READ

Surah Maryam

مَرْيَم
98 Ayaat    مکیۃ


19:41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱)
اور کتاب میں (ف۶۵) ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق (ف۶۶) تھا (نبی) غیب کی خبریں بتاتا،

{وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ:اور کتاب میں  ابراہیم کو یاد کرو۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : اس سورت کا (بنیادی) مقصد توحید، رسالت اور حشر کو بیان کرنا ہے اور توحید کا انکار کرنے والے وہ لوگ تھے جو  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو(اپنا) معبود مانتے تھے، پھر ان لوگوں  کے بھی دو گروہ تھے، ایک گروہ زندہ اور عقل و فہم رکھنے والے انسان کو معبود مانتا تھا اور یہ عیسائیوں  کا گروہ ہے، اور ایک گروہ بے جان اور عقل و فہم نہ رکھنے والی جَمادات کو معبود مانتا تھا اور یہ بتوں  کے پجاریوں  کا گروہ ہے اور یہ دونوں  گروہ اگرچہ گمراہی میں  مُشترک تھے لیکن دوسرا گروہ (پہلے کے مقابلے میں) زیادہ گمراہ تھا، چنانچہ اس سے پہلی آیات میں   اللہ تعالیٰ نے پہلے گروہ کی گمراہی بیان فرمائی اور اب یہاں  سے دوسرے گروہ کی گمراہی بیان فرما رہا ہے، چنانچہ جب حضرت زکریا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعے کا اختتا م ہوا تو گویا کہ ارشاد فرمایا ’’اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے حضرت زکریا عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حال ذکر کردیا اور اب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا حال بیان کریں ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حال بیان کرنے کا حکم دینے کی وجہ یہ ہے کہ تمام لوگ اس بات سے واقف تھے کہ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی قوم اور آپ کے صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کتابوں  کا مطالعہ کرنے اور پڑھنے لکھنے میں  مشغول نہ تھے تو جب آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ واقعہ کسی کمی زیادتی کے بغیر جیسا واقع ہوا تھا ویسا ہی بیان کر دیا تو یہ غیب کی خبر ہوئی اور سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ(کاغیب کی خبر دینا آپ) کی نبوت کی دلیل اور آپ کا معجزہ ہوا۔(تفسیرکبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۴۱، ۷ / ۵۴۱)

             یہاں  بطورِ خاص حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا واقعہ بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عرب کےمشرکین اپنے آپ کومِلّتِ ابراہیمی کے پیروکار کہتے تھے، اس میں  انہیں  سمجھایا جارہا ہے کہ اگرتم ملت ابراہیمی کے پیروکار ہو توبتوں  کی پوجا کیوں  کرتے ہو؟ تمہارے باپ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام توبتوں  کی پوجانہیں  کرتے تھے بلکہ وہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کیا کرتے تھے اور اس میں  کسی کوشریک نہیں  ٹھہراتے تھے۔ اگرتم ملت ابراہیمی پرقائم ہو توان کے دین کواپناؤ اور بت پرستی چھوڑو۔

{اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا:بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔} آیت کے اس حصے میں  حضرت ابراہیمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صِفات بیان کی جارہی ہیں  کہ آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمیشہ سچ بولتے تھے اور نبوت کے مرتبے پر بھی فائز تھے۔ بعض مفسرین نے کہا کہ صدیق کے معنی ہیں  کثیرُ التَّصدیق یعنی جو  اللہ تعالیٰ اور اس کی وحدانیت کی، اس کے اَنبیاء اور اس کے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اور مرنے کے بعد اُٹھنے کی تصدیق کرے اور اَحکامِ الٰہیہ بجالائے وہ صدّیق ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۲۳۶)

            یاد رہے کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سچے ہونے کے وصف کو بطورِ خاص بیان کرنے کی یہ حکمت بھی ہوسکتی ہے کہ بعض لوگوں  کو چند واقعات کی وجہ سے شُبہ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام ان مَواقع پر حقیقت کے مطابق نہیں  تھا۔ ان کی تفہیم کیلئے بطورِ خاص آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سچا فرمایا گیا۔

مقامِ صدّیق اور مقامِ نبوت میں  فرق:

            یہاں  آیت کی مناسبت سے صدیق اور نبی میں  اور صدیق اور ولی میں  فرق ملاحظہ ہو، چنانچہ علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ہر نبی صدیق ہے لیکن اس کا عکس نہیں  (یعنی ہر صدیق نبی نہیں ،اسی طرح) ہر صدیق ولی ہے لیکن اس کا عکس نہیں  (یعنی ہر ولی صدیق نہیں ) کیونکہ صِدِّیْقِیَّت کا مرتبہ نبوت کے مرتبے کے نیچے (اور ا س کے قریب ) ہے۔( صاوی، مریم، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۱۲۳۷)

            اس سے معلوم ہوا کہ اَنبیاء اور رُسُلعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد انسانوں  میں  سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُکا ہے کیونکہ آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ اَنبیاء اور رسل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بعد صدیقیت کے سب سے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں ۔

19:42
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْــٴًـا(۴۲)
جب اپنے باپ سے بولا (ف۶۷) اے میرے باپ کیوں ایسے کو پوجتا ہے جو نہ سنے نہ دیکھے اور نہ کچھ تیرے کام آئے (ف۶۸)

{اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ:جب اپنے باپ سے فرمایا: اے میرے باپ! تم کیوں  ایسے کی عبادت کررہے ہو۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے بت پرست (عُرفی) باپ آزَر سے فرمایا ’’ عبادت معبود کی انتہائی تعظیم ہے اور اس کا وہی مستحق ہو سکتا ہے جو اوصاف وکمال والا اور نعمتیں  دینے والا ہو اور وہ صرف  اللہ تعالیٰ ہے جس کا کوئی شریک نہیں ، اس لئے عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے، جبکہ تم جن بتوں  کی عبادت کررہے ہو ان کا حال یہ ہے کہ یہ نہ توسنتے ہیں ، نہ دیکھتے ہیں  اور نہ ہی تمہارے کسی کام آسکتے ہیں  بلکہ یہ خود تمہارے    محتاج ہیں  کہ اپنی جگہ سے دوسری جگہ بھی نہیں  جاسکتے اور تم نے خود انہیں  اپنے ہاتھوں  سے بنایا ہے تو ایسی ناکارہ اور لاچار مخلوق کی عبادت کرنا اور اس کے سامنے اپنا سرجھکانا اور اس سے کسی بھی قسم کے نفع نقصان کی امید رکھنا انتہائی حماقت کے سوا کچھ نہیں  ہے۔

آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا باپ تھا یا چچا؟

            قرآنِ پاک میں  کئی مقامات پر ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والد کوتوحید کی دعوت دی اور بت پرستی سے منع کیا اور سورۂ اَنعام کی آیت نمبر 74 میں  اس کا نام آزر بھی مذکور ہے، اب حل طلب معاملہ یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حقیقی باپ تھا یا نہیں ، چنانچہ اس کے بارے مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، بعض مفسرین کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا حقیقی باپ تھا، بعض کہتے ہیں  کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارح ہے اور اس کا لقب آزر ہے، بعض کہتے ہیں  کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قومی زبان میں ان کے باپ کا نام تارخ تھا اور دوسری زبانوں  میں  تارخ کو آزر بولا جاتا تھا، بعض کہتے ہیں  کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے باپ کا نام نہیں  بلکہ قوم کے بڑے بت کا نام آزر تھا اور بعض کہتے ہیں  کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارخ تھا جبکہ آزر آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام تھا اور بڑوں  کی یہ عادت معروف تھی کہ وہ چچا کو باپ کہہ کر پکارتے تھے۔ اور یہ آخری بات ہی درست ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا حقیقی باپ نہیں  بلکہ چچا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث پاک سے ثابت ہے کہ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نور پاک لوگوں  کی پشتوں  سے پاک عورتوں  کے رحموں  کی طرف مُنْتقل ہوا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباؤ اَجداد سے ہیں  اس لئے آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حقیقی والد کفرو شرک کی نجاست سے آلودہ کیسے ہو سکتے ہیں ، چنانچہ علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’ علماءِ اہلسنّت میں  سے ایک جَمِّ غفیر کی رائے یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا والد نہ تھا کیوں  کہ حضور اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے آباؤ اجداد میں  کوئی کافر نہ تھا، جیساکہ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے کہ’’ میں  ابتداہی سے آخر تک پاک لوگوں  کی پشتوں  سے پاک خواتین کے رحموں  میں  مُنْتقل ہوتا چلا آیا ہوں  جبکہ مشرک تونَجَس ہیں  ۔اورامام رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کایہ کہنا کہ یہ شیعہ کامذہب ہے درست نہیں ۔ امام رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے اچھی طرح چھان بین نہیں  کی اس لیے ان سے یہ غلطی ہوگئی۔ علماءِ اہلسنّت کی اکثریت کاقول یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام ہے اور ’’اَبْ‘‘ کا لفظ چچا کے معنی میں  عام استعمال ہوتا ہے۔( روح المعانی، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۴، ۴ / ۲۵۳)

            صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ فرماتے ہیں  : قاموس میں  ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  َالسَّلَام کے چچا کانام ہے۔ امام علامہ جلال الدین سیوطی(رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  )نے ’’مَسَالِکُ الْحُنَفَاءُ‘‘ میں  بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ چچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں  معمول ہے بالخصوص عرب میں ، قرآنِ کریم میں  ہے (جیسا کہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے) ’’نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا‘‘ اس میں  حضرت اسماعیل (عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کوحضرت یعقوب( عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)کے آباء میں  ذکر کیا گیا ہے باوجودیکہ آپ عَم (یعنی چچا) ہیں ۔ حدیث شریف میں  بھی حضرت سیّدِ عالَم صَلَّی  اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ نے حضرت عباس رَضِیَ  اللہ عَنْہُ کواَبْ (یعنی باپ) فرمایا، چنانچہ ارشاد کیا  ’’رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ ‘‘ اور یہاں  اَبِیْ سے حضرت عباس( رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ) مراد ہیں ۔( خزائن العرفان، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۲۶۱) لہٰذا ثابت ہوا کہ آیت میں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے باپ (آزر) سے ان کا چچا مراد ہے حقیقی والد مراد نہیں  ہیں ۔

 

19:43
یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِیْۤ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِیًّا(۴۳)
اے میرے باپ بیشک میرے پاس (ف۶۹) وہ علم آیا جو تجھے نہ آیا تو تُو میرے پیچھے چلا آ (ف۷۰) میں تجھے سیدھی راہ دکھاؤں (ف۷۱)

{یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ:اے میرے باپ! بیشک میرے پاس وہ علم آیا۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بیشک میرے پاس میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے اس کی معرفت کا وہ علم آیا ہے جو تیرے پاس نہیں  آیا، تو تُو میرا دین قبول کر کے میری پیروی کر ،میں  تجھے سیدھی راہ دکھادوں  گا جس سے تو  اللہ تعالیٰ کے قرب کی اس منزل تک پہنچ سکے گا جو مقصود ہے۔

            اس آیت میں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے جس علم کا ذکرہوا اس کے بارے میں  ایک قول تفسیر میں  ذکر ہوا کہ اس سے مراد  اللہ تعالیٰ کی معرفت کا علم ہے ، اور ایک قول یہ ہے کہ اس علم سے مراد وہ وحی ہے جو فرشتہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس لے کر آتا تھا ،،یا،، اس سے مراد آخرت کے اُمور اور اُخروی ثواب و عذاب کا علم ہے ،،یا،، اس سے مراد  اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور صرف  اللہ تعالیٰ کے اِلٰہ ہونے اور صرف اسی کے عبادت کا مستحق ہونے کا علم ہے۔( البحر المحیط، مریم، تحت الآیۃ: ۴۳، ۶ / ۱۸۲)اِن اَقوال میں  باہم کوئی تَضاد نہیں  ہے کہ حقیقت میں  آپ عَلَیْہِ  السَّلَام کو یہ سارے علوم عطا کئے گئے۔

آیت’’یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… اگر کوئی شخص عمر میں  بڑا ہوا اور اسے دین کا علم حاصل نہ ہو جبکہ اس کی اولاد یا قریبی عزیزوں  میں  سے کوئی عمر میں  اگرچہ چھوٹا ہے لیکن وہ دین کا علم رکھتا ہو تو اس سے علمِ دین سیکھنے میں  شرم و عار محسوس نہیں  کرنی چاہئے۔

(2)…اگر چھوٹی عمر والا بڑی عمر والے کو کوئی اچھی نصیحت کرے تو چھوٹی عمر کی وجہ سے اس کی اچھی نصیحت کو نظر انداز کرنے کی بجائے اسے قبول کرنا چاہئے۔

19:44
یٰۤاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا(۴۴)
اے میرے باپ شیطان کا بندہ نہ بن (ف۷۲) بیشک شیطان رحمان کا نافرمان ہے،

{ یٰۤاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ:اے میرے باپ! شیطان کا بندہ نہ بن۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر سے تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ تو شیطان کابندہ نہ بن اور اس کی فرمانبرداری کر کے کفر و شرک میں  مبتلا نہ ہو، بیشک شیطان رحمٰن عَزَّوَجَلَّکا بڑ انافرمان ہے اور نافرمان کی اطاعت کا انجام یہ ہے کہ یہ اطاعت کرنے والے کو بھی نافرمان بنا دیتی ہے اور نعمت سے محروم کرکے مشقت و عذاب میں  مبتلا کر دیتی ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۳۶، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۳۳۶، ملتقطاً)

{یٰۤاَبَتِ اِنِّیْۤ اَخَافُ:اے میرے باپ! میں  ڈرتا ہوں ۔} حضرت ابراہیمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر سے مزید فرمایا:  مجھے ڈر ہے کہ اگر تو رحمٰن عَزَّوَجَلَّکی نافرمانی کرتے اور شیطان کی پیروی کرتے ہوئے کفر کی حالت میں  ہی مر گیا تو تجھے رحمٰن عَزَّوَجَلَّکی طرف سے کوئی عذاب پہنچے گا اور تولعنت میں  اور جہنم کے عذاب میں  شیطان کا رفیق اور دوست بن جائے گا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۲۳۶، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۳۳۶، ملتقطاً)

سورۂ مریم کی آیت نمبر44اور45سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ان آیات سے دو باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے کی پیروی کرنا بندے کے نافرمان بننے کا ایک سبب ہے لہٰذا ایسے لوگوں  کی پیروی کی جائے جو  اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اطاعت گزار اور فرمانبردار ہوں ۔

(2)…بندے کو چاہئے کہ اگر اس کے اہلِ خانہ یا عزیز رشتہ داروں  میں  سے جو لوگ  اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل نہیں  کرتے یا عمل کرنے میں  سستی کرتے ہیں  تو انہیں  احسن انداز میں  اس کی ترغیب دے اور اس حوالے سے انہیں   اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی ڈرائے۔

 

19:45
یٰۤاَبَتِ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَكُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا(۴۵)
اے میرے باپ میں ڈرتا ہوں کہ تجھے رحمن کا کوئی عذاب پہنچے تو تُو شیطان کا رفیق ہوجائے (ف۷۳)

19:46
قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِهَتِیْ یٰۤاِبْرٰهِیْمُۚ-لَىٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنِیْ مَلِیًّا(۴۶)
بولا کیا تو میرے خداؤں سے منہ پھیرتا ہے، اے ابراہیم بیشک اگر تو (ف۷۴) باز نہ آیا تو میں تجھے پتھراؤ کروں گا اور مجھ سے زمانہ دراز تک بے علاقہ ہوجا (ف۷۵)

{ قَالَ:بولا۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی لطف آمیز نصیحت اور دل پذیر ہدایت سے آزر نے نفع نہ اٹھایا اور وہ ا س کے جواب میں  بولا: کیا تو میرے معبودوں  سے منہ پھیرتا ہے؟ اے ابراہیم ! بیشک اگر تو بتوں  کی مخالفت کرنے، اُنہیں  برا کہنے اور اُن کے عیب بیان کرنے سے باز نہ آیا تو میں  تجھے پتھر ماروں  گا اور تو عرصۂ دراز کیلئے مجھ سے کلام کرنا چھوڑ دے تاکہ میرے ہاتھ اور زبان سے امن میں  رہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۲۳۷)

نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے والوں  کیلئے درس:

            امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں :  اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا نصیحت کرنے کا انداز اور ان کے جواب میں  آزر کا طرزِ عمل اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سامنے اس لئے بیان فرمایا تاکہ مشرکین کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں  پر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دل ہلکا ہو اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جان جائیں  کہ جاہلوں  کا یہ مذموم طرزِ عمل (کوئی آج کا نہیں  بلکہ) عرصۂ دراز سے چلا آرہا ہے۔( تفسیرکبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۴۶، ۷ / ۴۴۵)

            اس میں  ان مسلمانوں  کے لئے بھی درس ہے جو دینِ اسلام اور اس کے اَحکام کی دعوت دینے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں  کہ اگر اس دوران انہیں  کسی کافر یا کسی مسلمان کی طرف سے کسی ناقابلِ برداشت سلوک کا سامنا کرنا پڑے تو وہ رنجیدہ ہو کر اس فریضہ کی بجا آوری کو چھوڑ نہ دیں  بلکہ ایسے موقع پر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوموں  کے واقعات کو یاد کریں  کہ ان بزرگ ترین ہستیوں  نے کس طرح اسلام کی دعوت دی اور انہیں  نافرمان اور سرکش کفار کی طرف سے کیسی کیسی اَذِیَّتوں  کا سامنا کرنا پڑا لیکن اُنہوں  نے تمام تر تکلیفوں  کے باوجود دین ِاسلام کی دعوت دینے کو نہیں  چھوڑا تو ہم بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے دین ِاسلام اور اس کے احکام کی دعوت دینا نہیں  چھوڑیں  گے۔ اس سے اِنْ شَآء  اللہ دل کو تسلی ملے گی اور اسے مزید تَقْوِیَت حاصل ہو گی۔

 

19:47
قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَۚ-سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا(۴۷)
کہا بس تجھے سلام ہے (ف۷۶) قریب ہے کہ میں تیرے لیے اپنے رب سے معافی مانگوں گا (ف۷۷) بیشک وہ مجھ مہربان ہے،

{قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ:فرمایا: بس تجھے سلام ہے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے چچا آزر کا جواب سن کر فرمایا ’’تجھے دور ہی سے سلام ہے ۔ عنقریب میں  تیرے لیے اپنے رب عَزَّوَجَلَّسے معافی مانگوں  گا کہ وہ تجھے توبہ اور ایمان کی توفیق دے کر تیری مغفرت فرمادے ، بیشک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۲۳۷)

آزر کے لئے دعائے مغفرت کاوعدہ کرنے کی وجہ:

            حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے چچا آزر کے لئے جو مغفرت کی دعا فرمائی اس کا ذکر سورۂ شُعراء کی آیت نمبر 86 میں  ہے اور یہاں  یہ یاد رہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا اپنے چچا آزر سے یہ کہنا کہ’’ عنقریب میں  تیرے لیے اپنے رب سے معافی مانگوں  گا‘‘ اس وجہ سے تھا کہ آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کے ایمان لانے کی تَوَقُّع تھی اور جب آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اس کا ایمان نہ لانا واضح ہو گیا تواس کے بعد آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آزر سے بیزار ہو گئے اورپھر کبھی اس کے لئے مغفرت کی دعا نہ کی۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُؕ-اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۱۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں  نے اس سے کر لیا تھا پھر جب ابراہیم کے لئے یہ بالکل واضح ہوگیا کہ وہ  اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے ۔ بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا ، بہت برداشت کرنے والا تھا۔

19:48
وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ ﳲ عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا(۴۸)
اور میں ایک کنارے ہوجاؤں گا (ف۷۸) تم سے اور ان سب سے جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو اور اپنے رب کو پوجوں گا (ف۷۹) قریب ہے کہ میں اپنے رب کی بندگی سے بدبخت نہ ہوں (ف۸۰)

{وَ اَعْتَزِلُكُمْ:اور میں  تم لوگوں  سے جدا ہوتا ہوں  ۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے مزید فرمایا کہ میں  بابِل شہر سے شام کی طرف ہجرت کر کے تم لوگوں  سے اور  اللہ کے سوا جن بتوں  کی تم عبادت کرتے ہو ان سے جدا ہوتا ہوں  اور میں  اپنے اس رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتا ہوں  جس نے مجھے پیدا کیا اور مجھ پر احسان فرمائے ۔پھر آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عاجزی اور اِنکساری کرتے ہوئے فرمایا : قریب ہے کہ میں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کی وجہ سے بدبخت نہ ہوں  گا۔ اس میں  اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جیسے تم بتوں  کی پوجا کر کے بدنصیب ہوئے ،خدا کے پَرَسْتار کے لئے یہ بات نہیں  کیونکہ اس کی بندگی کرنے والا بدبخت اور محروم نہیں  ہوتا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۲۳۷، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۶۷۶، ملتقطاً)

آیت ’’وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے 3 باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… کافروں ، بد مذہبوں  کے ساتھ رہنے اور ان کے ساتھ نشست برخاست رکھنے سے بچنا چاہئے، جیسے یہاں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر ہوا کہ وہ اپنے کافر چچا سے علیحدہ ہو گئے تھے۔

(2)…اپنا دین نہیں  چھپانا چاہئے جیسے یہاں  ذکر ہوا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنا دین صاف اور واضح طور پر بیان کر دیا کہ وہ صرف اس  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں  جو ان کا خالق ہے۔

(3)… اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بد نصیب نہیں  ہو سکتا بلکہ بد نصیب تو وہ ہے جو  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرے۔

19:49
فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِۙ-وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-وَ كُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّا(۴۹)
پھر جب ان سے اور اللہ کے سوا ان کے معبودوں سے کنارہ کر گیا (ف۸۱) ہم نے اسے اسحاق (ف۸۲) اور یعقوب (ف۸۳) عطا کیے، اور ہر ایک کو غیب کی خبریں بتانے والا کیا،

{فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ:پھر جب ابراہیم لوگوں سے جدا ہوگئے۔} ارشاد فرمایا کہ پھر جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مقدس سرزمین کی طرف ہجرت کر کے لوگوں سے اور  اللہ کے سوا جن بتوں  کی وہ لوگ عبادت کرتے تھے ان سے جدا ہوگئے تو ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرزند حضرت اسحاق عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بعد پوتے حضرت یعقوب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عطا کئے تاکہ وہ ان سے اُنْسِیَّت حاصل کریں  اور ان سب کو ہم نے مقامِ نبوت سے سرفراز فرما کر احسان فرمایا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۲۳۷، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۶۷۶، ملتقطاً)

             یادرہے کہ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت اسحاق عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بڑے ہیں ، لیکن چونکہ حضرت اسحاق عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامبہت سے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے والد ہیں ، اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا گیا۔

آیت ’’فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے 2باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر شریف اتنی دراز ہوئی کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے پوتے حضرت یعقوب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا ۔

(2)…  اللہ تعالیٰ کے لئے ہجرت کرنے اور اپنے گھر بار کو چھوڑنے کی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو یہ جزا ملی کہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  بیٹے اور پوتے عطا فرمائے ۔

19:50
وَ وَهَبْنَا لَهُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا۠(۵۰)
اور ہم نے انہیں اپنی رحمت عطا کی (ف۸۴) اور ان کے لیے سچی بلند ناموری رکھی (ف۸۵)

{وَ وَهَبْنَا لَهُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا:اور ہم نے انہیں  اپنی رحمت عطا کی ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے انہیں  دنیا و آخرت کی عظیم ترین نعمت نبوت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں  وسیع رزق اور اولاد عطا کی اور ان کیلئے سچی بلند شہرت رکھی کہ ہر دین والے مسلمان ہوں  خواہ یہودی یا عیسائی سب ان کی ثنا و تعریف کرتے ہیں  اور مسلمانوں میں  تو نمازوں  کے اندر ان پر اور ان کی آل پر درود پڑھا جاتا ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۲۳۷، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۶۷۶، ملتقطاً)

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور آزر کے واقعے سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس واقعے سے چار باتیں  معلوم ہوئیں

(1)…حق کی طرف ہدایت دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ نرم مزاج اور اچھے اَخلاق والا ہو کیونکہ عام طور پر جو بات سختی سے کہی جاتی ہے ، سننے والا اس سے منہ پھیر لیتا ہے البتہ جہاں  سختی کا موقع ہو وہاں  اُسی کو بروئے کار لایا جائے۔

(2)…اپنے سے بڑے مرتبے والے کی پیروی کی جائے۔ یاد رہے کہ اطاعت و فرمانبرداری میں  سے سب سے بڑا مرتبہ  اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ہے اور صحابہ و اَئمۂ دین کی پیروی بھی در حقیقت  اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہی پیروی ہے۔

(3)… جو شخص دنیا و آخرت میں  ظاہری و باطنی سلامتی چاہتا ہے وہ برے ساتھیوں  اور بد مذہب لوگوں  سے جدا ہو جائے۔

(4)…جو شخص  اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر اپنی پسندیدہ چیز چھوڑ دے تو  اللہ تعالیٰ اسے اس چیز سے بہت بہتر اور زیادہ پسندیدہ بدل عطا فرماتا ہے اور اس سے پہلی چیز کے چھوٹنے پر ہونے والی وحشت  اُنْسِیَّت میں  بدل جاتی ہے۔

19:51
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)
اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا،

{وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰى:اور کتاب میں  موسیٰ کو یاد کرو۔} اس سے پہلی آیات میں  حضر ت ابراہیمعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صِفات بیان کی گئیں  اور اب یہاں  سے حضرت موسیٰعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صفات بیان فرمائی جا رہی ہیں ، دوسرے لفظوں  میں  ہم یہ کہہ سکتے ہیں  کہ خلیلُ  اللہ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صفات بیان کرنے کے بعد اب کلیمُ  اللہ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صفات بیان کی جارہی ہیں  ۔

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پانچ صفات :

            اس رکوع میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں ۔

(1)…آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔

(2)… آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رسول و نبی تھے۔

(3)…آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے  اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا۔

(4)…آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکواپنا قرب بخشا۔

(5)…آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارونعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکونبوت عطاکی ۔

             حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یعقوب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں  سے ہیں  اسی لئے ان کا ذکر حضرت اسماعیل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے پہلے فرمایا تاکہ دادا اور پوتے کے ذکر میں  فاصلہ نہ ہو۔( روح المعانی، مریم تحت الآیۃ: ۵۱، ۸ / ۵۵۹)ورنہ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بہت پہلے کے ہیں۔

19:52
وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)
اور اسے ہم نے طور کی داہنی جانب سے ندا فرمائی (ف۸۶) اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا (ف۸۷)

{وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں  جانب سے پکارا ۔} طور ایک پہاڑ کا نام ہے جو مصر اور مَدْیَن کے درمیان ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مدین سے آتے ہوئے طور کی اس جانب سے جو حضرت موسیٰعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دائیں  طرف تھی ایک درخت سے ندا دی گئی

’’یٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ (قصص:۳۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اے موسیٰ میں  ہی  اللہ ہوں ، تمام جہانوں  کا پالنے والا ۔

            اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کلیمُ  اللہ کے شرف سے نوازے گئے ۔آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا ، حجاب اٹھا دئیے گئے یہاں  تک کہ آپ نے قلموں  کے چلنے کی آواز سنی اور آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قدرو منزلت بلند کی گئی۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۲۳۷-۲۳۸)

کلیم اور حبیب میں  فرق:

            یہا ں   اللہ تعالیٰ کے کلیم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور  اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقام و مرتبے کافرق ملاحظہ ہو کہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے کوہِ طور پر جو کلام فرمایا اسے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ذریعے سب پر ظاہر فرما دیا لیکن  اللہ تعالیٰ نے معراج کی رات لا مکاں  میں  اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے جو کلام فرمایا وہ کسی کو نہ بتایا بلکہ یہ ارشاد فرما کرسب سے چھپا دیا کہ ’’فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى‘‘(النجم:۱۰)ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر اس نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو اسنے وحی فرمائی۔

19:53
وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)
اور اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون عطا کیا (غیب کی خبریں بتانے والا نبی) (ف۸۸)

{وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا:اورہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جونبی تھا۔} یعنی جب حضر ت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے  اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میرے گھر والوں  میں  سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا تو  اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور اپنی رحمت سے حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت عطا کی۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۲۳۸)

آیت’’وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَا ‘‘ سے حاصل ہونے و الی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… نبوت کسبی نہیں  یعنی اپنی کوشش سے کسی کو نبوت نہیں  مل سکتی بلکہ یہ  اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے جسے  اللہ تعالیٰ چاہے صرف اسے ملتی ہے ۔

(2)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  قرب کاایسا مقام حاصل ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کے صدقے ان کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو نبوت عطافرما دی۔اس سے  اللہ تعالیٰ کے پیاروں  کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں  کے خزانوں  میں  نہ ہو تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں  مل جائیں  تو کیا مشکل ہے۔البتہ اب ختمِ نبوت ہوچکی تو اب کسی کو نبوت نہیں  مل سکتی۔

19:54
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)
اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو (ف۸۹) بیشک وہ وعدے کا سچا تھا (ف۹۰) اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا،

{وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ:اور کتاب میں  اسماعیل کو یاد کرو۔} حضرت اسماعیل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے فرزند ہیں  اور سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَآپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد سے ہیں ۔ اس آیت میں  حضرت اسماعیل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دو وصف بیان کئے گئے۔

(1)… آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وعدے کے سچے تھے ۔ یاد رہے کہ تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاموعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں  مگرآپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس وصف میں  بہت زیادہ ممتاز تھے ،چنانچہ ایک مرتبہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوکوئی شخص کہہ گیا جب تک میں  نہیں  آتا آپ یہیں  ٹھہریں  توآپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے انتظار میں  3دن تک وہیں  ٹھہرے رہے۔ اسی طرح (جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آپ کو  اللہ تعالیٰ کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو) ذبح کے وقت آپعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس شان سے پورا فرمایا اُس کی مثال نہیں  ملتی۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۲۳۸)

(2)…آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامغیب کی خبریں  دینے والے رسول تھے۔ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کورسول اور نبی فرمایا گیا ہے، اس میں  بنی اسرائیل کے ان لوگوں  کی تردید کرنا مقصود تھا جویہ سمجھتے تھے کہ نبوت صرف حضرت اسحاقعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے ہے اور حضرت اسماعیل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی نہیں  ہیں ۔

رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی وعدہ وفائی

            اوپر بیان ہو اکہ حضرت اسماعیل کسی جگہ پر 3دن تک ایک شخص کے انتظار میں  ٹھہرے رہے،اسی طرح کا ایک واقعہ سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  بھی اَحادیث کی کتابوں  میں  موجود ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن ابو الحمساء رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں : بِعْثَت سے پہلے میں  نے نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کوئی چیز خریدی اور اس کی کچھ قیمت میری طرف باقی رہ گئی تھی۔ میں  نے وعدہ کیا کہ اسی جگہ لاکر دیتا ہوں ، میں  بھول گیا اور تین دن کے بعد یاد آیا، میں  گیا تو آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسی جگہ موجود تھے۔ ارشاد فرمایا ’’اے نوجوان! تو نے مجھے تکلیف دی ہے، میں  تین دن سے یہاں  تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔( ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی العدۃ، ۴ / ۴۸۸، الحدیث:  ۴۹۹۶)

 

19:55
وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)
اور اپنے گھر والوں کو (ف۹۱) نماز اور زکوٰة کا حکم دیتا اور اپنے رب کو پسند تھا (ف۹۲)

{وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ:اور وہ اپنے گھر والوں  کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتاتھا ۔} ارشاد فرمایا کہ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے گھر والوں  اور اپنی قوم جرہم کو جن کی طرف آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مبعوث تھے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیتے تھے اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی طاعت و اَعمال ،صبر و اِستقلال اور اَحوال و خِصال کی وجہ سے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔

اہلِ خانہ کو نماز کی تلقین کرنے میں  نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سیرت:

            سیّد المرسَلینصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمختلف مَواقع پر اپنے اہلِ خانہ کو نماز وغیرہ کی تلقین فرمایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سلام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’جب حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہل ِخانہ پر کوئی تنگی آتی تو آپ انہیں  نماز پڑھنے کا حکم ارشاد فرماتے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۲۵۸، الحدیث: ۸۸۶)

            حضرت ثابت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں : جب حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اہلِ خانہ کو کوئی حاجت پہنچتی تو آپ اپنے اہلِ خانہ کو ندا فرماتے: اے اہلِ خانہ! نماز پڑھو ،نماز پڑھو۔( الزہد لابن حنبل، ص۳۵، الحدیث: ۴۹)

 حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آٹھ ماہ تک حضرت علی کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے دروازے پرصبح کی نماز کے وقت تشریف لاتے رہے اور فرماتے ’’اَلصَّلَاۃُ رَحِمَکُمُ اللّٰہُ،اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا‘‘ نماز پڑھو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے،  اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں  پاک کرکے خوب صاف ستھرا کر دے۔( ابن عساکر، حرف العین، حرف الطاء فی آباء من اسمہ علی، علی بن ابی طالب۔۔۔ الخ، ۴۲ / ۱۳۶)

اہلِ خانہ کو نماز کا حکم دینے کی ترغیب:

             معلوم ہوا کہ اپنے گھر والوں  کو نماز کا حکم دینا  اللہ تعالیٰ کے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے لہٰذا ہمیں  بھی چاہئے کہ ہم اپنے گھر والوں  کو نماز قائم کرنے کا حکم دیں  اور اس کے علاوہ ان تمام کا موں  کا بھی حکم دیں  جو جہنم سے نجات ملنے کاسبب ہیں ۔  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ‘‘(تحریم:۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اے ایمان والو!اپنی جانوں  اور اپنے گھر والوں  کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں  ، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں  جو  اللہ کے حکم کی نافرمانینہیں  کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں  حکم دیا جاتا ہے۔

نمازِ فجر کے لئے جگانے کی فضیلت:

            نمازِ فجر کے لئے جگانا حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سنت ہے ،چنانچہ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُفرماتے ہیں ، میں  سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ نمازِفجر کیلئے نکلا تو آپ جس سوتے ہوئے شخص کے پاس سے گزرتے اُسے نماز کیلئے آواز دیتے یا اپنے پاؤں  مبارک سے ہلا دیتے۔( ابوداؤد، کتاب التطوّع، باب الاضطجاع، ۲ / ۳۳، الحدیث: ۱۲۶۴) لہٰذا جو خوش نصیب انسان کسی کو فجر کی نماز کے لئے جگاتا ہے تو وہ نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِس ادا کو ادا کررہا ہے۔

19:56
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(۵۶)
اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو (ف۹۳) بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا،

{وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ:اور کتاب میں  ادریس کو یاد کرو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ہماری اس کتاب میں  حضرت ادریس عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمائیں  ، بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

حضرت ادریس عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مختصر تعارف:

            آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا نام اخنوخ ہے اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے والد کے دادا ہیں ۔ حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد حضرت شیث بن آدم عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہیں  ۔ سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں ۔ کپڑوں  کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا بھی آپ ہی سے ہوئی ، آپ سے پہلے لوگ کھالیں  پہنتے تھے ۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علمِ نُجوم اور علمِ حساب میں  نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں  اور یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے۔  اللہ تعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے نازِل کئے اور  اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں  کاکثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا نام ادریس ہوا۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۲۳۸، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۶۷۷، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۵۶، ۵ / ۳۴۱، ملتقطاً)

درسِ قرآن اور درسِ علمِ دین کے فضائل:

            حضرت ادریس عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں  کا کثرت سے درس دیا کرتے تھے، اس سے معلوم ہو اکہ  اللہ تعالیٰ کی کتاب کا درس دینا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے ،اس مناسبت سے یہاں  قرآنِ مجید کا درس دینے کی فضیلت اور علمِ دین کا درس دینے کے دو فضائل ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو لوگ  اللہ تعالیٰ کے گھروں  میں  سے کسی گھر میں  جمع ہوتے ہیں  اور وہ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے اور ایک دوسرے کو اس کادرس دیتے ہیں  تواُن پر سکون نازل ہوتا ہے، رحمت انہیں  ڈھانپ لیتی ہے اور  اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فرشتوں  میں  فرماتا ہے۔(مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر، ص۱۴۴۷، الحدیث: ۳۸(۲۶۹۹))

(2)…حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ وہ عالِم جو صرف فرض نماز پڑھ کر بیٹھ جاتا پھر لوگوں  کو علمِ دین سکھاتا ہے اس کی بزرگی اس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا ہے، ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر۔(دارمی، باب من قال: العلم الخشیۃ وتقوی اللّٰہ، ۱ / ۱۰۰، الحدیث: ۲۸۹)

(3)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَافرماتے ہیں  ’’ رات میں  ایک گھڑی علم کا پڑھنا پڑھانا پوری رات (عبادت کرتے ہوئے) بیدار رہنے سے افضل ہے۔(دارمی، باب العمل بالعلم وحسن النیّۃ فیہ، ۱ / ۹۴، الحدیث: ۲۶۴)

قرآنِ مجید کا درس دینے سے متعلق اہم تنبیہ:

            یاد رہے کہ جو شخص عالِم نہیں  اس کا درسِ قرآن دینا جائز نہیں  ہاں  اگر وہ کسی سُنّی ، صحیح العقیدہ ماہر عالِم کی لکھی ہوئی تفسیر سے صرف وہی الفاظ پڑھ کر سناتا ہے جو انہوں  نے لکھے ہیں  اور اس کی اپنی طرف سے کوئی وضاحت یا تشریح نہیں  کرتا تو یہ جائز ہے، یونہی علماء میں  سے بھی انہیں  ہی درسِ قرآن دینا چاہئے جنہوں  نے معتبر علماءِ کرام کی تفاسیر، اَحادیث اور ان کی شروحات، فقہی اَحکام اور دیگر ضروری علوم کا مُعْتَدْبِہا (اچھا خاصا) مطالعہ کیا ہو۔ درسِ قرآن دینے والا ہر شخص ان 3 اَحادیث کو ضرور اپنے پیش ِنظر رکھے :

(1)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو قرآن میں  علم کے بغیر کچھ کہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں  بنالے۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن عن رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی الذی یفسّر القرآن برأیہ، ۴ / ۴۳۹، الحدیث: ۲۹۵۹)

(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’جو قرآن میں  اپنی رائے سے کچھ کہے وہ اپنا ٹھکانہ آگ سے بنائے۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن عن رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی الذی یفسّر القرآن برأیہ، ۴ / ۴۳۹، الحدیث: ۲۹۶۰)

(3)…حضرت جندب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ،رسول اکرمصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو قرآن میں  اپنی رائے سے کہے پھر ٹھیک بھی کہہ دے تب بھی وہ خطا کر گیا۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن عن رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی الذی یفسّر القرآن برأیہ ، ۴ / ۴۴۰ ، الحدیث: ۲۹۶۱)

 

19:57
وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(۵۷)
اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا (ف۹۴)

{وَ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا:اور ہم نے اسے ایک بلند مکان پر اٹھالیا۔} حضرت ادریس عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو بلندمکان پر اٹھالینے کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ ا س سے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوآسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۲۳۸)

 

19:58
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ اٰدَمَۗ-وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ٘-وَّ مِنْ ذُرِّیَّةِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْرَآءِیْلَ٘-وَ مِمَّنْ هَدَیْنَا وَ اجْتَبَیْنَاؕ-اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا۩(۵۸)
یہ ہیں جن پر ا لله نے احسان کیا غیب کی خبریں بتانے میں سے آدم کی اولاد سے (ف۹۵) اور ان میں جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا (ف۹۶) اور ابراہیم (ف۹۷) اور یعقوب کی اولاد سے (ف۹۸) اور ان میں سے جنہیں ہم نے راہ دکھائی اور چن لیا (ف۹۹) جب ان پر رحمن کی آیتیں پڑھی جاتیں گر پڑتے سجدہ کرتے اور روتے (ف۱۰۰) (السجدة) ۵

{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ:یہ وہ ہیں  جن پراللّٰہنے احسان کیا ۔}  اللہ عَزَّوَجَلَّنے سورۂ مریم کی ابتدا سے یہاں  تک مختلف انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے حالات وواقعات فرداً فرداً بیان فرمائے مگراب تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کامشترکہ ذکر کیا جا رہا ہے جن میں  حضرت ادریس ، حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل ، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب ،حضرت موسیٰ ،حضرت ہارون ،حضرت زکریا، حضرت یحیٰ اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شامل ہیں  اور یہ وہ مبارک ہستیاں  ہیں  جنہیں   اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کا منصب عطا کر کے ان پر اپنا خصوصی احسان فرمایا اور انہیں  اپنی طرف ہدایت دی اور انہیں  شریعت کی تشریح اور حقیقت کے کشف کے لئے چن لیا۔

{اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ:جب ان کے سامنے رحمٰن کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے ۔} اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اے لوگو! تم سے پہلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نسبی شرافت میں  بلند رتبہ رکھنے، نفس کے کامل ہونے اور  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  قرب کے مقام پر فائز ہونے کے باوجود جب اپنے اوپر نازل ہونے والی کتابوں  میں   اللہ تعالیٰ کی آیتیں  سنتے تو  اللہ تعالیٰ کے خوف سے رویا کرتے اور سجدے کیا کرتے تھے تو تم بھی ان کی سیرت پر عمل کرو (اور جب قرآن کی آیتیں  سنو تو  اللہ تعالیٰ کے خوف سے گریہ و زاری کیا کرو)۔(روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۵۸، ۵ / ۳۴۳، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۲۳۹، ملتقطاً)

 اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں  کا شِعار:

            اس سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ کے کلام کی آیات سن کر رونا انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت اور ان کا طریقہ ہے۔سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی قرآنِ مجید کی آیات سن کر رویا کرتے تھے، جیسا کہ حضرت ابراہیمرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُفرماتے ہیں : حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت عبد اللہ بن مسعودرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے فرمایا ’’مجھے قرآن پاک سناؤ۔انہوں  نے عرض کی: میں  (کس طرح) آپ کو قرآن مجید سناؤں  حالانکہ آپ پر قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ ارشاد فرمایا ’’ میں  ا س بات کو پسند کرتا ہوں  کہ میں  کسی اور سے قرآن کریم سنوں  ۔ راوی کہتے ہیں : پھر انہوں  نے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکوسورۂ نساء کی ابتدائی آیات سنائیں  اور جب اس آیت پر پہنچے

’’فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا‘‘(النساء:۴۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں  سےایک گواہ لائیں  گے اور اے حبیب! تمہیں  ان سب پر گواہ اورنگہبان بناکر لائیں  گے۔

 تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک آنکھوں  سے آنسو جاری ہو گئے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل استماع القرآن۔۔۔ الخ، ص۴۰۱، الحدیث: ۲۴۸(۸۰۰))

            نیز قرآن کریم کی آیات سن کر رونا عارفین کی صفت اور صالحین کا شِعار ہے ،جیساکہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًاۙ(۱۰۷) وَّ یَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا(۱۰۸)وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۩(۱۰۹)‘‘(بنی اسرائیل:۱۰۷-۱۰۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: جب ان کے سامنے اس کی تلاوت کی جاتیہے تو وہ ٹھوڑی کے بل سجدہ میں  گر پڑتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں  ہمارا رب پاک ہے، بیشک ہمارے رب کا وعدہ پوراہونے والا تھا۔ اور وہ روتے ہوئے ٹھوڑی کے بل گرتے ہیں  اور یہ قرآن ان کےدلوں  کے جھکنے کو اور بڑھادیتا ہے۔  (یہ آیت ِسجدہ ہے،اسے زبان سے پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہے۔)

            اور حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے بھی اپنی امت کو اس کی تعلیم دی  ہے، جیسا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث: ۱۳۳۷)

اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ جب بھی قرآنِ مجید کی تلاوت کرے تو اپنے گناہوں  اور  اللہ تعالیٰ کی گرفت و عذاب کو یاد کر کے رویا کرے اور اگر اسے رونا نہ آئے تو رونے والوں  جیسی صورت بنا لے۔

سجدہ تو کر لیا مگر آنسو نہ نکلے:

             یاد رہے کہ زیرِ تفسیر آیت ان آیات میں  سے ہے جنہیں  پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہے۔ یہاں  اسی آیت سے متعلق دوحکایات ملاحظہ ہوں :

(1)… حضرت ابو معمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے سورۂ مریم کی تلاوت اور (سجدہ کرنے کے بعد) فرمایا ’’یہ سجدے ہیں  تو رونا کہا ں  ہے؟( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی البکاء عند قراء تہ، ۲ / ۳۶۵، الحدیث:  ۲۰۵۹)

(2)…حضرت عبد الرحمٰن بن ابو لیلیٰ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے سورۂ مریم کی تلاوت کی، جب وہ  اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا‘‘ پر پہنچے تو انہوں  نے سجدۂ تلاوت کیا اور جب سجدے سے سر اٹھایا تو فرمایا ’’یہ سجدہ ہے تورونا کہاں  ہے؟( شرح البخاری لابن بطال، کتاب فضائل القرآن، باب البکاء عند قراء ۃ القرآن، ۱۰ / ۲۸۲) ان بزرگوں  کے اس قول سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ سجدہ کر کے رونے والے لوگ اب کہاں  ہیں ؟ اب تو لوگوں  کا حال یہ ہے کہ وہ سجدہ تو کرلیتے ہیں  لیکن ان کی آنکھیں آنسوؤں  سے تر نہیں  ہوتیں ۔ ان بزرگوں  کے یہ فرمان دراصل ہماری تربیت اور اِصلاح کے لئے ہیں  ،اے کاش! ہمیں  بھی تلاوتِ قرآن کے وقت  اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونا نصیب ہو جائے۔

آیت’’ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس سے تین باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…  اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کرنا اور تلاوت کرا کر سننا دونوں  ہی پسندیدہ طریقے ہیں ۔

(2)… اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت خشوع و خضوع کے ساتھ کرنا  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پسندیدہ ہے ۔

(3)… اللہ تعالیٰ کے کلام کو پڑھ یا سن کر عذاب کے خوف یا دل کے ذوق کی وجہ سے گریہ و زاری کرنا  اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اس کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔

19:59
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(۵۹)
تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے (ف۱۰۱) جنہوں نے نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے (ف۱۰۲) تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے (ف۱۰۳)

{فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ:تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے ۔} اس آیت میں  انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بعد آنے والے ناخلف اور نالائق لوگوں  کی دو خرابیاں  بیان کی گئی ہیں ۔ (1)…انہوں  نے نمازیں  ضائع کیں۔ اس سے مراد فرض نمازیں  چھوڑ دینا یا نماز کا وقت گزار کر نماز پڑھنا مراد ہے، مثلاً ظہر کی نماز عصر میں  اور عصر کی مغرب میں  پڑھنا۔ (2)…اپنی خواہشوں  کی پیروی کی۔ یعنی انہوں  نے  اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کو ترجیح دی اور  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی بجائے گناہوں  کو اختیار کیا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۲۴۰)ایسے لوگوں  کے بارے میں  حضرت عبد اللہ بن مسعودرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جس امت میں  بھی جو نبی بھیجا اس نبی کے لئے اس امت میں  سے کچھ مدد گار اور اصحاب ہوتے تھے جو اپنے نبی کے طریقۂ کار پر کار بند رہتے، پھر ان صحابہ کے بعد کچھ نالائق لوگ پیدا ہوئے جنہوں  نے اپنے کام کے خلاف بات کی اور جس کا حکم دیاگیا اس کے خلاف کام کیا لہٰذا جس شخص نے ہاتھوں  سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے ان کے خلاف زبان سے جہاد کیا وہ مومن ہے،اور جس نے دل سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے اور ا س کے بعد رائی کے دانہ برابر بھی ایمان کا کوئی درجہ نہیں۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان۔۔۔ الخ، ص۴۴، الحدیث: ۸۰(۵۰))

نما ز ضائع کرنے کی صورتیں  اور 3 وعیدیں :

اس آیت میں  نمازیں  ضائع کرنے کو سب سے پہلے اور دیگر گناہوں  کو بعد میں  ذکر کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ نمازیں  ضائع کرنا گناہوں  کی جڑ ہے۔ نمازیں  ضائع کرنے کی کئی صورتیں  ہیں ، جیسے نماز نہ پڑھنا، بے وقت پڑھنا، ہمیشہ نہ پڑھنا، ریا کاری سے پڑھنا اور نیت کے بغیر نماز شروع کر دینا وغیرہ ۔ اَحادیث میں  نماز ضائع کرنے کی بہت وعیدیں  بیان کی گئی ہیں  ، ان میں  سے 3 وعیدیں  درج ذیل ہیں ۔

(1)…حضرت نوفل بن معاویہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس کی نماز فوت ہوئی گویا اس کے اہل و مال جاتے رہے۔( بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲ / ۵۰۱، الحدیث: ۳۶۰۲)

(2)…حضرت اُمِّ ایمن رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا سے روایت ہے، حضور اکرمصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’قصداً نماز ترک نہ کرو کیونکہ جو قصداً نماز ترک کردیتا ہے،  اللہ عَزَّوَجَلَّاور رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس سے بری الذِّمہ ہیں۔(مسند امام احمد، مسند القبائل، حدیث امّ ایمن رضی  اللہ عنہا، ۱۰ / ۳۸۶، الحدیث: ۲۷۴۳۳)

(3)…حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ عنقریب میری امت سے کتاب والے اور دودھ والے ہلاک ہوں  گے۔ میں  نے عرض کی: یا رسولَ  اللہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کتاب والوں  سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا ’’یہ وہ لوگ ہیں  جو  اللہ کی کتاب کو اس لئے سیکھیں  گے تاکہ اس کے ذریعے ایمان والوں  سے جھگڑا کریں ۔ میں  نے پھر عرض کی: یا رسولَ  اللہ!صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، دودھ والوں  سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا ’’یہ وہ لوگ ہیں  جو خواہشات کی پیروی کریں  گے اور اپنی نمازیں  ضائع کریں  گے۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ مریم، سیہلک من امتی اہل الکتاب واہل اللبن، ۳ / ۱۲۶، الحدیث: ۳۴۶۹)

{فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا: عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں  گے۔} آیت کے اس حصے میں  نمازیں  ضائع کرنے اور  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلے میں  اپنی خواہشوں  کی پیروی کرنے والوں  کا انجام بیان کیا گیا کہ وہ عنقریب جہنم کی خوفناک وادی غی میں  ڈال دئیے جائیں  گے۔

جہنم کی وادی ’’غَی‘‘کا تعارف:

            حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَافرماتے ہیں : غی جہنم میں  ایک وادی ہے جس کی گرمی سے جہنم کی وادیاں  بھی پناہ مانگتی ہیں  ۔یہ اُن لوگوں  کے لئے ہے جو زنا کے عادی اور اس پر مُصِر ہوں  ، جو شراب کے عادی ہوں ، جو سود خور اور سود کے عادی ہوں ، جو والدین کی نافرمانی کرنے والے ہوں  اور جو جھوٹی گواہی دینے والے ہوں۔(بغوی، مریم، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۱۶۸)

            صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں : غی جہنم میں  ایک وادی ہے ،جس کی گرمی اور گہرائی سب سے زیادہ ہے، اس میں  ایک کنواں  ہے، جس کا نام ’’ہَبْہَبْ‘‘ ہے، جب جہنم کی آگ بجھنے پر آتی ہے، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کنویں  کو کھول دیتا ہے ،جس سے و ہ بدستور بھڑکنے لگتی ہے۔ قَالَ  اللہُ  تَعَالٰی :( اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا)

’’ كُلَّمَاخَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا‘‘

جب بجھنے پر آئے گی ہم انھیں  اور بھڑک زیادہ کریں  گے۔‘‘

یہ کنواں  بے نمازوں  اور زانیوں  اور شرابیوں  اور سود خواروں  اور ماں  باپ کو اِیذا دینے والوں  کے لیے ہے۔(بہار شریعت، حصہ سوم، نماز کا بیان، ۱ / ۴۳۴)

19:60
اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ شَیْــٴًـاۙ(۶۰)
مگر جو تائب ہوئے اور ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور انہیں کچھ نقصان نہ دیا جائے گا (ف۱۰۴)

{ اِلَّا مَنْ تَابَ:مگر جنہوں  نے توبہ کی۔} ارشاد فرمایا کہ نمازیں  ضائع کرنے اور  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی بجائے گناہوں کو اختیار کرنے والے تو جہنم کی خوفناک وادی غی میں  جائیں  گے مگر جنہوں  نے کفر و شرک اور دیگر گناہوں  سے توبہ کر لی اور کفر کی جگہ ایمان کو اختیار کیا اور اس کے بعد نیک کام کئے تو یہ لوگ جنت میں  داخل ہوں  گے اور ان پر کوئی زیادتی نہیں  کی جائے گی اور ان کے اعمال کی جزا میں  کچھ بھی کمی نہ کی جائے گی۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۶۰، ۵ / ۳۴۵) اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر کے لئے پہلے کفر سے بیزاری کا اظہار کرنا، پھر ایمان لانا اور پھر نیک اعمال کرنا ضروری ہیں ۔

19:61
جَنّٰتِ عَدْنِ ﹰالَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَهٗ بِالْغَیْبِؕ-اِنَّهٗ كَانَ وَعْدُهٗ مَاْتِیًّا(۶۱)
بسنے کے باغ جن کا وعدہ رحمن نے اپنے (ف۱۰۵) بندوں سے غیب میں کیا (ف۱۰۶) بیشک اس کا وعدہ آنے والا ہے،

{جَنّٰتِ عَدْنٍ:ہمیشہ رہنے کے باغوں  میں ۔} یعنی جنہوں  نے توبہ کی، ایمان لائے اور نیک اعمال کئے وہ ہمیشہ رہنے کے ان باغوں  میں  داخل ہوں  گے جن کا وعدہ رحمٰن نے اپنے اِن بندوں  سے فرمایا ہے ا س حال میں  کہ جنت اِن سے غائب ہے اور اِن کی نظر کے سامنے نہیں  یا اس حال میں  کہ وہ جنت سے غائب ہیں  اور اس کا مشاہدہ نہیں  کرتے اور یہ محض اس کی خبر ملنے سے ہی اس پرایمان لے آئے ہیں  ۔ بیشک  اللہ تعالیٰ نے جنت کا جو وعدہ فرمایاہے اس کا وہ وعدہ یقینی طور پر آنے والا ہے۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۶۱، ۵ / ۳۴۵)

19:62
لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًاؕ-وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ فِیْهَا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا(۶۲)
وہ اس میں کوئی بیکار بات نہ سنیں گے مگر سلام (ف۱۰۷) اور انہیں اس میں ان کا رزق ہے صبح و شام (ف۱۰۸)

{لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا:وہ ان باغات میں  کوئی بیکار بات نہ سنیں  گے۔}یعنی جن باغات کا  اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  سے وعدہ فرمایا ہے ان کا وصف یہ ہے کہ جنتی ان باغات میں  کوئی بیکار بات نہ سنیں  گے ،البتہ وہ فرشتوں  کا یا آپس میں  ایک دوسرے کا سلام سنیں  گے اور ان کیلئے جنت میں  صبح و شام ان کا رزق ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جنت میں  انہیں  دائمی طور پر رزق ملے گا کیونکہ جنت میں  رات اور دن نہیں  ہیں  بلکہ اہلِ جنت ہمیشہ نور ہی میں  رہیں  گے ۔یا اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا کے دن کی مقدار میں  دو مرتبہ جنتی نعمتیں  ان کے سامنے پیش کی جائیں  گی(البتہ وہ خود جس وقت جتنا چاہیں  گے کھائیں  گے،ان پر کوئی پابندی نہ ہوگی)۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۶۲، ۵ / ۳۴۵)

 بیکار باتوں  سے پرہیز کریں :

             اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم الشان نعمتو ں  کے گھر جنت کو فضول اور بیکار باتوں  سے پاک فرمایا ہے ،اس سے معلوم ہوا دنیا میں  رہتے ہوئے بھی ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ بیکار باتوں  سے بچتا رہے اور فضول کلام سے پرہیز کرے۔  اللہ تعالیٰ کامل ایمان والوں  کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا‘‘(فرقان:۷۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب کسی بیہودہ بات کے پاس سےگزرتے ہیں  تواپنی عزت سنبھالتے ہوئے گزر جاتے ہیں  ۔

            اور ارشاد فرماتا ہے

’’وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ٘-سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ٘-لَا نَبْتَغِی الْجٰهِلِیْنَ‘‘(قصص:۵۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں  اس سے منہ پھیر لیتے ہیں  اور کہتے ہیں : ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں ۔ بس تمہیں  سلام، ہم جاہلوں (کی دوستی)کو نہیں  چاہتے ۔

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا  ’’(یہ بات) آدمی کے اسلام کے حسن سے ہے کہ وہ لایعنی چیز کو چھوڑ دے۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۱۱-باب، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۲۳۲۵) اللہ تعالیٰ ہمیں  بیکار باتوں  اور فضول کلام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

19:63
تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا(۶۳)
یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اسے کریں گے جو پرہیزگار ہے،

{تِلْكَ الْجَنَّةُ:یہ وہ باغ ہے۔} یعنی جس جنت کے اوصاف بیان ہوئے یہ وہ باغ ہے جوہم اپنے ان بندوں  کو عطا کریں  گے جو پرہیزگار ہو۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ہم نے جنت میں  کفار کے ایمان لانے کی صورت میں  ان کے لئے جو مکانات تیار کئے ہیں  ان کا وارث ہم اپنے پرہیزگار بندوں  کو کریں  گے۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۶۳، ۵ / ۳۴۶، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۲۴۰، ملتقطاً) یاد رہے کہ جنت متقی اور پرہیز گار مسلمان کو ملے گی اور گناہگار مسلمانوں  کوبھی جو جنت ملے گی وہ ان کے گناہوں  کی معافی یا خاتمے کے بعد ہی ملے گی یعنی جنت میں  داخل ہوتے وقت وہ بھی گناہوں  سے پاک ہوچکے ہوں  گے۔

19:64
وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَۚ-لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَیْنَ ذٰلِكَۚ-وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّاۚ(۶۴)
(اور جبریل نے محبوب سے عرض کی (ٖف ۱۰۹) ہم فرشتے نہیں اترتے مگر حضور کے رب کے حکم سے اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے اور جو اس کے درمیان ہے (ف۱۱۰) اور حضور کا رب بھولنے والا نہیں (ف۱۱۱)

{وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ:ہم فرشتے صرف آپ کے رب کے حکم سے ہی اترتے ہیں  ۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالَمصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت جبریلعَلَیْہِ  السَّلَام سے فرمایا:ا ے جبریل! عَلَیْہِ  السَّلَام، تم جتنا ہمارے پاس آتے ہو اس سے زیادہ کیوں  نہیں  آتے؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۴، الحدیث: ۳۲۱۸) اور حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَامنے  اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں  عرض کی:یا رسولَ  اللہ !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم فرشتے صرف آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ہی اترتے ہیں  اور تمام جگہوں  کا وہی مالک ہے ، ہم ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف نقل و حرکت کرنے میں  اس کے حکم و مَشِیَّت کے تابع ہیں  ، وہ ہر حرکت و سکون کا جاننے والا اور غفلت و نِسیان سے پاک ہے ، اس لئے وہ جب چاہے گا ہمیں  آپصَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  بھیجے گا۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۶۷۹)

 اللہ تعالیٰ بھول سے پاک ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وہ کچھ بھول جائے۔ اِس سے ان لوگوں  کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی سخت ضرورت ہے جو مذاق میں  کسی بوڑھے کے بارے میں  یا کسی چیز کے بارے میں  کہہ دیتے ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ تو اسے بھول ہی گیا ہے۔ یہ کہنا صریح کفر ہے اور ایسا کہنے والا کافر ہے۔

19:65
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَ اصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖؕ-هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا۠(۶۵)
آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے سب کا مالک تو اے پوجو اور اس کی بندگی پر ثابت رہو، کیا اس کے نام کا دوسرا جانتے ہو (ف۱۱۲)

{رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:آسمانوں  اور زمین کا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آسمانوں  اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں  ہے سب کا مالک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی ہے، آپ اسی کی عبادت کرتے رہیں  اور اس کی عبادت پر ڈٹ جائیں،کیا آپ  اللہ تعالیٰ کا کوئی ہم نام جانتے ہیں ؟ یعنی کسی کو اس کے ساتھ نام کی شرکت بھی نہیں  اور اس کی وحدانیت اتنی ظاہر ہے کہ مشرکین نے بھی اپنے کسی باطل معبودکا نام’’ اللّٰہ‘‘ نہیں  رکھا ۔

             اس آیت ِ مبارکہ میں  فرمایا گیا کہ اس کی عبادت پر ڈٹ جاؤ، اس سے معلوم ہوا کہ خوشی و غم ہر حال میں  ہمیشہ عبادت کرنی چاہیے ۔ یہی حکم ہے اور یہی بارگاہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں  محبوب ہے، صرف خوشی یا صرف غم میں  عبادت کرنا کمال نہیں ۔ آیت میں   اللہ تعالیٰ کی صفت ِ ربوبیت بیان کرکے عبادت کا حکم دینے میں  اِس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ کا بندے کو پالنا، نعمتیں  پہنچانا اور بَتَدریج مرتبۂ کمال تک پہنچانا بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ بندے احسان مندی کے طور پر  اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔

19:66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَ جُ حَیًّا(۶۶)
اور آدمی کہتا ہے کیا جب میں مرجاؤں گا تو ضرور عنقریب جِلا کر نکالا جاؤں گا (ف۱۱۳)

{وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ:اور آدمی کہتا ہے۔} اس آیت میں  انسان سے مراد وہ کفار ہیں  جو موت کے بعد زندہ کئے جانے کے منکر تھے جیسے اُبی بن خلف اور ولید بن مغیرہ اور اِن جیسے تمام کفار، اِنہیں  لوگوں  کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ یہ کافر انسان مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا مذاق اڑاتے اور اسے جھٹلاتے ہوئے کہتا ہے کہ کیا جب میں  مرجاؤں  گا تو عنقریب مجھے قبر سے زندہ کرکے ضرور نکالا جائے گا؟( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۶۶، ۳ / ۲۴۱، جلالین، مریم، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۲۵۸، ملتقطاً)

19:67
اَوَ لَا یَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ یَكُ شَیْــٴًـا(۶۷)
اور کیا آدمی کو یاد نہیں کہ ہم نے اس سے پہلے اسے بنایا اور وہ کچھ نہ تھا (ف۱۱۴)

{اَوَ لَا یَذْكُرُ الْاِنْسَانُ:اور کیا آدمی کو یاد نہیں ۔}  اللہ تعالیٰ نے اس کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو مُردوں  کے زندہ کرنے پر  اللہ عَزَّوَجَلَّکی قدرت کا منکر ہے، کیا اُس نے اِس بات پر غور نہیں  کیا کہ ہم نے اسے اس وقت بنادیا جب وہ بالکل معدوم تھا تو جب اصلاً معدوم ہونے کے باوجود ہم اسے وجود اور زندگی دے سکتے ہیں  تو اگر ہم مردے کو زندہ کر دیں  تو اس میں  تعجب کی کیا بات ہے حالانکہ اب تو اس کی اصل موجود ہے۔

            اس آیت کی مناسبت سے یہاں  ایک حدیثِ قُدسی ملاحظہ ہو،صحیح بخاری شریف میں  حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’انسان نے مجھے جھٹلایا اور یہ اس کے لیے مناسب نہیں ، اور اس نے مجھے گالی دی جبکہ یہ بھی اس کے لیے مناسب نہیں ۔ پس اس کا جھٹلانا تو یہ ہے جو وہ کہتا ہے کہ ہمیں  دوبارہ زندہ نہیں  کیا جائے گا جیسا کہ ہمیں  پہلے پیدا کیا گیا، حالانکہ پہلی دفعہ بنانا میرے لئے دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے اور اس کا گالی دینا یہ ہے جووہ کہتا ہے کہ خدا کا بیٹا بھی ہے، حالانکہ میں  اکیلا ہوں ، بے نیاز ہوں ، نہ میں  نے کسی کو جنا اور نہ مجھے کسی نے جنا، اور کوئی ایک بھی میری برابری کرنے والا نہیں ۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ قل ہو  اللہ احد، ۱-باب، ۳ / ۳۹۴، الحدیث: ۴۹۷۴)

19:68
فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَ الشَّیٰطِیْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِیًّاۚ(۶۸)
تو تمہارے رب کی قسم ہم انہیں (ف۱۱۵) اور شیطانوں سب کو گھیر لائیں گے (ف۱۱۶) اور انہیں دوزخ کے آس پاس حاضر کریں گے گھٹنوں کے بل گرے،

{فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ:تو تمہارے رب کی قسم! ہم انہیں  جمع کرلیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے رب کی قسم! ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والے کافروں  کو قیامت کے دن زندہ کر کے انہیں  گمراہ کرنے والے شیطانوں  کے ساتھ اس طرح جمع کرلیں  گے کہ ہر کافر شیطان کے ساتھ ایک زنجیر میں  جکڑا ہو گا ، پھر انہیں  دوزخ کے آس پاس اس حال میں  حاضر کریں  گے کہ  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مشاہدہ کر کے دہشت کے مارے ان سے کھڑا ہونا مشکل ہو جائے گا اور وہ گھٹنوں  کے بل گرجائیں  گے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۲۴۱-۲۴۲، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۶۸، ۵ / ۳۴۹) اور کافروں  کی ایسی ذلت و رسوائی دیکھ کر  اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور سعادت مند بندے اس بات پر بہت خوش ہو رہے ہوں  گے کہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  اس ذلت سے نجات عطا فرمائی جبکہ ان کے دشمن کفار ان کی سعادت و خوش بختی دیکھ کر حسرت و افسوس اور انہیں  برابھلا کہنے پر خود کو ملامت کررہے ہوں  گے۔

            یاد رہے کہ قیامت کے دن لوگوں  پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس دن کی شدت اور حساب کی سختی دیکھ کر ہر دین والا زانو کے بل گرا ہو گا، جیسا کہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’وَ تَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِیَةً‘‘(جاثیہ:۲۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم ہر گروہ کو زانو کے بل گرے ہوئے دیکھو گے۔

            اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ کافروں  کو جب جہنم کے قریب حاضر کیا جائے گا تو وہ  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مشاہدہ کرکے گھٹنوں  کے بل گر جائیں  گے جیسا کہ زیرِتفسیر آیت میں  بیان ہوا، تو ان دونوں  آیات میں  جدا جدا احوال کا بیان ہے اس لئے ان میں  کوئی تَعارُض نہیں ۔

دنیا و آخرت میں  شیطان کا ساتھی بننے کاسبب:

            اس آیت کی تفسیر میں  بیان ہو اکہ کافر اور اسے گمراہ کرنے والا شیطان ایک ساتھ زنجیر میں  جکڑ اہو گا، اس مناسبت سے ہم یہاں  دنیا اور آخرت میں  شیطان کا ساتھی بننے کا ایک سبب بیان کرتے ہیں  ، چنانچہ جو شخص قرآنِ مجید سے اس طرح اندھا بن جائے کہ اس کی ہدایتوں  کو دیکھے نہ ان سے فائدہ اٹھائے،  اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اِعراض کرے اور اس کی گرفت اور عذاب سے بے خوف ہو جائے، دُنْیَوی زندگی کی لذّتوں  اور آسائشوں  میں  زیادہ مشغولیت اور اس کی فانی نعمتوں  اور نفسانی خواہشات میں  اِنہماک کی وجہ سے قرآن سے منہ پھیر لے تو  اللہ تعالیٰ اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتا ہے جو دنیا میں  اسے حلال کاموں  سے روک کر اور حرام کاموں  کی ترغیب دے کر،  اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منع کر کے اور اس کی نافرمانی کا حکم دے کر گمراہ کرتا رہتا ہے یہاں  تک کہ وہ اسے کفر کی اندھیری وادیوں  میں  دھکیل کر حالت ِکفر میں  مرواتا ہے اور پھر یہی شیطان قیامت کے دن بھی اس کے ساتھ ہو گا کہ ان دونوں  کو ایک ساتھ زنجیر میں  جکڑ کر جہنم میں  ڈال دیا جائے گا۔

             اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ(۳۶)وَ اِنَّهُمْ لَیَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ(۳۷)حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ‘‘(زخرف:۳۶-۳۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو رحمٰن کے ذکر سے منہ پھیرے توہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں  تو وہ اس کا ساتھی رہتا ہے۔ اور بیشک وہ شیاطین ان کو راستے سے روکتے ہیں  اوروہ یہ سمجھتے رہتے ہیں  کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں ۔یہاں  تک کہ جب وہ کافر ہمارے پاسآئے گا تو(اپنے ساتھی شیطان سے )کہے گا: اے کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کے برابر دوری ہوجائے توتُو کتنا ہی برا ساتھی ہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ قَیَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ فَزَیَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِۚ-اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِیْنَ‘‘(حم السجدہ:۲۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے کافروں  کیلئے کچھ ساتھی مقرر کر دئیے توانہوں  نے ان کے لئے ان کے آگے اور ان کے پیچھے کو خوبصورت بنا دیا۔ ان پر بات پوری ہوگئی جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جنوں  اور انسانوں  کے گروہوں  پرثابت ہوچکی ہے۔ بیشک وہ نقصان اٹھانے والے تھے۔

            حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب  اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی موت سے ایک سال پہلے اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتا ہے تو وہ جب بھی کسی نیک کام کو دیکھتا ہے وہ اسے برا معلوم ہوتا ہے یہاں  تک کہ وہ اس پر عمل نہیں  کرتا اور جب بھی وہ کسی برے کام کو دیکھتا ہے تو وہ اسے اچھا معلوم ہوتا ہے یہاں  تک کہ وہ اس پر عمل کرلیتا ہے۔(مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۲۴۵، الحدیث: ۹۴۸)

            اس میں  خاص طور پر کفار اور عمومی طور پرتمام مسلمانوں  کے لئے نصیحت ہے کہ وہ ایسے کام کرنے سے بچیں  جن کی وجہ سے شیطان کو ان کا ساتھی بنا دیا جائے کیونکہ شیطان انتہائی برا ساتھی ہے جیساکہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا‘‘(النساء:۳۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جس کا ساتھی شیطان بن جائے تو کتنا برا ساتھی ہوگیا۔

             اور جس کا ساتھی شیطان ہو وہ اپنے انجام پر خود ہی غور کرلے کہ کیساہو گا۔

19:69
ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِیْعَةٍ اَیُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِیًّاۚ(۶۹)
پھر ہم (ف۱۱۷) ہر گروہ سے نکالیں گے جو ان میں رحمن پر سب سے زیادہ بے باک ہوگا (ف۱۱۸)

{ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِیْعَةٍ:پھر ہم ہر گروہ سے اسے نکالیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ جہنم کے آس پاس کفار کو جمع کرنے کے بعد ہم کفار کے ہر گروہ سے اسے نکالیں  گے جو ان میں  رحمٰن کی نافرمانی کرنے پر سب سے زیادہ بے باک ہوگا تاکہ جہنم میں  سب سے پہلے اُسے داخل کیا جائے جو سب سے زیادہ سرکش اور کفر میں  زیادہ شدید ہو اور بعض روایات میں  ہے کہ کفار سب کے سب جہنم کے گرد زنجیروں  میں  جکڑے طوق ڈالے ہوئے حاضر کئے جائیں  گے پھر جو کفر و سرکشی میں  زیادہ سخت ہوں  گے وہ پہلے جہنم میں  داخل کئے جائیں  گے اور انہیں  باقی کافروں  کے مقابلے میں  عذاب بھی زیادہ سخت ہوگا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۲۴۲)

کفار کے عذاب میں  فرق ہو گا:

            یاد رہے کہ کفر اگرچہ یکساں  ہے کہ ’’اَلکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ‘‘ یعنی کفر ایک ہی ملت ہے، مگر کفار مختلف قسم کے ہیں  کہ بعض ان میں  سے وہ ہیں  جو خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں  کو بھی گمراہ کیا اور بعض وہ ہیں  جو کسی کی پیروی کر کے گمراہ ہوئے تو ان میں  ہر قسم کے کافر کو اس قسم کا عذاب ہو گا جس کا وہ مستحق ہے جیسے گمراہ گَر کافروں  کو پیروی کرنے والے کفار کے مقابلے میں  دگنا عذاب ہو گا،چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ‘‘(نحل: ۸۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: جنہوں  نے کفر کیا اور  اللہ کی راہ سے روکا ہم ان کے فساد کے بدلے میں  عذاب پر عذاب کا اضافہ کردیں  گے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے

’’وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ‘‘ (عنکبوت:۱۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں  گے اور اپنے بوجھوں  کے ساتھ اور بوجھ اٹھائیں  گے ۔

{ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ:پھر ہم انہیں  خوب جانتے ہیں ۔} یعنی ہم خوب جانتے ہیں  کہ کون سا کافر جہنم کے کس طبقہ کے لائق ہے اور کون سا کافر جہنم کے شدید عذاب کا مستحق ہے اور کون سا نہیں  اور کسے پہلے جہنم میں  پھینکا جائے گا اورکسے بعد میں ۔

19:70
ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِیْنَ هُمْ اَوْلٰى بِهَا صِلِیًّا(۷۰)
پھر ہم خوب جانتے ہیں جو اس آگ میں بھوننے کے زیادہ لائق ہیں،

19:71
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ(۷۱)
اور تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو (ف۱۱۹) تمہارے رب کے ذمہ پر یہ ضرور ٹھہری ہوئی بات ہے (ف۱۲۰)

{وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا:اور تم میں  سے ہرایک دوزخ پر سے گزرنے والاہے۔} اس آیت سے متعلق مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، ان میں  سے 3قول درج ذیل ہیں :

(1)… اس آیت میں  کافروں  سے خطاب ہے( اور جہنم پر وارد ہونے سے مراد جہنم میں  داخل ہونا ہے۔)

(2)… اس میں  خطاب تمام لوگوں  سے ہے اور جہنم پر وارد ہونے سے مراد جہنم میں  داخل ہونا ہے البتہ (جنت میں  جانے والے) مسلمانوں  پر جہنم کی آگ ایسے سرد ہو جائے گی جیسے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر دنیا میں  آگ سرد ہوئی تھی اور ان کا یہ داخلہ عذاب پانے کے طور پر نہ ہو گا اور نہ ہی یہ وہاں  خوفزدہ ہوں  (بلکہ ان کا یہ داخلہ صرف  اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کی تصدیق کے لئے ہوگا۔)( تاویلات اہل السنہ، مریم، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۲۷۴-۲۷۵)

(3)…علامہ ابوحیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اس آیت میں  خطاب عام مخلوق سے ہے (یعنی اس خطاب میں  نیک و بد تمام لوگ داخل ہیں ) اور جہنم پر وارد ہونے سے (نیک و بد) تمام لوگوں  کا جہنم میں  داخل ہونا مراد نہیں  (بلکہ اس سے مراد جہنم کے اوپر سے گزرنا ہے،جیسا کہ ) حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْسے روایت ہے کہ جہنم پر وارد ہونے سے مراد پل صراط پر سے گزرنا ہے جو کہ جہنم کے او پر بچھایا گیا ہے۔( البحر المحیط، مریم، تحت الآیۃ: ۷۱، ۶ / ۱۹۷)

{كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا: یہ تمہارے رب کے ذمہ پر حتمی فیصلہ کی ہوئی بات ہے۔} یعنی جہنم پر وارد ہونا  اللہ تعالیٰ کا وہ حتمی فیصلہ ہے جو اس نے اپنے تمام بندوں  پر لازم کیا ہے۔

پل صراط سے متعلق چند اہم باتیں :

            اس آیت کی تفسیر میں پل صراط سے گزرنے کا بھی ذکر ہوا، اس مناسبت سے یہاں  پل صراط سے متعلق چند اہم باتیں  ملاحظہ ہوں ، چنانچہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’صراط حق ہے ۔یہ ایک پل ہے کہ پشتِ جہنم پر نصب کیا جائے گا۔ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا ۔ جنت میں  جانے کا یہی راستہ ہے۔ سب سے پہلے نبی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ وَسَلَّمَ گزر فرمائیں  گے، پھر اور اَنبیا و مُرسَلین، پھر یہ اُمت پھر اور اُمتیں  گزریں  گی  اور حسبِ اِختلافِ اعمال پل صراط پر لوگ مختلف طرح سے گزریں  گے، بعض تو ایسے تیزی کے ساتھ گزریں  گے جیسے بجلی کا کوندا کہ ابھی چمکا اور ابھی غائب ہوگیا اور بعض تیز ہوا کی طرح، کوئی ایسے جیسے پرند اڑتا ہے اور بعض جیسے گھوڑا دوڑتا ہے اور بعض جیسے آدمی دوڑتا ہے، یہاں  تک کہ بعض شخص سرین پر گھسٹتے ہوئے اور کوئی چیونٹی کی چال جائے گا اور پل صراط کے دونوں  جانب بڑے بڑے آنکڑے ( اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ہی جانے کہ وہ کتنے بڑے ہونگے) لٹکتے ہوں  گے، جس شخص کے بارے میں  حکم ہوگا اُسے پکڑلیں  گے، مگر بعض تو زخمی ہو کرنجات پا جائیں  گے اور بعض کو جہنم میں  گرا دیں  گے   اور یہ ہلاک ہوا۔ یہ تمام اہلِ محشر تو پل پر سے گزرنے میں  مشغول، مگر وہ بے گناہ، گناہگاروں  کا شفیع پل کے کنارے کھڑا ہوا بکمالِ گریہ وزاری اپنی اُمتِ عاصی کی نجات کی فکر میں  اپنے رب سے دُعا کر رہا ہے: ’’رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ‘‘ اِلٰہی! ان گناہگاروں  کو بچالے بچالے۔ اور ایک اسی جگہ کیا! حضور (صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اُس دن تمام مواطن میں  دورہ فرماتے رہیں  گے، کبھی میزان پر تشریف لے جائیں  گے، وہاں  جس کے حسنات میں  کمی دیکھیں  گے، اس کی شفاعت فرما کر نجات دلوائیں  گے اور فوراً ہی دیکھو تو حوضِ کوثر پر جلوہ فرما ہیں  ، پیاسوں  کو سیراب فرما رہے ہیں  اور وہاں  سے پل پر رونق افروز ہوئے اور گرتوں  کو بچایا۔ غرض ہر جگہ اُنھیں  کی دوہائی، ہر شخص اُنھیں  کو پکارتا، اُنھیں  سے فریاد کرتا ہے اور اُن کے سوا کس کوپکارے۔۔۔؟! کہ ہر ایک تو اپنی فکر میں  ہے، دوسروں  کو کیا پوچھے، صرف ایک یہی ہیں ، جنہیں  اپنی کچھ فکر نہیں  اور تمام عالَم کا بار اِن کے ذمے۔( بہار شریعت، حصہ اول، معاد وحشر کا بیان، ۱ / ۱۴۷-۱۴۹)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ اس وقت کی منظر کَشی کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں :

پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں  گے

آپ روتے جائیں  گے ہم کو ہنساتے جائیں  گے

کچھ خبر بھی ہے فقیرو آج وہ دن ہے کہ

 وہ نعمتِ خُلد اپنے صَدقے میں  لٹاتے جائیں  گے

خاک اُفتادو! بس اُن کے آنے ہی کی دیر ہے

خود وہ گر کر سجدہ میں  تم کو اٹھاتے جائیں  گے

آنکھ کھولو غمزدو دیکھو وہ گِریاں  آئے ہیں

لَوحِ دل سے نقشِ غم کو اب مٹاتے جائیں  گے

پائے کوباں  پل سے گزریں  گے تری آواز پر

رَبِّ سَلِّمْ کی  صَدا  پر  وَجد  لاتے  جائیں   گے

 

پل صراط کاخوفناک منظر:

            یاد رہے کہ پل صراط سے گزرنے کا مرحلہ انتہائی مشکل اور اس کا منظر بہت خوفناک ہے، امام محمد غزالی رَحْمَۃُ  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : (جب قیامت کے دن ) لوگوں  کو پل صراط کی طرف لے جایا جائے گا جو کہ جہنم کے اوپر بنایا ہوا ہے اور وہ تلوار سے زیادہ تیز، بال سے زیادہ باریک ہے۔ تو جو شخص اس دنیا میں  صراطِ مستقیم پر قائم رہا وہ آخرت میں  پل صراط پر ہلکا ہوگا اور نجات پاجائے گا اور جو دنیا میں  اِستقامت کی راہ سے ہٹ گیا، گناہوں  کی وجہ سے اس کی پیٹھ بھاری ہوئی اور وہ نافرمانی کرتا رہا تو پہلے قدم پر ہی وہ پل صراط سے پھسل کر (جہنم میں ) گر جائے گا۔ تو اے بندے! ذرا سوچ کہ اس وقت تیرا دل کس قدر گھبرائے گا جب تو پل صراط اور اس کی باریکی دیکھے گا، پھر اس کے نیچے جہنم کی سیاہی پر تیری نظر پڑے گی، اس کے نیچے آگ کی چیخ اور اس کا غصے میں  آنا سنے گا اور کمزور حالت کے باوجود تجھے پل صراط پر چلنا ہوگا، چاہے تیرا دل بے قرار ہو، قدم پھسل رہے ہوں  اور پیٹھ پر اتنا وزنی بوجھ ہو جو زمین پر چلنے سے رکاوٹ ہے۔ نیز پل صراط کی باریکی پر چلنا تو ایک طرف رہا، اس وقت تیری کیا حالت ہوگی، جب تو اپنا ایک پاؤں  اِس پل پر رکھے گا اور اس کی تیزی کو محسوس کرے گا، لیکن (نہ چاہتے ہوئے بھی) دوسرا قدم اٹھانے پر مجبور ہوگا اور تیرے سامنے لوگ پھسل پھسل کر گر رہے ہوں  گے اور جہنم کے فرشتے انہیں  کانٹوں  اور مڑے ہوئے سرے والے لوہے سے پکڑ رہے ہوں  گے اور تو ان کی طرف دیکھ رہا ہوگا کہ وہ کس طرح سر نیچے اور پاؤں  اوپر کئے ہوئے جہنم میں  جارہے ہوں  گے تو یہ کس قدر خوفناک منظر ہوگا اور تجھے سخت مقام پر چڑھائی کرنی اور تنگ راستے سے گزرنا ہوگا۔ تو اپنی حالت کے بارے میں  سوچ کہ جب تو اس پر چلے گا اور چڑھے گا اور بوجھ کی وجہ سے تیری پیٹھ بھاری ہو رہی گی اور اپنے دائیں  بائیں  لوگوں  کو جہنم میں  گرتے ہوئے دیکھ رہا ہو گا۔ رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اے میرے رب! بچالے ،اے میرے رب ! بچالے، پکار رہے ہوں  گے، تباہی اور خرابی کی پکار جہنم کی گہرائی سے تیری طرف آرہی ہوگی، کیونکہ بے شمار لوگ پل صراط سے پھسل چکے ہوں  گے ،اس وقت اگر تیرا قدم بھی پھسل گیا تو کیا ہوگا…؟اس وقت ندامت بھی تجھے کوئی فائدہ نہ دے گی اور تو بھی ہائے خرابی، ہائے ہلاکت پکار رہا اور یوں  کہہ رہا ہو گا کہ میں  اسی دن سے ڈرتا تھا ،کاش !میں  نے اپنی (اس) زندگی کے لیے کچھ آگے بھیجا ہوتا۔ کاش! میں  رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بتائے ہوئے راستے پر چلا ہوتا۔ ہائے افسوس ! میں  نے فلاں  کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا ۔ کاش! میں  مٹی ہو گیا ہوتا۔ کاش ! میں  بھولا بسرا ہوجاتا۔ کاش! میری ماں  نے ہی مجھے پیدا نہ کیا ہوتا۔ اس وقت آگ کے شعلے تجھے اچک لیں  گے اور ایک منادی اعلان کردے گا’’اِخْسَــٴُـوْا فِیْهَا وَ لَا تُكَلِّمُوْنِ‘‘دھتکارے ہوئے جہنم میں  پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔(مومنون:۱۰۸) اب چیخنے چلانے، رونے، فریاد کرنے اور مدد مانگنے کے سوا تیرے پاس کوئی راستہ نہ ہوگا۔

            اے بندے! تو اس وقت تو اپنی عقل کو کس طرح دیکھتا ہے حالانکہ یہ تمام خطرات تیرے سامنے ہیں ؟ اگر تیرا ان باتوں  پر عقیدہ نہیں  تو ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ تو دیر تک (یعنی ہمیشہ کیلئے) کفار کے ساتھ جہنم میں  رہنا چاہتا ہے اور اگر تو ان باتوں  پر ایمان رکھتا ہے لیکن غفلت کا شکار ہے اور اس کے لیے تیاری میں  سستی کا مظاہرہ کررہا ہے تواس میں  تیرا نقصان اور سرکشی کتنی بڑی ہے۔ ایسے ایمان کا تجھے کیا فائدہ جو  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس کی نافرمانی چھوڑنے کے ذریعے تجھے اس کی رضا جوئی کی خاطر کوشش کی ترغیب نہیں  دیتا، اگر بالفرض تیرے سامنے پل صراط سے گزرنے کے خوف سے پیدا ہونے والی دل کی دہشت کے سوا کچھ نہ ہو، اگرچہ تو سلامتی کے ساتھ ہی گزرجائے تو یہ ہولناک خوف اور رعب کیا کم ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ الصراط، ۵ / ۲۸۵)

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  مزید فرماتے ہیں : قیامت کے ہولناک حالات میں  وہی شخص زیادہ محفوظ ہوگا جو دنیا میں  اس کی فکر زیادہ کرے گا کیونکہ  اللہ تعالیٰ ایک بندے پر دو خوف جمع نہیں  کرتا، تو جو آدمی دنیا میں  ان خوفوں  سے ڈرا وہ آخرت کے دن ان سے محفوظ رہے گا، اور خوف سے ہماری مراد عورتوں  کی طرح کا خوف نہیں  ہے کہ سنتے وقت دل نرم ہوجائے اور آنسو جاری ہو پھر جلد ہی اسے بھول جاؤ اور اپنے کھیل کود میں  مشغول ہوجاؤ ،کیونکہ اس بات کا خوف سے کوئی تعلق نہیں  بلکہ جو آدمی کسی چیز سے ڈرتا ہے وہ اس سے بھاگتا ہے اور جو شخص کسی چیز کی امید رکھتا ہے وہ اسے طلب کرتا ہے ،تو تجھے وہی خوف نجات دے گا جو  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکے اور اس کی اطاعت پر آمادہ کرے۔ نیزعورتوں  کی طرح دل نرم ہونے سے بھی بڑھ کر بے وقوفوں  کا خوف ہے کہ جب وہ ہَولناک مَناظِر کے بارے میں  سنتے ہیں  تو فوراً ان کی زبان پر اِستعاذہ (یعنی اَعُوْذُ بِاللّٰہ)جاری ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں  میں   اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتا ہوں ،  اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں ۔ یااللّٰہ! بچالینا، بچالینا۔ اس کے باوجود وہ گناہوں  پر ڈٹے رہتے ہیں  جو ان کی ہلاکت کا باعث ہیں ۔ شیطان ان کے پناہ مانگنے پر ہنستا ہے جس طرح وہ اس آدمی پر ہنستا ہے جسے صحرا میں  کوئی درندہ پھاڑنا چاہتا ہو اور اس کے پیچھے ایک قلعہ ہو ،جب وہ دور سے درندے کی داڑھوں  اور اس کے حملہ کرنے کو دیکھے تو زبان سے کہنے لگے کہ میں  اس مضبوط قلعے میں  پناہ لیتا ہوں  اور اس کی مضبوط دیواروں  اور سخت عمارت کی مدد چاہتا ہوں  اور وہ یہ کلمات اپنی جگہ بیٹھے ہوئے صرف زبان سے کہتا رہے تو یہ بات کس طرح اسے درندے سے بجائے گی…؟ تو آخرت کا بھی یہی حال ہے کہ اس کا قلعہ صرف سچے دل سے ’’لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کہنا ہے اور سچائی کا معنی یہ ہے کہ اس کا مقصود صرف  اللہ تعالیٰ ہو اور اس کے علاوہ کوئی مقصود و معبود نہ ہو، اور جو شخص اپنی خواہش کو معبود بنالیتا ہے تو وہ توحید میں  سچائی سے دور ہوتا ہے اور اس کا معاملہ خود خطرناک ہے۔ اگر تم ان باتوں  سے عاجز ہو تو  اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کرنے والے بن جاؤ، آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت کی تعظیم کے حریص ہوجاؤ۔ امت کے نیک لوگوں کے دلوں  کی رعایت کا شوق رکھنے والے ہوجاؤ اور ان کی دعاؤں  سے برکت حاصل کرو تو ممکن ہے کہ تمہیں  نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور ان نیک لوگوں  کی شفاعت سے حصہ ملے اور اس وجہ سے تم نجات پاجاؤ اگرچہ تمہاری پونجی کم ہو۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ الصراط، ۵ / ۲۸۶-۲۸۷)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ   اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کرتے ہیں  اور انہی کے الفاظ میں  ہم بھی  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض گزار ہیں  کہ

یا الٰہی جب چلوں  تاریک راہِ پل صراط

آفتابِ ہاشمی نورُالہُدیٰ کا ساتھ ہو

یا الٰہی جب سرِ شمشیر پر چلنا پڑے

رَبِّ سَلِّمْ  کہنے والے غمزُدا کا ساتھ ہو

19:72
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا(۷۲)
پھر ہم ڈر والوں کو بچالیں گے (ف۱۲۱) اور ظالموں کو اس میں چھوڑ دیں گے گھٹنوں کے بل گرے،

{ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا:پھر ہم ڈر نے والوں  کو بچالیں  گے ۔} اس سے پہلی والی آیت کی تفسیر میں  ایک قول گزرا کہ جہنم پر وارد ہونے سے مراد پل صرا ط سے گزرنا ہے ، اُس کے مطابق اِس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ جب تمام مخلوق پل صراط سے گزرے گی اور کفار و گناہگار مسلمان جہنم میں  گر رہے ہوں  گے اس وقت  اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان میں  سے ان لوگوں  کو جہنم میں  گرنے سے بچا لے گا جنہوں  نے دنیا میں  پر ہیز گاری اختیار کی اوروہ کافروں  کو جہنم میں  گھٹنوں  کے بل گرا ہوا چھوڑ دے گا۔ یاد رہے کہ بعض گنہگار مسلمان جو پل صراط سے جہنم میں  گرجائیں  گے انہیں  گناہوں  کی سزا پوری ہونے کے بعد جہنم سے نکال لیا جائے گا جبکہ کافرہمیشہ جہنم میں  ہی رہیں  گے ۔

نجانے ہم پل صراط سے نجات پاجائیں  گے یا نہیں :

            ہمارے بزرگانِ دین دنیا میں  ہر طرح سے تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے اور نیک اعمال کی کثرت کرنے کے باوجود پل صراط سے نجات پانے کے معاملے میںاللہ تعالیٰ کی خُفیہ تدبیر سے بہت خوفزدہ رہا کرتے تھے ، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ  اپنی زوجہ محترمہ کی گود میں  اپنا سر رکھے ہوئے تھے کہ اچانک رونے لگے، انہیں  روتا دیکھ کر زوجہ بھی رونے لگیں۔ آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُنے ان سے پوچھا :تم کیوں  روتی ہو؟ انہوں  نے جواب دیا: میں  نے آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کو روتا دیکھاتو مجھے بھی رونا آگیا۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا ’’مجھے  اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد آگیا کہ’’وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا‘‘اور تم میں  سے ہرایک دوزخ پر سے گزرنے والاہے ۔‘‘تو مجھے نہیں  معلوم کہ میں  جہنم سے نجات پا جاؤں  گا یا نہیں۔(مستدرک، کتاب الاہوال، یرد الناس النار ثمّ یصدرون عنہا باعمالہم، ۵ / ۸۱۰، الحدیث: ۸۷۸۶)

            اسی طرح ایک دن حضرت حسن بصری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ لوگو ں  کو وعظ ونصیحت کرنے بیٹھے تو لوگ ان کے قریبآنے کے لئے ایک دو سرے کو دھکیلنے لگے ، اس پر آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے میرے بھائیو! آج تم میرا قرب پانے کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دے رہے ہو، کل قیامت میں  تمہارا کیا حال ہوگا جب پرہیزگاروں  کی مجالس قریب ہوں  گی جبکہ گنہگاروں  کی مجالس کو دور کردیا جائے گا، جب کم بوجھ والوں  (یعنی نیک لوگوں ) سے کہا جائے گا کہ تم پل صراط عبور کرلو اور زیادہ بوجھ والوں  (یعنی گناہگاروں  ) سے کہا جائے گا کہ تم جہنم میں  گرجاؤ ۔ آہ! میں  نہیں  جانتا کہ میں  زیادہ بو جھ والوں  کے ساتھ جہنم میں  گرپڑوں  گا یا تھوڑے بو جھ والوں  کے ساتھ پل صراط پار کرجاؤں  گا۔( بحر الدموع، الفصل السادس: تنبیہ الغافلین من نسیان الآخرۃ، ص۵۳)

            یونہی ایک بار خلیفۂ عادل حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کی لونڈی نے نیند سے بیدار ہوکر عرض کی: اے امیر المومنین! رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ ، میں  نے ابھی ابھی ایک خواب دیکھا ہے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے فرمایا: وہ خواب بیان کرو۔ لونڈی نے عرض کی: میں  نے خواب میں  دیکھا کہ جہنم بھڑک رہا ہے اور اس کی پشت پر پل صراط قائم کر دیا گیا ہے ،اتنے میں  بنی اُمیّہ کے خلیفہ عبدالملک کولایا گیا، وہ پل صراط پر چند قدم چلا اور جہنم میں  گرگیا، پھر ولید بن عبدالملک کو لایا گیا تو وہ بھی چند قدم چل کر جہنم میں  گرگیا، پھر خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کو لایا گیا تو وہ بھی تھوڑی دور پل صراط پر چل کر جہنم میں  اوندھا ہو کر گر پڑا ۔آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے بے قرار ہو کر پوچھا: پھر کیا ہوا؟ لونڈی نے عرض کی: اے امیر المومنین! رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ ، پھر آپ لائے گئے۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  چیخ مار کر بے ہوش ہوگئے اور لونڈی ان کے کان کے قریب جا کر کہنے لگی: اے امیر المومنین ! رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ ، میں  نے دیکھا کہ آپ پل صراط سے پار ہو کر نجات پا گئے، خدا کی قسم! آپ سلامتی کے ساتھ پل صراط سے پار ہوگئے، مگر حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  برابر پاؤں  پٹخ پٹخ کر چیخ مارتے اور روتے رہے۔( احیاء علوم الدین،کتاب الخوف والرجاء،بیان احوال الصحابۃ والتابعین والسلف الصالحین فی شدۃ الخوف،۴ / ۲۳۱)اللہ تعالیٰ ہمیں  بھی پل صراط سے گزرنے کے معاملے میں  اپنی فکر کرنے اور ایسے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کی وجہ سے پل صراط سے گزرنا آسان ہوں ۔([1])

پل صراط پر آسانی اور حفاظت کے لئے 3اَعمال:

            یہاں  پل صراط پر آسانی اور حفاظت کے ساتھ پل صراط پار کر جانے کے لئے 3 اَعمال ملاحظہ ہوں :

 (1)…درود شریف پڑھنا:

            حضرت عبد الرحمٰن بن سمرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میں  نے گزشتہ رات عجیب معاملات دیکھے (ان میں  سے ایک یہ بھی تھا کہ) میں  نے اپنے ایک امتی کو دیکھا جو پل صراط پر کبھی گھسٹ کر چل رہا تھا اور کبھی گھٹنوں  کے بل چل رہا تھا ، اتنے میں  وہ دُرُود شریف آیا جو اس نے مجھ پر بھیجا تھا، اُس نے اُسے پُل صِراط پر کھڑا کر دیا یہاں  تک کہ اُس نے پل صراط کو پار کر لیا۔( معجم الکبیر، حدیث عبد الرحمٰن بن سمرۃ فی رؤیا رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم، ۲۵ / ۲۸۱، الحدیث: ۳۹)

(2)…مسجد میں  بکثرت حاضر ہونا:

            حضرت ابو دردا ء رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’مسجد ہر پرہیز گار کا گھر ہے اور جن کے گھر مسجدیں  ہوں   اللہ تعالیٰ انہیں  اپنی رحمت، رضا ،اور پل صراط سے حفاظت کے ساتھ گزار کر اپنی رضا (والے گھر جنت) کی  ضمانت دیتا ہے۔( کتاب الجامع فی آخر المصنف، باب اصحاب الاموال، ۱۱ / ۱۳۵، الحدیث: ۲۰۱۹۸)

 (3)…مسلمان کی پریشانی دور کرنا:

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی مسلمان کی ایک پریشانی دور کی تو  اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے لئے پل صراط پر نور کی ایسی دوشاخیں  بنا دے گا جن کی روشنی سے اتنے عالَم روشن ہوں  گے جنہیں   اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شمار نہیں  کرسکتا۔( معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ عبد اللّٰہ، ۴ / ۳۸۵، الحدیث: ۴۵۰۴)


[1] ۔۔۔ پل صراط سے گزرنے سے متعلق دل میں  مزیدخوف اور فکر پیدا کرنے کے لئے امیر ِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ ’’پل صراط کی دہشت‘‘ پڑھنا مفید ہے۔

19:73
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤاۙ-اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِیًّا(۷۳)
اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں پڑھی جاتی ہیں (ف۱۲۲) کافر مسلمانوں سے کہتے ہیں کون سے گروہ کا مکان اچھا اورمجلس بہتر ہے (ف۱۲۳)

{وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ:اور جب ان کے سامنے ہماری روشن آیات کی تلاوت کی جاتی ہے۔} نضر بن حارث وغیرہ کفارِ قریش جو کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے منکر تھے جب ان کے سامنے قیامت قائم ہونے اور اَجسام کا حشر ہونے پر دلائل پیش کئے گئے تو انہوں  نے بناؤ سنگار کر کے ، بالوں  میں  تیل ڈال کر ، کنگھیاں  کر کے ، عمدہ لباس پہن کر اور فخر و تکبر کے ساتھ اُن دلائل کے جواب میں  غریب فقیر مسلمانوں  سے کہا کہ اے مسلمانو! تم اپنی معاشی حالت پر غور کرو اور ہماری معاشی حالت دیکھو، ہم اعلیٰ قسم کی رہائش گاہوں  میں  رہتے ہیں  ،اعلیٰ قسم کے لباس پہنتے ہیں ، اعلیٰ قسم کاکھانا کھاتے ہیں  اور ہماری محفلیں  بھی تمہاری محفلوں  سے زیادہ بارونق ہیں  اور تمہارا حال ہم سے انتہائی برعکس ہے، اس سے تم سمجھ جاؤ کہ اگرہم باطل پرہوتے تو ہمارا حال بد تر اور تمہارا حال ہم سے بہتر ہوتا ۔‘‘

یاد رہے کہ اس آیت کامُدّعا یہ ہے کہ جب آیات نازِل کی جاتی ہیں  اور دلائل و بَراہین پیش کئے جاتے ہیں  تو کفار ان میں  غورو فکر کرتے ہیں  اور نہ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں  اور اس کی بجائے وہ مال ودولت اور لباس و مکان پر فخر و تکبر کرتے ہیں  ۔

دُنْیَوی ترقی کو اُخروی بہتری کی دلیل بنانا درست نہیں :

اس آیت میں  جو دلیل بیان ہوئی یہ کفار کی وہ دلیل ہے جو فی زمانہ کفار اور ان سے مرعوب مسلمان بھی مسلمانوں  کے سامنے پیش کرتے ہیں  اور کافروں  کی دُنْیَوی اور سائنسی اِیجادات میں  ترقی کی مثالیں  پیش کرکے مسلمانوں  کے دلوں  میں  دین ِاسلام سے متعلق شکوک و شُبہات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیوی عیش وعشرت کو آخرت کی بہتری کی دلیل بنانا کفار کا طریقہ ہے حالانکہ یہ چیزیں  کبھی آخرت کا وَبال بن جاتی ہیں۔  اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں  کو عقلِ سلیم عطا فرما ئے اور انہیں  اپنی حقیقی بہتری کو پہچاننے کی توفیق نصیب کرے۔اٰمین۔

19:74
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّ رِءْیًا(۷۴)
اور ہم نے ان سے پہلے کتنی سنگتیں کھپادیں (قومیں ہلاک کردیں) (ف۱۲۴) کہ وہ ان سے بھی سامان اور نمود میں بہتر تھے،

{وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ:اور ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں  ہلاک کردیں ۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے ان کافروں  کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ دنیوی مال ودولت یاعزت وشہرت ہونا کسی کے حق پر ہونے کی کوئی دلیل نہیں ، تم سے پہلے تم سے زیادہ مالد ارلوگ آئے اور انہوں  نے تم سے بھی زیادہ خوبصورت اور مضبوط رہائش گاہیں  بنائیں  جیسے فرعون ہامان، قارون اور ان کے ساتھی وغیرہ ، مگر  اللہ تعالیٰ نے ان کے خوبصورت اور مضبوط مکانات تباہ وبرباد کردئیے اور ان کو نشانِ عبرت بنادیا۔ لہٰذا تم بھی غور کرو اور اپنی اصلاح کرلو کیونکہ دنیا کا مال ودولت ہونا کامیابی کے لیے کافی نہیں ۔ اسی کی کچھ جھلک ہم اپنے قریب زمانے میں  بھی دیکھ سکتے ہیں  کہ ایک سلطنت کبھی اتنی بڑی تھی کہ اس کی حکومت میں  سورج غروب نہ ہوتا تھا لیکن آج وہ چھوٹے سے رقبے پر رہ گئی ، یونہی ایک ملک آدھی دنیا کا مالک بننے کا دعویٰ کرتا پھر رہا تھا لیکن بالآخر تباہ و برباد ہوا اور کمزور سے ملک سے ذلیل و خوار ہوکر نکالا گیا اور اب دوبارہ وہ اپنی روٹی پانی کی فکر میں  پڑا ہوا ہے۔

19:75
قُلْ مَنْ كَانَ فِی الضَّلٰلَةِ فَلْیَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّاۚ۬-حَتّٰۤى اِذَا رَاَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ اِمَّا الْعَذَابَ وَ اِمَّا السَّاعَةَؕ-فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضْعَفُ جُنْدًا(۷۵)
تم فرماؤ جو گمراہی میں ہو تو اسے رحمن خوب ڈھیل دے (ف۱۲۵) یہاں تک کہ جب وہ دیکھیں وہ چیز جس کا انہیں وعدہ دیا جاتا ہے یا تو عذاب (ف۱۲۶) یا قیامت (ف۱۲۷) تو اب جان لیں گے کہ کس کا برا درجہ ہے اور کس کی فوج کمزور (ف۱۲۸)

{قُلْ مَنْ كَانَ فِی الضَّلٰلَةِ:تم فرماؤ : جو گمراہی میں  ہو ۔} اس آیت میں  کافروں  کے نظریے کا ایک اور جواب دیا گیا، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مال و مَنال پر فخر کرنے والے اِن کافروں  سے ارشاد فرما دیں  کہ جو گمراہی میں  ہو تو اسے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ دنیا میں  لمبی عمر اور زیادہ مال دے کر خوب ڈھیل دیتا ہے یہاں  تک کہ جب وہ گمراہ لوگ اس چیز کو دیکھیں  گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے یا تو دنیا میں  قتل و قید کا عذاب اوریا قیامت کا دن جس میں  وہ جہنم میں  داخل ہوں  گے تواس وقت وہ جان لیں  گے کہ مسلمانوں  اور کافروں  میں  سے کس کا درجہ برا اور کس کی فوج کمزور ہے؟( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۲۴۵، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۷۵، ۵ / ۳۵۲-۳۵۳، ملتقطاً)

19:76
وَ یَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًىؕ-وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ مَّرَدًّا(۷۶)
او رجنہوں نے ہدایت پائی (ف۱۲۹) اللہ انھیں اور ہدایت بڑھائے گا (ف۱۳۰) اور باقی رہنے والی نیک باتوں کا (ف۱۳۱) تیرے رب کے یہاں سب سے بہتر ثواب اور سب سے بھلا انجام (ف۱۳۲)

{وَ یَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًى:اور ہدایت پانے والوں  کی ہدایت کو  اللہ اور زیادہ بڑھا دیتا ہے۔} گمراہ لوگوں  کا حال بیان کرنے کے بعد اب یہاں  سے ہدایت پانے والوں  کا حال بیان کیا جا رہا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں  نے ہدایت پائی اور ایمان سے مشرف ہوئے ،  اللہ تعالیٰ انہیں  اس پر استقامت عطا فرما کے اور مزید بصیرت و توفیق دے کر ان کی ہدایت کو اور بڑھا دے گا اور ان کے ایمان، عمل اور یقین میں  مزید اضافہ فرما دے گا۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۶۸۲،  روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۷۶، ۵ / ۳۵۳، ملتقطاً)

{وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ:اور باقی رہنے والی نیک باتیں ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، باقی رہنے والی نیک باتیں  آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں  ثواب کے اعتبار سے بہتر اور انجام کے اعتبار سے زیادہ اچھی ہیں  جبکہ کفار کے اعمال سب نکمے اور باطل ہیں ۔

باقی رہنے والی نیک باتیں :

مفسرین فرماتے ہیں  کہ طاعتیں  ، آخرت کے تمام اَعمال ، پنجگانہ نمازیں  ،  اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید اور اس کا ذکر اور دیگر تمام نیک اعمال یہ سب باقیاتِ صالحات ہیں  کہ مومن کے لئے باقی رہتے ہیں  اور کام آتے ہیں  ،اسی طرح ہر وہ نیکی جو دنیا میں  برباد نہ ہو جائے وہ باقیاتِ صالحات میں  داخل ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۲۴۵، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۶۸۲، ملتقطاً)

یہاں  باقیات صالحات سے متعلق ایک حدیث پاک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی   عَنْہ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک دن تشریف فرما تھے، آپ نے ایک خشک لکڑی لے کر درخت کے پتے گرائے ، پھر فرمایا ’’لَا اِلٰـہَ اِلَّا  اللہُ وَ اللہ اَکْبَرْوَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ  اللہ ‘‘کہنے سے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں  جس طرح اس درخت کے پتے جھڑ رہے ہیں ۔ اے ابودرداء! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ، اس سے پہلے کہ تمہارے اور ان کلمات کے درمیان کوئی چیز (یعنی موت)حائل ہوجائے تم ان کلمات کو یاد کرلو یہ باقیاتِ صالحات ہیں  اور یہ جنت کے خزانوں  میں  سے ہیں ۔( ابن عساکر، حرف العین، عویمر بن زید بن قیس۔۔۔ الخ، ۴۷ / ۱۵۰)

19:77
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ كَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًاؕ(۷۷)
تو کیا تم نے اسے دیکھا جو ہماری آیتوں سے منکر ہوا اور کہتا ہے مجھے ضرو ر مال و اولاد ملیں گے (ف۱۳۳)

{اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ كَفَرَ بِاٰیٰتِنَا:تو کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں  کے ساتھ کفر کیا۔}صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں  ہے کہ حضرت خباب بن ارت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُکا زمانہ ٔجاہلیت میں  عاص بن وائل سہمی پر قرض تھا وہ اس کے پاس تقاضے کو گئے تو عاص نے کہا کہ میں  تمہارا قرض ادا نہ کروں  گا جب تک کہ تم محمد (مصطفٰیصَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے پھر نہ جاؤ اور کفر اختیار نہ کرو۔ حضرت خباب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُنے فرمایا: ایسا ہر گز نہیں  ہو سکتا یہاں  تک کہ تو مرے اور مرنے کے بعد زندہ ہو کر اُٹھے۔ وہ کہنے لگا: کیا میں  مرنے کے بعد پھر اُٹھوں  گا؟ حضرت خباب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے کہا :ہاں ۔ عاص نے کہا: تو پھر مجھے چھوڑ یئے یہاں  تک کہ میں  مرجاؤں  اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہوں  اور مجھے مال و اولاد ملے جب ہی میں  آپ کا قرض ادا کروں  گا۔ اس پر یہ آیاتِ کریمہ نازل ہوئیں ۔( بخاری، کتاب الاجارۃ، باب ہل یؤاجر الرجل نفسہ من مشرک۔۔۔ الخ، ۲ / ۶۸، الحدیث: ۲۲۷۵، مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنّۃ والنار، باب سؤال الیہود النبیصلی  اللہ علیہ وسلم عن الروح۔۔۔ الخ، ص۱۵۰۲، الحدیث: ۳۵(۲۷۹۵))

چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی3 آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں  کے ساتھ کفر کیا اور وہ مذاق اڑاتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر میں  دوبارہ زندہ ہوا تو آخرت میں  مجھے ضرو ر مال اور اولاد دئیے جائیں  گے۔ کیا اسے غیب کی اطلاع مل گئی ہے اور اُس نے لوحِ محفوظ میں  دیکھ لیا ہے کہ آخرت میں  اسے مال اور اولاد ملے گی یا  اللہ تعالیٰ نے اس سے کوئی وعدہ کیا ہوا ہے جس سے اسے معلوم ہوگیا ہے کہ وہ قیامت میں  بھی خوشحال ہوگا۔ہر گز نہیں  ، وہ نہ توغیب جانتا ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی عہد ہے بلکہ یہ شخص جھوٹا اور بدکار ہے اور جوبات یہ کہہ رہاہے اُسے ہمارے فرشتوں  نے لکھ لیا ہے اور قیامت کے دن ہم اسے اس کابدلہ دیں  گے اور ہم اسے مال و اولاد کے بدلے خوب لمبا عذاب دیں  گے جس کا وہ مستحق ہے اور اس کی ہلاکت کے بعدمال و اولاد سب سے اس کی ملکیت اور اس کا تَصَرُّف اُٹھ جائے گا اور اس کے ہم وارث ہوں  گے اور وہ قیامت کے دن ہمارے پاس تنہا اور خالی ہاتھ آئے گا اور آخرت میں  دنیا سے زیادہ ملنا تو دور کی بات ، دنیا میں  جو مال اور اولاد اس کے ساتھ ہے اُس وقت وہ بھی اس کے ساتھ نہ ہوگا۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۷۷-۸۰، ص۶۸۲-۶۸۳، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۷۷-۸۰، ۳ / ۲۴۵-۲۴۶، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۷۷-۸۰، ۵ / ۳۵۴، ملتقطاً)

سورۂ مریم کی آیت نمبر 77 تا 80 سے حاصل ہونے والی معلومات:

ان آیات سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… شریعت کے احکام کا مذاق اڑانا کفار کا طریقہ ہے۔ اس سے وہ لوگ اپنے طرزِ عمل پر غور کر لیں  جو حدود و قصاص اور نکاح و طلاق وغیرہ سے متعلق شریعت کے اَحکام کا مذاق اڑاتے اور انہیں  انسایت سوزاَحکام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

(2)… مرنے کے بعد اور قیامت کے دن کفار کا مال و اولاد انہیں  کچھ کام نہ آئے گا۔ یاد رہے کہ مومن کامال اور اس کی اولاد کے ساتھ یہ معاملہ نہ ہو گا بلکہ اسے مرنے کے بعد  اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر راہِ خدا میں  خرچ کیا ہوا مال بھی کام آئے گا اور اس کی نیک اولاد سے بھی اسے فائدہ حاصل ہو گا۔

19:78
اَطَّلَعَ الْغَیْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًاۙ(۷۸)
کیا غیب کو جھانک آیا ہے (ف۱۳۴) یا رحمن کے پاس کوئی قرار رکھا ہے،

19:79
كَلَّاؕ-سَنَكْتُبُ مَا یَقُوْلُ وَ نَمُدُّ لَهٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّاۙ(۷۹)
ہرگز نہیں (ف۱۳۵) اب ہم لکھ رکھیں گے جو وہ کہتا ہے اور اسے خوب لمبا عذاب دیں گے،

19:80
وَّ نَرِثُهٗ مَا یَقُوْلُ وَ یَاْتِیْنَا فَرْدًا(۸۰)
اور جو چیزیں کہہ رہا ہے (ف۱۳۶) ان کے ہمیں وارث ہوں گے اور ہمارے پاس اکیلا آئے گا (ف۱۳۷)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

مَرْيَم
مَرْيَم
  00:00



Download

مَرْيَم
مَرْيَم
  00:00



Download