READ

Surah Saad

صٓ
88 Ayaat    مکیۃ


38:41
وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَۘ-اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍؕ(۴۱)
اور یاد کرو ہمارے بندہ ایوب کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذا لگادی، (ف۶۳)

{وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَ: اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو۔} اس سے پہلی آیات میں  حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا گیا اوریہ دونوں  وہ مبارک ہستیاں  ہیں  جنہیں  اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں  عطا فرمائیں ،اب اس آیت میں  حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ یاد دلایا جارہا ہے اور یہ وہ مبارک ہستی ہیں  جنہیں  اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کی آزمائشوں  کے ساتھ خاص فرمایا۔ ان واقعات کو بیان کرنے سے مقصود ان کی سیرت میں  غوروفکر کرنا ہے، گویا کہ اللہ  تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کی جہالت پر صبر فرمائیں  کیونکہ دنیا میں  حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ نعمت، مال اور وجاہت والا کوئی نہیں  تھا اور حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ مشقت اور آزمائش میں  مبتلا ہونے والا کوئی نہ تھا،آپ ان انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اَحوال میں  غور فرمائیں  تاکہ آپ جان جائیں  کہ دنیا کے احوال کسی کے لئے ایک جیسے نہیں  ہوتے اور یہ بھی جان جائیں  کہ عقلمند کو مشکلات پر صبر کرنا چاہئے۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۴۱، ۹ / ۳۹۶)

{اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ: مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذاپہنچائی ہے۔} ایک قول یہ ہے کہ تکلیف اور ایذا سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری اور اس کے شَدائد مراد ہیں  اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بیماری کے دوران شیطان کی طرف سے ڈالے جانے والے وسوسے ہیں  جو کہ ناکام ہی ثابت ہوئے۔

            حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آزمائش میں  مبتلاء کئے جانے کے مختلف اَسباب بیان کئے گئے ہیں ،ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’اللہ تعالیٰ نے کسی خطا کی وجہ سے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آزمائش میں  مبتلا نہیں  کیا بلکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درجات (مزید) بلند کرنے کیلئے آزمائش میں  مبتلا کیا۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۱۰۲۳)

اللہ تعالیٰ کے ادب اور تعظیم کا تقاضا:

             یاد رہے کہ اچھے برے تمام افعال جیسے ایمان ،کفر ،اطاعت اور مَعصِیَت وغیرہ کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان افعال کو پیدا کرنے میں  اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں  ، برے افعال کو بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے لیکن اس کے ادب اور تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ کلام میں  ان افعال کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہ کی جائے۔( تفسیر قرطبی، ص، تحت الآیۃ: ۴۱، ۸ / ۱۵۵، الجزء الخامس عشر)اسی ادب کی وجہ سے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تکلیف اور ایذا پہنچانے کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں  کو آزماتا ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ  تعالیٰ اپنے نیک بندوں  کو آزماتا ہے،حدیث پاک میں  ہے،حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، پھر اپنے درجے کے حساب سے مُقَرَّبِین کی۔آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے ،اگر دین میں  مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے اور اگر دین میں  کمزور ہو تو اسی حساب سے آزمائش کی جاتی ہے،بندے کے ساتھ آزمائشیں  ہمیشہ رہتی ہیں  یہاں  تک کہ وہ زمین پر اس طرح چلتا ہے کہ ا س پر کوئی گناہ نہیں  ہوتا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلائ، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۶)

          نوٹ: حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری اور مال و اولاد کی ہلاکت کا تفصیلی بیان سورۂ انبیاء کی آیت نمبر83اور84 میں  گزر چکا ہے۔

 

38:42
اُرْكُضْ بِرِجْلِكَۚ-هٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ(۴۲)
ہم نے فرمایا زمین پر اپنا پاؤں مار (ف۶۴) یہ ہے ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو (ف۶۵)

{اُرْكُضْ بِرِجْلِكَ: ہم نے فرمایا: زمین پر اپنا پاؤں  مارو۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرمائی اور ان کی طرف وحی فرمائی کہ ’’ زمین پر اپنا پاؤں  مارو۔چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے زمین پرپاؤں  مارا تو اس سے میٹھے پانی کا ایک چشمہ ظاہر ہوااور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا گیا کہ یہ نہانے اور پینے کیلئے پانی کا ٹھنڈا چشمہ ہے۔چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس چشمے سے پانی پیا اور غسل کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تمام ظاہری و باطنی مرض اور تکلیفیں  دور فرما دیں ۔( تفسیرکبیر ، ص ، تحت الآیۃ : ۴۲ ، ۹ / ۳۹۸ ، خازن ، ص ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۴ / ۴۳، جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۳۸۳، ملتقطاً)

38:43
وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَ ذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ(۴۳)
اور ہم نے اسے اس کے گھر والے اور ان کے برابر اور عطا فرمادیے اپنی رحمت کرنے (ف۶۶) اور عقلمندوں کی نصیحت کو،

{وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اَهْلَهٗ: اور ہم نے اسے اس کے گھر والے عطا فرمادئیے۔} حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جو اولاد مرچکی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو دوبارہ زندہ کیا اور اپنے فضل و رحمت سے اتنے ہی اور عطا فرمائے۔( تفسیرطبری، ص، تحت الآیۃ: ۴۳، ۱۰ / ۵۹۰، ملخصاً)

{وَ ذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ: اور عقلمندوں  کی نصیحت کے لئے۔} یعنی ہم نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آزمائش میں  مبتلاء کیا تو انہوں  نے صبر کیا،پھر ہم نے ان کی آزمائش ختم فرما دی اور ان کی تکلیفیں  دور کر دیں  تو انہوں  نے شکر کیا، اس میں  عقلمندوں  کے لئے نصیحت ہے۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۴۳، ۴ / ۴۳)          کہ وہ مصیبت آنے پر واویلا کرنے کی بجائے صبر کریں  اور مصیبت سے خلاصی پانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کریں ۔

38:44
وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ-اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ(۴۴)
اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دے (ف۶۷) اور قسم نہ توڑ بے ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ (ف۶۸) بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے،

{وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا: اور اپنے ہاتھ میں  ایک جھاڑو لو۔} بیماری کے زمانہ میں  حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ ایک بار کہیں  کام سے گئیں  تو دیر سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے قسم کھائی کہ میں  تندرست ہو کر تمہیں  سو کوڑے ماروں  گا۔جب حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صحت یاب ہوئے تواللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں  جھاڑو مار دیں  اور اپنی قسم نہ توڑیں ،چنانچہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سَو تیلیوں  والا ایک جھاڑو لے کر اپنی زوجہ کو ایک ہی بار ماردیا ۔( بیضاوی، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۴۹، جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۴۴،ص۳۸۳، ملتقطاً)

            حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قسم کھانے کا ایک سبب اوپر بیان ہوا اور دوسرا سبب بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا ایوب عَلَیْہِ وَعَلٰی نَبِیِّنَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی ہیں  کہ آزمائش واِبتلاء کے دور میں  آپ کی پاکیزہ بیوی جن کا نام رحمہ بنت آفرائیم، یا میشا بنت ِیوسف بن یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھا، وہ آپ کیلئے محنت ومزدوری کرکے خوراک مہیا فرماتی تھیں ، ایک دن انہوں  نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں  زیادہ کھانا پیش کیا تو حضرت ایوب عَلَیْہِ السَّلَام کو گمان ہوا کہ شاید وہ کسی کا مال خیانت کے ذریعہ حاصل کرلائی ہیں  ،اس پر آپ کو غصہ آیا تو آپ نے قسم کھائی کہ اس کو ایک سو چھڑی ماروں  گا۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: الجوہر الثمین فی علل نازلۃ الیمین، ۱۳ / ۵۲۶) آگے کی تفصیل وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی۔

حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ پر رحمت اورتخفیف کا سبب:

            مفسرین نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ پر اس رحمت اورتخفیف کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ بیماری کے زمانہ میں  انہوں  نے اپنے شوہر کی بہت اچھی طرح خدمت کی اور آپ کے شوہر آپ سے راضی ہوئے تو ا س کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آسانی فرمائی۔( ابوسعود، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۴ / ۴۴۴، ملخصاً)

             شوہر کو خوش رکھنا بیوی کیلئے نہایت ثواب کا کام ہے اورتنگ کرنا اور ایذاء پہنچانا سخت گناہ ہے، ہمارے ہاں  بعض اوقات معمولی سی بات پر بیویاں  شوہر سے طلاق کا مطالبہ کردیتی ہیں ، اور یہ حرکت شوہر کیلئے نہایت تکلیف دِہ ہوتی ہے ،ایسی عورتوں  کے لئے درج ذیل 3اَحادیث میں  بھی بہت عبرت اور نصیحت ہے،چنانچہ

(1)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو عورت بغیر کسی حرج کے شوہر سے طلاق کا سوال کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (ترمذی، کتاب الطلاق واللعان، باب ما جاء فی المختلعات، ۲ / ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۱)

(2)… حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’جس عورت نے بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے خلع لی تو وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھ سکے گی۔ (ترمذی، کتاب الطلاق واللعان، باب ما جاء فی المختلعات، ۲ / ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۰)

(3)…حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں  ایذا دیتی ہے تو حورِعِین کہتی ہیں  خدا تجھے قتل کرے اِسے ایذا نہ دے یہ تو تیرے پاس مہمان ہے عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔( ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب فی المرأۃ تؤذی زوجہا، ۲ / ۴۹۸، الحدیث: ۲۰۱۴)

            اللہ تعالیٰ ایسی عورتوں  کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔

شرعی حیلوں  کے جواز کا ثبوت:

            فقہاء ِکرام نے اس آیت سے شرعی حیلوں  کے جواز پر اِستدلال کیا ہے ،چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں  ہے’’جو حیلہ کسی کا حق مارنے یا اس میں  شبہ پیدا کرنے یا باطل سے فریب دینے کیلئے کیا جائے وہ مکروہ ہے اور جوحیلہ اس لئے کیا جائے کہ آدمی حرام سے بچ جائے یا حلال کو حاصل کر لے وہ اچھا ہے ۔ اس قسم کے حیلوں  کے جائز ہونے کی دلیل اللہ عَزَّوَجَلَّ کا یہ فر مان ہے: ’’وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (فرمایا) اپنے ہاتھ میں  ایک جھاڑو  لے کر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔( فتاوی عالمگیری، کتاب الحیل، الفصل الاول، ۶ / ۳۹۰)

            البتہ یاد رہے کہ قابلِ اعتماد مُفتیانِ کرام سے رہنمائی لئے بغیر عوامُ النّاس کو کوئی حیلہ نہیں  کرنا چاہئے کیونکہ بعض حیلوں  کی شرعی طور پر اجازت نہیں  ہوتی اور بعض اوقات حیلہ کرنے میں  ایسی غلطی کر جاتے ہیں  جس کی وجہ سے حیلہ ہوتا ہی نہیں ۔

{اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا: بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا۔} یعنی بے شک ہم نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جان، اولاد اور مال میں  آزمائش پر صبر کرنے والا پایا اورا س آزمائش نے انہیں  اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے اورکسی مَعصِیَت میں  مبتلا ہو جانے پر نہیں  ابھارا۔وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بہت رجوع لانے والا ہے۔( تفسیرطبری، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱۰ / ۵۹۱، بیضاوی، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۴۹، ملتقطاً)

            حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قیامت کے دن صبر کرنے والوں  کے سردار ہوں  گے۔( ابن عساکر، ذکر من اسمہ: ایوب، ایوب نبیّ اللّٰہ، ۱۰ / ۶۶)

 

38:45
وَ اذْكُرْ عِبٰدَنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ اُولِی الْاَیْدِیْ وَ الْاَبْصَارِ(۴۵)
اور یاد کرو ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب قدرت اور علم والوں کو (ف۶۹)

{وَ اذْكُرْ عِبٰدَنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ: اور ہمارے بندوں  ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کویاد کرو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے عنایتوں  والے خاص بندوں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ان کے بیٹے حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اور ان کے بیٹے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کویاد کریں  کہ انہیں  اللہ تعالیٰ نے علمی اورعملی قوتیں عطا فرمائیں  جن کی بنا پر انہیں  اللہ تعالیٰ کی معرفت اور عبادات پر قوت حاصل ہوئی ۔ بیشک ہم نے انہیں  ایک کھری بات سے چن لیا اور وہ بات آخرت کے گھر کی یاد ہے کہ وہ لوگوں  کو آخرت کی یاد دلاتے ، کثرت سے آخرت کا ذکر کرتے اور دنیا کی محبت نے اُن کے دلوں  میں  جگہ نہیں  پائی اور بیشک وہ ہمارے نزدیک بہترین چُنے ہوئے بندوں  میں  سے ہیں ۔( روح البیان ، ص ، تحت الآیۃ : ۴۵-۴۶ ، ۸ / ۴۶ ، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۷، ص۱۰۲۴، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۷، ۴ / ۴۳-۴۴، ملتقطاً)

{وَ اِنَّهُمْ عِنْدَنَا: اور بیشک وہ ہمارے نزدیک۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے علماء نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عِصمَت (یعنی گناہ سے پاک ہونے) پر اِستدلال کیاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں  انہیں  کسی قید کے بغیر اَخیار فرمایا اور یہ بہتری ان کے تمام اَفعال اور صفات کو عام ہے۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۴۷، ۹ / ۴۰۰)

38:46
اِنَّاۤ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِۚ(۴۶)
بیشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے امتیاز بخشا کہ وہ اس گھر کی یاد ہے (ف۷۰)

38:47
وَ اِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۷)
اور بیشک وہ ہمارے نزدیک چُنے ہوئے پسندیدہ ہیں،

38:48
وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)
اور یاد کرو اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو (ف۷۱) اورسب اچھے ہیں،

{وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِ: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت اسماعیل، حضرت یَسَع اورحضرت ذو الکِفل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں  تاکہ ان کی سیرت سے آپ کوتسلی حاصل ہو۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۴ / ۴۴، ملخصاً) اور ان کی پاک خصلتوں  سے لوگ نیکیوں  کا ذوق و شوق حاصل کریں اوروہ سب بہترین لوگ ہیں ۔

            یاد رہے کہ حضرت یَسَع عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کے اَنبیاء میں  سے ہیں ،انہیں  حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں  انہیں  نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ حضرت ذو الکِفل عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں  اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ وہ نبی ہیں ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۸ / ۴۷،  صاوی، ص، تحت الآیۃ: ۴۸، ۵ / ۱۷۷۶، ملتقطاً)

38:49
هٰذَا ذِكْرٌؕ-وَ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍۙ(۴۹)
یہ نصیحت ہے اور بیشک (ف۷۲) پرہیزگاروں کا ٹھکانا،

{هٰذَا ذِكْرٌ: یہ نصیحت ہے۔} آیت کے اس حصے کا ایک معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ قرآن جو ہم نے آپ کی طرف نازل کیا اس کے ذریعے ہم نے آپ کو اور آپ کی قوم کو نصیحت کی ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اوپر والی آیات میں  انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جو سیرت بیان ہوئی یہ ان کا ذکرِ جمیل ہے جو ہمیشہ ہوتا رہے گا۔(تفسیرطبری، ص، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱۰ / ۵۹۵، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۴۹، ۸ / ۴۸، ملتقطاً)

{وَ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍ: اور بیشک پرہیزگاروں  کیلئے اچھا ٹھکانہ ہے۔} آیت کے اس حصے اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی میں  اور اس کی نافرمانی سے بچنے میں  اس کا خوف رکھا توان کیلئے آخرت میں  اچھا ٹھکانہ ہے اور وہ اچھاٹھکانہ بسنے کے باغات ہیں ،جب وہ ان باغات کے دروازوں  تک پہنچیں  گے تو انہیں  اپنے لئے کھلا ہو اپائیں  گے ،فرشتے تعظیم وتکریم کے ساتھ ان کا استقبال کریں  گے اور کہیں  گے تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم نے صبر کیا تو آخر ت کا اچھا انجام کیا ہی خوب ہے۔ ان باغات میں  وہ نقش و نگار کئے ہوئے تختوں  پرٹیک لگائے ہوں  گے۔ان باغوں  میں  وہ بہت سے پھل میوے اور شراب مانگیں  گے۔اور ان کے پاس ایسی بیویاں  ہوں  گی جو اپنے شوہر کے سوا کسی اور کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھیں  گی اور وہ سب عمرمیں  برابر ہوں  گی ایسے ہی حسن و جوانی میں  بھی برابر ہوں  گی، آپس میں  محبت رکھنے والی ہوں  گی، ایک کودوسرے سے بغض ، رشک اور حسد نہ ہو گا۔(تفسیرطبری ، ص ، تحت الآیۃ : ۴۹ ، ۱۰ / ۵۹۵ ، روح البیان ، ص ، تحت الآیۃ : ۴۹-۵۲، ۸ / ۴۸-۴۹، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۲، ۴ / ۴۴، ملتقطاً)

38:50
جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الْاَبْوَابُۚ(۵۰)
بھلا بسنے کے باغ ان کے لیے سب دروازے کھلے ہوئے،

38:51
مُتَّكِـٕیْنَ فِیْهَا یَدْعُوْنَ فِیْهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِیْرَةٍ وَّ شَرَابٍ(۵۱)
ان میں تکیہ لگائے (ف۷۳) ان میں بہت سے میوے اور شراب مانگتے ہیں،

38:52
وَ عِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ اَتْرَابٌ(۵۲)
اور ان کے پاس وہ بیبیاں ہیں کہ اپنے شوہر کے سوا اور کی طرف آنکھ نہیں اٹھاتیں، ایک عمر کی (ف۷۴)

38:53
هٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِیَوْمِ الْحِسَابِ(۵۳)
یہ ہے وہ جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے حساب کے دن،

{هٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ: یہ وہ ہے جس کا تمہیں  وعدہ کیا جاتا ہے۔} یعنی فرشتے ان سے کہیں  گے :اے پرہیزگارو!یہ ثواب اور نعمتیں  وہ ہیں  جن کا حساب کے دن کے لئے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی زبان سے تمہیں  وعدہ کیا جاتا ہے ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۵۳، ۸ / ۴۹-۵۰)

{اِنَّ هٰذَا لَرِزْقُنَا: بیشک یہ ہمارا رزق ہے۔} یعنی پرہیزگاروں  کے لئے جو اِنعام واِکرام ذکر کیا گیا یہ ہمارا عطا کردہ رزق ہے اوریہ ہمیشہ باقی رہے گا ۔
38:54
اِنَّ هٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهٗ مِنْ نَّفَادٍۚۖ(۵۴)
بیشک یہ ہمارا رزق ہے کہ کبھی ختم نہ ہوگا (ف۷۵)

38:55
هٰذَاؕ-وَ اِنَّ لِلطّٰغِیْنَ لَشَرَّ مَاٰبٍۙ(۵۵)
ان کو تو یہ ہے (ف۷۶) اور بیشک سرکشوں کا برا ٹھکانا،

{هٰذَا: یہ۔} اس سے پہلی آیات میں  پرہیزگاروں  کا ثواب بیان کیا گیا اور اس آیت سے سرکشی کرنے والوں  کی سزا بیان کی جا رہی ہے تاکہ وعدے کے بعد وعید کا اور ترغیب کے بعد ڈرانے اور خوف دلانے کابیان ہو۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والوں  کا صلہ تو یہ ہے جو بیان ہوا اور اب اس کے مقابل سنو: بیشک اللہ تعالیٰ کے (حکم کے) خلاف سرکشی کرنے والوں  اور ا س کے رسولوں  کو جھٹلانے والوں  کیلئے برا ٹھکانہ ہے،اور وہ برا ٹھکانہ جہنم ہے جس میں  وہ قیامت کے دن داخل ہوں  گے، تو وہ بھڑکنے والی آگ کیا ہی برا بچھوناہے کیونکہ وہی آگ ان کا فرش ہوگی۔جہنمیوں  کیلئے یہ کھَولتا پانی اور پیپ ہے جو جہنمیوں  کے جسموں  اور ان کے سڑے ہوئے زخموں  اور نجاست کے مقاموں  سے بہے گی ،جلتی اوربدبودار ہو گی، تو وہ اسے چکھیں  اور ان کے لئے اسی طرح کے ملتے جلتے قسم قسم کے عذاب ہوں  گے۔( تفسیرکبیر ، ص ، تحت الآیۃ : ۵۵-۵۸، ۹ / ۴۰۳-۴۰۴، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۸، ۸ / ۵۰-۵۱، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۸، ۴ / ۴۴، ملتقطاً)

جہنمیوں  کی پیپ کی کیفیت:

            حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اگر غَسّاق یعنی جہنمیوں  کی پیپ کا ایک ڈول دنیا میں  بہا دیا جائے تو پوری دنیا والے بد بو دار ہو جائیں ۔( ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، ۴ / ۲۶۳، الحدیث: ۲۵۹۳)

 

38:56
جَهَنَّمَۚ-یَصْلَوْنَهَاۚ-فَبِئْسَ الْمِهَادُ(۵۶)
جہنم کہ اس میں جائیں گے تو کیا ہی برا بچھونا (ف۷۷)

38:57
هٰذَاۙ-فَلْیَذُوْقُوْهُ حَمِیْمٌ وَّ غَسَّاقٌۙ(۵۷)
ان کو یہ ہے تو اسے چکھیں کھولتا پانی اور پیپ (ف۷۸)

38:58
وَّ اٰخَرُ مِنْ شَكْلِهٖۤ اَزْوَاجٌؕ(۵۸)
اور اسی شکل کے اور جوڑے (ف۷۹)

38:59
هٰذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَكُمْۚ-لَا مَرْحَبًۢا بِهِمْؕ-اِنَّهُمْ صَالُوا النَّارِ(۵۹)
ان سے کہا جائے گا یہ ایک اور فوج تمہارے ساتھ دھنسی پڑتی ہے جو تمہاری تھی (ف۸۰) وہ کہیں گے ان کو کھلی جگہ نہ ملیو آگ میں تو ان کو جانا ہی ہے،

{هٰذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَكُمْ: یہ ایک اور فوج ہے جوتمہارے ساتھ دھنسی جارہی ہے۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ جب کافروں  کے سردار جہنم میں  داخل ہوں  گے اور ان کے پیچھے پیچھے ان کی پیروی کرنے والے بھی جا رہے ہوں  گے تو جہنم کے خازن ان سرداروں  سے کہیں  گے’’ یہ تمہاری پیروی کرنے والوں  کی فوج ہے جو تمہاری طرح تمہارے ساتھ جہنم میں  دھنسی جا رہی ہے۔‘‘کافر سردار جہنم کے خازن فرشتوں  کو جواب دیتے ہوئے کہیں  گے :ان پَیروکاروں  کو (جہنم میں ) کھلی جگہ نہ ملے،بیشک ہماری طرح یہ بھی آگ میں  داخل ہورہے ہیں۔(خازن، ص، تحت الآیۃ: ۵۹، ۴ / ۴۴-۴۵، ملخصاً)

38:60
قَالُوْا بَلْ اَنْتُمْ- لَا مَرْحَبًۢا بِكُمْؕ-اَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوْهُ لَنَاۚ-فَبِئْسَ الْقَرَارُ(۶۰)
وہاں بھی تنگ جگہ میں رہیں تابع بولے بلکہ تمہیں کھلی جگہ نہ ملیو، یہ مصیبت تم ہمارے آگے لائے (ف۸۱) تو کیا ہی برا ٹھکانا (ف۸۲)

{قَالُوْا: وہ کہیں  گے۔} یعنی پیروکار اپنے سرداروں  سے کہیں  گے : بلکہ تمہیں  کھلی جگہ نہ ملے۔ تم ہی یہ عذاب ہمارے آگے لائے ہو کیونکہ تم نے پہلے کفر اختیار کیا اور پھرہمیں  بھی اس راہ پر چلایا تو جہنم بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ (خازن، ص، تحت الآیۃ: ۶۰، ۴ / ۴۵) اس سے معلوم ہو اکہ اہلِ جنت آپس میں  اتفاق اور محبت رکھیں گے جبکہ اہلِ جہنم آپس میں  نا اتفاقی کا شکار ہوں  گے۔

{قَالُوْا: وہ کہیں  گے۔} یعنی پیروی کرنے والے کفار اپنے سرداروں  کے متعلق بارگاہِ الٰہی میں  عرض کریں  گے کہ اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، جو یہ عذاب ہمارے آگے لایا اسے آگ میں  ہم سے دگنا عذاب دے کیونکہ وہ کافر بھی ہے اور کافر گَر بھی اور ہم صرف کافر ہیں ۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۶۱، ۸ / ۵۲-۵۳، ملخصاً)

38:61
قَالُوْا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا هٰذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِی النَّارِ(۶۱)
وہ بولے اے ہمارے رب جو یہ مصیبت ہمارے آگے لایا اسے آگ میں دُونا عذاب بڑھا،

38:62
وَ قَالُوْا مَا لَنَا لَا نَرٰى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِؕ(۶۲)
اور (ف۸۳) بولے ہمیں کیا ہوا ہم ان مردوں کو نہیں دیکھتے جنہیں برا سمجھتے تھے (ف۸۴)

{وَ قَالُوْا: اور وہ کہیں گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کفار جہنم میں  غریب مسلمانوں  کو نہ دیکھیں  گے تو کفار کے سردار کہیں  گے :ہمیں  جہنم میں  وہ غریب مسلمان نظر کیوں  نہیں  آ رہے جنہیں  ہم دنیا میں  برے لوگوں  میں  شمار کرتے تھے اور انہیں  ہم اپنے دین کا مخالف ہونے کی وجہ سے شریر کہتے تھے اور غریب ہونے کی وجہ سے انہیں  حقیر سمجھتے تھے ،پھرکہیں  گے کہ کیا ہم نے انہیں  مذاق نہ بنالیاتھا جبکہ حقیقت میں  وہ ایسے نہ تھے اوروہ دوزخ میں  آئے ہی نہیں  ہیں  نیزہمارا اُن کے ساتھ اِستہزاء کرنا اور اُ ن کا مذاق اڑانا باطل اور غلط تھا یا ہماری آنکھیں  ان کی طرف سے پھر گئی تھیں  اس لئے وہ ہمیں  نظر نہ آئے ۔دوسری آیت کے آخری حصے کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ یا اُن کی طرف سے ہماری آنکھیں  پھر گئیں  اور دنیا میں  ہم اُن کے مرتبے اور بزرگی کو نہ دیکھ سکے۔ (خازن، ص، تحت الآیۃ: ۶۲-۶۳، ۴ / ۴۵، ملخصاً) اس سے معلوم ہوا کہ کفار جہنم میں  ایک دوسرے کو پہچانیں  گے اور دنیا کی باتیں  بھی یا دکریں  گے۔

38:63
اَتَّخَذْنٰهُمْ سِخْرِیًّا اَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْاَبْصَارُ(۶۳)
کیا ہم نے انہیں ہنسی بنالیا (ف۸۵) یا آنکھیں ان کی طرف سے پھر گئیں (ف۸۶)

38:64
اِنَّ ذٰلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ۠(۶۴)
بیشک یہ ضرور حق ہے دوزخیوں کا باہم جھگڑ،

38:65
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا مُنْذِرٌ ﳓ وَّ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُۚ(۶۵)
تم فرماؤ (ف۸۷) میں ڈر سنانے والا ہی ہوں (ف۸۸) اور معبود کوئی نہیں مگر ایک اللہ سب پر غالب،

{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس سورت کی ابتدا ء میں  بیان ہو اکہ جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت،اپنی رسالت اور قیامت کے حق ہونے پر ایمان لانے کی دعوت دی تو کفار نے اپنی جہالت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جادو گر اور جھوٹا کہا،پھر اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے تاکہ ان کی سیرت کو سامنے رکھتے ہوئے کفار کی جہالت پر صبر کرنا آسان ہو اور کفار اپنے کفر پر اِصرار اور جہالت کو چھوڑ کر ایمان قبول کرنے کی طرف راغب ہوں ، ان چیزوں  کو بیان کرنے کے بعد اب پھر اللہ تعالیٰ وحدانیّت، رسالت اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا بیان فرما رہا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ سے فرما دیں  کہ میں  صرف تمہیں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے کفر اور گناہوں  کے بدلے عذاب کا ڈر سنانے والا ہوں  اور یہ بھی فرما دیں  کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں  ،وہ اکیلا ہے،وہ اپنی ذات، صفات اور افعال میں  اصلًا شرک کو قبول نہیں  کرتا،اس کی بارگاہ کے علاوہ اور کوئی جائے پناہ نہیں  ،وہ اپنے علاوہ ہرممکن چیز پر غالب ہے۔وہ آسمانوں  اور زمین اور ان کے درمیان موجود تمام مخلوقات کا مالک ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی شریک ہو اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ عزت والا اوربڑا بخشنے والا ہے۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۶۵، ۹ / ۴۰۶، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۶۵، ۸ / ۵۵، ملتقطاً)

مخلوق کا خوف دور کرنے کا وظیفہ:

             علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو کوئی ’’یَا قَہَّارُ‘‘ روزانہ ایک ہزار بار پڑھ لیا کرے تو اس کے دل سے مخلوق( کا خوف)دور ہو جائے گا۔ (روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۶۵، ۸ / ۵۵)
38:66
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ(۶۶)
مالک آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے صاحب عزت بڑا بخشنے والا،

{رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا: وہ آسمانوں  اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک ہے۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت اور اس سے اوپر والی آیت میں  اللہ تعالیٰ نے اپنی 5صفات بیان فرمائی ہیں : (1)واحد۔(2)قَہّار۔(3)رب۔(4) عزیز۔(5)غَفّار۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت وہ چیز ہے کہ جس کے بارے میں  اہلِ حق اور مشرکین کے درمیان اختلاف ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت ’’قَہّار ‘‘بیان فرما کر اپنی وحدانیّت پر اِستدلال فرمایا،اوریہ صفت اگرچہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر دلالت کرتی ہے لیکن صرف اسے سن کر لوگوں  کے دلوں  میں  شدید خوف بیٹھ جاتا ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد اپنی تین وہ صفات بیان فرما دیں  جو اس کی رحمت، فضل اور کرم پر دلالت کرتی ہیں ۔

          پہلی صفت:وہ آسمانوں  اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے۔اس صفت کی کامل معرفت اس وقت حاصل ہو گی جب زمین و آسمان کی تخلیق اور عناصرِ اربعہ وغیرہ میں  اللہ تعالیٰ کی حکمت کے آثار میں  غور و فکر کیا جائے اور یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی ساحل ہی نہیں  ،لہٰذا جب تم ان چیزوں  کی تخلیق میں  اللہ تعالیٰ کی حکمت کے آثار میں  غور کرو گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کو پہچان جاؤ گے۔

          دوسری صفت: اللہ تعالیٰ عزیز یعنی عزت اور غلبے والا ہے۔اس صفت کو بیان کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا سن کر کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ ہاں ! اللہ تعالیٰ رب تو ہے لیکن وہ ہر چیز پر قادر نہیں ،اللہ تعالیٰ نے اس بات کا جواب دے دیا کہ وہ عزیز ہے، یعنی ہر ممکن چیز پر قادر ہے اور وہ ہر چیز پر غالب ہے جبکہ اس پر کوئی چیز غالب نہیں ۔

          تیسری صفت: اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والاہے۔اس صفت کو بیان کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ کوئی یہ بات کہہ سکتا تھا کہ ہاں  اللہ تعالیٰ رب ہے اور وہ احسان فرمانے والا ہے لیکن وہ اطاعت گزاروں  اور اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے والوں  پر احسان فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب بھی ا س طرح دے دیا کہ جو شخص 70 سالتک اپنے کفر پر قائم رہے ،پھر اپنے کفر سے (سچی) توبہ کر لے تو میں  گناہگاروں  کے زُمرے سے اس کا نام خارج کر دوں  گا اور اپنے فضل و رحمت سے ا س کے تمام گناہوں  پر پردہ ڈال دوں  گا اور اسے نیک لوگوں  کے مرتبے تک پہنچا دوں  گا۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۶۶، ۹ / ۴۰۷)

 

38:67
قُلْ هُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌۙ(۶۷)
تم فرماؤ وہ (ف۸۹) بڑی خبر ہے،

{هُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ: وہ ایک عظیم خبر ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں  کہ قرآنِ پاک اور جو کچھ اس میں  توحید،نبوت،قیامت،حشر اور جنت و دوزخ وغیرہ کے بارے میں  بیان کیا گیا یہ عظیم الشّان خبر ہے اور اے کافرو! تمہارا حال یہ ہے کہ تم اس سے غفلت میں  ہو کہ مجھ پر ایمان نہیں  لاتے اور قرآنِ پاک اور میرے دین کو نہیں  مانتے۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۶۷-۶۸، ۸ / ۵۶، ملتقطاً)
38:68
اَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُوْنَ(۶۸)
تم اس سے غفلت میں ہو (ف۹۰)

38:69
مَا كَانَ لِیَ مِنْ عِلْمٍۭ بِالْمَلَاِ الْاَعْلٰۤى اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ(۶۹)
مجھے عالم بالا کی کیا خبر تھی جب وہ جھگڑتے تھے (ف۹۱)

{اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ: جب وہ بحث کررہے تھے۔} بحث کرنے والوں  کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ فرشتے ہیں  جو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کے بارے میں  گفتگو کر رہے تھے۔اس صورت میں  یہ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت صحیح ہونے کی ایک دلیل ہے، مُدّعا یہ ہے کہ اگر میں  نبی نہ ہوتا توعالَمِ بالا میں  فرشتوں  کا حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  سوال و جواب کرنا مجھے کیا معلوم ہوتا ،اس کی خبر دینا میری نبوت اور میرے پاس وحی آنے کی دلیل ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے وہ فرشتے مراد ہیں  جو اس چیز میں  بحث کر رہے تھے کہ کون سے کام گناہوں  کا کفارہ بن جاتے ہیں ۔( قرطبی،ص،تحت الآیۃ:۶۹،۸ / ۱۶۶-۱۶۷،الجزء الخامس عشر، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۱۰۲۷، ملتقطاً)

حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عالَمِ بالا کے فرشتوں  کی بحث کا علم عطا ہوا:

            اللہ تعالیٰ نے اس کا علم بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا کیا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا کہ میں  اپنے بہترین حال میں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے دیدار سے مشرف ہوا (حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ میرے خیال میں  یہ واقعہ خواب کا ہے) حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تمہیں  معلوم ہے کہ  عالَمِ بالا کے فرشتے کس بحث میں  ہیں  ۔میں  نے عرض کی:’’نہیں ۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا دستِ رحمت و کرم میرے دونوں  شانوں  کے درمیان رکھا اور میں  نے اس کے فیض کا اثر اپنے قلب ِمبارک میں  پایا تو آسمان و زمین کی تمام چیزیں  میرے علم میں  آگئیں  پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیا تم جانتے ہو کہ عالَمِ بالا کے فرشتے کس چیز کے بارے میں  بحث کررہے ہیں ؟ میں  نے عرض کی:’’ ہاں  ،اے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  جانتا ہوں  ، وہ کَفّارات میں  بحث کررہے ہیں  اور کَفّارات یہ ہیں ، نمازوں  کے بعد مسجدمیں  ٹھہرنا ، پیدل جماعتوں  کے لئے جانا ، جس وقت سردی وغیرہ کے باعث پانی کا استعمال ناگوار ہو اس وقت اچھی طرح وضو کرنا ۔جس نے یہ کیا اس کی زندگی بھی بہتر ،موت بھی بہتر اور وہ گناہوں  سے ایسا پاک صاف نکلے گا جیسا اپنی ولادت کے دن تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نماز کے بعد یہ دعا کیا کرو: ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنَ وَاِذَا اَرَدْتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَمَفْتُوْنْ‘‘۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵ / ۱۵۸، الحدیث: ۳۲۴۴)

            بعض روایتوں  میں  یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’مجھ پر ہر چیز روشن ہوگئی اور میں  نے پہچان لی۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵ / ۱۶۰، الحدیث: ۳۲۴۶)

             اور ایک روایت میں  ہے کہ جو کچھ مشرق و مغرب میں  ہے سب میں  نے جان لیا ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵ / ۱۵۹، الحدیث: ۳۲۴۵)

             علامہ علاؤ الدین علی بن محمد بن ابراہیم بغدادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ جو کہ خازن کے نام سے معروف ہیں  ، اپنی تفسیر میں ’’دونوں  شانوں  کے درمیان ہاتھ رکھنے اور ٹھنڈک محسوس ہونے ‘‘کے معنی یہ بیان فرماتے ہیں  کہ اللہ  تعالیٰ نے حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سینۂ مبارک کھول دیا اور قلب شریف کومُنَوّر کردیا اور جن چیزوں  کو کوئی نہ جانتا ہو ان سب کی معرفت آپ کو عطا کردی حتّٰی کہ آپ نے نعمت و معرفت کی ٹھنڈک اپنے قلب ِمبارک میں  پائی اور جب قلب شریف منور ہوگیا اور سینہ ٔ پاک کھل گیا تو جو کچھ آسمانوں  اور زمینوں  میں  ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جان لیا۔( خازن، ص، تحت الآیۃ: ۷۰، ۴ / ۴۶)

 

38:70
اِنْ یُّوْحٰۤى اِلَیَّ اِلَّاۤ اَنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(۷۰)
مجھے تو یہی وحی ہوتی ہے کہ میں نہیں مگر روشن ڈر سنانے والا (ف۹۲)

{اِنْ یُّوْحٰۤى اِلَیَّ: مجھے تو یہی وحی ہوتی ہے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ میری طرف جو غیبی اُمور کی وحی کی جاتی ہے جن میں  عالَمِ بالا کی خبریں  بھی شامل ہیں  وہ ا س لئے ہے تاکہ میں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں  کوکھلا ڈر سناؤں ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ مجھے صرف ا س چیز کا حکم دیا گیا ہے کہ میں  عذابِ الٰہی کا کھلا ڈر سنا دوں  اورخدا کا پیغام پہنچا دوں ،اس کے علاوہ اور کسی چیز کا مجھے حکم نہیں  دیاگیا۔( ابوسعود، ص، تحت الآیۃ: ۷۰، ۴ / ۴۴۹، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۱۰۲۷، ملتقطاً)

38:71
اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ(۷۱)
جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بناؤں گا (ف۹۳)

{اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ: جب تمہارے رب نے فرشتوں  سے فرمایا۔} کفار ِمکہ چونکہ حسد اور تکبر کی بنا پرسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جھگڑتے تھے ،اِس لئے یہاں  ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق اور ابلیس کے سجدہ نہ کرنے کا واقعہ بیان فرمایا تاکہ اسے سن کر وہ عبرت حاصل کریں  اور اپنے حسد و تکبر سے باز آ جائیں ۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۷۱، ۹ / ۴۰۹)

            یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۂ بقرہ کے چوتھے رکوع میں  بیان ہوچکا ہے اور ا س کے علاوہ سورۂ اعراف،سورۂ حجر،سورۂ بنی اسرائیل اورسورۂ کہف میں  بھی بیان ہو چکا ہے۔ اس آیت اور اس کے بعد والی سات آیات میں  بیان کئے گئے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں  سے فرمایا کہ میں  مٹی سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کروں  گا،پھر جب میں اس کی پیدائش مکمل کردوں  اور اس میں  اپنی خاص روح پھونک کر اسے زندگی عطا کردوں  تو تم اس کے لیے سجدے میں  چلے جانا ،جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کے مراحل مکمل ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے تمام فرشتو ں  نے اکٹھے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہ کیا،اس نے تکبُّر کیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں  کافروں  میں  سے ہی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے اس آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوسجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں  نے اپنے ہاتھوں  سے بنایا؟کیا تو نے تکبر کیاہے یا تو (پہلے ہی) اس قوم میں  سے تھاجن کا شیوہ ہی تکبر ہے۔ ابلیس نے کہا: میں  اس سے بہتر ہوں  کیونکہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ۔اس سے ابلیس کی مراد یہ تھی کہ اگر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آگ سے پیداکئے جاتے اور میرے برابر بھی ہوتے جب بھی میں  انہیں  سجدہ نہ کرتا چہ جائیکہ ان سے بہتر ہو کر انہیں  سجدہ کروں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو جنت سے نکل جا کہ بیشک تو اپنی سرکشی ،نافرمانی اور تکبر کے باعث دھتکارا ہوا ہے اور بیشک قیامت تک تجھ پر میری لعنت ہے اور قیامت کے بعد لعنت بھی اور طرح طرح کے عذاب بھی ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت بدل دی ،وہ پہلے حسین تھا بدشکل رُوسیاہ کردیا گیا اور اس کی نورانیّت سَلب کردی گئی۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۸، ص۱۰۲۷-۱۰۲۸، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۸، ۴ / ۴۷، ملتقطاً)

38:72
فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۷۲)
پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں (ف۹۴) اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں (ف۹۵) تو تم اس کے لیے سجدے میں گرنا،

38:73
فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ(۷۳)
تو سب فرشتو ں نے سجدہ کیا ایک ایک نے کہ کوئی باقی نہ رہا،

38:74
اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اِسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۷۴)
مگر ابلیس نے (ف۹۶) اس نے غرور کیا اور وہ تھا ہی کافروں میں (ف۹۷)

38:75
قَالَ یٰۤاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّؕ-اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ(۷۵)
فرمایا اے ابلیس تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس کے لیے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تجھے غرور آگیا یا تو تھا ہی مغروروں میں (ف۹۸)

38:76
قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُؕ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۷۶)
بولا میں اس سے بہتر ہوں (ف۹۹) تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا،

38:77
قَالَ فَاخْرُ جْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷)
فرمایا تو جنت سے نکل جا کہ تو راندھا (لعنت کیا) گیا (ف۱۰۰)

38:78
وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸)
اور بیشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک (ف۱۰۱)

38:79
قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۷۹)
بولا اے میرے رب ایسا ہے تو مجھے مہلت دے اس دن تک کہ اٹھائے جائیں (ف۱۰۲)

{قَالَ رَبِّ: اس نے کہا: اے میرے رب!} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب شیطان مردود ہو گیا تو اس نے عرض کی ’’اے میرے رب!اگرایسا ہی ہے تو مجھے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام او ران کی اولاد کے فنا ہونے کے بعد جزا کے لئے اٹھائے جانے کے دن تک مہلت دے۔اس سے ابلیس کی مراد یہ تھی کہ وہ انسانوں  کو گمراہ کرنے کے لئے فراغت پائے اور ان سے اپنا بغض خوب نکالے اور موت سے بالکل بچ جائے کیونکہ اُٹھنے کے بعد موت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا: پس بیشک تو مُعَیّن وقت کے دن تک مہلت والوں  میں  سے ہے۔یہاں  مُعَیّن وقت سے قیامت کے پہلے نَفخہ تک کا وقت مراد ہے کہ جسے مخلوق کی فنا کے لئے مُعَیّن فرمایا گیا ہے۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۷۹-۸۱، ۸ / ۶۵)

          نوٹ:ابلیس کے مہلت طلب کرنے کا بیان سورۂ اَعراف کی آیت نمبر14اور سورۂ حجر کی آیت نمبر36میں  بھی گزر چکا ہے۔
38:80
قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَۙ(۸۰)
فرمایا تو تُو مہلت والوں میں ہے،

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

صٓ
صٓ
  00:00



Download

صٓ
صٓ
  00:00



Download