READ

Surah Maryam

مَرْيَم
98 Ayaat    مکیۃ


19:81
وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّیَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّاۙ(۸۱)
اور اللہ کے سوا اور خدا بنالیے (ف۱۳۸) کہ وہ انہیں زور دیں (ف۱۳۹)

{وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً:اور انہوں  نے  اللہ کے سوا کئی اور معبود بنالئے ۔} اس سے پہلی آیات میں  حشر و نشر کا مسئلہ بیان ہوا اور اب یہاں  سے بتوں  کے پجاریوں  کا رد کیا جا رہا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ قریش کے مشرکوں  نے  اللہ تعالیٰ کی بجائے بتوں  کو اپنا معبود بنالیا اور وہ اس امید پر ان کی عبادت کرنے لگے کہ وہ ان کیلئے سفارشی بن جائیں  اور ان کی مدد کریں  اور انہیں  عذاب سے بچائیں ۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۲۴۶، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۶۸۳، ملتقطاً)

19:82
كَلَّاؕ-سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَ یَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِمْ ضِدًّا۠(۸۲)
ہرگز نہیں (ف۱۴۰) کوئی دم جاتا ہے کہ وہ (ف۱۴۱) ان کی بندگی سے منکر ہوں گے اور ان کے مخالفت ہوجائیں گے (ف۱۴۲)

{كَلَّاؕ-سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ:ہرگز نہیں ! عنقریب و ہ ان کی عبادت کا انکار کردیں  گے۔}اس آیت میں  کافروں  کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایسا ہو ہی نہیں  سکتا بلکہ عنقریب وہ بت جنہیں  یہ پوجتے تھے ان کی عبادت کا انکار کردیں  گے اور انہیں  جھٹلائیں  گے اور ان پر لعنت کریں  گے۔  اللہ تعالیٰ انہیں  بولنے کی قوت دے گا اور وہ کہیں  گے :یارب! انہیں  عذاب دے کہ انہوں  نے تیرے سوا کسی اور کی عبادت کی ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۴۶، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۶۸۳، ملتقطاً)

کفار کی جاہلانہ اور اَحمقانہ حرکت:

            اس سے معلوم ہو اکہ کفار کی یہ انتہا درجے کی جاہلانہ اور احمقانہ حرکت ہے کہ انہوں  نے اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں  کوخدا بنالیا اور یہ سمجھنا شروع کردیا کہ ہمارے ہاتھوں  سے بنائے ہوئے خدا ہمیں  عزت بخشیں  گے اور ہمیں  نفع دیں  گے ، حالانکہ ان کے بنائے ہوئے خدا نہ تو انہیں  دنیا میں  کسی قسم کانفع اور عزت بخش سکتے ہیں  اور نہ آخرت میں  بلکہ بروزِ قیامت تو وہ خود ان کی عبادت کے منکر ہوجائیں  گے اور کہیں  گے کہ ہمیں  تمہاری عبادت کی خبر ہی نہیں  اور ان کی بندگی سے اپنی براء ت اور بیزاری کا اظہار کردیں  گے اور ان کے دشمن بن جائیں  گے اور یوں  عزت بڑھانے کی بجائے ان کی ذلت اور رسوائی کاسبب بنیں  گے ۔ اس انسان پر انتہائی افسوس ہے جو عقل و شعور رکھنے کے باوجود بے جان اوربے فائدہ بتوں  کی پوجا تو کرے اور اس رب تعالیٰ کی عبادت نہ کرے جو خود بھی زندہ ہے اور دوسروں  کو زندگی عطا بھی کرتا ہے اور ہر طرح کی ذلت سے بچانے اور عزت عطا کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔

19:83
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ(۸۳)
کیا تم نے نہ دیکھا کہ ہم نے کافروں پر شیطان بھیجے (ف۱۴۳) کہ وہ انہیں خوب اچھالتے ہیں (ف۱۴۴)

{اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ:کیا تم نے نہ دیکھا کہ ہم نے کافروں  پر شیطان بھیجے ۔} گزشہ آیاتِ مبارکہ میں   اللہ تعالیٰ نے کافروں  کی گمراہیوں  اور آخرت میں  ان کے حسرت ناک انجام کابیان فرمایا اور اب اس کاسبب بیان کیا جا رہا ہے کہ آخر کس وجہ سے وہ حق کے خلاف اس طرح کی باتیں  کرتے تھے اور دلائل ہونے کے باوجود سمجھتے نہیں  تھے ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ نے دیکھا نہیں  کہ ہم نے کافروں  پر شیطانوں  کو چھوڑ دیا اور ان پر شیطانوں  کو مُسلَّط کر دیا جو کہ انہیں  طرح طرح کے وسوسے دلا کر گناہوں  پر خوب ابھارتے ہیں  ۔ اس آیت میں  نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس وجہ سے پریشان نہ ہوں  کہ کفار آپ کی دعوت قبول کیوں  نہیں  کر رہے کیونکہ آپ کی دعوت میں  کوئی کمی نہیں  بلکہ ان کافروں  پر شیطان مُسلَّط ہیں  جو انہیں  گناہوں  پر ابھار رہے ہیں  جس کی وجہ سے یہ آپ کی دعوت قبول نہیں  کر رہے۔

 آیت’’اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے چار باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… بد عملی کی وجہ سے انسان پر شیطان مُسلَّط ہوتا ہے۔

(2)… بر ے ساتھی  اللہ تعالیٰ کا عذاب ہیں ۔

(3)…بری باتوں  کی رغبت دینا شیطان اور شیطانی لوگوں  کا کام ہے۔

 (4)… شیطان کسی کو کفر پرمجبور نہیں  کرتا بلکہ کفر پر ابھارتا ہے، اس کے برخلاف انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے وارث کسی کو ایمان قبول کرنے پر مجبور نہیں  کرتے بلکہ وہ بھی صرف انہیں  ایمان کی دعوت اور ترغیب دیتے ہیں  ۔ اب جوعقل والے ہیں  وہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت کوقبول کرتے ہیں  اور جوشہوت پرست اور نفس کے بندے ہوتے ہیں  وہ شیطان کی دعوت کوقبول کرتے ہیں  اور کھلم کھلا  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے مقابلہ پر تُل جاتے ہیں  اور جہنم کی اَبدی سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں ۔

19:84
فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّاۚ(۸۴)
تو تم ان پر جلدی نہ کرو، ہم تو ان کی گنتی پوری کرتے ہیں (ف۱۴۵)

{فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْهِمْ:تو تم ان پرجلدی نہ کرو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مسلمانوں  کو کافروں  کے شر سے بچانے اور زمین کو ان کے فساد سے پاک کرنے کی خاطر کافروں  کی ہلاکت کی دعا کرنے میں  جلدی نہ فرمائیں ، ہم تو ان کے لئے گنتی کر رہے ہیں ۔

             اس سے جزا کے لئے اعمال کی گنتی کرنا مراد ہے یافنا کے لئے سانسوں  کی گنتی کرنا، یا دنوں ، مہینوں  اور برسوں  کی وہ مدت گنتی کرنا مراد ہے جو ان کے عذاب کے واسطے مقرر ہے ۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۸۴، ۵ / ۳۵۵، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۶۸۳، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۲۴۶، ملتقطاً۔)

نیک عمل کرنے میں  جلدی کرنی چاہئے:

            اس آیت میں  کلام اگرچہ کفار کے بارے میں  ہے البتہ اس میں  مسلمانوں  کے لئے بھی یہ نصیحت ہے کہ وہ نیک اعمال کرنے میں  تاخیر سے کام نہ لیں  بلکہ ان میں  جلدی کریں  کیونکہ ان کی سانسیں  بھی گنی جا رہی ہیں ۔ چنانچہ حضرت حسن بصری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُاپنے وعظ میں  فرمایا کرتے کہ’’ جلدی کرو جلدی کرو، یہ چند سانس ہیں  اگر رک گئے تو تم وہ اعمالنہیں  کر سکو گے جو تمہیں   اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں ۔  اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنے نفس کی فکر کرتا اور اپنے گناہوں  پر روتا ہے، پھر آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُنے یہ آیت پڑھی’اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمْ عَدًّا ‘‘ہم تو ان کیلئے گنتی کررہے ہیں ۔ اس سے مراد سانس ہیں  اور آخری عدد جان کا نکلنا ہے ،پھر گھر والوں  سے جدائی ہے اور قبر میں  داخل ہونے کی آخری گھڑی ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ ، الباب الثانی فی طول الامل وفضیلۃ قصر الامل۔۔۔ الخ ، بیان المبادرۃ الی العمل وحذر آفۃ التاخیر، ۵ / ۲۰۵-۲۰۶)

              اللہ تعالیٰ ہمیں  گناہوں  سے بچنے اور نیک اعمال کرنے میں  جلدی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
19:85
یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًاۙ(۸۵)
جس دن ہم پرہیزگاروں کو رحمن کی طرف لے جائیں گے مہمان بناکر (ف۱۴۶)

{یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ:یاد کرو جس دن ہم پرہیزگاروں  کو لے جائیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کو ترغیب دینے اور ڈرانے کے طور پر وہ دن یاد دلائیں  جس دن ہم پرہیزگاروں  اور اطاعت شِعاروں  کو ان کے اس رب کی بارگاہ میں  مہمان بناکر جمع کریں  گے جو اپنی وسیع رحمت کے ساتھ انہیں  ڈھانپے ہوئے ہے۔( روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۳۵۶)

اہلِ جنت کے اِعزاز و اِکرام سے متعلق4روایات:

            اس آیت میں  قیامت کے دن  اللہ تعالیٰ کے پرہیز گار اور اطاعت گزار بندوں  کے اعزاز و اکرام کا ذکر ہوا اور قبروں  سے اٹھ کر میدانِ محشر میں  جانے ، وہاں  ٹھہرنے ،پھر وہاں  سے جنت میں  جانے کے عرصہ کے دوران ان کے اعزاز واکرام کا ذکر کثیر اَحادیث میں  بھی کیا گیا ہے ان میں  سے4 روایات درج ذیل ہیں ۔

(1)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ، نبی کریمصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:  اللہ کی قسم! پرہیزگاروں  کوان کے قدموں  پرنہیں  لایا جائے گا اور نہ ہی انہیں  ہانک کر لایا جائے گا بلکہ انہیں  جنت کی اونٹنیوں  پر لایا جائے گا جن کی مثل مخلوق نے دیکھی ہی نہ ہوگی، ان کے کجاوے سونے کے ہوں  گے اور ان کی مہاریں  زبرجد کی ہوں  گی۔پرہیز گار ان پربیٹھے رہیں  گے یہاں  تک کہ وہ جنت کادروازہ کھٹکھٹائیں  گے۔( البعث لابن ابی داؤد، ص۵۲، الحدیث: ۵۶)

(2)…حضرت ابوسعید رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں : پرہیزگاروں  کو ان اونٹنیوں  پر سوار کر کے لایا جائے گا جن کے کجاوے زمرد اوریاقوت کے ہوں  گے اور جو رنگ وہ چاہیں  گے اسی کے ہوں  گے۔( درمنثور، مریم، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۵۳۸)

(3)…حضرت ربیع رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : جب پرہیزگار لوگ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حاضر ہوں  گے تو ان کی عزت کی جائے گی، انہیں  نعمتیں  بخشی جائیں  گی، انہیں  سلام پیش کیا جائے گا اور ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔( درمنثور، مریم، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۵۳۸)

(4)…جامع البیان میں  ہے کہ مومن جب قبر سے نکلے گا تو ایک حسین اور خوشبودار صورت اس کااستقبال کرے گی اور مومن سے کہے گی کہ کیا تو مجھے پہچانتا ہے ؟ مومن کہے گا نہیں ، بے شک! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے بہت پاکیزہ خوشبودی اور تیری بہت حسین صورت بنائی ۔ وہ صورت کہے گی تو بھی دنیا میں  اسی طرح تھا، میں  تیرا نیک عمل ہوں  ،میں  دنیا میں  بہت عرصہ تک تجھ پر سوار رہا اور آج تومجھ پر سوار ہوجا۔( جامع البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۸۵، ۸ / ۳۸۰)

 

19:86
وَّ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًاۘ(۸۶)
اور مجرموں کو جہنم کی طرف ہانکیں گے پیاسے (ف۱۴۷)

{ وَ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا:اور مجرموں  کو جہنم کی طرف پیاسے ہانکیں  گے ۔} قیامت کے دن پرہیزگار مسلمان تو مہمان بنا کر  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  جمع کئے جائیں  گے جبکہ کافروں  کا حال یہ ہو گا کہ انہیں  ان کے کفر کی وجہ سے ذلت و توہین کے ساتھ پیاسے جانوروں  کی طرح جہنم کی طرف ہانکاجائے گا۔

کافروں  کی سزا کے بارے میں  سن کر مسلمانوں  کو بھی ڈرنا چاہئے:

            یاد رہے کہ ایسی آیات جن میں  کافروں  کی کوئی سزا بیان کی گئی ہو ان میں  مسلمانوں  کے لئے بھی بڑی عبرت اور نصیحت ہوتی ہے اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ جب بھی اس طرح کی آیات پڑھے یا سنے تو اپنے بارے میں   اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرے اور اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر کرے ۔ ایسی آیات سن کر ہمارے بزرگانِ دین کا کیا حال ہوتا تھا اس سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ شدّتِ خوف کی وجہ سے قرآنِ پاک میں  سے کچھ سننے پر قادر نہ تھے ، یہاں  تک کہ ان کے سامنے ایک حرف یا کوئی آیت پڑھی جاتی تو وہ چیخ مارتے اور بے ہوش ہوجاتے، پھر کئی دن تک انہیں  ہوش نہ آتا۔ ایک دن قبیلہ خثعم کا ایک شخص ان کے سامنے آیا اور اس نے یہ آیات پڑھیں ، ’’ یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًاۙ(۸۵) وَّ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا‘‘یاد کرو جس دن ہم پرہیزگاروں  کو رحمٰن کی طرف مہمان بناکرلے جائیں  گے۔ اور مجرموں  کو جہنم کی طرف پیاسے ہانکیں  گے۔( مریم:۸۵،۸۶) یہ سن کر آپ نے فرمایا ’’آہ! میں  مجرموں  میں  سے ہوں  اور متقی لوگوں  میں  سے نہیں  ہوں  ، اے قاری ! دوبارہ پڑھو ۔ اس نے پھر پڑھا تو آپ نے ایک نعرہ مارا اور آپ کی روح قَفسِ عُنصری سے پرواز کر گئی۔( احیاء علوم الدین،کتاب الخوف والرجائ،الشطر الثانی،بیان احوال الصحابۃ والتابعین والسلف الصالحین فی شدّۃ الخوف، ۴ / ۲۲۷)

آیت’’وَ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… کافروں  کا دوزخ میں  داخلہ انتہائی ذلت ورسوائی سے او ر مومنوں  کا جنت میں  داخلہ انتہائی عزت و احترام سے ہوگا۔

(2)… کافر میدانِ محشر میں  پیاسے ہوں  گے۔یاد رہے کہ مومنوں  کے لئے حوضِ کوثر کی نہر میدانِ محشرمیں  آئے گی جس سے مُرتَدّین روک دئیے جائیں  گے، یونہی ہر نبی کے امتیوں  کیلئے ان کے نبی کا حوض ہوگا۔

19:87
لَا یَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًاۘ(۸۷)
لوگ شفاعت کے مالک نہیں مگر وہی جنہوں نے رحمن کے پاس قرار رکھا ہے (ف۱۴۸)

{لَا یَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ:لوگ شفاعت کے مالک نہیں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جسے  اللہ تعالیٰ کی طرف سے گناہگاروں  کی شفاعت کا اِذن مل چکاہے اس کے علاوہ کوئی بندہ کسی گناہگار کی شفاعت کا مالک نہیں ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ مجرموں  میں  سے کوئی اس بات کا مالک نہیں  کہ اس کی شفاعت کی جائے البتہ ان میں  سے جو مسلمان ہے اس کی شفاعت ہوگی۔(روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۸۷، ۵ / ۳۵۶)

 اللہ تعالیٰ کے پاس عہد :

            یہاں  ہم دو ایسے اعمال ذکر کرتے ہیں  جنہیں  بجا لانے والے بندے کا عہد  اللہ تعالیٰ کے پاس رکھ دیا جاتا ہے۔

(1)…حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  پر پانچ نمازیں  فرض فرمائی ہیں ، جس نے انہیں  ادا کیا اور ہلکا سمجھ کر ان میں  سے کچھ ضائع نہ کیا تو اس کا  اللہ تعالیٰ کے پاس عہد ہے کہ وہ اسے جنت میں  داخل فرمائے اور جس نے انہیں  ادا نہ کیا تو اس کے لئے  اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی عہد نہیں ، چاہے و ہ اسے عذاب دے یا اسے جنت میں  داخل کر دے۔(ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فیمن لم یوتر، ۲ / ۸۹، الحدیث: ۱۴۲۰)

(2)…حضرت عبد اللہ بن مسعودرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ میں  نے رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے صحابہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْسے یہ کہتے سنا کہ کیا تم اس بات سے عاجز ہوکہ ہرصبح وشام اپنے ربعَزَّوَجَلَّ کے پاس سے ایک عہد لو۔ صحابہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْنے عرض کی: یا رسولَ  اللہ !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کس طرح ؟ حضور پُرنور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ صبح وشام یہ کہے ’’اَللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ، اِنِّی اَعْہَدُ اِلَیْکَ فِیْ ہٰذِہِ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا بِاَنِّیْ اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اَنْتَ وَحْدَکَ، لَاشَرِیکَ لَکَ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُوْلُکَ،فلَاَ تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ فَاِنَّکَ اِنْ تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ تُبَاعِدْنِیْ مِنَ الْخَیْرِ وتُقَرِّبْنِیْ مِنَ الشَّرِّ، وَاِنِّیْ لَا اَثِقُ اِلَّا بِرَحْمَتِکَ، فَاجْعَلْ لِیْ عِنْدَکَ عَہْدًا تُوَفِّیْنِیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادْ‘‘ توجوشخص یہ کہے گا، اللہ تعالیٰ اس پرمہر لگا کر عرش کے نیچے رکھ دے گا اور جب قیامت کا دن ہوگا تو ندا کرنے والا ندا کرے گا: کہاں  ہیں  وہ لوگ جن کا اللہ تعالیٰ کے پاس عہد ہے؟ پس وہ آدمی کھڑا ہوگا اور اسے جنت میں  داخل کر دیا جائے گا۔(قرطبی، مریم، تحت الآیۃ: ۸۷، ۶ / ۶۳، الجزء الحادی عشر)

 

19:88
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاؕ(۸۸)
اور کافر بولے (ف۱۴۹) رحمن نے اولاد اختیار کی،

{وَ قَالُوا:اور کافر وں  نے کہا۔} اس سے پہلے بتوں  کی پوجا کرنے والوں  کا رد کیا گیا اور اب ایک بار پھر ان لوگوں  کا رد کیا جارہا ہے جو  اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں  ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کافر وں  نے یہ کہا: رحمٰن نے اولاد اختیار کی ہے۔ اس آیت میں  حضرت عزیر عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو  اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنے والے یہودی، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو  اللہ تعالیٰ کا بیٹاکہنے والے عیسائی اور فرشتوں  کو  اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں  کہنے والے مشرکینِ عرب سبھی داخل ہیں ۔( تفسیرکبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۸۸، ۷ / ۵۶۶)

19:89
لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْــٴًـا اِدًّاۙ(۸۹)
بیشک تم حد کی بھاری بات لائے (ف۱۵۰)

19:90
تَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّاۙ(۹۰)
قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ گر جائیں ڈھ کر (مسمار ہوکر) (ف۱۵۱)

{تَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ:قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑیں  ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد کا دعویٰ کرنا ایسی بے ادبی و گستاخی کا کلمہ ہے کہ ا س کی وجہ سے اگر  اللہ تعالیٰ غضب فرمائے تو وہ تمام جہان کا نظام درہم برہم کر دے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ کفار نے جب یہ گستاخی کی اور ایسا بے باکانہ کلمہ منہ سے نکالا تو جن و اِنس کے سوا آسمان ، زمین ، پہاڑ وغیرہ تمام مخلوق پریشانی سے بے چین ہو گئی اور ہلاکت کے قریب پہنچ گئی، فرشتوں  کو غضب ہوا اور جہنم کو جوش آگیا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۹۰-۹۱، ۳ / ۲۴۷)

{وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ:حالانکہ رحمٰن کے لائق نہیں  ۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے اپنا اولاد سے پاک ہونا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ رحمٰن کے لائق نہیں  کہ اولاد اختیار کرے۔ وہ اس سے پاک ہے اور اس کے لئے اولاد ہونا ممکن نہیں  محال ہے کیونکہ بیٹاباپ کا جز، اس کی شبیہ ونظیر اور اس کا مددگار ہوتا ہے جبکہ  اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا جز ہو یا اس کی مثل بنے یا کوئی اس کا مددگار ہو۔

19:91
اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًاۚ(۹۱)
اس پر کہ انہوں نے رحمن کے لیے اولاد بتائی،

19:92
وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًاؕ(۹۲)
اور رحمن کے لائق نہیں کہ اولاد اختیار کرے (ف۱۵۲)

19:93
اِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًاؕ(۹۳)
آسمانوں اور زمین میں جتنے ہیں سب اس کے حضور بندے ہو کر حاضر ہوں گے، (ف۱۵۳)

{اِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:آسمانوں  اور زمین میں  جتنے ہیں ۔} یہ آیت مبارکہ  اللہ تعالیٰ کے علاوہ دیگر بناوٹی معبودوں  کی نفی کی دلیل بھی بن سکتی ہے اور اس بات کی بھی دلیل بن سکتی ہے کہ  اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے۔ پہلی صورت میں  اس آیت کا معنی یہ ہو گا کہ کفار زمین پر جن لوگوں  کو اور آسمان پر جن فرشتوں  کو اپنا معبود مانتے ہیں  وہ سب تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اپنے بندہ ہونے کا اقرار کرتے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے اور صرف اسے ہی سجدہ کرتے ہیں  تو پھر وہ معبود کس طرح ہو سکتے ہیں ۔ دوسری صورت میں  اس آیت کا معنی یہ ہو گا کہ قیامت کے دن تمام جن و اِنس اور فرشتے نیز کفار زمین پر جن لوگوں  کو اور آسمان پر جن فرشتوں  کو  اللہ تعالیٰ کی اولاد بتاتے ہیں  وہ سب  اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونے کا اقرار کرتے ہوئے اس کی بارگاہ میں  حاضر ہوں  گے اور یہ بات واضح ہے کہ جو کسی کا بندہ ہوتا ہے وہ اس کی اولاد نہیں  ہوتا اور جو اولاد ہو وہ اس کا بندہ نہیں  ہوتا کیونکہ بندہ ہونا اور اولاد ہونا دونوں  جمع ہو ہی نہیں  سکتے نیز کوئی اپنی اولاد کا مالک نہیں  ہوتا جبکہ  اللہ تعالیٰ توہر چیز کا مالک ہے اور جو خود  اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہے تو وہ اس کی اولاد ہرگز نہیں  ہو سکتا۔

19:94
لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَ عَدَّهُمْ عَدًّاؕ(۹۴)
بیشک وہ ان کا شمار جانتا ہے اور ان کو ایک ایک کرکے گن رکھا ہے (ف۱۵۴)

{لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ:بیشک اس نے انہیں  گھیر رکھا ہے۔} یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے علم و قدرت نے سب کو گھیر رکھا ہے اور ہر ذی روح کے سانسوں  کی ، دنوں  کی ، تمام اَحوال کی اور جملہ معاملات کی تعداد اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے شمار میں  ہے، اس پر کچھ مخفی نہیں  سب اس کی تدبیر و قدرت کے تحت ہیں ۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۲۴۷-۲۴۸)

{وَ كُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا:اور ان میں  ہر ایک روزِ قیامت اس کے حضور تنہا آئے گا۔} یعنی قیامت کے دن ہر ایک  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ، مال ،اولاد اور معین و مددگار کے بغیر تنہا حاضر ہوگا۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۶۸۵)

 اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حاضری کے وقت بہت بڑاخطرہ ہو گا:

            یاد رہے کہ بروزِ قیامت جب بندہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے حاضر ہو گا تو اس وقت دنیا کا مال، اولاد، دوست اَحباب اور عزیز رشتہ داروں  میں  سے کوئی اس کے ساتھ نہ ہو گا اور نہ ہی کوئی  اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اس کی مدد کر سکے گا اور اس وقت بہت بڑا خطرہ ہو گا کیونکہ یہ بھی ہو سکتاہے کہ کہا جائے ’’ہم نے دنیا میں  تمہاری پردہ پوشی کی اور آج بھی تجھے بخش رہے ہیں ۔ اس وقت بہت زیادہ خوشی اور سُرور حاصل ہو گا اور پہلے اور بعد والے تم پر رشک کریں  گے،، یا،، فرشتوں  سے کہاجائے گا کہ اس برے بندے کو پکڑ کر گلے میں  طوق ڈالو اور پھر اسے جہنم میں  ڈال دو۔ اس وقت تو اتنی بڑی مصیبت میں  مبتلا ہو گا کہ اگر آسمان و زمین تجھ پر روئیں  تو انہیں  مناسب ہے۔ نیز تجھے اس بات پر بہت زیادہ حسرت ہوگی کہ تم نے  اللہ تعالیٰ کی عبادت اور فرمانبرداری میں  کوتاہی کی اور تم نے کمینی دنیا کے لئے اپنی آخرت بیچ ڈالی اور اب تیرے پاس کچھ نہیں ۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ المساء لۃ، ۵ / ۲۸۰)

ہم ہیں  اُن کے وہ ہیں  تیرے تو ہوئے ہم تیرے

اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے

ان کی امّت میں  بنایا انھیں  رحمت بھیجا

یوں  نہ فرما کہ تِرا رحم میں  دعویٰ کیا ہے

صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب

بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے

19:95
وَ كُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا(۹۵)
اور ان میں ہر ایک روز قیامت اس کے حضور اکیلا حاضر ہوگا (ف۱۵۵)

19:96
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا(۹۶)
بیشک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ان کے لیے رحمن محبت کردے گا (ف۱۵۶)

{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک وہ جو ایمان لائے۔} اس سے پہلی آیات میں  مختلف اَقسام کے کافروں  کا رد کیا گیا اور ان کے دُنْیَوی و اُخروی اَحوال کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا اور اب نیک اعمال کرنے والے مسلمانو ں  کاذکر کیا جا رہاہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک وہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے عنقریب  اللہ تعالیٰ انہیں  اپنا محبوب بنا لے گا اور اپنے بندوں  کے دلوں  میں  ان کی محبت ڈال دے گا۔( تفسیرکبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۹۶، ۷ / ۵۶۷، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۹۶، ۳ / ۲۴۸، ملتقطاً)

محبوبیت کی دلیل اور ولی کی علامت:

            حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب  اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام کو ند اکی جاتی ہے کہ  اللہ تعالیٰ فلاں  بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَاماس سے محبت کرتے ہیں ۔ پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَامآسمانی مخلوق میں  ندا کرتے ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ فلاں  بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر زمین والوں  میں  اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۲، الحدیث: ۳۲۰۹)

             اس سے معلوم ہوا کہ مومنینِ صالحین و اَولیائے کاملین کی مقبولیتِ عامہ ان کی محبوبیت کی دلیل ہے جیسے کہ حضور غوثِ اعظم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ اور خواجہ غریب نواز اور داتا گنج بخش علی ہجویری اور دیگر معروف اَولیاء کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کی عام مقبولیت ان کی محبوبیت کی دلیل ہے۔

            نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ولی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ خَلقت اسے ولی کہے اور اس کی طرف قدرتی طور پر دل کو رغبت ہو۔ دیکھ لیں ، آج اولیاء  اللہ اپنے مزارات میں  سور ہے ہیں  اور لوگ ان کی طرف کھچے چلے جا رہے ہیں  حالانکہ انہیں  کسی نے دیکھا بھی نہیں ۔

 

19:97
فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِیْنَ وَ تُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا(۹۷)
تو ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں یونہی آسان فرمایا کہ تم اس سے ڈر والوں کو خوشخبری دو اور جھگڑالو لوگوں کو اس سے ڈر سناؤ،

{فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ:تو ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں  ہی آسان فرمادیا۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے یہ قرآن آپ کی زبان عربی میں  ہی آسان فرما دیا ہے تاکہ آپ اس کے ذریعے پرہیزگار لوگوں  کو ( اللہ تعالیٰ کی رحمت و رضا کے حصول اور جنت کی )خوشخبری دیں  اور کفارِ قریش کے جھگڑالو لوگوں  کو اس کے ذریعے  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ڈر سنائیں۔

سورہِ مریم کی آیت97سے متعلق 3اہم باتیں :

            یہاں  اس آیت سے متعلق تین اہم باتیں  ملاحظہ ہوں ،

(1)… بنیادی طور پر  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لئے قرآن مجیدآسان فرمادیااور یہ آسان فرمانا اس اعتبار سے ہے کہ اسے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی زبان ’’عربی ‘‘میں  نازل کیا گیا جس کی وجہ سے فہم ِقرآن آسان ہو گیا۔

(2)…اس آیت میں عذابِ الٰہی سے ڈرنے والوں  کو خوشخبری دینے اور جھگڑالو قوم کو ڈرانے کے ذریعے تبلیغ کرنے کا فرمایاگیا،اس سے معلوم ہوا کہ متقی لوگوں  کو  اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت،رضا اور جنت کی بشارت سناکراور جھگڑالو قوم کو  اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے عذاب کا ڈر سنا کر تبلیغ کرنے سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

(3)…قرآن مجید (سر زمینِ عرب میں ) عربی زبان میں  نازل کیا گیا، اس سے معلوم ہواکہ دنیامیں  جس قوم اور علاقے میں  اسلام کی تبلیغ کرنی ہو تواس کے لئے وہاں  کی زبان سیکھی جائے تاکہ وہ لوگ اپنی زبان میں  کی جانے والی تبلیغ کو آسانی سے سمجھ سکیں  اور اسلام کے قریب ہو ں ۔

{وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ:اور ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں  ہلاک کردیں ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے کفارِ قریش سے پہلے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کی وجہ سے بہت سی امتیں  ہلاک کر دیں ۔ کیا اب تم ان میں  کسی کو پاتے ہو یا ان کی معمولی سی آواز بھی سنتے ہو ؟وہ سب نیست و نابود کر دیئے گئے اسی طرح یہ لوگ اگر وہی طریقہ اختیار کریں  گے تو ان کا بھی وہی انجام ہو گا۔

 

19:98
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍؕ-هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا۠(۹۸)
اور ہم نے ان سے پہلے کتنی سنگتیں کھپائیں (قومیں ہلاک کیں) (ف۱۵۷) کیا تم ان میں کسی کو دیکھتے ہو یا ان کی بھنک (ذرا بھی آواز) سنتے ہو (ف۱۵۸)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

مَرْيَم
مَرْيَم
  00:00



Download

مَرْيَم
مَرْيَم
  00:00



Download