Surah At-Tawbah
{بَرَآءَةٌ:براء ت کا اعلان ہے۔} مشرکینِ عرب اور مسلمانوں کے درمیان عہد تھا، ان میں سے چند کے سوا سب نےعہد شکنی کی تو ان عہد شکنوں کا عہد ساقط کردیا گیا اور حکم دیا گیا کہ چار مہینے وہ امن کے ساتھ جہاں چاہیں گزاریں ان سے کوئی تَعَرُّض نہ کیا جائے گا، اس عرصہ میں انہیں موقع ہے کہ خوب سوچ سمجھ لیں کہ ان کے لئے کیا بہتر ہے اور اپنی احتیاطیں کرلیں اور جان لیں کہ اس مدت کے بعد اسلام منظور کرنا ہوگا یا قتل۔ یہ سورت 9 ھ میں فتحِ مکہ سے ایک سال بعد نازل ہوئی، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سال حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو امیرِ حج مقرر فرمایا تھا اور ان کے بعد حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکو حاجیوں کے مجمع میں یہ سورت سنانے کے لئے بھیجا ۔ چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے دس ذی الحجہ کو جَمرہ ٔعَقبہ کے پاس کھڑے ہو کر ندا کی ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ (اے لوگو!)‘‘ میں تمہاری طرف رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بھیجا ہوا آیا ہوں۔ لوگوں نے کہا : آپ کیا پیام لائے ہیں ؟ تو آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے تیس یا چالیس آیتیں اس سورتِ مبارکہ کی تلاوت فرمائیں ،پھر فرمایا :میں چار حکم لایا ہوں :
(1)… اس سال کے بعد کوئی مشرک کعبہ معظمہ کے پاس نہ آئے۔
(2)… کوئی شخص بَرَہنہ ہو کر کعبہ معظمہ کا طواف نہ کرے۔
(3)… جنت میں مؤمن کے سوا کوئی داخل نہ ہوگا۔
(4)… جس کارسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ عہدہے وہ عہد اپنی مدت تک رہے گا اور جس کی مدت مُعَیَّن نہیں ہے اس کی میعاد چار ماہ پر تمام ہوجائے گی۔ مشرکین نے یہ سن کر کہا : اے علی!کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم، اپنے چچا کے فرزند (یعنی سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو خبر دے دیجئے کہ ہم نے عہد پسِ پُشت پھینک دیا ، ہمارے ان کے درمیان نیزہ بازی اور تیغ زنی کے سوا کوئی عہد نہیں ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۴۲۴-۴۲۵،ملتقطاً)
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت کی طرف اشارہ:
اس واقعہ میں حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تو امیر حج بنایا اور حضرت علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ان کے پیچھے سورہ ٔبرا ء ت پڑھنے کے لئے بھیجا تو حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ امام ہوئے اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مقتدی، اس سے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تقدیم حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمپر ثابت ہوئی۔ اور خود حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی امامت و خلافت کے متعلق فرمایا ’’رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو نماز پڑھانے کا حکم دیا اور میں وہاں حاضر تھاغائب نہیں تھا اور نہ ہی مجھے کوئی مرض تھا تو ہم نے انہیں اپنی دنیا کے لئے پسند کر لیا جنہیں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ہمارے دین(یعنی نماز) کے لئے پسند فرمایا تھا۔(ابن عساکر، عبد اللہ ویقال عتیق بن عثمان بن قحافۃ۔۔۔ الخ، ۳۰ / ۲۶۵)
{فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ:تو تم چا ر مہینے تک زمین میں چلو پھرو۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مشرکو! تم چار مہینے تک زمین میں امن وامان سے چلو پھرو اس کے بعد تمہارے لئے کوئی امان نہیں اور ساتھ ہی اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنا کہ تم اللہ تعالیٰ کو تھکا نہیں سکتے اور اس مہلت کے باوجود اس کی گرفت سے نہیں بچ سکتے اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کودنیا میں قتل کے ساتھ اور آخرت میں عذاب کے ساتھ رسوا کرنے والا ہے ۔( جلالین، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۵۵، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۲۱۶، ملتقطاً)
{یَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ: بڑے حج کے دن۔}حضرت حسن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جس سال حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حج کیا تھا تو اس میں مسلمان اور مشرکین سب جمع تھے ،اس لئے اس حج کو حجِ اکبر فرمایاگیا۔( تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۶ / ۳۱۷)
امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’یَوم سے مراد عَرفہ کا دن ہے کیونکہ وُقوف ِعرفہ حج کے اَ رکان میں سے رکنِ اعظم ہے یا اس سے مراد یومِ نَحر ہے کیونکہ حج کے زیادہ تر اَفعال جیسے طواف، قربانی، سر منڈانا اور رَمی وغیرہ اسی دن ہوتے ہیں اور اس حج کو حجِ اکبر اس لئے فرمایا گیاکہ اس زمانہ میں عمرہ کو حجِ اصغر کہا جاتا تھا۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳، ص۴۲۵)
اَحادیث اور آثارِ صحابہ میں مختلف دنوں کو حجِ اکبر کہا گیا ہے جبکہ عوام میں یہ مشہور ہے کہ جب یومِ عرفہ جمعہ کے دن ہوتووہ حجِ اکبر ہوتا ہے، اس کے ثبوت میں اگرچہ کوئی صریح حدیث موجود نہیں تاہم یہ کہنا غلط بھی نہیں کیونکہ بکثرت روایات سے اس دن کا حجِ اکبر ہونا ثابت ہے بلکہ ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس دن کے حجِ اکبر ہونے کے ثبوت میں ’’اَلْحَظُّ الْاَوْفَرْ فِی الْحَجِّ الْاَکْبَرْ‘‘ کے نام سے ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔ تفسیر کی کتابوں میں حجِ اکبر سے متعلق امام ابنِ سیرین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ ’’ حجِ اکبر وہ حج ہے کہ جو اس دن کے مُوافق ہو جس دن رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور تمام اَعراب نے حج کیا تھا۔(تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۶ / ۳۱۳)
اس کے علاوہ امام ابن سیرین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا یہ قول تفسیر بغوی،جلد 2،صفحہ226، تفسیرقرطبی، جلد4، صفحہ9، جزء8،البحر المحیط،جلد5،صفحہ10اوردر منثور ،جلد4،صفحہ128 پر بھی مذکور ہے۔ تفسیر خازن میں ہے ’’جو حج تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حج کے موافق ہو اسے حجِ اکبر کہا گیا ہے اور یہ دن جمعہ کا دن تھا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۲ / ۲۱۷)
{ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْــٴًـا:پھر انہوں نے تمہارے معاہدے میں کوئی کمی نہیں کی۔} اس سورت کے شروع میں چونکہ یہ بیان کیا گیا تھا کہ آئندہ چار ماہ تک کافروں سے معاہدے برقرار رہیں گے اور اس کے بعد ختم ، اب یہاں فرمایا گیا کہ جن لوگوں کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے اور وہ معاہدے کے پابند ہیں اور انہوں نے معاہدے کو اس کی شرطوں کے ساتھ پورا کیاہے تو تم بھی ان سے معاہدہ پورا کرو اور چار مہینے پر معاہدہ ختم ہوجانے کا حکم ان کیلئے نہیں ہے۔ یہ لوگ بنی ضمرہ تھے جو کنانہ کا ایک قبیلہ ہے اور ان کی مدت کے نو مہینے باقی رہے تھے۔( صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۷۸۶)
{فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ:پھر جب حرمت والے مہینے گزرجائیں۔} یہاں حرمت والے مہینوں سے مراد ان کفار کی امان کے مہینے ہیں جو مسلسل چار تھے لہٰذا یہ آیت منسوخ نہیں اور جن مہینوں میں جنگ ابتدائے اسلام میں حرام تھی وہ رجب، ذیقعد، ذی الحجہ اور محرم ہیں اب ان میں جہاد جائز ہے چونکہ یہاں مذکور معاہدے کی تکمیل والے چار مہینوں میں اُن کفار سے جنگ حرام تھی اس لئے انہیں اَشْہُرِ حرام فرمایا گیا۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۳۸۷)
{فَاِنْ تَابُوْا:پھر اگر وہ توبہ کریں۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کا انکار کرنے سے منع کیا گیا تھا،اگر کفار ان کاموں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کر لیں ،بتوں کی پوجا چھوڑ کر اخلاص کے ساتھ اللہتعالیٰ کی عبادت کریں ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا اقرار کر لیں ، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی فرضیت کو مان لیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو اور ان کی جان و مال کے درپے نہ ہو ۔ جو بندہ توبہ کرتا ہے ،گزشتہ گناہوں کو چھوڑ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں لگ جاتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی توبہ قبول فرماتا اور اس کے گناہ چھپا دیتا ہے ۔ توبہ سے پہلے کئے ہوئے گناہوں پر توبہ کے بعد سزا نہ دے کر اس پر رحم فرماتا ہے۔(تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۶ / ۳۲۸، احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، ۳ / ۱۰۶، صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۷۸۸، ملتقطاً)
{وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ:اور اگر کوئی مشرک ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اگر کوئی مشرک مہلت کے مہینے گزرنے کے بعد آپ سے پناہ مانگے تاکہ آپ سے توحید کے مسائل اور قرآنِ پاک سنے جس کی آپ دعوت دیتے ہیں تو اسے پناہ دے دیں حتّٰی کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام سنے اور اسے معلوم ہو جائے کہ ایمان قبول کرنے کی صورت میں اسے کیا ثواب ملے گا اور کفر پر قائم رہنے کی وجہ سے اس پر کیا عذاب ہو گا اور اگر ایمان نہ لائےتوپھر اُسے اُس کی امن کی جگہ پہنچا دیں ،یہ اس لیے کہ وہ ابھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین اسلام اور اس کی حقیقت کوجانتے نہیں تو انہیں امن دینا عین حکمت ہے تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام سنیں اور سمجھیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ ۶، ۲ / ۲۱۸، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶، ۱ / ۴۸۶، ملتقطاً)
آیت’’وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے 5مسئلے معلوم ہوئے
(1) …جس کافر کو امان دی گئی وہ ذمی کافر کی طرح دارُ الاسلام میں محفوظ ہے کہ نہ اسے قتل کیا جائے گا اور نہ اس کا مال چھینا جائے گا۔
(2)… جس کافر کو امان دی گئی اسے ہمیشہ دارُ الاسلام میں رہنے کی اجازت نہیں۔
(3)…اگر وہ مومن یا ذمی نہ بنے تو امن کی مدت گزر جانے کے بعد اسے سلامتی کے ساتھ دارُ الاسلام سے نکال دیا جائے ۔
(4)… جس کافر کو امان دی گئی اسے اسلام کی تبلیغ کی جائے شاید وہ ایمان لے آئے۔
(5)… اِسی آیت سے ایک بات یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ کفار کیلئے تبلیغِ دین کے زیادہ سے زیادہ مواقع مہیا کرنا چاہئیں کہ وہ اسلام کو سنیں ، دیکھیں اور سمجھیں۔ بہت سے کفار اس لئے مسلمان نہیں ہوتے کہ انہوں نے اِسلام کی حقیقی تعلیمات کو سنا ہی نہیں ہوتا اور جب کبھی ان کو کہیں کچھ سننے کا موقع ملتا ہے تو وہ فوراً اسلام قبول کرلیتے ہیں۔ لہٰذا کتابوں ، کیسٹوں ، سی ڈیز، نیٹ اور میڈیا کے ذریعے اسلامی تعلیمات سیکھنے کے مَواقِع زیادہ سے زیادہ فراہم کرنے چاہئیں۔
{كَیْفَ یَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِیْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ رَسُوْلِهٖ:اللہ اور اس کے رسول کے پاس مشرکوں کے لئے کوئی عہد کیسے ہوگا؟} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس کوئی عہد نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ کفر اور عہد شکنی کیا کرتے ہیں البتہ بنی کنانہ اور بنی ضمرہ وغیرہ جن لوگوں سے تم نے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر مسجد ِحرام کے نزدیک معاہدہ کیا تھا اور ان سے کوئی عہد شکنی ظہور میں نہ آئی تو ان کے معاہدہ کی مدت پوری کرو اور معاہدے کی مدت کے اندر جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں ، تم بھی قائم رہو اگر وہ اس دوران میں عہد توڑ دیں تو تم بھی ان سے جنگ کرو۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۲۱۸، جلالین، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۵۵-۱۵۶، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۲۷، ملتقطاً)
عہد شکنی حرام ہے:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے کئے ہوئے معاہدے بھی پورے کرنے کا حکم دیا ہے تو اس پر افسوس ہے جو مومن کے ساتھ دھوکہ بازی اوربد عہدی سے باز نہ آئے۔ عہد شکنی حرام ہے چنانچہ حدیث مبارک ہے’’ جس شخص میں یہ چار باتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔(2)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ (3) جب معاہدہ کرے تو اسے توڑ دے۔ (4)جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے۔ اگر کسی کے اندر ان میں سے ایک عادت پائی جائے تو اس میں نفاق کا ایک حصہ موجود ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔( بخاری، کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب اثم من عاہد ثمّ غدر، ۲ / ۳۷۰، الحدیث: ۳۱۷۸)
{ كَیْفَ:کیسے ہوسکتا ہے۔} یعنی مشرکین کیسے عہد پورا کریں گے اور کیسے قول پر قائم رہیں گے حالانکہ ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر وہ تم پر غالب آجائیں تو تمہارے بارے میں نہ کسی رشتے داری کا لحاظ کریں گے اور نہ ہی کسی معاہدے کا۔ وہ تمہیں ایمان لانے اور وفائے عہد کے وعدے کرکے اپنے منہ سے راضی کردیتے ہیں اور ان کے دل ایمان اور وفائے عہد کا انکار کرتے ہیں اور ان میں اکثر نافرمان یعنی عہد شکن ،کفر میں سرکش، بے مُرَوَّت اور جھوٹ سے نہ شرمانے والے ہیں۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸، ص۴۲۷)
کفار کا مسلمانوں کے ساتھ عمومی رویہ:
کفار کا یہ حال عام طور پر رہا ہے کہ وہ مسلمان کے مقابلے میں نہ قرابت داری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ معاہدے کا بلکہ جب کبھی موقع ملتا ہے تو کوئی بہانہ بنا کر عہد شکنی کردیتے ہیں جیسا کہ آج کے زمانے میں بھی کفار کی حکومتوں کا مسلمانوں کے ساتھ رویہ دیکھا جاسکتا ہے اور ان کا حال تو اپنی جگہ لیکن افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ یہ سب کچھ جاننے، دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود مسلمان عبرت حاصل نہیں کرتے اور دفاعی، تجارتی اور دیگر امور میں مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کرنے کے مقابلے میں کفار کے ساتھ معاہدے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اس میں انہیں کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔
{اِشْتَرَوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا:انہوں نے اللہ کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت لے لی۔} یعنی انہوں نے قرآنِ پاک کی آیات اور ان پر ایمان لانے کے بدلے دنیا کا تھوڑا سا مال لے لیا اور ان کے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مابین جو عہد تھا اسے ابو سفیان کے تھوڑے سے لالچ دینے سے توڑ دیا اور انہوں نے لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین میں داخل ہونے سے روکا۔ بے شک یہ شرک، عہد شکنی اور لوگوں کو دینِ اسلام میں داخل ہونے سے روک کر بہت برے عمل کرتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۲ / ۲۱۹)
{لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ:کسی مسلمان کے بارے میں رشتے داری کا لحاظ نہیں کرتے ہیں۔} یعنی جن مشرکین نے معاہدے کی خلاف ورزی کی یہ کسی مسلمان کے بارے میں نہ رشتے داری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی معاہدے کا بلکہ جب موقع پائیں قتل کر ڈالتے ہیں تو مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ جب ان مشرکین پر دَسْترس پائیں تو ان سے درگزر نہ کریں اور یہی مشرک لوگ عہدشکنی میں حد سے بڑھنے والے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۲ / ۲۱۹)
{ فَاِنْ تَابُوْا:پھر اگر وہ توبہ کرلیں۔} یعنی اگر وہ مشرکین شرک سے ایمان کی طرف اور عہد شکنی سے وفائے عہد کی طرف لوٹ آئیں اور جو نمازیں ان پر فرض ہوں انہیں تمام شرائط و اَرکان کے ساتھ ادا کریں اور جو زکوٰۃ ان پر فرض ہو اسے خوش ہوکر دیں تو وہ تمہارے اسلامی بھائی ہیں ان کے لئے بھی وہی احکام ہیں جو تمہارے لئے ہیں ، انہیں بھی وہی چیزیں منع ہیں جو تمہیں منع ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۲۱۹)
{وَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ:اور ہم جاننے والوں کے لیے تفصیل سے آیتیں بیان کرتے ہیں۔} یعنی ہم عہد شکنی کرنے والے اور دیگر مشرکین کے احوال اور کفر و ایمان کی حالت میں ان کے احکام سے متعلق آیات ان لوگوں کے لئے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو انہیں جانتے اور سمجھتے ہیں۔(روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۳۹۲)
{وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ:اور اگرمعاہدہ کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑیں۔ } یہاں حکم دیا گیا کہ اگر کفار معاہدہ توڑ دیں اور مسلمانوں کے دین میں طعن و تشنیع کریں تو پھر کوئی عہد باقی نہیں بلکہ اب ان کا فیصلہ میدانِ جنگ میں ہی ہوگا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۲۲۰)
دین میں طعنہ زنی سے کیا مراد ہے؟
دین میں طعنہ زنی سے مراد یہ ہے کہ دینِ اسلام کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کرنا جو دینِ اسلام کے شایانِ شان نہیں یا ضروریات ِدین میں سے کسی چیز کو ہلکا جان کر اس پر اعتراض کرنا۔اسی طرح نماز اور حج پر طعنہ زنی کرنا، قرآن اور ذکرِ رسول پر طعنہ زنی کرنا یا رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ پاک میں گستاخی کرنا سب اس میں داخل ہے۔(تفسیر قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۱۷، الجزء الثامن، روح المعانی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۳۵۳، ملتقطاً)
آیت’’وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… جن مشرکین سے معاہدہ کیا گیا ہو تو اس معاہدے کے قائم رہنے کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ ہمارے دین پر اعلانیہ طعنہ زنی نہ کریں اور اگر وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں یا قرآن سے متعلق کسیگستاخی کے مُرتَکِب ہوں تو ان کا معاہدہ ختم اور ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ (احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، ۳ / ۱۱۰، ملخصاً)
(2)… کفار کے ساتھ جنگ کرنے سے مسلمانوں کی غرض ان کے ذاتی مفادات نہیں بلکہ انہیں کفرو بداعمالی سے روکنا ہے اور یہی اسلامی جہاد کا سب سے اہم مقصد ہے۔
{اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا:کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے۔} ارشاد فرمایا کہ کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور صلح حدیبیہ کا عہد توڑا اور مسلمانوں کے حلیف خزاعہ کے مقابل بنی بکر کی مدد کی اور دارُالنَّدوَہ میں مشورہ کرکے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مکہ مکرمہ سے نکالنے کا ارادہ کیا حالانکہ پہلی مرتبہ انہوں نے ہی تم سے لڑائی کی ابتداء کی تھی تو کیا تم ان سے ڈرتے ہو اور ا س بنا پر ان سے جنگ ترک کرتے ہو؟ پس اگر تم اللہ تعالیٰ کے وعدے اور وعید پر ایمان رکھتے ہو تواللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم کافروں سے جنگ ترک کرنے کے معاملے میں اس سے ڈرو۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۲ / ۲۲۰)
اس سے معلوم ہوا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین و ایذاء، مسلمانوں سے عہد شکنی اور شروفساد کی ابتداء کرنا کفار کی وہ غلطی ہے جس کی سزا انہیں ملنی چاہیے۔
ایمانِ کامل کا تقاضا!
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو اکہ ایمانِ کامل کا تقاضا یہ ہے کہ مومن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی سے ڈرے اور نہ ا س کے علاوہ کسی کی پرواہ کرے۔
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ منصبِ رسالت پر فائز ہستیوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
’’اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَ یَخْشَوْنَهٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا‘‘ (احزاب:۳۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں کرتے اور اللہ کافی حساب لینے والاہے۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے ارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَهٗ ۪-فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘‘ (ال عمران:۱۷۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک وہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تو تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو۔
{قَاتِلُوْهُمْ:تم ان سے لڑو۔} ارشاد فرمایا کہ تم ان سے لڑو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ ہے کہ وہ تمہارے ہاتھوں سے قتل کے ذریعے انہیں عذاب دے گا اور انہیں قید میں مبتلا کر کے ذلیل ورسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد فرمائے گا اور ان پر غلبہ عطا فرمائے گا اور ایمان والوں کے دلوں کو ٹھنڈا کردے گا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۴۲۸)
تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سارے وعدے پورے فرمائے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دی ہوئی ساری خبریں سچ ثابت ہوئیں اور آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا ثبوت واضح تر ہوگیا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ کفار سے اپنا بدلہ لینا جس سے مسلمانوں کے دلوں کا رنج نکلے جائز ہے بلکہ بعض اوقات بدلہ لینا ضروری ہے مگر ظلم و زیادتی نہ ہو۔
{وَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ:اور اللہ جس پر چاہتا ہے اپنی رحمت سے رجوع فرماتا ہے۔} اس آیت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ بعض اہلِ مکہ کفر سے باز آکر تائب ہوں گے ۔ یہ خبربھی ایسی ہی واقع ہوگئی چنانچہ حضرت ابوسفیان ،عکرمہ بن ابوجہل اور سہیل بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ایمان سے مشرف ہوئے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۴۲۸)
{اَمْ حَسِبْتُمْ:کیا تم نے یہ گمان کرلیا ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! کیا تم نے یہ گمان کرلیا کہ تمہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ممتاز نہیں کیا اور لوگوں کو ان کی پہچان نہیں کروائی جو تم میں سے اخلاص کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں اور وہ جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ایمان والوں کے علاوہ کسی کو اپنا رازدار نہیں بنایا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے تمام کاموں سے خبردار ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تم جہاد کرنے میں مخلص ہو یا نہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۴۲۸-۴۲۹، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۳۹۶، ملتقطاً)
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دعویٔ ایمان کی صداقت کا امتحان بھی لیا جاتا ہے کہ بندہ مشکل حالات میں ثابت قدم رہتا ہے یا نہیں ؟ اور صبر کرتا ہے یا نہیں ؟
مشرکوں سے دلی دوستی کرنے اور ان تک مسلمانوں کے راز پہنچانے کی ممانعت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مخلص اور غیر مخلص میں امتیاز کردیا جائے گا نیز اس آیت میں مسلمانوں کو مشرکوں سے دلی دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے اور ان کے پاس مسلمانوں کے راز پہنچانے سے ممانعت کی گئی ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ‘‘(ال عمران:۲۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ کہ تمہیں ان سے کوئی ڈر ہو اوراللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اوراللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمَا ﰳ ۙ (۱۳۸)الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا‘‘ (النساء ۱۳۸،۱۳۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: منافقوں کو خوشخبری دوکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں کیا یہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو تمام عزتوں کا مالک اللہ ہے۔
نیز ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا یَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاؕ-وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْۚ-قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ﭕ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُؕ-قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ ‘‘(ال عمران:۱۱۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو!غیروں کو راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری برائی میں کمی نہیں کریں گے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ بیشک (ان کا) بغض تو ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ بیشک ہم نے تمہارے لئے کھول کرآیتیں بیان کردیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔
نیت درست رکھنا ضروری ہے:
اس آیت کے آخر میں بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی نیتوں اور ان کے مَقاصِد سے خبردار ہے اور ان میں سےکوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ سے پوشیہ نہیں ، لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی نیت درست رکھنے پر خوب توجہ دے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ باطن ظاہر کے خلاف ہو۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶ / ۸)
{مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ:مشرکوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔}اس آیت میں مسجدوں سے بطورِ خاص مسجدِ حرام، کعبہ معظمہ مراد ہے اور اس کو جمع کے صیغے سے اس لئے ذکر فرمایا کہ وہ تمام مسجدوں کا قبلہ اور امام ہے تو اسے آباد کرنے والا ایسا ہے جیسے تمام مسجدوں کو آباد کرنے والا، نیز مسجدِ حرام شریف کا ہر بقعہ مسجد ہے ا س لئے یہاں جمع کا صیغہ ذکر کیا گیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسجد سے مراد جنسِ مسجد ہے یعنی جو بھی مسجد ہو کافروں کو اسے آباد کرنے کی اجازت نہیں اور اس صورت میں کعبہ معظمہ بھی اسی میں داخل ہے کیونکہ وہ توتمام مسجدوں کا سردار ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۲۹)
شانِ نزول: کفارِ قریش کے سرداروں کی ایک جماعت جو بدر میں گرفتار ہوئی اور ان میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُبھی تھے ان کو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے شرک پر عار دلائی اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے تو خاص حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں آنے پر بہت سخت سست کہا ۔ حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہنے لگے کہ تم ہماری برائیاں تو بیان کرتے ہو اور ہماری خوبیاں چھپاتے ہو۔ ان سے کہا گیا: کیا آپ کی کچھ خوبیاں بھی ہیں ؟ انہوں نے کہا: ہاں ،ہم تم سے افضل ہیں ، ہم مسجد حرام کو آباد کرتے ہیں ، کعبہ کی خدمت کرتے ہیں ،حاجیوں کو سیراب کرتے ہیں ، اسیروں کو رہا کراتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مسجدوں کو آباد کرنے کا کافروں کو کوئی حق نہیں کیونکہ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے آباد کی جاتی ہے تو جو خدا عَزَّوَجَلَّ ہی کا منکر ہو اور اس کے ساتھ کفر کرے وہ کیا مسجد آباد کرے گا؟ ایمان کے بغیر کوئی عمل معتبر نہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۲۲۱-۲۲۲)
مسجدیں آباد کرنے کے معنی:
اس میں بھی کئی قول ہیں : ایک تو یہ کہ آباد کرنے سے مسجد کا تعمیر کرنا، بلند کرنا، مرمت کرنا مراد ہے۔ اس سے کافر کو منع کیا جائے گا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مسجد آباد کرنے سے اس میں داخل ہونا اور بیٹھنا مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۲۲۲)
تنبیہ: کفار سے مسجدوں کی تعمیر کے معاملے میں مدد نہیں لینی چاہیے اگرچہ بعض صورتوں میں اس کی اجازت ہوتی ہے۔
{شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ:جبکہ یہ خود اپنے کفر کے گواہ ہیں۔} یعنی یہ دونوں باتیں کس طرح جمع ہوسکتی ہیں کہ آدمی کافر بھی ہو اور خاص اسلامی اور توحید کے عبادت خانہ کو آباد بھی کرے۔ نیزارشاد فرمایا کہ’’ان کے تمام اعمال برباد ہیں ‘‘ کیونکہ حالتِ کفر کے اعمال مقبول نہیں ، نہ مہمانداری، نہ حاجیوں کی خدمت، نہ قیدیوں کا رہا کرانا، اس لئے کہ کافر کا کوئی فعل اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے تو ہوتا نہیں ، لہٰذا اس کا عمل سب اکارت ہے اور اگر وہ اسی کفر پر مرجائے تو جہنم میں اس کے لئے ہمیشگی کا عذاب ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۲۹، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۲۲۲، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ کفار کی نیکیاں جیسے مساجد کی خدمت، مسافر خانہ، کنوئیں وغیرہ بنانا سب برباد ہیں کسی پر کوئی ثواب نہیں۔
{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ:اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں۔} اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسجدیں آباد کرنے کے مستحق مؤمنین ہیں ، مسجدوں کو آباد کرنے میں یہ اُمور بھی داخل ہیں : جھاڑو دینا، صفائی کرنا، روشنی کرنا اور مسجدوں کو دنیا کی باتوں سے اور ایسی چیزوں سے محفوظ رکھنا جن کے لئے وہ نہیں بنائی گئیں ، مسجدیں عبادت کرنے اور ذکر کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور علم کا درس بھی ذکر میں داخل ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۲ / ۲۲۲، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۴۲۹، ملتقطاً)
مسجدِ نَبوی کی اِبتدائی تَزئین و آرائش:
مسجدِ نبوی میں سب سے پہلے اعلیٰ فرش حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ڈالے، اس سے پہلے صرف بجری تھی۔ اس کی عالیشان عمارت سب سے پہلے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بنائی۔ اس میں سب سے پہلے قندیلیں حضرت تمیم داری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے روشن کیں۔ عہدِ فاروقی میں رمضان کی تراویح کے موقعہ پر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے چراغاں کیا اور حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو نور ِقبر کی دعا دی۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بیتُ المقدس میں کِبْرِیَّتِ اَحمر کی روشنی کی جس کی روشنی بارہ مربع میل میں ہوتی تھی اور اسے چاندی سونے سے آراستہ فرمایا۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۳۹۹-۴۰۰، ملخصاً)
مسجد تعمیر کرنے کے فضائل:
مسجد یں بنانے کا حکم اور ان کی تعمیر کے فضائل بکثرت اَحادیث میں مذکور ہیں ، ترغیب کے لئے 6 اَحادیث ملاحظہ فرمائیں۔
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ مسجدیں تعمیر کرو اور انہیں محفوظ بناؤ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصلاۃ، فی زینۃ المساجد وما جاء فیہا، ۱ / ۳۴۴، الحدیث: ۹)
(2)…حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو اللہ تعالیٰ کے لیے مسجد بنائے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب فضل بناء المساجد، ص۱۵۹۳، الحدیث: ۴۴(۲۹۸۳))
(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکے لئے چھوٹی یا بڑی مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا۔ (ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی فضل بنیان المساجد، ۱ / ۳۴۳، الحدیث: ۳۱۹)
(4)…حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے مسجد اس لئے بنائی تاکہ اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ا س کیلئے جنت میں گھر بنائے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب من بنی للّٰہ مسجداً، ۱ / ۴۰۷، الحدیث: ۷۳۵)
(5)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے حلال مال سے وہ گھر بنایا جس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں موتی اور یاقوت کا گھربنائے گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۷، الحدیث: ۵۰۵۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی مسجد تعمیر کرنے اور اس کی تعمیر میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
(6)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی حدیث میں ہے’’سات چیزیں ایسی ہیں جن کا ثواب بندے کو مرنے کے بعد بھی ملتا ہے، ان میں سے ایک مسجد تعمیر کرنا ہے۔ (شعب الایمان، باب الثانی والعشرین من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی الاختیار فی صدقۃ التطوّع، ۳ / ۲۴۸، الحدیث: ۳۴۴۹)
{وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ:اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔} اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دینی معاملات میں اللہتعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور کسی کی رضا کو رضائے الٰہی پر کسی اندیشہ سے بھی مقدم نہیں کرتے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۴۲۹) اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرنے اور غیر سے نہ ڈرنے کے یہی معنی ہیں ، نیز یاد رہے کہ جن چیزوں سے انسان فطری طور پر ڈرتا ہے جیسے اندھیرا، درندے اور زہریلے جانور وغیرہ ان سے ڈرنا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے نہ ڈرنے کے خلاف نہیں کیونکہ یہ فطری خوف ہے اور اس سے بچنا انسان کے بس کی بات نہیں۔
{سِقَایَةَ الْحَآجِّ:حا جیوں کو پانی پلانے (والے) کو۔} اس آیت سے مراد یہ ہے کہ کفار کو مؤمنین سے کچھ نسبت نہیں اور نہ اُن کے اعمال کو اِن کے اعمال سے کوئی نسبت ہے کیونکہ کافر کے اعمال رائیگاں ہیں خواہ وہ حاجیوں کے لئے سبیل لگائیں یا مسجدِ حرام کی خدمت کریں ،ان کے اعمال کو مومن کے اعمال کے برابر قرار دینا ظلم ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۳۰، ملخصاً) شانِ نزول: روزِ بدر جب حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گرفتار ہو کر آئے تو انہوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے کہا کہ تم کو اسلام اور ہجرت و جہاد میں سبقت حاصل ہے تو ہم کو بھی مسجدِ حرام کی خدمت اور حاجیوں کے لئے سبیلیں لگانے کا شرف حاصل ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور آگاہ کیا گیا کہ جو عمل ایمان کے ساتھ نہ ہوں وہ بے کار ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۲۲۳)
{وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:اورجنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔} جہاد کی تین صورتیں ہیں : (1) فقط جان سے جہاد کرنا۔ جیسے مَساکین کرتے تھے۔ (2) فقط مال سے جہاد کرنا۔ جیسا کہ معذور مالدار مومن کا عمل کہ غازی کو گھوڑا وغیرہ دے دیتے تھے۔ (3) جان و مال دونوں سے جہاد کرنا۔ جیسا کہ غنی قادر مسلمان جو کہ دوسرے مسکین غازیوں کو سامان بھی دیتے اور خود بھی میدا ن میں جاتے تھے اور ان کے اپنے جانے پر بھی خرچہ ہوتا۔ یہ آیتِ کریمہ ان تینوں مجاہدوں کو شامل ہے۔ اس سے اشارۃً معلوم ہورہا ہے کہ مہاجرین انصار سے افضل ہیں اگرچہ دونوں اللہ تعالیٰ کے پیارے اور دونوں کامیاب ہیں۔
{ یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ:ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور باغوں کی بشارت دیتا ہے۔} علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : یہ اعلیٰ ترین بشارت ہے کیونکہ مالک کی رحمت و رضا بندے کا سب سے بڑا مقصد اور پیاری مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۲ / ۲۲۴)
راہِ خدا میں جہا د کرنے والے مسلمانوں کے لئے بڑی پیاری تین بشارتیں :
اِس آیت میں ایمان قبول کرنے کے بعد ہجرت کرنے اور اپنی جان و مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لئے تین بڑی پیاری بشارتیں جمع کی گئی ہیں۔
(1، 2)… انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور رضا نصیب ہو گی۔حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا تلاش کرتا رہتا ہے، وہ اسی جُستجو میں رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبریلعَلَیْہِ السَّلَام سے فرماتا ہے’’ میرا فلاں بندہ مجھے راضی کرنا چاہتا ہے ، آگاہ رہو کہ اس پر میری رحمت ہے۔ تب حضرت جبریلعَلَیْہِ السَّلَام کہتے ہیں : فلاں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، یہ ہی بات عرش اٹھانے والے فرشتے کہتے ہیں ،یہ ہی ان کے اردگرد کے فرشتے کہتے ہیں حتّٰی کہ ساتویں آسمان والے یہ کہنے لگتے ہیں ،پھر یہ رحمت اس کے لیے زمین پر نازل ہوتی ہے ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، ومن حدیث ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ، ۸ / ۳۲۸، الحدیث: ۲۲۴۶۴)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا’’ بے شک اللہ تعالیٰ اہلِ جنت سے ارشاد فرمائے گا ’’اے اہلِ جنت!وہ عرض کریں گے :اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم حاضر اور مُستَعِد ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’کیا تم راضی ہو؟ جنتی عرض کریں گے :ہم کیوں نہ راضی ہوتے جبکہ تو نے ہمیں وہ عطا فرمایا ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو عطا نہیں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’میں تمہیں اس سے بھی افضل چیز عطا فرمانے والا ہوں۔ جنتی عرض کریں گے: اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، کون سی چیز اس سے افضل ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ میں نے اپنی رضامندی کو تمہارے لئے حلال کر دیا لہٰذا اس کے بعد تم پر کبھی ناراضگی نہیں ہو گی۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۰، الحدیث: ۶۵۴۹)
(3)… وہ جنت میں ہمیشہ کے لئے قیام کریں گے۔ جہنم سے بچائے جانے اور جنت میں داخل کئے جانے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ‘‘ (اٰل عمران:۱۸۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
{خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا:وہ ہمیشہ ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گے ۔} یہ آیتِ کریمہ بَظاہر مہاجرین صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے لئے ہے، ان بزرگوں کا جنتی ہونا یقینی ہے۔ ان میں سے بعض کا تو نام لے کر جنتی ہونے کا اعلان فرما دیا گیا جیسے حضرات عَشرہ مُبَشَّرہ وغیرہم۔معلوم ہوا کہ صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی وہ عظمت ہے کہ ان کیلئے رحمت ، جنت ور رضائے الٰہی کی بشارتیں بطورِ خاص قرآنِ پاک میں دی گئی ہیں ، لہٰذا جو صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ایمان یا تقویٰ کا انکار کرے وہ اس آیت کا منکر ہے۔
{لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ:اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو۔} جب مسلمانوں کو مشرکین سے تَرک ِمُوالات کا حکم دیا گیا تو بعض لوگوں نے کہا: یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی اپنے باپ بھائی وغیرہ قرابت داروں سے ترک ِتعلق کرے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ کفار سے موالات یعنی قلبی محبت کا تعلق جائز نہیں چاہے ان سے کوئی بھی رشتہ ہو۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ۲ / ۲۲۴)
کافروں اور بد مذہبوں سے دور رہا جائے:
اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں یعنی کافروں ، بے دینوں اور گمراہوں کے ساتھ میل جول ،رسم وراہ، مَوَدَّت ومحبت اُن کی ہاں میں ہاں ملانا اُن کی خوشامد میں رہنا سب ممنوع ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ‘‘ (ھود:۱۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ظالموں کی طرف نہ جھکوورنہ تمہیں آگ چھوئے گی ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے
’’وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ‘‘(انعام:۶۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اوراگر شیطان تمہیں بھلادے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اِیَّاکُمْ وَاِیَّاہُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ‘‘ان سے الگ رہو، انہیں اپنے سے دور رکھو، کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں ، وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔ (مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحمّلہا، ص۹، الحدیث: ۷(۷))
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اِنْ مَرِضُوْا فَلَا تَعُوْدُوْہُمْ وَاِنْ مَاتُوْا فَلَا تَشْہَدُوْہُمْ‘‘ اگر یہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرنا اور اگر مر جائیں تو ان کے جنازے میں شامل نہ ہونا۔(ابو داؤد، کتاب السنّۃ،۴ / ۲۹۴، الحدیث: ۴۶۹۱)
یہی حدیث حضرت جابر بن عبداللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بھی مروی ہے، اس میں مزید یہ الفاظ بھی ہیں ’’وَاِنْ لَقِیْتُمُوْہُمْ فَلَا تُسَلِّمُوْا عَلَیْہِمْ‘‘اور اگر تم ان سے ملو تو انہیں سلام نہ کرو! ۔(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فی القدر، ۱ / ۷۰، الحدیث: ۹۲)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میرے لئے میرے صحابہ کو منتخب فرمایا ہے ، انہیں میرا ساتھی اور قریبی عزیز بنایا ہے۔ عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی شان میں گستاخی کریں گے اور انہیں برا بھلاکہیں گے، اگر تم انہیں پاؤ تو ان کے ساتھ نکاح کرنا، نہ ان کے ساتھ کھانا پینا، ان کے ساتھ نماز پڑھنا اور نہ ان پر نماز پڑھنا۔( کنز العمال، کتاب الفضائل، ذکر الصحابۃ وفضلہم رضی اللہ عنہم اجمعین، ۶ / ۲۴۶، الحدیث: ۳۲۵۲۵، الجزء الحادی عشر)
ان آیات و اَحادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ بد مذہبوں کے سائے سے بھی کوسوں دور بھاگیں چہ جائیکہ ان کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں ، ان کی دعوتوں میں اور ان کی شادی غمی میں شریک ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے محبوب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جنہوں نے رشتہ داروں سے ترک ِتعلق کے بارے میں کلام کیا آپ ان سے فرما دیں کہ اگر تمہارے باپ ، تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی ، تمہاری بیویاں ، تمہارا خاندان ، تمہاری کمائی کے مال او ر وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے پسندیدہ مکانات تمہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیاد ہ محبوب ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لائے اور اللہ تعالیٰ مشرکین سے مُوالات کے معاملے میں نافرمانی کرنے والے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۲۲۴، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۴۰۳، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے زیادہ کسی کو عزیز نہ رکھا جائے:
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ جسے دنیا جہان میں کوئی معزز، کوئی عزیز، کوئی مال، کوئی چیز اللہو رسول سے زیادہ محبوب ہو، وہ بارگاہِ الٰہی سے مردود ہے ،اسے اللہ عَزَّوَجَلَّاپنی طرف راہ نہ دے گا ،اسے عذابِ الٰہی کے انتظار میں رہنا چاہیے، وَالْعِیَاذُ بِاللہِ تَعَالٰی۔ تمہارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں :’’تم میں کوئی مسلمان نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ، او لاد اور سب آدمیوں سے زیادہ پیارانہ ہوں۔(بخاری، کتاب الایمان، باب حبّ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الایمان، ۱ / ۱۷، الحدیث: ۱۵، مسلم، باب وجوب محبّۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر من الاہل۔۔۔ الخ، ص۴۲، الحدیث: ۷۰(۴۴)))اس نے تو بات صاف فرما دی کہ جو حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے زیادہ کسی کوعزیز رکھے ہرگز مسلمان نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، ۳۰ / ۳۰۹-۳۱۰)
علامہ قاضی عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ آیتِ کریمہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی محبت کے لازم ہونے، فرض اور اہم چیز ہونے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس محبت کے اصل مستحق ہونے کے بارے میں ترغیب، تنبیہ اور دلیل و حجت ہونے کیلئے کافی ہے کیونکہ جس نے اپنی آل اولاد اور مال کی محبت کواللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی محبت سے زیادہ سمجھا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسے سخت تنبیہ کی ہے اور ایسوں کو ڈراتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ‘‘تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے۔ نیز آیت کے آخر میں ایسوں کو فاسق فرمایا اور بتایا کہ یہ لوگ ان گمراہوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی توفیق نہ دی۔(الشفا، القسم الثانی، الباب الثانی فی لزوم محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۱۸، الجزء الثانی)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص میں تین باتیں ہوں گی اس نے ایمان کی حلاوت پائی (1) اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے ما سوا سب سے زیادہ محبوب ہو۔ (2)اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کسی سے محبت کرے۔ (3)کفر کی طرف لوٹنے کو ایسابرا جانے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب حلاوۃ الایمان، ۱ / ۱۷، الحدیث: ۱۶)
حضرت سہلرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو شخص رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولایت و حکومت تمام حالات میں نہیں دیکھتا اور اپنی جان کو ان کی مِلک نہیں جانتا تو وہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت کی شیرینی نہ چکھے گا کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ عِنْدَہٗ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ نَفْسِہٖ ‘‘ تم میں سے وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جس کے نزدیک میں اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔(مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث عبد اللہ بن ہشام۔۔۔ الخ، ۶ / ۳۰۳، الحدیث: ۱۸۰۶۹، الشفا، القسم الثانی، الباب الثانی فی لزوم محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۱۹، الجزء الثانی)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت رکھنے کا ثواب:
حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے محبت رکھنے کا ثواب کس قدر ہے اس کا اندازہ درج ذیل 3 اَحادیث سے لگایا جا سکتا ہے۔
(1)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’ایک شخص نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَقیامت کب آئے گی؟ ارشاد فرمایا: ’’ تو نے ا س کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے عرضکی: میرے پاس اس کے لئے نہ نمازوں کی کثرت ہے نہ روزہ اور صدقہ ہے لیکن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سب سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں۔تب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تو اس کے ساتھ ہے جس کو تو محبوب رکھتا ہے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب علامۃ حبّ اللہ عزّوجلّ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۴۷، الحدیث: ۶۱۷۱)
(2)…حضرت صفوان بن قدامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف ہجرت کی۔ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی’’ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنا دستِ مبارک دیجئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا دستِ مبارک بڑھایا۔ میں نے عرض کی ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں آپ کو محبوب رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ‘‘ مرد جس سے محبت رکھے اس کے ساتھ ہو تا ہے۔ (الشفا، القسم الثانی، الباب الثانی فی لزوم محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، فصل فی ثواب محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۲۰، الجزء الثانی)
(3)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تاجدارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کمال درجے کی محبت رکھتے تھے اور انہیں جدائی کی تاب نہ تھی۔ ایک روز اس قدر غمگین اور رنجیدہ حاضر ہوئے کہ چہرے کا رنگ بدل گیا تھا تو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دریافت فرمایا، آج رنگ کیوں بدلا ہوا ہے ؟عرض کیا: نہ مجھے کوئی بیماری ہے اور نہ درد سوائے اس کے کہ جب حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سامنے نہیں ہوتے تو انتہا درجہ کی وحشت و پریشانی ہوجاتی ہے، جب آخر ت کو یاد کرتا ہوں تو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہاں میں کس طرح دیدار پاسکوں گا؟ آپ اعلیٰ ترین مقام میں ہوں گے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے جنت بھی دی تو اس مقامِ عالی تک رسائی کہاں ؟اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا ‘‘ (النساء:۶۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱ / ۴۰۰)
محبتِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی علامات:
علماءِ کرام نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کی کثیر علامات بیان فرمائی ہیں ،ان میں سے 8علامات درج ذیل ہیں :
(1)… اقوال اور افعال میں حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرنا یعنی سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو کام کرنے کا حکم دیا انہیں کرنا اور جن سے منع کیا ان سے رک جانا نیزنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنتوں پر عمل کرنا۔
(2)…آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جس عمل کی ترغیب دی اسے اپنی نَفسانی اور شَہوانی خواہشات پر ترجیح دینا۔
(3)… بکثرت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ذکرِ جمیل کرنا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر درود شریف پڑھنا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ کرنا۔
(4)… ذکرِ حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وقت تعظیم و تَوقیر بجا لانا اور اسمِ گرامی سن کر اِنکساری کا اظہار کرنا۔
(5)…جس سے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ محبت رکھتے ہوں اس سے بھی محبت کرنا۔
(6)… جس چیز سے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دشمنی رکھی اس سے دشمنی رکھنا اور جس سے عداوت رکھی اس سے کنارہ کشی کرنا۔ (7)…قرآنِ مجیدسے محبت رکھنا۔
(8)… رسول
اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے ساتھ شفقت و مہربانی سے پیش آنا۔( الشفا، القسم الثانی، الباب الثانی فی لزوم محبّتہ صلی اللہ علیہ
وسلم، فصل فی علامۃ محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۲۴-۲۸، الجزء الثانی، ملخصاً)
دین کو دنیا پر ترجیح دی جائے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب ایسی صورتِ حال درپیش ہو کہ دین یا دنیا میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کرنا پڑے تو مسلمان کوچاہئے کہ وہ دین کو ترجیح دے اور دنیا کو چھوڑ کر دین کو اختیار کرے ۔اس معاملے میں فی زمانہ مسلمانوں کا حال انتہائی افسوس ناک ہے کہ وہ اپنے دین کا نقصان برداشت کرنے میں کوئی دقت اور پریشانی محسوس نہیں کرتے بلکہ بعض اَوقات اس سے انتہائی لا پرواہی برتتے ہیں جبکہ اپنی دنیا کا نقصان لمحہ بھر کے لئے بھی برداشت کرنا انہیں گوارا نہیں ، افسوس!مسلمانوں کو نماز روزے کا کہا جائے تو یہ اپنی دُنیوی مصروفیات اور کام کی زیادتی کا بہانہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر چند گھنٹوں کے لئے بھوک برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ مسلمانوں کو کاروباری اور تجارتی معاملات شرعی طریقے کے مطابق سر انجام دینے کی ترغیب دی جائے تو وہ ضروریاتِ زندگی کی زیادتی اور اپنے منافع میں کمی ہو جانے کا رونا رو کراس سے روگردانی کرتے ہیں۔ مسلمان عورتوں کو شرعی پردے کی تلقین کی جائے تو وہ اسے پرانی سوچ اور عورتوں پر بلا وجہ کی پابندی قرار دے کر اور آزادیٔ نِسواں کے خلاف سمجھ کراس پر عمل کرنے کوتیار نہیں۔ طلاق کے معاملات میں جب اسلامی قانون کی رو سے شوہر اور بیوی میں جدائی کا فیصلہ ہو جائے تو اسلامی حکم کے سامنے سرِ تسلیم خَم کرنے کی بجائے یہ طرح طرح کے حیلے بہانے تراش کر ناجائز تَعلُّقات کی زندگی گزارنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ سرِ دست یہ چند مثالیں عرض کی ہیں ورنہ زندگی کا شائد ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جس میں دین پر دنیا کو ترجیح نہ دی جا رہی ہو۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور دنیا کے مقابلے میں دین کی اہمیت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
{ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ:بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی ۔}یعنی رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے غزوات میں مسلمانوں کو کافرو ں پر غلبہ عطا فرمایا جیسا کہ واقعۂ بدر ، قریظہ،نضیر ، حدیبیہ ، خیبر اور فتحِ مکہ میں ہوا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۲۲۵، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۴۳۱، ملتقطاً)
{وَ یَوْمَ حُنَیْنٍ:اورحنین کے دن کو یاد کرو۔} ’’حنین‘‘ مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ تاریخِ اسلام میں اس جنگ کا دوسرا نام ’’غزوۂ ہوازن‘‘ بھی ہے۔ اس لئے کہ اس لڑائی میں ’’بنی ہوازن‘‘ سے مقابلہ تھا۔
غزوۂ حنین کا واقعہ:
فتحِ مکہ کے بعد عام طور سے تمام عرب کے لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے کیونکہ ان میں اکثروہ لوگ تھے جو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین رکھنے کے باوجود قریش کے ڈر سے مسلمان ہونے میں تَوَقُّف کررہے تھے اور فتحِ مکہ کا انتظار کررہے تھے۔ پھر چونکہ عرب کے دلوں میں کعبہ کا بے حد احترام تھا اور ان کا اعتقاد تھا کہ کعبہ پر کسی باطل پرست کا قبضہ نہیں ہوسکتا، اس لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب مکہ کو فتح کرلیا تو عرب کے بچے بچے کو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین ہوگیا اور وہ سب کے سب جوق در جوق بلکہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔ باقی ماندہ عرب کی بھی ہمت نہ رہی کہ اب اسلام کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھا سکیں۔ لیکن مقامِ حُنَین میں ’’ہوازن‘‘ اور ’’ثقیف‘‘ نام کے دو قبیلے آباد تھے جو بہت ہی جنگجو اور فُنونِ جنگ سے واقف تھے۔ ان لوگوں پر فتحِ مکہ کا اُلٹا اثر پڑا اور ان لوگوں پر خواہ مخواہ کی جاہلیت کیغیرت سوار ہوگئی اور ان لوگوں نے یہ خیال قائم کرلیا کہ فتحِ مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کردیا جائے۔ چنانچہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن ابی حدرد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تحقیقات کے لئے بھیجا۔ جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیا اور بتایا کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کرلیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیسِ اعظم مالک بن عوف ان تمام اَفواج کا سپہ سالار ہے اور وہ سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا ہے۔ ’’درید بن الصمہ‘‘ جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کرسکے۔ حضورِاقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی شوال8 ھ میں بارہ ہزار کا لشکر جمع فرمایا۔ دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سےآپ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نومسلم تھے جو فتحِ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا کہ اسلامی افواج کی کثرت اور اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر بے اختیار بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہ ’’آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کوان حضرات کا اپنی فوجوں کی کثرت پر ناز کرنا پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس فخر و نازِش کا یہ انجام ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اور ہزاروں کی تعداد میں تلواریں لے کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نو مسلم اور کفارِ مکہ جو لشکرِ اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک دم سرپر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین کے بھی پاؤں اکھڑ گئے۔ حضور تاجدارِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو گنتی کے چند جاں نثاروں کے سوا سب فرار ہو چکے تھے۔ تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔بارہ ہزار کا لشکر فرار ہو چکا تھا مگر خداعَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پائے اِستقامت میں بال برابر بھی لغزش نہیں ہوئی۔ بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالَمِ کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زَبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے کہ
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔
حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چونکہ بہت ہی بلند آواز تھے ا س لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے انہیں حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو۔ انہوں نے جو ’’ یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَار‘‘ اور ’’ یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ‘‘ کا نعرہ مارا تو ایک دم تمام فوجیں پلٹ پڑیں اور لوگ اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے کہ جن لوگوں کے گھوڑے اِژْدِحام کی وجہ سے نہ مڑ سکے انہوں نے ہلکا ہونے کے لئے اپنی زرہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود کود کر دوڑے اور کفار کے لشکر پر جھپٹ پڑے اور اس طرح جانبازی کے ساتھ لڑنے لگے کہ دم زَدَن میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ کفار بھاگ نکلے ،کچھ قتل ہو گئے اور جو رہ گئے گرفتار ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کی فوجیں بڑی بہادری کے ساتھ جم کر مسلما نو ں سے لڑتی رہیں یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے، لیکن جب ان کا علمبردار عثمان بن عبداللہ قتل ہو گیا تو ان کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے۔ اور فتحِ مُبین نے حضوررَحْمَۃٌ لِلْعالَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد و مقدار میں مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔(سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، غزوۃ حنین، ۳ / ۱۵۱-۱۵۵، مدارج النبوہ، قسم سوم، باب ہشتم: ذکر وقائع سال ہشتم وغزوہ حنین، ۲ / ۳۰۸-۳۱۴، شرح الزرقانی، غزوۃ حنین، ۳ / ۵۳۱-۵۳۲، ملتقطاً)
آیت’’ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات :
اس آیت سے 4 چیزیں معلوم ہوئیں :
(1)… مسلمان کا حقیقی بھروسہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مدد پر ہونا چاہیے۔
(2)… اَسباب اختیار کرنے کا حکم ہے لیکن صرف اسی پر بھروسہ کرنا مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔
(3)… بعض اوقات چند لوگوں کی غلطی کا نتیجہ سب کو دیکھنا پڑتا ہے۔
(4)… خود پسندی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ناپسند ہے، لہٰذا اپنے ہر کمال کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل سمجھنا چاہیے نہ کہ اپنے زورِ بازو کا نتیجہ، جیسا کہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًاۙ-وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘‘(نور:۲۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی پاکیزہ نہ ہوتاالبتہ اللہ پاکیزہ فرما دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
خود پسندی کے6 اَسباب اور ان کا علاج:
خود پسندی ایک انتہائی مذموم صفت ہے اور اس صفت کے پیدا ہونے کے مختلف اسباب ہیں جن کی معرفت ہونے کی صورت میں ہی خود پسندی سے بچا جا سکتا ہے لہٰذا ہم ذیل میں خود پسندی کے6 اَسباب اور ان کا علاج ذکر کرتے ہیں تاکہ اس مذموم وصف کو پہچان کر اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔
(1)… حسن و جمال،شکل و صورت، صحت، قوت، اَعضا ء میں تَناسُب اور اچھی آواز ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ انسان جب شکل و صورت کی وجہ سے خود پسندی میں مبتلا ہو تووہ اپنی باطنی گندگیوں پر غور کرے، اپنے آغاز و انجام کے بارے میں سوچ بچار کرے اور یہ سوچے کہ کس طرح خوبصورت اور عمدہ بدن مٹی میں مل گئے اور قبروں میں یوں بدبودار ہو گئے کہ طبیعتیں ان سے متنفر ہو گئیں اور جب طاقت و قوت کی وجہ سے خود پسندی پیدا ہو تو وہ اس بات پر غور کرے کہ ایک دن کے بخار سے اس کا کیا حال ہو جاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ طاقت پر اِترانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس پر کوئی ادنیٰ سی آفت نازل کر کے اس کی طاقت ہی سَلب کر لے۔
(2)…عقل اور سمجھداری۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جب عقل اور سمجھداری کی وجہ سے خود پسندی پیدا ہو تو انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اس نے اسے عقل عطا کی اور عقل زائل ہو جانے سے خوفزدہ ہو نیز بے وقوف لوگوں کی طرف دیکھے کہ وہ کس طرح اپنی عقلوں پر اتراتے ہیں لیکن لوگ ان پر ہنستے ہیں اور اس بات سے ڈرے کہ کہیں وہ ان میں سے نہ ہو اور اسے یہ بات معلوم بھی نہ ہو ۔
(3)…اچھا نسب۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جب انسان اپنے اعلیٰ نسب اور اونچی نسبت کی وجہ سے اترائے تو وہ جان لے کہ اس کی یہ سوچ انتہائی جہالت پر مَبنی ہے کہ اخلاق اور اعمال میں اپنے آباء واَجداد کی مخالفت کرنے کے باوجود وہ ان کے درجے تک پہنچ گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اور اگر وہ ان کی پیروی کا دعویٰ کرتا ہے تو ان میں خود پسندی کہاں تھی بلکہ ان میں تو خوف تھا اور وہ اپنے آپ کو حقیر جانتے ، دوسروں کو بڑ اسمجھتے اور اپنے نفس کی مذمت کرتے تھے ، انہوں نے نسب کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ،علم اور اچھی خصلتوں کی وجہ سے مقام و مرتبہ حاصل کیا تھا لہٰذا اسے اس عمل کے ذریعے شرف حاصل کرنا چاہئے جس کی وجہ سے وہ مُعزز و محترم ہوئے،صرف نَسب پر بھروسہ نہیں کر لینا چاہئے کیونکہ قبائل میں شرکت اور نسب میں مُساوات تو ان لوگوں کو بھی حاصل ہے جواللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتوں اور خنزیروں سے بھی زیادہ برے ہیں۔
(4)…ظالم بادشاہوں اور ان کے مددگاروں سے تعلق۔ اس کا علاج یہ ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے غضب کے حقدار ہیں اور اگر وہ قیامت کے دن ان کی ذلت و رسوائی ، جہنم میں ان کی بگڑی صورتوں ،بدبو اور گندگی کو دیکھ لے تو اس کا کیا حال ہو گا،کیا اب بھی وہ ان سے تعلق پر اترائے گا یا ان سے کوئی تعلق نہ ہونے کا اظہار کرے گا اور جو کوئی اسے ان کی طرف منسوب کرے اس پر اعتراض کرے گا۔
(5)…بیٹوں ،خادموں ، رشتہ داروں ، مددگاروں اور پیروکاروں کی کثرت۔ اس کا علاج یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کی کمزوری کے بارے میں سوچے اور اس بات پر غور کرے کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں اور وہ ذاتی طور پر کسی طرح کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں ،پھر وہ ان پر کس طرح اتراتا ہے حالانکہ جب وہ مر جائے گا تو وہ سب اسے چھوڑ دیں گے
اور اسے قبر میں یوں دفن کیا جائے گا کہ وہ اکیلا بھی ہو گا اور رسوا بھی،اس کے اہلِ خانہ ،اولاد،قریبی رشتہ داروں اورجگری دوستوں میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں ہو گا،وہ اسے گلنے سڑنے کے لئے ، سانپوں ،بچھوؤں اور کیڑے مکوڑوں کے خوراک بننے کے لئے قبر کے حوالے کر دیں گے اور وہ ا س پر آنے والے عذاب کو دور نہیں کر سکیں گے حالانکہ اس وقت اسے ان کی زیادہ حاجت ہو گی ،اسی طرح قیامت کے دن بھی یہ بھاگ جائیں گے اور جو لوگ تجھے سخت ترین حالت میں چھوڑ کر بھاگ جائیں تو ان میں کیا بھلائی ہے اور ان پر تو کس طرح اتراتا ہے؟
(6)…مال۔ اس کا علاج یہ ہے کہ مال کی آفات، اس کے حقوق، اور اس کی عظیم فتنہ سامانی کے بارے میں سوچے، فقراء کی فضیلت اور قیامت کے دن جنت میں ان کے سبقت لے جانے پر غور کرے اور یہ بھی سوچے کہ مال تو آنے جانے والی اور ناپائیدار چیز ہے اور یہ بھی دیکھے کہ کئی یہودیوں کے پاس اس سے زیادہ مال ہے تو وہ کس طرح اپنے مال پر اتراتا ہے؟ (احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، الشطر الثانی، بیان اقسام ما بہ العجب وتفصیل علاجہ، ۳ / ۴۵۸-۴۶۲، ملخصاً)
{ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ:پھر اللہ نے اپنی تسکین نازل فرمائی۔} ارشاد فرمایا کہ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر تسکین نازل فرمائی کہ اطمینان کے ساتھ اپنی جگہ قائم رہے اور اہلِ ایمان پر تسکین نازل فرمائی کہ حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پکارنے سے نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں واپس آئے۔ (جلالین، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۱۵۷)
اس سے معلوم ہوا کہ جنگ حنین میں بھاگ جانے والے مسلمان مومن ہی رہے، ان کی معافی ہو گئی، ان پر رب عَزَّوَجَلَّنے سکینہ اتارا۔ اب جو ان پر اعتراض کرے وہ ان آیات کامخالف ہے۔ نیز یہ بھاگ جانے والے ہی واپس ہوئے اور انہوں نے معرکہ فتح کیا لہٰذا یہ فتح گزشتہ خطاکا کفارہ ہو گئی۔آیت ِ مبارکہ میں تسکین اترنے کاتذکرہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے پہلے اور بقیہ کیلئے بعد میں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ تسکین رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برکت سے نازل ہوئی اور پھر آپ کے فیضان سے بقیہ صحابہ پر اتری اس لئے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تذکرہ پہلے ہوا ،ورنہ گھبرانے والے حضرات تو دوسرے تھے اور سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو میدانِ جنگ میں ڈٹے ہوئے تھے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۲۲۸، ملتقطاً)
{وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا:اور اس نے ایسے لشکر اتارے جو تمہیں دکھائی نہیں دیتے تھے۔} یعنی فرشتے جنہیں کفار نے ابلق گھوڑوں پر سفید لباس پہنے عمامہ باندھے دیکھا یہ فرشتے مسلمانوں کی شوکت بڑھانے کے لئے آئے تھے۔ (ابو سعود، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۳۹۷، ملخصاً)
{ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ:پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے گا۔} یعنی انہیں اسلام کی توفیق عطا فرمائے گا ۔ چنانچہ ہوازن کے باقی لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور وہ مسلمان ہو کر رسول اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے اسیروں کو رہا فرما دیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۲۲۸)
ہوازن قبیلے کے لوگوں کا قبولِ اسلام:
صحیح بخاری میں حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دس دن تک ہوازن کے وفد کا انتظار فرماتے رہے۔ جب وہ لوگ نہ آئے تو آپ نے مالِ غنیمت اور قیدیوں کو مجاہدین کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس کے بعد جب ہوازن کا وفد آیا اور انہوں نے اپنے اسلام کا اعلان کرکے یہ درخواست پیش کی کہ ہمارے مال اور قیدیوں کو واپس کر دیا جائے تو حضورانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ مجھے سچی بات ہی پسند ہے۔ لہٰذا سن لو! کہ مال اور قیدی دونوں کو تو میں واپس نہیں کرسکتا۔ ہاں ان دونوں میں سے ایک کو تم اختیار کر لو ، مال لے لویا قیدی۔ یہ سن کر وفد نے قیدیوں کو واپس لینا منظور کیا۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فوج کے سامنے ایک خطبہ پڑھا اور حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا کہ’’اے مسلمانو! یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آ گئے ہیں ا ور میری یہ رائے ہے کہ میں ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں تو تم میں سے جو خوشی خوشی اس کو منظور کرے وہ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دے اور جو یہ چاہے کہ ان قیدیوں کے بدلے میں دوسرے قیدیوں کو لے کر ان کو واپس کرے تو میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ مجھے جو غنیمت عطا فرمائے گا میں اس میں سے اس کا حصہ دوں گا۔ یہ سن کر ساری فوج نے کہہ دیا کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم سب نے خوشی خوشی سب قیدیوں کو واپس کر دیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح پتا نہیں چلتا کہ کس نے اجازت دی اور کس نے نہیں دی؟ لہٰذا تم لوگ اپنے اپنے سرداروں کے ذریعہ مجھے خبر دو۔ چنانچہ ہر قبیلہ کے سردار نے دربارِ رسالت میں آ کر عرض کر دیا کہ ہمارے قبیلہ والوں نے خوش دلی کے ساتھ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دیا ہے۔ (بخاری، کتاب الہبۃ وفضلہا والتحریض علیہا، باب اذا وہب جماعۃ لقوم، ۲ / ۱۷۸، الحدیث: ۲۶۰۷-۲۶۰۸، ملخصاً)
سیرت ابنِ ہشام میں ہے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب اموالِ غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہو چکے تو قبیلہ بنی سعد کے رئیس زہیر ابو صردچند معززین کے ساتھ بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے اور اسیرانِ جنگ کی رہائی کے بارے میں درخواست پیش کی۔ اس موقع پر زہیر ابو صرد نے ایک بہت مُؤثِّر تقریر کی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے محمد! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے ہمارے خاندان کی ایک عورت حضرت حلیمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کا دودھ پیا ہے۔ آپ نے جن عورتوں کو ان چھپروں میں قید کر رکھا ہے ان میں سے بہت سی آپ کی (رضاعی) پھوپھیاں اور بہت سی آپ کی خالائیں ہیں۔ خدا کی قسم! اگر عرب کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے ہمارے خاندان کی کسی عورت کا دودھ پیا ہوتا تو ہم کو اس سے بہت زیادہ امیدیں ہوتیں اور آپ سے تو اور بھی زیادہ ہماری توقُّعات وابستہ ہیں۔ لہٰذا آپ ان سب قیدیوں کو رہا کر دیجئے۔ زہیر کی تقریر سن کر حضور پُرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبہت زیادہ مُتَأثِّر ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کا بہت انتظار کیا مگر آپ لوگوں نے آنے میں بڑی دیر لگا دی۔ بہر کیف میرے خاندان والوں کے حصہ میں جس قدر لونڈی غلام آئے ہیں میں نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ لیکن اب عام رہائی کی صورت یہ ہے کہ نماز کے وقت جب مجمع ہو توآپ لوگ اپنی درخواست سب کے سامنے پیش کریں۔ چنانچہ نمازِ ظہر کے وقت ان لوگوں نے یہ درخواست مجمع کے سامنے پیش کی اور حضورِاقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجمع کے سامنے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ کو صرف اپنے خاندان والوں پر اختیار ہے لیکن میں تمام مسلمانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے ۔یہ سن کر تمام انصار و مہاجرین اور دوسرے تمام مجاہدین نے بھی عرض کیا کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ آپ ان لوگوں کو بھی آزاد فرما دیں۔ اس طرح دفعۃً چھ ہزار اسیرانِ جنگ کی رہائی ہو گئی۔ (سیرت ابن ہشام، امر اموال ہوازن وسبایاہا وعطایا المؤلّفۃ قلوبہم منہا۔۔۔ الخ، ص۵۰۴-۵۰۵، ملخصاً)
نسائی شریف کی روایت میں ہے کہ جب ہوازن قبیلے کے لوگوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اپنے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں عرض کی توآپ نے اپنے خاندان کے حصے میں آنے والے لونڈی غلاموں کو آزاد فرما دیا، اس کے بعد ان سے ارشاد فرمایا ’’فَاِذَا صَلَّیْتُ الظُّہْرَ فَقُوْمُوْا فَقُوْلُوْا اِنَّا نَسْتَعِیْنُ بِرَسُوْلِ اللہِ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَوِ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ نِسَائِنَا وَاَبْنَائِنَا‘‘ جب میں ظہر کی نماز پڑھوں تو تم سب کھڑے ہو کر یوں کہو: ہم اللہ کے رسول کے وسیلے سے مسلمانوں سے اپنی عورتوں اور بچوں میں مدد چاہتے ہیں۔ (نسائی، کتاب الہبۃ، ہبۃ المشاع، ص۶۰۵، الحدیث: ۳۶۸۷)
اس سے معلوم ہوا کہ اِستِعانت کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خاص نہیں بلکہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
{اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ:مشرک بالکل ناپاک ہیں۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مشرک بالکل ناپاک ہیں یعنی ان کو باطن کے اعتبار سے ناپاک قرار دیا ہے کہ وہ کفر و شرک کی نجاست سے آلودہ ہیں۔ حکم دیا گیا کہ اِس سال یعنی سَن 9ہجری کے بعد وہ مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں نہ حج کے لئے نہ عمرہ کے لئے ۔
دنیا بھر کی مَساجِد میں مشرکوں کا داخلہ ممنوع ہے:
یہاں مشرکین کو منع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان مسجدِ حرام شریف میں آنے سے روکیں۔یہاں اصلِ حکم مسجد ِ حرام شریف میں آنے سے روکنے کا ہے اور بقیہ دنیا بھر کی مساجد میں آنے کے متعلق بھی حکم یہ ہے کہ کفار مسجدوں میں نہیں آسکتے ۔ خصوصاً کفار کو عزت و احترام اور استقبال کے ساتھ مسجد میں لانا شدید حرام ہے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ’’ یہ کہنا کہ مسجدُ الحرام شریف سے کفار کا منع ایک خاص وقت کے واسطے تھا ،اگر یہ مراد کہ اب نہ رہا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر صَریح اِفتراء ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
’’ اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا‘‘
(ترجمۂکنزُالعِرفان:مشرک بالکل ناپاک ہیں تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔)
یونہی یہ کہنا کہ کفار کے وُفود مسجدِ نبوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں اپنے طریقے پر عبادت کرتے تھے محض جھوٹ ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے مسجدِ کریمہ کے سوا کوئی نشست گاہ نہ تھی جو حاضر ہوتا یہیں حاضر ہوتا کسی کافر کی حاضری مَعَاذَاللہبطورِاِستیلا واِستِعلاء (یعنی غلبے کے طور پر) نہ تھی بلکہ ذلیل وخوار ہوکر یا اسلام لانے کے لئے یا تبلیغِ اسلام سننے کے واسطے تھی ۔ (فتاویٰ رضویہ،کتاب السیر، ۱۴ / ۳۹۰-۳۹۱)
{وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً:اور اگرتمہیں محتاجی کا ڈر ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اور اگر تمہیں محتاجی کا ڈر ہے کہ مشرکین کو حج سے روک دینے سے تجارتوں کو نقصان پہنچے گا اور اہلِ مکہ کو تنگی پیش آئے گی تو عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّاپنے فضل سے اگر چاہے گا تو تمہیں دولت مند کردے گا ۔ حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا اللہ تعالیٰ نے انہیں غنی کردیا، بارشیں خوب ہوئیں اور پیداوار کثرت سے ہوئی۔ مقاتل نے کہا کہ یمن کے لوگ مسلمان ہوئے اور انہوں نے اہلِ مکہ پر اپنی کثیر دولتیں خرچ کیں۔ ’’اگرچاہے‘‘ فرمانے میں تعلیم ہے کہ بندے کو چاہئے کہ طلب ِخیر اور دفعِ آفات کے لئے ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ رہے اور تمام اُمور کو اسی کی مَشِیَّت سے متعلق جانے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ۲ / ۲۲۹) اسی آیت پر مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یعنی یہ نہ سمجھو کہ اگر حج میں کفار شریک نہ ہوئے تو تمہاری تجارتیں نہ چلیں گی (بلکہ) اللہ (عَزَّوَجَلَّ) مسلمانوں کی جماعت میں اتنی برکت دے گا کہ مسلمان حاجیوں سے اہلِ مکہ کے تمام کاروبار چلیں گے۔ رب (عَزَّوَجَلَّ) نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا جو آج تک دیکھا جا رہا ہے۔’’ اگر چاہے‘‘ اس لئے فرمایا کہ مسلمانوں کا توکل اللہ (عَزَّوَجَلَّ) پر رہے نہ کہ آنے والے حاجیوں پر۔ (نور العرفان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۳۰۴)
{قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ:ان سے جہاد کرتے رہو جو اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس کی ذات اور جملہ صِفات وتنزیہات کو مانے اور جو اس کی شان کے لائق نہ ہو اس کی طرف نسبت نہ کرے اور بعض مفسرین نے رسولوں پر ایمان لانا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے میں داخل قرار دیا ہے تو یہودی اور عیسائی اگرچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے کے دعویدار ہیں لیکن ان کا یہ دعویٰ باطل ہے کیونکہ یہودی تجسیم وتَشْبِیہ(اللہ عَزَّوَجَلَّکا جسم ماننا اور اسے مخلوق کے مشابہ ماننا) کے اور عیسائی حلول کے معتقد ہیں تو وہ کس طرح اللہ عَزَّوَجَلَّپر ایمان لانے والے ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی یہودیوں میں سے جو حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اور عیسائی حضرت مسیح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والا نہ ہوا۔ اسی طرح جو ایک رسول کی تکذیب کرے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والا نہیں ،یہودی اور عیسائی بہت سے انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرتے ہیں لہٰذا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والوں میں نہیں۔ شانِ نزول : مجاہد کا قول ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کہ نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روم سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا اور اسی کے نازل ہونے کے بعد غزوۂ تبوک ہوا۔ کلبی کا قول ہے کہ یہ آیت یہود کے قبیلہ قریظہ اور نضیر کے حق میں نازل ہوئی ،سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے صلح منظور فرمائی اور یہی پہلا جزیہ ہے جو اہلِ اسلام کو ملا اوریہی پہلی ذلت ہے جو اِن کفار کو مسلمانوں کے ہاتھ سے پہنچی۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۲۲۹)
{وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ:اور نہ وہ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے۔} بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حدیث میں جن چیزوں کو حرام کیا ہے یہ انہیں حرام قرار نہیں دیتے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ توریت و انجیل کے مطابق عمل نہیں کرتے ان کی تحریف کرتے ہیں اور احکام اپنے دل سے گڑھتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۲۲۹)
سنن ابو داؤد اور ابن ماجہ میں حضرت مقدام بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:سن لو ! مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل ملا یعنی حدیث، دیکھو!کوئی پیٹ بھرا اپنے تخت پر بیٹھے یہ نہ کہے کہ یہی قرآن لئے رہو جو اس میں حلال ہے اسے حلال جانو،جو اس میں حرام ہے اسے حرام مانو۔ (حالانکہ) ’’اِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللہُ‘‘جو کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّکے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حرام کیا وہ بھی اس کی مثل ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّنے حرام کیا۔ (ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب فی لزوم السنّۃ، ۴ / ۲۶۵، الحدیث: ۴۶۰۴، وابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۵، الحدیث: ۱۲، مثلہ)
احکامِ شریعت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سپرد ہیں :
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ائمۂ محققین تصریح فرماتے ہیں کہ احکامِ شریعت حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سپرد ہیں جو بات چاہیں واجب کردیں جو چاہیں ناجائز فرما دیں ، جس چیز یا جس شخص کو جس حکم سے چاہیں مُسْتَثنیٰ فرما دیں۔(فتاویٰ رضویہ، ۳۰ / ۵۱۸)
اس مضمون پر چند اَحادیث کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔
(1)… حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عرض کرنے پر حرم میں اِذخِر گھاس کاٹ لینا جائز فرما دیا۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب الاذخر والحشیش فی القبر، ۱ / ۴۵۳، الحدیث: ۱۳۴۹)
(2)…حضرت ابو بردہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے لئے چھ مہینے کی بکری کی قربانی جائز فرما دی۔ (بخاری، کتاب الاضاحی، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابی بردۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۷۵، الحدیث: ۵۵۵۷)
(3)…اکیلے حضرت خزیمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گواہی کو دو گواہوں کے برابر قرار دے دیا۔ (ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب اذا علم الحاکم صدق الشاہد الواحد۔۔۔ الخ، ۳ / ۴۳۱، الحدیث: ۳۶۰۷)
(4)…ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو اس کے روزے کا کفارہ اپنے پاس سے عطا فرما کر اسے اپنی ہی ذات اور اہلِ خانہ پر خرچ کرنے کی اجازت عطا فرما دی۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب اذا جامع فی رمضان۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۳۸، الحدیث: ۱۹۳۶)
(5)…حضرت علیکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکے لئے حالتِ جنابت میں مسجد میں داخل ہونا حلال فرما دیا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، ۲۰-باب، ۵ / ۴۰۸، الحدیث: ۳۷۴۸)
مزید تفصیلی معلومات کے لئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں رسالہ ’’اَلْاَمْنُ وَالعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَاءِ‘‘(مصطفٰی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کیلئے انعامات) کا مطالعہ فرمائیں
{حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ:حتّٰی کہ وہ جزیہ دیں۔} اس آیت میں اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا ذکر ہوا ۔اسلامی سلطنت کی جانب سے ذمی کافروں پر جو (مال) مقرر کیا جاتا ہے اسے جزیہ کہتے ہیں۔ عرب کے مشرکین سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کیلئے دو ہی صورتیں ہیں قبولِ اسلام یا جنگ۔ بقیہ دنیا بھر کے کافروں سے جزیہ پر صلح ہوسکتی ہے۔
{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ:اور یہودیوں نے کہا۔} اس سے پہلی آیت میں اللہتعالیٰ نے اہلِ کتاب کی بے دینی کا ذکر فرمایا اورا س آیت میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کیلئے بیٹا ہونا ثابت کیا اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ رکھے تووہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا منکر ہے۔یہ بھی بیان فرمایا کہ اہلِ کتاب شرک میں مشرکین کی طرح ہیں اگرچہ ان کے شرک کا طریقہ مختلف ہے، مشرکین کے بتوں کو پوجنے میں اور عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پَرَسْتِش میں کوئی فرق نہیں ، دونوں شرک میں شریک ہیں بلکہ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ بتوں کو پوجنے والے کے کفرسے عیسائیوں کا کفر بڑا ہے کیونکہ کافر بتوں کے بارے میں یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ بت عالَم کے خالق اور معبود ہیں بلکہ وہ بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ سمجھتا ہے جبکہ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حُلول کر آیا ہے اور ان کے ساتھ مُتَّحِد ہو گیا ہے اور یہ زیادہ قبیح کفر ہے۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۲۸)
{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ﰳابْنُ اللّٰهِ:اور یہودیوں نے کہا: عزیراللہ کا بیٹا ہے۔} امام ابو بکر رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ عقیدہ یہودیوں کے تمام فرقوں کا نہیں بلکہ ان میں سے ایک خاص فرقے کا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ یہودیوں کی ایک جماعت جو کہ سلام بن مشکم، نعمان بن اوفی، شاس بن قیس اور مالک بن صیف پر مشتمل تھی نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئی، انہوں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں یہ بات کہی تو ا س پر یہ آیت نازل ہوئی۔
ہمارے علم میں اب اس فرقے کا کوئی وجود نہیں۔ (احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، ۳ / ۱۳۴)
{ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ:یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے۔} یعنی یہودیوں کا حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور عیسائیوں کا حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنا یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے، اس پر ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہے نہ بُرہان اور پھر اپنی جہالت کی وجہ سے اس صریح باطل چیز کے معتقد بھی ہیں۔ (روح المعانی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۳۸۵، ملخصاً)
{یُضَاهِــٴُـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ:یہ پہلے کے کافروں جیسی بات کرتے ہیں۔} اس آیت کا ایک معنی تو اوپر بیان ہوا کہ ’’ اہلِ کتاب شرک میں مشرکین کی طرح ہیں ‘‘ دوسرا معنی یہ ہے کہ عیسائیوں کی بات اپنے سے پہلے یہودیوں کے قول کے مشابہ ہے کہ جس طرح یہودیوں نے حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہا اسی طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بیٹا کہہ دیا۔ حضرت حسن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کے کفر کو گزشتہ کافر امتوں کے کفر سے تشبیہ دی ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۲ / ۲۳۲)
{ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ:انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوارب بنالیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا رب بنالیا کہ حکمِ الٰہی کو چھوڑ کر ان کے حکم کے پابند ہوئے اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو خدا بنایا اور ان کی نسبت یہ باطل عقیدہ رکھا کہ وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہیں یا خدا نے ان میں حُلول کیا ہے حالانکہ انہیں ان کی کتابوں میں اور ان کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اوروہ ان کے شرک سے پاک ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۲۳۳، ملخصاً)
یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے پادریوں اور علماء کو معبود بنا کر ان کی کوئی باقاعدہ عبادت نہیں کی تھی بلکہ خدا کے حکم کو چھوڑ کر ان کے حکم کو اپنے لئے شریعت بنالیا تھا اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے خدا بنالئے چنانچہ پادریوں اور درویشوں سے متعلق ان کی اِس روِش کے بارے میں حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں : میں حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت میرے گلے میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’عدی! اس بت کو دور کر دو۔ نیز صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسورۂ براءت سے پڑھ رہے تھے’’ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ‘‘(یعنی عیسائیوں ، یہودیوں نے اپنے درویشوں اور علماء کو اللہ کے سوا رب بنا لیا) پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے (اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد) فرمایا کہ ’’ وہ ان کو پوجتے نہیں تھے بلکہ جب وہ ان کے لئے کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ حلال سمجھتے اور جب وہ حرام قرار دیتے تو یہ حرام سمجھتے تھے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۵، الحدیث: ۳۱۰۶)
علماء اور اَولیاء کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ و رسول کے مقابلے میں جس کی دینی اطاعت کی جائے گی گویا اسے رب بنا لیا گیا جیسا کہ عیسائی اور یہودی خدا کے مقابلے میں اپنے پادریوں اور درویشوں کی بات مانتے تھے اس لئے ان کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوارب بنالیا ۔ جبکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرمان کے ماتحت علماء، اولیاء اور صالحین کی اطاعت عین اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت ہے۔ رب تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ‘‘ (النساء:۵۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرواور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں۔
حضرت عطا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس ا ٓیت میں رسول کی اطاعت سے مراد قرآن اور سنت کی پیروی ہے اور ’’اُولِی الْاَمْرِ‘‘ کی اطاعت سے علماء اور فقہاء کی اطاعت مراد ہے۔ (سنن دارمی، باب الاقتداء بالعلماء، ۱ / ۸۳، الحدیث: ۲۱۹)
ایک جگہ ارشاد فرمایا
’’ فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ‘‘(النحل:۴۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو ۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا
’’وَ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ‘‘ (لقمان:۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور میری طرف رجوع کرنے والے آدمی کے راستے پر چل۔
اور ارشاد فرمایا: ’’وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ‘‘ (التوبہ:۱۰۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اَوّلین اوردوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان، طاعت اورنیکی میں انصار و مہاجرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے راستے پرچلیں۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۵، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۴۵۲، ملتقطاً)
بکثرت احادیث میں بھی علماء کی اطاعت کی ترغیب دی گئی ہے، ان میں سے 3 اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)… صحیح مسلم میں حضرت تمیم داری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دین خیر خواہی (کا نام) ہے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،کس کی خیر خواہی کریں ؟ ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی، مسلمانوں کے امام کی اور عام مومنین کی۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ص۴۷، الحدیث: ۹۵(۵۵))
اس حدیث کی شرح میں ہے کہ یہ حدیث ان اماموں کو بھی شامل ہے جو علمائے دین ہیں ، ان کی روایت کی ہوئی احادیث کو قبول کرنا، احکام میں ان کی تقلید کرنا اور ان کے ساتھ نیک گمان رکھنا ان کی خیرخواہی سے ہے۔ (شرح نووی علی المسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ۱ / ۳۹، الجزء الثانی)
(2)…حضرت جبیر بن مطعمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ مومن کا دل ان پر خیانت نہیں کرتا (1) اللہ تعالیٰ کے لیے عمل خالص کرنا۔ (2 ) علماء کی اطاعت کرنا اور (3) (مسلمانوں کی) جماعت کو لازم پکڑنا ۔(مسند امام احمد، مسند المدنیین، حدیث جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ، ۵ / ۶۱۵، الحدیث: ۱۶۷۳۸)
(3)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ علم سیکھو اور لوگوں کو سکھائو ، فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھائو ،قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ۔ میں وفات پانے والا ہوں علم عنقریب اٹھ جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے حتّٰی کہ دو شخص ایک فریضہ میں جھگڑیں گے اور ایسا کوئی شخص نہ پائیں گے جو ان میں فیصلہ کردے۔(دارمی، باب الاقتداء بالعلماء، ۱ / ۸۳، الحدیث: ۲۲۱)
{ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ:یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نوربجھا دیں۔} اس آیت میں نور سے مراددینِ اسلام یا سرکار ِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے دلائل ہیں اور نور بجھانے سے مراد حضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین مٹانا ہے یا قرآن کو شائع نہ ہونے دینا یا حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر روکنا اور حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضائل سے چڑجانا ۔ تو فرما دیا کہ کفار کی حرکتوں سے نہ دین ختم ہوگا، نہ اسلام کی شوکت میں کمی آئے اور نہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں فرق آئے گا۔(بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۴۱-۱۴۲، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۱۶، ملتقطاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں:
مِٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا
آیت’’هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… سچا دین اور ہدایت حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایسے وابستہ ہیں جیسے آفتاب کے ساتھ روشنی کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو چھوڑ کر نہ ہدایت ملتی ہے نہ سچا دین ، اگر صرف قرآن سے ہدایت مل جاتی تو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کودنیا میں کیوں بھیجا جاتا۔
(2)… حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کبھی ہدایت اور سچے دین سے الگ نہ ہوئے کیونکہ یہ دونوں حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ بھیجے گئے ہیں جو انہیں ایک آن کے لئے بھی ہدایت سے الگ مانے وہ بے دین ہے۔
{ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ:تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے۔} قرآنِ پاک میں یہ مضمون اس آیت کے علاوہ سورۂ فتح کی آیت نمبر 28 اور سورۂ صف کی آیت نمبر 9 میں بھی بیان ہوا ہے۔ آیت میں غلبے سے دلائل اور قوت دونوں اعتبار سے غلبہ مراد ہے۔ دلائل کے اعتبار سے تو یوں کہ دینِ اسلام نے اپنی حقانیت پر جو دلائل پیش کئے ہیں اس سے مضبوط ترین دلائل کوئی بھی پیش نہ کر سکا اور جہاں تک قوت کے اعتبار سے غلبہ کاتعلق ہے تو اس مراد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک بہت بڑا عرصہ ایسا گزرا ہے کہ د نیا میں صرف دینِ اسلام ہی غالب تھا اور اب آئندہ اس کا کامل ظہور اس وقت ہو گا جب حضرت امام مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دنیا میں تشریف لائیں گے۔
{لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ:باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں۔} پادری اور روحانی درویش اس طرح باطل طریقے سے مال کھاتے ہیں کہ دین کے احکام بدل کر لوگوں سے رشوتیں لیتے ہیں اور اپنی کتابوں میں مال و دولت کے لالچ میں تحریف وتبدیل کرتے ہیں اور سابقہ کتابوں کی جن آیات میں سردارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت مذکور ہے مال حاصل کرنے کے لئے ان میں فاسد تاویلیں اور تحریفیں کرتے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۲۳۴)
دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے کی مذمت:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ دین کا علم اس لئے حاصل کرنا تاکہ اس کے ذریعے دنیا کا مال، دولت، عزت، منصب اور وجاہت حاصل ہو یہ انتہائی مذموم اور اپنی آخرت تباہ کردینے والا عمل ہے۔ احادیث میں بھی اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے وہ علم حاصل کیا جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کی جاتی ہے لیکن ا س نے وہ علم (اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بجائے) دنیا حاصل کرنے کے لئے سیکھا تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔ (ابو داؤد، کتاب العلم، باب فی طلب العلم لغیر اللہ، ۳ / ۴۵۱، الحدیث: ۳۶۶۴)
حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو اس لیے علم طلب کرے تاکہ علماء کا مقابلہ کرے یا جُہلاء سے جھگڑے یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرے تو اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ آگ میں داخل کرے گا۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فیمن یطلب بعلمہ الدنیا، ۵ / ۲۹۷، الحدیث: ۲۶۶۳)
حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’علماء کے سامنے فخر کرنے، بیوقوفوں سے جھگڑنے اور مجلس آراستہ کرنے کے لئے علم نہ سیکھو کیونکہ جو ایسا کرے گا تو (اس کے لئے ) آگ ہی آگ ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ۱ / ۱۶۵، الحدیث: ۲۵۴)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے لوگوں کے دلوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے عمدہ گفتگو سیکھی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی فرض عبادات قبول فرمائے گا نہ نفل۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی المتشدق فی الکلام، ۴ / ۳۹۱، الحدیث: ۵۰۰۶)
{وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔}اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں ، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہودی و عیسائی علماء و پادریوں کی حرصِ مال کا ذکر فرمایا تو مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے خوف دلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۲۳۵)
کَنز کی وَعید میں کون سا مال داخل ہے؟
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی گئی وہ کنز نہیں (یعنی وہ اس آیت کی وعید میں داخل نہیں ) خواہ دفینہ (زمین میں دفن شدہ خزانہ) ہی ہو اور جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قرآن میں ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ دیا جائے گا۔ (تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۳۵۷-۳۵۸)
حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی کہ سونے چاندی کا تو یہ حال معلوم ہوا ،پھر کون سا مال بہتر ہے جس کو جمع کیا جائے ۔ارشاد فرمایا :ذکر کرنے والی زبان اور شکر کرنے والا دل اور نیک بیوی جو ایماندار کی اس کے ایمان پر مدد کرے (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۵، الحدیث: ۳۱۰۵) یعنی پرہیزگار ہو کہ اس کی صحبت سے طاعت و عبادت کا شوق بڑھے۔
مال جمع کرنے کا حکم اور مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے واقعات:
یاد رہے کہ مال کا جمع کرنا مباح ہے مذموم نہیں جبکہ اس کے حقوق ادا کئے جائیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت طلحہ وغیرہ اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُممالدار تھے ۔ اسی مناسبت سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی مالداری کے چند واقعات ملاحظہ ہوں۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی مالداری تو ویسے ہی بہت مشہور ہے، ان کے علاوہ چند مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمیہ ہیں
(1)…حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ :تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کثیر مال عطا فرمایا اور اپنی مالداری کے باوجود بکثرت صدقہ و خیرات بھی کیا کرتے تھے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں آپ نے اپنے مال میں سے پہلے چار ہزار درہم صدقہ کئے، پھر چالیس ہزار درہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خیرات کئے ،ا س کے بعد چالیس ہزار دینار صدقہ کئے، پھر پانچ سو گھوڑے اورا س کے بعد پانچ سو اونٹ راہِ خدا میں صدقہ کئے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۴۹۸)
ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تجارتی قافلہ آیا، ا س قافلے میں گندم، آٹے اور کھانے سے لدے ہوئے سات سو اونٹ تھے، حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے شور سنا تو اس بارے دریافت فرمایا تو انہیں بتایا گیا کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تجارتی قافلہ واپس آیا ہے جس میں گندم، آٹے اور طعام سے لدے ہوئے سات سو اونٹ ہیں۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا نے فرمایا: میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنت میں گھسٹتے ہوئے داخل ہوں گے۔ جب یہ بات حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معلوم ہوئی آپ نے کہا: اے میری ماں ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے یہ تمام اونٹ اپنے سازو سامان کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں صدقہ کر دیئے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۴۹۸)
جب حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کاا نتقال ہوا تو آپ کے ترکہ میں حاصل ہونے والے سونے کو کلہاڑوں سے کاٹا گیا یہاں تک کہ لوگوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے، اس کے علاوہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ترکے میں ایک ہزار اونٹ، تین ہزار بکریاں اور ایک سو گھوڑے شامل تھے جو بقیع کی چراگاہ میں چرتے تھے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۵۰۰)
(2)…حضرت طلحہ بن عبید اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: حضرت طلحہ بن عبید اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی عراقی زمینوں سے ہونے والی آمدنی چار سے پانچ لاکھ درہم تک تھی اور سُرَّاۃ کی زمینوں سے ہونے والی آمدنی دس ہزار دینار کے لگ بھگ تھی یونہی اعراض سے بھی آمدنی ہوتی تھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بنو تمیم کے ہر ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرتے ، ان کی مدد کرتے ، ان کی بیواؤں اور غیر شادی شدہ افراد کی شادیاں کراتے اور ان کے قرض اتارا کرتے تھے نیز ہر سال زمین کی پیداوار کی آمدنی سے دس ہزار درہم حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو بھجوایا کرتے تھے۔ (الطبقات الکبری، طبقات البدریین من المہاجرین، الطبقۃ الاولی، طلحۃ بن عبید اللہ، ۳ / ۱۶۶)
(3)…حضرت زبیر بن العوام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: حضرت ہشام بن عروہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ترکے کی قیمت پانچ کروڑ دس لاکھ یا پانچ کروڑ بیس لاکھ درہم تھی، مصر، اسکندریہ اور کوفہ میں آپ کی رہائشگاہیں تھیں ، بصرہ میں آپ کی حویلیاں تھیں ، مدینہ منورہ کی زمینوں سے آپ کے پاس غلے کی پیداوار سے آمدنی آتی تھی۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے چار بیویاں چھوڑیں جن میں سے ہر ایک کو گیارہ گیارہ لاکھ ملے۔ (الطبقات الکبری، طبقات البدریین من المہاجرین، الطبقۃ الاولی، ومن بنی اسد بن عبد العزی بن قصی، الزبیر بن العوام، ۳ / ۸۱)
ان کے علاوہ حضرت عمرو بن العاص، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید بن ثابت، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی مالدار صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ خیال رہے کہ مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم در حقیقت مالدار کی تربیت کیلئے مشعلِ راہ تھے ، وہ اپنا مال شرعی مَصارِف میں خرچ کرتے تھے اور اسی لئے مال جمع رکھتے تھے ،ان کے اَموال اظہارِ فخر کے لئے نہ تھے اور نہ ہی دنیائے فانی کے مال کی محبت میں اسے جمع کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ مالدار مسلمانوں کو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{یَوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ:جس دن وہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا۔} یعنی وہ مال جس کی زکوٰۃ نہ دی تھی قیامت کے دن اسے جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا یہاں تک کہ شدت ِحرارت سے سفید ہوجائے گا پھر اس کے ساتھ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا تو دنیا میں اپنا مال جمع کر کے رکھنے اور حق داروں کو ان کا حق ادا نہ کرنے کے عذاب کا مزہ چکھو۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۲ / ۲۳۶)
زکوٰۃ نہ دینے کی وعیدیں :
احادیث میں زکوٰۃ نہ دینے پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، ان میں 4اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص سونے چاندی کا مالک ہو اور اس کا حق ادا نہ کرے تو جب قیامت کا دن ہوگا اس کے لیے آگ کے پتلے ٹکڑے بنائے جائیں گے ان پر جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی اور اُن سے اُس کی کروٹ اور پیشانی اور پیٹھ داغی جائے گی، جب ٹھنڈے ہونے پر آئیں گے پھر ویسے ہی کر دئیے جائیں گے۔ یہ معاملہ اس دن کا ہے جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے، اب وہ اپنی راہ دیکھے گا خواہ جنت کی طرف جائے یا جہنم کی طرف۔ اور اونٹ کے بارے میں فرمایا: جو اس کا حق نہیں ادا کرتا، قیامت کے دن ہموار میدان میں لٹا دیا جائے گا اور وہ اونٹ سب کے سب نہایت فَربہ ہو کر آئیں گے، پاؤں سے اُسے روندیں گے اور منہ سے کاٹیں گے، جب ان کی پچھلی جماعت گزر جائے گی، پہلی لوٹے گی۔ اور گائے اور بکریوں کے بارے میں فرمایا: کہ اس شخص کو ہموار میدان میں لٹائیں گے اور وہ سب کی سب آئیں گی، نہ ان میں مُڑے ہوئے سینگ کی کوئی ہوگی، نہ بے سینگ کی، نہ ٹوٹے سینگ کی اور سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے روندیں گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ص۴۹۱، الحدیث: ۲۴(۹۸۷))
(2)…حضرت بُریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو قوم زکوٰۃ نہ دے گی اللہ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔ (معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ عبدان، ۳ / ۲۷۵، الحدیث: ۴۵۷۷)
(3)…امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خشکی و تری میں جو مال تَلف ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے سے تلف ہوتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الصدقات، الترہیب من منع الزکاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۶)
(4)…امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’فقیر ہرگز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں گے مگر مال داروں کے ہاتھوں ، سن لو! ایسے مالداروں سے اللہتعالیٰ سخت حساب لے گا اور انھیں دردناک عذاب دے گا ۔(معجم الاوسط، باب الدال، من اسمہ دلیل، ۲ / ۳۷۴، الحدیث: ۳۵۷۹)۔ ([1])
[1]۔۔۔۔۔ زکوٰۃ سے متعلق احکام و مسائل کی معلومات حاصل کرنے کیلئے کتاب’’فیضانِ زکوٰۃ‘‘ اور’’ فتاویٰ اہلسنت، زکوٰۃ کے احکام‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
{اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ:بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں۔} یہاں یہ بیان فرمایاگیا کہ بکثرت احکامِ شرع کی بنا قَمری مہینوں پر ہے جن کا حساب چاند سے ہے۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب سے یا لوحِ محفوظ مراد ہے یا قرآن یا وہ حکم جو اس نے اپنے بندوں پر لازم کیا۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۴۳۴، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۶، ملتقطاً)
{مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ:ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔} ان حرمت والے مہینوں میں سے تین متصل ہیں ، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور ایک جدا ہے رجب۔ عرب لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کی تعظیم کرتے تھے اور ان میں قِتال حرام جانتے تھے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۶)
ان مہینوں میں سے رجب کی تعظیم اس لئے کہ لوگ اس میں عمرہ کرتے تھے اور بقیہ مہینوں کی اس لئے کہ یہ مہینے حج کیلئے جانے، حج کرنے اور حج سے واپسی کے مہینے تھے۔
{ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ:یہ سیدھا دین ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ سال میں بارہ مہینوں کا ہونا یہ سیدھا اور صحیح حساب ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ چار مہینوں کاحرمت والا ہونا یہ وہی سیدھا دین ہے جو کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین تھا اور اہلِ عرب ان دونوں سے اس حکم کے وارث ہوئے ہیں۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۴۲، بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۱۴۴، ملتقطاً)
{وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً:اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو۔} یعنی مشرکین سے مُتَّحِد ہو کر جنگ کرو جس طرح وہ متحد ہو کر تم سے جنگ کرتے ہیں۔ معنی یہ ہے کہ مشرکین کے خلاف جنگ کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون اور مدد کرو اور ان کے خلاف جنگ میں بزدلی اور کم ہمتی کا مظاہرہ نہ کرو اور نہ ہی پَسپائی اختیار کرو اور اے اللہ عَزَّوَجَلَّکے بندو! اپنے دشمن مشرکین کے خلاف جنگ کرنے میں متحد اور متفق ہو جاؤ۔ بیشتر مفسرین کے نزدیک اس آیت سے حرمت والے مہینوں میں کفار سے جنگ کی ممانعت منسوخ ہو گئی ہے اب چاہے حرمت والے مہینے ہوں یا ان کے علاوہ ہر مہینے میں مشرکین سے جنگ کی جائے گی ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۷)
مسلمانوں کے عروج و زوال کا ایک سبب:
اس آیت میں مسلمانوں کو کافروں کے خلاف متحد ہو کر جنگ کرنے اور اس میں ایک دوسرے سے مدد و تعاون کرنے کا حکم دیا گیا اور تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد اور اتفاق ان کے عروج کا سبب اور ان کی بہت بڑی قوت تھی اور اسی اتحاد کی برکت سے ان کی قلیل تعداد کافروں کی کثیر تعداد پر ہر میدان میں غالب رہی اور مسلمان ہر طرف اپنی فتح کے جھنڈے لہراتے رہے، روم اور ایران جیسی اپنے وقت کی سپر پاورز کو اپنے قدموں تلے روند کر رکھ دیا، مصر، عراق، اسپین اور افریقی ممالک میں اسلام کا پرچم بلند کر دیا ،الغرض کفار اپنے اتحاد، عددی برتری اور جنگی ساز و سامان کی فراوانی کے باوجود مسلمانوں پر کسی طرح غالب نہ آ سکے اور یہ سب مسلمانوں کے ایک مرکز پر جمع ہونے اور باہمی اتحاد واتفاق کا نتیجہ تھا۔ جب کفار کسی طرح مسلمانوں کو شکست نہ دے سکے تو انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے اور ان میں اِفتراق و اِنتشار پیدا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں اور ا س کے لئے انہوں نے بے تحاشا مال و زر، سونا چاندی اور ہیرے جواہرات خرچ کر کے مسلمانوں میں دین فروش گمراہ علماء اور غدار پیدا کئے ،مسلم وزراء ،مسلم حکمرانوں اورفوج کے سالاروں کو خریدا، یہاں تک کہ انہوں نے اس کام کے لئے اپنی عورتوں کے حسن و جمال اور ان کی عزت و آبرو کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، جب وہ مسلمانوں میں مال و زر کی خواہش، سلطنت و حکومت کی ہوس ، شراب، رَباب اور شباب کی طلب اور ایک دوسرے سے حسد ،بغض اور عداوت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا نتیجہ مسلمانوں کے زوال کی صورت میں ظاہر ہوا، مسلمانوں کا باہمی اتحاد ختم ہو گیا اور وہ لا مرکزیت کا شکار ہو کر ٹکڑوں میں بٹ گئے اور مسلمانوں کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر کفار رفتہ رفتہ ان پر غالب آتے گئے اور پھر مسلمانوں نے اندلس، قرطبہ، غرناطہ، ترکستان، ایران ، بغداد ،فلسطین اور دیگر ملکوں میں عیسائیوں اور تاتاریوں سے ایسی عبرتناک تباہی کا سامناکیا کہ اسے سن کر ہی کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ مسلمانوں کے گھر اور مال و اَسباب جلا دئیے گئے ،ان کی مَساجد میں کفار نے اپنے گھوڑے باندھے اور اذان و نماز پر پابندیاں لگا دیں ، ان کے اہلِ حق علماء اور اسلام کے وفاداروں کو چن چن کر قتل کردیا گیا، ان کے علمی و روحانی مراکز تباہ و برباد کر دئیے گئے، بغداد میں مسلمانوں کے علمی ورثے کو جب دریائے نیل میں غرق کیا گیا تو اس کی سیاہی سے دریا کا پانی سیاہ ہو گیا، باپوں کے سامنے بیٹیوں ، شوہروں کے سامنے بیویوں ،بھائیوں کے سامنے بہنوں اور بیٹوں کے سامنے ان کی ماؤں کی عزتوں کو تار تار کیا گیا اور مسلمان حسرت کے آنسو بہانے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ آج کے مسلمانوں کا حال دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ اپنی تاریخی اور عبرتناک غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کی بجائے انہی غلطیوں کو از سرِنو دُہرا رہے ہیں اور ایک مرکز پر جمع ہو کر متحد ہونے کی بجائے مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر اور کفار کا دست نگر ہو کر زندگی گزارنے کو اپنی عظیم سعادت سمجھے بیٹھے ہیں ،اپنی حکومت اور سلطنت بچانے کی خاطر کفار کے آگے ایڑیاں رگڑتے اور ان کی ناراضی کو اپنی محتاجی کا پروانہ سمجھتے ہیں ، مسلمانوں کی اخلاقی اور ملی تباہی کے لئے کفار کی طرف سے بُنے گئے جالوں میں بری طرح پھنسنے کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں ، دین فروش علماء اور غداروں نے مسلمانوں کی ملی وحدت کو پار ہ پارہ کر کے کفار کے عَزائم کامیاب بنا دئیے ہیں ، کسی مسلم ملک پر کفار حملہ کریں تویہ اپنے مسلمان بھائیوں کے جان و مال اورعزت وآبرو کی حفاظت کرنے کی بجائے کفار سے ان کے سودے کرتے ہیں ، مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنے کے لئے ہر طرح سے کفار کا ساتھ دیتے ہیں اور کفار سے پٹنے والے مسلمانوں کا حال و انجام دیکھ کر یہ تَصَوُّر تک کرنا گوارا نہیں کرتے کہ کفار نے اپنے منظورِ نظر مسلمانوں کا جو حال کیا کل کو وہ یہی حال ان کا بھی کر سکتے ہیں۔اے کاش!
درسِ قرآن ہم نے نہ بھلایا ہوتا
یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا
{اِنَّمَا النَّسِیْٓءُ زِیَادَةٌ فِی الْكُفْرِ:(اِن مشرکوں کا) مہینوں کو آگے پیچھے کرنا کفر میں ترقی کرنا ہے۔}نَسِیۡٓءُ لغت میں وقت کے مؤخر کرنے کو کہتے ہیں اور یہاں شَہْرِحرام کی حرمت کا دوسرے مہینے کی طرف ہٹا دینا مراد ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں عرب حرمت والے مہینوں (یعنی ذوالقعدہ، ذی الحجہ، محرم، رجب) کی حرمت و عظمت کے معتقد تھے تو جب کبھی لڑائی کے زمانے میں یہ حرمت والے مہینے آجاتے تو ان کو بہت شاق گزرتے ، اس لئے انہوں نے یہ کیا کہ ایک مہینے کی حرمت دوسرے کی طرف ہٹانے لگے، محرم کی حرمت صفر کی طرف ہٹا کر محرم میں جنگ جاری رکھتے اور بجائے اس کے صفر کو ماہِ حرام بنالیتے اور جب اس سے بھی تحریم ہٹانے کی حاجت سمجھتے تو اس میں بھی جنگ حلال کرلیتے اور ربیع الاول کو ماہِ حرام قرا ر دیتے اس طرح تحریم سال کے تمام مہینوں میں گھومتی اور ان کے اس طرزِ عمل سے حرمت والے مہینوں کی تخصیص ہی باقی نہ رہی۔ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حجۃ الوداع میں اعلان فرمایا کہ نَسِیْء کے مہینے گئے گزرے ہوگئے، اب مہینوں کے اوقات کی حکمِ خداوندی کے مطابق حفاظت کی جائے اور کوئی مہینہ اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے اور اس آیت میں نَسِیۡٓءُ کو ممنوع قرار دیا گیا اور کفر پر کفر کی زیادتی قرار دیا کہ اولًا تو ویسے ہی کافر تھے اور پھر مہینے آگے پیچھے کرکے حرام کو حلال سمجھنے کے کفر میں پڑتے تھے تو یہ مزید کفر میں اضافہ ہوا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۷، ۲ / ۲۳۸)
{لِیُوَاطِــٴُـوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ:تاکہ اللہ کے حرام کئے ہوئے مہینوں کی گنتی کے مطابق ہوجائیں۔ } یعنی ماہ ِحرام تو چار ہی رہیں اس کی تو پابندی کرتے ہیں اور ان کی تخصیص توڑ کر حکمِ الہٰی کی مخالفت کرتے ہیں کہ جو مہینہ حرام تھا اسے حلال کرلیا اس کی جگہ دوسرے کو حرام قرار دیا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۴۳۵)
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ:اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا؟ ۔} شانِ نزول:یہ آیت غزوۂ تبوک کی ترغیب میں نازل ہوئی ۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۲۳۹)
تبوک، ملکِ شام کے اَطراف میں مدینہ طیبہ سے کافی فاصلے پر ایک مقام ہے، اس دور میں تبوک کی طرف جانے والا جو راستہ تعمیر کیا گیا ہے، جدید حساب کی رُو سے اس کا فاصلہ نو سو کلومیٹر کے قریب ہے۔ رجب 9 ہجری میں طائف سے واپسی کے بعد جب سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر پہنچی کہ عرب کے عیسائیوں کی سازش اور بَراَنگیختہ کرنے سے ہر قل شاہِ روم نے رومیوں اور شامیوں کا ایک بھاری لشکر جمع کر لیا ہے اور وہ مسلمانوں پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے تو حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا۔ یہ زمانہ نہایت تنگی ،قحط سالی اور گرمی کی شدت کا تھا یہاں تک کہ دو دو آدمی ایک ایک کھجور پر گزارہ کرتے تھے۔ سفر دور کا تھا جبکہ دشمن تعداد میں زیادہ اور مضبوط تھے ان وجوہات کی بنا پر لوگوں کو گھر سے نکلنا مشکل محسوس ہو رہا تھا۔ مدینہ منورہ کے بہت سے منافقین جن کے نفاق کا راز فاش ہو چکا تھا وہ خود بھی فوج میں شامل ہونے سے جی چراتے تھے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے لیکن اس کے باوجود تیس ہزار کا لشکر جمع ہوگیا۔ اب ان تمام مجاہدین کے لیے سواریوں اور سامانِ جنگ کا انتظام کرنا ایک بڑا ہی کٹھن مرحلہ تھاکیونکہ لوگ قحط کی وجہ سے انتہائی مَفلوک الحال اور پریشان تھے اس لیے حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عرب کے تمام قَبائل سے فوجیں اور مالی امداد طلب فرمائی۔
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس غزوے میں دل کھول کر مال خرچ کیا ’’حضرت عبد الرحمٰن بن خباب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں بارگاہِ رسالت میں حاضر تھا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوۂ تبوک کے بارے میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کیا ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّکے راستے میں پالان کے ساتھ سو اونٹ میرے ذمے ہیں۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر ترغیب دلائی تو حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دوبارہ کھڑے ہوئے اور عرض کی ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں پالان سمیت دو سو اونٹ میرے ذمے ہیں۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تیسری مرتبہ ترغیب دلائی تو حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پھر کھڑے ہو گئے اور عرض گزار ہوئے’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں تین سو اونٹ پالانوں کے ساتھ میرے ذمے ہیں۔ حضرت عبد الرحمٰن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’ میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منبر سے نیچے تشریف لائے اور فرما رہے تھے کہ اس کے بعد عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُجو بھی عمل کریں ان پر کوئی حرج نہیں۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، ۵ / ۳۹۱، الحدیث: ۳۷۲۰)
یہ تو اعلان تھا لیکن حاضر کرتے وقت حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے اعلان سے کہیں زیادہ مال دیا تھا، حضرت علامہ برہان الدین حلبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’غزوۂ تبوک کے موقع پر جتنا مال حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے خرچ کیا اتنا کسی اور نے نہیں کیا ،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دس ہزار مجاہدین کوجہاد کاسامان دیا اور دس ہزار دینار اس غزوے پر خرچ کئے، سازو سامان کے ساتھ نو سو اونٹ اور سو گھوڑے اس کے علاوہ ہیں۔ (سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، غزوۃ تبوک، ۳ / ۱۸۴)
حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا، اتفاق سے اس وقت میرے پاس مال تھا، میں نے کہا اگر میں صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کسی دن سبقت لے سکتا ہوں تو آج لے جاؤں گا۔ فرماتے ہیں ’’ پھر میں نصف مال لے کر حاضر ہوا، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کی: اس کے برابر اتنے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنا سارا مال (جس کی مقدار چار ہزار درہم تھی) لے کر حاضر ہوئے تورسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان سے فرمایا ’’ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے عرض کی’’ اَبْقَیْتُ لَہُمْ اللہَ وَرَسُولَہٗ ‘‘ گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے (دل میں ) کہا : میں ان سے کسی بات میں آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔ (ابو داؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی الرخصۃ فی ذلک، ۲ / ۱۷۹، الحدیث: ۱۶۷۸)
ان کے علاوہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت عباس اور حضرت طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے بھی کثیر مال خرچ کیا، اسی طرح صحابیات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے پاس بھی جو زیور تھا انہوں نے بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں بھیج دیا۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اب تک یہ طریقہ تھا کہ غزوات کے معاملے میں بہت زیادہ رازداری کے ساتھ تیاری فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ عَساکرِ اسلامیہ کو عین وقت تک یہ بھی نہ معلوم ہوتا تھا کہ کہاں اور کس طرف جانا ہے؟ مگر جنگ تبوک کے موقع پر سب کچھ انتظام علانیہ طور پر کیا اور یہ بھی بتا دیا کہ تبوک چلنا ہے اور قیصرِ روم کی فوجوں سے جہاد کرنا ہے تا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تیاری کر لیں۔(سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، غزوۃ تبوک، ۳ / ۱۸۳-۱۸۴)
بہرحال حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتیس ہزار کا لشکر ساتھ لے کر تبوک کے لئے روانہ ہوئے اور مدینہ کا نَظم و نَسق چلانے کے لئے حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو اپنا خلیفہ بنایا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں غزوۂ تبوک کے موقع پررسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکو مدینہ منورہ میں چھوڑ دیا تو آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے عرض کی ’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے! البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔(مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ص۱۳۱۰، الحدیث: ۳۱(۲۴۰۴))
جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تبوک کے قریب میں پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ اِنْ شَآءَ اللہُ تعالٰی کل تم لوگ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے اور سورج بلند ہونے کے بعد پہنچو گے لیکن کوئی شخص وہاں پہنچے تو پانی کو ہاتھ نہ لگائے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجب وہاں پہنچے تو جوتے کے تسمے کے برابر اس میں پانی کی ایک دھار بہہ رہی تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس میں سے تھوڑا سا پانی منگا کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پانی میں کلی فرمائی۔ پھر حکم دیا کہ اس پانی کو چشمہ میں انڈیل دو۔ لوگوں نے جب اس پانی کو چشمہ میں ڈالا تو چشمہ سے زوردار پانی کی موٹی دھار بہنے لگی اور تیس ہزار کا لشکر اور تمام جانور اس چشمہ کے پانی سے سیراب ہو گئے۔ سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کافی عرصہ یہاں قیام فرمایا، ہرقل اپنے دل میں آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سچا نبی جانتا تھا اس لئے اسے خوف ہوا اور اس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے مقابلہ نہ کیا ۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اَطراف میں لشکر بھیجے، چنانچہ حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو چار سو سے زائد سواروں کے ساتھ دومتہ الجندل کے حاکم اکیدر سے مقابلے کیلئے بھیجا اور فرمایا کہ تم اس کو نیل گائے کے شکار میں پکڑلو !چنانچہ ایسا ہی ہوا جب وہ نیل گائے کے شکار کے لئے اپنے قلعے سے اتر اتو حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے گرفتار کرلیا اور اسے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمتِ اقدس میں لے آئے ، حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جزیہ مقرر فرما کر اس کو چھوڑ دیا، اسی طرح حاکمِ ایلہ پر اسلام پیش کیا اور جزیہ پرصلح فرمائی۔ (زرقانی، ثمّ غزوۃ تبوک، ۴ / ۹۰-۹۳ملتقطاً) واپسی کے وقت جب حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ کے قریب تشریف لائے تو جو لوگ جہاد میں ساتھ ہونے سے رہ گئے تھے وہ حاضر ہوئے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے فرمایا کہ ان میں سے کسی سے کلام نہ کریں اور اپنے پاس نہ بٹھائیں جب تک ہم اجازت نہ دیں تو مسلمانوں نے ان سے اِعراض کیا یہاں تک کہ باپ اور بھائی کی طرف بھی اِلتفات نہ کیا اسی باب میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔
{اِلَّا تَنْفِرُوْا:اگر تم کوچ نہیں کرو گے۔} ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! اگر تم رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کے مطابق اللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں کوچ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گاجو تم سے بہتر اور فرمانبردار ہوں گے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نصرت اور ان کے دین کو عزت دینے میں خود کفالت فرمائے گا تو اگر تم فرمانِ رسول کی اطاعت میں جلد ی کرو گے تو یہ سعادت تمہیں نصیب ہوگی اور اگر تم نے سستی کی تو اللہ تعالیٰ دوسروں کو اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شرفِ خدمت سے سرفراز فرمائے گا۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۹، ۶ / ۴۸)
اللہ تعالیٰ کا دین ہمارا محتاج نہیں :
اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ دین کی تبلیغ مسلمانوں کا منصب اور ذمہ داری ہے ۔ اگر کوئی یہ سعادت حاصل کرتا ہے تو یہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی کرم نوازی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا دین ہمارا محتاج نہیں بلکہ ہم اس کے محتاج ہیں ، نیز اسلام کی اشاعت ہم پر مَوقوف نہیں کیونکہ ہم سے پہلے بھی دنیا میں اسلام تھا اور ہمارے بعد بھی رہے گا۔
{اِلَّا تَنْصُرُوْهُ:اگر تم اس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی ہے کہ اگر تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کی اس وقت بھی مدد فرمائی جبمکہ مکرمہ سے ہجرت کے وقت ان کے ساتھ صرف ایک شخص تھا تو یہاں بدرجہ اَولیٰ مدد فرمائے گا۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۴۹)
حضرت ابو بکر صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی فضیلت:
اس آیتِ مبارکہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عظیم توکل اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت کا بیان ہے بلکہ یہ آیتِ مبارکہ کئی اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عظمت و شان پر دلالت کرتی ہے۔
(1)…تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غارِ ثور میں اس لئے تشریف لے گئے کہ انہیں کفار کی طرف سے قتل کا اندیشہ تھا لہٰذا اگر رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے، پکے اور صدیق مومن ہونے کا یقین نہ ہوتا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکسی طور پربھی انہیں اپنے ساتھ ہم رِکابی کا شرف عطا نہ فرماتے کیونکہ اس طرح جو اندیشہ کفار سے تھا وہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے بھی ہو سکتا تھا۔ یہ کلام اُن جاہلوںکا جواب ہے جو اِس سفر کے حوالے سے بھی سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر اعتراض کرتے ہیں۔
(2)…یہ ہجرت اللہ تعالیٰ کی اجازت سے تھی، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک پوری جماعت موجود تھی اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقابلے میں نسبی طور پر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے زیادہ قریب بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے وقت رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت میں رہنے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے علاوہ اور کسی کو بھی عطا نہیں فرمایا، یہ تخصیص حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے عظیم مرتبے اور بقیہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔
(3)… دیگر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حالات کی ناسازی کی وجہ سے ہجرت کر گئے جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے شدید خوف اور انتہائی خطرناک صورتِ حال کے باوجود بھی تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قرب نہ چھوڑا بلکہ صبر و اِستقامت کے ساتھ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہے او ر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں مصروف رہے۔
(4)…حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سفر و حضر میں رسولِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہتے بلکہ اس کا اِلتزام فرماتے تھے، یہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے عشقِ رسول کی دلیل ہے۔
(5)… آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غارِ ثور میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُنسِیّت کا شرف پایا اور اپنی جان قربان کرنے کی سعادت پائی۔
(6)… اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ثانی فرمایا یعنی حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد جس کا سب سے پہلا نمبر ہے ۔اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات پر حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ثانی (یعنی دوسرے نمبر پر )ہونے کا شرف پایا جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلو میں تدفین کی وجہ سے قیامت تک ثانِیّت سے مشرف ہیں۔
(7)… حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا صحابی ہونا خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ،یہ شرف آپ کے علاوہ اور کسی صحابی کو عطا نہ ہوا۔
(8)…اللہ تعالیٰ ان دونوں مقدس ہستیوں کے ساتھ تھا تو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو یہ اس کے دوسروں سے افضل ہونے کی دلیل ہے۔
(9)… اللہ تعالیٰ کا خصوصیت کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر سکینہ نازل فرمانا بھی ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۵۰، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۴، ملتقطاً)
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی تمنا:
ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ’’میری تمنا ہے کہ کاش ! میرے سارے اعمال حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دنوں میں سے ایک دن اور راتوں میں سے ایک رات کے عمل کے برابر ہوتے ۔ان کی رات تو وہ کہ جس میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ غار کی طرف سفر کیا اور جب وہ دونوں غار تک پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کی’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم ! آپ سے پہلے میں غار میں جاؤں گا تاکہ اس میں کوئی تکلیف دِہ چیز ہو تو اس کی اَذِیَّت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بجائے مجھے پہنچے ۔ جب حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُغار میں داخل ہوئے تو آپ نے اس میں سوراخ دیکھے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی چادر کے ٹکڑے کر کے ان سوراخوں کو بند کیا، دو سوراخ باقی رہ گئے تو وہاں اپنے پاؤں رکھ دئیے، اس کے بعد تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اب تشریف لے آئیے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَغار میں تشریف لائے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں سرِ انور رکھ دیا اور آرام فرمانے لگے۔ اتنے میں سوراخ سے کسی چیز نے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاؤں پر ڈس لیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس خوف سے حرکت نہ کی کہ کہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنیند سے بیدار نہ ہو جائیں لیکن تکلیف کی شدت سے نکلنے والے چند آنسو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رُوئے اقدس پر گر گئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اے ابو بکر! کیا ہوا؟ عرض کی ! میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپہ فدا ہوں ، مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا لعابِ دہن اس جگہ پر لگا دیا تو اسی وقت ساری تکلیف ختم ہو گئی، بعد میں یہی ڈنگ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُ کی وفات کا سبب بنا۔ اور ان کا دن وہ کہ جب حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد عرب کے چند قبیلے مرتد ہوگئے اور زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’اگر انہوں نے زکوٰۃ کے مال کی ایک رسی بھی روکی تومیں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ میں نے عرض کی ’’اے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے خلیفہ! لوگوں کے ساتھ اُلفت اور نرمی کا برتاؤکیجئے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا اور اب دین مکمل ہو گیا ہے کیا وہ دین میں کمی کریں گے ؟حالانکہ میں ابھی زندہ ہوں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۰)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
صدیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غرر کی ہے
{وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا:اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے نازل فرما کر اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد فرمائی کہ فرشتوں نے کفار کے چہروں اور نگاہوں کو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف دیکھنے سے پھیر دیا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں رُعب ڈال دیا یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ گئے۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار میں تھے اور شدید خوف کا عالَم تھا اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان سے دشمنوں کا مکر پھیر کر ان کی مدد فرمائی اور پھر میدانِ بدر میں فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۴)
{وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى:اور اُس نے کافروں کی بات کو نیچے کردیا۔} کافروں کی بات سے مراد شرک یا دعوت ِکفر ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد توحید یا دعوتِ اسلام ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ کافروں کی بات سے مراد نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کی وہ سازش ہے جس میں کفار کامیاب نہ ہو سکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مددفرمائے گا۔ (بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۱۴۶، بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۵۰، ملتقطاً)
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan