READ

Surah Hud

هُوْد
123 Ayaat    مکیۃ


11:0
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا

{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

          علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔

11:1
الٓرٰ- كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ(۱)
یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں (ف۲) پھر تفصیل کی گئیں (ف۳) حکمت والے خبردار کی طرف سے،

{ الٓرٰ}یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے، اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ:یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں۔} جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہوا

’’تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ‘‘(یونس :۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔

بعض مفسرین نے فرمایا کہاُحْكِمَتْ کے معنی یہ ہیں کہ ان کی عبارت مستحکم اور پائیدار ہے، اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اس میں کوئی نَقص اور خَلَل راہ نہیں پاسکتا جیسے کوئی مضبوط اور پختہ عمارت ہو۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱، ص۴۸۹)

 اور حضرتعبداللہ بن عباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا: (اس کا معنی یہ ہے کہ) کوئی کتاب ان آیات کی ناسخ نہیں جیسا کہ یہ آیتیں دوسری کتابوں اور شریعتوں کی ناسخ ہیں۔ (بغوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱، ۲ / ۳۱۴)

{ثُمَّ فُصِّلَتْ:پھرانہیں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔}یعنی سورت سورت اور آیت آیت جدا جدا ذکر کی گئیں یا علیحدہ علیحدہ نازل ہوئیں یا عقائد و اَحکام ، مَواعِظ ، واقعات اور غیبی خبریں ان میں بہ تفصیل بیان فرمائی گئیں۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱، ص۴۸۹)

11:2
اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَؕ-اِنَّنِیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌۙ(۲)
کہ بندگی نہ کرو مگر اللہ کی بیشک میں تمہارے لیے اس کی طرف سے ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں

{اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ:کہ تم صرف اللہ کی عبادت کرو۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ قرآنِ مجید ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں ، پھرا نہیں حکمت والے اور خبردار اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے تاکہ تم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا چھوڑ دو۔ اس سے ثابت ہو اکہ قرآنِ مجید کو نازل کرنے کا اصلی مقصد یہ ہے کہ لوگ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کی تو وہ ناکام و نامراد ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ قرآنِ عظیم کی آیتیں حکمت بھری ہیں تاکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں کو یہ حکم دیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں اور لوگوں سے یہ فرما دیں کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں کفر اور غیرُاللہ کی عبادت کرنے پر قائم رہنے کی صورت میں اس کے عذاب سے ڈرانے اور ایمان لانے کی صورت میں ا س کے اجر و ثواب کی خوشخبری دینے والا ہوں۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲، ۶ / ۳۱۴، روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۹۱)

11:3
وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّ یُؤْتِ كُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗؕ-وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ كَبِیْرٍ(۳)
اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا برتنا (فائدہ اٹھانا) دے گا (ف۴) ایک ٹھہرائے وعدہ تک اور ہر فضیلت والے (ف۵) کو اس کا فضل پہنچائے گا (ف۶) اور اگر منہ پھیرو تو میں تم پر بڑے دن (ف۷) کے عذاب کا خوف کرتا ہوں،

{وَ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ:اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کرو۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں کو یہ حکم دیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگو اور آئندہ گناہ کرنے سے توبہ کرو تو جس نے اپنے گناہوں سے پکی توبہ کی اور اخلاص کے ساتھ رب تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بن گیا تو اللہ تعالیٰ اسے کثیررزق اور وسعت عیش عطا فرمائے گا جس کی وجہ سے وہ امن وراحت کی حالت میں زندگی گزارے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گا، اگر دنیا میں اسے کسی مشقت کا سامنا بھی ہوا تو اللہ عَزَّوَجَلَّکی رضا حاصل ہونے کی وجہ سے یہ اس کے درجات کی بلندی کا سبب ہو گی اور جو توبہ نہ کرے ،کفر اور گناہوں پر قائم رہے تو وہ خوف اور مرض میں مبتلارہے گا اور اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضی کا سامنا بھی ہو گا اگرچہ دنیا کی لذتیں اس پر وسیع ہو جائیں کیونکہ اس عیش میں کوئی بھلائی نہیں جس کے بعد جہنم نصیب ہو۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳، ۲ / ۳۳۹-۳۴۰، صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۸۹۹، ملتقطاً)

توبہ اور اِستغفار میں فرق اور وسعتِ رزق کے لئے بہتر عمل:

توبہ اور استغفار میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کر نا توبہ ہے اوراس آیت سے معلوم ہوا کہ اخلاص کے ساتھ توبہ وا ستغفار کرنا درازیٔ عمر اور رزق میں وسعت کیلئے بہتر عمل ہے۔ ([1](

{وَ یُؤْتِ كُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ:اور ہر فضیلت والے کو اپنا فضل عطا فرمائے گا ۔} یعنی جس نے دنیا میں نیک عمل کئے ہوں آخرت میں اللہ تعالیٰ اسے اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ حضرت ابو عالیہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ،آیت کا معنی یہ ہے کہ ’’جس کی دنیا میں نیکیاں زیادہ ہوں گی اس کی نیکیوں کا ثواب اور جنت میں درجات بھی زیادہ ہوں گے کیونکہ اعمال کے مطابق جنت کے درجات ملیں گے۔ بعض مفسرین نے فرمایا :اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے عمل کیا تو اللہ تعالیٰ آئندہ کے لئے اسے نیک عمل اورا طاعت کی توفیق عطا فرمائے گا۔(بغوی، ہود، تحت الآیۃ: ۳، ۲ / ۳۱۴-۳۱۵)

ایک نیکی دوسری نیکی کی توفیق کا ذریعہ بنتی ہے:

آیت کے تیسرے معنی کے اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ ایک نیکی اگلی نیکی کی توفیق کا ذریعہ بنتی ہے ، اس لئے نیکی کی ابتداء بہت عمدہ شے ہے،جیسے فرائض کی ادائیگی کرتے رہیں گے تو نوافل کی طرف بھی دل مائل ہوہی جائیں گے ، یونہی زبان سے ذکر کرتے رہیں گے تو دل بھی ذاکر ہوہی جائے گا۔

یہاں ایک اور بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ جتنی مستحب چیزوں پر عمل کی تاکید کرتے ہیں ا تنی فرائض پر عمل کی تاکید نہیں کرتے اور جب انہیں فرائض پر عمل کی تاکید کا کہا جائے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ جب لوگ مستحب پر عمل کرنا شروع ہو جائیں گے تو فرائض کے خود ہی پابند بن جائیں گے ،جبکہ ان کی مستحب پر عمل کی مسلسل تاکید کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے فرائض کے مقابلے میں مستحبات پرزیادہ عمل کرنا شروع کر دیا اور فرائض پر عمل میں کوتاہی کرنے لگ گئے ،اس لئے ہونا یہ چاہئے فرائض پر عمل کی ترغیب دینا اَوّلین تَرجیح ہو اور اس کے لئے کوشش بھی زیادہ ہو تاکہ لوگوں کی نظر میں فرائض کی اہمیت میں اضافہ ہو اور وہ فرائض کی بجا آوری کی طرف زیادہ مائل ہوں البتہ اس کے ساتھ مستحب پر عمل کا بھی ذہن دیا جائے تاکہ لوگوں میں زیادہ نیکیاں کرنے کاجذبہ پیدا ہو۔

{اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ:اللہ ہی کی طرف تمہارا لوٹنا ہے۔}یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی طرف آخرت میں تمہارالوٹنا ہے،  وہاں نیکیوں اور بدیوں کی جزا و سزا ملے گی  اور وہ ہر شے پر جیسے دنیا میں تمہیں روزی دینے پر ،موت دینے پر ،موت کے بعد زندہ کرنے اور ثواب و عذاب سب پرقادرہے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۳۴۰، ابوسعود، ہود، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۵، ملتقطاً)


[1] ۔۔۔ توبہ اور اس سے متعلق دیگر چیزوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’توبہ کی روایات و حکایات‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ فرمائیں۔

11:4
اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْۚ-وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۴)
تمہیں اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے (ف۸) اور وہ ہر شے پر قادر (ف۹)

11:5
اَلَاۤ اِنَّهُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُؕ-اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَهُمْۙ-یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَۚ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۵)
سنو وہ اپنے سینے دوہرے کرتے (منہ چھپاتے) ہیں کہ اللہ سے پردہ کریں (ف۱۰) سنو جس وقت وہ اپنے کپڑوں سے سارا بدن ڈھانپ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کا چھپا اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے بیشک وہ دلوں کی بات جاننے والا ہے،

{اَلَاۤ اِنَّهُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ: سن لو! بیشک وہ لوگ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں۔} مفسرین نے اس آیت کے مختلف شانِ نزول بیان کئے ہیں ،ان میں سے 3 شان نزولِ درج ذیل ہیں

(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: یہ آیت اخنس بن شریق کے حق میں نازل ہوئی ،یہ بہت شیریں گفتار شخص تھا، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے آتا تو بہت خوشامد کی باتیں کرتا اور دل میں بغض و عداوت چھپائے رکھتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے سینوں میں عداوت چھپائے رکھتے ہیں جیسے کپڑے کی تہ میں کوئی چیز چھپائی جاتی ہے۔

(2)… ایک قول یہ ہے کہ بعض منافقین کی عادت تھی کہ جب رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سامنا ہوتا تو سینہ اور پیٹھ جھکاتے ، سر نیچا کرتے اور چہرہ چھپالیتے تاکہ انہیں رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دیکھ نہ پائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵، ۲ / ۳۴۰)

(3)…صحیح بخاری میں ہے، حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’کچھ لوگ تنہائی میں بھی کھلے آسمان کے نیچے قضائے حاجت سے شرماتے اور اپنی بیویوں سے حقِ زَوجِیَّت ادا کرتے ہوئے شرماتے تھے جس کے باعث آسمان کی طرف سے جھک کر پردہ کر لیتے تھے۔ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ ہود، ۱-باب الا انّہم یثنون صدورہم۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۴، الحدیث: ۴۶۸۱)کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے بندے کا کوئی حال چھپا ہی نہیں ہے لہٰذا چاہیے کہ وہ شریعت کی اجازتوں پر عامل رہے۔

تنہائی میں ننگا ہونا منع ہے:

            خیال رہے کہ تنہائی میں بھی ننگا ہونا منع ہے لیکن اس لئے نہیں کہ رب عَزَّوَجَلَّ سے چھپا جائے بلکہ اس لئے کہ اس میں شرم و حیا کااِ ظہار ہے اور یہ رب تعالیٰ کا حکم ہے اور ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس حکم پر عمل پیرا ہو۔یہاں حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی شرم و حیا کی جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی شرم وحیا کایہ عالَم تھا کہ مکان میں تنہا ہونے اور دروازہ بند ہونے کے باوجود شرم و حیا کی وجہ سے پانی بہانے کے لئے بدن سے کپڑا نہ ہٹاتے اور ان کی شرم و حیا کی شدت کی وجہ سے فرشتے بھی ان سے اس طرح حیاء کرتے تھے جس طرح وہ اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حیاء کرتے تھے ، نیزحضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی ان سے حیا فرمایا کرتے تھے۔

11:6
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَاؕ-كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(۶)
اور زمین پر چلنے والا کوئی (ف۱۱) ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہٴ کرم پر نہ ہو (ف۱۲) اور جانتا ہے کہ کہاں ٹھہرے گا (ف۱۳) اور کہاں سپرد ہوگا (ف۱۴) سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب (ف۱۵) میں ہے،

{وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ:اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں۔}’’دَآبَّةٍ‘‘ کا معنی ہے ہر وہ جانور جو زمین پر رینگ کر چلتا ہو، عُرف میں چوپائے کو ’’دَآبَّةٍ ‘‘ کہتے ہیں جبکہ آیت میں اس سے مُطْلَقا ًجاندار مراد ہے لہٰذا انسان اور تمام حیوانات اس میں داخل ہیں۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶، ۲ / ۳۴۰)

کسی جاندار کو رزق دینا اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں :

علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے یہ مراد نہیں کہ جانداروں کو رزق دینا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس پر کوئی چیز واجب ہو بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ جانداروں کو رزق دینا اور ان کی کفالت کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر لازم فرما لیا ہے اور ( یہ اس کی رحمت اور اس کا فضل ہے کہ) وہ اس کے خلاف نہیں فرماتا۔ رزق کی ذمہ داری لینے کو ’’عَلَى‘‘ کے ساتھ اس لئے بیان فرمایا تاکہ بندے کا اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر توکل مضبوط ہو اور اگر وہ (رزق حاصل کرنے کے) اَسباب اختیار کرے تو ان پر بھروسہ نہ کر بیٹھے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی پر اپنا اعتماد اور بھروسہ رکھے ، اسباب صرف اس لئے اختیار کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فارغ رہنے والے بندے کو پسند نہیں فرماتا۔ زمین کے جانداروں کا بطورِ خاص اس لئے ذکر فرمایا کہ یہی غذاؤں کے محتاج ہیں جبکہ آسمانی جاندار جیسے فرشتے اور حورِ عِین، یہ اس رزق کے محتاج نہیں بلکہ ان کی غذا تسبیح و تہلیل ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۶،  ۳ / ۹۰۰، ۹۰۱)

{وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا:اور وہ ہرایک کے ٹھکانے اور سپرد کئے جانے کی جگہ کو جانتا ہے ۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’مُسْتَقَرْ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں بندہ دن یا رات گزارتا ہے اور مُسْتَوْدَعْ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں مرنے کے بعد دفن کیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مُسْتَقَرْ سے مراد ماؤں کے رحم اور مُسْتَوْدَعْسے مراد وہ جگہ ہے جہاں موت آئے گی۔ اور ایک قول یہ ہے کہ مُسْتَقَرْ سے مراد جنت یا دوزخ ہے اور مُسْتَوْدَعْسے مراد قبر ہے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶، ۲ / ۳۴۰-۳۴۱)

{كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ:سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں موجود ہے۔} یعنی اس آیت میں جو جانداروں ، ان کے رزق، ان کے ٹھہرنے اور سپرد کئے جانے کی جگہ کا ذکر ہوا یہ سب بیان کرنے والی کتاب یعنی لوحِ محفوظ میں موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ لوحِ محفوظ میں سب جانداروں کے رزق ، ان کی جگہوں ،ان کے زمانے اور اَحوال کی تفصیل مذکور ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۹۰۱)

ہر چیزکو لوحِ محفوظ میں لکھنے کی حکمت:

خیال رہے کہ ہر چیز کا لوحِ محفوظ میں لکھا جانا اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بھول جانے کا خطرہ تھا لہٰذا لکھ لیا، کیونکہ بھول جانا اللہ تعالیٰ کیلئے محال ہے، بلکہ اس لئے لکھاہے تاکہ لوحِ محفوظ دیکھنے والے بندے اس پر اطلاع پائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوحِ محفوظ پر نظر رکھتے ہیں انہیں بھی ہر ایک کے مُسْتَقَرْ اور مُسْتَوْدَع کی خبر ہے کیونکہ یہ سب لوحِ محفوظ میں تحریر ہے اور لوحِ محفوظ ان کے علم میں ہے۔ لوحِ محفوظ کو مُبِینْ اس لئے فرمایا گیا کہ و ہ خاص بندوں پر عُلومِ غَیْبِیَّہ بیان کردیتی ہے۔

11:7
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ لَىٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۷)
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا (ف۱۶) کہ تمہیں آزمائے(ف۱۷) تم میں کس کا کام اچھا ہے، اور اگر تم فرماؤ کہ بیشک تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو کافر ضرور کہیں گے کہ یہ (ف۱۸) تو نہیں مگر کھلا جادو (ف۱۹)

{وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ:اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا۔} آسمان بھی سات ہیں اور زمین بھی سات، لیکن آسمانو ں کی حقیقتیں مختلف ہیں ، جیسے کوئی لوہے کا،کوئی تانبے کا، کوئی چاندی کا اور کوئی سونے کا ہے اور تمام زمینوں کی حقیقت صرف مٹی ہے، نیز آسمانوں میں فاصلہ ہے اور زمین کے طبقات میں فاصلہ نہیں ، یہ ایک دوسرے سے ایسی چمٹی ہیں جیسے پیاز کے چھلکے کہ دیکھنے میں ایک معلوم ہوتی ہے، اس لئے آسمان جمع فرمایا جاتا ہے اور زمین واحد بولی جاتی ہے۔ خیال رہے کہ آسمانوں کی پیدائش دو دن میں ، زمین کی پیدائش دو دن میں اور حیوانات، درخت وغیرہ کی پیدائش دو دن میں ہوئی اور دن سے مراد اتنا وقت ہے، ورنہ اس وقت دن نہ تھا کیونکہ دن تو سورج سے ہوتا ہے اور اس وقت سورج نہ تھا۔(روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۹۷-۹۸، ملخصاً) قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں آسمان و زمین کو چھ دن میں بنانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ مفسرین نے یہ بھی فرمایا ہے کہ چھ دنوں سے مراد چھ اَدوار ہیں۔

{ وَ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ:اور اس کا عرش پانی پر تھا۔} یعنی عرش کے نیچے پانی کے سوا اور کوئی مخلوق نہ تھی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عرش اور پانی آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش سے پہلے پیدا فرمائے گئے۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۹۰)

عرش پانی کے اوپر ہونے کے معنی:

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ عرش کے پانی کے اوپر ہونے کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’یعنی عرش اور پانی کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی بلکہ عرش اسی مقام میں تھا جہاں اب ہے یعنی ساتویں آسمان کے اوپر اور پانی اسی جگہ تھا جہاں اب ہے یعنی ساتویں زمین کے نیچے (اگرچہ اس وقت سات آسمان اور سات زمینیں نہ تھیں ) (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۹۰۱)

قدرت ِالٰہی کے دلائل:

            اما م فخر الدین رازی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کئی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظمت اور کمال پر دلالت کرتی ہے۔

(1)… عرش کے زمین و آسمان سے بڑا ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ا سے پانی پر قائم فرمایا لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ کسی ستون کے بغیر وزنی چیز کو رکھنے پر قادر نہ ہوتا تو عرش پانی پر نہ ہوتا۔

(2)…پانی کو بھی بغیر کسی سہارے کے قائم کیا۔

(3)…عرش جو کہ تمام مخلوقات سے بڑا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان کے اوپر قائم کیا ہوا ہے، اس کے نیچے کوئی ستون ہے نہ اوپر کوئی اور علاقہ۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ۶ / ۳۱۹-۳۲۰)

{لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا:تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے ۔} یعنی آسمان و زمین اور ان میں تمہارے جو مَنافع اور مَصالح ہیں ، انہیں پیدا کرنے میں حکمت یہ ہے کہ ان نعمتوں کی وجہ سے نیک وبد میں اِمتیاز ہو جائے اور یہ ظاہر ہو جائے کہ کو ن (ان نعمتوں کے باوجود) فرمانبردار ہے تاکہ آخرت میں اسے اس کی اطاعت گزاری کا ثواب دیا جائے اور کون (ان نعمتوں کی وجہ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے غافل ہوتا ہے اور) گناہگار بنتا ہے تاکہ آخرت میں اسے اس کے گناہوں کی سزا دی جائے۔(جلالین مع صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۹۰۱)

نعمتیں پیدا کئے جانے میں بھی ہماری آزمائش مقصود ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے جو نعمتیں پیدا فرمائی ہیں اِن کے ذریعے بھی اُنہیں آزمایا اور اُن کا امتحان لیا جا رہاہے کہ وہ ان نعمتوں کے ملنے پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری اور اس کی شکر گزاری کرتے ہیں یا غفلت کا شکار ہو کر اس کی نافرمانی و ناشکری میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، اب ہر عقلمند انسان اپنی حالت پر خود ہی غور کر لے کہ وہ اس آزمائش و امتحان میں کس حد تک کامیاب ہوا ہے۔ حضرت حاتم اَصَم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جب تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرو اور صبح اس حال میں کرو کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اپنے اوپر فراوانی کے ساتھ دیکھو تو اس سے بچو کیونکہ یہ آہستہ آہستہ عذاب کی طرف جانا ہے۔(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل من اخلاق السلف الصالح، ومن اخلاقہم رضی اللہ عنہم کثرۃ خوفہم من اللہ تعالی فی حال بدایتہم۔۔۔ الخ، ص۴۹)

{ وَ لَىٕنْ قُلْتَ:اور اگر تم کہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ اپنی قوم کے کفار سے فرمائیں کہ اے لوگو! تمہیں مرنے کے بعد حساب اور جزاء کیلئے اٹھایا جائے گا تو کافر ضرور کہیں گے کہ یہ  قرآن شریف جس میں مرنے کے بعد اُٹھائے جانے کا بیان ہے یہتو کھلا جادو یعنی باطل اور دھوکا  ہے۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۹۰، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۳۴۲، ملتقطاً(

11:8
وَ لَىٕنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰۤى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُهٗؕ-اَلَا یَوْمَ یَاْتِیْهِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠(۸)
اور اگر ہم ان سے عذاب (ف۲۰) کچھ گنتی کی مدت تک ہٹادیں تو ضرور کہیں گے کس چیز نے روکا ہے (ف۲۱) سن لو جس دن ان پر آئے گا ان سے پھیرا نہ جائے گا، اور انہیں گھیرے گا وہی عذاب جس کی ہنسی اڑاتے تھے

{وَ لَىٕنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰۤى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ:اور اگر ہم ان سے کچھ گنتی کی مدت تک کے لئے عذاب میں دیر کر دیں۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ یہ قرآن کو کھلا جادو کہہ کر میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو جھٹلاتے ہیں اور ا س آیت میں ان کفار کی ایک اور باطل گفتگو ذکر فرمائی، وہ یہ کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے کفار کو جس عذاب کا وعدہ دیا تھا وہ جب ان سے مُؤخَّر ہوا تو کفار تکذیب اور اِستہزاء کے طور پر کہنے لگے کہ کس وجہ سے ہم سے عذاب روک دیاگیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ جب وہ وقت آجائے گا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے عذاب کے لئے متعین فرمایا ہے تو ہم وہ عذاب ان پر ناز ل کر دیں گے جس کا یہ مذاق اڑا رہے ہیں اور وہ عذاب ان سے پھیرا نہ جائے گا بلکہ ان سب کوگھیر لے گا۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۳۲۱)

 اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوفی ہلاکت کا سبب ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہونا ہلاکت کا سبب ہے، اس لئے ہر عقلمند انسان پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے ڈرتا رہے اور اس کے عذاب سے کبھی بے خوف نہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میری عزت کی قسم! میں اپنے کسی بندے پر نہ دو خوف جمع کرو ں گا اور نہ دو اَمن جمع کروں گا، اگر وہ دنیا میں مجھ سے ڈرے گا تو میں قیامت کے دن اسے امن دوں گا اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے امن میں رہے گا تو میں قیامت کے دن اسے خوف میں مبتلا کروں گا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الافعال، الباب الاول فی الاخلاق المحمودۃ، الفصل الثانی، الخوف والرجائ، ۲ / ۲۸۳، الحدیث: ۸۵۲۵، الجزء الثالث)

            ہمارے اَسلاف اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے انتہائی دور اور اس کی اطاعت و فرمانبرادری میں بے حد مصروف رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بہت ڈرا کرتے تھے ،چنانچہ ایک مرتبہ حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا کہ ’’مجھے مقربین پر اس لئے رشک نہیں آتا کہ یہ سب قیامت اور اس کی ہَولناکیوں کا مُشاہدہ کریں گے البتہ مجھے صرف اس پر رشک آتا ہے جو پیدا ہی نہیں ہوا کیونکہ وہ قیامت کے اَحوال اور ا س کی سختیاں نہیں دیکھے گا، اور حضرت سری سقطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’ میری خواہش ہے کہ میں بغداد کے علاوہ کسی اور جگہ انتقال کروں کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اگر میری قبر نے مجھے قبول نہ کیا تو کہیں میں لوگوں کے سامنے رسوا نہ ہو جاؤں۔ (روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۱۰۱)اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عذاب سے بے خوف ہونے سے بچائے اور ہمارے دلوں میں اس کا ڈر پیدا فرمائے ،اٰمین۔

11:9
وَ لَىٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُۚ-اِنَّهٗ لَیَـٴُـوْسٌ كَفُوْرٌ(۹)
اور اگر ہم آدمی کو اپنی کسی رحمت کا مزہ دیں (ف۲۲) پھر اسے اس سے چھین لیں ضرور وہ بڑا ناامید ناشکرا ہے (ف۲۳)

{وَ لَىٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً:اور اگر ہم انسان کو اپنی کسی رحمت کا مزہ دیں۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں ’’اَلْاِنْسَانَ‘‘ سے مراد مُطلق انسان ہے پھر (آیت نمبر 11میں ) اس سے صبر کرنے والے اور نیک مسلمانوں کا اِستثنا ء فرمایا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت میں مذکور ’’ اَلْاِنْسَانَ‘‘ میں مومن اور کافر دونوں داخل ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ’’اَلْاِنْسَانَ‘‘ سے کافر انسان مراد ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۳۲۱-۳۲۲) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم انسان کو اپنی کسی رحمت کا مزہ چکھائیں اور صحت، امن، وسعتِ رزق اور دولت عطا کریں پھر یہ سب اس سے چھین لیں اور اسے مَصائب میں مبتلا کردیں تو بیشک وہ  دوبارہ اس نعمت کے پانے سے مایوس ہوجاتا ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے اپنی اُمید ختم کرلیتا ہے اور صبر و رضا پر ثابت قدم نہیں رہتا اور گزشتہ نعمت کی ناشکری کرتا ہے۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۹، ص۴۹۱، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۹، ۲ / ۳۴۲، ملتقطاً)

11:10
وَ لَىٕنْ اَذَقْنٰهُ نَعْمَآءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ لَیَقُوْلَنَّ ذَهَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیْؕ-اِنَّهٗ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌۙ(۱۰)
اور اگر ہم اسے نعمت کا مزہ دیں اس مصیبت کے بعد جس اسے پہنچی تو ضرور کہے گا کہ برائیاں مجھ سے دور ہوئیں بیشک وہ خوش ہونے والا بڑائی مارنے والا ہے (ف۲۴)

{وَ لَىٕنْ اَذَقْنٰهُ نَعْمَآءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ:اور اگر ہم کسی مصیبت کے بعد جو اسے پہنچی ہو اسے نعمت کا مزہ دیں۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم انسان کو اس مصیبت کے بعد جو اسے پہنچی ہو نعمت کا مزہ چکھائیں اور بیماری کے بعد صحت، تنگی کے بعد آسانی اور فقیری کے بعد مال و دولت کی وسعت عطا کریں تو ایسا بندہ یہ تو کہتا ہے کہ جو مصیبتیں مجھے پہنچیں وہ اب مجھ سے دور ہو گئیں لیکن اس وقت شکر گزار ہونے اور حقِ نعمت ادا کرنے کے بجائے وہ خوشی میں پھولتا پھرتا ہے اور ان نعمتوں کے ملنے کی وجہ سے فخر و تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔(ابوسعود، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۱۱، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۴۹۱، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰، ۲ / ۳۴۲، ملتقطاً)یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ مصیبت دور ہونے اور نعمت ملنے کے بعد ناشکری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ مزید اطاعت کے لئے سر جھکا دینا چاہیے۔

شیخی کی خوشی منع اورشکریہ کی خوشی عبادت ہے:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیخی کی خوشی منع ہے جبکہ شکریہ کی خوشی عبادت ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّفرماتا ہے:

’’قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا‘‘( یونس:۵۸)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے۔

            مذکورہ بالا دونوں خوشیوں میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ شیخی کی خوشی میں نظر اپنی ذات پر ہوتی ہے اور شکریہ میں توجہ ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہوتی ہے، نیز شیخی غفلت پید اکرتی ہے اور شکریہ کی خوشی جذبہِ اطاعت پیدا کرتی ہے۔

11:11
اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ كَبِیْرٌ(۱۱)
مگر جنہوں نے صبر کیا اور اچھے کام کیے (ف۲۵) ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے،

{اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ:مگر جنہوں نے صبر کیا اور اچھے کام کیے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے ’’لیکن وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا اور اچھے کام کئے تو وہ ان کی طرح نہیں ہیں کیونکہ انہیں جب کوئی مصیبت پہنچی تو انہوں نے صبر سے کام لیا اور کوئی نعمت ملی تو اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کیا، جو ایسے اَوصاف کے حامل ہیں ان کے لئے گناہوں سے بخشش اور بڑا ثواب یعنی جنت ہے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۳۴۲)

مومن کی شان:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ نعمت چھن جانے پر صبر کرنا اور راحت ملنے پر شکر کرنا اور بہر صورت اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں مصروف رہنا مومن کی شان ہے، لیکن افسوس! یہاں جو طرزِ عمل کفار کا بیان کیا گیا ہے وہ آج مسلمانوں میں بھی نظر آ رہا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان سے اپنی دی ہوئی نعمت واپس لے لیتا ہے تو یہ اس قدر اَفْسُردہ اور مایوس ہو جاتے ہیں کہ ان کی زبانیں کفر تک بکنا شروع کر دیتی ہیں اور جب ان میں سے کسی پر آئی ہوئی مصیبت اللہ تعالیٰ دور کر دیتا ہے تو وہ لوگوں پر فخرو غرور کا اِظہار شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔

مصیبت پر صبر کرنے اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کے 6فضائل:

            موضوع کی مناسبت سے یہاں ہم مصیبت پر صبر و شکر کرنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کے فضائل اور نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کی برکات ذکر کرتے ہیں تاکہ ان سے مسلمانوں کو صبر و شکر کرنے کی ترغیب ملے اور وہ کفار کے طرزِ عمل سے بچنے کی کوشش کریں۔

(1)… حضرت ابو سعید خُدری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا کہ’’ جو صبر کرنا چا ہے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے صبر کی توفیق عطا فرما دے گا اور صبر سے بہتر اور وسعت والی عطا کسی پر نہیں کی گئی۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فضل التعفف والصبر، ص۵۲۴، الحدیث: ۱۲۴(۱۰۵۳))

(2)…حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا کہ ’’صبر نصف ایمان ہے اور یقین پورا ایمان ہے۔ (معجم الکبیر، خطبۃ ابن مسعود ومن کلامہ، ۹ / ۱۰۴، الحدیث: ۸۵۴۴)

(3)… حضرت صہیب رومی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مومن کے معاملے پر تعجب ہے کہ اس کا سارا معا ملہ بھلائی پرمشتمل ہے اور یہ صرف اُسی مومن کے لئے ہے جسے خو شحالی حاصل ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے کیونکہ اس کے حق میں یہی بہتر ہے اور اگر تنگدستی پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے ۔(مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن امرہ کلّہ خیر، ص۱۵۹۸، الحدیث: ۶۴(۲۹۹۹))

(4)…حضرت عبد اللہ بن عبا س  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ’’ جس کے مال یا جان میں مصیبت آئی پھر اس نے اسے پوشیدہ رکھا اور لوگوں پر ظاہر نہ کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اس کی مغفرت فرمادے۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۴، الحدیث: ۷۳۷)

(5)…حضرت ابو سعید خدری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرور ِدو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا، ’’مسلمان کو پہنچنے والا کوئی دکھ،تکلیف،غم،ملال، اَذِیَّت اور درد ایسا نہیں ،خواہ اس کے پیر میں کانٹا ہی چبھے مگر اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔(بخاری، کتاب المرضی، باب ما جاء فی کفارۃ المرض، ۴ / ۳، الحدیث: ۵۶۴۱-۵۶۴۲)

(6)…حضرت جابر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا’’ قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تودنیا میں عافیت کے ساتھ رہنے والے تمنا کریں گے کہ’’ کاش! ان کے جسموں کوقینچیوں سے کاٹ دیا جاتا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۵۹-باب، ۴ / ۱۸۰، الحدیث: ۲۴۱۰)

            اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر کرنے کی توفیق اور عافیت عطا فرمائے اور اگر کوئی مصیبت آ جائے تو اس پر صبر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے،اٰمین۔

نعمت ملنے پر شکر کرنے کی برکات:

            نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی بہت برکتیں ہیں ، ان میں سے دو برکتیں درج ذیل ہیں :

(1)… نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی صورت میں بندہ عذاب سے محفوظ رہتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’مَا یَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِیْمًا‘‘(النساء:۱۴۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لاؤ تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اور اللہ قدر کرنے والا، جاننے والاہے۔

(2)…نعمت کا شکر ادا کرنے پر اللہ تعالیٰ نعمتوں میں مزید اضافہ فرما دیتا ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘(ابراہیم:۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔

            اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین۔

 

11:12
فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ وَ ضَآىٕقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌؕ-اِنَّمَاۤ اَنْتَ نَذِیْرٌؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌؕ(۱۲)
تو کیا جو وحی تمہاری طرف ہوتی ہے اس میں سے کچھ تم چھوڑ دو گے اور اس پر دل تنگ ہوگے (ف۲۶) اس بناء پر کہ وہ کہتے ہیں ان کے ساتھ کوئی خزانہ کیوں نہ اترا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ آتا، تم تو ڈر سنانے والے ہو (ف۲۷) اور اللہ ہر چیز پر محافظ ہے،

{فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ:تو کیا تمہاری طرف جو وحی بھیجی جاتی ہے تم اس میں سے کچھ چھوڑ دو گے۔} اس آیت کی تفسیر میں علماء نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کے حبیبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رسالت کی ادائیگی میں کمی کرنے والے نہیں اور اُس نے اُن کو اس سے معصوم فرمایا ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں تبلیغِ رسالت کی تاکید فرمائی اور اس تاکید میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکینِ خاطر بھی ہے اور کفار کی مایوسی بھی کہ اُن کا مذاق اڑانا تبلیغ کے کام میں مُخِل نہیں ہو سکتا۔ شانِ نزول : عبداللہ بن اُمیہ مخزومی نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے کہا تھا کہ اگر آپ سچے رسول ہیں اور آپ کا خدا ہر چیز پر قادر ہے تو اُس نے آپ پر خزانہ کیوں نہیں اُتارا یا آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جو آپ کی رسالت کی گواہی دیتا، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۳۴۳، ملخصاً)

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا وحی میں خیانت کرنا ناممکن ہے:

            امام فخر الدین رازی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ تمام مسلمانوں کا اس پر اِجماع اور اتفاق ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاوحی اور تنزیل میں خیانت کرنا اور وحی کی بعض چیزوں کو ترک کر دینا ممکن نہیں ، کیونکہ اگر یہ بات ممکن مانیں تو اس طرح ساری شریعت ہی مشکوک ہو جائے گی اور نبوت میں طعن لازم آئے گا، نیز رسالت سے اصل مقصود ہی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام بندوں تک پہنچا دیئے جائیں اور جب ایسا نہ ہو تو رسالت سے جو فائدہ مطلوب تھا وہ حاصل ہی نہ ہو گا، اس لئے اس آیت کا ظاہری معنی مراد نہیں ہے بلکہ اس آیت سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ساری وحی کی تبلیغ کریں گے تو کفار کی طرف سے طعن و تشنیع اور مذاق اڑانے کا خدشہ ہے اور اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بتوں کی مذمت والی آیات نہ بیان کریں گے تو کفار آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مذاق تو نہ اُڑائیں گے لیکن اس طرح وحی میں خیانت لازم آئے گی اور جب دو خرابیوں میں سے ایک خرابی لازم ہو تو اس وقت بڑی خرابی کو ترک کر کے چھوٹی خرابی کو برداشت کر لینا چاہئے اور چونکہ وحی میں خیانت کرنے کے مقابلے میں کفار کے طعن و تشنیع کو برداشت کرلینا زیادہ آسان ہے اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وحی میں خیانت کی خرابی سے دور رہتے ہوئے کفار کے طعن و تشنیع کی خرابی کو برداشت کرلیں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲، ۶ / ۳۲۳-۳۲۴)

 

11:13
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُؕ-قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۱۳)
کیا (ف۲۸) یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اسے جی سے بنالیا، تم فرماؤ کہ تم ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ (ف۲۹) اور اللہ کے سوا جو مل سکیں (ف۳۰) سب کو بلالو اگر تم سچے ہو (ف۳۱)

{اَمْ یَقُوْلُوْنَ:کیا یہ کہتے ہیں۔} یعنی کیا کفارِمکہ قرآنِ کریم کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ  محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے یہ قرآن خود ہی بنالیا ہے۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ ’’اگر یہ بات ہے تو تم بھی ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ کیونکہ انسان اگر ایسا کلام بناسکتا ہے تو اس کے مثل بنانا تمہاری طاقت سے باہر نہ ہوگا، تم بھی عربی ہو، فصیح و بلیغ ہو، کوشش کرو ۔ اگر تم  اس بات میں  سچے ہو کہ یہ کلام انسان کا بنایا ہوا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جو مل سکیں سب کو  اپنی مدد کے لئے بلالو۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۳، ۲ / ۳۴۳-۳۴۴)

قرآنِ مجید کا اپنی مثل بنا کر دکھانے کے چیلنج:

قرآنِ مجید نے اپنی مثل کلام بنا کر پیش کرنے کا چیلنج 4 طرح سے دیا ہے۔

(1)…پورے قرآن کے مثل لانے کا چیلنج دیا چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں ہے

’’قُلْ لَّىٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا‘‘ (بنی اسرائیل:۸۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔

(2)…د س سورتوں کی مثل لانے کا چیلنج دیا ، جیسا کہ زیر تفسیر آیت میں ہے۔

(3)… ایک سورت کی مثل لانے کا چیلنج دیا ،چنانچہ سورہ ٔبقرہ میں ہے

’’وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ‘‘ (بقرہ:۲۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہو جو ہم نے اپنے خاص بندے پرنازل کی ہے تو تم اس جیسی ایک سورت بنالاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے سب مددگاروں کو بلالو اگر تم سچے ہو۔

اور سورۂ یونس میں ہے

’’اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُؕ-قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ‘‘ (یونس: ۳۸)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس (نبی) نے اسے خود ہی بنالیا ہے ؟ تم فرماؤ: تو تم (بھی) اس جیسی کوئی ایک سورت لے آؤ اور اللہ کے سوا جو تمہیں مل سکیں سب کو بلا لاؤاگر تم سچے ہو۔

(4)… آخری چیلنج یہ دیا کہ اس جیسی ایک بات ہی بنا لائیں ،چنانچہ سورہ ٔطور میں ہے

’’ اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَهٗۚ-بَلْ لَّا یُؤْمِنُوْنَۚ(۳۳) فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِهٖۤ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِیْنَ‘‘ (طور: ۳۳، ۳۴)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اس نبی نے یہ قرآن خود ہی بنالیا ہے بلکہ وہ ایمان نہیں لاتے۔اگریہ سچے ہیں تو اس جیسی ایک بات تو لے آئیں۔

11:14
فَاِلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰهِ وَ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۴)
تو اے مسلمانو اگر وہ تمہاری اس بات کا جواب نہ دے سکیں تو سمجھ لو کہ وہ اللہکے علم ہی سے اترا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں تو کیا اب تم مانو گے (ف۳۲)

{فَاِلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ:تو اے مسلمانو! اگر وہ تمہاری اس بات کا جواب نہ دے سکیں۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے مسلمانو! اگر کفار تمہارے اس چیلنج کا جواب نہ دے سکیں اور دس سورتوں کی مثل پیش کرنے سے عاجز رہیں تو تم اپنے اس علم پر ثابت قدم رہو کہ قرآن اللہ عَزَّوَجَلَّکا ہی کلام ہے اور جان لو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں ،تو کیا اب تم مانو گے اور یقین رکھو گے کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے ،مطلب یہ کہ اعجازِ قرآن دیکھ لینے کے بعد ایمان و اسلام پر ثابت رہو۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار سے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جو مل سکیں سب کو  اپنی مدد کے لئیبلالو اور ا س آیت میں فرمایا کہ اے کافرو! اگر تمہارے مددگار تمہیں کوئی جواب نہ دے سکیں اور تمہاری کوئی مدد نہ کرسکیں تو سمجھ لو کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے علم ہی سے اتارا گیا ہے ،کسی نے اللہ عَزَّوَجَلَّپر جھوٹ نہیں باندھا بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّنے ہی اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اسے نازل فرمایا ہے اور جان لو کہ جس اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قرآن نازل فرمایا ہے وہی عبادت کے لائق ہے اور جن بتوں کو تم پوجتے ہو وہ عبادت کے لائق ہر گز نہیں تو کیا تم اسلام قبول کرو گے اور اخلاص کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّکی عبادت کرو گے؟(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۴، ۲ / ۳۴۴)

11:15
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)
جو دنیا کی زندگی اور آرائش چاہتا ہو (ف۳۳) ہم اس میں ان کا پورا پھل دے دیں گے (ف۳۴) اور اس میں کمی نہ دیں گے،

{مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا:جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو اپنے نیک اعمال سے دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو اور اپنی کم ہمتی سے آخرت پر نظر نہ رکھتا ہو توہم انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اور جو اعمال اُنہوں نے طلبِ دُنیا کے لئے کئے ہیں ان کا اجر صحت و دولت ، وسعتِ رزق اورکثرتِ اولاد وغیرہ سے دنیا ہی میں پورا کردیں گے اور طلبِ دنیا کے لئے کئے ہوئے اعمال کے اجر میں کمی نہ کریں گے بلکہ ان اعمال کا پورا اور کامل اجر دیں گے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۵، ۲ / ۳۴۴)

نیک اعمال کے ذریعے دنیا طلب کرنے والوں کا انجام:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ دنیا کی طلب اور اس کی زیب و زینت اور آرائش پانے کی خاطر نیک اعمال کرتے ہیں انہیں ان اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی مختلف انداز سے دے دیا جاتا ہے اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ باقی نہیں رہتا۔اسی بات کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل۱۸، ۱۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم،مردود ہو کر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔

اور ارشاد فرماتا ہے:

’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِیْ حَرْثِهٖۚ-وَ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ‘‘(شوری:۲۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: جو آخرت کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اضافہ کردیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے توہم اسے اس میں سے کچھ دیدیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔

نیز ترمذی شریف میں ہے کہ جب حضرت شُفَیَّا اصبحیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کی: میں فلاں فلاں کے حق سے عرض کرتا ہوں کہ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیں جسے آپ نے رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنا، سمجھا اور جان لیا ہو، تو حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: اچھا میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جسے میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے سنا، سمجھا اور جانا ہے، پھر آپ سسکیاں لینے لگے یہاں تک کہ بے ہوش ہو گئے ، میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا اور جب آپ کو کچھ افاقہ ہوا تو فرمایا: میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جسے حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس مقام پر مجھ سے بیان فرمایا اور ا س وقت ہم دونوں کے سوا کوئی تیسرا آدمی یہاں نہ تھا۔ پھر آپ سسکیاں لینے لگے یہاں تک کہ بے ہوش ہو گئے ۔ جب ہوش آیا تو منہ صاف کر کے فرمایا: میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جسے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس مقام پر مجھ سے بیان فرمایا اور اس وقت یہاں ہم دونوں کے سوا اور کوئی نہیں تھا، پھر آپ سسکیاں لینے لگے یہاں تک کہ بے ہوش ہو کر منہ کے بل جھک گئے۔ میں نے کافی دیر تک آپ کو سہارا دیا اور جب ہوش آیاتو فرمایا: رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا ’’جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ بندوں کی طرف متوجہ ہو گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے، اس وقت تمام امتیں گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوں گی اور سب سے پہلے 3 آدمیوں کو بلایا جائے گا۔ (1) جس نے قرآن یاد کیا ہو گا۔ (2) جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل کیا گیا ہو گا۔ (3) زیادہ مالدار شخص۔ اللہ تعالیٰ اس قاری سے فرمائے گا ’’کیا میں نے تمہیں وہ کلام نہ سکھایا جو میں نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر نازل کیا تھا؟ وہ عرض کرے گا: ہاں یا رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’تو نے اپنے علم کے مطابق کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں رات دن ا س کی تلاوت کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی کہیں گے کہ تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو (تلاوتِ قرآن سے یہ) چاہتا تھا کہ کہا جائے: فلاں قاری ہے، تووہ تجھے کہہ دیا گیا (تو چلا جا!آج کے دن ہمارے پاس تیرے لئے کوئی شے نہیں )۔ پھر دولت مند کو لایا جائے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’کیا میں نے تجھے(مال میں ) اتنی وسعت نہ دی کہ تجھے کسی کا محتاج نہ رکھا؟ وہ عرض کرے گا: ہاں یا رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’میری دی ہوئی دولت سے تو نے کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں (اس کے ذریعے) قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا اور خیرات کیا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو جھوٹا ہے اور فرشتے بھی کہیں گے کہ تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو (صلہ رحمی اور خیرات سے یہ) چاہتا تھا کہ کہا جائے: فلاں بڑا سخی ہے تو ایسا کہا جا چکا ہے (اب تو چلا جا!آج کے دن ہمارے پاس تیرے لئے کوئی شے نہیں ) ۔پھر شہید کو لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’تو کس لئے قتل ہوا؟ وہ عرض کرے گا: تو نے مجھے اپنے راستے میں جہاد کرنے کا حکم دیا تو میں نے لڑائی کی یہاں تک کہ میں شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا ’’تو جھوٹا ہے اور فرشتے بھی کہیں گے کہ تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’تیری جہاد کرنے سے نیت یہ تھی کہ لوگ کہیں : فلاں بڑا بہادر ہے۔ تو یہ بات کہہ دی گئی (تو چلا جا!آج کے دن ہمارے پاس تیرے لئے کوئی شے نہیں ) ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :پھر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرے زانو پر اپنا دستِ اقدس مارتے ہوئے فرمایا ’’اے ابو ہریرہ!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے پہلے انہی تین آدمیوں کے ذریعے جہنم کو بھڑکایا جائے گا۔‘‘

یہی حدیث جب حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے سامنے بیان کی گئی تو آپ نے فرمایا ’’ان تینوں کا یہ حشر ہے تو باقی لوگوں کا کیا حال ہو گا، پھر آپ بہت روئے یہاں تک کہ لوگوں نے خیال کیا کہ آپ جان دے دیں گے، پھر جب حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہوش آیا تو آپ نے چہرہ پونچھ کر کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے سچ فرمایا : 

’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اورانہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال باطل ہیں۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الریاء والسمعۃ، ۴ / ۱۶۹، الحدیث: ۲۳۸۹، ابن عساکر، ذکر من اسمہ العلاء، العلاء بن الحارث بن عبد الوارث۔۔۔ الخ، ۴۷ / ۲۱۴)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کے لئے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوران کے ذریعے دنیا طلب کرنے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔

11:16
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۶)
یہ ہیں وہ جن کے لیے آخرت میں کچھ نہیں مگر آ گ اور اکارت گیا جو کچھ وہاں کرتے تھے اور نابود ہوئے جو ان کے عمل تھے (ف۳۵)

{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ:یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں۔} شانِ نزول : امام ضحاک  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین کے بارے میں ہے کہ وہ اگر صلہ رحمی کریں یا محتاجوں کو دیں یا کسی پریشان حال کی مددکریں یا اس طرح کی کوئی اور نیکی کریں تو اللہ تعالیٰ وسعتِ رزق وغیرہ سے اُن کے عمل کی جزا دنیا ہی میں دے دیتا ہے اور آخرت میں اُن کے لئے کوئی حصہ نہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ، منافقین رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جہادوں میں مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لئے شامل ہوتے تھے کیونکہ وہ آخرت کے ثواب کا یقین نہ رکھتے تھے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۶، ۲ / ۳۴۴-۳۴۵)

اعمال قبول ہونے کے لئے ایمان شرط ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کے بغیر کوئی نیکی رب تعالیٰ کے نزدیک قبول نہیں ،جیسے نماز کے لئے وضو شرطِ جواز ہے ایسے ہی اعمال کے لئے ایمان شرطِ قبول ہے۔
11:17
اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَ یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةًؕ-اُولٰٓىٕكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖؕ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗۚ-فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُۗ-اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۱۷)
تو کیا وہ جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہو (ف۳۶) اور اس پر اللہ کی طرف سے گواہ آئے (ف۳۷) اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (ف۳۸) پیشوا اور رحمت وہ اس پر (ف۳۹) ایمان لاتے ہیں، اور جو اس کا منکر ہو سارے گروہوں میں (ف۴۰) تو آگ اس کا وعدہ ہے تو اے سننے والے! تجھے کچھ اس میں شک نہ ہو، بیشک وہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے لیکن بہت آدمی ایمان نہیں رکھتے،

{اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ:تو کیا وہ جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہو۔} اس سے پہلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا کہ جو اپنے اعمال کے بدلے دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت چاہتے ہیں اور اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے کہ جو اپنے اعمال کے بدلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۳۴۵) بعض مفسرین کے نزدیک  روشن دلیل سے وہ دلیلِ عقلی مراد ہے جو اسلام کی حقانیت پر دلالت کرے اور اس شخص سے جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہووہ یہود ی مراد ہیں جو اسلام سے مشرف ہوئے، جیسے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور گواہ سے مراد قر آنِ پاک ہے۔(مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۹۲، تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۳۲۹) اور بعض مفسرین کے نزدیک روشن دلیل سے مراد قرآن پاک اور’’اس شخص سے جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہو‘‘ سے مراد نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَیا اہلِ ایمان اور  گواہ سے مراد حضرت جبرئیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔ (جلالین، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۸۱) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اور اس روشن دلیل پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک گواہ بھی آئے اور اِس کی صحت کی گواہی دے کیا وہ اُس کی طرح ہو سکتا ہے جو دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتا ہو،ایسا نہیں ، ان دونوں میں عظیم فرق ہے۔ اور اس سے پہلے یعنی قرآن نازل ہونے اور رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرمائے جانے سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتاب تورات ان کے لئے پیشوا اور رحمت تھی کہ وہ لوگ دینی اور شرعی معاملات میں اس کی طرف رجوع کرتے تھے نیز تورات گمراہوں کوہدایت کی راہ دکھاتی تھی ، اور ان اَوصاف کے حامل افراد نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور یہودی ، عیسائی، مجوسی، بتوں کے پجاری وغیرہ تمام کفار اور دیگر اَدیان کو ماننے والوں میں سے جو کوئی حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور قرآن پر ایمان نہ لائے گا تو آخرت میں آگ اس کا وعدہ ہے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۳۴۶، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۹۲-۴۹۳، ملتقطاً)

            حدیث پاک میں بھی یہ بات بیان ہوئی ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ا رشاد فرمایا ’’اس کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جان ہے، اس اُمت میں جو کوئی بھی ہے یہودی ہو یا نصرانی جس کو بھی میری خبر پہنچے اور وہ میرے دین پر ایمان لائے بغیر مرجائے تووہ ضرور جہنمی ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب وجوب الایمان برسالۃ نبیّنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم الی جمیع الناس۔۔۔ الخ، ص۹۰، الحدیث: ۲۴۰(۱۵۳))

{فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ:تو اے سننے والے!تجھے اس کے بارے میں کوئی شک نہ ہو۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے سننے والے! اس دین کے صحیح ہونے اور قرآن کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے کے بارے میں شک نہ کر، بیشک یہ تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ا س قرآن کی تصدیق نہیں کرتے ۔اس تفسیر کے مطابق آیت کے اس حصے کا تعلق ماقبل مذکور آیت نمبر 13’’ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ‘‘سے ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے سننے والے! تو اس بات میں شک نہ کر کہ دیگر اَدیان کو ماننے والوں میں سے جو کو ئی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لائے گا تو آخرت میں اس کا وعدہ آگ ہے، لیکن اکثر لوگ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ کفار کے لئے آگ کاوعدہ ہے۔ اس تفسیر کے مطابق آیت کے اس حصے کا تعلق اسی آیت کے اس حصے’’وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ‘‘ سے ہے۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۳۴۶)

11:18
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًاؕ-اُولٰٓىٕكَ یُعْرَضُوْنَ عَلٰى رَبِّهِمْ وَ یَقُوْلُ الْاَشْهَادُ هٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلٰى رَبِّهِمْۚ-اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَۙ(۱۸)
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے (ف۴۱) اور اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے (ف۴۲) اور گواہ کہیں گے یہ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا، ارے ظا لموں پر خدا کی لعنت (ف۴۳)

{وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا:اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟} اِس آیت اور اِس کے بعد والی 4آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کی مذمت میں تقریباً 14 باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بت اُن کی شفاعت کریں گے اور یہ بت اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں نیز وہ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد بھی مانتے تھے اور یہ اللہ تعالیٰ پر صریح جھوٹ اور اِفتراء تھا، اس لئے ان کی مذمت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں سے اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھے؟ اور اس کے لئے شریک و اَولاد بتائے، یہ جھوٹ باندھنے والے لوگ جب  قیامت کے دن ذلت و رسوائی کے ساتھ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور پیش کیے جائیں گے تو  اُن سے اُن کے دنیوی اَعمال دریافت کئے جائیں گے ،انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ملائکہ عَلَیْہِمُ السَّلَام  اُن کے خلاف گواہی دیں گے اورکہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّپر جھوٹ بولا تھا۔ خبردار! ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۳۳۱، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۸، ۲ / ۳۴۶، ملتقطاً)

قیامت کے دن کافروں اور منافقوں کی رسوائی:

            اس سے معلوم ہوا کہ بروزِ قیامت کفار و منافقین کی بڑی رسوائی ہو گی، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ روزِ قیامت کفار اور منافقین کو تمام مخلوق کے سامنے کہا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربعَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ بولا تھا اور ظالموں پر خدا کی لعنت ہے،(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب قول اللہ تعالی: الا لعنۃ اللہ علی الظالمین، ۲ / ۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۱، مسلم، کتاب التوبۃ، باب قبول توبۃ القاتل وان کثر قتلہ، ص۱۴۸۱، الحدیث: ۵۲(۲۷۶۷))اس طرح وہ تمام مخلوق کے سامنے رسوا کئے جائیں گے۔

11:19
الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًاؕ-وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ(۱۹)
جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی چاہتے ہیں، اور وہی آخرت کے منکر ہیں،

{اَلَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:وہ جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔} یعنی ان ظالموں کا طریقہ یہ ہے کہ  وہ  اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکتے اور حق کی پیروی کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اسلام کے خلاف شکوک و شُبہات ڈالنے، صاف اور واضح دلائل میں ٹیڑھا پن تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۹، ۶ / ۳۳۲)

آیت’’اَلَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ‘ کے مِصداق لوگ:

            اس آیت میں وہ کفار و مشرکین بھی شامل ہیں جو ایمان کا سیدھا راستہ چھوڑ کر کفر والا ٹیڑھا راستہ اختیار کرتے ہیں اور وہ مُرْتَدّین بھی شامل ہیں جو قرآن کی مَعنوی تحریف کر کے صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور عام مسلمانوں کے خلاف راستہ اختیار کرتے ہیں اور آیات کے وہ معنی کرتے ہیں جو متواتِر معانی کے خلاف ہیں اگر انہیں آخرت کا ڈر ہوتا تو یہ جرأت کبھی نہ کرتے۔

11:20
اُولٰٓىٕكَ لَمْ یَكُوْنُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَ مَا كَانَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَۘ-یُضٰعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُؕ-مَا كَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَ مَا كَانُوْا یُبْصِرُوْنَ(۲۰)
وہ تھکانے والے نہیں زمین میں (ف۴۴) اور نہ اللہ سے جدا ان کے کوئی حمایتی (ف۴۵) انہیں عذاب پر عذاب ہوگا (ف۴۶) وہ نہ سن سکتے تھے اور نہ دیکھتے (ف۴۷)

{اُولٰٓىٕكَ لَمْ یَكُوْنُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ:وہ زمین میں عاجز کرنے والے نہیں ہیں۔}  آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پر عذاب کرنا چاہے تو وہ زمین میں اللہ عَزَّوَجَلَّکو عاجز نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اُس کے قبضہ اور اُس کی ملک میں ہیں ،نہ اس سے بھاگ سکتے ہیں نہ بچ سکتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کے سوا ان کے کوئی مددگار بھی نہیں ہیں کہ وہ اُن کی مدد کریں اور اُنہیں اس کے عذاب سے بچائیں۔ لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے روکنے اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرنے کی وجہ سے ان کاعذاب کئی گنا بڑھا دیا جائے گا۔  (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۰، ۲ / ۳۴۷)

{مَا كَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ:وہ نہ تو سن سکتے تھے۔} حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں کہ وہ حق سننے سے بہرے ہوگئے تو کوئی بھلائی کی بات سن کر نفع نہیں اُٹھاتے اور نہ وہ آیاتِ قدرت کو دیکھ کر فائدہ اُٹھاتے ہیں۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۰، ۲ / ۳۴۷)
11:21
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(۲۱)
وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانیں گھاٹے میں ڈالیں اور ان سے کھوئی گئیں جو باتیں جوڑتے تھے خواہ نخواہ

{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ:یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خسارے میں ڈال دیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ نے اللہ عَزَّوَجَلَّکی عبادت کے بدلے بتوں کی عبادت کواختیار کرلیا اور یہ سب سے بڑا خسارہ ہے۔ یہ دین کو دنیا کے بدلے میں بیچ کر خسارے میں پڑ گئے کیونکہ انہوں نے عزت والی چیز دے کر ذلت والی چیز کو اپنا لیا اور یہ دنیا کا خسارہ ہے اور آخرت کا خسارہ یہ ہو گا کہ وہ ذلت والی چیز بھی ہلاک ہو جائے گی اور اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے گا۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۱، ۶ / ۳۳۴)

11:22
لَا جَرَمَ اَنَّهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَ(۲۲)
(ضرور) وہی آخرت میں سب سے زیادہ نقصان میں ہیں (ف۴۸)

{لَا جَرَمَ:لازمی طور پر۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ لازمی طور پر آخرت میں سب سے زیادہ نقصان میں ہوں گے کیونکہ عزت و رفعت عطا کرنے والا دین یعنی’’ اسلام‘‘ قبول کرنے پرآخرت میں انہیں جنت اور ا س کی دائمی نعمتیں حاصل ہوتیں لیکن انہوں نے اسلام قبول کرنے کی بجائے ذلت کی گہرائیوں میں پھینک دینے والی چیزیعنی ’’ بتوں کی عبادت‘‘ پر راضی ہو کر آخرت میں جنتی مَنازِل اور ا س کی نعمتوں کو بیچ دیا اور ان کے عِوض آخرت میں جہنم کی منازل اور اس کے دائمی عذابات کو خرید لیا اس لئے وہ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان میں ہوں گے۔

  آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا انتہائی نقصان دِہ ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اپنی اُخروی بھلائی اور بہتری کے مقابلے دنیا کی بھلائی اور بہتری کو ترجیح دینا انتہائی خسارے کا باعث ہے ا س لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی دنیا بہتر بنانے کے مقابلے میں اپنی آخرت کو بہتر بنانے کی زیادہ کوشش کرے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ان فتنوں کے واقع ہونے سے پہلے نیک اعمال کر لو جو اندھیری رات کی طرح چھا جائیں گے ایک شخص صبح مومن ہوگا اور شام کو کافر، یا شام کو مومن ہو گا اور صبح کافر اور وہ معمولی سی دنیوی مَنفعت کے بدلے میں اپنا دین بیچ ڈالے گا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علی المبادرۃ بالاعمال قبل تظاہر الفتن، ص۷۳، الحدیث: ۱۸۶(۱۱۸))

            حضرت ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کہ ایک شخص نے عرض کی :یارسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں میں سب سے بڑا زاہد کون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’وہ شخص سب سے بڑا زاہد ہے جو اپنی قبر کو اور اپنے فنا ہونے کو نہ بھولے، دنیا کی زیب و زینت کو چھوڑ دے،باقی رہنے والی کو فنا ہو جانے والی پر ترجیح دے، اپنے آنے والے دن کو شمار نہ کرے اور خود کو مُردوں میں شمار کرے۔ (شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۵۵، الحدیث: ۱۰۵۶۵)

            اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے اور آخرت کی بھلائی اوربہتری کے لئے بھرپور کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

 

11:23
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَخْبَتُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْۙ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۳)
بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور اپنے رب کی طرف رجوع لائے وہ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،

{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک جو ایمان لائے ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے دنیوی حالات اور اُخروی خسارے کا ذکر فرمایا، اس کے بعد اس آیت میں اہلِ ایمان کے دنیوی حالات اور اخروی فوائد بیان فرمائے ۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۳، ۲ / ۳۴۷)  اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ بے شک وہ لوگ جو ایمان لاتے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتے ہیں اور عبادت کی ادائیگی کے وقت ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں اور اس وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ ’’ وَ اَخْبَتُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ ‘‘ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ثواب و عذاب کا جو بھی وعدہ فرمایا ہے اس کی سچائی پر ان کے دل مطمئن ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کئے اور اس بات سے ڈرتے رہے کہ کہیں ان کے اَعمال میں کوئی نَقص یا کمی نہ رہ گئی ہو۔ جن لوگوں میں یہ تین اَوصاف ہوں تو وہ جنتی ہیں اور وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۳، ۶ / ۳۳۵)

اپنے اَعمال کی فکر کرنے کی ترغیب:

            ہمارے اَسلاف کا یہی حال تھا کہ وہ ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے کے باوجود ان میں نقص یا کمی رہ جانے سے ڈرتے تھے بلکہ وہ عظیم المرتبت صحابی جن کے عدل وانصاف اور بہترین حکمرانی پر تاریخِ اسلام کو ناز ہے اور جنہیں دنیا میں ہی مالکِ جنت ،قاسمِ نعمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی زبانِ اَقدس سے جنت کی بشارت مل گئی یعنی سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، وہ بھی اس معاملے میں خوفزدہ رہتے تھے، چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ جب حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور شہادت کا وقت قریب آیا توایک انصاری نوجوان حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے: اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہو کہ اسلام میں آپ کا جو مقام ہے وہ آپ جانتے ہیں ، پھر جب آپ خلیفہ بنائے گئے تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عدل وانصاف کیا اور اس کے بعد شہادت پائی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا : اے بھتیجے! کاش مجھے برابری پر چھوڑ دیا جائے کہ نہ عذاب ہو نہ ثواب۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وعمر رضی اللہ عنہما، ۱ / ۴۶۹، الحدیث: ۱۳۹۲)

            اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے اَعمال کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

11:24
مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ كَالْاَعْمٰى وَ الْاَصَمِّ وَ الْبَصِیْرِ وَ السَّمِیْعِؕ-هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًاؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۠(۲۴)
دونوں فریق (ف۴۹) کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا اور دوسرا دیکھتا اور سنتا (ف۵۰)کيا ان دونوں حال کا ايک سا ہے (ف۱۵) تو کياتم دہيان نہيں کرتے

{مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ:دونوں فریقوں کا حال ۔} اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کافر و مومن دو گروہوں کا ذکر فرمایا اب اس آیت میں ایک مثال بیان فرما کر ان کی مزید وضاحت فرما دی۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں فریقوں یعنی کافر اور مومن کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا ہو اور دوسرا دیکھنے والا اور سننے والا۔ کافر اس کی مثل ہے جو نہ دیکھے نہ سنے اور یہ ناقص ہے، جبکہ مومن اس کی مثل ہے جو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے اوروہ کامل ہے اور حق و باطل میں امتیاز رکھتا ہے، اس لئے ہر گز ان دونوں کی حالت برابر نہیں۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۴، ۶ / ۳۳۵، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۳۴۷-۳۴۸، ملتقطاً)

11:25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ٘-اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ(۲۵)
اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھيجا (ف۵۲) کہ میں تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں

{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ:اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔}اللہ تعالیٰ کا اپنی کتاب قرآنِ پاک میں یہ طریقہ ہے کہ جب کفار پر دلائل قائم فرمائے، انہیں عذاب سے ڈرائے اور ان کے لئے مثالیں بیان فرمائے تو اس کے بعد گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان کی امتوں کے بعض واقعات بھی بیان فرماتا ہے تاکہ یہ کسی طرح ہدایت حاصل کریں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے سات واقعات بیان فرمائے ہیں۔ (1) حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان کی قوم کا واقعہ۔ (2) حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (3) حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان کی قوم کا واقعہ۔ (4) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا فرشتوں کے ساتھ واقعہ۔ (5) حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (6) حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (7) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا فرعون کے ساتھ واقعہ ۔ یہ تمام قصے زمانے کی ترتیب کے مطابق بیان فرمائے۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۹۰۸) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا: اے میری قوم ! میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرنے اور اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا صریح ڈر سنانے والا ہوں۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۳۴۸)

یاد رہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ سورۂ یونس میں گزر چکا ہے، اس سورت میں اس واقعے کو فوائد کے پیشِ نظر مزید تفصیلات کے ساتھ دوبارہ بیان فرمایا گیا۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۵، ۶ / ۳۳۶)

نوٹ: حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کی بعض تفصیلات ا س سے پہلے سورۂ اَعراف آیت 59تا 64 میں گزر چکی ہیں۔

11:26
اَنْ لَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَؕ-اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ(۲۶)
کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو، بیشک میں تم پر ایک مصیبت والے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں (ف۵۳)

{اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ:بیشک میں تم پر ایک دردناک دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم خالصتاً اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت اوراس کی وحدانیت کا اقرار نہ کرو گے اور ان بتوں سے کنارہ کشی اختیار نہ کرو گے تو مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دردناک دن کا عذاب نہ آ جائے۔ درد ناک دن سے مراد یا تو قیامت کا دن ہے یا طوفان آنے کا دن اور دن کو مجازی طور پر دردناک اس لئے فرمایا گیا کہ دردناک عذاب ا س دن نازل ہو گا۔(تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۲۶، ۷ / ۲۷، ابو سعود، ہود، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۲۳، تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۶، ۶ / ۳۳۶، ملتقطاً)

حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی عمر:

حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چالیس سال کی عمر میں مبعوث ہوئے اور نو سو پچاس سال اپنی قوم کو دعوت فرماتے رہے اور طوفان کے بعد ساٹھ برس دنیا میں رہے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر ایک ہزار پچاس سال کی ہوئی۔ اس کے علاوہ عمر شریف کے متعلق اور بھی قول ہیں۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۳۴۸)

11:27
فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَ مَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِۚ-وَ مَا نَرٰى لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍۭ بَلْ نَظُنُّكُمْ كٰذِبِیْنَ(۲۷)
تو اس کی قوم کے سردار جو کافر ہوئے تھے بولے ہم تو تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں (ف۵۴) اور ہم نہیں دیکھتے کہ تمہاری پیروی کسی نے کی ہو مگر ہمارے کمینوں نے (ف۵۵) سرسری نظر سے (ف۵۶) اور ہم تم میں اپنے اوپر کوئی بڑائی نہیں پاتے (ف۵۷) بلکہ ہم تمہیں (ف۵۸) جھوٹا خیال کرتے ہیں،

{فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ:تو اس کی قوم کے کافر سردار کہنے لگے ۔} جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دی تو انہوں نے تین شُبہات وارد کر کے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں طعن کیا۔

(1)… حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہماری طرح بشر ہیں۔ اس گمراہی میں بہت سی اُمتیں مبتلا ہو کر اسلام سے محروم رہیں ، قرآنِ پاک میں جا بجا ان کے تذکرے ہیں ، اس اُمت میں بھی بہت سے بدنصیب نبیوں کے سردار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکوبے ادبی سے بشر کہتے اور ہمسری کا فاسد خیال رکھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں گمراہی سے بچائے۔

(2)… حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی پیروی سب سے کمینے لوگوں نے غور وفکر کے بغیر کر لی ۔ کمینوں سے مراد اُن کی وہ لوگ تھے جو اُن کی نظر میں گھٹیا پیشے رکھتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ اُن کا یہ قول خالصتاً جہالت پر مبنی تھا کیونکہ انسان کا حقیقی مرتبہ دین کی پیروی اور رسول کی فرمانبرداری سے ہے جبکہ مال و منصب اور پیشے کو اس میں دخل نہیں ، دیندار، نیک سیرت، پیشہ ور کو حقارت کی نظر سے دیکھنا اور حقیر جاننا جاہلانہ فعل ہے۔

(3)… ہم تمہارے لئے اپنے اوپر مال اور ریاست میں کوئی فضیلت نہیں پاتے بلکہ ہم تمہیں نبوت کے دعویٰ میں اور تمہاری پیروی کرنے والوں کو اس کی تصدیق میں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔ان کا یہ قول بھی جہالت پر مبنی تھا کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بندے کے لئے ایمان و طاعت فضیلت کا سبب ہے نہ کہ مال و ریاست۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۷، ۶ / ۳۳۶، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۳۴۸، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۴۹۴، ملتقطاً)

          نوٹ:ان شُبہات کا تفصیلی جواب آیت نمبر31میں مذکور ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہی سابقہ جاہلیت ہمارے زمانے میں بھی پائی جاتی ہے کہ گمراہ یا فاسق لوگ عموماً مالدار ہوتے ہیں جبکہ دیندار لوگ غریب اور پھر یہی فاسق و گمراہ لوگ غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔

 

11:28
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ فَعُمِّیَتْ عَلَیْكُمْؕ-اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَ اَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ(۲۸)
بولا اے میری قوم! بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوں (ف۵۹) اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت بخشی (ف۶۰) تو تم اس سے اندھے رہے، کیا ہم اسے تمہارے گلے چپیٹ (چپکا) دیں اور تم بیزار ہو (ف۶۱)

{قَالَ یٰقَوْمِ:فرمایا: اے میری قوم!}جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوجھٹلایا تو آپ نے اپنی قوم سے فرمایا: اے میری قوم! مجھے بتاؤ کہ اگر میں ا پنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے واضح دلیل پر ہوں یعنی حق پر ہوں اور مجھے اپنی حقانیت کا قطعی یقین ہو اور اپنی حقانیت کے دلائل بھی میرے پاس موجود ہوں نیز اللہ نے مجھے اپنے پاس سے نبوت عطا کی ہو جبکہ یہی حقیقت تم پر پوشیدہ ہو تو کیا میں تمہیں اپنی نبوت قبول کرنے اورا س پر ایمان لانے پر مجبور کروں حالانکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو اور اس کا انکار کرتے ہو۔ میں تمہیں قبول کروانے کی قدرت نہیں رکھتا بلکہ مجھے تو صرف اس بات کی طاقت ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچا دوں۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۹۰۹)

11:29
وَ یٰقَوْمِ لَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مَالًاؕ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاؕ-اِنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ لٰكِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُوْنَ(۲۹)
اور اے قوم! میں تم سے کچھ اس پر (ف۶۲) مال نہیں مانگتا (ف۶۳) میرا اجر تو اللہ ہی پر ہے اور میں مسلمانوں کو دور کرنے والا نہیں (ف۶۴) بیشک وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں (ف۶۵) لیکن میں تم کو نرے جاہل لوگ پا تا ہوں (ف۶۶)

{ وَ یٰقَوْمِ:اور اے قوم!} امام فخر الدین رازی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’گویا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا ’’تم میرے ظاہری حالات کی طرف دیکھتے ہو کہ میں مال و دولت نہیں رکھتا جس کی وجہ سے تمہارا یہ گمان ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا یہ کام اس لئے شروع کیا ہے تاکہ اس پرتم سے مال و دولت حاصل کروں۔ تمہارا یہ گمان غلط ہے ،میں رسالت کی تبلیغ پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا ،میرا اجر تو اللہ ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ کے ذمۂ کرم پر ہے، لہٰذا تم اس فاسد گمان کی وجہ سے اپنے آپ کو اُخروی سعادتوں کے حصول سے محروم نہ کرو۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۹، ۶ / ۳۳۹)

{وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اور میں مسلمانوں کو دور نہیں کروں گا۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ آپ سے کہتے تھے  کہ اے نوح! گھٹیا لوگوں کو اپنی مجلس سے نکال دیجئے تاکہ ہمیں آپ کی مجلس میں بیٹھنے سے شرم نہ آئے۔ اُن کی اس بات کے جواب میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا کہ میں تمہاری وجہ سے مسلمانوں کو اپنے آپ سے دور نہیں کروں گا، کیونکہ ان کی شان تو یہ ہے کہ یہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّسے ملنے والے ہیں اور اس کے قرب سے سرفراز ہوں گے تو میں اُنہیں کیسے نکال دوں ، ہاں اس کے برعکس  میں تم لوگوں کو بالکل جاہل سمجھتا ہوں کیونکہ تم ایمانداروں کو گھٹیا کہتے ہو اور اُن کی قدر نہیں کرتے اور نہیں جانتے کہ وہ تم سے بہتر ہیں۔

مالداروں کو قریب کرنا اور غریبوں کو دور کرنا درست نہیں :

            اس سے پیر صاحبان، علماء و خطباء کو بھی درس حاصل کرنا چاہیے کہ مالداروں کو اپنے قرب میں جگہ دینا، ان کی فرمائش پر فوراً ان کے گھر حاضر ہوجانا جبکہ غریبوں کو خود سے کچھ فاصلے پر رکھنا اور ان کی بار بار کی فریادوں کے باوجود بھی ان پر شفقت نہ کرنا درست نہیں اور نہ ہی ان حضرات کے شایانِ شان ہے۔ نیز مالداروں کیلئے بھی اس آیت میں عبرت ہے کہ دیندار غریبوں کو حقیر سمجھنا کفار کا طریقہ ہے جیسے غریب علماءِ کرام، طُلباءِ دین، مُبلِّغین وغیرہ کو مالدار، سیٹھ صاحبان دو کوڑی کی عزت دینے کو تیار نہیں ہوتے ، چندہ بھی دینا ہو تو دس چکر لگوا کر دیں گے اور ماتھے پر تیوری چڑھا کر دیں گے اور دینے کے بعد انہیں اپنا نوکر سمجھیں گے۔

11:30
وَ یٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ طَرَدْتُّهُمْؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(۳۰)
اور اے قوم مجھے اللہ سے کون بچالے گا اگر میں انہیں دور کروں گا، تو کیا تمہیں دھیان نہیں،

{وَ یٰقَوْمِ:اور اے میری قوم!} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ عقل اور شریعت ا س بات پر متفق ہیں کہ نیک اور متقی مسلمان کی تعظیم کرنا جبکہ فاسق و فاجر اور کافر کی توہین کرنا ضروری ہے اور اس کے برخلاف کرنا یعنی فاسق و فاجر اور کافر کو تعظیم کے طور پر قربت سے نوازنا اور نیک ،متقی، پرہیز گار مسلمانوں کو ان کی توہین کے طور پر اپنے آپ سے دور کر دینا اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جب ان کی قوم کے لوگوں نے غریب مسلمانوں کو اپنے آپ سے دور کرنے کا مطالبہ کیا تو انہیں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ جواب دیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ بفرضِ محال اگر میں شریعت کے حکم کے برخلاف کافر اور فاجر کی تعظیم کر کے اسے اپنی بارگاہ میں قرب سے نوازوں اور متقی مومن کی توہین کر کے اسے اپنی مجلس سے نکال دوں تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہو گی اور اس کی وجہ سے میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا حق دار ٹھہروں گا، مجھے بتاؤ! پھر اس وقت مجھے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کون بچائے گا؟ تو کیا تم اس بات سے نصیحت حاصل نہیں کرتے کہ ایسا کرنا درست نہیں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۳۳۹-۳۴۰)

11:31
وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىٕنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَكٌ وَّ لَاۤ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْۤ اَعْیُنُكُمْ لَنْ یُّؤْتِیَهُمُ اللّٰهُ خَیْرًاؕ-اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْۚۖ-اِنِّیْۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۱)
اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جان جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں (ف۶۷) اور میں انہیں نہیں کہتا جن کو تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں کہ ہرگز انہیں اللہ کوئی بھلائی نہ دے گا، اللہ خوب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے (ف۶۸) ایسا کروں (ف۶۹) تو ضرور میں ظالموں میں سے ہوں (ف۷۰)

{وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ:اور میں تم سے نہیں کہتا ۔} اس سے پہلی آیات میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے آپ کی نبوت میں تین شُبہات وارد کئے تھے۔

           ایک شُبہ تو یہ تھا کہ ’’مَا نَرٰى لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍۭ‘‘ ہم تم میں اپنے اوپر کوئی بڑائی نہیں پاتے یعنی تم مال و دولت میں ہم سے زیادہ نہیں ہو، اس کے جواب میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا ’’ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىٕنُ اللّٰهِ‘‘ یعنی میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں لہٰذا تمہارا یہ اعتراض بالکل بے محل ہے کیونکہ میں نے کبھی مال کی فضیلت جتائی ہے اور نہ دنیوی دولت کی توقع رکھنے کا تمہیں کہا ہے اور اپنی دعوت کو مال کے ساتھ وابستہ بھی نہیں کیا پھر تم یہ کہنے کے کیسے مستحق ہو کہ ہم تم میں کوئی مالی فضیلت نہیں پاتے ،تمہارا یہ اعتراض محض بے ہودہ ہے۔

          دوسرا شبہ یہ تھا ’’ مَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ‘‘ یعنی ہم نہیں دیکھتے کہ تمہاری کسی نے پیروی کی ہو، مگر ہمارے کمینوں نے سرسری نظر سے ۔مطلب یہ تھا کہ وہ بھی صرف ظاہر میں مومن ہیں باطن میں نہیں ، اس کے جواب میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ فرمایا کہ میں نہیں کہتا کہ میں غیب جانتا ہوں اور میرے اَحکام غیب پر مبنی ہیں تاکہ تمہیں یہ اعتراض کرنے کا موقع ملتا، جب میں نے یہ کہا ہی نہیں تو اعتراض بے محل ہے اور شریعت میں ظاہر ہی کا اعتبار ہے لہٰذا تمہارا اعتراض بالکل بے جا ہے ،نیز ’’لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ‘‘ فرمانے میں قوم پر ایک لطیف اعتراض بھی ہے کہ کسی کے باطن پر حکم کرنا اس کا کام ہے جو غیب کا علم رکھتا ہو جبکہ میں نے اس کا دعویٰ نہیں کیا حالانکہ میں نبی ہوں تو تم کس طرح کہتے ہو کہ وہ دل سے ایمان نہیں لائے۔

          تیسرا شبہ اس قوم کا یہ تھا کہ ’’مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا‘‘ یعنی ہم تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں۔اس کے جواب میں فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں یعنی میں نے اپنی دعوت کو اپنے فرشتہ ہونے پر موقوف نہیں کیا تھا کہ تمہیں یہ اعتراض کرنے کا موقع ملتا کہ دعویٰ تو فرشتہ ہونے کا کیا تھا لیکن نکلے بشر، لہٰذا تمہارا یہ اعتراض بھی باطل ہے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۳۴۹، ملخصاً)

{ وَ لَاۤ اَقُوْلُ: اور میں یہ نہیں کہتا۔} کفار نے چونکہ غریب مسلمانوں کو حقیر سمجھا تھا اس پر حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا ’’ میں ان غریب مسلمانوں کے بارے میں جنہیں تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں یہ حکم نہیں لگاتا کہ اللہ تعالیٰ ہرگز انہیں دنیا و آخرت میں کوئی بھلائی نہ دے گا۔ نیکی یا بدی اِخلاص یا نفاق  جو کچھ ان کے دلوں میں ہے اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ۔ اگر میں اُن کے ظاہری ایمان کو جھٹلا کر اُن کے باطن پر الزام لگائوں اور انہیں نکال دوں تو ضرور میں ظالموں میں سے ہوں گا اوربِحَمْدِاللہ میں ظالموں میں سے ہر گز نہیں ہوں تو ایسا کبھی نہ کروں گا۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۳۴۹، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۴۹۵، ملتقطاً) اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو کسی دلیل کے بغیر منافق یا کافر کہنے والا ظالم ہے کہ شریعت کا حکم ظاہر پر ہے۔

 

11:32
قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَكْثَرْتَ جِدَا لَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۳۲)
بولے اے نوح تم ہم سے جھگڑے اور بہت ہی جھگڑے تو لے ا ٓ ؤ جس (ف۷۱) کا ہمیں وعدے دے رہے ہو اگر تم سچے ہو،

{قَالُوْا یٰنُوْحُ:انہوں نے کہا: اے نوح!} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کفار کی طرف سے پیش کئے گئے شُبہات کے جوابات ذکر فرمائے اور کفار نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے جوابات پر دو اعتراض کئے، ان کا ذکر ا س آیت میں ہے۔

             پہلا اعتراض: کفار نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جوابات کو بکثرت بحث اور جھگڑا کرنے سے تعبیر کیا اور کہا کہ اے نوح! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت ہی زیادہ جھگڑا کرلیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کفارکے ساتھ بہت زیادہ بحث فرمائی تھی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بحث اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اپنی نبوت اور آخرت کو ثابت کرنے کے لئے تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق کو ثابت کرنے کیلئے دلائل پیش کرنا اور شبہات کا اِزالہ کرنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے جبکہ دلائل کے مقابلے میں اپنے آباء و اَجداد کی اندھی تقلید کرنا، جہالت اور گمراہی پر اِصرار کرنا کفار کا طریقہ ہے۔

          دوسرا اعتراض: حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کفار کو جس عذاب کی وعید سنائی تھی ، انہوں نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس عذاب کے جلدی نازل ہونے کا مطالبہ کیا اور کہا ’’اگر تم سچے ہو تو اب وہ عذاب لے آؤ جس کی وعیدیں تم ہمیں دیتے رہتے ہو۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۳۲، ۶ / ۳۴۱)حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے کفار کے ان اعتراضات کا جواب اگلی آیت میں مذکور ہے۔

11:33
قَالَ اِنَّمَا یَاْتِیْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَآءَ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ(۳۳)
بولا وہ تو اللہ تم پر لائے گا اگر چاہے اور تم تھکا نہ سکو گے (ف۷۲)

{قَالَ:فرمایا۔} کفار کے اعتراضات کے جواب میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا’’تم پر عذاب نازل کرنے کا اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے ،وہ جب چاہے گا ا س عذاب کو تم پر نازل کر دے گا اور جب اس نے عذاب نازل کرنے کا ارادہ فرمالیا تو تم اُس عذاب کو روک سکو گے اورنہ اُس سے بچ سکو گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفر یا بد عملی پر عذاب آنا ضروری نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ارادے پر موقوف ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۳۳، ۶ / ۳۴۱، روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴ / ۱۲۰، ملتقطاً)

11:34
وَ لَا یَنْفَعُكُمْ نُصْحِیْۤ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَكُمْؕ-هُوَ رَبُّكُمْ- وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَؕ(۳۴)
اور تمہیں میری نصیحت نفع نہ دے گی اگر میں تمہارا بھلا چاہوں جبکہ اللہ تمہاری گمراہی چاہے، وہ تمہارا رب ہے، اور اسی کی طرف پھرو گے (ف۷۳)

{اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ:اگر میں تمہاری خیرخواہی کرنا چاہوں۔} حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ یُغْوِیَكُمْ‘‘ کا معنی ہے اللہ تمہیں عذاب دینا چاہے ،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہوا کہ جس دن تم پر عذاب نازل ہوا اور تم وہ عذاب دیکھ کر ایمان لائے تو اس دن میری نصیحت تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی کیونکہ عذاب نازل ہوتے وقت کا ایمان قبول نہیں۔ میری نصیحت تمہیں اس وقت فائدہ دے گی جب تم عذاب کا مُشاہدہ کرنے سے پہلے ایمان لے آؤ۔( تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۳۴۲) دوسرا معنی مَشِیَّتِ الٰہی کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے جو آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے۔

{هُوَ رَبُّكُمْ- وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ:وہ تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔} یعنی تمہارا خدا وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہاری پرورش کی۔ وہ تمہاری موت سے پہلے اور موت کے بعد دونوں حالتوں میں تمہاری ذات اور صِفات میں تَصَرُّف کرنے کا پورا پورا اختیار رکھتا ہے اور مرنے کے بعد تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ یہ آیت اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ڈرانے میں انتہائی مفید ہے۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۳۴۳)

11:35
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُؕ-قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ۠(۳۵)
کیا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے جی سے بنالیا (ف۷۴) تم فرماؤ اگر میں نے بنالیا ہوگا تو میرا گناہ مجھ پر ہے (ف۷۵) اور میں تمہارے گناہ سے الگ ہوں،

{اَمْ یَقُوْلُوْنَ:کیا یہ کہتے ہیں۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو بات حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ انہوں نے اپنے پاس سے ہی بنا لی ہے۔تواے نوح! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام،تم ان سے فرما دو کہ بالفرض اگر میں نے اپنے پا س سے بنا لی ہے تو مجھے ، میرے گناہ کی سزا ملے گی (لیکن حقیقت یہ ہے کہ) تم نے میرے اوپر جو تہمت لگائی ہے میں تمہارے اس جرم سے بیزار ہوں۔(تفسیر ابو سعود، ہود، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۲۸-۲۹) اس تفسیر کے مطابق اس آیت کا تعلق حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کے ساتھ ہی ہے ۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،کیا کفارِ مکہ یہ کہتے ہیں کہ محمد مصطفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے یہ قرآن خود ہی بنا لیا اور یہ کہہ کر کفاراسےاللہ عَزَّوَجَلَّکا کلام ماننے اور اس کے اَحکام ماننے سے گریز کرتے ہیں اور اس کے رسول پر بہتان باندھتے ہیں اور اُن کی طرف اِفتراء کی نسبت کرتے ہیں جن کی سچائی روشن دلائل اور مضبوط حجتوں سے ثابت ہو چکی ہے،لہٰذا اب اُن سے فرما دو کہ اگر بالفرض میں نے بنا بھی لیا ہو تو میرا جرم صرف مجھ پر ہے، جس کا وبال ضرور آئے گالیکن بِحَمْدِاللہِ میں سچا ہوں تو تم سمجھ لو کہ تمہاری تکذیب کا وبال تم پر پڑے گا اور تم نے میرے اوپر جو تہمت لگائی ہے میں تمہارے اس جرم سے بیزار ہوں۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳۵، ۲ / ۳۵۰، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۴۹۶، ملتقطاً)

تفسیرِ جمل میں ہے کہ اس صورت میں یہ آیت حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قصے کے دوران ا س لئے ذکر کی گئی ہے تاکہ سننے والوں کا نَشاط برقرار رہے۔ (جمل، ہود، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۴۲۹)

11:36
وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىٕسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَۚۖ(۳۶)
اور نوح کو وحی ہوئی تمہاری قوم سے مسلمان نہ ہوں گے مگر جتنے ایمان لاچکے تو غم نہ کھا اس پر جو وہ کرتے ہیں (ف۷۶)

{وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ:اور نوح کی طرف وحی بھیجی گئی۔} اس آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو یہ خبر دی گئی ہے کہ ان کی قوم کے جو لوگ کفر پر اَڑے ہوئے ہیں ان کا ایمان قبول کرنا محال ہے لہٰذا ان کے ایمان قبول کرنے کی توقع نہ رکھیں۔ آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی بھیجی کہ آپ کی قوم کے جن لوگوں سے ایمان قبول کرنے کی توقع تھی وہ تو ایمان قبول کر چکے ، ان کے علاوہ جو لوگ اپنے کفر پر ہی قائم ہیں وہ اب کسی صورت ایمان قبول نہیں کریں گے لہٰذا اس طویل مدت کے دوران کفار کی طرف سے آپ کو جس تکذیب، اِستہزاء اور اَذِیَّت کا سامنا ہوا اس پر غم نہ کرو ، ان کفارکے کرتوت ختم ہو گئے اور اب ان سے انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔(ابوسعود، ہود، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۲۹) ایمان لانے والے حضرات کی تعداد مفسرین کے بیان کے مطابق تقریباً اسی(80) تھی۔

11:37
وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاۚ-اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ(۳۷)
اور کشتی بناؤ ہمارے سامنے (ف۷۷) اور ہمارے حکم سے اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا (ف۷۸) وہ ضرور ڈوبائے جائیں گے (ف۷۹)

{وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا: اور ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بناؤ۔} جب اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو بتا دیا کہ ان کی قوم میں سے پہلے مسلمان ہوجانے والوں کے علاوہ کوئی اور اب مسلمان نہیں ہوگا تو ا س کا تقاضا یہ تھا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کو عذاب دینے والا ہے اور چونکہ عذاب کئی طریقوں سے آ سکتا تھا ا س لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بتا دیا کہ وہ عذاب ڈبو دئیے جانے کی صورت میں ہو گا اور ڈوبنے سے نجات کی صورت صرف کشتی کے ذریعے ممکن تھی ا س لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کشتی تیار کرنے کا حکم دیا چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ہماری حفاظت میں اور ہماری تعلیم سے  کشتی بناؤ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے اُن کی شفاعت اور ان سے عذاب دور ہو جانے کی دعا نہ کرنا کیونکہ غرق ہونا اِن کا مقدرہوچکا ہے۔(تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۳۷، ۶ / ۳۴۴، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۴۹۶، ملتقطاً)

            مروی ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ساج کے درخت بوئے ،بیس سال میں یہ درخت تیار ہوئے، اس عرصہ میں مُطْلَقاً کوئی بچہ پیدا نہ ہوا ، اس سے پہلے جو بچے پیدا ہوچکے تھے وہ بالغ ہوگئے اور اُنہوں نے بھی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا پھر حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکشتی بنانے میں مشغول ہوگئے۔ (روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۱۲۳)

11:38
وَ یَصْنَعُ الْفُلْكَ- وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُؕ-قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَؕ(۳۸)
اور نوح کشتی بناتا ہے اور جب اس کی قوم کے سردار اس پر گزرتے اس پر ہنستے (ف۸۰) بولا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم تم پر ہنسیں گے (ف۸۱) جیسا تم ہنستے ہو (ف۸۲)

{وَ یَصْنَعُ الْفُلْكَ:اور نوح کشتی بناتے رہے۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کشتی بناتے رہے اور ان کی قوم کے سرداروں میں سے جب کبھی کوئی ان کے پاس سے گزرتا تو ان کا مذاق اڑاتا اور کہتا کہ اے نوح !عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، کیا کررہے ہو؟ آپ فرماتے’’ ایسا مکان بنا رہا ہوں جو پانی پر چلے ۔یہ سن کر وہ ہنستے کیونکہ آپ کشتی جنگل میں بنا رہے تھے جہاں دور دور تک پانی نہ تھا اور وہ لوگ مذاق کے طور پر یہ بھی کہتے تھے کہ پہلے تو آپ نبی تھے اب بڑھئی ہوگئے۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان سے فرمایا اگر تم ہمارے او پر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم بھی تمہیں ہلاک ہوتا دیکھ کر تم پر ایسے ہی ہنسیں گے جیسے تم  کشتی دیکھ کر ہنس رہے ہو۔ مروی ہے کہ یہ کشتی دو سال میں تیار ہوئی اس کی لمبائی تین سو گز چوڑائی پچاس گز اُونچائی تیس گز تھی، اس میں اور بھی اَقوال ہیں۔ اس کشتی میں تین درجے بنائے گئے تھے۔ نیچے والے درجے میں جنگلی جانور ، درندے اور حَشراتُ الارض تھے اور درمیانی درجے میں چوپائے وغیرہ اور اوپر والے درجے میں خود حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ کے ساتھی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جسد مبارک جوعورتوں اور مَردوں کے درمیان حائل تھا اور کھانے وغیرہ کا سامان تھا، پرندے بھی اُوپر والے درجہ میں ہی تھے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۳۵۱، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۴۹۶، ملتقطاً)

{فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ:تو عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا ۔} اس آیت میں پہلے عذاب سے دنیا میں غرق ہونے کا عذاب مراد ہے اور دوسرے عذاب سے مراد آخرت میں جہنم کا عذاب ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳۹، ۲ / ۳۵۱)

11:39
فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(۳۹)
تو اب جان جاؤ گے کس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے (ف۸۳) اور اترتا ہے وہ عذاب جو ہمیشہ رہے (ف۸۴)

11:40
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُۙ-قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَؕ-وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلٌ(۴۰)
یہاں تک کہ کہ جب ہمارا حکم آیا (ف۸۵) اور تنور اُبلا (ف۸۶) ہم نے فرمایا کشتی میں سوار کرلے ہر جنس میں سے ایک جوڑا نر و مادہ اور جن پر بات پڑچکی ہے (ف۸۷) ان کے سوا اپنے گھر والوں اور باقی مسلمانوں کو اور اس کے ساتھ مسلمان نہ تھے مگر تھوڑے (ف۸۸)

{حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا :یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا ۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کشتی بنانے میں مصروف رہے یہاں تک کہ ان کی قوم پر عذاب نازل ہونے اور ان کی ہلاکت کا وقت آگیا ،اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس عذاب کے نازل ہونے کی علامت یہ بیان فرمائی تھی کہ جب تم تنور میں سے پانی جوش مارتا ہوا دیکھو تو جان لینا کہ عذاب نازل ہونے کا وقت آ پہنچا ،چنانچہ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اس علامت کو ملاحظہ فرمایا تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی میں سوار ہو گئے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۳۴۷، ملخصاً) بعض مفسرین کے نزدیک اس تنور سے روئے زمین مراد ہے اورایک قول یہ ہے کہ اس سے یہی تنور مراد ہے جس میں روٹی پکائی جاتی ہے ،نیزاس تنور کے بارے میں بھی چند قول ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ وہ تنور پتھر کا تھا اور حضرت حَوّا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کے ترکے میں سے آپ کو پہنچا تھا ۔ وہ تنور شام میں موجود تھا یا ہند میں۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۳۵۱-۳۵۲، ملخصاً)

{مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ:ہر جنس میں سے (نر اور مادہ کا) ایک ایک جوڑا۔} جب تنور میں سے پانی نے جوش مارا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تین طرح کی چیزیں کشتی میں سوار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔

(1)…ہر جنس میں سے نر اور مادہ کا ایک ایک جوڑا۔ حضرت حسن  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے ساتھ ان تمام جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کر لیا جو بچے جنتے ہوں یا انڈے دیتے ہوں ، البتہ جو مٹی سے پیدا ہوتے ہیں جیسے مچھر وغیرہ ان میں سے کسی کو سوار نہ کیا۔‘‘ جانور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس آتے تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دایاں ہاتھ نرپر اور بایاں مادہ پر پڑتا تھا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسوار کرتے جاتے تھے۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ سانپ اور بچھو نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ سوار کر لیں۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان سے فرمایا: تمہاری وجہ سے ہم کہیں مصیبت کا شکار نہ ہوجائیں ا س لئے میں تمہیں سوار نہیں کروں گا۔ انہوں نے عرض کی: آپ ہمیں سوار کر لیں ،ہم آپ کو اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ جو آپ کا ذکر کرے گا ہم اسے کوئی نقصان نہ پہنچائیں گے۔لہٰذا جسے سانپ اور بچھو سے نقصان پہنچنے کا خوف ہو تو وہ یہ آیت پڑھ لے

’’ سَلٰمٌ عَلٰى نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ‘‘ (الصافات: ۷۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تمام جہان والوں میں نوح پر سلام ہو۔

             اسے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ سانپ اور بچھو سے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔

(2)…حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اہلِ خانہ، یہ کل سات افراد تھے، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ان کے تین بیٹے سام، حام، یافث اور ان تینوں کی بیویاں۔ جن پر بات پہلے طے ہو چکی، ان سے مراد حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بیوی واعلہ ہے جو ایمان نہ لائی تھی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیٹا کنعان ہے ،اللہ تعالیٰ نے ان کی ہلاکت کا بھی فیصلہ فرما دیا۔

(3)…وہ لوگ جو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے۔یہ کل 80اَفراد تھے۔ ان کی تعداد کے بارے میں اور بھی اَقوال ہیں ،صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کیونکہ اُن کی تعداد کسی صحیح حدیث میں وارد نہیں ہے ۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۹۱۲-۹۱۳، تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۳۴۷-۳۴۸، ملتقطاً)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

هُوْد
هُوْد
  00:00



Download

هُوْد
هُوْد
  00:00



Download