھ ان سے واقع ہو ا اپنے باپ کے ساتھ محبت ِشدیدہ کی غیرت سے تھا پھر وہ بھی ربُّ العزت نے معاف کردیا۔ اور یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خود عفو فرمایا
قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘-وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ |
فرمایا: آج تم پر کوئی ملامت نہیں ، اللّٰہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔(ت) |
اور یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا
سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ |
عنقریب میں تمہارے لئے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا ، بیشک وہی بخشنے والا، مہربان ہے۔(ت) |
بہر حال ان کی توہین سخت حرام ہے اور باعثِ غضب ِذوالجلال والاِکرام ہے، رب عَزَّوَجَلَّ نے کوئی کلمہ ان کی مذمت کا نہ فرمایا دوسرے کو کیا حق ہے، مناسب ہے کہ توہین کرنے والا تجدیدِ اسلام وتجدیدِ نکاح کرے کہ جب اِن کی نبوت میں اختلاف ہے اُس کے کفر میں اختلاف ہوگا اور کفر اختلافی کا یہی حکم ہے۔ (فتاوی رضویہ، کتاب السیر، ۱۵ / ۱۶۴-۱۶۵)
{اِذْهَبُوْا بِقَمِیْصِیْ هٰذَا:میرا یہ کرتا لے جاؤ۔} جب تعارف ہو گیا تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھائیوں سے اپنے والد ماجد کا حال دریافت کیا ۔ اُنہوں نے کہا ’’آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی جدائی کے غم میں روتے روتے اُن کی بینائی بحال نہیں رہی ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’میرا یہ کرتا لے جاؤ جو میرے والد ماجد نے تعویذ بنا کر میرےگلے میں ڈال دیا تھا اوراسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دینا وہ دیکھنے والے ہوجائیں گے اور اپنے سب گھر بھر کو میرے پاس لے آؤ تاکہ جس طرح وہ میری موت کی خبر سن کر غمزدہ ہوئے اسی طرح میری بادشاہت کا نظارہ کر کے خوش ہو جائیں ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۵۴۴، ملخصاً)
بزرگوں کے تبرکات بھی دافعِ بلا ، مشکل کشا ہوتے ہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے تبرکات اور ان کے مبارک جسموں سے چھوئی ہوئی چیزیں بیماریوں کی شفا، دافع بلا اور مشکل کشا ہوتی ہیں ۔ قرآن و حدیث اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی مبارک زندگی کا مطالعہ کریں تو ایسے واقعات بکثر ت مل جائیں گے جن میں بزرگانِ دین کے مبارک جسموں سے مَس ہونے والی چیزوں میں شفا کا بیان ہو۔ سرِ دست 2واقعات یہاں ذکر کئے جاتے ہیں ۔
(1)…حضرت اُمِّ جند ب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں’’میں نے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے قربانی کے دن بطنِ وادی کی جانب سے جمرۂ عقبہ کی رَمی فرمائی، جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رمی سے فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو خَثْعَمْ قبیلے کی ایک خاتون گود میں بچہ اٹھائے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے گھرانے میں ایک ہی بچہ باقی رہ گیا ہے اور اس پر بھی کچھ اثر ہے جس کی وجہ سے یہ بولتا نہیں ۔ یہ سن کر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تھوڑا سا پانی لاؤ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے پانی پیش کر دیا، نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس پانی سے دونوں ہاتھوں کو دھویا، منہ میں پانی لے کر کلی کی اور اس عورت سے فرمایا ’’یہ پانی اس بچے کو پلا دیا کرو اور کچھ اس کے اوپر چھڑک دیا کرو اور اللّٰہ تعالیٰ سے ا س کے لئے شفا طلب کرو۔ حضرت اُمِّ جندب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں ’’میں نے اس عورت سے ملاقات کی اور اس سے کہا ’’تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دو۔ اس عورت نے جواب دیا ’’یہ پانی بچے کی صحت کے لئے ہے اس لئے میں نہیں دے سکتی۔ حضرت ام جندب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں’’دوسرے سال جب اس عورت سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے بچے کا حال پوچھا۔ اس نے جواب دیا ’’وہ بچہ بہت تندرست، ذہین اور عقل مند ہو گیا ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الطب، باب النشرۃ، ۴ / ۱۲۹، الحدیث: ۳۵۳۲)
(2)… اُمّ المومنین حضرت امِّ سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکے پاس حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چند موئے مبارک تھے جنہیں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے چاندی کی ایک ڈبیہ میں رکھا ہو اتھا۔ لوگ جب بیمار ہوتے تو وہ ان گیسوؤں سے برکت حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا طلب کرتے ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گیسوؤں کو پانی کے پیالے میں رکھ کر وہ پانی پی جاتے تو انہیں شفا مل جایا کرتی۔(عمدۃ القاری، کتاب اللباس، باب ما یذکر فی الشیب، ۱۵ / ۹۴، تحت الحدیث: ۵۸۹۶)
{ وَ لَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ:اور جب قافلہ وہاں سے جدا ہوا۔} یعنی جب قافلہ مصر کی سرزمین سے نکلا اور کنعان کی طرف روانہ ہوا تو حضرت یعقوبعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے بیٹوں اور پوتوں یا پوتوں اور پاس والوں سے فرما دیا ’’بیشک میں یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قمیص سے جنت کی خوشبو پا رہا ہوں ۔ اگر تم مجھے کم سمجھ نہ کہو تو تم ضرور میری بات کی تصدیق کرو گے۔ (جلالین مع صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۹۷۹، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۴، ص۵۴۴ملتقطاً)
{قَالُوْا:حاضرین نے کہا۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کرحاضرین نے ان سے کہا ’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! آپ اپنی اسی پرانی شدید محبت میں گم ہیں جس کی وجہ سے ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ملنے کی امید لگی ہوئی ہے ۔یہ بات انہوں نے اس لئے کہی کیونکہ وہ اس گمان میں تھے کہ اب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کہاں زندہ ہوں گے اُن کی تو وفات بھی ہوچکی ہوگی۔ (جلالین مع صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۵، ۳ / ۹۸۰، ابو سعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۵، ۳ / ۱۳۸، ملتقطاً)
{فَلَمَّاۤ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ:پھر جب خوشخبری سنانے والا آیا۔} جمہور مفسرین فرماتے ہیں کہ خوشخبری سنانے والے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی یہودا تھے ۔ یہودا نے کہا کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس خون آلودہ قمیص بھی میں ہی لے کر گیا تھا، میں نے ہی کہا تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیڑیا کھا گیا، میں نے ہی اُنہیں غمگین کیا تھا اس لئے آج کُرتا بھی میں ہی لے کر جاؤں گا اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی زندگانی کی فرحت انگیز خبر بھی میں ہی سناؤں گا ۔ چنانچہ یہودا برہنہ سر اور برہنہ پا کُرتا لے کر 80 فرسنگ (یعنی240میل) دوڑتے آئے ، راستے میں کھانے کے لئے سات روٹیاں ساتھ لائے تھے، فَرطِ شوق کا یہ عالَم تھا کہ اُن کو بھی راستہ میں کھا کر تمام نہ کرسکے ۔ الغرض یہودا نے جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قمیص حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے چہرے پر ڈالی تو اسی وقت ان کی آنکھیں درست ہوگئیں اور کمزوری کے بعد قوت اور غم کے بعد خوشی لوٹ آئی، پھر حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامزندہ ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ ہمیں آپس میں ملا دے گا۔(تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۶ / ۵۰۸، جمل مع جلالین، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۴ / ۸۰، ملتقطاً)
{قَالُوْا:بیٹوں نے کہا۔} یعنی جب حق بات ظاہر اور واضح ہو گئی تو بیٹوں نے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے اپنی خطاؤں کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کی ’’اے ہمارے باپ! آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ سے ہمارے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے بے شک ہم خطاکار ہیں ۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۹۸۰)
{قَالَ:فرمایا۔} مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بیٹوں کے لئے دعا اور استغفار کو سحری کے وقت تک مؤخر فرمایا کیونکہ یہ وقت دعا کے لئے سب سے بہترین ہے اور یہی وہ وقت ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ ہے کوئی دعا مانگنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں ، چنانچہ جب سحری کا وقت ہوا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے نماز پڑھنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر اللّٰہ تعالیٰ کے دربار میں اپنے صاحبزادوں کے لئے دعا کی، دعا قبول ہوئی اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وحی فرمائی گئی کہ صاحبزادوں کی خطا بخش دی گئی ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والد ماجد کو اور اُن کے اہل واولاد کوبلانے کے لئے اپنے بھائیوں کے ساتھ 200 سواریاں اور کثیر سامان بھیجا تھا ، حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے مصر کا ارادہ فرمایا اور اپنے اہلِ خانہ کو جمع کیا جو کل مرد وعورت 72 یا73 افراد تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اُن میں یہ برکت فرمائی کہ ان کی نسل اتنی بڑھی کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو چھ لاکھ سے زیادہ تھے جبکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا زمانہ ان سے صرف 400 سال بعد کا ہے، الحاصل جب حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مصر کے قریب پہنچے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مصر کے بادشاہِ اعظم کو اپنے والد ماجد کی تشریف آوری کی اطلاع دی اور چار ہزار لشکری اور بہت سے مصری سواروں کو ہمراہلے کر آپ اپنے والد صاحب کے استقبال کے لئے صدہا ریشمی پھریرے اُڑاتے اور قطاریں باندھے روانہ ہوئے۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے فرزند یہودا کے ہاتھ پر ٹیک لگائے تشریف لا رہے تھے ،جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نظر لشکرپر پڑی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے دیکھا کہ صحرا زَرق بَرق سواروں سے پُر ہورہا ہے تو فرمایا ’’ اے یہودا! کیا یہ فرعونِ مصر ہے جس کا لشکر اس شان وشوکت سے آرہا ہے ؟یہودا نے عرض کی’’ نہیں ،یہ حضور کے فرزند حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہیں۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو متعجب دیکھ کر عرض کیا ’’ہوا کی طرف نظر فرمایئے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خوشی میں شرکت کے لئے فرشتے حاضر ہوئے ہیں جو کہ مدتوں آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے غم کی وجہ سے روتے رہے ہیں ۔ فرشتوں کی تسبیح ، گھوڑوں کے ہنہنانے اور طبل و بگل کی آوازوں نے عجیب کیفیت پیدا کردی تھی ۔یہ محرم کی دسویں تاریخ تھی ۔جب دونوں حضرات یعنی حضرت یعقوب اور حضرت یوسف عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قریب ہوئے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سلام عرض کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیا کہ آپ توقف کیجئے اور والد صاحب کو پہلے سلام کا موقع دیجئے، چنانچہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَامُذْھِبَ الْاَحْزَانِ‘‘ یعنی اے غم و اَندو ہ کے دور کرنے والے سلام ! اور دونوں صاحبوں نے اُتر کر معانقہ کیا اور مل کر خوب روئے، پھر اس مزین رہائش گاہ میں داخل ہوئے جو پہلے سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے استقبال کے لئے نفیس خیمے وغیرہ نصب کرکے آراستہ کی گئی تھی۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۸، ۳ / ۴۴-۴۵، جمل مع جلالین، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۸-۹۹، ۴ / ۸۰-۸۱، ملتقطاً) یہ داخل ہونا حدودِ مصر میں تھا اس کے بعد دوسری بار داخل ہونا خاص شہر میں ہے جس کا بیان اگلی آیت میں ہے۔
{اٰوٰۤى اِلَیْهِ اَبَوَیْهِ:اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی۔} ماں سے مراد خالہ ہے، (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۴۵)اور اس کے علاوہ بھی مفسرین کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں ۔
{اُدْخُلُوْا مِصْرَ:تم مصر میں داخل ہوجاؤ۔} یہاں داخل ہونے سے خاص شہر میں داخل ہونا مراد ہے یعنی شہر ِمصر میں داخل ہو جاؤ اگر اللّٰہ تعالیٰ نے چاہا تو ہر ناپسندیدہ چیز سے امن وامان کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے۔ (جلالین مع صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۹۸۱، ملخصاً)
{وَ رَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَى الْعَرْشِ:اوراس نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ مصر میں داخل ہوئے اور دربارِ شاہی میں اپنے تخت پر جلوہ افروز ہوئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے والدین کو بھی اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا، اس کے بعد والدین اور سب بھائیوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کیا ۔ یہ سجدۂ تعظیم اور عاجزی کے اظہار کے طور تھا اور اُن کی شریعت میں جائز تھا جیسے ہماری شریعت میں کسی عظمت والے کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا، مصافحہ کرنا اور دست بوسی کرنا جائز ہے۔(مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۵۴۵)
یاد رہے کہ سجدۂ عبادت اللّٰہ تعالیٰ کے سوا اورکسی کے لئے کبھی جائز نہیں ہوا اورنہ ہوسکتا ہے کیونکہ یہ شرک ہے اور سجدۂ تعظیمی بھی ہماری شریعت میں جائز نہیں۔ سجدۂ تعظیمی کی حرمت سے متعلق تفصیلی معلومات کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 22ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰیعَلَیْہِ کا رسالہ ’’اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہْ فِیْ تَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّہْ ‘‘(غیر اللّٰہ کے لئے سجدۂ تعظیمی حرام ہونے کا بیان) مطالعہ کیجئے۔
{وَ قَالَ:اور یوسف نے کہا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے جب انہیں سجدہ کرتے دیکھا تو فرمایا : اے میرے باپ! یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے بچپن کی حالت میں دیکھا تھا۔ بیشک وہ خواب میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے بیداری کی حالت میں سچا کردیا اور بیشک اس نے قید سے نکال کر مجھ پر احسان کیا ۔ اس موقع پر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کنوئیں کا ذکر نہ کیا تاکہ بھائیوں کو شرمندگی نہ ہو ۔ مزید فرمایا کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں حسد کی وجہ سے ناچاقی کروا دی تھی تو اس کے بعد میرا رب عَزَّوَجَلَّ آپ سب کو گاؤں سے لے آیا۔ بیشک میرا رب عَزَّوَجَلَّ جس بات کو چاہے آسان کردے، بیشک وہی اپنے تمام بندوں کی ضروریات کو جاننے والااور اپنے ہر کام میں حکمت والا ہے۔
حضرت یعقوبعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات:
تاریخ بیان کرنے والے علما فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے فرزند حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس مصر میں چوبیس سال بہترین عیش و آرام میں اور خوش حالی کے ساتھ رہے، جب وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کووصیت کی کہ آپ کا جنازہ ملک ِشام میں لے جا کر ارضِ مقدّسہ میں آپ کے والد حضرت اسحٰق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر شریف کے پاس دفن کیا جائے ۔اس وصیت کی تعمیل کی گئی اور وفات کے بعد ساج کی لکڑی کے تابوت میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا جسد ِاطہر شام میں لایا گیا ،اسی وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی عیص کی وفات ہوئی ،آپ دونوں بھائیوں کی ولادت بھی ساتھ ہوئی تھی اور دفن بھی ایک ہی قبر میں کئے گئے اور دونوں صاحبوں کی عمر147(یا 145)سال تھی۔ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے والد اور چچا کو دفن کرکے مصر کی طرف واپس روانہ ہوئے تو آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دعا کی جو اگلی آیت میں مذکور ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۴۶-۴۷)
{رَبِّ:اے میرے رب!} اس آیت میں حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے جو اسلام کی حالت میں موت عطا ہونے کی دعا مانگی، ان کی یہ دعا دراصل امت کی تعلیم کے لئے ہے کہ وہ حسنِ خاتمہ کی دعا مانگتے رہیں ۔
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی وفات اور تدفین:
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماپنے والد ماجد کے بعد 23 سال زندہ رہے، اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات ہوئی، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے مقامِ دفن کے بارے میں اہلِ مصر کے اندر سخت اختلاف واقع ہوا، ہر محلہ والے حصولِ برکت کے لئے اپنے ہی محلہ میں دفن کرنے پر مُصر تھے، آخر یہ رائے طے پائی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دریائے نیل میں دفن کیا جائے تاکہ پانی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر سے چھوتا ہوا گزرے اور اس کی برکت سے تمام اہلِ مصر فیض یاب ہوں چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو سنگِ رِخام یا سنگِ مرمر کے صندوق میں دریائے نیل کے اندر دفن کیا گیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہیں رہے یہاں تک کہ 400 برس کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا تابوت شریف نکالا اور آپ کو آپ کے آبائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس ملکِ شام میں دفن کیا۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۵۴۶، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۴۷، ملتقطاً)
{ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ:یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں ۔}اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے جو واقعات ذکر کئے گئے یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو کہ وحی نازل ہونے سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو معلوم نہ تھیں کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاس وقت حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں کے پاس نہ تھے جب انہوں نے اپنے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو کنویں میں ڈالنےکا پختہ ارادہ کر لیا تھا اور وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں سازش کر رہے تھے ، اس کے باوجود اے اَنبیاء کے سردار! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا ان تمام واقعات کو اس تفصیل سے بیان فرمانا غیبی خبر اور معجزہ ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۳ / ۴۷-۴۸، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۵۴۶-۵۴۷، ملتقطاً)
{اَكْثَرُ النَّاسِ:اکثر لوگ ۔} یہودیوں اور کفارِ قریش نے سرورِ عالمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا قصہ دریافت کیا تھا، جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسی طرح حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا قصہ ان کے سامنے بیان کر دیا جیسا تورات میں لکھاتھا تو بھی وہ ایمان نہ لائے، ان کے ایمان قبول نہ کرنے کی وجہ سے حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت دکھ ہوا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے اگرچہ آپ کو ان کے ایمان کی کتنی ہی خواہش ہو۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۳ / ۴۸)
{وَ كَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ:اور کتنی نشانیاں ہیں ۔} آسمانی نشانیوں سے مراد اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کی قوت و قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیاں یعنی آسمان کا وجود، سورج، چاند اور ستارے ہیں اور زمینی نشانیوں سے ہلاک شدہ امتوں کے آثار مراد ہیں ۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان لوگوں کے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے منہ موڑنے پر آپ تعجب نہ کریں کیونکہ ان لوگوں کا اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیوں کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ان سے منہ پھیرلینا اور غورو فکر کر کے عبرت حاصل نہ کرنازیادہ عجیب ہے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ص۵۴۷، صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۹۸۴، ملتقطاً)
{وَ مَا یُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ:اور ان میں اکثر وہ ہیں جو اللّٰہ پر یقین نہیں کرتے۔} جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے خالق اور رازق ہونے کا اقرار کرنے کے باوجود بت پرستی کرکے غیروں کو عبادت میں اللّٰہ تعالیٰ کا شریک کرتے تھے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ص۵۴۷)
{اَفَاَمِنُوْا:کیا وہ اس بات سے بے خوف ہیں ۔} یعنی جو لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتے اور غیرُ اللّٰہ کی عبادت کرنے میں مصروف ہیں کیا انہیں اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کی وجہ سے ان پر اللّٰہ تعالیٰ کا ایسا عذاب نازل ہو جائے جو مکمل طور پر انہیں اپنی گرفت میں لے لے یا اسی شرک اور کفر کی حالت میں اچانک ان پر قیامت آ جائے اور اللّٰہ تعالیٰ دائمی عذاب کے لئے انہیں دوزخ میں ڈال دے۔ (تفسیر طبری، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۷ / ۳۱۴)
{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اِن مشرکین سے فرما دیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت اور دینِ اسلام کی دعوت دینا یہ میرا راستہ ہے ، میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی توحید اور اس پر ایمان لانے کی طرف بلاتا ہوں ۔ میں اور میری پیروی کرنے والے کامل یقین اور معرفت پر ہیں ۔
صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی فضیلتـ:
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ سرکارِ دو عالمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُماحسن راستے اور افضل ہدایت پر ہیں ، یہ علم کے معدن، ایمان کے خزانے اوررحمٰن کے لشکر ہیں ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’طریقہ اختیار کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ گزرے ہوؤں کا طریقہ اختیار کریں ، گزرے ہوئے حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ، ان کے دِل اُمت میں سب سے زیادہ پاک، علم میں سب سے گہرے، تَکلُّف میں سب سے کم ہیں ، وہ ایسے حضرات ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت اور اُن کے دین کی اشاعت کے لئے چن لیا۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۳ / ۴۸-۴۹)
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا:اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب مرد ہی تھے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل ِمکہ نے کہا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نبی کیوں نہ بنا کر بھیجا، اس آیت میں انہیں جواب دیا گیا کہ وہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے انسان ہونے پر حیران کیوں ہیں حالانکہ ان سے پہلے جتنے بھی اللّٰہ تعالیٰ کے رسول تشریفلائے سب ان کی طرح انسان اور مردہی تھے ،کسی فرشتے ،جن، عورت اور دیہات میں رہنے والے کو نبوت کا منصب نہیں دیا گیا ۔ کیا یہ جھٹلانے والے مشرکین زمین پر نہیں چلے تاکہ وہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلے جن لوگوں نے اللّٰہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا انہیں کس طرح ہلاک کر دیا گیا اور بے شک آخرت کاگھر یعنی جنت پرہیزگاروں کے لئے دنیا سے بہتر ہے تو کیا تم غوروفکر نہیں کرتے اور عبرت حاصل نہیں کرتے تاکہ ایمان قبول کر سکو۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۹۸۵، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۴۹، ملتقطاً)
{حَتّٰۤى اِذَا اسْتَایْــٴَـسَ الرُّسُلُ:یہاں تک کہ جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی۔}یعنی لوگوں کو چاہئے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب میں تاخیر ہونے اور عیش و آسائش کے دیر تک رہنے پر مغرور نہ ہوجائیں کیونکہ پہلی اُمتوں کو بھی بہت مہلتیں دی جاچکی ہیں یہاں تک کہ جب اُن کے عذابوں میں بہت تاخیر ہوئی اور ظاہری اسباب کے اعتبار سے رسولوں کو اپنی قوموں پر دنیا میں ظاہری عذاب آنے کی اُمید نہ رہی تو قوموں نے گمان کیا کہ رسولوں نے انہیں جو عذاب کے وعدے دیئے تھے وہ پورے ہونے والے نہیں تو اس وقت اچانک انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان پر ایمان لانے والوں کے لئے ہماری مدد آگئی اور ہم نے اپنے بندوں میں سے اطاعت کرنے والے ایمانداروں کو بچالیا اور مجرمین اس عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ (ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۱۴۲-۱۴۳، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۵۴۸، ملتقطاً)
{لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ:بیشک ان رسولوں کی خبروں میں ۔} یعنی بے شک انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اور ان کی قوموں کی خبروں میں عقل مندوں کیلئے عبرت ہے جیسے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعہ سے بڑے بڑے نتائج نکلتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ صبر کا نتیجہ سلامت و کرامت ہے اور ایذا رسانی و بدخواہی کا انجام ندامت ہے اور اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے والا کامیاب ہوتا ہے ۔ بندے کوسختیوں کے پیش آنے سے مایوس نہ ہونا چاہئے ،ر حمت ِالٰہی دست گیری کرے تو کسی کی بد خواہی کچھ نہیں کرسکتی۔ اس کے بعد قرآنِ پاک کے بارے ارشاد ہوتا ہے کہ یہ قرآن کوئی ایسی بات نہیں کہ جسے کسی انسان نے اپنی طرف سے بنالیا ہو کیونکہ اس کا عاجز کر دینے والا ہونا اس کے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کو قطعی طور پر ثابت کرتا ہے البتہ یہ قرآن اللّٰہ تعالیٰ کی کتابوں توریت اور انجیل کی تصدیق کرنے والا ہے اور قرآن میں حلال، حرام، حدود و تعزیرات، واقعات، نصیحتوں اور مثالوں وغیرہ ہر چیز کا مفصل بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے کیونکہ وہی اس سے نفع حاصل کرتے ہیں ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۵۴۸، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۳ / ۵۰-۵۱، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan