Surah Ghafir
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{حٰمٓ} ان حروف کا تعلق حروفِ مُقَطَّعات سے ہے اور ان کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔
{تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ: کتاب کا نازل فرمانا اللہ کی طرف سے ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی طرف سے نہیں بنایا بلکہ یہ وہ کتاب ہے جسے اس اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے جس کی شان یہ ہے کہ وہ عزت والا ہے اور تمام معلومات کا علم رکھنے والا ہے۔ (روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲، ۸ / ۱۵۰)
یاد رہے کہ قرآنِ کریم وہ عظیم الشّان کتاب ہے جسے نازل فرمانے والا عزت و علم والا، لانے والا بھی عزت و علم والا، جس نبی کی طرف لایا گیا وہ بھی عزت و علم والا ہے اور جو اس قرآن کو پڑھتا، سمجھتا اور عمل کرتا ہے وہ بھی عزت و علم والا ہوجاتا ہے البتہ یہاں یہ فرق ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ کاعزت والا اور علم والا ہونا ذاتی ہے کسی کا دیا ہو انہیں ، نیز اللہ تعالیٰ کا علم کسی آلے یا غورو فکر کامحتاج نہیں ،اس کا علم اَزلی اور اَبدی ہے کہ نہ اس کی کسی وقت سے کوئی ابتداء ہے اور نہ انتہا،اس کے علم کا ہونا ضروری ہے اور نہ ہونا محال ہے،اس کا علم دائمی ہے،اس میں تبدیلی اور تَغَیُّر محال ہے اور اس کا علم انتہائی کامل ہے جبکہ مخلوق کاعزت اور علم والا ہونا اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہے اور جواوصاف اللہ تعالیٰ کے علم کے ہیں وہ مخلوق کے علم کے ہر گز نہیں ہیں ۔
{ غَافِرِ الذَّنْۢبِ: گناہ بخشنے والا۔} اس آیت ِمبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مزید6اَوصاف بیان فرمائے ہیں ۔
(1)…وہ گناہ بخشنے والا ہے۔جو مسلمان اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے اس کے گناہوں کی بخشش کا تو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور وہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں فرماتا البتہ توبہ کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ جس مسلمان کے چاہے گناہ بخش دے ،اور یہ اس کا فضل و کرم اور احسان ہے ۔ مفسرین نے ’’غَافِرْ‘‘ کا ایک معنی ساتِر یعنی’’ چھپانے والا‘‘ بھی بیان کیا ہے۔ اس صورت میں ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ‘‘ کا معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے صغیرہ کبیرہ تمام گناہوں اور خطاؤں کو محض اپنے فضل سے دنیا میں چھپانے والا ہے اور قیامت کے دن بھی چھپائے گا ۔
(2)…وہ توبہ قبول فرمانے والا ہے۔جو کافر اپنے کفر سے اور جو مومن اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ا س کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اگرچہ اس نے موت سے چند لمحے پہلے ہی توبہ کیوں نہ کی ہو۔
(3)… سخت عذاب دینے والا ہے۔اللہ تعالیٰ کافروں کو ان کے کفر کی وجہ سے جہنم میں سخت عذاب دے گا، البتہ یاد رہے کہ بعض گناہگار مسلمان بھی ایسے ہوں گے جن کے گناہوں کی بنا پر انہیں جہنم کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ۔
(4)…بڑے انعام والاہے۔جو لوگ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ بڑے انعام عطا فرمانے والا ہے۔
(5)…اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔اس آیت میں فضل و رحمت کے جو اَوصاف بیان ہوئے یہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہیں ، اس کے علاوہ اور کسی کی ایسی صفات نہیں ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی ایسے وصف نہیں رکھتا تو اس کے علاوہ کوئی اور معبود بھی نہیں ہے۔
(6)…اسی کی طرف پھرنا ہے ۔جب قیامت کے دن لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو سبھی نے اپنے اعمال کا حساب دینے اور ان کی جزا پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے خواہ وہ خوشی سے جائے یا اسے جَبری طور پر لے کرجایا جائے۔
گناہوں سے توبہ کرنے اور عملی حالت سدھارنے کی ترغیب:
جب اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ گناہوں کو بخشنے والا بھی ہے اورکافروں اور گناہگاروں کی توبہ قبول فرمانے والا بھی ہے،سخت عذاب دینے والا بھی ہے اور انعام و احسان فرمانے والا بھی ہے ،وہی اکیلا معبود ہے اور سبھی کو اپنے اعمال کا حساب دینے اور ان کی جزا پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا بھی ہے، تو ہر کافر اور گناہگار مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے کفر اور گناہوں سے سچی توبہ کرے ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے، اس کے عذاب سے ڈرتا اور اس سے پناہ مانگتارہے ،اس کے انعام اور احسان کو پانے کی کوشش کرے،صرف اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرے اور آخرت میں ہونے والے حساب کی دنیا میں ہی تیاری کرے۔انہی چیزوں کی ترغیب اور حکم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵)اُولٰٓىٕكَ جَزَآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ‘‘(اٰل عمران:۱۳۵،۱۳۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب کسی بے حیائی کا ارتکاب کرلیں یا اپنی جانوں پر ظلم کرلیں تو اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اللہ کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور یہ لوگ جان بوجھ کر اپنے برے اعمال پر اصرار نہ کریں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے بخشش ہے اور وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ (یہ لوگ) ہمیشہ ان (جنتوں ) میں رہیں گے اور نیک اعمال کرنے والوں کا کتنا اچھا بدلہ ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰) یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا ‘‘(احزاب:۷۰،۷۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہاکرو۔ اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی توبہ کرنے اور اپنی آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
اس آیت کے متعلق ایک واقعہ:
حضرت یزید بن اصم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ ایک آدمی بڑاطاقتورتھااورشام کے لوگوں سے تعلق رکھتا تھا ۔ حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے اپنے پاس نہ پایا تواس کے بارے میں پوچھا۔ عرض کی گئی: وہ تو شراب کے نشے میں دُھت ہے ۔حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کاتب کوبلایا اوراس سے فرمایا:لکھو!عمربن خطاب کی جانب سے فلاں بن فلاں کے نام، تم پرسلام ہو۔میں تمہارے سامنے اس اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کرتا ہوں جس کے سواکوئی معبود نہیں ۔ ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِۙ-ذِی الطَّوْلِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ‘‘ پھر آپ نے دعاکی اورجولوگ آپ کے پاس تھے انہوں نے آمین کہی۔ انہوں نے اس آدمی کے حق میں یہ دعاکی کہ اللہ تعالیٰ اس پرنظر ِرحمت فرمائے اوراس کی توبہ قبول فرمائے۔ جب وہ خط اس آدمی تک پہنچا تووہ اسے پڑھنے لگا اور ساتھ میں یوں کہتا ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ‘‘ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے بخشش کاوعدہ کیاہے ۔ ’’وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ‘‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے عذاب سے ڈرایا۔ ’’ذِی الطَّوْلِ‘‘ بہت زیادہ انعام فرمانے والاہے۔ ’’اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ‘‘ وہ بار بار اسے اپنے اوپردہراتارہایہاں تک کے رونے لگا،پھراس نے گناہوں سے توبہ کی اوربہترین توبہ کی ۔جب حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تک اس کا معاملہ پہنچاتوآپ نے فرمایا:تم اسی طرح کیاکرو کہ جب تم کسی کو لغزش کی حالت میں دیکھو تو اسے درست ہونے کا موقع دو،نیزاللہ تعالیٰ سے دعاکروکہ وہ توبہ کرلے اور اس کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بن جاؤ۔( درمنثور، غافر، تحت الآیۃ: ۳، ۷ / ۲۷۰-۲۷۱)
اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو کسی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بارے میں جاننے کے بعد اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جس سے وہ اپنے گناہوں سے باز آنے کی بجائے اور زیادہ گناہوں پر بے باک ہو جاتا ہے، انہیں چاہئے کہ گناہگار سے نفرت نہ کریں بلکہ اس کے گناہ سے نفرت کریں اور ا سے اس طرح نصیحت کریں جس سے اسے گناہ چھوڑ دینے اور نیک اعمال کرنے کی رغبت ملے ،وہ اپنے اعمال کی اصلاح کرنے اور گناہوں سے توبہ کرنے کی طرف مائل ہو اور پرہیزگار انسان بننے کی کوشش شروع کردے،نیز اس کی اصلاح اور توبہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو بھی رہے ،اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اسے گناہوں سے توبہ اور نیک اعمال کرنے کی توفیق مل جائے گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں گناہگار مسلمانوں کی احسن انداز میں اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
{مَا یُجَادِلُ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اللہ کی آیتوں میں کافر ہی جھگڑا کرتے ہیں ۔} یعنی قرآن مجید کو جھٹلانا،اس کی آیتوں کا انکار کرنا،قرآن کریم پر اعتراض کرنا،اسے جادو،شعر،کہانت اور سابقہ لوگوں کی کہانیاں کہنا کافروں کا ہی کام ہے۔
قرآنِ مجید کے بارے میں جھگڑا کرنے سے متعلق4 اَحادیث:۔
اس سے معلوم ہو اکہ قرآنِ پاک کے بارے میں جھگڑاکرنا کسی مومن کا کام نہیں بلکہ کافر کا کام ہے ۔ یہاں قرآنی آیات میں جھگڑا اور اختلاف کرنے سے متعلق 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرورِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔( ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب النّہی عن الجدال فی القرآن، ۴ / ۲۶۵، الحدیث: ۴۶۰۳)
(2)…حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قرآنِ مجید میں جھگڑا نہ کرو کیونکہ اس میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔( معجم الکبیر، عبد اللّٰہ بن عبد الرّحمٰن عن زید بن ثابت، ۵ / ۱۵۲، الحدیث: ۴۹۱۶)
(3)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ایک دن میں حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے دو شخصوں کی آواز یں سنیں جو کسی آیت میں اختلاف کررہے تھے۔ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس اس طرح تشریف لائے کہ چہرۂ انور میں غصہ معلوم ہوتا تھا،ارشاد فرمایا’’ تم سے پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں اختلاف کرنے کی وجہ سے ہی ہلاک ہوگئے۔ (مسلم، کتاب العلم، باب النّہی عن اتباع متشابہ القرآن... الخ، ص۱۴۳۳، الحدیث: ۲(۲۶۶۶))
(4)…حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک جماعت کو قرآنِ مجید میں جھگڑا کرتے سنا تو ارشاد فرمایا ’’ اس حرکت کی وجہ سے تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوگئے کہ انہوں نے کتاب کے ایک حصے کو دوسرے حصے کے مخالف دکھایا۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب تو اس لیے اتری ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تصدیق کرے، لہٰذا تم ایک حصے کو دوسرے حصے سے جھٹلاؤ نہیں بلکہ کتاب میں سے جس قدر جانتے ہو اتنا کہو اور جو نہیں جانتے اسے عالِم کے سپرد کرو۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہما، ۲ / ۶۱۱، الحدیث: ۶۷۵۳)
قرآنِ مجید کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرنے کی صورتیں :
یادرہے کہ قرآنِ مجید کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرنے کی مختلف صورتیں ہیں جن میں سے بعض صورتیں ، کفر، بعض کفر کے قریب اور حرام ہیں ،مثلاً قرآنِ پاک کو جادو، شعر ، کہانَت اور سابقہ لوگوں کی داستان کہنا، جیسا کہ کفارِ مکہ کہا کرتے تھے،یہ کفر ہے۔ یونہی قرآنِ عظیم کو اپنی رائے کے مطابق بنانے میں جھگڑنا کہ ہر ایک اپنی رائے اور ایجاد کردہ مذہب کے مطابق اس کا ترجمہ یا تفسیر کرے۔ یہ کفر بھی ہوسکتا ہے اور ضلالت و گمراہی بھی ۔اسی طرح بغیر علم کے قرآن کا مطلب بیان کرنا حرام اور اپنے بیان کردہ مطلب کے درست ہونے پر اِصرار مزید حرام ہے۔
نوٹ:آیت اور اَحادیث میں جو قرآنِ کریم میں جھگڑا کرنے کا ذکر ہے اس سے مذکورہ بالا صورتیں مراد ہیں جبکہ مشکل مقامات کو حل کرنے اور پیچیدہ مسائل کو واضح کرنے کے لئے علمی اور اصولی بحثیں کرنا جیسا کہ ممتاز مفسرین اور مُجتہدین نے کیا، ان کا اس جھگڑے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بہت بڑی عبادات میں سے ہیں نیز مفسرین اور مجتہدین کا جو اختلاف ہے وہ جھگڑا نہیں بلکہ تحقیق ہے۔
{فَلَا یَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ: تو اے سننے والے! ان کا شہروں میں چلنا پھرنا تجھے دھوکا نہ دے۔} یعنی اے سننے والے! کافروں کا صحت اور سلامتی کے ساتھ اپنے شہروں میں یا ایک ملک سے دوسرے ملک تجارتیں کرتے پھرنا اور نفع پانا تمہارے لئے تَرَدُّد کا باعث نہ ہو کہ یہ کفر جیسا عظیم جرم کرنے کے بعد بھی عذاب سے امن میں کیوں ہیں ، کیونکہ ان کا آخری انجام خواری اور عذاب ہے ۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۶۵-۶۶، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۰۵۱، ملتقطاً)
{كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَعْدِهِمْ: ان سے پہلے نوح کی قوم اور ان کے بعد کے گروہوں نے جھٹلایا۔} اس سے پہلی آیت میں بیان فرمایا گیاکہ کافر وں کا انجام ذلت و خواری اور عذاب میں مبتلا ہونا ہے اور اب یہاں سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ پہلی امتوں میں بھی ایسے حالات گزر چکے ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ان کفارِ مکہ سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور ان کے بعد کے گروہوں جیسے عاد،ثمود اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم وغیرہ نے اپنے نبیوں اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایااور ان میں سے ہر امت نے یہ ارادہ کیا کہ وہ اپنے رسول عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پکڑ لیں اور اسے شہید کر دیں اور وہ لوگ باطل کے ساتھ جھگڑا کرتے رہے تا کہ اِس کے ذریعے اُس حق کومٹا دیں جسے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لے کر آئے ہیں ، جب انہوں نے اپنے رسول عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پکڑنے کا ارادہ کیا تو میں نے انہیں پکڑلیا،تو اے لوگو! تم ان کے شہروں سے گزرتے ہوئے دیکھ لو کہ ان پر میرا آنے والا عذاب کیسا ہوا ؟کیا ان میں کوئی اس عذاب سے بچ سکا۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۶۶، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۰۵۱، ملتقطاً)
سابقہ امتوں کے احوال میں موجودہ زمانے کے کفار کیلئے عبرت ہے:
اس آیت میں سابقہ امتوں کے جو اَحوال اور اپنے رسولوں کے ساتھ ان کا جو طرزِ عمل بیان کیا گیا اور اس بنا پر ان کا جو حال ہوا اس میں اسلام کے ابتدائی زمانے کے کفار اور بعد والے ان تمام لوگوں کے لئے عبرت اور نصیحت ہے جو سابقہ امتوں کی رَوِش پر عمل پیرا ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرما کر اور قرآنِ پاک میں اپنی وحدانیّت، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت اور اسلام کی حقّانیّت پر روشن اور مضبوط ترین دلائل بیان فرما کر تمام حجتیں پوری کر دیں اور قیامت تک آنے والے کسی بھی فردکے لئے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا،اس کے باوجود بھی اب کوئی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے اوراللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا اقرار کر کے دینِ اسلام میں داخل نہ ہو بلکہ الٹا باطل کو حق ثابت کرنے کی کوشش کرے تو اسے چاہئے کہ ایسی صورتِ حال میں اللہ تعالیٰ کے اَزلی قانون کے مطابق عذابِ الٰہی کا انتظار کرے۔
{وَ كَذٰلِكَ: اور یونہی۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح سابقہ جھٹلانے والی اور اپنے رسولوں کے ساتھ باطل جھگڑا کرنے والی امتوں پر عذاب سے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم اور اس کی قضا جاری ہوئی اسی طرح آپ کو جھٹلانے والے اور آپ کے خلاف سازشیں کرنے والے کفار پر بھی اللہ تعالیٰ کی بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہ جہنمی ہیں ۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶، ۸ / ۱۵۴)یاد رہے کہ اس آیت میں کافروں سے وہ مراد ہیں جن کی موت کفرپرہوگی اوریہ کافرہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے ۔
عبرت کا نشان بننے سے پہلے عبرت حاصل کر لیں :
{اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَهٗ: عرش اٹھانے والے اور اس کے ارد گرد موجود (فرشتے)۔} اس سے پہلی آیات میں بتایا گیاکہ کفار و مشرکین ایمان والوں سے بہت زیادہ عداوت اور دشمنی رکھتے اور انہیں نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں اور اس آیت سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ عرش اٹھانے والے اور اس کے اردگرد موجود فرشتے جو کہ بہت افضل مخلوق ہیں وہ ایمان والوں سے انتہائی محبت اور الفت رکھتے ہیں اور ان کی بھلائی چاہنے میں مشغول رہتے ہیں ، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ عرش اٹھانے والے فرشتے جوبارگاہِ الٰہی میں خاص قرب اور شرف رکھتے ہیں نیزعرش کے ارد گرد موجود وہ فرشتے جو عرش کا طواف کر رہے ہیں ،یہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور سُبْحَانَ اللہ وَبِحَمْدِہٖ کہتے ہیں اور یہ فرشتے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے اور اس کی وحدانیّت کی تصدیق کرتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے بخشش مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس طرح عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، تیری رحمت اور علم ہرشے سے وسیع ہے، تو انہیں بخش دے جو اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور تیرے دین اسلام کے راستے کی پیروی کریں اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، انہیں ہمیشہ رہنے کے ان باغوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے اور ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں ان کو بھی ان باغات میں داخل فرما ،بیشک تو ہی عزت والا، حکمت والا ہے،اور انہیں گناہوں کی شامت سے بچالے اور گناہوں کا عذاب ان سے دور کر دے اور جسے تونے قیامت کے دن گناہوں کی شامت سے بچالیا تو بیشک تو نے اس پر رحم فرمایااور یہ عذاب سے بچالیا جانا ہی بڑی کامیابی ہے۔ لہٰذا اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر یہ مشرکین آپ کی پیروی کرنے والوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں تو آپ ان کی پرواہ نہ کریں کیونکہ مخلوق کے بہترین افراد آپ کی پیروی کرنے والوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۷-۹، ۹ / ۴۸۷-۴۹۳، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۷-۹، ۴ / ۶۶-۶۷، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۷-۹، ص۳۹۱، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۷-۹، ۸ / ۱۵۵-۱۶۰، ملتقطاً)
عرش اٹھانے والے فرشتوں کی تعداد اور ان کی تسبیح:
ایک قول یہ ہے کہ ابھی عرش اٹھانے والے فرشتوں کی تعداد چار ہے اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی تعداد میں اضافہ فرما کر انہیں آٹھ کر دے گا ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَىٕذٍ ثَمٰنِیَةٌ‘‘(حاقہ:۱۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اس دن آٹھ فرشتے تمہارے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائیں گے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ اِس وقت وہی آٹھ فرشتے اللہ تعالیٰ کا عرش اٹھائے ہوئے ہیں جو قیامت کے دن اٹھائیں گے ۔
حضرت شہربن حو شب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ عرش اٹھانے والے فرشتے آٹھ ہیں ،ان میں سے چار کی تسبیح یہ ہے ’’سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَکَ الْحَمْدُ عَلٰی حِلْمِکَ بَعْدَ عِلْمِکَ‘‘ یعنی اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو پاک ہے اور تیری ہی حمد ہے،اپنے علم کے بعد اپنے حِلم پر تو ہی حمد کا مستحق ہے۔‘‘اور چار کی تسبیح یہ ہے: ’’سُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَکَ الْحَمْدُ عَلیٰ عَفْوِکَ بَعْدَ قُدْرَتِکَ‘‘ یعنی اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو پاک ہے اور تیری ہی حمد ہے،اپنی قدرت کے بعد اپنے عفو پر تو ہی حمد کا مستحق ہے۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۶۷، تفسیرکبیر، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۱۰ / ۶۲۶، ابن کثیر، غافر، تحت الآیۃ: ۷، ۷ / ۱۱۹، ملتقطاً)
سورۂِ مومن کی آیت نمبر7،8اور9سے معلوم ہونے والے مسائل:
ان آیات سے 9مسئلے معلوم ہوئے ،
(1)…ایمان ایک بہت بڑا شرف اور فضیلت ہے کہ یہ فرشتوں جیسی عظیم مخلوق کیلئے بھی باعث ِ شرف ہے ۔
(2)… مومن بڑی عزت والے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مُقَرَّب فرشتوں کی زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ ان کا ذکر بھی ہو رہا ہے اور ان کے لئے دعائیں بھی ہو رہی ہیں ۔
(3)…فرشتوں کی شفاعت برحق ہے کہ وہ مومنوں کے لئے آج بھی دعائے مغفرت کر رہے ہیں ۔
(4)… مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ ان فرشتوں کا ذکر خیر سے کیا کریں اور ان کے لئے دعائے خیر کیا کریں کیونکہ نیکی کا بدلہ نیکی ہے۔
(5)… مسلمانوں کے لئے غائبانہ اور کسی غرض کے بغیر دعا کرنا فرشتوں کی سنت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ ہے ۔
(6)… مُقَدّس مقامات پر جا کر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کے ساتھ مسلمان بھائیوں کے لئے دعا مانگنی قبولیت کے زیادہ قریب ہے ، لہٰذا حاجی کو چاہیے کہ کعبہ معظمہ اور سنہری جالیوں پر تمام مسلمان بھائیوں کے لئے دعا کرے۔
(7)… دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا فرشتوں کی سنت ہے۔
(8)…توبہ کرنے والے شخص کی برکت ا س کے والدین اور بیوی بچوں کو بھی پہنچتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں بھی جنت اور ا س کی نعمتیں حاصل ہوجاتی ہیں ۔حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب مومن جنت میں داخل ہوگاتوپوچھے گامیراباپ کہاں ہے؟ میری ماں کہاں ہے ؟ میرے بچے کہاں ہیں ؟میری بیوی کہاں ہے؟ اسے بتایاجائے گاکہ انہوں نے تیری طرح نیک اعمال نہیں کیے ،اس لیے وہ یہاں موجود نہیں تووہ جنتی جواب میں کہے گا:میں اپنے لیے اوران کے لیے نیک اعمال کیاکرتاتھا۔پھرکہاجائے گاکہ اُن لوگوں کوبھی جنت میں داخل کردو۔( بغوی، غافر، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۸۲)
(9)…حقیقی اور اصل کامیابی یہ ہے کہ قیامت کے دن بندے کے گناہ معاف کر دئیے جائیں اور اسے جہنم کے عذاب سے بچا لیا جائے ۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنَادَوْنَ: بیشک کافروں کو ندا دی جائے گی۔} اس سے پہلی آیتوں میں ان کافروں کے احوال بیان کئے گئے جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے تھے اور اب یہاں سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن وہ اپنے گناہوں کا اور اپنے اوپر نازل ہونے والے عذاب کے حقدار ہونے کا اعتراف کریں گے اور دنیا کی طرف لوٹا دئیے جانے کا سوال کریں گے تاکہ وہ اپنی کوتاہیوں کا اِزالہ کرلیں ۔چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن جب کافر جہنم میں داخل ہوں گے اور ان کی بَدیاں ان پر پیش کی جائیں گی اور وہ عذاب دیکھیں گے تو اس وقت وہ اپنے آپ پر غصہ کریں گے اور اپنی جانوں سے بیزار ہو جائیں گے ،اس پر فرشتے ان سے کہیں گے: یقینا اللہ تعالیٰ کا تم پر غضب اور ناراضی اس سے کہیں زیادہ ہے جتناآج تمہیں اپنی جانوں پر غصہ آ رہا ہے اور ان سے تم بیزار ہو رہے ہو کیونکہ جب تمہیں دنیا میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پرایمان لانے کی طرف بلایا جاتا تو تم اس کا انکار کرتے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفرکیا کرتے تھے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی جس ناراضی کا ذکر ہے اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ناراضی ہے جو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کافروں پر فرمائے گا اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ناراضی ہے جو اللہ تعالیٰ اس وقت فرماتا تھا جب دنیا میں کافر اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا انکار کرتے اور اس کے ساتھ شرک کیا کرتے تھے۔( تفسیر کبیر ، المؤمن ، تحت الآیۃ : ۱۰، ۹ / ۴۹۳- ۴۹۴ ، خازن ، حم المؤمن ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۶۷، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۰، ۸ / ۱۶۰-۱۶۱، ملتقطاً)
{قَالُوْا رَبَّنَا: وہ کہیں گے: اے ہمارے رب!۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جہنم میں فرشتوں کی ندا سن کر کفار کہیں گے :اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو نے ہمیں دومرتبہ موت دی اور دومرتبہ زندہ کیا اور اب ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا ہے اور ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرکے جو گناہ کیا کرتے تھے اب ہمیں اس کا اعتراف ہے ، توکیا جہنم سے نکل کر دنیا کی طرف جانے کا کوئی راستہ ہے تاکہ ہم اپنے اعمال کی اصلاح کر لیں اور صرف تیری ہی اطاعت کریں ؟اس کا جواب یہ ہوگا کہ تمہارے جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں اور تم جس حال میں اور جس عذاب میں مبتلا ہو ، اس سے رہائی کی کوئی راہ نہیں پاسکتے ۔ اس عذاب اور اس کے ہمیشہ رہنے کاسبب تمہارا یہ فعل ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اعلان ہوتا اور لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہ کہا جاتا تو تم اس کا انکار کرتے اور کفر اختیار کرتے تھے اور اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا جاتا تو تم مان لیتے اور اس شرک کی تصدیق کرتے تھے، توجان لو کہ حقیقی حاکم اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ایسا بلند ی والا ہے کہ اس سے اور کوئی بلند نہیں اور ایسابڑائی والاہے کہ اس سے اور کوئی بڑا نہیں ۔( تفسیر کبیر ، المؤمن ، تحت الآیۃ : ۱۱-۱۲، ۹ / ۴۹۴-۴۹۶، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ۴ / ۶۷-۶۸، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ص۱۰۵۳، ملتقطاً)
دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دینے سے کیا مراد ہے؟
آیت نمبر10میں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دئیے جانے کا ذکر ہوا، اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ پہلے وہ بے جان نطفہ تھے، اس موت کے بعد انہیں جان دے کر زندہ کیا، پھر عمر پوری ہوجانے پر انہیں موت دی، پھر اعمال کا حساب دینے اور ان کی جزاپانے کے لئے زندہ کیا۔اس کی دلیل وہ آیتِ مبارکہ ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا:
’’ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْۚ-ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ‘‘(بقرہ:۲۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم کیسے اللہ کے منکر ہوسکتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے تواس نے تمہیں پیدا کیا پھر وہ تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا۔
{هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ: وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں مشرکوں کا دردناک انجام بیان ہو ا اور اب یہاں سے وہ چیزیں بیان کی جا رہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت،حکمت اور وحدانیّتپر دلالت کرتی ہیں ، چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! اللہ صرف وہی ہے جو تمہیں اپنی مصنوعات جیسے ہوا،بادل اور بجلی وغیرہ کے عجائبات دکھاتا ہے جو اس کی قدرت کے کمال پر دلالت کرتے ہیں اور تمہارے لیے آسمان کی طرف سے بارش برساتا ہے جو کہ روزی ملنے کا سبب ہے اوران نشانیوں سے وہی نصیحت حاصل کرتا اور نصیحت مانتا ہے جوتمام اُمور میں اللہ تعالیٰ کی طرف رُجوع کرنے والا اور شرک سے تائب ہو کیونکہ سرکش انسان نہ نصیحت حاصل کرتا ہے اور نہ ہی نصیحت قبول کرتا ہے،تو اے لوگو! تم پر لازم ہے کہ شرک سے کنارہ کشی کر کے اور خالص اللہ تعالیٰ کے بندے بن کرصرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرواگرچہ کافروں کو یہ بات ناپسند ہو ۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ:۱۳-۱۴، ۹ / ۴۹۶-۴۹۷، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۴ / ۶۸، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ص۱۰۵۴، ملتقطاً)
سورۂِ مؤمن کی آیت نمبر13اور 14سے حاصل ہونے والی معلومات:
ان آیات سے 3باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… روزی تو سب کے لئے ہے مگر ہدایت سب کے لئے نہیں ۔ افسوس کہ ہمیں اپنی روزی کی تو بہت فکر ہے لیکن ہدایت کی کوئی فکرنہیں ۔
(2)…جو بھی نیک عمل کیا جائے اس میں رِیاکاری اور لوگوں کو دکھانا مقصود نہ ہو بلکہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ رِیا،دکھلاوے وغیرہ سے پاک عمل ہی کو قبول فرماتا ہے ۔
(3)… آیت نمبر14 میں صلحِ کُلیَّت کاذہن رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کی ناپسندیدگی کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی۔
{رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ: بلند درجات دینے والا، عرش کامالک ہے۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال والی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں ، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ تنہا معبود ہے،اس کی شان یہ ہے کہ وہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاء اورعلماء رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو جنت میں بلند درجات دینے والا اورعرش جیسی عظیم چیز کامالک ہے۔وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نبوت کا منصب عطا فرماتا ہے اور جس کو نبی بناتا ہے اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو قیامت کے دن کا خوف دلائے، اور قیامت کا دن وہ ہے جس میں آسمان والے، زمین والے اور اوّلین و آخرین ملیں گے ، روحیں جسموں سے اور ہر عمل کرنے والا اپنے عمل سے ملے گا۔
{یَوْمَ هُمْ بٰرِزُوْنَ: جس دن وہ بالکل ظاہر ہوجائیں گے۔} یعنی قیامت کا دن وہ ہے جس دن لوگ قبروں سے نکل کر بالکل ظاہر ہوجائیں گے اور کوئی عمارت، پہاڑ ، چھپنے کی جگہ اور آڑ نہ پائیں گے کیونکہ اس دن زمین برابراور چٹیل میدان ہو جائے گی اور مخلوق کی کثرت کے باوجود ان کے اگلے پچھلے،خفیہ اور ظاہر تمام اعمال،اقوال اور احوال میں سے کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہ ہوگی اور وہ ان کے اچھے برے اعمال کے مطابق انہیں جزا اور سزا دے گا۔
یہاں خاص طور پر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی پوشیدہ نہ ہونے کاذکر کیا گیا اگرچہ آج بھی لوگوں کا کوئی عمل، قول اور حال اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے،اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ دنیا میں کفار یہ خیال کیا کرتے تھے کہ’’ جب ہم کسی آڑ میں چھپ جائیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں نہیں دیکھتا اور ا س پر ہمارے اعمال پوشیدہ رہتے ہیں ‘‘ ا س پر بتا دیا گیا کہ آج تو وہ یہ خیال کر رہے ہیں ، لیکن قیامت کے دن وہ یہ خیال بھی نہ کر سکیں گے کیونکہ اس دن لوگوں کے لئے کوئی پردہ اور آڑ کی چیز نہ ہوگی جس کے ذریعے سے وہ اپنے خیال میں بھی اپنے حال کو چھپا سکیں اور اس دن انہیں بھی یقین ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ (روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۱۶۷، تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۹ / ۴۹۹-۵۰۰، ملتقطاً)
چھپی ہوئی چیزوں کے ظاہر ہونے کا دن:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ قیامت کے دن لوگوں کے تمام اعمال اور احوال ظاہر ہو جائیں گے خواہ دنیا میں وہ کتنے ہی پوشیدہ ہوں اور وہ دن چھپی ہوئی چیزوں کے ظاہر ہونے کا دن ہے ،اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَاۙ(۱) وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَاۙ(۲) وَ قَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَهَاۚ(۳) یَوْمَىٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَاۙ(۴) بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَاؕ(۵) یَوْمَىٕذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا ﳔ لِّیُرَوْا اَعْمَالَهُمْؕ(۶) فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ‘‘( زلزال:۱۔۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جب زمین اپنے زلزلے کے ساتھ تھرتھرا دی جائے گی۔ اور زمین اپنے بوجھ باہر پھینک دے گی۔ اور آدمی کہے گا: اسے کیا ہوا؟ اس دن وہ اپنی خبریں بتائے گی۔ اس لیے کہ تمہارے رب نے اسے حکم بھیجا۔اس دن لوگ مختلف حالتوں میں لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں ۔ تو جو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔ اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’اَفَلَا یَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِۙ(۹) وَ حُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِۙ(۱۰) اِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ یَوْمَىٕذٍ لَّخَبِیْرٌ‘‘(عادیات:۹۔۱۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیا وہ نہیں جانتا جب وہ اٹھائے جائیں گے جو قبروں میں ہیں ؟ اور جو سینوں میں ہے وہ کھول دی جائے گی۔ بیشک ان کا رب اس دن ان کی خوب خبر رکھنے والا ہے۔
ان آیات کو سامنے رکھتے ہوئے چھپ کر گناہ کرنے والے مسلمانوں کو بھی اپنے اعمال اور احوال پر غور کرنا چاہئے اور اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ قیامت کے دن جب ا ن کے خفیہ اعمال ظاہر کر دئیے جائیں گے تو ان کا کیا حال ہو گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں اپنا خوف نصیب کرے اور اپنی نافرمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{ لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ: آج کس کی بادشاہی ہے؟۔} آیت کے اس حصے کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آج کس کی بادشاہی ہے؟ اب جواب دینے والاکوئی نہ ہوگا ،تو اللہ تعالیٰ خود ہی جواب میں فرمائے گا :ایک اللہ کی جو سب پر غا لب ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ قیامت کے دن جب تمام اَوّلین و آخرین حاضر ہوں گے تو ایک ندا کرنے والا ندا کرے گا: آج کس کی بادشاہی ہے ؟ تمام مخلوق جواب دے گی:ایک اللہ کی جو سب پر غا لب ہے۔مومن تو یہ جواب بہت لذت کے ساتھ عرض کریں گے کیونکہ وہ دنیا میں یہی اعتقاد رکھتے تھے ، یہی کہتے تھے اور اسی کی بدولت انہیں مرتبے ملے اور کفار ذِلّت و ندامت کے ساتھ اس کا اقرار کریں گے اور دنیا میں اپنے منکر رہنے پر شرمندہ ہوں گے ۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۶۹، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۰۵۴، ملتقطاً)
قیامت کے دن صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہی ہو گی:
آیت کی مناسبت سے یہاں دو اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’(قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ اپنے دائیں دست ِ قدرت سے زمین کو اپنے ہی قبضے میں لے گا اور آسمان کو لپیٹ لے گا، پھرفرمائے گا:حقیقی بادشاہ میں ہوں ،آج زمین کے بادشاہ کہاں ہیں ؟( صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب یقبض اللّٰہ الارض، ۴ / ۲۵۱، الحدیث: ۶۵۱۹)
(2)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ دے گا۔ پھر انہیں اپنے (شایانِ شان معنوں میں ) دائیں ہاتھ میں لے گا، پھر ارشادفرمائے گا: میں بادشاہ ہوں ، کہاں ہیں جابر لوگ؟ کہاں ہیں تکبُّر والے لوگ؟ پھر زمینوں کو اپنے (شایانِ شان معنوں میں ) بائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھرارشاد فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں ،کہاں ہیں جابر لوگ؟ کہاں ہیں تکبُّر و غرور کرنے والے لوگ۔( مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنّۃ والنّار، ص۱۴۹۹، الحدیث: ۲۴(۲۷۸۸))
{اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ: آج ہر جان کو اس کے کمائے ہوئے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔} یعنی قیامت کے دن ہر نیک اور برے انسان کو اس کی دنیا میں کی ہوئی نیکیوں اور برائیوں کا بدلہ دیا جائے گا اور نیک شخص کے ثواب میں کمی کر کے یا برے شخص کے عذاب میں زیادتی کر کے کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔بے شک اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ جلد حساب لینے والا ہے۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۷، ۸ / ۱۶۸-۱۶۹)
حق داروں کو ان کے حقوق دنیا میں ہی ادا کر دینے کی ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ دنیا میں جیسے اعمال کئے ہوں گے آخرت میں ویسا ہی بدلہ دیاجائے گا اور یاد رہے کہ اس دن ان لوگوں کو بھی ان کے حقوق دلائے جائیں گے جن کے حقوق دنیا میں ضائع کئے گئے ہوں گے ،جیسا کہ حضرت عبداللہ بن اُنیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کوننگے بدن ،بے ختنہ شدہ اورمال کے بغیر اٹھائے گا۔ہم نے عرض کی :بُہْم کیا ہے ؟ارشاد فرمایا’’جن کے پاس کوئی چیز نہ ہو۔پھر اللہ تعالیٰ لوگوں کو بلند آواز سے ندا فرمائے گا: جسے دور والے اسی طرح سنیں گے جس طرح قریب والے سنتے ہیں (ارشاد فرمائے گا:) میں بادشاہ ہوں ، میں بدلہ لینے والا ہوں ، کوئی جنتی اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا ،یونہی کوئی جہنمی اس وقت تک جہنم میں نہیں جا سکتا یہاں تک کہ میں اِس سے اُس حق کا بدلہ نہ لے لوں جو کسی کا اس کے ذمے ہے حتّٰی کہ ایک تھپڑ کا بدلہ بھی۔ہم نے عرض کی:یہ کیسے ہو گا جبکہ ہم تو اس وقت ننگے بدن اور کنگال ہوں گے ؟ارشاد فرمایا’’ یہ بدلہ نیکیوں اور برائیوں کے ذریعے ہو گا (یعنی حق داروں کو اس شخص کی نیکیاں دے دی جائیں گی یاحق داروں کے گناہ اس کے ذمے ڈال دئیے جائیں گے) پھر رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’ اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْؕ-لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: آج ہر جان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ آج کسی پر زیادتی نہیں ہوگی۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ حم المؤمن، یحشر الناس غرلا بہما، ۳ / ۲۲۴، الحدیث: ۳۶۹۰)
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’شیطان اس بات سے ناامید ہو گیا ہے کہ عرب کی سرزمین پر ا س کی پوجا کی جائے لیکن عنقریب وہ اِس سے کم اور حقیر باتوں پر تم سے راضی ہو گا اور وہ ہلاکت خیز باتیں ہیں ،تو جس قدر ممکن ہو ظلم سے بچو کیونکہ بندہ قیامت کے دن نیکیاں لائے گا اور اس کے خیال میں وہ اسے نجات دینے والی ہوں گی لیکن ایک بندہ آ کر کہے گا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، فلاں شخص نے مجھ پر ظلم کیا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا:اُس شخص کی نیکیوں میں سے کچھ مٹا دو،اسی طرح لوگ آتے رہیں گے (اور اس کی نیکیاں لے جاتے رہیں گے) حتّٰی کہ اس کی کوئی نیکی باقی نہ رہے گی۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے مسافر جنگل میں اتریں اور ان کے پاس لکڑیاں نہ ہوں ،اب وہ لوگ بکھر جائیں اور لکڑیاں جمع کر کے لائیں اور تھوڑی ہی دیر میں وہ بہت بڑی آگ جلا کر اپنا مقصد حاصل کر لیں تو یہی معاملہ گناہوں کاہے (کہ یہ نیکیوں کو اس طرح ختم کر دیں گے جس طرح آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے لکڑیاں جلا دیں )( مجمع الزوائد، کتاب التوبۃ، باب فیما یحتقر من الذنوب، ۱۰ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۷۴۶۰)
فکر ِآخرت کی ضرورت:
اور امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اے مسکین شخص!اس دن کیا صورتِ حال ہوگی، جب تو اپنے نامہ ِاعمال کو نیکیوں سے خالی دیکھے گا حالانکہ تو نے ان کے لیے سخت مشقت اٹھائی ہوگی ،تم کہو گے: میری نیکیاں کہاں ہیں ؟ تو جواب دیا جائے گا: وہ تو ان لوگوں کی طرف منتقل ہوگئیں جن کے حقوق تمہارے ذمہ تھے اور تم دیکھو گے کہ تمہارا نامہ ِاعمال برائیوں سے بھرا ہوا ہے کہ ان سے بچنے کے لیے تم نے بہت زیادہ مشقّت اٹھائی ہوگی اور ان سے رکنے کے سبب تم نے بہت تکلیف برداشت کی ہوگی، تم کہو گے: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں نے یہ گناہ کبھی نہیں کئے۔ جواب دیا جائے گا: یہ ان لوگوں کے گناہ ہیں جن کی تم نے غیبت کی ،جنہیں گالی دی، جن سے برائی کا ارادہ کیا اور جن سے خرید و فروخت کے اعتبار سے، پڑوسی ہونے کے ناطے سے، گفتگووغیرہ اور درس و تدریس کے اعتبار سے یا باقی معاملات میں تو نے ان پر ظلم کیا۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الثانی... الخ، صفۃ الخصماء ورد المظالم، ۵ / ۲۸۲)
لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ وہ ابھی سے اپنے نفس کا مُحاسبہ کر لے اور جن لوگوں کے حقوق اس کے ذمے ہیں انہیں فوری طور پر ادا کر دے ۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اپنے نفس کے حساب (یا مُحاسبہ) سے مراد یہ ہے کہ مرنے سے پہلے ہر گناہ سے سچی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض میں جو کوتاہی کی ہے اس کا تدارُک کرے اور لوگوں کے حقوق ایک ایک کوڑی کے حساب سے واپس کرے اور اپنی زبان، ہاتھ یا دل کی بدگمانی کے ذریعے کسی کی بے عزتی کی ہو تو اس کی معافی مانگے اور ان کے دلوں کو خوش کرے حتّٰی کہ جب اسے موت آئے تو اس کے ذمہ نہ کسی کا کوئی حق ہو اور نہ ہی کوئی فرض، تو یہ شخص کسی حساب کے بغیر جنت میں جائے گا،اور اگر وہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے سے پہلے مرجائے تو حقدار اس کا گھیراؤ کریں گے کوئی اسے ہاتھ سے پکڑے گا اور کوئی اس کی پیشانی کے بال پکڑے گا اور کسی کا ہاتھ اس کی گردن پر ہوگا، کوئی کہے گا :تم نے مجھ پر ظلم کیا اور کوئی کہے گا: تو نے مجھے گالی دی اور کوئی کہے گا: تم نے مجھ سے مذاق کیا ، کوئی کہے گا :تم نے میری غیبت کرتے ہوئے ایسی بات کہی جو مجھے بری لگتی تھی، کوئی کہے گا: تم میرے پڑوسی تھے لیکن تم نے مجھے ایذا دی۔ کوئی کہے گا: تم نے مجھ سے معاملہ کرتے ہوئے دھوکہ کیا۔ کوئی کہے گا: تو نے مجھ سے سودا کیا، تو مجھ سے دھوکہ کیا اور مجھ سے اپنے مال کے عیب کو چھپایا ۔کوئی کہے گا: تو نے اپنے سامان کا نرخ بتاتے ہوئے جھوٹ بولا۔ کوئی کہے گا تو نے مجھے محتاج دیکھا اور تو مال دار تھا لیکن تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ کوئی کہے گا: تو نے دیکھا کہ میں مظلوم ہوں اور تو اس ظلم کو دور کرنے پر قادر بھی تھا، لیکن تو نے ظالم سے مُصالَحَت کی اور میرا خیال نہ کیا۔تو جب اس وقت تیرا یہ حال ہوگا اور حقداروں نے تیرے بدن میں ناخن گاڑ رکھے ہوں گے اور تیرے گریبان پر مضبوط ہاتھ ڈالاہوگا اور تو ان کی کثرت کے باعث حیران و پریشان ہوگا، حتّٰی کہ تو نے اپنی زندگی میں جس سے ایک درہم کا معاملہ کیا ہوگا یا اس کے ساتھ کسی مجلس میں بیٹھا ہوگا تو غیبت ، خیانت یا حقارت کی نظر سے دیکھنے کے اعتبار سے اس کا تجھ پر حق بنتا ہوگا اور تو ان کے معاملے میں کمزور ہوگا اور اپنی گردن اپنے آقا اور مولیٰ کی طرف اس نیت سے اٹھائے گا کہ شاید وہ تجھے ان کے ہاتھ سے چھڑائے کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ کا یہ کلام تجھے سنائی دے گا : ’’ اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْؕ-لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ‘‘(مومن:۱۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: آج ہر جان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ۔آج کسی پر زیادتی نہیں ہوگی۔
اُس وقت ہیبت کے مارے تیرا دل نکل جائے گا اور تجھے اپنی ہلاکت کا یقین ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان سے جو تجھے ڈرایا تھا وہ تجھے یاد آجائے گا،جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ -اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ(۴۲) مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْۚ -وَ اَفْـٕدَتُهُمْ هَوَآءٌؕ(۴۳) وَ اَنْذِرِ النَّاسَ‘‘(ابراہیم:۴۲۔۴۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (اے سننے والے!) ہرگز اللہ کو ان کاموں سے بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم کررہے ہیں ۔ اللہ انہیں صرف ایک ایسے دن کیلئے ڈھیل دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔لوگ بے تحاشا اپنے سروں کو اٹھائے ہوئے دوڑتے جارہے ہوں گے، ان کی پلک بھی ان کی طرف نہیں لوٹ رہی ہوگی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔اور لوگوں کو ڈراؤ۔
آج جب تو لوگوں کی عزتوں کے پیچھے پڑتا ہے اور ان کے مال کھاتا ہے تو کس قدر خوش ہوتا ہے، لیکن اس دن تجھے کس قدر حسرت ہوگی جب تو عدل کے میدان میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوگا ۔۔۔۔ اس وقت تو مُفلِس، فقیر ،عاجز اور ذلیل ہوگا نہ کسی کا حق ادا کرسکے گا اور نہ ہی کوئی عذر پیش کرسکے گا۔پھر تیری وہ نیکیاں جن کے لیے تو نے زندگی بھر مشقت برداشت کی تجھ سے لے کر ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن کے حقوق تیرے ذمہ ہوں گے اور یہ ان کے حقوق کا عِوَض ہوگا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الثانی... الخ، صفۃ الخصماء ورد المظالم، ۵ / ۲۸۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے،حق داروں کو ان کے حقوق ادا کرنے یا ان سے معاف کرو الینے اور اُخروی حساب کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ: اور انہیں قریب آنے والی آفت کے دن سے ڈراؤ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ کو قیامت کے دن سے ڈرائیں جس کی ہَولْناکی کا یہ حال ہے کہ اس دن دل گلوں کے پاس آجائیں گے اور خوف کی شدت کی وجہ سے نہ ہی باہر نکل سکیں گے تاکہ مر کر کچھ راحت پا لیں اور نہ ہی اندر اپنی جگہ واپس جاسکیں گے تاکہ انہیں راحت نصیب ہو اور لوگوں کا حال یہ ہو گا کہ وہ غم میں بھرے ہوں گے اور اس دن نہ تو کافروں کاکوئی دوست ہوگااورنہ ہی کوئی سفارش کرنے والاکہ جس کی سفارش سے یہ لوگ عذاب سے نجات پاسکیں۔(مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۱۰۵۵، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۸، ۸ / ۱۶۹-۱۷۰، ملتقطاً)
قیامت کے دن مسلمانوں کے دوست اور شفاعت کرنے والے ہوں گے ـ:
یاد رہے کہ اس آیت میں ظالموں سے کفار مراد ہیں گناہگار مسلمان اس آیت میں بیان کی گئی وعید میں داخل نہیں جیساکہ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہاں آیت میں ظالموں سے مراد کفار ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ آیت ان کافروں کی سرزَنِش کے لئے آئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ یہ آیت کافروں کے ساتھ خاص ہو۔ (تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۸، ۹ / ۵۰۴)
اورعلامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ کافروں کے حق میں کوئی شفاعت نہیں کیونکہ یہ آیت کافروں کی مذمت میں آئی ہے۔مزید فرماتے ہیں : (اس سے) ثابت ہو اکہ گناہگار مسلمانوں کے لئے قیامت کے دن دوست بھی ہوں گے، شفاعت کرنے والے بھی ہوں گے اور ان کی شفاعت قبول بھی کی جائے گی اور شفاعت کرنے والے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تمام اَنبیاء اور مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، مُقَرّب اولیا ء ِکرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور تمام فرشتے ہوں گے۔ (روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۸، ۸ / ۱۷۰)
{یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ الْاَعْیُنِ: اللہ آنکھوں کی خیانت کوجانتا ہے۔} آنکھوں کی خیانت سے مراد چوری چھپے نا مَحْرَم عورت کو دیکھنا اور ممنوعات پر نظر ڈالنا ہے اور سینوں میں چھپی چیز سے مراد عورت کے حسن و جمال کے بارے میں سوچنا ہے،یہ سب چیزیں اگرچہ دوسرے لوگوں کو معلوم نہ ہوں لیکن انہیں اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔( مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۱۰۵۵)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ایک آدمی لوگوں میں موجود ہوتاہے اورایک عورت ان کے پاس سے گزرتی ہے ،وہ آدمی دوسرے لوگوں کویہ دکھاتاہے کہ اس عورت کی طرف نہیں دیکھ رہا اورجب لوگ اس سے غافل ہوتے ہیں تووہ اس عورت کو دیکھ لیتاہے اور جب لوگ اسے دیکھنے لگتے ہیں تو وہ اپنی آنکھیں بندکرلیتاہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کے دل پرمطلع ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ وہ شخص اس عورت کودیکھ رہا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب النکاح، ما قالو فی الرجل تمر بہ المرأۃ... الخ، ۳ / ۴۱۰، الحدیث: ۱۵)
نظر بچا کر غیر مَحرم عورتوں کو دیکھنے والوں کے لئے نصیحت:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ اَعضا کے اَفعال جانتا ہے کیونکہ اعضا کے افعال میں سب سے خفیہ فعل چوری چھپے دیکھنا ہے اور جب اسے اللہ تعالیٰ جانتا ہے تو دیگر اعضا کے افعال بدرجہ اَولیٰ اسے معلوم ہوں گے، یونہی اللہ تعالیٰ دلوں کے افعال بھی جانتا ہے اور جب حاکم کے علم کایہ حال ہے تو ہر مجرم کو اس سے بہت زیادہ ڈرنا چاہئے اور بطورِ خاص ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے خوف کھانا چاہئے جوچوری چھپے غیر محرم عورتوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے حسن و جمال پر نثار ہوتے ہیں ۔ ہمارے بزرگانِ دین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا ایسے معاملات میں کیسا تقویٰ تھا اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت سیدنا سلیمان بن یسار رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ حج کرنے کے لئے مدینہ منورہ سے ایک رفیق کے ساتھ نکلے۔جب ابواء کے مقام پر پہنچے تو رفیقِ سفر اٹھا اور دستر خوان لے کر کچھ خریدنے بازار چلا گیا جبکہ حضرت سلیمان بن یسار رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ خیمے میں بیٹھے رہے،آپ بہت زیادہ خوبصورت اور انتہائی متقی تھے، ایک دیہاتی عورت نے پہاڑ کی چوٹی سے آپ کو دیکھ لیا اور اتر کر آپ کے سامنے کھڑی ہو گئی ،اس نے برقعہ اور دستانے پہنے ہوئے تھے ،جب اس نے چہرے سے پردہ اٹھایا تو (اس کے حسن کا حال یہ تھا کہ) گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہو،اس نے کہا: مجھے کچھ دیجئے۔حضرت سلیمان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے سمجھا کہ شاید روٹی مانگ رہی ہے (آپ اسے روٹی دینے لگے تو) وہ کہنے لگی: مجھے روٹی نہیں چاہئے بلکہ میں تو وہ تعلق چاہتی ہوں جو شوہر اور بیوی کے درمیان ہوتا ہے ۔آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:تجھے شیطان نے میرے پاس بھیجا ہے، یہ فرما کر آپ نے سر مبارک اپنے گھٹنوں میں رکھ لیا اور زور زور سے رونے لگ گئے ،،جب عورت نے یہ حالت دیکھی تو اپنا چہرہ ڈھانپ کر واپس چلی گئی ۔ جب آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ساتھی واپس آیا اور آپ کی یہ حالت دیکھی کہ رونے کی وجہ سے آنکھیں سوج گئیں اور گلا بند ہو گیا ہے تو پوچھا:آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا: کوئی بات نہیں ،بس مجھے اپنا بچہ یاد آگیا ہے۔اس نے کہا:اللہ تعالیٰ کی قسم!کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے ورنہ بچے سے جدا ہوئے تو ابھی تین دن ہوئے ہیں ،وہ مسلسل پوچھتا رہا حتّٰی کہ آپ نے اسے دیہاتی عورت کا واقعہ بتا دیا۔اس رفیق نے دستر خوان رکھا اور رونے لگ گیا۔آپ نے فرمایا:تم کیوں رو رہے ہو؟اس نے کہا:مجھے آپ سے زیادہ رونا چاہئے کیونکہ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو شاید اس سے صبر نہ کر سکتا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب کسر الشہوتین، بیان فضیلۃ من یخالف شہوۃ الفرج والعین، ۳ / ۱۳۰)
چھپ کے لوگوں سے کئے جس کے گناہ
وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے
ارے او مجرم بے پروا دیکھ
سر پہ تلوار ہے کیا ہونا ہے
{اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ: تو کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کفار ِمکہ تجارت کے لئے یمن اور شام کی طرف سفر کرتے ہیں تو کیا ا س دوران انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا ان کا کیساانجام ہوا؟وہ لوگ قوت اور زمین میں چھوڑی ہوئی نشانیوں مثلاًقلعے ، محل ، نہریں ، حوض اور بڑی بڑی عمارتوں کے اعتبار سے ان کفارِ مکہ سے بڑھ کر تھے،اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے گناہوں کے سبب پکڑلیا اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ اِس زمانے کے کافر یہ حالات دیکھ کر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ اور کیوں نہیں سوچتے کہ پچھلی قومیں ان سے زیادہ قوی ، توانا اور ثَروَت و اِقتدار والی ہونے کے باوجود اس عبرت ناک طریقہ سے کیوں تباہ کر دی گئیں ؟ان لوگوں کی یہ گرفت اس لیے ہوئی کہ ان کے پاس ان کے رسول اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور اپنی رسالت کی صداقت پر دلالت کرنے والی واضح نشانیاں اور معجزات لے کر آئے پھر بھی انہوں نے کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے عذاب سے پکڑ لیا، بیشک اللہ تعالیٰ قوت والا اور شرک کرنے والوں کو سخت عذاب دینے والا ہے۔لہٰذااے کافرو !تم عقل مندی کاثبوت دو اور میرے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات مانواورانہیں ایذا مت دوورنہ تمہاراانجام بھی سابقہ لوگوں جیساہوگااورتمہیں بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ (روح البیان،المؤمن،تحت الآیۃ:۲۱-۲۲،۸ / ۱۷۲-۱۷۳، تفسیرکبیر،المؤمن،تحت الآیۃ:۲۱-۲۲، ۹ / ۵۰۵، ملتقطاً)
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو بھیجا۔} اس سے پہلی آیات میں ان کافروں کا ذکر کر کے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی جنہوں نے کفارِ مکہ سے پہلے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور اس آیت سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کر کے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ جب انہیں معجزات اور روشن دلیل کے ساتھ فرعون،ہامان اور قارون کی طرف بھیجا گیا تو ان لوگوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور انہیں جادو گر اور بڑا جھوٹاکہا۔ (تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۴، ۹ / ۵۰۶)
یہاں آیت نمبر 24سے متعلق دو باتیں ملاحظہ ہوں
(1)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون، ہامان اور قارون کے ساتھ ساتھ ان کی قوم کی طرف بھی بھیجے گئے تھے جبکہ یہاں صرف ان تینو ں کا ذکر ہوا ،ا ن کی قوم کا ذکر نہیں ہوا،اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :فرعون بادشاہ تھا اور ہامان اس کا وزیر اور پوری قوم چونکہ بادشاہ اور وزیر کے تحت ِتَصَرُّف ہوتی ہے اور (اس زمانے میں ) لوگ اپنے بادشاہ کے دین پر ہوا کرتے تھے اس لئے یہاں (قوم کی بجائے) فرعون اور ہامان کا ذکر کیا گیااور قارون چونکہ اپنے مال اور خزانوں کی کثرت کے اعتبار سے بادشاہ کی طرح تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرعون اور ہامان کی طرف بھیجنے کے بعد قارون کی طرف بھیجا گیا تھا کیونکہ قارون حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا بیٹا تھا،شروع میں مومن تھا،بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ تورات کا حافظ تھا،پھر مال و دولت کی وجہ سے اس کا حال بدل گیا اور سامری کی طرح منافق ہو گیا تو یہ کفر اور ہلاکت میں فرعون اور ہامان کے ساتھ لاحق ہو گیا ا س لئے یہاں اس کا ذکر فرعون اور ہامان کے ساتھ کیا گیا۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۴، ۸ / ۱۷۳)
(2)…قارون کے ظاہری حال سے یہ نہیں لگتا کہ اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا کہا ہو کیونکہ اس کا اپنا تعلق بنی اسرائیل سے تھا اور وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان بھی رکھتا تھا،پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا اور جادوگر کہنے کی نسبت اس کی طرف کیسے کی گئی؟اس کے جواب میں علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا اور جادو گر کہنے کی نسبت قارون کی طرف آخری اَمر کے اعتبار سے ہے۔( صاوی، غافر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۵ / ۱۸۲۱)یعنی قارون شروع میں تو ایمان لایا جبکہ آخر میں منافق ہو گیاتو یہ بھی گویا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا کہنے میں فرعون اور ہامان کے ساتھ شریک ہو گیا، ا س لئے یہاں اس قول کی نسبت ان دونوں کے ساتھ ساتھ قارون کی طرف بھی کی گئی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اعلانیہ طور پر صرف فرعون اور ہامان نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا اور جادوگر کہا ہو اور ان کی اس بات کے وقت بھی قارون صرف ظاہری طور پر ایمان کا دعویٰ کرتا ہو اورخفیہ طور پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلاتا ہو ،اس لئے یہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا اورجادوگر کہنے کی نسبت ان تینوں کی طرف کی گئی ہو۔
{وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْۤ اَقْتُلْ مُوْسٰى: اور فرعون نے کہا:مجھے چھوڑدو تاکہ میں موسیٰ کو قتل کردوں ۔} اس آیت میں فرعون کی تین باتیں بیان ہوئیں ،
(1)… فرعون نے اپنے دربار والوں سے کہا کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کر دوں ۔
فرعون جب کبھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے کا ارادہ کرتا تو اس کی قوم کے لوگ اسے اس چیز سے منع کرتے اور کہتے کہ یہ وہ شخص نہیں ہے جس کا تجھے اندیشہ ہے ،یہ تو ایک معمولی جادوگر ہے ، اس پر ہم اپنے جادو سے غالب آجائیں گے اور اگر اسے قتل کردیا تو عام لوگ شبہ میں پڑ جائیں گے کہ وہ شخص سچا تھا ، حق پر تھا اور تم دلیل سے اس کا مقابلہ کرنے میں عاجز ہوئے اور جواب نہ دے سکے توتم نے اسے قتل کردیا ۔ لیکن حقیقت میں فرعون کا یہ کہنا کہ ’’مجھے چھوڑ دو تاکہ میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کروں ‘‘صرف دھمکی ہی تھی ، کیونکہ اسے خود آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے برحق نبی ہونے کا یقین تھا اور وہ جانتا تھا کہ جو معجزات آپ لے کر آئے ہیں وہ جادو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ اگر ا س نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو آپ اس کو ہلاک کرنے میں جلدی فرمائیں گے ، اس سے یہ بہتر ہے کہ طویل بحث میں زیادہ وقت گزار دیا جائے، اگر فرعون اپنے دل میں آپ کو برحق نبی نہ سمجھتا اور یہ نہ جانتا کہ ربّانی تائیدیں جو آپ کے ساتھ ہیں ان کا مقابلہ ناممکن ہے تو وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے میں ہر گز دیر نہ کرتا کیونکہ وہ بڑا خونْخوار ، سَفّاک ، ظالم اوربیدرد تھا اور چھوٹی سی بات پر ہزار ہا خون کر ڈالتا تھا۔
(2)…فرعون نے کہا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے اس رب کو بلالے جس کا وہ اپنے آپ کو رسول بتاتا ہے تاکہ اُس کا رب اسے ہم سے بچائے ۔
فرعون کا یہ مقولہ اس پر شاہد ہے کہ اس کے دل میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اور آپ کی دعاؤں کا خوف تھا اور وہ اپنے دل میں آپ سے ڈرتا تھا اور صرف ظاہری عزت بنی رکھنے کے لئے یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ قوم کے منع کرنے کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل نہیں کرتا ۔
(3)… آخر میں فرعون نے یوں کہا کہ بیشک مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا اور تم سے فرعون پرستی چھڑادے گایا جھگڑے اور قتل کر کے زمین میں فسادظاہر کرے گا۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۷۰، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۱۰۵۶، ملتقطاً)
{وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ: اور موسیٰ نے کہا: میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں ۔} فرعون کی دھمکیاں سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’میں مُتکبِّروں اور منکرینِ قیامت کے مقابلے میں اس خدا کی پناہ لیتا ہوں جو میرا اور تمہارا رب ہے ۔
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مبارک جملوں سے حاصل ہونے والے فوائد:
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون کی سختیوں کے جواب میں اپنی طرف سے کوئی تکبُّر والا کلمہ نہ فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہی اور اس پر بھروسہ کیا،یہی خدا شَناسوں کا طریقہ ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو ہر ایک بلا سے محفوظ رکھا ۔یہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مبارک جملوں سے معلوم ہونے والی چند فائدہ مند باتیں ملاحظہ ہوں ،
(1)…لفظ ’’اِنِّیْ‘‘ تاکید پر دلالت کرتا ہے ،اس سے ثابت ہوا کہ اپنی جان سے آفات اور شُرُور کو دور کرنے کا معتبر اور بہترین طریقہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرنا اور اس کی حفاظت پر بھروسہ کرنا ہے ۔
(2)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:’’میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں ‘‘ تو جس طرح قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے وقت مسلمان جب ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمْ‘‘ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دین اور اِخلاص کو شیطان کے وَسْوَسُوں سے بچا لیتا ہے بالکل اسی طرح جب آفتوں کا سامنا ہو اور انسانی شیطانوں (کی طرف سے تکلیف پہنچائے جانے)کا ڈر ہو اور اس وقت مسلمان یہ کہے ’’اَعُوْذُ بِاللہ‘‘ تو اللہ تعالیٰ اسے ہر آفت اور خوف سے بچا لے گا۔
(3)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’تمہارے اور اپنے رب کی‘‘ یعنی گویا کہ بندہ یوں کہہ رہا ہے کہ ہر نقص و عیب سے پاک اللہ تعالیٰ ہی وہ ہے جس نے مجھے پالا،بھلائی کے درجات تک مجھے پہنچایا،آفات سے مجھے بچایا اور مجھے اتنی نعمتیں عطا کیں جن کی نہ کوئی حد ہے نہ کوئی شمار،تو جب اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی حقیقی مددگار نہیں تو عقل مند انسان کو چاہئے کہ وہ آفات کو دور کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۵۰۷-۵۰۸)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ان مبارک جملوں میں کیسی نفیس ہدایتیں ہیں ، یہ فرمانا کہ’’ میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں ‘‘ اور اس میں (یہ) ہدایت ہے (کہ)رب ایک ہی ہے ، یہ بھی ہدایت ہے کہ جو اس کی پناہ میں آئے اس پر بھروسہ کرے اور وہ اس کی مدد فرمائے(تو) کوئی اس کو ضَرَر نہیں پہنچا سکتا۔ یہ بھی ہدایت ہے کہ اسی پر بھروسہ کرنا شانِ بندگی ہے اور ’’تمہارے رب ‘‘فرمانے میں یہ بھی ہدایت ہے کہ اگر تم اس پر بھروسہ کرو تو تمہیں بھی سعادت نصیب ہو۔( خزائن العرفان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۸۶۸)
دشمنوں کے شر سے محفوظ رہنے کی دعا:
دشمنوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے وہ کلمات بھی مفید ہیں جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمائے اور وہ کلمات بھی انتہائی فائدہ مند ہیں جو سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمائے ہیں ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جب کسی قوم سے خطرہ ہوتا تو آپ یہ دعاارشادفرماتے تھے ’’اَللّٰھُمَّ اِنَّانَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ان کے مقابلے میں ہم تجھے لاتے ہیں اوران کے شراورفسادسے تیری پناہ میں آتے ہیں ۔( سنن ابوداؤد، کتاب الوتر، باب ما یقول الرجل اذا خاف قوما، ۲ / ۱۲۷، الحدیث: ۱۵۳۷)
{وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ ﳓ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ: اور فرعون والوں میں سے ایک مسلمان مرد نے کہا۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کی اور ا س کے فضل و رحمت پر بھروسہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس فتنے کو سرد کرنے کے لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حمایت میں ایک اجنبی شخص کو کھڑا کر دیا، چنانچہ فرمایا کہ فرعون والوں میں سے اپنے ایمان کو چھپانے والے ایک مسلمان مرد نے کہا: کیاتم ایک مرد کو کسی دلیل کے بغیر صرف اس وجہ سے قتل کرنا چاہ رہے ہو کہ وہ یوں کہتا ہے’’ میرا رب اللہ ہے اور ا س کا کوئی شریک نہیں ‘‘ حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ا س دعوے پرتمہارے پاس تمہارے حقیقی رب کی طرف سے روشن معجزات لے کر آیا ہے جن کا تم مشاہدہ بھی کر چکے ہو اور اِن سے اُن کی صداقت ظاہر اور ان کی نبوت ثابت ہوگئی ہے (اور دلیل موجود ہوتے ہوئے دلیل والے کی مخالفت کرنا اور وہ بھی اتنی کہ انہیں قتل کر دیا جائے کسی صورت بھی درست نہیں ) اور اگر بالفرض وہ جھوٹے ہوں تو انہیں قتل کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ایسے معاملے میں جھوٹ بول کر وہ اس کے وبال سے بچ نہیں سکتے بلکہ(خود ہی) ہلاک ہوجائیں گے اور اگر وہ سچے ہیں تو ایمان نہ لانے کی صورت میں جس عذاب سے تمہیں ڈرا رہے ہیں اس میں سے بالفعل کچھ تمہیں پہنچ ہی جائے گا، (تو ایسی صورت میں اگر تم انہیں قتل کر دو گے تواس سے بڑی بلا اپنے سر لو گے ،الغرض، ان کے جھوٹا ہونے کی صورت میں انہیں قتل کرنا فضول ہے اور سچا ہونے کی صورت میں اپنا نقصان ہے) اور ویسے بھی جو حد سے بڑھنے والا ہو اور اتنا بڑا جھوٹا ہو کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ دے تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا (تواس اعتبار سے بھی اگر بالفرض وہ جھوٹے ہوئے تو رسوا ہو جائیں گے، لہٰذا بہر صورت تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ انہیں قتل نہ کرو۔)( روح البیان ، المؤمن ، تحت الآیۃ : ۲۸ ، ۸ / ۱۷۶-۱۷۸ ، خازن ، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۷۰-۷۱، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۰۵۷، ابن کثیر، غافر، تحت الآیۃ: ۲۸، ۷ / ۱۲۶-۱۲۸، ملتقطاً)
اٰلِ فرعون کے مومن سے مراد کون ہے؟
اس آیت میں اٰلِ فرعون کے مومن کا ذکر ہوا،اس کے بارے میں مفسرین کاایک قول یہ ہے کہ یہ مومن فرعون کاچچازادبھائی تھالیکن وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرایمان لاچکاتھا اور اپنے ایمان کوفرعون اوراس کی قوم سے چھپا کر رکھتاتھاکیونکہ اسے اپنی جان کاخطرہ تھااوریہی وہ شخص تھاجس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ نجات حاصل کی تھی اورایک قول یہ ہے کہ وہ شخص اسرائیلی تھاوہ اپنے ایمان کوفرعون اورآلِ فرعون سے مَخفی رکھتا تھا۔ امام ابنِ جریرطبری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے پہلے قول کوراجح قرار دیا ہے۔( طبری، غافر، تحت الآیۃ: ۲۸، ۱۱ / ۵۴)
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اٰ لِ فرعون کے مومن سے بہتر ہیں :
یہاں اٰلِ فرعون کے مومن کا ذکر ہوا،اسی کے ضمن میں حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت ملاحظہ ہو،چنانچہ ایک مرتبہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:اے لوگو!مجھے ا س شخص کے بارے میں بتاؤ جو لوگوں میں سب سے زیادہ بہادرہے۔لوگوں نے عرض کی:اے امیر المؤمنین! آپ (سب سے زیادہ بہادر ہیں ) ۔آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:نہیں (میں ایسا نہیں ہوں )۔لوگوں نے پوچھا: پھر وہ کون ہے ؟آپ نے فرمایا: حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ۔ کیونکہ میں نے دیکھاکہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قریش نے پکڑ رکھا تھا۔ ان میں سے ایک دوسرے کوابھاررہاتھا اور دوسرا کسی اور کوبھڑکارہاتھا۔وہ کہہ رہے تھے کہ تم وہی ہوجس نے تمام معبودوں کوایک بنا دیاہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !اس وقت ہم میں سے کوئی بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب نہ ہوا مگر حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ قریب ہوئے ۔وہ ایک کومارتے ،دوسرے سے مقابلہ کرتے اورکہتے:تم برباد ہو جاؤ،کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتے ہیں ’’میرا رب اللہ تعالیٰ ہے‘‘۔
پھرحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے وہ چادراٹھائی جوآپ نے زیب ِتن کررکھی تھی اور اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی ترہوگئی ۔ پھرفرمایا:میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر کہتاہوں ،کیاآلِ فرعون کامومن بہترہے یا حضرت ابوبکرصدیق(رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ) قومِ فرعون کے مومن سے بہترہیں ؟(یقینا یہی بہتر ہیں کیونکہ)اٰلِ فرعون کامومن اپنے ایمان کوچھپاتاتھااورحضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے ایمان کااعلان کرتے تھے۔( مسند البزار،مسند علیّ بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ،ومما روی محمد بن عقیل عن علیّ،۳ / ۱۴،الحدیث:۷۶۱،ملتقطاً)
{وَ یٰقَوْمِ: اور اے میری قوم!} اس سے پہلی آیات میں ذکر ہو اکہ مردِ مومن نے لوگوں کو دنیا کے عذاب سے ڈرایا اور اب یہاں سے یہ بیان کیاجارہا ہے کہ اس مومن نے دنیا کے عذاب کے بعد آخرت کے عذاب سے ڈرایا،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مردِ مومن نے کہا: اے میری قوم! میں تم پر اس دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں جس دن ہر طرف پکارمچی ہوئی ہوگی اور اس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے اور اس دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے تمہیں بچانے والا اور تمہاری حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا اور(جو باتیں میں نے تمہارے سامنے کی ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ تم اپنے ارادے سے باز آ جاؤ اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آؤ،میں نے تمہیں ہر طریقے سے نصیحت کر دی ہے، اس کے بعد بھی اگر تم ہدایت حاصل نہیں کرتے تو تمہاری قسمت کیونکہ) جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے تو اسے نجات کی راہ دکھانے والا کوئی نہیں ۔( مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۳۲-۳۳، ص۱۰۵۸، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۳۲-۳۳، ۸ / ۱۸۰-۱۸۱، ملتقطاً)
قیامت کے دن کو پکار کا دن کہنے کی وجہ:
قیامت کے دن کو یَوْمُ التَّنَاد یعنی پکار کا دن اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس روز طرح طرح کی پکاریں مچی ہوں گی ،جیسے ہر شخص اپنے گروہ کے سردار کے ساتھ اورہر جماعت اپنے امام کے ساتھ بلائی جائے گی، جنتی دوزخیوں کو اور دوزخی جنتیوں کو پکاریں گے ، سعادت اور شقاوت کی ندائیں کی جائیں گی کہ فلاں سعادت مند ہوا اب کبھی بد بخت نہ ہوگا اور فلاں بدبخت ہوگیا اب کبھی سعادت مندنہ ہوگا اور جس وقت موت ذبح کی جائے گی اس وقت ندا کی جائے گی کہ اے جنت والو! اب تمہیں یہاں ہمیشہ رہنا ہے اور تمہیں موت نہیں آئے گی اور اے جہنم والو!اب تمہیں یہا ں ہمیشہ رہناہے اور تمہیں موت نہیں آئے گی۔( خازن، المؤمن، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۷۱)
{وَ قَالَ فِرْعَوْنُ: اور فرعون نے کہا:} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون نے جب دیکھا کہ یہ شخص توایسی گفتگوکررہاہے جس کی وجہ سے لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہورہے ہیں اورلوگ اس کی بات کو درست سمجھ رہے ہیں تواس نے موضوع ہی تبدیل کردیااورلوگوں کو مُطمئن کرنے کیلئے مَکّاری اور چالبازی کے طور پر اپنے وزیر ہامان کوکہنے لگاکہ میرے لیے آسمان کے راستوں تک ایک اونچامحل بناؤ، میں اس پر چڑھ کر دیکھوں گا، شاید میں آسمان پر جانے والے راستوں تک پہنچ جاؤں اور وہاں جا کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خداکو جھانک کر دیکھوں ، میرے گمان کے مطابق میرے علاوہ کسی اور خداکے وجود کا دعویٰ کرنے میں موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جھوٹے ہیں ۔ یہ بات بھی فرعون نے اپنی قوم کو فریب دینے کے لئے کہی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ برحق معبود صرف اللہ تعالیٰ ہے اور فرعون اپنے آپ کو فریب کاری کے لئے معبود ٹھہرارہا ہے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اسی طرح فرعون کی نگاہ میں اس کا برا کام یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا اور اس کے رسول کو جھٹلانا خوش نُما بنادیا گیا اور شیطانوں نے وَسْوَسے ڈال کر اس کی برائیاں اس کی نظر میں بھلی کر دکھائیں اور وہ ہدایت کے راستے سے روک دیاگیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نشانیوں کے مقابلے میں فرعون کے مکرو فریب نقصان اورہلاکت کا شکار ہوئے اور وہ اپنے کسی داؤ میں کامیاب نہ ہو سکا۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۷، ۴ / ۷۲، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۷، ص۳۹۳، ملتقطاً)
{وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ: اور ایمان والے نے کہا۔} جب مردِ مومن نے دیکھا کہ فرعون کوئی معقول جواب نہیں دے سکا تو ا س نے دوبارہ اپنی قوم سے کہا:اے میری قوم ! تم فرعون کی بجائے میری پیروی کرومیں تمہیں بھلائی اورنجات کا راستہ دکھاؤں گا۔
اولیاء کی پیروی میں بھی ہدایت ہے:
{یٰقَوْمِ: اے میری قوم۔} مردِ مومن نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:اے میری قوم!یہ دنیا کی زندگی تھوڑی مدت تک کے لئے صرف ایک ناپائیدار نفع ہے جس کو بقا نہیں اور یہ ایک دن ضرور فنا ہو جائے گا جبکہ آخرت کی زندگی باقی اور ہمیشہ رہنے والی ہے اور یہ فانی زندگی سے بہتر ہے۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۷۲)
تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا زہد:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ سابقہ امتوں کے عقل مند حضرات کے نزدیک بھی دنیا ہمیشہ مذموم ہی رہی اور وہ لوگ دنیا کے پیچھے بھاگنے،اس کا مال و متاع جمع کرنے اور اس سے محبت رکھنے سے بچتے رہے اور لوگوں کو اس کی ترغیب بھی دیتے رہے ۔ہمارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی اپنے عمل مبارک سے اور اپنی روشن تعلیمات کے ذریعے ہمیں دنیا سے بے رغبت اور آخرت کی طرف راغب رہنے کی ترغیب اور تعلیم دی ہے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کَونَین کے شہنشاہ اور دو عالَم کے تاجدار ہوتے ہوئے ایسی زاہدانہ اور سادہ زندگی بسر فرمائی کہ تاریخِ نبوت میں اس کی مثال نہیں مل سکتی، خوراک ، پوشاک، مکان ، سامان اوررہن سہن الغرض مبارک زندگی کے ہر گوشہ میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا زہداور دنیا سے بے رَغبتی کا عالَم اس درجہ نمایاں تھا کہ اسے دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی نعمتیں اور لذّتیں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نگاہ ِنبوت میں ایک مچھر کے پر سے بھی زیادہ ذلیل اور حقیرتھیں، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک چٹائی پرسوگئے ،جب آپ بیدارہوئے توجسمِ اَقدس پرچٹائی کے نشانات تھے ۔ہم نے عرض کی اگرہم آپ کے لیے ایک بستر بنادیں ۔ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:مجھے دنیاسے کیالیناہے میں دنیامیں صرف ایک سوارکی طرح ہوں جوکسی درخت کے نیچے سائے کوطلب کرے پھراس درخت کے سائے کوچھوڑکرروانہ ہوجائے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب مثل الدنیا، ۴ / ۴۲۶، الحدیث: ۴۱۰۹)
حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے منبر پر فرمایا:اللہ کی قسم!میں نے تم لوگوں سے زیادہ کسی کو اس چیز میں رغبت کرتے نہیں دیکھا جس چیز سے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دور رہتے تھے ۔ تم لوگ دنیا میں رغبت رکھتے ہو جبکہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا میں رغبت نہ رکھتے تھے ۔اللہ کی قسم!آپ پر تین دن بھی نہ گزرتے کہ آپ کی آمدنی سے قرض زیادہ ہوتا۔( مستدرک، کتاب الرقاق، اربع اذا کان فیک... الخ، ۵ / ۴۴۸، الحدیث: ۷۹۵۱)
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے میرے بیٹے!موت کا ذکر کثرت سے کیا کرو کیونکہ جب تم کثرت سے موت کو یاد کرو گے تو تمہیں دنیا میں رغبت نہ رہے گی اور تم آخرت میں رغبت رکھنے لگو گے ،بے شک آخرت ہمیشہ رہنے کا گھر ہے اور دنیا ا س کے لئے دھوکے کی جگہ ہے جو اس سے دھوکہ کھا جائے ۔( جامع الاحادیث، مسند انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ، ۱۸ / ۴۸۲، الحدیث: ۱۳۰۳۷)
حضرت عبداللہ بن مسور ہاشمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس آدمی پر انتہائی تعجب ہے جو آخرت کے گھر کی تصدیق تو کرتا ہے لیکن کوشش دھوکے والے گھر (یعنی دنیا) کے لئے کرتا ہے۔( مسند شہاب، یا عجبا کل العجب... الخ، ۱ / ۳۴۷، الحدیث: ۵۹۵)
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا سے زیادہ اپنی آخرت سنوارنے اور اپنی آخرت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے خوب کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{مَنْ عَمِلَ سَیِّئَةً: جو برا کام کرے۔} یہاں سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ مردِ مومن نے اپنی قوم کو نیک اور برے اعمال اور ان کے انجام کے بارے میں بتایا،چنانچہ مردِ مومن نے کہا:جو دنیا میں برا کام کرے تو اسے اس برے کام کے حساب سے آخرت میں بدلہ ملے گااور مرد و عورت میں سے جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا والا اچھا کام کرے اوراس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمان بھی ہوکیونکہ اعمال کی مقبولیت ایمان پر مَوقوف ہے ،تو انہیں جنت میں داخل کیاجائے گا جہاں وہ بے حساب رزق پائیں گے اور نیک عمل کے مقابلے میں زیادہ ثواب عطا کرنا اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل ہے۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۷۲-۷۳، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۰، ۸ / ۱۸۶، ملتقطاً)
جنت میں بے حساب رزق ملے گا:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اہلِ جنت کو جنت میں بے حساب رز ق ملے گا،اسی مناسبت سے یہاں جنتی نعمتوں سے متعلق ایک حدیث پاک ملاحظہ ہو،چنانچہ ترمذی شریف میں ہے ، حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملاقات ہوئی توحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور آپ کو جنت کے بازار میں اکٹھا کر دے۔حضرت سعید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے(حیران ہو کر) کہا:کیا جنت میں بازار بھی ہو گا؟حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :ہاں ! مجھے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خبر دی ہے کہ جنت والے جب جنت میں داخل ہوں گے تو جنت کے درجات میں اپنے اعمال کے مطابق داخل ہوں گے،پھر انہیں دنیا کے دنوں کے حساب سے ایک ہفتہ میں اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے رب کی زیارت کریں گے اور ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا عرش ظاہر ہوگا اوراللہ تعالیٰ ان پر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں تجَلّی فرمائے گاتو ان کے لیے نور کے منبر ،موتیوں کے منبر ،یاقوت اور زَبَرجَد کے منبر، سونے اور چاندی کے منبر رکھے جائیں گے ،ان میں سے ادنیٰ درجے والے جنتی حالانکہ ان میں ادنیٰ کوئی نہیں ،مشک اور کافور کے ٹیلہ پر ہوں گے اور وہ یہ تصوُّر نہ کریں گے کہ کرسیوں والے ان سے اعلیٰ جگہ میں ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ ارشادفرمایا ’’ہاں ! کیا تم سورج کو اور چودھویں رات میں چاند کو دیکھنے میں شک کرتے ہو؟ ہم نے عرض کی: نہیں ۔ارشاد فرمایا’’ ایسے ہی تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھنے میں شک نہ کرو گے، اس مجلس میں ہر ایک کے سامنے اللہ تعالیٰ بے حجاب موجود ہوگاحتّٰی کہ ان میں سے ایک شخص سے ارشاد فرمائے گاـ: اے فلاں کے بیٹے فلاں ! کیا تجھے وہ دن یاد ہے جب تو نے ایسا ایسا کہا تھا ؟اللہ تعالیٰ اسے اس کی بعض دُنْیَوی بدعَہدیاں یاد دلائے گا تو وہ بندہ عرض کرے گا:اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، کیا تو نے مجھے بخش نہیں دیا؟اللہ تعالیٰ ارشادفرمائے گا: ہاں ! تو میری وسیع رحمت کی وجہ سے ہی تو اپنے اس درجہ میں پہنچا ۔ وہ اسی حالت میں ہوں گے کہ ان کے اوپر بادل چھا جائے گا اور ان پر ایسی خوشبو برسائے گا کہ اس جیسی خوشبو کبھی کسی چیز میں نہ پائی ہوگی،اور ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ارشادفرمائے گا: اس اِنعام واِکرام کی طرف جاؤ جو میں نے تمہارے لیے تیار کیا ہوا ہے اور اس میں سے جو چاہو لے لو ۔تب ہم اس بازار میں پہنچیں گے جسے فرشتوں نے گھیرا ہوگا، اس میں وہ چیزیں ہوں گی جن کی مثل نہ آنکھوں نے دیکھی، نہ کانوں نے سنی اور نہ دلوں پر ان کا خیال گزرا ۔تب ہم جو چاہیں گے وہ ہمیں دیدیا جائے گا، وہاں نہ تو خرید ہوگی نہ فروخت اور اس بازار میں جنتی ایک دوسرے سے ملیں گے اور بلند درجے والا خود آئے گا اور اپنے سے نیچے درجے والے سے ملے گا حالانکہ ان میں نیچا کوئی نہیں تو اس پر جو لباس یہ دیکھے گا وہ اسے پسند آئے گا، ابھی اس کی آخری بات ختم نہ ہوگی کہ اسے اپنے اوپر موجود لباس اس سے اچھا محسوس ہوگا ،یہ اس لیے ہوگا کہ جنت میں کوئی غمگین نہ ہو، پھر ہم اپنے گھروں کی طرف لوٹیں گے تو ہم سے ہماری بیویاں ملیں گی اور کہیں گی: مرحبا، خوش آمدید! جس وقت آپ یہاں سے گئے تھے اس وقت کے مقابلے میں اب آپ کا حسن و جمال بہت زیادہ ہے۔ تب ہم کہیں گے: آج ہمیں اپنے رب تعالیٰ کے دربار میں بیٹھنا نصیب ہو اتھا،(خدائے) جَبّار کے حضور ہمیں ہم نشینی نصیب ہوئی، ہمارا حق یہ ہی تھا کہ ہم ایسے لوٹیں جیسے اب لوٹے ہیں ۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء فی سوق الجنۃ، ۴ / ۲۴۶، الحدیث: ۲۵۵۸)
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے ہمیں بھی جنت میں داخلہ نصیب فرمائے، اٰمین۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan