Surah Maryam
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{ كٓهٰیٰعٓصٓ: } یہ حروفِ مُقَطَّعات ہیں ،ان کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ:یہ تیرے رب کی رحمت کا ذکر ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم آپ کے سامنے جو بیان کررہے ہیں یہ آپ کے ربعَزَّوَجَلَّ کی اس رحمت کا ذکر ہے جو اس نے اپنے بندے حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فرمائی۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۲۲۸)
نیک بیٹا اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مراد نیک اور صالح بیٹا عطا فرمانا ہے اور بیٹا عطا فرمانے کے تذکرے کو رحمت ِ الہٰی کا تذکرہ فرمایا گیا ہے ،اس سے معلوم ہوا کہ نیک اور صالح بیٹا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بڑی رحمت ہے خصوصاً جب کہ بڑھاپے میں عطا ہو۔ یاد رہے کہ نیک اولاد سے جس طرح دنیا میں فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت کرتی ہے اور بڑھاپے میں ان کا سہارا بنتی ہے ، اسی طرح مرنے کے بعد بھی نیک اولاد اپنے والدین کو نفع پہنچاتی ہے ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اَعمال مُنقطع ہو جاتے ہیں لیکن تین عمل منقطع نہیں ہوتے (1) صدقۂ جاریہ۔ (2) علمِ نافع۔ (3) نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہتی ہے۔( مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، ص۸۸۶، الحدیث: ۱۴(۱۶۳۱)) لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ جب بھی اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعا مانگے تو نیک اولاد کی دعا مانگے یونہی اسے چاہئے کہ وہ اپنی موجودہ اولاد کو بھی نیک بنانے کی کوشش کرے تاکہ جب وہ دنیا سے جائے تو اس کے پیچھے اس کی بخشش کی دعا مانگنے والابھی کوئی ہو۔
{اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِیًّا:جب اس نے اپنے رب کوآہستہ سے پکارا۔} یعنی حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آہستہ آواز میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی ، مفسرین نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آہستہ آواز میں دعا مانگنے کی چند وجوہات ذکر کی ہیں:
(1)…آہستہ دعا مانگنے میں اخلاص زیادہ ہوتا ہے اور دعا مانگنے والا ریاکاری سے محفوظ رہتا ہے اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آہستہ دعا فرمائی ۔
(2)…لوگ اولاد کی دعا مانگنے پر ملامت نہ کریں کیونکہ اس وقت حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمرشریف 75 یا 80 سال تھی ۔
(3)…حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی آوازکمزوری کے باعث آہستہ ہوگئی تھی۔(مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۳، ص۶۶۷، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۲۹، ملتقطاً)
آہستہ آواز میں دعامانگنے کی فضیلت اوردعا مانگنے کا ایک ادب:
اس آیت میں حضرت زکریاعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آہستہ دعا مانگنے کا ذکر ہے ،آہستہ دعا مانگنے کی فضیلت کے بارے میں حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’آہستہ آواز میں دعا کرنا 70 بلند آواز کے ساتھ دعاؤں کے برابر ہے۔( مسند الفردوس، باب الدال، ۲ / ۲۱۴، الحدیث: ۳۰۴۶)
نیزاس سے معلوم ہوا کہ آہستہ آواز میں دعا مانگنا دعا کے آداب میں سے ہے۔ اسی ادب کی تعلیم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً‘‘(اعراف:۵۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اپنے رب سے گڑگڑاتے ہوئے اور آہستہآواز سے دعا کرو ۔
اور حضرت علامہ مولانا نقی علی خاں رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ دعا کے آداب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’دعا نرم و پَست آواز سے ہو کہ اللہ تعالیٰ سمیع و قریب ہے، جس طرح چِلانے سے سنتا ہے اسی طرح آہستہ (آواز بھی سنتا ہے) اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’بلکہ وہ اسے بھی سنتا ہے جو ہنوز (یعنی ابھی) زبان تک اصلاً نہ آیا یعنی دلوں کا ارادہ، نیت، خطرہ کہ جیسے اس کا علم تمام موجودات و معدومات کو محیط (یعنی گھیرے ہوئے) ہے یونہی اس کے سَمع و بَصر جمیع موجودات کو عام و شامل ہیں ، اپنی ذات و صفات اور دلوں کے ارادات و خطرات اور تمام اَعیان و اَعراضِ کائنات ہر شئے کو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی، نہ اس کا دیکھنا رنگ و ضَوء (یعنی روشنی) سے خاص نہ اس کا سننا آواز کے ساتھ مخصوص۔(فضائل دعا، فصل دوم آدابِ دعا واسبابِ اجابت میں ، ص ۷۶-۷۷)
مشورہ :دعا کے فضائل و آداب اور اس سے متعلق دیگر معلومات حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کے والد ماجد حضرت علامہ نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کی شاندار کتاب’’فضائل دعا‘‘[1]اور راقم کی کتاب’’ فیضانِ دعا‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔
نوٹ: حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دعا مانگنے سے متعلق انتہائی ایمان افروز کلام سورۂ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 37 اور 38 کے تحت مذکور تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں ۔
[1] ۔۔۔ یہ تسہیل و تخریج کے ساتھ مکتبۃ المدینہ نے بھی شائع کی ہے،وہاں سے خرید کر مطالعہ کر سکتے ہیں ۔
{قَالَ:عرض کی:} حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دعا مانگنے کا پورا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر شریف 75 یا 80 سال تک پہنچ چکی تھی مگرآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس اولاد جیسی نعمت نہ تھی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواپنے رشتہ داروں میں سے بھی کوئی ایسا نیک صالح مرد نظر نہیں آتا تھا کہ جوآپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کے بعد اس قابل ہوکہ وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا جانشین بنے اور اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے جودین کی خدمت آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سپرد تھی اس کوانجام دے سکے بلکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے کئی رشتہ دار شریر تھے اور آپ کوخوف تھا کہ کہیں میرے بعد یہ دین میں تبدیلیاں شروع نہ کردیں اسی وجہ سے آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت فکرمند رہا کرتے تھے ۔ یہی احساس جب بہت زیادہ بڑھا تو بالآخر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کردی کہ مجھے نیک صالح بیٹا عطا فرما جو تیرا بھی پسندیدہ ہو اور وہ میرے بعد میرا وارث بنے اور دین کی خدمت کرے۔
{اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ:بے شک میری ہڈی کمزور ہوگئی۔} حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی دعا کی ابتدا اس طرح کی کہ اے میرے مولیٰ ! عَزَّوَجَلَّ، تو جانتا ہے کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور بڑھاپے کی کمزوری اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ سب سے مضبوط عُضْوْ ہڈی میں کمزوری آ گئی ہے اور جب یہ کمزور ہو چکی تو باقی اَعضاء کا حال محتاجِ بیان نہیں اور میرے سرکے بال بھی سفید ہوچکے ہیں ، اور اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، آج سے پہلے تیری بارگاہ میں مَیں نے جوبھی دعائیں کی ہیں تونے وہ قبول کی ہیں ، لہٰذا مجھے امید ہے کہ تومیری یہ دعا بھی قبو ل کرے گا۔(مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۴، ص۶۶۷-۶۶۸)
آیت’’ رَبِّ اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…جب بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی جائے تو پہلے ان اُمور کو ذکر کیا جائے جن سے دعا مانگنے والے کی عاجزی و اِنکساری کا اظہار ہو۔
(2)…اپنی حاجت عرض کرنے سے پہلے اپنے اوپر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت و رحمت اور لطف و کرم کا ذکر کیا جائے ۔
(3)… پہلے جو دعا قبول ہو چکی اسے دوبارہ دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بنایا جائے۔
(4)… انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ اسی لیے ان سے دعائیں کرائی جاتی ہیں ، یونہی اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْسے بھی اسی لئے دعا کرنے کا عرض کیا جاتا ہے کہ ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔
{وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ:اور بیشک میں اپنے بعد اپنے رشتے داروں سے ڈرتا ہوں ۔} رشتہ داروں سے مراد چچازاد بھائی ہیں اور ڈر کی وجہ یہ تھی کہ وہ بنی اسرائیل کے شریر لوگ تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوخوف تھا کہیں میری وفات کے بعد یہ لوگ دین میں تبدیلی نہ کردیں اور صحیح طور پر دین کی خدمت نہ کریں ، اس وجہ سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے بعد کے لئے اپنی پشت سے نیک بیٹے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ دین کو زندہ رکھنے کے معاملے میں ان کی پیروی کرے ، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یوں عرض کی: اے میرے رب ! عَزَّوَجَلَّ، بیشک مجھے اپنے بعد اپنے رشتے داروں کی طرف سے دین میں تبدیلی کر دینے کا ڈر ہے اور میری بیوی بانجھ ہے جس سے اولاد نہیں ہو سکتی، تو مجھے اپنے پاس سے کسی سبب کے بغیر کوئی ایسا وارث عطا فرما دے جومیرے علم اور آلِ یعقوب کی نبوت کا وارث ہو (یعنی اسے اس قابل بنا دے کہ اس کی طرف وحی کی جا سکے) اور اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اسے ایسا بنا دے کہ تو اس سے راضی ہو اور وہ تجھ سے اور تیرے حکم سے راضی ہو۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۵-۶، ص۶۶۸) یاد رہے کہ جس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیٹے کے لیے دعا کی اس وقت آپ کی زوجہ کی عمر تقریباً 70 سال تھی۔
{وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا:اور اے میرے رب! اسے پسندیدہ بنا دے۔} حضرت زکریاعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیٹے کے لیے جو دعا کی تھی اس میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کے آخر میں فرمایا تھا کہ اسے اپنا پسندیدہ بندہ بنانا، اس میں بھی کئی راز پوشیدہ تھے ۔ اس میں ہمارے لئے نصیحت یہ ہے کہ جب بھی اولاد کی دعا مانگی جائے تو نیک صالح اولاد کی دعا مانگی جائے ، ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دعا مانگی اور قبول ہوئی اور اولاد مل گئی مگر اسی اولاد نے جینا حرام کردیا ہو۔
سورہِ مریم کی آیت 5اور 6سے حاصل ہونے والی معلومات:
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ چیزیں معلوم ہوئیں :
(1)… حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کانیک صالح بیٹے کے لیے دعاکرنادین کے لیے تھا،نہ کہ کسی دُنْیَوی غرض سے۔
(2)… انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وراثت علم وحکمت ہی ہوتی ہے لہٰذا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا میں اسی وراثت کا ذکر فرمایا ہے۔
(3)…بیٹے کی دعا کرنا سنت ِانبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے مگر اس لئے کہ وہ توشۂ آخرت ہو۔ البتہ یہ یاد رہے کہ بیٹی پیدا ہونے پر غم کرنا کفار کا طریقہ ہے۔
{ یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ:اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریاعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا قبول فرمائی اور ارشاد فرمایا ’’ اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جو آپ کی طلب کے مطابق (آپ کے علم اور آلِ یعقوب کی نبوت کا) وارث ہو گا، اس کا نام یحیٰ ہے اور اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا کہ ا س کا نام یحیٰ رکھا گیا ہو۔( جلالین، مریم، تحت الآیۃ: ۷، ص۲۵۴)
آیت ’’ یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ‘‘ سے متعلق تین باتیں :
یہاں اس آیتِ مبارکہ سے متعلق 3 باتیں قابلِ ذکر ہیں :
(1)… سورۂ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 39میں ذکر ہوا کہ حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے دعا مانگنے کے بعد فرشتوں نے انہیں حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بشارت دی اور اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بشارت دی ، اس کے بارے میں امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ہو سکتا ہے کہ بشارت دو مرتبہ دی گئی ہو یعنی ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ نے اور ایک مرتبہ فرشتوں نے بشارت دی ہو۔( تفسیر کبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۷، ۷ / ۵۱۲)
(2)…اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ان کا نام لے کر پکارا، اسی طرح دیگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو بھی قرآنِ مجید میں ان کانام لے کر پکارا گیا ہے، اس کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’قرآنِ عظیم کا عام محاورہ ہے کہ تمام انبیائے کرام کو نام لے کر پکارتا ہے، مگر جہاں محمَّد رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے خطاب فرمایا ہے حضور کے اَوصافِ جلیلہ و اَلقابِ جمیلہ ہی سے یاد کیا ہے (چنانچہ کہیں ارشاد فرمایا)
’’ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ‘‘(احزاب:۴۵) اے نبی ہم نے تجھے رسول کیا۔
(کہیں ارشاد فرمایا)
’’ یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ‘‘(مائدہ:۶۷) اے رسول پہنچا جو تیری طرف اترا ۔
(کہیں ارشاد فرمایا)
’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) قُمِ الَّیْلَ‘‘(مزمل:۱،۲) اے کپڑا اوڑھے لیٹنے والے رات میں قیام فرما۔
(کہیں ارشاد فرمایا)
’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱) قُمْ فَاَنْذِرْ‘‘(مدثر:۱،۲) اے جھرمٹ مارنے والے کھڑا ہو ،لوگوں کو ڈر سنا۔
(کہیں ارشاد فرمایا)
’’ یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘(یس: ۱-۳)
اے یٰس !،،یا،، اے سردار! مجھے قسم ہے حکمت والے قرآن کی، بے شک تو مُرسَلوں سے ہے ۔
(کہیں ارشاد فرمایا)
’’طٰهٰۚ(۱) مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰى‘‘(طہ:۱،۲)
اے طہ! ،،یا،، اے پاکیزہ رہنما! ہم نے تجھ پر قرآن اس لیے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑے ۔
ہر ذی عقل جانتا ہے کہ جو ان نداؤں اور ان خطابوں کو سنے گا، بِالبداہت حضور سیّد المرسَلین و اَنبیائے سابقین کا فرق جان لے گا۔ ۔۔امام عزّالدین بن عبد السّلام وغیرہ علمائے کرام فرماتے ہیں ’’ بادشاہ جب اپنے تمام اُمرا کو نام لے کر پکارے اور ان میں خاص ایک مقرب کو یوں ندا فرمایا کرے : اے مقربِ حضرت، اے نائب ِسلطنت ،اے صاحبِ عزت ، اے سردارِ مملکت! تو کیا (اس بات میں ) کسی طرح محلِ رَیب وشک باقی رہے گا کہ یہ بندہ بارگاہِ ِسلطانی میں سب سے زیادہ عزت و وَجاہت والا اور سرکارِ سلطانی کو تمام عَمائد و اَراکین سے بڑھ کر پیارا ہے۔( فتاوی)
(3)… اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکویہ فضیلت عطا فرمائی کہ ان کی ولادت سے پہلے ہی ان کا نام رکھ دیا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی یہ فضیلت عطا ہوئی کہ ان کی ولادت سے پہلے ہی ان کا نام بتا دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو مقام عطا کیا وہ تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بڑھ کر ہے کہ میثاق کے دن تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی محفل میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تذکرہ فرمایا، انسان کی تخلیق کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ہی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اسمِ گرامی کو اپنے نام کے ساتھ عرش کے پایوں پر لکھ دیا اور ان کے اسمِ گرامی کے وسیلے سے جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرفِ قبولیَّت عطا فرمایا، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان کے اپنی اولاد میں ہونے کی دعا مانگی اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا اسمِ مبارک بتا کر صدیوں پہلے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دنیا میں تشریف آوری کی بشارت دی اور یہ وہ مرتبۂ عُظمیٰ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سوا اور کسی کو عطا نہیں فرمایا۔
{قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ:عرض کی:اے میرے رب میرے لڑکا کہاں سے ہوگا۔} حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب بیٹے کی خوشخبری سنی تو عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میرے ہاں لڑکا کس طرح ہوگا کیونکہ میری بیوی نے اپنی اور میری جوانی کے زمانے میں بچہ نہیں جنا تو اب بڑھاپے کی حالت میں وہ کس طرح جنے گی اور میں بھی بڑھاپےکی وجہ سے خشک لکڑی کی طرح سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ چکا ہوں ۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۸، ۵ / ۳۱۶-۳۱۷)
یاد رہے کہ حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے اس طرح عرض کرنے میں اللہ عَزَّوَجَلَّکی قدرت پر کسی عدمِ یقین کا اظہار نہیں تھا بلکہ معلوم یہ کرناتھا کہ بیٹاکس طرح عطا کیا جائے گا، کیا ہمیں دوبارہ جوانی عطاکی جائے گی یااسی عمرمیں بیٹا عطا کیا جائے گا۔
نوٹ:حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا یہ کلام سورۂ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 40 میں بھی گزر چکا ہے۔
{قَالَ كَذٰلِكَ: فرمایا ایسا ہی ہے۔} حضرت زکریاعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عرض کے جواب میں یہاں فرمایا گیا کہ بیٹا اسی حالت میں دیا جائے گا اور یہ میرے اوپر بہت آسان ہے کہ میں بڑھاپے کے عوارض دور کر کے آپ میں جوانوں کی سی قوت و توانائی پیدا کردوں اور آپ کی بیوی کے مرض کو دور کر کے انہیں صحت عطا کر دوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے آپ کو اس وقت پیدا کر دیا جب آپ کچھ بھی نہ تھے تو جو رب تعالیٰ معدوم کو موجود کرنے پر قادر ہے وہ بڑھاپے میں اولاد عطا فرمانے پر بھی یقینا قادر ہے ۔
{قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً:عرض کی: اے میرے رب!میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرمادے۔} حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوجب یہ بتا دیا گیا کہ اسی عمر میں بیٹا عطا ہوگا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید عرض کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میری بیوی کے حاملہ ہونے کی کوئی نشانی بتادی جائے تاکہ میں اس وقت سے تیری ا س عظیم نعمت کا شکرادا کرنے میں مشغول ہو جاؤں ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ آپ کے لئے آپ کی زوجہ کے حاملہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ آپ صحیح سالم ہونے کے باوجود اور گونگا ہونے کے بغیرتین دن رات لوگوں سے کلام نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان ایام میں آپ لوگوں سے کلام کرنے پر قادر نہ ہوئے ، البتہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہتے تو زبان کھل جاتی تھی۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۵ / ۳۱۷-۳۱۸، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۲۳۰، ملتقطاً)
حقیقی مُؤثِّر اللہ تعالیٰ ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو گُنگ کی بیماری نہ ہوگی کیونکہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس بیماری سے محفوظ ہیں ۔ نیز یہ نشانی بھی بڑی دلچسپ تھی کہ ذِکْرُ اللہ کریں تو بالکل آسانی سے ہوجائے اور لوگوں سے کلام فرمانا چاہیں تو نہ کرسکیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مُؤثِّرِ حقیقی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے اور بقیہ اَشیاء صرف اَسبابِ ظاہری ہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو آگ سے پیاس بجھے اور پانی سے آگ لگے ۔ آگ کا جلانا اور پانی کا پیاس بجھانا سب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے کرنے سے ہے۔
{فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ:پس وہ اپنی قوم کی طرف مسجد سے باہر نکلے۔} ایک دن حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس جگہ سے باہر نکلے جہاں وہ نماز ادا کیا کرتے تھے اور لوگ محراب کے پیچھے انتظار میں تھے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے لئے دروازہ کھولیں تو وہ داخل ہوں اور نماز پڑھیں ، جب حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام باہر آئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا رنگ بدلا ہوا تھا اور آپ گفتگو نہیں فرما سکتے تھے ۔یہ حال دیکھ کر لوگوں نے دریافت کیا: کیا حال ہے؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے انہیں اشارہ سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہو اور عادت کے مطابق فجر و عصر کی نمازیں ادا کرتے رہو ، اب حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے کلام نہ کر سکنے سے جان لیا کہ آپ کی بیوی صاحبہ حاملہ ہو گئی ہیں۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۲۳۰، جلالین، مریم، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۲۵۴، ملتقطاً)
{یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ:اے یحیٰ !کتاب کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو ۔} حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کے بعد جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی عمر دو سال ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ اے یحیٰ ! کتاب توریت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور اس پر عمل کی بھرپور کوشش کرو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی جب کہ آپ کی عمر شریف تین سال کی تھی ، اس وقت میں اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے آپ کو کا مل عقل عطا فرمائی اور آپ کی طرف وحی کی ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا یہی قول ہے اور اتنی سی عمر میں فہم و فراست اور عقل و دانش کا کمال، خَوارقِ عادات (یعنی انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات) میں سے ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے کرم سے یہ حاصل ہو تو اس حال میں نبوت ملنا کچھ بھی بعید نہیں ، لہٰذا اس آیت میں حکم سے نبوت مراد ہے اور یہی قول صحیح ہے ۔ بعض مفسرین نے اس سے حکمت یعنی توریت کا فہم اور دین میں سمجھ بھی مراد لی ہے۔( جلالین، مریم، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۲۵۴، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۲۳۰، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۶۶۹، تفسیر کبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۵۱۶-۵۱۷، ملتقطاً)
ہماری پیدائش کا اصلی مقصد:
حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ میرے بھائی حضرت یحیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر رحم فرمائے، جب انہیں بچپن کی حالت میں بچوں نے کھیلنے کے لئے بلایا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے (ان بچوں سے) کہا: کیا ہم کھیل کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ؟ (ایسا نہیں ہے، بلکہ ہمیں عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہی ہم سے مطلوب ہے۔ جب نابالغ بچہ اس طرح کہہ رہا ہے تو )اس بندے کا قول کیسا ہونا چاہئے جو بالغ ہو چکا ہے۔( ابن عساکر، حرف الیاء، ذکر من اسمہ یحی، یحی بن زکریا بن نشوی۔۔۔ الخ، ۶۴ / ۱۸۳)
اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں پیدا کئے جانے کا اصلی مقصد یہ نہیں کہ ہم کھیل کود اور دُنْیَوی عیش و لذّت میں اپنی زندگی بسر کریں بلکہ ہماری پیدائش کا اصلی مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔اسی چیز کو قرآنِ مجید میں اس طرح بیا ن کیا گیا ہے کہ :
’’اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘(مومنون:۱۱۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایااور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟
اور ارشاد فرمایا کہ:
’’وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘ (ذاریات:۵۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں فضول اور بیکار کاموں اور اُخروی تیاری سے غافل کر دینے والے اُمور سے بچنے اور ہمیں اپنی اطاعت و عبادت میں زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا:اور اپنی طرف سے نرم دلی دی۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی 3 صفات بیان فرمائی ہیں ۔
(1)… اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں رِقَّت و رحمت رکھی تا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لوگوں پر مہربانی کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں ۔
(2)… اللہ تعالیٰ نے انہیں پاکیزگی دی ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ یہاں پاکیزگی سے طاعت و اخلاص مراد ہے۔ اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ پاکیزگی سے مراد عملِ صالح ہے۔( بغوی، مریم، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۱۵۹)
(3)… وہ اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے خوف سے بہت گریہ و زاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رخسار مبارکہ پر آنسوؤں سے نشان بن گئے تھے ۔
حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نرم دلی اور رحمت:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی نرم دلی اور رحمت ان الفاظ ’’ وَ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا‘‘کے ساتھ بیان فرمائی ،اور اپنے حبیبصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نرم دلی اور امت پر شفقت ورحمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
’’ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ‘‘ (اٰل عمران:۱۵۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:تو اے حبیب! اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں ۔اور ارشاد فرمایا: ’’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی کمال درجے کی نرم دلی ، امت کی بھلائی کی حرص اور مسلمانوں پر شفقت و رحمت عطا کی ہے ۔
نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپاک کرنے والے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے اپنی طرف سے انہیں پاکیزگی دی۔ اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بارے میں ارشاد فرمایا :
’’لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘(اٰل عمران:۱۶۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے۔وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا خوفِ خدا:
اس آیت میں حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بارے میں ارشاد ہو اکہ وہ اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے،اس مناسبت سے یہاں حبیبِ خدا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خوفِ خدا کی تین روایات ملاحظہ ہوں ، چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ خدا کی قسم! میں تم سب میں اللہ عَزَّوَجَلَّسے زیادہ ڈرنے والا اور خوف کرنے والا ہوں ۔( بخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح، ۳ / ۴۲۱، الحدیث: ۵۰۶۳)
حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ہم حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ ایک جنازے میں شریک تھے، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبر کے کنارے بیٹھے اور اتنا روئے کہ آپ کی چشمانِ اقدس سے نکلنے والے آنسوؤں سے مٹی نم ہوگئی ۔ پھر ارشاد فرمایا ’’اے بھائیو! اس قبر کے لئے تیاری کرو۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الحزن والبکاء، ۴ / ۴۶۶، الحدیث: ۴۱۹۵)
حضرت عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں : جب آندھی اور بادل والا دن ہوتا تورسولِ اکرمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرہ ٔ اقدس کا رنگ مُتَغَیّر ہوجاتا اور آپ کبھی حجرہ سے باہر تشریف لے جاتے اور کبھی واپس آجاتے، پھر جب بارش ہو جاتی تو یہ کَیْفِیّت ختم ہوجاتی۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا ’’(اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا،) مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں یہ بادل، اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب نہ ہو جو میری امت پر بھیجا گیا ہو۔(شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۴۶، الحدیث: ۹۹۴)
{وَ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ:اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والاتھا۔} اس آیت میں حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مزید3صفات بیان کی گئی ہیں ۔
(1)… آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کے بعد والدین کی خدمت سے بڑھ کرکوئی طاعت نہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ کایہ قول دلالت کرتاہے:
’’وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا‘‘(بنی اسرائیل۲۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
(2،3)… آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تکبرکرنے والے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے نافرمان نہیں بلکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عاجزی وانکساری کرنے والے اوراپنے رب عَزَّوَجَلَّکی اطاعت کرنے والے تھے ۔یہاں جَبّارکے معنی متکبر کے ہیں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ جَبّار وہ شخص ہوتاہے جوغصہ میں مارے اور قتل کرے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۲۳۰)
لفظِ’’جَبّار‘‘ کے مختلف معنی:
یاد رہے کہ جبار کا لفظ جب مخلوق کیلئے آئے تو اس کا معنی متکبر ہوتا ہے اور اگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے آئے جیسے جبار اس کی صفت ہے تو اس کا معنی بالکل مختلف ہوتا ہے، جیسے ایک معنی ہے: وہ ذات جو اپنی مخلوق پر عالی ہے۔ دوسرا معنی ہے: وہ جو معاملات کو سدھار دیتا ہے ۔ تیسرا معنی ہے: وہ جو اپنے ارادے میں غالب ہے۔ چوتھا معنی ہے: وہ کہ جس کی سلطنت میں اس کے حکم کے سوا کسی کا حکم نہ چل سکے۔ یہ سب معانی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے شایانِ شان ہیں ۔
تکبر سے بچنے کی فضیلت اور عاجزی کے فضائل:
یہاں آیت میں بیان ہوا کہ حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامتکبر کرنے والے نہیں تھے، اس مناسبت سے تکبر سے بچنے کی فضیلت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اس حال میں مَرا کہ وہ تین چیزوں سے بَری تھا: تکبر، خیانت اور دَین (قرض)،تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔( ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی الغلول، ۳ / ۲۰۸، الحدیث: ۱۵۷۸) نیز عاجزی کے فضائل پر مشتمل 3اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت
قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری طرف وحی فرمائی کہ تم لوگ اتنی عاجزی اختیار کرو یہاں تک کہ تم میں
سے کوئی کسی پرنہ فخر کرے نہ کسی پر ظلم
کرے۔(مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا فی
الدنیا اہل الجنّۃ واہل النار، ص۱۵۳۳، الحدیث: ۶۴(۲۸۶۵))
(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ بندے کے دوسروں کو معاف کردینے کی وجہ سے اس کی عزت میں اضافہ فرما دیتا ہے اور جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے بلندی عطا فرماتا ہے ۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب استحباب العفو والتواضع، ص۱۳۹۷، الحدیث: ۶۹(۲۵۸۸))
(3)… حضرت رَکْب مصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’خوشخبری ہے اس کے لئے جوعیب نہ ہونے کے باوجود تواضع اختیار کرے ،اورمسکینی کے بغیر خود کوذلیل سمجھے ،اور اپنا جمع کیا ہوا مال نیک کاموں میں خرچ کرے ، اور بے سروسامان اور مسکین لوگوں پررحم کرے اور علم وحکمت والے لوگوں سے میل جول رکھے ، اور خوش بختی ہے اس کے لئے جس کی کمائی پاکیزہ ہو، باطن اچھا ہو، ظاہر بزرگی والا ہو اور جو لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے ،اور سعادت مندی ہے اس کے لئے جواپنے علم پرعمل کرے ، اپنی ضرورت سے زائد مال کوراہِ خدا میں خرچ کرے اور فضول گوئی سے رک جائے۔( معجم الکبیر، باب الرائ، رکب المصری، ۵ / ۷۱، الحدیث: ۴۶۱۶) اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر سے بچنے اور عاجزی و انکساری اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔([1])
[1] …تکبر سے بچنے اور عاجزی کے
فضائل اور دیگر معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’تکبر‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا
مطالعہ فرمائیں ۔
{وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ:اور اس پر سلامتی ہے ۔} یعنی جس دن حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا ہوئے اس دن ان کے لئے شیطان سے امان ہے کہ وہ عام بچوں کی طرح آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکونہ چھوئے گا اور جس دن آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وفات پائیں گے اس دن ان کے لئے عذابِ قبرسے امان ہے اور جس دن آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو زندہ اٹھایا جائے گا اس دن ان کے لئے قیامت کی سختی سے امان ہے ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ پیدا ہونے، وفات پانے اور زندہ اٹھائے جانے کے یہ تینوں دن بہت وحشت ناک ہیں کیونکہ ان دنوں میں آدمی وہ دیکھتا ہے جو اِس سے پہلے اُس نے نہیں دیکھا ، اس لئے ان تینوں مَواقع پرانتہائی وحشت ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اِکرام فرمایا کہ انہیں ان تینوں مواقع پر امن و سلامتی عطا فرمائی۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۲۳۰-۲۳۱)
حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کہ انسان کوتین دنوں میں وحشت کا سامنا ہوتا ہے، جب وہ پیدا ہوتا ہے تو وہ ماں کے پیٹ سے باہر آکر ایک نئی دنیا کا سامنا کرتا ہے اور وہ جب مرتا ہے توایسی قوم دیکھتاہے جسے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوتا اور جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو اپنے آپ کوایک عظیم محشرمیں پائے گا جس کی مثل اس نے کبھی نہ دیکھا ہوگا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوان تینوں وقتوں میں امان وسلامتی کا مژدہ دیا۔( بغوی، مریم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۱۵۹) یاد رہے کہ سلامتی تو یقینا ہر نبیعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حاصل ہے لیکن بطورِ خاص اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بشارت دینا ایک جداگانہ فضیلت رکھتا ہے۔
ولادت کے دن خوشی کرنے اور وفات کے دن غم کا اظہار نہ کرنے کی وجہ:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی ولادت کے دن ان پر سلام بھیجا،ا س سے معلوم ہو اکہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی ولادت کے دن ان پر سلام بھیجنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، اسی وجہ سے اہلسنّت وجماعت بارہ ربیع الاوّل کے دن اللہ تعالیٰ کے حبیب اور تمام اَنبیاء کے سردار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ولادت کا دن مناتے ہیں اور اس دن آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر درود وسلام کی کثرت کرتے ہیں ، نظم و نثر کی صورت میں آپ کی شان اور آپ کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہیں ۔ فی زمانہ کچھ لوگ اسی آیتِ مبارکہ کو بیان کر کے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی وفات کے دن بھی ان پر سلام بھیجا گیا ہے اس لئے تم جس طرح رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے میلاد کا دن خوشی کا اظہار کر کے مناتے ہو اسی طرح ان کی وفات کا دن بھی غم ظاہر کر کے منایا کرو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآنِ مجید میں اپنی نعمت کا چرچا کرنے اور اپنا فضل و رحمت ملنے پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے اور چونکہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے بڑی اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت نہیں اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہی اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل اور سب سے بڑی رحمت ہیں اس لئے جس دن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَعطا کیا اس دن ہم آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا میلاد مناتے ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عظمت و شان کے چرچے کرتے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دنیا میں تشریف آوری کے دن خوشیاں مناتے ہیں ۔
{وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ:اور کتاب میں مریم کو یاد کرو۔} اس سے پہلی آیات میں حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان ہوا کہ انہیں بڑھاپے کی حالت میں اور زوجہ کے بانجھ ہونے کے باجود اللہ تعالیٰ نے ایک نیک اور صالح بیٹا عطا فرمایا اور یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بہت بڑی دلیل ہے، اب یہاں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والا ایک اور انتہائی حیرت انگیز واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ قرآنِ کریم میں حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکا واقعہ پڑھ کر ان لوگوں کو سنائیے تاکہ انہیں ان کا حال معلوم ہو ، جب وہ اپنے گھر والوں سے مشرق کی طرف ایک جگہ الگ ہوگئی اوراپنے مکان میں یا بیت المقدس کی شرقی جانب میں لوگوں سے جدا ہو کر عبادت کے لئے خَلْوَت میں بیٹھیں ۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۶۶۹-۶۷۰)
حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کی فضیلت:
مریم کے معنی ہیں عابدہ، خادمہ۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہابچپن سے بیت ُالمقدس کی خادمہ تھیں اور وہاں رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتی تھیں اور حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکے فضائل میں سے ہے کہ قرآنِ کریم میں عورتوں میں سے صرف آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کا نامِ مبارک ذکر کیا گیا ہے، نیز آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کی شان کے بارے میںسورۂ اٰلِ عمران میں فرمایا گیا
’’وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ‘‘(اٰل عمران:۴۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا، اے مریم، بیشک اللہ نے تمہیں چن لیاہے اور تمہیں خوب پاکیزہ کردیا ہے اور تمہیں سارے جہان کی عورتوں پر منتخب کرلیا ہے۔
نوٹ: حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کی ولادت اور پرورش کے واقعات سورۂ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 35 تا 37 میں بیان ہوئے اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکی عبادت و ریاضت کاذکر آیت نمبر 43میں کیا گیا ہے۔
{فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا:تو ان سے ادھر ایک پردہ کرلیا۔} جب حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاخَلْوَت میں تشریف لے گئیں تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا نے اپنے اور گھر والوں کے درمیان پردہ کر لیا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکی طرف حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامکو بھیجا تو آپ عَلَیْہِ السَّلَامحضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کے سامنے نوجوان، بے ریش، روشن چہرے اور پیچ دار بالوں والے آدمی کی صورت میں ظاہر ہوئے۔حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کے انسانی شکل میں آنے کی حکمت یہ تھی کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا ان کے کلام سے مانوس ہو جائیں اور ان سے خوف نہ کھائیں کیونکہ اگر حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اپنی ملکوتی شکل میں تشریف لاتے تو حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا خوفزدہ ہو جاتیں اور آپ عَلَیْہِ السَّلَامکا کلام سننے پر قادر نہ ہوتیں ۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۶۷۰، ملتقطاً)
نوری وجود بشری صورت میں آ سکتا ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نور ی وجود بشری صورت میں آسکتا ہے۔ حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام فرشتہ ہیں ،نور ہیں اور حضرت مریم کے پاس بشری شکل میں ظاہر ہوئے، اس وقت اس بشری شکل کی وجہ سے (حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام) نورانیت سے علیحدہ نہیں ہو گئے ۔صحابہ کرام نے حضرت جبریل کو بشری شکل میں دیکھا، سیاہ زلفیں ، سفید لباس ، آنکھ، ناک، کان وغیرہ سب موجود ہیں ، اس کے باوجود بھی وہ نور تھے ، اسی طرح حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت داؤدعَلَیْہِمُ السَّلَام کے خدمات میں فرشتے شکلِ بشری میں گئے۔ رب فرماتا ہے: ’’هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ(۲۴) اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌۚ-قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ‘‘(ذاریات:۲۴ ،۲۵)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے محبوب! کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔جب وہ اس کے پاس آئے تو کہا: سلام،(حضرت ابراہیم نے)فرمایا، ’’سلام ‘‘(تم)اجنبی لوگ ہو۔)
(اور فرماتا ہے)
’’وَ هَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِۘ-اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَۙ(۲۱) اِذْ دَخَلُوْا عَلٰى دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْۚ-خَصْمٰنِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰى بَعْضٍ‘‘(ص:۲۱ ،۲۲)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تمہارے پاس ان دعویداروں کی خبر آئی جب وہ دیوار کود کر مسجد میں آئے ۔جب وہ داؤد پر داخل ہوئے تو وہ ان سے گھبرا گیا۔ انہوں نے عرض کی: ڈرئیے نہیں ہم دو فریق ہیں ، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔)
(اور فرماتا ہے)
’’ وَ لَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالُوْا لَا تَخَفْ وَ لَا تَحْزَنْ- اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَ اَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ‘‘(عنکبوت:۳۳)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے توانہیں فرشتوں کا آنا برا لگا اور ان کے سبب دل تنگ ہوا اورفرشتوں نے کہا: آپ نہ ڈریں اور نہ غمگین ہوں ، بیشک ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو بچانے والے ہیں سوائے آپ کی بیوی کے کہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔)
ان تمام آیتوں سے معلوم ہوا کہ فرشتے انبیاءِ کرام کی خدمت میں انسانی شکل بشری صورت میں حاضر ہوتے تھے، مگر اس کے باوجود وہ نور بھی ہوتے تھے، غرضیکہ نورانیت و بشریت ضدیں نہیں ۔( رسائل نعیمیہ، رسالہ نور، ص۷۸-۷۹)
{قَالَتْ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ:مریم بولی: میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں۔} جب حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا نے خَلْوَت میں اپنے پاس ایک بے ریش نوجوان کو دیکھا تو خوفزدہ ہوگئیں اور فرمایا کہ میں تجھ سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ مانگتی ہوں ، اگر تم میں کچھ خدا خوفی ہے تویہاں سے چلے جاؤ۔ اس کلام سے آپ کی انتہائی پاکدامنی اور تقویٰ کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے چیخ کر کسی او ر کو آواز نہ دی بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے پناہ مانگی تاکہ اس واقعہ کی کسی کو خبر نہ ہو ۔
{قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ: کہا:میں توتیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں ۔} جب حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا خوفزدہ ہوئیں تواس وقت حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامنے کہا کہ میں فرشتہ ہوں اور تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں تاکہ میں تمہیں ایک ستھرا اور پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔
آیت’’لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے 3 باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے اللہ تعالیٰ کے بعض کاموں کو اپنی طرف منسوب کر سکتے ہیں ، جیسے کسی کوبیٹا دینا در حقیقت اللہ تعالیٰ کا کام ہے لیکن حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامنے فرمایا کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔
(2)… اللہ تعالیٰ کے بعض کام اس کے بندوں کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں ، لہٰذا یہ کہنا درست ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنت دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اَولیاء اولاد دیتے ہیں، وغیرہ۔
(3)… اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کو اولاد عطا کرنے کی طاقت اور اجازت دیتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت واجازت سے اولاد عطا بھی کرتے ہیں ، جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامکو بیٹا دینے کی طاقت اور اجازت دی اور آپ عَلَیْہِ السَّلَامنے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت اور اجازت سے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کو بیٹا عطا کیا۔
{قَالَتْ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ:کہا: میرے لڑکا کہاں سے ہوگا؟} حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے جب حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکوبیٹے کی خوشخبری دی توآپ حیران ہوگئیں اور کہنے لگیں : کسی عورت کے ہاں اولاد ہونے کا جو ظاہری سبب ہے وہ مجھ میں پایا نہیں جا رہا کیونکہ نہ تو میرا کسی سے نکاح ہوا ہے اور نہ ہی میں بدکار عورت ہوں تو پھر میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہو گا؟ یاد رہے کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکی یہ حیرانی اس وجہ سے نہ تھی کہ آپ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے یہ کام بعید سمجھتی تھیں بلکہ آپ اس لئے حیران ہوئی تھیں کہ باپ کے بغیر اولاد کا ہونا خلافِ عادت تھا اور عادت کے برخلاف کام ہونے پر حیرت زدہ ہو جانا ایک فِطرتی امر ہے۔
{قَالَ كَذٰلِكِ:جبرئیل نے کہا : ایسا ہی ہے۔} حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے جواب دیا: اے مریم! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا، اللہ تعالیٰ کی مرضی یہی ہے کہ وہ آپ کو کسی مرد کے چھوئے بغیر ہی لڑکا عطا فرمائے اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کے رب عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا ہے کہ آپ کو بغیر باپ کے بیٹا دینا میرے اوپر بہت آسان ہے، کیونکہ میں اَسباب اور واسطوں کا محتاج نہیں ہوں اور آپ کو اس طرح بیٹا دینے میں ایک حکمت یہ ہے کہ ہم اسے لوگوں کیلئے نشانی اور اپنی قدرت کی بُرہان بنا دیں اور اُن لوگوں کے لئے اپنی طرف سے ایک رحمت بنا دیں جو اِس کے دین کی پیروی کریں اور اِس پر ایمان لائیں اور یہ ایسا کام ہے جس کا اللہ تعالیٰ کے علم میں فیصلہ ہوچکا ہے جو کہ اب نہ رد ہو سکتا ہے اور نہ بدل سکتا ہے ۔ جب حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کو اطمینان ہوگیا اور ان کی پریشانی جاتی رہی تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے ان کے گریبان میں ،، یا،، آستین میں ،، یا،، دامن میں ،، یا،، منہ میں دم کیا اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اسی وقت حاملہ ہوگئیں ۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۱-۲۲، ۳ / ۲۳۱، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۶۷۰، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۲۱، ۵ / ۳۲۳، ملتقطاً)
{فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا:پھر مریم حاملہ ہوگئیں تواسے لے کر ایک دور کی جگہ چلی گئی۔} جب حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کوحمل کے آثار ظاہر ہوئے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکو اِلہام کیا کہ وہ اپنی قوم سے علیحدہ چلی جائیں ،اس لئے وہ بیتُ اللّحم میں چلی گئیں ۔
یوسف نجار کے سوال کا جواب:
منقول ہے کہ سب سے پہلے جس شخص کو حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکے حمل کا علم ہواوہ ان کا چچا زاد بھائی یوسف نجار تھا جو مسجد بیت المقدس کا خادم تھا اور بہت بڑا عابد شخص تھا ۔ اس کو جب معلوم ہوا کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا حاملہ ہیں تواسے نہایت حیرت ہوئی ۔ وہ جب چاہتا کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا پر تہمت لگائے تو اُن کی عبادت و تقویٰ، ان کا ہر وقت کا حاضر رہنا اور کسی وقت غائب نہ ہونا یاد کرکے خاموش ہوجاتا تھا اور جب حمل کا خیال کرتا تو اُن کو بَری سمجھنا مشکل معلوم ہوتا ۔ بالآخر اُس نے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا سے کہا کہ میرے دِل میں ایک بات آئی ہے ہر چند چاہتا ہوں کہ زبان پر نہ لاؤں مگر اب صبر نہیں ہوتا ہے ، آپ اجازت دیجئے کہ میں کہہ گزروں تاکہ میرے دل کی پریشانی رفع ہو۔ حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہانے کہا کہ اچھی بات کہو۔ تو اُس نے کہا کہ اے مریم! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا، مجھے بتاؤ کہ کیا کھیتی بغیر بیج کے اور درخت بغیر بارش کے اور بچہ بغیر باپ کے ہوسکتا ہے؟ حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہانے فرمایا کہ ہاں ، کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سب سے پہلے کھیتی پیدا کی وہ بغیربیج ہی کے پیدا کی اور درخت اپنی قدرت سے بغیر بارش کے اگائے، کیا تو یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پانی کی مدد کے بغیر درخت پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ یوسف نے کہا :میں یہ تو نہیں کہتا بے شک میں اس کا قائل ہوں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہر شے پر قادر ہے ،جسے کُن فرمائے وہ ہوجاتی ہے۔ حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا نے کہا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کی بیوی کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا۔ حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکے اس کلام سے یوسف کا شُبہ رفع ہوگیا اور حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا حمل کے سبب سے ضعیف ہوگئیں تھیں اس لئے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کی نِیابَت کے طور پر مسجد کی خدمت وہ سر انجام دینے لگا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۲،۳ / ۲۳۲)
تمام مخلوقات کو پہلی بار اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا:
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں جتنی مخلوقات پیدا فرمائیں ان تمام کی پہلی بار پیدائش اس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے فرمائی اور اس کے بعد جن مخلوقات کی افزائش منظور تھی ان کی افزائش کے لئے ظاہری اَسباب مقرر فرمائے اور ان اَسباب کے ذریعے مخلوقات کی افزائش ہوئی، نیز اَسباب مقرر کرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے اِظہار کے لئے بعض مخلوقات کو ان کے ظاہری سبب کے بغیر پیدا فرمایا جیسے حضرت حوّا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی پسلی سے پیدا فرما یا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو بغیر باپ کے پیدا فرمایا۔ کائنات میں اَشیاء کے پہلی بار وجود میں آنے سے متعلق یہ وہ مُعْتَدِل نظریہ ہے جو عقل اور شریعت کے عین موافق ہے جبکہ اس کے برعکس دَہْرِیّوں کے نظریات عقل و نظر کے صریح مخالف ہیں کہ ان کے نظریات کی رُو سے کسی شے کی کوئی ابتداء بنتی ہی نظر نہیں آتی۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والی چیزوں میں غورو فکر کرنا اور ان چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل تلاش کرنے کے لئے تحقیق اور جستجو کرنا بہت عمدہ کام ہے کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت دلائل کے ساتھ معلوم ہوتی ہے اور یوں کفار کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ا س کی وحدانیت کا اعتراف کرنے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی راہیں کھلتی ہیں اور مسلمانوں کا اپنے رب تعالیٰ پر ایمان مزید مضبوط ہوتا ہے۔
{فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِۚ:پھر بچے کی پیدائش کا درد اسے ایک کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔} جب ولادت کاوقت قریب آیا اور درد کی شدت زیادہ ہوئی تو حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکھجور کے ایک سوکھے درخت کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ اب درد کی بھی شدّت تھی اور دوسری طرف مستقبل کے معاملات بھی تھے کہ اگرچہ میں تو مطمئن ہوں مگرلوگوں کوکیسے مطمئن کروں گی چنانچہ اسی پریشانی کی شدّت سے کہا کہ اے کاش میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی یابھولی بسری ہوجاتی تا کہ یہ تمام معاملات پیش نہ آتے ۔
{فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَاۤ اَلَّا تَحْزَنِیْ:تو اسے اس کے نیچے سے پکارا کہ غم نہ کھا۔} جب حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا نے درد کی شدت سے مرنے کی تمنا کی تواس وقت حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے وادی کے نیچے سے پکاراکہ غم نہ کرو، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے لیے آپ کے قریب ایک نہر بنا دی ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یا حضرت جبرئیلعَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی ایڑی زمین پر ماری تو میٹھے پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا ، کھجور کا درخت سرسبز ہو کرپھل لایا اور وہ پھل پختہ اور رس دار ہو گئے ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس جگہ ایک خشک نہر تھی جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے جاری کر دیا اور کھجور کا خشک درخت سرسبز ہو کر پھل دار ہوگیا۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۶۷۱، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۳۲، ملتقطاً)
{وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ:اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ۔} حضرت مریم!رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا، سے کہا گیا کہ آپ جس سوکھے تنے کے نیچے بیٹھی ہیں اسے اپنی طرف حرکت دیں تو اس سے آپ پر عمدہ اور تازہ پکی ہوئی کھجوریں گریں گی ۔
اس سے معلوم ہوا کہ حمل کی حالت میں عورت کے لئے کجھور کھانا فائدہ مند ہے۔ کھجور میں آئرن بہت ہوتا ہے جو بچے کی صحت و تندرستی میں بہت معاون ہوتا ہے، البتہ اس حالت میں کھجوریں اپنی طبعی حالت کو پیشِ نظر رکھ کر ہی کم یا زیادہ کھائی جائیں ۔
حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا پر اللہ تعالیٰ کی عنایت و کرم نوازی:
اگر بنظر ِغائر دیکھا جائے تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی پیدائش کے وقت سے ہی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکواپنی قدرتِ کاملہ کے کئی نظارے دکھا کر تسلی دی کہ دیکھوجوذات تیرے لئے خشک نہر سے پانی جاری کرسکتی ہے اور خشک درخت سے پکی ہوئی کھجوریں ظاہر کرسکتی ہے وہ آئندہ بھی تمہیں بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گی لہٰذا تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کرامتوں ،عنایتوں ،شفقتوں پر نظر کرو اور غم وپریشانی کا اِظہار مت کرو۔
{فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًا:تو کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاسے فرمایا گیا کہ آپ کھجوریں کھائیں اور پانی پئیں اور اپنے فرزند حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے اپنی آنکھ ٹھنڈی رکھیں ، پھر اگر آپ کسی آدمی کو دیکھیں کہ وہ آپ سے بچے کے بارے میں دریافت کرتا ہے تو اشارے سے اسے کہہ دیں کہ میں نے آج رحمٰن کیلئے روزہ کی نذر مانی ہے تو آج ہرگز میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔ حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکو خاموش رہنے کی نذر ماننے کا اس لئے حکم دیا گیا تاکہ کلام حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرمائیں اور ان کا کلام مضبوط حجت ہو جس سے تہمت زائل ہو جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیوقوف کے جواب میں خاموش رہنا اور منہ پھیر لینا چاہئے کہ جاہلوں کے جواب میں خاموشی ہی بہتر ہے اور یہ بھی معلوم ہو اکہ کلام کو افضل شخص کے حوالے کر دینا اَولیٰ ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۲۳۳، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۶۷۱-۶۷۲، ملتقطاً)
چپ رہنے کا روزہ منسوخ ہو چکا ہے:
یاد رہے کہ پہلے زمانہ میں بولنے اور کلام کرنے کا بھی روزہ ہوتا تھا جیسا کہ ہماری شریعت میں کھانے اور پینے کا روزہ ہوتا ہے، البتہ ہماری شریعت میں چپ رہنے کا روزہ منسوخ ہوگیا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے صَومِ وصال (یعنی سحری اور افطار کے بغیر مسلسل روزہ رکھنے) اور چپ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔(مسند امام اعظم، باب العین، روایتہ عن عدی بن ثابت، ص۱۹۲)
{فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗؕ:پھر عیسیٰ کو اُٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کے بعد حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا انہیں اُٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں ، جب لوگوں نے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کو دیکھا کہ ان کی گود میں بچہ ہے تو وہ روئے اور غمگین ہوئے ، کیونکہ وہ صالحین کے گھرانے کے لوگ تھے اور کہنے لگے : اے مریم! بیشک تم بہت ہی عجیب و غریب چیز لائی ہو۔ اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ عمران کوئی برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں حنہ بدکار عورت تھی تو پھر تیرے ہاں یہ بچہ کہاں سے ہو گیا۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۳ / ۲۳۳)
{یٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ:اے ہارون کی بہن!} حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کوان کی قوم کے لوگوں نے ہارون کی بہن کہا، اس ہارون سے کون مراد ہے اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ ہارون حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکے بھائی کا ہینام تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک نہایت نیک وصالح شخص کانام ہارون تھا اور اس کے تقویٰ اور پرہیز گاری سے تشبیہ دینے کے لیے آپ کوہارون کی بہن کہا۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائی ہی ہوں اگرچہ ان کازمانہ بہت بعید تھا اور ایک ہزار سال کا عرصہ ہوچکا تھا مگر آپ ان کی نسل سے تھیں اسی لئے ہارون کی بہن کہہ دیا۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۲۳۳، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۶۷۲، ملتقطاً)
{فَاَشَارَتْ اِلَیْهِ:اس پر مریم نے بچے کی طرف اشارہ کردیا ۔} جب لوگوں نے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا سے تفصیل پوچھنی چاہی تو چونکہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہانے اللہ تعالیٰ کے حکم سے چپ کاروزہ رکھا ہوا تھا اس لئے آپ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اگر کچھ پوچھنا ہے تواس بچے سے پوچھ لویہ جواب دے گا۔ اس پر لوگوں کو غصہ آیا اور انہو ں نے کہا کہ جوبچہ ابھی پیدا ہوا ہے وہ کیسے ہم سے بات کرے گا! کیا تم ہم سے مذاق کر رہی ہو؟ یہ گفتگوسن کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دودھ پینا چھوڑ دیا اور بائیں ہاتھ پر ٹیک لگا کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور سیدھے ہاتھ مبارک سے اشارہ کرکے بات کرنا شروع کی۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۳۳۰، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۲۳۳-۲۳۴، ملتقطاً)
{قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ:بچے نے فرمایا بیشک میں اللہ کابندہ ہوں ۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں سے بات کرنا شروع کی اور فرمایا، میں اللہ عَزَّوَجَلَّکابندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اگرچہ کلام کرکے اپنی والدہ ماجدہ سے تہمت کو دور کرنا تھا مگر آپ نے پہلے خود کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بندہ قرار دیا تاکہ کوئی اُنہیں خدا اور خدا کا بیٹا نہ کہے کیونکہ آپ کی نسبت یہ تہمت لگائی جانے والی تھی اور یہ تہمت اللہ تعالیٰ پر لگتی تھی، اس لئے منصبِ رسالت کاتقاضا یہی تھا کہ والدہ کی برأ ت بیان کرنے سے پہلے اس تہمت کو رفع فرما دیں جو اللہ تعالیٰ کے جنابِ پاک میں لگائی جائے گی اور اسی سے وہ تہمت بھی اٹھ گئی جو والدہ پر لگائی جاتی کیونکہ اللہ تعالیٰ اس مرتبۂ عظیمہ کے ساتھ جس بندے کو نوازتا ہے، بِالیقین اس کی ولادت اور اس کی فطرت نہایت پاک و طاہر بناتا ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۳۴)
{اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ:اس نے مجھے کتاب دی ہے۔} اس کتاب سے انجیل مراد ہے۔ حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُکا قول ہے کہ آپ والدہ کے پیٹ ہی میں تھے کہ آپ کو توریت کا اِلہام فرما دیا گیا تھا اور جھولے میں تھے جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت عطا کردی گئی اور اس حالت میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا کلام فرمانا آپ کا معجزہ ہے ۔بعض مفسرین نے آیت کے معنی میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ نبوت اور کتاب ملنے کی خبر تھی جو عنقریب آپ کو ملنے والی تھی۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۳۴، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۶۷۲، ملتقطاً)
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو بچپن میں ملنے والے عظیم ترین فضائل:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اللہ تعالیٰ نے چار بچوں کو چار چیزوں کے ساتھ فضیلت عطا کی:
(1)… حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنویں میں وحی کے ساتھ فضیلت دی۔
(2)… حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھولے میں کلام کرنے کے ساتھ فضیلت دی۔
(3)… حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو فہم سے فضیلت دی۔
(4)… حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو بچپن میں نبوت عطا کر کے فضیلت دی۔
اور سب سے عظیم فضیلت اور سب سے بڑی نشانی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا کی کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ولادت کے وقت سجدہ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سینے کو کشادہ فرمایا، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت کے وقت حوروں اور فرشتوں کو خادم بنایا اور ولادت سے پہلے ہی عالَمِ اَرواح میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبوت سے سرفراز فرما دیا اور یہ عظمت و فضیلت آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کا خاصہ ہے۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۳۳۰)
حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کی براء ت میں فرق:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا پر بہتان لگا تو ان کی عِفَّت و پاکیزگی خود حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیان فرمائی۔ اب یہاں اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زوجۂ مُطَہّرہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکے ساتھ ہونے والا معاملہ ملاحظہ ہو، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :حضرت والد ماجد ’’سُرُورُالْقُلُوْب فِیْ ذِکْرِ الْمَحْبُوْب ‘‘میں فرماتے ہیں ’’حضرت یوسف کودودھ پیتے بچے، اور حضرت مریم کو حضرت عیسیٰ کی گواہی سے لوگوں کی بدگمانی سے نجات بخشی، اور جب حضرت عائشہ پر بہتان اٹھا، خود ان کی پاک دامنی کی گواہی دی، اور سترہ آیتیں نازل فرمائیں ، اگرچاہتا ایک ایک درخت اور پتھر سے گواہی دلواتا، مگر منظور یہ ہوا کہ محبوبۂ محبوب کی طہارت وپاکی پر خود گواہی دیں اور عزت واِمتیاز ان کا بڑھائیں ۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: تجلی الیقین، ۳۰ / ۱۶۹)
{وَ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا:اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے ۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا کہ مجھے نبوت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے لوگوں کے لئے نفع پہنچانے والا، خیر کی تعلیم دینے والا ، اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا اور اس کی توحید اور عبادت کی دعوت دینے والا بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور جب تک میں زمین پر زندہ رہوں تب تک اس نے مجھے نماز کا مُکَلَّف ہونے پر اسے قائم کرنے اور زکوٰۃ کے قابل مال ہونے کی صورت میں اس کی زکوٰۃ ادا کرنے کاحکم دیا ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۲۳۴، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۶۷۲، ملتقطاً)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برکات:
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے مبارک ہونے کاخود اعلان فرمایا جبکہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برکات کو خو د اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘(اٰل عمران:۱۶۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے۔وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاریگزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا‘‘(النساء:۶۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہوجاتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول(بھی) ان کی مغفرتکی دعافرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔
اسی طرح نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر رحمت و شفقت کی انتہا اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و عبادت کی دعوت دینے کا جذبہ ایساتھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب!
’’فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا‘‘(کہف:۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ہوسکتا ہے کہ تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ختم کردو ۔
سر ِدست یہ چند آیات ذکر کی ہیں ورنہ قرآنِ مجید میں سینکڑوں آیات ایسی ہیں جن میںاللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برکات کو بیان فرمایا ہے۔
آدمی کب تک شرعی اَحکام کا پابند ہے؟
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب تک آدمی زندہ ہے اور کوئی ایسا شرعی عذر نہیں پایا جا رہا جس سے عبادت ساقط ہو جائے تب تک شریعت کی طرف سے لازم کی گئی عبادات اور دئیے گئے احکامات کا وہ پابند ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی نصیحت ہے جو شیطان کے بہکاوے میں آکر لوگوں سے یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت کے اتنے اعلیٰ مقام پر فائز ہو چکے ہیں کہ اب ہم پر کوئی عبادت لازم نہیں رہی اور ہر حرام وناجائز چیز ہمارے لئے مباح ہو چکی ہے۔ جب مخلوق میںاللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والی اور سب سے مقرب ہستیوں یعنی اَنبیاء و رُسُلعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عبادات ساقط نہیں ہوئیں بلکہ پوری کائنات میںاللہ تعالیٰ کے سب زیادہ مقرب بندے اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے یعنی ہمارے آقا، محمد مصطفٰیصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے بھی عبادات ساقط نہیں ہوئیں تو آج کل کے جاہل اور بناوٹی صوفیا کس منہ سے کہتے ہیں کہ ہم سے عبادات ساقط ہو چکی ہیں ۔ایسے بناوٹی صوفی شریعت کے نہیں بلکہ شیطان کے پیروکار ہیں اور اس کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کے دین مذہب اور ایمان پر ڈاکے ڈال رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ایسے شریروں کے شر سے ہمیں محفوظ فرمائے،اٰمین۔
{وَ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ:اور اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے میری والدہ کاخدمت گزار بنایا ہے اور مجھے حق بات کے خلاف تکبر کرنے والا اور بدنصیب نہیں بنایا بلکہ عاجزی اور انکساری کرنے والا بنایا ہے۔
آیت’’وَ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی والدہ ماجدہ بدکاری کی تہمت سے بری ہیں کیونکہ اگر وہ کوئی بدکار عورت ہوتیں تو ایک معصوم رسول کو ان کے ساتھ بھلائی کرنے اور ان کی تعظیم کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔
(2)…حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس سے ماں کا مرتبہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی اُن سے حسن ِسلوک کا فرمایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فطرت کے اعتبار سے ہی ماں سے حسن ِ سلوک کرنے والا بناتا ہے۔
(3)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بد عقیدگی، بد عملی، بد خلقی اور سخت دلی سے معصوم ہوتے ہیں کیونکہ بد عقیدہ اور بد عمل لوگ بد بخت ہوتے ہیں ۔
{وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ:اور مجھ پر سلامتی ہو۔} آخر میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ویساہی کلام کیا جوگزشتہ رکوع میں حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ میں جس دن پیدا ہوا اس دن مجھ پر سلامتی ہو، جس دن وفات پاؤں اس دن مجھ پرسلامتی ہو اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں اس دن مجھ پر سلامتی ہو۔ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ کلام فرمایا توتمام لوگ خاموش ہوگئے اور ان کوآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ ماجدہ کے نیک، پرہیزگار ہونے پر یقین آگیا کہ جوبچہ اس طرح کی باتیں کر رہا ہے اس کی والدہ ہمارے لگائے ہوئے الزامات سے بَری ہیں ، اس کلام کے بعد آپ خاموش ہوگئے اور دوبارہ اسی وقت کلام کیاجب دوسرے بچوں کی طرح بولنے کی عمرتک پہنچ گئے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۲۳۴) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نبیعَلَیْہِ السَّلَام ولادت، زندگی، وفات،حشر ہر جگہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے امن میں رہتے ہیں ۔
{ذٰلِكَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ:یہ عیسیٰ مریم کا بیٹاہے۔} گزشتہ آیات میں حضر ت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کا قصہ تفصیل سے بیان کیا گیا تاکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی ولادت کی اصل حقیقت واضح ہو، اب اس آیت ِمبارکہ سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے متعلق جویہودی اورعیسائی عقیدہ رکھتے ہیں اس کی وضاحت شروع کی گئی تاکہ اس بارے میں بھی اصل حقیقت واضح ہوکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے متعلق ان کے عقیدے کیا ہیں ۔ یہودی تو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّحضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوجادوگر، ولدُ الزِّنا کہتے تھے اور عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامحضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کے بیٹے ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّکے برگزیدہ نبی اور بندے ہیں جیساکہ گزشتہ آیات میں بیان کیا گیا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پیدا ہوتے ہی فرمایا ’’اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ‘‘میں اللہ کابندہ ہوں ، اوریوں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے تمام باطل نظریات کارد کردیا۔
{مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ: اللہ کیلئے لائق نہیں کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔} اس آیت مبارکہ میں عیسائیوں کے اس عقیدے کی تردید ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّکے بیٹے ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ اولاد سے اپنی پاکی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں کہ وہ کسی کواپنا بیٹا بنائے اور وہ عیسائیوں کے لگائے گئے بہتان سے پاک ہے۔ اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تواسے صرف یہ فرماتا ہے ، ’’ہوجا‘‘ تو وہ کام فوراً ہوجاتا ہے، اور جو ایسا قادرِ مُطْلَق ہو اسے بیٹے کی کیا حاجت ہے اور اسے کسی کا باپ کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے۔
{وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ:اور بیشک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے۔} اس آیت میں مذکور کلام حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا: بیشک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ میرا اور تمہارارب ہے، اس کے سوا اور کوئی رب نہیں ، تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اللہ تعالیٰ کے جو اَحکامات میں نے تم تک پہنچائے یہ ایسا سیدھا راستہ ہے جو جنت کی طرف لے کر جاتا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۲۳۵)
{فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْ:پھر گروہوں کا آپس میں اختلاف ہوگیا۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں حقیقت ِحال واضح ہوجانے کے باوجود لوگوں میں ان کے متعلق کئی فرقے بن گئے حالانکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کااپنی دودھ پینے کی عمر میں کلام کرنا اور کلام کرنے میں سب سے پہلے ہی اس اختلاف کی بیخ کنی کرنا کہ میں ایک بندہ ہوں ، اور مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ خدا یا خدا کا بیٹا نہیں ہوں واضح طور پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے خاص بندےاور رسول ہیں ۔
عیسائیوں کے مختلف فرقے اور ان کے عقائد:
سورہِ نساء آیت 171کی تفسیر میں تفسیر خازن کے حوالے سے مذکور ہو چکا کہ عیسائی چار بڑے فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے(1) یعقوبیہ۔(2)ملکانیہ۔(3)نسطوریہ۔(4) مرقوسیہ۔ ان میں سے ہر ایک حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے بارے میں جداگانہ کفریہ عقیدہ رکھتا تھا ۔ یعقوبیہ اور ملکانیہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کہتے تھے۔ نسطوریہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے جبکہ مرقوسیہ فرقے کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ تین میں سے تیسرے ہیں ،اور اس جملے کا کیا مطلب ہے اس میں بھی ان میں اختلاف تھا ،بعض تین اُقْنُوم (یعنی وجود) مانتے تھے اور کہتے تھے کہ باپ ،بیٹا، روحُ القدس تین ہیں اورباپ سے ذات، بیٹے سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورروحُ القدس سے ان میں حلول کرنے والی حیات مراد لیتے تھے گویا کہ اُن کے نزدیک اِلٰہ تین تھے اور اس تین کو ایک بتاتے تھے۔بعض کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ناسُوتِیَّت (یعنی انسانیت) اور اُلُوہِیَّت کے جامع ہیں ، ماں کی طرف سے اُن میں ناسوتیت آئی اور باپ کی طرف سے الوہیت آئی ’’تَعَالَی اللہ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا‘‘( اللہ تعالیٰ ظالموں کی بات سے پاک اور بہت ہی بلند وبالا ہے) یہ فرقہ بندی عیسائیوں میں ایک یہودی نے پیدا کی جس کا نام بَوْلَسْ تھا ، اُس نے اُنہیں گمراہ کرنے کے لیے اس طرح کے عقیدوں کی تعلیم دی۔( خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۱۷۱، ۱ / ۴۵۴)
البتہ تفسیر مدارک میں سورہِ مریم کی اسی آیت کے تحت عیسائیوں کے تین فرقوں کا ذکر ہے اور اس میں ملکانیہ فرقے کے بارے میں لکھاہے کہ یہ کہتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ، مخلوق ہیں ا ور نبی ہیں ۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۶۷۳)
نیز صدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی اسی مقام پر تین فرقوں کا ذکر کیا ہے اور ملکانیہ فرقے کا عقیدہ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ فرقہ مومن تھا۔(خزائن ا لعرفان، مریم، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۵۷۴)
{فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا:تو کافروں کے لئے خرابی ہے۔} یعنی ان گروہوں میں سے جو کافر ہیں جب یہ قیامت کے بڑے دن حاضر ہوں گے تو ان کے لئے شدید عذاب ہے۔
{اَسْمِعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْ:اس دن کتنا سنتے اور دیکھتے ہوں گے۔} یعنی قیامت کے دن جب کافر ہمارے پاس حاضر ہوں گے تو اس دن خوب سنتے اور دیکھتے ہوں گے لیکن چونکہ انہوں نے دنیا میں حق کے دلائل کو نہیں دیکھا اور اللہ تعالیٰ کی وعیدوں کو نہیں سنا تو اُس دن کا دیکھنا او رسننا انہیں کچھ نفع نہ دے گا ۔ بعض مفسرین نے کہا کہ یہ کلام ڈرانے کے طور پر ہے کہ اس دن (وہ اپنے بارے میں ) ایسی ہولناک باتیں سنیں اور دیکھیں گے جن سے ان کے دل پھٹ جائیں گے، لیکن آج دنیا میں ظالم کھلی گمراہی میں ہیں ،نہ حق دیکھتے ہیں نہ حق سنتے ہیں بلکہ بہرے اور اندھے بنے ہوئے ہیں ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواِ لٰہ اور معبود ٹھہراتے ہیں حالانکہ انہوں نے صراحت کے ساتھ اپنے بندہ ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔
{وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ:اور انہیں پچھتاوے کے دن سے ڈراؤ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کافروں کو اس دن سے ڈرائیں جس میں لوگ حسرت کریں گے، غمزدہ ہوں گے اور نیک و بد تمام لوگ پچھتائیں گے اور اس دن اس طرح فیصلہ کر دیا جائے گا کہ جنتیوں کو جنت میں اور دوزخیوں کو دوزخ میں پہنچا کر موت کو بھی ذبح کردیا جائے گا کہ اب ہر شخص ہمیشہ کیلئے اپنی جگہ رہے اور کسی کو موت نہ آئے، انہیں ایسا سخت دن درپیش ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور اس دن کے لئے کچھ فکر نہیں کرتے اور نہ ہی اس دن کومانتے ہیں ۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۳۹، ۵ / ۳۳۵، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۶۷۴، ملتقطاً)
قیامت کے دن کی اس کیفیت کے بارے میں حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’(جب اہلِ جنت ،جنت میں داخل ہو جائیں گے اور دوزخی دوزخ میں رہ جائیں گے تو) موت کوایک سرمئی مینڈھے کی شکل میں لایاجائے گا، اسے جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کیا جائے گا، پھر ایک منادی ندا کرے گا : اے اہلِ جنت! پس وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے تو ان سے کہا جائے گا: کیاتم اسے جانتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہاں ! جانتے ہیں ، یہ تو موت ہے (کیونکہ سب اسے مرتے وقت دیکھ چکے ہوں گے) پھر کہا جائے گا: اے دوزخیو! کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ وہ جھانک کر دیکھیں گے اور کہیں گے :ہاں ، یہ موت ہے۔ پھر موت (کے مینڈھے) کوذبح کرنے کا حکم دیا جائے گا (اور اسے ذبح کر کے) کہا جائے گا: اے اہلِ جنت! تمہیں ہمیشہ جنت میں رہنا ہے اور (اس میں کسی کے لئے) موت نہیں ہوگی ۔ اے اہلِ جہنم!تم نے دوزخ میں ہمیشہ رہنا ہے اور اب تمہیں موت نہیں آئے گی۔ پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُۘ-وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور انہیں پچھتاوے کے دن سے ڈراؤ جب فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ غفلت میں ہیں اورنہیں مانتے۔‘‘
اور ہاتھ سے دنیا کی طرف اشارہ فرمایا (کہ دنیا کا شیدائی غفلت میں ہے)۔( مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب النار یدخلہا الجبارون۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۶، الحدیث: ۴۰(۲۸۴۹))
اُخروی تیاری کی ترغیب:
اس آیت میں قیامت کے دن کے بارے میں ارشاد ہوا کہ وہ ایسا دن ہے جس میں لوگ حسرت کریں گے اور پچھتائیں گے اور لوگوں کا حال بیان ہو اکہ وہ اس دن کی تیاری سے غافل ہیں اور اس دن کو ماننے پر تیار نہیں ،ان کے بارے میں ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطْنَا فِیْهَاۙ-وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰى ظُهُوْرِهِمْؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ‘‘(انعام:۳۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ان لوگوں نے نقصان اٹھایا جنہوں نے اپنے رب سے ملنے کو جھٹلایا یہاں تک کہ جب ان پر اچانک قیامت آئے گی تو کہیں گے : ہائے افسوس اس پر جو ہم نے اس کےماننے میں کوتاہی کی اور وہ اپنے گناہوں کے بوجھ اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہوں گے ۔خبردار،وہ کتنا برا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں ۔
اوران کاانجام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَۙ(۷) اُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ‘‘(یونس: ۷،۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پسند کر بیٹھے ہیں اور اس پر مطمئن ہوگئے ہیں ور وہ جو ہماری آیتوں سے غافل ہیں ۔ ان لوگوں کا ٹھکانا ان کے اعمال کے بدلے میں دوزخ ہے۔
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ حسرت و پچھتاوے اور عذاب کا دن آنے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے سچی تو بہ کر لے ، اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت میں اپنی زندگی بسر کرنا شروع کر دے اور قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے جو اَحکامات دئیے ان کی پیروی میں لگ جائے ، چنانچہ اسی چیز کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(۵۴)وَ اتَّبِعُوْۤا اَحْسَنَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَۙ(۵۵) اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰى عَلٰى مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَ‘‘(زمر۵۴۔۵۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اپنے رب کی طرف رجوع کرواور اس وقت سے پہلے اس کے حضور گردن رکھو کہ تم پر عذاب آئے پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔ اورتمہارے رب کی طرف سے جو بہترین چیزتمہاری طرف نازل کی گئی ہے اس کی اس وقت سے پہلے پیروی اختیار کرلو کہ تم پر اچانک عذا ب آجائے اور تمہیں خبر (بھی)نہ ہو۔(پھر ایسا نہ ہو)کہ کوئی جان یہ کہے کہ ہائے افسوس ان کوتاہیوں پر جو میں نے اللہ کے بارے میں کیں اور بیشک میں مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اپنی اُخروی تیاری کے لئے بھرپور کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَ مَنْ عَلَیْهَا:بیشک زمین اور جو کچھ اس پر ہے سب کے وارث ہم ہوں گے۔} ارشاد فرمایا کہ جب قیامت قائم ہو گی تو اس وقت سب کچھ فنا ہو جائے گا اور میری ذات کے سوا کوئی باقی رہے گا نہ کسی کی ظاہری ملکیت باقی ہو گی( اور جب لوگوں کو زندہ کیا جائے گا تو )انہیں ہماری ہی طرف لوٹایا جائے گا اور ہم انہیں ان کے اعمال کی جزا دیں گے۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۶۷۴)
گناہگاروں کے لئے مقامِ خوف:
اس آیت میں گناہگاروں کے لئے عظیم ڈر اور تنبیہ ہے کہ دنیامیں انہوں نے جس رب تعالیٰ کی نافرمانیاں کی ہیں اور ا س کے دئیے ہوئے اَحکامات کو پامال کیا ہے قیامت کے دن انہیں اسی کی بارگاہ میں لوٹ کر جانا ہے اور اسی کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا دے گا تو گناہگار لوگ اپنے اعمال کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی جزا پر خود ہی غور کر لیں کہ وہ کیا ہو گی،اگر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا رحم نہ فرمایا اور ان کے گناہوں کو نہ بخشا تو انہیں جہنم کے انتہائی دردناک عذابات سہنے پڑیں گے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حسابکے لئے پیش ہونے سے پہلے پہلے اپنے اعمال کی اصلاح کر لے تاکہ اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اچھی جزا ملے۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan