READ

Surah Yunus

يُوْنُس
109 Ayaat    مکیۃ


10:41
وَ اِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَكُمْ عَمَلُكُمْۚ-اَنْتُمْ بَرِیْٓــٴُـوْنَ مِمَّاۤ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ(۴۱)
اور اگر وہ تمہیں جھٹلائیں (ف۱۰۴) تو فرمادو کہ میرے لیے میری کرنی اور تمہارے لیے تمہاری کرنی (اعمال) (ف۱۰۵) تمہیں میرے کام سے علاقہ نہیں اور مجھے تمہارے کام سے لاتعلق نہیں (ف۱۰۶)

{وَ اِنْ كَذَّبُوْكَ:اور اگر وہ تمہیں جھٹلائیں۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلانے پر قائم رہے اور ان کے راہِ راست پر آنے اور حق و ہدایت قبول کرنے کی امید مُنقطع ہوجائے توتم ان سے فرما دو کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ہے اور ہم میں سے کسی کے عمل پر دوسرے کی پکڑنہ ہوگی بلکہ جو پکڑا جائے گا خود اپنے عمل کی وجہ سے پکڑا جائے گا  اور تم میرے عمل سے الگ ہو اور میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں۔ یہ فرمانا بطور زَجر کے ہے کہ تم نصیحت نہیں مانتے اور ہدایت قبول نہیں کرتے تو اس کا وبال خود تم پر ہوگا کسی دوسرے کا اس سے نقصان نہیں۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۳۱۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۴۷۴، ملتقطاً)

نیکی کی دعوت دینے والے کو نصیحت:

            اس آیت ِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کو نیکی کی دعوت دیں تو اسے دعوت دے کر اپنے آپ کو بریٔ الذمہ سمجھیں، یہ نہیں کہ بس سامنے والے کو سیدھا کرکے ہی چھوڑنا ہے اگرچہ وہ پہلے سے زیادہ بگڑ جائے۔

10:42
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَؕ-اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَ لَوْ كَانُوْا لَا یَعْقِلُوْنَ(۴۲)
اور ان میں کوئی وہ ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں (ف۱۰۷) تو کیا تم بہروں کو سنا دو گے اگرچہ انہیں عقل نہ ہو (ف۱۰۸)

{ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَ:اور ان میں کچھ وہ ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں۔} یعنی ان مشرکین میں سے بعض ایسے ہیں کہ جو اپنے ظاہری کانوں کے ساتھ سننے کیلئے جھکتے ہیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے قرآنِ پاک اور دین کے اَحکام سنتے ہیں لیکن آپ سے شدید بغض اور عداوت کی وجہ سے یہ سننا انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا تو جس طرح آ پ بہرے کو نہیں سنا سکتے اسی طرح اسے بھی نہیں سنا سکتے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے سننے سے بہرہ کر دیا ہے اور جو کچھ یہ سنتے ہیں اس سے نفع اٹھانے سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا اور اسے قبول کرنے کی توفیق سے محروم کر دیا ہے اورجب وہ سن کر عمل نہیں کرتے تو وہ جاہلوں کی مانند ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۳۱۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۴۷۴، ملتقطاً)

آیت’’وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے تین چیزیں معلوم ہوئیں :

(1)… بغض و عناد کی وجہ سے آدمی کا دل اندھا ، بہرا ہوجاتا ہے ، اس لئے وہ سامنے والے کی بات نہیں مانتا۔

(2)… کسی سے بات منوانی ہو تو پہلے اس کے دل میں اپنے لئے نرم گوشہ پیدا کرنا چاہیے۔

(3)…علم ہونے کے باوجود عمل نہ کرنے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک جاہل ہی کے حکم میں ہے۔
10:43
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْكَؕ-اَفَاَنْتَ تَهْدِی الْعُمْیَ وَ لَوْ كَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَ(۴۳)
اور ان میں کوئی تمہاری طرف تکتا ہے (ف۱۰۹) کیا تم اندھوں کو راہ دکھا دو گے اگرچہ وہ نہ سوجھیں،

{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْكَ:اور ان میں کوئی تمہاری طرف دیکھتا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان مشرکین میں سے بعض ایسے ہیں کہ جو تمہاری طرف اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، آپ کی سچائی کے دلائل اور نبوت کی نشانیوں کا مُشاہدہ بھی کرتے ہیں لیکن وہ تصدیق نہیں کرتے تو کیا آپ دل کے اندھوں کو راستہ دکھا دیں گے اگرچہ وہ دیکھتے ہی نہ ہوں کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے دل کی نظروں کو اندھا کر دیا ہے اسی لئے انہیں ہدایت کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت اوراس سے اوپر والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی ہے کہ جس کی سماعت کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے سَلب فرما لیا ہے آپ اسے سنا نہیں سکتے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جس کی بصارت لے لی ہے آپ اسے ہدایت کی راہ نہیں دکھا سکتے اور جس کے ایمان نہ لانے کا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فیصلہ فرما دیا ہے آپ اسے ایمان کی توفیق نہیں دے سکتے لہٰذا آپ ان مشرکین کے ایمان قبول نہ کرنے پر غمزدہ نہ ہوں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۳، ۲ / ۳۱۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۴۷۴،صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۸۷۲، ملتقطاً)گویا فرمایا گیا کہ کفار حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھتے تو ہیں لیکن  صرف سر کی آنکھوں سے، دل کی آنکھوں سے نہیں جس سے(دیکھنے والا) صحابی بن جائے اور جو حضور ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو صرف محمد بن عبداللہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہونے کے لحاظ سے دیکھے وہ محرومِ اَزلی ہے اور جو محمَّد رسولُ اللہ(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہونے کے لحاظ سے دیکھے وہ جنتی ہے، اس لئے ا ن دیکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اندھا فرمایا یعنی دل کے اندھے جنہیں ہدایت نہ نصیب ہو سکے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جمالِ مصطفٰی دیکھنے والی نگاہ اور ہوتی ہے اور وہ آنکھ وہ ہے جس سے حضرت ابوبکر و عمر اورصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے دیکھا ہے۔

10:44
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْــٴًـا وَّ لٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۴۴)
بیشک اللہ لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا (ف۱۰۰) ہاں لوگ ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں (ف۱۱۱)

{اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْــٴًـا :بیشک اللہ لوگوں پرکوئی ظلم نہیں کرتا۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ مشرکین کی عقل ، سماعت اور بصارت اللہ تعالیٰ نے سَلب فرما لی ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت حاصل نہیں کر سکتے اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ یہ لوگوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کاظلم نہیں کیونکہ کفار کا ہدایت سے محروم ہونا ان کے اپنے کرتوتوں اور ضد و عناد کے سبب ہے ، یہ نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان میں حق قبول کرنے کی صلاحیت ہی پیدا نہیں کی تھی بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ صلاحیت ان میں پیدا کی مگر انہوں نے خود اسے تباہ کردیا تو قصور خود ان کا ہے کسی اور کا نہیں۔

10:45
وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ كَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْۤا اِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَهُمْؕ-قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ(۴۵)
اور جس دن انہیں اٹھائے گا (ف۱۱۲) گویا دنیا میں نہ رہے تھے مگر اس دن کی ایک گھڑی (ف۱۱۳) آپس میں پہچان کریں گے (ف۱۱۴) کہ پورے گھاٹے میں رہے وہ جنہوں نے اللہ سے ملنے کو جھٹلایا اور ہدایت پر نہ تھے (ف۱۱۵)

{وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ:اور جس دن انہیں اٹھائے گا۔}  یہاں قیامت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ وہ وقت یاد کیجئے جس دن اللہ عَزَّوَجَلَّ ان مشرکوں کو قبروں سے حساب کی جگہ میں حاضر کرنے کے لئے اٹھائے گا تو اس روز کی ہَیبت و وحشت سے یہ حال ہوگا کہ وہ دنیا میں رہنے کی مدت کو بہت تھوڑا سمجھیں گے اور یہ خیال کریں گے کہ گویا وہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی کے علاوہ ٹھہرے ہی نہیں تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار نے طلب ِدنیا میں اپنی عمریں ضائع کردیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت جو آج کار آمد ہوتی وہ بجا نہ لائے تو ان کی زندگانی کا وقت ان کے کام نہ آیا اس لئے وہ اسے بہت ہی کم سمجھیں گے ،نیز قبروں سے نکلتے وقت تو ایک دوسرے کو ایسا پہچانیں گے جیسا دنیا میں پہچانتے تھے پھر قیامت کے دن کے ہَولناک اور دہشت آمیز مَناظِر دیکھ کر یہ معرفت باقی نہ رہے گی اور ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن حالات مختلف ہوں گے کبھی ایسا حال ہوگا کہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے کبھی ایسا کہ نہ پہچانیں گے اور جب پہچانیں گے تو کہیں گے جس نے اپنی باقی رہنے والی آخرت کو فانی دنیا کے بدلے بیچ دیا وہ نقصان میں رہا کیونکہ اس نے فانی کو باقی پر ترجیح دی۔آیت کے آخر میں فرمایا کہ انہیں ا س چیز کی ہدایت نہ تھی جو انہیں روزِ قیامت کے اس خسارے سے نجات دیتی۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۵، ۲ / ۳۱۷-۳۱۸، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۴۷۵، ملتقطاً)

10:46
وَ اِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا یَفْعَلُوْنَ(۴۶)
اور اگر ہم تمہیں دکھا دیں کچھ (ف۱۱۶) اس میں سے جو انہیں وعدہ دے رہے ہیں (ف۱۱۷) یا تمہیں پہلے ہی اپنے پاس بلالیں (ف۱۱۸) بہرحال انہیں ہماری طرف پلٹ کر آنا ہے پھر اللہ گواہ ہے (ف۱۱۹) ان کے کاموں پر،

{وَ اِمَّا نُرِیَنَّكَ:اور ہم تمہیں دکھا دیں۔} فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس عذاب کا ہم نے کفار سے وعدہ کیا ہے اگر اس کا کچھ حصہ آپ کو دنیا میں ہی دکھا دیں تو وہ ملاحظہ کیجئے اور اگر دنیا میں وہ عذاب دکھانے سے پہلے ہم آپ کواپنے پاس بلالیں تو عنقریب آخرت میں آپ ان کے عذاب کو دیکھ لیں گے کیونکہ آخرت میں انہیں بہر حال ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اورکفار دنیا میں جو اَعمال کرتے ہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پر گواہ ہے اور قیامت کے دن وہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔  اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کافروں کے بہت سے عذاب اور ان کی ذلت و رسوائیاں آپ کی حیاتِ دنیا ہی میں دکھائے گا چنانچہ بدر وغیرہ میں ذلت و رُسوائیاں دکھائی گئیں اور جو عذاب کافروں کے لئے کفر و تکذیب کی وجہ سے آخرت میں مقرر فرمایا ہے وہ آخرت میں دکھائے گا۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۳۱۸)

10:47
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌۚ-فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۴۷)
اور ہر امت میں ایک رسول ہوا (ف۱۲۰) جب ان کا رسول ان کے پاس آتا (ف۱۲۱) ان پر انصاف کا فیصلہ کردیا جاتا (ف۱۲۲) اور ان پر ظلم نہیں ہوتا،

{وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ:اور ہر امت کے لئے ایک رسول ہوا ہے۔} اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفارِ قریش کی مخالفت کاحال بیان فرمایا تھا اور اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ ہر نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ اس کی قوم ایسا ہی معاملہ کرتی تھی۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۷، ۲ / ۳۱۸)

{قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ: ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا۔} ایک قول یہ ہے کہ اس میں دنیا کا بیان ہے اور معنی یہ ہے کہ ہر اُمت کے لئے دنیا میں ایک رسول ہوا ہے جو انہیں دینِ حق کی دعوت دیتا اور طاعت و ایمان کا حکم کرتا، جب ان کا رسول ان کے پاس تشریف لاتا اور احکامِ الٰہی کی تبلیغ کرتا تو کچھ لوگ ایمان لاتے اور کچھ تکذیب کرتے اور مُنکر ہوجاتے ، تب ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا کہ رسول کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات دی جاتی اور تکذیب کرنے والوں کو عذاب سے ہلاک کردیا جاتا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس میں آخرت کا بیان ہے اور معنی یہ ہیں کہ روزِ قیامت ہر امت کے لئے ایک رسول ہوگا جس کی طرف وہ منسوب ہوگی جب وہ رسول مَوقف میں آئے گا اور مومن و کافر پرگواہی دے گا ،تب ان میں فیصلہ کیا جائے گا اور مومنوں کو نجات نصیب ہوگی اور کافر عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۷، ۲ / ۳۱۸)

10:48
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۴۸)
اور کہتے ہیں یہ وعدہ کب آئے گا اگر تم سچے ہو (ف۱۲۳)

{وَ یَقُوْلُوْنَ:اور کہتے ہیں۔} جب نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کو عذاب نازل ہونے سے ڈرایا اور ایک عرصہ گزرنے کے باوجود عذاب نہ آیا تو اس وقت کفار نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو یہ عذاب کاوعدہ کب آئے گا۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۴۸، ۶ / ۲۶۲)

{قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ:تم فرماؤ! میں اپنی جان کیلئے نقصان اور نفع کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا اللہ چاہے۔}اس آیت میں کفار کے اس قول ’’اگر تم سچے ہو تو یہ  وعدہ کب آئے گا ‘‘ کا جواب دیا گیا ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دشمنوں پر عذاب نازل کرنے اور دوستوں کے لئے مدد ظاہر کرنے کی قدرت اور اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ اور وعید کو پورا کرنے کا ایک وقت مُعیّن کر دیا ہے اور اس وقت کاتَعَیُّن اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر مَوقوف ہے اور جب وہ وقت آ جائے گا تو وہ وعدہ بہرصورت پورا ہوگا۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۲۶۲)

اس آیت میں جو یہ فرمایا گیا کہ اے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَآپ فرما دیں کہ’’میں اپنی جان کیلئے نقصان اور نفع کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا اللہ چاہے‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قادر کئے بغیر میں اپنی جان پر بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتاالبتہ اللہ تعالیٰ جس چیز کا چاہے مجھے مالک و قادر بنا دیتا ہے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۳۱۸)

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نفع و نقصان کا اختیار ملا ہے:

            بکثرت آیات اور اَحادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفع و نقصان آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی قدرت اور اختیار میں دیا ہے جیسے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ‘‘(التوبہ:۷۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔

اس سے معلوم ہو اکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبھی لوگوں کو غنی اور مالدار بناتے ہیں اور دوسروں کو غنی وہی کر سکتا ہے جسے غنی کرنے کی قدرت اور اختیار حاصل ہو۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۙ-وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤۙ-اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ‘‘(توبہ:۵۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور (کیا اچھا ہوتا) اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں عطا فرمایا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے ۔ عنقریب اللہ اور اس کا رسول ہمیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں۔

اس سے معلوم ہو اکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دیا بھی ہے اور دیں گے بھی اور دیتا وہی ہے جس کے پاس خود ہو۔

صحیح بخاری میں ہے، دو عالَم کے مالک و مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ‘‘ بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ عطا کرتا ہے۔(بخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیراً یفقّہہ فی الدین، ۱ / ۴۲، الحدیث: ۷۱)

اس سے معلوم ہو اکہ جو چیز جب بھی جس کو اللہ تعالیٰ دیتا ہے وہ حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تقسیم سے ہی ملتی ہے اور اس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کے دینے اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے تقسیم فرمانے کو کسی قید کے بغیر بیان فرمایا گیا ہے کہ نہ زمانے کی قید ہے، نہ چیز اور نہ لینے والے کی قید ہے،اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دینا کسی زمانے، چیز اور لینے والے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے میں سے ہر زمانے میں ، جو چیز، جسے جو چاہیں عطا فرتے ہیں۔

نیز بکثرت اَحادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے دینِ اسلام کو دل سے ماننے والوں اور اس کی حمایت کرنے والوں کو نفع پہنچایا ہے اور آئندہ بھی پہنچائیں گے ، جیسے حضرت ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو جنت عطا فرمانا، حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر تھوڑے سے آٹے اور گوشت میں لعابِ دہن ڈال کر سینکڑوں لوگوں کو کھلا دینا، غزوۂ بدر میں حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی آنکھ زخمی ہونے پر اسے صحیح کر دینا، غزوۂ اُحد کے موقع پر حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تیر لگنے سے آنکھ نکل جانے پر ان کی آنکھ درست کر دینا، حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکے لئے سورج کو واپس لوٹا کر گئے ہوئے دن کو عصر کردینا ، غزوۂ خیبر کے موقع پر آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکو ہونے والی آشوبِ چشم کی بیماری دور کردینا، ایک غزوے کے موقع پر 1500 صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر کے سیراب کر دینا، اسی طرح وصالِ ظاہری کے بعد حضرتِ بلال بن حارث مزنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزارِ اقدس پر حاضر ہو کر بارش کی دعا کرنے کی عرض پر بارش ہونے کی خوشخبری دینا، مزارِ اقدس پر حاضر ہو کر مغفرت طلب کرنے والے اَعرابی کو مغفرت ہو جانے کی بشارت دینا، قیامت کے انتہائی سخت لمحات میں اُمتوں کا حساب شروع کروا کر اَوّلین و آخرین تمام انسانوں ، جنوں اور حیوانوں کی مدد کرنا، گنہگار امتیوں کی شفاعت کرنا، حوضِ کوثر پر پیاسے اُمتیوں کو سیراب کرنا، میزانِ عمل پر گنہگار اُمتیوں کے اَعمال کے وزن کو بڑھانا اورپل صراط پر کھڑے ہو کر اپنے امتیوں کی سلامتی کی دعائیں مانگنا، یہ سب تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نفع پہنچانے کی واضح مثالیں ہیں ، اور جس طرح آپ نے دینِ اسلام کے حامیوں کو نفع پہنچایا ہے اسی طرح اسلام کے دشمنوں کو نقصان بھی پہنچایا ہے۔

10:49
قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ-لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌؕ-اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(۴۹)
تم فرماؤ میں اپنی جان کے برے بھلے کا (ذاتی) اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے (ف۱۲۴) ہر گروہ کا ایک وعدہ ہے (ف۱۲۵) جب ان کا وعدہ آئے گا تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹیں نہ آگے بڑھیں،

10:50
قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُهٗ بَیَاتًا اَوْ نَهَارًا مَّا ذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُوْنَ(۵۰)
تم فرماؤ بھلا بتاؤ تو اگر اس کا عذاب (ف۱۲۶) تم پر رات کو آئے (ف۱۲۷) یا دن کو (ف۱۲۸) تو اس میں وہ کونسی چیز ہے کہ مجرموں کو جس کی جلدی ہے،

{قُلْ اَرَءَیْتُمْ:تم فرماؤ : بھلا بتاؤ تو۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے مشرکین سے فرما دیں کہ ذرا بتاؤ تو سہی کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وہ عذاب جس کے نازل ہونے کی تم جلدی مچا رہے ہو،  تم پر رات میں اس وقت آئے جب تم غافل پڑے سو رہے ہو یا دن میں اس وقت آئے جب تم مَعاش کے کاموں میں مشغول ہو تو تمہاری تکلیف میں کیا فرق پڑے گا یعنی عذاب کا ہر حصہ عذاب ہے اور ہر وقت کا عذاب عذاب ہی ہے تو تمہارے لئے تو بہرحال مُہلِک ہے تو پھر تم اس کے جلدی وُقوع کا مطالبہ کیوں کررہے ہو؟

{اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ:تو کیا جب وہ (عذاب)واقع ہوجائے گا ۔} یعنی اگر اللہ عَزَّوَجَلَّکا عذاب تم پر آجائے گا توکیا اس کے نازل ہونے کے بعد اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لاؤ گے؟ اس وقت کا ایمان کچھ فائدہ نہ دے گا اور جب عذاب نازل ہونے کے بعد ایمان لائیں گے توان سے کہا جائے گا کہ تم اب ایمان لارہے ہوحالانکہ اس سے پہلے تو تم سر کشی اور اِستہزاء کے طور پر اس کی بڑی جلدی مچا رہے تھے۔(بیضاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵۲،۳ / ۲۰۲)

{ثُمَّ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا:پھر ظالموں سے کہا جائے گا۔} یعنی جن لوگوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے شرک اور کفر کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا ان سے کہا جائے گا: جس عذاب میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے اس کا مزہ چکھو، تم دنیا میں جو کفر اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرتے تھے یہ اسی کا بدلہ دیا جا رہا ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۲، ۲ / ۳۱۹، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۴۷۶، ملتقطاً)

10:51
اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖؕ- ﰰ لْــٴٰـنَ وَ قَدْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ(۵۱)
تو کیا جب (ف۱۲۹) ہو پڑے گا اس وقت اس کا یقین کرو گے (ف۱۳۰) کیا اب مانتے ہو پہلے تو (ف۱۳۱) اس کی جلدی مچارہے تھے،

10:52
ثُمَّ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِۚ-هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ(۵۲)
پھر ظالموں سے کہا جائے گا ہمیشہ کا عذاب چکھو تمہیں کچھ اور بدلہ نہ ملے گا مگر وہی جو کماتے تھے (ف۱۳۲)

10:53
وَ یَسْتَنْۢبِــٴُـوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ ﳳ-قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ ﱢ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۠(۵۳)
اور تم سے پوچھتے ہیں کیا وہ (ف۱۳۳) حق ہے، تم فرماؤ، ہاں! میرے رب کی قسم بیشک وہ ضرور حق ہے، اور تم کچھ تھکا نہ سکو گے (ف۱۳۴)

{ وَ یَسْتَنْۢبِــٴُـوْنَكَ:اور تم سے پوچھتے ہیں۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا قیامت اور وہ عذاب جس کے نازل ہونے کی آپ نے ہمیں خبر دی ہے واقعی حق ہے؟ آپ ان سے فرما دیں ، ہاں ! میرے رب عَزَّوَجَلَّکی قسم! بیشک میں نے جس کی خبر دی ہے وہ ضرور حق ہے اوراس میں کوئی شک نہیں اورتم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے بھاگ کر اسے عاجز نہیں کرسکتے بلکہ وہ  عذاب تمہیں ضرور پہنچے گا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۳، ۲ / ۳۱۹، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۸۷۵، ملتقطاً)

10:54
وَ لَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهٖؕ-وَ اَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَۚ-وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۵۴)
اور اگر ہر ظالم جان، زمین میں جو کچھ ہے (ف۱۳۵) سب کی مالک ہوتی، ضرور اپنی جان چھڑانے میں دیتی (ف۱۳۶) اور دل میں چپکے چپکے پشیمان ہوئے جب عذاب دیکھا اور ان میں انصاف سے فیصلہ کردیا گیا اور ان پر ظلم نہ ہوگا،

{وَ لَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاَرْضِ:اور زمین میں جو کچھ ہے اگر ہر ظالم جان اس کی مالک ہوجائے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں زمین کے اندر جو خزانہ اور مال و دولت ہے یہ سب اگر ہر کافر و مشرک کی مِلک میں ہوتا تو وہ یقیناًاپنی جان چھڑانے کے معاوضے میں دیدیتا اور قیامت کے دن اسے اپنی رہائی کے لئے فِدیہ کر ڈالتا، لیکن یہ فدیہ قبول نہیں اور تمام دنیا کی دولت خرچ کرکے بھی اب رہائی ممکن نہیں۔ جب قیامت میں یہ منظر پیش آئے گا اور کفار کی امیدیں ٹوٹ جائیں گی اور کافروں کے سردار عذاب دیکھیں گے تو وہ دل ہی دل میں شرمندہ اور پشیمان ہوں گے لیکن اپنی شرمندگی عام کافروں سے چھپانے کی کوشش کریں گے اور اس دن ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ ہو گا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۴، ۲ / ۳۱۹، جلالین، یونس، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۱۷۵، ملتقطاً)چونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کفر و شرک کی سزا کا دائمی ہونا بیان فرما دیا اور قانون بنا دیا تو اب جسے یہ سزا ملے گی اسے یقیناً قانون کے مطابق ملے گی اور قانون کے مطابق سزا انصاف ہی ہوتی ہے۔

10:55
اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-اَلَاۤ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۵۵)
سن لو بیشک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں (ف۱۳۷) سن لو بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر ان میں اکثر کو خبر نہیں،

{اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ:سن لو بیشک اللہ ہی کا ہے۔} اس سے پہلی آیت میں بیان ہوا کہ ہر کافر تمنا کرے گا کہ اگر روئے زمین کی تمام چیزیں میری ملک میں ہوتیں تو وہ سب فدیے میں دے دیتا اور اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اس کی ملکیت میں کوئی چیز نہیں ہے ۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین و آسمان میں موجود ہر چیز کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے،اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا اور کوئی شریک نہیں تو قیامت کے دن کسی کافر کے پاس اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات پانے کیلئے فدیے کے طور پر دینے کیلئے کوئی چیز نہ ہوگی کیونکہ سب چیزوں کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّہے بلکہ کافر خود بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ملک میں ہے تو اس کا فدیہ دینا کیسے ممکن ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۸۷۶، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۳۱۹، ملتقطاً)

{اَلَاۤ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ:سن لو! بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو ثواب اور عذاب کا وعدہ فرمایا ہے وہ سچا ہے اور ضرور پورا ہو گا لیکن ان میں سے اکثر لوگ اپنی عقل کی کمی اور غفلت کے غلبے کی وجہ سے اسے نہیں جانتے اور وہ صرف دنیا کی ظاہری زندگی کو جاننے تک ہی محدود ہیں اسی لئے وہ ایسی غلط باتیں بولتے اور غلط کام کرتے ہیں۔( روح البیان، یونس، تحت الآیۃ: ۵۵، ۴ / ۵۳)

{ہُوَ یُحْیٖ:وہ زندہ کرتا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ کسی کی دخل اندازی کے بغیر وہی دنیا میں زندہ کرتا اور موت دیتا ہے اور آخرت میں تم دوبارہ زندہ ہو کر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (روح البیان، یونس، تحت الآیۃ: ۵۶، ۴ / ۵۳)

10:56
هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۵۶)
وہ جِلاتا اور مارتا ہے اور اسی کی طرف پھرو گے،

10:57
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِۙ۬-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۵۷)
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی (ف۱۳۸) اور دلوں کی صحت اور ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لیے،

{ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ:اے لوگو!۔} اس آیت میں قرآنِ کریم کے آنے اور اس کے نصیحت، شفا،ہدایت ا ور رحمت ہونے کا بیان ہے کہ یہ کتاب اُن فوائدِ عظیمہ کی جامع ہے۔

قرآنِ مجید کے عظیم فوائد :

            اس آیت میں قرآنِ کریم کے تین عظیم فائدے بیان کئے گئے

(1)… ’’ مَوْعِظَةٌ ‘‘اس کے معنی ہیں وہ چیز جو انسان کو پسندیدہ چیزکی طرف بلائے اور خطرے سے بچائے ۔ خلیل نے کہا کہ ’’ مَوْعِظَةٌ ‘‘نیکی کی نصیحت کرنا ہے جس سے دل میں نرمی پیدا ہو۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۷، ۲ / ۳۲۰)

             تفسیر جمل میں ہے کہ ’’ مَوْعِظَةٌ‘‘ کا معنی ہے وعظ و نصیحت یعنی مُکَلَّف کے سامنے نیک اعمال جو کہ اس کیلئے فائدہ مند ہیں اور برے اعمال جو کہ اس کے لئے نقصان دِہ ہیں بیان کر کے اسے نصیحت کرنا اسی طرح اچھے عمل کرنے کی ترغیب دینا اور برے اعمال کے انجام سے ڈرانا بھی اس میں داخل ہے۔ (جمل، یونس، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۳۷۲) اور قرآنِ کریم سے یہ فائدہ انتہائی احسن طریقے سے حاصل ہوتاہے۔

(2)…شفاء :اس سے مراد یہ ہے کہ قرآنِ پاک قلبی اَمراض کودور کرتا ہے، دل کے امراض سے مراد مَذموم اَخلاق ، فاسد عقائد اور مُہلِک جہالتیں ہیں ، قرآنِ پاک ان تمام اَمراض کو دور کرتا ہے۔

(3)…قرآنِ کریم کی صفت میں ہدایت بھی فرمایا ،کیونکہ وہ گمراہی سے بچاتا اور راہِ حق دکھاتا ہے اور ایمان والوں کے لئے رحمت اس لئے فرمایا کہ وہی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۷، ۲ / ۳۲۰، ملخصاً)

شریعت ،طریقت اور حقیقت کی طرف اشارہ:

            علامہ صاوی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’ مَوْعِظَةٌ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ نفع دینے والی چیزوں یعنی اچھے اعمال کی ہدایت اور نقصان دینے والی چیزوں یعنی برے اعمال سے ڈرانا۔’’ مِنْ رَّبِّكُمْ‘‘  ’’ مَوْعِظَةٌ ‘‘ کی صفت ہے اور ارشاد فرمایا ’’ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ‘‘ اس میں سینوں سے مراد دل ہیں اور معنی یہ ہے کہ قرآن وعظ و نصیحت کرنے والا ہے اورا سی کے ذریعے دلوں کے اَمراض یعنی کینہ ،حسد، بغض اور برے عقائد سے شفاء نصیب ہوتی ہے۔اور ارشاد فرمایا ’’وَهُدًى‘‘ یعنی نور جو کہ کامل مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے اور اس کے ذریعے وہ حق و باطل میں اِمتیاز کر لیتے ہیں۔ مزید فرماتے ہیں ’’اس آیت میں شریعت ، طریقت اور حقیقت تینوں کی طرف اشارہ ہے۔ شریعت کی طرف اشارہ آیت کے اس حصے’’مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ‘‘ میں ہے، کیونکہ شریعت سے ظاہری طہارت حاصل ہوتی ہے اور طریقت کی طرف اشارہ آیت کے اس حصے’’وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ‘‘ میں ہے کیونکہ طریقت باطن کو ہر نا مناسب چیز سے پاک کرتی ہے۔ جبکہ حقیقت کی طرف اشارہ آیت کے اس حصے ’’وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ میں ہے کیونکہ حقیقت ہی کے ذریعے دلوں میں ان اَنوار کی تجلیات پھیلتی ہیں جن کے ذریعے چیزیں اپنی حقیقت کے مطابق نظر آتی ہیں۔ جب دلوں میں ان انوار کی تجلیات آ جائیں تو پھر ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی قدرت دکھائی دیتی ہے اور ہر چیز علمِ ذوقی کے اعتبار سے اس کے قریب ہو جاتی ہے،خلاصہ یہ ہے کہ حقیقت طریقت کا ثمرہ ہے اور حقیقت، طریقت اور شریعت کو مضبوطی سے تھامنے کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے ،اسی لئے کہا گیا ہے کہ حقیقت شریعت کے بغیر باطل ہے اور شریعت حقیقت کے بغیربیکار ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۸۷۶-۸۷۷)

 

 

10:58
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(۵۸)
تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں (ف۱۳۹) وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے،

{قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا:تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے۔} کسی پیاری اور محبوب چیز کے پانے سے دل کو جو لذت حاصل ہوتی ہے اس کو ’’فَرح ‘‘کہتے ہیں ،اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ ایمان والوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و رحمت پر خوش ہونا چاہئے کہ اس نے انہیں نصیحتیں ، سینوں کی شفاء اور ایمان کے ساتھ دل کی راحت و سکون عطا فرمایا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے کیا مراد ہے؟

            اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ، حضرت حسن اور حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے فضل سے اسلام اور اس کی رحمت سے قرآن مراد ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے فضل سے قرآن اور رحمت سے اَ حادیث مراد ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵۸، ۲ / ۳۲۰)

            بعض علماء نے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت قرآنِ کریم۔ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(نساء ۱۱۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور آپ پر اللہ کافضل بہت بڑا ہے۔

             بعض نے فرمایا :اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل قرآن ہے اور رحمت حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہیں جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘(انبیاء:۱۰۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔

            اور اگر بالفرض اِس آیت میں متعین طور پر فضل و رحمت سے مراد سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ذاتِ مبارکہ نہ بھی ہو تو جداگانہ طور پر تواللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یقینا اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین فضل اور رحمت ہیں۔ لہٰذا فنِ تفسیر کے اس اصول پر کہ عمومِ الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے ، خصوصِ سبب کا نہیں ، اس کے مطابق ہی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِ مبارکہ کے حوالے سے خوشی منائی جائے گی خواہ وہ میلاد شریف کرکے ہو یا معراج شریف منانے کے ذریعے، ہاں اگر کسی بدنصیب کیلئے یہ خوشی کامقام ہی نہیں ہے تو اس کا معاملہ جدا ہے، اسے اپنے ایمان کے متعلق سوچنا چاہیے۔

10:59
قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّنْهُ حَرَامًا وَّ حَلٰلًاؕ-قُلْ ﰰ للّٰهُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَى اللّٰهِ تَفْتَرُوْنَ(۵۹)
تم فرماؤ بھلا بتاؤ تو وہ جو اللہ نے تمہارے لیے رزق اتارا اس میں تم نے اپنی طرف سے حرام و حلال ٹھہرالیا (ف۱۴۰) تم فرماؤ کیا اللہ نے اس کی تمہیں اجازت دی یا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو (ف۱۴۱)

{قُلْ:تم فرماؤ۔}کفارِ عرب چونکہ بحیرہ، سائبہ اور وصیلہ وغیرہ بتوں پر چھوڑے ہوئے جانوروں کو حرام سمجھتے تھے، ان پر عتاب فرمانے کے لئے یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(تفسیر ابن کثیر، یونس، تحت الآیۃ: ۵۹، ۴ / ۲۳۹) کہ یہ جانور حلال ہیں انہیں حرام جاننا اللہ عَزَّوَجَلَّ پر بہتان باندھنا ہے۔

اپنی طرف سے حلال کو حرام سمجھنا اللہ تعالیٰ پر اِفتراء ہے:

اس آیت سے ثابت ہوا کہ کسی چیز کو اپنی طرف سے حلال یا حرام سمجھنا ممنوع اور اللہ تعالیٰ پر اِفترا ء ہے۔ آج کل بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہیں، ممنوعات کو حلال کہتے ہیں اور مُباحات کو حرام۔ بعض سود کو حلال کہنے پر مُصِر ہیں اور بعض عورتوں کی بے قیدیوں اور بے پردگیوں کو مُباح سمجھتے ہیں اور حلال ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ حلال چیزوں کو حرام ٹھہرانے پر مُصِر ہیں جیسے محفلِ میلاد، فاتحہ ،گیارہویں اور ایصالِ ثواب کے دیگر طریقوں کو حرام کہنے والے ۔ یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّپر اِفتراء باندھنے کی صورتیں ہیں۔

10:60
وَ مَا ظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُوْنَ۠(۶۰)
اور کیا گمان ہے ان کا، جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں کہ قیامت میں ان کا کیا حال ہوگا، بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرتا ہے (ف۱۴۲) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے،

{وَ مَا ظَنُّ:اور کیا خیال ہے؟} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ لوگ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹا بہتان باندھ رہے ہیں اور جو رزق اور خوراک اللہ تعالیٰ نے حرام نہیں فرمائی بلکہ وہ ان کی غذاہے ا س کے حرام ہونے کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، کیا وہ یہ گمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے اس جھوٹ پر کوئی پکڑ نہ فرمائے گا ؟کیا ان کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے در گزر فرمائے گا اور انہیں بخش دے گا؟ہر گز نہیں ! بلکہ وہ انہیں جہنم میں پہنچائے گا جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (تفسیرطبری، یونس، تحت الآیۃ: ۶۰، ۶ / ۵۷۲)

{اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ:بیشک اللہ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے۔} یعنی بے شک اللہ تعالیٰ عقل عطا فرما کر، رسول بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر لوگوں پر فضل فرماتا ہے لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دلائل میں غوروفکر کرنے کے لئے عقل استعمال کرتے ہیں نہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت قبول کرتے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں سے سن کر نفع اٹھاتے ہیں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۶۰، ۶ / ۲۷۲)

10:61
وَ مَا تَكُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّ مَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّ لَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَیْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْهِؕ-وَ مَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ لَاۤ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَ لَاۤ اَكْبَرَ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(۶۱)
اور تم کسی کام میں ہو (ف۱۴۳) اور اس کی طرف سے کچھ قرآن پڑھو اور تم لوگ (ف۱۴۴) کوئی کام کرو ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم اس کو شروع کرتے ہو، اور تمہارے رب سے ذرہ بھر کوئی چیز غائب نہیں زمین میں نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی کوئی چیز نہیں جو ایک روشن کتاب میں نہ ہو (ف۱۴۵)

{وَ مَا تَكُوْنُ فِیْ شَاْنٍ:اور تم کسی حال میں بھی ہو۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پرشاہد اور ہر چیز کو جاننے والا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی خالق ہے نہ اِیجاد کرنے والا، بندوں کی ظاہری اور باطنی اَعمال میں سے جو چیز بھی موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کے وجود میں لانے سے ہی موجود ہے اور جو اِیجاد کرنے والا ہوتا ہے وہ اس چیز کو جانتا بھی ہے لہٰذا نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اَعمال و اَحوال، تلاوت ِ قرآن، اُمورِ دُنیویہ و حاجت ِ ضروریہ میں مصروفیت اور اسی کے ساتھ تمام لوگوں کے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں اور وہ ان سب پر گواہ ہے۔پھر فرمایا کہ  زمین و آسمان میں ایک ذرے کی مقدار بھی کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے دور اور اس کے علم سے پو شیدہ نہیں اور اس ذرے سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی نہیں کہ جو روشن کتاب یعنی  لَوحِ محفوظ میں درج نہ ہو۔(تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۶۱، ۶ / ۲۷۲-۲۷۳، بیضاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۱،  ۳ / ۲۰۵)

اللہ تعالیٰ سے حیا کرتے ہوئے نافرمانی سے بچنا چاہئے:

            یہ آیتِ مبارکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علم، قدرت اور اس کی عظمت کے اظہار کیلئے ہے اور اسی میں ہمارے لئے تنبیہ اور نصیحت ہے کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے تمام اَعمال کو ہر وقت، ہر لمحہ دیکھ رہا ہے تو اس کریم ذات کی حیا اور خوف سے ہمیں اس کی نافرمانی کے کاموں سے بچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا حقیقی خوف اور اپنی نافرمانی سے بچتے رہنے کی توفیق نصیب فرمائے،اٰمین۔

10:62
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(۶۲)
سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم (ف۱۴۶)

{اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ:سن لو! بیشک اللہ کے ولیوں۔} لفظِ ’’ولی‘‘ وِلَاء سے بناہے جس کا معنی قرب ا ور نصرت ہے۔ وَلِیُّ اللہ وہ ہے جو فرائض کی ادائیگی سے اللہ عَزَّوَجَلَّکا قرب حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشغول رہے اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کے نورِ جلال کی معرفت میں مستغرق ہو ،جب دیکھے قدرتِ الٰہی کے دلائل کو دیکھے اور جب سنے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی ثناہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے، اطاعتِ الٰہی میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے تو اسی کام میں کوشش کرے جو قربِ الٰہی کاذریعہ ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے۔ یہ صفت اَولیاء کی ہے، بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا ولی و ناصر اور معین و مددگار ہوتا ہے۔

وَلِیُّ اللہ کی علامات:

            علماء نے ’’ ولی اللہ‘‘ کی کثیر علامات بیان فرمائی ہیں ، جیسے متکلمین یعنی علمِ کلام کے ماہر علماء کہتے ہیں ’’ولی وہ ہے جو صحیح اور دلیل پر مبنی اعتقاد رکھتا ہو اور شریعت کے مطابق نیک اعمال بجالاتا ہو ۔

            بعض عارفین نے فرمایا کہ ولایت قربِ الٰہی اور ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ مشغول رہنے کا نام ہے،جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو کسی چیز کا خوف نہیں رہتااور نہ کسی شے کے فوت ہونے کا غم ہوتا ہے۔

             حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ولی وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ تعالیٰ یاد آئے، یہی طبری کی حدیث میں بھی ہے۔

ابنِ زید نے کہا کہ ولی وہی ہے جس میں وہ صفت ہو جو اس سے اگلی آیت میں مذکور ہے۔ ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ‘‘ یعنی ایمان و تقویٰ دونوں کا جامع ہو۔

             بعض علماء نے فرمایا کہ ولی وہ ہیں جو خالص اللہ کے لئے محبت کریں۔ اَولیاء کی یہ صفت بکثرت اَحادیث میں ذکر ہوئی ہے۔

            بعض بزرگانِ دین نے فرمایا: ولی وہ ہیں جو طاعت یعنی فرمانبرداری سے قربِ الٰہی کی طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کرامت سے ان کی کار سازی فرماتا ہے یا وہ جن کی ہدایت کا دلیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کفیل ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کا حقِ بندگی ادا کرنے اور اس کی مخلوق پر رحم کرنے کے لئے وقف ہوگئے ۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲، ۲ / ۳۲۲-۳۲۳)

            صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ معانی اور عبارات اگرچہ جداگانہ ہیں لیکن ان میں اختلاف کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک عبارت میں ولی کی ایک ایک صفت بیان کردی گئی ہے جسے قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے یہ تمام صفات اس میں ہوتے ہیں ، ولایت کے درجے اور مَراتب میں ہر ایک اپنے درجے کے بقدر فضل و شرف رکھتا ہے۔ (خزائن العرفان، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۴۰۵)

{لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ:اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔} مفسرین نے اس آیت کے بہت سے معنی بیان کئے ہیں ، ان میں سے 3معنی درج ذیل ہیں :

(1)…مستقبل میں انہیں عذاب کا خوف نہ ہو گا اور نہ موت کے وقت وہ غمگین ہوں گے۔

(2)… مستقبل میں کسی ناپسندیدہ چیز میں مبتلاہونے کا خوف ہوگا اور نہ ماضی اور حال میں کسی پسندیدہ چیز کے چھوٹنے پر غمگین ہوں گے۔ (البحرا لمحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳۸، ۱ / ۳۲۳۔جلالین مع صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۸۸۰)

(3)… قیامت کے دن ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ اس دن یہ غمگین ہوں گے کیونکہ اللہتعالیٰ نے اپنے ولیوں کو دنیا میں ان چیزوں سے محفوظ فرما دیا ہے کہ جو آخرت میں خوف اور غم کا باعث بنتی ہیں۔ (4)ان تین کے علاوہ مزید اَقوال بھی تَفاسیر میں مذکور ہیں۔

اولیاءِ کرام کی اَقسام:

           اولیاءِ کرام کی کثیر اَقسام ہیں جیساکہ حضرت ابو درداء  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ،بے شک انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زمین کے اَوتاد تھے ، جب نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اُمتِ احمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں سے ایک قوم کو اُن کا نائب بنایا جنہیں اَبدال کہتے ہیں ، وہ حضرات (فقط) روزہ و نماز اور تسبیح وتقدیس میں کثرت کی وجہ سے لوگوں سے افضل نہیں ہوئے بلکہ اپنے حسنِ اَخلاق، وَرع و تقویٰ کی سچائی، نیت کی اچھائی، تمام مسلمانوں سے اپنے سینے کی سلامتی، اللہ عَزَّوَجَلَّکی رضا کے لیے حلم ، صبر اور دانشمندی ، بغیر کمزوری کے عاجزی اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کی وجہ سے افضل ہو ئے ہیں۔ پس وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے نائب ہیں۔ وہ ایسی قوم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ذات پاک کے لئے منتخب اور اپنے علم اور رضا کے لئے خاص کر لیا ہے ۔ وہ 40 صدیق ہیں ، جن میں سے 30 رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کے خلیل حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے یقین کی مثل ہیں۔ ان کے ذریعے سے اہلِ زمین سے بلائیں اور لوگوں سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں ، ان کے ذریعے سے ہی بارش ہوتی اور رزق دیا جاتا ہے، ان میں سے کوئی اُسی وقت فوت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کی جانشینی کیلئے کسی کو پروانہ دے چکا ہوتا ہے۔ وہ کسی پر لعنت نہیں بھیجتے، اپنے ماتحتوں کو اَذیت نہیں دیتے ، اُن پر دست درازی نہیں کرتے ،اُنہیں حقیر نہیں جانتے ، خود پر فَوقیت رکھنے والوں سے حسد نہیں کرتے ، دنیا کی حرص نہیں کرتے ، دکھاوے کی خاموشی اختیار نہیں کرتے ، تکبرنہیں کرتے اور دکھاوے کی عاجزی بھی نہیں کرتے ۔ وہ بات کرنے میں تمام لوگوں سے اچھے اور نفس کے اعتبار سے زیادہ پرہیزگار ہیں ، سخاوت ان کی فطرت میں شامل ہے، اَسلاف نے جن (نامناسب ) چیزوں کو چھوڑا اُن سے محفوظ رہنا ان کی صفت ہے ، اُن کی یہ صفت جدا نہیں ہوتی کہ آج خشیت کی حالت میں ہوں اور کل غفلت میں پڑے ہوں بلکہ وہ اپنے حال پر ہمیشگی اختیا ر کرتے ہیں ، وہ اپنے اور اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے درمیان ایک خاص تعلق رکھتے ہیں ، جہاں تک دوسرے کسی کی رسائی نہیں۔ اُن کے دل اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور شوق میں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں ،(پھر یہ آیت تِلاوت فرمائی)’’ اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘(المجادلۃ:۲۲)ترجمۂکنزُالعِرفان:یہ اللہ کی جماعت ہے، سن لو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے۔  (نوادرُ الاصول، الاصل الحادی والخمسون، ۱ / ۲۰۹، الحدیث: ۳۰۱)

حضرت شریح بن عبید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے پاس شام والوں کا ذکر ہوا تو ان سے عرض کی گئی کہ ان پر لعنت کیجئے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’نہیں ، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اَبدال شام میں ہوں گے، وہ حضرات چالیس مرد ہیں ، جب ان میں ایک وفات پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے کو بدل دیتا ہے، ان کی برکت سے بارشیں برستی ہیں ، ان کے ذریعے دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور ان کی برکت سے شام والوں سے عذاب دور ہوتا ہے۔ (مسند امام احمد، ومن مسند علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ۱ / ۲۳۸، الحدیث: ۸۹۶)

             اولیاءِ کرام کی اَقسام کے بارے میں اَکابر علماء و محدثین نے بڑا تفصیلی کلام فرمایا ہے ۔ علامہ سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قطب، اَبدال وغیرہما کے وجود پر ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے۔ علامہ نبہانی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اس موضوع پر مشہور کتاب ’’جامع کراماتِ اولیاء‘‘ ضخیم ترین کتاب ہے۔ علامہ نبہانی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کی روشنی میں یہاں چند مشہور اَقسام بیان کی جاتی ہیں

(1)… اَقطاب۔ یہ قُطب کی جمع ہے۔ قطب اسے کہتے ہیں کہ جو خود یا کسی کے نائب کے طور پر حال اور مقام دونوں کا جامع ہو۔

(2)… اَئمہ ۔ یہ وہ حضرات ہیں کہ جو قطب کے انتقال کے بعد اس کے خلیفہ بنتے ہیں اور وہ قطب کیلئے وزیر کی طرح ہوتے ہیں۔ہر زمانے میں ان کی تعداد دو ہوتی ہے۔

(3)… اَوتاد۔ہر زمانے میں ان کی تعداد چار ہوتی ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے۔ ان میں سے ایک کے ذریعے اللہ تعالیٰ مشرق کی حفاظت فرماتا ہے ، دوسرے کے ذریعے مغرب کی ، تیسرے کے ذریعے شمال کی اور چوتھے کے ذریعے جنوب کی حفاظت فرماتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنے حصے میں ولایت ہوتی ہے۔

(4)… اَبدال۔ ان کی تعداد سات ہوتی ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے ساتوں برِّ اَعظم کی حفاظت فرماتا ہے، انہیں ابدال ا س لئے کہتے ہیں کہ جب یہ کسی جگہ سے کوچ کرتے ہیں اور کسی مَصلحت اور قربت کی وجہ سے اس جگہ اپنا قائم مقام چھوڑنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں ایسے آدمی کو نامزد کرتے ہیں کہ جو ان کا ہم شکل ہواور جو کوئی بھی اس ہم شکل کو دیکھے تو وہ اسے اصلی شخص ہی سمجھے حالانکہ وہ ایک روحانی شخصیت ہوتا ہے جسے ابدال میں سے کوئی بدل قصداً وہاں ٹھہرا تا ہے۔ جن اَولیاء میں یہ قوت ہوتی ہے ، انہیں ا بدال کہتے ہیں۔

(5)…رِجال ا لغیب ۔ اَہلُ اللہ کی اِصطلاح میں یہ وہ لوگ ہیں جو رب کی بارگاہ میں انتہائی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور تجلیات ِ رحمٰن کے غلبے کے سبب آہستہ آواز کے سوا کچھ کلام نہیں کرتے، ہمیشہ اسی حال میں رہتے ہیں ، چھپے ہوئے ہوتے ہیں پہچانے نہیں جاتے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مُناجات نہیں کرتے اور اس کے سوا کسی کے مشاہدے میں مشغول نہیں ہوتے۔ بعض اوقات اس سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو انسانی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں اور کبھی اس کا اِطلاق نیک اور مومن جنات پر ہوتا ہے ۔ بعض اوقات ان سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو ظاہری حواس سے علم اور رزق وغیرہ نہیں لیتے انہیں غیب سے یہ چیزیں عطا ہوتی ہیں۔ (جامع کرامات اولیاء، القسم الاول فی ذکر مراتب الولایۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۹، ۷۴)

{اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:وہ جو ایمان لائے ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ولی کی دو صِفات بیان فرمائی ہیں :

(1)…ولی وہ ہے جو ایمان کے ساتھ مُتَّصِف ہو۔ ایمان کا معنی ہے وہ صحیح اعتقاد جو قَطعی دلائل پر مبنی ہو۔

(2)… ولی کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ متقی ہو۔ تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ جن کاموں کو کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا انہیں کرنا اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے اِجتناب کرنا۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۸۸۰) اوراس کے ساتھ ساتھ ہر اس کام کیلئے کوشش کرنا جس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا ہو اور ہر اُس کام سے بچنا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دور کرنے والا ہو۔

10:63
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ(۶۳)
وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں،

10:64
لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِؕ-لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُؕ(۶۴)
انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں (ف۱۴۷) اور آخرت میں، اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں (ف۱۴۸) یہی بڑی کامیابی ہے،

{لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:ان کے لئے دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے۔} اس خوش خبری سے یا تو وہ مراد ہے جو پرہیزگار ایمانداروں کو قرآنِ کریم میں جا بجادی گئی ہے یااس سے اچھے خواب مراد ہیں جو مومن دیکھتا ہے یا اس کے لئے دیکھا جاتا ہے جیسا کہ کثیر اَحادیث میں وارد ہوا ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ ولی کا قلب اور اس کی روح دونوں ذکرِ الٰہی میں مستغرق رہتے ہیں تو بوقت ِخواب اس کے دل میں سوائے ذکر و معرفتِ الٰہی کے اور کچھ نہیں ہوتا، اس لئے ولی جب خواب دیکھتا ہے تو اس کا خواب حق اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے حق میں بشارت ہوتی ہے۔ بعض مفسرین نے اس بشارت سے دنیا کی نیک نامی بھی مراد لی ہے۔(مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۴۷۸، خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۳۲۳، ملتقطاً) جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سرکارِ دو عالَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا گیا :اس شخص کے لئے کیا ارشاد فرماتے ہیں جو نیک عمل کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں ؟ فرمایا: یہ مومن کے لئے جلد خوشخبری ہے۔(مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا اثنی علی الصالح فہی بشری ولا تضرہ، ص۱۴۲۰، الحدیث: ۱۶۶ (۲۶۴۲))

             علماء فرماتے ہیں کہ یہ بشارتِ عاجلہ یعنی جلد خوشخبری رضائے الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے محبت فرمانے اور خلق کے دل میں محبت ڈال دینے کی دلیل ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس کو زمین میں مقبول کردیا جاتا ہے۔ (شرح النووی علی المسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا اثنی علی الصالح فہی بشری ولا تضرہ، ۸ / ۱۸۹، الجزء السادس عشر)

             حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ملائکہ ،مومن کو اس کی موت کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دیتے ہیں۔ حضرت عطا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا قول ہے کہ دنیا کی بشارت تو وہ ہے جو ملائکہ موت کے وقت سناتے ہیں اور آخرت کی بشارت وہ ہے جو مومن کو جان نکلنے کے بعد سنائی جاتی ہے کہ اس سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۳۲۳-۳۲۴)

اولیاءِ کرام کے فضائل:

            یہاں آیت کی مناسبت سے اولیاءِ کرام کے فضائل پر مشتمل 4 اَحادیث ملاحظہ ہوں

(1)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے، اس سے میں نے لڑائی کا اعلان کردیا اور میرا بندہ کسی شے سے میرا اُس قدر قرب حاصل نہیں کرتا جتنا فرائض سے کرتا ہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے ہمیشہ قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنا لیتا ہوں اور جب اس سے محبت کرنے لگتاہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے، تو اسے دوں گا اور پناہ مانگے تو پناہ دوں گا۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، ۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۲)

(2)…حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامکو بلا کر ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَاماس سے محبت کرتے ہیں ،پھر حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آسمان میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے ۔اور جب رب تعالیٰ کسی بندے سے ناراض ہوتا ہے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو بلا کر ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں سے ناراض ہوں تو تم بھی اس سے ناراض ہوجائو چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے ناراض ہوجاتے ہیں ،پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے ناراض ہے تم بھی اس سے ناراض ہوجائو تو آسمان والے اس سے نفرت کرتے ہیں پھر زمین میں اس کے لیے نفرت رکھ دی جاتی ہے۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا احبّ اللہ عبداً حبّبہ الی عبادہ، ص۱۴۱۷، الحدیث: ۱۵۷(۲۶۳۷))

(3)…حضرت معاذ بن جبل  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ میرے جلال کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ان کے لیے نور کے منبر ہوں گے، انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شُہدا اُن پر رشک کریں گے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الحبّ فی اللہ، ۴ / ۱۷۴، الحدیث: ۲۳۹۷)

(4)…حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں کہ وہ نہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور نہ شُہدا ء ۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا ایسا مرتبہ ہوگا کہ قیامت کے دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہدا اُن پر رشک کریں گے۔ لوگوں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ارشاد فرمائیے یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جو محض رحمتِ الٰہی  کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ، نہ ان کا آپس میں رشتہ ہے، نہ مال کا لینا دینا ہے۔ خدا کی قسم! ان کے چہرے نور ہیں اور وہ خود بھی نور پر ہیں۔ جب لوگ خوف میں ہوں گے ، اس وقت اِنہیں خوف نہیں ہو گااور جب دوسرے غم میں ہوں گے تویہ غمگین نہ ہوں گے۔‘‘ اور حضورپُر نور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے یہ آیت پڑھی۔

 ’’ اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ‘‘ (یونس:۶۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان:سن لو! بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔( ابوداؤد، کتاب الاجارۃ، باب فی الرہن، ۳ / ۴۰۲، الحدیث: ۳۵۲۷)

{لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ:اللہ کی باتیں بدلتی نہیں۔} یعنی اللہ تعالیٰ کے وعدے غلط نہیں ہوسکتے جو اس نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان سے اپنے اَولیاء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور اپنے فرمانبردار بندوں سے فرمائے ہیں۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۳۲۴)

 

10:65
وَ لَا یَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْۘ-اِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًاؕ-هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۶۵)
اور تم ان کی باتو ں کا غم نہ کرو (ف۱۴۹) بیشک عزت ساری اللہ کے لیے ہے (ف۱۵۰) وہی سنتا جانتا ہے،

{وَ لَا یَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ:اور تم ان کی باتو ں کا غم نہ کرو۔} اس آیت میں سرورِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دی گئی ہے کہ کفار نابکار جو آپ کی تکذیب کرتے ہیں اور آپ کے خلاف برے مشورے کرتے ہیں آپ اس کا کچھ غم نہ فرمائیں۔ بیشک تمام عزتوں کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّہے، وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ، اے سیّدِ انبیاء! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا ناصر و مددگار ہے، اس نے آپ کو اور آپ کے صدقے میں آپ کے فرمانبرداروں کو عزت دی، جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا کہ

’’وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ‘‘ (منافقون:۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اللہ کے لئے عزت ہے اور اس کے رسول کے لئے اور ایمانداروں کے لئے۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۵، ۲ / ۳۲۴، ملخصاً)

بلکہ کائنات میں عزت کا پیمانہ ہی حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِ مبارکہ ہے جو آپ سے جتنا قریب ہے وہ اتنا ہی زیادہ معزز ہے چنانچہ صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سب سے زیادہ قریب تھے تو اُمت میں سب سے معزز بھی وہی ہیں اور ابوجہل سب سے زیادہ دور تھا اس لئے کفار میں سب سے خبیث ترین بھی وہی قرار پایا۔

10:66
اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِؕ-وَ مَا یَتَّبِـعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُرَكَآءَؕ-اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ(۶۶)
سن لو بیشک اللہ ہی کے مِلک ہیں جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمینوں میں (ف۱۵۱) اور کاہے کے پیچھے جارہے ہیں (ف۱۵۲) وہ جو اللہ کے سوا شریک پکار رہے ہیں، وہ تو پیچھے نہیں جاتے مگر گمان کے اور وہ تو نہیں مگر اٹکلیں دوڑاتے (ف۱۵۳)

{اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ:سن لو! بیشک سب کا مالک اللہ ہی ہے۔} اس آیت سے پہلے آیت نمبر 55 میں ارشاد ہوا تھا کہ ’’ اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ‘‘ اور اس آیت میں ارشاد ہوا ’’ اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ‘‘ ان دونوں آیتوں کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عقل والے ہوں یا بے عقل تمام جمادات، نباتات، حیوانات، جن ، انسان اور فرشتے سب کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّہی ہے اور جب ہر چیز اس کی مَملوک ہے تو ان میں سے کوئی معبود کیسے ہو سکتا ہے۔ اسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا اور شریکوں کی عبادت کرنے والے کس دلیل کی بنا پر ان کی عبادت کر رہے ہیں  ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور وہ صرف جھوٹے اندازے لگارہے ہیں اور بے دلیل محض گمانِ فاسد سے اپنے باطل معبودوں کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک کی پرستش باطل ہے۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۶۶، ۶ / ۲۷۹، ملخصاً)یہ تو حید کی ایک عمدہ دلیل ہے اوراس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و نعمت کا اظہار فرماتا ہے۔

10:67
هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ(۶۷)
وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں چین پاؤ (ف۱۵۴) اور دن بنایا تمہاری آنکھوں کھولتا (ف۱۵۵) بیشک اس میں نشانیاں ہیں سننے والوں کے لیے (ف۱۵۶)

{هُوَ الَّذِیْ:وہی ہے جس نے۔} ارشاد فرمایا کہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں راحت و سکون حاصل کرواور آرام کرکے دن بھر کی تھکان دور کرو اور دن کو آنکھیں کھولنے والا بنایا تاکہ تم اس کی روشنی میں اپنی ضروریاتِ زندگی اور اَسبابِ مَعاش فراہم کرسکو۔ بیشک اس میں سننے والوں کے لیے نشانیاں ہیں جو سنیں اور سمجھیں کہ جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا وہی معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۷، ۲ / ۳۲۴-۳۲۵، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۴۷۹، ملتقطاً)

رات اور دن اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتیں ہیں :

            یاد رہے کہ رات اور دن دونوں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظیم نعمتوں میں سے ہیں۔ رات کے وقت آدمی آرام کرتا ہے اور سکون حاصل کرتا ہے، گزشتہ دن کی تھکاوٹ اتارتا ہے اور اگلے دن کیلئے چاق و چوبند ہوجاتا ہے اور دن کے وقت آدمی ہزاروں کام سرانجام دیتا ہے، دنیا بھر کے کام کرتا ہے اوراس کے ساتھ دن کی روشنی سے بھی راحت و آرام پاتا ہے ۔ دن یا رات میں سے کوئی ایک ختم ہوجائے تو زندگی نہایت کٹھن ہوجائے ۔ اگردن ختم ہوجائے اور ہمیشہ رات ہی رہے تو زمین پر کچھ کھانے کو نہ اُگ سکے گا اور سردی کی شدت بڑھتے بڑھتے انسان ہلاک ہوجائے اور اگر رات ختم ہوجائے اور ہمیشہ دن ہی رہے تو فصلیں سورج کی تَمازت سے جل جائیں اور لوگوں کا راحت و آرام چھن جائے۔ الغرض رات اور دن دونوں ہی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت ہیں اور نعمتوں کی اہمیت کا صحیح اندازہ ان ممالک میں رہنے سے ہو سکتا ہے جہاں کئی کئی مہینے دن یا کئی کئی مہینے رات رہتی ہے۔

10:68
قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗؕ-هُوَ الْغَنِیُّؕ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۭ بِهٰذَاؕ-اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۶۸)
بولے اللہ نے اپنے لیے اولاد بنائی (ف۱۵۷) پاکی اس کو، وہی بے نیاز ہے، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں (ف۱۵۸) تمہارے پاس اس کی کوئی بھی سند نہیں، کیا اللہ پر وہ بات بتاتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں،

{قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا:(کافروں نے )کہا: اللہ نے اپنے لیے اولاد بنارکھی ہے ۔} کفار کا یہ کلمہ نہایت قبیح اور اِنتہا درجہ کے جہل کا حامل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مشرکین کے اس قول کے تین رد فرمائے ہیں ،

             پہلا رد تو کلمہ ’’سُبْحٰنَهٗ ‘‘ میں ہے جس میں بتایا گیا کہ اس کی ذات اولاد سے منزہ و پاک ہے کہ وہ واحدِ حقیقی ہے۔

          دوسرا رد ’’ هُوَ الْغَنِیُّ ‘‘ فرمانے میں ہے کہ وہ تمام مخلوق سے بے نیاز ہے تو اولاد اس کے لئے کیسے ہوسکتی ہے؟ اولاد تو یا کمزور چاہتا ہے جو اس سے قوت حاصل کرے یا فقیر چاہتا ہے جوا س سے مدد لے یا کم عزت چاہتا ہے جو اس کے ذریعے سے عزت حاصل کرے ، الغرض جو چاہتا ہے وہ حاجت رکھتا ہے تو جو غنی ہو، بے نیاز ہو، کسی کا محتاج نہ ہو اس کے لئے اولاد کس طرح ہوسکتی ہے۔

           تیسرا رد ’’لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ ‘‘ میں ہے کہ تمام مخلوق اس کی مملوک ہے اور مملوک ہونا بیٹا ہونے کے ساتھ نہیں جمع ہوتا لہٰذا ان میں سے کوئی اس کی اولاد نہیں ہوسکتا۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۴۷۹-۴۸۰)اسی سِیاق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے کافرو! تم جو اللہ تعالیٰ کیلئے اولاد قرار دیتے ہو اس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں بلکہ اس کے برخلاف پر قطعی دلائل موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں بیان فرمائے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی عظمت و شان:

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’بنی آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ یہ اس کے لئے جائز نہیں اور اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ بھی ا س کے لئے جائز نہیں ہے، اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے: جس طرح میں نے اسے پہلے پیدا کیا اسی طرح دوبارہ زندہ نہیں کروں گا حالانکہ پہلی دفعہ بنانا میرے لئے دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے ، اور اس کا گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے: اللہ کا بیٹا بھی ہے، حالانکہ میں اکیلا ہوں ، بے نیاز ہوں ، نہ میں نے کسی کو جنا ہے اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی ایک بھی میری برابری کرنے والا نہیں ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ قل ہو اللہ احد، ۱-باب، ۳ / ۳۹۴، الحدیث: ۴۹۷۴)

          نوٹ: یہاں حدیث پاک میں جو یہ فرمایا گیا ’’پہلی دفعہ بنانا میرے لئے دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے‘‘یہ کلام بندوں کے اعتبار سے ہے اور مراد یہ ہے کہ بندوں کے نزدیک کسی چیز کو پہلی بار بنانا مشکل ہوتا ہے اور دوسری بار بنانا آسان جبکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے پہلی اور دوسری دونوں بار بنانا ایک جیسا ہے، تو جب لوگوں کے نزدیک جو چیز مشکل ہے یعنی پہلی بار بنانا وہ اللہ تعالیٰ نے کر دیا اور اس کا کافروں کو بھی اقرار ہے تو دوسری بار بنانے پر اس کی قدرت مانتے ہوئے کافروں کوکیا تکلیف ہے حالانکہ قیامت کے دن پہلے پیدا کر دی گئی مخلوق کو ہی دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔

{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا ہے کہ جولوگ اللہ تعالیٰ کیلئے اولاد کا دعویٰ کر کے اس پر جھوٹ باندھتے ہیں آپ انہیں تَنبیہ فرما دیں کہ ان کا انجام بہت برا ہوگا اور یہ لوگ اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوں گے بلکہ ناکام و نامُراد ہوں گے، اگرچہ ان پر نعمتوں کی بہتات ہو لیکن انجامِ کار زوال ہی ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۸۸۳)

10:69
قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَؕ(۶۹)
تم فرماؤ وہ جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا،

10:70
مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِیْقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ۠(۷۰)
دنیا میں کچھ برت لینا (فائدہ اٹھانا) ہے پھر انہیں ہماری طرف واپس آنا پھر ہم انہیں سخت عذاب چکھائیں گے بدلہ ان کے کفر کا،

{مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا:دنیا میں تھوڑا سافائدہ اٹھانا ہے۔}اس آیت میں کچھ لوگوں کے اِس شُبہے کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھنے والے بہت سے افراد عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور دنیاوی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو وہ ناکام کہاں سے ہوئے؟ ان کے شبہ کے ازالے کیلئے فرمایا گیا کہ یہ عارضی آرام ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ اعتبار انجام کا ہے اور ان کاانجام خراب ہی ہے ۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۸۸۳)

10:71
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍۘ-اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكُمْ مَّقَامِیْ وَ تَذْكِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَعَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْۤا اَمْرَكُمْ وَ شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ لَا یَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَیْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوْۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنْظِرُوْنِ(۷۱)
اور انہیں نوح کی خبر پڑھ کر سناؤ جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اگر تم پر شاق گزرا ہے میرا کھڑا ہونا (ف۱۵۹) اور اللہ کی نشانیاں یاد دلانا (ف۱۶۰) تو میں نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا (ف۱۶۱) تو مِل کر کام کرو اور اپنے جھوٹے معبودوں سمیت اپنا کام پکا کرلو تمہارے کام میں تم پر کچھ گنجلک (الجھن) نہ رہے پھر جو ہو سکے میرا کرلو اور مجھے مہلت نہ دو (ف۱۶۲)

{وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ:اور انہیں نوح کی خبر پڑھ کر سناؤ ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفارِ قریش کے اَحوال اور ان کے کفر و عناد کو بیان فرمایا اس کے بعد اب ان آیات سے اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات اور جو کچھ ان کی امتوں کے ساتھ پیش آیا اس کا بیان شروع فرمایا ہے، گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالاتِ زندگی بتاکر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا مقصود ہے تاکہ کفارِ قریش کی طرف سے پہنچنے والی اَذیت کی تکلیف آسان ہو نیز ان واقعات اور ماضی میں کفر کرنے والی امتوں پر آنے والے عذاب اور دنیا میں ان کی ہلاکت کا بیان کفارِ قریش کے لئے قلبی خوف کا سبب ہو اور وہ ایمان قبول کرنے کی طرف مائل ہوں اور چونکہ سب سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر ان کے کفر و سرکشی کی وجہ سے عذاب آیا اس لئے یہاں ان کا ذکر پہلے فرمایا گیا۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دیکھا کہ ان کا اپنی قوم کے درمیان  مدتِ دراز تک ٹھہرنا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں کے ذریعے  نصیحت کرنا انہیں ناگوار گزراہے اوراس پر انہوں نے مجھے قتل کر دینے اور اپنے علاقے سے نکال دینے کا ارادہ کیا ہے تو آپ نے ان سے فرمایا: ’’مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی پر کامل بھروسہ ہے اور میں نے اپنے معاملات اسی کے سپرد کر دئیے ہیں ، تم میری مخالفت میں اور مجھے اِیذاء پہنچانے کیلئے جس قدر اَسباب جمع کر سکتے ہو کر لوبلکہ اپنے باطل معبودوں کو بھی ملا لو اور تمہاری یہ سازش پوشیدہ نہ رہے بلکہ علی الاعلان سب کچھ کرو، پھر میرے خلاف جو کچھ کرسکتے ہو کر گزرو اور مجھے کوئی مہلت نہ دو مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا یہ کلام انہیں عاجز کر دینے کے طور پر تھا،مُدَّعا یہ ہے کہ مجھے اپنے قوی وقادر پروردگار عَزَّوَجَلَّ پر کامل بھروسہ ہے تم اور تمہارے بے اختیار معبود مجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷۱، ۲ / ۳۲۵-۳۲۶، ملخصاً)

حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکامختصر تعارف:

          حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دنیا میں چوتھے نبی اور پہلے رسول ہیں۔ آپ کا نام یَشْکُرْ اور لقب نوح ہے کیونکہ آپ خوفِ الٰہی سے نوحہ و گریہ بہت کرتے تھے۔ آپ آدمِ ثانی کہلاتے ہیں کیونکہ طوفانِ نوح کے بعد آپ ہی سے نسلِ انسانی چلی۔ قرآنِ پاک میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تبلیغ کے واقعات کو متعدد جگہ کافی تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے۔

آیت ’’ وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

             اس آیت سے پانچ چیزیں معلوم ہوئیں :

(1)… انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نہایت شُجاع، بہادر ، جَری، باہمت اور اُولُواالعزم ہوتے ہیں ، جیسے یہاں ایک طرف پوری قوم دشمن اور مخالف ہے اور دوسری طرف تنِ تنہا صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بھروسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کس قدرت جرأت کے ساتھ مخالفین کو پکار رہے ہیں۔ اسی سے معلوم ہوا کہ قادیانی نبی نہیں تھا کیونکہ وہ انتہا درجے کا ڈرپوک تھا، ساری زندگی اسی ڈر سے حج کو نہ گیا اور جہاں جانے سے اسے نقصان پہنچنے کا خوف ہوتا تھا وہاں نہ جاتا تھا۔

(2)… لوگوں کی ایذاء کی وجہ سے تبلیغ سے کنارہ کشی نہیں کرنی چاہیے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تکالیف برداشت کرنے کے باوجود ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ فرمائی۔

(3)… تبلیغِ دین کیلئے جرأت اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، بُزدل اور ڈرپوک آدمی تبلیغ کا حق ادا نہیں کرسکتا۔

(4)…انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاءِ عِظام اور صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے سچے واقعات پڑھنا سننا عبادت ہے۔ اس لئے آیات ِ قرآنیہ کے ذریعے اور سیرت و واقعات کی کتابوں کے ذریعے بزرگانِ دین کی سیرت سے واقفیت حاصل کرتے رہنا چاہیے۔

(5)…یہ بھی معلوم ہوا کہ تاریخ کا علم بھی بہت عمدہ ہے کہ اس میں عبرت پوشیدہ ہوتی ہے البتہ تاریخ وہی پڑھی جائے جو حقائق پر مبنی ہو۔ آج کل ظالموں کو عادل، مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کو مجاہد اور اُمت کو تباہ کرنے والوں کو امت کا مُصلِح و مُحسن بنا کر پیش کرنا عام ہے۔ ایسی تاریخ سے دور رہنا ہی مناسب ہے۔

10:72
فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَمَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍؕ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِۙ-وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(۷۲)
پھر اگر تم منہ پھیرو (ف۱۶۳) تو میں تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا (ف۱۶۴) میرا اجر تو نہیں مگر اللہ پر (ف۱۶۵) اور مجھے حکم ہے کہ میں مسلمانوں سے ہوں،

{فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ:پھر اگر تم منہ پھیرو۔} یعنی اگر تم میرے وعظ و نصیحت سے اِعراض کرو تو میں نے تم سے وعظ و نصیحت پر کوئی مُعاوضہ نہیں مانگا کہ تمہارے منہ پھیرنے کی وجہ سے  مجھے اس کے نہ ملنے کا افسوس ہو، میرا اجر تو اللہ عَزَّوَجَلَّکے ذمۂ کرم پر ہے وہی مجھے جزا دے گا ۔مدعا یہ ہے کہ میرا وعظ و نصیحت خاص اللہ عَزَّوَجَلَّکے لئے ہے، کسی دنیوی غرض سے نہیں ہے۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۴۸۰)

تبلیغِ دین پر اُجرت نہ لی جائے:

            اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تبلیغِ دین پر اُجرت نہ لی جائے، ہاں امامت وخطابت ، تدریس اور تعلیمِ قرآن وغیرہ میں جہاں شریعت کی طرف سے اجازت ہے وہ جدا بات ہے لیکن اس میں بھی ممکن ہو تو بغیر پیسے ہی کے کام کرے۔

{وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ: اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم دینِ اسلام قبول کرو یا نہ کرو مجھے دینِ اسلام پر قائم رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور میں اس پر قائم ہوں۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ دینِ اسلام کی دعوت دینے کی بنا پر مجھے تمہاری طرف سے خواہ کیسی ہی اَذیت پہنچے ہر حال میں مجھے اللہ تعالیٰ کے حکم کا فرمانبرداررہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۳۲۶)

10:73
فَكَذَّبُوْهُ فَنَجَّیْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ فِی الْفُلْكِ وَ جَعَلْنٰهُمْ خَلٰٓىٕفَ وَ اَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۚ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِیْنَ(۷۳)
تو انہوں نے اسے (ف۱۶۶) جھٹلایا تو ہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے ان کو نجات دی اور انہیں ہم نے نائب کیا (ف۱۶۷) اور جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں ان کو ہم نے ڈبو دیا تو دیکھو ڈرائے ہوؤں کا انجام کیسا ہوا،

{فَكَذَّبُوْهُ:تو انہوں نے نوح کو جھٹلایا ۔} اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان کی قوم کے درمیان ہونے والے معاملات کا بیان فرمایا اور اس آیت میں ان معاملات کا انجام بیان فرمایا ہے۔اس آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے اصحاب کے بارے میں دو چیزیں بیان ہوئیں :

(1)…اللہ تعالیٰ نے انہیں کفار سے نجات دی۔

(2)…کفار کو غرق کرنے کے بعد حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ساتھیوں کو زمین میں ان کا جانشین بنایا۔ کفار کے بارے میں فرمایا گیا کہ انہیں غرق کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ اس میں کفار کے لئے بہت عبرت ہے کہ جو لوگ بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول کو جھٹلائیں گے ان پر ویسا عذاب آ سکتا ہے جیسا حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو جھٹلانے والوں پر آیا ، وہیں ایمان والوں کے لئے بھی نصیحت ہے کہ وہ ایمان پر ثابت قدم رہیں تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والوں کو مخالفین کے شر سے نجات دی اسی طرح انہیں بھی مخالفین کے شر سے بچائے گا۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۷۳، ۶ / ۲۸۶)

            نوٹ: حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم کے چند واقعات سورۂ اَعراف آیت 59تا64 میں گزر چکے ہیں ، مزید تفصیلی واقعات سورۂ ہود اور دیگر سورتوں میں مذکور ہیں۔

 

10:74
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ فَجَآءُوْهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُؕ-كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ(۷۴)
پھر اس کے بعد اور رسول (ف۱۶۸) ہم نے ان کی قوموں کی طرف بھیجے تو وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لائے تو وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے اس پر جسے پہلے جھٹلا چکے تھے، ہم یونہی مہر لگادیتے ہیں سرکشوں کے دلوں پر،

{ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ:پھر اس کے بعد ہم نے ان کی قوموں کی طرف کئی رسول بھیجے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نو ح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دور میں صر ف مو من باقی رہ گئے تھے اور کافر سب ہلا ک ہو گئے تھے مگر ان باقی ماند گان کی اولاد میں جب کفر و شرک پھیل گیا تو ان میں حضرت صالح، حضرت ہود، حضرت ابراہیم ،حضرت لوط اور حضرت شعیب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے اپنے و قتوں میں بھیجے گئے ۔ان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے ان کی صداقت پر دلالت کرنے والے واضح دلائل اور عظیم معجزات دے کر بھیجا لیکن ان کی قوم کے لوگوں نے بھی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرح اپنے نبیوں کی تکذیب کی اور ان پر ایمان لانے کے لئے تیار نہ ہوئے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم کو تکذیب کی وجہ سے غرق کر دیا اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کے دل پر مہر لگا دیتا ہے جو سرکش ہو اور تکذیب میں ان کی راہ اختیار کرے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۳۲۶، ملخصاً) اس سے معلوم ہوا کہ بروں کی پیروی بری ہے اور ان کی راہ پر چلنے کا انجام بھی برا ہے۔

10:75
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَ هٰرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۷۵)
پھر ان کے بعد ہم نے موسٰی اور ہارون کو فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف اپنی نشانیاں دے کر بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے،

{ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَ هٰرُوْنَ:پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو بھیجا۔} یہاں دیگر انبیاءِ کرام ، حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان کرنے سے مقصود نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا ہے۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۸۸۶)

          نوٹ: ان آیات میں مذکور واقعہ اور دیگر واقعات سورۂ اَعراف آیت103تا 156 میں گزر چکے ہیں۔

10:76
فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْۤا اِنَّ هٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۷۶)
تو جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا (ف۱۶۹) بولے یہ تو ضرور کھلا جادو ہے،

{فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ:تو جب ان کے پاس حق آیا۔} یعنی جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واسطے سے فرعون اورا س کی قوم کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق آیااور فرعونیوں نے پہچان لیا کہ یہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو براہ ِنَفسانیت  کہنے لگے کہ بیشک یہ کھلا جادو ہے حالانکہ انہیں علم تھا کہ جادو کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷۶، ۲ / ۳۲۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۴۸۱، ملتقطاً)

حق معلوم ہونے کے بعد قبول نہ کرنا فرعونیوں کا طریقہ ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ حق بات معلوم ہوجانے کے بعد نفسانیت کی وجہ سے اسے قبول نہ کرنا اور اس کے بارے میں ایسی باتیں کرنا جو دوسروں کے دلوں میں حق بات کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر دیں فرعونیوں کا طریقہ ہے، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو حق جان لینے کے باوجود صرف اپنی ضد اور اَنا کی وجہ سے اسے قبول نہیں کرتے اور اس کے بارے میں دوسرو ں سے ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے یوں لگتا ہے کہ ان کا عمل درست ہے اور حق بیان کرنے والا اپنی بات میں سچا نہیں ہے۔

سورہِ یونس کی آیت نمبر78سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔

(1)… پیغمبر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بدگمانی کفر ہے۔ فرعونیوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے متعلق یہ بد گمانی کی کہ آپ مصر کی بادشاہت چاہتے ہیں اور بادشاہت حاصل کرنے کے لئے نبوت کا بہانہ بنا رہے ہیں۔

(2)… حکمرانوں کی پرانی روِش یہی چلتی آرہی ہے کہ اصلاح قبول کرنے کی بجائے وہ سمجھانے والے پر جھوٹے الزام لگا کر اور اسے اِقتدار کا لالچی قرار دے کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج بھی اس بات کو دیکھا جاسکتا ہے کہ غلط اندازِ حکمرانی پر ٹوکا جائے تو حکمران کہنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ لوگ ہماری حکومت ختم کرکے اپنی حکومت لانا چاہتے ہیں۔

10:77
قَالَ مُوْسٰۤى اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَكُمْؕ-اَسِحْرٌ هٰذَاؕ-وَ لَا یُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَ(۷۷)
موسیٰ نے کہا کیا حق کی نسبت ایسا کہتے ہو جب وہ تمہارے پاس آیا کیا یہ جادو ہے (ف۱۷۰) اور جادوگر مراد کو نہیں پہنچتے،

10:78
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا وَ تَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِؕ-وَ مَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ(۷۸)
بولے (ف۱۷۱) کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس (ف۱۷۲) سے پھیردو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا اور زمین میں تمہیں دونوں کی بڑائی رہے، اور ہم تم پر ایمان لانے کے نہیں،

10:79
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِیْ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ(۷۹)
اور فرعون (ف۱۷۳) بولا ہر جادوگر علم والے کو میرے پاس لے آؤ،

{وَ قَالَ فِرْعَوْنُ:اور فرعو ن نے کہا۔} سرکش ومتکبر فرعون نے چاہا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزہ کا مقابلہ باطل سے کرے اور دنیا کو اس مُغالطہ میں ڈالے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزاتمَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ جادو کی قسم سے ہیں اس لئے وہ بولا :حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے مقابلہ کیلئے ہر علم والے جادوگر کو میرے پاس لے آؤ۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷۹، ۲ / ۳۲۷)

{فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ:پھر جب جادوگر آگئے۔} جب جادوگر آگئے توان سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: جادو کی جوچیزیں رسّے شہتیر وغیرہ تم ڈالنے والے ہو میرے سامنے ڈال دو اور جو تمہیں جادو کرنا ہے کرو ۔ یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس لئے فرمایا کہ حق و باطل ظاہر ہوجائے اور جادو کے کرشمے جو وہ کرنے والے ہیں ان کا فساد واضح ہو۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۰، ۲ / ۳۲۷)

{ فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا:پھر جب انہوں نے ڈال دیا۔} پھر جب انہوں نے اپنے پاس موجود رسیاں اور شہتیر ڈال دیئے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا: جو تم لائے ہو یہ جادو ہے نہ کہ وہ آیاتِ الہٰیہ جن کو فرعون نے اپنی بے ایمانی سے جادو بتایا۔ بیشک اب اللہ تعالیٰ اسے باطل کردے گا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ فساد والوں کے کام کو نہیں سنوارتا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۱، ۲ / ۳۲۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۴۸۲، ملتقطاً)

{وَ یُحِقُّ اللّٰهُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ:اور اللہ اپنے کلمات کے ذریعے حق کو حق کر دکھاتا ہے۔} یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّاپنے حکم ، اپنی قضاء و قدر اور اپنے اس وعدے سے حق کو حق کر دکھاتا ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو جادو گروں پر غالب کرے گا اگرچہ مجرموں کو ناگوار ہو۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸۲، ۲ / ۳۲۷)

10:80
فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰۤى اَلْقُوْا مَاۤ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ(۸۰)
پھر جب جادوگر آئے ان سے موسیٰ نے کہا ڈالو جو تمہیں ڈالنا ہے (ف۱۷۴)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

يُوْنُس
يُوْنُس
  00:00



Download

يُوْنُس
يُوْنُس
  00:00



Download