Surah az-Zukhruf
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔([1])
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔[1] ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰهشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضویدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِبِسْمِ اللّٰهِ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ: روشن کتاب کی قسم۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ روشن کتاب قرآنِ پاک کی قسم ،جس نے ہدایت اور گمراہی کی راہیں جدا جدا اور واضح کردیں اور اُمت کی تمام شرعی ضروریات کو بیان فرما دیا۔ ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں اتاراتا کہ اے عرب والو! تم اس کے معانی اور اَحکام کو سمجھ سکو۔( خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۴ / ۱۰۱)
عربی زبان کی فضیلت:
یادرہے کہ قرآنِ پاک کے سوا کوئی آسمانی کتاب عربی زبان میں نہ آئی کیونکہ عرب میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علاوہ اور کوئی نبی تشریف نہ لائے،اس سے معلوم ہوا کہ عربی زبان تمام زبانوں سے اشرف ہے کہ اس زبان میں قرآنِ پاک آیا،حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبان عربی تھی،مرنے کے بعد سب کی زبان عربی ہو جاتی ہے، عربی میں ہی قبراور قیامت کا حساب ہو گا اور اہلِ جنت کی زبان عربی ہو گی۔
{ اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا : تو کیا ہم تم سے قرآن کا نزول روک دیں ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے کفارِ مکہ! تمہارے کفر میں حد سے بڑھنے کی وجہ سے کیا ہم تمہیں بیکار چھوڑ دیں اور تمہاری طرف سے وحیِ قرآن کا رخ پھیردیں اور تمہیں حکم اور ممانعت کچھ نہ کریں ،(یہ تمہاری بھول ہے) ہم ایسا نہیں کریں گے۔
حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر اس وقت یہ قرآنِ پاک اٹھالیا جاتا جب اس اُمت کے پہلے لوگوں نے اس سے اِعراض کیا تھا ،تو وہ سب ہلاک ہوجاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و کرم سے اس قرآن کا نزول جاری رکھا۔( خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۰۱)
قربِ قیامت میں قرآنِ مجید اُٹھا لیا جائے گا:
{وَ كَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِیٍّ فِی الْاَوَّلِیْنَ: اور ہم نے کتنے ہی نبی پہلے لوگوں میں بھیجے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ہم نے پہلے لوگوں میں کتنے ہی نبی بھیجے لیکن ان کا حال یہ تھا کہ ان کے پاس جو بھی نبی تشریف لایاوہ اس کا مذاق ہی اڑاتے تھے جیسا کہ آپ کی قوم کے لوگ کرتے ہیں ، تو ہم نے ان موجودہ کافروں سے زیادہ قوت والوں اور ہر طرح کی طاقت رکھنے والوں کو ہلاک کردیا، اس لئے آپ کی امت کے لوگ جو سابقہ کفار کی چال چل رہے ہیں ، اُنہیں ڈر جانا چاہیے کہ کہیں اُن کا بھی وہی انجام نہ ہو جو سابقہ کافروں کا ہوا کہ یہ بھی انہی کی طرح ذلت و رسوائی کی سزاؤں سے ہلاک نہ کردئیے جائیں۔اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفار کی طرف سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مذاق اُڑانے کاعمل کوئی آج کا نہیں بلکہ شروع سے ہی ایسا ہوتا چلا آرہا ہے، لہٰذا آپ اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں پر صبر فرمائیں جیسا کہ آپ سے پہلے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوموں کی اَذِیَّتوں پر صبر فرمایا۔( خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۶-۸، ۴ / ۱۰۲، صاوی، الزخرف، تحت الآیۃ: ۶-۸، ۵ / ۱۸۸۶، ملتقطاً)
{وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ: اور اگر تم ان سے پوچھو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ ان مشرکین سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کس نے بنائے ہیں ؟تو وہ ضرور اقرار کریں گے کہ آسمان اورزمین کو اللہ تعالیٰ نے بنایا اور وہ یہ بھی اقرار کریں گے کہ اللہ تعالیٰ عزت و علم والا ہے، اس اقرار کے باوجود ان کابتوں کی عبادت کرنا اور دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنا کیسی انتہادرجہ کی جہالت ہے۔( خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۱۰۲)
{اَلَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا: جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا کیا۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے اظہار کے لئے اپنی مصنوعات کا ذکر فرمایا اور اپنے اوصاف و شان کا اظہار کیا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایاکہ عزت و علم والا اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا (جو کہ پھیلاوے اور ٹھہرے ہوئے ہونے میں بستر کی طرح ہے) اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اسے مُتَحَرِّ ک بنا دیتا لیکن اس صورت میں کوئی چیز اس پر نہ ٹھہرتی اور زمین سے نفع اٹھانا ممکن نہ رہتا تو یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے زمین کو ہموار اور ساکن بنایا، اور ا س نے تمہارے لیے اس زمین میں راستے بنائے تاکہ تم دینی اور دُنْیَوی اُمور کے لئے سفر کے دوران اپنی منزل تک پہنچنے کی راہ پاؤ،اور اگر وہ چاہتا تو زمین کو ا س طرح بند بنا دیتا کہ اس میں کوئی راستہ ہی نہ چھوڑتا ،اگر ایسا ہو جاتا تو ا س صورت میں تمہارے لئے سفر کرنا ہی ممکن نہ رہتا جیساکہ بعض جگہ پہاڑ ہونے کی وجہ سے راستہ بند ہوجاتا ہے اور(زمینی) سفر ممکن نہیں رہتا۔( خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۱۰۲، صاوی، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۵ / ۱۸۸۷، ملتقطاً)
{وَ الَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ: اور وہ جس نے ایک اندازے سے آسمان سے پانی اتارا۔} ارشاد فرمایا کہ عزت و علم والا اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے تمہاری حاجتوں کی مقدار ایک اندازے سے آسمان سے پانی اتارا، وہ نہ اتنا کم ہے کہ اس سے تمہاری حاجتیں پوری نہ ہوں اور نہ اتنا زیادہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرح تمہیں ہلاک کردے۔ ہم نے اس بارش سے نباتات سے خالی ایک شہر کوسرسبز فرمادیا اور جس طرح بارش سے مردہ شہر کو زندہ فرمایا یونہی تم اپنی قبروں سے زندہ کرکے نکالے جاؤ گے کیونکہ جو زمین کو بنجر ہو جانے کے بعد پانی کے ذریعے دوبارہ سر سبز و شاداب کرنے پر قادر ہے تو وہ مخلوق کو اس کی موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔(خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۰۲، جلالین مع صاوی، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۱، ۵ / ۱۸۸۷، ملتقطاً)
{وَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ: اور جس نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا۔} یعنی عزت و علم والا اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے مخلوق کی تمام اَقسام کے جوڑے بنائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :’’اس سے مراد یہ ہے کہ تمام اَنواع کے جوڑے بنائے جیسے میٹھا اور نمکین، سفید اور سیاہ،مُذَکَّر اور مُؤنَّث وغیرہ۔( روح البیان، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۸ / ۳۵۵)
{وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَ الْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ: اور تمہارے لیے کشتیوں اور چوپایوں کی سواریاں بنائیں ۔} آیت کے اس حصے اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اور تمہارے لیے کشتیوں اور چوپایوں کی سواریاں بنائیں تاکہ تم خشکی اور تری کے سفر میں کشتیوں کی پشت اور چوپایوں کی پیٹھوں پر سیدھے ہو کر بیٹھو ،پھر جب اس سواری پر سیدھے ہو کر بیٹھ جاؤ تو دل میں اپنے رب کا احسان یاد کرو اور اپنی زبان سے یوں کہو: وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر عیب سے پاک ہے جس نے اس سواری کو ہمارے قابو میں کردیا اور ہم اسے قابوکرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے اور بیشک ہم آخر کار اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہی پلٹنے والے ہیں ۔( خازن،الزخرف،تحت الآیۃ:۱۲-۱۴،۴ / ۱۰۲، جلالین مع صاوی،الزخرف،تحت الآیۃ:۱۲-۱۴، ۵ / ۱۸۸۸، ملتقطاً)
سواری پر سوار ہوتے وقت کی دعائیں :
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب سفر میں تشریف لے جاتے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہوتے وقت پہلے تین بار اللہ اَکْبَرْ پڑھتے، پھر یہ آیت پڑھتے ’’سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ(۱۳) وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ‘‘۔ (اور اس کے بعدیہ دعائیں پڑھتے)۔ ’’اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْاَلُکَ فِی سَفَرِنَا ہٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَ مِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی اَللّٰہُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ہٰذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَہٗ اَللّٰہُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَ الْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَہْلِ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوْ ءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْاَہْلِ‘‘اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو ان دعاؤں کے ساتھ مزید یہ پڑھتے ’’آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ‘‘۔(مسلم، کتاب الحج، باب ما یقول اذا رکب الی سفر الحجّ وغیرہ، ص۷۰۰، الحدیث: ۴۲۵(۱۳۴۲))
اورحضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا ،میری امت میں سے جو شخص کشتی میں سوار ہوتے وقت یہ پڑھ لے تو وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گا: ’’بِسْمِ اللہ الْمَلِکِ وَ مَا قَدَرُوا اللہ حَقَّ قَدْرِہٖ وَ الْاََرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ السَّمَاوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہٖ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُونَo بِسْمِ اللہ مَجْرَاہَا وَ مُرْسَاہَا اِنَّ رَبِّی لَغَفُوْرٌ رَّحِیمٌ‘‘۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۴ / ۳۲۹، الحدیث: ۶۱۳۶)
{وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا: اور کافروں نے اللہ کیلئے اس کے بندوں میں سے ٹکڑا (اولاد) قرار دیا۔} یعنی کفار نے اس اقرار کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کا خالق ہے ،یہ ستم کیا کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتایا اور چونکہ اولاد صاحب ِاولاد کا جز ہوتی ہے، توظالموں نے اللہ تعالیٰ کے لئے جزقرار دے کر کیسا عظیم جرم کیا ہے، بیشک جو آدمی ایسی باتوں کا قائل ہے اس کا کفر ظاہر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرناکفر ہے اور کفر سب سے بڑی ناشکری ہے۔(مدارک، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۰۹۷، جلالین، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۴۰۶، ملتقطاً)
{ وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا: اور جب ان میں کسی کو اس چیز کی خوشخبری سنائی جائے جس کے ساتھ اس نے رحمٰن کو متصف کیا ہے۔} یعنی کفار جو کہ اولاد سے پاک رب تعالیٰ کے لئے بیٹیا ں ثابت کر رہے ہیں ، بیٹیوں سے نفرت میں ان کا اپنا حال یہ ہے کہ جب ان میں سے کسی کو خوشخبری سنائی جائے کہ تیرے گھرمیں بیٹی پیدا ہوئی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غم و غصے میں بھرا رہتا ہے۔جب یہ اپنے لئے بیٹیوں کو اس قدر ناگوار سمجھتے ہیں تو اس خدائے پاک کے لئے بیٹیاں بتاتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی۔(خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۱۰۳، ملتقطاً)
بیٹیوں سے نفرت کرنا اور ان کی پیدائش سے گھبرانا کفار کا طریقہ ہے:
کفار کا اپنی بیٹیوں سے نفرت کا حال بیان کرتے ہوئے ایک اورمقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ(۵۸) یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖؕ-اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ‘‘(سورۃ النحل:۵۸،۵۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصے سے بھراہوتا ہے۔ اس بشارت کی برائی کے سبب لوگوں سے چھپا پھرتا ہے ۔ کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبادے گا؟ خبردار! یہ کتنا برا فیصلہ کررہے ہیں ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کی پیدائش سے گھبرانا کافروں کا طریقہ ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ بیٹی پیدا ہونے پر گھبرانے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور جس عورت کے ہاں پہلی اولاد بیٹی ہو اسے منحوس نہ سمجھیں کیونکہ ایسی عورت برکت والی ہوتی ہے،جیساکہ حضرت واثلہ بن اسقع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عورت کی برکت یہ ہے کہ ا س سے پہلی بار بیٹی پیدا ہو۔( ابن عساکر، ذکر من اسمہ: العلاء، ۵۴۷۳-العلاء بن کثیر ابو سعید، ۴۷ / ۲۲۵)
{اَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَةِ: اور کیا وہ جس کی زیور میں پرورش کی جاتی ہے۔} اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ اولاد سے پاک ہے اورجب کفار نے اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں بتا کر اس کی اولاد ثابت کی تواللہ تعالیٰ نے ان کی عقل اور فہم کے مطابق کلام فرماتے ہوئے ان کے اس نظریے کو رد فرمایا اوراس آیت میں عورت کے اندر پائے جانے والے دو نقص بیان فرما کر کفارکی کم عقلی اور جہالت کو واضح فرمایا کہ جس میں دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایسے نقص بھی ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد کس طرح ہو سکتی ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا کیسی جہالت ہے۔اس آیت میں عورت کے جو دو نقص بیان کئے گئے وہ یہ ہیں ۔
(1)…زیور میں پرورش پانا۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عورت چاہے کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو لیکن اس میں بچپن سے لے کر جوانی بلکہ بڑھاپے تک زیورات سے آراستہ ہونے کی خواہش اور طلب ضرور پائی جاتی ہے اور اس کے بغیر وہ اپنے حسن کے متعلق احساسِ کمتری محسوس کرتی رہتی ہے اور یہ بات نزاکت کی علامت ہے جو ایک اعتبار سے تو خوبی ہے لیکن ایک اعتبار سے نقص بھی ہے۔
(2)…بحث کے دوران اپنا موقف صاف بیان نہ کرسکنا۔اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ جس طرح بہت سے مرد ذہین ہوتے ہیں اور بحث کے دوران اپنا موقف انتہائی اچھے انداز میں پیش کر سکتے ہیں جبکہ بعض مَردوں میں ذہانت کی کمی اور اپنا موقف اچھے انداز میں پیش کرنے کی خوبی نہیں ہوتی اسی طرح بعض عورتیں بھی انتہائی ذہین ہوتی ہیں اور بحث کے دوران اپنا مَوقِف بڑے اچھے انداز میں بیان کر سکتی ہیں البتہ عورتوں کی کثیر تعداد ایسی ہے جو اس خوبی سے آراستہ نہیں ،بلکہ عموماً جذبات سے جلد مغلوب ہو کر یا سختی کے مقامات پراپنی بات صحیح طریقے سے نہیں کرپاتی لہٰذا مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو بحث کے دوران اپنا مَوقِف صاف اور واضح طور پر بیان نہ کر پانا بھی عورت کا ایک نقص ہے۔
{وَ جَعَلُوا الْمَلٰٓىٕكَةَ الَّذِیْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا: اور انہوں نے فرشتوں کو عورتیں ٹھہرایا جو کہ رحمٰن کے بندے ہیں ۔} آیت کے اس حصے اور اس سے اوپر والی آیات کا حاصل یہ ہے کہ بے دینوں نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتا کراس طرح کفر کا اِرتکاب کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کی اور اس چیز کواللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جسے وہ خود بہت ہی حقیر سمجھتے ہیں اور اپنے لئے گوارانہیں کرتے۔ اس کے بعد کفار کا رد فرمایا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہر گز نہیں بلکہ وہ اس کے بندے ہیں اور فرشتوں کا مُذَکّر یا مُؤنّث ہونا ایسی چیز تو ہے نہیں جس پر کوئی عقلی دلیل قائم ہوسکے اوراس حوالے سے اُن کے پاس کوئی خبر بھی نہیں آئی جسے وہ نقلی دلیل قرار دے سکیں ، توجو کفار ان کو مُؤنّث قرار دیتے ہیں اُن کا ذریعۂ علم کیا ہے؟ کیا وہ فرشتوں کی پیدائش کے وقت موجود تھے اوراُنہوں نے مشاہدہ کرلیا ہے؟ جب یہ بھی نہیں تو انہیں مُؤنّث کہنامحض جاہلانہ اورگمراہی کی بات ہے۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۹، ص۱۰۹۷، ملخصاً)
{سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ:اب ان کی گواہی لکھ لی جائے گی۔} جب کفار نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہا توسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار سے دریافت فرمایا کہ تم فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کس طرح کہتے ہو اورتمہارا ذریعہ ٔعلم کیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا سے سنا ہے اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ سچے تھے۔ اس گواہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کفار کی یہ گواہی لکھ لی جائے گی اورآخرت میں ان سے اس کا جواب طلب ہوگا اور اس پر انہیں سزا دی جائے گی۔ (خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۱۰۳)
{وَ قَالُوْا لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰهُمْ: اورانہوں نے کہا: اگر رحمٰن چاہتا توہم ان (فرشتوں ) کی عبادت نہ کرتے۔} فرشتوں کی عبادت کرنے والے کفار نے کہا کہ اگر رحمٰن چاہتا توہم ان فرشتوں کی عبادت نہ کرتے۔اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر فرشتوں کی عبادت کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی نہ ہوتا تو ہم پر عذاب نازل کرتا اور جب عذاب نہیں آیا تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ یہی چاہتا ہے ،یہ اُنہوں نے ایسی باطل بات کہی جس سے لازم آتا ہے کہ دنیا میں ہونے والے تما م جرموں سے اللہ تعالیٰ راضی ہے۔اللہ تعالیٰ اُن کے اس نظریے کی تکذیب کرتے ہوئے فرماتا ہے: ’’انہیں درحقیقت اللہ تعالیٰ کی رضا کاکچھ علم ہی نہیں اور وہ صرف جھوٹ بول رہے ہیں ۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۱۰۳-۱۰۴، روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۸ / ۳۶۰، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت اور رضا میں بہت فرق ہے:
یا درہے کہ اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت اور رضا میں بہت فرق ہے ،اس کائنات میں ہونے والی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت اورا س کے ا رادے سے ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے راضی ہو اور ہر چیزکے کرنے کا اللہ تعالیٰ حکم فرمائے ،اور اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہر گز نہیں کہ وہ کفر اورگناہ سے راضی ہو، لہٰذا کفر اورگناہ کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ میرے ان اعمال سے راضی ہے یا میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے کفر اور گناہ میں مصروف ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے سعادت اور بد بختی دونوں کے راستے واضح فرما دئیے ہیں اوراسے محض مجبور اور بے بس نہیں بنایا بلکہ ان راستوں میں سے کسی ایک راستے پر چلنے کا اسے اختیار بھی دے دیا ہے ،اب انسان کی اپنی مرضی ہے کہ وہ جس راستے کو چاہے اختیار کرے ۔
{اَمْ اٰتَیْنٰهُمْ كِتٰبًا مِّنْ قَبْلِهٖ: یاکیا اس سے پہلے ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے۔} یعنی کیا فرشتوں کی عبادت میں اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھنے والوں کو ہم نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہونے والے قرآن سے پہلے کوئی کتاب دی ہے جسے وہ مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں اور اس میں غیر ِخدا کی عبادت کرنے کی اجازت دی گئی ہے جسے وہ آپ کے سامنے دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں ؟ایسا بھی نہیں کیونکہ عرب شریف میں قرآنِ کریم کے سوا کوئی اللہ تعالیٰ کی کتاب نہ آئی، اور کسی کتابِ الٰہی میں کفر کی اجازت ہو سکتی بھی نہیں ،یہ باطل ہے اور اُن لوگوں کے پاس اس کے سوا بھی کوئی حجت نہیں ہے۔( تفسیرطبری، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۱ / ۱۷۶، خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۱۰۴، ملتقطاً)
{بَلْ قَالُوْۤا اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ: بلکہ انہوں نے کہا:ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا۔} یعنی ان کے پاس کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ فرشتوں کی عبادت کرنے کی ان کے پاس صرف یہ دلیل ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم آنکھیں بند کر کے بے سوچے سمجھے ان کی پیروی کرتے ہیں ۔( ابوسعود، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۵ / ۵۴۰، خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۱۰۴، ملتقطاً)
شریعت کے مقابلے میں آباؤ اَجداد کے رسم و رواج کی پابندی کرنا بد ترین جرم ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ شریعت کے مقابلے میں باپ داداؤں کے رسم و رواج کی پابندی کرنا بد ترین جرم ہے جیسے آج کل بعض مسلمان شادی بیاہ یا مَرگ کے موقع پر ناجائز رسومات صرف اپنے پرانے باپ داداؤں کی پیروی میں مضبوط پکڑے ہوئے ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ كَذٰلِكَ: اور ایسے ہی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا’’ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے باپ دادا کی اندھی پیروی کے علاوہ شرک کی کوئی اوردلیل نہ دے سکنا صرف آپ کی قوم کے کفار کا ہی خاصہ نہیں بلکہ ہم نے آپ سے پہلے جب کسی شہر میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی ڈر سنانے والا بھیجا تووہاں کے خوشحال مالداروں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم ان کے نقشِ قدم کی ہی پیروی کرنے والے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ باپ دادا کی اندھے بن کرپیروی کرناکفار کا پرانامرض ہے اور انہیں اتنی تمیز نہیں کہ کسی کی پیروی کرنے کے لئے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ وہ خود سیدھی راہ پر ہو، چنانچہ جب کسی نبی سے فرمایا گیا کہ اپنی قوم کے کفار سے کہیں :کیا تم اپنے باپ دادا کے دین پر ہی چلو گے اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے بہتر دین لے آؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے؟تو انہوں نے ا س بات کے جواب میں کہا:جس دین کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا ہے ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں اگرچہ تمہارا دین حق و صواب ہو، مگر ہم اپنے باپ دادا کا دین چھوڑنے والے نہیں چاہے وہ کیسا ہی ہو، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’جب یہ اپنے شرک پر ہی ڈٹے رہے تو ہم نے رسولوں کے نہ ماننے والوں اور اُنہیں جھٹلانے والوں سے بدلہ لیا تو اے کافرو! تم دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۳- ۲۵، ۴ / ۱۰۴، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۵، ص۱۰۹۸-۱۰۹۹، روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۵، ۸ / ۳۶۱-۳۶۲، ملتقطاً)
مال کا وبال:
خوش حال اورمالدار کفار کے طرزِ عمل سے معلوم ہوا کہ مال و دولت کی کثرت ،دنیا کی رنگینیوں اورعیش و نشاط کی وجہ سے انسان اپنی آخرت کے معاملے میں غفلت کا شکار ہو جاتا ہے اور ا س کی نگاہوں میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی وقعت اور ان کی بات کی ا ہمیت بہت کم ہو جاتی ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو دولت مندوں کی عزت کرتے ہیں اور عبادت گزاروں کو حقیر سمجھتے ہیں ،قرآنِ پاک کی ان آیات پر توعمل کرتے ہیں جو ان کی خواہشات کے موافق ہوں لیکن خواہشات کے خلاف آیتوں کو چھوڑ دیتے ہیں تو اس صورت میں وہ قرآن کی بعض آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض آیتوں کاانکار کرتے ہیں ۔اس چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں محنت کے بغیر حاصل ہو جائے گی اور وہ ان کی تقدیر اور ان کے حصے کا رزق ہے جبکہ ا س چیز کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے جس میں محنت کرنی پڑتی ہے۔( معجم الکبیر، ومن مسند عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ، ۱۰ / ۱۹۳، الحدیث: ۱۰۴۳۲) اللہ تعالیٰ ہم سب کو مال کے وبال سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
{وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ: اور جب ابراہیم نے فرمایا۔} اس سے پہلی آیات میں کفار کے بارے میں بیان ہو اکہ ان کے پاس اپنے شرک کے جواز کی دلیل صرف اپنے آباء و اَجداد کی پیروی ہے اوراس آیت سے اہل ِعرب کے جد ِاعلیٰ، حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات بیان کئے گئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ سب جھوٹے معبودوں کی عبادت کرنے سے انکار کر دیا اور وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور صرف اسی کی عبادت پر قائم رہے تاکہ اہلِ عرب اپنے جد ِاعلیٰ کے دین کی طرف لوٹ آئیں کیونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے آباء میں سب سے زیادہ مُعَزَّز ہیں اور وہ سب ان سے محبت کرتے ہیں تو جس طرح انہوں نے بتوں کی عبادت کرنے میں اپنے آباء کی پیروی نہیں کی تو اسی طرح انہیں بھی چاہئے کہ وہ (بت پرستی کرنے میں ) اپنے قریبی آباء و اَجداد کی پیروی چھوڑ دینے میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کریں اور دین ِحق کی اتباع کرنے کی طرف لوٹ آئیں ۔
اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو کفار اپنے آباء و اَجداد کی پیروی پر اَڑے ہوئے ہیں ، انہیں وہ وقت یاد دلائیں جب ان کے جد ِاعلیٰ،حضرتِ ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آگ سے نکلنے کے بعد بت پرستی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عُرفی باپ یعنی چچا آزَر اور اپنی قوم سے فرمایا: میں تمہارے معبودو ں سے بیزار ہوں اور میں صرف اس کی عبادت کرتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا تو ضرور وہ جلد مجھے میری ہجرت گاہ کی طرف راستہ دکھائے گا جہاں جا کر میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرسکوں ۔( تفسیرکبیر، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۹ / ۶۲۸-۶۲۹، البحر المحیط، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۸ / ۱۳، ابو سعود، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۵ / ۵۴۰-۵۴۱، ملتقطاً)
{وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ: اورابراہیم نے اس کو اپنی نسل میں باقی رہنے والا کلمہ بنادیا۔} یعنی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے توحید کا جو کلمہ فرمایا تھا کہ میں تمہارے معبودوں سے بیزار ہوں سوائے اس کے جس نے مجھے پیدا کیا،آپ نے اسے اپنی نسل میں باقی رہنے والا کلمہ بنا دیا چنانچہ آپ کی اولاد میں توحید کا اقرار کرنے والے اور توحید کی دعوت دینے والے ہمیشہ رہیں گے ،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے باقی رہنے والا کلمہ اس لئے بنایا تاکہ ان کی نسل میں سے جو شرک کرے وہ توحید کی دعوت دینے والے کی بات سن کر شرک سے باز آ جائے اور اس توحید کے کلمہ کی طرف لوٹ آئے اور دینِ حق قبول کر لے۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۰۹۹)
حضرت صدرُالافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ یہاں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمانے میں تنبیہ ہے کہ اے اہلِ مکہ ! اگر تمہیں اپنے باپ دادا کا اِتباع(یعنی پیروی) کرنا ہی ہے تو تمہارے آباء میں جو سب سے بہتر ہیں ( یعنی) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ان کااتباع کرو اور شرک چھوڑ دو اور یہ بھی دیکھو کہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو راہِ راست پر نہیں پایا تو ان سے بیزاری کا اعلان فرمادیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو باپ دادا راہِ راست پر ہوں دینِ حق رکھتے ہوں ان کا اتباع کیا جائے اور جو باطل پر ہوں ،گمراہی میں ہوں ان کے طریقہ سے بیزاری کا اعلان کیا جائے۔( خزائن العرفان، الزخرف، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۹۰۳)
{بَلْ مَتَّعْتُ هٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ: بلکہ میں نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو دنیا کے فائدے دئیے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی نسل کے لوگوں سے جو امید کی تھی وہ پوری نہ ہوئی بلکہ میں نے ابراہیم کی نسل میں سے اِن کفارِ مکہ کو اور ان کے باپ دادا کو دنیا کے فائدے دئیے کہ انہیں لمبی عمریں عطا فرمائیں اور ان کے کفر کے باعث ان پر عذاب نازل کرنے میں جلدی نہ کی ،یہاں تک کہ ان کے پاس قرآنِ پاک اور صاف بتانے والے رسول ، اَنبیاء کے سردار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ روشن ترین آیات و معجزات کے ساتھ رونق افروز ہوئے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے سامنے شرعی اَحکام واضح طور پر بیان فرمائے۔ ہمارے اس انعام کا حق یہ تھا کہ وہ لوگ اس رسولِ مُکَرَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ جب ان کے پاس قرآن آیاتو اس کے بارے کہنے لگے کہ یہ توجادو ہے اور ہم اس کے منکر ہیں جبکہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں کہنے لگے کہ ان پر قرآن کیو ں اترا؟ ان دو شہروں مکہ اور طائف میں رہنے والوں میں سے کسی بڑے آدمی جومال و دولت اور غلاموں کی کثرت رکھتاہواس پریہ قرآن کیوں نہ اتارا گیا؟اس بڑے آدمی سے مراد مکہ مکرمہ میں ولید بن مغیرہ اور طائف میں عروہ بن مسعود ثقفی ہے۔( روح البیان،الزّخرف،تحت الآیۃ:۲۹-۳۱، ۸ / ۳۶۴-۳۶۵، خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۱، ۴ / ۱۰۴، ملتقطاً)
{اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ: کیا تمہارے رب کی رحمت وہ بانٹتے ہیں ؟} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کفار کا رد کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت وہ کفار بانٹتے ہیں کہ ان کی خواہش کے مطابق رسول بنایا جائے اور کیا نبوت کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہیں کہ وہ جس کو چاہیں دے دیں ؟ جب ایساہر گز نہیں ہے تو یہ کس قدر جاہلانہ بات کہتے ہیں ،انہیں ذرا غور کرنا چاہئے کہ دنیا کی زندگی میں ان کے درمیان ان کی روزی بھی ہم نے ہی تقسیم کی ہے اور ان میں سے کسی کو مالدار اورکسی کو فقیر،کسی کو مالک اورکسی کو غلام، کسی کو طاقتور اور کسی کو کمزور ہم نے ہی بنایا ہے، مخلوق میں کوئی ہمارے حکم کو بدلنے اور ہماری تقدیر سے باہر نکلنے کی قدرت نہیں رکھتا ،تو جب دنیا جیسی قلیل چیز میں کسی کو اعتراض کرنے کی مجال نہیں تو نبوت جیسے منصب ِعالی میں کیا کسی کو دَم مارنے کا موقع ہے؟ ہم جسے چاہتے ہیں غنی کرتے ہیں ، جسے چاہتے ہیں مخدوم بناتے ہیں ، جسے چاہتے ہیں خادم بناتے ہیں ، جسے چاہتے ہیں نبی بناتے ہیں ،جسے چاہتے ہیں امتی بناتے ہیں ، کیا کوئی اپنی قابلیت سے امیر ہوجاتا ہے ؟ہر گز نہیں ،بلکہ یہ ہماری عطاہے اور جسے ہم چاہیں امیر کریں ۔ ہم نے مال ودولت میں لوگوں کو ایک جیسا نہیں کیا تاکہ ایک دوسرے سے مال کے ذریعے خدمت لے اور دنیا کا نظام مضبوط ہو، غریب کو ذریعۂ معاش ہاتھ آئے اور مالدار کو کام کرنے والے اَفراد مُہَیّاہوں ، تو اس پر کون اعتراض کرسکتا ہے کہ فلاں کو مالدار اور فلاں کو فقیر کیوں کیا اور جب دُنْیَوی اُمور میں کوئی شخص دَم نہیں مارسکتا تو نبوت جیسے رتبہ ِعالی میں کسی کو کیا تاب ِسخن اور اعتراض کا کیا حق ہے، اُس کی مرضی جس کو چاہے نبوت سے سرفراز فرمائے۔ اوراے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت یعنی جنت اس مال ودولت سے بہتر ہے جو کفار دنیا میں جمع کرکے رکھتے ہیں ۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۱۰۴-۱۰۵)
نبوت عطا فرمانے کا اختیار صرف خدا کے پاس ہے اور اس نے اپنے اختیار سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو آخری نبی بنادیا ہے اور اس کا قرآن میں اعلان بھی فرمادیا لہٰذا اب کوئی دوسرا شخص نبوت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
{وَ لَوْ لَاۤ اَنْ یَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً: اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگ (کافروں کی) ایک جماعت ہوجائیں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اس بات کا لحاظ نہ ہوتا کہ کافروں کے مال و دولت کی کثرت اور عیش و عشرت کی بہتات دیکھ کر سب لوگ کافر ہوجائیں گے تو ہم ضرور کافروں کو اتنا سونا چاندی دیدیتے کہ وہ انہیں پہننے کے علاوہ ان سے اپنے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں بناتے جن پر وہ چڑھتے اور وہ اپنے گھروں کے لئے چاندی کے دروازے بناتے اور بیٹھنے کے لئے چاندی کے تخت بناتے جن پر ٹیک لگا کر بیٹھتے اور وہ طرح طرح کی آرائش کرتے، کیونکہ دنیا اور اس کے سامان کی ہمارے نزدیک کچھ قدر نہیں ، یہ بہت جلد زائل ہونے والا ہے اوریہ جو کچھ ہے سب دُنْیَوی زندگی ہی کا سامان ہے جس سے انسان بہت تھوڑا عرصہ فائدہ اٹھا سکے گا اور آخرت تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس ان پرہیزگاروں کے لیے ہے جنہیں دنیا کی چاہت نہیں ۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۵، ۴ / ۱۰۵)
کفار کا مال و دولت اور عیش و عشرت دیکھ کر مسلمانوں کا حال:
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہو ا کہ کافروں کے مال و دولت اور عیش و عشرت کی بہتات دیکھ کر لوگ کافر ہوسکتے ہیں ۔ ا س کی صداقت آج کھلی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے ،گو کہ سبھی کافروں کا مال و دولت اور عیش و عشرت اس مقام تک نہیں پہنچا کہ وہ چاندی سے اپنے گھروں کی تعمیرات شروع کر دیں لیکن اس وقت جو کچھ ان کے پاس موجود ہے اس کی چمک دمک دیکھ کرکچھ مسلمان اپنا دین چھوڑ چکے ہیں ،کچھ اس کی تیاری میں ہیں اورکچھ مسلمان کہلانے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ کافروں کی دُنْیَوی ترقی دیکھ کردینِ اسلام سے ناراض دکھائی دیتے اور خود پر کافروں کے طور طریقے مُسلَّط کئے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔یاد رہے کہ دنیا کا عیش و عشرت اور اس کا سازوسامان عارضی ہے جو کہ ایک دن ضرور ختم ہو جائے گا جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ‘‘(حدید:۲۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کود اور زینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے۔ (دنیا کی زندگی ایسی ہے) جیسے وہ بارش جس کا اُگایا ہوا سبزہ کسانوں کواچھا لگتا ہے پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا(بے کار) ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب (بھی) ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا (بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
اور ارشادفرماتا ہے: ’’اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(۷)وَ اِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْهَا صَعِیْدًا جُرُزًا‘‘(کہف:۷،۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ہم نے زمین پر موجود چیزوں کوزمین کیلئے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے۔ اور بیشک جو کچھ زمین پر ہے (قیامت کے دن) ہم اسے خشک میدان بنادیں گے (جس پر کوئی رونق نہیں ہوتی۔)
لہٰذا مسلمانوں کو دنیا کے عیش عشرت اور مال و دولت کی طرف راغب نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے اپنے حق میں ایک آزمائش یقین کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بخشش و مغفرت کا پروانہ پانے کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک کوشش کرنی چاہئے ،جیساکہ دنیا کی فَنائِیَّت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’سَابِقُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِۙ-اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ‘‘(حدید:۲۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ جاؤ جس کی چوڑائی آسمان و زمین کی وسعت کی طرح ہے۔ اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لانے والوں کیلئے تیار کی گئی ہے ،یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
اور اس پر اِستقامت پانے کے لئے ا س حقیقت کو اپنے پیش ِنظر رکھنا چاہئے کہ دنیا کا جتنا سازو سامان اور جتنی عیش و عشرت ہے، ا س سب کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مچھر کے پر جتنی بھی حیثیت نہیں ،جیساکہ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگراللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی قدررکھتی توکافرکو اس سے ایک گھونٹ پانی نہ دیتا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی ہوان الدّنیا علی اللّٰہ، ۴ / ۱۴۳، الحدیث: ۲۳۲۷)
اور حضرت مُستَورِد بن شداد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے نیاز مندوں کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف لے جارہے تھے، راستہ میں ایک مردہ بکری دیکھی تو ارشاد فرمایا: ’’تم دیکھ رہے ہو کہ اس کے مالکوں نے اسے بہت بے قدری سے پھینک دیا، دنیا کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی بھی قدر نہیں جتنی بکری والوں کے نزدیک اس مری ہوئی بکری کی ہو۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی ہوان الدّنیا علی اللّٰہ، ۴ / ۱۴۴، الحدیث: ۲۳۲۸)
اور جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دنیا کی یہ حیثیت ہے تو دنیا کا مال و دولت اور عیش و عشرت نہ ملنے پر کسی مسلمان کو غمزدہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے شکر کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس چیز سے بچا لیا جس کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی حیثیت نہیں ۔ حضرت قتادہ بن نعمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے پر کرم فرماتا ہے تو اُسے دنیا سے ایسا بچاتا ہے جیسا تم اپنے بیمار کو پانی سے بچاتے ہو۔( ترمذی، کتاب الطّب، باب ما جاء فی الحمیۃ، ۴ / ۴، الحدیث: ۲۰۴۴)
اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۲، الحدیث: ۱(۲۹۵۶))
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی حیثیت اور حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور کافروں کے مال و دولت کی چمک سے مُتَأثِّر ہونے کی بجائے دینِ اسلام کے دئیے ہوئے اَحکام اور تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اپنی دنیا و آخرت دونوں کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
{وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ: اور جو رحمٰن کے ذکر سے منہ پھیرے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جو قرآنِ پاک سے اس طرح اندھا بن جائے کہ نہ اس کی ہدایتوں کو دیکھے اور نہ ان سے فائدہ اٹھائے توہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں اوروہ شیطان دنیامیں بھی اندھا بننے والے کا ساتھی رہتا ہے کہ اسے حلال کاموں سے روکتا اور حرام کاموں کی ترغیب دیتا ہے،اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منع کرتا اور اس کی نافرمانی کرنے کا حکم دیتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا ساتھی ہو گا۔( صاوی، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۵ / ۱۸۹۴-۱۸۹۵، ملتقطاً)
دوسری تفسیریہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اس طرح اِعراض کرے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بے خوف ہو جائے اور اس کے عذاب سے نہ ڈرے توہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں جو اسے گمراہ کرتا رہتا ہے اور وہ اس شیطان کا ساتھی بن جاتا ہے۔( تفسیرطبری، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۱۱ / ۱۸۸)
تیسری تفسیر یہ ہے کہ جو دُنْیَوی زندگی کی لذّتوں اور آسائشوں میں زیادہ مشغولیّت اورا س کی فانی نعمتوں اور نفسانی خواہشات میں اِنہماک کی وجہ سے قرآن سے منہ پھیرے تو ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں اور وہ شیطان اس کے ساتھ ہی رہتا ہے اور اس کے دل میں وسوسے ڈال کر اسے گمراہ کرتا رہتا ہے۔ (ابوسعود، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۵ / ۵۴۳)
قرآن سے منہ پھیرنے والے کا ساتھی شیطان ہو گا:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن سے منہ پھیرنے والے کافر کا شیطان ساتھی بنا دیا جاتا ہے اورشیطان کو کافروں کا ساتھی بنانے سے متعلق ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ قَیَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ فَزَیَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِۚ-اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِیْنَ‘‘(حم السجدہ:۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے کافروں کیلئے کچھ ساتھی مقرر کردئیے توانہوں نے ان کیلئے ان کے آگے اور ان کے پیچھے کو خوبصورت بنا دیا۔ ان پر بات پوری ہوگئی جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جنوں اور انسانوں کے گروہوں پرثابت ہوچکی ہے۔ بیشک وہ نقصان اٹھانے والے تھے۔
اورحضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ شَر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی موت سے ایک سال پہلے اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتا ہے تو وہ جب بھی کسی نیک کام کو دیکھتا ہے وہ اسے برا معلوم ہوتاہے یہاں تک کہ وہ اس پر عمل نہیں کرتا اور جب بھی وہ کسی برے کام کو دیکھتا ہے تو وہ اسے اچھا معلوم ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اس پر عمل کرلیتا ہے۔( مسندالفردوس، باب الالف، ۱ / ۲۴۵، الحدیث: ۹۴۸)
البتہ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ زیرِ تفسیر آیت میں جہاں کفار کے لئے وعید ہے وہیں ہمارے معاشرے کے ان مسلمانوں کے لئے بھی بڑی عبرت ہے جو دنیا کی زیب و زینت ، اس کی چمک دمک اور مال و دولت کے حصول میں حد درجہ مصروفیَّت کی وجہ سے قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے ،اسے سمجھنے او ر ا س پر عمل کرنے سے محروم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے اور قرآنِ مجید سے تعلق قائم رکھا رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
یاد رہے کہ زیرِ تفسیر آیت میں جس شیطان کا ذکر ہے یہ اس شیطان کے علاوہ ہے جس کا ذکر درج ذیل حدیثِ پاک میں ہے،چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان اور ایک فرشتہ مُسلَّط کر دیا گیا ہے۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے ساتھ بھی؟ارشاد فرمایا: ’’میرے ساتھ بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس شیطا ن کے مقابلے میں میری مدد فرمائی اور وہ مسلمان ہو گیا،اب وہ مجھے اچھی بات کے علاوہ کوئی بات نہیں کہتا۔(مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب تحریش الشیطان... الخ، ص۱۵۱۲، الحدیث: ۶۹(۲۸۱۴))
برا ساتھی اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ برا ساتھی اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے اوراچھا ساتھی نصیب ہونا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ اچھے اور برے ساتھی کے بارے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھے اور برے ہم نشین کی مثال ایسے ہے جیسے مشک اٹھانے والا اور بھٹی پھونکنے والا۔ ان میں سے جو مشک اٹھائے ہوئے ہے(اس کے ساتھ رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ ) وہ تجھے اس میں سے دے گا یا تو ا س سے خرید لے گا یا تجھے مشک کی خوشبو پہنچے گی اور جو بھٹی پھونکنے والا ہے (اس کے ساتھ رہنے کا نقصان یہ ہے کہ) وہ تیرے کپڑے جلا دے گا یا تجھے بُری بو پہنچے گی۔( بخاری، کتاب الذبائح والصید... الخ، باب المسک، ۳ / ۵۶۷، الحدیث: ۵۵۳۴)
اورحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا: فاجر سے بھائی چارہ نہ کر کہ وہ اپنے فعل کو تیرے لیے مُزَیَّن کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تو بھی اس جیسا ہوجائے اور اپنی بدترین خصلت کو اچھا کرکے دکھائے گا، تیرے پاس اس کا آنا جانا عیب اور ننگ ہے اور(اسی طرح) اَحمق سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ وہ اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دے گا اور تجھے کچھ نفع نہیں پہنچائے گااور کبھی یہ ہوگا کہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا مگر ہوگا یہ کہ نقصان پہنچادے گا، اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے ،اس کی دوری نزدیکی سے بہتر ہے اور موت زندگی سے بہتر اور جھوٹے سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ اس کے ساتھ میل جول تجھے نفع نہ دے گا،وہ تیری بات دوسروں تک پہنچائے گا اور دوسروں کی تیرے پاس لائے گا اور اگر تو سچ بولے گا جب بھی وہ سچ نہیں بولے گا۔( ابن عساکر، حرف الطاء فی آباء من اسمہ علیّ، علیّ بن ابی طالب... الخ، ۴۲ / ۵۱۶)
اللہ تعالیٰ دنیا میں ہمیں اچھے اور نیک ساتھی عطا فرمائے اور برے ساتھیوں سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
{حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا: یہاں تک کہ جب وہ کافر ہمارے پاس آئے گا۔} یعنی قرآن سے منہ پھیرنے والے کفار، شیطان کے ساتھی ہوں گے یہاں تک کہ جب قیامت کے دن ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی شیطان کے ساتھ ہمارے پاس آئے گا تووہ شیطان کو مُخاطَب کر کے کہے گا:اے میرے ساتھی! اے کاش! میرے اور تیرے درمیان اتنی دوری ہو جائے جتنی مشرق و مغرب کے درمیان دوری ہے کہ جس طرح وہ اکٹھے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ایک دوسرے کے قریب ہو سکتے ہیں اسی طرح ہم بھی اکٹھے نہ ہوں اور نہ ہی ایک دوسرے کے قریب ہوں اورتو میرا کتنا ہی برا ساتھی ہے۔( جلالین مع صاوی، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۸، ۵ / ۱۸۹۵-۱۸۹۶)
{وَ لَنْ یَّنْفَعَكُمُ الْیَوْمَ: اور آج ہرگز تمہیں یہ چیز نفع نہیں دے گی۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غفلت کرنے والو! تمہارا یہ حسرت و افسوس کرناآج ہرگز تمہیں نفع نہیں دے گا کیونکہ آج ظاہر اور ثابت ہوگیا کہ دنیا میں شرک کرکے تم نے اپنے اوپر ظلم کیا ،اب تم اور تمہارے ساتھی شَیاطین سب اسی طرح عذاب میں شریک ہیں جیسے دنیا میں اکٹھے تھے۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan