READ

Surah Hud

هُوْد
123 Ayaat    مکیۃ


11:81
قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ یَّصِلُوْۤا اِلَیْكَ فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَ لَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَكَؕ-اِنَّهٗ مُصِیْبُهَا مَاۤ اَصَابَهُمْؕ-اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُؕ-اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ(۸۱)
فرشتے بولے اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں (ف۱۶۵) وہ تم تک نہیں پہنچ سکتے (ف۱۶۶) تو اپنے گھر والوں کو راتوں رات لے جاؤ اور تم میں کوئی پیٹھ پھیر کر نہ دیکھے (ف۱۶۷) سوائے تمہاری عورت کے اسے بھی وہی پہنچنا ہے جو انہیں پہنچے گا (ف۱۶۸) بیشک ان کا وعدہ صبح کے وقت کا ہے (ف۱۶۹) کیا صبح قریب نہیں،

11:82
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ ﳔ مَّنْضُوْدٍۙ(۸۲)
پھر جب ہمارا حکم آیا ہم نے اس بستی کے اوپر کو اس کا نیچا کردیا (ف۱۷۰) اور اس پر کنکر کے پتھر لگا تار برسائے،

{فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا:پھر جب ہمارا حکم آیا۔} جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنی بستی سے نکلے تو انہیں حکم دیا کہ پیچھے مڑ کر کوئی نہ دیکھے،سب نے اس بات پر عمل کیا لیکن آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بیوی نے جب سنا کہ اس کی قوم پر عذاب نازل ہونے والا ہے تو اس نے پیچھے مڑ کر چیخ کر کہا، ہائے میری قوم! تو اسے بھی ایک پتھر لگا اور وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہو گئی۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم پر عذاب اس طرح آیا  کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے قومِ لوط کے شہر جس طبقۂ زمین میں تھے اس کے نیچے اپنا بازو ڈالا اور ان پانچوں شہروں کو جن میں سب سے بڑا سدوم تھا اور ان میں چار لاکھ آدمی بستے تھے اتنا اونچا اٹھایا کہ وہاں کے کتوں اور مرغوں کی آوازیں آسمان پر پہنچنے لگیں اور اس آہستگی سے اٹھایا کہ کسی برتن کا پانی نہ گرا اور کوئی سونے والا بیدار نہ ہوا، پھر اس بلندی سے اس کو اوندھا کرکے پلٹ دیا اور جو لوگ اس وقت بستی میں موجود نہ تھے وہ جہاں کہیں سفر میں تھے وہیں انہیں لگاتار پتھر برسا کر ہلاک کر دیا گیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ بستیاں الٹنے کے بعد ان ہی پر لگاتار پتھر برسائے گئے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۲، ۲ / ۳۶۵)

11:83
مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَؕ-وَ مَا هِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ۠(۸۳)
جو نشان کیے ہوئے تیرے رب کے پاس ہیں (ف۱۷۱) اور وہ پتھر کچھ ظالموں سے دور نہیں (ف۱۷۲)

{مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ:جن پر تیرے رب کی طرف سے نشان لگے ہوئے تھے۔} ان پتھروں پر ایسا نشان تھا جس سے وہ دوسروں سے ممتاز تھے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ان پر سرخ خطوط تھے ۔حضرت حسن  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاور مفسر سدی کا قول ہے کہ ان پر مہریں لگی ہوئی تھیں اور ایک قول یہ ہے کہ جس پتھر سے جس شخص کی ہلاکت منظور تھی اس کا نام اس پتھر پر لکھا تھا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۳، ۲ / ۳۶۵)

{وَ مَا هِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ:اور وہ پتھر ظالموں سے کچھ دور نہیں۔} امام مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں کفارِ قریش کو ڈرایا گیا ہے، آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ پتھر آپ کی قوم کے ظالموں سے کچھ دور نہیں۔ حضرت قتادہ اور حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اس امت کے ظالموں سے وہ پتھر کچھ دور نہیں۔ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ کسی ظالم کو ان پتھروں سے نہیں بچائے گا۔ (قرطبی، ہود، تحت الآیۃ: ۸۳، ۵ / ۵۹، الجزء التاسع)  امام رازی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی ذکر کی ہے کہ وہ بستیاں جن میں یہ واقعہ رونما ہوا کفارِ مکہ سے دور نہیں کیونکہ وہ بستیاں ملک شام میں تھیں اور شام مکہ سے قریب ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۳، ۶ / ۳۸۴)

لواطت کی مذمت پر دو معروضات:

            اس رکوع میں چونکہ بدفعلی یعنی لواطت کا بیان ہوا ہے لہٰذا یہاں اس کی مذمت پر کچھ معروضات پیش کی جاتی ہیں۔

(1)…بد فعلی یعنی لواطت کبیرہ گناہوں میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ایسا شخص مستحقِ لعنت ہے اور بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی نظرِ رحمت سے محروم رہے گا ۔ چنانچہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکاقول ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

’’ اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَۙ (۱۶۵)وَ تَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ  ‘‘ (الشعراء :۱۶۵-۱۶۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان:کیاتم لوگوں میں سے مَردوں سے بدفعلی کرتے ہو۔اوراپنی بیویوں کو چھوڑتے ہو جو تمہارے لیے تمہارے رب نے بنائی ہیں بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو ۔

            اور حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر قومِ لوط کے سے عمل کا ہے ۔ (ترمذی، کتاب الحدود، باب ما جاء فی حدّ اللوطی، ۳ / ۱۳۸، الحدیث: ۱۴۶۲)

             حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (تین مرتبہ اس طرح) ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے جس نے قومِ لوط جیسا عمل کیا ، اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے جس نے قومِ لوط جیسا عمل کیا، اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے جس نے قومِ لوط جیسا عمل کیا۔ (سنن الکبری للنسائی، ابواب التعزیرات والشہود، من عمل عمل قوم لوط، ۴ / ۳۲۲، الحدیث: ۷۳۳۷)

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جسے تم قومِ لوط جیسا عمل کرتے پاؤ تو لواطت کرنے اور کروانے والے دونوں کو قتل کر دو۔ (ترمذی، کتاب الحدود، باب ما جاء فی حدّ اللوطی، ۳ / ۱۳۸، الحدیث: ۱۴۶۱)

            حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظررحمت نہیں فرماتا جو کسی مرد یا عورت کے پچھلے مقام میں وطی کرے ۔ (ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی کراہیۃ اتیان النساء فی ادبارہنّ، ۲ / ۳۸۸، الحدیث: ۱۱۶۸)

            حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ بد فعلی کا مرتکب اگر توبہ کیے بغیر مر جائے تو اسے قبر میں خنزیر کی شکل میں بدل دیا جاتا ہے۔ (کتاب الکبائر، الکبیرۃ الحادیۃ عشر: اللواط، ص۶۳)

(2)… شریعتِ مطہرہ میں لواطت یعنی بد فعلی  کی سزا یہ ہے اس کے اوپر دیوار گرادی جا ئے یا اونچی جگہ سے اُسے اوندھا کرکے گرایا جا ئے اور اُس پر پتھر برسائے جائیں یا اُسے قید میں رکھا جائے یہاں تک کہ مرجائے یا توبہ کرے یا چند بار ایسا کیا ہوتو بادشاہِ اسلام اُسے قتل کرڈالے۔ (در مختار مع رد المحتار، کتاب الحدود، باب الوطء الذی یوجب الحد والذی لا یوجبہ، ۶ / ۴۳-۴۴، ملخصاً)

اس مسئلے کوصدرُ الشریعہ بدر الطریقہ علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تفصیل سے اس طرح ذکر فرمایا: ’’اغلام یعنی پیچھے کے مقام میں وطی کی تو اس کی سزا یہ ہے اس کے اوپر دیوار گرادیں یا اونچی جگہ سے اُسے اوندھا کرکے گرائیں اور اُس پر پتھر برسائیں یا اُسے قید میں رکھیں یہاں تک کہ مرجائے یا توبہ کرے یا چند بار ایسا کیا ہوتو بادشاہِ اسلام اُسے قتل کرڈالے۔ الغرض یہ فعل نہایت خبیث ہے بلکہ زنا سے بھی بدتر ہے، اسی وجہ سے اس میں حد نہیں کہ بعضوں کے نزدیک حد قائم کرنے سے اُس گناہ سے پاک ہوجاتا ہے اور یہ اتنا برا ہے کہ جب تک توبہ خالصہ نہ ہو اس میں پاکی نہ ہوگی اور اغلام کو حلال جاننے والا کافر ہے یہی مذہبِ جمہور ہے۔ (بہار شریعت، حصہ نہم، حدود کابیان، کہاں حد واجب ہے اور کہاں نہیں، ۲ / ۳۸۰-۳۸۱)

          تنبیہ:یہ یاد رہے کہ سزاؤں کے نفاذ کا اختیار صرف حاکمِ اسلام کو ہے۔

11:84
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(۸۴)
اور (ف۱۷۳) مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو (ف۱۷۴) کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا کوئی معبود نہیں (ف۱۷۵) اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں (ف۱۷۶) اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کا عذاب کا ڈر ہے (ف۱۷۷)

{وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا۔} اس سورت میں ذکر کئے گئے واقعات میں سے یہ چھٹا واقعہ ہے، مدین حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ایک بیٹے کا نام ہے، بعد میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے قبیلے کا نام مدین پڑ گیا اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے مدین نے اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکویہ حکم دیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دعوت دیں ، اسی لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مدین والوں کو سب سے پہلے یہ فرمایا ’’اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاراا ور کوئی معبود نہیں۔ توحید کی دعوت دینے کے بعد انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جو کام زیادہ اہمیت کا حامل ہو پہلے اس کی دعوت دیں پھر ا س کے بعد جس کی اہمیت ہو اس کی دعوت دیں۔ کفر کے بعد چونکہ مدین والوں کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ وہ خریدو فروخت کے دوران ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جب کوئی شخص ان کے پاس اپنی چیز بیچنے آتا توان کی کوشش یہ ہوتی کہ وہ تول میں اس چیزکو جتنا زیادہ لے سکتے ہوں اتنا لے لیں اور جب وہ کسی کو اپنی چیز فروخت کرتے تو ناپ اور تول میں کمی کر جاتے، اس طرح وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مصروف تھے۔ اس لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں یہ بری عادت چھوڑنے کی دعوت دی اور فرمایا ’’ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔ اس کے بعد فرمایا ’’بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور ایسے حال میں تو آدمی کو چاہیے کہ وہ نعمت کی شکر گزاری کرے اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے حقوق میں کمی کرے، ایسی حالت میں اس عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں اس خوشحالی سے محروم نہ کردیئے جائو، اگر تم ناپ تول میں کمی سے باز نہ آئے توبیشک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے کہ جس سے کسی کو رہائی میسر نہ ہو اور سب کے سب ہلاک ہوجائیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دن کے عذاب سے عذابِ آخرت مراد ہو۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۴، ۶ / ۳۸۴، مدارک، ہود تحت الآیۃ: ۸۴، ص۵۰۸-۵۰۹، ملتقطاً)

          نوٹ:سورۂ اَعراف کی آیت نمبر 85 تا 93 میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قومِ مدین کے ساتھ معاملات کی بعض تفصیلات گزر چکی ہیں۔

 

11:85
وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۸۵)
اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو،

{بَقِیَّتُ اللّٰهِ:اللہ کا دیا ہوا جو بچ جائے۔}یعنی حرام مال ترک کرنے کے بعد جس قدر حلال مال بچے وہی تمہارے لئے بہتر ہے ۔ حضرتعبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اس کا معنی یہ ہے کہ پورا تولنے اور ناپنے کے بعد جو بچے وہ بہتر ہے۔ (مدارک، ہود تحت الآیۃ: ۸۶، ص۵۰۹، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۶، ۲ / ۳۶۶، ملتقطاً)ان کے علاوہ اور معنی بھی مفسرین نے بیان فرمائے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حلال میں برکت ہے اورحرام میں بے برکتی نیزحلال کی تھوڑی روزی حرام کی زیادہ روزی سے بہتر ہے۔

{وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ:اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں۔} یعنی  تم سے صادر ہونے والے ہر معاملے میں میرا تمہارے پاس موجود رہنا ممکن نہیں تاکہ میں ناپ تول میں کمی بیشی پر تمہارا مُؤاخذہ کر سکوں۔(قرطبی، ہود، تحت الآیۃ: ۸۶، ۵ / ۶۱، الجزء التاسع) علماء نے فرمایا ہے کہ بعض انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو جنگ کرنے کی اجازت تھی جیسے حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ بعض وہ تھے جنہیں جنگ کرنے کا حکم نہ تھا، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں میں سے ہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسارا دن وعظ فرماتے اور ساری رات نماز میں گزارتے تھے، قوم آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہتی کہ اس نماز سے آپ کو کیا فائدہ؟ تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامفرماتے ’’نماز خوبیوں کا حکم دیتی ہے اور برائیوں سے منع کرتی ہے تو اس پر وہ مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہتے جو اگلی آیت میں مذکور ہے۔(روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۸۷، ۴ / ۱۷۴)

11:86
بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(۸۶)
اللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو (ف۱۷۸) اور میں کچھ تم پر نگہبان نہیں (ف۱۷۹)

11:87
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُاؕ-اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ(۸۷)
بولے اے شعیب!کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں (ف۱۸۰) یا اپنے مال میں جو چا ہیں نہ کریں (ف۱۸۱) ہاں جی تمہیں بڑے عقلمند نیک چلن ہو،

{قَالُوْا یٰشُعَیْبُ:کہا: اے شعیب!} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے مدین والوں کو دو باتوں کا حکم دیا تھا۔ (1) اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کریں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کریں۔ (2) ناپ تول میں کمی نہ کریں۔ قوم نے ان دونوں باتوں کا جو جواب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیا اس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ پہلی بات کا انہوں نے یہ جواب دیا ’’اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ ‘‘ یعنی کیا ہم ان خداؤں کی عبادت کرنا چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں۔ مدین والوں کے اس جواب سے یہ ظاہر ہوا کہ ان کے پاس بت پرستی کرنے پر دلیل اپنے آباء و اَجداد کی اندھی تقلید تھی اسی لئے جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں بت پرستی چھوڑنے کا حکم دیا تو انہیں بہت عجیب لگا اور کہنے لگے کہ بتوں کی پوجا کرنے کے جس طریقے کو ہمارے پچھلے لوگوں نے اپنایا ہے ہم اسے کیسے چھوڑ دیں۔ دوسری بات کا مدین والوں نے یہ جواب دیا ’’ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا‘‘ یعنی کیا ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل نہ کریں۔ان کی اس بات کا  مطلب یہ تھا کہ ہم اپنے مال میں پورا اختیار رکھتے ہیں ، چاہے کم ناپیں چاہے کم تولیں۔آیت میں مذکور لفظ’’صَلَاۃْ‘‘ سے مراد یا تو دین و ایمان ہے یا ا س سے مراد نماز ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۷، ۶ / ۳۸۶-۳۸۷، ملخصاً)

{اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ:تم تو بڑے عقلمند، نیک چلن ہو۔} مدین والے اپنے گمان میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بے وقوف اور جاہل سمجھتے تھے ا س لئے طنز کے طور پر انہوں نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ تم تو بڑے عقلمند اور نیک چلن ہو۔ یہ جملہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کنجوس آدمی کو آتے دیکھ کر کہے ، جناب حاتم طائی تشریف لارہے ہیں۔امام رازی فرماتے ہیں کہ ا س آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم میں بڑے عقلمند اور نیک چلن آدمی کی حیثیت سے مشہور تھے لیکن جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی قوم کو ان میں نسل در نسل چلتے ہوئے بتوں کی پوجا کے جاہلانہ طریقے کو چھوڑنے کا حکم دیا تو انہوں نے حیران ہو کر کہا کہ آپ تو بڑے عقلمند اور نیک چلن ہیں ، پھر آپ ہمیں کیسے یہ حکم دے رہے ہیں کہ ہم اپنے نسل در نسل چلتے ہوئے بتوں کی پوجا کے طریقے کو چھوڑ دیں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۷، ۶ / ۳۸۷، ملخصاً)

11:88
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ رَزَقَنِیْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًاؕ-وَ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰى مَاۤ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُؕ-اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُؕ-وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ(۸۸)
کہا اے میری قوم بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں (ف۱۸۲) او راس نے مجھے اپنے پاس سے اچھی روزی دی (ف۱۸۳) اور میں نہیں چاہتا ہوں کہ جس بات سے تمہیں منع کرتا ہوں آپ اس کے خلاف کرنے لگوں (ف۱۸۴) میں تو جہاں تک بنے سنوارنا ہی چاہتا ہوں، اور میری توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع ہوتا ہوں،

{قَالَ یٰقَوْمِ:فرمایا: اے میری قوم!} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ان کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھے بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّکی طرف سے روشن دلیل یعنی علم ،ہدایت،دین اور نبوت سے سرفراز کیا گیا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے پاس سے بہت زیادہ حلال مال عطا فرمایا ہوا ہو تو پھر کیا میرے لئے یہ جائز ہے کہ میں ا س کی وحی میں خیانت کروں اور اس کا پیغام تم لوگوں تک نہ پہنچاؤں۔ یہ میرے لئے کس طرح روا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اتنی کثیر نعمتیں عطا فرمائے اور میں اس کے حکم کی خلاف ورزی کروں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۸، ۶ / ۳۸۷-۳۸۸)

{وَ مَاۤ اُرِیْدُ:اور میں نہیں چاہتا ہوں۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ قوم نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حلیم و رشید ہونے کا اعتراف کیا تھا اور ان کا یہ کلام طنز اور مذاق اڑانے کے طور پرنہ تھا بلکہ اس کلام سے مقصود یہ تھا آپ حلم اور کمالِ عقل کے باوجود ہم کو اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے سے کیوں منع فرماتے ہیں ؟اس کا جواب جو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تم میرے کمالِ عقل کا اعتراف کر رہے ہو تو تمہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ میں نے اپنے لئے جو بات پسند کی ہے وہ وہی ہوگی جو سب سے بہتر ہو اور وہ خدا تعالیٰ کی توحید اور ناپ تول میں خیانت نہ کرنا ہے اورمیں چونکہ اس کا پابندی سے عامل ہوں تو تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہی طریقہ بہتر ہے۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۸، ۶ / ۳۸۸)

{اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ:میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں۔} یعنی میرا تمہیں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے تمہاری اصلاح ہو جائے اور جب میں نے دیکھا کہ تم نے اپنے اعمال درست کر لئے ہیں تو میں تمہیں منع کرنا بھی چھوڑ دوں گا۔ ان تینوں جوابات میں اس بات کی تنبیہ کی گئی ہے کہ ہر عقلمند انسا ن کو چاہئے کہ وہ جو کام کر رہا ہے اور جس کام کو چھوڑ رہا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق، اپنی جان کے حقوق اور لوگوں کے حقوق کی رعایت کرے۔( بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۲۵۴)

{وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ:اور میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے۔} یعنی میں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا کیونکہ مجھے اسی پر اعتماد اور تمام کاموں میں اسی پربھروسہ ہے ، تمام نیک اعمال اور توبہ کرنے میں ،میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۸۸، ۷ / ۱۰۲) حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس کلام شریف میں اس جانب اشارہ ہے کہ کوئی شخص رب تعالیٰ کی دستگیری کے بغیر محض اپنی عقل سے ہدایت نہیں پاسکتا۔

11:89
وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ(۸۹)
اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کموادے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صا لح کی قوم پر، اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں (ف۱۸۵)

{وَ یٰقَوْمِ:اور اے میری قوم!} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے مزید فرمایا کہ اے میری قوم! مجھ سے تمہاری عداوت اور بغض، میرے دین کی مخالفت، تمہارے اللہ تعالیٰ سے کفر پر اِصرار کرنے اور بتوں کی پوجا کرنے پر قائم رہنے، لوگوں سے ناپ تول میں کمی کرنے کو نہ چھوڑنے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ سے اِعراض کرنے کی وجہ سے کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل نہ ہوجائے جیسا حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر یا حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم پر یا حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم پر یا حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم پر نازل ہوا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم کا زمانہ دوسروں کی بنسبت تم سے زیادہ قریب ہے لہٰذاان کے حالات سے عبرت حاصل کرو اور اس بات سے ڈرو کہ کہیں میری مخالفت کی وجہ سے تم بھی اسی طرح کے عذاب میں مبتلا نہ ہو جاؤ جس میں وہ لوگ مبتلا ہوئے۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۸۸، ۷ / ۱۰۲-۱۰۳)

11:90
وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ(۹۰)
اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ، بیشک میرا رب مہربان محبت والا ہے،

{وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ:اور اپنے رب سے معافی چاہو ۔} بہت سے پیغمبروں نے اپنی قوموں کو توبہ و اِستغفار کا حکم دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ بڑی اہم چیز ہے، یہ بھی خیال رہے کہ ہر گناہ کی توبہ علیحدہ ہے ، کفر کی توبہ ایمان لانا ہے، حقوق العباد کی توبہ انہیں ادا کردینا ہے اور عَلانیہ گناہ کی توبہ علانیہ ہے۔

 ’’وَدُوْدٌ ‘‘ کا معنی و مفہوم:

            یہ لفظ ’’وَدٌّ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے خالص محبت اور اللہ تعالیٰ پر اس اسم کا اِطلاق دو طرح سے ہوتا ہے (1) اللہ تعالیٰ محبت فرماتا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اطاعت گزار بندوں سے محبت فرماتا ہے کہ وہ ان کے اعمال سے راضی ہوتا ہے اور ان کی اطاعت گزاری کے بدلے ان پر لطف و احسان فرماتا ہے اور اطاعت گزاری کی وجہ سے ان کی تعریف بھی کرتا ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ محبوب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے نیک اور صالح بندے اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کی کثرت کی وجہ سے اس سے محبت کرتے ہیں۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۳۶۸)

11:91
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًاۚ-وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ٘-وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ(۹۱)
بولے اے شعیب! ہماری سمجھ میں نہیں آتیں تمہاری بہت سی باتیں اور بیشک ہم تمہیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں (ف۱۸۶) اور اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا (ف۱۸۷) تو ہم نے تمہیں پتھراؤ کردیا ہوتا اور کچھ ہماری نگاہ میں تمہیں عزت نہیں،

{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے مدین والوں کو سمجھانے کیلئے زیادہ گفتگو فرمائی تو انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرنے ، صرف اسی کی عبادت کرنے اور ناپ تول میں کمی حرام ہونے کی جو باتیں کر رہے ہیں اور ان باتوں پر جو دلائل دے رہے ہیں یہ ہماری سمجھ میں نہیں آتے نیز بیشک ہم تمہیں اپنے درمیان کمزور دیکھتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ساتھ کچھ زیادتی و ظلم کریں تو آپ میں دفاع کرنے کی طاقت نہیں۔ اگر آپ کا قبیلہ ہمارے دین پر ہونے کی وجہ سے ہم میں عزت دار نہ ہوتا تو ہم پتھر مار مار کر آپ کو قتل کر دیتے اور تم ہمارے نزدیک کوئی معزز آدمی نہیں ہو۔ (بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۲۵۶-۲۵۷)

            ہمارے زمانے کے وہ لوگ جنہیں اسلام کے اَحکام پر کوفت ہوتی ہے کہ کسی کو سود کی حرمت ہضم نہیں ہوتی اور کسی کو پردے کی پابندی وبالِ جان لگتی ہے اور کسی کو حقوق اللہ کی ادائیگی اور عبادات کی پابندی پر مذاق سوجھتا ہے، ایسے لوگوں کو اپنے اَقوال و اَفعال کوقومِ شعیب کے بیان کردہ جملوں کے ساتھ ملا کر دیکھ لینا چاہیے کہ کیا یہ اسی کافر قوم کے نقشِ قدم پر نہیں چل رہے۔

11:92
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَهْطِیْۤ اَعَزُّ عَلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اتَّخَذْتُمُوْهُ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِیًّاؕ-اِنَّ رَبِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ(۹۲)
کہا اے میری قوم کیا تم پر میرے کنبہ کا دباؤ اللہ سے زیادہ ہے (ف۱۸۸) اور اسے تم نے اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال رکھا (ف۱۸۹) بیشک جو کچھ تم کرتے ہو سب میرے رب کے بس میں ہے،

{قَالَ:فرمایا۔} جب مدین والوں نے حضرت شعیبعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کر دینے اور اذیت پہنچانے سے ڈرایا اور کہا کہ ہم صرف آپ کے قبیلے کی وجہ سے آپ کو کچھ نہیں کہہ رہے توآپ نے انہیں جواب دیا ’’اے میری قوم! کیا تم پر میرے قبیلے کا دباؤ اللہ تعالیٰ سے ز یادہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے تو تم میرے قتل سے باز نہ رہے جبکہ میرے قبیلے کی وجہ سے باز رہے اور تم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی کا تو احترام نہ کیا جبکہ قبیلے کا احترام کیا۔ تم نے اللہ عَزَّوَجَلَّکے حکم کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال رکھا ہے اور اس کے حکم کی تمہیں کوئی پرواہ نہیں۔ تم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو تو ایسے چھوڑ رکھا ہے جیسے وہ توجہ کے قابل ہی نہیں ،بے شک میرا ربعَزَّوَجَلَّ تمہارے سب حالات جانتا ہے، اس پر تمہاری کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں اور وہ قیامت کے دن تمہیں تمہارے عملوں کی جز ادے گا۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹۲، ۶ / ۳۹۲، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۹۲، ۲ / ۳۶۸، ملتقطاً)

11:93
وَ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌؕ-سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ مَنْ هُوَ كَاذِبٌؕ-وَ ارْتَقِبُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ رَقِیْبٌ(۹۳)
اور اے قوم تم اپنی جگہ اپنا کام کیے جا ؤ میں اپنا کام کرتا ہوں، اب جاننا چاہتے ہو کس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے گا اور کون جھوٹا ہے، (ف۱۹۰) اور انتظار کرو (ف۱۹۱) میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں،

{وَ یٰقَوْمِ:اور اے میری قوم!} یعنی جو برے اعمال کرنا اور مجھے شر پہنچانا تمہارے بس میں ہے تم وہ کرتے جاؤ اور جن اعمال کی اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا کی ہے میں وہ کرتا رہتاہوں ، عنقریب تم جان جاؤ گے کہ رسوا کردینے والا عذاب کس پر آتا ہے اور اپنے دعووں میں کون جھوٹا ہے؟ اورتمہیں جلد معلوم ہوجائے گا کہ میں حق پر ہوں یا تم؟ اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے شقی کی شقاوت ظاہر ہوجائے گی،بس تم اپنے انجام کا انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹۳، ۶ / ۳۹۲، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۵۱۱، ملتقطاً)

11:94
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ(۹۴)
اور جب (ف۱۹۲) ہمارا حکم آیا ہم نے شعیب اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو اپنی رحمت فرماکر بچالیا اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا (ف۱۹۳) تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے،

{وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا:اور جب ہمارا حکم آیا۔} یعنی جب مدین والوں پر عذاب نازل کرنے اور انہیں ہلاک کر دینے کا ہمارا حکم آیا تو ہم نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں کو محض اپنی رحمت اور فضل کی وجہ سے اس عذاب سے بچا لیا۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کو جو بھی نعمت ملتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ملتی ہے۔ آیت میں مذکور رحمت سے ایمان اور تمام نیک اَعمال بھی مراد ہو سکتے ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے نصیب ہوتے ہیں۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹۴، ۶ / ۳۹۲)

{وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ: اور ظالموں کو خوفناک چیخ نے پکڑ لیا۔} اس میں مدین والوں پر نازل ہونے والے عذاب کی کیفیت کا بیان ہے۔ یاد رہے کہ قرآنِ مجید میں مدین والوں پر آنے والے عذاب کی کیفیت دو طرح سے بیان کی گئی ہے ۔ سورۂ اَعراف میں یہ کیفیت اس طرح بیان ہوئی

’’فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ‘‘ (اعراف:۹۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان:تو انہیں شدید زلز لے نے اپنی گرفت میں لے لیا تو صبح کے وقت وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

             اور اس آیت میں اس طرح بیان ہوئی کہ ’’ ظالموں کو خوفناک چیخ نے پکڑ لیا تو وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔‘‘ ان دونوں کیفیتوں کے بارے میں تفسیر ابوسعود میں ہے ’’ ممکن ہے کہ زلزلے کی ابتدا اس چیخ سے ہوئی ہو، اس لئے کسی جگہ جیسے سورہ ٔہود میں ہلاکت کی نسبت سببِ قریب یعنی خوفناک چیخ کی طرف کی گئی اور دوسری جگہ جیسے (سورۂ اعراف کی) اس آیت میں سببِ بعید یعنی زلزلے کی طرف کی گئی۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۱، ۲ / ۲۷۶)

{اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ:خبردار! مدین والے دور ہوں جیسے قومِ ثمود دور ہوئی۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مدین والوں پر نازل ہونے والے عذاب کو قومِ ثمود کے عذاب سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مدین والوں کو بھی اسی طرح کے عذاب سے ہلاک کر دیا گیا جس طرح کے عذاب سے قومِ ثمود کو ہلاک کیا گیا۔

11:95
كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاؕ-اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ۠(۹۵)
گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے، ارے دُور ہوں مدین جیسے دور ہوئے ثمود (ف۱۹۴)

11:96
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍۙ(۹۶)
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی آیتوں (ف۱۹۵) اور صریح غلبے کے ساتھ،

{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى:اور بیشک ہم نے موسیٰ کو بھیجا۔} اس سورت میں ذکر کئے گئے واقعات میں سے یہ ساتواں اور آخری واقعہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں مذکور آیات سے مراد تورات اور اس کے تمام مسائل و اَحکام ہیں اور’’سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ‘‘ سے مراد معجزات ہیں اور آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مسائل و احکام کے ساتھ بھیجا اور روشن معجزات کے ذریعے ان کی تائید کی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آیات سے مراد معجزات ہیں اور آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معجزات کے ساتھ بھیجا، ان میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کی صداقت کے لئے روشن دلیل ہے۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹۶، ۶ / ۳۹۳)

          نوٹ: حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرعون کے واقعات اس سے پہلے سورۂ بقرہ، سورۂ اَعراف اور سورۂ یونس کی متعدد آیات میں گزر چکے ہیں۔

{اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ:فرعون اور ا س کے درباریوں کی طرف۔} یعنی ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو درباریوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے معجزات کا انکار کرنے میں فرعون کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا کام بالکل درست نہ تھا ،وہ کھلی گمراہی میں مبتلا تھا کیونکہ فرعون بشر ہونے کے باوجود خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور عَلانیہ ایسے ظلم اور ایسی ستم گاریاں کرتا تھا کہ جس کا شیطانی کام ہونا ظاہر اور یقینی ہے ،وہ کہاں اور خدائی کہاں ، جبکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ ہدایت اور سچائی تھی، آپ کی سچائی کی دلیلیں یعنی واضح آیات اور روشن معجزات وہ لوگ دیکھ چکے تھے، پھر بھی انہوں نے آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کرنے سے منہ پھیرا اور فرعون جیسے گمراہ شخص کی پیروی کی۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹۷، ۶ / ۳۹۴، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۵۱۲)

11:97
اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ فَاتَّبَعُوْۤا اَمْرَ فِرْعَوْنَۚ-وَ مَاۤ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ(۹۷)
فرعون اور ا س کے درباریوں کی طرف بھیجا تو وہ فرعون کے کہنے پر چلے (ف۱۹۶) اور فرعون کا کام راستی کا نہ تھا (ف۱۹۷)

11:98
یَقْدُمُ قَوْمَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَؕ-وَ بِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ(۹۸)
اپنی قوم کے آگے ہوگا قیامت کے دن تو انہیں دوزخ میں لا اتارے گا (ف۱۹۸) اور و ه کیا ہی برا گھاٹ اترنے کا،

{یَقْدُمُ قَوْمَهٗ:اپنی قوم کے آگے ہوگا۔}  یعنی جس طرح فرعون دنیا میں اپنی قوم کے آگے تھا اور انہیں دریائے نیل میں لا ڈالا اسی طرح قیامت کے دن فرعون اپنی قوم کے آگے ہوگا پھر انہیں دوزخ میں لا اتارے گا اور وہ جہنم میں اپنی قوم کا امام ہو گا، خلاصہ یہ ہے  کہ جس طرح دنیا میں فرعون  کفر اور گمراہی میں اپنی قوم کا پیشوا تھا ایسے ہی جہنم میں بھی ان کا پیشوا اور امام ہوگا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۹۸، ۲ / ۳۶۹)

{وَ اُتْبِعُوْا:اور ان کے پیچھے لگادی گئی۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتوں کی لعنت دنیا و آخرت دونوں جگہ فرعونیوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے اورکبھی ان سے جدا نہ ہو گی۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹۹، ۶ / ۳۹۴) دنیا میں قیامت تک ہر آنے والی نسل انہیں برائی سے یاد کرے گی، اور آخرت میں تمام اوّلین و آخرین ان پر لعنت کریں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی رسوائی اور نیک لوگوں کا ہمیشہ کسی پر لعنت کرنا خدا کا عذاب ہے جبکہ ذکرِ خیر اور اچھا چرچا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہے۔

11:99
وَ اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهٖ لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُوْدُ(۹۹)
اور ان کے پیچھے پڑی اس جہان میں لعنت اور قیامت کے دن (ف۱۹۹)کیا ہی برا انعام جو انہیں ملا،

11:100
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْقُرٰى نَقُصُّهٗ عَلَیْكَ مِنْهَا قَآىٕمٌ وَّ حَصِیْدٌ(۱۰۰)
یہ بستیوں (ف۲۰۰) کی خبریں ہیں کہ ہم تمہیں سناتے ہیں (ف۲۰۱) ان میں کوئی کھڑی ہے (ف۲۰۲) اور کوئی کٹ گئی (ف۲۰۳)

{ذٰلِكَ:یہ۔} یعنی یہ گزری ہوئی امتوں کی خبریں ہیں  جو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم تمہیں ا س لئے سناتے ہیں  کہ تم اپنی امت کو ان کی خبریں دو تاکہ وہ ان سے عبرت حاصل کریں اور وہ اپنے کفر سے باز آ جائیں یا پھر ان پر بھی ویسا ہی عذاب نازل ہو جائے جیسا ان سابقہ قوموں پر نازل ہوا۔ جن قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا ان کی حالت کھیتیوں کی طرح ہے کہ  ان میں سے کوئی تو ابھی قائم ہے یعنی اس کے مکانوں کی دیواریں موجود ہیں ،کھنڈر پائے جاتے ہیں اور ان کے نشان ابھی باقی ہیں جیسے کہ عادو ثمود کے شہرا ور کوئی روئے زمین سے کاٹ دی گئی ہے یعنی کٹی ہوئی کھیتی کی طرح بالکل بے نام و نشان ہوگئی اور اس کا کوئی اثر باقی نہ رہا جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم کے شہر۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۳۷۰، روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۴ / ۱۸۴، ملتقطاً)

11:101
وَ مَا ظَلَمْنٰهُمْ وَ لٰكِنْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَمَاۤ اَغْنَتْ عَنْهُمْ اٰلِهَتُهُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَؕ-وَ مَا زَادُوْهُمْ غَیْرَ تَتْبِیْبٍ(۱۰۱)
اور ہم نے ان پر ظلم نہ کیا خود انہوں نے (ف۲۰۴) اپنا برا کیا تو ان کے معبود جنہیں (ف۲۰۵) اللہ کے سوا پوجتے تھے ان کے کچھ کام نہ آئے (ف۲۰۶) جب تمہارے رب کا حکم آیا اور ان (ف۲۰۷) سے انہیں ہلاک کے سوا کچھ نہ بڑھا،

{وَ مَا ظَلَمْنٰهُمْ:اور ہم نے ان پر ظلم نہ کیا ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے انہیں عذاب اور ہلاکت میں مبتلا کر کے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ کفر اور گناہوں کا اِرتکاب کر کے انہوں نے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہو تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ظلم نہیں بلکہ عدل اور انصاف ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے قوم کفر اور گناہوں میں مبتلاہو کر اپنی جانوں پر ظلم کرتی ہے پھر ان برے اَعمال کی وجہ سے اپنے اوپر اس عذاب کو لازم کر لیتی ہے ۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۳۹۶)

{وَ مَا زَادُوْهُمْ غَیْرَ تَتْبِیْبٍ:اور انہوں نے ان کے نقصان میں ہی اضافہ کیا۔} بتوں کے بارے میں کفار کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ بت نفع پہنچانے میں اور نقصان دور کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ جب کافروں کو مدد کی ضرورت ہو گی تو اس وقت یہ بت نہ تو انہیں کوئی فائدہ پہنچا سکیں گے اور نہ کوئی مصیبت ان سے دور کر سکیں گے،چنانچہ جب وہ اپنے عقیدے کوحقیقت کے خلاف پائیں گے تو اس وقت ان کا یہ عقیدہ ختم ہو جائے گا لیکن تب اس عقیدے کو چھوڑنے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا ،یوں دنیا اور آخرت دونوں ہی جگہ وہ خسارے کا شکار ہوں گے۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۳۹۶)

11:102
وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ(۱۰۲)
اور ایسی ہی پکڑ ہے تیرے رب کی جب بستیوں کو پکڑتا ہے ان کے ظلم پر، بیشک اس کی پکڑ دردناک کرّ ی ہے (ف۲۰۸)

{وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ:اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو خبر دی کہ گزشتہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امتوں نے جب اپنے رسولوں کی نافرمانی کی تو ان پر اللہ تعالیٰ کا ایسا عذاب نازل ہوا جس نے انہیں جڑسے اکھاڑ کررکھ دیا اور چونکہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اس لئے دنیا میں ہی ان پر عذاب آیا اور اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ وہ عذاب گزشتہ قوموں کے ساتھ ہی خاص نہیں تھا بلکہ اب بھی جو کوئی ان کی طرح ظلم کرے گا تو اس پر بھی ویسا ہی عذاب نازل ہو گا۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۶ / ۳۹۶)

ظالموں کو نصیحت:

            علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہر ظلم کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ اپنے ظلم سے توبہ کرے اور ظلم کرنا چھوڑ دے نیز جس کا جو حق مارا ہووہ اسے لوٹا دے تاکہ وہ اس عظیم وعید میں داخل نہ ہو کیونکہ یہ آیت گزشتہ امتوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر ظالم کو عام ہے، البتہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وجہ سے ایسا عذاب نازل نہ ہو گا کہ جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو جڑسے اکھاڑ کر رکھ دے۔( صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۳ / ۹۳۱)

{اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ:بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے ۔} حضرت ابو موسیٰ اشعری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اور جب اس کی پکڑ فرما لیتا ہے تو پھر اسے مہلت نہیں دیتا۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے یہ آیت تلاوت فرمائی

’’وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے ۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب وکذلک اخذ ربّک اذا اخذ القری۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۷، الحدیث:  ۴۶۸۶)

11:103
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِؕ-ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌۙ-لَّهُ النَّاسُ وَ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ(۱۰۳)
بیشک اس میں نشانی (ف۲۰۹) ہے اس کے لیے جو آخرت کے عذاب سے ڈرے وہ دن ہے جس میں سب لوگ (ف۲۰۱) اکٹھے ہوں گے اور وہ دن حاضری کا ہے (ف۲۱۱)

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً:بیشک اس میں نشانی ہے۔} یعنی گزشتہ امتوں کے عذابات اور ان کی ہلاکت کا جو ذکر ہوا اس میں عبرت اور نصیحت ہے اور ان کی ہلاکت و بربادی سے عبرت اور نصیحت وہی حاصل کرے گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرے اور قیامت کے دن ا س کے عذاب سے خوفزدہ ہو کیونکہ جب وہ اس بات میں غورو فکر کرے گا کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں کے کفار پر دنیا میں ہی دردناک عذاب نازل فرمایا اور انہیں بڑی سخت سزا دی اور دنیا کا عذاب گویا کہ آخرت میں کفار کیلئے تیار کئے گئے عذاب کا ایک نمونہ ہے تو اس کے دل میں مزید اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف پیدا ہو گا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۳۷۰)

{ذٰلِكَ یَوْمٌ: وہ ایسا دن ہے۔} یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو ان کی قبروں سے اٹھائے گا اور حشر کے میدان میں سب کو حساب و کتاب، ثواب اور عذاب کیلئے جمع فرمائے گا اورا س دن ہر مخلوق حاضر ہوگی، ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہ سکے گا، اس دن اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو سزا دے گا جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی،اس کے حکم کی مخالفت کی اور اس کے رسولوں کی تکذیب کی ہوگی۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۷ / ۱۱۲)

11:104
وَ مَا نُؤَخِّرُهٗۤ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍؕ(۱۰۴)
اور ہم اسے (ف۲۱۲) پیچھے نہیں ہٹاتے مگر ایک گنی ہوئی مدت کے لیئے (ف۲۱۳)

{وَ مَا نُؤَخِّرُهٗ:اور ہم اسے پیچھے نہیں ہٹاتے ۔} یعنی ہم قیامت کے دن کو اس لئے مؤخر کر رہے ہیں تا کہ وہ مدت پوری ہو جائے جو ہم نے دنیا باقی رہنے کے لئے مقرر فرمائی ہے۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ص۵۱۳)

{یَوْمَ یَاْتِ:جب وہ دن آئے گا۔} یعنی جب قیامت کا دن آئے گا توہر مخلوق خاموش ہوگی، اس دن کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کلام نہ کر سکے گا۔ یاد رہے کہ قیامت کا دن بہت طویل ہوگا اوراس میں مختلف حالات ہوں گے بعض حالات میں تو ہیبت کی شدت کی وجہ سے کسی کو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بات زبان پر لانے کی قدرت نہ ہوگی اور بعض حالات میں اجازت دی جائے گی کہ لوگ اجازت سے کلام کریں گے اور بعض حالات میں گھبراہٹ ا ور دہشت کم ہوگی تو اُس و قت لوگ اپنے معاملات میں جھگڑیں گے اور اپنے مقدمات پیش کریں گے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۲ / ۳۷۱، ملخصاً)

{فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَّ سَعِیْدٌ:تو ان میں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی خوش نصیب ہوگا۔} قیامت کے دن لوگ دو طرح کے ہوں  گے (1) بدبخت۔ یہ وہ لوگ ہوں کے جن پر وعید کے مطابق جہنم واجب ہو گی۔ (2) خوش نصیب۔ یہ وہ لوگ ہوں  گے جن کے لئے وعدے کے مطابق جنت واجب ہو گی۔ (روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۴ / ۱۸۷، ملخصاً)

سعادت اور بدبختی کی علامات:

دنیا میں بھی سعادت اور بد بختی کی کئی علامات علماء نے بیان فرمائی ہیں ، ان میں سے  سعادت کی پانچ علامتیں یہ ہیں (1) دل کی نرمی۔ (2) کثرت سے آنسو بہانا۔ (3) دنیا سے نفرت۔ (4) امیدوں کا چھوٹا ہونا۔ (5) حیا۔ اور بدبختی کی پانچ علامتیں یہ ہیں۔(1) دل کی سختی۔ (2) آنکھ کی خشکی یعنی آنسونہ بہانا۔ (3) دنیا کی رغبت۔ (4) لمبی امیدیں۔ (5) بے حیائی۔(روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۴ / ۱۸۷، ملخصاً)ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی حالت پر غور کرے ،اگر اسے اپنے اندر سعادت کی علامات نظر آئیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ان پر قائم رہنے کی بھرپور کوشش کرے اور اگر بدبختی کی علامات نظر آئیں تو اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرے اور ان علامات کو ختم کرنے کی پوری کوشش کرے۔

11:105
یَوْمَ یَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖۚ-فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَّ سَعِیْدٌ(۱۰۵)
جب وہ دن آئے گا کوئی بے حکم خدا بات نہ کرے گا (ف۲۱۴) تو ان میں کوئی بدبخت ہے اور کوئی خوش نصیب (ف۲۱۵)

11:106
فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ شَهِیْقٌۙ(۱۰۶)
تو وہ جو بدبخت ہیں وہ تو دوزخ میں ہیں وہ اس گدھے کی طرح رینکیں گے

{فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا:تو جو بدبخت ہوں گے۔} یعنی جن پر بدبختی غالب آ گئی اور ان کے لئے جہنم کا فیصلہ کر دیا گیا تو وہ جہنم میں رہیں گے اور جہنم میں ان کا حال یہ ہو گا کہ وہ گدھے کی طرح چلائیں گے۔(روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۴ / ۱۸۸)

{خٰلِدِیْنَ فِیْهَا:وہ اس میں رہیں گے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے جہنم میں قیام کو زمین و آسمان کے قائم رہنے کی مدت پر معلق کیا، لیکن ا س کا یہ مطلب نہیں کہ جس طرح زمین و آسمان کا قائم رہنا ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ وقتی اور عارضی ہے اسی طرح کفار کا جہنم میں رہنا بھی ہمیشہ کے لئے نہ ہو گا کیونکہ قرآنِ پاک کی دیگر کئی آیات سے کفار و مشرکین کی مغفرت نہ ہونا اور ان کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہنا ثابت ہے ،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

’’اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ‘‘(النسا :۴۸)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہتا ہے معاف فرمادیتا ہے۔

اور ارشاد فرمایا

’’اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَۙ(۱۶۱) خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ‘‘(البقرہ: ۱۶۱،  ۱۶۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور کافر ہی مرے ان پراللہ اور فرشتوں او ر انسانوں کی ،سب کی لعنت ہے۔ وہ ہمیشہ اس (لعنت) میں رہیں گے، ان پر سے عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔

           ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ‘‘ (اعراف:۴۰)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے مقابلے میں تکبر کیا توان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے حتّٰی کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہو جائے اور ہم مجرموں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔

            سورہ ٔنساء میں ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَارًاؕ-كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِیْزًا حَكِیْمًا‘‘(النساء:۵۶)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا عنقریب ہم ان کو آگ میں داخل کریں گے ۔جب کبھی ان کی کھالیں خوب جل جائیں گی توہم ان کی کھالوں کو دوسری کھالوں سے بدل دیں گے کہ عذاب کا مزہ چکھ لیں۔ بیشک اللہ زبردست ہے ،حکمت والا ہے۔

اسی وجہ سے مفسرین نے اس آیت کی کئی تاویلات بیان کی ہیں ،ان میں سے چند یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔

پہلی تاویل: اس آیت میں زمین و آسمان سے دنیا کے زمین و آسمان نہیں بلکہ جنت و دوزخ کے زمین و آسمان مراد ہیں ، جنت میں زمین کے وجود پر دلیل یہ آیت ہے

’’وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ نَشَآءُ‘‘(الزمر:۷۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہمیں (جنت کی) زمین کا وارث کیا ، ہم جنت میں جہاں چاہیں رہیں گے۔

اور آخرت کے زمین و آسمان کے دنیوی زمین وآسمان سے مختلف ہونے پر دلیل یہ آیت ہے ۔

’’ یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ‘‘(ابراہیم:۴۸)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: یاد کرو جس دن زمین کو دوسری زمین سے اور آسمانوں کو بدل دیا جائے گا۔

نیز جنت و دوزخ چونکہ فضا یا خلا میں نہیں ہیں اس لئے جنت و دوزخ والوں کے لئے کسی ایسی چیز کا ہونا ضروری ہے جس پر وہ بیٹھے یا ٹھہرے ہوئے ہوں اور ان کے لئے کوئی سائبان ہو جس کے سائے میں وہ لوگ ہوں اور وہ چیز زمین و آسمان ہیں۔ جب نقلی اور عقلی دونوں اعتبار سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جنت و دوزخ کے زمین و آسمان ہیں اور وہ اس دنیا کے زمین و آسمان سے مختلف ہیں تو جس طرح جنت و دوزخ ہمیشہ رہیں گے اسی طرح ان کے زمین و آسمان بھی ہمیشہ رہیں گے لہٰذا جنت میں رہنے والے مسلمان اور دوزخ میں رہنے والے کافر بھی ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

دوسری تاویل: اگر اس آیت سے جنت و دوزخ کے زمین و آسمان مراد نہ بھی ہوں تب بھی یہ آیت دوزخیوں کے ہمیشہ جہنم میں رہنے کے منافی نہیں کیونکہ عربوں کا یہ طریقہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا دوام یعنی ہمیشگی بیان کرنے کا ارادہ کریں تو یوں کہتے ہیں ’’جب تک آسمان اور زمین قائم رہیں گے تو فلاں چیز رہے گی۔ اور قرآنِ پاک چونکہ عربوں کے اسلوب کے موافق نازل ہواہے اس لئے ’’جب تک زمین و آسمان رہیں گے ‘‘سے مراد دائمی طور پر اور ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔( تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۶ / ۴۰۱، ملخصاً)

{اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ:مگر جو تمہارا رب چاہے۔} چونکہ قرآنِ پاک کی کئی آیات سے کفار کا جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ثابت ہوتا ہے ا س لئے مفسرین نے اس اِستثناء کی مختلف تَوجیہات بیان کی ہیں ،ان میں سے چند یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔

پہلی توجیہ: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور امام ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اس استثناء میں وہ مسلمان داخل ہیں جنہیں کبیرہ گناہوں کی وجہ سے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گاانہیں جہنم میں رکھے گا پھر انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل فرما دے گا۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲/۳۷۱-۳۷۲، ملخصاً) اس توجیہ کے درست ہونے پر یہ حدیث پاک بھی دلالت کرتی ہے ، چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اہلِ جنت میں سے جسے چاہے گا اپنی رحمت کے صدقے جنت میں داخل کر دے گا اور اہلِ جہنم میں سے جسے چاہے گا جہنم میں داخل کر دے گا ، پھر فرمائے گا: دیکھو جس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لو، چنانچہ وہ لوگ جہنم سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ ان کا جسم جل کر کوئلہ ہو چکا ہو گا پھر انہیں آبِ حیات کی نہر میں ڈال دیا جائے گا اور وہ اس نہر میں سے اس طرح ترو تازہ ہو کر نکلنا شروع ہوں گے جیسے دانہ پانی کے بہاؤ والی مٹی میں سے زردی مائل ہو کر اُگ پڑتا ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب اثبات الشفاعۃ واخراج الموحدین من النار، ص۱۱۵، الحدیث: ۳۰۴(۱۸۴))

دوسری توجیہ: اہلِ جہنم ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہیں گے سوائے ان اَوقات کے جب وہ دنیا میں تھے یا برزخ میں تھے یا حشر کے میدان میں حساب کتاب کے لئے کھڑے ہوئے تھے، خلاصہ یہ ہے کہ ان تین اوقات میں انہیں جہنم کا عذاب نہ ہو گا۔

تیسری توجیہ:جہنم میں آگ کا عذاب بھی ہو گا اور زَمہریر کا بھی جس میں بہت سخت ٹھنڈک ہو گی اور اس آیت سے مراد یہ ہے کہ جہنمی ہمیشہ کیلئے آگ کے عذاب میں رہیں گے لیکن جس وقت اللہ تعالیٰ چاہے گا انہیں آگ کے عذاب سے نکال کر ٹھنڈک کے عذاب میں ڈال دے گا۔(تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۶ / ۴۰۲-۴۰۳)

{اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ:مگر جو تمہارا رب چاہے۔} اس استثناء میں وہ اہلِ جنت داخل ہیں جو اپنے گناہوں کی وجہ سے کچھ عرصہ جہنم میں رہیں گے پھر انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا کیونکہ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو جنت میں داخل ہو گا وہ ا س سے کبھی نہیں نکلے گا۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۳۷۲) یعنی اس استثناء سے مراد جہنم میں رہنے والا عرصہ ہے۔

11:107
خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَؕ-اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ(۱۰۷)
وہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین رہیں مگر جتنا تمہارے رب نے چاہا (ف۲۱۶) بیشک تمہارا رب جب جو چاہے کرے،

11:108
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَؕ-عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ(۱۰۸)
اور وہ جو خوش نصیب ہوئے وہ جنت میں ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین مگر جتنا تمہارے رب نے چاہا (ف۲۱۷) یہ بخشش ہے کبھی ختم نہ ہوگی،

11:109
فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّمَّا یَعْبُدُ هٰۤؤُلَآءِؕ-مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا كَمَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُهُمْ مِّنْ قَبْلُؕ-وَ اِنَّا لَمُوَفُّوْهُمْ نَصِیْبَهُمْ غَیْرَ مَنْقُوْصٍ۠(۱۰۹)
تو اے سننے والے! دھوکا میں نہ پڑ اس سے جیسے یہ کافر پوجتے ہیں (ف۲۱۸) یہ ویسا ہی پوجتے ہیں جیسا پہلے ان کے باپ دادا پوجتے تھے (ف۲۱۹) اور بیشک ہم ان کا حصہ انہیں پورا پھیردیں گے جس میں کمی نہ ہوگی،

{فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ:تو اے سننے والے!تم شک میں نہ پڑنا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے سننے والے! ان مشرکین کی بتوں کی عبادت اور ان کے برے انجام کے حوالے سے کسی شک میں نہ پڑنا۔ بے شک یہ بھی اس بت پرستی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوں گے جیسا کہ پہلی امتیں عذاب میں مبتلا ہوئیں۔ جن مشرکین کے واقعات تمہارے سامنے بیان ہوئے جس طرح وہ بتوں کی عبادت کرتے تھے اسی طرح یہ بھی بتوں کی عبادت کر رہے ہیں اور تمہیں معلوم ہوچکا کہ ان لوگوں کا کیا انجام ہوا اور عنقریب انہیں بھی ان کے جیسے انجام کا سامنا ہو گا  اور بیشک ہم انہیں ان کے عذاب کا پورا پوراحصہ دیں گے جس میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔(تفسیر ابو سعود، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۷۰، صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۹۳۴، ملتقطاً)

          دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ہر اس شخص سے فرما دیں جسے ان بتوں کی عبادت کرنے والوں کے بارے میں یہ شک ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بت پرستی کا حکم دیا ہے،اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر گز بت پرستی کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ جس طرح ان کے باپ دادا بتوں کی پوجا کرتے رہے ہیں اسی طرح یہ لوگ بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے بتوں کی پوجا کر رہے ہیں ، بے شک ہم انہیں ان کے عذاب کا پورا پورا حصہ دیں گے جس میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ (قرطبی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۵ / ۷۲، الجزء التاسع)

11:110
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْهِؕ-وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْؕ-وَ اِنَّهُمْ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیْبٍ(۱۱۰)
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی (ف۲۲۰) تو اس میں پھوٹ پڑگئی (ف۲۲۱) اگر تمہارے رب کی ایک بات (ف۲۲۲) پہلے نہ ہوچکی ہوتی تو جبھی ان کا فیصلہ کردیا جاتا (ف۲۲۳) اور بیشک وہ اس کی طرف سے (ف۲۲۴) دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں (ف۲۲۵)

{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ:اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،جس طرح آپ کی قوم نے قرآن کے ساتھ کیا کہ بعض اس پر ایمان لائے اور بعض نے اس کا انکار کیا اسی طرح حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے ان پر ہماری نازل کردہ کتاب تورات کے ساتھ کیا تھا کہ ان میں سے بعض نے تورات کی تصدیق کی اور بعض نے کفر کیا۔اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،یہ اپنے کفر اور تکذیب کی بنا پر دنیا میں ہی جس عذاب کے جلدی حقدار تھے وہ عذاب اگر آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن تک کیلئے ان سے مؤخر نہ فرما چکا ہوتا تو دنیا میں ہی ان کی ہلاکت کا فیصلہ کر دیاجاتا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۲ / ۳۷۳)

11:111
وَ اِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّهُمْ رَبُّكَ اَعْمَالَهُمْؕ-اِنَّهٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۱۱۱)
اور بیشک جتنے ہیں (ف۲۲۶) ایک ایک کو تمہارا رب اس کا عمل پورا بھردے گا اسے ان کے کا موں کی خبر ہے (ف۲۲۷)،

{وَ اِنَّ كُلًّا:اور بیشک ان سب کو۔} یعنی تصدیق کرنے والے ہوں یا تکذیب کرنے والے، ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے اَعمال کی پوری پوری جزا دے گا ،تصدیق کرنے والوں کو ان کی تصدیق کی بنا پر جنت ملے گی اور انکار کرنے والوں کو ان کے انکار کی وجہ سے جہنم نصیب ہو گی ،بیشک اللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال سے خبردار ہے اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ اس آیت میں نیکیاں کرنے والوں اور تصدیق کرنے والوں کے لئے تو بشارت ہے کہ وہ نیکی کی جزا پائیں گے نیزکافروں اور تکذیب کرنے والوں کے لئے وعید ہے کہ وہ اپنے عمل کی سزا میں گرفتار ہوں گے۔  (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۳۷۳)

11:112
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْاؕ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۱۱۲)
تو قائم رہو (ف۲۲۸) جیسا تمہیں حکم ہے اور جو تمہارے ساتھ رجوع لایا ہے (ف۲۲۰) اور اے لوگو! سرکشی نہ کرو بیشک وہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے،

{فَاسْتَقِمْ:تو تم ثابت قدم رہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّکے دین پر عمل کرنے اور اس کے دین کی دعوت دینے پر ایسے ثابت قدم رہیں جیسے آپ کے ربعَزَّوَجَلَّ نے آپ کو حکم دیا ہے اور آپ کی امت میں سے جو آپ پر ایمان لایا ہے اسے بھی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے اَحکام کی بجا آوری پر ثابت قدم رہے۔  (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۲ / ۳۷۳)

            حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی ’’ مجھے دین میں ایک ایسی بات بتادیجئے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی حاجت نہ رہے ۔ ارشاد فرمایا ’’ اٰمَنْتُ بِاللہِ(میں اللہ پر ایمان لایا)‘‘ کہہ اور ا س پر قائم رہ۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب جامع اوصاف الاسلام، ص۴۰، الحدیث: ۶۲(۳۸))

{وَ لَا تَطْغَوْا:اور اے لوگو!تم سرکشی نہ کرو۔} یعنی اے لوگو! جس کام سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں منع کیا ہے وہ نہ کرو، تمہارے اچھے برے سارے اعمال اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں اور اس سے تمہارا کوئی عمل بھی پوشیدہ نہیں تو اے لوگو! تم اس بات سے ڈرو کہ تمہارا ربعَزَّوَجَلَّ تمہارے اعمال جانتا ہے جبکہ حال یہ ہے کہ تم اس کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہو۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۷ / ۱۲۳)

 دینِ اسلام پر ثابت قدمی کی ترغیب:

             ایمان اور احکامِ اسلام پر ثابت قدمی نہایت ضروری ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ‘‘(حم السجدۃ:۳۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک جنہوں نے کہا :ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت پر خوش ہوجاؤجس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚ(۱۳) اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ‘‘(احقاف۱۳،۱۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے تو نہ ان پر خوف ہے اورنہ وہ غمگین ہوں گے۔وہ جنت والے ہیں ، ہمیشہ اس میں رہیں گے ، انہیں ان کے اعمال کابدلہ دیا جائے گا۔

            ترغیب کے لئے ہم یہاں چند وہ اَسباب ذکر کرتے ہیں جن کی وجہ سے بندہ دینِ اسلام پرثابت قدم رہتا ہے اور چند وہ چیزیں بیان کرتے ہیں جو دینِ اسلام پر ثابت قدمی سے مانع ہیں ، چنانچہ دینِ اسلام پر ثابت قدمی کے چند اسباب یہ ہیں : (1) علمِ دین حاصل کرنا۔ (2) کثرت سے مسجد میں حاضر ہونا۔ (3) زبان کی حفاظت کرنا۔ (4) کفر اور گناہوں سے بچنا۔ (5) کافروں ، بد مذہبوں اور فاسق و فاجر لوگوں سے تعلقات نہ رکھنا۔ (6) نفسانی خواہشات کی پیروی سے بچنا۔ (7) مصائب و آلام اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں پر صبر کرنا۔ (8) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ (9) لمبی امیدیں نہ رکھنا۔ (10) اور دنیا میں زہد و قناعت اختیار کرنا وغیرہ ،

            اس کے برعکس ایمان و عمل پر ثابت قدمی سے رکاوٹ بننے والی چند چیزیں یہ ہیں۔ (1) علمِ دین سے بہرہ ور نہ ہونا۔ (2) مسجد میں حاضر ہونے سے کترانا۔ (3) زبان کی حفاظت نہ کرنا۔ (4) کفر اور گناہوں کے ذریعے اپنی جانوں پر ظلم کرنا۔ (5) کافروں بد مذہبوں اور فاسق و فاجر لوگوں کی صحبت اختیار کرنا۔ (6) نفسانی خواہشات کی لذت حاصل کرنے کی حرص ہونا۔ (7) مصائب وآلام اور آزمائشوں پر صبر نہ کرنا۔ (8) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا۔ (9) لمبی امیدیں رکھنا۔ (10) اور دنیا میں رغبت رکھنا وغیرہ۔

حضرت عبداللہ بن حُذافہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اسلام پر اِستقامت:

             حضر ت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت کرتے ہیں کہ’’ روم کی جنگ میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ صحابی ٔرسول حضرت عبداللہ بنحُذَافَہ سَہْمِیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھی قید کرلیا گیا۔ رومی سردار نے تمام مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلایا اور حضرت عبداللہ بنحُذَافَہ سَہْمِیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا: نصرانی ہوجائو، ورنہ میں تمہیں تانبے کی دیگ میں ڈال کر جلادوں گا۔ یہ سن کرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے جواب دیا ’’ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، میں کبھی بھی نصرانی نہیں بنوں گا۔ ظالم سردار نے جب یہ سنا تو تانبے کی دیگ منگواکر اس میں تیل ڈلوایا، پھر اس کے نیچے آگ جلانے کا حکم دیا۔ جب تیل خوب گرم ہوکرابلنے لگا تو ایک مسلمان قیدی کو بلاکر کہا: نصرانی ہوجائو، اس مردِ مجاہدنے انکار کیا تو اسے ابلتے ہوئے تیل میں ڈلوا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا سارا گوشت جل گیا اور ہڈیاں اوپر تیرنے لگیں۔ پھر حضر ت عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا گیا: عیسائی ہوجائو، ورنہ اس شخص کی طرح تمہیں بھی اس ابلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا جائے گا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے صاف انکار کردیا۔ ظالم سردار نے حکم دیا کہ اسے بھی تیل کی دیگ میں ڈال دو۔ حکم پاتے ہی جلاد وں نے آپ کو پکڑا اور ابلتے ہوئے تیل میں ڈالنے کے لئے لے چلے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اچانک رونا شروع کردیا۔ جلاد ،ظالم سردار کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ قیدی رو رہا ہے ۔سردار بہت خوش ہوا اور حکم دیا کہ اسے ہمارے پاس لے آئو۔ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ شاید آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ موت کے ڈر سے اس کی بات ماننے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس کے سامنے آئے تو فرمایا ’’کیا تم لوگ یہ سمجھ رہے ہوکہ میں موت کےخوف سے رو رہا ہوں۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! میں موت کے خوف سے نہیں بلکہ میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ میرے جسم میں صرف ایک جان ہے جو میں دینِ اسلام کے لئے قربان کر رہا ہوں ، مجھے تو یہ پسند تھا کہ میرے جسم میں اگر سوجانیں ہوتیں توایک ایک کر کے سب کو اللہ عَزَّوَجَلَّکے نام پر قربان کر دیتا۔ سردار آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ ایمان افروز تقریر سن کر بہت متعجب ہوا کہ ان کے اندر اپنے دین کی کتنی محبت ہے اور یہ خوشی سے دین کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے ۔ سردار نے لالچ دیتے ہوئے کہا :اگر تم نصرانی ہوجائو تو میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کردوں گا اور حکومت میں بھی تمہیں حصہ دوں گا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس کی یہ پیش کش بھی ٹھکرا دی اور صاف انکار کردیا۔ پھر اس نے کہا: اچھا اس طرح کرو کہ تم میرے سرپر بوسہ دو اگر تم یہ کروگے تو میں تمہیں بھی آزاد کر دوں گا اور تمہارے ساتھ تمہارے 80 مسلمان قیدیوں کو بھی آزاد کردوں گا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ اگر واقعی تم ایسا کرو گے تو میں تمہارے سر کو بوسہ دینے کے لئے تیار ہوں۔ سردار نے یقین دہانی کرائی کہ میں اپنی بات ضرور پوری کروں گا ۔ چنانچہ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مسلمانوں کی آزادی کی خاطر اس ظالم کے سر کا بوسہ لیا۔ سردار نے حسبِ وعدہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اور 80 مسلمان قیدیوں کو آزاد کردیا۔ جب یہ تمام مجاہدین امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں پہنچے تو امیر المؤمنین آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سر کا بوسہ لیا اور بہت خوش ہوئے۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ السابعۃ والاربعون بعد المائتین، ص۲۳۶-۲۳۷)

11:113
وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(۱۱۳)
اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آ گ چھوئے گی (ف۲۳۰) اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حما یتی نہیں (ف۲۳۱) پھر مدد نہ پاؤ گے،

{وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا:اور ظالموں کی طرف نہ جھکو۔} رُکون یعنی جھکنے کا معنی ہے قلبی میلان اور جب اس پر اتنی سخت وعید ہے تو کافروں کے ساتھ تعلقات کی اُن صورتوں میں کیا حال ہو گا جو قلبی میلان سے بڑھ کر ہیں۔یاد رہے کہ طبعی میلان کی غیر اختیاری صورت اس آیت میں بیان کئے گئے حکم میں داخل نہیں ، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ ’’مگر طبعی میلان جیسے ماں باپ، اولاد یا خوبصورت بیوی کی طرف ہوتا ہے، اس کی جو صورت غیر اختیاری ہو وہ اس حکم کے تحت داخل نہیں ، پھر بھی اس تصور سے کہ یہ اللہ و رسول کے دشمن ہیں ان سے دوستی حرام ہے اور اپنی قدرت کے مطابق اُسے دبانا یہاں تک کہ بن پڑے تو فنا کردینا لازم ہے ۔ (میلان کا) آنا بے اختیار تھا اور (اس کا) جانا یعنی اسے زائل کرنا قدرت میں ہے تو (اس میلان کو) رکھنا اختیار موالات ہوا اور یہ حرام قطعی ہے ، اسی وجہ سے جس غیر اختیاری (میلان) کے مبادی (یعنی ابتدائی افعال) اس نے باختیار پیدا کئے تو اس میں معذورنہ ہوگا، جیسے شراب کہ اس سے عقل زائل ہوجانا اس کا اختیاری نہیں مگر جبکہ اختیار سے پی تو عقل کا زائل ہو جانا اور اس پر جو کچھ مرتب ہو سب اسی کے اختیار سے ہوا۔ (فتاویٰ رضویہ، ۱۴ / ۴۶۵-۴۶۶)

خدا کے نافرمانوں سے تعلقات کی ممانعت:

اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے نافرمانوں کے ساتھ یعنی کافروں ، بے دینوں ، گمراہوں اور ظالموں کے ساتھ بلاضرورت میل جول ،رسم و راہ، قلبی میلان اور محبت، ان کی ہاں میں ہاں ملانا اور ان کی خوشامد میں رہنا ممنوع ہے۔ ظالموں کے بارے میں امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(ظالموں کے ساتھ عملی طور پر تعاون تو ظاہر ہے اور) زبانی طور پر تعاون یہ ہے کہ وہ ظالم کے لئے دعا مانگتا ہے یااس کی تعریف کرتا ہے یااس کے جھوٹے قول کی صراحتاً تصدیق کرتا ہے، مثلاً زبان سے اسے سچا قرار دیتا ہے یاسر ہلا دیتا ہے یااس کے چہرے پر مُسَرَّت ظاہر ہوتی ہے یاوہ اس شخص سے محبت و دوستی ظاہر کرتا ہے ، اس سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اور اس کی عمر میں اضافہ اور ا س کی بقا کی حرص رکھتا ہے، ایسا شخص عام طور پر (ظالموں کو) صرف سلام ہی نہیں کرتا بلکہ (ان سے) کچھ بات چیت بھی کرتا ہے اور وہ اسی شخص کا کلام ہوتا ہے حالانکہ اس کا ظالم کی حفاظت، اس کی لمبی زندگی، ا س کے لئے نعمتوں کی تکمیل اور اس طرح کی دوسری دعائیں مانگنا جائز نہیں ،اور اگر دعا کے ساتھ تعریفی کلمات بھی ہوں اور وہ ان باتوں کا ذکر کرے جو اس ظالم میں نہیں ہیں تو یہ شخص جھوٹا، منافق اور ظالم کااعزاز کرنے والا ہے اور یہ تین گناہ ہیں ،اور اگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ا س کی باتوں کی تصدیق بھی کرے،اس کے کاموں کی تعریف کرے،اس کی پاکیزگی بیان کرے تو وہ اس تصدیق اور اِعانت کی وجہ سے گناہگار ہو گا کیونکہ ظالم کی پاکیزگی بیان کرنا اور تعریف کرنا گناہ پر مدد کرنا ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب الحلال والحرام، الباب السادس فیما یحلّ من مخالطۃ السلطان الظلمۃ ویحرم۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۷۹-۱۸۰)

اَحادیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال میں بھی ان چیزوں کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ اس وقت ناراض ہوتا ہے جب زمین پر کسی فاسق کی تعریف کی جاتی ہے ۔(شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۳۰، الحدیث:  ۴۸۸۵)

حضرت حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو شخص کسی ظالم کے باقی رہنے کی دعا کرتا ہے وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جائے۔ (شعب الایمان، السادس والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ،  ۷ / ۵۳، روایت نمبر:  ۹۴۳۲)

امام اوزاعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عالم سے زیادہ ناپسندیدہ شخص کوئی نہیں جو کسی عامل (یعنی ظالم گورنر) کے پاس جاتا ہے۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۵۱۵۔)

          یہاں ایک اور بات یاد رکھیں کہ بعض حضرات کا یہ نظریہ ہے کہ ہم اپنی دنیوی ضروریات کی وجہ سے ظالموں کے اعمال پر راضی ہوتے، ان کی خوشامد و چاپلوسی کرتے اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ، اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارے لئے اپنی دنیوی ضروریات کو پورا کرنا دشوار ہو جائے، انہیں چاہئے کہ وہ علامہ احمدصاوی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ا س کلام پر غور کر لیں ، چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ظالموں کے اَعمال سے راضی ہونے میں دنیوی ضروریات کو دلیل بنانا قابلِ قبول نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی بڑا رزق دینے والا، قوت والا اور قدرت والا ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۳ / ۹۳۶) اور جب حقیقی رازق، قوی اور قادر اللہ تعالیٰ ہے تو خود کو ظالموں کا دست نگر سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔

نوٹ: غیر مسلموں سے تعلقات رکھنے کے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لئے فتاویٰ رضویہ کی جلد نمبر 14 سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخانرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے رسالے’’اَ لْمَحَجَّۃُ الْمُؤْتَمِنَۃ فِی اٰیَۃِ الْمُمْتَحِنَہ‘‘(سورہِ ممتحنہ کی آیت کے بارے میں تفصیلی کلام)کا مطالعہ کریں۔

{وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ:اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حما یتی نہیں۔} یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا اور کوئی مددگار نہیں کہ تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّکے عذاب سے بچاسکے اور نہ ہی کل قیامت کے دن تمہیں کوئی ایسا ملے گا کہ جو تمہاری مدد کر سکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے تمہیں بچا لے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۲ / ۳۷۴)

ظالموں کے لئے نصیحت:

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ حال تو ان کا ہے جو ظالموں سے تعلقات اور میل جول رکھیں ، ان کے اعمال سے راضی ہوں اور ان سے محبت رکھیں اور جو خود ظالم ہو تو اس کا حال ان سے کتنا بدتر ہوگا وہ خود ہی غور کر لے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۲ / ۳۷۴)

          اور امام عبداللہ بن احمد نسفیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں ’’ایک دن حضرت موفق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے امام کے پیچھے نماز پڑھی اور جب امام نے یہ آیت’’وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاالخ‘‘ تلاوت کی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِپر غشی طاری ہو گئی ، جب اِفاقہ ہوا تو ان سے (غشی کی وجہ کے بارے میں ) عرض کی گئی توآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’یہ ( سزا کا بیان) اُس شخص کے بارے میں ہے جو ظالم کی طرف جھکے اور جو خود ظالم ہو تو ا س کا کیا حال ہو گا۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۵۱۵)

ہم ظلم اور ظالموں کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں اور ہر ظالم کو چاہئے کہ وہ اپنے ظلم سے باز آ جائے اور جیتے جی ان لوگوں سے معافی مانگ لے جن پر ظلم کیا ورنہ قیامت کے دن جب ظلم کابدلہ دینا پڑا تو انجام بہت دردناک ہوگا جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی کی عزت یا کسی اور چیز پر زیادتی کی ہو تو اسے چاہئے کہ اس دن سے پہلے آج ہی معافی حاصل کر لے جس دن دینار اور درہم پاس نہیں ہوں گے، اگر ظالم کے پاس نیک اعمال ہوئے تو ظلم کے برابر ان میں سے لے لئے جائیں گے اور اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو ظلم کے برابر مظلوم کے گناہ ظالم پر ڈال دئیے جائیں گے۔(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل فحلّلہا لہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۲۸، الحدیث: ۲۴۴۹)

11:114
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِؕ-اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِؕ-ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَۚ(۱۱۴)
اور نماز قائم رکھو دن کے دونوں کناروں (ف۲۳۲) اور کچھ رات کے حصوں میں (ف۲۳۳) بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں، (ف۲۳۳) یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کو،

{وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ:اور نماز قائم رکھو۔} اس آیت میں دن کے دو کناروں سے صبح ا ور شام مراد ہیں ، زوال سے پہلے کا وقت صبح میں اور زوال کے بعد کا وقت شام میں داخل ہے ۔ صبح کی نمازتو فجر ہے جبکہ شام کی نمازیں ظہر و عصر ہیں اور رات کے حصوں کی نمازیں مغرب و عشا ہیں۔ نیکیوں سے مراد یا یہی پنج گانہ نمازیں ہیں جو آیت میں ذکر ہوئیں یااس سے مراد مُطلقاً نیک کام ہیں یا اس سے’’ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ‘‘ پڑھنا مراد ہے۔(مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ص۵۱۶)شانِ نزول: حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ ایک شخص نے دربارِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی : یا رسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس آدمی کا کیا حکم ہے جو ایک اجنبی عورت سے علیحدگی میں جماع کے سوا سب کچھ کرتا ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اسے وضو کر کے نماز پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی :یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا یہ اس شخص کے ساتھ خاص ہے یا تمام مومنوں کے لئے ہے؟ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’نہیں ، بلکہ یہ تمام مومنوں کے لئے عام ہے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ہود، ۵ / ۷۹، الحدیث: ۳۱۲۴)

نیکیاں صغیرہ گناہوں کے لئے کفارہ ہوتی ہیں :

اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیکیاں صغیرہ گناہوں کے لئے کفارہ ہوتی ہیں خواہ وہ نیکیاں نماز ہوں یا صدقہ یا ذکر و اِستغفار یا اور کچھ ۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۲ / ۳۷۵)اَحادیث میں متعدد ایسے اعمال کا بیان جو صغیرہ گناہوں کے لئے کفارہ بنتے ہیں ، یہاں ان میں سے چند ایک بیان کئے جاتے ہیں۔

(1)…حضرت ابو ہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’پانچوں نمازیں اور جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک یہ سب ان گناہوں کے لئے کفارہ ہیں جو ان کے درمیان واقع ہوں جب کہ آدمی کبیرہ گناہوں سے بچے ۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ ورمضان الی رمضان مکفرات لما بینہنّ۔۔۔ الخ، ص۱۴۴، الحدیث: ۱۶(۲۳۳))

(2)…حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے رمضان کا روزہ رکھا اور اُس کی حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیے اُس سے بچا تو جو پہلے کر چکا ہے اُس کا کفارہ ہوگیا۔(شعب الایمان، الباب الثالث والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فضائل شہر رمضان، ۳ / ۳۱۰، الحدیث: ۳۶۲۳)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’عمرہ سے عمرہ تک اُن گناہوں کا کفارہ ہے جو درمیان میں ہوئے اور حجِ مَبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔(بخاری، کتاب العمرۃ، باب العمرۃ، وجوب العمرۃ وفضلہا، ۱ / ۵۸۶، الحدیث: ۱۷۷۳)

(4)…حضرت سِخْبَرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے علم تلاش کیا تو یہ تلاش اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہو گی۔(ترمذی، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم،۴ / ۲۹۵، الحدیث۲۶۵۷)

11:115
وَ اصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(۱۱۵)
اور صبر کرو کہ اللہ نیکوں کا نیگ (اجر) ضائع نہیں کرتا،

11:116
فَلَوْ لَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا بَقِیَّةٍ یَّنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْهُمْۚ-وَ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَاۤ اُتْرِفُوْا فِیْهِ وَ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ(۱۱۶)
تو کیوں نہ ہوئے تم میں سے اگلی سنگتوں (قوموں) میں (ف۲۳۵) ایسے جن میں بھلائی کا کچھ حصہ لگا رہا ہوتا کہ زمین میں فساد سے روکتے (ف۲۳۶) ہاں ان میں تھوڑے تھے وہی جن کو ہم نے نجات دی (ف۲۳۷) اور ظالم اسی عیش کے پیچھے پڑے رہے جو انہیں دیا گیا (ف۲۳۸) اور وہ گنہگار تھے،

{فَلَوْ لَا كَانَ:تو کیوں نہ ہوئے۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں پر جڑ سے اکھاڑ دینے والے عذابات نازل ہونے کا بیان فرمایا اور ا س آیت میں یہ بیان فرمایا کہ ان عذابات کے نازل ہونے کا سبب دو چیزیں تھیں۔ (1) ان میں کوئی ایسا نہیں تھا جو انہیں فساد سے منع کرتا۔ (2) اپنے برے اعمال یعنی شرک اور کفر وغیرہ سے رجوع نہ کرنا۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۳ / ۹۳۷)  آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے میرے حبیبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت! تم سے پہلی امتوں میں سے جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا تھا وہ کچھ ایسے فضیلت والے نہیں ہوئے جو لوگوں کو زمین میں فساد کرنے سے روکتے اور انہیں گناہوں سے منع کرتے ، اسی لئے ہم نے انہیں ہلاک کردیا البتہ ان سابقہ امتوں میں تھوڑے سے ایسے تھے جنہیں ہم نے نجات دی اور وہ لوگ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے اوران کے اَحکام پر عمل کرتے اور لوگوں کو فساد سے روکتے رہے   جبکہ ظالم لوگ اسی عیش و عشرت کے پیچھے پڑے رہے جو انہیں دیا گیا اور وہ نعمتوں ،لذتوں ، خواہشات اور شَہوات کے عادی ہوگئے ، کفر اورگناہوں میں ڈوبے رہے اور وہ مجرم تھے۔  (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۲ / ۳۷۵، ملخصاً)

            ’’ اُولُوْا بَقِیَّةٍ‘‘ سے مراد علماء ِربانی ہیں ،مقصدیہ ہے کہ گزشتہ قوموں کی عام گمراہی کا باعث یہ ہوا کہ ان میں علماءِ ربانی نہ رہے، اگر وہ رہتے تو اس طرح گمراہی نہ پھیلتی۔ عوام اس لئے مجرم تھے کہ بدکاریاں کرتے تھے اور علماء اس لئے مجرم تھے کہ انہیں منع نہ کرتے تھے۔ اس آیت سے دو باتیں واضح ہوئیں کہ نیکی کی دعوت دینا اور گناہوں سے روکنا علماء کا منصب ہے ، اگر وہ یہ فریضہ سرانجام نہ دیں گے تو وہ بھی مجرم اور مستحقِ عذاب ہوں گے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ شروع سے اب تک یہی ہوتا آیا ہے کہ زیادہ تر مال و دولت والے ہی غفلت میں پڑتے ہیں ، اس لئے عمومی طورپر مالدار لوگوں میں دینداروں کی کمی ہوتی ہے۔

11:117
وَ مَا كَانَ رَبُّكَ لِیُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ(۱۱۷)
اور تمہارا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کو بے وجہ ہلاک کردے اور ان کے لوگ اچھے ہوں،

11:118
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَۙ(۱۱۸)
اور اگرتمہارا رب چاہتا تو سب آدمیوں کو ایک ہی امت کردیتا (ف۲۳۹) اور وہ ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے (ف۲۴۰)

{وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ:اور اگرتمہارا رب چاہتا ۔} ارشاد فرمایا ’’اگر تمہارا رب چاہتا تو سب آدمیوں کو ایک ہی امت بنا دیتا اور یوں سب کا ایک ہی دین ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے ایسا نہ چاہا اور سب کو ایک امت نہ بنایا اور لوگ ہمیشہ مختلف دینوں پر عمل پیرا رہیں گے۔ علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہو اکہ اختلاف جس طرح پہلی امتوں میں موجود تھا اُسی طرح اس امت میں بھی رہے گا تو ان میں سے کوئی مومن ہو گا کوئی کافر، کوئی نیک ہو گا اور کوئی گناہگار، اسی لئے حدیث میں ہے کہ یہودی 71 فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور عنقریب تم 73 فرقوں میں بٹ جاؤ گے، ان میں سے72 فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا اور وہ ایک جنتی فرقہ اہلِ سنت وجماعت ہے۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۳ / ۹۳۸)

{ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ:البتہ جن پر تمہارے رب نے رحم کیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ البتہ وہ لوگ جن پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے رحم کیا اور انہیں اختلاف سے بچا لیا تو وہ دینِ حق پر متفق رہیں گے اور اس میں اختلاف نہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ نے لوگ اسی لیے یعنی اختلاف والے اختلاف کے لئے اور رحمت والے اتفاق کے لئے پیدا کئے ہیں اور تمہارے ربعَزَّوَجَلَّ کی بات پوری ہوچکی کہ وہ جہنم کوتمام کافر جنوں اور انسانوں سے بھر دے گا۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ص۵۱۷)

11:119
اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَؕ-وَ لِذٰلِكَ خَلَقَهُمْؕ-وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ(۱۱۹)
مگر جن پر تمہارے رب نے رحم کیا (ف۲۴۱) اور لوگ اسی لیے بنائے ہیں (ف۲۴۲) اور تمہارے رب کی بات پوری ہوچکی کہ بیشک ضرور جہنم بھر دوں گا جنوں اور آدمیوں کو ملا کر (ف۲۴۳)

11:120
وَ كُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَۚ-وَ جَآءَكَ فِیْ هٰذِهِ الْحَقُّ وَ مَوْعِظَةٌ وَّ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۰)
اور سب کچھ ہم تمہیں رسولوں کی خبریں سناتے ہیں جس سے تمہا را دل ٹھیرائیں (ف۲۴۴) اور اس سورت میں تمہارے پاس حق آیا (ف۲۴۵) اور مسلمانوں کو پند و نصیحت (ف۲۴۶)

{وَ كُلًّا:اور سب کچھ۔} اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کے واقعات اور ان کی طرف سے ان کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جو کچھ پیش آیا وہ بیان فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم تمہیں رسولوں کی خبریں اور جو کچھ انہیں اپنی امتوں سے پیش آیا سناتے ہیں تاکہ ا س کے ذریعے ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا دل مضبوط کریں اور ا س طرح انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے حالات اور ان کی امتوں کے سلوک دیکھ کر آپ کو اپنی قوم کی ایذا برداشت کرنا اور اس پر صبر فرمانا آسان ہو۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۳۷۶)

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ والوں کے ذکر سے دل کو چین نصیب ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ انسان اپنی زندگی میں رونما ہونے والے طرح طرح کے واقعات اور حادثات کی وجہ سے بسا اوقات انتہائی مایوس ہو جاتا ہے حتّٰی کہ اگر کبھی کوئی خوشی بھی نصیب ہو تو اس سے دل میں خوشی پیدا ہونے یا اس خوشی کو محسوس کرنے کی بجائے اس کی اداسی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے، ایسی صورتِ حال میں انسان کو ایسی چیز کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہیں جس سے اس کے دل کو قوت حاصل ہو اور حالاتِ زمانہ کا مقابلہ کرنا اس کے لئے آسان ہو اور دل کی تقویت کا ایک اہم ترین ذریعہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور دیگر بزرگانِ دین  کے حالات و واقعات کامطالعہ کرنا بھی ہے کیونکہ جب آدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی مقبولیت اور مقام و مرتبہ دیکھے گا اور دنیا میں انہیں جو حالات پیش آئے اور جن مَصائب و مشکلات کا انہیں سامنا کرنا پڑا ان پر نظر کرے گا اور ا س کے مقابلے میں ان کے صبر و تحمل اور رضاءِ  الہٰی پر راضی رہنے کے بارے میں غوروفکر کرے گا تو اس کے دل کو تسکین حاصل ہو گی اور اسے مَصائب و آلام کا سامنا کرنے میں دلی قوت حاصل ہو گی اور وہ ذہنی طور پر خود کو بہت پُرسکون محسوس کرے گا۔

{وَ جَآءَكَ فِیْ هٰذِهِ الْحَقُّ:اور اس سورت میں تمہارے پاس حق آیا۔} اس آیت میں حق سے مراد توحید و رسالت اور قیامت کے وہ دلائل ہیں جنہیں اس سورت میں بیان کیا گیا۔ اور ’’مَوْعِظَةٌ‘‘ کا معنی ہے جس کے ذریعے نصیحت حاصل کی جائے ، یہاں اس سے مراد سابقہ امتوں کی ہلاکت کا بیان ہے جس کا ذکر اس سورت میں ہوا۔ اور ’’ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مسلمان سابقہ امتوں پر نازل ہونے والے عذاب کا سن کر اس سے عبرت حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کریں۔ مسلمانوں کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات سن کر مسلمان ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔(تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۶ / ۴۱۳، قرطبی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۵ / ۸۱، الجزء التاسع، ملتقطاً)

  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

هُوْد
هُوْد
  00:00



Download

هُوْد
هُوْد
  00:00



Download