READ

Surah az-Zukhruf

اَلزُّخْرُف
89 Ayaat    مکیۃ


43:41
فَاِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَۙ(۴۱)
تو اگر ہم تمہیں لے جائیں (ف۶۷) تو ان سے ہم ضرور بدلہ لیں گے (ف۶۸)

{فَاِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ: تو اگر ہم تمہیں  لے جائیں ۔} اس سے پہلی آیت میں  بیان فرمایا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعوت دل کے بہروں  اور اندھوں  پر اثر نہیں  کرتی جبکہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  کفار کے لئے دنیا اور آخرت کے عذاب کی وعید بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہم کفارِ مکہ کو عذاب دینے سے پہلے آپ کو وفات دے دیں  توآپ کے بعد ہم ان سے ضرور بدلہ لیں  گے یا آپ کی زندگی میں  ہی ان پر ہونے والا وہ عذاب آپ کودکھادیں  گے جس کا انہیں  ہم نے وعدہ دیا ہے کیونکہ ہم جب چاہیں  انہیں  عذاب دینے پر بڑی قدرت رکھنے والے ہیں ۔( تفسیرکبیر،الزّخرف،تحت الآیۃ:۴۱-۴۲،۹ / ۶۳۴، خازن،الزّخرف،تحت الآیۃ:۴۱-۴۲، ۴ / ۱۰۶، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ص۱۱۰۱، ملتقطاً)
43:42
اَوْ نُرِیَنَّكَ الَّذِیْ وَعَدْنٰهُمْ فَاِنَّا عَلَیْهِمْ مُّقْتَدِرُوْنَ(۴۲)
یا تمہیں دکھادیں (ف۶۹) جس کا انہیں ہم نے وعدہ دیا ہے تو ہم ان پر بڑی قدرت والے ہیں،

43:43
فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِیْۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَۚ-اِنَّكَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۴۳)
تو مضبوط تھامے رہو اسے جو تمہاری طرف وحی کی گئی (ف۷۰) بیشک تم سیدھی راہ پر ہو،

{فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِیْۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ: تو اسے مضبوطی سے تھامے رکھو جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے۔} رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ (کفار کی سرکشی پر رنجیدہ نہ ہوں  بلکہ)ہماری کتاب قرآنِ پاک کو مضبوطی سے تھامے رکھیں  اور اس کے احکامات پر عمل کرتے ر ہیں  بے شک آپ اس دین پر ہیں  جس میں  کوئی ٹیڑھا پن نہیں ۔( تفسیرکبیر، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۳، ۹ / ۶۳۴، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۱۱۰۱، ملتقطاً)

            قرآنِ مجید میں  اور مقامات پر بھی نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآنِ پاک کے احکامات کی پیروی کرتے رہنے کاحکم دیا گیا اور آپ کے سیدھی راہ پر ہونے کے بارے میں  بیان فرمایا گیاہے،چنانچہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اِتَّبِـعْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ‘‘(انعام:۱۰۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم اس وحی کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں  اور مشرکوں  سے منہ پھیر لو۔

            اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سیدھی راہ پر ہونے کے بارے میں  ارشاد فرمایا:

’’اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ‘‘(حج:۶۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک تم سیدھی راہ پر ہو۔

            اور حضورِاَ قدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ صرف خود سیدھے راستے پر ہیں  بلکہ سیدھے راستے کے راہنما بھی ہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَ اِنَّكَ لَتَهْدِیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘‘(شوریٰ:۵۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک تم ضرور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہو۔

 

43:44
وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَۚ-وَ سَوْفَ تُسْــٴَـلُوْنَ(۴۴)
اور بیشک وہ (ف۷۱) شرف ہے تمہارے لیے (ف۷۲) اور تمہاری قوم کے لیے (ف۱۷۳) اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا (ف۷۴)

{وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ: اور بیشک یہ قرآن تمہارے اور تمہاری قوم کیلئے شرف و بزرگی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ قرآن آپ کے لئے بطورِ خاص عظیم شرف کا سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت اور حکمت عطا فرمائی اور عمومی طور پر آپ کی امت کے لئے بھی عظمت کا سبب ہے کہ انہیں  اس سے ہدایت فرمائی اوراے لوگو! عنقریب قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے قرآن کا کیا حق ادا کیا، اس کی کیا تعظیم کی اور اس نعمت کا کیا شکر بجالائے۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۱۱۰۱، ملتقطاً)

مسلمانوں  کی عظمت و نامْوَری کا ذریعہ اور مسلمانوں  کا حال:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید وہ عظیم الشّان کتاب ہے جو اس امت کی عظمت،نامْوَری اور چرچے کا ذریعہ ہے،اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(انبیاء:۱۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل فرمائی جس میں  تمہارا چرچا ہے۔ تو کیا تمہیں  عقل نہیں ؟

اس کے ذریعے عظمت اور نامْوَری اسی صورت حاصل ہو سکتی ہے جب کہ اس کے اَحکام اور ا س کی تعلیمات پر عمل کیا جائے ،اگر تاریخ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت روشن دن سے بھی زیادہ واضح نظر آئے گی کہ دینِ اسلام کے ابتدائی سالوں  میں  مسلمانوں  کو دنیا میں  جو عظمت ملی ، دنیا جہاں  میں  ان کا سکہ چلا اور دبدبہ بیٹھا اور ہر طرف ان کی نیک نامی کا جو چرچا ہوا، اس کا بنیادی سبب قرآنِ مجید سے والہانہ وابَستگی،اس کے احکامات اور تعلیمات کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھنا اور مشکل ترین حالات میں  بھی ان پر عمل پیرا رہنا تھا اور فی زمانہ مسلمان دنیا بھر میں  جس ذلت و رسوائی کا شکار نظر آ رہے ہیں  اس کی بہت بڑی وجہ قرآنِ مجید سے ان کی وابَستگی ختم ہو جانا ،اس کے احکامات کی پرواہ نہ کرنا اور ان پر عمل چھوڑ دینا ہے، بلکہ قرآنِ کریم سے ان کی دوری کا یہ حال ہے کہ مسلمانوں  کی ایک تعدادکو قرآنِ مجید کے دئیے ہوئے احکامات اور اس کی روشن تعلیمات کی خبر تک نہیں  ہے حتّٰی کہ صرف قرآنِ مجید کا عربی متن پڑھنے کا کہا جائے تو وہ تک انہیں  صحیح پڑھنا نہیں  آتا،گھروں  میں  ہفتوں  اور مہینوں  قرآنِ مجید سنہری کپڑوں  میں  ملبوس پڑا رہتا ہے اور موقع ملنے پر اس سے گَرد وغیرہ کی تہ صاف کر کے دوبارہ اسی مقام پر رکھ دیا جاتا ہے ۔اے کاش!

درسِ قرآں  ہم نے نہ بھلایا ہوتا

یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا

دیکھے ہیں  یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت

شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت سے گلہ ہے

فریاد ہے اے کشتیِ اُمت کے نگہباں

بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے

            اس آیت ِمبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی حالت پر غور کر لے کہ ا س نے قرآنِ مجید کا کتنا حق ادا کیا،قرآن کی کیا تعظیم کی ، اس نعمت کا کتنا شکر بجا لایا اور اس کے احکامات اور تعلیمات پر کس قدر عمل کیا۔

43:45
وَ سْــٴَـلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً یُّعْبَدُوْنَ۠(۴۵)
اور ان سے پوچھو جو ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے کیا ہم نے رحمان کے سوا کچھ اور خدا ٹھہرائے جن کو پوجا ہو (ف۷۵)

{وَ سْــٴَـلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَا: اور جو ہم نے تم سے پہلے اپنے رسول بھیجے ان سے پوچھو۔} بعض مفسرین نے فرمایا کہ رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سوال کرنے کے معنی یہ ہیں  کہ اُن کے اَدیان اور ان کی ملتوں  کو تلاش کرو کہ کیا کہیں  بھی اور کسی بھی نبی کی اُمت میں  بت پرستی روا رکھی گئی ہے؟ اور اکثر مفسرین نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں  کہ اہلِ کتاب میں  سے جو لوگ ایمان لائے ان سے دریافت کرو کہ کیا کبھی کسی نبی نے غَیْرُاللہ کی عبادت کی اجازت دی تاکہ مشرکین پر ثابت ہوجائے کہ مخلوق پرستی نہ کسی رسول نے بتائی اور نہ کسی کتاب میں  آئی ۔ اس میں  کوئی شک ہی نہیں  کہ تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام توحید کی دعوت دیتے آئے اور سب نے مخلوق پرستی کی ممانعت فرمائی ، اور تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے توحید کی دعوت دیتے رہنے کے بارے میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے،

’’وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ‘‘(نحل:۳۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک ہر امت میں  ہم نے ایک رسول بھیجا کہ (اے لوگو!) اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچو۔
43:46
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۴۶)
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشایوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو اس نے فرمایا بیشک میں اس کا رسول ہوں جو سارے جہاں کا مالک ہے،

{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں  کے ساتھ بھیجا۔} اس مقام پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ دوبارہ بیان کرنے سے مقصود کفارِ قریش کی گفتگو کی وجہ سے پہنچنے والی تکلیف پر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کی قوم نے جیسا سلوک کیا کہ مال کی کمی اور معاشرے میں  ان کی نظر میں مقام نہ ہونے پر عار دلایا، ویسا سلوک حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے بھی ان کے ساتھ کیا تھا،انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کفار کی یہ رَوِش کوئی آج کی نہیں  بلکہ بہت پرانی ہے۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی نشانیوں  کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں  کی طرف بھیجا تاکہ آپ انہیں  اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کرنے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دیں ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے پاس پہنچے تو فرمایا: بیشک میں  اس کا رسول ہوں  جو سارے جہان کا مالک ہے۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر انہوں  نے مطالبہ کیا کہ ہمیں  کوئی ایسی نشانی دکھائیں  جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ آپ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عصا اور ید ِبیضا،ایسی وہ نشانیاں  دکھائیں  جو آپ کی رسالت پر دلالت کرتی تھیں  تو وہ ان نشانیوں  میں  غورو فکر کرنے کی بجائے الٹا ہنسنے اور مذاق اڑانے لگ گئے اور انہیں  جادو بتانے لگے۔( صاوی ، الزّخرف ، تحت الآیۃ : ۴۶-۴۷ ، ۵ / ۱۸۹۷- ۱۸۹۸ ، ابن کثیر، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۶-۴۷، ۷ / ۲۱۱، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۶-۴۷، ص۱۱۰۲، ملتقطاً)

43:47
فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِاٰیٰتِنَاۤ اِذَا هُمْ مِّنْهَا یَضْحَكُوْنَ(۴۷)
پھر جب وہ ان کے پاس ہماری نشانیاں لایا (ف۷۶) جبھی وہ ان پر ہنسنے لگے (ف۷۷)

43:48
وَ مَا نُرِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ اِلَّا هِیَ اَكْبَرُ مِنْ اُخْتِهَا٘-وَ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۴۸)
اور ہم انہیں جو نشانی دکھاتے وہ پہلے سے بڑی ہوتی (ف۷۸) اور ہم نے انہیں مصیبت میں گرفتار کیا کہ وہ بام آئیں (ف۷۹)

{وَ مَا نُرِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ اِلَّا هِیَ اَكْبَرُ مِنْ اُخْتِهَا: اور ہم انہیں  جو نشانی دکھاتے وہ اپنی مثل (پہلی نشانی) سے بڑی ہی ہوتی۔} یعنی ہر ایک نشانی اپنی خصوصیت میں  دوسری سے بڑھ چڑھ کرتھی، مراد یہ ہے کہ ایک سے ایک اعلیٰ تھی۔

{وَ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ: اور ہم نے انہیں  مصیبت میں  گرفتار کیا۔} یعنی جب فرعون اور اس کی قوم نے سرکشی کی تو ہم نے انہیں  مصیبت میں  گرفتار کیا تاکہ وہ اپنی حرکتوں  سے بازآجائیں  اور کفر چھوڑ کر ایمان کو اختیار کر لیں ۔یہ عذاب قحط سالی ، طوفان اور ٹڈی وغیرہ سے کئے گئے، یہ سب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نشانیاں  تھیں  جو اُن کی نبوت پر دلالت کرتی تھیں  اور ان میں  ایک سے ایک بلندو بالاتھی۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۸، ۴ / ۱۰۷)

            نوٹ:اس عذاب کی تفصیل جاننے کے لئے سورۂ اَعراف کی آیت نمبر133 کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
43:49
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَۚ-اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ(۴۹)
اور بولے (ف۸۰) کہ اے جادوگر (ف۸۱) ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر کہ اس عہد کے سبب جو اس کا تیرے پاس ہے (ف۸۲) بیشک ہم ہدایت پر آئیں گے (ف۸۳)

{وَ قَالُوْا: اور انہوں  نے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب فرعون اور ا س کی قوم نے عذاب دیکھا تو انہوں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا ’’اے جادو کے علم والے!‘‘ یہ کلمہ اُن کے عرف اور مُحاورہ میں  بہت تعظیم وتکریم کا تھا، وہ لوگ عالِم، ماہر، حاذِق، اور کامل کو جادوگر کہا کرتے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ اُن کی نظر میں  جادو کی بہت عظمت تھی اور وہ اسے قابلِ تعریف و صف سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اِلتجا کے وقت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کلمہ سے ندا کی اورکہا: تم سے جو تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے عہد کیا ہے کہ تمہاری دعا مقبول ہے اور ایمان لانے والوں  اور ہدایت قبول کرنے والوں  پر سے اللہ تعالیٰ عذاب اٹھا لے گا، اس عہد کے سبب ہمارے لیے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے دعا کروکہ ہم سے یہ عذاب دور کر دے، بیشک ہم ہدایت پر آجائیں  گے اور ایمان قبول کر لیں  گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کی تو اُن پر سے عذاب اٹھالیا گیا، جب اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ مصیبت ٹال دی تواسی وقت انہوں  نے اپنا عہد توڑدیا اور ایمان قبول کرنے کی بجائے اپنے کفر پر ہی اَڑے رہے۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۹، ۴ / ۱۰۷، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۱۰۲، ملتقطاً)

            نوٹ:یہ واقعہ سورۂ اَعراف کی آیت نمبر134اور135 میں  گزر چکا ہے۔
43:50
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ(۵۰)
پھر جب ہم نے ان سے وہ مصیبت ٹال دی جبھی وہ عہد توڑ گئے (ف۸۴)

43:51
وَ نَادٰى فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِهٖ قَالَ یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْكُ مِصْرَ وَ هٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْۚ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَؕ(۵۱)
اور فرعون اپنی قوم میں (ف۸۵) پکارا کہ اے میری قوم! کیا میرے لیے مصر کی سلطنت نہیں اور یہ نہریں کہ میرے نیچے بہتی ہیں (ف۸۶) تو کیا تم دیکھتے نہیں (ف۸۷)

{وَ نَادٰى فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِهٖ قَالَ: اور فرعون نے اپنی قوم میں  اعلان کرکے کہا۔} اس سے پہلی آیات میں  فرعون اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مابین ہونے والامعاملہ بیان کیا گیا اور اس آیت سے فرعون اور ا س کی قوم کے مابین ہونے والا معاملہ ذکر کیا جارہا ہے۔چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون نے اپنی قوم میں  بڑے فخر کے ساتھ اعلان کرکے کہا: اے میری قوم!کیا مصر کی بادشاہت اور میرے محل کے نیچے بہنے والی دریائے نیل سے نکلی ہوئی بڑی بڑی نہریں  میری نہیں  ہیں ؟ تو کیا تم میری عظمت و قوت اور شان و سَطْوَت دیکھتے نہیں ؟

            اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ خلیفہ ہارون رشید نے جب یہ آیت پڑھی اور مصر کی حکومت پر فرعون کا غرور دیکھا تو کہا ’’ میں  وہ مصر اپنے ایک ادنیٰ غلام کو دے دوں  گا، چنانچہ اُنہوں نے ملک ِمصر خصیب کو دے دیا جو اُن کا غلام تھا اور وضو کرانے کی خدمت پر مامور تھا۔(تفسیرکبیر ، الزّخرف ، تحت الآیۃ : ۵۱ ، ۹ / ۶۳۷ ، خازن ، الزّخرف ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۱۰۷، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۱۱۰۲-۱۱۰۳، ملتقطاً)

43:52
اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ هٰذَا الَّذِیْ هُوَ مَهِیْنٌ ﳔ وَّ لَا یَكَادُ یُبِیْنُ(۵۲)
یا میں بہتر ہوں (ف۸۸) اس سے کہ ذلیل ہے (ف۸۹) اور بات صاف کرتا معلوم نہیں ہوتا (ف۹۰)

{اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ هٰذَا: یا میں  اس سے بہتر ہوں ۔} فرعون نے کہا کہ کیا تمہارے نزدیک ثابت ہوگیا اور تم نے سمجھ لیا کہ میں  اس سے بہتر ہوں  جو کمزوراور حقیرسا آدمی ہے اور جواپنی بات بھی صاف طریقے سے بیان کرتا معلوم نہیں  ہوتا۔

            یہ اس ملعون نے جھوٹ کہا کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے زبانِ اَقدس کی وہ گِرہ زائل کردی تھی لیکن فرعونی اپنے پہلے ہی خیال میں  تھے۔ (روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۲، ۸ / ۳۷۸)

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اپنے آپ کونبی سے اعلیٰ کہنا یا نبی کو ذلت کے الفاظ سے یاد کرنا فرعونی کفر ہے ۔
43:53
فَلَوْ لَاۤ اُلْقِیَ عَلَیْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَآءَ مَعَهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ مُقْتَرِنِیْنَ(۵۳)
تو اس پر کیوں نہ ڈالے گئے سونے کے کنگن (ف۹۱) یا اس کے ساتھ فرشتے آتے کہ اس کے پاس رہتے (ف۹۲)

{فَلَوْ لَاۤ اُلْقِیَ عَلَیْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ: تو اس پر سونے کے کنگن کیوں  نہ ڈالے گئے؟} فرعون نے کہا کہ اگر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سچے ہیں  اور اللہ تعالیٰ نے انہیں  ایساسردار بنایا ہے جس کی اطاعت واجب ہے تو انہیں  سونے کا کنگن کیوں  نہیں  پہنایا گیا۔فرعون نے یہ بات اپنے زمانے کے دستور کے مطابق کہی کہ اس زمانے میں  جس کسی کو سردار بنایا جاتا تھا تواسے سونے کے کنگن اور سونے کا طوق پہنایا جاتا تھا ۔فرعون نے مزید یہ کہا کہ رسالت کے دعویٰ میں  سچے ہونے کی گواہی دینے کیلئے اس کے ساتھ قطار بنا کرفرشتے کیوں  نہیں  آتے؟( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۳، ۴ / ۱۰۸)

43:54
فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ(۵۴)
پھر اس نے اپنی قوم کو کم عقل کرلیا (ف۹۳) تو وہ اس کے کہنے پر چلے (ف۹۴) بیشک وہ بے حکم لوگ تھے،

{فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ: تو فرعون نے اپنی قوم کو بیوقوف بنالیا۔} یعنی فرعون نے اس طرح کی چکنی چپڑی باتیں  کر کے ان جاہلوں  کی عقل مار دی اور انہیں  بہلا پھسلا لیا تو وہ اس کے کہنے پر چل پڑے اور وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرنے لگے۔بے شک وہ نافرمان لوگ تھے کیونکہ انہوں  نے اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرنے کی بجائے فرعون جیسے جاہل اور سرکش کی پیروی کی۔(خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۴، ۴ / ۱۰۸، تفسیرکبیر، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۴، ۹ / ۶۳۸،ملتقطاً)

43:55
فَلَمَّاۤ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۵۵)
پھر جب انہوں نے وہ کیا جس پر ہمارا غضب ان پر آیا ہم نے ان سے بدلہ لیا تو ہم نے ان سب کو ڈبودیا،

{فَلَمَّاۤ اٰسَفُوْنَا: پھر جب انہوں  نے ہمیں ناراض کیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب فرعون اور ا س کی قوم نے اپنی بداعمالیوں  کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو ناراض کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے جرموں  کی سزا میں  سب کو غرق کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں  ماضی کی عبرتناک داستان بنادیا اور بعد والوں  کے لئے مثال بنا دیا تا کہ بعد والے اُن کے حال اور انجام سے نصیحت و عبرت حاصل کریں ۔(خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۵، ۴ / ۱۰۸)

سرکش مالداروں  اور منصب والوں  کے لئے عبرت کا مقام :

ان آیا ت میں  بیان کئے گئے واقعے میں  ان لوگوں  کے لئے بڑی عبرت اور نصیحت ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا،معاشرے میں  مقام ومرتبہ عطا کیا اورحکومت وسلطنت سے سرفراز کیا لیکن وہ ان نعمتوں  پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرنے کی بجائے ا س کی ناشکری کرنے میں  اور گناہوں  میں  مشغول رہ کر مسلسل اس کی نافرمانیوں  میں  مصروف ہیں ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ(۴۴)فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاؕ-وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۴۵)‘‘(انعام:۴۴، ۴۵)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: پھر جب انہوں  نے ان نصیحتوں  کو بھلا دیاجو انہیں  کی گئی تھیں  توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں  تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں  دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں  پکڑلیاپس اب وہ مایوس ہیں ۔ پس ظالموں  کی جڑ کاٹ دی گئی اورتمام خوبیاں  اللہکے لئے  ہیں  جو تمام جہانوں  کو پالنے والا ہے۔

اور حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب تم یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اس کی پسند کی تمام چیزیں  عطا کر رہا ہے لیکن اس بندے کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر قائم ہے تو یہ اس کے حق میں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل ہے۔( معجم الاوسط، باب الواو، من اسمہ ولید، ۶ / ۴۲۲، الحدیث: ۹۲۷۲)

اورحضرت عمر بن ذر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اے گناہگارو!اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں  کے باوجود جو مسلسل حِلم فرما رہا ہے تم ا س کی وجہ سے گناہوں  پر اور جَری نہ ہوجاؤاور ا س کی ناراضی سے ڈرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’فَلَمَّاۤ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جب انہوں  نے ہمیں ناراض کیا توہم نے ان سے بدلہ لیا۔(شعب الایمان،السابع والاربعون من شعب الایمان...الخ،فصل فی الطبع علی القلب...الخ،۵ / ۴۴۷،الحدیث:۷۲۲۷)

            اللہ تعالیٰ مال و دولت اور منصب و مرتبے کی وجہ سے پیدا ہونے والی سرکشی اور ا س کی آفات سے ہمیں  محفوظ فرمائے ،اٰمین۔

43:56
فَجَعَلْنٰهُمْ سَلَفًا وَّ مَثَلًا لِّلْاٰخِرِیْنَ۠(۵۶)
انہیں ہم نے کردیا اگلی داستان اور کہاوت پچھلوں کے لیے (ف۹۵)

43:57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ(۵۷)
اور جب ابنِ مریم کی مثال بیان کی جائے، جبھی تمہاری قوم اس سے ہنسنے لگتے ہیں (ف۹۶)

{وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا: اور جب ابنِ مریم کی مثال بیان کی جاتی ہے۔} اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قریش کے سامنے یہ آیت ’’وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ‘‘ پڑھی ،جس کے معنی یہ ہیں  کہ اے مشرکین !تم اور اللہ تعالیٰ کے سوا جن چیزوں  کو تم پوجتے ہو سب جہنم کا ایندھن ہے۔ یہ سن کر مشرکین کو بہت غصہ آیا اور ابنِ زبعری کہنے لگا :اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیا یہ خاص ہمارے اور ہمارے معبودوں  ہی کے لئے ہے یاہر اُمت اورگروہ کے لئے ہے؟سَرورِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ یہ تمہارے اور تمہارے معبودوں  کے لئے بھی ہے اور سب اُمتوں  کے لئے بھی ہے۔اس پر ابنِ زبعری نے کہا کہ آپ کے نزدیک حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی ہیں  اور آپ اُن کی اور اُن کی والدہ کی تعریف کرتے ہیں  اور آپ کو معلوم ہے عیسائی ان دونوں  کو پوجتے ہیں  اور حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتے بھی پوجے جاتے ہیں  یعنی یہودی وغیرہ ان کو پوجتے ہیں  تو اگر یہ حضرات (مَعَاذَاللہ) جہنم میں  ہوں  تو ہم ا س بات پر راضی ہیں  کہ ہم اور ہمارے معبود بھی ان کے ساتھ ہوں  اور یہ کہہ کر کفار خوب ہنسے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

’’ اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ‘‘(انبیاء:۱۰۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک جن کے لیے ہمارا بھلائی کا وعدہ  پہلے سے ہوچکا ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیں  گے۔

            اوریہ آیت نازل ہوئی ’’وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ جب ابنِ زبعری نے اپنے معبودوں  کے لئے حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مثال بیان کی اورحضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جھگڑا کیا کہ عیسائی انہیں  پوجتے ہیں  تو کفارِ قریش اُس کی اِس بات پر ہنسنے لگے۔(مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۱۱۰۳-۱۱۰۴)

43:58
وَ قَالُوْۤا ءَاٰلِهَتُنَا خَیْرٌ اَمْ هُوَؕ-مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًاؕ-بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ(۵۸)
اور کہتے ہیں کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ (ف۹۷) انہوں نے تم سے یہ نہ کہی مگر ناحق جھگڑے کو (ف۹۸) بلکہ وہ ہیں جھگڑالو لوگ (ف۹۹)

{وَ قَالُوْا: اور کہتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی قوم کے مشرکین کہتے ہیں  کہ کیا ہمارے معبود بہتر ہیں  یاحضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ آپ کے نزدیک حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہتر ہیں  تو اگر (مَعَاذَاللہ) وہ جہنم میں  ہوئے تو ہمارے معبود یعنی بت بھی جہنم میں  چلے جائیں  ہمیں  کچھ پروا نہیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انہوں  نے یہ مثال حق اور باطل میں  فرق کرنے کے لئے بیان نہیں  کی بلکہ صرف آپ سے جھگڑا کرنے کیلئے بیان کی ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں  کہ انہوں نے جو کچھ کہاوہ باطل ہے اور اس آیت ِکریمہ ’’اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ‘‘ سے صرف بت مراد ہیں  حضرت عیسیٰ ، حضرت عزیر اور فرشتے عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مراد نہیں  لئے جاسکتے۔

            ابنِ زبعری عرب کا رہنے والا تھا اورعربی زبان جاننے والا تھا ،یہ بات اسے بہت اچھی طرح معلوم تھی کہ ’’مَا تَعْبُدُوْنَ‘‘ میں  جو ’’مَا‘‘ ہے اس کے معنی چیز کے ہیں  اور اس سے وہ چیزیں  مراد ہوتی ہیں  جن میں  عقل نہ ہو ،لیکن اس کے باوجود اس کا عربی زبان کے اصول سے جاہل بن کر حضرت عیسیٰ ، حضرت عزیر اور فرشتوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس میں  داخل کرنا کٹ حجتی اور جہل پروری ہے۔آیت کے آخر میں  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایابلکہ وہ جھگڑنے والے اور باطل کے درپے ہونے والے لوگ ہیں ۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۱۱۰۴، ملخصاً)

 صرف جھگڑا کرنے کے لئے بحث مُباحثہ شروع کر دینا کفار کا طریقہ ہے:

             اس آیت سے معلوم ہوا کہ حق و باطل میں  فرق بیان کرنے کی بجائے صرف جھگڑا کرنے کے لئے بحث مُباحثہ شروع کر دینا کفار کا طریقہ ہے۔ حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جو قوم بھی ہدایت پانے کے بعد گمراہ ہوئی وہ باطل جھگڑوں  میں  مبتلا ہونے کی وجہ سے ہوئی ،پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًاؕ-بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ‘‘۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الزّخرف، ۵ / ۱۷۰، الحدیث: ۳۲۶۴)

            کفار کے طریقے اور اس حدیثِ پاک کو سامنے رکھتے ہوئے ان حضرات کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی شدید حاجت ہے جو شرعی مسائل سے جاہل اور ان کی حکمتوں  سے ناواقف ہونے ،یا ان کا علم رکھنے کے باوجود جان بوجھ کر سوشل،پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پران کے بارے شرعی تقاضوں  کے برخلاف بحث مُباحثہ کرنا اورشریعت کے مسائل کو اپنی ناقص عقل کے ترازو پر تول کر ان کے حق اور ناحق ہونے کا فیصلہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور عقائد و عبادات و معاملات وغیرہا پراحمقانہ بحثوں  کی وجہ سے یہ چیزیں  ایک مذاق بن کر رہ گئی ہیں  اوریہ ان کی انہی جاہلانہ بحثوں  کا نتیجہ ہے کہ آج عام مسلمانوں  میں  شریعت کے احکام کی وقعت ختم ہو تی،ان پر عمل سے دوری اور گمراہی سے قربت بڑھتی جا رہی ہے ۔اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے، اٰمین۔

43:59
اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۵۹)
وہ تو نہیں مگر ایک بندہ جس پر ہم نے احسان فرمایا (ف۱۰۰) اور اسے ہم نے بنی اسرائیل کے لیے عجیب نمونہ بنایا (ف۱۰۱)

{اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ: عیسیٰ تو نہیں  ہے مگرایک بندہ۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  فرمایا کہ وہ  (نہ خدا ہے اور نہ خدا کے بیٹے، بلکہ خالص) اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں  جن پر ہم نے نبوت عطا فرما کر احسان فرمایا ہے اور ہم نے اسے بغیر باپ کے پیدا کرکے بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کاایک عجیب نمونہ بنایا ہے۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۹، ۴ / ۱۰۸-۱۰۹)

آیت ’’اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ‘‘ سے معلوم ہونے والے اَحکام:

            اس آیت سے تین باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… اس آیت میں ان عیسائیوں  کا بھی رد ہے جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدایا خدا کا بیٹا مانتے ہیں  اور ان یہودیوں  کا بھی رد ہے جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کے منکر ہیں ۔

(2)… مقبول بندوں  کی طرف داری اور تعریف کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔

(3)… اگر کسی محبوب بندے کو لوگ خدا بھی مان لیں  تو ان لوگوں  کی تردید میں  اس مقبول بندے کی توہین نہ کی جائے بلکہ اس کی عظمت کوباقی رکھا جائے۔
43:60
وَ لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰٓىٕكَةً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ(۶۰)
اور اگر ہم چاہتے تو (ف۱۰۲) زمین میں تمہارے بدلے فرشتے بساتے (ف۱۰۳)

{ وَ لَوْ نَشَآءُ: اور اگر ہم چاہتے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے کفارِ قریش!ہم تم سے اور تمہاری عبادت سے بے نیاز ہیں ، اگر ہم چاہتے تو تمہیں  ہلاک کر کے زمین میں  تمہارے بدلے فرشتے بسادیتے جو تمہارے بعد آباد رہتے اور ہماری عبادت واطاعت کرتے اور فرشتوں کے آسمانوں  پر رہنے میں  کوئی ایسی فضیلت نہیں  ہے کہ ان کی عبادت کی جائے یایہ کہا جائے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں  ہیں (تو پھر تم کیوں  ان کی عبادت کرتے اور انہیں  اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں  قرار دیتے ہو)۔(جلالین مع صاوی،الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۰، ۵ / ۱۹۰۱، قرطبی، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۰، ۸ / ۷۶، الجزء السادس عشر، ملتقطاً)

43:61
وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۶۱)
اور بیشک عیسی ٰ قیامت کی خبر ہے (ف۱۰۴) تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میرے پیرو ہونا (ف۱۰۵) یہ سیدھی راہ ہے،

{وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ: اور بیشک عیسیٰ ضرورقیامت کی ایک خبر ہے۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ آپ فرما دیں : ’’حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آسمان سے دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی علامات میں  سے ہے،تو اے لوگو! ہرگز قیامت کے آنے میں  شک نہ کرنا اور میری ہدایت اور شریعت کی پیروی کرنا، یہ سیدھا راستہ ہے جس کی میں  تمہیں  دعوت دے رہا ہوں ۔(مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۱۱۰۴، ملخصاً)

قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تشریف لانا برحق ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قیامت کے قریب آسمان سے زمین پر تشریف لانا برحق ہے کیونکہ ان کا آنا قیامت کی علامت ہے، لیکن یہ یاد رہے آپ کا وہ آناسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کا نبی بن کر نہیں  بلکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے امتی ہونے کی حیثیت سے ہو گا۔یہاں  حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آسمان سے نازل ہونے کے بارے میں  3اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم !جس کے قبضے میں  میری جان ہے،قریب ہے کہ تم میں  حضرت ابنِ مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نازل ہوں  گے جو انصاف پسند ہوں  گے ،صلیب کو توڑیں  گے،خنزیر کو قتل کریں  گے،جِزیَہ مَوقوف کر دیں  گے اور مال اتنا بڑھ جائے گا کہ لینے والا کوئی نہ ہو گا۔( بخاری، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، ۲ / ۵۰، الحدیث: ۲۲۲۲)

(2)…حضرت نواس بن سمعان کلابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’(دجال ظاہر ہونے کے بعد)اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجے گا تو وہ جامع مسجد دمشق کے سفید مشرقی مینارے پر اس حال میں  اتریں  گے کہ انہوں  نے ہلکے زرد رنگ کے دو حُلّے پہنے ہوں  گے اور انہوں  نے دو فرشتوں  کے بازوؤں  پر ہاتھ رکھے ہوں  گے ،جب آپ سر نیچاکریں  گے تو پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں  گے اور جب آپ سر اٹھائیں  گے تو موتیوں  کی طرح سفید چاندی کے دانے جھڑ رہے ہوں  گے۔(مسلم ، کتاب الفتن و اشراط الساعۃ ، باب ذکر الدجال و صفتہ و ما معہ، ص۱۵۶۸، الحدیث: ۱۱۰(۲۱۳۷)، ابو داؤد، اول کتاب الملاحم، باب ذکر خروج الدجال، ۴ / ۱۵۷، الحدیث: ۴۳۲۱)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان کوئی نبی نہیں  اور وہ (قیامت کے قریب آسمان سے) نازل ہوں  گے، جب تم انہیں  دیکھو گے تو پہچان لوگے،ان کا رنگ سرخی آمیز سفید ہو گا،قد درمیانہ ہو گا،وہ ہلکے زرد رنگ کے حُلّے پہنے ہوئے ہوں  گے ،ان پر تری نہیں  ہو گی لیکن گویا ان کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں  گے ،وہ اسلام پر لوگوں  سے قتال کریں  گے ،صلیب توڑ دیں  گے ،خنزیر کو قتل کریں  گے،جِزیَہ مَوقوف کر دیں  گے ،اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں  اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب کو مٹا دے گا،حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مسیح دجال کو ہلاک کریں  گے ،چالیس سال زمین میں  قیام کرنے کے بعد وفات پائیں  گے اور مسلمان ان کی نمازِ جنازہ پڑھیں  گے ۔( ابو داؤد، اول کتاب الملاحم، باب ذکر خروج الدجال، ۴ / ۱۵۸، الحدیث: ۴۳۲۴)

قیامت کی 10علامات:

            قیامت کی ایک علامت اس آیت میں  بیان ہوئی اور چند علامات اس حدیثِ پاک میں  بیان ہوئی ہیں ۔ چنانچہ حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس اس دوران تشریف لائے جب ہم آپس میں  گفتگو کر رہے تھے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم کیا باتیں  کر رہے تھے۔ہم نے عرض کی:ہم قیامت کے بارے میں  گفتگو کر رہے تھے۔ ارشاد فرمایا’’اس وقت تک قیامت نہیں  آئے گی جب تک تم ا س کے بارے میں  دس نشانیاں  نہ دیکھ لو (1)دھواں  (2)دجال(3)دابۃ الارض، (ایک عجیب و غریب شکل و صورت کا جانور) (4)سورج کا مغرب سے طلوع ہونا (5)حضرت عیسیٰ بن مریم کا نزول(6)یاجوج ماجوج (7)مشرق میں  زمین دھنسنا(8)مغرب میں  زمین دھنسنا (9)جزیرۂ عرب میں  زمین دھنسنا(10) یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں  کو ہَنکا کر میدانِ محشر کی طرف لے آئے گی۔( مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی الآیات التی تکون قبل الساعۃ، ص۱۵۵۱، الحدیث: ۳۹(۲۹۰۱))

43:62
وَ لَا یَصُدَّنَّكُمُ الشَّیْطٰنُۚ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۶۲)
اور ہرگز شیطان تمہیں نہ روک دے (ف۱۰۶) بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،

{وَ لَا یَصُدَّنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ: اور ہرگز شیطان تمہیں  نہ روکے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہرگز شیطان تمہیں  شریعت کی پیروی کرنے سے یا قیامت کا یقین رکھنے سے یا اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم رہنے سے نہ روک دے، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس کی عداوت اس سے ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے تمہارے والد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جنت سے (زمین پر)تشریف لے جانا پڑااور ان کے جسم سے نور کا لباس اتار لیا گیا پھر وہ تمہارا دوست کیسے ہو سکتا ہے؟(مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۱۱۰۴-۱۱۰۵، خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۱۰۹، ملتقطاً)

شیطان کی انسانوں  سے عداوت اور دشمنی:

            اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں  کئی مقامات پر شیطان کی عداوت اور دشمنی کی پہچان کروائی ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگ شیطان کے دشمن ہونے پر ایمان لائیں  اور ا س کے شر سے بچنے کی کوشش کریں  ،چنانچہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا‘‘(بنی اسرائیل:۵۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک شیطان لوگوں  کے درمیان فساد ڈال دیتا ہے۔ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے :

’’وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸)اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۱۶۸، ۱۶۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور شیطان کے راستوں  پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں  صرف برائی اور بے حیائی کا حکم دے گا اور یہ (حکم دے گا) کہ تم اللہ کے بارے میں  وہ کچھ کہو جو خود تمہیں  معلوم نہیں ۔

            اور ارشاد فرماتا ہے :

’’ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ-اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ‘‘(فاطر:۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو اسی لیے بلاتا ہے تاکہ وہ بھی دوزخیوں  میں  سے ہوجائیں ۔

            اور ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً۪-وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۰۸)فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْكُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ‘‘(بقرہ:۲۰۸، ۲۰۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اسلام میں  پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں  پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور اگر تم اپنے پاس روشن دلائل آجانے کے بعد بھی لغزش کھاؤ تو جان لو کہ اللہ  زبردست حکمت والا ہے۔

لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے اس خبیث ترین اور انتہائی خطرناک دشمن کو پہچانے اوراس کے واروں  سے بچنے اور اس دشمن کو خود سے دور کرنے کی بھرپور کوشش کرے ۔

سَرورِ دیں  لیجے اپنے ناتوانوں  کی خبر 

 نفس و شیطاں  سیّدا کب تک دباتے جائیں  گے

تم ہو حفیظ و مُغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث

 تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں  درود

43:63
وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(۶۳)
اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں (ف۱۰۷) لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا (ف۱۰۸) اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو (ف۱۰۹) تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،

{وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ: اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں  لایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معجزات لے کر آئے تو انہوں  نے فرمایا: ’’میں  تمہارے پاس نبوت اور انجیل کے احکام لے کر آیا ہوں  تاکہ تم ان احکام پر عمل کرو اور میں اس لئے آیا ہوں  تاکہ میں  تم سے توریت کے احکام میں  سے وہ تمام باتیں بیان کردوں  جن میں  تم اختلاف رکھتے ہو،لہٰذا تم میری مخالفت کرنے میں  اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو اَحکام تمہیں  پہنچا رہا ہوں  ان میں  میرا حکم مانو کیونکہ میری اطاعت حق کی اطاعت ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اورا س کی وحدانیّت کا اقرار کرو، یہ سیدھا راستہ ہے کہ اس پر چلنے والا گمراہ نہیں  ہو سکتا۔( جلالین ، الزّخرف ، تحت الآیۃ : ۶۳ - ۶۴ ، ص۴۰۹ ، روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۳-۶۴، ۸ / ۳۸۵-۳۸۶، ملتقطاً)
43:64
اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۶۴)
بیشک اللہ میرا رب اور تمہارا رب تو اسے پوجو، یہ سیدھی راہ ہے (ف۱۱۰)

43:65
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْۚ-فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ(۶۵)
پھر وہ گروہ آپس میں مختلف ہوگئے (ف۱۱۱) تو ظالموں کی خرابی ہے (ف۱۱۲) ایک درد ناک دن کے عذاب سے (ف۱۱۳)

{فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْ: پھر وہ گروہ آپس میں  مختلف ہوگئے۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں  کے شرک بیان فرمائے ہیں ،چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد عیسائیوں  کے مختلف گروہ بن گئے ، ان میں  سے کسی نے کہا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خدا تھے، کسی نے کہا کہ خدا کے بیٹے تھے اور کسی نے کہا کہ تین خداؤں  میں  سے تیسرے تھے۔الغرض عیسائیوں  کے یعقوبی ،نسطوری، ملکانی اور شمعونی فرقے بن گئے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جنہوں  نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  کفر کی باتیں  کہیں ، ان ظالموں  کیلئے قیامت کے درد ناک دن کے عذاب کی ہلاکت ہے۔( جلالین، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۴۰۹، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۱۱۰۵، ملتقطاً)
43:66
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(۶۶)
کاہے کے انتظار میں ہیں مگر قیامت کے کہ ان پر اچانک آجائے اور انہیں خبر نہ ہو،

{هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ: وہ قیامت ہی کا انتظار کررہے ہیں ۔} اس آیت کی  ایک تفسیر یہ ہے کہ وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  مختلف فرقے بن گئے اور ان کے متعلق باطل باتیں  کہہ رہے ہیں (ان کے حال سے یہی نظر آ رہا ہے کہ) وہ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں  جس میں  قیامت اچانک قائم ہو جائے گی اور انہیں اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہو گی۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ کفارِ مکہ(کے طرزِ عمل سے یہی نظر آتا ہے کہ) قیامت کے آنے کا ہی انتظار کر رہے ہیں  کہ ان پر اچانک آجائے اور انہیں  دُنْیَوی کام کاج میں  مشغولیَّت کی وجہ سے اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہو۔(تفسیرطبری، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۶، ۱۱ / ۲۰۸، جلالین، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۴۰۹، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۱۱۰۵، ملتقطاً)

موت چھوٹی قیامت ہے،یہ بھی اچانک آئے گی:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت اچانک آئے گی اور یاد رہے کہ بڑی قیامت سے پہلے ایک چھوٹی قیامت ہے، یہ بھی اچانک ہی آئے گی اور یہ قیامت ’’موت‘‘ ہے ،لہٰذاہر عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہ چھوٹی قیامت قائم ہونے سے پہلے پہلے بھی گناہوں  کو چھوڑ دے اور اپنے سابقہ تمام گناہوں  اور جُرموں  سے سچی توبہ کر کے نیک اعمال کرنے میں  مصروف ہو جائے ،اَحادیث میں  بھی ا س کی بہت ترغیب دی گئی ہے ،چنانچہ

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جب تم میں  سے کسی کو موت آ گئی تو بے شک اس کی قیامت قائم ہو گئی توتم اللہ تعالیٰ کی عبادت ا س طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور ہر گھڑی اس سے مغفرت طلب کرتے رہو۔( مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۲۸۵، الحدیث: ۱۱۱۷)

اور حصرتِ اُبی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : جب رات کے دو تہائی حصے گزر جاتے تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اٹھتے اور فرماتے: ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ کاذکر کرو، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو ۔تَھرتھرا دینے والی چیز آپہنچی، اس کے پیچھے آئے گی پیچھے آنے والی۔ موت اپنے اندر موجود تکالیف کے ساتھ آپہنچی ہے،موت اپنے اندر موجود تکالیف کے ساتھ آپہنچی ہے۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ... الخ، ۲۳-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۵)

اللہ تعالیٰ ہمیں  گناہوں  سے سچی توبہ کرنے اور نیک اعمال میں  مصروف رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

43:67
اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷)
گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیزگار (ف۱۱۴)

{اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ: اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں  گے۔} اس سے پہلی آیت میں  قیامت کا ذکر ہوا ،اب اس آیت سے قیامت کے بعض اَحوال بیان کئے جا رہے ہیں  ۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں  جودوستی کفر اور مَعصِیَت کی بنا پر تھی وہ قیامت کے دن دشمنی میں  بدل جائے گی جبکہ دینی دوستی اور وہ محبت جو اللہ تعالیٰ کے لئے تھی دشمنی میں  تبدیل نہ ہو گی بلکہ باقی رہے گی۔( تفسیرکبیر، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۹ / ۶۴۱، جلالین، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۴۰۹، ملتقطاً)

             حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم سے اس آیت کی تفسیر میں  مروی ہے، آپ نے فرمایا: دو دوست مومن ہیں  اور دو دوست کافر ۔مومن دوستوں  میں  ایک مرجاتا ہے تو بارگاہِ الٰہی میں  عرض کرتا ہے: یارب! عَزَّوَجَلَّ، فلاں  مجھے تیری اور تیرے رسول کی فرمانبرداری کرنے کا اور نیکی کرنے کا حکم کرتا تھا اور مجھے برائی سے روکتا تھا اور یہ خبر دیتا تھا کہ مجھے تیرے حضور حاضر ہونا ہے، یارب! عَزَّوَجَلَّ، اسے میرے بعد گمراہ نہ کرنا اور اسے ایسی ہدایت دے جیسی ہدایت مجھے عطا فرمائی اور اس کا ایسا اِکرام کر جیسا میرا اِکرام فرمایا ۔جب اس کا مومن دوست مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دونوں  کو جمع کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم میں  ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے ،تو ہر ایک کہتا ہے کہ یہ اچھا بھائی ہے، اچھا دوست ہے، اچھا رفیق ہے۔ اور دوکافر دوستوں  میں  سے جب ایک مرجاتا ہے تو دعا کرتا ہے: یارب! عَزَّوَجَلَّ، فلاں  مجھے تیری اور تیرے رسول کی فرماں  برداری سے منع کرتا تھا اور بَدی کا حکم دیتا تھا ،نیکی سے روکتا تھااور یہ خبر دیتا تھا کہ مجھے تیرے حضور حا ضرنہیں  ہونا ،تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں  سے ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ان میں  سے ایک دوسرے کو بُرا بھائی، بُرا دوست اور بُرا رفیق کہتا ہے۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۴ / ۱۰۹-۱۱۰)

اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں  سے محبت قیامت کے دن کام آئے گی:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایمان والوں  کی آپس میں  محبت اور دوستی قیامت کے دن کام آئے گی، لہٰذا اہلِ حق کا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے محبت اور عقیدت رکھنا انہیں  ضرور نفع دے گا۔ صحیح بخاری میں  حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیامت کب ہوگی؟ ارشاد فرمایا: تُو نے اس کے لیے کیاتیاری کی ہے؟ اس نے عرض کی، اس کے لیے میں  نے کوئی تیاری نہیں  کی، صرف اتنی بات ہے کہ میں  اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت رکھتا ہوں ۔ ارشاد فرمایا ’’تو ان کے ساتھ ہے جن سے تجھے محبت ہے۔حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں  کہ اسلام کے بعد مسلمانوں  کو جتنی اس کلمہ سے خوشی ہوئی، ایسی خوشی میں  نے کبھی نہیں  دیکھی۔( بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب مناقب عمر بن الخطاب ... الخ ، ۲ / ۵۲۷، الحدیث: ۳۶۸۸، مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب الحب فی اللّٰہ ومن اللّٰہ، الفصل الاول، ۲ / ۲۱۸، الحدیث: ۵۰۰۹)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نیک اور پرہیز گار بندوں  کو اپنا دوست بنائے اور ان سے محبت رکھے تاکہ آخرت میں  ان کی دوستی اور محبت کام آئے ۔

اللہ کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھنے کے فضائل:

            جو مسلمان اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں  ،ان کے اَحادیث میں  بہت فضائل بیان ہوئے ہیں ،ترغیب کے لئے یہاں  چار اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’جو لوگ میری وجہ سے آپس میں  محبت رکھتے ہیں  اور میری وجہ سے ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں  اور آپس میں  ملتے جلتے ہیں  اور مال خرچ کرتے ہیں ، ان سے میری محبت واجب ہوگئی۔( مؤطا امام مالک، کتاب الشعر، باب ما جاء فی المتحابین فی اللّٰہ، ۲ / ۴۳۹، الحدیث: ۱۸۲۸)

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: ’’وہ لوگ کہاں  ہیں  جو میرے جلال کی وجہ سے آپس میں  محبت رکھتے تھے، آج میں  ان کو اپنے (عرش کے)سایہ میں  رکھوں  گا، آج میرے (عرش کے)سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ۔( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاداب، باب فی فضل الحب فی اللّٰہ، ص۱۳۸۸، الحدیث: ۳۷(۲۵۶۶))

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگردو شخصوں  نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے باہم محبت کی اور ایک مشرق میں  ہے، دوسرا مغرب میں ، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دونوں  کو جمع کردے گا اور فرمائے گا: ’’یہی وہ ہے جس سے تو نے میرے لیے محبت کی تھی۔( شعب الایمان،الحادی والستون من شعب الایمان...الخ، قصۃ ابراہیم فی المعانقۃ...الخ،۶ / ۴۹۲،الحدیث:۹۰۲۲)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں  یاقوت کے ستون ہیں  ان پر زَبَرْجَد کے بالاخانے ہیں ، وہ ایسے روشن ہیں  جیسے چمکدار ستارے۔ لوگوں  نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان میں  کون رہے گا؟ فرمایا: ’’وہ لوگ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے آپس میں  محبت رکھتے ہیں ، ایک جگہ بیٹھتے ہیں ، آپس میں  ملتے ہیں ۔(شعب الایمان،الحادی والستون من شعب الایمان...الخ،قصۃ ابراہیم فی المعانقۃ...الخ،۶ / ۴۸۷، الحدیث: ۹۰۰۲)

 

43:68
یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَۚ(۶۸)
ان سے فرمایا جائے گا اے میرے بندو آج نہ تم پر خوف نہ تم کو غم ہو،

{یٰعِبَادِ: اے میرے بندو!} اس آیت ا ور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ دینی دوستی اور اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت رکھنے والوں  کی تعظیم اور ان کے دل خوش کرنے کے لئے ان سے فرمایا جائے گا’’ اے میرے بندو! آج نہ تم پر خوف ہے اور نہ تم غمگین ہوگے اور میرے بندے وہ ہیں  جو ہماری آیتوں  پر ایمان لائے اور وہ فرمانبردارتھے،ان سے کہا جائے گا کہ تم اور تمہاری مومنہ بیویاں  جنت میں  داخل ہوجائیں  اورجنت میں  تمہارا اکرام ہوگا، نعمتیں  دی جائیں  گی اورایسے خوش کئے جاؤ گے کہ تمہارے چہروں  پر خوشی کے آثار نمودار ہوں  گے۔( ابو سعود، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۸-۷۰، ۵ / ۵۵۰، ملخصاً)

            مقاتل نے کہا کہ ’’حشر کے میدان میں  ایک مُنادی یہ اعلان فرمائے گا ’’یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ‘‘ یعنی اے میرے بندو! آج تم پر کوئی خوف نہیں  ہے۔تو تمام اہلِ محشر اپنے سروں  کو اٹھا لیں  گے ۔پھر وہ مُنادی فرمائے گا ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ‘‘ یعنی میرے بندے وہ ہیں جو ہماری آیتوں  پر ایمان لائے اور وہ فرمانبردار تھے۔ یہ سن کر مسلمانوں  کے علاوہ تمام مذاہب والے اپنے سروں  کو جھکا لیں  گے ۔

            اورحضرت حارث محاسبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’حدیث میں  ہے کہ قیامت کے دن مُنادی اعلان فرمائے گا ’’یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ‘‘ تو تمام لوگ اپنے سروں  کو اٹھا لیں  گے اور کہیں  گے: ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ۔پھر دوسری بار مُنادی فرمائے گا ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ‘‘ تو تمام کفار اپنے سروں  کو جھکا لیں  گے جبکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کرنے والے اپنے سر اٹھائے رکھیں  گے ۔پھر تیسری بار مُنادی فرمائے گا ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ‘‘ تو کبیرہ گناہ کرنے والے اپنے سروں  کو جھکا لیں  گے جبکہ مُتّقی لوگ اسی طرح اپنے سر اٹھائے رکھیں  گے ۔اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ان سے خوف اور غم دور کر دے گا کیونکہ وہ اکرمُ الاکرمین ہے، وہ اپنے اولیاء کو شرمندہ نہیں  ہونے دے گا۔( تفسیرقرطبی، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۸، ۸ / ۸۰-۸۱، الجزء السادس عشر)

 

43:69
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَۚ(۶۹)
وہ جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور مسلمان تھے،

43:70
اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ(۷۰)
داخل ہو جنت میں تم اور تمہاری بیبیاں اور تمہاری خاطریں ہوتیں (ف۱۱۵)

43:71
یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَهَبٍ وَّ اَكْوَابٍۚ-وَ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْهِ الْاَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعْیُنُۚ-وَ اَنْتُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَۚ(۷۱)
ان پر دورہ ہوگا سونے کے پیالوں اور جاموں کا اور اس میں جو جی چاہے اور جس سے آنکھ کو لذت پہنچے (ف۱۱۶) اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے،

{یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَهَبٍ وَّ اَكْوَابٍ: ان پر سونے کی تھالیوں  اور جاموں  کے دَور ہوں  گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جنت میں  داخل ہونے کے بعد مومن بندوں  پر کھانے سے بھر ی سونے کی تھالیوں  اورشراب سے لبریز جاموں  کے دَور ہوں  گے اور جنت میں  ان کے لئے مختلف اَقسام کی وہ تمام چیزیں  ہوں  گی جن کی ان کے دل خواہش کریں  گے اور جن سے آنکھوں  کو لذّت ملے گی اور تم جنت میں  ہمیشہ رہو گے اور یہی وہ جنت ہے جس کا تمہارے دُنْیَوی نیک اعمال کے صدقے تمہیں  وارث بنایا گیا ہے۔( روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ۸ / ۳۸۹-۳۹۲)

جنت کی عظیم نعمتیں :

            جنت کی ان عظیم نعمتوں  کے بارے میں  ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ كَانَتْ قَؔوَارِیْرَاۡۙ(۱۵) قَؔوَارِیْرَاۡ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوْهَا تَقْدِیْرًا(۱۶)وَ یُسْقَوْنَ فِیْهَا كَاْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِیْلًاۚ(۱۷) عَیْنًا فِیْهَا تُسَمّٰى سَلْسَبِیْلًا(۱۸) وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَۚ-اِذَا رَاَیْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا(۱۹) وَ اِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّ مُلْكًا كَبِیْرًا(۲۰) عٰلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌ٘-وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍۚ-وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا(۲۱) اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَآءً وَّ كَانَ سَعْیُكُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(دہر:۱۵۔۲۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان پر چاندی کے برتنوں  اورگلاسوں   کے دَور ہوں  گے جو شیشے کی طرح ہوں  گے۔ چاندی کے  شفاف شیشے جنہیں  پلانے والوں  نے پورے اندازہ سے (بھر کر) رکھا ہوگا۔ اور جنت میں  انہیں  ایسے جام پلائے جائیں  گے جس میں  زنجبیل ملاہوا ہوگا۔ زنجبیل جنت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل رکھا جاتا ہے۔ اور ان کے آس پاس ہمیشہ رہنے والے لڑکے (خدمت کیلئے) پھریں  گے جب تو انہیں  دیکھے گا تو توانہیں  بکھرے ہوئے موتی سمجھے گا۔اور جب تووہاں دیکھے گا تو نعمتیں  اور بہت بڑی سلطنت دیکھے گا۔ ان پرباریک اور موٹے ریشم کے سبز کپڑے ہوں  گے اور انہیں  چاندی کے کنگن پہنائے جائیں  گے اور ان کا رب انہیں  پاکیزہ شراب پلائے گا۔ (ان سے فرمایا جائے گا) بیشک یہ تمہارا صلہ ہے اور تمہاری محنت کی قدر کی گئی ہے۔

            اورحضرت بریدہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پوچھا: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا جنت میں  گھوڑے ہوں  گے؟ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں  جنت میں  داخل کیا تو تم اس میں  سرخ یاقوت کے جس گھوڑے پر سوار ہونا چاہو گے( ہوجاؤ گے)اور جنت میں  ( تمجہاں  چاہو گے)وہ تمہیں  اڑا کرلے جائے گا۔ایک اور آدمی نے پوچھا: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا جنت میں  اونٹ ہوں  گے ؟آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے وہ جواب نہ دیاجو پہلے شخص کو دیا تھا بلکہ ارشاد فرمایا’’اگر اللہ تعالیٰ تمہیں  جنت میں  لے جائے تو جو کچھ تمہارا جی چاہے گا اور جس چیز سے تمہاری آنکھوں  کو لذت ملے گی تمہیں  وہی کچھ ملے گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء فی صفۃ خیل الجنۃ، ۴ / ۲۴۳، الحدیث: ۲۵۵۲)

 جنت میں  داخلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو گا:

            ان آیات سے معلوم ہو اکہ جنت میں  داخلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو گا اور ا س کے درجات کی تقسیم نیک اعمال کے مطابق ہو گی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم اللہ تعالیٰ کے معاف فرمانے سے پل صراط پار کرو گے،اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں  داخل ہو گے اور تمہارے اعمال کے مطابق(جنت کے) درجات تم میں  تقسیم کئے جائیں  گے۔( در منثور، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۲، ۷ / ۳۹۴)

{وَ تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْۤ اُوْرِثْتُمُوْهَا: اور یہی وہ جنت ہے جس کا تمہیں  وارث بنایا گیا ہے۔} حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ تم میں  سے ہر شخص کا ایک گھر جنت میں  اور ایک گھر جہنم میں  ہے،کافر جہنم میں  مومن کے گھر کا وارث بن جاتا ہے اور مومن جنت میں  کافر کے گھر کا وارث بن جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے ا س فر مان کا یہی معنی ہے۔( ابن ابی حاتم، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۲، ۱۰ / ۳۲۸۶)

 

43:72
وَ تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْۤ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۷۲)
اور یہ ہے وہ جنت جس کے تم وارث کیے گئے اپنے اعمال سے،

43:73
لَكُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ كَثِیْرَةٌ مِّنْهَا تَاْكُلُوْنَ(۷۳)
تمہارے لیے اس میں بہت میوے ہیں کہ ان میں سے کھاؤ (ف۱۱۷)

{لَكُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ كَثِیْرَةٌ: تمہارے لیے اس میں  کثرت سے پھل ہیں ۔} یعنی تمہارے لئے جنت میں  کھانے اور شراب کے علاوہ طرح طرح کے بے شمار پھل ہوں  گے جن میں  سے تم کھاتے رہو گے۔( روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۳، ۸ / ۳۹۲)

جنت کے سدا بہار پھلـ:

            جنت کے پھلوں  کے بارے میں  ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَ فَاكِهَةٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ‘‘(واقعہ:۲۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور پھل میوے جو جنتی پسند کریں  گے۔

             اور ارشاد فرمایا: ’’مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَؕ-تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-اُكُلُهَا دَآىٕمٌ وَّ ظِلُّهَاؕ-تِلْكَ عُقْبَى الَّذِیْنَ اتَّقَوْا‘‘(رعد:۳۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: جس جنت کا پرہیزگاروں  سے وعدہ کیا گیا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں  جاری یں ، اس کے پھل اور اس کا سایہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ یہ پرہیزگاروں  کا انجام ہے۔

            اورحضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر اہل ِجنت میں  سے کوئی شخص جنتی درخت سے ایک پھل لے گا تو درخت میں  اس کی جگہ دو پھل نمودار ہوجائیں  گے۔(مسند البزار، مسند ابی الدرداء رضی اللّٰہ عنہ، ۱۰ / ۱۲۳، الحدیث: ۴۱۸۷)

            معلوم ہوا کہ جنت کے درخت سدا بہار پھل دار ہیں ،ان کی زیب و زینت میں  فرق نہیں  آتا۔

 

43:74
اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ عَذَابِ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَۚۖ(۷۴)
بیشک مجرم (ف۱۱۸) جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں،

{اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ: بیشک مجرم۔} ایمان والے متقی لوگوں  کے لئے جنت کے انعامات ذکر فرمانے کے بعد یہاں  سے کفار کے لئے جہنم کی سزا بیان کی جا رہی ہے۔ اس آیت اوراس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک کافرجہنم کے عذاب میں  ہمیشہ رہنے والے ہیں  کہ جیسے گناہ گار مسلمانوں  کا عذاب ختم ہوجائے گا ویسے ان کا عذاب کبھی ختم نہ ہو گا۔وہ عذاب ان سے کبھی ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی اس میں  کمی کی جائے گی، وہ اس میں  نجات ،راحت اورسزا میں  کمی سے مایوس پڑے رہیں  گے اور یہ عذاب دے کر ہم نے ان پر کچھ ظلم نہیں  کیا، ہاں  وہ خود ہی ظالم تھے کہ سرکشی و نافرمانی کرکے اس حال کو پہنچے ہیں ۔( روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۴-۷۶، ۸ / ۳۹۳)

کفار کے لئے بیان کی گئی سزاؤں  میں مسلمانوں  کے لئے بھی عبرت:

            یاد رہے کہ کفار کے لئے بیان کی گئی سزاؤں  میں  جہاں  ان کے لئے وعید ہے وہیں  ان میں مسلمانوں  کے لئے بھی عبرت اور نصیحت ہے کیونکہ اس بات میں  اگرچہ کوئی شک نہیں کہ ہم فی الوقت مسلمان ہیں  ،لیکن ہم میں  سے کسی کے پاس اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں  کہ وہ مرتے دم تک مسلمان ہی رہے گا کیونکہ جس طرح بے شمار کفار خوش قسمتی سے مسلمان ہو جاتے ہیں  اُسی طرح بہت سے بدنصیب مسلمانوں  کا بھی ایمان سے پھر جاناثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اولادِ آدم مختلف طبقات پر پیدا کی گئی ان میں  سے بعض مومن پیدا ہوئے حالت ِایمان پر زندہ رہے اور مومن ہی مریں  گے، بعض کافر پیدا ہوئے حالت ِکفر پر زندہ رہے اور کافر ہی مریں  گے، جبکہ بعض مومن پیدا ہوئے مومنانہ زندگی گزاری اور حالت ِکفر پر رخصت ہوئے ،بعض کافر پیدا ہوئے ،کافر زندہ رہے اور مومن ہو کر مریں  گے۔( ترمذی، کتاب الفتن، باب ما اخبر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اصحابہ... الخ، ۴ / ۸۱، الحدیث: ۲۱۹۸)

            اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ان فتنوں  سے پہلے نیک اعمال کے سلسلے میں  جلدی کرو !جو تاریک رات کے حصوں  کی طرح ہوں  گے۔ ایک آدمی صبح کو مومن ہو گا اور شام کو کافر ہوگااور شام کو مومن ہوگااور صبح کافر ہوگا۔ نیز اپنے دین کو دنیاوی سازو سامان کے بد لے فروخت کر دے گا۔( مسلم، کتاب الایمان، باب الحثّ علی المبادرۃ بالاعمال... الخ، ص۷۳، الحدیث: ۱۸۶(۱۱۸))

            اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’علمائے کرام فر ماتے ہیں : ’’جس کو سَلبِ ایمان کا خوف نہ ہومرتے وقت اس کا ایمان سَلب ہوجانے کا اندیشہ ہے۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت، حصہ چہارم، ص۴۹۵)

            اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں  اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

          نوٹ: ایمان کی حفاظت کے بارے میں  اور جن کلما ت سے ایمان ضائع ہو جاتا ہے ان کی تفصیل جاننے کے لئے ’’کفریہ کلمات کے بارے میں  سوال جواب‘‘ کتاب کا مطالعہ کرنا بہت فائدہ مند ہے۔

 

43:75
لَا یُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَ هُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَۚ(۷۵)
وہ کبھی ان پر سے ہلکا نہ پڑے گا اور وہ اس میں بے آ س رہیں گے (ف۱۱۹)

43:76
وَ مَا ظَلَمْنٰهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْا هُمُ الظّٰلِمِیْنَ(۷۶)
اور ہم نے ان پر کچھ ظلم نہ کیا، ہاں وہ خود ہی ظالم تھے (ف۱۲۰)

43:77
وَ نَادَوْا یٰمٰلِكُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّكَؕ-قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ(۷۷)
اور وہ پکاریں گے (ف۱۲۱) اے مالک تیرا رب ہمیں تمام کرچکے (ف۱۲۲) وہ فرمائے گا (ف۱۲۳) تمہیں تو ٹھہرنا (ف۱۲۴)

{وَ نَادَوْا: اور وہ پکاریں  گے۔} کفار جہنم کے داروغہ کو پکار کر کہیں  گے :اے مالک! اپنے رب سے دعا کریں  کہ وہ ہمیں  موت دے کرہمارا کام پورا کردے تاکہ ہمیں  اس عذاب سے راحت نصیب ہو۔(ایک قول کے مطابق) حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَام ایک ہزار سال بعد جواب دیں  گے اور فرمائیں  گے تم عذاب میں ہمیشہ ٹھہرنے والے ہو اورتم موت سے اور نہ کسی اور طرح کبھی بھی اس سے رہائی نہ پائو گے ۔( روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۸ / ۳۹۳)

             حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَام کا جواب سن کر کفار اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کریں  گے: ’’قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَ كُنَّا قَوْمًا ضَآلِّیْنَ(۱۰۶) رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ(۱۰۷) قَالَ اخْسَــٴُـوْا فِیْهَا وَ لَا تُكَلِّمُوْنِ‘‘(مومنون:۱۰۶۔۱۰۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ کہیں  گے: اے ہمارے رب! ہم پر ہماری بدبختی غالب آئی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔ اے ہمارے رب! ہمیں  دوزخ سے نکال دے پھر اگر ہم ویسے ہی کریں  تو بیشک ہم ظالم ہوں  گے۔ اللہ فرمائے گا: دھتکارے ہوئے جہنم میں  پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔

             اس کے بعد وہ گدھے کی طرح چیختے چِلّاتے رہیں  گے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ شَهِیْقٌ‘‘(ہود:۱۰۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو جو بدبخت ہوں  گے وہ تو دوزخ میں  ہوں  گے، وہ اس میں  گدھے کی طرح چلائیں  گے۔

 

43:78
لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ(۷۸)
بیشک ہم تمہارے پاس حق لائے (ف۱۲۵) مگر تم میں اکثر کو حق ناگوار ہے،

{لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ: بیشک ہم تمہارے پاس حق لائے۔} اس آیت میں  ایک احتمال یہ ہے کہ یہ جہنمی کفار کے ساتھ حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَام کے کلام کا حصہ ہے۔اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہے’’ تم ہمیشہ جہنم میں  اس لئے رہو گے کہ بیشک ہم تمہارے پاس انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ذریعے دین ِحق لائے تھے مگر تم سب اپنی نفسانی خواہشات کے مخالف ہونے کی وجہ سے دین ِحق کو ناپسند کرنے والے تھے۔ دوسرا اِحتمال یہ ہے کہ اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے مکہ میں  رہنے والے کفار سے خطاب فرمایا ہے۔اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہے ’’اے کفارِ مکہ!بے شک ہم تمہارے پاس اپنے رسول کی معرفت سچا دین لائے مگر تم میں  سے تھوڑے اَفراد اس پر ایمان لائے جبکہ اکثر لوگ بغض اور نفرت کی وجہ سے اس سچے دین کو ناپسند کرنے والے ہیں ۔( جلالین مع صاوی، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۸، ۵ / ۱۹۰۴، ملخصاً)

 دینی چیزوں  سے ناگواری کا اظہارکرنا کفار کا کام ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ دینی چیزوں  سے کراہت اور ناگواری کا اظہارکرنا کفار کا کام ہے۔اس سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلانے کے باوجود اسلام کے شَعائر کو ناپسند کرتے ہیں  اوراسلام کے احکامات پر عمل کرنے والے کو بُری نظر سے دیکھتے ، اس کا مذاق اڑاتے اور اسلامی احکام پر عمل کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں  ۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت نصیب فرمائے،اٰمین۔

43:79
اَمْ اَبْرَمُوْۤا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَۚ(۷۹)
کیا انہوں نے (ف۱۲۶) اپنے خیال میں کوئی کام پکا کرلیا ہے (ف۱۲۷)

{اَمْ اَبْرَمُوْۤا اَمْرًا: کیا انہوں  نے کام پکا کرلیا ہے؟} یعنی کیا کفار ِمکہ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف سازش کرنے اور دھوکے سے انہیں  ایذا پہنچانے کا کام پکا کر لیا ہے اور در حقیقت ایسا ہی تھا کہ قریش دارُالنَّدْوَہ میں جمع ہو کر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوایذا پہنچانے کے لئے حیلے سوچتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’تو ہم بھی اپنے نبی کی حفاظت اور ان کے مُنکروں  کی بربادی کاکام پکا کرنے والے ہیں ۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۱۱۰۶، ملخصاً)

             کفارِقریش نے دارُالنَّدْوَہ میں  جمع ہو کر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف جو سازش تیار کی اس کی تفصیل اس آیت میں  ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَؕ-وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ‘‘(انفال:۳۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اوراے حبیب! یاد کروجب کافروں  نے تمہارے خلاف سازش کی کہ تمہیں  باندھ دیں  یا تمہیں  شہید کردیں  یا تمہیں  نکال دیں  اور وہ اپنی سازشیں  کررہے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر فرمارہا تھا اور اللہ سب سے بہتر خفیہ تدبیر فرمانے والا ہے۔
43:80
اَمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْؕ-بَلٰى وَ رُسُلُنَا لَدَیْهِمْ یَكْتُبُوْنَ(۸۰)
تو ہم اپنا کام پکا کرنے والے ہیں (ف۱۲۸) کیا اس گھمنڈ میں ہیں کہ ہم ان کی آہستہ بات اور ان کی مشورت نہیں سنتے، ہاں کیوں نہیں (ف۱۲۹) اور ہمارے فرشتے ان کے پاس لکھ رہے ہیں،

{اَمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْ: کیا وہ یہ سمجھتے ہیں  کہ ہم ان کی آہستہ بات اور ان کی خفیہ مشاورت نہیں  سنتے؟} یعنی کیا کفار یہ سمجھتے ہیں  کہ ہم ان کی آہستہ بات اور ان کی خفیہ مُشاوَرَت نہیں  سنتے؟ ہاں ، کیوں  نہیں ؟ ہم ضرور سنتے ہیں  اور پوشیدہ ظاہر ہر بات جانتے ہیں ، ہم سے کچھ نہیں  چھپ سکتا اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ان کے تمام اَقوال اور اَفعال کو لکھ رہے ہیں ،اس میں  ان کی آہستہ باتیں  اور خفیہ مشاورتیں  سب شامل ہیں  اور جب کوئی خفیہ بات فرشتوں  سے پوشیدہ نہیں  تو ظاہری و باطنی تمام چیزوں  کو جاننے والے رب تعالیٰ سے کیسے چھپ سکتی ہے۔( روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۰، ۸ / ۳۹۵)

تنہائی میں  گناہ کرنے والے اللہ تعالیٰ سے ڈریں :

            اس آیت میں  ان لوگوں  کے لئے بھی نصیحت ہے جو لوگوں  کے سامنے گناہ کرتے ہوئے توخوف محسوس کرتے ہیں  لیکن تنہائی میں  گناہ کرتے ہوئے اس رب تعالیٰ سے نہیں  ڈرتے جو ان کے ظاہر کو بھی جانتا ہے اور ان کے باطن سے بھی خبردار ہے۔حضرت یحییٰ بن معاذ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’جس نے لوگوں  سے تو اپنے گناہوں  کو چھپایا اور اس ذات کے سامنے ظاہر کیا جس سے کوئی خفیہ چیز پوشیدہ نہیں  تو اس نے اپنے نزدیک ا س ذات کو دیکھنے والوں  میں  سب سے ہلکا سمجھا اور یہ منافقت کی نشانی ہے۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۱۱۰۶)
  FONT
  THEME
  TRANSLATION
  • English | Ahmed Ali
  • Urdu | Ahmed Raza Khan
  • Turkish | Ali-Bulaç
  • German | Bubenheim Elyas
  • Chinese | Chineese
  • Spanish | Cortes
  • Dutch | Dutch
  • Portuguese | El-Hayek
  • English | English
  • Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
  • French | French
  • Hausa | Hausa
  • Indonesian | Indonesian-Bahasa
  • Italian | Italian
  • Korean | Korean
  • Malay | Malay
  • Russian | Russian
  • Tamil | Tamil
  • Thai | Thai
  • Farsi | مکارم شیرازی
  TAFSEER
  • العربية | التفسير الميسر
  • العربية | تفسير الجلالين
  • العربية | تفسير السعدي
  • العربية | تفسير ابن كثير
  • العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
  • العربية | تفسير البغوي
  • العربية | تفسير القرطبي
  • العربية | تفسير الطبري
  • English | Arberry
  • English | Yusuf Ali
  • Dutch | Keyzer
  • Dutch | Leemhuis
  • Dutch | Siregar
  • Urdu | Sirat ul Jinan
  HELP

اَلزُّخْرُف
اَلزُّخْرُف
  00:00



Download

اَلزُّخْرُف
اَلزُّخْرُف
  00:00



Download