Surah Ghafir
{وَ یٰقَوْمِ: اور اے میری قوم!} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی قوم کو نصیحت کرتے وقت مردِ مومن نے یہ محسوس کیا کہ لوگ میری باتوں پر تعجب کر رہے ہیں اور میری بات ماننے کی بجائے مجھے اپنے باطل دین کی طرف بلانا چاہتے ہیں تو اس نے اپنی قوم کومُخاطَب کرکے کہا: تم عجیب لوگ ہو کہ میں تمہیں ایمان اور طاعت کی تلقین کر کے جنت کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے کفر و شرک کی دعوت دے کر جہنم کی طرف بلا رہے ہو ۔تم مجھے اِس بات کی طرف بلاتے ہو کہ میں اُس اللہ تعالیٰ کا انکار کر دوں جس کا کوئی شریک نہیں اور معبود ہونے میں ایسے کو اس کا شریک کروں جس کے معبود ہونے پر کوئی دلیل ہی نہیں اور میں تمہیں اس اللہ کی طرف بلا رہا ہو ں جو عزت والا ہے اور توبہ کرنے والے کو بہت بخشنے والا ہے،توخود ہی ثابت ہوا کہ تم مجھے جس کی عبادت کی طرف بلا رہے ہو اس کی عبادت کرنا دنیا اور آخرت میں کہیں کام نہ آ ئے گا کیونکہ وہ حقیقی معبود نہیں اور یاد رکھو کہ ہمیں مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور وہ ہمیں ہمارے اعمال کی جز ادے گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ کافر ہی ہمیشہ کے لئے جہنم میں جائیں گے۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۳، ۸ / ۱۸۶-۱۸۷، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۳، ص۱۰۶۰-۱۰۶۱، ملتقطاً)
{فَسَتَذْكُرُوْنَ مَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ: تو جلد ہی تم وہ یاد کرو گے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مردِ مومن نے کہا: میری باتیں ابھی تمہارے دل پر نہیں لگتیں لیکن عنقریب جب تم پر عذاب نازل ہو گا تو اس وقت تم میری نصیحتیں یاد کرو گے مگراس وقت کا یاد کرنا کچھ کام نہ دے گا ۔ یہ سن کر ان لوگوں نے اس مومن کو دھمکی دی کہ اگر تم ہمارے دین کی مخالفت کرو گے تو ہم تمہارے ساتھ برے طریقے سے پیش آئیں گے ۔اس کے جواب میں اس نے کہا: میں اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کو سونپتا ہوں ، بیشک اللہ تعالیٰ بندوں کو دیکھتا ہے اور ان کے اعمال اوراحوال کو جانتا ہے (لہٰذا مجھے تمہارا کوئی ڈر نہیں )۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۴، ۴ / ۷۳، ملخصاً)
میرا مالک نہیں ،میرا اللہ تو مجھے دیکھ رہا ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی عمل کرتے وقت یہ بات اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اور وہ اس کے تمام اَعمال اور اَحوال سے با خبر ہے،یہاں اسی سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بعض لوگوں کے ساتھ صحرا کی طرف نکلے ،وہاں انہوں نے کھانا پکایا ،جب کھانا تیار ہو گیا تو وہاں انہوں نے ایک چرواہے کو دیکھا جو بکریاں چرا رہا تھا،انہوں نے اسے کھانے کی دعوت دی تو چرواہے نے کہا:آپ کھائیں کیونکہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔لوگوں نے اسے آزمانے کے طور پر کہا:اس جیسے شدید گرم دن میں تم نے کیسے روزہ رکھا ہوا ہے؟اس نے کہا:جہنم کی گرمی اس سے زیادہ شدید ہے۔لوگ اس کی بات سن کر حیران ہوئے اور اس سے کہا:ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں بیچ دو،ہم تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے اور اس کے گوشت میں سے حصہ بھی دیں گے۔اس نے کہا:یہ بکریاں میری نہیں بلکہ میرے سردار اور میرے مالک کی ہیں تو پھر میں اسے کیسے بیچ سکتا ہوں ۔لوگوں نے اس سے کہا:تم اپنے مالک سے یہ کہنا دینا کہ اسے بھیڑیا کھا گیا ہے یا وہ گم ہو گئی ہے ۔اس چرواہے نے کہا:(اگر میرا مالک مجھے نہیں دیکھ رہا تو پھر)اللہ تعالیٰ کہاں ہے (یعنی جب وہ مجھے دیکھ رہا ہے تو پھر میں جھوٹی بات کیسے کہہ سکتا ہوں ) لوگ اس کے کلام سے بہت حیران ہوئے ،پھر جب وہ مدینہ منورہ واپس تشریف لائے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے بکریوں سمیت اس چرواہے کو خرید کر آزاد کر دیا اور وہ بکریاں اسے تحفے میں دیدیں ۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۴، ۸ / ۱۸۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا حقیقی خوف نصیب فرمائے اور ہر حال میں اپنی نافرمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا: تو اللہ نے اسے بچالیا ان کے مکر کی برائیوں سے۔} اس سے پہلی آیت میں بیان ہو اکہ مردِ مومن نے (فرعونیوں کی دھمکی کی پرواہ نہ کی اور) اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیااور یہاں بیان کیا جا ر ہاہے کہ جب فرعون اور اس کے درباریوں نے مرد ِمومن کو سزا دینے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے ان کے شر سے بچا لیا جبکہ فرعون کی قوم اور فرعون کا انجام یہ ہوا کہ انہیں برے عذاب نے گھیر لیا،دنیا میں وہ فرعون کے ساتھ دریا میں غرق ہوگئے اور قیامت کے دن جہنم میں جائیں گے ۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۵، ۹ / ۵۲۱، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴ / ۷۳، ملتقطاً)
{اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا: آ گ جس پر صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں ۔} یعنی فرعون اور اس کی قومکو دنیا میں غرق کر دیا گیا ،پھر انہیں صبح وشام آگ پر پیش کیا جاتا ہے اور وہ اس میں جلائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی، اس دن فرشتوں کو حکم فرمایا جائے گا کہ فرعون والوں کو جہنم کے سخت تر عذاب میں داخل کردو۔(جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۳۹۴)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ فرعونیوں کی روحیں سیاہ پرندوں کے قالب میں ہر روز دو مرتبہ صبح و شام آ گ پر پیش کی جاتی ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ آ گ تمہارا مقام ہے اور قیامت تک ان کے ساتھ یہی معمول رہے گا ۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۷۳)
عذابِ قبر کا ثبوت:
اس آیت سے عذابِ قبر کے ثبوت پر اِستدلال کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں پہلے صبح و شام فرعونیوں کو آگ پر پیش کئے جانے کا ذکر ہوا اور اس کے بعد قیامت کے دن سخت تر عذاب میں داخل کئے جانے کا بیان ہوا، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت سے پہلے بھی انہیں آگ پر پیش کرکے عذاب دیا جا رہاہے اور یہی قبر کا عذاب ہے۔ کثیر اَحادیث سے بھی قبر کا عذاب بر حق ہونا ثابت ہے، ان میں سے ایک حدیث پاک یہ ہے ،چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ہر مرنے والے پر اس کا مقام صبح و شام پیش کیا جاتا ہے ،جنتی پر جنت کا اور دوزخی پر دوزخ کا اور اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھے اس کی طرف اٹھائے ۔( صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب المیّت یعرض علیہ مقعدہ... الخ، ۱ / ۴۶۵، الحدیث: ۱۳۷۹۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے قبر کے عذاب سے محفوظ فرمائے، اٰمین۔
{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْهُدٰى: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو رہنمائی عطا فرمائی۔} اس آیت میں لفظ ’’ الْهُدٰى‘‘ سے مراد تورات اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دئیے جانے والے معجزات ہیں جو ان کی قوم کے لئے رہنمائی اور ہدایت حاصل کرنے کا ذریعہ تھے،نیز اس سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا کئے جانے والے وہ کثیر علوم بھی مراد ہو سکتے ہیں جو دنیا اور آخرت میں نفع مند ہیں اور بنی اسرائیل کو جس کتاب کا وارث بنایا گیااس سے مراد تورات ہے۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۳، ۸ / ۱۹۵، تفسیر کبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۳، ۹ / ۵۲۵، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۳، ۴ / ۷۴، ملتقطاً)
{فَاصْبِرْ: توتم صبر کرو۔} اس سے پہلی آیات میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کی مدد فرمائے گا اور اب یہاں سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر صبر کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی ایذا پر صبر کرتے رہیں ،بے شک اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور اس نے جس طرح پہلے رسولوں کی مدد فرمائی اسی طرح وہ آپ کی مدد بھی فرمائے گا، آپ کے دین کو غالب کرے گا اور آپ کے دشمنوں کو ہلاک کرے گا نیز آپ اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے گناہوں کی معافی طلب کریں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے پر ہمیشہ قائم رہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ صبح شام اللہ تعالیٰ کی پاکی بولنے سے پانچوں نمازیں مراد ہیں ۔( تفسیر کبیر ، المؤمن ، تحت الآیۃ : ۵۵، ۹ / ۵۲۵ ، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۵، ۴ / ۷۴، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۱۰۶۲، ملتقطاً)
{وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ: اور اپنوں کے گناہوں کی معافی چاہو۔} یاد رہے کہ آیت کے اس حصے میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہی خطاب ہونا مُتعَیّن نہیں بلکہ ا س کا احتمال ہے اور اس صورت میں اس کے جو معنی ہوں گے ان میں سے ایک اوپر بیان ہو اکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی امت کے گناہوں کی معافی چاہیں ۔ دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر بالفرض کوئی مَعصِیَت واقع ہو تو اس سے استغفار واجب ہے ،جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :(سورہِ مومن اور سورہِ محمد کی) دونوں آیتِ کریمہ میں صیغۂ اَمر ہے اور امر اِنشا ہے اور اِنشا وقوع پر دال نہیں تو حاصل اس قدر کہ بفرضِ وقوع استغفار واجب ،نہ یہ کہ مَعَاذَاللہ واقع ہوا،جیسے کسی سے کہنا ’’اَکْرِمْ ضَیْفَکَ‘‘ اپنے مہمان کی عزت کرنا،اس سے یہ مراد نہیں کہ اس وقت کوئی مہمان موجود ہے ،نہ یہ خبر ہے کہ خواہی نخواہی کوئی مہمان آئے گا ہی، بلکہ صرف اتنا مطلب ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یوں کرنا۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۰۰)
اور اس آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس میں خطاب ہر سامع سے ہو،جیسا کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :سورۂ مومن و سورۂ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی آیات ِکریمہ میں کون سی دلیل قطعی ہے کہ خطاب حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے ہے، مومن میں تو اتنا ہے ’’وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ‘‘ اے شخص اپنی خطا کی معافی چاہ۔ کسی کا خاص نام نہیں ، کوئی دلیل تخصیصِ کلام نہیں ،قرآنِ عظیم تمام جہاں کی ہدایت کے لیے اترا نہ صرف اس وقت کے موجودین (کی ہدایت کے لئے) بلکہ قیامت تک کے آنے والوں سے وہ خطاب فرماتا ہے ’’ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ‘‘ نماز برپا رکھو۔ یہ خطاب جیسا صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے تھا ویسا ہی ہم سے بھی ہے اور تا قیامِ قیامت ہمارے بعد آنے والی نسلوں سے بھی۔۔۔ یونہی دونوں سورہِ کریمہ میں کافِ خطاب ہر سامع کے لیے ہے کہ اے سننے والے اپنے اور اپنے سب مسلمان بھائیوں کے گناہ کی معافی مانگ۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۳۹۸-۳۹۹)
نوٹ:اس مسئلے سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے لئے فتاویٰ رضویہ ،جلد 29،صفحہ394تا401کا مطالعہ فرمائیں ۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ: بیشک وہ جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں ۔} اس آیت میں جھگڑا کرنے والوں سے مراد کفارِ قریش ہیں ،یہ لوگ تکبر کیا کرتے تھے اور ان کا یہی تکبر ان کے تکذیب و انکار اور کفر کو اختیار کرنے کاسبب بناکیونکہ انہوں نے یہ گوارا نہ کیا کہ کوئی ان سے اونچا ہو، اور یہ فاسد خیال کیا کہ اگر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبی مان لیں گے تو ہماری اپنی بڑائی جاتی رہے گی،ہمیں امتی اور چھوٹا بننا پڑے گا حالانکہ ہمیں تو بڑا بننے کی ہوس ہے ،اس لئے انہوں نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دشمنی کی۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :یہ لوگ جس چیز کی ہوس رکھتے ہیں اسے نہ پا سکیں گے اور انہیں بڑائی مُیَسَّر نہ آئے گی، بلکہ حضور ِاَکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت اور انکار، ان لوگوں کے حق میں ذلت اور رسوائی کا سبب ہو گا، تو اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حاسدوں کے مکر اور ان کی سازشوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں ، کیونکہ یقینا وہی ان کے اَقوال کو سنتا اور ان کے اَحوال کو دیکھتا ہے تو وہی ان کے خلاف آپ کی مدد کرے گا اور ان کے شر سے آپ کو بچائے گا۔( تفسیر کبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۶، ۹ / ۵۲۶، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۳۹۴، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۱۰۶۲، ملتقطاً)
{لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش۔} یہ آیت ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئی جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتے تھے،اس میں ان پر حجت قائم کی گئی کہ جب تم آسمان و زمین کی اس عظمت اور بڑائی کے باوجود انہیں پیدا کرنے پر اللہ تعالیٰ کو قادر مانتے ہو تو پھر انسان کو دوبارہ پیدا کردینا اس کی قدرت سے کیوں بعید سمجھتے ہو۔( مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۱۰۶۳، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۷، ۴ / ۷۵، ملتقطاً)
{وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ: لیکن بہت لوگ نہیں جانتے۔} یہاں بہت لوگوں سے مراد کفار ہیں اور ان کی طرف سے دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکارکرنے کا سبب ان کی بے علمی ہے کہ وہ یہ تو مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی پیدائش پر قادر ہے لیکن اس سے یہ نہیں سمجھتے کہ ایسی قادرذات لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے تو یہ لوگ اندھوں کی مثل ہیں جبکہ ان کے مقابل وہ لوگ جو مخلوقات کے وجود سے خالق کی قدرت پر اِستدلال کرتے ہیں وہ آنکھ والے کی مثل ہیں ۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۷، ۴ / ۷۵، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۳۹۵، ملتقطاً)
{ وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ: اور اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ۔} یعنی جاہل اور عالِم یکساں نہیں ،یونہی نیک مومن اور بد کار،یہ دونوں بھی برابر نہیں یہ سب جاننے کے باوجود تم کتنی کم ہدایت اور نصیحت حاصل کرتے ہو۔
{اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ: بیشک قیامت ضرور آنے والی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک قیامت ضرور آنے والی ہے اور اس کے شواہد اتنے واضح ہیں جن کی وجہ سے قیامت آنے میں کچھ شک نہیں رہتا لیکن اکثر لوگ (دلائل میں غور وفکر نہ کرنے کی وجہ سے) اس پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ہی اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۹، ۸ / ۱۹۹-۲۰۰، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۱۰۶۳، ملتقطاً)
{ وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہ بات ضروری طور پر معلوم ہے کہ قیامت کے دن انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے ہی نفع پہنچے گا اس لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہونا انتہائی اہم کام ہے اور چونکہ عبادات کی اَقسام میں دعا ایک بہترین قِسم ہے ا س لئے یہاں بندوں کو دعا مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۹ / ۵۲۷)
اس آیت میں لفظ ’’اُدْعُوْنِیْۤ ‘‘ کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد دعا کرنا ہے۔اس صورت میں آیت کے معنی ہوں گے کہ اے لوگو! تم مجھ سے دعا کرو میں اسے قبول کروں گا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد’’ عبادت کرنا ‘‘ ہے ،اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ تم میری عبادت کرومیں تمہیں ثواب دوں گا۔(تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۹ / ۵۲۷، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۳۹۵، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۱۰۶۳، ملتقطاً)
دعا مانگنے کی ترغیب اور ا س کے فضائل:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگنی چاہئے ،کثیر اَحادیث میں بھی دعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے،یہاں ان میں سے دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’دعا ان مصیبتوں میں نفع دیتی ہے جو نازل ہو گئیں اور جو ابھی نازل نہیں ہوئیں ان میں بھی فائدہ دیتی ہے ،تو اے لوگو! تم پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔( مستدرک، کتاب الدعاء والتہلیل۔۔۔ الخ، الدعاء ینفع ممّا نزل وممّا لم ینزل، ۲ / ۱۶۳، الحدیث: ۱۸۵۸)
(2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو آدمی اللہ تعالیٰ سے سوال نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرماتا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۲-باب منہ، ۵ / ۲۴۴، الحدیث: ۳۳۸۴)
نیز دعا کی مزید ترغیب پانے کے لئے یہاں دعا مانگنے کے15فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیزدعا سے بزرگ تر نہیں ۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعائ، ۵ / ۲۴۳، الحدیث: ۳۳۸۱)
(2)…دعا مسلمانوں کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کا نورہے۔(مستدرک، کتاب الدعاء والتہلیل۔۔۔ الخ، الدعاء سلاح المؤمن وعماد الدین، ۲ / ۱۶۲، الحدیث: ۱۸۵۵)
(3)…دعا مصیبت وبلا کو اترنے نہیں دیتی۔(مستدرک، کتاب الدعاء والتہلیل۔۔۔ الخ، الدعاء ینفع ممّا نزل وممّا لم ینزل، ۲ / ۱۶۲، الحدیث: ۱۸۵۶)
(4)…دن رات اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا دشمن سے نجات اور رزق وسیع ہونے کا ذریعہ ہے ۔(مسند ابی یعلی، مسند جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ، ۲ / ۲۰۱، الحدیث: ۱۸۰۶)
(5)…دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ والاستغفار۔۔۔ الخ، ۵ / ۳۱۸، الحدیث: ۳۵۵۱)
(6)…اللہ تعالیٰ (اپنے علم و قدرت سے) دعا کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔(مسلم، کتاب الذکر والدعاء۔۔۔ الخ، باب فضل الذکر والدعاء۔۔۔ الخ، ص۱۴۴۲، الحدیث: ۱۹(۲۶۷۵))
(7)…جو بلا اتر چکی اور جو نہیں اتری ،دعا ان سے نفع دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۲۱، الحدیث: ۳۵۵۹)
(8)…دعا عبادت کا مغز ہے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعاء، ۵ / ۲۴۳، الحدیث: ۳۳۸۲)
(9)…دعا رحمت کی چابی ہے۔( مسند الفردوس، باب الدال، ذکر الفصول من ذوات الالف واللام، ۲ / ۲۲۴، الحدیث: ۳۰۸۶)
(10)…دعا قضا کو ٹال دیتی ہے۔(مستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہم، البرّ یزید فی الرزق، ۴ / ۶۰۸، الحدیث: ۶۰۹۲)
(11)…دعا اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے۔( ابن عساکر، ذکر من اسمہ: سلم، سلم بن یحی بن عبد الحمید۔۔۔ الخ، ۲۲ / ۱۵۸)
(12)… دعا بلا کو ٹال دیتی ہے۔( کنزالعمال، کتاب الاذکار، قسم الاقوال، الباب الثامن، الفصل الاوّل، ۱ / ۲۸، الجزء الثانی، الحدیث: ۳۱۱۸)
(13)…جسے دعا کرنے کی توفیق دی گئی اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۲۱، الحدیث: ۳۵۵۹)
(14)…جب بندہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ لَبَّیْکَ عَبْدِیْ فرماتا ہے۔( مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۲۸۶، الحدیث: ۱۱۲۲)
(15) … دعا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قدر و منزلت حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۲۸۸، الحدیث: ۸۷۵۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت سے دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
اس مقام پر مفسرین نے دعا قبول ہونے کی چندشرائط ذکر فرمائی ہیں ،ان کا خلاصہ درج ذیل ہے،
(1)…دعا مانگنے میں اخلاص ہو۔
(2)… دعا مانگتے وقت دل دعاکے علاوہ کسی اور چیزکی طرف مشغول نہ ہو۔
(3) … جو دعا مانگی وہ کسی ایسی چیز پر مشتمل نہ ہو جو شرعی طور پر ممنوع ہو۔
(4)… دعا مانگنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین رکھتا ہو۔
(5)…اگر دعا کی قبولیت ظاہر نہ ہو تووہ شکایت نہ کرے کہ میں نے دعا مانگی لیکن وہ قبول نہ ہوئی۔(خزائن العرفان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۸۷۳، ملخصاً)
جب ان شرطوں کو پورا کرتے ہوئے دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول ہوتی ہے اور یاد رہے کہ جو دعا تمام شرائط و آداب کی جامع ہو تو اس کے قبول ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ جو مانگا وہ مل جائے بلکہ اس کی قبولیت کی اور صورتیں بھی ہو سکتی ہیں مثلاً اُ س دعاکے مطابق گناہ معاف کر دئیے جائیں یا آخرت میں اس کے لئے ثواب ذخیرہ کر دیا جائے ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ بندہ اپنے رب سے جو بھی دعا مانگتا ہے ا س کی دعا قبول ہوتی ہے، (اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ) یا تو اس کی مانگی ہوئی مراد دنیا ہی میں اس کو جلد دیدی جاتی ہے ،یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا دعا کے مطابق اس کے گناہوں کا کفارہ کردیا جاتا ہے اور اس میں شرط یہ ہے کہ وہ دعا گناہ یا رشتہ داری توڑنے کے بارے میں نہ ہو اور (اس کی قبولیت میں) جلدی نہ مچائے ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:وہ جلدی کیسے مچائے گا ؟ارشاد فرمایا: ’’اس کا یہ کہنا کہ میں نے دعا مانگی لیکن قبول ہی نہ ہوئی (یہ کہنا ہی جلدی مچانا ہے)۔( ترمذی، احادیث شتّی، ۱۳۵-باب، ۵ / ۳۴۷، الحدیث: ۳۶۱۸)
اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے اور وہ اپنی رحمت سے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات ہماری مانگی ہوئی دعائیں قبول نہیں ہوتیں ،اس کے کچھ اَسباب ہوتے ہیں جنہیں بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ نقی علی خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
اے عزیز!اگر دعا قبول نہ ہو تو (تجھے چاہئے کہ) اسے اپنا قصور سمجھے ،خدائے تعالیٰ کی شکایت نہ کرے (کیوں ) کہ اس کی عطا میں نقصان (یعنی کوئی کمی) نہیں ، تیری دعا میں نقصان (یعنی کمی) ہے۔ اے عزیز!دعا چند سبب سے رد ہوتی ہے:
پہلا سبب:کسی شرط یا ادب کا فوت ہونا اور یہ تیرا قصور ہے ،اپنی خطا پر نادم نہ ہونا اور خدا کی شکایت کرنا نِری بے حیائی ہے ۔
دوسرا سبب: گناہوں سے تَلَوُّث (یعنی گناہوں میں مبتلا رہنا)۔
تیسرا سبب:اِسْتِغنائے مولیٰ۔وہ حاکم ہے محکوم نہیں ،غالب ہے مغلوب نہیں ،مالک ہے تابع نہیں ،اگر (اس نے) تیری دعا قبول نہ فرمائی (تو) تجھے ناخوشی اور غصے، شکایت اور شکوے کی مجال کب ہے ،جب خاصوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ جب چاہتے ہیں عطا کرتے ہیں ،جب چاہتے منع فرماتے ہیں تو تُو کس شمار میں ہے کہ اپنی مراد (ملنے ہی) پر اِصرار کرتا ہے ۔
چوتھا سبب:حکمت ِ الٰہی ہے کہ کبھی تو براہِ نادانی کوئی چیز اس سے طلب کرتا ہے اور وہ براہِ مہربانی تیری دعا کو اس سبب سے کہ تیرے حق میں مُضِر (یعنی نقصان دِہ) ہے، رد فرماتا ہے (اور اسے قبول نہیں فرماتا)، مثلاً:تو جویائے سِیم و زَر (یعنی مال و دولت کا طلبگار) ہے اور اس میں تیرے ایمان کا خطر (یعنی ایمان ضائع ہوجانے کا ڈر) ہے یا تو خواہانِ تندرستی وعافیت (یعنی ان چیزوں کا سوال کرتا) ہے اور وہ علمِ خدا میں مُوجبِ نقصانِ عاقبت (یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ تیرے اُخروی نقصان کا باعث) ہے، ایسا رد ،قبول سے بہتر (یعنی ایسی دعا کو قبول کئے جانے کی بجائے رد کر دیناہی بہتر ہے)۔
پانچواں سبب:کبھی دعا کے بدلے ثوابِ آخرت دینا منظور ہوتا ہے، تو حُطامِ دنیا (یعنی دنیا کاساز وسامان) طلب کرتا ہے اور پروردگار نفائسِ آخرت (یعنی آخرت کی عمدہ اور نفیس چیزیں ) تیرے لیے ذخیرہ فرماتا ہے، یہ جائے شکر (یعنی شکر کا مقام) ہے نہ (کہ) مقامِ شکایت۔( فضائل دعا، فصل ششم، ص۱۵۳-۱۵۹، ملتقطاً)
نوٹ: دعا کے فضائل و آداب اور اس سے متعلق دیگر چیزوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے والدماجد حضرت علامہ مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شاندار تصنیف ’’اََحْسَنُ الْوِعَاء لِآدَابِ الدُّعَاء‘‘(یہ کتاب تسہیل وتخریج کے ساتھ مکتبۃ المدینہ سے بھی بنام ’’فضائل دعا‘‘ شائع ہوچکی ہے) اورراقم کی کتاب ’’فیضانِ دعا‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ: بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں ۔} یاد رہے کہ جن آیات و اَحادیث میں دعاترک کرنے پر جہنم میں داخلے یا غضبِ الٰہی وغیرہ کی وعیدیں آئی ہیں ، ان میں وہ لوگ مراد ہیں جو مُطْلَقاً دعا کو ترک کر دیتے ہیں (یعنی کچھ بھی ہوجائے، ہم نے دعا نہیں کرنی) یا مَعَاذَاللہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بے نیاز سمجھ کر دعا ترک کردیتے ہیں ، اور اسی وجہ سے اس کے حضور گریہ و زاری کرنے سے کتراتے اور پرہیز کرتے ہیں اور یہ صورت صریح کفر اور اللہ تعالیٰ کے دائمی غضب کا باعث ہے، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اَحادیثِ سابقہ (جو کہ دوسری فصل، ادب نمبر30 کے تحت ذکر ہوئیں ) جن میں ارشاد ہوا کہ ’’جو دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرمائے‘‘، ترکِ مُطْلَق ہی پر محمول یا مَعَاذَاللہ، اپنے کو بارگاہِ عزت عَزَّوَجَلَّ سے بے نیاز جاننا، اس کے حضور تَضَرُّع و زاری سے پر ہیز رکھنا کہ اب صریح کفر ومُوجبِ غضبِ اَبدی ہے، ولہٰذا ’’اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ‘‘ (مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا) کے مُتَّصل ہی ارشاد ہوا ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ‘‘(بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں جائیں گے۔)( فضائل دعا، فصل دہم، ص۲۳۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت سے دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعا مانگنے میں تکبر کرنے سے ہماری حفاظت فرمائے،اٰمین۔
{كَذٰلِكَ یُؤْفَكُ: یونہی اوندھے ہوتے ہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح کفارِ قریش حق سے پھر گئے اسی طرح وہ لوگ اوندھے ہوتے اورد لائل قائم ہونے کے باوجود حق سے پھرجاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیوں اور ا س کے رسول کے معجزات کا انکار کرتے ہیں اور ان میں غورو فکر کر کے حق کو طلب نہیں کرتے (لہٰذ ا اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں کے جھٹلانے سے غمزدہ اور افسردہ نہ ہوں )۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۳، ۸ / ۲۰۴، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۱۰۶۴، ملتقطاً)
{اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ: کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو قرآنِ مجید کی واضح آیات کو باطل کرنے کے لئے ان میں جھگڑا کرتے ہیں حالانکہ وہ آیتیں ایمان قبول کر لینے کا باعث ہیں اور آیتوں میں جھگڑا کرنے سے انتہائی سختی کے ساتھ روکتی ہیں اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان کے خراب احوال اور کمزور آراء پر تعجب فرمائیے کہ یہ کس طرح قرآن مجید کی آیات اور ان کی تصدیق کرنے سے انہیں جھٹلانے کی طرف پھر رہے ہیں حالانکہ بے شمار ایسے دلائل موجود ہیں جن کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایمان قبول کر کے قرآنی آیات کے سامنے سر ِتسلیم َخم کر لیں ۔
یاد رہے کہ اس سورت میں 4مقامات پر قرآنِ کریم کی آیات میں جھگڑا کرنے والوں کا ذکر ہوا،اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ہر مقام پر جھگڑا کرنے والے مختلف لوگوں کا ذکر ہو اور ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جن آیات میں جھگڑا کیا گیا وہ مختلف ہوں اور ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ (اس معاملے کی اہمیت کی وجہ سے) تاکید کے طور پر اس کا چار بار ذکر کیا گیا ہو،نیز بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں جھگڑا کرنے والوں سے مشرکین مراد ہیں اور بعض کے نزدیک وہ لوگ مراد ہیں جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں ۔(روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۹، ۸ / ۲۱۰، طبری، غافر، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱۱ / ۷۶، ملتقطاً)
{اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِالْكِتٰبِ: وہ جنہوں نے کتاب کو جھٹلایا۔} یعنی جن کافروں نے قرآنِ کریم کو جھٹلایا اور جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بھیجا اسے بھی جھٹلایا تو عنقریب وہ اپنے جھٹلانے کا انجام جان جائیں گے۔
{اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ: جب ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی5آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جھٹلانے والے کافر اس وقت اپنا انجام جان جائیں گے جب ان کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی اور وہ ان زنجیروں سے کھولتے پانی میں گھسیٹے جائیں گے، پھروہ لوگ آگ میں دہکائے جائیں گے اور وہ آ گ باہر سے بھی انہیں گھیرے ہوگی اور ان کے اندر بھی بھری ہوگی، پھر ڈانتے ہوئے ان سے فرمایا جائے گا:وہ بت کہاں گئے جنہیں تم دنیا میں اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے اور اللہ تعالیٰ کی بجائے ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔کفارکہیں گے: وہ تو ہماری نگاہوں سے غائب ہو گئے اور ہمیں کہیں نظر ہی نہیں آتے ،بلکہ ہم پر تو یہ واضح ہو اہے کہ ہم دنیا میں کچھ پوجتے ہی نہ تھے۔کفاربتوں کی پوجا کرنے کا انکار کرجائیں گے ، پھر بت حاضر کئے جائیں گے اور کفار سے فرمایا جائے گا کہ تم اور تمہارے یہ معبود سب جہنم کا ایندھن ہو ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جہنمیوں کا یہ کہنا کہ ہم پہلے کچھ پوجتے ہی نہ تھے، اس کے یہ معنی ہیں کہ اب ہمیں ظاہر ہوگیا کہ جنہیں ہم پوجتے تھے وہ کچھ نہ تھے کہ کوئی نفع یا نقصان پہنچاسکتے ۔مزید ارشاد فرمایا کہ جس طرح ان کے بت گم ہو گئے اسی طرح اللہ تعالیٰ کافروں کو حق سے گمراہ کرتا ہے۔ اے کافرو!جس عذاب میں تم مبتلا ہو،یہ اس کا بدلہ ہے جو تم زمین میں شرک،بت پرستی اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے پر خوش ہوتے تھے اور اس کا بدلہ ہے جو تم نعمتوں پر اِتراتے تھے ۔جاؤ جہنم کے دروازوں میں ! تمہیں اس میں ہمیشہ رہنا ہے، تو جہنم ان لوگوں کا کیا ہی برا ٹھکانہ ہے جنہوں نے تکبر کیا اور حق کو قبول نہ کیا۔( خازن، حم المؤمن،تحت الآیۃ:۷۱-۷۶، ۴ / ۷۸، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۶، ص۳۹۵-۳۹۶، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۶، ص۱۰۶۵، ملتقطاً)
{فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ: تو تم صبر کرو بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفار کے جھگڑوں اور دیگر چیزوں سے آپ کو جو اَذِیَّت پہنچی ہے اس پر صبر فرمائیں،بیشک اللہ تعالیٰ نے کفار کوعذاب دینے کا جووعدہ فرمایا وہ سچا ہے، اور اس عذاب کا کچھ حصہ اگر ہم آپ کی وفات سے پہلے دنیا میں ہی آپ کو دکھا دیں تو وہ آپ ملاحظہ فرمائیں اور اگر ہم انہیں عذاب دینے سے پہلے ہی آپ کو وفات دے د یں تو آپ آخرت میں کافروں کے عذاب کو ضرور دیکھ لیں گے کیونکہ قیامت کے دن انہیں بہر حال ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا اور شدید عذاب میں گرفتار ہونا ہے۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۷۷، ۸ / ۲۱۴، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۳۹۶، ملتقطاً)
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ: اور بیشک ہم نے تم سے پہلے کتنے رسول بھیجے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک ہم نے آپ کی بِعثَت سے پہلے بہت سے رسول مختلف امتوں کی طرف بھیجے اور ان میں سے کسی کے احوال آپ سے اس قرآن میں صراحت کے ساتھ بیان فرمائے اور کسی کے احوال قرآنِ مجید میں تفصیل اور صراحت کے ساتھ بیان نہ فرمائے ۔اِن تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے نشانی اور معجزات عطا فرمائے، اس کے باوجود ان کی قوموں نے ان سے جھگڑا کیا اور انہیں جھٹلایا اور اس پر ان حضرات نے صبر کیا ۔گزشتہ رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس تذکرہ سے مقصود نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا ہے کہ جس طرح کے واقعات قوم کی طرف سے آپ کو پیش آرہے ہیں اور جیسی ایذائیں آپ کوپہنچ رہی ہیں پہلے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بھی یہی حالات گزر چکے ہیں اور جیسے انہوں نے صبر کیا اسی طرح آپ بھی صبر فرمائیں ۔( خازن ، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۷۸، ۴ / ۷۸، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۱۰۶۶، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۷۸، ۸ / ۲۱۷، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan