Surah Hud
{بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ ہی کے نام پر۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے جن اَصحاب کو کشتی میں سوار کیا ان سے فرمایا: تم کشتی میں سوار ہو جاؤ، اس کا چلنا اور اس کاٹھہرنا اللہ عَزَّوَجَلَّہی کے نام پر ہے۔ حضرت ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامچاہتے تھے کہ کشتی چلے تو بِسْمِ اللہ فرماتے توکشتی چلنے لگتی تھی اور جب چاہتے تھے کہ ٹھہر جائے بِسْمِ اللہ فرماتے تو ٹھہر جاتی تھی۔ اس آیت میں یہ تعلیم ہے کہ بندے کو چاہئے جب کوئی کام کرنا چاہے تو اس کو بِسْمِ اللہ پڑھ کر شروع کرے تاکہ اس کام میں برکت ہو اور وہ کامیابی کے حصول کا سبب ہو۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۳۵۳)
کشتی میں سوار ہونے کی دعا:
حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ،میری امت میں سے جو شخص کشتی میں سوار ہوتے وقت یہ پڑھ لے تو وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گا’’ بِسْمِ اللہِ الْمَلِکِ وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ﳓ وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(۶۷)بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَاؕ-اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۳۲۹، الحدیث: ۶۱۳۶)
{وَ هِیَ تَجْرِیْ بِهِمْ فِیْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ:اور وہ کشتی انہیں پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان لے کر چل رہی تھی۔} جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل ہو اتوچالیس دن اور رات آسمان سے بارش برستی رہی اور زمین سے پانی اُبلتا رہا ۔ پانی پہاڑوں سے اونچا ہو گیا یہاں تک کہ ہر چیز اس میں ڈوب گئی اور ہوا اس شدت سے چل رہی تھی کہ اس کی وجہ سے پہاڑوں کی مانند اونچی لہریں بلند ہو رہی تھیں۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۳۵۳، ملخصاً)
نوٹ:اس واقعے کی مزید تفصیل سورۂ قمر کی آیت نمبر 11تا 15 میں ہے۔
{وَ نَادٰى نُوْحُ ﰳابْنَهٗ:اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا ۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیٹا کنعان ا س کشتی سے باہر ایک کنارے پر تھا، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اسے پکارا: اے میرے بیٹے! تو ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجا اور سواری سے محروم رہنے والے کافروں کے ساتھ نہ ہو۔ علماء فرماتے ہیں کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیٹا کنعان منافق تھا،اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا اور اپنے کفر کو چھپاتا تھا ،جب طوفان آیا تو اس نے اپنا باطنی کفر ظاہر کر دیا۔ (جلالین مع صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۹۱۴)
{قَالَ سَاٰوِیْۤ اِلٰى جَبَلٍ:اس نے کہا:میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لیتا ہوں۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پکار سن کر کنعان نے کشتی میں سوار ہونے کی بجائے یہ جواب دیا کہ میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لیتا ہوں وہ مجھے پانی سے بچالے گا۔حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے فرمایا’’آج کے دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں لیکن جس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ رحم فرمادے تو وہ ڈوبنے سے بچ سکتا ہے۔پھر حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بیٹے کنعان کے درمیان ایک لہرحائل ہوگئی تو کنعان بھی غرق کئے جانے والوں میں سے ہوگیا۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۳، ۲ / ۳۵۳)
{ وَ قِیْلَ:اور حکم فرمایا گیا۔} جب طوفان اپنی اِنتہا پر پہنچ گیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو غرق کر دیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین کو حکم فرمایاگیا کہ اے زمین!ا پنا پانی نگل جا اور آسمان کو حکم فرمایا گیا کہ اے آسمان! تھم جا۔ پھر پانی خشک کردیا گیا اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی ہلاکت کا کام پورا ہوگیا۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کشتی چھ مہینے زمین میں گھوم کر جودی پہاڑ پر ٹھہرگئی ، یہ پہاڑ موصل یا شام کی حدود میں واقع ہے، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کشتی میں دسویں رجب کو بیٹھے اور دسویں محرم کو کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے شکر کا روزہ رکھا اور اپنے تمام ساتھیوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۴، ۲ / ۳۵۳-۳۵۴)
عاشورہ کے روزے کی فضیلت:
دس محرم یعنی عاشورا کے دن روزہ رکھنا سنت ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :رسول کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے عاشورا کو روزہ خود رکھا اور ا س کے رکھنے کاحکم فرمایا۔(مسلم، کتاب الصیام، باب ایّ یوم یصام فی عاشوراء، ص۵۷۳، الحدیث: ۱۳۳(۱۱۳۴)) اور ا س کی فضیلت کے بارے میں حضرت ابو قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا
’’ مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّپر گمان ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام من کلّ شہر۔۔۔ الخ، ص۵۸۹، الحدیث: ۱۹۶(۱۱۶۲))
{وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ:اور نوح نے اپنے رب کو پکارا۔} جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بیٹے کنعان کے درمیان لہر حائل ہوئی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اس کی نجات طلب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی’’ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میرا بیٹا بھی تو میرے گھر والوں میں سے ہے اور تو نے مجھ سے میری اور میرے گھر والوں کی نجات کا وعدہ فرمایا ہے۔ بے شک تیرا وعدہ سچا ہے اور اس وعدے کے پورا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ بے شک توسب حاکموں سے بڑھ کر جاننے والا اور سب سے زیادہ عدل فرمانے والا ہے۔ (روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴ / ۱۳۸)
شیخ ابومنصور ماتریدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیٹا کنعان منافق تھا اور آپ کے سامنے اپنے آپ کو مؤمن ظاہر کرتا تھا اگر وہ اپنا کفر ظاہر کردیتا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ سے اس کی نجات کی دعا نہ کرتے۔ (تاویلات اہل السنہ، ہود، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۵۲۹)
{اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَ:بیشک وہ تیرے گھر والوں میں ہرگز نہیں تھا۔} اس سے مراد یہ ہے کہ وہ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والوں میں سے ہر گز نہ تھا یا اس سے مراد یہ ہے کہ وہ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ان گھر والوں میں سے نہ تھا جن کی آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ نجات کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا۔
نجات کے لئے صرف نسبی قرابت کا اعتبار نہیں :
اس آیت سے ثابت ہو اکہ نجات کیلئے صرف نسبی قرابت کا اعتبار نہیں بلکہ اس کیلئے ایمان شرط ہے جیسے کنعان کو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبی قرابت تو بدرجہ اَولیٰ حاصل تھی لیکن چونکہ دینی قرابت یعنی ایمان حاصل نہ تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے قرابت کی نفی فرما دی۔
{اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ:بیشک اس کا عمل اچھا نہیں تھا ۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سوال کے بارے میں کلام ہے۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا ’’اے نوح! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ نے جو سوال کیا وہ قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف مسلمانوں کے حق میں شفاعت قبول فرماتا ہے لہٰذا آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنے بیٹے کی نجات کا سوال کرنا درست نہیں۔
تنبیہ: یاد رہے کہ اس سوال سے منصبِ نبوت میں کوئی حَرج واقع نہیں ہوتا کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام
اپنے بیٹے کے اظہار ِاسلام کی وجہ سے اسے مسلمان سمجھتے تھے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ظاہر پر ہی حکم لگاتے تھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بیٹے کے بارے میں کلا م ہے، اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بیٹے کے عمل اچھے نہ تھے وہ شرک کرتا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلاتا تھا۔ دوسرا قول راجح اپنے بیٹے کے اظہار ِاسلام کی وجہ سے اسے مسلمان سمجھتے تھے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ظاہر پر ہی حکم لگاتے تھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بیٹے کے بارے میں کلا م ہے، اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بیٹے کے عمل اچھے نہ تھے وہ شرک کرتا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلاتا تھا۔ دوسرا قول راجح ہے۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۹۱۵، تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۳۵۷، ملتقطاً)
{فَلَا تَسْــٴَـلْنِ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ:پس تم مجھ سے اس بات کا سوال نہ کرو جس کا تجھے علم نہیں۔} یعنی جس بات کے درست یا غلط ہونے کا آپ کو علم نہیں ا س بات کا مجھ سے سوال نہ کرو، میں تجھے نصیحت فرماتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے نہ ہونا جونہیں جانتے ۔ علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کئے گئے اس کلام میں نرمی و شفقت کا اِظہار ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ارشاد فرمایا ’’اے پیارے نوح! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ کا مقام بہت بلند ہے، اس لئے آپ کی شان کے لائق یہ بات ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صرف اسی کی نجات کا مطالبہ اور شفاعت فرمائیں جس کے بارے میں نجات کی امید ہے، وہ لوگ جن کے بارے میں آپ نہیں جانتے کہ ان کے بارے میں شفاعت قبول کی جائے گی یا نہیں تو ان کی نجات کے بارے میں آپ کا سوال کرنا آپ کے مقام و مرتبہ کے لائق نہیں۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۹۱۶)
{قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِكَ:عرض کی: اے میرے رب !میں تیری پناہ چاہتا ہوں۔} جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی تربیت ہوئی تو آپ نے عرض کی :اے میرے رب ! میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کے بارے میں مجھے علم نہیں کہ اسے حاصل کرنا حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے یا نہیں اور اگر تو نے میرے اُس سوال پر میری مغفرت نہ فرمائی اور میری عرض قبول فرما کر میرے اوپر رحم نہ فرمایا تو میرا شمار بھی نقصان اٹھانے والوں میں ہو جائے گا۔(روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۱۳۹-۱۴۰)
حضرت نوحعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہیں :
اس آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقامِ رضا بالقضاء پر فائز ہونے کا بڑا پیارا اِظہار ہے کہ سگا بیٹا نگاہوں کے سامنے ہلاک ہوا اور وعدہ ِ الٰہی کے پیشِ نظر دعا فرمائی لیکن حقیقتِ حال معلوم ہونے اور اللہ تعالیٰ کے تنبیہ فرمانے سے فورا ًعاجزی کے ساتھ اپنی مغفرت اور رحمِ الٰہی کی دعا مانگنا شروع کردی۔ سُبْحَانَ اللہ، سُبْحَانَ اللہ۔ اے اللہ! حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صدقے ہمیں بھی تیری قضاپر راضی رہنے کی توفیق عطا فرما۔
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اُ س چیز کا مطالبہ کر کے جس کے بارے میں وہ جانتے نہ تھے کوئی گناہ سرزد ہوا تھا کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہر طرح کے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو اپنے بیٹے کی نجات کا سوال کیا ا س کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان کے گھر والوں کو نجات عطا فرمائے گا، اس سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ سمجھا کہ ان کابیٹا بھی چونکہ ان کے گھر والوں میں سے ہے اس لئے یہ بھی ان نجات پانے والوں میں شامل ہے، جب اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی تربیت فرمائی تو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے فعل پر دل میں ندامت محسوس ہوئی اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحمت کا سوال کیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا درخت سے کھانے والا معاملہ اوریہ گناہ نہیں بلکہ ان کا تعلق حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقرَّبِیْنَ(نیکوں کے جو نیک کام ہیں مقربوں کے حق میں گناہ ہیں )سے ہے۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۹۱۶)
{قِیْلَ:فرمایا گیا۔} آیت میں مذکور سلامتی میں قیامت تک آنے والا ہر مومن مرد اور عورت داخل ہے اور برکتوں سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ذُرِّیَّت اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کرنے والوں کی کثرت مراد ہے کہ بکثرت انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ائمۂ دین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْآپ کی نسلِ پاک سے ہوئے۔یہاں جو فرمایا گیا کہ ’’ یہ بَرکات جو تم پر اور تمہارے ساتھیوں کی جماعتوں پر ہیں ‘‘ اس کے متعلق حضر ت محمد بن کعب قُرظی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ان جماعتوں میں قیامت تک ہونے والا ہر ایک مومن داخل ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۹۱۶، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۳۵۵، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۴۸، ص ۵۰۱، ملتقطاً)
{وَ اُمَمٌ:اور کچھ جماعتیں۔} اس سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد پیدا ہونے والے کافر گروہ مراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ان کی مقررہ مدتوں تک فراخیِ عیش اور وُسعتِ رزق عطا فرمائے گا پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخرت میں دردناک عذاب پہنچے گا۔ اس میں قیامت تک آنے والا ہر کافر مرد اور کافرہ عورت داخل ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۹۱۶-۹۱۷)
{ تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ:یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں۔}اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کے جس واقعے کی ہم نے آپ کو خبر دی یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ آپ پر قرآن نازل ہونے سے پہلے آپ اور آپ کی قوم ان غیبی خبروں کو تفصیل سے نہیں جانتی تھی لہٰذا اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کی اذیتوں پر صبر کیا اسی طرح آپ بھی اپنی قوم کے مشرکین کی اذیتوں پر صبر کریں ، بے شک اچھا انجام یعنی دشمنوں کے خلاف مدد، فتح اور اُخروی سعادتوں کے حصول کے ذریعے کامیابی ایمان والوں کے لئے ہے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۳۵۶-۳۵۷)
{وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا:اور عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کوبھیجا۔} اس سورت میں بیان کئے گئے واقعات میں سے یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قومِ عاد کا بھائی فرمایا ، اس سے مراد دینی بھائی نہیں بلکہ نسب کے اعتبار سے بھائی ہونا مراد ہے کیونکہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تعلق قبیلہ ِعاد سے تھا، یہ عرب کا قبیلہ تھا اور یمن کے قریب ان کی رہائش تھی۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۵۰، ۶ / ۳۶۲)
{قَالَ:فرمایا۔} حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم! تم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرو اور عبادت کرنے میں کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، تمہارا معبود اللہ تعالیٰ ہی ہے، یہ بت جن کی تم پوجا کر رہے ہو تمہارے معبود ہر گز نہیں کیونکہ یہ تو پتھر کے ہیں اور کوئی نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ تمہارا یہ دعویٰ جھوٹا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے شریک ہیں اور تم ان شریکوں کی عبادت کرتے ہو ۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۳۵۷، صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۹۱۷، ملتقطاً)
نوٹ:حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم عاد سے متعلق بعض تفصیلات سورۂ اعراف آیت65تا 72 میں گزر چکی ہیں۔
{یٰقَوْمِ:اے میری قوم!۔} یعنی تمہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے اَحکامات کی تبلیغ کرنے سے میرا مقصد یہ نہیں کہ تم میرے اس عمل کی وجہ سے مجھے مال وغیرہ کوئی اجرت دو ،میرا اجرو ثواب تو اسی کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا تو کیا تمہیں عقل نہیں کہ اتنا سمجھ سکو کہ جو محض بے غرض نصیحت کرتا ہے وہ یقیناً خیر خواہ اور سچا ہے ۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۹۱۷، روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۱۴۶، ملتقطاً)
تبلیغ کے کام کسی لالچ کے بغیر کئے جائیں :
یاد رہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے کسی لالچ کے بغیر دین کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا اور باقاعدہ اس کا اظہار بھی فرمایا کہ تبلیغ سے ان کا مقصد مال یا کوئی منصب حاصل کرنا نہیں بلکہ وہ صرف اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور اس کی طرف سے ملنے والے اجر و ثواب کے طلبگار ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ خالص نصیحت وہ ہوتی ہے جو کسی لالچ اور غرض کے بغیر ہو اور اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا مقصود ہو ،اس لئے مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ کسی لالچ کے بغیر تبلیغِ دین کا فریضہ ادا کریں اور حتی الامکان کسی اجرت کے بغیر تبلیغ کے کام کریں۔
{وَ یٰقَوْمِ:اور اے میری قوم!} جب قومِ عاد نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت قبول نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے کفر کے سبب تین سال تک بارش مَوقوف کردی اور نہایت شدیدقحط نمودار ہوا اور اُن کی عورتوں کوبانجھ کردیا ، جب یہ لوگ بہت پریشان ہوئے تو حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے وعدہ فرمایا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں اور اس کے رسول کی تصدیق کریں اور اس کے حضور توبہ و اِستغفار کریں تو اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا اور اُن کی زمینوں کو سرسبز و شاداب کرکے تازہ زندگی عطا فرمائے گااور قوت و اَولاد دے گا۔
استغفار کی برکت:
حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے پاس تشریف لے گئے تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ایک ملازم نے کہا کہ میں مالدار آدمی ہوں مگر میرے ہاں کوئی اولاد نہیں ، مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے اللہ عَزَّوَجَلَّمجھے اولاد دے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: استغفار پڑھا کرو۔ اس نے استغفار کی یہاں تک کثرت کی کہ روزانہ سا ت سو مرتبہ اِستغفار پڑھنے لگا، اس کی برکت سے اس شخص کے دس بیٹے ہوئے، جب یہ بات حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اس شخص سے فرمایا کہ تو نے حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ کیوں نہ دریافت کیا کہ یہ عمل آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہاں سے فرمایا۔ دوسری مرتبہ جب اس شخص کو حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اس نے یہ دریافت کیا۔ حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ تو نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول نہیں سنا جو اُنہوں نے فرمایا ’’ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ‘‘ (اللہ تمہاری قوت کے ساتھ مزید قوت زیادہ کرے گا)اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا یہ ارشاد نہیں سنا ’’یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ‘‘(اللہ مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا) (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۵۰۲)یعنی کثرتِ رزق اور حصولِ اولاد کے لئے اِستغفار کا بکثرت پڑھنا قرآنی عمل ہے۔
{قَالُوْا یٰهُوْدُ:انہوں نے کہا: اے ہود!} حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے مذاق اڑاتے ہوئے اور عناد کے طور پر یہ جواب دیا کہ اے ہود! تم ہمارے پاس کوئی دلیل لے کر نہیں آئی جو تمہارے دعوے کی صحت پر دلالت کرتی ۔ یہ بات اُنہوں نے بالکل غلط اور جھوٹ کہی تھی کیونکہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں جو معجزات دکھائے تھے وہ ان سب سے مکر گئے تھے۔(بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۲۳۹-۲۴۰)
{وَ مَا نَحْنُ بِتَارِكِیْۤ اٰلِهَتِنَا:اور ہم اپنے خداؤں کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔} کفار اِس بات کا اِعتراف کرتے تھے کہ نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے جبکہ اس کے برعکس بت کوئی نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے،اس کے باوجود انہوں نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ کہاکہ ہم آپ کی بات کی وجہ سے اپنے بتوں کی عبادت کرنا نہیں چھوڑیں گے بلکہ ہماری عقل اور ہمارا دل حکم دے گا تو چھوڑیں گے۔ان کی یہ بات اورمزید ان کا یہ کہنا’’ اور نہ ہی تمہاری بات پر یقین کریں گے‘‘ بھی ان کے کفر پر اِصرار،اپنے آباء و اَجداد کی اندھی تقلید اور حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب پر دلالت کرتا ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۵۳، ۶ / ۳۶۴)
{اِنْ نَّقُوْلُ:ہم توصرف یہ کہتے ہیں۔} حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے کہا: ’’ بے شک اے ہود! تم جو ہماری مخالفت کر رہے ہو اور ہمارے بتوں کو برا کہتے ہو اسی وجہ سے ان بتوں نے تم سے اِنتقام لیتے ہوئے تمہیں دیوانہ کردیا ہے۔ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ اب جو کچھ کہتے ہو یہ سب دیوانگی کی باتیں ہیں۔( مَعَاذَاللہ) حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں جواب دیا: ’’میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہوں اور تم سب بھی میری اس بات پر گواہ ہو جاؤ کہ میں ان سب بتوں سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہراتے ہو اور ان کی عبادت کرتے ہو۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۴، ۲ / ۳۵۷-۳۵۸)
{فَكِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا:تم سب مل کر میرے اوپر داؤ چلاؤ ۔} یعنی تم اور وہ بت جنہیں تم معبود سمجھتے ہو سب مل کر مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کرو ، پھر مجھے مہلت نہ دو مجھے تمہاری اور تمہارے معبودوں کی اور تمہاری مَکاریوں کی کچھ پروا نہیں اور مجھے تمہاری شوکت و قوت سے کچھ اندیشہ نہیں کیونکہ جنہیں تم معبود کہتے ہو وہ جَمادات اور بے جان ہیں ،نہ کسی کو نفع پہنچاسکتے ہیں نہ نقصان، اُن کی کیا حقیقت کہ وہ مجھے دیوانہ کرسکیں۔ یہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا معجزہ ہے کہ آپ نے ایک زبردست ، صاحبِ قوت و شوکت قوم سے جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خون کی پیاسی اور جان کی دشمن تھی اس طرح کے کلمات فرمائے اور اصلًا خوف نہ کیا اور وہ قوم انتہائی عداوت اور دشمنی کے باوجود آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کوئی نقصان پہنچانے سے عاجز رہی۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۳۵۸، مدارک، ہود تحت الآیۃ: ۵۵، ص۵۰۲، ملتقطاً)
{اِنِّیْ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّٰهِ:میں نے اللہ پر بھروسہ کرلیا ہے۔} یعنی تم اگرچہ ہر طرح سے کوشش کر کے دیکھ لو لیکن مجھے ہر گز نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّپر توکل اور اسی کی حفاظت پر بھروسہ ہے، وہ میرا ور تمہارا دونوں کا مالک ہے، کوئی چیز مجھے پہنچ نہیں سکتی جب تک وہ اسے دور کر رہا ہے اور نہ ہی کوئی مجھ پر قدرت حاصل کر سکتاہے جب تک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے اسے قدرت حاصل نہ ہو،پھر اس بات کی دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ روئے زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا وہ مالک اور اس پر قادر نہ ہو، تو اللہ عَزَّوَجَلَّ جیسے چاہتا ہے اس میں تَصَرُّف فرماتا ہے۔ (بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۲۴۰-۲۴۱)
{فَاِنْ تَوَلَّوْا:پھر اگر تم منہ پھیرو۔} یعنی جس دین کے ساتھ میں تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں ، اگر تم اس پر ایمان لانے سے اِعراض کرو تو جس دین کے ساتھ مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا تھا میں تمہیں اس کی تبلیغ کرچکا ہوں اور اس میں مجھ سے کوئی کمی واقع نہیں ہوئی البتہ اسے قبول نہ کرنے کی بنا پرتم سے خطا سرزد ہوئی ہے، اگر تم نے ایمان لانے سے اعراض کیا اور جو احکام میں تمہاری طرف لایا ہوں اُنہیں قبول نہ کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں ہلاک کردے گا اور تمہاری بجائے ایک دوسری قوم کو تمہارے شہروں ا ور اَموال کا مالک بنا دے گا جو کہ اس کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے ہوں گے اور اسی کی عبادت کریں گے اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے کیونکہ وہ اس سے پاک ہے کہ اسے کوئی نقصان پہنچ سکے، لہٰذا تمہاری روگردانی کا جو نقصان ہے وہ تمہیں کو پہنچے گا۔ بیشک میرا رب عَزَّوَجَلَّ ہر شے پر نگہبان ہے،وہی تمہارے شرسے میری حفاظت فرمائے گا اورتم میں سے کسی کا قول یا فعل اس سے چھپا ہوا نہیں اور نہ ہی وہ تمہاری پکڑ سے غافل ہے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۷، ۲ / ۳۵۸، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۵۰۳، ملتقطاً)
آیت’’ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں
(1)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَاماپنی امت تک سارے شرعی اَحکام اپنی حیات شریف میں پہنچا دیتے ہیں کوئی بات چھپا نہیں رکھتے۔
(2)… اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ اگر کوئی قوم دین کی خدمت نہ کرے ، تو اللہ تعالیٰ اسے برباد کرکے دوسری قوم اس کی جگہ مقرر فرمادیتا ہے،جیسے ابو جہل وغیرہ نے سرکشی کی تو انہیں ہلاک فرما کر مدینہ طیبہ کے اَنصار سے دین کی خدمت لے لی۔ ہم اس خدائے قادِر و قیوم کے حاجت مند ہیں اور وہ سب سے بے نیاز ہے۔
{وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا:اور جب ہمارا حکم آگیا۔} جب حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو قادر و قدیر اور سچے رب تعالیٰ کی بارگاہ سے ان کے عذاب کا حکم نافذ ہوگیا، جب ان کی ہلاکت اور ان پر عذاب کا حکم آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں کو جن کی تعداد چار ہزار تھی اپنی رحمت کے ساتھ عذاب سے بچا لیا اور قومِ عاد کو ہوا کے عذاب سے ہلاک کردیا۔ مسلمانوں پر رحمت اس طرح ہے کہ جب عذاب نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اس سے محفوظ رکھا اور ارشاد فرمایا کہ جیسے مسلمانوں کو دنیا کے عذاب سے بچایا ایسے ہی اللہ تعالیٰ انہیں آخرت کے سخت عذاب سے بھی نجات دے گا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۸، ۲ / ۳۵۸، ملخصاً)
{وَ تِلْكَ عَادٌ:اور یہ عاد ہیں۔} جب حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قصہ ختم ہو اتو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت سے خطاب فرمایا ۔ ’’تِلْکَ‘‘ سے قومِ عاد کی قبروں اور آثار کی طرف اشارہ ہے اورمقصد یہ ہے کہ زمین میں چلو، انہیں دیکھو اور ان سے عبرت حاصل کرو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کاحال بیان فرمایا کہ انہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں یعنی ان معجزات کا انکار کیا جو حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاملے کر آئے اور انہوں نے اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کی کیونکہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی نافرمانی تمام رسولوں کی نافرمانی ہے اور ان کے جاہلوں نے ہر بڑے ،سرکش اور ہٹ دھرم سردار کی پیروی کی ۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۹، ۲ / ۳۵۸-۳۵۹)
{وَ اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ:اور اس دنیا میں اور قیامت کے دن ان کے پیچھے لعنت لگادی گئی۔} یعنی دنیا اور آخرت دونوں جگہ لعنت ان کے ساتھ ہے اورلعنت کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ہر بھلائی سے دوری۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے برے انجام کا اصلی سبب بیان فرمایا کہ قومِ عاد نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّکے ساتھ کفر کیا اس لئے ان کا اتنا برا انجام ہوا، سن لو! حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد کے لئے رحمتِ الٰہی سے دوری ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۶۰، ۶ / ۳۶۷)
{وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا:اور ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صا لح کوبھیجا۔} اس سورت میں مذکور واقعات میں سے یہ تیسرا واقعہ ہے، اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ ثمود کی طرف ان کے نسبی بھائی حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجا، حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: اے میری قوم!تم اللہ تعالیٰ کو ایک مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ،صرف وہی عبادت کا مستحق ہے جبکہ تمہارے یہ بت عبادت کے لائق ہی نہیں۔پھر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی کمالِ قدرت پر دلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ معبود وہی ہے جس نے تمہارے باپ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو زمین سے پیدا کرکے پھرتمہیں زمین میں بسایا اور زمین کو تم سے آباد کیا تو اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو پھر شرک سے کنارہ کشی کر کے اسی کی طرف رجوع کرو بے شک میرا رب عَزَّوَجَلَّ ایمان والوں کے قریب ہے اور ان کی سننے والا ہے۔امام ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ’’اِسْتَعْمَرَكُمْ‘‘ کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ تمہیں طویل عمریں دیں حتّٰی کہ ان کی عمریں تین سو برس سے لے کر ہزار برس تک ہوئیں۔(بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۲۴۲، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۱، ۲ / ۳۵۹، ملتقطاً)
نوٹ:حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم ثمود کے واقعے کی بعض تفصیلات سورۂ اَعراف آیت نمبر 73تا79 میں گزر چکی ہیں۔
{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} جب حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کے سامنے پیغامِ توحید پیش کیا تو انہوں نے جواب دیا ’’ اے صا لح! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اس تبلیغ سے پہلے تم توہمارے درمیان ایسے تھے کہ ہمیں تم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں اور ہم امید کرتے تھے کہ تم ہمارے سردار بنو گے کیونکہ تم کمزوروں کی مدد کرتے اور فقیروں پر سخاوت کرتے تھے، لیکن جب تم نے توحید کی دعوت دی اور بتوں کی برائیاں بیان کیں تو قوم کی اُمیدیں تم سے ختم ہوگئیں۔ ان لوگوں نے مزید یہ کہا کہ کیا تم ہمیں ان بتوں کی عبادت کرنے سے منع کرتے ہو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے اور بیشک جس توحید کی طرف تم ہمیں بلارہے ہو اس کی طرف سے تو ہم بڑے دھوکے میں ڈالنے والے شک میں ہیں۔(تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۳۶۸، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۲، ۲ / ۳۵۹، ملتقطاً)
{قَالَ یٰقَوْمِ:فرمایا: اے میری قوم!} حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو جواب دیتے ہوئے فرمایا’’ اے میری قوم! مجھے بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے روشن دلیل پر اور منصبِ نبوت پر فائز ہوں ، اس کے باوجود میں بالفرض تمہاری پیروی کروں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کروں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے مجھے کوئی نہیں بچا سکتا اور اس طرح میں نقصان اٹھانے والا اور جو منصب اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا میں ا سے ضائع کرنے والا ہو جاؤں گا، کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام نے کفر کیا ہو۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۹۲۱)تمہاری بات ماننا خسارے میں پڑنے کے سوا کچھ نہیں۔
{وَ یٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً:اور اے میری قوم!یہ تمہارے لئے نشانی کے طور پر اللہ کی اونٹنی ہے۔} قومِ ثمود نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے معجزہ طلب کیا تھا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو پتھر سے بحکمِ الٰہی اونٹنی پیدا ہوئی ، یہ اونٹنی ان کے لئے حضرت صالحعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صداقت پر نشانی اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا معجزہ تھی۔ اس آیت میں اس اونٹنی کے متعلق اَحکام ارشاد فرمائے گئے کہ اسے زمین میں چرنے دو اور کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ ورنہ دنیا ہی میں گرفتار ِعذاب ہوجاؤگے اور مہلت نہ پاؤ گے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۳۶۰، ملخصاً)
{فَعَقَرُوْهَا:تو انہوں نے اس کے پاؤں کے اوپر ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں۔} قومِ ثمود نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی اور بدھ کے دن انہوں نے اس اونٹنی کی ایڑیوں کے اوپر ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں۔ اس کے بعد حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: اپنے گھروں میں تین دن یعنی جمعہ تک جو کچھ دنیا کا عیش کرنا ہے کرلو، ہفتے کے دن تم پر عذاب آجائے گا اورا س کی علامت یہ ہے کہ پہلے دن تمہارے چہرے زرد ہوجائیں گے ، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن یعنی جمعہ کو سیاہ ہو جائیں گے، پھر ہفتے کے دن عذاب نازل ہوگا۔یہ ایک وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا ، چنانچہ ایسے ہی ہوا۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۵، ۲ / ۳۶۰، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۵۰۴، ملتقطاً)
{فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا:پھر جب ہمارا حکم آیا ۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب قومِ ثمود پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کاحکم آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت سے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان پر ایمان لانے والوں کو اس عذاب اور اس دن کی رسوائی سے بچا لیا۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۶۶، ۷ / ۶۴)
{وَ اَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ:اور ظالموں کو چنگھاڑنے پکڑ لیا۔} اس آیت میں قومِ ثمود پر آنے والے عذاب کی کیفیت کا بیان ہے، سورۂ اَعراف میں اِن پر آنے والے عذاب کی کیفیت اس طرح بیان ہوئی کہ
’’فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ‘‘ (اعراف:۷۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو انہیں زلزلے نے پکڑ لیا تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
اور یہاں اس طرح بیان ہوئی کہ ’’اور ظالموں کو چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے ۔‘‘ان دونوں کیفیتوں میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پہلے ہولناک چیخ کی آواز آئی اور اس کے بعد زلزلہ پیدا ہوا ،اس لئے قومِ ثمود کی ہلاکت کو چیخ اور زلزلہ دونوں میں سے کسی کی طرف بھی منسوب کیا جا سکتا ہے۔
{ كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا:گویا وہ کبھی یہاں رہتے ہی نہ تھے۔} یعنی عذاب نازل ہونے کے بعد ان کا حال یہ ہوا کہ گویا وہ کبھی اپنے شہروں میں بسے ہی نہ تھے اور وہ زندہ تھے ہی نہیں ، اے لوگو! سن لو، قومِ ثمود نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور ا س کی نشانیوں کا انکار کیا (جس کے نتیجے میں ان کا یہ انجام ہوا تو تمہیں چاہئے کہ ان کے انجام سے عبرت حاصل کرو اور ان جیسے افعال کرنے سے بچو تاکہ تم ان کی طرح کے عذاب میں مبتلا ہونے سے بچ جاؤ)۔
{وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى:اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ۔} یہ اس سورت میں مذکور چوتھا واقعہ ہے، آیت کا خلاصہ یہ ہے کہسادہ رُو، نوجوانوں کی حسین شکلوں میں فرشتے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس حضرت اسحق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی پیدائش کی خوشخبری لے کر آئے۔ فرشتوں نے سلام کہا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بھی جواب میں فرشتوں کو سلام کہا، پھر تھوڑی ہی دیر میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے اور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے ،اس وقت ایسا اتفاق ہوا کہ پندرہ روز سے کوئی مہمان نہ آیا تھا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اس کا غم تھا اور جب ان مہمانوں کو دیکھا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے لئے کھانا لانے میں جلدی فرمائی، چونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہاں گائے بکثرت تھیں اس لئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت سامنے لایا گیا ۔ (روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۶۹، ۴ / ۱۶۱، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۳۶۰-۳۶۱، ملتقطاً)
گائے کا گوشت سنتِ ابراہیمی کی نیت سے کھائیں :
اس سے معلوم ہوا کہ گائے کا گوشت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دستر خوان پر زیادہ آتا تھا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کو پسندفرماتے تھے ، گائے کا گوشت کھانے والے اگر سنتِ ابراہیمی ادا کرنے کی نیت کریں تو ثواب پائیں گے۔
آیت’’وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَا ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے 4 مسئلے معلوم ہوئے ،
(1)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت بہت شاندار ہوتی ہے کہ ان کی بشارتیں پہلے دی جاتی ہیں۔
(2)… فرشتوں کو رب تعالیٰ نے غیب کا علم بخشا ہے جس سے وہ آئندہ کی خبریں دیتے ہیں۔
(3)… ملاقات کے وقت سلام کرنا سنتِ ملائکہ اور سنتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے۔
(4)… سنت یہ ہے کہ آنے والا سلام کرے ۔
نوٹ: حضرت ابراہیم اور حضرت لوط عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہ واقعات اس سورت کے علاوہ سورۂ حجر آیت نمبر 51تا 77 اور سورۃ الذاریات آیت نمبر 24 تا 37 میں بھی مذکور ہیں۔
{فَلَمَّا رَاٰ:پھر جب دیکھا ۔}یعنی جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ مہمانوں کے ہاتھ بچھڑے کے بھنے ہوئے گوشت کی طرف نہیں بڑھ رہے تو کھانا نہ کھانے کی وجہ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان سے وحشت ہوئی اور دل میں ان کی طرف سے خوف محسوس کیا کہ کہیں یہ کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔ فرشتوں نے جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر خوف کے آثار دیکھے تو انہوں نے کہا: آپ نہ ڈریں کیونکہ ہم فرشتے ہیں اور حضرت لوط عَلَیْہِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں اور فرشتے ہونے کی وجہ سے ہم کھانا نہیں کھارہے تھے۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۳۶۱، بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۲۴۵، ملتقطاً)
{وَ امْرَاَتُهٗ قَآىٕمَةٌ:اور ان کی بیوی کھڑی تھی۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی زوجۂ محترمہ حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاپسِ پردہ کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھیں تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاہنسنے لگیں۔ مفسرین نے ان کی ہنسی کے مختلف اَسباب بیان کئے ہیں۔
(1)…حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی ہلاکت کی خوشخبری سن کر ہنسنے لگیں۔
(2)… بیٹے کی بشارت سن کر خوشی سے ہنسنے لگیں۔
(3)… بڑھاپے میں اولاد پیدا ہونے کا سن کر تعجب کی وجہ سے ہنسنے لگیں ، ا س کے علاوہ اور بھی اَقوال ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو ان کے بیٹے حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی خوشخبری دی اور حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد ان کے بیٹے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بھی خوشخبری دی۔ حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کو خوشخبری دینے کی وجہ یہ تھی کہ اولاد کی خوشی عورتوں کو مردوں سے زیادہ ہوتی ہے، نیز یہ بھی سبب تھا کہ حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے فرزند حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام موجود تھے، اس بشارت کے ضمن میں ایک بشارت یہ بھی تھی کہ حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کی عمر اتنی دراز ہوگی کہ وہ پوتے کو بھی دیکھیں گی۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۹۲۳، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۵۰۵، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۷۱، ۲ / ۳۶۲، ملتقطاً)
{قَالَتْ یٰوَیْلَتٰى:کہا: ہائے تعجب!} حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے جب عادت کے برخلاف معاملہ ہونے کا سنا تو تعجب کرتے ہوئے کہا: کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہو گا حالانکہ میں تو بوڑھی ہوں اور میری عمر 90 سال سے زیادہ ہو چکی ہے اور یہ میرے شوہر بھی بہت زیادہ عمر کے ہیں ، ان کی عمر 120سال ہو چکی ہے، اور زیادہ عمر والوں کے ہاں بیٹا پیدا ہونا بڑی عجیب بات ہے۔(جلالین مع صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۷۲،۳ / ۹۲۳-۹۲۴)
{قَالُوْا:فرشتوں نے کہا۔} فرشتوں کے کلام کے معنی یہ ہیں کہ اے سارہ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا، آپ کے لئے یہ تعجب کا مقام نہیں کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکا تعلق ا س گھرانے سے ہے جو معجزات، عادتوں سے ہٹ کر کاموں کے سرانجام ہونے، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے نازل ہونے کی جگہ بنا ہوا ہے۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۵۰۶)
ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں داخل ہیں :
اس آیت سے ثابت ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں داخل ہیں کیونکہ حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کو اہلِ بیت کہا گیا ہے، لہٰذا حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا اور دیگر ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اہلِ بیت میں شامل ہیں۔ (تفسیرقرطبی، ہود تحت الآیۃ: ۷۳، ۵ / ۵۰، الجزء التاسع) نیز صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ان اَحادیث سے بھی ثابت ہے کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ازواجِ مُطَہرات آپ کے اہلِ بیت میں داخل ہیں ، چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکا ولیمہ گوشت اور روٹی سے کیا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے بھیجا کہ لوگوں کو کھانے کے لئے بلا لاؤں۔ (میں بلانے گیا ) تو میرے ساتھ کچھ حضرات آئے اور وہ کھا کر چلے گئے ، پھر کچھ حضرات آئے اور وہ بھی کھا کر چلے گئے، چنانچہ اسی طرح جنہیں میں بلاتا وہ آتے اور کھا کر چلے جاتے یہاں تک کہ اب مجھے بلانے کے لئے کوئی نہیں مل رہا تھا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ کھانا اٹھا کر رکھ دو۔ تین آدمی اس وقت بھی گھر میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَباہر تشریف لے گئے اور حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکے حجرے کی طرف جا کر فرمایا ’’اے اہلِ بیت! تم پر سلامتی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہو۔ انہوں نے جواب دیا: آپ پر بھی سلامتی اور اللہ عَزَّوَجَلَّکی رحمت ہو، آپ نے اپنی زوجۂ مطہرہ کو کیسا پایا؟ اللہ تعالیٰ آپ کو ان میں برکت عطا فرمائے ۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باری باری تمام ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکے پاس تشریف لے گئے اور ان سے یہی فرماتے رہے جو حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے فرمایا تھا اور وہ بھی اسی طرح جواب عرض کرتی رہیں جس طرح حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا نے کیا تھا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ: لا تدخلوا بیوت النبی الّا ان یؤذن لکم۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۰۵، الحدیث: ۴۷۹۳)
یہی حدیث چند مختلف الفاظ کے ساتھ صحیح مسلم میں بھی موجو د ہے اور اُس میں یہ ہے کہ( لوگوں کو کھانا کھلانے کے بعد) سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاپنی ازواجِ مطہرات کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے فرمایا ’’تم پر سلامتی ہو، اے اہلِ بیت !تم کیسے ہو؟ انہوں نے عرض کی :یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم خیریت سے ہیں ،آپ نے اپنی زوجہ مطہرہ کو کیسا پایا؟ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ بہت اچھا پایا۔(مسلم، کتاب النکاح، باب فضیلۃ اعتاقہ امۃ ثمّ یتزوّجہا، ص۷۴۴، الحدیث: ۸۷(۱۴۲۸))
{فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِیْمَ الرَّوْعُ:پھر جب ابراہیم سے خوف زائل ہوگیا۔} فرشتوں کے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل میں جو خوف پیدا ہوا تھا وہ جب بیٹے کی خوشخبری ملنے کی وجہ سے دور ہوا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ سے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم کے بارے میں کلام اور سوال کرنے لگے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک ’’یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ‘‘ کا معنی ہے ’’ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہمارے بھیجے ہوئے فرشتوں سے قومِ لوط کے بارے میں جھگڑنے لگے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جھگڑنا یعنی کلام اور سوال یہ تھا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرشتوں سے فرمایا ’’ قومِ لوط کی بستیوں میں اگر پچاس ایماندار ہوں تو بھی انہیں ہلاک کرو گے؟ فرشتوں نے کہا :نہیں۔پھر فرمایا: اگر چالیس ہوں ؟ انہوں نے کہا: جب بھی نہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’اگر تیس ہوں ؟ انہوں نے کہا :’’جب بھی نہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماس طرح فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا’’ اگر ایک مرد مسلمان موجود ہو تب بھی ہلاک کردو گے؟ انہوں نے کہا ’’نہیں۔ تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’اس میں حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔ اس پر فرشتوں نے کہا ہمیں معلوم ہے جو وہاں ہیں ، ہم حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے گھر والوں کو بچائیں گے سوائے ان کی بیوی کے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مقصد یہ تھا کہ آپ عذاب میں تاخیر چاہتے تھے تاکہ اس بستی والوں کو کفر اور گناہوں سے باز آنے کے لئے ایک فرصت اور مل جائے ۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۳۶۲-۳۶۳)
{اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ:بیشک ابراہیم۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بہت مدح و تعریف کی گئی ہے،جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو یہ معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے آئے ہیں تو آپ کو بہت زیادہ رنج ہوا اور آپ اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی صفت میں ارشاد فرمایا کہ بیشک حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حَلِیۡم یعنی بڑے تحمل والے اور اَوّٰہٌ یعنی اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے اور اس کے سامنے بہت آہ و زاری کرنے والے ہیں۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی صفت میں ’’ مُّنِیۡبٌ‘‘ اس لئے فرمایا کہ جو شخص دوسروں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی بنا پراللہ تعالیٰ سے ڈرتا اور اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اپنے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے کس قدر ڈرنے والا اور اس کی طرف رجوع کرنے والا ہوگا۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۷۵، ۶ / ۳۷۷، ملخصاً) سُبْحَانَ اللہ کتنی پیاری صفات ہیں۔
{یٰۤاِبْرٰهِیْمُ:اے ابراہیم !} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا فرشتوں سے سلام اور کلام کا سلسلہ دراز ہوا تو فرشتوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: اے ابراہیم! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اب اس بحث کو ختم کر دیں کیونکہ آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل ہونے کا فیصلہ ہو چکا ہے لہٰذا اس عذاب کے ٹلنے کی اب کوئی صورت نہیں۔ (تفسیرطبری، ہود، تحت الآیۃ: ۷۵، ۷ / ۷۹، ملخصاً)
تقدیر مبرم سے متعلق دو مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے
(1)… تقدیر مبرم کسی صورت میں نہیں ٹل سکتی ۔
(2)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں وہ عزت ہے کہ رب عَزَّوَجَلَّان کو تقدیر مبرم کے خلاف دعا کرنے سے روک دیتا ہے، تا کہ ان کی زبان خالی نہ جائے۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ تقدیر کی تین قسمیں ہیں (۱) مبرمِ حقیقی، کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کسی شے پر مُعلق نہیں۔ (۲) معلقِ محض، کہ فرشتوں کے صحیفوں میں کسی چیز پر ا س کا معلق ہونا ظاہر فرما دیا گیا ہے۔ (۳) معلق شبیہ بَہ مبرم، کہ فرشتوں کے صحیفوں میں اُس کا معلق ہونا مذکور نہیں اور اللہ تعالیٰ کے علم میں کسی چیز پر معلق ہے۔ ان کا حکم یہ ہے کہ وہ تقدیر جو مبرمِ حقیقی ہے اس کی تبدیلی ناممکن ہے، اگر اتفاقی طور پراَکابر محبوبانِ خدا اس کے بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو انہیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے، اور وہ تقدیر جس کا معلق ہونا ظاہر ہے اس تک اکثر اولیاء کی رسائی ہوتی ہے اور یہ ان کی دعا سے اور ان کی ہمت سے ٹل جاتی ہے اور وہ تقدیر جو متوسط حالت میں ہے جسے فرشتوں کے صحیفوں کے اعتبار سے مبرم بھی کہہ سکتے ہیں ، اس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے۔ (بہار شریعت،حصہ اول، عقائد متعلقۂ ذات وصفات، ۱ / ۱۲، ۱۴، ملخصاً)
{وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا:اور جب لوط کے پاس ہمارے فرشتے آئے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس سے ہو کر فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس آئے، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب ان کی ہیئت اور حسن وجمال کو دیکھا تو قوم کی خباثت اور بدعملی کا خیال کرکے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان خوبصورت لڑکوں کی وجہ سے غمگین ہوئے اور ان کا دل تنگ ہوا کیونکہ ایک تو وہ مہمان تھے اور دوسرے وہ انتہائی خوبصورت تھے، اس لئے ان کے بارے میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم کی طرف سے خوفزدہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ یہ بڑا سختی کا دن ہے۔
مروی ہے کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم یہ تھا کہ وہ قومِ لوط کو اس وقت تک ہلاک نہ کریں جب تک کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود اس قوم کی بدعملی پر چار مرتبہ گواہی نہ دیں ، چنانچہ جب یہ فرشتے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ملے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ کیا تمہیں اس بستی والوں کا حال معلوم نہ تھا؟ فرشتوں نے کہا :ان کا کیا حال ہے؟ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ عمل کے اعتبار سے روئے زمین پر یہ بدترین بستی ہے اور یہ بات آپ نے چار مرتبہ فرمائی۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی بیوی جو کہ کافرہ تھی وہ نکلی اور اس نے اپنی قوم کو جا کر خبر دی کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہاں ایسے خوبرو اور حسین مہمان آئے ہیں جن کی مثل اب تک کوئی شخص نظر نہیں آیا۔(جلالین، ہود، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۱۸۶، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۵۰۷، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۷۷، ۲ / ۳۶۳، ملتقطاً)
{وَ جَآءَهٗ قَوْمُهٗ یُهْرَعُوْنَ اِلَیْهِ:اور ان کے پاس ان کی قوم دوڑتی ہوئی آئی۔} حضرت لوطعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے مہمانوں کے ساتھ گھر میں ہی تھے کہ آپ کی قوم کے لوگ آپ کے مہمانوں کے ساتھ بے حیائی کا کام کرنے کی غرض سے دوڑتے ہوئے آئے، وہ لوگ اس سے پہلے ہی برے کاموں کے عادی تھے اور شرم و حیا سے بالکل عاری ہو چکے تھے۔ انہیں دیکھ کر حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی قوم سے فرمایا ’’ اے میری قوم! یہ جومیری قوم کی بیٹیاں ہیں ، یہ تمہارے لیے نکاح کی صورت میں پاکیزہ ہیں تو اپنی بیویوں سے فائدہ حاصل کرو کہ وہ تمہارے لئے حلال ہے ، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان کی عورتوں کو جو قوم کی بیٹیاں تھیں بزرگانہ شفقت سے اپنی بیٹیاں فرمایا تاکہ اس حسنِ اخلاق سے وہ فائدہ اٹھائیں اور غیرت و حَمِیَّت سیکھیں۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے کفر و سرکشی سے باز آجاؤ اور میرے مہمانوں سے کوئی برا فعل سر انجام دے کر مجھے ان کے سامنے شرمندہ مت کرو ،کیا تم میں ایک بھی کوئی ایسا نیک آدمی نہیں کہ جس کی بات مان کر تم اس برے فعل سے باز آ جاؤ؟ (بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۲۴۷-۲۴۸، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۷۸، ۲ / ۳۶۴، ملتقطاً)
{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت فرمائی اور مہمانوں کے سامنے رسوا کرنے سے روکا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم نے اس نصیحت سے اعراض کرتے ہوئے کہا ’’آپ جانتے ہیں کہ آپ کی قوم کی بیٹیوں سے نکاح کرنے کی ہمیں کوئی حاجت نہیں اور نہ ہی ہمیں ان کی طرف کوئی رغبت ہے اور جو ہماری خواہش ہے وہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ (ابوسعود، ہود، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۵۴)
{قَالَ:فرمایا۔} جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو یقین ہو گیا کہ قوم اپنے ارادے سے باز نہیں آئے گی تو آپ نے افسوس کرتے ہوئے فرمایا ’’اے کاش! مجھے تم سے مقابلہ کرنے کی طاقت ہوتی یا میں ایسا قبیلہ رکھتا جو میری مدد کرتا تو میں تم سے مقابلہ اور جنگ کرتا ۔ (ابوسعود، ہود، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۵۴، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۰، ۲ / ۳۶۴، ملتقطاً)
{قَالُوْا:فرشتوں نے عرض کی۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے مکان کا دروازہ بند کرلیا تھا اور اندر سے یہ گفتگو فرما رہے تھے ، قوم نے چاہا کہ دیوار توڑ دیں ، فرشتوں نے جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا رنج اور بے چینی دیکھی تو عرض کی: اے لوط! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ کا پایہ مضبوط ہے، ہم ان لوگوں کو عذاب کرنے کے لئے آئے ہیں ، آپ ایسا کریں کہ دروازہ کھول دیں ،پھر ہمیں اور انہیں چھوڑ دیں ، یہ لوگ آپ تک ہر گز نہیں پہنچ سکیں گے اور نہ ہی آپ کو کوئی نقصان پہنچا سکیں گے ۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے دروازہ کھول دیا توقوم کے لوگ مکان میں گھس آئے ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنا بازو ان کے چہروں پر مارا تو وہ سب اندھے ہوگئے اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مکان سے نکل کر بھاگے، انہیں راستہ نظر نہیں آتا تھا اور وہ یہ کہتے جاتے تھے’’ ہائے! ہائے! لوط کے گھر میں بڑے جادو گر ہیں ، انہوں نے ہم پرجادو کر دیا ہے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۱، ۲ / ۳۶۴-۳۶۵)
{فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ:توآپ اپنے گھر والوں کو راتوں رات لے جائیں۔} فرشتوں کے اس کلام کا ایک معنی یہ ہے کہ اے لوط! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ اپنے گھر والوں کو راتوں رات یہاں سے لے جائیں اور آپ میں سے کوئی پیٹھ پھیر کر نہ دیکھے لیکن آپ کی بیوی پیٹھ پھیر کر دیکھ لے گی کیونکہ اسے بھی وہی عذاب پہنچنا ہے جو ان کافروں کو پہنچے گا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے لوط!عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ اپنے گھر والوں کو راتوں رات یہاں سے لے جائیں اور آپ میں سے کوئی پیٹھ پھیر کر نہ دیکھے البتہ اپنی بیوی کو ساتھ لے کر نہ جائیں کیونکہ اسے بھی وہی عذاب پہنچنا ہے جو ان کافروں کو پہنچے گا۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۱، ۶ / ۳۸۱-۳۸۲)
{اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ: بیشک ان کا وعدہ صبح کے وقت کا ہے۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرشتوں سے کہا :’’یہ عذاب کب ہوگا؟فرشتوں نے جواب دیا’’ بیشک ان کے عذاب کا وعدہ صبح کے وقت کا ہے۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ میں تو اس سے جلدی چاہتا ہوں۔فرشتوں نے عرض کی ’’صبح قریب ہی ہے آپ اسے دور نہ سمجھیں۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۱، ۲ / ۳۶۵)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan