READ

Surah Yusuf

يُوْسُف
111 Ayaat    مکیۃ


12:41
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّهٗ خَمْرًاۚ-وَ اَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِهٖؕ-قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْهِ تَسْتَفْتِیٰنِؕ(۴۱)
اے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں ایک تو اپنے رب (بادشاہ) کو شراب پلائے گا (ف۱۱۰) رہا دوسرا (ف۱۱۱) وہ سو ُلی دیا جائے گا تو پرندے اس کا سر کھائیں گے (ف۱۱۲) حکم ہوچکا اس بات کا جس کا تم سوال کرتے تھے (ف۱۱۳)

{یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ:اے قید خانے کے دونوں ساتھیو!۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرنے اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی دعوت دینے سے فارغ ہوئے تو ان کے خواب کی تعبیر بیان فرمائی چنانچہ فرمایا کہ اے قید خانے کے دونوں ساتھیو! تم میں ایک یعنی بادشاہ کوشراب پلانے والا تو اپنے عہدے پر بحال کیا جائے گا اور پہلے کی طرح بادشاہ کو شراب پلائے گا اور تین خوشے جو خواب میں بیان کئے گئے ہیں اس سے مراد تین دن ہیں ، وہ اتنے ہی دن قید خانے میں رہے گا پھر بادشاہ اس کو بلالے گا اور جہاں تک دوسرے یعنی کچن کے انچارج کا تعلق ہے تو اسے سولی دی جائے گی پھر پرندے اس کا سر کھالیں گے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ تعبیر سن کر ان دونوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ خواب تو ہم نے کچھ بھی نہیں دیکھا ہم تو ہنسی کررہے تھے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اس کام کا فیصلہ ہوچکا ہے جس کے بارے میں تم نے پوچھا تھا  اور جو میں نے کہہ دیا یہ ضرور واقع ہوگا تم نے خواب دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو اب یہ حکم ٹل نہیں سکتا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۲۱)

12:42
وَ قَالَ لِلَّذِیْ ظَنَّ اَنَّهٗ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّكَ٘-فَاَنْسٰىهُ الشَّیْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَ۠(۴۲)
اور یوسف نے ان دونوں میں سے جسے بچتا سمجھا (ف۱۱۴) اس سے کہا اپنے رب (بادشاہ) کے پاس میرا ذکر کرنا (ف۱۱۵) تو شیطان نے اسے بھلا دیا کہ اپنے رب (بادشاہ) کے سامنے یوسف کا ذکر کرے تو یوسف کئی برس اور جیل خانہ میں رہا (ف۱۱۶)

{وَ قَالَ:اور فرمایا۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے علم سے ساقی کے بارے میں جان لیا تھا کہ وہ بچ جائے گا تو اس سے فرمایا ’’اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کرنا اور میرا حال بیان کرنا کہ قید خانے میں ایک مظلوم بے گناہ قید ہے اور اس کی قید کو ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ شیطان نے اسے بادشاہ کے سامنے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر کرنا بھلا دیا جس کی وجہ سے حضرت  یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کئی برس اور جیل میں رہے۔ اکثر مفسرین اس طرف ہیں کہ اس واقعہ کے بعد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سات برس اور قید میں رہے اور پانچ برس پہلے رہ چکے تھے اس مدت کے گزرنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ کو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا قید سے نکالنا منظور ہوا تو مصر کے شاہ ِاعظم ، ریان بن ولید نے ایک عجیب خواب دیکھا جس سے اس کو بہت پریشانی ہوئی اور اس نے ملک کے جادوگروں اور کاہنوں اور تعبیر دینے والوں کو جمع کرکے ان سے اپنا خواب بیان کیا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۲۱-۲۲)

12:43
وَ قَالَ الْمَلِكُ اِنِّیْۤ اَرٰى سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّ سَبْعَ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍؕ-یٰۤاَیُّهَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِیْ فِیْ رُءْیَایَ اِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْیَا تَعْبُرُوْنَ(۴۳)
اور بادشاہ نے کہا میں نے خواب میں دیکھیں سات گائیں فربہ کہ انہیں سات دُبلی گائیں کھارہی ہیں اور سات بالیں ہری اور دوسری سات سوکھی (ف۱۱۷) اے درباریو! میرے خواب کا جواب دو اگر تمہیں خواب کی تعبیر آتی ہو،

{وَ قَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْهُمَا:اور دو قیدیوں میں سے بچ جانے والے نے کہا۔} یعنی شراب پلانے والا کہ جس نے اپنے ساتھی کچن کے انچارج کی ہلاکت کے بعد قید سے نجات پائی تھی اور اسے ایک مدت کے بعد یاد آیا تھا کہ  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے فرمایا تھا کہ اپنے آقا کے سامنے میرا ذکر کرنا، اس نے کہا ’’ میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا، تم مجھے قید خانے میں بھیج دو، وہاں خواب کی تعبیر کے ایک عالم ہیں ،چنانچہ بادشاہ نے اسے بھیج دیا اور وہ قید خانہ میں پہنچ کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی خدمت میں عرض کرنے لگا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۲۳، ملخصاً)

12:44
قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۚ-وَ مَا نَحْنُ بِتَاْوِیْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِیْنَ(۴۴)
بولے پریشان خوابیں ہیں اور ہم خواب کی تعبیر نہیں جانتے،

12:45
وَ قَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْهُمَا وَ ادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِیْلِهٖ فَاَرْسِلُوْنِ(۴۵)
اور بولا وہ جو ان دونوں میں سے بچا تھا (ف۱۱۸) اور ایک مدت بعد اسے یاد آیا (ف۱۱۹) میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا مجھے بھیجو (ف۱۲۰)

12:46
یُوْسُفُ اَیُّهَا الصِّدِّیْقُ اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّ سَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍۙ-لَّعَلِّیْۤ اَرْجِعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَعْلَمُوْنَ(۴۶)
اے یوسف! اے صدیق! ہمیں تعبیر دیجئے سات فربہ گایوں کی جنہیں سات دُبلی کھاتی ہیں اور سات ہری بالیں اور دوسری سات سوکھی (ف۱۲۱) شاید میں لوگوں کی طرف لوٹ کر جاؤں شاید وہ آگاہ ہوں (ف۱۲۲)

{یُوْسُفُ:اے یوسف!} یعنی اے یوسف! اے صدیق! ہمارے بادشاہ نے خواب دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی تھیں اور سات سرسبز بالیاں ہیں اور دوسری خشک بالیاں ، ملک کے تمام علماء و حکماء اس کی تعبیر بتانے سے عاجز رہے ہیں ، حضرت! آپ اس کی تعبیر ارشاد فرما دیں تاکہ میں اس خواب کی تعبیر کے ساتھ بادشاہ اور اس کے درباریوں کی طرف لوٹ کر جاؤں تو وہ اس خواب کی تعبیر جان لیں اور آپ کے علم و فضل اور مقام و مرتبہ کو جان جائیں اور آپ کو اس مشقت سے رہا کرکے اپنے پاس بلالیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۲۳، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۵۳۳، ملتقطاً)

12:47
قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَبًاۚ-فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِیْ سُنْۢبُلِهٖۤ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ(۴۷)
کہا تم کھیتی کرو گے سات برس لگارتار (ف۱۲۳) تو جو کاٹو اسے اس کی بال میں رہنے دو (ف۱۲۴) مگر تھوڑا جتنا کھالو (ف۱۲۵)

{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے خواب کی تعبیر بتادی اور فرمایا تم سات سال تک کھیتی باڑی کرو گے، اس زمانے میں خوب پیداوار ہوگی، سات موٹی گائیوں اور سات سبز بالیوں سے اسی کی طرف اشارہ ہے، لہٰذا تم جو کاٹ لو اسے اس کی بالی کے اندر ہی رہنے دو تاکہ خراب نہ ہو اور آفات سے محفوظ رہے البتہ کھانے کیلئے اپنی ضرورت کے مطابق تھوڑے سے غلے سے بھوسی اتار کر اسے صاف کرلو اور باقی غلے کو ذخیرہ بنا کر محفوظ کرلو۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۲۳، ملخصاً)

انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامدین و دنیا کے رازوں سے خبردار ہوتے ہیں :

             اس سے معلوم ہوا کہ نبی دنیاوی اور دینی تمام رازوں سے خبردار ہوتے ہیں۔ کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کاشت کاری کا ایسا قاعدہ بیان فرمایا جو کامل کاشت کا ر کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ بالی یا بھوسے میں گندم کی حفاظت ہے،  پھر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بادشاہِ مصر سے فرمانا کہ مجھے خزانے سپرد کردو ، اور پھر تمام دنیا میں غلہ کی تقسیم کا بہترین انتظام فرمانا ، اس سب سے پتہ چلا کہ نبی سلطنت کرنا بغیر سیکھے ہوئے جانتے ہیں ، ان کا علم صرف شرعی مسائل میں محدود نہیں ہوتا اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اُمورِ سلطنت چلانا بھی دین میں داخل ہیں۔

12:48
ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ یَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ(۴۸)
پھر اس کے بعد سات برس کرّے (سخت تنگی والے) آئیں گے (ف۱۲۶) کہ کھا جائیں گے جو تم نے ان کے لیے پہلے جمع کر رکھا تھا (ف۱۲۷) مگر تھوڑا جو بچالو (ف۱۲۸)

{ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ:پھر اس کے بعد آئیں گے۔} یعنی ان سات سرسبز سالوں کے بعد لوگوں پر سات سال سخت قحط کے آئیں گے جن کی طرف دبلی گائیوں اور سوکھی بالیوں میں اشارہ ہے، جو غلہ وغیرہ تم نے ان سات سالوں کے لئے جمع کر رکھا ہو گا وہ سب ان سالوں میں کھا لیا جائے گا البتہ تھوڑا سا بچ جائے گا جو تم بیج کے لئے بچا لو گے تاکہ اس کے ذریعے کاشت کرو۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۲۴، ملخصاً)

حفاظتی تدابیر کے طور پر کچھ بچا کر رکھنا تو کل کے خلاف نہیں :

اس سے معلوم ہوا کہ حفاظتی تدابیر کے طور پر آئندہ کے لئے کچھ بچا کر رکھنا تو کل کے خلاف نہیں بلکہ حکومت کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ اناج اور دیگر ضروریات کے حوالے سے ملکی ذخائرکا جائزہ لیتے رہیں اور اس کے مطابق حکمتِ عملی ترتیب دیں بلکہ زرِ مبادلہ کے جو ذخائر جمع کر کے رکھے جاتے ہیں ان کی اصل بھی اس آیت سے نکالی جاسکتی ہے۔

اسی طرح کسی شخص کا ان لوگوں کے لئے کچھ بچا کر رکھنا جن کا نان نفقہ اس کے ذمے ہے ،یہ بھی توکل کے خلاف نہیں۔جیسا کہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’جہاں تک عیال دار کا تعلق ہے تو بال بچوں کے لئے ایک سال کا خرچ جمع کرنے سے توکل کی تعریف سے نہیں نکلتا۔ (احیاءعلوم الدین ، کتاب التوحید والتوکل، الفن الثانی فی التعرّض لاسباب الادخار، ۴ / ۳۴۳)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عیال کی کفایت (کفالت)شرع نے اس پر فرض کی، وہ ان کو توکل و تبتل و صبر علی الفاقہ پر مجبور نہیں کرسکتا، اپنی جان کو جتنا چاہے کُسے مگر اُن کو خالی چھوڑنا اس پر حرام ہے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَفرماتے ہیں ’’کَفٰی بِالْمَرْ ءِ اِثْمًا اَنْ یُضَیِّعَ مَنْ یَقُوْتُ‘‘ آدمی کے گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس کا قُوت (یعنی نفقہ ) اس کے ذمہ ہے اُسے ضائع چھوڑ دے( ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی صلۃ الرحم، ۲ / ۱۸۴، الحدیث: ۱۶۹۲)(ت)۔(فتاوی رضویہ، ۱۰ / ۳۲۳)

            اسی مقام پر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے ذکر کردہ مزید کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور پر نور سَیِّدُ الْمُتَوَکِّلِینْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے نفس کریم کے لیے کل کا کھانا بچا کر رکھنا پسند نہ فرماتے۔ ایک بار خادمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے پرندے کا بچا ہوا گوشت دوسرے دن حاضر کیا تو ارشاد فرمایا ’’اَلَمْ اَنْہَکِ اَنْ تَرْفَعِی شَیْئًا لِغَدٍ اِنَّ اللہَ یَاْتِی بِرِزْقِ کُلِّ غَدٍ‘‘ کیا ہم نے منع نہ فرمایا کہ کل کے لیے کچھ ا ٹھاکرنہ رکھنا، کل کی روزی اللہ عَزَّوَجَلَّ کل دے گا۔(مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ما اسندہ نجیح ابو علی عن انس، ۳ / ۴۳۳، الحدیث: ۴۲۰۸)

            اور اپنے اہل و عیال کے معاملے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا طرزِ عمل یہ تھا کہ آپ ان کے لئے سال بھر کاغلہ جمع فرما دیتے تھے چنانچہ امیر المومنین حضرت فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ بنو نضیر کے اَموال اُن اموال میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر لوٹادئیے تھے، مسلمانوں نے انہیں حاصل کرنے کے لئے نہ گھوڑے دوڑائے تھے نہ اونٹ، یہ اموال خاص طور پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تصرف میں تھے ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان اموال سے ایک سال کا خرچ نکال لیتے اور جو مال باقی بچتا اسے جہاد کی سواریوں اور ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ کرتے تھے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب حکم الفیئ، ص۹۶۴، الحدیث: ۴۸(۱۷۵۷))

امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواپنے گھر والوں کے لئے ایک سال کا خرچ جمع کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کا دل یا آپ کے اہلِ خانہ کے دل کمزور تھے بلکہ ( آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے یہ کام) امت کے کمزور لوگوں کے لئے سنت بنانے کی خاطر ایسا کیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس بات کی خبر دی کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جس طرح عزیمت (یعنی اصل حکم) پر عمل کیا جاتا ہے اسی طرح کمزور لوگوں کی دلجوئی کے لئے رخصت پر بھی عمل کیا جائے تاکہ ان کی کمزوری ان کو مایوسی تک نہ لے جائے اور وہ انتہائی درجہ تک پہنچنے سے عاجز ہونے کی وجہ سے آسان نیکی بھی چھوڑ دیں۔ (احیاء علوم الدین، کتاب التوحید والتوکل، الفن الثانی فی التعرّض لاسباب الادخار، ۴ / ۳۴۳-۳۴۴)

{ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ:پھر ان کے بعد ایک سال آئے گا۔} یعنی سخت قحط والے سات سالوں کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو بارش دی جائے گی، اس میں لوگ انگوروں کا رس نچوڑیں گے اور تل اور زیتون کا تیل نکالیں گے۔ مراد یہ ہے کہ یہ سال بڑی برکت والا ہوگا، زمین سرسبز وشاداب ہوگی اور درخت خوب پھلیں گے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۲۴)

12:49
ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِیْهِ یُغَاثُ النَّاسُ وَ فِیْهِ یَعْصِرُوْنَ۠(۴۹)
پھر ان کے بعد ایک برس آئے گا جس میں لوگوں کو مینھ دیا جائے گا اور اس میں رس نچوڑیں گے (ف۱۲۹)

12:50
وَ قَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِیْ بِهٖۚ-فَلَمَّا جَآءَهُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰى رَبِّكَ فَسْــٴَـلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ الّٰتِیْ قَطَّعْنَ اَیْدِیَهُنَّؕ-اِنَّ رَبِّیْ بِكَیْدِهِنَّ عَلِیْمٌ(۵۰)
اور بادشاہ بولا کہ انہیں میرے پاس لے آؤ تو جب اس کے پاس ایلچی آیا (ف۱۳۰) کہا اپنے رب (بادشاہ) کے پاس پلٹ جا پھر اس سے پوچھ (ف۱۳۱) کیا حال ہے اور عورتوں کا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے، بیشک میرا رب ان کا فریب جانتا ہے (ف۱۳۲)

{وَ قَالَ الْمَلِكُ:اور بادشاہ نے حکم دیا۔} ساقی جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ تعبیرسن کر واپس ہوا اور بادشاہ کی خدمت میں جا کر تعبیر بیان کی ،بادشاہ کو یہ تعبیر بہت پسند آئی اور اسے یقین ہوا کہ جیسا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ہے ضرور ویسا ہی ہوگا۔ بادشاہ کو شوق پیدا ہوا کہ اس خواب کی تعبیر خود حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان مبارک سے سنے ،چنانچہ اس نے حکم دیا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو میرے پاس لے آؤ تاکہ میں ان کی زیارت کروں کیونکہ انہوں نے خواب کی اتنی اچھی تعبیر بیان کی ہے۔ جب قاصد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا اور اس نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں بادشاہ کا پیام عرض کیا تو آپ نے فرمایا ’’اپنے بادشاہ کی طرف لوٹ جاؤ پھر اس سے درخواست کرو کہ وہ تفتیش کرے کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے۔ بیشک میرا ربعَزَّوَجَلَّ ان کے مکر کو جانتا ہے۔ یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اس لئے فرمایا تاکہ بادشاہ کے سامنے آپ کی براء ت اور بے گناہی ظاہر ہوجائے اور اس کو یہ معلوم ہو کہ یہ لمبی قید بلا وجہ ہوئی تاکہ آئندہ حاسدوں کو الزام لگانے کا موقع نہ ملے۔  اس سے معلوم ہوا کہ تہمت دور کرنے میں کوشش کرنا ضروری ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۲۴، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۵۳۳، ملتقطاً)

12:51
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ یُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوْٓءٍؕ-قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ الْــٴٰـنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ٘-اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۵۱)
بادشاہ نے کہا اے عورتو! تمہارا کیا کام تھا جب تم نے یوسف کا دل لبھانا چاہا، بولیں اللہ کو پاکی ہے ہم نے ان میں کوئی بدی نہیں پائی عزیز کی عورت (ف۱۳۳) بولی اب اصلی بات کھل گئی، میں نے ان کا جی لبھانا چاہا تھا اور وہ بیشک سچے ہیں (ف۱۳۴)

{قَالَ:بادشاہ نے کہا۔}  جب قاصد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس سے پیام لے کر بادشاہ کی خدمت میں پہنچا تو بادشاہ نے پیام سن کر ہاتھ کاٹ لینے والی عورتوں کو جمع کیا اور ان کے ساتھ عزیز ِ مصرکی عورت کو بھی بلایا، پھر بادشاہ نے ان سے کہا: اے عورتو! اپنے صحیح حالات مجھے بتاؤ کہ کیا ہوا تھا ، جب تم نے حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دل لبھانا چاہا ،کیا تم نے ان کی جانب سے اپنی طرف کوئی میلان پایا۔ عورتوں نے جواب دیا: سُبْحَانَ اللہ! ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں پائی۔ عزیز ِ مصرکی عورت یعنی زلیخانے کہا: اب اصل بات ظاہر ہو گئی ہے، حقیقت یہ ہے کہ میں نے ہی ان کا دل لبھانا چاہا تھا اور بیشک وہ اپنی بات میں سچے ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۴)

حضرت زلیخا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو برے لفظوں سے یاد کرنا حرام ہے:

            یاد رہے کہ اس آیت میں حضرت زلیخا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکی توبہ کا اعلان اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کیونکہ انہوں نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا اور قصور کا اقرار توبہ ہے لہٰذا اب حضرت زلیخا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو برے لفظوں سے یاد کرنا حرام ہے کیونکہ وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صحابیہ اور ان کی مقدس بیوی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے قصوروں کا ذکر فرما کر ان پر غضب ظاہر نہ فرمایا کیونکہ وہ توبہ کر چکی تھیں اور توبہ کرنے والا گنہگار بالکل بے گناہ کی طرح ہوتا ہے۔

12:52
ذٰلِكَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْهُ بِالْغَیْبِ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ كَیْدَ الْخَآىٕنِیْنَ(۵۲)
یوسف نے کہا یہ میں نے اس لیے کیا کہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہ کی اور اللہ دغا بازوں کا مکر نہیں چلنے دیتا،

{ذٰلِكَ:یہ۔} بادشاہ نے حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پیام بھیجا کہ عورتوں نے آپ کی پاکی بیان کی اور عزیز کی عورت نے اپنے گناہ کا اقرار کرلیا ہے، اس پر حضرت  یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ میں نے قاصد کو بادشاہ کی طرف اس لیے لوٹایا تاکہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی غیر موجودگی میں اس کی بیوی میں کوئی خیانت نہیں کی اوراگر بالفرض میں نے کوئی خیانت کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ مجھے ا س قید سے رہائی عطا نہ فرماتا کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کا مکر نہیں چلنے دیتا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۵) اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کو فروغ نہیں ہوتااور سانچ کو آنچ نہیں آتی، مکار کا انجام خراب ہوتا ہے۔

 اَخلاقی خیانت مذموم وصف اور اخلاقی امانتداری قابلِ تعریف وصف ہے:

            اس سے یہ بھی معلوم ہوا اَخلاقی خیانت انتہائی مذموم وصف ہے اس سے ہر ایک کو بچنا چاہئے اور اخلاقی امانتداریایک قابلِ تعریف وصف ہے جسے ہر ایک کو اختیار کرنا چاہئے ،آنکھ کی خیانت کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ‘‘ (مومن:۱۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اللہ آنکھوں کی خیانت کوجانتا ہے اور اسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں۔

            اخلاقی خیانت کرنے والوں سے متعلق حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’گھروں میں بیٹھ رہنے والوں پر مجاہدین کی عورتوں کی حرمت ان کی ماؤں کی حرمت کی طرح ہے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والوں میں سے جو شخص مجاہدین میں سے کسی کے گھروالوں میں (اس کا) نائب بنے(اور اس کے گھر بار کی دیکھ بھال کرے)  اور وہ اس مجاہد کے اہلِ خانہ میں خیانت کرے تو قیامت کے دن اسے کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد اس کی نیکیوں میں سے جو چاہے گا لے لے گا ، اب (اس مجاہد کے نیکیاں لینے کے بارے میں ) تمہارا کیا خیال ہے؟ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب حرمۃ نساء المجاہدین واثم من خانہم فیہنّ، ص۱۰۵۱، الحدیث: ۱۳۹(۱۸۹۷))

            حضرت فُضالہ بن عبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تین شخص ایسے ہیں جن کے بارے میں سوال نہیں ہوگا، (اور انہیں حساب کتاب کے بغیر ہی جہنم میں داخل کر دیا جائے گا، ان میں سے ایک) وہ عورت جس کا شوہر اس کے پاس موجود نہ تھا اور اس (کے شوہر) نے اس کی دنیوی ضروریات (جیسے نان نفقہ وغیرہ) پوری کیں پھر بھی عورت نے اس کے بعد اُس سے خیانت کی۔ (الترغیب والترہیب، کتاب البیوع وغیرہ، ترہیب العبد من الاباق من سیّدہ، ۳ / ۱۸، الحدیث: ۴)

          اور اخلاقی خیانت سے بچنے والوں کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے (عرش کے) سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے (عرش کے) سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (ان میں ایک) وہ شخص ہے جسے کسی منصب وجمال والی عورت نے (اپنے ساتھ برائی کرنے کے لئے) طلب کیا تو اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۳۶، الحدیث: ۶۶۰)

            اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاقی خیانت کرنے سے محفوظ فرمائے اور اخلاقی طور پر بھی امانت دار بننے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

12:53
وَ مَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْۚ-اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵۳)
اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا (ف۱۳۵) بیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے (ف۱۳۶) بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے (ف۱۳۷)

{وَ مَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ:اور میں  اپنے نفس کو بے قصور نہیں  بتاتا۔} زلیخا کے اقرار اور اعتراف کے بعد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب یہ فرمایا کہ میں  نے اپنی براء ت کا اظہار اس لئے چاہا تھا تاکہ عزیز کو یہ معلوم ہوجائے کہ میں  نے اس کی غیر موجودگی میں  خیانت نہیں  کی اور اس کے اہلِ خانہ کی حرمت خراب کرنے سے بچا رہا ہوں  اور جو الزام مجھ پر لگائے گئے ہیں  میں  اُن سے پاک ہوں  تو اس کے بعد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خیال مبارک اس طرف گیا کہ میری ان باتوں  میں  اپنی طرف پاکی کی نسبت اور اپنی نیکی کا بیان ہے، ایسا نہ ہو کہ اس میں  کسی قسم کی خودپسندی کا شائبہ آنے کی کوشش کرے، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عاجزی و انکساری کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ’’اے میرے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں  اپنے نفس کو بے قصور بتاتا ہوں  نہ مجھے اپنی بے گناہی پر ناز ہے اور نہ میں  گناہ سے بچنے کو اپنے نفس کی خوبی قرار دیتا ہوں ،نفس کی جنس کا تویہ حال ہے کہ وہ برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے، لیکن میرا رب عَزَّوَجَلَّ اپنے جس مخصوص بندے کو اپنے فضل وکرم سے معصوم کردے تو اس کا برائیوں سے بچنا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے اور معصوم کرنا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا کرم ہے،بیشک میرا رب عَزَّوَجَلَّاپنے بندوں  کے گناہوں  کوبخشنے والا اور ان پر مہربان ہے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۵۳۴، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۲۵-۲۶، ملتقطاً)

نیک اعمال پر نازاں  نہیں  ہونا چاہئے:

            اس سے معلوم ہوا کہ کوئی بندہ اپنے نیک اعمال پر نازاں  نہ ہو بلکہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر اداکرے کہ اس نے اسے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا کی ہے اور اس کی بارگاہ میں  اپنی عاجزی اور بے بسی کااظہار کرے اور گناہوں  سے بچنے کو اپنا ہنر و کمال سمجھنے کی بجائے یہ سمجھے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے اسے گناہ سے بچا لیا ہے۔ یاد رہے کہ اپنے اعمال پر ناز کرنا اور خود پسندی میں  مبتلا ہونا بہت ساری آفات کا مجموعہ ہے ،ان آفات کو بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’خود پسندی گناہوں  کو بھول جانے اور نظر انداز کرنے کی دعوت دیتی ہے، چنانچہ وہ بعض گناہوں  کو بالکل ہی بھول جاتا ہے کیوں کہ وہ ان کی تلاش سے بے نیاز ہوجاتا ہے لہٰذا وہ بھلا دیئے جاتے ہیں  اور جن گناہوں  کو یاد رکھتا ہے ان کو بھی معمولی جانتا ہے اور انہیں  کوئی اہمیت نہ دینے کی وجہ سے ان کے تَدارُک کی کوشش نہیں  کرتا بلکہ اسے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ بخش دیئے جائیں  گے جبکہ اس کے برعکس عبادات اور اعمالِ صالحہ کو بہت بڑا سمجھتا، ان پر خوش ہوتا اور ان کی بجا آوری کو اللّٰہ تعالیٰ پرایک قسم کا احسان جانتا ہے اور توفیقِ عمل کی صورت میں  ملنے والی نعمت ِخداوندی کو بھول جاتا ہے، پھر جب خود پسندی کا شکار ہوتا ہے تو اس کی آفات سے اندھا ہوجاتا ہے اور جو آدمی اعمال کی آفات سے غافل ہوتا ہے اس کی زیادہ محنت ضائع ہوجاتی ہے کیوں کہ ظاہری اعمال جب تک خالص اور آمیزش سے پاک نہ ہوں ، نفع بخش نہیں  ہوتے اور آفات کی جستجو وہ آدمی کرتا ہے جس پر خود پسندی کی بجائے خوف غالب ہوتا ہے اور خود پسند آدمی اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر مغرور ہوتا ہے، وہ اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر اور اس کے عذاب سے بے خوف ہوتا ہے اور اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں  ایک مقام حاصل ہے ، نیز وہ اپنے اعمال کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ پر احسان جتاتا ہے حالانکہ یہ اعمال کی توفیق ملنا اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں  میں  سے ایک نعمت اور اس کے عطیات میں  سے ایک عطیہ ہے لیکن خود پسندی کی وجہ سے وہ اپنی ذات کی تعریف کرتا اور اس کی پاکیزگی ظاہر کرتا ہے اور جب وہ اپنی رائے ،عمل اور عقل پر اتراتا ہے تو فائدہ حاصل کرنے، مشورہ لینے اور پوچھنے سے باز رہتا ہے اور یوں  اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر بھروسہ کرتا ہے، وہ کسی بڑے عالم سے پوچھنا اچھا نہیں  سمجھتا اور بعض اوقات اپنی غلط رائے پر اتراتا ہے جو اس کے دل میں  گزرتی ہے اور اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اس کے دل میں  یہ خیال آیا اور دوسرے کی آراء کو پسند نہیں  کرتا اسی لیے اپنی رائے پر اِصرارکرتا ہے، کسی نصیحت کرنے والے کی نصیحت نہیں  سنتا اور نہ ہی کسی واعظ کا وعظ سنتا ہے بلکہ دوسروں  کو یوں  دیکھتا ہے کہ گویا وہ جاہل ہیں  اور اپنی خطا پر ڈٹ جاتا ہے اگر اس کی رائے کسی دنیوی معاملے میں  ہو تو اسے اس پر یقین ہوتا ہے اور اگر اُخروی معاملے بالخصوص عقائد سے متعلق ہو تو اس کے باعث تباہ ہوجاتا ہے جبکہ اگرایسا شخص اپنے نفس پر تہمت لگاتا ، اپنی رائے پر اعتماد نہ کرتا، نورِ قرآن سے روشنی حاصل کرتا ، علماءِ دین سے مدد لیتا، علم کے پڑھنے پڑھانے میں  مصروف رہتا اور اہلِ بصیرت سے مسلسل پوچھتا رہتا تو یہ بات اسے حق تک پہنچادیتی۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الکبر والعجب، الشطر الثانی، بیان آفۃ العجب، ۳ / ۴۵۳)

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  خود پسندی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

12:54
وَ قَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِیْ بِهٖۤ اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِیْۚ-فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَكِیْنٌ اَمِیْنٌ(۵۴)
اور بادشاہ بولا انہيں میرے پاس لے آؤ کہ میں انہیں اپنے لیے چن لوں (ف۱۳۸) پھر جب اس سے بات کی کہا بیشک آج آپ ہمارے یہاں معزز معتمد ہیں (ف۱۳۹)

{وَ قَالَ الْمَلِكُ:اور بادشاہ نے کہا۔} جب بادشاہ کو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم اورآپ کی امانت کا حال معلوم ہوا اور وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے حسنِ صبر، حسنِ ادب ،قید خانے والوں  کے ساتھ احسان ،مشقتوں  اور تکلیفوں  پر ثابت قدمی اور اِستقلا ل رکھنے پر مُطلع ہوا تواس کے دل میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بارے میں  بہت ہی عظمت پیدا ہوئی اور اس نے کہا: حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو میرے پاس لے آؤ تاکہ میں  انہیں  اپنے لیے منتخب کرلوں ، چنانچہ بادشاہ نے معززین کی ایک جماعت بہترین سواریاں  ،شاہانہ سازو سامان اورنفیس لباس دے کر قیدخانے میں  بھیجی تاکہ وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو انتہائی تعظیم اورتکریم کے ساتھ ایوانِ شاہی میں  لائیں  ۔ان لوگوں  نے جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں  حاضر ہو کر بادشاہ کا پیام عرض کیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قبول فرمالیا اور قید خانہ سے نکلتے وقت قیدیوں  کے لئے دعا فرمائی۔ جب قید خانے سے باہر تشریف لائے تو اس کے دروازے پر لکھا ’’یہ بلا کا گھر، زندوں  کی قبر ، دشمنوں  کی بدگوئی اور سچوں  کے امتحان کی جگہ ہے۔ پھر غسل فرمایا اور پوشاک پہن کر ایوانِ شاہی کی طرف روانہ ہوئے ،جب قلعہ کے دروازے پر پہنچے تو فرمایا ’’میرا رب عَزَّوَجَلَّمجھے کافی ہے، اس کی پناہ بڑی اور اس کی ثنا برتر اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں  ہے۔ پھر قلعہ میں  داخل ہوئے اور جب بادشاہ کے سامنے پہنچے تو یہ دعا کی کہ’’ یارب! عَزَّوَجَلَّ،میں  تیرے فضل سے بادشاہ کی بھلائی طلب کرتا ہوں  اور اس کی اور دوسروں  کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ جب بادشاہ سے نظر ملی تو آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے عربی میں  سلام فرمایا۔بادشاہ نے دریافت کیا ’’یہ کون سی زبان ہے ؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا’’یہ میرے چچا حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی زبان ہے۔ پھر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ کے سامنے عبرانی زبان میں  دعا کی تواُس نے دریافت کیا’’یہ کون سی زبان ہے؟حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’یہ میرے والدِ محترم کی زبان ہے۔ بادشاہ یہ دونوں  زبانیں  نہ سمجھ سکاحالانکہ وہ 70 زبانیں  جانتا تھا ،پھر اُس نے جس زبان میں  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے گفتگو کی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اُسی زبان میں  بادشاہ کو جواب دیا۔ اُس وقت حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی عمر شریف تیس سال کی تھی، اس عمر میں  علوم کی ایسی وسعت دیکھ کر بادشاہ کو بہت حیرت ہوئی اور اُس نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے برابر جگہ دی۔ بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے درخواست کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاما س کے خواب کی تعبیر اپنی زبانِ مبارک سے سنائیں  ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اس خواب کی پوری تفصیل بھی سنادی کہ اس اس طرح سے اس نے خواب دیکھا تھا حالانکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ خواب اس سے پہلے تفصیل سے بیان نہ کیا گیا تھا۔ اس پر بادشاہ کو بہت تعجب ہوا اور وہ کہنے لگا ’’آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تو میرا خواب جیسے میں  نے دیکھا تھا ویسے ہی بیان فرما دیا ،خواب کا عجیب ہونا تو اپنی جگہ لیکن آپ کا اس طرح بیان فرما دینا اس سے بھی زیادہ عجیب تر ہے، اب اس خواب کی تعبیر بھی ارشاد فرما دیں  ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے تعبیر بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا ’’اب لازم یہ ہے کہ غلّے جمع کئے جائیں  اور ان فراخی کے سالوں  میں  کثرت سے کاشت کرائی جائے اور غلّےبالیوں  کے ساتھ محفوظ رکھے جائیں  اور رعایا کی پیداوار میں  سے خُمس لیا جائے، اس سے جو جمع ہوگا وہ مصر اور ا س کے اَطراف کے باشندوں  کے لئے کافی ہوگا اورپھر خلقِ خدا ہر طرف سے تیرے پاس غلہ خریدنے آئے گی اور تیرے یہاں  اتنے خزانے اور مال جمع ہو جائیں  گے جو تجھ سے پہلوں  کے لئے جمع نہ ہوئے ۔ بادشاہ نے کہا یہ انتظام کون کرے گا؟(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۲۶-۲۷، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۵۳۴-۵۳۵، ملتقطاً)حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بادشاہ کے ا س سوال کا جو جواب دیا وہ اگلی آیت میں  مذکور ہے۔

12:55
قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(۵۵)
یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں (ف۱۴۰)

{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا:  اپنی سلطنت کے تمام خزانے میرے سپرد کردے، بے شک میں  خزانے کی حفاظت کرنے والا اور ان کے مَصارف کو جاننے والا ہوں ۔ بادشاہ نے کہا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ اس کا مستحق اور کون ہوسکتا ہے ؟ چنانچہ بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس مطالبے کو منظور کرلیا۔

عہدہ اور امارت کا مطالبہ کب جائز ہے؟

            یاد رہے کہ احادیث میں  مذکور مسائل میں  جو امارت یعنی حکومت یا بڑا عہدہ طلب کرنے کی ممانعت آئی ہے اس کے معنی یہ ہیں  کہ جب ملک میں  اہلیت رکھنے والے موجود ہوں  اور اللّٰہ تعالیٰ کے اَحکام نافذ کرناکسی ایک شخص کے ساتھ خاص نہ ہو تو اس وقت امارت طلب کرنا مکروہ ہے لیکن جب ایک ہی شخص اہلیت رکھتا ہو تو اس کو اللّٰہ تعالیٰ کے احکام نافذ کرنے کے لئے امارت طلب کرنا جائز بلکہ اسے تاکید ہے ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا یہی حال تھا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامرسول تھے، اُمت کی ضروریات سے واقف تھے ،یہ جانتے تھے کہ شدید قحط ہونے والا ہے جس میں  مخلوق کو راحت اور آسائش پہنچانے کی یہی صورت ہے کہ عنانِ حکومت کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے ہاتھ میں  لیں  اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے امارت طلب فرمائی ۔

امارت سے متعلق 3 اَہم مسائل:

            یہاں  امارت سے متعلق 3 اَہم مسائل یاد رکھئے:

(1)… عدل قائم کرنے کی نیت سے ظالم بادشاہ کی طرف سے عہدے قبول کرنا جائز ہے۔

(2)…اگر دین کے احکام کو جاری کرنا کافر یا فاسق بادشاہ کی طرف سے عہدہ لئے بغیر نہ ہو سکے گاتو اس میں  اس سے مدد لینا جائز ہے۔

(3)…فخر اور تکبر کے لئے ـاپنی خوبیوں  کو بیان کرنا ناجائز ہے لیکن دوسروں  کو نفع پہنچانے یا مخلوق کے حقوق کی حفاظت کرنے کے لئے اگر اپنی خوبیوں  کے اظہار کی ضرورت پیش آئے تو ممنوع نہیں  اسی لئے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا کہ میں  حفاظت و علم والا ہوں ۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۲۷، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۵۳۵، ملتقطاً)

 عہدہ قبول نہ کرنے میں  عافیت کی صورت:

            یاد رہے کہ عدل قائم کرنے کی نیت سے ظالم بادشاہ کی طرف سے عہدے کو قبول کرنا جائز ہے اور اگر عہدہ ملنے کے باوجود عدل قائم کر سکنا ممکن نہ ہو تو ظالم بادشاہ کی طرف سے عہدہ قبول نہ کرنے میں  ہی عافیت ہے اور یہی ہمارے بزرگانِ دین کا طرزِ عمل رہا ہے ،چنانچہ حضرت ربیع بن عاصم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰیعَلَیْہِ فرماتے ہیں’’یزید بن عمر امام اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کو بیتُ المال کا نگران مقرر کرنا چاہتا تھا، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس سے انکار کر دیا تو اس نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو بیس کوڑے مارے۔‘‘اسی طرح آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکی امانت داری کی وجہ سے بادشاہ نے اپنے خزانے کی چابیاں  آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حوالے کرنے کاارادہ کیا اور دھمکی دی کہ اگر انکار کیا تو وہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکی پیٹھ پر کوڑے برسائے گا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب پر بادشاہ کی سزا کو ترجیح دی (اور خزانے کی چابیاں  نہ لیں ) اسی طرح ایک مرتبہ امام اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو قاضی بننے کی دعوت دی گئی تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’میں  اس کی صلاحیت نہیں  رکھتا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا ’’اگر میں  سچا ہوں  تو واقعی اس کی صلاحیت نہیں  رکھتا اور اگر جھوٹا ہوں  تو جھوٹا شخص بھی قاضی بننے کاا ہل نہیں  ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الثانی فی العلم المحمود والمذموم۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۸-۴۹)

12:56
وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(۵۶)
اور یوں ہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے (ف۱۴۱) ہم اپنی رحمت (ف۱۴۲) جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ (اَجر) ضائع نہیں کرتے،

{وَ كَذٰلِكَ:اور ایسے ہی۔} یعنی جس طرح ہم نے اندھیرے کنویں  سے نجات دے کر، قید خانے سے رہائی عطا فرما کر اور بادشاہ کی نگاہوں  میں  معزز بنا کر حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر انعام فرمایا اسی طرح ہم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کومصر کی سر زمین میں  اقتدار عطا فرمایا اور سب کچھ اُن کے تحت ِتَصَرُّف ہے ۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بادشاہت:

             امارت یعنی حکومت طلب کرنے کے ایک سال بعد بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو بلا کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تاج پوشی کی، تلوار اور مُہرآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے سامنے پیش کی، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جواہرات لگے ہوئے سونے کے تخت پر تخت نشین کیا، اپنا ملک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے سپرد کیا ،قطفیر یعنی عزیزِ مصر کو معزول کرکے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اس کی جگہ والی بنایا اور تمام خزانے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حوالے کردئیے، سلطنت کے تمام اُمور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ہاتھ میں  دے دیئے اور خود اس طرح فرمانبردار ہوگیا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی رائے میں  دخل نہ دیتا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ہر حکم کو مانتا۔ اسی زمانہ میں  عزیزِ مصر کا انتقال ہو گیا تو بادشاہ نے زلیخا کا نکاح حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھ کردیا۔ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زلیخا کے پاس پہنچے تو اس سے فرمایا ’’کیا یہ اس سے بہتر نہیں  ہے جو تو چاہتی تھی؟ زلیخا نے عرض کی: اے صدیق! مجھے ملامت نہ کیجئے،میں  خوبرو تھی، جوا ن تھی، عیش میں  تھی اور عزیزِ مصر عورتوں  سے کوئی سروکار ہی نہ رکھتا تھا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ حسن و جمال عطاکیا ہے، بس میرا دل اختیار سے باہر ہوگیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معصوم کیا ہے اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممحفوظ رہے۔ مروی ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے زلیخا کو کنواری پایا اور اس سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دو فرزند پیدا ہوئے،ایک کا نام اِفراثیم اور دوسرے کا مِیشا تھا ،یوں  مصر میں  آپ کی حکومت مضبوط ہوئی۔

            حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مصر میں  عدل کی بنیادیں  قائم کیں  جس سے ہر مرد و عورت کے دل میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی محبت پیدا ہوئی ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قحط سالی کے دنوں  کے لئے غلوں  کے ذخیرے جمع کرنے کی تدبیر فرمائی ، اس کے لئے بہت وسیع اور عالی شان گودام تعمیر فرمائے اور بہت کثیر ذخائر جمع کئے ۔ جب فراخی کے سال گزر گئے اور قحط کا زمانہ آیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ اور اس کے خادموں  کے لئے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا مقرر فرما دیا۔ ایک روز دوپہر کے وقت بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بھوک کی شکایت کی توآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ یہ قحط کی ابتدا کا وقت ہے۔ پہلے سال میں  لوگوں  کے پاس جو ذخیرے تھے سب ختم ہوگئے اور بازار خالی رہ گئے۔ اہلِ مصر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اپنے درہم و دینار کے بدلے میں  غلے خریدنے لگے ، یوں  اُن کے تمام درہم ودینار حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس آگئے ۔دوسرے سال مصریوں  نے زیور اور جواہرات کے بدلے میں  غلوں  کی خریداری کی، یوں  ان کے تمام زیورات اور جواہرات حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آگئے ۔ جب لوگوں  کے پاس زیور اور جواہرات میں  سے کوئی چیز نہ رہی تو انہوں  نے تیسرے سال چوپائے اور جانور دے کرغلہ خریدا اور یوں  پورے ملک میں  کوئی شخص کسی جانور کا مالک نہ رہا ۔ چوتھے سال انہوں  نے غلے کے لئے اپنے تمام غلام اور باندیاں  بیچ ڈالیں ۔ پانچویں  سال اپنی تمام اَراضی، عملہ اور جاگیریں  فروخت کرکے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے غلہ خریدا ،اس طرح یہ تمام چیزیں  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچ گئیں  ۔ چھٹے سال جب ان کے پاس کوئی چیز باقی نہ رہی تو انہوں  نے اپنی اولادیں  بیچ دیں  اور اس طرح غلے خرید کر اپنا وقت گزارا۔ ساتویں  سال وہ لوگ خود بک گئے اور غلام بن گئے ا س طرح مصر میں  کوئی آزاد مرد باقی رہا نہ عورت ،جو مرد تھا وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا غلام تھا اور جو عورت تھی وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کنیز تھی ۔ اس وقت لوگوں  کی زبان پریہ تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سی عظمت و جلالت کبھی کسی بادشاہ کو مُیَسَّر نہ آئی۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا ’’ تم نے دیکھا کہ اللّٰہ تعالیٰ کا مجھ پر کیسا کرم ہے اور اُس نے مجھ پر کیسا عظیم احسان فرمایا ہے؟ اب اِن لوگوں  کے بارے میں  تیری کیا رائے ہے؟ با دشاہ نے عرض کی’’ جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی رائے ہو وہ ہمیں  منظور ہے ، ہم سب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تابع ہیں ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’میں  اللّٰہ تعالیٰ کو گواہ کرتا ہوں  اور تجھے گواہ کرتا ہوں  کہ میں  نے تمام اہلِ مصرکو آزاد کردیا اور اُن کے تمام اَملاک اورکل جاگیریں  واپس کر دیں ۔ اس زمانہ میں  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے کبھی شکم سیر ہو کر کھانا نہیں  کھایا۔ ایک مرتبہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے عرض کی گئی کہ اتنے عظیم خزانوں  کے مالک ہو کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھوکے رہتے ہیں  ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا ’’میں  اس اندیشے سے بھوکا رہتا ہوں  کہ سیر ہو کر کہیں  بھوکوں  کو بھول نہ جاؤں  ۔سُبْحَانَ اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ کیا پاکیزہ اَخلاق ہیں  ۔مفسرین فرماتے ہیں  کہ مصر کے تمام مرد و عورت کو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خریدے ہوئے غلام اور کنیزیں  بنانے میں  اللّٰہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام غلام کی شان میں  آئے تھے اور مصر کے ایک شخص کے خریدے ہوئے ہیں  بلکہ سب مصری اُن کے خریدے اور آزاد کئے ہوئے غلام ہوں  ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو اس حالت میں  صبر کیا تھا اس کی یہ جزا دی گئی۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۲۸، روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۶، ۴ / ۲۸۳-۲۸۴، ملتقطاً)

12:57
وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ۠(۵۷)
اور بیشک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے (ف۱۴۳)

{وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ:اور بیشک آخرت کا ثواب۔} یعنی آخرت کا اجر و ثواب ان کے لئے دنیا کے اجر سے بہتر ہے جو ایمان لائے اور پرہیز گار رہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے لئے آخرت کا اجر وثواب اس سے بہت زیادہ افضل و اعلیٰ ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے اُنہیں  دُنیا میں  عطا فرمایا ۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۲۹)

دنیا و آخرت میں  اجر:

            اس سے معلوم ہوا کہ مومن کو اللّٰہ تعالیٰ دنیا میں  بھی اجر عطا فرماتا ہے اور آخرت میں  دنیوی اجر سے بہتر اجر عطا فرمائے گا۔ حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں  کہ مومن اپنی نیکیوں  کا پھل دنیا و آخرت دونوں  میں  پاتا ہے اور کافر جو کچھ پاتا ہے دنیا ہی میں  پاتا ہے آخرت میں  اس کا کوئی حصہ نہیں  ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۵۳۵)

اخروی ثواب حاصل کرنے کیلئے ایمان اور نیک اعمال دونوں  ضروری ہیں :

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اخروی اجر و ثواب حاصل کرنے کے لئے ایمان کے ساتھ ساتھ نیک اعمال ہونا بھی ضرور ی ہیں  اس لئے فقط ایمان پر بھروسہ کر کے خود کو نیک اعمال سے بے نیاز جاننا درست نہیں  ،ہمارے بزرگانِ دین جن کا ایک ایک پل اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور نیک اعمال میں  مصروف گزرتا تھا، اس سلسلے میں  ان کے حال کی ایک جھلک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابراہیم بن ادہم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے ایک مرتبہ حمام میں  داخل ہونے کا ارادہ کیا تو حمام کے مالک نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ وہ اجرت کے بغیر حمام میں  داخل نہیں  ہونے دے گا، یہ سن کر حضرت ابراہیم بن ادہم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ رونے لگے اور فرمایا ’’جب شیطان کے گھر میں  مجھے عِوض کے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں  دی گئی تو (اخلاص کے ساتھ کئے ہوئے نیک اعمال کے بغیر) مجھے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور صدیقین کے گھر (یعنی جنت) میں  کس طرح داخل ہونے دیاجائے گا۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۷، ۴ / ۲۸۴)

12:58
وَ جَآءَ اِخْوَةُ یُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَ هُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ(۵۸)
اور یوسف کے بھائی آئے تو اس کے پاس حاضر ہوئے تو یوسف نے انہیں (ف۱۴۴) پہچان لیا اور وہ اس سے انجان رہے (ف۱۴۵)

{وَ جَآءَ اِخْوَةُ یُوْسُفَ:اور یوسف کے بھائی آئے۔} مفسرین فرماتے ہیں  کہ جب قحط کی شدت ہوئی اور بلائے عظیم عام ہوگئی، تمام شہر قحط کی سخت تر مصیبت میں  مبتلا ہوگئے اور ہر جانب سے لوگ غلہ خریدنے کے لئے مصر پہنچنے لگے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کسی کو ایک اونٹ کے بوجھ سے زیادہ غلہ نہیں  دیتے تھے تاکہ مساوات رہے اور سب کی مصیبت دور ہو۔ قحط کی جیسی مصیبت مصر اور دیگر ملکوں  میں  آئی، ایسی ہی کنعان میں  بھی آئی اُس وقت حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنیامین کے سوا اپنے دسوں  بیٹوں  کو غلہ خریدنے مصر بھیجا۔ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی مصر میں  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس حاضر ہوئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں  دیکھتے ہی پہچان لیا لیکن وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ پہچان سکے کیونکہ حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو کنوئیں  میں  ڈالنے سے اب تک چالیس سال کا طویل زمانہ گزر چکا تھا اور ان کا خیال یہ تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا انتقال ہوچکا ہوگا جبکہ یہاں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تخت ِسلطنت پر ،شاہانہ لباس میں  شوکت و شان کے ساتھ جلوہ فرما تھے اس لئے انہوں  نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو نہ پہچانا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عبرانی زبان میں  گفتگو کی۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی اسی زبان میں  جواب دیا ،پھر فرمایا ’’تم کون لوگ ہو؟ انہوں  نے عرض کی ’’ہم شام کے رہنے والے ہیں ، جس مصیبت میں  دنیا مبتلا ہے اسی میں  ہم بھی ہیں  اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے غلہ خریدنے آئے ہیں  ۔حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا ’’کہیں  تم جاسوس تو نہیں  ہو۔ انہوں  نے کہا ’’ ہم اللّٰہ تعالیٰ کی قسم کھاتے ہیں  کہ ہم جاسوس نہیں  ہیں  ،ہم سب بھائی ہیں ، ایک باپ کی اولاد ہیں ، ہمارے والد بہت بزرگ ،زیادہ عمر والے اور صدیق ہیں  ، ان کا نامِ نامی حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہے اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نبی ہیں ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ تم کتنے بھائی ہو؟ انہوں  نے جواب دیا’’ ہم بارہ بھائی تھے لیکن ایک بھائی ہمارے ساتھ جنگل گیا تو وہ ہلاک ہوگیا تھا، وہ والدصاحب کو ہم سب سے زیادہ پیارا تھا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’اب تم کتنے ہو؟ عرض کی’’ دس۔ پھر فرمایا’’ گیارہواں  کہاں  ہے؟ انہوں  نے جواب دیا’’وہ والد صاحب کے پاس ہے کیونکہ ہمارا جو بھائی ہلاک ہوگیا تھاوہ اسی کا حقیقی بھائی ہے، اب والد صاحب کی اسی سے کچھ تسلی ہوتی ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۲۹)

12:59
وَ لَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُوْنِیْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِیْكُمْۚ-اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْۤ اُوْفِی الْكَیْلَ وَ اَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ(۵۹)
اور جب ان کا سامان مہیا کردیا (ف۱۴۶) کہ اپنا سوتیلا بھائی (ف۱۴۷) میرے پاس لے آؤ کیا نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں (ف۱۴۸) اور میں سب سے بہتر مہمان نواز ہوں،

{وَ لَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ:اور جب ان کا سامان انہیں  مہیا کردیا۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  ’’حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن بھائیوں  کی بہت عزت کی اور بڑی خاطر و مُدارات سے اُن کی میزبانی فرمائی، ان میں  سے ہر ایک کا اونٹ غلے سے بھر دیا اور سفر کے دوران جس چیز کی ضرورت درپیش ہو سکتی تھی وہ بھی عطا کر دی۔ ‘‘ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کا سامان انہیں  مہیا کر دیا تو ان سے فرمایا ’’تم اپنے جس بھائی کو والد محترم کے پاس چھوڑ آئے ہو اسے میرے پاس لے آؤ ،کیا تم یہ بات نہیں  دیکھتے کہ میں  ناپ مکمل کرتا ہوں  اور اس میں  کوئی کمی نہیں  کرتا ،اگرتم اس کو لے آؤ گے تو ایک اونٹ غلہ اس کے حصہ کا اور زیادہ دوں  گا اور کیا تم دیکھتے نہیں  کہ میں  سب سے بہتر مہمان نواز ہوں ، اور اگر تم اس بھائی کو میرے پاس نہیں  لاؤ گے جو تمہارے والد کے پاس موجود ہے تو تمہارے لیے میرے پاس کوئی غلہ نہیں  اور نہ تم غلہ حاصل کرنے کے لئے میرے قریب پھٹکنا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۹-۶۰، ۳ / ۲۹-۳۰)

{ قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائیوں  نے کہا: ہم اس کے باپ سے اس کے متعلق ضرور مطالبہ کریں  گے اور خوب کوشش کریں  گے یہاں  تک کہ ہم اسے لے آئیں  اور بیشک ہم ضرور یہ کام کریں  گے جس کا آپ نے ہمیں  حکم دیاہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۰)
12:60
فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِیْ بِهٖ فَلَا كَیْلَ لَكُمْ عِنْدِیْ وَ لَا تَقْرَبُوْنِ(۶۰)
پھر اگر اسے لیکر میرے پاس نہ آؤ تو تمہارے لیے میرے یہاں ماپ نہیں اور میرے پاس نہ پھٹکنا،

12:61
قَالُوْا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ اَبَاهُ وَ اِنَّا لَفٰعِلُوْنَ(۶۱)
بولے ہم اس کی خواہش کریں گے اس کے باپ سے اور ہمیں یہ ضرور کرنا،

12:62
وَ قَالَ لِفِتْیٰنِهِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَهُمْ فِیْ رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُوْنَهَاۤ اِذَا انْقَلَبُوْۤا اِلٰۤى اَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۶۲)
اور یوسف نے اپنے غلاموں سے کہا ان کی پونجی ان کی خورجیوں میں رکھ دو (ف۱۴۹) شاید وہ اسے پہچانیں جب اپنے گھر کی طرف لوٹ کر جائیں (ف۱۵۰) شاید وہ واپس آئیں،

{وَ قَالَ لِفِتْیٰنِهِ:اور اپنے غلاموں  سے فرمایا۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے غلاموں  سے فرمایا کہ ان لوگوں  نے غلے کی جو قیمت دی ہے ، غلے کے ساتھ ساتھ وہ رقم بھی ان کی بوریوں  میں  واپس رکھ دو تاکہ جب وہ اپنا سامان کھولیں  تو اپنی جمع شدہ رقم انہیں  مل جائے اور قحط کے زمانے میں  کام آئے ،نیز یہ رقم پوشیدہ طور پر اُن کے پاس پہنچے تاکہ اُنہیں  لینے میں  شرم بھی نہ آئے اور یہ کرم و احسان دوبارہ آنے کے لئے اُن کی رغبت کا باعث بھی ہو۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۳۰، ملخصاً)

ضرورت کے وقت رشتہ داروں  کی مدد کرنے کی ترغیب:

اس سے معلوم ہوا کہ جب رشتہ داروں  کو کسی چیز کی حاجت اور ضرورت ہو تواس میں  ان کی مدد کرنی چاہئے ، قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں باقاعدہ اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے ،چنانچہ رشتہ داروں  کو دینے سے متعلق اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(نحل:۹۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک اللّٰہ عدل اور احسان اور رشتےداروں  کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔ وہ تمہیں  نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو دینار تو اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں  خرچ کرے اور جو دینار تو (غلام کی) گردن آزاد کرنے میں  خرچ کرے اور جو دینار تو کسی مسکین پر صدقہ کرے اور جو دینار تو اپنے گھر والوں  پر خرچ کرے ان سب میں  زیادہ ثواب اس کا ہے جو تو اپنے گھر والوں  پر خرچ کرے ۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ علی العیال والمملوک۔۔۔ الخ، ص۴۹۹، الحدیث: ۳۹(۹۹۵))

حضرت سلمان بن عامررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’عام مسکین پر صدقہ کرنا ایک صدقہ ہے اور وہی صدقہ اپنے رشتہ دار پر کرنا دو صدقے ہیں  ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔(ترمذی، کتاب الزکاۃ، باب ما جاء فی الصدقۃ علی ذی القرابۃ، ۲ / ۱۴۲، الحدیث: ۶۵۸)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اے اُمتِ محمد! قسم ہے اُس کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا، اللّٰہ تعالیٰ اس شخص کے صدقہ کو قبول نہیں  فرماتا، جس کے رشتہ دار اس کے سلوک کرنے کے محتاج ہوں  اور یہ غیروں  کو دے، قسم ہے اُس کی جس کے دستِ قدرت میں  میری جان ہے، اللّٰہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر نہ فرمائے گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ مقدام، ۶ / ۲۹۶، الحدیث: ۸۸۲۸)

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  ضرورت مند رشتہ داروں  کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

رشتہ داروں  کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ :

اس سے یہ بھی معلوم ہو اکہ کسی رشتہ دار کی مالی یا کوئی اور مدد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس انداز میں  استک رقم یا کوئی اور چیز پہنچائی جائے جس میں  اسے لیتے ہوئے شرم بھی محسوس نہ ہو اور اس کی غیرت و خودداری پربھی کوئی حرف نہ آئے۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’سات شخص ہیں ، جن پر اللّٰہ تعالیٰ اس دن سایہ کرے گا جس دن اُس کے (عرش کے) سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (ان میں  سے ایک) وہ شخص ہے جس نے کچھ صدقہ کیا اور اسے اتنا چھپایا کہ بائیں  کو بھی خبر نہ ہوئی کہ دائیں  نے کیا خرچ کیا۔( بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۳۶، الحدیث: ۶۶۰)

حضرت عبداللّٰہبن مبارک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا اپنے شاگرد پر خفیہ احسان:

ہمارے بزرگانِ دین اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں  کی امداد کس طرح کیا کرتے تھے اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن مبارَک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اکثر ’’طَرَسُوْس‘‘ کی طرف جاتے اور وہاں  ایک مسافر خانے میں  ٹھہرتے، ایک نوجوان آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں  حاضر ہو کر حدیث سنا کرتا، جب بھی آپ ’’رِقَّہ‘‘(نامی شہر میں) تشریف لاتے تووہ نوجوان حاضرِ خدمت ہوجاتا ۔ ایک مرتبہ جب آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ’’رِقَّہ‘‘ پہنچے تو اس نوجوان کو نہ پایا۔ اس وقت آپ جلدی میں  تھے کیونکہ مسلمانوں  کا ایک لشکر جہاد کے لئے گیا ہوا تھا اور آپ بھی اس میں  شرکت کے لئے آئے تھے۔ چنانچہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (اس کی معلومات کرنے کی بجائے) لشکرمیں  شامل ہوگئے ۔اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں  کو فتح نصیب ہوئی اور آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ غازی بن کر واپس طَرَسُوْس آئے اور ’’رِقَّہ‘‘ پہنچ کر اپنے اس نوجوان شاگرد کے بارے میں  پوچھا تو پتا چلا کہ نوجوان مقروض تھا اور ا س کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ وہ قرض ادا کرتا لہٰذا قرض ادانہ کرنے کی وجہ سے اسے گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ جب آپ کو یہ معلوم ہوا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا: ’’میرے اس نوجوان شاگرد پر کتنا قرض تھا ؟کہا گیا کہ’’دس ہزار درہم۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پوچھتے پوچھتے قرض خواہ کے گھر پہنچے ، اسے دس ہزار درہم دے کراپنے شاگرد کی رہائی کا مطالبہ کیا اور کہا ’’جب تک میں  زندہ رہوں  اس وقت تک کسی کو بھی اس واقعہ کی خبر نہ دینا ۔ پھر راتوں  رات آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وہاں  سے رخصت ہوگئے ۔قرض خواہ نے صبح ہوتے ہی مقروض نوجوان کو رہا کر دیا۔ نوجوان جب باہر آیا تو لوگو ں  نے اس سے کہا: حضر ت عبداللّٰہ بن مبارَک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے متعلق پوچھ رہے تھے ، اور اب وہ واپس جاچکے ہیں۔ یہ سن کر نوجوان آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تلاش میں  نکل پڑا اور تین دن کی مسافت طے کرکے آپ   کے پاس پہنچا ۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے دیکھا تو پوچھا:’’اے نوجوان ! تم کہاں  تھے؟میں نے تمہیں  مسافرخانے میں  نہیں  پایا۔ نوجوان نے کہا: ’’اے ابو عبد الرحمٰن! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ،مجھے قرض کے عوض قید کرلیا گیا تھا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا ’’پھر تمہاری رہائی کا کیا سبب بنا؟ نوجوان نے عرض کی :اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے کسی نیک بندے نے میرا قرض ادا کردیا، اس طرح مجھے رہائی مل گئی۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : ’’اے نوجوان ! اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اس نے کسی کو تیرا قرض ادا کرنے کی توفیق دی اور تجھے رہائی عطا فرمائی ۔راوی کہتے ہیں : جب تک حضرت عبد اللّٰہ بن مبارَک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ زندہ رہے تب تک اس قرض خواہ نے کسی کو بھی خبر نہ دی کہ نوجوان کاقرض کس نے ادا کیا ، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے وصال کے بعداس نے سارا واقعہ لوگوں  کو بتا دیا۔(عیون الحکایات، الحکایۃ الرابعۃ والسبعون بعد المائتین، ص۲۵۴-۲۵۵)

12:63
فَلَمَّا رَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَبِیْهِمْ قَالُوْا یٰۤاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَیْلُ فَاَرْسِلْ مَعَنَاۤ اَخَانَا نَكْتَلْ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۶۳)
پھر جب وہ اپنے باپ کی طرف لوٹ کر گئے (ف۱۵۱) بولے اے ہمارے باپ ہم سے غلہ روک دیا گیا ہے (ف۱۵۲) تو ہمارے بھائی کو ہمارے پاس بھیج دیجئے کہ غلہ لائیں اور ہم ضرور اس کی حفاظت کریں گے،

{فَلَمَّا رَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَبِیْهِمْ:پھر جب وہ اپنے باپ کی طرف لوٹ کر گئے۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی اپنے والد محترم حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس لوٹ کر گئے تو بادشاہ کے حسنِ سلوک اور اس کے احسان کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے ہماری وہ عزت و تکریم کی کہ اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں  سے کوئی ہوتا تو وہ بھی ایسا نہ کرسکتا ۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ اب اگر تم بادشاہِ مصر کے پاس جاؤ تو میری طرف سے سلام پہنچانا اور کہنا کہ ہمارے والد تیرے حق میں  تیرے اس سلوک کی وجہ سے دعا کرتے ہیں ۔ انہوں  نے عرض کی ’’اے ہمارے باپ! شاہ ِمصر نے ہم سے کہہ دیا ہے کہ اگر ہم بنیامین کو نہ لے کر آئے تو آئندہ ہمیں  غلہ نہیں  ملے گا اس لئے اب بنیامین کا جانا ضروری ہے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے بھائی بنیامین کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ لاسکیں  ، ہم ضرور اس کی حفاظت کریں  گے اور انہیں  بخیریت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس واپس لائیں  گے ۔( خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۳۰)

12:64
قَالَ هَلْ اٰمَنُكُمْ عَلَیْهِ اِلَّا كَمَاۤ اَمِنْتُكُمْ عَلٰۤى اَخِیْهِ مِنْ قَبْلُؕ-فَاللّٰهُ خَیْرٌ حٰفِظًا۪-وَّ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۶۴)
کہا کیا اس کے بارے میں تم پر ویسا ہی اعتبار کرلوں جیسا پہلے اس کے بھائی کے بارے میں کیا تھا (ف۱۵۳) تو اللہ سب سے بہتر نگہبان اور وہ ہر مہربان سے بڑھ کر مہربان،

{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں  کی یہ بات سن کر حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’میں  اپنے بیٹے بنیامین کے بارے میں  تمہارا اعتبار کیسے کر لوں  حالانکہ اس کے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ تم نے جو کچھ کیا وہ جانتے ہو اور اب بنیامین کے بارے میں  بھی ویسی ہی بات کر رہے ہو، تمہارے بنیامین کی حفاظت کرنے کے مقابلے میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی حفاظت سب سے بہتر ہے اور وہ ہر مہربان سے بڑھ کر مہربان ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۳۰)

اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی حفاظت سب سے بہتر ہے:

            مخلوق کے مقابلے میں  یقینا اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت ہی سب سے بہتر ہے، اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی جان،مال، اولاد اور دین و ایمان وغیرہ کی حفاظت سے متعلق حقیقی اعتماد اور بھروسہ اللّٰہ تعالیٰ پر ہی کرے کیونکہ دیگر لوگ حفاظت کے معاملے میں  آلات اور اسباب کے محتاج ہیں  جبکہ اللّٰہ تعالیٰ تمام اُمور اور ہر طرح کے حالات میں  اسباب و آلات سے غنی اور بے نیاز ہے اورجن کی حفاظت اللّٰہ تعالیٰ اپنے ذمہِ کرم پر لے لے ،،یا،،جنہیں  اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت میں  دیاجائے ان کی حفاظت سے متعلق دو حیرت انگیز واقعات ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضور پر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجب قضاءِ حاجت کا ارادہ فرماتے تو(آبادی سے کافی) دور تشریف لے جاتے، ایک دن آپ قضاءِ حاجت کے لئے تشریف لائے، پھر وضو فرمایا اور ایک موزہ پہن لیا تو اچانک ایک سبز رنگ کا پرندہ آیا اور دوسرے موزے کو لے کر بلند ہو گیا، پھر اس نے موزے کو پھینکا تو اس میں  سے ایک سیاہ رنگ کا سانپ نکلا، (یہ دیکھ کر) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’یہ وہ اعزاز ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے ۔پھر آپ نے کہا ’’ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِیْ عَلٰی بَطْنِہٖ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِیْ عَلٰی اَرْبَعٍ‘‘اے اللّٰہ !میں  اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں  جو اپنے پیٹ پر چلتا ہے اور اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں  جو دو ٹانگوں  پر چلتا ہے اور اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں  جو چارٹانگوں  پر چلتا ہے ۔ (معجم الاوسط، باب الہاء، ذکر من اسمہ ہاشم، ۶ / ۴۳۲، الحدیث: ۹۳۰۴)

(2)…حضرت زید بن اسلم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میرے والد نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطا ب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ لوگو ں  کے درمیان جلوہ فرما تھے کہ اچانک ہمارے قریب سے ایک شخص گزرا جس نے اپنے بچے کو کندھوں  پر بٹھا رکھا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جب ان باپ بیٹے کو دیکھا تو فرمایا ’’جتنی مشابہت ان دونوں   میں  پائی جارہی ہے میں  نے آج تک ایسی مشابہت اور کسی میں  نہیں  دیکھی۔یہ سن کر اس شخص نے عرض کی : ’اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، میرے اس بچے کا واقعہ بہت عجیب وغریب ہے، اس کی ماں  کے فوت ہونے کے بعد اس کی ولادت ہوئی ہے۔ یہ سن کر آپ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ پورا واقعہ بیان کرو۔ وہ شخص عرض کرنے لگا: اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، میں  جہاد کے لئے جانے لگا تو اس کی والدہ حاملہ تھی، میں  نے جاتے وقت دعا کی : اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، میری زوجہ کے پیٹ میں  جو حمل ہے میں  اُسے تیرے حوالے کرتا ہوں ، توہی اس کی حفاظت فرمانا۔ یہ دعا کر کے میں  جہاد کے لئے روانہ ہوگیا، جب میں  واپس آیا تو مجھے بتایا گیا کہ میری زوجہ کا انتقال ہوگیا ہے ،مجھے بہت افسوس ہوا ۔ ایک رات میں  نےاپنے چچا زاد بھائی سے کہا :مجھے میری بیوی کی قبر پر لے چلو۔ چنا نچہ ہم جنت البقیع میں  پہنچے اور اس نے میری بیوی کی قبر کی نشاندہی کی۔ جب ہم وہاں  پہنچے تو دیکھا کہ قبر سے روشنی کی کرنیں  باہر آرہی ہیں ۔ میں  نے اپنے چچازاد بھائی سے کہا : یہ رو شنی کیسی ہے؟ اس نے جواب دیا: اس قبر سے ہر رات اسی طر ح روشنی ظاہر ہوتی ہے ، نہ جانے اس میں  کیا راز ہے؟ جب میں  نے یہ سنا تو ارادہ کیا کہ میں  ضرور اس قبر کو کھود کر دیکھو ں  گا ۔ چنانچہ میں  نے پھاؤڑا منگوایا اور ابھی قبر کھود نے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ قبر خود بخود کھل گئی۔ جب میں  نے اس میں  جھانکا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت کا کرشمہ نظر آیا کہ یہ میرا بچہ اپنی ماں  کی گو د میں  بیٹھا کھیل رہا تھا ،جب میں  قبر میں  اتر ا تو کسی ندا دینے والے نے ندا دی ’’ تو نے جو امانت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پا س رکھی تھی وہ تجھے واپس کی جاتی ہے ، جا! اپنے بچے کو لے جا، اگر تواس کی ماں  کو بھی اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے سپرد کر جاتا تو اسے بھی صحیح وسلامت پاتا۔‘‘پس میں  نے اپنے بچے کو اٹھا یا اور قبر سے باہر نکالا ، جیسے ہی میں  قبر سے باہر نکلا تو قبر پہلے کی طرح دوبارہ بند ہوگئی۔( عیون الحکایات، الحکایۃ الثانیۃ والسبعون، ص۹۵)

            یہاں  یہ بات یاد رہے کہ جان و مال کی حفاظت کے ظاہری اسباب اختیار کرنا اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت پر بھروسہ کرنے کے خلاف نہیں  کیونکہ تَوکل نام ہی اسی چیز کا ہے کہ اسباب اختیار کر کے نتیجہ اللّٰہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے ،لہٰذا جن لوگوں  نے اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے سیکیورٹی گارڈز رکھے یا دیگر اسباب اختیار کئے تو ان کے بارے میں  یہ نہیں  کہاجا سکتا کہ انہیں  اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت پر بھروسہ نہیں ۔

12:65
وَ لَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوْا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ اِلَیْهِمْؕ-قَالُوْا یٰۤاَبَانَا مَا نَبْغِیْؕ-هٰذِهٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَیْنَاۚ-وَ نَمِیْرُ اَهْلَنَا وَ نَحْفَظُ اَخَانَا وَ نَزْدَادُ كَیْلَ بَعِیْرٍؕ-ذٰلِكَ كَیْلٌ یَّسِیْرٌ(۶۵)
اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا اپنی پونجی پائی کہ ان کو پھیر دی گئی ہے، بولے اے ہمارے باپ اب اور کیا چاہیں، یہ ہے ہماری پونجی ہمیں واپس کردی گئی اور ہم اپنے گھر کے لیے غلہ لائیں اور اپنے بھائی کی حفاظت کریں اور ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ پائیں، یہ دنیا بادشاہ کے سامنے کچھ نہیں (ف۱۵۴)

{ وَ لَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَهُمْ:اور جب انہوں  نے اپنا سامان کھولا۔} یعنی جب انہوں  نے اپنا وہ سامان کھولا جو مصر سے لائے تھے تو اس میں  اپنی رقم کو بھی موجود پایا جو انہیں  واپس کر دی گئی تھی ،رقم دیکھ کر کہنے لگے ’’اے ہمارے والد محترم ! اس سے زیادہ کرم و احسان ا ور کیا ہو گا کہ بادشاہ نے سامان کے ساتھ وہ رقم بھی ہمیں  واپس کر دی ہے جوہم نے سامان کی قیمت کے طور پر دی تھی لہٰذا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہمارے بھائی کو ساتھ جانے کی اجازت دے دیں  تاکہ ہم جائیں  اور اپنے گھر والوں  کے لیے غلہ خرید کر لائیں  اور ہم اپنے بھائی بنیامین کی حفاظت کریں  گے اور ہم اپنے بھائی کی وجہ سے اس کے حصے کا ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ پائیں  ، یہ اونٹ کے بوجھ کا غلہ دینا بادشاہ کے لئے بہت آسان بوجھ ہے کیونکہ اس نے ہم پر اس سے زیادہ کرم و احسان فرمایا ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۳۱)

12:66
قَالَ لَنْ اُرْسِلَهٗ مَعَكُمْ حَتّٰى تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ لَتَاْتُنَّنِیْ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یُّحَاطَ بِكُمْۚ-فَلَمَّاۤ اٰتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِیْلٌ(۶۶)
کہا میں ہرگز اسے تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک تم مجھے کا اللہ کا یہ عہد نہ دے دو (ف۱۵۵) کہ ضرور اسے لے کر آ ؤ گے مگر یہ کہ تم گھِر جاؤ (ف۱۵۶) پھر انہوں نے یعقوب کو عہد دے دیا کہا (ف۱۵۷) اللہ کا ذمہ ہے ان باتوں پر جو کہہ رہے ہیں،

{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان سے فرمایا ’’میں  اس وقت تک ہر گز بنیامین کو تمہارے ساتھ نہ بھیجوں  گا جب تک تم اللّٰہ تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ عہد نہ دو کہ تم ضرور اسے واپس بھی لے کر آؤ گے سوائے اس کے کہ تمہارا انتقال ہو جائے یا تم مغلوب ہو جاؤ اور بنیامین کو لے کر آنا تمہاری طاقت سے باہر ہوجائے۔ جب انہوں  نے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللّٰہ تعالیٰ کی قسم کھا کر عہد دے دیا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ جو ہم کہہ رہے ہیں  اس پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  نگہبان ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۶، ۳ / ۳۱)

ظاہری اسباب کو اختیار کرنا تَوکل کے خلاف نہیں :

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں  ’’اس سے معلوم ہو اکہ ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا توکل کے خلاف نہیں  لہٰذا ہر انسا ن کو چاہئے کہ وہ اس عالَم میں  موجود معتبر اَسباب اختیار کرے اور صرف ان اسباب کو اختیار کرنے اور ان ہی پر بھروسہ کرنے کو کافی نہ سمجھے بلکہ اپنے دل کو اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کی تقدیر کی طرف متوجہ رکھے ،اللّٰہ تعالیٰ پر اور اس کی تدبیر پر اعتماد رکھے اور اس کے سوا ہر چیز سے اپنی امید ختم کر دے۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۶، ۴ / ۲۹۱-۲۹۲)

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اسباب ترک کر دینا اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف اور اس کے طریقے سے جہالت ہے اور جب آدمی اسباب کی بجائے اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے اور یوں  وہ اللّٰہ تعالیٰ کے طریقے کے مطابق عمل کرے تو یہ بات توکل کے خلاف نہیں ۔ (احیاء علوم الدین، کتاب التوحید والتوکل، الفن الاول فی جلب النافع، الدرجۃ الثانیۃ، ۴ / ۳۲۹)

12:67
وَ قَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍؕ-وَ مَاۤ اُغْنِیْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُۚ-وَ عَلَیْهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ(۶۷)
اور کہا اے میرے بیٹوں! (ف۱۵۸) ایک دروازے سے نہ داخل ہونا اور جدا جدا دروا زوں سے جانا (ف۱۵۹) میں تمہیں اللہ سے بچا نہیں سکتا (ف۱۶۰) حکم تو سب اللہ ہی کا ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ چاہیے،

{وَ قَالَ:اور فرمایا۔}جب حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے مصر جانے کے ارادے سے نکلے توآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سب بیٹوں  کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اے میرے بیٹو! مصر میں  ایک دروازے سے نہ داخل ہونا بلکہ جدا جدا دروا زوں  سے جانا تاکہ بری نظر لگنے سے محفوظ رہو۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۳۱)

یاد رہے کہ پہلی مرتبہ جب یہ لوگ مصر گئے تھے تو اس وقت حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ نہیں  فرمایا تھا کیونکہ اس وقت تک کوئی یہ نہ جانتا تھا کہ یہ سب بھائی اور ایک باپ کی اولاد ہیں  لیکن اب چونکہ جان چکے تھے اس لئے بری نظر لگ جانے کا اِحتمال تھا اس وجہ سے آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سب کوعلیحدہ علیحدہ ہو کر داخل ہونے کا حکم دیا۔(صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۹۶۸-۹۶۹)

مصیبتوں  سے بچنے کی تدبیریں  اختیار کرنا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا طریقہ ہے:

اس سے معلوم ہوا کہ آفتوں  اور مصیبتوں  سے نجات حاصل کرنے کی تدبیر کرنا اور مناسب احتیاطیں  اختیار کرنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا طریقہ ہے،سیِّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آفتوں  اور مصیبتوں  سے بچنے کے لئے خود بھی مناسب تدبیریں  فرمایا کرتے اور دوسروں  کوبھی بتایا کرتے تھے ،جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ امام حسن اورامام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا پر یہ کلمات پڑھ کر پھونکا کرتے اور فرماتے ’’تمہارے جدِ امجد بھی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاقعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یہ کلمات (پڑھ کر) دم کیا کرتے تھے ’’اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّہَامَّۃٍ ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَّامَّۃٍ‘‘(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۱۱-باب، ۲ / ۴۲۹، الحدیث: ۳۳۷۱)

            اور حضرت عابس جُہنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میں  تمہیں  وہ کلمات نہ بتاؤں  جو (شریر جنّات اور نظر ِبد سے) اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے میں  سب سے افضل ہیں  ؟ انہوں  نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیوں  نہیں  (آپ ضرور بتائیے) ارشاد فرمایا ’’وہ کلمات یہ دونوں  سورتیں  ہیں (1) قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ (2) قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۔(سنن نسائی، کتاب الاستعاذۃ، ۱-باب، ص۸۶۲، الحدیث: ۵۴۴۲)

بری نظر سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے:

             نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ بری نظر سے بچنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے،بری نظر سے متعلق حدیث پاک میں  ہے ،حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’نظرحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کر سکتی ہے تو وہ نظر ہے اور جب تم سے (نظر کے علاج کے لئے) غسل کرنے کا کہا جائے تو غسل کر لو۔ (مسلم، کتاب السلام، باب الطب والمرض والرقی، ص۱۲۰۲، الحدیث: ۴۲(۲۱۸۸))

             حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں  میری جان ہے، بے شک بری نظر مرد کو قبر میں  اور اونٹ کو ہنڈیا میں  پہنچا دیتی ہے۔ (مسند الشہاب، ۶۷۸- انّ العین لتدخل الرجل القبر، ۲ / ۱۴۰، الحدیث: ۱۰۵۹)

بری نظر کا علاج:

          حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنّات اور انسانوں  کی بری نظر سے پنا ہ مانگا کرتے تھے یہاں  تک کہ سورۂ فَلق اور سورۂ ناس نازل ہوئیں ، جب یہ سورتیں  نازل ہوئیں  تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان دونوں  کو اختیار فرما لیا اور دیگر دعاؤں  کو چھوڑ دیا۔ (ترمذی، کتاب الطب، باب ما جاء فی الرقیۃ بالمعوّذتین، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۲۰۶۵)

مفتی احمد یارخاں  نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ارشا دفرماتے ہیں  کہ بد نظر ی سے بچنے کے لئے یہ آیتِ کریمہ (بھی) اکسیر ہے’’وَ اِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ‘‘(القلم ۵۱، مر اٰۃ المناجیح، کتاب الطب والرقی، الفصل الاول، ۶ / ۱۹۵، تحت الحدیث: ۴۳۲۶)

{وَ مَاۤ اُغْنِیْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ:اور میں  تمہیں  اللّٰہ سے بچا نہیں  سکتا ۔} یعنی جس چیز کی طرف میں  نے تمہیں  اشارہ دیا وہ اگر اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر فرما دی ہے تو میں  تمہیں  اس سے بچا نہیں  سکتا کیونکہ تدبیر تقدیر کو نہیں  ٹال سکتی ، میں  نے اپنا معاملہ اللّٰہتعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے ،میں  اسی پر بھروسہ کرتا ہوں  اور اپنی اس بات پر بھروسہ نہیں  کرتا جس کا میں  نے تمہیں  حکم دیا ہے کیونکہ توکل کے ساتھ اسباب اختیار کرنا اسباب چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔ (بیضاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۲۹۹، صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۹۶۹، ملتقطاً)

             اس آیت سے بھی ثابت ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ پر توکل کے ساتھ اسباب اختیار کرنے سے توکل میں  کوئی فرق نہیں  پڑتا وہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔

12:68
وَ لَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَیْثُ اَمَرَهُمْ اَبُوْهُمْؕ-مَا كَانَ یُغْنِیْ عَنْهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ اِلَّا حَاجَةً فِیْ نَفْسِ یَعْقُوْبَ قَضٰىهَاؕ-وَ اِنَّهٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰهُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۠(۶۸)
اور جب وہ داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے حکم دیا تھا (ف۱۶۱) وہ کچھ انہیں کچھ انہیں اللہ سے بچا نہ سکتا ہاں یعقوب کے جی کی ایک خواہش تھی جو اس نے پوری کرلی، اور بیشک وہ صاحب علم ہے ہمارے سکھائے سے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے (ف۱۶۲)

{وَ لَمَّا دَخَلُوْا:اور جب وہ داخل ہوئے۔} آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹوں  کا مختلف دروازوں  سے شہر میں  داخل ہونا ان سے وہ چیز دور نہیں  کرسکتا جو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقدر فرما دی ہے، اللّٰہ تعالیٰ کی تقدیر کو دیکھا جائے تو ان کا ایک ہی دروازے سے داخل ہونا یا مختلف دروازوں  سے داخل ہونا دونوں برابر ہے، ان کا مختلف دروازوں  سے جانا اگرچہ اللّٰہ تعالیٰ کی تقدیر کو نہیں  ٹال سکتا لیکن بد نظری سے بچنے کی یہ تدبیر اختیار کرنا حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے دل کی ایک تمنا تھی جو انہوں  نے پوری کر لی ۔حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صاحبِ علم تھے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  تعلیم دی تھی مگر اکثر لوگ وہ علم نہیں جانتے جو اللّٰہ تعالیٰ اپنے چنے ہوئے بندوں کو دیتا ہے۔(جلالین مع صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۹۶۹)

12:69
وَ لَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى یُوْسُفَ اٰوٰۤى اِلَیْهِ اَخَاهُ قَالَ اِنِّیْۤ اَنَا اَخُوْكَ فَلَا تَبْتَىٕسْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۶۹)
اور جب وہ یوسف کے پاس گئے (ف۱۶۳) اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی (ف۱۶۴) کہا یقین جان میں ہی تیرا بھائی (ف۱۶۵) ہوں تو یہ جو کچھ کرتے ہیں اس کا غم نہ کھا (ف۱۶۶)

{وَ لَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى یُوْسُفَ:اور جب وہ یوسف کے پاس گئے۔} یعنی جب وہ سارے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس گئے اور اُنہوں نے کہا کہ ہم آپ کے پاس اپنے بھائی بنیامین کو لے آئے ہیں  توحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ تم نے بہت اچھا کیا ،پھر انہیں  عزت کے ساتھ مہمان بنایا اور جا بجا دستر خوان لگائے گئے اور ہر دستر خوان پر دو دو بھائیوں  کو بٹھایا گیا ۔بنیامین اکیلے رہ گئے تو وہ رو پڑے اور کہنے لگے ’’اگر میرے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامزندہ ہوتے تو وہ مجھے اپنے ساتھ بٹھاتے ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ‘‘ تمہارا ایک بھائی اکیلا رہ گیا ہے، یہ فرما کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنیامین کو اپنے دستر خوان پر بٹھالیا اور اس سے فرمایا ’’ تمہارے فوت شدہ بھائی کی جگہ میں  تمہارا بھائی ہوجاؤں  تو کیا تم پسند کرو گے؟ بنیامین نے کہا ’’ آپ جیسا بھائی کس کو مُیَسَّر آئے گا! لیکن حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا فرزند اور (حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی والدہ) راحیل کا نورِنظر ہونا آپ کو کیسے حاصل ہوسکتا ہے! یہ سن کرحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رو پڑے اور بنیامین کو گلے سے لگایا اور فرمایا: بیشک میں  تیرا حقیقی بھائی یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہوں ، تم اس پر غمگین نہ ہونا جو یہ کررہے ہیں ، بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں  بھلائی کے ساتھ جمع فرما دیا اور ابھی اس راز کی اپنے بھائیوں  کو اطلاع نہ دینا ۔یہ سن کر بنیامین فرط ِمُسَرّت سے بے خود ہوگئے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہنے لگے’’ اب میں  آپ سے جدا نہیں  ہوں  گا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ والد صاحب کو میری جدائی کا بہت غم پہنچ چکا ہے، اگر میں  نے تمہیں  بھی روک لیا تو انہیں  اور زیادہ غم ہوگا اور آپ کو روکنے کی اس کے علاوہ اور کوئی صورت بھی نہیں  کہ آپ کی طرف کوئی غیر پسندیدہ بات منسوب کر دی جائے۔ بنیامین نے کہا ’’اس میں  کوئی مضائقہ نہیں ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۵۳۸-۵۳۹)

12:70
فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَایَةَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْهِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُهَا الْعِیْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ(۷۰)
پھر جب ان کا سامان مہیا کردیا (ف۱۶۷) پیالہ اپنے بھائی کے کجاوے میں رکھ دیا (ف۱۶۸) پھر ایک منادی نے ندا کی اے قافلہ والو! بیشک تم چور ہو،

{فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ:پھر جب انہیں  ان کا سامان مہیا کردیا۔} یعنی پھر جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں  ان کا سامان مہیا کر دیا اور ان میں  سے ہر ایک کو ایک اونٹ کا بوجھ غلہ دیدیا اور ایک اونٹ کا بوجھ بنیامین کے لئے خاص کر دیا تو اپنے بھائی بنیامین کی بوری میں  بادشاہ کا وہ پیالہ رکھ دیا جس میں  وہ پانی پیتا تھا، وہ پیالہ سونے کا تھا اور اس میں جواہرات لگے ہوئے تھے اور اس وقت اس پیالے سے غلہ ناپنے کا کام لیا جاتا تھا ۔ قافلہ کنعان جانے کے ارادے سے روانہ ہوگیا ۔جب قافلہ شہر سے باہر جاچکا تو انبار خانہ کے کارکنوں  کومعلوم ہوا کہ پیالہ نہیں  ہے، اُن کے خیال میں  یہی آیا کہ یہ پیالہ قافلے والے لے گئے ہیں ، چنانچہ اُنہوں  نے اس کی جستجو کے لئے آدمی بھیجے، ان میں  سے ایک مُنادی نے ندا کی: اے قافلے والو! بیشک تم چور ہو۔(روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۰، ۴ / ۲۹۸، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۳۳-۳۴، ملتقطاً)

12:71
قَالُوْا وَ اَقْبَلُوْا عَلَیْهِمْ مَّا ذَا تَفْقِدُوْنَ(۷۱)
بولے اور ان کی طرف متوجہ ہوئے تم کیا نہیں پاتے،

{قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ:نداکرنے والوں  نے کہا: ہمیں بادشاہ کا پیمانہ نہیں  مل رہا۔} ندا کرنے والوں  نے انہیں  جواب دیا کہ ہمیں  بادشاہ کا پیمانہ نہیں  مل رہا اور جو ہمارے تلاشی لینے سے پہلے ہی اسے ظاہر کر دے گا یا اسے چوری کرنے والے کے بارے میں  ہمیں  بتائے گا تواس کے لئے ایک اونٹ کا بوجھ انعام ہے اور اسے دلانے کا میں  ضامن ہوں ۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۲، ۴ / ۲۹۹)

کفالت جائز ہے:

            اس آیت سے ثابت ہوا کہ کفالت جائز ہے ،حدیث پاک سے بھی اس کا جواز ثابت ہے، جیسا کہ حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِ دو عالَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’کفیل بننے والاقرضدار ہے ۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء انّ العاریۃ مؤدّاۃ، ۳ / ۳۴، الحدیث: ۱۲۶۹) نیز اس کے جائز ہونے پر اِجماع بھی منعقد ہے۔

کفالت کا معنی:

            شریعت کی اصطلاح میں  کفالت کے معنی یہ ہیں  کہ ایک شخص اپنے ذمہ کو دوسرے کے ذمہ کے ساتھ مطالبہ میں  ضَم کر دے( یعنی مطالبہ ایک شخص کے ذمہ تھا اور دوسر ے نے بھی مطالبہ اپنے ذمہ لے لیا ۔) (ردّ المحتار مع الدرّالمختار، کتاب ا لکفالۃ،  ۷ / ۵۸۹)

          مشورہ: کفالت کے مسائل کی تفصیلی معلومات کیلئے بہار شریعت حصہ 12 سے  ’’کفالت کا بیان‘‘کا مطالعہ کیجئے۔

ضمانت دینے کی ترغیب:

            ہمیں  بھی چاہئے کہ اگر کوئی مسلمان بھائی قرض یا کسی اور مصیبت میں  گرفتار ہو تو ممکنہ بہتر صورت میں  اس کی ضمانت دے کر اس کی مصیبت دور کرنے کی کوشش کریں  اس سلسلے میں  صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی سیرت سے ایک واقعہ ملاحظہ ہو۔

            حضرت عبداللّٰہ بن ابو قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں  ایک شخص کو لایا گیا تاکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں  توحضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تم خود ا س کی نماز جنازہ پڑھ لو کیونکہ اس پر قرض ہے۔ حضرت ابو قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: وہ قرض (ادا کرنا) میرے ذمے ہے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان سے دریافت فرمایا ’’تم وہ قرض ادا کرو گے؟ انہوں  نے عرض کی:میں  وہ قرض پورا ادا کروں  گا، تب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس شخص کی نماز جنازہ پڑھا دی۔( ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الصلاۃ علی المدیون، ۲ / ۳۳۶، الحدیث: ۱۰۷۱)

12:72
قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَ لِمَنْ جَآءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِیْرٍ وَّ اَنَا بِهٖ زَعِیْمٌ(۷۲)
بولے، بادشاہ کا پیمانہ نہیں ملتا اور جو اسے لائے گا اس کے لیے ایک اونٹ کا بوجھ ہے اور میں اس کا ضامن ہوں،

12:73
قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاَرْضِ وَ مَا كُنَّا سٰرِقِیْنَ(۷۳)
بولے خدا کی قسم! تمہیں خوب معلوم ہے کہ ہم زمین میں فساد کرنے نہ آئے اور نہ ہم چور ہیں،

{قَالُوْا:اعلان کرنے والوں  نے کہا۔} ارشاد فرمایا کہ اعلان کرنے والوں  نے کہا ’’اگر تم اس بات میں  جھوٹے ہوئے اور پیالہ تمہارے پاس نکلے تو اس کی سزا کیا ہوگی؟ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۵۳۹)

{قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} حضرت یوسف  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائیوں  نے کہا’’اِس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں  وہ پیالہ ملے تو اِس کے بدلے میں  وہ اپنی گردن چیز کے مالک کے سپرد کر دے اور وہ مالک ایک سال تک اسے غلام بنائے رکھے ۔ حضرت یعقوب  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت میں  چونکہ چوری کی یہی سزا مقرر تھی اس لئے انہوں  نے کہا کہ ہمارے یہاں  ظالموں  کی یہی سزا ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۳۴-۳۵)پھر یہ قافلہ مصر لایا گیا اور ان صاحبوں  کو حضرت یوسف  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دربار میں  حاضر کیا گیا۔

12:74
قَالُوْا فَمَا جَزَآؤُهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ كٰذِبِیْنَ(۷۴)
بولے پھر کیا سزا ہے اس کی اگر تم جھوٹے ہو (ف۱۶۹)

12:75
قَالُوْا جَزَآؤُهٗ مَنْ وُّجِدَ فِیْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَآؤُهٗؕ-كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ(۷۵)
بولے اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے اسباب میں ملے وہی اس کے بدلے میں غلام بنے (ف۱۷۰) ہمارے یہاں ظالموں کی یہی سزا ہے (ف۱۷۱)

12:76
فَبَدَاَ بِاَوْعِیَتِهِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِیْهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِّعَآءِ اَخِیْهِؕ-كَذٰلِكَ كِدْنَا لِیُوْسُفَؕ-مَا كَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاهُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِكِ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُؕ-نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُؕ-وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ(۷۶)
تو اول ان کی خرُجیوں سے تلاشی شروع کی اپنے بھائی (ف۱۷۲) کی خرُجی سے پہلے پھر اسے اپنے بھائی کی خرُجی سے نکال لیا (ف۱۷۳) ہم نے یوسف کو یہی تدبیر بتائی (ف۱۷۴) بادشاہی قانون میں اسے نہیں پہنچتا تھا کہ اپنے بھائی کو لے لے (ف۱۷۵) مگر یہ کہ خدا چاہے (ف۱۷۶) ہم جسے چاہیں درجوں بلند کریں (ف۱۷۷) اور ہر علم والے اوپر ایک علم والا ہے (ف۱۷۸)

{فَبَدَاَ:تو تلاشی لینا شروع کی۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے بھائی بنیامین کے سامان کی تلاشی لینے سے پہلے دوسروں  کے سامان کی تلاشی لینا شروع کی، تلاشی لیتے ہوئے جب بنیامین کے سامان تک پہنچے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’میرا گمان ہے کہ پیالہ اس کے ہی سامان میں  ہو گا۔ بھائیوں  نے کہا: خدا کی قسم ! ہم اسے نہیں  چھوڑیں  گے جب تک کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاما س کے سامان کی تلاشی نہ لے لیں ، اسی میں  آپ کے لئے اور ہمارے لئے بہتری ہے۔ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنیا مین کے سامان کی تلاشی لی توپیالے کو اس کے سامان سے برآمد کر لیا ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۵۳۹-۵۴۰)

شرعی حیلے درست ہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ شرعی حیلے درست ہیں  کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنیامین کو روکنے کا ایک حیلہ ہی اختیار فرمایا اور یہ بالکل جائز حیلہ تھا کسی پر ظلم نہ تھا۔

{كَذٰلِكَ:اسی طرح۔} یعنی اپنے بھائی کو لینے کی ہم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہی تدبیر بتائی تھی کہ  اس معاملہ میں  بھائیوں  سے اِستفسار کریں  تاکہ وہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت کا حکم بتائیں  جس سے بھائی مل سکے۔ بادشاہی قانون میں  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیلئے درست نہیں  تھا کہ اپنے بھائی کو لے لیں  کیونکہ بادشاہِ مصر کے قانون میں  چوری کی سزا مارنا اور دگنا مال لے لینا مقرر تھی۔ یہ بات اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت سے ہوئی کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل میں  ڈال دیا کہ سز ابھائیوں  سے دریافت کریں  اور بھائیوں  کے دل میں  ڈال دیا کہ وہ اپنی سنت اور طریقے کے مطابق جواب دیں۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۳۵)

{وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ: اور ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔} اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائی علماء تھے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان سے زیادہ علم والے تھے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۳۶)خیال رہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس حیلہ میں  نہ تو جھوٹ بولا کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خادم نے کہا تھا کہ تم چور ہو اور خادم بے خبر تھا، نہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھائی پر چوری کا بہتان لگایا، بلکہ جو کچھ کیا گیا خود بنیامین کے مشورہ سے کیا گیا، اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی تعریف فرمائی اور فرمایا’’ كَذٰلِكَ كِدْنَا لِیُوْسُفَ‘‘ یہ تدبیر یوسف کو ہم نے سکھائی۔

ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے:

            یاد رہے کہ مخلوق میں  ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہونے کے سلسلے کی اِنتہا تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہے اور ان سے بے انتہا زیادہ خالق و مالک کا علم ہے ،جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرما تے ہیں  کہ ہر عالِم کے اُوپر اس سے زیادہ علم رکھنے والا عالم ہوتا ہے یہاں  تک کہ یہ سلسلہ اللّٰہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے اور اس کا علم سب کے علم سے برتر ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۳۶)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’علم کے مدارج بے حد متفاوت ،’’ وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ‘‘عالَمِ امکان میں  نہایت ِنہایات حضور سید الکائنات عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ اَفْضَلُ الصَّلَواتِ وَالتَّحِیَّات۔ (فتاوی رضویہ، ۲۲ / ۶۱۹) یعنی لوگوں  کے علم کے درجات میں  بے حد فرق ہے کیونکہ ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے اوراس کائنات میں  سب کے علم کی انتہا کائنات کے سردار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ہے۔

            ایک اور مقام پر فرماتے ہیں  ’’بلاشبہ غیرِخدا کا علم معلوماتِ الٰہیہ کو حاوی نہیں  ہوسکتا، مساوی درکنار تمام اولین و آخرین و انبیاء و مرسلین و ملائکہ و مقربین سب کے علوم مل کر علومِ الٰہیہ سے وہ نسبت نہیں  رکھ سکتے جو کروڑ ہا کروڑ سمندروں  سے ایک ذرا سی بوند کے کروڑویں  حصے کو، کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں  حصہ دونوں  متناہی ہیں ، اور متناہی کو متناہی سے نسبت ضرور ہے بخلاف علومِ الٰہیہ کہ (وہ) غیر متناہی در غیر متناہی در غیر متناہی ہیں ۔ اور مخلوق کے علوم اگرچہ عرش و فرش، شرق و غرب و جملہ کائنات از روزِ اول تا روزِآخر کو محیط ہوجائیں  آخر متناہی ہیں  کہ عرش و فرش دو حدیں  ہیں ، روزِ اول و روزِ آخر دو حدیں  ہیں  اور جو کچھ دو حدوں  کے اندر ہو سب متناہی ہے۔ (فتاوی رضویہ، رسالہ: خالص الاعتقاد، ۲۹ / ۴۵۰)

12:77
قَالُوْۤا اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُۚ-فَاَسَرَّهَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِهٖ وَ لَمْ یُبْدِهَا لَهُمْۚ-قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًاۚ-وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ(۷۷)
بھائی بولے اگر یہ چوری کرے (ف۱۷۹) تو بیشک اس سے پہلے اس کا بھائی چوری کرچکا ہے (ف۱۸۰) تو یوسف نے یہ بات اپنے دل میں رکھی اور ان پر ظاہر نہ کی، جی میں کہا تم بدتر جگہ ہو (ف۱۸۱) اور اللہ خوب جانتا ہے جو باتیں بناتے ہو،

{قَالُوْا:بھائیوں  نے کہا۔} جب پیالہ بنیامین کے سامان سے نکلا تو بھائی شرمندہ ہوئے ، اُنہوں  نے سرجھکائے اور کہا ’’ سامان میں  پیالہ نکلنے سے سامان والے کا چوری کرنا تو یقینی نہیں  لیکن اگر یہ فعل اس کا ہو تو بیشک اس سے پہلے اس کےبھائی  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی چوری کی تھی۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی طرف منسوب ایک واقعہ:

            جس کو انہوں  نے چوری قرار دے کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی طرف منسوب کیا وہ واقعہ یہ تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے نانا کا ایک بت تھا جسے وہ پوجتے تھے ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے چپکے سے وہ بت لیا اور توڑ کر راستے میں  نجاست کے اندر ڈال دیا۔ یہ حقیقت میں  چوری نہ تھی بلکہ بت پرستی کا مٹانا تھا۔ بھائیوں  کا اس کے ذکر سے یہ مقصد تھا کہ ہم لو گ بنیامین کے سوتیلے بھائی ہیں  اور یہ فعل ہو تو شاید بنیامین کا ہو ،نہ ہماری اس میں  شرکت نہ ہمیں  اس کی اطلاع۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۴ / ۳۰۱، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۳۶، ملتقطاً)

{فَاَسَرَّهَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِهٖ:تو یوسف نے یہ بات اپنے دل میں  چھپارکھی۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھائیوں  کی طرف سے اپنے بارے میں  کہی گئی بات دل میں  ایسے چھپا لی جیسے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے سنی ہی نہ ہو اور اپنے قول یا فعل سے کسی طرح اس کا اظہار نہ ہونے دیا اور اپنے دل میں  کہا ’’تم حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائی کے مقابلے میں  انتہائی کم درجے کے آدمی ہو کیونکہ تم نے اپنے بھائی کو اپنے والد سے چرا لیا اور اپنے بھائی پر ظلم کیا، تم اپنے بھائی کے معاملے میں  جو کچھ کہہ رہے ہو اسے اللّٰہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۴ / ۳۰۱-۳۰۲، جلالین، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۱۹۶، ملتقطاً)

12:78
قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الْعَزِیْزُ اِنَّ لَهٗۤ اَبًا شَیْخًا كَبِیْرًا فَخُذْ اَحَدَنَا مَكَانَهٗۚ-اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ(۷۸)
بولے اے عزیز! اس کے ایک باپ ہیں بوڑھے بڑے (ف۱۸۲) تو ہم میں اس کی جگہ کسی کو لے لو، بیشک ہم تمہارے احسان دیکھ رہے ہیں،

{قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی شریعت میں  اگرچہ چور کی سزا یہ تھی کہ اسے غلام بنا لیا جائے لیکن فدیہ لے کر معاف کر دینا بھی جائز تھا، اس لئے بھائیوں  نے کہا ’’اے عزیز! اس کے والد عمر میں  بہت بڑے ہیں ، وہ اس سے محبت رکھتے ہیں  اور اسی سے ان کے دل کو تسلی ہوتی ہے۔ آپ ہم میں  سے کسی ایک کو غلام بنا کر یا فدیہ ادا کرنے تک رہن کے طور پر رکھ لیں  بیشک ہم آپ کو احسان کرنے والا دیکھ رہے ہیں  کہ آپ نے ہمیں  عزت دی، کثیر مال ہمیں  عطا کیا، ہمارا مطلوب اچھی طرح پورا ہوا اور ہمارے غلے کی قیمت بھی ہمیں  لوٹا دی۔(تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۸، ۶ / ۴۹۱، جلالین، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۱۹۶، ملتقطاً)

{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’اس بات سے اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ کہ جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے اس کے علاوہ کسی اور کو پکڑ یں  کیونکہ تمہارے فیصلہ کے مطابق ہم اسی کو لینے کے مستحق ہیں  جس کے کجاوے میں  ہمارا مال ملا ہے، اگر ہم اس کی بجائے دوسرے کو لیں  تو یہ تمہارے دین میں  ظلم ہے ، لہٰذا تم ا س چیز کا تقاضا کیوں  کرتے ہو جس کے بارے میں  جانتے ہو کہ وہ ظلم ہے ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۵۴۰)

12:79
قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهٗۤۙ-اِنَّاۤ اِذًا لَّظٰلِمُوْنَ۠(۷۹)
کہا (ف۱۸۳) خدا کی پناہ کہ ہم میں مگر اسی کو جس کے پاس ہمارا مال ملا (ف۱۸۴) جب تو ہم ظالم ہوں گے،

12:80
فَلَمَّا اسْتَایْــٴَـسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِیًّاؕ-قَالَ كَبِیْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَیْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ وَ مِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِیْ یُوْسُفَۚ-فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰى یَاْذَنَ لِیْۤ اَبِیْۤ اَوْ یَحْكُمَ اللّٰهُ لِیْۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ(۸۰)
پھر جب اس سے نا امید ہوئے الگ جاکر سرگوشی کرنے لگے، ان کا بڑا بھائی بولا کیا تمہیں خبر نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کا عہد لے لیا تھا اور اس سے پہلے یوسف کے حق میں تم نے کیسی تقصیر کی تو میں یہاں سے نہ ٹلوں گا یہاں تک کہ میرے باپ (ف۱۸۵) اجازت دیں یا اللہ مجھے حکم فرمائے (ف۱۸۶) اور اس کا حکم سب سے بہتر،

{فَلَمَّا اسْتَایْـٴَـسُوْا مِنْهُ:پھر جب وہ بھائی اس سے مایوس ہوگئے ۔} یعنی جب وہ بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے مایوس ہو گئے اور انہیں  اس بات کا یقین ہو گیا کہ بنیامین واپس نہیں  ملیں  گے توسب بھائی لوگوں  سے ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے اور آپس میں  مشورہ کرنے لگے کہ اب اپنے والد صاحب کے پاس کیا منہ لے کر جائیں  گے اور اپنے بھائی بنیامین کے بارے میں  کیا کہیں  گے۔ ان میں  سے علم و عقل یا عمر میں جو بھائی بڑا تھا وہ کہنے لگا ’’کیا تمہیں  معلوم نہیں  کہ تمہارے والد حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تم سے اللّٰہ تعالیٰ کا عہد لیا تھا کہ تم اپنے بھائی کو واپس لے کر جاؤ گے اور اس سے پہلے تم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معاملے میں کوتاہی کی اور اپنے والد سے کئے ہوئے عہد کی پاسداری بھی نہ کی۔ میں  تو مصر کی سرزمین سے ہر گز نہ نکلوں  گا اور نہ ہی اس صورتِ حال میں  مصر چھوڑوں  گا یہاں  تک کہ میرے والد مجھے مصر کی سرزمین چھوڑنے کی اجازت دے دیں  اور مجھے اپنے پاس بلا لیں  یا اللّٰہ تعالیٰ میرے بھائی کو خلاصی دے کر یا اس کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ چلنے کامجھے کوئی حکم فرما دے اور وہ سب سے بہتر حکم دینے والا ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۳۷، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۵۴۱، ملتقطاً)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

يُوْسُف
يُوْسُف
  00:00



Download

يُوْسُف
يُوْسُف
  00:00



Download