Surah Yunus
{فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰى:تو موسیٰ پر ایمان نہ لائے۔} اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دی گئی ہے، کیونکہ آپ لوگوں کے ایمان لانے کیلئے بہت کوشش فرماتے تھے اور لوگوں کے اِعراض کرنے کی وجہ سے مغموم ہوتے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تسکین کے لئے فرمایا گیا کہ باوجودیکہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اتنا بڑا معجزہ دکھایا پھر بھی تھوڑے لوگوں نے ایمان قبول کیا، ایسی حالتیں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیش آتی رہی ہیں ،آپ اپنی امت کے اِعراض سے رنجیدہ نہ ہوں۔
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعے میں قوم کی ذُرِّیَّت سے کون لوگ مراد ہیں ؟
اس آیت میں قوم کی ذریت سے کون لوگ مراد ہیں ،اس بارے میں مفسرین کے دو قول ہیں :
ایک قول یہ ہے کہ ’’مِنْ قَوْمِهٖ‘‘ میں جوضمیر ہے وہ تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طر ف لوٹ رہی ہے، اس صورت میں قوم کی ذریت سے بنی اسرائیل مراد ہوں گے جن کی اولاد مصر میں آپ کے ساتھ تھی اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو فرعون کے قتل سے بچ رہے تھے کیونکہ جب بنی اسرائیل کے لڑکے فرعون کے حکم سے قتل کئے جاتے تھے تو بنی اسرائیل کی بعض عورتیں جو قومِ فرعون کی عورتوں کے ساتھ کچھ رسم و راہ رکھتی تھیں وہ جب بچہ جنتیں تو اس کی جان کے اندیشہ سے وہ بچہ فرعونی قوم کی عورتوں کو دے ڈالتیں ، ایسے بچے جو فرعونیوں کے گھروں میں پلے تھے اس روز حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایما ن لے آئے جس دن اللہ تعالیٰ نے آپ کو جادوگروں پر غلبہ دیا تھا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ ’’مِنْ قَوْمِهٖ‘‘ میں ضمیر فرعون کی طرف لوٹ رہی ہے ،اس صورت میں قوم کی ذریت سے قومِ فرعون کی ذریت مراد ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ وہ قومِ فرعون کے تھوڑے لوگ تھے جو ایمان لائے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۳، ۲ / ۳۲۷)
بندے کا حد میں رہنا اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے:
فرعون کے بارے میں فرمایا کہ وہ متکبر تھا کیونکہ وہ خود کو خدا کہتا تھا اور اس سے بڑھ کر کیا تکبر ہوسکتا ہے، نیز فرعون کو حد سے بڑھنے والا کہا گیا کیونکہ اس نے بندہ ہو کر بندگی کی حد سے گزرنے کی کوشش کی اور اُلُوہیت کا مدعی ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حد میں رہنا اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ۔ پانی حد سے بڑھ جائے تو طوفان بن جاتا ہے اور آدمی حد سے بڑھ جائے تو شیطان بن جاتاہے۔
{وَ قَالَ مُوْسٰى:اور موسیٰ نے کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی قوم سے فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہوتو اسی پر بھروسہ کرو ،وہ اپنے فرمانبرداروں کی مدد کرتا اور دشمنوں کو ہلاک فرماتا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر بھروسہ کرنا کمالِ ایمان کا تقاضا ہے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۴، ۲ / ۳۲۸)
{فَقَالُوْا:انہوں نے کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے جواب دیتے ہوئے عرض کی: ہم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی پر بھروسہ کیا اس کے علاوہ کسی اور پر بھروسہ نہیں کرتے، پھر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے دعا کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے ’’ اے ہمارے رب!عَزَّوَجَلَّ، ہمیں ظالم لوگوں کے لیے آزمائش نہ بنا یعنی انہیں ہم پر غالب نہ کر اور ان کے گناہوں کی وجہ سے ہمیں ہلاک نہ فرماتا کہ وہ یہ گمان نہ کریں کہ وہ حق پر ہیں اور یوں سرکشی و کفر میں بڑھ جائیں اور اپنی رحمت فرما کر ہمیں قومِ فرعون کے کافروں کے قبضے سے نجات دے اور ان کے ظلم و ستم سے بچا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۵، ۲ / ۳۲۸)
{وَ اجْعَلُوْا بُیُوْتَكُمْ قِبْلَةً:اوراپنے گھروں کو نماز کی جگہ بناؤ۔ }حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قبلہ کعبہ شریف تھا اور ابتداء میں بنی اسرائیل کو یہی حکم تھا کہ وہ گھروں میں چھپ کر نماز پڑھیں تاکہ فرعونیوں کے شر واِیذا ء سے محفوظ رہیں۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۴۸۲-۴۸۳)
آیت’’وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى وَ اَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے پانچ باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… گھر بنانا بھی سنتِ اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے لیکن شرط یہ ہے کہ فخر کے لئے نہ ہو بلکہ ضرورت پوری کرنے کے لئے ہو۔
(2)…رہنے سہنے کے گھروں میں گھریلو مسجد بنانا، جسے مسجد بیت کہا جاتا ہے، یہ ایک قدیم طریقہ ہے ، لہٰذا یہ ہونا چاہیے کہ مسلمان اپنے گھر کا کوئی حصہ نماز کے لئے پاک و صاف رکھیں اور اس میں عورت اِعتکاف کرے۔
(3)… خوف کے وقت چھپ کر گھروں میں نماز پڑھنا جائز ہے کیونکہ بنی اسرائیل اس زمانہ میں ایسے ہی نماز پڑھتے تھے۔
(4)… مصیبت کے وقت اچھی خبریں سنانی چاہئیں تاکہ لوگوں کا حوصلہ بڑھے اور مایوسی دور ہو۔
(5)… حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین میں نماز فرض تھی، اس وقت زکوٰۃکا حکم اس لئے نہ دیا گیا کہ بنی اسرائیل غریب و مساکین تھے، جب ان کے پاس مال آیا تو پھر ان پر مال کا چوتھائی حصہ زکوٰۃ نکالنی فرض ہوئی۔
{وَ قَالَ مُوْسٰى:اور موسیٰ نے عرض کی۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے عظیم معجزات دکھانے کے باوجود فرعونی اپنے کفر و عناد پر قائم رہے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان کے خلاف دعا فرمائی : اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں آرائش ،عمدہ لباس ،نفیس فرش، قیمتی زیور اورطرح طرح کے سامان دئیے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مال و دولت کے ذریعے لوگوں کوتیرے راستے سے بھٹکانے لگے ۔ اے ہمارے رب ! عَزَّوَجَلَّ، ان کے مال برباد کردے کیونکہ وہ تیری نعمتوں پر بجائے شکر کے جَری ہو کر مَعْصِیَت کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا قبول ہوئی اور فرعونیوں کے درہم ودینار وغیرہ پتھر ہو کر رہ گئے اور یہ ان 9 نشانیوں میں سے ایک ہے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دی گئی تھیں۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۸، ۲ / ۳۲۹، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۴۸۳، ملتقطاً)
{وَ اشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ:اور ان کے دلوں کو سخت کردے۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تب آپ نے ان کے لئے یہ دعا کی اور ایسا ہی ہوا کہ وہ غرق ہونے کے وقت تک ایمان نہ لائے۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۴۸۳)
آیت’’وَ اشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو چیزیں معلوم ہوئیں :
(1)…مال عام طور پر غفلت کا سبب بنتا ہے، اس لئے مالدار کو اپنے مُحاسبے کی زیادہ حاجت ہے کہ کہیں اس کے مال نے اسے غافل تو نہیں کردیا۔ اسی لئے قرآن میں فرمایا گیا :
’’ اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ‘‘ (تکاثر:۱، ۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کردیا۔ یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔
اور فرمایا گیا
’’وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ‘‘(انفال:۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جان لوکہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان ہے اوریہ کہ اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے۔
(2)… دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ دل کی سختی بڑا عذاب ہے ۔ دل کی سختی کا معنی ہے کہ نصیحت دل پر اثر نہ کرے، گناہوں سے رغبت ہو اور گناہ کرنے پر کوئی پشیمانی نہ ہو اور توبہ کی طرف توجہ نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا زیادہ گفتگو نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر زیادہ کلام کرنا دل کی سختی( کا باعث ہے) اور سخت دل آدمی اللہ تعالیٰ سے بہت دور ہوتا ہے۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۶۲-باب منہ، ۴ / ۱۸۴، الحدیث: ۲۴۱۹)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دل کی سختی سے محفوظ فرمائے ، یاد رہے کہ اگر کوئی آدمی نیک اعمال کرتا ہے اور گناہوں سے بچتا ہے لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں آتے تو اسے سخت دل نہیں کہا جاسکتا کہ اصل مقصود آنسو بہانا نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی فرمانبرداری کرنا ہے۔
{قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا:(اللہ نے ) فرمایا: تم دونوں کی دعا قبول ہوئی۔} اس آیت میں دعا کی نسبت حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامدونوں کی طرف کی گئی حالانکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دعا کرتے تھے اور حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آمین کہتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آمین کہنے والا بھی دعا کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔یہ بھی ثابت ہوا کہ آمین دعا ہے لہٰذا اس کیلئے اِخفا ہی مناسب ہے۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۸۹، ص۴۸۳) یاد رہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا اور اس کی مقبولیت کے درمیان چالیس برس کا فاصلہ ہوا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۳۳۰) اسی لئے فرمایا گیا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہونا جو قبولیت ِ دعا میں دیر ہونے کی حکمتیں نہیں جانتے۔
دعا قبول ہونے میں تاخیر ہونا بھی حکمت ہے:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دعا کی قبولیت میں یہ ضروری نہیں کہ فوراً ہی اس کا اثر ہوجائے بلکہ بعض اوقات حکمت ِ الٰہی سے اس میں ایک عرصے کی تاخیر بھی ہوجاتی ہے، نیز اس شخص کی دعا ویسے ہی قبول نہیں ہوتی جو شور مچائے کہ اس نے بڑی دعا کی مگر قبول نہیں ہوئی چنانچہ حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بندے کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ گناہ یا قَطعِ رحمی کی دعا نہ مانگے اور جب تک کہ جلد بازی سے کام نہ لے۔ عرض کی گئی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جلد بازی کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ یہ کہے کہ میں نے دعا مانگی اور مانگی مگر مجھے امید نہیں کہ قبول ہو، لہٰذا اس پر دل تنگ ہوجائے اور دعا مانگنا چھوڑ دے۔(مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب بیان انّہ یستجاب للداعی ما لم یعجّل فیقول: دعوت فلم یستجب لی، ص۱۴۶۳، الحدیث: ۹۲(۲۷۳۵))
اسی لئے دعا کے آداب میں سے یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ قبولیت کے یقین سے دعا مانگو جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تم اللہ تعالیٰ سے قبولیت کے یقین کے ساتھ دعا مانگا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل دل سے(دعا کرنے والے کی )دعا قبول نہیں فرماتا۔(ترمذی، کتاب الدعوات، ۶۵-باب، ۵ / ۲۹۲، الحدیث: ۳۴۹۰)
{قَالَ اٰمَنْتُ:فرعون نے کہا: میں ایمان لایا۔} جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرما لی تو بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ ایک معین وقت میں مصر سے روانہ ہو جائیں اور اس کیلئے اپنا سامان بھی تیار کر لیں ، فرعون اس معاملے سے غافل تھا، جب ا س نے سنا کہ بنی اسرائیل اس کا ملک چھوڑنے کے عَزم سے نکل گئے ہیں تو وہ ان کے پیچھے روانہ ہوا، جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم کے ساتھ روانہ ہوئے اور دریا کے کنارے پہنچے اور ادھر فرعون بھی اپنے لشکر کے ساتھ ان کے قریب پہنچ گیا تو بنی اسرائیل شدید خوف میں مبتلا ہو گئے کیونکہ سامنے دریا تھا اور پیچھے فرعون کا لشکر، آگے بڑھتے ہیں تو دریا میں ڈوب جائیں گے پیچھے ہٹتے ہیں تو فرعون کا لشکر انہیں ہلاک کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس خطرناک حالت میں ان پر اس طرح انعام فرمایا کہ دریامیں ان کیلئے ایک راستہ ظاہر کر دیا، پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے اَصحاب کے ساتھ اس میں داخل ہو کر دریا کے پار تشریف لے گئے ، اللہ تعالیٰ نے دریا میں بننے والے رستے کو اسی طرح خشک رکھا تاکہ فرعون حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تَعاقُب میں اپنے لشکر کے ساتھ ا س میں داخل ہو جائے۔ جب فرعون اپنے پورے لشکر کے ساتھ اس دریائی راستے میں داخل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے دریا میں پڑے ہوئے شگاف کو ملا کر فرعون کواس کے پورے لشکر سمیت ڈبو دیا ۔ جب فرعون ڈوبنے لگا تو اس امید پر اپنے اخلاص اور ایمان کااِ ظہار کرنے لگا کہ اللہ تعالیٰ اسے اس مصیبت سے نجات دیدے گا۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۹۰، ۶ / ۲۹۵)
{ﰰ لْــٴٰـنَ:کیا اب۔} ڈوبتے وقت جب فرعون نے ایمان کا اقرار کیا تواس وقت اس سے کہا گیا: کیا اب حالتِ اِضطرار میں جب کہ غرق میں مبتلا ہوچکا ہے اور زندگی کی امید باقی نہیں رہی اس وقت ایمان لاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمان رہا اور تو فسادی تھا، خود گمراہ تھا اور دوسروں کو گمراہ کرتا تھا۔ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام فرعون کے پاس ایک تحریری سوال لائے جس کا مضمون یہ تھا کہ ایسے غلام کے بارے میں بادشاہ کا کیا حکم ہے جس نے ایک شخص کے مال و نعمت میں پرورش پائی، پھر اس کی ناشکری کی اور اس کے حق کا منکر ہوگیا اور اپنے آپ مولیٰ ہونے کا مدعی بن گیا؟ اس پر فرعون نے یہ جواب لکھا کہ جو غلام اپنے آقا کی نعمتوں کا انکار کرے اور اس کے مقابل آئے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کو دریا میں ڈبو دیا جائے۔ جب فرعون ڈوبنے لگا تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامنے اس کا وہی فتویٰ اس کے سامنے کردیا اور اس کو اس نے پہچان لیا۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۴۸۴)
{فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ:آج ہم تیری لاش کو بچالیں گے ۔} علماءِ تفسیر کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی قوم کو ان کی ہلاکت کی خبر دی تو بنی اسرائیل میں سے بعض کو شُبہ رہا اور اس کی عظمت و ہَیبت جوان کے قُلوب میں تھی اس کے باعث انہیں اس کی ہلاکت کا یقین نہ آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا نے فرعون کی لاش ساحل پر پھینک دی، بنی اسرائیل نے اس کو دیکھ کر پہچانا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۲، ۲ / ۳۳۲-۳۳۳)
{وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ:اور بیشک لوگ ہما ری نشانیوں سے ضرور غافل ہیں۔}اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرعون کا واقعہ بیان فرمایا اور فرعون کا انجام ذکر کیا اور اس واقعے کا اختتام اس کلام پر فرمایا۔ اس میں خطاب نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ہے تاکہ وہ اپنی امت کو دلائل سے اِعراض کرنے پر ڈرائیں اور ان واقعات میں غورو فکر کرنے اور ان سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب دیں یہی ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصود ہے۔(تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۹۲، ۶ / ۲۹۸)
{وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ:اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو عزت کی جگہ دی۔} یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو عزت کی جگہ ٹھہرایا اور ان کے سمندر سے نکلنے اور ان کے دشمن فرعون کی ہلاکت کے بعد انہیں عزت کے مقام میں اتارا۔ آیت میں عزت کی جگہ سے یا تو ملک مصر اور فرعون و فرعونیوں کے اَملاک مراد ہیں یا سرزمینِ شام ، قُدس اور اُردن، جو کہ نہایت سرسبز و شاداب اور زرخیز ملک ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۳۳۳)
{فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَآءَهُمُ الْعِلْمُ:تو وہ اختلاف میں نہ پڑے مگر علم آنے کے بعد } یہاں علم سے مراد یا تو توریت ہے جس کے معنی میں یہودی آپس میں اختلاف کرتے تھے یا سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری ہے کہ اس سے پہلے تو سب یہودی آپ کے قائل اور آپ کی نبوت پر متفق تھے اور توریت میں جو آپ کی صفات مذکور تھیں ان کو مانتے تھے لیکن تشریف آوری کے بعد اختلاف کرنے لگے ،کچھ ایمان لے آئے اور کچھ لوگوں نے حسدو عداوت کی وجہ سے کفر کیا ۔ ایک قول یہ ہے کہ علم سے قرآنِ مجید مراد ہے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۳۳۳)
علم اللہ تعالیٰ کا عذاب اور حجاب بھی ہوتا ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ جس علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور حقیقی معرفت نہ ہووہ علم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب اور حجاب ہے ،چنانچہ علم کے باوجود گمراہ ہوجانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
’’وَ اَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلْمٍ‘‘ (الجاثیہ:۲۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ نے اسے علم کے باوجودگمراہ کردیا۔
اور جو علم معرفتِ الہٰی کا ذریعہ ہو ، وہ رحمت ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا
’’ وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘ (طہ:۱۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور عرض کرو: اے میرے رب!میرے علم میں اضافہ فرما۔
{اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ِ:بیشک تمہارا رب قیامت کے دن ان میں فیصلہ کردے گا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہودی دنیا میں آپ کی نبوت کے معاملے میں جھگڑ رہے ہیں ،قیامت کے دن آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ان میں عملی طور پر اس طرح فیصلہ کر دے گا کہ آپ پر ایمان لانے والوں کو جنت میں داخل فرمائے گا اور آپ کا انکار کرنے والوں کو جہنم کے عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۳۳۳)
{فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ:تو اے سننے والے! اگر تجھے کوئی شک ہو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے سننے والے! اگر تمہیں ان قصوں میں کچھ تردد ہو جو ہم نے اپنے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے واسطے سے تمہیں بیان کئے ہیں تو تم علمائے اہلِ کتاب جیسے حضرت عبداللہبن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاور ان کے ساتھیوں سے پوچھ لو تاکہ وہ تمہیں سرورِ عالَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا اطمینان دلائیں اور آپ کی نعت و صفت جو توریت میں مذکور ہے وہ سنا کر شک دور کردیں۔ بیشک تیرے پاس تیرے رب عَزَّوَجَلَّکی طرف سے وہ حق آیا جو اپنے واضح دلائل سے اتنا روشن ہے کہ اس میں شک کی مجال نہیں لہٰذا تو ہر گز شک کرنے والوں میں سے نہ ہواور ہرگز ان لوگوں میں سے نہ ہونا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی واضح دلیلوں کو جھٹلایا ورنہ تو اپنی جانوں کو خسارے میں ڈال کر نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائے گا۔(جلالین، یونس، تحت الآیۃ: ۹۴، ص۱۷۸، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۳۳۴-۳۳۵، ملتقطاً)
{اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ:بیشک جن لوگوں پر تیرے رب کی بات پکی ہوچکی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ قول ان پر ثابت ہوچکا جو لوحِ محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے اور جس کی ملائکہ نے خبر دی ہے کہ یہ لوگ کافر مریں گے اور جب تک وہ موت کے وقت یا قیامت میں دردناک عذاب نہ دیکھ لیں گے ایمان نہیں لائیں گے اگرچہ سب نشانیاں ان کے پاس آجائیں اور اس وقت کا ایمان نہ نفع بخش ہے اور نہ مقبول۔ (مدار ک، یونس، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۴۸۵)
{فَلَوْ لَا:تو کیوں ایسا نہ ہوا۔} یعنی ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان بستیوں میں سے جنہیں ہم نے ہلاک کیا کوئی قوم عذاب کا مشاہدہ کرنے سے پہلے کفر چھوڑ کر اِخلاص کے ساتھ توبہ کر کے ایمان لے آتی اور جس طرح فرعون نے اپنا ایمان لانا مُؤخَّر کیا وہ قوم نہ کرتی تاکہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا کیونکہ اختیار کے وقت میں ایمان لانے کی وجہ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کا ایمان قبول کر لیتا۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۹۸، ص۴۸۶)
{ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ:لیکن یونس کی قوم۔} حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم کا واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ موصل کے علاقے نینوٰی میں رہتے تھے اور کفر و شرک میں مبتلا تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی طرف بھیجا، آپ نے انہیں بت پرستی چھوڑنے اور ایمان لانے کا حکم دیا، ان لوگوں نے انکار کیا اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی، آپ نے انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے عذاب نازل ہونے کی خبر دی، ان لوگوں نے آپس میں کہا کہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کبھی کوئی بات غلط نہیں کہی ہے، دیکھو اگر وہ رات کو یہاں رہے جب تو کوئی اندیشہ نہیں اور اگر انہوں نے رات یہاں نہ گزاری تو سمجھ لینا چاہیے کہ عذاب آئے گا۔ جب رات ہوئی توحضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہاں سے تشریف لے گئے اور صبح کے وقت عذاب کے آثار نمودار ہوگئے ، آسمان پر سیاہ رنگ کا ہیبت ناک بادل آیا ، بہت سارا دھواں جمع ہوا اور تمام شہر پر چھا گیا۔ یہ دیکھ کر انہیں یقین ہوگیا کہ عذاب آنے والا ہے ، انہوں نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو تلاش کیاتو آپ کو نہ پایا، اب انہیں اور زیادہ اندیشہ ہوا تو وہ لوگ اپنی عورتوں ، بچوں اور جانوروں کے ساتھ جنگل کی طرف نکل گئے، موٹے کپڑے پہن کر توبہ و اسلام کا اظہار کیا، شوہر سے بیوی اور ماں سے بچے جدا ہوگئے اور سب نے بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری شروع کر دی اور عرض کرنے لگے کہ جودین حضرت یونسعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لائے ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے سچی توبہ کی اور جو جَرائم ان سے ہوئے تھے انہیں دور کیا، پرائے مال واپس کئے حتّٰی کہ اگر دوسرے کا ایک پتھرکسی کی بنیاد میں لگ گیا تھا تو بنیاد اکھاڑ کر وہ پتھر نکال دیا اور واپس کردیا ۔ اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ مغفرت کی دعائیں کیں توپروردگارِ عالَم نے ان پر رحم کیا، دعا قبول فرمائی اور عذاب اٹھا دیا گیا۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۸، ۲ / ۳۳۵-۳۳۶)
فرعون کی توبہ اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی توبہ میں فرق:
اس مقام پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے بارے میں ذکر فرمایا کہ اس نے آخری وقت توبہ کی لیکن اس کی توبہ قبول نہ ہوئی جبکہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے بارے میں ذکر فرمایا کہ انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، دونوں کی توبہ میں کیا فرق ہے؟ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ فرعون کی توبہ اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی توبہ میں واضح فرق ہے وہ یہ کہ فرعون نے عذاب کا مشاہدہ کرنے کے بعد توبہ کی تھی جبکہ حضرت یونسعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر جب وہ نشانیاں ظاہر ہوئیں جو عذاب کے قریب ہونے پر دلالت کرتی ہیں تو انہوں نے عذاب کا مشاہدہ کرنے سے پہلے اسی وقت ہی توبہ کر لی تھی ۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۹۸، ۶ / ۳۰۳) اس کا مطلب یہ نکلا کہ نزولِ عذاب کے بعد توبہ قبول نہیں البتہ نزولِ عذاب سے پہلے صرف علاماتِ عذاب کے ظہور کے بعد توبہ قبول ہوسکتی ہے۔
{وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ:اور اگر تمہارا رب چاہتا۔} یعنی ایمان لانا سعادتِ اَزلی پر مَوقوف ہے، ایمان وہی لائیں گے جن کیلئے توفیق الٰہی شاملِ حال ہو، اس آیت میں سیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ سب ایمان لے آئیں اور راہِ راست اختیار کریں لیکن آپ کی خواہش وکوشش کے باوجود بھی جو لوگ ایمان سے محروم رہ جاتے ہیں ان کا آپ کو غم ہوتا ہے تواس کا آپ کو غم نہ ہونا چاہیے کیونکہ اَزل سے جو شقی ہے وہ ایمان نہ لائے گا۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹۹، ۲ / ۳۳۶)
{اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ:توکیا تم لوگوں کومجبور کرو گے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو یہ روا نہیں کہ لوگوں کو ایمان قبول کرنے پر مجبور کریں کیونکہ ایمان تصدیق اور اِقرار کا نام ہے اور کسی پر جَبر اور زبر دستی کرنے سے تصدیقِ قلبی حاصل نہیں ہوتی۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۴۸۶)معلوم ہوا کہ کسی کو جبراً مسلمان بنانا درست نہیں ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ‘‘ (البقرہ:۲۵۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: دین میں کوئی زبردستی نہیں۔
{وَ مَا كَانَ لِنَفْسٍ:اور کسی جان کو قدرت نہیں۔} خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا ہے تو بندہ اپنے اختیار سے ایمان قبول کرتا ہے، اپنے چاہنے کی وجہ سے وہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ ہدایت کا ارادہ نہ کرے تو بندہ اپنی رَغْبت سے کفر پر رہتا ہے اور اس رغبت کا عذاب پاتا ہے۔ لہٰذا اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بندہ مجبور ہے کیونکہ بندے کی رغبت بھی مَشِیَّتِ الٰہی میں داخل ہے۔ مجبور کرنے کی بات تب ہو جب آدمی کفر پر اس طرح مجبور ہو جیسے رعشے میں مبتلا آدمی کے ہاتھ کانپتے ہیں کہ اگرچہ وہ کتنا ہی اسے روکنا چاہے روک نہیں پاتا تو اگر کوئی آدمی کفر پر اس طرح مجبور ہے کہ وہ دل سے ایمان لانا چاہتا ہے مگر اسے قدرت ہی نہیں ، وہ ایمان لاہی نہیں پاتا، اس کا دل تصدیق ہی نہیں کرتا اور اس کی زبان اقرارِ اسلام کرتی ہی نہیں پھر تو کہا جائے گا کہ اسے کفر پر مجبور کردیا گیا لیکن اگر دل میں قبول کرنے کا اختیار موجود ہے لیکن پھر بھی کوئی ایمان قبول نہیں کرتا تو وہ ہرگز مجبور نہیں ہے۔
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا تھا کہ اس کی تخلیق اور مَشِیَّت کے بغیر ایمان حاصل نہیں ہو سکتا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور قدرت پر موجود دلائل میں غورو فکر کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ انسان مجبورِ محض ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان نشانیاں طلب کرنے والے مشرکین سے فرما دیں کہ تم دل کی آنکھوں سے دیکھو اور غور کرو کہ آسمانوں اور زمین میں توحیدِباری تعالیٰ کی کیاکیا نشانیاں ہیں ، اوپر سورج اور چاند ہیں جو کہ دن اور رات کے آنے کی دلیل ہیں ، ستارے ہیں جو کہ طلوع اور غروب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل فرماتا ہے۔ زمین میں پہاڑ ،دریا، دفینے، نہریں ، درخت نباتات یہ سب اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے اور ان کا خالق ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۳۰۶، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۳۳۶، ملتقطاً) توعظمتِ خدواندی، توحید ِ الٰہی اور قدرتِ رَبّانی سمجھانے کیلئے یہی دلائل کافی ہیں ، اب اگر ان سب دلائل کے باوجود کوئی ایمان نہیں لاتا تو پھر اس کا ارادہ جہنم میں جانے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
{فَهَلْ یَنْتَظِرُوْنَ اِلَّا مِثْلَ اَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ:تو انہیں ان لوگوں کے دنوں جیسے (دنوں ) کا انتظار ہے جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔} آیت کا معنی یہ ہے کہ ان لوگوں کا طرزِ عمل یہ بتاتا ہے کہ گویایہ لوگ گزشتہ اُمتوں کے دنوں جیسے دنوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے زمانوں میں کفار کو اُن دنوں کے آنے سے ڈراتے تھے جن میں مختلف قسم کے عذاب نازل ہوں جبکہ کفار اسے جھٹلاتے اور مذاق اڑاتے ہوئے عذاب نازل ہونے کی جلدی مچاتے تھے اسی طرح نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے کے کفار بھی انہی کی رَوِش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا : آپ ان سے فرما دیں کہ تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۶ / ۳۰۷)
{ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو نجات دیں گے۔} حضرت ربیع بن انس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ عذاب کا خوف دلانے کے بعد اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ جب عذاب واقع ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ رسول کو اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرماتا ہے۔ (تفسیر طبری، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۶ / ۶۱۷)
{قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ:تم فرماؤ، اے لوگو!} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ حکم دیا ہے کہ اپنے دین کا اِظہار کریں اور یہ اعلان کردیں کہ وہ مشرکین سے علیحدہ ہیں تاکہ مشرکین کے ساتھ رہنے والوں کے بارے میں مشرکوں کے شکوک و شُبہات زائل ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت چھپ کر ہونے کی بجائے اِعلانیہ ہونے لگے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اہلِ مکہ سے فرما دیں کہ اے لوگو! اگر تم میرے دین کی حقیقت اور اس کی صحت کی طرف سے کسی شُبہ میں مبتلا ہو اور اس وجہ سے غیرُاللہ کی عبادت میں مشغول ہو تو میں تمہیں اپنے دین کی حقیقت بتادیتا ہوں کہ میں ان بتوں کی عبادت نہیں کروں گا جن کی تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہوکیونکہ بت خود مخلوق ہے اورعبادت کے لائق نہیں البتہ میں اس اللہ عَزَّوَجَلَّکی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری روحیں قبض کر کے تمہاری جان نکالے گاکیونکہ وہ قادر، مختار، برحق معبود اور مُستحقِ عبادت ہے اور مجھے حکم ہے کہ میں ایمان والوں میں سے رہوں اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر باطل سے جدا رہ کر دینِ حق پر اِستقامت کے ساتھ قائم رہوں اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہوں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۶ / ۳۰۸، جلالین مع صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۳ / ۸۹۵، روح البیان، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۴ / ۸۷، ملتقطاً)
{وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكَ:اور اللہ کے سوا اس کی عبادت نہ کر جو تجھے نفع نہ دے سکے ۔} مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں بظاہر خطاب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن اس سے مراد آپ کا غیر ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہیں کی تو اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے انسان! تو اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس کی مستقل یا شریک بنا کر عبادت نہ کر جو عبادت کرنے اور پکارنے کے باوجود تجھے کوئی نفع نہ دے سکے اوراگر تو اس کی عبادت کرنا اور اسے پکارنا چھوڑ دے تو وہ تجھے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور اگر میرے منع کرنے کے باوجود تو نے ایسا کیاتو اس وقت تو اپنی جان پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوگا۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۲ / ۳۳۸، روح البیان، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۴ / ۸۷، ملتقطاً)
{فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ:تو اس کے سوا کوئی تکلیف کو دور کرنے والا نہیں۔} یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں لوگ ایک دوسرے کو نفع بھی پہنچاتے ہیں اور نقصان بھی جبکہ آیت میں کسی مخلوق کے نفع نقصان پہنچانے کا انکار کیا گیا ہے۔ اِس سوال کا جواب آیت کے الفاظ میں ہی موجود ہے کہ مخلوق کے نفع نقصان پہنچانے کا انکار نہیں کیا گیا بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو نفع پہنچانا چاہے تو کوئی اسے روک کرنقصان نہیں پہنچا سکتا اور جب اللہ تعالیٰ کسی کے نقصان کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس نقصان کو ٹال کر نفع نہیں پہنچا سکتا۔
{وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ:اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ وُسعت اور آسانی کا ارادہ فرمائے تو اس کے رزق کو روکنے والا کوئی نہیں ،وہی نفع و نقصان میں ہر ایک کا مالک ہے تمام کائنات اسی کی محتاج ہے وہی ہر چیز پر قادر اور جودو کرم والا ہے، بندوں کو اس کی طرف رغبت اور اس کا خوف اور اسی پر بھروسہ اور اسی پر اعتماد چاہیے اور نفع و ضَرر جو کچھ بھی ہے وہی اسے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے پہنچاتا ہے اور وہی اپنے بندوں کے گناہوں کو چھپانے والا اور ان پر مہربان ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲ / ۳۳۸)
{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم فرماؤ کہ اے اہلِ مکہ! تمہارے پاس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے قرآن اور اس کا رسول محمد مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے ہیں تواُن سے جوہدایت حاصل کر لے تو وہ اپنے فائدے کیلئے ہی ہدایت حاصل کررہا ہے کیونکہ اس کی ہدایت کا ثواب اسے ہی ملے گا اور اگر تم میں سے کوئی کفر کرے تو اس سے اللہ تعالیٰ کا کچھ نقصان نہیں اور کوئی ایمان لائے تو اس سے اللہ عَزَّوَجَلَّکا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اُسے کوئی نفع یا نقصان پہنچے اور جو کوئی گمراہ ہوتا ہے تو وہ اپنے ہی نقصان کو گمراہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی گمراہی کا عذاب اسی کی جان پر ہو گا۔ خلاصہ یہ کہ اس کی ہدایت اور گمراہی میں کوئی اور شریک نہیں بلکہ ہر جان اپنے کمائے ہوئے اَعمال میں گِروی رکھی ہے اور میں تم پرکوئی نگران نہیں کہ تمہیں ہدایت حاصل کرنے پر مجبور کروں۔(جلالین مع صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۳ / ۸۹۶)
{وَ اتَّبِـعْ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ:اور اس کی پیروی کرو جو آپ کی طرف وحی بھیجی جاتی ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ آپ کی طرف جو وحی فرماتا ہے آپ اسی کی پیروی کر یں اور آپ کی قوم کے کفار کی طرف سے آپ کو جو اَذِیَّت پہنچتی ہے اس پر صبر کرتے رہیں حتّٰی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دین کو غلبہ عطا فرما کر ان کے خلاف آپ کی مدد کا فیصلہ فرمائے ،اللہ عَزَّوَجَلَّ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۲ / ۳۳۸)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan