Surah Saad
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{ صٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے، اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{وَ الْقُرْاٰنِ ذِی الذِّكْرِ: اس نامور قرآن کی قسم۔} اس آیت میں مذکور لفظ ’’اَلذِّكْرِ‘‘ کا ایک معنی ہے عظمت، نامْوَری اور دوسرا معنی ہے نصیحت۔پہلے معنی کے اعتبار سے اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کی تفسیر یہ ہے کہ نامْوَر قرآن جو شرف والا اور اپنی مثل کلام لانے سے عاجز کر دینے والاہے ،اس قرآن کی قسم! کافر اس کا یقین کرنے اور حق کا اعتراف کرنے سے تکبر کرتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ اورا س کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت کرنے میں مصروف ہیں ۔ دوسرے معنی کے اعتبار سے اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کی تفسیر یہ ہے کہ اس نصیحت والے قرآن کی قسم جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ جس طرح کفار مُتَعَدّد خدا مانتے ہیں در حقیقت ویسا ہے نہیں ، بلکہ کافر تکبُّر اور مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں اور نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عداوت رکھتے ہیں اس لئے حق کا اعتراف نہیں کرتے۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱-۲، ص۱۰۱۴، تفسیر طبری، ص، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۱۰ / ۵۴۴-۵۴۵، جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۱-۲، ص۳۸۰، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۴ / ۳۰، ملتقطاً)
{كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَرْنٍ: ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کردیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اسی تکبر اور انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کے باعث ہم نے آپ کی قوم سے پہلے کتنی امتیں ہلاک کردیں اور جب ان پر عذاب نازل ہونے کا وقت آیا تو انہوں نے فریاد کی اور توبہ و اِستغفار کرنے لگے تاکہ اس عذاب سے نجات پا جائیں حالانکہ اس وقت بھاگنے اور عذاب سے نجات پانے کا وقت نہ تھا اور اس وقت ان کی فریاد بیکار تھی کیونکہ وہ وقت مایوس ہوجانے کا تھا ،لیکن کفارِ مکہ نے اُن کے حال سے عبرت حاصل نہ کی۔( جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۳، ص۳۸۰، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۳، ۸ / ۳، ملتقطاً)
{وَ عَجِبُوْا: اور انہیں تعجب ہوا۔} یعنی کفارِ مکہ کو اس بات پر تعجب ہوا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ظاہری خِلقَت، باطنی اَخلاق،نسب اور شکل و صورت میں تو ہم جیسے انسان ہیں ،پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے صرف وہ رسالت جیسے بلند منصب کے حق دار ٹھہریں اور جب کفارتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان دیکھ کر حیران رہ گئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو (مَعَاذَ اللہ) جادوگر اور جھوٹا کہنے لگے ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۴، ۸ / ۴)
{اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا: کیا اس نے بہت سارے خداؤں کو ایک خدا کردیا؟} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اسلام لائے تو مسلمانوں کو خوشی ہوئی اور کافروں کو انتہائی رنج ہوا، ولید بن مغیرہ نے قریش کے پچیس سرداروں اور بڑے آدمیوں کو جمع کیا اور انہیں ابو طالب کے پاس لایا ۔ اُن سے کہا کہ تم ہمارے سردار اور بزرگ ہو، ہم تمہارے پا س اس لئے آئے ہیں کہ تم ہمارے اور اپنے بھتیجے کے درمیان فیصلہ کردو، ان کی جماعت کے چھوٹے درجے کے لوگوں نے جو شورش برپا کررکھی ہے وہ تم جانتے ہو۔ ابوطالب نے حضور سیّد ِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بلا کر عرض کی’’ یہ آپ کی قوم کے لوگ ہیں اور آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں ،آپ اُن کی طرف سے یک لَخت اِنحراف نہ کیجئے۔حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’یہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟ اُنہوں نے کہا : ہم اتنا چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں اور ہمارے معبودوں کے ذکر کوچھوڑ دیجئے، ہم آپ کے اور آپ کے معبود کو برا نہیں کہیں گے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ کیا تم ایک کلمہ قبول کرسکتے ہو جس سے عرب و عجم کے مالک و فرمانْرَوا ہوجاؤ۔ ابوجہل نے کہا : ایک کیا، ہم ایسے دس کلمے قبول کرسکتے ہیں ۔سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’کہو ’’لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ اس پر وہ لوگ اُٹھ گئے اور کہنے لگے کہ کیا انہوں نے بہت سے خداؤں کا ایک خدا کردیا ،اتنی بہت سی مخلوق کے لئے ایک خدا کیسے کافی ہوسکتا ہے،بیشک یہ ضروربڑی عجیب بات ہے کیونکہ آج تک ہمارے آباؤاَجداد جس چیز پر متفق رہے یہ اس کے خلاف ہے۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۰، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۵، ۸ / ۵، ملتقطاً)
{وَ انْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْهُمْ: اور ان میں سے جو سردارتھے وہ چل پڑے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا جواب سن کر کفار ِقریش کے سردار ابوطالب کی مجلس سے آپس میں یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ اے لوگو!تم بھی یہاں سے چلے جاؤ اور اپنے معبودوں کی عبادت کرنے پر ڈٹے رہو اور یہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو توحید کی بات کررہے ہیں اس میں ان کی کوئی ذاتی غرض پوشیدہ ہے اور یہ بات تو ہم نے پچھلے دین یعنی اپنے آباؤ اَجداد کے دین میں یا سب سے پچھلے دین، دینِ عیسائیّت میں بھی نہیں سنی ،کیونکہ عیسائی بھی تین خداؤں کے قائل تھے جبکہ یہ تو ایک ہی خدا بتاتے ہیں ، یہ صرف ان کی خود سے بنائی ہوئی جھوٹی بات ہے۔
{ءَاُنْزِلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ مِنْۢ بَیْنِنَا: کیا ہمارے درمیان ان پر قرآن اتارا گیا؟} اہلِ مکہ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے منصبِ نبوت پر حسد کرتے ہوئے کہا کہ ہم میں شرف و عزت والے آدمی موجود تھے، اُن میں سے تو کسی پر قرآن نہیں اُترا ،خاص حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہی کیوں اترا حالانکہ وہ ہم سے بڑے اور ہم سے زیادہ عزت والے نہیں ۔ کفار کی ا س بات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان کا یہ کہنااس وجہ سے نہیں کہ اگر رسول ان کا کوئی شرف و عزت والا آدمی ہوتا تو یہ اس کی پیروی کر لیتے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ لوگ میری کتاب کے بارے شک میں ہیں کیونکہ وہ اسے لانے والے حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کرتے ہیں اور یہ تکذیب بھی اس وجہ سے نہیں کہ ان کے پاس کوئی دلیل ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ابھی تک انہوں نے میرا عذاب نہیں چکھا،اگر میرا عذاب چکھ لیتے تو یہ شک ، تکذیب اور حسد کچھ باقی نہ رہتا اور وہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تصدیق کرتے لیکن اس وقت کی تصدیق ان کے لئے مفید نہ ہوتی۔( جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۸، ص۳۸۰، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۰۱۵، ملتقطاً)
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت سے دوری کی بنیادی وجہ:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ کفارِ مکہ کے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اور فرمانبرداری نہ کرنے کی ایک وجہ دُنْیَوی عزت،وجاہت، شرافت اور مال دولت کی وسعت تھی،اور فی زمانہ بعض مسلمانوں کے اندر بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری سے دوری کی بنیادی وجہ مالی وسعت اور دُنْیَوی عیش و عشرت کے سامان کی کثرت نظر آتی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں قبر و آخرت کے عذاب سے ڈرنے اور اپنی اطاعت و عبادت کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
{اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىٕنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ: کیا وہ تمہارے رب کی رحمت کے خزانچی ہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو کفار آپ کی نبوت پر اعتراض کر رہے ہیں ، کیا وہ آپ کے رب کی رحمت کے خزانچی ہیں اور کیا نبوت کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہیں کہ جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں ،وہ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں ، اللہ تعالیٰ اور اس کی مالکِیّت کو نہیں جانتے ،وہ عزت والا بہت عطا فرمانے والا ہے،وہ اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق جسے جو چاہے عطا فرمائے اور اس نے اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبوت عطا فرمائی تو کسی کو اس میں دخل دینے اورچوں چِرا کرنے کی کیا مجال ہے۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۰۱۵، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبوت اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ ہے،وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس سعادت سے مشرف فرما دے، لیکن یہ یاد رہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے بعد اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نبوت کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا‘‘(احزاب:۴۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔
اور حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ عنقریب میری امت میں تیس کذّاب ہوں گے، ان میں سے ہرایک کا یہ دعویٰ ہوگاکہ وہ نبی ہے حالانکہ میں سب سے آخری نبی ہوں اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں ہے ۔( سنن ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، ۴ / ۱۳۲، الحدیث: ۴۲۵۲)
نوٹ:ختمِ نبوت سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے سورہِ اَحزاب کی آیت نمبر40کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
{اَمْ لَهُمْ مُّلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا: یاکیا ان کے لیے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کی سلطنت ہے؟} یعنی جو مشرکین تکبر اورمخالفت میں پڑے ہوئے ہیں کیا ان کے لیے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کی سلطنت ہے؟ اگر ایساہے تو اس صورت میں انہیں چاہیے کہ رسیوں کے ذریعے آسمانوں میں چڑھ جائیں اور ایسا اختیار ان کے پاس ہو تو جسے چاہیں وحی کے ساتھ خاص کریں اور کائنات کاانتظام اپنے ہاتھ میں لے لیں اور جب یہ کچھ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کے کاموں اور اس کے انتظامات میں دخل کیوں دیتے ہیں اور انہیں ایسی بے سرو پا باتیں کرنے کا کیا حق ہے؟(تفسیر طبری، ص، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱۰ / ۵۵۴، جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۳۸۰، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۰۱۵-۱۰۱۶، ملتقطاً)
{جُنْدٌ: یہ ایک ذلیل لشکر ہے۔} کفار کو جواب دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ان سے مدد و نصرت کا وعدہ فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان کفارِ قریش کی جماعت انہیں لشکروں میں سے ایک ہے جو آپ سے پہلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقابلے میں گروہ بن کر آیا کرتے تھے اور ان پر زیادتیاں کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے وہ ہلاک کردیئے گئے اور یہی حال کفارِ قریش کا ہے کہ انہیں بھی شکست ہو گی ۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۳۱، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۰۱۶، ملتقطاً)
حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں’’اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ میں اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مشرکین کی شکست کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:
’’سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ‘‘(قمر:۴۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: عنقریب سب بھگادیئے جائیں گے اور وہ پیٹھ پھیردیں گے۔
اور اس خبر کی صداقت غزوۂ بدر میں ظاہر ہو گئی۔( جمل، ص، تحت الآیۃ: ۱۱، ۶ / ۳۷۳)
{كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ: ان سے پہلے نوح کی قوم جھٹلا چکی ہے۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قلبی تسکین کے لئے پچھلے اَنبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوموں کا ذکر فرمایا ہے۔ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم جنہیں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سینکڑوں سال تبلیغ فرمائی اور عاد جنہیں حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرصۂ دراز تک تبلیغ فرمائی اور میخوں میں گاڑھ کرسزا دینے والا فرعون جو کسی پر غصہ کرتا تھا تو اُسے لِٹا کر اُس کے چاروں ہاتھ پاؤں کھینچ کر چاروں طرف کھونٹوں میں بندھو ا دیتا تھا، پھر اس کو پٹواتا اور اس پر طرح طرح کی سختیاں کرتا تھا،اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ثمود اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور اَیکہ (نامی جنگل) والے جو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم سے تھے،یہ سب کفارِ قریش سے پہلے اپنے رسولوں کوجھٹلا چکے ہیں ،یہی وہ گروہ ہیں جو اَنبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقابلے میں جتھے باندھ کر آئے اورمشرکینِ مکہ انہیں گروہوں میں سے ہیں اوران لوگوں نے جب انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تو ان پر میرا عذاب لازم ہوگیا اور جب پہلے کی طاقتورقومیں عذابِ الٰہی کے سامنے بے بس و لاچار ہوگئیں تواب کے کمزور کافر لوگوں پر جب میرا عذاب نازل ہو گا تو ان کا کیا حال ہو گا۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۴، ۸ / ۹-۱۰، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۴، ۴ / ۳۱-۳۲، ملتقطاً)
{وَ مَا یَنْظُرُ هٰۤؤُلَآءِ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً: اوریہ ایک چیخ کا ہی انتظار کررہے ہیں ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کے عذابات کا ذکر فرمایا اور یہاں سے کفار ِقریش کے عذاب کا ذکر فرما رہا ہے،چنانچہ اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ سابقہ ہلاک شدہ امتوں کی طرح کفر و تکذیب میں مبتلا کفارِقریش قیامت کے پہلے نَفخہ کی چیخ کا ہی انتظار کر رہے ہیں جو اُن کے عذاب کی مقررہ مدت ہے اور وہ چیخ ایسی ہے جسے کوئی پھیر نہیں سکتا۔( ابو سعود ، ص ، تحت الآیۃ : ۱۵، ۴ / ۴۳۱ ، خازن ، ص ، تحت الآیۃ : ۱۵ ، ۴ / ۳۲ ، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۰۱۶، ملتقطاً)
{وَ قَالُوْا: اورانہوں نے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ نضر بن حارث نے مذاق اڑانے کے طور پر کہا’’اے ہمارے رب!جہنم کے عذاب کا ہمارا حصہ ہمیں حساب کے دن سے پہلے دنیا میں ہی جلد دیدے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ ان کفار کی باتوں پر صبر کریں اور ان کی اَذِیَّتوں کو برداشت کریں ۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہمارے نعمتوں والے بندے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یاد کریں بیشک وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہر حال میں رجوع کرنے والا ہے ۔ایک برگزیدہ نبی کو یاد کرنے کاحکم دینے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر دل مضبوط ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے مقبول و محبوب بندوں کو اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے، لہٰذااگر حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی طرف سے ایذاء پہنچ رہی ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ فضلِ الٰہی ان سب غموں کو دھودے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’ ذَا الْاَیْدِ‘‘سے مراد یہ ہے کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عبادت میں بہت قوت والے تھے۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ۴ / ۳۲، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ص۱۰۱۶-۱۰۱۷، ملتقطاً)
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عبادت کا حال:
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عبادت کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے (نفلی) روزے سب روزوں سے پسند ہیں ، (ان کا طریقہ یہ تھا کہ) وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی (نفل) نماز سب نمازوں سے پسند ہے،وہ آدھی رات تک سوتے،تہائی رات عبادت کرتے ،پھر باقی چھٹا حصہ سوتے تھے۔( بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب احبّ الصلاۃ الی اللّٰہ صلاۃ داود۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۴۸، الحدیث: ۳۴۲۰)
اور بعض اوقات اس طرح کرتے کہ ایک دن روزہ رکھتے ایک دن افطار فرماتے اور رات کے پہلے نصف حصہ میں عبادت کرتے اس کے بعد رات کی ایک تہائی آرام فرماتے پھر باقی چھٹا حصہ عبادت میں گزارتے۔( جلالین مع جمل، ص، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۳۷۵)
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادت کا حال:
یہاں حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عبادت کا حال بیان ہوا،اسی مناسبت سے یہاں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادت میں سے نماز اور روزہ کا حال بھی ملاحظہ ہو، چنانچہ علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غارِ حرا میں قیام و مُراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر خدا عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے، نزولِ وحی کے بعد ہی آپ کو نماز کا طریقہ بھی بتا دیا گیا، پھر شب ِمعراج میں نمازِ پنجگانہ فرض ہوئی۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نمازِ پنجگانہ کے علاوہ نمازِ اِشراق، نماز ِچاشت،تَحِیَّۃُ الوضوئ، تَحِیَّۃُ المسجد، صلوٰۃُ الاَوَّابین وغیرہ سُنن و نوافل بھی ادا فرماتے تھے۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ تمام عمر نمازِ تہجد کے پابند رہے، راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روایات ہیں ۔ بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نمازِ عشاء کے بعد کچھ دیر سوتے ،پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے، پھر اٹھ کر نماز پڑھتے۔ غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نمازوں میں مشغول رہتے۔کبھی نصف رات گزر جانے کے بعد بسترسے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پر پیٹھ نہیں لگاتے تھے اور لمبی لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے ،کبھی رکوع و سجود طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا۔ کبھی چھ رکعت،کبھی آٹھ رکعت ،کبھی اس سے کم کبھی اس سے زیادہ۔ اخیر عمر شریف میں کچھ رکعتیں کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کر ادا فرماتے، نمازِ وتر نمازِ تہجد کے ساتھ ادا فرماتے، رمضان شریف خصوصاً آخری عشرہ میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مُطَہّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر والوں کو نمازوں کے لئے جگایا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرماتے تھے۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر، کبھی بیٹھ کر، کبھی سربسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گِریہ و بُکا کے ساتھ گِڑگڑا گڑگڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے، رمضان شریف میں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دور بھی فرماتے اور تلاوتِ قرآنِ مجید کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مختلف دعاؤں کا ورد بھی فرماتے تھے اور کبھی کبھی ساری رات نمازوں اور دعاؤں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ پائے اَقدس میں ورم آ جایا کرتا تھا۔
رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی قریب قریب مہینہ بھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ روزہ دار ہی رہتے تھے۔ سال کے باقی مہینوں میں بھی یہی کَیفِیَّت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے ،پھر ترک فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ خاص کر ہر مہینے میں تین دن اَیّامِ بِیض کے روزے، دو شَنبہ و جمعرات کے روزے، عاشوراء کے روزے، عشرۂ ذُوالحجہ کے روزے، شوال کے چھ روزے معمولاً رکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ’’صَومِ وصال‘‘ بھی رکھتے تھے، یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ، مگر اپنی امت کو ایسا روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے، بعض صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کیا کہ یا رسولَ اللہ ! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) آپ تو صومِ وصال رکھتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا کہ تم میں مجھ جیسا کون ہے؟ میں اپنے رب کے دربار میں رات بسر کرتا ہوں اور وہ مجھ کو کھلاتا اور پلاتا ہے(بخاری، کتاب التمنی، باب ما یجوز من اللّو، ۴ / ۴۸۸، الحدیث: ۷۲۴۲)۔( سیرت مصطفٰی، شمائل وخصائل، نماز، روزہ، ص۵۹۵-۵۹۷)
ویسے تو ہر انسان اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے لیکن تعریف کے قابل وہ بندہ ہے جس کے بارے میںاللہ تعالیٰ خود فرما دے کہ یہ ہمارا بندہ ہے،اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا بندہ فرمایا اور یہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عظمت و شرافت اور فضیلت کی بہت بڑی دلیل ہے، یونہی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوقرآنِ پاک میں کئی مقامات پر اپنا بندہ فرمایا،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ‘‘(انفال:۴۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر تم اللہ پر اور اس پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے خاص بندے پر فیصلہ کے دن اتارا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا‘‘(الکھف:۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی۔
اور ارشاد فرمایا
’’سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا‘‘(بنی اسرائیل:۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔ اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فضیلت کا کمال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنا بندہ فرماتا ہے اور اپنے بارے میں فرماتا ہے کہ میں ان کا رب ہوں ،چنانچہ ارشاد فرمایاکہ
’’فَوَرَبِّكَ لَنَسْــٴَـلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘(حجر:۹۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو تمہارے رب کی قسم !ہم ضرور انسب سے پوچھیں گے۔
{اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ: بیشک ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو تابع کردیا۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تابع کر دیا کہ جب شام اور سورج کے چمکتے وقت حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تسبیح کرتے تو پہاڑ بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مل کر تسبیح کرتے۔ (خازن، ص، تحت الآیۃ: ۱۸، ۴ / ۳۲، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۱۰۱۷، ملتقطاً)
{بِالْعَشِیِّ وَ الْاِشْرَاقِ: شام اور سورج کے چمکتے وقت۔} اس آیت میں اِشراق و چاشْت کی نماز کا ثبوت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا’’کیا تم قرآنِ پاک میں چاشت کی نماز کا ذکر پاتے ہو؟انہوں نے جواب دیا: نہیں ۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: ’’اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِشْرَاقِ‘‘ اور فرمایا کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چاشت کی نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ ایک عرصے سے میرے دل میں چاشت کی نماز کے بارے میں کچھ الجھن تھی یہاں تک کہ میں نے اس کا ذکر اس آیت ’’یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِشْرَاقِ‘‘ میں پا لیا۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۱۸، ۹ / ۳۷۵)
اِشراق و چاشت کی نماز کے فضائل:
آیت کی مناسبت سے یہاں اِشراق و چاشت کی نماز ادا کرنے کے دو فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی ،پھر وہ سورج طلوع ہونے تک بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہا،پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی تو اسے حج اور عمرے کا پورا پورا ثواب ملے گا۔( ترمذی،کتاب السفر،باب ذکر ما یستحبّ من الجلوس فی المسجد بعد صلاۃ الصبح۔۔۔الخ،۲ / ۱۰۰،الحدیث:۵۸۵)
(2)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے چاشت کی نماز کی بار ہ رکعتیں پڑھیں ، اس کے لئے اللہ تعالیٰ جنت میں سونے کا محل بنا دے گا۔( ترمذی، کتاب الوتر، باب ما جاء فی صلاۃ الضحی، ۲ / ۱۷، الحدیث: ۴۷۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اِشراق اور چاشت کی نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ الطَّیْرَ مَحْشُوْرَةً: اور جمع کئے ہوئے پرندے۔} یعنی ہر جانب سے جمع کئے ہوئے پرندے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تابع کردئیے،پہاڑ اور پرندے سبھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرمانبردار تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جب حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تسبیح کرتے تو پہاڑ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ تسبیح کرتے اور پرندے بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس جمع ہو کر تسبیح کرتے۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۱۰۱۷)
{وَ شَدَدْنَا مُلْكَهٗ: اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کیا۔} یعنی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے وہ اَسباب و ذرائع عطا فرمائے جن کے ذریعے سلطنت مضبوط ہوتی ہے خواہ وہ لشکر کی صورت میں ہو یا ذاتی عظمت و ہیبت کی صورت میں ہو۔
{وَ اٰتَیْنٰهُ الْحِكْمَةَ وَ فَصْلَ الْخِطَابِ: اور اسے حکمت اور حق و باطل میں فرق کردینے والا علم عطا فرمایا۔} اس آیت میں حکمت سے مراد نبوت ہے اوربعض مفسرین نے حکمت سے عدل کرنا مراد لیا ہے جبکہ بعض نے اس سے کتابُ اللہ کا علم ،بعض نے فقہ اور بعض نے سنت مراد لی ہے۔اور قولِ فیصل سے قضا کا علم مراد ہے جوحق و باطل میں فرق وتمیز کردے۔(جمل، ص، تحت الآیۃ: ۲۰، ۶ / ۳۷۷، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۱۰۱۷، ملتقطاً)
{وَ هَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِۘ: اور کیا تمہارے پاس ان دعویداروں کی خبر آئی۔} مشہور قول کے مطابق یہ آنے والے فرشتے تھے جو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آزمائش کے لئے آئے تھے،اور انہوں نے جو یہ کہا ’’ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے‘‘اس کے بارے میں صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ ان کا یہ قول ایک مسئلہ کی فرضی شکل پیش کرکے جواب حاصل کرنا تھا اور کسی مسئلہ کے متعلق حکم معلوم کرنے کے لئے فرضی صورتیں مقرر کرلی جاتی ہیں اور مُعَیَّن اَشخاص کی طرف ان کی نسبت کردی جاتی ہے تاکہ مسئلہ کا بیان بہت واضح طریقہ پر ہواور اِبہام باقی نہ رہے۔ یہاں جو صورتِ مسئلہ ان فرشتوں نے پیش کی اس سے مقصود حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام کو توجہ دلانا تھی اس امر کی طرف جو انہیں پیش آیا تھا اور وہ یہ تھا کہ آپ کی ننانوے بیبیاں تھیں ، اس کے بعد آپ نے ایک اور عورت کو پیام دے دیا جس کو ایک مسلمان پہلے سے پیام دے چکا تھا لیکن آپ کا پیام پہنچنے کے بعد عورت کے اَعِزّہ واَقارب دوسرے کی طرف اِلتفات کرنے والے کب تھے ،آپ کے لئے راضی ہوگئے اور آپ سے نکاح ہوگیا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس مسلمان کے ساتھ نکاح ہوچکا تھا آپ نے اس مسلمان سے اپنی رغبت کا اظہار کیا اور چاہا کہ وہ اپنی عورت کو طلاق دے دے، وہ آپ کے لحاظ سے منع نہ کرسکا اور اس نے طلاق دے دی ،آپ کا نکاح ہوگیا اور اس زمانہ میں ایسا معمول تھا کہ اگر کسی شخص کو کسی کی عورت کی طرف رغبت ہوتی تو اس سے اِستدعا کرکے طلاق دلوا لیتا اوربعد ِعدت نکاح کرلیتا ،یہ بات نہ تو شرعاً ناجائز ہے نہ اس زمانہ کے رسم وعادت کے خلاف ،لیکن شانِ انبیاء بہت ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے اس لئے یہ آپ کے مَنصبِ عالی کے لائق نہ تھا تو مرضی ٔالٰہی یہ ہوئی کہ آپ کو اس پر آگاہ کیا جائے اور اس کا سبب یہ پیدا کیا کہ ملائکہ مدعی (یعنی دعویٰ کرنے والے) اور مدعا علیہ (یعنی جس کے خلاف دعویٰ کیا جائے) کی شکل میں آپ کے سامنے پیش ہوئے۔( خزائن العرفان، ص، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۸۴۰)
بزرگوں سے خلافِ شان واقع ہونے والے کام کی اصلاح کا طریقہـ:
اس سے معلوم ہوا کہ اگر بزرگوں سے کوئی لغزش صادر ہواور کوئی امر خلافِ شان واقع ہوجائے تو ادب یہ ہے کہ مُعتَرِضانہ زبان نہ کھولی جائے بلکہ اس واقعہ کی مثل ایک و اقعہ مُتَصَوَّر کرکے اس کی نسبت سائلانہ و مُستفتیانہ و مُستفیدانہ سوال کیا جائے اور ان کی عظمت و احترام کا لحاظ رکھا جائے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ مالک ومولیٰ اپنے اَنبیاء کی ایسی عزت فرماتا ہے کہ ان کو کسی بات پرآگا ہ کرنے کے لئے ملائکہ کو اس طریقِ ادب کے ساتھ حاضر ہونے کا حکم دیتا ہے۔(خزائن العرفان، ص، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۸۴۰)
نوٹ:اِس آیت کی تفسیر میں جو بیان ہوا یہی حقیقت ِ حال ہے بقیہ جو اسرائیلی و یہودی روایات میں اس بارے میں بکواسات مروی ہیں وہ سب جھوٹ اور اِفتراء ہیں ۔
طبعی خوف نبوت کے مُنافی نہیں :
یاد رہے کہ دیوار کود کر آنے والوں کو دیکھ کر حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا گھبرانا فطری اور طبعی تھا کیونکہ کسی شخص کا عادت کے برخلاف بے وقت اور پہرہ توڑ کر اس طرح آنا عام طور پر بُری نیت سے ہی ہوتا ہے اورجو خوف اور گھبراہٹ طبعی ہو وہ نبوت کے مُنافی نہیں ہوتی ۔
گفتگو کے آداب کی خلاف ورزی ہونے پر کیاکرنا چاہئے؟
دیوار کود کر آنے والوں نے آتے ہی اپنی بات شروع کر دی اور حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خاموشی کے ساتھ ان کی بات سنتے رہے، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص گفتگو کے آداب کی خلاف ورزی کرے تو اسے فوراً ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی بجائے پہلے اس کی بات سن لینی چاہئے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس کے پاس اس کا کوئی جواز تھا یا نہیں اور اگر جواز نہ بھی ہو تو بھی ممکنہ حد تک صبر ہی کرنا چاہئے جیسا کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا۔رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آدابِ گفتگو کی خلاف ورزی ہونے پر در گرز کرتے اور صبر فرمایا کرتے تھے اور اس سلسلے میں حضرت زید بن سعنہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے ایک مرتبہ انتہائی سخت انداز میں حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کلام کیا لیکن حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نہ صرف خود حِلم ،صبر اور عَفْوو درگزرکا مظاہرہ فرمایا بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو بھی ان کے ساتھ نرمی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔
{قَالَ: داؤد نے فرمایا۔} حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعویٰ سن کر دوسرے فریق سے پوچھا تو اس نے اعتراف کر لیا ،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعویٰ کرنے والے سے فرمایا کہ’’ بیشک تیری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا سوال کرکے اس نے تجھ پر زیادتی کی ہے اور بیشک اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں مگر ایمان والے اور اچھے کام کرنے والے کسی پر زیادتی نہیں کرتے لیکن وہ ہیں بہت تھوڑے۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ گفتگو سن کر فرشتوں میں سے ایک نے دوسرے کی طرف دیکھا اور تَبَسُّم کرکے وہ آسمان کی طرف روانہ ہوگئے۔اب حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے تو صرف انہیں آزمایا تھا اور دنبی ایک کِنایہ تھا جس سے مراد عورت تھی کیونکہ ننانوے عورتیں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ہوتے ہوئے ایک اور عورت کی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خواہش کی تھی اس لئے دنبی کے پیرایہ میں سوال کیا گیا ،جب آپ نے یہ سمجھا تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے معافی مانگی اور سجدے میں گر پڑے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۱۰۱۹، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۳۵، ملتقطاً)
نوٹ: یاد رہے کہ یہ آیت ان آیات میں سے ہے جن کے پڑھنے اور سننے والوں پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہو جاتا ہے۔یہاں ایک مسئلہ یاد رہے کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں رکوع کرنا سجدئہ تلاوت کے قائم مقام ہوجاتا ہے جب کہ رکوع میں اس کی نیت کی جائے۔
اصلاح کرنے کا ایک طریقہ:
اللہ تعالیٰ نے ا س معاملے میں وحی کے ذریعے اپنے پیارے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تربیت فرمانے کی بجائے جو خاص طریقہ اختیار فرمایا اس میں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے والے کے لئے بھی ہدایت کا سامان موجود ہے کہ جب وہ کسی کی اصلاح کرنے لگے تو اس وقت حکمت سے کام لے اور موقع کی مناسبت سے ایسا طریقہ اختیار کرے جس سے سامنے والا اپنی غلطی خود ہی محسوس کر لے ،اسے زبانی تنبیہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور اس کے لئے مثال بیان کرنے کا طریقہ اور کنایہ سے کام لینابہت مُؤثّر ہوتا ہے ،اس میں کسی کی دل آزاری بھی نہیں ہوتی اور اصل مقصود بھی حاصل ہو جاتا ہے۔
{فَغَفَرْنَا لَهٗ ذٰلِكَ: تو ہم نے اسے یہ معاف فرما دیا۔} یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کا مقام و مرتبہ دیگر لوگوں کے مقابلے میں انتہائی بلند ہے اسی وجہ سے بہت سے وہ کا م جو دوسرے لوگوں کے لئے تو رَوا ہوتے ہیں لیکن انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان اور ان کے مقام و مرتبے کے لائق نہیں ہوتے ،اسی لئے جب ان سے کوئی خلافِ شان کام واقع ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ کے ان مقبول بندوں کی تربیت فرما دیتا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہاء درجے کی عاجزی و اِنکساری کرتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ اور ا س کے مقبول بندوں کا معاملہ ہے، وہ جیسے چاہے اپنے مقبول بندوں کی تربیت فرمائے اور یہ جیسے چاہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی و اِنکساری کا اظہار کریں ، عام لوگوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ان کے خلافِ شان کاموں اور ان پر کئے گئے عجز و اِنکسار کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف زبانِ طعن دراز کریں اور ان کی عِصمَت پر اعتراضات کرنا شروع کر دیں ،یہ ایمان کے لئے زہر ِقاتل سے بھی زیادہ خطرناک ہے ،اس سے تمام مسلمانوں کو بچنا چاہئے ۔
{یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ: اے داؤد! بیشک ہم نے تجھے زمین میں (اپنا) نائب کیا۔} حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اس آیت میں ان کی زمینی خلافت کا ذکر فرمایا گیا، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے داؤد! بیشک ہم نے تجھے زمین میں اپنانائب مقرر کیا اور مخلوق کے کاموں کا انتظام کرنے پر آپ کو مامور کیا اور آپ کا حکم ان میں نافذ فرمایاتو لوگوں میں حق کے مطابق فیصلہ کرو اور (نفس کی) خواہش کے پیچھے نہ جانا ورنہ وہ تجھے اللہ تعالیٰ کی راہ سے بہکادے گی، بیشک وہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ سے بہکتے ہیں ان کے لیے اس بنا پرسخت عذاب ہے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے اور وہ اس وجہ سے ایمان سے محروم رہے، اگر انہیں حساب کے دن کا یقین ہوتا تو اس کی تیاری سے اِعراض نہ کرتے اوردنیا ہی میں ایمان لے آتے۔ (تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۲۶، ۹ / ۳۸۶-۳۸۷، جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۳۸۲، ملتقطاً)
آیت ’’یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… حکمران اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے اَحکام کے مطابق ہی چلیں اور اس سے باہر ہر گز نہ جائیں ۔
(2)…اسلامی ریاست کا بنیادی کام حق کو قائم کرنا ہے نیز حکمرانوں پر لازم ہے کہ تنازعات وغیرہ کا حق اور انصاف کے مطابق ہی فیصلہ کریں ۔
{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًا: اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بیکار پیدا نہیں کیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے آسمان وزمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے بیکار پیدا نہیں کیا بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ زمین و آسمان میں ہماری عبادت کی جائے ،ہمارے اَحکامات کی پیروی کی جائے اور ممنوعات سے رکا جائے۔ یہ بیکار پیدا کرنے کا خیال کافروں کا گمان ہے اگرچہ وہ صراحتہً یہ نہ کہیں کہ آسمان و زمین اور تمام دنیا بے کار پیدا کی گئی ہے لیکن جب کہ وہ مرنے کے بعد اٹھائے جانے اور اعمال کی جزا ملنے کے منکر ہیں تو ا س کا نتیجہ یہی ہے کہ عالَم کی ایجاد کو عَبث اور بے فائدہ مانیں اور جب کافروں کا گمان یہ ہے تو ان کے لئے آگ سے خرابی ہے۔( تفسیر طبری ، ص ، تحت الآیۃ : ۲۷، ۱۰ / ۵۷۶، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۱۰۲۰، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۲۷، ۸ / ۲۴، ملتقطاً)
اِس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص صراحتًا کوئی بات نہ کہے لیکن اس کی کسی بات کا لازمی نتیجہ جو نکلتا ہو وہ اس کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے اور اس پر اصل بات کہنے کا ہی حکم لگایا جائے گاجیسے بہت سے لوگ ختمِ نبوت کے قائل ہونے کا نام لیتے ہیں لیکن باتیں ایسی کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ انکار ِ ختمِ نبوت ہے تو انہیں منکرینِ ختمِ نبوت ہی کہا جائے گا۔
{اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ: کیا ہم ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح کردیں گے؟} ارشاد فرمایا کہ کیا ہم ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو زمین میں کفر اور گناہوں کے ذریعے فساد پھیلانے والوں کی طرح کردیں گے؟ یا ہم پرہیزگاروں کو نافرمانوں جیسا کردیں گے؟ہم ہر گز ایسانہیں کریں گے کیونکہ یہ بات حکمت کے بالکل خلاف ہے جبکہ جو شخص جزا کا قائل نہیں وہ ضرورفساد کرنے اور اصلاح کرنے والے کو ، فاسق وفاجر اور متقی پرہیزگار کو برابر قرار دے گا اور ان میں کوئی فرق نہ کرے گا، کفار اس جہالت میں گرفتار ہیں ۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ کفارِ قریش نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ آخرت میں جو نعمتیں تمہیں ملیں گی وہی ہمیں بھی ملیں گی اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ نیک و بد،مومن و کافر کو برابر کردینا حکمت کے تقاضے کے مطابق نہیں کفار کا یہ خیال باطل ہے۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۲۸، ۸ / ۲۴، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۰۲۰، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۳۸، ملتقطاً)
نیک لوگ گناہگاروں جیسے نہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اچھے اعمال کرنے والے برے اعمال کرنے والوں کی طرح نہیں اور نیک لوگ گناہگاروں جیسے نہیں ،اب یہ ہم پر ہے کہ ہم نیکی کا راستہ اختیار کر کے اس کی جزا کے حق دار قرار پاتے ہیں یا برے اعمال کر کے ان کی سزا کے مستحق بنتے ہیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ- وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا‘‘(بنی اسرائیل:۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر تم بھلائی کرو گے تو تم اپنے لئے ہی بہتر کرو گے اور اگر تم برا کرو گے تو تمہاری جانوں کیلئے ہی ہوگا۔
اورحضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس طرح کانٹے سے انگور حاصل نہیں کیے جا سکتے اسی طرح فاسق و فاجر لوگ متقی اور پرہیز گار لوگوں کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکتے ،نیکی اور برائی دو راستے ہیں ،ان میں سے جس راستے کو اختیار کرو گے ا س کے انجام تک پہنچ جاؤ گے۔( ابن عساکر، من سمّی بکنیتہ، حرف المیم، ابو المہاجر، ۶۷ / ۲۶۰)
اورحضرت ابو قلابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’نیکی کبھی پرانی نہیں ہوتی اور گناہ بھلایا نہیں جاتا اور حساب لینے والے خداکو کبھی موت نہیں آئے گی، تم (نیک یا گناہگار) جیسے چاہو بن جاؤ،جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔( کتاب الجامع فی آخر المصنف، باب الاغتیاب والشتم، ۱۰ / ۱۸۹، الحدیث: ۲۰۴۳۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں برے اعمال سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ: ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف قرآنِ پاک ناز ل کیا ہے جس میں ان لوگوں کے لئے دُنْیَوی اور اُخروی کثیر مَنافع ہیں جو اس پر ایمان لائیں اور انہوں نے ا س کے احکامات،حقائق اور اشارات پر عمل کیا۔ہم نے قرآنِ پاک کو اس لئے نازل کیاہے تاکہ (علم رکھنے والے) لوگ اس کی آیتوں کے معانی میں غور وفکر کریں اور ان کی تاویلات جان جائیں اور عقلمنداس سے نصیحت حاصل کریں ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۲۹، ۸ / ۲۵)
قرآنِ پاک کی آیات سے دینی اَحکام نکالنا ہر ایک کاکام نہیں :
قرآنِ پاک کی آیات سے نصیحت تو ہر ایک حاصل کرسکتا ہے لیکن اس سے دینی اَحکام نکالنااور اس کی باریکیوں تک رسائی حاصل کرنا ہر ایک کاکام نہیں بلکہ صرف ان کا کام ہے جو اعلیٰ درجے کی دینی عقل رکھتے ہیں یعنی ماہرعلماء اور خاص طور پر مُجتہدین ا س منصب کے اہل ہیں ، عوام کو چاہیے کہ قرآنِ پاک سے دینی مسائل نکالنے کی بجائے علماء سے مسائل سیکھیں تاکہ غلطیوں سے بچ سکیں ،اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فقط قرآنِ پاک کی عربی عبارت کو پڑھ لینا نزولِ قرآن کے مقصد کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں بلکہ ا س کی آیات کے معنی اور ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے تاکہ اس کی آیتوں میں غورو فکر کرنا،اس میں بیان کی گئی عبرت انگیز باتوں سے نصیحت حاصل کرنا اور اس میں بتائے گئے اَحکامات پر عمل کرنا ممکن ہو ،جبکہ فی زمانہ صورتِ حال یہ ہے کہ قرآنِ پاک سمجھنا اور اس میں غوروفکر کرنا تو بہت دور کی بات ہے یہاں تو قرآن پاک گھروں میں ہفتوں بلکہ مہینوں صرف جُزدان اورالماریوں کی زینت نظر آتا ہے اور اس کا خیال آجانے پر اس سے چمٹی ہو ئی گرد صاف کر کے دوبارہ اسی مقام پر رکھ دیا جاتا ہے اور اگر کبھی ا س کی تلاوت کی توفیق نصیب ہو جائے تو اس کے تَلَفُّظ کی ادائیگی کاحال بہت برا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حالِ زار پر رحم فرمائے اور قرآنِ پاک صحیح طریقے سے پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
{وَ وَهَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمٰنَ: اور ہم نے داؤد کوسلیمان عطا فرمایا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو فرزند ِاَرْجْمند حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عطا فرمایا،سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیسا اچھا بندہ ہے ،بیشک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بہت رجوع کرنے والا اور تمام اوقات تسبیح و ذکر میں مشغول رہنے والا ہے۔( جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۳۸۲، ملخصاً) اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیک بیٹا اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے ۔
{اِذْ عُرِضَ عَلَیْهِ: جب اس کے سامنے پیش کئے گئے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں ظہر کی نماز کے بعد جہاد کے لئے ایک ہزار گھوڑے پیش کئے گئے تاکہ وہ انہیں دیکھ لیں اور ان کے اَحوال کی کَیفِیَّت سے واقف ہو جائیں ،ان گھوڑں میں خوبی یہ تھی کہ وہ تین پاؤں پر کھڑے اور چوتھے سم کا کنارہ زمین پر لگائے ہوئے تھے جو ایک خوبصورت انداز تھا اور وہ بہت تیز دوڑنے والے تھے ۔انہیں دیکھ کر حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:’’میں ان سے اللہ تعالیٰ کی رضاء اور دین کی تَقْوِیَت و تائیدکے لئے محبت کرتا ہوں ، میری ان کے ساتھ محبت دُنْیَوی غرض سے نہیں ہے۔ پھرحضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں چلانے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ نظر سے غائب ہوگئے،پھر حکم دیا کہ انہیں میرے پاس واپس لاؤ، جب گھوڑے واپس پہنچے تو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ اس ہاتھ پھیرنے کی چند وجوہات تھیں ،
(1)… گھوڑوں کی عزت و شرف کا اظہار مقصود تھاکہ وہ دشمن کے مقابلے میں بہتر مددگار ہیں ۔
(2)… اُمورِ سلطنت کی خود نگرانی فرمائی تا کہ تمام حُکام مُستَعِد رہیں ۔
(3)… آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گھوڑوں کے اَحوال اور ان کے اَمراض و عُیوب کے اعلیٰ ماہر تھے ان پر ہاتھ پھیر کر اُن کی حالت کا امتحان فرماتے تھے۔ بعض لوگوں نے ان آیات کی تفسیر میں بہت سے غلط اَقوال لکھ دیئے ہیں جن کی صحت پر کوئی دلیل نہیں اور وہ محض حکایات ہیں جو مضبوط دلائل کے سامنے کسی طرح قابلِ قبول نہیں اور یہ تفسیر جو ذکر کی گئی یہ الفاظ ِ قرآنی سے بالکل مطابق ہے۔( جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۳،ص۳۸۲، تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۳، ۹ / ۳۸۹-۳۹۲، ملتقطاً)
{وَ لَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْمٰنَ: اور بیشک ہم نے سلیمان کوجانچا۔} علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان نہیں فرمایا کہ جس آزمائش میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مبتلا کیا گیا وہ کیا تھی اور نہ ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تخت پر جس بے جان جسم کو ڈالا گیا ا س کا مِصداق کون ہے،البتہ اس کی تفسیر کے زیادہ قریب وہ حدیث ہے جس میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اِنْ شَآئَ اللہ نہ کہنے کا ذکر ہے۔( البحرالمحیط، ص، تحت الآیۃ: ۳۴، ۷ / ۳۸۱)
وہ حدیث یہ ہے،حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا تھا کہ میں آج رات میں اپنی 90 بیویوں کے پاس جاؤں گا،ان میں سے ہر ایک حاملہ ہوگی اور ہر ایک سے راہِ خدا میں جہاد کرنے والا سوار پیدا ہوگا،لیکن یہ فرماتے وقت زبانِ مبارک سے اِنْ شَآئَ اللہ تَعَالٰی نہ فرمایا تو ایک عورت کے علاوہ کوئی بھی عورت حاملہ نہ ہوئی اور اس کے ہاں بھی ناقص بچہ پیدا ہوا ۔نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’اس کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اِنْ شَآئَ اللہ فرمایا ہوتا تو ان سب عورتوں کے ہاں لڑکے ہی پیدا ہوتے اور وہ راہِ خدا میں جہاد کرتے ۔( بخاری، کتاب الایمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۴ / ۲۸۵، الحدیث: ۶۶۳۹)
{قَالَ: عرض کی۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اِنْ شَآءَ اللہ کہنے کی بھول پراِستغفار کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور بارگاہِ الہٰی میں عرض کی: اے میرے رب !مجھے بخش دے۔علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’(مُستحب کاموں کے نہ کر سکنے پر بھی) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی اور اِنکساری کا اظہار کر کے اس پر مغفرت طلب کرنا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور صالحین کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک ادب ہے تاکہ ان کے مقام ومرتبہ میں ترقی ہو ۔( البحرالمحیط، ص، تحت الآیۃ: ۳۵، ۷ / ۳۸۱)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب استغفار النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الیوم واللیلۃ، ۴ / ۱۹۰، الحدیث: ۶۳۰۷)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بعض اوقات (کسی مقرب) انسان سے افضل اور اولیٰ کام ترک ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ مغفرت طلب کرنے کا محتاج ہوتا ہے کیونکہ نیک بندوں کی نیکیاں مُقَرَّب بندوں کے نزدیک ان کے اپنے حق میں برائیوں کا درجہ رکھتی ہیں ۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۳۵، ۹ / ۳۹۴)
یعنی عام نیک آدمی جو نیک عمل کرتا ہے ، مُقَرَّب بندہ اس سے بہت بڑھ کر عمل کرتا ہے ، اگر وہ بھی عام نیک آدمی جیسا ہی عمل کرے تو اسے وہ اپنے حق میں برائی سمجھتا ہے کیونکہ اس کا مرتبہ یہ تھا کہ وہ اس سے بڑھ کر عمل کرتا۔
{وَهَبْ لِیْ مُلْكًا لَّا یَنْۢبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیْ : اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرماجو میرے بعد کسی کو لائق نہ ہو۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پہلے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی ،اس کے بعد ایسی سلطنت کی دعا مانگی جو ان کے بعد کسی کو لائق نہ ہو۔
بھلائیوں کے دروازے کھلنے کا سبب :
اس سے معلوم ہو اکہ (دعا میں ) دینی مَقاصد کو دُنْیَوی مقاصد پر مُقَدّم رکھنا چاہئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا دنیا میں بھلائیوں کے دروازے کھلنے کا سبب ہے۔حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی اپنی امت کو اس کی تلقین کی،چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرماتے ہیں :
’’فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا‘‘(نوح:۱۰۔۱۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو میں نے کہا: (اے لوگو!) اپنے رب سے معافی مانگو، بیشک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔ وہ تم پر موسلا دھار بارش بھیجے گا۔ اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا:
’’وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ-لَا نَسْــٴَـلُكَ رِزْقًاؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكَ‘‘(طہ:۱۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی نماز پر ڈٹے رہو۔ ہم تجھ سے کوئی رزق نہیں مانگتے (بلکہ) ہم تجھے روزی دیں گے۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۳۵، ۹ / ۳۹۴)
یاد رہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو بے مثل سلطنت طلب کی وہ مَعَاذَ اللہ کسی حسد کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس سے مقصود یہ تھا کہ وہ سلطنت آپ کے لئے معجزہ ہو۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۱۰۲۲)
{فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّیْحَ: تو ہم نے ہوا اس کے قابومیں کردی۔} اس آیت اورا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ہوا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قابو میں کردی کہ وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حکم سے اور جہاں آپ چاہتے ا س طرف فرمانبردار انہ طریقے پرنرم نرم چلتی، اور ہر معمار اور غوطہ خور جن آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تابع کردیا،معمارآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حکم سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مرضی کے مطابق عجیب و غریب عمارتیں تعمیر کرتا اور غوطہ خور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے سمندر سے موتی نکالتا۔ دنیا میں سب سے پہلے سمندر سے موتی نکلوانے والے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی ہیں اور سرکش شیطان بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے مُسَخّر کردیئے گئے جنہیں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ادب سکھانے اور فساد سے روکنے کے لئے بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑواکرقیدکردیتے تھے۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۸، ۴ / ۴۲، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۸، ص۱۰۲۲، ملتقطاً)
جِنّات پر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تَصَرُّف:
یاد رہے کہ جِنّات پر حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی تَصَرُّف حاصل تھا،جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’گزشتہ رات ایک بڑا خبیث جن آ کر مجھے چھیڑنے لگا تاکہ وہ میری نماز کو مُنقطع کروا دے،پس اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قادر کر دیا، چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سب اسے دیکھتے، پھر مجھے اپنے بھائی حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا یاد آگئی کہ ’’اے میرے رب! مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔تو میں نے اسے ذلیل و خوار کر کے لوٹا دیا۔( بخاری، کتاب احادیث الانبیائ، باب قول اللّٰہ تعالی: ووہبنا لداود سلیمان۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۵۰، الحدیث: ۳۴۲۳)
{هٰذَا عَطَآؤُنَا: یہ ہماری عطا ہے۔}اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ یہ ہماری عطا ہے تو اب جس پرچاہو احسان کرو اور جس کسی سے چاہو روک رکھو تم پر کسی قسم کا کوئی حساب نہیں ۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۴۲) یعنی آپ کو دینے اور نہ دینے کا اختیار دیا گیا کہ جیسی مرضی ہو ویسے کریں ۔
اللہ تعالیٰ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیتا ہے اور وہ مخلوق میں تقسیم کرتے ہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور وہ حضرات اللہ تعالیٰ کے حکم سے مخلوق میں تقسیم فرماتے ہیں اور اس تقسیم میں انہیں دینے اور نہ دینے کا مُطلَقاً اختیار ہوتا ہے۔ حدیث ِپاک میں بھی ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور میں تقسیم فرماتا ہوں ۔( بخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقّہہ فی الدین، ۱ / ۴۲، الحدیث: ۷۱)
دو اَحادیث ِ مبارکہ مزید ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ربیعہ بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں رات کے وقت رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں رہا کرتا اور آپ کے اِستنجاء اور وضو کے لئے پانی لاتا تھا،ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مانگ کیا مانگتا ہے۔میں نے عرض کی :میں آپ سے جنت کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ۔ارشاد فرمایا’’اس کے علاوہ اور کچھ؟میں نے عرض کی :مجھے یہی کافی ہے ۔ارشاد فرمایا’’پھر زیادہ سجدے کر کے میری مدد کرو۔( مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحثّ علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹))
(2)…امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جب کوئی شخص سوال کرتا (تو اس وقت دو طرح کی صورتِ حال ہوتی) اگر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دینا منظور ہوتا تو نَعم فرماتے یعنی اچھا ،اورنہ منظور ہوتا تو خاموش رہتے ، کسی چیز کو ’’لَا‘‘یعنی ’’نہ‘‘ نہ فرماتے تھے۔ایک روز ایک اَعرابی نے حاضر ہوکر سوال کیا توحضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش رہے ، پھر سوال کیا تو خاموشی اختیار فرمائی، پھر سوال کیا تو اس پر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’سَلْ مَا شِئْتَ یَا اَعْرَابِی‘‘اے اَعرابی! جو تیرا جی چاہے ہم سے مانگ۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں :یہ حال دیکھ کر (کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمادیا ہے جو دل میں آئے مانگ لے) ہمیں اس اَعرابی پر رشک آیا ،ہم نے اپنے دل میں کہا: اب یہ حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنت مانگے گا ،لیکن اَعرابی نے کہا تو کیا کہا کہ’’ میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سواری کا اونٹ مانگتاہوں ۔ارشاد فرمایا:عطا ہوا ۔عرض کی:حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زادِ سفر مانگتاہوں۔ ارشادفرمایا:عطاہوا۔ ہمیں اس کے ان سوالوں پر تعجب ہوا اور سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اس اَعرابی کی مانگ اوربنی اسرائیل کی ایک بڑھیا کے سوال میں کتنا فرق ہے ۔ پھر حضو ر پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کا ذکر ارشاد فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دریا میں اترنے کا حکم ہوا اور وہ دریا کے کنارے تک پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے سواری کے جانوروں کے منہ پھیر دئیے کہ خود واپس پلٹ آئے ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، یہ کیا حال ہے ؟ارشاد ہوا:تم حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبرکے پاس ہو ان کا جسم مبارک اپنے ساتھ لے لو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قبر کا پتہ معلوم نہ تھا ،آپ نے لوگوں سے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر کے بارے میں جانتا ہو تو مجھے بتاؤ۔لوگوں نے عرض کی: ہم میں سے تو کوئی نہیں جانتا البتہ بنی اسرائیل کی ایک بڑھیا ہے ،ہو سکتا ہے کہ وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر کے بارے میں جانتی ہو کہ وہ کہاں ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے پاس آدمی بھیجا (جب وہ آ گئی تو اس سے) فرمایا: تجھے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر معلوم ہے ؟اس نے کہا:ہاں ۔ فرمایا:تو مجھے بتادے ۔اس نے عرض کی :خدا کی قسم میں اس وقت تک نہ بتاؤں گی جب تک آپ مجھے وہ عطا نہ فرما دیں جو کچھ میں آپ سے مانگوں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: تیری عرض قبول ہے ۔بڑھیانے عرض کی:میں آپ سے یہ مانگتی ہوں کہ جنت میں آپ کے ساتھ اس درجے میں رہوں جس درجے میں آپ ہوں گے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: جنت مانگ لے۔ (یعنی تجھے یہی کافی ہے اتنا بڑا سوال نہ کر۔) بڑھیا نے کہا: خدا کی قسم میں نہ مانوں گی مگر یہی کہ آپ کے ساتھ رہوں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے یہی رد وبدل کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی:اے موسیٰ!وہ جو مانگ رہی ہے تم اسے وہی عطاکردو کہ اس میں تمہارا کچھ نقصان نہیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے جنت میں اپنی رفاقت عطافرمادی اوراس نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر بتادی اورحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نعش مبارک کو ساتھ لے کر دریا پار کرگئے۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۵ / ۴۰۷، الحدیث: ۷۷۶۷، مکارم الاخلاق للخرائطی، القسم الثانی، الجزء الخامس، باب ما جاء فی السخاء والکرم والبذل من الفضل، ص۱۴۰۷، الحدیث: ۱۵۴، ملتقطاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی تصنیف ’’الامن والعلٰی‘‘ میں یہ حدیث ِ پاک نقل کر کے اس کے تحت سات نِکات بیان فرمائے ہیں ،ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس ارشاد’’جو جی میں آئے مانگ‘‘میں صراحت کے ساتھ عموم موجود ہے کہ جو دل میں آئے مانگ لے ہم سب کچھ عطا فرمانے کا اختیار رکھتے ہیں ۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اَعرابی کو اختیار ملنے پر رشک فرمایا،اس سے معلوم ہوا کہ ان کا عقیدہ یہی تھا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہاتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے تمام خزانوں اور دنیا و آخرت کی ہر نعمت پر پہنچتا ہے یہاں تک کہ سب سے اعلیٰ نعمت یعنی جنت جسے چاہیں بخش دیں ۔اختیارِ عام ملنے کے بعد اَعرابی نے جو مانگا اس پر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تعجب فرمانا اور بنی اسرائیل کی بڑھیاکی مثال دینااس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ جنت کا اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ مانگتا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وہی اسے عطا فرما دیتے ۔بڑھیا کا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جنت میں ان کی رفاقت کا سوا ل کرنا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ سوال سن کر غضب و جلال میں نہ آنا بلکہ اس سے یہ کہنا کہ ہم سے جنت مانگ لو اور اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بڑھیا کی طلب کے مطابق عطا فرمانے کا حکم دینا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بڑھیا کو جنت میں اپنی رفاقت عطا فرما دینا،یہ سب شواہد اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو بے پناہ اختیارات عطا فرماتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے مخلوق میں جنت اور اس کے درجات تک تقسیم فرماتے ہیں ،اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مخلوق کا ان سے جنت اور اس کے اعلیٰ درجات مانگنا شرک ہر گز نہیں ہے۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: الامن والعلی لناعتی المصطفٰی بدافع البلاء، ۳۰ / ۶۰۰-۶۰۴، ملخصاً)
{وَ اِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا: اور بیشک اس کے لیے ہماری بارگاہ میں ۔} اس سے پہلی آیات میں وہ نعمتیں بیان کی گئیں جو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دنیا میں عطا کی گئیں اور اس آیت میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر آخرت میں کی جانے والی نعمتوں کا ذکر ہے، چنانچہ ارشا د فرمایا کہ دنیا میں ا س عظیم سلطنت کے ساتھ ساتھ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے آخرت میں بھی ہماری بارگاہ میں قرب اور اچھا ٹھکانا ہے اور وہ ٹھکانہ جنت ہے۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۴۲-۴۳، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۴۰، ۸ / ۳۹، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan