Surah Yunus
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{الٓرٰ:} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ہے، اس کی مراد اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ (جلالین، یونس، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۶۹)
{تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ:یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں ان آیات کی طرف اشارہ ہے جو اس سورت میں موجود ہیں ، معنی یہ ہیں کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ آیات قرآن ہی کی آیات ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے قرآنِ پاک کی ان آیات کی طرف اشارہ ہے جو اس سورت سے پہلے ذکر ہوئیں اور معنی یہ ہیں کہ وہ آیات حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱، ۲ / ۲۹۹)
{اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا:کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے۔} شانِ نزول : حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ جب اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰینے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رسالت سے مشرف فرمایا اور آپ نے اس کا اظہار کیا تو عرب میں رہنے والے لوگ منکر ہوگئے اور ان میں سے بعضوں نے یہ کہا کہ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے برتر ہے کہ کسی بشر کو رسول بنائے، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۳۰۰)
{قَدَمَ صِدْقٍ:سچ کا مقام ۔} قدم سے اس کی جگہ یعنی مقام مراد ہے اور مفسرین نے قَدَمَ صِدْقٍ کے معنی بیان فرمائے ہیں ، بہترین مقام، جنت میں بلند مرتبہ، نیک اعمال، نیک اعمال کا اَجر اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۳۰۰، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۸۵۳، ملتقطاً) گویا فرمایا گیا کہ مومنین کیلئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بہترین مقام ہے یا جنت میں بلند مرتبہ ہے یادنیا میں نیک اعمال کی توفیق ہے یا آخرت میں نیکیوں کا اجر ہے یا سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت ہے۔
{قَالَ الْكٰفِرُوْنَ:کافروں نے کہا۔} کفار نے پہلے تو بشر کا رسول ہونا قابلِ تعجب و انکار قرار دیا اور پھر جب حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات دیکھے اور یقین ہوا کہ یہ بشر کی قدرت سے بالا تر ہیں تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ساحر بتایا۔ اُن کا یہ دعویٰ تو کِذب و باطل ہے مگر اس میں بھی حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کمال اور اپنے عِجز کا اِعتراف پایا جاتا ہے۔(تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ۶ / ۱۸۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ص۴۶۲، ملتقطاً)
{اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ:بیشک تمہارا رب اللہ ہے۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے وحی، بعثت اور رسالت پر کفار کے تعجب کو بیان فرمایا اورا س آیت میں ان کے اُس تعجب کو اس طرح زائل فرمایا کہ ساری مخلوق کو پیدا فرمانے والی ذات کا ان کی طرف ایک رسول بھیجنا کہ جوانہیں نیک اعمال پر ثواب کی بشارت دے اور برے اعمال پر عذاب سے ڈرائے کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ اس جہاں کو پیدا کرنے والا ایک ہے ، وہ ہر چیز پر قادر اور اس کے احکام نافذ ہیں۔ا س کی دلیل یہ ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور وہی اس کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے ،نیز وہی ثواب اور عذاب دینے والا ہے کیونکہ اس دنیا کی زندگی کے بعد سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ،اس لئے تمام مخلوق کو اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۳،۶ / ۱۸۸، ملخصاً)
نوٹ:آسمانوں اور زمینوں کو چھ دن میں پیدا کرنے اور عرش پر اِستوا فرمانے کی تفسیر سورۂ اَعراف آیت نمبر 54 میں گزر چکی ہے۔
{مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ:اس کی اجازت کے بعد ہی کوئی سفارشی ہوسکتا ہے۔} اس میں بت پرستوں کے اس قول کا رد ہے کہ بت اُن کی شفاعت کریں گے انہیں بتایا گیا کہ شفاعت اجازت یافْتْگان کے سوا کوئی نہیں کرے گا اور اجازت یافتہ صرف اس کے مقبول بندے ہوں گے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳، ۲ / ۳۰۱)
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت:
قیامت کے دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاء و صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور دیگر جنتی شفاعت فرمائیں گے اور اِن شفاعت کرنے والوں کے سردار اور آقا و مولیٰ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہوں گے۔ چنانچہ
حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میں قیامت کے دن انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا امام، خطیب اور شفیع ہوں گا اور اس پر (مجھے) فخر نہیں۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۵۳، الحدیث: ۳۶۳۳)
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ شہید کی شفاعت اس کے ستر قریبی رشتہ داروں کے بارے میں مقبول ہوگی۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الشہید یشفع،۳ / ۲۲، الحدیث: ۲۵۲۲)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن لوگ صفیں باندھے ہوں گے ،اس وقت ایک جہنمی ایک جنتی کے پاس سے گزرے گا تو اس سے کہے گا: کیا آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے ایک دن مجھ سے پانی پینے کو مانگا تو میں نے آپ کو پانی پلایا تھا؟ اتنی سی بات پر وہ جنتی اس جہنمی کی شفاعت کرے گا۔ ایک (جہنمی) دوسرے (جنتی) کے پاس سے گزرے گا تو کہے گا: آپ کو یاد نہیں کہ ایک دن میں نے آپ کو وضو کرنے کے لئے پانی دیا تھا؟ اتنے ہی پروہ اس کا شفیع ہوجائے گا ،ایک کہے گا: آپ کو یاد نہیں کہ فلاں دن آپ نے مجھے فلاں کام کے لئے بھیجا تو میں چلا گیا تھا؟ اس قدر پریہ اس کی شفاعت کرے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل صدقۃ المائ، ۴ / ۱۹۶، الحدیث: ۳۶۸۵)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ایک جنتی شخص جھانک کر جہنمیوں کی طرف دیکھے گا تو ایک جہنمی اس سے کہے گا: آپ مجھے نہیں جانتے؟ وہ کہے گا ’’وَاللہ! میں تو تجھے نہیں پہچانتا، تم پر افسوس ہے، تو کون ہے؟ وہ کہے گا: میں وہ ہوں کہ آپ ایک دن میری طرف سے ہو کر گزرے اور مجھ سے پانی مانگا اور میں نے پلا دیا تھا ، اس کے صِلہ میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّکے حضور میری شفاعت کیجئے۔ وہ جنتی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے زائروں میں اس کے حضور حاضر ہو کر یہ حال بیان کر کے عرض کرے گا: اے میرے رب !عَزَّوَجَلَّ، تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ تو اللہ تعالیٰ اُس کے حق میں اِس کی شفاعت قبول فرمائے گا۔(مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ما اسندہ ثابت البنانی عن انس، ۳ / ۲۳۷، الحدیث: ۳۴۷۷)
{اِنَّهٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ: بیشک وہ پہلی بار (بھی) پیدا کرتا ہے۔} اس آیت میں حشر و نشر، مَعاد یعنی لوٹنے کی جگہ کا بیان اور منکرین کا رد ہے اور اس پر نہایت لطیف پیرایہ میں دلیل قائم فرمائی گئی ہے کہ وہ پہلی بار زندگی دیتا ہے اور اَعضاءِ مُرَکَّبَہ کو پیدا کرتا اور ترکیب دیتا ہے تو موت کے ساتھ اعضاء کے مُنتشر ہو جانے کے بعد ان کو دوبارہ ترکیب دینا اور بنے ہوئے انسان کو فنا ہوجانے کے بعد پھر دوبار ہ بنا دینا اور وہی جان جو اس بدن سے تعلق رکھتی تھی اس کو اس بدن کی درستی کے بعد پھر اسی بدن سے متعلق کردینا اس کی قدرت سے کیا بعید ہے اور اس دوبارہ پیدا کرنے کامقصود جزائے اعمال یعنی فرمانبردار کو ثواب اور گناہگار کو عذاب دینا ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۳۰۱)
{بِالْقِسْطِ: انصاف کے ساتھ ۔} اس سے مراد یہ ہے کہ نیکوں کے ثواب میں کمی نہ کی جائے گی، یا اس سے یہ مراد ہے کہ نیکوں نے دنیا میں انصاف کیا کہ جن باتوں کا انہیں حکم دیا گیا ان پر عمل کیا اور جن سے روکا گیا اس سے باز رہے۔یہ عربی ترکیب کے اعتبار سے فرق ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۳۰۱، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۸۵۴، ملتقطاً)
{وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ:اور کافروں کے لیے شدید گرم پانی کا مشروب ہے۔} اس آیت میں جہنم کے اندر کفار کے جس مشروب کا بیان ہوا اس کی کیفیت ملاحظہ ہو ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’شدید گرم پانی ان (جہنمیوں )کے سر پر ڈالا جائے گا تو وہ سَرایت کرتے ہوئے ان کے پیٹ تک پہنچ جائے گا اور جو کچھ پیٹ میں ہو گا اسے کاٹ کر قدموں سے نکل جائے گا اور یہی ’’صَہْر‘‘ یعنی گل جانا ہے، (ان کے ساتھ) بار بار اسی طرح کیا جائے گا۔ (ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، ۴ / ۲۶۲، الحدیث: ۲۵۹۱)
{هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا:وہی ہے جس نے سورج کو روشنی اور چاند کونور بنایا۔} ضیاء سے مراد ذاتی روشنی اور نور سے مراد دوسرے سے حاصل کی ہوئی روشنی ہے۔ جب اس روشنی کاتعلق سورج سے ہو تو اسے ضیاء اور چاند سے ہو تو اسے نور کہتے ہیں۔(صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۸۵۵)
{وَ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ:اور چاندکے لیے منزلیں مقرر کردیں۔} چاند کی اٹھائیس منزلیں ہیں اور یہ بارہ بُرجو ں میں تقسیم ہیں ، ہر برج کے لئے2_1 / 3 منزلیں ہیں ،چاند ہر رات ایک منزل میں رہتا ہے اور مہینہ تیس دن کا ہو تو دو راتیں ورنہ ایک رات چھپتا ہے۔(بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵، ۲ / ۲۹۰-۲۹۱) ان منزلوں کو مقرر کرنے میں حکمت یہ ہے تاکہ تم سالوں کی گنتی اور مہینوں ، دنوں اور ساعتوں کا حساب جان لو ۔اللہ عَزَّوَجَلَّنے یہ سارا نظام عَبَث اور بیکار نہیں بنایا بلکہ حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے تاکہ اس سے اُس کی قدرت اور اس کی وحدانیت کے دلائل ظاہر ہوں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ علم والوں کے لئے تفصیل سے نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ وہ ان میں غور کرکے نفع اٹھائیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵، ۲ / ۳۰۲، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۵، ص۴۶۳، ملتقطاً) اس سے معلوم ہوا کہ علمِ ریاضی ، علمِ ہَیئت ، علمِ فلکیات وغیرہ بڑے مفید علم ہیں کہ ان سے اللہ عَزَّوَجَلَّکی قدرت معلوم ہوتی ہے نیز حسنِ نیت کے ساتھ ان کا سیکھنا ثواب کا کام ہے۔
{اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ:بیشک رات اور دن کی تبدیلی میں۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اور وحدانیت پر زمین وآسمان کی تخلیق ،سورج اور چاند کے اَحوال سے دلائل قائم فرمائے اور اس آیت میں دن اور رات کے اختلاف سے حاصل ہونے والے فَوائد سے وحدانیت پر دلیل قائم فرمائی۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک دن اور رات کے آنے جانے،کم اور زیادہ ہونے میں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں پیدا فرمایا جیسے فرشتے،سورج ، چاند، ستارے وغیرہ اور جو کچھ زمین میں پیدا فرمایا جیسے حیوان ،پہاڑ ،دریا،نہریں اور درخت وغیرہ ان سب میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت پر نشانیاں موجود ہیں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۲۱۰، جلالین، یونس، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۷۰، ملتقطاً)ان چیزوں کا نشانیاں ہونا بالکل واضح ہے کہ یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّکی تخلیق اور قدرت کی دلیلیں ہیں کہ وہ کتنی عظیم قدرت و عظمت والا ہے جس نے ان سب چیزوں کو وجود بخشا۔
نوٹ:اس سے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے سورۂ بقرہ آیت164کے تحت مذکور تفسیر ملاحظہ کیجئے۔
آیت کے آخر میں فرمایا کہ متقیوں کیلئے ان چیزوں میں نشانیاں ہیں۔چونکہ ا ن چیزوں میں غور کرکے ایما ن و عِرفان صرف خوفِ خدارکھنے والوں کو مُیَسَّر ہوتا ہے اس لئے انہی کا ذکر فرمایا۔ بہت سے کافر یہ چیزیں دیکھ کر سرکش ہوجاتے ہیں جیسے آج اکثرسائنس دانوں نے سائنس میں ترقی کرکے خداعَزَّوَجَلَّکا انکار کردیا۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ:بیشک وہ لوگ۔} ان آیات میں پہلے ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ جو حشر یعنی مرنے کے بعد اٹھنے پر ایمان نہیں لاتے اور اس کے بعد حشر پر ایمان لانے والوں کا ذکر ہے۔(تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۶ / ۲۱۰، ملخصاً)اس آیت میں حشر پر ایمان نہ لانے والوں کی چار صِفات بیان فرمائی گئی ہیں :
(1)… وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید نہیں رکھتے۔ مفسرین نے اس آیت میں ’’امید‘‘ کے دومعنی بیان کئے ہیں۔ (۱) خوف۔ اس سورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو قیامت کے دن ہم سے ملنے کاخوف نہیں رکھتے تو وہ ثواب اور عذاب کو جھٹلا رہے ہیں۔ (۲) طمع۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ دنیا پر مطمئن ہو بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کے ثواب کی طمع نہیں رکھتے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۳۰۲)
(2)… دنیا کی زندگی پسند کر بیٹھے ہیں۔ یعنی انہوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا، اس تھوڑی سی اور فانی کو بہت زیادہ اور باقی رہنے والی پر ترجیح دی۔(مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۶۴)
(3)… اس پر مطمئن ہوگئے ہیں۔ کفار کا یہ قلبی اطمینان دنیا اور اس کی لذتوں کی طرف میلان کی وجہ سے ہے، اسی لئے ان کے دلوں سے ڈر اور خوف نکل گیا اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرنے اور اس کے عذاب کا خوف دلانے والی باتیں سنتے ہیں تو ان کے دل اس طرف مائل ہی نہیں ہوتے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۳۰۲)
(4)… وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے غافل ہیں۔ حضرتعبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ یہاں آیات سے تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ پاک اور قرآن شریف مراد ہے اور غفلت کرنے سے مراد اُن سے اِعراض کرنا ہے۔(بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۲۹۱)
دنیا اور آخرت سے متعلق مسلمانوں کا حال :
یہاں آیتِ مبارکہ میں کفار کے اعتقاد کے اعتبار سے یہ احوال بیان فرمائے گئے ہیں لیکن عملی طور پر مسلمان بھی ان میں سے بہت سی چیزوں میں مُلَوّث ہیں جیسے دلوں سے قیامت کے حساب کتاب اورعذاب ِ الہٰی کا خوف نکل جانا، دنیا کی زندگی کو ہی پسند کرنا اور اسی کیلئے کوشش کرنا اور اسی پر مطمئن ہوکر بیٹھ جانا، قرآن اور احکاماتِ الہٰیہ سے غفلت، دلوں کا سخت ہونا، شدید وعیدیں سن کر بھی گناہوں سے باز نہ آنا یہ سب چیزیں ہمارے اندر اِس آیت کی روشنی میں افعالِ کفار کا عکس نہیں دِکھا رہیں تو اور کیا ہے؟
{اُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ:ان لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔} یعنی ان لوگوں کے کفر، تکذیب اور خبیث اعمال کے بدلے میں ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۳۰۲)
{یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِیْمَانِهِمْ:ان کا رب ان کے ایمان کے سبب ان کی رہنمائی فرمائے گا۔} حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مومن جب اپنی قبر سے نکلے گا تو اس کا عمل خوب صورت شکل میں اس کے سامنے آئے گا یہ شخص کہے گا تو کون ہے ؟وہ کہے گا :میں تیرا عمل ہوں۔ اور اس کے لئے نور ہوگا اور جنت تک پہنچائے گا اور کافر کا معاملہ برعکس ہوگا کہ اس کا عمل بری شکل میں نمودار ہو کر اسے جہنم میں پہنچائے گا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹، ۲ / ۳۰۲-۳۰۳)
سُبْحَانَ اللہ، کتنی پیاری فضیلت ہے کہ مومنین کی جنت کی طرف رہنمائی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی جانب سے ہوگی ۔ وہ جنت میں جائیں گے اور ہمیشہ کیلئے رہیں گے اور ان کے محلات کے نیچے دودھ ، شہد، شرابِ طہور اور خالص پانی کی نہریں جاری ہوں گی۔
{دَعْوٰىهُمْ فِیْهَا:ان کی دعا اس میں یہ ہوگی ۔} یعنی اہلِ جنت اللہ تعالیٰ کی تسبیح ، تحمید، تقدیس میں مشغول رہیں گے اور اس کے ذکر سے انہیں فرحت و سُرور اور اِنتہا درجہ کی لذت حاصل ہوگی ۔ سُبْحَانَ اللہ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰، ۲ / ۳۰۳)
اہلِ جنت کو تسبیح اور حمد کااِ لہام ہو گا:
حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جنتی لوگ جنت میں کھائیں اور پئیں گے، اس میں تھوکیں گے نہ پیشاب کریں گے، رفعِ حاجت کریں گے اور نہ ناک صاف کریں گے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰٰ عَنْہُمْ نے عرض کی: پھر ان کا کھانا کہاں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: ایک ڈکار (آئے گی) اور پسینہ مشک کی طرح ہو گا۔ انہیں تسبیح اور حمد کا اس طرح اِلہام ہو گا جیسے سانس آتا جاتا ہے۔( مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب فی صفات الجنۃ واہلہا۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۰، الحدیث: ۱۸(۲۸۳۵))
{وَ تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ:اور جنت میں ان کی ملاقات کا پہلا بول ’’سلام‘‘ہوگا۔} یعنی اہلِ جنت آپس میں ایک دوسرے کی تحیت یعنی تعظیم و تکریم سلام سے کریں گے یا ملائکہ انہیں بطورِ تحیت سلام عرض کریں گے یا ملائکہ رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ان کے پاس سلام لائیں گے۔ (بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰، ۲ / ۲۹۲) معلوم ہوا کہ بوقتِ ملاقات سلام کرنا اور بوقتِ رخصت حمدِ الٰہی کرنا جنتی لوگوں کا مشغلہ ہے۔
{وَ اٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ:اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہے۔} اس کا معنی یہ ہے کہ ان کے کلام کی ابتدا ء اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تعظیم و تَنزیْہ سے ہوگی اور کلام کا اختتام اس کی حمد و ثناپر ہوگا اور اس کے دوران جو چاہیں گے آپس میں کلام کریں گے۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۴۶۴) اس سے معلوم ہوا کہ حمدِ الٰہی جنت میں بھی ہوگی۔ حمد کی فضیلت کے بارے میں حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ (نعمت ملنے پر) الْحَمْدُ لِلہِ کہتا ہے تو یہ حمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دی گئی نعمت سے زیادہ افضل ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵)
نماز اور دعا قبول ہونے کا وظیفہ:
حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو رات کو اٹھے اور یہ کہے ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیرٌ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ اللہِ وَلَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ‘‘ پھر کہے ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ‘‘ یا کوئی اور دعا کرے تو قبول کی جائے گی اور اگر وضو کرے (اور نماز پڑھے) تو ا س کی نماز قبول کی جائے گی۔( بخاری، کتاب التہجّد، باب فضل من تعارّ من اللیل فصلّی، ۱ / ۳۹۱، الحدیث: ۱۱۵۴)
{لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ:تو ان کی مدت ان کی طرف پوری کردی جاتی ۔} یعنی اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کی بددعائیں جیسے کہ وہ غصے کے وقت اپنے لئے اور اپنے اہل واولاد و مال کے لئے کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں ہم ہلاک ہوجائیں ، خدا ہمیں غارت کرے ، برباد کرے اور ایسے کلمے ہی اپنی اولاد اور رشتہ داروں کے لئے کہہ گزرتے ہیں جسے اردو میں کوسنا کہتے ہیں اگر وہ دعا ایسی جلدی قبول کرلی جاتی جیسی جلدی وہ دعائے خیر کے قبول ہونے میں چاہتے ہیں تو ان لوگوں کا خاتمہ ہوچکا ہوتا اور وہ کب کے ہلاک ہوگئے ہوتے لیکن اللہتعالیٰ اپنے کرم سے دعا ئے خیر قبول فرمانے میں جلدی کرتا ہے اور دعائے بد کے قبول میں نہیں ، یہ اس کی رحمت ہے۔ شانِ نزول: نضر بن حارث نے کہا تھا: یارب !یہ دینِ اسلام اگر تیرے نزدیک حق ہے تو ہمارے اوپر آسمان سے پتھر برسا۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کافروں کے لئے عذاب میں جلدی فرماتا جیسا کہ اُن کیلئے مال و اولاد وغیرہ دنیا کی بھلائی دینے میں جلدی فرمائی تو وہ سب ہلاک ہوچکے ہوتے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۳۰۳، ملخصاً)
خود کو اوراپنے بچوں وغیرہ کو کوسنے سے بچیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہماری تمام دعائیں قبول نہ ہونا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہے کہ ہم کبھی برائی کو بھلائی سمجھ لیتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ غصہ میں اپنے کو یاا پنے بال بچوں کو کوسنا نہیں چاہیے ہر وقت رب تعالیٰ سے خیر ہی مانگنی چاہئے نہ معلوم کو ن سی گھڑی قبولیت کی ہو اور بعض اوقات ایسے ہو بھی جاتا ہے کہ اولاد کیلئے بددعا کی اور وہ قبولیت کی گھڑی تھی جس کے نتیجے میں اولاد پر واقعی وہ مصیبت و آفت آجاتی ہے جس کی بددعا کی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس طرح کی چیزوں سے اِحتراز ہی کرنا چاہیے۔ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ بواط کی جنگ میں گئے ، آپ مَجدِی بن عمرو جُہَنی کو تلاش کر رہے تھے ، ایک اونٹ پر ہم پانچ، چھ اورسات آدمی باری باری سوار ہوتے تھے، ایک انصاری اونٹ پر بیٹھنے لگا تو اس نے اونٹ کو بٹھایا، پھر اس پر سوار ہو کر اسے چلانے لگا۔ اونٹ نے اس کے ساتھ کچھ سرکشی کی تو اس نے اونٹ کو کہا: شَاْ، اللہ تم پر لعنت کرے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دریافت فرمایا کہ اونٹ پر لعنت کرنے والا شخص کون ہے؟ اس نے کہا:یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،یہ میں ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’اس اونٹ سے اتر جاؤ اور ہمارے ساتھ ملعون جانور کو نہ رکھو، تم اپنے آپ کو بد دعا دو، نہ اپنی اولاد کو بد دعا دو اور نہ اپنے اَموال کو بد دعا دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وہ گھڑی ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے کسی عطا کاسوال کیا جائے تو وہ دعا قبول ہوتی ہو۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب حدیث جابر الطویل وقصۃ ابی الیسر، ص۱۶۰۴، الحدیث: ۳۰۰۹)
{وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ:اور جب آدمی کوتکلیف پہنچتی ہے۔} یعنی کافر کو جب تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے ، بیٹھے، کھڑے ہر حال میں ہم سے دعا کرتا ہے اور جب تک اُس کی تکلیف زائل نہ ہو دعا میں مشغول رہتا ہے، پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تووہ ہم سے منہ موڑ کر اپنے پہلے طریقہ پر چل دیتا ہے اور وہی کفر کی راہ اختیار کرتا ہے اور تکلیف کے وقت کو بھول جاتا ہے گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر اس نے ہمیں پکارا ہی نہیں تھا۔ کافروں کے لئے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دئیے گئے۔ اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ انسا ن مصیبت کے وقت بہت ہی بے صبر ا ہے اور راحت کے وقت نہایت ناشکرا جب تکلیف پہنچتی ہے تو کھڑے لیٹے بیٹھے ہر حال میں دعا کرتا ہے اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ تکلیف دور کردے تو شکر بجانہیں لاتا اور اپنی سابقہ حالت کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ یہ حال غافل کا ہے ۔ عقلمند مومن کا حال اس کے خلاف ہے وہ مصیبت و بلا پر صبر کرتا ہے راحت و آسائش میں شکر کرتا ہے ، تکلیف و راحت کے جملہ اَحوال میں اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری اور دعا کرتا ہے اور ایک مقام اس سے بھی اعلیٰ ہے جو مومنوں میں بھی مخصوص بندوں کو حاصل ہے کہ جب کوئی مصیبت و بلا آتی ہے اس پر صبر کرنے کے ساتھ ساتھ دل و جان سے قضاءِالٰہی پر نہ صرف راضی رہتے ہیں بلکہ اس حال میں بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۳۰۴، ملخصاً)
مصیبت اور راحت کے وقت ہمارا حال:
مذکورہ بالا تفسیر کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے حال پر غور کرنا چاہیے کہ ہم کس گروہ کے پیچھے ہیں اور ہمارے اندر کس گروہ کی علامات پائی جارہی ہیں۔ کیا ہم بھی مصیبت میں نمازی، پرہیزگار، ذاکر و شاغل اور مصیبت دور ہونے کے بعد بے نمازی، جَری و بیباک اور غافل ہوتے ہیں یا خوشی و غمی دونوں حالتوں میں ہم تقویٰ کو اختیار کرتے ہیں اور ذکرِ خدا میں مشغول رہتے ہیں۔
{وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ:اور بیشک ہم نے تم سے پہلی قوموں کوہلاک کردیا۔} یعنی اے کفارِ مکہ! تم سے پہلی قوموں نے جب شرک کر کے اپنی جانوں پرظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلائل لے کر تشریف لائے جو اُن کے صدق کی بہت واضح دلیلیں تھیں لیکن اُنہوں نے نہ مانا اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تصدیق نہ کی اور وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ رسولوں پر ایمان لاتے اور جو کچھ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس سے لائے تھے اس کی تصدیق کرتے تو جس طرح رسولوں کو جھٹلانے کے سبب ہم نے ان گزری ہوئی قوموں کو ہلاک کر دیا اسی طرح اے مشرکو! میں اپنے حبیب محمد مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تکذیب کرنے پر تمہیں بھی ہلاک کر دوں گا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۳، ۲ / ۳۰۴-۳۰۵)
{ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰٓىٕفَ فِی الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِهِمْ:پھر ہم نے ان کے بعد تمہیں زمین میں جانشین بنایا ۔} اس آیت میں خطاب اہلِ مکہ سے ہے جبکہ آیت کا معنی یہ ہے کہ اے لوگو! پھر ہم نے گزشتہ اُمتوں کے بعد جنہیں ہلاک کردیا گیا تمہیں زمین میں ان کا جانشین بنایا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۴، ۲ / ۳۰۵)
سابقہ قوموں کے جانشین:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ جس دن سے اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرمایا اس سے لے کر قیامت تک ان کی امت میں مسلمان یا کافر جتنے لوگ ہوں گے سب زمین میں گزشتہ قوموں کے جانشین ہیں۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۸۵۹)
{لِنَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ:تا کہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے کام کرتے ہو؟} یعنی تاکہ ہم تمہارے اعمال کا امتحان لیں کہ تم اچھے یا برے کیسے عمل کرتے ہو اور تمہارے اعمال کے مطابق تم سے معاملہ فرمائیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۴، ۲ / ۳۰۵)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بے شک دنیا سرسبز اور میٹھی ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس میں جانشین بنایا ہے، پس وہ دیکھتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔( ترمذی، کتاب الفتن، باب ما اخبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ بما ہو کائن الی یوم القیامۃ، ۴ / ۸۱، الحدیث: ۲۱۹۸)
اس آیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے علم نہیں تھا اور جب مشرکین عمل کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ کو علم ہو گا بلکہ یہاں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ایسامعاملہ فرمائے گا جیسا امتحان لینے والا لوگوں کے ساتھ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اور اسے ہر چیز کا ہمیشہ سے علم ہے۔
{وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ:اور جب ان کے سامنے ہماری روشن آیات کی تلاوت کی جاتی ہے۔} شانِ نزول : کفار کی ایک جماعت نے نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں تو آپ اس قرآن کے سوا دوسرا قرآن لائیے جس میں لات،عُزّیٰ، مَنات وغیرہ بتوں کی برائی اور ان کی عبادت چھوڑنے کا حکم نہ ہو اور اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسا قرآن نازل نہ کرے تو آپ اپنی طرف سے بنالیجئے یا اسی قرآن کو بدل کر ہماری مرضی کے مطابق کردیجئے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ ان کا یہ کلام یا تو تمسخر واِستہزاء کے طور پرتھا یا انہوں نے تجربہ و امتحان کے لئے ایسا کہا تھا کہ اگر یہ دوسرا قرآن بنا لائیں یا اس کو بدل دیں تو ثابت ہوجائے گا کہ قرآن کلامِ ربّانی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ میرے لئے حلال نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں کوئی تبدیلی کروں۔ میں تو کمی زیادتی اور تبدیلی کے بغیر صرف اسی کا تابع ہوں جو اللہ تعالیٰ میری طرف وحی فرماتا ہے اور یہ میرا کلام نہیں کہ میں اس میں تبدیلی کر سکوں بلکہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام ہے اگر میں نے اپنی طرف سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کلام میں کوئی تبدیلی کر کے اس کی نافرمانی کی تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے اور ویسے بھی دوسرا قرآن بنانا انسان کے بس کی بات ہی نہیں کیونکہ انسا ن کااس سے عاجز ہونا تو اچھی طرح ظاہر ہو چکا ہے۔(بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۵، ۲ / ۲۹۳، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۸۵۹، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۴۶۶، ملتقطاً)
اسلام کی کسی قطعی چیز پر کفار سے معاہدہ نہیں ہو سکتا:
اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ کفار کے ساتھ اسلام کے قَطْعِیّات میں سے کسی چیز پر کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کی خوشنودی کیلئے اسلام کی کوئی قطعی چیز چھوڑ دیں جیسے ان کی خوشی کیلئے سود کی اجازت دیں ، یا پردے کو ختم کردیں ،یا نمازوں میں کمی کرلیں یا گائے کی قربانی بند کردیں۔
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرما دیں جنہوں نے قرآن میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو مجھ پر نہ تویہ قرآن نازل کیا جاتا اور نہ میں تمہارے سامنے اس کی تلاوت کرتا اور نہ تمہیں خبردار کیا جاتا لہٰذا اس کی تلاوت محض اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہے، نیز میں اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے تم میں چالیس سال کا عرصہ گزار چکا ہوں اور اس زمانے میں تمہارے پاس کوئی کتاب نہیں لایا اور نہ تمہیں پہلے ایسی کوئی چیز سنائی ہے ، تم نے میرے اَحوال کا خوب مُشاہدہ کیا ہے، میں نے کسی سے ایک حرف نہیں پڑھا۔ کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ، اس کے بعد یہ عظیم کتاب لایا ہوں جس کے سامنے ہر ایک فصیح کلام پَست اور بے حقیقت ہوگیا، اس کتاب میں نفیس عُلوم ہیں ، اُصول و فُروع کا بیان ہے، اَحکام و آداب میں مکارمِ اَخلاق کی تعلیم ہے، غیبی خبریں ہیں ،اس کی فصاحت و بلاغت نے ملک بھر کے فصیح و بلیغ افراد کو عاجز کردیا ہے، ہر عقلِ سلیم رکھنے والے کے لئے یہبات سورج سے زیادہ روشن ہوگئی ہے کہ ایسا کلام اللہ تعالیٰ کی وحی کے بغیر ممکن ہی نہیں تو کیا تمہیں عقل نہیں کہ اتنا سمجھ سکو کہ یہ قرآن اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے ہے مخلوق کی قدرت میں نہیں کہ اس کی مثل بنا سکے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۶، ۲ / ۳۰۵-۳۰۶)
{فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا:تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔} مشرکین نے یہ کہا تھا کہ قرآن نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا اپنا بنایا ہوا کلام ہے اور آپ نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھا ہے ، ان کے رد میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھے یعنی بفرضِ محال اگر میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنے کلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہوتا تو آپ سب سے بڑے ظالم قرار پاتے لیکن جب دلائل سے ثابت ہو چکا کہ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ قرآن اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام اوراس کی وحی ہے تو اب جو مشرکین اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام نہیں مانتے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیات کو جھٹلانے والے اور لوگوں میں سب سے بڑے ظالم ہیں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۲۲۶)
{وَ یَعْبُدُوْنَ:اوروہ عبادت کرتے ہیں۔} مشرکین بتوں کی عبادت بھی کرتے تھے اور انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا شفیع بھی مانتے تھے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بتوں کی عبادت کرنے کا رد فرمایا کہ یہ مشرکین جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں وہ اپنے نافرمان کو نہ تو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے عبادت گزار کو کوئی نفع دے سکتے ہیں کیونکہ وہ بے جان پتھر ہیں ، نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے جبکہ عبادت تعظیم کی سب سے اعلیٰ قسم ہے تو اس کا مُستحق وہی ہو گا کہ جو نفع و نقصان پہنچانے،زندگی اور موت دینے پر قدرت رکھتا ہو۔اس کے بعد بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا شفیع ماننے کا رد فرمایا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں ’’مشرکین کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے مقابلے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تعظیم اس میں زیادہ ہے کہ بتوں کی عبادت کی جائے اور وہ یہ کہتے تھے کہ ہم اس قابل نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کر سکیں اس لئے ہم ان بتوں کی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کریں گے۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۸، ۲ / ۳۰۷)
بتوں کو شفیع ماننے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو شفیع ماننے میں فرق:
مشرکین شفاعت کے چکر میں بتوں کی عبادت کرتے تھے اور یہ دونوں چیزیں ہی غلط تھیں۔ ایک تو شرک اور دوسرا ایسے بتوں کو شفیع ماننا جن کو اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے کوئی اِذن نہیں دیا گیا اور یہیں سے مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان فرق ہوگیا کہ مسلمان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اَولیاء و صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو اپنا شفیع مانتے ہیں لیکن ان کی عبادت نہیں کرتے اور پھر جن ہستیوں کو شفیع مانتے ہیں ان کواللہ عَزَّوَجَلَّ نے شفاعت کا اختیار بھی دیا ہے جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے تو گویا مشرکوں نے دو کام کئے اور دونوں غلط یعنی شرک اور نااہلوں کی شفاعت کا عقیدہ اور مسلمانوں نے عقیدہِ شفاعت رکھا لیکن ویسا جیسا ان کے رب کریم عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا۔
{وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً:اورسب لوگ ایک ہی اُمت تھے۔} یعنی سب لوگ ایک دین اسلام پر تھے جیسا کہ حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے زمانے میں قابیل کے ہابیل کو قتل کرنے کے وقت تک حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی ذُرِّیَّت ایک ہی دین پر تھے، اس کے بعد ان میں اختلاف ہوا ۔
مذہبی اختلاف کی ابتداء کب ہوئی؟
اس مذہبی اختلاف کی ابتداء سے متعلق مفسرین نے کئی قول ذکر کئے ہیں
ایک قول یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ تک لوگ ایک دین پر رہے پھر ان میں اختلاف واقع ہوا تو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی طرف مبعوث فرمائے گئے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کشتی سے اترنے کے وقت سب لوگ ایک دین اسلام پر تھے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے زمانے سے سب لوگ ایک دین پر تھے یہاں تک کہ عمرو بن لُحَی نے دین میں تبدیلی کی، اس قول کے مطابق ’’اَلنَّاسُ‘‘ سے مراد خاص عرب ہوں گے۔
بعض علماء نے کہا کہ معنی یہ ہیں کہ لوگ پہلی مرتبہ پیدائش کے وقت فطرتِ سلیمہ پر تھے پھر ان میں اختلافات ہوئے۔ حدیث شریف میں ہے ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی بناتے ہیں یا نصرانی بناتے ہیں یا مجوسی بناتے ہیں اور حدیث میں فطرت سے فطرتِ اسلام مراد ہے۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب ما قیل فی اولاد المشرکین، ۱ / ۴۶۶، الحدیث: ۱۳۸۵، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۳۰۷)بظاہر پہلا قول ہی درست ہے۔
{وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ:اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی۔} ارشاد فرمایا کہ اگر تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی کہ کفار کو مُہلت دی جائے گی اور ہر اُمت کے لئے ایک میعاد مُعَیّن نہ کردی گئی ہوتی یا اَعمال کی جزاء قیامت تک مُؤخّر نہ فرمائی گئی ہوتی تودنیا میں ہی ان کے درمیان ان کے باہمی اختلافات کا نُزولِ عذاب سے فیصلہ ہوگیا ہوتا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۳۰۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۶۷، ملتقطاً)
{وَ یَقُوْلُوْنَ:اور کہتے ہیں۔}اہلِ باطل کا طریقہ ہے کہ جب ان کے خلاف مضبوط دلیل قائم ہوتی ہے اور وہ جواب دینے سے عاجز ہوجاتے ہیں تو اس دلیل کا ذکر اس طرح چھوڑ دیتے ہیں جیسے کہ وہ پیش ہی نہیں ہوئی اور یوں کہتے ہیں کہ دلیل لائو ، تاکہ سننے والے اس مغالطہ میں پڑ جائیں کہ ان کے مقابلے میں اب تک کوئی دلیل ہی نہیں قائم کی گئی ۔ اس طرح کفار نے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات اور بالخصوص قرآنِ کریم جو کہ عظیم معجزہ ہے اس کی طرف سے آنکھیں بند کرکے یہ کہنا شروع کیا کہ کوئی نشانی کیوں نہیں اتری؟ گویا کہ معجزات انہوں نے دیکھے ہی نہیں اور قرآنِ پاک کو وہ نشانی شمار ہی نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ اس سوال کے وقت فرما دیجئے کہ غیب تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہے اب راستہ دیکھو ،میں بھی تمہارے ساتھ راہ دیکھ رہا ہوں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ دلالتِ قاہرہ اس پر قائم ہے کہ تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر قرآنِ پاک کا نازل ہونا بہت ہی عظیم الشّان معجزہ ہے، کیونکہ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہی لوگوں میں پیدا ہوئے ، ان کے درمیان پلے بڑھے، حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام زمانے ان کی آنکھوں کے سامنے گزرے ،وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ نے نہ کسی کتاب کا مطالعہ کیا ، نہ کسی استاد کی شاگردی کی، یکبارگی قرآنِ کریم آپ پرظاہر ہوا اور ایسی بے مثال اعلیٰ ترین کتاب کا ایسی شان کے ساتھ نُزول بغیر وحی کے ممکن ہی نہیں ،یہ قرآنِ کریم کے معجزئہ قاہرہ ہونے کی دلیل ہے اور جب ایسی مضبوط دلیل قائم ہے تو اِثباتِ نبوت کے لئے کسی دوسری نشانی کا طلب کرنا قطعاً غیر ضروری ہے، ایسی حالت میں اس نشانی کا نازل کرنا، نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر ہے، چاہے کرے ، چاہے نہ کرے تو یہ امر غیب ہوا اور اس کے لئے انتظار لازم آیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکیا کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ یہ غیر ضروری نشانی جو کفار نے طلب کی ہے نازل فرمائے یا نہ فرمائے (اس کی مرضی لیکن بہرحال) نبوت توثابت ہوچکی اور رسالت کا ثبوت قاہر معجزات سے اپنے کمال کو پہنچ چکا۔ (تفسیرکبیر، یونس تحت الآیۃ: ۲۰، ۶ / ۲۳۰، ملخصاً)
دلیل کاجواب دینے سے عاجز ہونے پر لوگوں کو مغالطے میں ڈالنا اہلِ باطل کا ایک طریقہ ہے:
اس آیت میں اہلِ باطل کا جو طریقہ بیان ہوا ا س کی کچھ جھلک بعض اوقات ان افراد میں بھی نظر آتی ہے جو خود کو اہلِ علم مسلمانوں میں شمار کرنے کے باوجود مسلمانوں کے عقائد و نظریات پر انتہائی شاطرانہ طریقے سے وار کرتے ہیں اور مسلمانوں کے دین و ایمان کو برباد کرنے اور انہیں کفر و گمراہی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب خوفِ خدا رکھنے اور مسلمانوں کے دین و ایمان کے تحفظ کی فکر کرنے والے علماء کی طرف سے ان کی علمی گرفت کی جاتی ہے تو وہ یہ کہہ کر لوگوں کی نظروں میں اس کی وقعت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس گرفت کی کوئی ایسی اہمیت نہیں جس کا جواب دے کر اپنا قیمتی وقت ضائع کیا جائے۔ اے کاش! یہ اس بات پر غور کر لیں کہ علم کے باوجود ان کا مسلمانوں کے مُسلَّمہ عقائد و نظریات سے جدا راستے پر چلنا کہیں ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر تو نہیں۔
{وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً:اور جب ہم (کافر) لوگوں کو رحمت کا مزہ دیتے ہیں۔} اس آیت میں کفار کے اس قول ’’اس (نبی) پر ان کے رب کی طرف سے کوئی (خاص قسم کی) نشانی کیوں نہیں اترتی ؟‘‘ کا ایک اور جواب دیا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ا ہلِ مکہ پر اللہ تعالیٰ نے قحط مُسلط کیا جس کی مصیبت میں وہ سات برس گرفتار رہے یہاں تک کہ ہلاکت کے قریب پہنچے، پھر اس نے رحم فرمایا، بارش ہوئی، زمینیں سرسبز ہوئیں ، تو اگرچہ اس تکلیف و راحت دونوں میں قدرت کی نشانیاں تھیں اور تکلیف کے بعد راحت بڑی عظیم نعمت تھی اور اس پر شکر لازم تھا مگر انہوں نے اس سے نصیحت حاصل نہ کی اور فساد و کفر کی طرف پلٹ گئے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۸۶۱-۸۶۲، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ۲ / ۳۰۸، ملتقطاً)
رحمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنااورآفت کو منسوب نہ کرنابارگاہِ الٰہی کا ایک ادب ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ کا ادب یہ ہے کہ رحمتوں کو اس کی طرف منسوب کیا جائے اور آفات کو اس کی جانب منسوب نہ کیا جائے اور یہی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا طرزِ عمل ہے ،جیسے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کافروں سے کلام کے دوران جب اللہ تعالیٰ کی شان بیان فرمائی تو ادب کی وجہ سے بیماری کو اپنی طرف اور شفا کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا : ’’وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ‘‘(شعراء:۸۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔
{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں بہت جلد سزا دینے والا ہے اوران کی سازشوں کی گرفت پر بہت زیادہ قادر ہے اور اس کا عذاب دیر نہیں کرتا۔ اور ارشاد فرمایا کہ بیشک ہمارے فرشتے تمہارے مکر و فریب کو لکھ رہے ہیں اور تمہاری خُفیہ تدبیریں کاتب ِ اعمال فرشتوں پر بھی مخفی نہیں ہیں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ علیم و خبیر سے کیسے چھپ سکتی ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ۲ / ۳۰۸، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۴۶۸، ملتقطاً)
کافروں پر بھی کِرامًا کاتبین فرشتے مقرر ہیں :
اس سے معلوم ہو ا کہ کِرَامًا کَاتِبِینْ اعمالِ کفار پر بھی مقرر ہیں جو ان کے ہر قول و عمل کو لکھتے ہیں۔ البتہ گناہ لکھنے والا فرشتہ تو لکھتا رہتا ہے اور نیکیاں لکھنے والا فرشتہ اس پر گواہ رہتا ہے وہ کچھ نہیں لکھتا کیونکہ ان کی نیکی نیکی نہیں۔ (تفسیر روح البیان، یونس، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۳۰)
{هُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُكُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ:وہی ہے جو تمہیں خشکی اور تری میں چلاتا ہے۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اور جب ہم لوگوں کو انہیں تکلیف پہنچنے کے بعد رحمت کا مزہ دیتے ہیں تو اسی وقت ان کا کام ہماری آیتوں کے بارے میں سازش کرنا ہوجاتا ہے ۔‘‘ اور ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے شدید مصیبت سے رحمت کی طرف منتقل ہونے اورانسان کی سازش کی ایک مثال بیان فرما ئی ہے۔ اس آیت میں پہلے بیان فرمایا کہ وہی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے جو تمہیں خشکی اور تری میں چلاتا ہے اور تمہیں مسافت طے کرنے کی قدرت دیتا ہے خشکی میں تم پیادہ اور سوار منزلیں طے کرتے ہو اور دریائوں میں کشتیوں اور جہازوں سے سفر کرتے ہو وہ تمہیں خشکی اور تری دونوں میں چلنے کے اَسباب عطا فرماتا ہے ۔اس کے بعد فرمایا: یہاں تک کہ جب تم کشتی میں مَحوِ سفر ہوتے ہو اور وہ کشتیاں خوشگوار ہوا کے ساتھ لوگوں کو لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ اس بات پر خوش ہورہے ہوتے ہیں کہ ہوا ان کے موافق ہے، پھر اچانک ان پر شدید آندھی آنے لگتی ہے اور ہر طرف سے سمندر کی طوفانی لہریں اٹھتی ہیں تو وہ گرداب میں پھنس جاتے ہیں ، اس وقت انہیں اپنی نَجات کی امید نہیں رہتی اور ہلاکت کا یقین ہوجاتا ہے۔ سخت خوف اور شدید مایوسی کا عالَم ہوتا ہے اور اب تک جن باطل معبودوں کی عبادت کرتے رہے تھے ان کی بیچارگی بالکل عیاں ہوجاتی ہے اور جب تمام مخلوق سے امیدیں ختم ہو جاتی ہیں تو اس وقت تمام مشرکین اپنے جسم اور رُوح کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کو پکارتے اورا سی سے فریاد کرتے ہیں کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو ہمیں اس طوفان سے نجات دیدے تو ہم ضرور تیری نعمتوں کے، تجھ پر ایمان لا کر اور خاص تیری عبادت کرکے شکر گزار ہوجائیں گے۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۲۲، ۶ / ۲۳۲، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۲، ۲ / ۳۰۹، ملتقطاً)لیکن طوفان ختم ہوجانے کے بعد کیا ہوتا ہے وہ اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔
مَصائب اور تکالیف میں کسے پکارا جائے :
اس آیت سے معلوم ہو اکہ کٹرترین کافر بھی مصائب اور تکالیف میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے ا س لئے مسلمان کو بدرجہ اَولیٰ چاہئے کہ جب اس پر کوئی مصیبت ،تکلیف یا کوئی پریشانی آئے تو وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں فریاد کرے اور گریہ وزاری کرتے ہوئے اسی کے حضور مشکلات کی آسانی کے لئے دعا کرے کیونکہ دنیا و آخرت کی ہر مصیبت و بلا اسی کی رحمت سے دور ہوتی ہے اور اس کا بہترین طریقہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے مقدس صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی سیرتِ مبارکہ میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے نیک اور مقبول بندوں کا وسیلہ پیش کر کے اس سے مصائب و آلام کی دوری اور حاجت روائی کی اِلتجاء کی جائے جیسے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عثمان بن حُنیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو اپنے وسیلے سے دعا مانگنے کی تعلیم دی جیسا کہ ترمذی شریف میں ہے اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا وسیلہ پیش کر کے بارش کی دعا مانگی جیسا کہ بخاری شریف میں ہے البتہ یہ یاد رہے کہ مشکلات میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے مدد طلب کرنا اِعتدال کی حد سے خارج نہیں کیونکہ کوئی مسلمان ان کے بارے یہ نظریہ نہیں رکھتا کہ یہ بذاتِ خود مدد کرنے پر قدرت رکھتے ہیں بلکہ ہر مسلمان کا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس کے اِذن اور اس کی عطا سے مدد کرتے ہیں اور یہ جائز و ثابت ہے جیسے غزوۂ بدر میں فرشتوں کا مدد کرنا۔
{فَلَمَّاۤ اَنْجٰىهُمْ:پھرجب اللہ انہیں بچا لیتا ہے۔} یعنی جب اللہ تعالیٰ طوفان کی موجوں میں پھنسے ہوؤں اور اپنی ہلاکت کو یقینی جاننے والوں کو اس مصیبت سے بچا لیتا ہے تواس وقت وہ زمین میں ناحق زیادتی کرنے لگتے ہیں اور اپنے وعدے کے خلاف کرکے کفر و مَعْصِیَت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اے لوگو! تمہاری زیادتی کا وبال تمہاری طرف ہی لوٹے گا ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کا اس میں کچھ نقصان نہیں۔تم دنیا کی زندگی سے تھوڑا عرصہ فائدہ اٹھالو پھر تمہیں مرنے کے بعد ہماری طرف ہی لوٹنا ہے تواس وقت ہم تمہیں بتادیں گے جوتم اچھے برے اعمال کیا کرتے تھے اور ان کی تمہیں جزا دیں گے۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۳، ۲ / ۳۰۹، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۸۶۳، ملتقطاً)
مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور خوشحالی میں اسے بھول جانا کافروں کا طریقہ ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور خوشحالی کے وقت بھول جانا حقیقت میں کافروں کا طریقہ ہے، افسوس کے آج کل مسلمان بھی عملی اعتبار سے اس میں مبتلا ہیں۔ اولاد بیمار ہوئی یا خود کو کوئی خطرناک بیماری لگ گئی یا کوئی قریبی عزیز ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوگیا تو نماز، ذکر، دعا، تلاوت، صدقہ و خیرات، مسجدوں کی حاضری اور مزید بہت کچھ شروع ہوجاتا ہے اور جیسے ہی معاملہ ختم ہوا تو کہاں کی نماز و مسجد اور کہاں کی ذکر و تلاوت؟ دوبارہ پھر اپنی پرانی دنیا میں لوٹ جاتے ہیں۔ مسلمان کا قول تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا جینا مرنا سب اللہ کیلئے ہے ،لیکن افسوس کہ آج مسلمان کا عمل اِس کے خلاف نظر آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔
{اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:دنیا کی زندگی کی مثال۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’اے لوگو! تمہاری زیادتی (درحقیقت) صرف تمہارے ہی خلاف ہے ۔ ‘‘ اورا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے بارے میں ایک عجیب مثال بیان فرمائی ہے جو دنیا کی لذتوں میں گم ہو کر اپنی آخرت سے بے پر واہ ہو جاتا ہے ۔اس مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ آسمان سے اترنے والے پانی کی وجہ سے زمین کی پیداوار بہت گھنی ہوجاتی ہے کیونکہ جب بارش ہوتی ہے تو اس کے سبب زمین سے رنگ برنگے پھول، خوبصورت بیلیں ،خوش ذائقہ پھل اوران کے علاوہ طرح طرح کی اَجناس پیدا ہوتی ہیں حتّٰی کہ جب باغات اور کھیتوں کا مالک پھلوں سے لدے ہوئے درختوں اور ہری بھری،لہلہاتی فصلوں کو دیکھتا ہے تو خوشی سے پھولے نہیں سماتا ،پھر وہ اس پیداوار سے فوائد حاصل کرنے سے متعلق بڑے بڑے منصوبے بناتا ہے ، اس کا دل ان منصوبوں میں ہی مشغول ہوتا ہے اور یوں وہ بالکل غافل ہوتا ہے اور اسی حالت میں اللہ تعالیٰ دن یا رات میں ان پُرکشش باغوں اور کھیتوں پر ژالہ باری، آندھی یا طوفان وغیرہ کوئی بڑی آفت نازل فرما دیتا ہے جس سے یہ باغات اور فصلیں ایسے تباہ ہوجاتے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں اور ان کا مالک حسرت زدہ اور شدید غم میں مبتلا ہو کر بس ہاتھ ملتا ہی رہ جاتا ہے۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۲۴، ۶ / ۲۳۶-۲۳۷)
دُنیوی زندگی امیدوں کا سبز باغ ہے:
اس آیت میں بہت بہترین طریقے سے دل میں یہ بات بٹھائی گئی ہے کہ دنیوی زندگانی امیدوں کا سبز باغ ہے، اس میں عمر کھو کر جب آدمی اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں اس کو مراد حاصل ہونے کا اطمینان ہوتا ہے اور وہ کامیابی کے نشے میں مست ہو جاتا ہے تو اچانک اس کو موت آ پہنچتی ہے اور وہ تمام نعمتوں اور لذتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ دنیا کا طلب گار جب بالکل بے فکر ہوتا ہے اس وقت اس پر عذابِ الٰہی آتا ہے اور اس کا تمام سازو سامان جس سے اس کی امیدیں وابستہ تھیں غارت ہوجاتا ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۳۱۰، ملخصاً)
{كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ:ہم غور کرنے والوں کیلئے اسی طرح تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں۔} یعنی جس طرح ہم نے تمہارے سامنے دُنیوی زندگی کی مثال اور اس کا حکم بیان فرمایا اسی طرح ہم غور وفکر کرنے والوں کیلئے تفصیل سے اپنے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ نفع حاصل کریں اور شک و وہم کی ظلمتوں سے نجات پائیں اور دنیائے ناپائیدار کی بے ثَباتی سے باخبر ہوں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۳۱۱)
{وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ:اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔} دنیا کی بے ثباتی بیان فرمانے کے بعد اس آیت میں باقی رہنے والے گھر جنت کی طرف دعوت دی گئی اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو اس گھر کی طرف بلاتا ہے جس میں ہر قسم کی تکلیف اور مصیبت سے سلامتی ہے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ دارُالسَّلام سے مراد جنت ہے۔ اوریہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی بے انتہاء رحمت اور اس کا کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو جنت کی دعوت دی۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۳۱۱)
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو جنت کی طرف دعوت دیتا ہے اور یہ دعوت اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے ہے چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں کچھ فرشتے اس وقت حاضر ہوئے جب آپ سوئے ہوئے تھے ،ان میں سے بعض نے کہا کہ’’ آپ تو سوئے ہوئے ہیں اور بعض نے کہا کہ’’ ان کی آنکھ سوتی ہے اور دل جاگتا ہے ۔بعض کہنے لگے کہ ’’ان کی کوئی مثال بیان کرو تو انہوں نے کہا :ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک مکان بنایا اور اس میں طرح طرح کی نعمتیں مہیا کیں اور ایک بلانے والے کوبھیجا کہ لوگوں کو بلائے جس نے اس بلانے والے کی اطاعت کی وہ اس مکان میں داخل ہوا اور ان نعمتوں کو کھایا پیا اور جس نے بلانے والے کی اطاعت نہ کی وہ نہ مکان میں داخل ہوسکا، نہ کچھ کھا سکا ۔ پھر وہ کہنے لگے کہ اس کا مطلب بیان کیجئے تاکہ بات سمجھ میں آجائے۔ انہوں نے کہا کہ مکان سے مراد جنت ہے اور بلانے والے سے محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مراد ہیں ، جس نے ان کی اطاعت کی اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکی اطاعت کی ، جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی۔(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۴ / ۴۹۹، الحدیث: ۷۲۸۱)
{وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ:اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔}اس آیت میں صراطِ مستقیم سے مراد دینِ اسلام ہے۔(بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۲۹۶) آیت کے اس حصے سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ کی دعوت تو عام ہے کہ سب کوبلایا جا رہا ہے مگر اس کی ہدایت خاص ہے کہ وہ کسی کسی کو ملتی ہے۔
{لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌ:بھلائی کرنے والوں کے لیے بھلائی ہے اور اس سے بھی زیادہ۔} بھلائی والوں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرمانبردار بندے مومنین مراد ہیں اور یہ جو فرمایا کہ ان کے لئے بھلائی ہے، اس بھلائی سے جنت مراد ہے اور اس پر زیادت سے مراد دیدارِ الٰہی ہے۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۴۷۰)
اَحادیث سے بھی ثابت ہے کہ اس آیت میں زیادت سے مراد دیدارِ الٰہی ہے ،چنانچہ حضرت صہیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا :کیا تم چاہتے ہو کہ تم پر اور زیادہ عنایت کروں۔ وہ عرض کریں گے: یارب! عَزَّوَجَلَّ، کیا تو نے ہمارے چہرے سفید نہیں کئے، کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا ، کیا تو نے ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: پھر پردہ اٹھادیا جائے گا تودیدارِ الٰہی انہیں ہر نعمت سے زیادہ پیارا ہوگا۔ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌ ‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، باب فی قولہ علیہ السلام: انّ اللہ لا ینام۔۔۔ الخ، ص۱۱۰، الحدیث: ۲۹۷-۲۹۸(۱۸۱))
{وَ الَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ:اور جنہوں نے برائیوں کی کمائی کی۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اُخروی حالات اور انعامات بیان فرمائے اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے چار اخروی اَحوال بیان فرمائے ہیں۔
(1)…جتنا گناہ ہو گا اتنی ہی سزا ملے گی۔ اس قید سے اس بات پر تَنبیہ مقصود ہے کہ نیکی اور گناہ میں فرق ہے کیونکہ نیکی کا ثواب ایک سے لے کر سات سوگنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھایا جاتا ہے اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل و کرم ہے اور گناہ کی سزا اتنی ہی دی جاتی ہے جتنا گناہ ہو اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عدل ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۳۱۳)
(2)… ان پر ذلت چھائی ہوگی۔ اس میں ان کی توہین اور تحقیر کی طرف اشارہ ہے۔
(3)…انہیں اللہ کے عذاب اور اس کی ناراضی سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔
(4)… گویا ان کے چہروں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ ان کی روسیاہی کا یہ حال ہوگا خدا کی پناہ۔
قیامت کے دن بعض مسلمانوں پر بھی عذابِ الٰہی کے آثار ہوں گے:
اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن مومن و کافر چہروں ہی سے معلوم ہو جائیں گے۔ رب عَزَّوَجَلَّفرماتا ہے
’’ یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰىهُمْ ‘‘ (رحمٰن:۴۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان:مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔
اور فرماتا ہے: ’’ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ‘‘ (اٰل عمران:۱۰۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کئی چہرے روشن ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے۔
البتہ کئی مسلمان بھی ایسے ہوں گے جو قیامت کے دن اپنے عذاب کی علامات لئے ہوئے ہوں گے جیسے
پیشہ ور بھکاری کے منہ پر گوشت نہ ہوگا ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’آدمی سوال کرتا رہے گا، یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اُس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا نہ ہوگا۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب کراہۃ المسألۃ للناس، ص۵۱۸، الحدیث: ۱۰۴(۱۰۴۰))
بیویوں میں انصاف نہ کرنے والے کی ایک کروٹ ٹیڑھی ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ا رشاد فرمایا جب کسی کے پاس دو بیویاں ہوں پھر ان میں انصاف نہ کرے تو وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کی ایک کروٹ ٹیڑھی ہوگی۔ (ترمذی، کتاب النکاح، باب ما جاء فی التسویۃ بین الضرائر، ۲ / ۳۷۵، الحدیث: ۱۱۴۴)
زکوٰۃ ادا کرنے میں بخل کرنے والے پر گنجا سانپ مُسلّط ہو گا، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس کو اللہتعالیٰ مال دے اور وہ اُس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا، جس کے سر پر دونشان ہوں گے۔ وہ سانپ اُس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا پھر اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘ اس کے بعد حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس آیت کی تلاوت کی
’’ وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ‘‘ (اٰل عمران:۱۸۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو لوگ اس چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہے وہ ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ یہ بخل ان کے لئے برا ہے۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ۱ / ۴۷۴، الحدیث: ۱۴۰۳)
{وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا:اور جس دن ہم ان سب کو اٹھائیں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کواٹھائے گا اور تمام مخلوق کو حساب کی جگہ میں اکٹھا فرمائے گا، پھر مشرکوں سے فرمائے گا کہ تم اور تمہارے شریک یعنی وہ بت جن کو تم پوجتے تھے اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔ یوں اللہ تعالیٰ مشرکوں کو مسلمانوں سے جدا کر دے گا اور جب مشرکوں سے سوال جواب ہوگا تو اس وقت ایک ساعت ایسی شدت کی آئے گی کہ بت اپنے پجاریوں کی پوجا کا انکار کردیں گے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھاکر کہیں گے کہ ہم نہ سنتے تھے، نہ دیکھتے تھے، نہ جانتے تھے، نہ سمجھتے تھے کہ تم ہمیں پوجتے ہو۔ اس پر بت پرست کہیں گے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! ہم تمہیں کو پوجتے تھے، تو بت کہیں گے: اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم ہمیں پوجتے تھے یا نہیں ہم بہرحال تمہاری عبادت سے بے خبر تھے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۸۶۶-۸۶۷)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بتوں کو قوتِ گویائی دے گا اور وہ اپنے پجاریوں کی مخالفت کریں گے۔
{هُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّاۤ اَسْلَفَتْ:وہاں ہر آدمی اپنے سابقہ اعمال کو جانچ لے گا۔} یعنی اس مَوقف میں سب کو معلوم ہوجائے گا کہ انہوں نے پہلے جو عمل کئے تھے وہ کیسے تھے اچھے یا برے ،مُضِر یا مفید، مقبول یا مردود اور مشرکوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹایا جائے گا جو اُن کارب ہے اور اپنی رَبوبیت میں سچا ہے اور مشرک جن بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہراتے تھے وہ ان سے غائب ہو جائیں گے یا جو جھوٹی باتیں مثلاً بتوں کاان کی شفاعت کرنا گھڑتے تھے وہ سب باطل اور بے حقیقت ثابت ہوں گی۔(مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۴۷۱-۴۷۲)
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی مذمت بیان فرمائی اور ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ مشرکوں کے مذہب کے باطل ہونے اور اسلام کے حق ہونے کو واضح فرما رہا ہے،چنانچہ اس آیت میں بیان فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکوں سے فرما دیں کہ آسمان سے بارش برسا کر اور زمین سے سبزہ اُگا کر تمہیں کون روزی دیتا ہے؟ تمہیں یہ حواس کس نے دئیے ہیں جن کے ذریعے تم سنتے اور دیکھتے ہو،آفات کی کثرت کے باوجود کان اور آنکھ کو لمبے عرصے تک کون محفوظ رکھتا ہے حالانکہ یہ اتنے نازک ہیں کہ ذرا سی چیز انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے اور زندہ کو مردہ سے جیسے انسان کونطفہ سے، پرندے کو انڈے سے کون نکالتا ہے اور یونہی مردہ کو زندہ سے جیسے نطفہ کو انسان سے اور انڈے کو پرندے سے کون نکالتا ہے؟ اور ساری کائنات کے تمام کاموں کی تدبیر کون کرتا ہے؟ آپ کے سوالات سن کر وہ کہیں گے کہ بے شک ان چیزوں پر قدرت رکھنے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے ۔ جب وہ لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّکی قدرتِ کاملہ کا اِعتراف کر لیں تواے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان سے فرماؤ : جب تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ربوبیت کا اعتراف کرتے ہو تو بتوں کو عبادت میں اس کا شریک ٹھہرانے سے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرتے کیوں نہیں حالانکہ بت نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ان اُمور میں سے کسی پر کوئی قدرت رکھتے ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۳۱۴، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۴۷۲، ملتقطاً)بلکہ الٹا ان کی عبادت تمہارا بیڑہ غرق کردے گی کہ شرک کے مُرتکب ہونے کی وجہ سے ہمیشہ کیلئے جہنم میں جاؤ گے۔
{فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ:تو یہ اللہ ہے۔} یعنی جو اِن چیزوں کوسر انجام دیتاہے اور آسمان وزمین، زندگی وموت سب کا مالک ہے اور رزق و عطا پر قدرت رکھتا ہے وہی اللہ عَزَّوَجَلَّتمہارا سچا رب ہے، وہی عبادت کا مُستحق ہے نہ کہ یہ ناکارہ، خود ساختہ، بناوٹی بت اور جب ایسے واضح اور قطعی دلائل سے ثابت ہوگیا کہ عبادت کا مستحق صرف اللہ عَزَّوَجَلَّہے تو اس کے ماسوا سب معبود باطلِ مَحض ہیں اور جب تم نے اس کی قدرت کو پہچان لیا اور اس کی کارسازی کا اِعتراف کرلیا توپھر تم حق قبول کرنے سے کیوں اِعراض کررہے ہو؟ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۲، ۲ / ۳۱۴)
{ كَذٰلِكَ حَقَّتْ:یونہی ثابت ہوچکے۔} یعنی جس طرح یہ مشرکین حق سے گمراہی کی طرف پھیر دئیے گئے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے علمِ اَزلی میں اُس کا جو حکم اور قضا تھی وہ ان لوگوں پر ثابت ہو چکی جنہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کی بجائے اس کی نافرمانی کی اور اس سے کفر کیا۔یہ لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی وحدانیت کی تصدیق کریں گے نہ اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تصدیق کریں گے ۔ (طبری، یونس، تحت الآیۃ: ۳۳، ۶ / ۵۵۹)
یاد رہے کہ اس آیت میں رب کی بات سے مرادتقدیر الٰہی ہے یعنی تقدیرمیں یہ لکھا ہوا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے یا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان’’ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ‘‘(اعراف:۱۸) یعنی ہم ان سے دوزخ بھریں گے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۳۱۴، جلالین، یونس، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۱۷۳، ملتقطاً)
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس آیت میں توحید کی حقیقت اور شرک کے بُطلان پر ایک اور دلیل بیان کی گئی ہے اور یہ دلیل یوں دی گئی ہے کہ ‘‘اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرما دیں کہ ! کیا وہ بت جنہیں تم معبود مانتے ہو ان میں کوئی ایسا ہے جس میں یہ قدرت ہو کہ وہ بغیر کوئی مثال دیکھے خود ہی مخلوق کو پیدا بھی کرلیتا ہو اور پھر موت کے بعد انہیں پہلے ہی کی طرح دوبارہ بنا بھی دے؟ اس کا جواب ظاہر ہے کہ ایسا کوئی نہیں کیونکہ مشرکین بھی یہ جانتے ہیں کہ پیدا کرنے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے اور بتوں میں پیدا کرنے کی قوت و قدرت ہرگز نہیں ہے۔ تو فرمایا گیا کہ جب بت کچھ نہیں کرسکتے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سب کچھ کرسکتا ہے اور وہ پہلی مرتبہ بنانے پر اور فنا کے بعد دوبارہ بنانے پر بھی قادر ہے تو تم کہاں الٹے پھرے جارہے ہو اور ایسی روشن دلیلیں قائم ہونے کے بعد راہِ راست سے کیوں مُنْحَرِف ہوتے ہو۔ (ابوسعود، یونس، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۴۹۲، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۳۱۴، ملتقطاً)
{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ تمہارے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو حجتیں اور دلائل قائم کرکے، رسول بھیج کر، کتابیں نازل فرما کر اور مُکَلَّفین کو عقل و نظر عطا فرما کر حق کی طرف رہنمائی کرے ؟ اس کاواضح جواب یہ ہے کہ ایسا کوئی نہیں ، تو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم فرماؤ: اللہ عَزَّوَجَلَّ حق کی طرف ہدایت دیتا ہے، تو کیا جو حق کا راستہ دکھائے وہ اِس کا حق دار ہے کہ اُس کی پیروی کی جائے یا وہ جسے خود اس وقت تک راستہ دکھائی نہ دے جب تک اسے راستہ دکھایا نہ جائے جیسا کہ تمہارے بت ہیں کہ وہ تب تک کسی جگہ جا نہیں سکتے جب تک کوئی اٹھالے جانے والا انہیں اٹھا کر لے نہ جائے اور نہ وہ کسی چیز کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ راہِ حق کو پہچان سکتے ہیں ، ہاں اگر اللہ تعالیٰ انہیں زندگی، عقل اور سمجھنے کی صلاحیت دے تو ایسا کر سکتے ہیں ، جب ان کی مجبوری کا یہ عالَم ہے تو وہ دوسروں کو کیا راہ بتاسکیں گے اور ایسوں کو معبود بنانا ،ان کا مطیع بننا کتنا باطل اور بے ہُودہ ہے۔( روح المعانی، یونس، تحت الآیۃ: ۳۵، ۶ / ۱۵۱، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۴۷۳، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۸۶۹، ملتقطاً)
{وَ مَا یَتَّبِـعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنًّا:اور ان کی اکثریت تو صرف وہم وگمان پر چلتی ہے ۔} یعنی ان مشرکین کی اکثریت بتوں کو معبود اور انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں اپنا شفیع ماننے میں تو صرف وہم وگمان پر چلتی ہے جس کی ان کے پاس نہ تو کوئی دلیل ہے اورنہ اس کے صحیح ہونے کا یقین ہے بلکہ یہ صرف شک میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ پہلے لوگ بھی بت پرستی کرتے تھے اور انہوں نے کچھ سمجھ کر ہی بت پرستی کی ہوگی۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۳۱۵، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۴۷۳، ملتقطاً)
آیت میں ’’اکثر ‘‘فرمایا گیا ، اس سے معلوم ہوا کہ بعض بت پرست وہ بھی تھے جو جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص سے پاک اور ہر کمال سے مُتَِّصف ہے لیکن وہ عناد اور سرکشی کی وجہ سے کفر کرتے تھے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۸۶۹)
{اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْــٴًـا:بیشک گمان حق کا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔} اس آیت میں ظن سے مراد وہ گمان ہے جو خلافِ تحقیق ہو، اس میں شک اور وہم بھی داخل ہیں اور یہ کلام کفار کے بارے میں ہے جنہوں نے کفر اِختیار کرنے میں اپنے آباؤ اَجداد کی پیروی اور تقلید کی۔ اس تقلید پر دنیا و آخرت میں ان کا کوئی عذر مقبول نہیں البتہ خالص مومن جس کا دل ایمان سے بھرا ہوا ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلائل قائم کرنے سے عاجز ہے ، وہ اگر کسی ایسے شخص کی تقلید کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلائل قائم کر تا ہے تو وہ اس آیت کا مِصداق نہیں بلکہ وہ یقینی طور پر مومن ہے کیونکہ اس کے نزدیک یہ گمان نہیں بلکہ یقین ہے جو کہ واقع کے مطابق ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۸۶۹)
{وَ مَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ:اور اس قرآن کی یہ شان نہیں۔} کفارِ مکہ نے یہ وہم کیا تھا کہ قرآنِ کریم نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود بنالیا ہے اس آیت میں ان کا یہ وہم دور فرمایا گیا ہے ۔چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نازل کئے بغیر کوئی اسے اپنی طرف سے بنالے، کیونکہ قرآن فصاحت و بلاغت اور علوم و اَسرار کے جس مرتبے پر ہے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی کے شایانِ شان نہیں۔یہ قرآن اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے وحی ہے جسے اس نے اپنے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کیا ہے، یہ جھوٹ اور اِفتراء سے مُنزہ ہے، اس کی مثال بنانے سے ساری مخلوق عاجز ہے ۔ ہاں قرآن تَورات اور انجیل وغیرہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے جنہیں قرآن سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل فرمایا اور قرآن میں لوحِ محفوظ میں لکھے ہوئے حلال و حرام اور فرائض و اَحکام کی تفصیل ہے اوریہ بات قطعی و یقینی ہے کہ قرآن اللہ ربُّ العلمین عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے، اسے کسی نے اپنی طرف سے نہیں بنایا اور کوئی فردِ بشر اس جیسا کلام پیش ہی نہیں کرسکتا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۷، ۲ / ۳۱۵-۳۱۶)
{وَ تَفْصِیْلَ الْكِتٰبِ:اور لوحِ محفوظ کی تفصیل ہے۔}اس مقام پر علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بڑا پیارا کلا م فرمایا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ قرآن لوحِ محفوظ کی تفصیل ہے، لوحِ محفوظ میں مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ یعنی جو ہو چکا اور جو آئندہ ہوگا اور دنیا و آخرت میں جو ہونے والا ہے سب کچھ لکھا ہوا ہے( اور جب قرآن میں لوحِ محفوظ کی پوری تفصیل ہے) تو جسے قرآن کے اَسرار میں سے کوئی چیز عطا ہوئی اسے لوحِ محفوظ پر لکھا ہوا جاننے کی حاجت نہیں بلکہ وہ جو چاہے قرآن ہی سے معلوم کر لیتا ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۸۷۰)
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ:کیا وہ یہ کہتے ہیں۔} یہاں کافروں کی اسی بات کا جواب دیا گیا ہے کہ کیا کفار یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے قرآن خود ہی بنالیا ہے اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام نہیں ؟ا ے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان سے فرما دو کہ اگر تمہارا یہی خیال ہے تو تم بھی عربی ہو، فصاحت و بلاغت کے دعویدار ہو، دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کے کلام کے مقابل کلام بنانے کو تم ناممکن سمجھتے ہو، لہٰذا اگر تمہارے گمان میں یہ انسانی کلام ہیتو تم بھی اس جیسی کوئی ایک سورت لے آؤ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جو تمہیں مل سکیں سب کو بلا لاؤ اور ان سے مدد یں لو اور سب مل کر قرآن جیسی ایک سورت تو بنا کر دکھاؤ۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۳۱۶، ملخصاً) قرآنِ مجید کا یہ چیلنج چودہ سوسال سے زائد عرصے سے چلا آرہا ہے لیکن آج تک کوئی کافر اس کا جواب نہیں دے سکا اور اگر کسی نے جواب دینے کی کوشش بھی کی ہے تو قرآنِ کریم کے مقابلے میں اس کی حیثیت ناچیز ذرے سے بھی کم ثابت ہوئی۔
{ بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِهٖ:بلکہ انہوں نے اس کو جھٹلایا جس کے علم کا وہ اِحاطہ نہ کرسکے۔}یعنی قرآنِ پاک کو سمجھنے اور جاننے کے بغیر انہوں نے اس کی تکذیب کی اور یہ انتہائی جہالت ہے کہ کسی شئے کو جانے بغیر اس کا انکار کیا جائے اور قرآنِ کریم کا ایسے عُلوم پر مشتمل ہونا جن کا علم و خِرَد کے دعوے دار احاطہ نہ کرسکیں اس کتاب کی عظمت و جلالت ظاہر کرتا ہے تو ایسی اعلیٰ علوم والی کتاب کو ماننا چاہئے تھا نہ کہ اس کا انکار کرنا۔ (ابو سعود، یونس، تحت الآیۃ: ۳۹، ۲ / ۴۹۶، ملخصاً)
{ وَ لَمَّا یَاْتِهِمْ تَاْوِیْلُهٗ:اور ان کے پاس اس کاانجام نہیں آیا۔} یعنی جس عذاب کی قرآنِ پاک میں وعیدیں مذکور ہیں وہ انہوں نے نہیں دیکھا اور جس طرح انہوں نے قرآنِ مجید کو جھٹلایا ایسے ہی ان سے پہلے لوگوں نے بھی عناد کی وجہ سے اپنے رسولوں کے معجزات اور آیات دیکھ کر نظر وتَدَبُّر سے کام لئے بغیر انہیں جھٹلایا تھا تو تم دیکھ لو کہ ظالموں کا کیسا انجام ہوا اور پہلی امتیں اپنے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلا کر کیسے کیسے عذابوں میں مبتلا ہوئیں ، اس لئے اے سیّدُ الانبیاء ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ کی تکذیب کرنے والوں کو بھی ڈرنا چاہیے کہ کہیں وہ بھی میرے عذاب میں گرفتار نہ ہو جائیں۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳۹، ۲ / ۳۱۶، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۴۷۴، ملتقطاً)
{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یُّؤْمِنُ بِهٖ:اور ان میں کوئی تواس پرایمان لاتا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قریش میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو اس قرآن پر عنقریب ایمان لے آئیں گے اور بعض وہ ہیں جو اس قرآن پر کبھی بھی نہ ایمان لائیں گے ، نہ کبھی اس کا اقرار کریں گے اور آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ان جھٹلانے والوں کو خوب جانتا ہے اور عنقریب انہیں اس کے عذاب کا سامنا ہو گا۔(تفسیر طبری، یونس، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۵۶۳)
کفارِ مکہ کے ایمان لانے سے متعلق غیبی خبر:
اس آیت میں یہ غیبی خبر ہے کہ موجودہ مکہ والے نہ تو سار ے ایمان لائیں گے اورنہ سارے ایمان سے محروم رہیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بعض لوگ ایمان لے آئے اور بعض ایمان سے محروم رہے۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan