Surah At-Tawbah
{فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ:پیچھے رہ جانے والے خوش ہوئے۔} غزوۂ تبوک میں گرمی کی شدت، سفر کی دوری، زادِ راہ کی کمی اور جان کے خوف کی وجہ سے منافقین کی ایک بڑی تعداد جہاد میں ساتھ نہ گئی تھی بلکہ حیلے بہانے کرکے پیچھے رہ گئی اور یہ لوگ پیچھے رہ جانے پر بڑے خوش تھے کہ شکر ہے کہ تکلیفوں سے جان چھوٹ گئی۔ یہاں انہی لوگوں کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے اس بات پر خوش ہوئے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے پیچھے بیٹھے رہے اور بہانے بنا کر غزوۂ تبوک میں نہ گئے۔
{وَ كَرِهُوْا:اور انہیں یہ بات ناپسندتھی۔} اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی برکت سے نیک اعمال پر دلیری پیدا ہوتی ہے اور کفر و نفاق کی وجہ سے کم ہمتی پیدا ہوتی ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’منافقین پرسب نمازوں میں زیادہ بھاری نماز عشا و فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے، اگر جانتے تو ضرور حاضر ہوتے اگرچہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے آتے۔(معجم الکبیر، ومن مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، ۱۰ / ۹۹، الحدیث: ۱۰۰۸۲)
نفاق کی ایک علامت:
اِس آیت و حدیث سے سمجھ آتا ہے کہ جس کو گناہ آسان معلوم ہوں اور نیک کام بھاری محسوس ہوں اور اس وجہ سے وہ گناہ کرے اور نیکیاں نہ کرے تو اس کے دل میں نفاق کی ایک علامت موجود ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّہمیں اس سے محفوظ رکھے،اٰمین۔
{وَ قَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّ:اور انہوں نے کہا :اس گرمی میں نہ نکلو۔} غزوۂ تبوک کے موقعہ پر موسم بہت گرم تھا۔ اور وہ جگہ بھی بہت گرم تھی ۔ وقت اور علاقے کی گرمی جمع ہو گئی تو ان لوگوں نے ایک دوسرے سے یہ کہا :اس گرمی میں نہ نکلو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم فرماؤ: جہنم کی آگ شدید ترین گرم ہے۔ اگر یہ جانتے تو تھوڑی دیر کی گرمی برداشت کرلیتے اور ہمیشہ کی آگ میں جلنے سے اپنے آپ کو بچالیتے۔ (قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۸۱، ۴ / ۱۱۵، الجزء الثامن، ملخصاً)
حضرت ابوخیثمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا واقعہ:
یہ تو منافقین کا حال تھا، اب یہاں حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ایک سچے عاشق کا حال سنئے۔ چنانچہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ابوخیثمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غزوۂ تبوک میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے مگر ایک دن وہ شدید گرمی میں کہیں باہر سے آئے تو ان کی بیوی نے چھپر میں چھڑ کائو کر رکھا تھا۔ تھوڑی دیر اس سایہ دار ا ور ٹھنڈی جگہمیں بیٹھے لیکن پھر اچانک ان کے دل میں حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا خیال آ گیا۔ اپنی بیوی سے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ میں تو اپنی چھپر میں ٹھنڈک اور سایہ میں آرام و چین سے بیٹھا رہوں اور خدا عَزَّوَجَلَّ کے مقدس رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاس دھوپ کی تَمازت اور شدید لو کے تھپیڑوں میں سفر کرتے ہوئے جہادکے لئے تشریف لے جا رہے ہوں ، ایک دم ان پر ایساجوشِ ایمانی سوار ہوا کہ توشہ کیلئے کھجور لے کر ایک اونٹ پر سوار ہو گئے اور تیزی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے روانہ ہو گئے۔ لشکر والوں نے دور سے ایک شُتر سوار کو دیکھا تو حضوراکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ابوخیثمہ ہوں گے، اس طرح یہ لشکرِ اسلام میں پہنچ گئے۔(زرقانی، ثمّ غزوۃ تبوک، ۴ / ۸۲)
{فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا:تو انہیں چاہیے کہ تھوڑا سا ہنس لیں۔ } اس آیت میں منافقین کو تھوڑا ہنسنے اور بہت رونے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ منافقین کی حالت کی خبر دینے کے طور پر کلام کیا گیا ہے۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ منافقین اگرچہ اپنی ساری زندگی ہنسیں اور خوشیاں منائیں یہ کم ہے کیونکہ دنیا اپنی درازی کے باوجود قلیل ہے اور آخرت میں ان کا غم اور رونا بہت زیادہ ہو گا کیونکہ آخرت کی سزا ہمیشہ کے لئے ہو گی، کبھی ختم نہ ہو گی اور ختم ہو جانے والی چیز نہ ختم ہونے والی کے مقابلے میں تھوڑی ہی ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۶ / ۱۱۴، ملخصاً)
تفسیر خازن میں ہے دنیا میں خوش ہونا اور ہنسنا چاہے کتنی ہی دراز مدت کے لئے ہو مگر وہ آخرت کے رونے کے مقابل تھوڑا ہے کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت دائم اور باقی ہے۔ آخرت کا رونا دنیا میں ہنسنے اور خبیث عمل کرنے کا بدلہ ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۲ / ۲۶۷)
تھوڑا ہنسیں اور زیادہ روئیں :
اس آیت میں اگرچہ منافقین سے متعلق کلام ہے البتہ جداگانہ طور پر ہمیں بہرحال یہی حکم دیا گیا ہے کہ تھوڑا ہنسیں اور گریہ و زاری زیادہ کیا کریں۔ چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تھوڑا ہنستے اور بہت روتے۔ (بخاری،کتاب التفسیر، باب لاتسألوا عن اشیائ۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۱۷، الحدیث: ۴۶۲۱)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرو کیونکہ جہنمی جہنم میں روئیں گے حتّٰی کہ ان کے آنسو ان کے چہروں پرا س طرح بہیں گے گویا کہ وہ نہریں ہیں یہاں تک کہ ان کے آنسو ختم ہو جائیں گے، پھر ان کا خون بہنے لگے گا اور وہ خون اتنا زیادہ بہہ رہا ہو گا کہ ا گرا س میں کشتی چلائی جائے تو چل پڑے۔ (شرح السنّہ، کتاب الفتن، باب صفۃ النار واہلہا، ۷ / ۵۶۵، الحدیث: ۴۳۱۴)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیمار ہوئے تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ساتھ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم تھے۔ جب اندر داخل ہوئے تو انہیں گھر والوں کے جھرمٹ میں پایا، ارشاد فرمایا: کیا فوت ہو گئے؟ لوگوں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نہیں۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَرونے لگے، جب لوگوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو روتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی رونے لگے۔ ارشاد فرمایا ’’سنو! بے شک اللہ تعالیٰ آنکھ کے بہنے اور دل کے مغموم ہونے پر عذاب نہیں دیتا بلکہ اس کی وجہ سے عذاب دیتا ہے یا رحم فرماتا ہے، اور زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب البکاء عند المریض، ۱ / ۴۴۱ رقم ۱۳۰۴)
نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں تو آپ نے دریافت فرمایا، ’’اے جبرائیل! عَلَیْہِ السَّلَام، تم کیوں روتے ہو حالانکہ تم بلندترین مقام پر فائز ہو؟ انہوں نے عرض کی ’’میں کیوں نہ روؤں کہ میں رونے کا زیادہ حق دار ہوں کہ کہیں میں اللہتعالیٰ کے علم میں اپنے موجودہ حال کے علاوہ کسی دوسرے حال میں نہ ہوں اور میں نہیں جانتا کہ کہیں ابلیس کی طرح مجھ پر اِبتلا نہ آجائے کہ وہ بھی فرشتوں میں رہتا تھا اور میں نہیں جانتا کہ مجھ پر کہیں ہاروت وماروت کی طرح آزمائش نہ آجائے ۔ یہ سن کر رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی رونے لگے ۔ یہ دونوں روتے رہے یہاں تک کہ نداء دی گئی ، ’’اے جبرائیل !عَلَیْہِ السَّلَام، اور اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،اللہ تعالیٰ نے تم دونوں کو نافرمانی سے محفوظ فرما دیا ہے ۔ ‘‘پھر حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام چلے گئے اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باہر تشریف لے آئے ۔ (مکاشفۃ القلوب، الباب التاسع بعد المائۃ فی التخویف من عذاب جہنم، ص۳۱۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی کم ہنسنے ، اپنی آخرت کے بارے میں فکرمند ہونے اور گریہ و زاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآىٕفَةٍ مِّنْهُمْ:پھر اے محبوب! اگر اللہ تمہیں ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اب جو آپ غزوۂ تبوک سے واپس مدینہ منورہ پہنچیں گے تو منافقین دھوکہ دہی کے لئے کہیں گے کہ حضور ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم کو اجازت دیں کہ آئندہ جہاد میں آپ کے ہمراہ چلیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۳، ۲ / ۲۶۷) اس میں غیبی خبر ہے کہ وہ ایسا کہیں گے ۔
{فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِیْنَ:تو (اب) پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھ رہو۔} یعنی اب اگر منافقین جہاد میں ساتھ چلنے کی اجازت مانگیں تو ان سے فرما دو کہ اب تم ہرگز کبھی بھی میرے ساتھ نہ چلو اور نہ ہی میرے ساتھ کسی دشمن سے لڑو۔ تم نے پہلی دفعہ جہاد سے پیچھے بیٹھے رہنے کو پسند کیا تو اب بھی پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو یعنی عورتوں بچوں بیماروں اور اپاہجوں کے ساتھ بیٹھ رہو۔
صُلح کُلِّیَّت حکمِ قرآن کے خلاف ہے:
اس سے ثابت ہوا کہ جس شخص سے دھوکہ اور فریب ظاہر ہو اس سے تعلق ختم کر دینا اور علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے اور محض اسلام کے مُدّعی ہونے سے کسی کو ساتھ ملالینے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ منافقین کے جہاد میں جانے کو منع فرمایا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۳، ۲ / ۲۶۷)
آج جو لوگ کہتے ہیں کہ ہر کلمہ گو کو ملالو اور اس کے ساتھ اتفاق و اتحاد کرو یہ اس حکمِ قرآنی کے بالکل خلاف ہے۔ اس حکم میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اگر مومنوں کے ساتھ منافقوں کو بھی کسی اہم مہم میں شامل کرلیا جائے تو وہ مسلمانوں کے دلوں میں نفاق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، جیسے بہادروں کے ساتھ اگر بزدلوں کو بھی کسی مہم میں بھیج دیا جائے تو وہ بزدل اپنی حرکتوں سے بہادروں کے بھی قدموں میں لغزش پیدا کردیں گے۔
{وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا:اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھنا ۔} اس آیت میں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو منافقین کے جنازے کی نماز اور ان کے دفن میں شرکت کرنے سے منع فرمایا گیا اور اس کا شانِ نزول یہ ہے کہ عبداللہ بن اُبی بن سلول منافقوں کا سردار تھا، جب وہ مرگیا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو مسلمان صالح مخلص صحابی اور کثیرُ العبادت تھے انہوں نے یہ خواہش کی کہ سیّدِ عالَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے باپ عبداللہ بن اُبی بن سلول کو کفن کے لئے اپنا قمیص مبارک عنایت فرمادیں اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیں۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رائے اس کے خلاف تھی لیکن چونکہ اس وقت تک ممانعت نہیں ہوئی تھی اور حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معلوم تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ عمل بہت سے منافقین کے ایمان لانے کا باعث ہوگا اس لئے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی قمیص بھی عنایت فرمائی اور جنازہ میں شرکت بھی کی۔ قمیص دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو بدر میں اسیر ہو کر آئے تھے تو عبداللہ بن اُبی نے اپنا کرتہ انہیں پہنایا تھا۔ حضورانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کا بدلہ دینا بھی منظور تھا لہٰذا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قمیص بھی دیا اور جنازہ بھی پڑھایا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کے بعد پھر کبھی سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسی منافق کے جنازہ میں شرکت نہ فرمائی اور حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وہ مصلحت بھی پوری ہوئی۔ چنانچہ جب منافقین نے دیکھا کہ ایسا شدید عداوت والا شخص جب سیّدِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کرتے سے برکت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے عقیدے میں بھی آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور اس کے سچّے رسول ہیں یہ دیکھ کرایک بڑی تعدادمسلمان ہوگئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۴، ۲ / ۲۶۸-۲۶۹)
کافر، فاسق اور مسلمان کے جنازے سے متعلق چند شرعی مسائل:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اگر کوئی کافر مر جائے تو مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس کے مرنے پر نہ اس کے لئے دعا کرے اور نہ ہی ا س کی قبر پر کھڑا ہو۔ افسوس! فی زمانہ حال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے ملک میں کوئی بڑا کافر مر جاتا ہے تو مسلمانوں کی سربراہی کے دعوے دار اس کے مرنے پر اس طرح اظہارِ افسوس کرتے ہیں جیسے اِ ن کا کوئی اپنا بڑا فوت ہوگیا ہو اور اگر اس کی قبر بنی ہو تو اس پر کھڑے ہو کر دعا ئیں مانگتے ہیں۔ یہ دعا بالکل حرام ہے۔
آیت کی مناسبت سے ہم یہاں کافر،فاسق اور مسلمان کے جنازے سے متعلق چند شرعی مسائل ذکر کرتے ہیں
(1)… اس آیت سے ثابت ہوا کہ کافر کے جنازے کی نماز کسی حال میں جائز نہیں اور کافر کی قبر پر دفن و زیارت کے لئے کھڑے ہونا بھی ممنوع ہے اور یہ جو فرمایا ’’اور فسق ہی میں مرگئے‘‘یہاں فسق سے کفر مراد ہے قرآنِ کریم میں اور جگہ بھی فسق بمعنی کفر وارد ہوا ہے جیسے کہ آیت ’’ اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا‘‘(السجدۃ :۳۲)(توکیا جو ایمان والا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو نافرمان ہے)میں۔
(2)… فاسق کے جنازے کی نماز جائز بلکہ فرضِ کِفایہ ہے ،اس پر صحابہ اور تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا اجماع ہے اور اس پر علماء و صالحین کا عمل اور یہی اہلِ سنت و جما عت کا مذہب ہے۔
(3)… جب کوئی کافر مر جائے اور اس کا ولی مسلمان ہو تو اس کو چاہیے کہ بطریق مَسنون غسل نہ دے بلکہ اس پر پانی بہا دے اور نہ کفن مسنون دے بلکہ اتنے کپڑے میں لپیٹ دے جس سے اس کا ستر چھپ جائے اور نہ سنت طریقہ پر دفن کرے اور نہ بطریقِ سنت قبر بنائے ،صرف گڑھا کھود کر اندر رکھ دے ۔
{وَ لَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْ:اور ان کے مال اوراولاد تمہیں تعجب میں نہ ڈالیں۔} اس آیت کی تفسیر آیت نمبر 55 کے تحت گزر چکی ہے اور یہاں منافقوں کے مال و اولاد پر تعجب نہ کرنے کو دوبارہ ذکر کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ لوگ اس بات کو بھول نہ جائیں اور اس سے غافل نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھیں کہ اس پر عمل کرنا انتہائی اہم ہے۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ مال اور اولاد ایسی چیزیں ہیں جن میں مشغولیت کی وجہ سے دل بہت جلد دنیا کی طرف راغب ہو جاتا ہے اور جو چیز دنیا کی طرف زیادہ راغب کرنے والی ہواس سے بار بار بچنے کا حکم دیاجاتاہے ا س لئے یہاں دوبارہ منافقوں کے مال اور اولاد پر تعجب نہ کرنے کافرما یاگیا ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۲ / ۲۶۹، تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۶ / ۱۱۸، ملتقطاً)
{اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ جَاهِدُوْا مَعَ رَسُوْلِهٖ:اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ہمراہ جہاد کرو۔}بعض علماء نے اس آیت کی بنا پر فرمایا کہ ایمان کے بعد جہاد کا درجہ ہے اور جہاد اعلیٰ درجے کی عبادت ہے کہ رب تعالیٰ نے اسے ایمان کے بعد ذکر فرمایا۔ مگر حق یہ ہے کہ نماز سب سے اعلیٰ درجے والی عبادت ہے کہ جہاد اس کے قائم کرنے کے لئے ہے ۔ یہ آیت اس خصوصی موقعہ کے لحاظ سے ہے جب جہاد کی سخت ضرورت تھی۔
قدرت کے باوجود دینِ اسلام کی مدد نہ کرنے کی مذمت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قدرت کے باوجود دینِ اسلام کی مدد نہ کرنا منافقوں کاعمل ہے کہ فرمایا گیا : ان منافقوں میں سے جو قدرت والے ہیں وہ آپ سے جہاد میں نہ جانے کی رخصت مانگ رہے ہیں۔ اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو کفار کے ظلم و ستم کا شکار مسلمانوں کی مدد کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود ان کی مدد نہیں کرتے اور انہیں بے یار و مدد گار چھوڑے ہوئے ہیں ، اسی طرح ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اہلسنّت کے عقائد و معمولات کا دفاع کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود اس کا دفاع نہیں کرتے اور سنی عوام کو بد مذہبوں کے رحم و کرم پر چھوڑے ہوئے ہیں اور وہ لوگ بھی اس سے نصیحت حاصل کریں جو لوگوں کو گناہ سے روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں گناہ سے نہیں روکتے اور انہیں نفس و شیطان کے واروں کا شکار ہونے کے لئے چھوڑ رکھا ہے ، اسی وجہ سے علماء نے جمعہ کے دن پڑھے جانے والے خطبات میں یہ لکھا ہے کہ اے اللہ! اس کی مدد کر جو ہمارے سردار اور ہمارے مولیٰ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے دین کی مدد کرے اور اسے بے یار و مددگار چھوڑ دے جو ہمارے سردار اور ہمارے آقا محمد ( مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے دین کو فراموش کردے۔
{وَ طُبِـعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ:اور ان کے دلوں پر مہُرلگادی گئی۔} یعنی ان کے کفر و نفاق اختیار کرنے کے باعث ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی تو وہ کچھ سمجھتے نہیں کہ جہاد میں کیا کامیابی و سعادت اور بیٹھ رہنے میں کیسی ہلاکت و شقاوت ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۴۴۹)
{لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ:لیکن رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے۔} اس سے پہلی آیات میں جہاد سے راہِ فرار اختیار کرنے میں منافقوں کا حال بیان کیا گیا اور اس آیت سے نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا جذبۂ جہاد بیان کیا گیا کہ انہوں نے اللہتعالیٰ کی رضا کی طلب میں اور اس کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے کے لئے اپنے مال اور اپنی جانیں دونوں خرچ کر دیں۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۸، ۶ / ۱۱۹)
آیت ’’ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دومسئلے معلوم ہوئے
(1)… جنت اور وہاں کی نعمتیں پیدا ہو چکی ہیں۔
(2)… جنتی اپنی اپنی جنت کے پورے پورے مالک ہوں گے۔ وہاں صرف مہمان کی طرح بغیر ملکیت کے نہ ہوں گے البتہ ان کی خاطر تواضع مہمانوں کی سی ہوگی۔
{وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ:اور عذر پیش کرنے والے دیہاتی آئے۔} تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں جہاد سے رہ جانے کا عذر پیش کرنے کیلئے دیہاتی آئے ۔ ضحاک کا قول ہے کہ یہ عامر بن طفیل کی جماعت تھی انہوں نے سرورِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی: یا نَبِیَّ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہم آپ کے ساتھ جہاد میں جائیں تو قبیلہ طے کے عرب ہمارے بیوی بچوں اور جانوروں کو لوٹ لیں گے۔ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے حال سے خبردار کیا ہے اور وہ مجھے تم سے بے نیاز کرے گا۔عمرو بن علاء نے کہا کہ ان لوگوں نے باطل عذر بنا کر پیش کیا تھا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۲۷۱)
{وَ قَعَدَ:اور بیٹھے رہے۔} یہ دوسرے گروہ کا حال ہے جو بغیر کسی عذر کے بیٹھ رہے یہ منافقین تھے انہوں نے ایمان کا دعویٰ جھوٹا کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ سے جھوٹ بولنا ہے کیونکہ ان بد نصیبوں نے رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے جھوٹ بولا ، اِس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے جھوٹ بولا۔
{سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ:ان میں سے کافروں کو عنقریب دردناک عذاب پہنچے گا۔} یعنی ان منافقوں میں سے جو کھلے کافر بن جائیں ، انہیں دنیا میں قتل و غارت کا عذاب ہو گا یا ان منافقوں میں سے جو آخر دم تک کفر پر قائم رہیں ،ا نہیں آخرت کا درد ناک عذاب ہو گا۔
{لَیْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ:کمزوروں پرکوئی حرج نہیں۔} باطل عذر والوں کا ذکر فرمانے کے بعد سچے عذر والوں کے متعلق فرمایا کہ ان پر سے جہاد کی فرضیت ساقط ہے ۔یہ کون لوگ ہیں ؟ان کے چند طبقے بیان فرمائے
پہلا طبقہ ضعیف جیسے کہ بوڑھے ،بچے ، عورتیں اور وہ شخص بھی انہیں میں داخل ہے جو پیدائشی کمزور ضعیف ونحیف ہو۔
دوسرا طبقہ بیمار، اس میں اندھے ،لنگڑے، اپاہج بھی داخل ہیں۔
تیسرا طبقہ وہ لوگ جنہیں خرچ کرنے کی قدرت نہ ہو اور سامانِ جہاد نہ کرسکیں یہ لوگ رہ جائیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۶ / ۱۲۱)
{اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ:جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ رہیں۔} یعنی ان کی اطاعت کریں اور مجاہدین کے گھر والوں کی خبر گیری رکھیں۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۶ / ۱۲۱، ملخصاً)
اس سے معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خیر خواہی رب تعالیٰ کی خیر خواہی ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی نیکی نہ کر سکے مگر نیکیوں کا دل سے خیر خواہ رہے تب بھی اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ نیکوں میں شمار ہو گا۔ آیت کا مَنشا یہ ہے کہ مجبور مسلمان جو جہاد میں شریک نہ ہو سکیں وہ مدینہ میں رہ کر اللہ رسول عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خیر خواہی میں مجاہدین کے بچوں کی خدمت کریں۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تم مدینہ منورہ میں ایسے لوگوں کو بھی چھوڑ آئے ہو کہ تم جو سفر کر رہے ہو ،جو مال خرچ کر رہے ہو اور جن وادیوں کو طے کر رہے ہو ہر کام میں وہ تمہارے ساتھ ہیں۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ ہمارے ساتھ کس طرح شمار ہو گئے جبکہ وہ تو مدینہ منورہ میں ہیں ، ارشاد فرمایا: انہیں مجبوری نے روکا ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فی الرخصۃ فی القعود من العذر، ۳ / ۱۷، الحدیث: ۲۵۰۸)
{وَ لَا عَلَى الَّذِیْنَ:اور نہ ان پر کوئی حرج ہے۔} شانِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’ ’سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو اپنے ساتھ جہاد میں جانے کا حکم دیا تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حاضر ہوئی، ان میں حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے، انہوں نے عرض کی! یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں کوئی سواری عطا کیجئے۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا ’’اللہ کی قسم ! میرے پاس کوئی سواری نہیں کہ جس پر میں تمہیں سوار کروں۔ وہ روتے ہوئے واپس چلے گئے کیونکہ جہاد سے رہ جانا ان پر بہت گراں تھا اور ان کے پاس زادِ راہ تھا، نہ سواری۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت اور جہاد پر حرص کی وجہ سے ان کے عذر میں یہ آیتیں بیان فرمائیں۔ (تفسیر ابن ابی حاتم، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۲، ۶ / ۱۸۶۳-۱۸۶۴)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا جذبۂ جہادـ:
اس آیت ِ مبارکہ اور اس کے شانِ نزول کے واقعہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے جذبہ ِ جہاد ، شوقِ عبادت اور ذوقِ اطاعت کاپتہ چلتا ہے کہ ایک طرف تو منافقین ہیں جو قدرت ہونے کے باوجود جھوٹے حیلے بہانے کرکے جہاد سے جان چھڑاتے ہیں اور ایک طرف یہ کامل الایمان، مخلص غلام ہیں جو شرعاً رخصت و اجازت ہونے کے باوجود جہاد نہ کرسکنے اور اس عبادت میں شریک نہ ہوسکنے کے غم میں آنسو بہارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسا ذوق و شوق عطا فرمائے۔
{اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ:مواخذہ تو ان لوگوں پر ہے۔} یعنی مُواخَذہ تو ان لوگوں پر ہے جو جہاد میں جانے کی قدرت رکھتے ہیں ، اس کے باوجود آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے رخصت مانگتے ہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۴۵۰)
{یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْكُمْ:تم سے بہانے بنائیں گے ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اور آپ کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جب غزوۂ تبوک سے واپس مدینہ منورہ پہنچیں گے تو غزوہ سے رہ جانے والے منافقین جھوٹے بہانے بنا کر اور باطل عذر پیش کر کے آپ سب کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دینا کہ بہانے مت بناؤ، جو عذر تم پیش کر رہے ہو ہم اس کی ہر گز تصدیق نہیں کریں گے، تم نے جو کچھ کیا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں اس کی خبریں دیدی ہیں اور اب اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہارے کام دیکھیں گے کہ تم نفاق سے توبہ کرتے ہو یا اس پر قائم رہتے ہو۔ بعض مفسرین نے کہا کہ منافقین نے وعدہ کیا تھا کہ زمانۂ مستقبل میں وہ مومنین کی مدد کریں گے، ہوسکتا ہے کہ اسی کے متعلق فرمایا گیا ہو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہارے کام دیکھیں گے کہ تم اپنے اس عہد کو بھی وفا کرتے ہو یا نہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۲۷۲-۲۷۳)
{عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ:غیب اور ظاہر کو جاننے والا ہے۔} یہاں آیت میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت عالم الغیب بیان فرمائی گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وصف ِ خاص ہے یعنی اللہ نے جن مقربینِ بارگاہ کو غیب کا علم عطا فرمایا ہے ان کے بارے میں یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے وہ غیب جانتے ہیں یا غیب پر مطلع ہیں یا غیب پر خبردار ہیں لیکن انہیں عالم الغیب نہیں کہا جاسکتا کہ اس لفظ کا استعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے جیسے لفظ ِ رحمٰن ہے۔ اس مسئلہ پر عقیدہ ٔاہلسنّت جاننے کیلئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں ’’ہماری تحقیق میں لفظ ’’عالم الغیب ‘‘کا اطلاق حضرت عزت عَزَّجَلَالُہ کے ساتھ خاص ہے کہ اُس سے عرفاً علم بالذات متبادر ہے اور اس سے انکار معنی لازم نہیں آتا۔ حضورپر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قطعاً بے شمار غیوب و ماکان مایکون کے عالم ہیں مگر ’’عالم الغیب‘‘ صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کو کہا جائے گا۔ جس طرح حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قطعاً عزت جلالت والے ہیں ، تمام عالم میں ان کے برابر کوئی عزیز و جلیل ہے نہ ہوسکتا ہے، مگر محمدعَزَّوَجَلَّ کہنا جائز نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ و محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (کہا جائے گا)۔(فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۰۵)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’علم غیب بالذات اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے خاص ہے کفار اپنے معبود انِ باطل وغیرہم کیلئے مانتے تھے لہٰذا مخلوق کو’’عالم الغیب ‘‘کہنا مکروہ ، اور یوں (کہنے میں ) کوئی حرج نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے سے امورِ غیب پر انہیں اطلاع ہے۔(فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۵۷۵)
اور فرماتے ہیں ’’اس پر اجماع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیئے سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کثیر و وافر غیبوں کا علم ہے، یہ بھی ضروریاتِ دین سے ہے ،جو اس کا منکر ہوکافر ہے کہ سرے سے نبوت ہی کا منکر ہے۔ اس پر بھی اجماع ہے کہ اس فضلِ جلیل میںمحمَّد رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا حصہ تمام انبیاء و تمام جہان سے اتم و اعظم ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے حبیب اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: خالص الاعتقاد، ۲۹ / ۴۵۱)
{سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ: اب تمہارے سامنے اللہکی قسمیں کھائیں گے ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ اپنے اس سفر سے واپس ہو کر مدینہ طیبہ میں ، غزوے میں شرکت نہ کرنے والے منافقین کی طرف لوٹ کر جائیں گے تو یہ آپ کے سامنے اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسمیں کھائیں گے تاکہ آپ ان سے درگزر کریں اور پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ان پر ملامت و عتاب نہ کریں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ۲ / ۲۷۳)
اس سے معلوم ہوا کہ منافق و گمراہ زیادہ قسمیں کھا کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِعَزَّوَجَلَّ! مومنوں کو اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔
{فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْ:تو تم ان سے اعراض ہی کرو۔} بعض مفسرین نے فرمایا :’’اس سے مراد یہ ہے کہ اُن کے ساتھ بیٹھنا اور ان سے بولنا ترک کردو۔ چنانچہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضور ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ منافقین کے پاس بیٹھیں ، نہ اُن سے بات کریں کیونکہ اُن کے باطن خبیث اور اعمال برے ہیں اور ملامت و عتاب سے ان کی اصلاح نہ ہوگی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ناپاک ہیں اور ان کے پاک ہونے کا کوئی طریقہ نہیں ، آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ ان کے دنیا میں کیے ہوئے خبیث اعمال کا بدلہ ہے۔ شانِ نزول: حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ یہ آیت جد بن قیس ، معتب بن قشیر اور ان دونوں کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ 80 منافق تھے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ان کے پاس بیٹھو ،نہ ان سے کلام کرو۔ مقاتل نے کہا کہ یہ آیت عبداللہ بن اُبی کے بارے میں نازل ہوئی، اس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے قسم کھائی تھی کہ اب کبھی وہ جہاد میں جانے سے سستی نہ کرے گا اور سیدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے درخواست کی تھی کہ حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس سے راضی ہوجائیں ، اس پر یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ۲ / ۲۷۳، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۴۵۰، ملتقطاً)
{یَحْلِفُوْنَ لَكُمْ:تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں۔} یعنی اے مسلمانو! منافقین تمہارے سامنے تمہاری رضا حاصل کرنے کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ اس طرح انہیں دنیا میں نفع حاصل ہو، اے ایمان والو! اگر تم ان کی قسموں کا اعتبار اور ان کے عذر قبول کرتے ہوئے ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو انہیں کوئی فائدہ نہ ہو گا کیونکہ اللہتعالیٰ اُن کے دل کے کفر و نفاق کو جانتا ہے، وہ ان سے کبھی راضی نہ ہو گا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۶، ۲ / ۲۷۳، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۴۵۰، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹی قسمیں کھانا منافقین کا کام ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جھوٹی قسمیں کھانے والے فاسق ہیں۔
{اَلْاَعْرَابُ:دیہاتی۔} یعنی دیہات میں رہنے والے منافق کفر اور منافقت میں شہر میں رہنے والوں سے زیادہ سخت ہیں ، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ لوگ علم کی مجالس اور علماء کی صحبت سے دور رہتے ہیں ، قرآن و حدیث اور وعظ ونصیحت نہیں سنتے ۔ وہ اسی قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جوفرائض، سُنَن اور اَحکام اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل فرمائے ہیں ان سے جاہل رہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۷، ۲ / ۲۷۳)
جہالت شدت پیدا کرتی ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جہالت شدت پیدا کرتی ہے لہٰذا جو شخص بلا وجہ شدت کا عادی ہے وہ علم سے دور ہے۔ ہمارے زمانے میں بھی ایک گروہ ایسی شدت کی طرف مائل ہے کہ سب کو مشرک قرار دیتا ہے یہ شدت بھی جہالت کی علامت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دیہات والوں کو بھی چاہیے کہ علم حاصل کریں اور علماء و صالحین کی صحبت اختیار کریں کیونکہ علم اور اچھی صحبت جہالت و بے عملی کو ختم کردیتی ہے اور علم کی وجہ سے بے جا کی شدت کا خاتمہ ہوتا ہے۔
{وَ مِنَ الْاَعْرَابِ:اور کچھ دیہاتی۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ دیہاتی ایسے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں کیونکہ وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں رضائے الٰہی اور طلبِ ثواب کے لئے تو کرتے نہیں بلکہ ریا کاری کے طور پر اور مسلمانوں کے خوف سے خرچ کرتے ہیں اور وہ مسلمانوں پر گردشیں آنے کے انتظار میں رہتے ہیں اور یہ راہ دیکھتے ہیں کہ کب مسلمانوں کا زور کم ہو اور کب وہ مغلوب ہوں ، انہیں خبر نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو کیا منظورہے ، وہ اللہتعالیٰ نے بتا دیا کہ بری گردش انہی پر ہے اور وہی رنج و بلا اور بدحالی میں گرفتار ہوں گے۔ شانِ نزول: یہ آیت قبیلہ اسد، غطفان ا ور تمیم کے دیہاتیوں کے بارے میں نازل ہوئی پھر اللہ تعالیٰ نے ان میں سے جن کو علیحدہ کیا ان کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۸، ۲ / ۲۷۴)
منافقت کی علامات:
اس آیت میں منافقت کی مزید دو علامتیں بیان کی گئی ہیں ، ایک تو یہ کہ وہ راہِ خدا میں خرچ کرنے کو ٹیکس اور تاوان کی طرح سمجھتے ہیں اس لئے کبھی خوشدلی سے خرچ نہیں کرتے اور دوسری یہ کہ مسلمانوں کے نقصان کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ قرآنِ مجید کی آیات ہماری اصلاح کیلئے نازل ہوئی ہیں ا س لئے ہمیں بھی اپنے حال پر غور کرنا چاہیے کیونکہ آج ہمارے معاشرے میں بھی ایسے لوگ ہیں جو راہِ خدا میں خرچ کرنے کو اپنے عمل سے ٹیکس کی طرح سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کے نقصان کے خواہشمند رہتے ہیں۔
{وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ:اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔} اس سے پہلی آیت میں بیان فرمایا گیا کہ کچھ دیہاتی ایسے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا جا رہاہے کہ دیہاتیوں میں بعض حضرات ایسے ہیں جو نیک اور صالح مومن ہیں ، راہِ خدا میں جہاد کرنے والے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو غنیمت تَصَوُّر کرتے ہیں۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دیہات میں رہنے والے بعض حضرات ایسے ہیں کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں نزدیکیوں اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں کہ جب رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں صدقہ پیش کریں گے تو حضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کیلئے خیرو برکت و مغفرت کی دعا فرمائیں گے۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۶ / ۱۲۶-۱۲۷، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۲ / ۲۷۴، ملتقطاً)
اس آیت میں جن دیہاتیوں کا ذکر ہوا ان کے بارے میں امام مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ قبیلہ مُزَیْنَہ میں سے بنی مُقَرَّنہیں۔ کلبی نے کہا وہ اسلم ،غِفار اور جُہَینہ کے قبیلے ہیں۔ (بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۲ / ۲۷۰)
ان قبائل کے بارے میں صحیح بخاری او رمسلم میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ قریش ، انصار ، جُہَینہ ،مُزَیْنَہ ، اسلم ، غفارا ورا شجع کے لوگ ہمارے دوست ہیں ، ان کامولیٰ اللہ اور رسول کے سوا اور کوئی نہیں۔(بخاری، کتاب المناقب، باب ذکر اسلم وغفار ومزینۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۷۷، الحدیث: ۳۵۱۲، مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم لغفار واسلم، ص۱۳۶۵، الحدیث: ۱۸۹(۲۵۲۰))
آیت ’’مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔
(1)… اللہ عَزَّوَجَلَّ اور قیامت کو ماننے والا وہی ہے جو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے کیونکہ دوسرے گنوار بھی اللہ تعالیٰ اور قیامت کو مانتے تھے مگر انہیں منکرین میں شامل کیا گیا۔
(2)… تمام اعمال پر ایمان مقدم ہے ۔یاد رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور قیامت پر ایمان میں تمام ایمانیات داخل ہیں لہٰذا قیامت، جنت دوزخ، حشر، نشر سب ہی پر ایمان ضروری ہے ۔
نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے کے بغیر رضائے الٰہی کے حصول کی کوشش بیکار ہے:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ آیت کے اس حصے ’’ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ‘‘ اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں ’’ کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر نعمت میں سب سے بڑا واسطہ ہیں تو اللہ تعالیٰ کے لئے جو بھی عمل کیا جائے ا س میں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے، ارشاد فرمایا :
’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ‘‘ (ال عمران:۳۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔
تو جو یہ گمان رکھے کہ وہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو واسطہ اور وسیلہ بنائے بغیر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لے گا تو یہ اس کی خام خیالی اور بیکار کوشش ہے ۔ (صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۸۳۱)
معلوم ہوا کہ نیک اعمال میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشنودی کی نیت کرنا شرک نہیں بلکہ قبولیت کی دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور ِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا ئے مبارک ساری کائنات سے مُنفرد اور جداگانہ چیز ہے کیونکہ یہاں آیت میں قرب ِ الٰہی کے ساتھ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کا حصول ایک مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور رضائے رسول:
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ كی خوشی کیلئے بطورِ خاص کوشش کیا کرتے تھے جیسے اَحادیث میں ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں زیادہ تر نذرانے اس دن پیش کیا کرتے جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کے گھر تشریف فرما ہوتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے زیادہ محبت ہے ۔ اسی طرح سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشی ہی کیلئے خلفائے راشدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے اَزواجِ مُطہّرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکیلئے وظائف مقرر کئے ہوئے تھے۔
صدقہ وصول کرنے والے کے لئے سنت :
تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا عمل مبارک یہی تھا کہ جب آپ کی بارگاہ میں کوئی صدقہ حاضر کرتا تو اس کے لئے خیر وبرکت اور بخشش کی دعا فرماتے ۔اس سے معلوم ہو اکہ صدقہ وصول کرنے والے کیلئے سنت یہ ہے کہ صدقہ دینے والے کو دعائے خیر سے نوازے۔
{اَلَاۤ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ:سن لو! بیشک وہ ان کے لیے (اللہ کے) قرب کا ذریعہ ہے۔} یعنی بے شک ان کا خرچ کرنا ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا حاصل ہونے کا ذریعہ ہے کیونکہ انہوں نے اخلاص کے ساتھ اپنا مال خرچ کیا اور اپنے اس عمل کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف وسیلہ بنایا عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں اپنی رحمت یعنی جنت میں داخل فرمائے گا، بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے اطاعت گزار بندوں کو بخشنے والا اور ان پرمہربان ہے۔ (جلالین مع صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۸۳۱)
اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ:
اِس آیت میں راہِ خدا میں خرچ کرنے کی نہایت عظمت کا بیان ہے اور وہ یوں کہ ویسے تو ہر نیک عمل اللہ عَزَّوَجَلَّ کے قرب کا ذریعہ ہے لیکن راہِ خدا میں خرچ کرنا ایسا خاص عمل ہے کہ جس کو بطورِ خاص اللہ عَزَّوَجَلَّنے اپنے قرب کا ذریعہ قرآن میں بیان فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے قرب سے متعلق 3 اَحادیث:
یہاں آیت کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے قرب سے متعلق3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ جو میرے کسی ولی سے عداوت رکھے میں اسے اعلانِ جنگ دیتا ہوں اور میرے کسی بندے کا فرض عبادتوں کے مقابلے میں دوسری عبادتوں کے ذریعے مجھ سے قریب ہونا مجھے زیادہ پسند نہیں اور میرا بندہ (فرض عبادات کی ادائیگی کے ساتھ) نَوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے، حتّٰی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ، پھر جب اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پائوں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو اسے دیتا ہوں اور اگر میری پناہ لیتا ہے تو اسے پناہ دیتا ہوں اور جو مجھے کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی میں تردد نہیں کرتا جیسے کہ میں اس مومن کی جان نکالنے میں توقف کرتا ہوں جو موت سے گھبراتا ہے اور میں اسے ناخوش کرنا پسند نہیں کرتا ادھر موت بھی اس کے لیے ضروری ہے۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب الدعوات، باب ذکر اللہ عزّوجل والتقرّب الیہ، الفصل الاول، ۱ / ۴۲۳، الحدیث: ۲۲۶۶)
(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں ، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اکیلے ہی یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی گروہ میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر گروہ میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت گز بھر اس کے قریب ہوجاتی ہے اور اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہو جاتی ہے اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میری رحمت دوڑ کر ا س کی طرف جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: ویحذّرکم اللہ نفسہ، ۴ / ۵۴۱، الحدیث: ۷۴۰۵)
(3)…حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جو ایک نیکی کرے اسے دس گنا ثواب ہے اور زیادہ بھی دوں گا اور جو ایک گناہ کرے تو ایک برائی کا بدلہ اس کے برابر ہی ہے یا (میں چاہوں تو ) اسے بخش دوں اور جو مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میری رحمت ایک گز اس کے نزدیک ہوجاتی ہے اورجو مجھ سے ایک گز نزدیک ہو تا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ برابر اس سے قریب ہوجاتی ہے ، جو میری طرف چلتا ہوا آتا ہے تومیری رحمت اس کی طرف دوڑتی ہوئی آتی ہے، اور جو کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرائے پھر زمین بھر گناہ لے کر مجھ سے ملے تو میں اتنی ہی بخشش کے ساتھ اس سے ملوں گا۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل الذکر والدعاء والتقرّب الی اللہ تعالی، ص۱۴۴۳، الحدیث: ۲۲(۲۶۸۷))
{وَ السّٰبِقُوْنَ:اور سبقت لے جانے ۔} اس آیت کی ابتداء میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے دو گروہوں کا ذکر ہوا۔
(1)… سابقین مہاجرین یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے مہاجرین ۔ان کے بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نمازیں پڑھیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بدر مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بیت ِرضوان مراد ہیں۔
(2)… سابقین انصار یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے انصار۔ ان سے مراد وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں کہ جو بیعتِ عَقَبۂ اُولیٰ میں شریک تھے جن کی تعداد چھ تھی، یونہی بیعتِ عقبۂ ثانیہ میں شریک بارہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور بیعتِ عقبۂ ثالثہ میں شریک ستر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی سابقین انصار کہلاتے ہیں۔ پھر سابقین کے گروہ میں بھی جو ایمان قبول کرنے میں سب سے سابق ہیں وہ یہ حضرات ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا یعنی مردوں میں سب پہلے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے، عورتوں میں سب سے پہلے اُمّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایمان قبول کیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۲۷۴، ملخصاً)
{وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ: اور جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں۔} بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان سے باقی مہاجرین و انصار مراد ہیں ، اس قول کے مطابق تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اس آیت میں داخل ہوگئے اور ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان ، طاعت ا ورنیکی میں انصار و مہاجرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے راستے پرچلیں۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا کہ اسے ان کے نیک عمل قبول ہیں اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّسے راضی ہیں کہ اس کے ثواب و عطاسے خوش ہیں۔ اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور یہ حضرات ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۵)
سب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل اور جنتی ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل ہیں اور جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق نہیں لہٰذا جوبد بخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے، وہ مردود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے اور ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیث پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پکڑ فرما لے۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۴۶۳، الحدیث: ۳۸۸۸)
نیکی میں پہل کرنا زیادہ باعث فضیلت ہے:
اِس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی کرنا یقینا بہت اچھی بات ہے لیکن نیکی میں پہل کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے کیونکہ پہل کرنے والا نیکی کے اس کام کو قوت و طاقت دیتا ہے اور نیکی کی طرف جلد رغبت میں فطرت کے نیک اور اچھا ہونے کی علامت بھی ہوتی ہے۔
تابعی کی تعریف اور ان کے فضائل:
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی حالت ِ ایمان میں زیارت کرنے والے حضرات کوتابعین کہا جاتا ہے اور یہ لفظ بھی غالباً اسی آیتِ مبارکہ سے لیا گیا ہے۔ ان کے زمانے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں۔ (بخاری، کتاب الشہادات، باب لا یشہد علی شہادۃ جور اذا شہد، ۲ / ۱۹۳، الحدیث: ۲۶۵۲)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’لوگوں پر ایک ایسازمانہ آئے گا کہ جب وہ بکثرت جمع ہو کر جہاد کریں گے توان سے پوچھا جائے گا کہ کیاتم میں کوئی ایسا شخص ہے جو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت میں رہا ہو؟لوگ کہیں گے کہ ہاں ! تو انہیں فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گاکہ وہ کثیر تعداد میں جمع ہو کر جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت پائی ہو؟ وہ جواب دیں گے :ہاں !تو انہیں فتح حاصل ہو جائے گی ۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ بڑی تعداد میں جمع ہو کر جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا: کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت سے مشرف ہونے والو ں کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہو؟ لوگ اِثبات میں جواب دیں گے تو انہیں بھی فتح دی جائے گی۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۵۱۵، الحدیث: ۳۶۳۹)
حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل من رأی النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم وصحبہ، ۵ / ۴۶۱، الحدیث: ۳۸۸۴)
{وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ:اور (اے مسلمانو!) تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مدینے کے منا فقین کے حالات بیان فرمائے، اس کے بعد دیہاتیوں میں جو منافقین تھے ان کا حال بیان فرمایا، پھر بیان فرمایا کہ اکابر مؤمنین وہ ہیں جو مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ مدینہ منورہ کی آس پاس کی بستیوں میں بھی منافقین کی ایک جماعت ہے اگرچہ تم ان کے نفاق کو نہیں جانتے۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۱۳۰)
اور یونہی خود مدینہ طیبہ میں بھی کچھ منافقین ہیں جیسے عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھی اور دیگر بہت سے لوگ جن کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات میں نشاندہی کی جاتی رہی۔
صرف جگہ سے کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جاسکتا جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے، ہاں اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے جیسے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینہ طیبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۵، الحدیث: ۴۸۳(۱۳۷۷))
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ، مدینہ کو جو شخص بطورِ اعراض چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا شہید (یعنی گواہ) ہوں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ’’ جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے آگ میں اس طرح پگھلائے گا جیسے سیسہ یا اس طرح جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبیصلی اللہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۰۹-۷۱۰، الحدیث: ۴۵۹-۴۶۰(۱۳۶۳))
حضرت سفیان بن ابی زہیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ یمن فتح ہو گا ،اس وقت کچھ لوگ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور ان کو جو اُن کی اطاعت میں ہیں لے جائیں گے حالانکہ مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور شام فتح ہوگا، کچھ لوگ دوڑتے آئیں گے ، اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے، اور عراق فتح ہو گا، کچھ لوگ جلدی کرتے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب من رغب عن المدینۃ، ۱ / ۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۵، مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینۃ عند فتح الامصار، ص۷۱۹، الحدیث: ۴۹۷(۱۳۸۸))
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، ۱ / ۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۷)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا:’’ جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گااللہ عَزَّوَجَلَّ اسے خوف میں ڈالے گا۔ (ابن حبان، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ، ذکر البیان بانّ اللہ جلّ وعلا یخوف من اخاف اہل المدینۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۰، الحدیث: ۳۷۳۰، الجزء السادس)
حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ یا اللہ !عَزَّوَجَلَّ، جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل ۔ (معجم الاوسط، باب الراء، من اسمہ روح، ۲ / ۳۷۹، الحدیث: ۳۵۸۹)
حضرت عبداللہبن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ تعالیٰ اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ اور فرشتوں اور تما م آدمیوں کی لعنت اور اللہ تعالیٰ اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔(مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ وارادہم بسو ء، ۳ / ۶۵۹، الحدیث: ۵۸۲۶)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرکار ِدو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، ۵ / ۴۸۳، الحدیث: ۳۹۴۳)
{ لَا تَعْلَمُهُمْؕ-نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ:تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں۔} اس کے معنی یا تویہ ہیں کہ ایسا جاننا جس کا اثر انہیں معلوم ہو ،وہ ہمارا جاننا ہے کہ ہم انہیں عذاب کریں گے یا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے منافقین کا حال جاننے کی نفی جو پہلے ہو چکا اس کے اعتبار سے ہے اور اس کا علم بعد میں عطا ہوا جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا
’’وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ‘‘ (محمد:۳۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ضرور تم انہیں گفتگو کے انداز میں پہچان لو گے۔ (جمل، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۰۴، ملخصاً)
کلبی اور سدی نے کہا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن خطبے کے لئے قیام کرکے نام بنام فرمایا: نکل اے فلاں ! تو منافق ہے ،نکل۔ اے فلاں ! تو منافق ہے، تو مسجد سے چند لوگوں کو رسوا کرکے نکالا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اس کے بعد منافقین کے حال کا علم عطا فرمایا گیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۲۷۶)
{سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ:عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے۔} دو مرتبہ عذاب دینے سے مراد یہ ہے ایک بار تو دنیا میں رسوائی اور قتل کے ساتھ اور دوسری مرتبہ قبر میں عذاب دیں گے۔ پھر انہیں بڑے عذاب یعنی عذابِ دوزخ کی طرف پھیرا جائے گا جس میں ہمیشہ گرفتار رہیں گے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ منافقین کو تین بار عذاب دے گا ایک مرتبہ دنیا میں ، دوسری مرتبہ قبر میں اور تیسری مرتبہ آخرت میں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۲۷۶)
اسی آیت میں عذاب ِ قبر کا بھی ثبوت ہے۔ بعض بے علم لوگ اور منکرینِ حدیث عذاب ِقبر کا انکار کرتے ہیں یہ صریح گمراہی ہے ۔ اِس بارے میں اَحادیث بکثرت ہیں جن میں سے 5یہاں پر بیان کی جاتی ہیں۔
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم مُردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذابِ قبر سنائے۔ (مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب عرض مقعد المیّت من الجنّۃ او النار علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۵۳۴، الحدیث: ۶۸(۲۸۶۸))
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو قبروں کے پا س سے گزرے تو ارشاد فرمایا ’’ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ کسی (ایسے) بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دئیے جا رہے (جن سے بچنا مشکل ہو)۔پھر ارشاد فرمایا’’کیوں نہیں ! (بے شک وہ گناہ معصیت میں بڑا ہے) ان میں سے ایک چغلی کھایا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔ پھر آپ نے ایک سبز ٹہنی توڑی اور اس کے دو حصے کئے ،پھر ہر قبر پرا یک حصہ گاڑ دیا، پھر فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۱۳۷۸)
(3)…حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ہم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایک انصا ری صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے جنازے میں نکلے ،جب قبر تک پہنچے تو وہ ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی چنانچہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے اردگرد اس طرح خاموشی سے بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دستِ مبارک میں ایک لکڑی تھی جس کے ساتھ زمین کرید نے لگے اور سرِ انور اٹھا کر دو یا تین مرتبہ ارشاد فرمایا ’’اِسْتَعِیْذُوْا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔( ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب فی المسألۃ فی القبر وعذاب القبر، ۴ / ۳۱۶، الحدیث: ۴۷۵۳)
(4)…حضرت امّ مبشر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں کہ میں بنو نجار کے ایک باغ میں تھی اور اس میں بنو نجار کے زمانۂ جاہلیت میں مرنے والوں کی قبریں تھیں اس وقت میرے پا س رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے، پھر جاتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اِسْتَعِیْذُوْا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ میں نے سنا تو عرض کی ’’یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! مردے اپنی قبروں میں ایسا عذاب دیئے جاتے ہیں جسے جانور سنتے ہیں۔(معجم ا لکبیر، امّ مبشر الانصاریۃ، ۲۵ / ۱۰۳، الحدیث: ۲۶۸)
(5)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَدعا مانگا کرتے ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ‘‘ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں عذابِ قبر سے، جہنم کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ لیتا ہوں۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب التعوّذ من عذاب القبر، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۱۳۷۷)
{وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ:اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔} یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جنہوں نے دوسروں کی طرح جھوٹے عذر نہ کئے بلکہ انہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا اور اپنے فعل پر نادم ہوئے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۴۵۲)
شانِ نزول: جمہور مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت مدینہ طیبہ کے مسلمانوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو غزوۂ تبوک میں حاضر نہ ہوئے تھے ،اس کے بعد نادم ہوئے اور توبہ کی اور کہا :افسوس ہم گمراہوں کے ساتھ یا عورتوں کے ساتھ رہ گئے حالانکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُمجہاد میں ہیں۔ جب حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے سفر سے واپس ہوئے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو ان لوگوں نے قسم کھائی کہ ہم اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیں گے اور ہر گز نہ کھولیں گے یہاں تک کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کھولیں۔یہ قسمیں کھا کر وہ مسجد کے ستونوں سے بندھ گئے جب حضورِانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور انہیں ملاحظہ کیا تو فرمایا: یہ کون ہیں ؟ عرض کیا گیا :یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد میں حاضر ہونے سے رہ گئے تھے، انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد کیا ہے کہ یہ اپنے آپ کو نہ کھولیں گے جب تک حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن سے راضی ہو کر اُنہیں خود نہ کھولیں۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا اور میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں انہیں نہ کھولوں گا نہ اُن کا عذر قبول کروں جب تک کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے کھولنے کا حکم نہ دیا جائے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں کھولا تو انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ مال ہمارے رہ جانے کاسبب بنے۔ انہیں لیجئے اور صدقہ کیجئے اور ہمیں پاک کردیجئے اور ہمارے لئے دُعائے مغفرت فرمائیے ۔ حضورپُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: مجھے تمہارے مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا اس پر اگلی آیت ’’خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ‘‘ نازل ہوئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۲۷۶-۲۷۷)
{عَمَلًا صَالِحًا:ایک اچھا عمل۔} یہاں اچھے عمل سے یا قصور کا اعتراف کرلینا اور توبہ کرنامراد ہے یا اس غزوے میں حاضر نہ ہونے سے پہلے غزوات میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ حاضر ہونا مراد ہے یا طاعت و تقویٰ کے تمام اعمال مراد ہیں ،اس صورت میں یہ آیت تمام مسلمانوں کے بارے میں ہوگی۔ آیت کے اگلے حصے میں برے عمل سے تَخَلُّفْ یعنی جہاد سے رہ جانا مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۲۷۷)
{عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ:عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے توبہ کرنے کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کے اعتراف کو ذکر کر دیا اور گناہوں کا اعترف توبہ کی دلیل ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۴۵۳)
گناہوں پر ندامت بھی توبہ ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ گناہوں پر شرمندہ ہونا بھی توبہ ہے بلکہ توبہ کی اہم شرط ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’شرمندگی توبہ ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ، ۴ / ۴۹۲، الحدیث: ۴۲۵۲)
نیز گناہوں پر شرمندگی عام طور پر گناہ چھڑوا ہی دیتی ہے، اسی لئے گناہوں پر جَری اور بیباک کی مذمت زیادہ ہے۔ اِس آیت میں ہم جیسے گناہگاروں کیلئے بھی بڑی امید ہے کہ اگرچہ ہمارے گناہ بے حدوحساب ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیک اعمال بھی کرہی لیتے ہیں اور اگر ہمارے اعمال ناقص ہیں تو کم از کم ہمارا نفسِ ایمان تو قطعی اور یقینی طور پر درست ہے اور وہ بھی نیک عمل ہے۔
{خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً:اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو۔} اس آیت میں جو ’’صدقہ‘‘ کا لفظ مذکور ہے اس کے معنی میں مفسرین کے کئی قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ جن صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ذکر اُوپر کی آیت میں ہے ،انہوں نے کفارے کے طور پر جو صدقہ دیا تھا وہ مراد ہے اوروہ صدقہ ان پر واجب نہ تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس صدقہ سے مراد وہ زکوٰۃ ہے جو اُن کے ذمہ واجب تھی ،انہوں نے توبہ کی اور زکوٰۃ ادا کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لینے کا حکم دیا۔ امام ابوبکر جصاص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدقہ سے زکوٰۃ مراد ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۲۷۸، احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، باب دفع الصدقات الی صنف واحد، ۳ / ۱۹۰)
{وَصَلِّ عَلَیْهِمْ:اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔} صدقہ پیش کرنے والے کے لئے دعائے خیر کرناسیّدا لمرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معمولات میں شامل تھا ،چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بِن اَبی اوفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ جب کوئی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس صدقہ لاتا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے حق میں دُعا کرتے، میرے والد صاحب نے صدقہ حاضر کیا تو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی ’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ اَوْفٰی‘‘ اے اللہ! ابو اَوفی کی اولاد پر رحمت نازل فرما۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب صلاۃ الامام ودعائہ لصاحب الصدقۃ، ۱ / ۵۰۴، الحدیث: ۱۴۹۷، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الدعاء لمن اتی بصدقۃ، :ص۵۴۲، الحدیث: ۱۷۶(۱۰۷۸))
تفسیرمدارک میں ہے: سنت یہ ہے کہ صدقہ لینے والا صدقہ دینے والے کے لئے دعا کرے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۴۵۳)
{اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ:بیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے ۔}یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی دعا ان کے لئے رحمت اور دلوں کا چین ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومنوں کے دلوں کا چین ہیں اور مسلمان کو جس قدر محبت و رغبت حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعائے مبارک کے حصول میں ہوسکتی ہے اور کس چیز میں ہوگی؟ یہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری زندگی میں بھی تھا اور اب بھی ہے کیونکہ ہمارے اعمال نبی ٔرحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں ، اچھے عمل دیکھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں اور اگر اچھے نہ پائیں تو ہمارے لئے استغفار کرتے ہیں جیساکہ حدیث پاک میں ہے ’’ میری زندگی تمہارے لئے بہتر ہے اور میرا انتقال فرمانا تمہارے لئے بہتر ہے،تمہارے اعمال میری بارگاہ میں پیش کئے جائیں گے اگر اچھے عمل پاؤں گا تو میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد کروں گا اور اگر اچھے اعمال کے علاوہ پاؤں گا تو تمہارے لئے مغفرت طلب کروں گا۔(مسند البزار، زاذان عن عبد اللہ، ۵ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۹۲۵)
لہٰذا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا ان کی زندگی اور وفات کے بعد دونوں صورتوں میں حاصل ہو گی اور دلوں کے چین و سکون کا باعث بھی ہو گی۔
{اَلَمْ یَعْلَمُوْا:کیا انہیں معلوم نہیں۔} اس آیت میں توبہ کرنے والوں کو بشارت دی گئی کہ ان کی توبہ اور ان کے صدقات مقبول ہیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جن لوگوں نے اب تک توبہ نہیں کی اس آیت میں انہیں توبہ اور صدقہ کی ترغیب دی گئی ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۲۷۹)
ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں :
یاد رہے کہ ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں ، بلکہ مختلف جرموں کی توبہ بھی مختلف ہے جیسے اگر اللہ تعالیٰ کے حقوق تَلف کئے ہوں مثلاً نمازیں قضا کی ہوں ، رمضان کے روزے نہ رکھے ہوں ، فرض زکوٰۃ ادا نہ کی ہو، حج فرض ہونے کے بعد حج نہ کیا ہو ان سے توبہ یہ ہے کہ نماز روزے کی قضا کرے، زکوٰۃ ادا کرے ، حج کرے اور ندامت و شرمندگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی تقصیر کی معافی مانگے، اسی طرح اگر اپنے کان ،آنکھ، زبان، پیٹ، ہاتھ پاؤں ، شرمگاہ اور دیگر اَعضا سے ایسے گناہ کئے ہوں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ ہو بندوں کے حقوق کے ساتھ نہ ہو جیسے غیر مَحرم عورت کی طرف دیکھنا، جنابت کی حالت میں مسجد میں بیٹھنا، قرآنِ مجید کو بے وضو ہاتھ لگانا، شراب نوشی کرنا، گانے باجے سننا وغیرہ، ان سے توبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتے، ان گناہوں پر ندامت کااظہار کرتے اور آئندہ یہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرتے ہوئے معافی طلب کرے اور اس کے بعد کچھ نہ کچھ نیک اعمال کرے کیونکہ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں ،اور اگر بندوں کے حقوق تلف کئے ہوں تو ان کی تین صورتیں ہیں :
(1)… ان حقوق کا تعلق صرف قرض کے ساتھ ہے جیسے خریدی ہوئی چیز کی قیمت، مزدور کی اجرت یا بیوی کا مہر وغیرہ۔
(2)… ان حقوق کا تعلق صرف ظلم کے ساتھ ہے جیسے کسی کو مارا، گالی دی یا غیبت کی اور اس کی خبر ا س تک پہنچ گئی۔
(3)… ان کا تعلق قرض اور ظلم دونوں کے ساتھ ہے، جیسے کسی کا مال چرایا، چھینا، لوٹا، کسی سے رشوت لی، سود لیا یا جوئے میں مال جیتا وغیرہ۔
پہلی صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے یا صاحب ِحق سے معافی حاصل کرے۔ دوسری صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ صرف صاحب ِحق سے معافی طلب کرے اور تیسری صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حقوق ادا بھی کرے اور صاحب ِحق سے معافی بھی حاصل کرے۔ اگرتوبہ کی شرائط جمع ہوں تو توبہ ضرور قبول ہوگی کیونکہ یہ رب تعالیٰ کا وعدہ ہے اوراپنے وعدے کے خلاف کرنا اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی کے لائق نہیں۔
یہاں توبہ کی قبولیت سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو ،چنانچہ توبہ سے پہلے حضرت عتبہ غلام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی فتنہ انگیزی اور شراب نوشی کی داستانیں مشہور تھیں ، ایک دن آپ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی مجلس میں آئے، اس وقت حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس آیت ’’اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ‘‘(حدید:۱۶)(کیاایمان والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لئے جھک جائیں )کی تفسیر بیان کررہے تھے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اس آیت کی ایسی تشریح کی کہ لوگ رونے لگے،اس دوران ایک جوان مجلس میں کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: اے مومن بندے! کیا مجھ جیسا فاسق و فاجر بھی اگر توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا ’’ ہاں ، اللہ تعالیٰ تیرے گناہوں کو معاف کردے گا، جب عتبہ نے یہ بات سنی تو ان کا چہرہ زرد پڑگیا اور کانپتے ہوئے چیخ مار کر بے ہوش ہوگئے، جب انہیں ہوش آیا تو حضرتِ حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ان کے قریب آکر یہ شعر پڑھے، جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ’’ اے اللہ تعالیٰ کے نافرمان جوان! تو جانتا ہے کہ نافرمانی کی سزا کیا ہے؟ نافرمانوں کے لئے پُر شور جہنم ہے اور حشر کے دن اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی ہے۔ اگر تو نارِ جہنم پر راضی ہے تو بے شک گناہ کرتا رہ، ورنہ گناہوں سے رک جا۔ تونے اپنے گناہوں کے بدلے اپنی جان کو رہن رکھ دیا ہے، اس کو چھڑانے کی کوشش کر۔
عتبہ نے پھر چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے، جب ہوش آیا تو کہنے لگے اے شیخ! کیا مجھ جیسے بدبخت کی توبہ ربِ رحیم قبول کرلے گا؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے کہا: درگزر کرنے والا رب عَزَّوَجَلَّ ظالم بندے کی توبہ قبول فرمالیتا ہے، اس وقت عتبہ نے سراٹھا کر اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں :
(1)…اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو نے میرے گناہوں کو معاف اور میری توبہ کو قبول کرلیا ہے تو ایسے حافظے اور عقل سے میری عزت افزائی فرما کہ میں قرآنِ مجید اور علومِ دین میں سے جو کچھ بھی سنوں ، اُسے کبھی فراموش نہ کروں۔
(2)…اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، مجھے ایسی آواز عنایت فرماکہ میری قرأت کو سن کر سخت سے سخت دل بھی موم ہوجائے۔
(3)…اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، مجھے رزقِ حلال عطا فرما اور ایسے طریقے سے دے جس کا میں تَصَوُّر بھی نہ کرسکوں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عتبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تینوں دعائیں قبول کرلیں ، ان کا حافظہ اور فہم و فراست بڑھ گئی اور جب وہ قرآن کی تلاوت کرتے تو ہر سننے والا گناہوں سے تائب ہوجاتا تھا اور ان کے گھر میں ہر روز شوربے کا ایک پیالہ اور دوروٹیاں (رزقِ حلال سے) پہنچ جاتیں ، اور کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کون رکھ جاتا ہے اور حضرت عتبہ غلام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ساری زندگی ایسا ہی ہوتا رہا۔( مکاشفۃ القلوب، الباب الثامن فی التوبۃ، ص۲۸-۲۹)اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔([1])
{وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ:اور خود صدقے ( اپنے دستِ قدرت میں ) لیتا ہے۔} اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقات کو قبول کرتا اور اس پر ثواب عطا فرماتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۲۷۹)
اللہ تعالیٰ پاکیزہ مال سے دیا گیا صدقہ قبول فرماتا ہے:
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص پاکیزہ مال سے صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ پاکیزہ مال کے سوا قبول نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے خواہ وہ ایک کھجور ہو پھر وہ صدقہ رحمٰن عَزَّوَجَلَّکے دستِ قدرت میں بڑھتا رہتا ہے حتّٰی کہ پہاڑ سے زیادہ ہو جاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص گھوڑے یا اونٹ کے بچے کو پالتا ہے۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیّب وتربیتہا، ص۵۰۶، الحدیث: ۶۳(۱۰۱۴))
یاد رہے کہ حدیثِ پاک میں مذکور دائیں ہاتھ سے جسم والا دایاں ہاتھ مراد نہیں بلکہ یہ مُتَشابہات میں سے ہے جس کا معنی وہی ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّکی شایانِ شان ہے۔ نیز اس حدیثِ پاک میں ان لوگوں کے لئے بھی نصیحت ہے جو سود اور رشوت وغیرہ کی حرام آمدنی سے صدقات و خیرات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے رہا ہے، اس لئے ہم غریبوں کی بھلائی اور رشتہ داروں سے صِلہ رحمی کرنے میں اس مال کو خرچ کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے اس حدیث پاک میں بڑی عبرت ہے ،چنانچہ حضرت قاسم بن مُخَیْمِرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو شخص گناہ کے ذریعے مال حاصل کر کے اس سے صلہ رحمی کرتا یا صدقہ کرتا یا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سب کو جمع کر کے جہنم میں ڈال دے گا۔ (ابن عساکر، موسی بن سلیمان بن موسی ابو عمرو الاموی، ۶۰ / ۴۰۹)
حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تمہیں وہ شخص تعجب میں نہ ڈالے جس نے حرام مال کمایا کیونکہ اگر وہ اس مال کو (راہِ خدا میں ) خرچ کرے یا اسے صدقہ کرے تو وہ قبول نہ کیا جائے گا اور اگر اسے چھوڑ دے تو اس میں برکت نہیں دی جائے گی اور اس میں سے کچھ بچ جائے تو یہ جہنم کی طرف ا س کا زادِ راہ ہو گا (شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۹۶، الحدیث: ۵۵۲۵)۔ ([2])
{وَ قُلِ اعْمَلُوْا:اور تم فرما ؤ: تم عمل کرو ۔} اس آیت میں اطاعت گزاروں کو عظیم ترغیب اور گناہگاروں کوبڑی ترہیب دی گئی ہے ، توگویا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’تم مستقبل کے لئے کوشش کرو کیونکہ تمہارے اعمال کا ایک ثمرہ دنیا میں ہے اور ایک ثمرہ آخرت میں ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور مسلمان تمہارے اعمال دیکھ رہے ہیں ، اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت کرو گے تو دنیا میں تمہاری بڑی تعریف ہو گی اور دنیا و آخرت میں تمہیں عظیم اجر ملے گا اور اگر تم اللہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کرو گے تو دنیا میں تمہاری مذمت ہو گی اور آخرت میں تمہیں شدید عذاب ہو گا۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۶ / ۱۴۲)
{وَ سَتُرَدُّوْنَ:اورجلد ہیتم لوٹائے جاؤگے۔} یعنی عنقریب تم قیامت کے دن اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو تمہاری خَلْوَت اور جَلْوَت کو جانتا ہے، تمہارے ظاہر و باطن میں سے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ، تم دنیا میں اچھے برے جو اعمال کرتے تھے وہ تمہیں بتا دے گا اور تمہیں تمہارے اَعمال کی جزا د ے گا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۲ / ۲۸۰)
{وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ:اور اللہ کا حکم آنے تک کچھ دوسروں کو مُؤخر کردیا گیا ہے ۔}یعنی غزوۂ تبوک سے رہ جانے والے کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں مَوقوف رکھا گیا ہے یہاں تک کہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ظا ہر ہو جائے، اگر وہ اپنے جرم پر قائم رہے اور توبہ نہ کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں عذاب دے گا اور اگر انہوں نے توبہ کر لی تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لے گا۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ص۴۵۳) غزوۂ تبوک سے رہ جانے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی تعداد دس تھی، ان میں سے سات صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ندامت و شرمندگی کی وجہ سے خود کو مسجد کے ستونوں سے بندھوا لیا تھا۔ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں ان سات صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اعترافِ جرم اور توبہ کی قبولیت کا ذکر مذکورہ بالا آیات میں ہوا جبکہ بقیہ تین صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے چونکہ اُن کی طرح ستونوں سے بندھ کر اپنی توبہ اور ندامت کا اظہار نہ کیا تھا اس لئے ان کی توبہ کی قبولیت کو مؤخر کردیا گیا۔ اس آیت میں انہی تین صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ذکر ہے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ص۴۵۳-۴۵۴، ملخصاً)ان کی توبہ کی قبولیت کا ذکراسی سورت کی آیت نمبر 118 میں ہے۔
{وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا:اور وہ جنہوں نے نقصان پہنچانے کے لئے مسجد بنائی۔} شانِ نزول: یہ آیت منافقین کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مسجدِ قبا کو نقصان پہنچانے اور اس کی جماعت میں تفریق ڈالنے کیلئے اس کے قریب ایک مسجد بنائی تھی، اس میں ایک بڑی چال تھی وہ یہ کہ ابو عامر جو زمانہ ٔجاہلیت میں نصرانی راہب ہو گیا تھا، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے مدینہ طیبہ تشریف لانے پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہنے لگا:یہ کون سا دین ہے جو آپ لائے ہیں ؟ حضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :میں ملتِ حَنِیْفِیَّہ، دینِ ابراہیم لایا ہوں۔ابو عامر کہنے لگا :میں اسی دین پر ہوں۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ، نہیں۔ اس نے کہا کہ آپ نے اس میں کچھ اور ملا دیا ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا نہیں ،میں خالص صاف ملّت لایا ہوں۔ پھرابو عامر نے کہا: ہم میں سے جو جھوٹا ہو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کو حالت ِسفر میں تنہا اور بیکس کرکے ہلاک کرے ۔ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے آمین فرمایا۔ لوگوں نے اس کا نام ابو عامر فاسق رکھ دیا۔ جنگِ اُحد کے دن ابو عامر فاسق نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے کہا کہ جہاں کہیں کوئی قوم آپ سے جنگ کرنے والی ملے گی میں اس کے ساتھ ہو کر آپ سے جنگ کروں گا ۔ چنانچہ جنگِ حُنَین تک اس کا یہی معمول رہا اور وہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ مصروفِ جنگ رہا ،جب ہوازن کو شکست ہوئی اور وہ مایوس ہو کر ملک شام کی طرف بھاگا تو اُس نے منافقین کو خبر بھیجی کہ تم سے قوت واسلحہ جو سامانِ جنگ ہوسکے سب جمع کرو اور میرے لئے ایک مسجد بناؤ ۔ میں شاہ ِروم کے پاس جاتا ہوں وہاں سے رومی لشکر لے کر آؤں گا اور (سیّد ِعالم ) محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اور ان کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو نکالوں گا ۔یہ خبر پا کر اُن لوگوں نے مسجدِ ضِرار بنائی تھی اور رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے عرض کیا تھا یہ مسجد ہم نے آسانی کے لئے بنادی ہے کہ جو لوگ بوڑھے ضعیف کمزور ہیں وہ اس میں بہ فراغت نماز پڑھ لیا کریں ،آپ اس میں ایک نماز پڑھ دیجئے اور برکت کی دعا فرمادیجئے۔ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ اب تو میں سفرِ تبوک کے لئے جارہا ہوں ،واپسی پر اللہ عَزَّوَجَلَّکی مرضی ہوگی تو وہاں نماز پڑھ لوں گا۔ جب نبی ٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوۂ تبوک سے واپس ہو کر مدینہ شریف کے قریب ایک علاقے میں ٹھہرے تو منافقین نے آپ سے درخواست کی کہ اُن کی مسجد میں تشریف لے چلیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اُن کے فاسد ارادوں کا اظہار فرمایا گیا، تب رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو حکم دیا کہ اس مسجد کو جا کر گرادیں اور جلا دیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور ابو عامر راہب ملکِ شام میں بحالتِ سفر بے کسی و تنہائی میں ہلاک ہوا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲ / ۲۸۱)
مسجد کے نام پر بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے:
اِس سے معلوم ہوا کہ مسجد کے نام پر بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچایاجاسکتااور اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دشمنی کی جاسکتی ہے لہٰذا ایسی مسجدوں سے بھی دور رہا جائے جہاں اللہ تعالیٰ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نقص نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جہاں مسلمانوں کو باطل تعلیم دے کر لڑایا جاتا ہے۔ آج بھی جو مسجد دین میں فساد اور مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کیلئے بنائی جائے وہ مسجدِ ضرار ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کی کوشش کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔
{لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًا:(اے حبیب!) آپ اس مسجد میں کبھی کھڑے نہ ہوں۔} اس آیت میں تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مسجدِ ضرار میں نماز پڑھنے کی ممانعت فرمائی گئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۲۸۲)
فخر و ریاکاری کی نیت سے مسجد تعمیر کرنے کی مذمت:
امام عبداللہ بن احمد نسفیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ جو مسجد فخر و ریا اور نمود و نمائش یا رضائے الٰہی کے سوا اور کسی غرض کے لئے یا حرام مال سے بنائی گئی ہو وہ بھی مسجدِ ضرار کے ساتھ لاحق ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ص۴۵۴)
فی زمانہ مسلمانوں میں ایک تعداد ایسی ہے جنہیں عالیشان مسجد تعمیر کرنے پر اور زیادہ مساجد بنانے پر ایک دوسرے سے فخر کااظہار کرتے دیکھا گیا ہے، ان کے دلوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے یا خود انہیں اپنے دلوں کا حال اچھی طرح معلوم ہے ، اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کی عبادت کرنے میں مسلمانوں کو سہولت پہنچانے کی نیت سے عالی شان اور خوبصورت مساجد بنائی ہیں تو ان کایہ عمل لائقِ تحسین اوراجر و ثواب کاباعث ہے اور اگر ان کی نیت یہ نہ تھی بلکہ خوبصورت مساجد بنانے سے ریاکاری اور فخر و بڑائی کا اظہار مقصود تھا اگرچہ زبان سے لوگوں کے سامنے یہ صدا عام تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کی یہ کوشش قبول فرمائے ،تو انہیں چاہئے کہ درج ذیل3 اَحادیث سے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت کی نشانی یہ بھی ہے کہ لوگ مسجد تعمیر کرنے میں فخر کریں گے ۔ (نسائی، کتاب المساجد، المباہاۃ فی المساجد، ص۱۲۰، الحدیث: ۶۸۶) یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اخلاص کے ساتھ نہیں بلکہ نامْوَری، ریاکاری اور بڑائی کی نیت سے مسجد یں تعمیر کریں گے۔
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ لو گ جب مسجد (تعمیر کرنے) کے معاملے میں فخر کرنے لگ جائیں گے۔ (ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب تشیید المساجد، ۱ / ۴۰۹، الحدیث: ۷۳۹)
(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں وہ مسجدیں تعمیر کرنے میں ایک دوسرے پر فخر کیا کریں گے اور انہیں آباد کم کیا کریں گے۔( صحیح ابن خزیمہ، جماع ابواب فضائل المساجد وبنائہا وتعظیمہا، باب کراہۃ التباہی فی بناء المساجد۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۸۱، الحدیث: ۱۳۲۱)
یاد رہے کہ کسی کے دل کا حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے ہم کسی کے دل کا حال معلوم کر سکیں اس لئے کسی مسلمان پر بد گمانی کرنے اور اس پر یہ الزام ڈالنے کی شرعاً کسی کو اجاز ت نہیں کہ اس نے فخر و ریاکاری کی نیت سے مسجد تعمیر کی ہے لیکن تعمیر کرنے والے کو بہرحال اپنے قلب کی طرف نظر رکھنی چاہیے کہ اس کا مقصد کیا ہے۔
{لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ:بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے۔} اس سے مراد مسجدِ قباء ہے جس کی بنیاد رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رکھی اور جب تک حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قبا میں قیام فرمایا اس میں نماز پڑھی ۔ مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مسجدِ مدینہ مراد ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۴۵۵)
یاد رہے کہ دونوں مسجدوں کے بارے میں حدیثیں مذکور ہیں اور ان دونوں باتوں میں کوئی تَعارُض نہیں کیونکہ آیت کا مسجدِ قبا ء کے حق میں نازل ہونا اس بات کو مُستَلْزِم نہیں ہے کہ مسجد ِمدینہ میں یہ اَوصاف نہ ہوں۔ احادیث میں مسجدِ نبوی اور مسجدِ قبا ء کے کثیر فضائل مذکور ہیں ،ان میں سے چند فضائل درج ذیل ہیں :
مسجدِ نَبوی کے3 فضائل:
یہاں آیت کی مناسبت سے مسجدِ نبوی کے تین فضائل ملاحظہ ہوں
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۳-باب، ۱ / ۶۲۱، الحدیث: ۱۸۸۸)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’کسی شخص کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا ایک نماز کا ثواب ہے ،اور اس کا محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا پچیس نمازوں کا ثواب ہے اور ا س کا جامع مسجد میں نماز پڑھنا پانچ سو نمازوں کا ثواب ہے اور اس کا مسجدِ اقصیٰ میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور اس کا میری مسجد میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور ا س کامسجدِ حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب ما جاء فی الصلاۃ فی المسجد الجامع، ۲ / ۱۷۶، الحدیث: ۱۴۱۳)
(3)…حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میرے اس منبر کے پائے جنت میں نَصب ہیں۔ (نسائی، کتاب المساجد، فضل مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم والصلاۃ فیہ، ص۱۲۱، الحدیث: ۶۹۳)
مسجدِ قبا کے3 فضائل:
مسجدِ قبا کو بھی بہت فضیلت حاصل ہے ،چنانچہ اس کے بھی تین فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر ہفتے مسجدِ قبا میں (کبھی) پیدل اور (کبھی) سوار ہو کر تشریف لاتے تھے ۔ (بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، من اتی مسجد قباء کلّ سبت، ۱ / ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۳)
(2)…حضرت سہل بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اپنے گھر سے نکلے، پھر مسجد ِقبا میں آ کر نماز پڑھے تو اسے ایک عمرے کا ثواب ملے گا۔ (نسائی، کتاب المساجد، فضل مسجد قباء والصلاۃ فیہ، ص۱۲۱، الحدیث: ۶۹۶)
(3)…حضرت اُسَید بن ظُہَیر انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسجدِ قبا میں نماز پڑھنے کا ثواب عمرہ کے برابر ہے ۔ (ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی الصلاۃ فی مسجد قبائ، ۱ / ۳۴۸، الحدیث: ۳۲۴)
{یُحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا:وہ لوگ خوب پاک ہونا پسند کرتے ہیں۔} شانِ نزول: یہ آیت مسجدِ قبا والوں کے حق میں نازل ہوئی، سیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اُن سے فرمایا : اے گروہِ انصار! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہاری تعریف فرمائی ہے، تم وضو اور استنجے کے وقت کیا عمل کرتے ہو؟ اُنہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم بڑا استنجا تین ڈھیلوں سے کرتے ہیں ،اس کے بعد پانی سے طہارت کرتے ہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۴۵۵)
اسلام میں صفائی کی اہمیت:
ہر صاحب ِذوق شخص اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ امیری ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی ، ستھرائی انسان کے وقار و شرف کی آئینہ دار ہے جبکہ گندگی انسان کی عزت وعظمت کی بد ترین دشمن ہے۔ دینِ اسلام نے جہاں انسان کو کفر و شرک کی نجاستوں سے پاک کر کے عزت و رفعت عطا کی وہیں ظاہری طہارت، صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کی اعلیٰ تعلیمات کے ذریعے انسانیت کا وقار بلند کیا، بدن کی پاکیزگی ہو یا لباس کی ستھرائی، ظاہری ہَیئت کی عمدگی ہو یا طور طریقے کی اچھائی ،مکان اور سازو سامان کی بہتری ہو یا سواری کی دھلائی الغرض ہر ہر چیز کو صاف ستھرا اور جاذبِ نظر رکھنے کی دینِ اسلام میں تعلیم اور ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ‘‘ (البقرہ:۲۲۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوئ، ص۱۴۰، الحدیث: ۱(۲۲۳))
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاسے روایت ہے، سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ بے شک اسلام صاف ستھرا (دین) ہے تو تم بھی نظافت حاصل کیا کرو کیونکہ جنت میں صاف ستھرا رہنے والا ہی داخل ہو گا۔ (کنز العمال، حرف الطاء، کتاب الطہارۃ، قسم الاقوال، الباب الاول فی فضل الطہارۃ مطلقاً، ۵ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۵۹۹۶، الجزء التاسع )
ایک روایت میں ہے کہ جو چیز تمہیں مُیَسّر ہو اس سے نظافت حاصل کرو، اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی ہے اور جنت میں صاف ستھرے رہنے والے ہی داخل ہوں گے۔ (جمع الجوامع، حرف التائ، التاء مع النون، ۴ / ۱۱۵، الحدیث: ۱۰۶۲۴)
حضرت سہل بن حنظلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جو لباس تم پہنتے ہو اسے صاف ستھرا رکھو اور اپنی سواریوں کی دیکھ بھال کیا کرو اور تمہاری ظاہری ہیئت ایسی صاف ستھری ہو کہ جب لوگوں میں جاؤ تو وہ تمہاری عزت کریں۔ (جامع صغیر، حرف الہمزۃ،ص۲۲، الحدیث: ۲۵۷)
حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس حدیث میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے انسان نفرت و حقارت محسوس کرے اس سے بچا جائے خصوصاً حُکّام اور علماء کو ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔(فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۱ / ۲۴۹، تحت الحدیث: ۲۵۷)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ’’ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے یہاں تشریف لائے، ایک شخص کو پَراگندہ سر دیکھا، جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں ، فرمایا: ’’کیا اس کو ایسی چیز نہیں ملتی جس سے بالوں کو اکٹھا کرلے اور دوسرے شخص کو میلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیا اسے ایسی چیز نہیں ملتی، جس سے کپڑے دھولے۔(ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی غسل الثوب وفی الخلقان، ۴ / ۷۲، الحدیث: ۴۰۶۲)
حضرت عطاء بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں کہ رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی طرف اشارہ کیا، گویا بالوں کے درست کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ وہ شخص درست کرکے واپس آیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’کیا یہ اس سے بہتر نہیں ہے کہ کوئی شخص بالوں کو اس طرح بکھیر کر آتا ہے گویا وہ شیطان ہے۔ (مؤطا امام مالک، کتاب الشعر، باب اصلاح الشعر، ۲ / ۴۳۵، الحدیث: ۱۸۱۹)
حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّطیِّب ہے۔ طِیْب یعنی خوشبو کو دوست رکھتا ہے، ستھرا ہے ستھرائی کو دوست رکھتا ہے، کریم ہے کرم کو دوست رکھتا ہے، جواد ہے جودو سخاوت کو دوست رکھتا ہے۔ لہٰذا اپنے صحن کو ستھرا رکھو، یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔ (ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی النظافۃ، ۴ / ۳۶۵، الحدیث: ۲۸۰۸)
اسلا م میں صفائی کی اہمیت کے حوالے سے سرِ دست یہ چند روایتیں ذکر کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
{اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ:تو کیا جس نے اپنی بنیاد رکھی۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے دین کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الٰہی کی مضبوط سطح پر رکھی وہ بہتر ہے نہ کہ وہ جس نے اپنے دین کی بنیاد باطل و نفاق کے ٹوٹے ہوئے کناروں والے گڑھے پر رکھی۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۴۵۵)
ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی:
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! کیسی پیاری تشبیہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مسجدِ ضِرار اور منافقین کے سارے اعمال اس عمارت کی طرح ہیں جو دریا کے نیچے سے کاٹی یا گلی ہوئی زمین پر بنادی جائے اور پھر وہ زمین مع اس عمارت کے دریا میں گر جائے۔ ایسے ہی منافقین کی مسجدیں ہیں کہ ان کی مسجد بھی دوزخ میں ہے، اور وہ خود بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کی میٹھی باتوں اور ظاہری نیکیوں کو دیکھ کر اس کے نیک ہونے کا یقین نہ کرلینا چاہیے، ہر چمکدار چیز سونا نہیں ہوتی۔ یہ آیت ِ مبارکہ اس بات کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ مسجدوں کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الٰہی پر ہونی چاہیے ۔ لہٰذا صرف اپنی برادری کا علم بلند کرنے کیلئے یا اس طرح کی کوئی دوسری فخریہ چیز کیلئے مسجدیں نہیں ہونی چاہئیں ، ہاں ان کی نیک نامی اور مسلمانوں کی ان کیلئے دعائیں مطلوب ہوں تو درست ہے۔ اسی طرح مختلف ناموں پر مسجدوں کے نام رکھنے کا معاملہ ہے کہ اگر اس سے ریا کاری اور فخرو تکبر کا اِظہار مقصود ہے تو حرام ہے اور اگر یہ مقصود ہے کہ اس سے لوگوں کو مسجدیں بنانے کی ترغیب ملے یا جو اس کا نام پڑھے وہ اس کے لئے دعائے خیر کر ے تو یہ جائز ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے نام لکھنے کے معاملے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ’’ریاء کو حرام مگر بلاوجہِ شرعی مسلمان پر قصد ِریا کی بدگمانی بھی حرام، اور بنظرِ دعا ہے تو حرج نہیں۔ (فتاوی رضویہ، ۱۶ / ۴۹۹)
{لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ: اُن کی تعمیر شدہ عمارت ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان منافقوں نے جو عمارت تعمیر کی تھی وہ ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی اور اس کے گرائے جانے کا صدمہ باقی رہے گا یہاں تککہ قتل ہو کر یا مر کر یا قبر میں یا جہنم میں ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اُن کے دلوں کا غم و غصہ مرتے دم تک باقی رہے گا اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جب تک اُن کے دل اپنے قصور کی ندامت اور افسوس سے پارہ پارہ نہ ہوں اور وہ اخلاص سے تائب نہ ہوں اس وقت تک وہ اسی رنج و غم میں رہیں گے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ص۴۵۶)
اعمال کے معاملے میں عقائد کی حیثیت :
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اعمال کے معاملے میں عقائد کا درست ہونا اور باطن کا صاف ہو نابنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور جس طرح پانی پر کوئی عمارت قائم نہیں رہ سکتی بلکہ عمارت قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے سخت زمین پر بنایا جائے اسی طرح اعمال کے قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی بنیاد درست عقائد اور تکبر،ریا وغیرہ سے صاف باطن پر رکھی جائے ،اگرعقائد درست نہ ہوں یا عقائدمیں پلپلہ پن ہو اور باطن بھی صاف نہ ہو تو ان پر اعمال کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی اس لئے ہر عقلمند انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دین اور اعمال کی بنیاد درست عقائد ،اخلاص اور تقویٰ و پرہیز گاری پر رکھے تاکہ اس کے اعمال سے اسے نفع حاصل ہو۔
{اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى:بیشک اللہ نے خرید لئے۔} اس آیت میں راہ ِخدا میں جان و مال خرچ کرکے جنت پانے والے ایمان داروں کی ایک مثال بیان کی گئی ہے جس سے کمال لطف و کرم کا اظہار ہوتا ہے کہ پروردگار ِعالَم عَزَّوَجَلَّ نے انہیں جنت عطا فرمانا اُن کے جان و مال کا عوض قرار دیا اور اپنے آپ کو خریدار فرمایا یہ کمال عزت افزائی ہے کہ و ہ ہمارا خریدار بنے اور ہم سے خریدے ۔کس چیز کو؟ وہ جو نہ ہماری بنائی ہوئی ہے اور نہ ہماری پیدا کی ہوئی۔ جان ہے تو اس کی پیدا کی ہوئی اور مال ہے تو اس کا عطا فرمایا ہوا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶، ملخصاً)
شانِ نزول: جب انصار نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے شبِ عَقبہ، بیعت کی تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے رب عَزَّوَجَلَّکے لئے اور اپنے لئے کچھ شرط فرما لیجئے جو آپ چاہیں۔ ارشاد فرمایا ’’ میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے لئے تو یہ شرط کرتا ہوں کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور اپنے لئے یہ کہ جن چیزوں سے تم اپنے جان و مال کو بچاتے اور محفوظ رکھتے ہو اس کو میرے لئے بھی گوارا نہ کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ’’ ہم ایسا کریں تو ہمیں کیا ملے گا ؟ ارشاد فرمایا ’’ جنت۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۲۸۴)
{وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ:یہ اس کے ذمۂ کرم پر سچا وعدہ ہے توریت اور انجیل اور قرآن میں۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں سے جو وعدہ فرمایا ہے وہ جس طرح قرآن میں موجود ہے اسی طرح تورات اور انجیل میں بھی تھا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۲۸۴)
انجیل میں بھی مجاہدین کی جزاء کا بیان ہے:
عیسائی شور مچاتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں تو ایسا کوئی وعدہ نہیں ہے، یہ ان کی انجیل سے بھی جہالت کی علامت ہے کہ اولاً تو آج کی انجیل تحریف شدہ ہے ۔ اب اگر ایسی آیت نہ بھی ہو تو کیا اعتراض کہ جب قرآن نے یہ فرمایا تھا اس وقت یقینا موجود تھی ورنہ اس وقت بھی نجران وغیرہ بلکہ خود مدینہ طیبہ کے قرب و جوار میں عیسائی موجود تھے اور قرآن کی آیت پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتے اور ثانیاً یہ کہ آج کی انجیل میں بغور دیکھیں تو اس مفہوم کی آیات موجود ہیں۔
{وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ:اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے؟} کیونکہ وعدہ خلافی کرنا معیوب ہے،ہم میں سے کوئی سخی وعدہ خلافی نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ جوکہ سب سے بڑا کریم ہے وہ اپنے وعدے کے خلاف کیسے کر سکتا ہے۔ جہاد سے متعلق یہ سب سے بہترین ترغیب ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶)
{فَاسْتَبْشِرُوْا:خوشیاں مناؤ ۔} یعنی تم بے حد خوشیاں مناؤ کیونکہ تم نے فنا ہو جانے والی چیزکو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز کے بدلے میں بیچ دیا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶)
جنت اور اس کے لئے جان قربان کرنے والوں کی عظمت:
اس آیتِ مبارکہ میں جنت کی عظمت کا بھی بیان ہے اور جنت کیلئے جان قربان کردینے والوں کی بھی عظمت بیان ہوئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’تمہارے جسموں کی قیمت جنت کے سوا اور کوئی نہیں تو تم اپنے جسموں کو جنت کے بدلے ہی بیچو۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶)
یہاں جنت کی طلب سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت حکم بن عبدالسلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے (کہ جنگِ موتہ میں ) جب حضرت جعفر بن ابو طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید کر دیئے گئے تو لوگو ں نے بلند آواز سے حضرت عبداللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پکارا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس وقت لشکر کی ایک طرف موجود تھے اور تین دن سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کچھ بھی نہ کھایا تھا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی جسے بھوک کی وجہ سے چو س رہے تھے ۔ (جب حضرت جعفربن ابوطالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت کی خبر سنی) تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بے تاب ہو کر ہڈی پھینک دی اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے: اے عبداللہ! ابھی تک تیرے پاس دُنْیَوی چیز موجود ہے ! پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بڑی بے جگری سے دشمن پر ٹوٹ پڑے ،اس دوران تلوار کے وار سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی انگلی کٹ گئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ اشعار پڑھے:
تو نے صرف یہ انگلی کٹوائی ہے اور راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ اے نفس! شہید ہوجا ورنہ موت کا فیصلہ تجھے قتل کرڈالے گا اور تجھے ضرور موت دی جائے گی ۔ تو نے جس چیز کی تمنا کی تجھے وہ چیز دی گئی ۔ اب اگر تو بھی ان دونوں ( یعنی حضرت زید بن حارث اور حضرت جعفر بن ابوطالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا)کی طرح شہید ہو گیا تو کامیاب ہے اور اگر تو نے تاخیر کی تو تحقیق بد بختی تیرا مقدر ہوگی ۔
پھر اپنے نفس کو مُخاطَب کر کے فرمانے لگے: ’’اے نفس !تجھے کس چیز کی تمنا ہے؟ کیا فلاں کی ؟ تو سن! اسے تین طلاق۔ کیا تجھے فلاں فلاں لونڈی وغلام اور فلاں باغ سے محبت ہے؟ تو سن ! اپنی یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے چھوڑ دے ۔ اے نفس! تجھے کیا ہوگیا کہ تو جنت کو ناپسند کررہا ہے ؟ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ تجھے اس میں ضرور جانا پڑے گا، اب تیری مرضی چاہے خوش ہوکر جایا مجبور ہو کر ۔جا! خوش ہو کر جا! بے شک تو وہاں مطمئن رہے گا، تو پانی کا ایک قطرہ ہی تو ہے ،( پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور بالآخر لڑتے لڑتےجامِ شہادت نوش فرماگئے ۔ )( عیون الحکایات، الحکایۃ السادسۃ والسبعون بعد الثلاث مائۃ، ص۳۲۸-۳۲۹)
نعمت ملنے پرخوشی کا اظہار کرنا اچھا ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ملنے پر خوشی منانا اچھا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت یا کوئی دوسری بشارت ملے تو اس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے جیسے اس آیت میں اس چیز کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے۔
{اَلتَّآىٕبُوْنَ:توبہ کرنے والے۔} بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں مذکور اَوصاف کا تعلق ان مومنین کے ساتھ ہے جن کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہوا، اس صورت میں اوپر والی آیت میں دیا گیا جنت کا وعدہ ان مجاہدین کے ساتھ خاص ہو گا جن میں اس آیت میں مذکور اوصاف پائے جائیں۔ امام زجاج کے نزدیک اس آیت میں مذکور اَوصاف کا تعلق ماقبل آیت میں مذکور مومنین کے ساتھ نہیں بلکہ یہ جدا طور پر بیان کئے گئے ہیں ، ’’اَلتَّآئِبُوۡنَ‘‘ سے لے کر آخر تک ذکر کئے گئے اوصاف جن میں پائے جائیں ان کے لئے بھی جنت ہے اگرچہ وہ (نفلی) جہاد نہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
’’وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى‘‘ (النساء:۹۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے۔
اکثر مفسرین کے نزدیک آیت کا یہ معنی بہتر ہے کیونکہ اس صورت میں جنت کا وعدہ تمام مومنین کے لئے ہو گا۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۶ / ۱۵۲-۱۵۳، ملخصاً)
{اَلتَّآىٕبُوْنَ:توبہ کرنے والے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جن ایمان والوں کا اس سے پہلی آیت میں ذکر ہوا وہی کفر سے حقیقی توبہ کرنے والے ،اسلام کی نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، پانچوں نمازیں پابندی سے ادا کرنے والے، ایمان معرفت اور اطاعت کا حکم دینے والے، شرک اور گناہوں سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ کی حدوں یعنی اس کے اَمر و نہی کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان صفات سے متصف ایمان والوں کو (جنت کی ) خوشخبری سنادو۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ص۴۵۶-۴۵۷)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ تمام گناہوں سے توبہ کرنے والے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّکے فرمانبردار بندے جو اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں اور عبادت کو اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں۔ نمازوں کے پابند اور ان کو خوبی سے ادا کرنے والے ہیں۔ نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اس کے احکام بجا لانے والے یہ لوگ جنتی ہیں۔ اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مسلمانوں کو خوشخبری سنا دو کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عہد و فا کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۲ / ۲۸۵)
{وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ:اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ۔}اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جن اَحکام کا پابند کیا ہے وہ بہت زیادہ ہیں ، یہ تمام احکام دو قسموں میں منحصر ہیں (1) عبادات ،جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ۔ (2) معاملات، جیسے خریدو فروخت ،نکاح اور طلاق وغیرہ۔ ان دونوں قسموں میں سے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں بجا لانا اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے رک جانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حدوں کی حفاظت ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۶ / ۱۵۵، قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۴ / ۱۵۵، الجزء الثامن، ملتقطاً)
اسی بات کو عام الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقوقُ اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں دونوں چیزوں کی اہمیت ہے۔ یہ نہیں کہ حقوقُ اللہ میں مگن ہو کر حقوق العباد چھوڑ دیں اور حقوق العباد میں مصروف ہوکر حقوقُ اللہ سے غافل ہوجائیں۔ ہمارے ہاں یہ اِفراط و تفریط بکثرت پائی جاتی ہے اور یہ دین سے جہالت کی وجہ سے ہے۔
{مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں۔} شانِ نزول: اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے چچا ابوطالب سے فرمایا تھا کہ میں تمہارے لئے استغفار کروں گا جب تک کہ مجھے ممانعت نہ کی جائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ممانعت فرمادی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب ما کان للنبیّ والذین آمنوا۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۰، الحدیث: ۴۶۷۵)
بعض مفسرین نے یہ شانِ نزول بیان کیا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے اپنی والدہ کی زیارت ِ قبر کی اجازت چاہی اس نے مجھے اجازت دی پھر میں نے ان کے لئے استغفار کی اجازت چاہی تو مجھے اجازت نہ دی اور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی ’’مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ‘‘(مستدرک، کتاب التفسیر، زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قبر امّہ آمنۃ، ۳ / ۷۱، الحدیث: ۳۳۴۵)
لیکن یہ ہرگز درست نہیں چنانچہ صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ شانِ نزول کی یہ وجہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث حاکم نے روایت کی اور اس کو صحیح بتایا اور ذہبی نے حاکم پر اعتماد کرکے میزان میں اس کی تصحیح کی لیکن مُخْتَصِرُ الْمُسْتَدْرَکْ میں ذہبی نے اس حدیث کی تضعیف کی اور کہا کہ ایوب بن ہانی کو ابنِ معین نے ضعیف بتایا ہے، علاوہ بریں یہ حدیث بخاری کی حدیث کے مخالف بھی ہے جس میں اس آیت کے نزول کا سبب آپ کا والدہ کے لئے استغفار کرنا نہیں بتایا گیا بلکہ بخاری کی حدیث سے یہی ثابت ہے کہ ابو طالب کے لئے استغفار کرنے سے متعلق یہ آیت وارد ہوئی، اس کے علاوہ اور حدیثیں جو اس مضمون کی ہیں جن کو طبرانی ، ابنِ سعد اور ابنِ شاہین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم وغیرہ نے روایت کیا ہے وہ سب ضعیف ہیں۔ابنِ سعد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے طبقات میں حدیث کی تخریج کے بعد اس کو غلط بتایا اور سند المحدثین امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اپنے رسالہ ’’اَلتَّعْظِیْمُ وَالْمَنَّۃُ‘‘ میں اس مضمون کی تمام اَحادیث کو معلول بتایا ،لہٰذا یہ وجہ شانِ نزول میں صحیح نہیں اور یہ بات ثابت ہے، اس پر بہت سے دلائل قائم ہیں کہ سیّدعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی والدہ ماجدہ مُوَحِّدہ (یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے والی) اور دینِ ابراہیمی پرتھیں۔
{مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ:جبکہ ان کے لئے واضح ہوچکا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔} یعنی جب ان کیلئے ظاہر ہو چکا کہ وہ شرک پر مرے ہیں۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۴۵۷)خیال رہے کہ کسی مشرک کا مرتے وقت تک مسلمان نہ ہونا ا س بات کی علامت ہے کہ وہ کافر مرا لہٰذا اس پر اسلام کے احکام جاری نہیں ہوتے اگرچہ حقیقت حال کی خبر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ہے جیسے کسی کا مرتے وقت تک مسلمان رہنا اس کے اسلام پر مرنے کی علامت ہے اگرچہ اس کے خاتمہ کا حال ہمیں معلوم نہیں ،یہی آیتِ کریمہ کا مقصد ہے۔
{وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ: اور ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا ۔} اس سے یا تو وہ وعدہ مراد ہے جو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے آزر سے کیا تھا کہ میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے تیری مغفرت کی دعا کروں گا یا وہ وعدہ مراد ہے جو آزر نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اسلام لانے کا کیا تھا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ص۴۵۷) شانِ نزول: حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ’’سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ‘‘ (مریم: ۴۷)(عنقریب میں تیرے لئے اپنے رب سے معافی مانگوں گا)تو میں نے سنا کہ ایک شخص اپنے والدین کے لئے دعائے مغفرت کررہا ہے حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے تو میں نے کہا :تو مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کرتا ہے؟ اس نے کہا :کیا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر کے لئے دُعا نہ کی تھی؟ وہ بھی تو مشرک تھا ۔ یہ واقعہ میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ذکرکیا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اِستغفار اسلام قبول کرنے کی امید کے ساتھ تھا جس کا آزر آپ سے وعدہ کرچکا تھا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آزر سے استغفار کا وعدہ کرچکے تھے۔جب وہ اُمید مُنقطع ہوگئی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اس سے اپنا تعلق ختم کردیا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۹، الحدیث: ۳۱۱۲، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۲ / ۲۸۷، ملتقطاً)
{اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا ، بہت برداشت کرنے والا تھا۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دو صفات بیان فرمائیں اس سے مقصود یہ ہے کہ جس میں یہ صفات پائی جائیں اس کا قلبی مَیلان اپنے باپ کے لئے مغفرت کی دعا کرنے میں بہت شدید ہوتا ہے گویا کہ فرمایا گیا بے شک حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عظیم مرتبے ،آہ و زاری اور برداشت کی صِفات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے کافر چچا کے لئے استغفار کی دعا کرنے سے منع کر دیا تو جس میں یہ باتیں نہ ہوں اسے تو بدرجہ اَولیٰ اپنے کافر والدین کے لئے استغفار کی دعا کرنا منع ہے۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۶ / ۱۵۸-۱۵۹)
صفت ’’اَوّاہ‘‘ اور’’ حلیم‘‘ کی خوبیاں :
یہ دونوں صفات بہت عظیم ہیں اور سیدنا ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان صِفات کے مَظْہَرِ اَتَم تھے ،نیچے ان کے مفہوم کی وضاحت بیان کی جارہی ہے البتہ اس میں گناہوں کو یاد کرکے مغفرت طلب کرنے کی بات دوسروں کے لئے ہے ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے نہیں کیونکہ نبی گناہوں سے معصوم ہوتا ہے۔ ’’اَوّاہ‘‘ صفت کی خوبی یہ ہے کہ جس میں یہ صفت پائی جائے وہ بکثرت دعائیں کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ذکر اور ا س کی تسبیح میں مشغول رہتا ہے، کثرت کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتا ہے، اُخرَوی ہولناکیوں اور دہشت انگیزیوں کے بارے میں سن کر گریہ و زاری کرتا ہے، اپنے گناہوں کو یاد کر کے ان سے مغفرت طلب کرتا ہے، نیکی اور بھلائی کی تعلیم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ہر کام سے بچتا ہے ۔حلیم صفت کی خوبی یہ ہے جس میں یہ صفت پائی جائے وہ اپنے ساتھ برا سلوک کرنے والے پر بھی احسان کرتا ہے اور برائی کا بدلہ برائی سے دینے کی بجائے بھلائی کے ساتھ دیتا ہے اور اسے اگر کسی کی طرف سے اَذِیّت اور تکلیف پہنچے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے۔ اگر کسی سے بدلہ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر لیتا ہے اور اگر کسی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہی مدد کرتا ہے۔
صفت ’’اواہ‘‘ اور’’ حلیم‘‘ کے فضائل:
ترغیب کے لئے یہاں صفت ’’اوّاہ‘‘ اور’’ حلیم‘‘ کے چند فضائل درج ذیل ہیں ، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَرات کے وقت (ایک صحابی کی تدفین کیلئے) ایک قبر میں داخل ہوئے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لئے چراغ جلایا گیا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میت کو قبلہ کی طرف سے پکڑ کر فرمایا ’’اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے ، تو بہت رونے والا اور کثرت سے تلاوتِ قرآن کرنے والا تھا۔ (ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الدفن باللیل، ۲ / ۳۳۱، الحدیث: ۱۰۵۹)
حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ایک شخص ذوالبجادین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ ’’ اَوَّاہْ ‘‘ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قرآنِ مجید کی تلاوت اور دعا کے ذریعے کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ (معجم الکبیر، باب العین، علی بن رباح عن عقبۃ بن عامر، ۱۷ / ۲۹۵، الحدیث: ۸۱۳)
حضرت علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بے شک آدمی حِلم کے ذریعے روزہ دار عبادت گزار کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۳۶۹، الحدیث: ۶۲۷۳)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’حلیم شخص دنیا میں سردار ہوتا ہے اور آخرت میں بھی سردار ہو گا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الحلم والانائ، ۲ / ۵۵، الحدیث: ۵۸۰۷، الجزء الثالث)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان صِفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ:جب تک انہیں صاف نہ بتادے۔} آیت کا معنی یہ ہے کہ جو چیز ممنوع ہے اور اس سے اِجتناب واجب ہے اس پر اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندوں کی گرفت نہیں فرماتا جب تک کہ اس کی ممانعت کا صاف بیاناللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نہ آجائے لہٰذا مُمانَعت سے پہلے اس فعل کے کرنے میں حَرج نہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ص۴۵۷، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۲ / ۲۸۸، ملتقطاً)شانِ نزول : جب مومنین کو مشرکین کے لئے اِستغفار کرنے سے منع فرمایا گیا تو انہیں اندیشہ ہوا کہ ہم پہلے جو استغفار کرچکے ہیں کہیں اس پر گرفت نہ ہو، اس آیت سے انہیں تسکین دی گئی اور بتایا گیا کہ ممانعت کا بیان ہونے کے بعد اس پر عمل کرنے سے مُؤاخَذہ ہوتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۲ / ۲۸۸)اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس چیز کے بارے میں شریعت کی طرف سے ممانعت نہ ہو وہ جائز ہے۔
{لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِیِّ:بیشک اللہ کی رحمت نبی پر متوجہ ہوئی۔} نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رحمۃ للعالمین ہیں اورآپ پر رحمت ِ الہٰی کا رجوع یوں ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معصوم ہونے کے باوجود بکثرت توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائی گئی جو آپ کی بلندیٔ درجات اور مسلمانوں کیلئے تعلیم کا ذریعہ تھی اور مسلمانوں کو بہت سے معاملات میں توبہ کی توفیق دی گئی اور اس توبہ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قبول بھی فرمایا۔
{اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ:جنہوں نے مشکل کی گھڑی میں ان کا ساتھ دیا۔} مشکل گھڑی سے مراد غزوہ ٔ تبوک ہے جسے غزوۂ عسرت بھی کہتے ہیں اس غزوہ میں عسرت یعنی تنگی کا یہ حال تھا کہ دس دس آدمیوں میں سواری کے لئے ایک ایک اونٹ تھا باری باری اسی پر سوار ہولیتے تھے اور کھانے کی قلَّت کا یہ حال تھا کہ ایک ایک کھجور پر کئی کئی آدمی اس طرح گزارہ کرتے تھے کہ ہر ایک نے تھوڑی تھوڑی چوس کر ایک گھونٹ پانی پی لیا۔ پانی کی بھی نہایت قلت تھی ، گرمی شدت کی تھی، پیاس کا غلبہ اور پانی ناپید ۔ اس حال میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماپنے صدق و یقین اور ایمان و اخلاص کے ساتھ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی جاں نثاری میں ثابت قدم رہے ۔حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے ۔ ارشاد فرمایا: کیا تمہیں یہ خواہش ہے؟ عرض کی: جی ہاں ، تو حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دستِ مبارک اُٹھا کر دعا فرمائی اور ابھی دستِ مبارک اٹھے ہی ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بادل بھیجا ،بارش ہوئی ،لشکر سیراب ہوا اور لشکر والوں نے اپنے برتن بھر لئے، اس کے بعد جب آگے چلے تو زمین خشک تھی، بادل نے لشکر کے باہر بارش ہی نہیں کی وہ خاص اسی لشکر کو سیراب کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۲ / ۲۸۹)
{مَا كَادَ:قریب تھا۔} یعنی قریب تھا کہ ان میں سے بعض لوگوں کے دل شدت اور سختی پہنچنے کی وجہ سے حق سے اِعراض کر جاتے اور وہ اس شدت و سختی میں رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے جدا ہونا گوارا کرلیتے لیکن انہوں نے صبر کیا اور وہ ثابت قدم رہے اور جو وسوسہ ان کے دل میں گزرا تھا اس پر نادم ہوئے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ا رشاد فرمایا ’’ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ‘‘یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کا اخلاص اور توبہ کی سچائی جانتا ہے تو اس نے انہیں توبہ کرنے کی توفیق دی اور اس توبہ کو قبول فرمایا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۲ / ۲۸۹)
{وَ عَلَى الثَّلٰثَةِ:اور تین پر۔} یہ تین صحابۂ کرام حضرت کعب بن مالک، ہلال بن اُمیہ اور مرارہ بن ربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمہیں۔ ان کا ذکر آیت ’’وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ(توبہ:۱۰۶)(اور اللہ کے حکم کی وجہ سے کچھ دوسروں کو مؤخر کردیا گیا ہے) ‘‘ میں گزر چکا ہے ،یہ سب انصاری تھے، رسول کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے غزوۂ تبوک سے واپس ہو کر ان سے جہاد میں حاضر نہ ہونے کی وجہ دریافت فرمائی اور فرمایا: ٹھہرو، جب تک اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کوئی فیصلہ فرمائے اور مسلمانوں کو اُن لوگوں سے ملنے جلنے کلام کرنے سے ممانعت فرما دی حتّٰی کہ اُن کے رشتہ داروں اور دوستوں نے ان سے کلام ترک کردیا ،یہاں تک کہ ایسا معلو م ہوتا تھا کہ اُن کو کوئی پہچانتا ہی نہیں اور اُن کی کسی سے شناسائی ہی نہیں۔ اس حال پر انہیں پچاس روز گزرے یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور انہیں کوئی ایسی جگہ نہ مل سکی جہاں ایک لمحہ کے لئے انہیں قرار ہوتا ،ہر وقت پریشانی اور رنج وغم بے چینی و اِضطراب میں مُبتلا تھے اور وہ رنج وغم کی شدت کی وجہ سے اپنی جانوں سے تنگ آگئے ، نہ کوئی اَنیس ہے جس سے بات کریں ،نہ کوئی غم خوار جسے حالِ دل سنائیں ، وحشت و تنہائی ہے اور شب و روز کی گریہ و زاری۔ انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی سے بچنے کیلئے اس کے سوا کوئی پناہ نہیں تواللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ان کی توبہ قبول فرما لی تا کہ آئندہ توبہ کرنے والے ہی رہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۲ / ۲۹۰-۲۹۱، ملخصاً)
{وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ:اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔} یعنی ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو ایمان میں سچے ہیں ، مخلص ہیں ، رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اِخلاص کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں۔حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ صادقین سے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَامراد ہیں۔ ابنِ جریج کہتے ہیں کہ اس سے مہاجرین مراد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی نیتیں سچی رہیں ، ان کے دل اور اَعمال سیدھے رہے اور وہ اخلاص کے ساتھ غزوئہ تبو ک میں حاضر ہوئے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۲ / ۲۹۳)
سچائی کی فضیلت اور جھوٹ کی مذمت:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سچوں کے ساتھ ہونے کا حکم ارشاد فرمایا،اس مناسبت سے یہاں ہم سچائی کی فضیلت اور جھوٹ کی مذمت پر دو اَحادیث ذکر کرتے ہیں۔
(1)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک سچائی بھلائی کی طرف ہدایت دیتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق ہو جاتا ہے اور جھوٹ بدکاریوں کی طرف لے کر جاتا ہے اور بدکاریاں جہنم میں پہنچاتی ہیں اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالٰی: یا ایّہا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۴)
(2)…حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میں نے دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آ کر کہنے لگے کہ جس شخص کو آپ نے (شبِ معراج) دیکھا کہ ا س کے جبڑے چیرے جا رہے ہیں وہ بہت جھوٹا آدمی ہے، ایسی بے پرکی اڑاتا تھا کہ اس کا جھوٹ اطراف ِعالَم میں پھیل جاتا تھا، پس قیامت تک ا س کے ساتھ یہی کیا جاتا رہے گا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالٰی: یا ایّہا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۶، الحدیث: ۶۰۹۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں :
اِس آیت سے نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کا بھی ثبوت ملتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ ہونے کی ایک صورت ان کی صحبت اختیار کرنا بھی ہے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کی سیرت و کردار اور اچھے اعمال دیکھ کر خود کوبھی گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق مل جاتی ہے اور ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ دل کی سختی ختم ہو تی اور اس میں رِقَّت و نرمی محسوس ہوتی ہے،ایمان پر خاتمے اور قبر و حشر کے ہَولناک معاملات کی فکر نصیب ہوتی ہے، اس لئے ہر مسلمان کوچاہئے کہ وہ نیک بندوں سے تَعلُّقات بنائے اور ان کی صحبت اختیار کرے اور کسی کی بھی صحبت اختیار کرنے سے پہلے غور کر لے کہ وہ کس کی صحبت اختیار کر رہا ہے ،اس کی ترغیب سے متعلق حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو اسے دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۴۵-باب، ۴ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۳۸۵)
اور دیندار دوست تلاش کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت سامان ہیں۔ اور کسی گناہگار کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ، ۲ / ۲۱۴)
حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ پانچ قسم کے آدمیوں کی صحبت اختیار نہ کرو: (1) بہت جھوٹ بولنے والا شخص،کیونکہ تم اس سے دھوکہ کھاؤ گے ،وہ سراب (یعنی صحراء میں پانی نظر آنے والی ریت ) کی طرح ہے،وہ دور والے کو تیرے قریب کر دے گا اور قریب والے کو دور کر دے گا۔ (2) بے وقوف آدمی، کیونکہ اس سے تمہیں کچھ بھی حاصل نہ ہو گا، وہ تمہیں نفع پہنچانا چاہے گا لیکن نقصان پہنچا بیٹھے گا۔ (3) بخیل شخص، کیونکہ جب تمہیں اس کی زیادہ ضرورت ہو گی تو وہ دوستی ختم کر دے گا۔ (4) بزدل شخص، کیونکہ یہ مشکل وقت میں تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔ (5) فاسق شخص، کیونکہ وہ تمہیں ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت میں بیچ دے گا۔ کسی نے پوچھا کہ لقمے سے کم کیا ہے؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’لالچ رکھنا اور اسے نہ پانا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ، ۲ / ۲۱۴-۲۱۵)
یاد رہے کہ کسی کو اپنا پیرو مرشد بنانے کا ایک بہت بڑا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کی صحبت کے ذریعے اس سے فیض حاصل کیا جاسکے ۔یونہی باعمل علماء کی صحبت میں بیٹھنے کی بھی بہت فضیلت ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے:’’علماء کی صحبت میں بیٹھنا عبادت ہے۔(مسند الفردوس، باب المیم، ۴ / ۱۵۶، الحدیث: ۶۴۸۶)
دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو چر لیا کرو ۔ عرض کی گئی، یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جنت کے باغ کیا چیز ہیں ؟ارشاد فرمایا: علم کی مَجالس۔(معجم الکبیر، باب العین، مجاہد عن ابن عباس، ۱۱ / ۷۸، الحدیث: ۱۱۱۵۸)
حضرت سہل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جو چاہتا ہے کہ وہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی مجلسوں کی طرف دیکھے اسے چاہیے کہ علماء کی مجلسوں کی طرف دیکھے کہ کوئی مرد آتا ہے اور کہتا ہے کہ اے فلاں (یعنی مولانا صاحب، مفتی صاحب) آپ اس مرد کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس نے اپنی عورت کے بارے میں اس اس طرح قسم کھائی، پس وہ عالم کہتا ہے کہ اس کی عورت کو طلاق ہو گئی اور ایک دوسرا شخص آتا ہے اور کہتاہے ،آپ اس مرد کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس نے اپنی عورت کے بارے میں ایسے ایسے قسم اٹھائی تو وہ کہتا ہے کہ وہ مرد اپنی اس بات کے ساتھ حانِث (قسم توڑنے والا) نہیں ہوا اور یہ بات کہنا (یعنی احکامِ شرع بیان کرنا)جائز نہیں مگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور علماء کے لیے۔ پس اس بات سے علماء کی شان پہچان لو۔(الفقیہ والمتفقہ، ذکر احادیث واخبار شتی یدلّ جمیعہا علی جلالۃ الفقہ والفقہاء، ۱ / ۱۴۹، روایت نمبر: ۱۳۶)
حضرت بہزبن حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو علماء کی صحبت میں بیٹھا تحقیق وہ میری صحبت میں بیٹھا اور جو میری صحبت میں بیٹھا یقینا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں بیٹھا۔(کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول فی الترغیب فیہ، ۵ / ۷۴، الحدیث: ۲۸۸۷۹، الجزء العاشر)
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’علماء کی مجالس سے الگ نہ رہو اس لئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّنے روئے زمین پر علماء کی مجالس سے مکرم کسی مٹی کوپیدا نہیں فرمایا۔(احیاء علوم الدین، کتاب ترتیب الاوراد وتفصیل احیاء اللیل، الباب الاول فی فضیلۃ الاوراد وترتیبہا واحکامہا، بیان اختلاف الاوراد باختلاف الاحوال، ۱ / ۴۶۰)
حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ارشا د ہے: ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرو جن کی صورت دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے ، جن کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے، جن کا عمل تمہیں آخرت کا شوق دلائے۔(جامع بیان العلم وفضلہ، باب جامع فی آداب العالم والمتعلم، ص۱۷۲) اللہ تعالیٰ ہمیں نیک لوگوں کو اپنا دوست بنانے ،علم کی مجالس اور علماء کی صحبت میں بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
علامہ عبداللہ بن احمد نسفیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اجماع حجت ہے کیونکہ اللہتعالیٰ نے صادقین کے ساتھ رہنے کا حکم فرمایا، اس سے اُن کے قول کو قبول کرنا لازم آتا ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ص۴۵۸)
نیز اس حدیثِ پاک سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اجماع حجت ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اِنَّ اُمَّتِیْ لَا تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ فَاِذَا رَاَیْتُمْ اِخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ‘‘بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہ ہو گی،تو جب تم اختلاف دیکھو تو بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)
{مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ:اہلِ مدینہ کیلئے مناسب نہیں تھا ۔} یہاں اہلِ مدینہ سے مدینہ طیبہ میں سکونت رکھنے والے مراد ہیں خواہ وہ مہاجرین ہوں یا اَنصار اور اَعراب سے قرب و جوار کے تمام دیہاتی مراد ہیں۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بذاتِ خود جہاد کے لئے تشریف لے جائیں تو اہلِ مدینہ اور ان کے اِرد گرد رہنے والے دیہاتیوں میں کسی کے لئے جائز نہ تھا کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے پیچھے بیٹھے رہیں اور جہاد میں حاضر نہ ہوں اور نہ یہ جائز تھا کہ اُن کی جان سے زیادہ اپنی جانوں کو عزیز سمجھیں بلکہ انہیں حکم تھا کہ شدت و تکلیف میں حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ساتھ نہ چھوڑیں اور سختی کے موقع پر اپنی جانیں آپ پر فدا کریں۔ یہ مُمانَعت اس لئے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں انہیں جو پیاس یا تکلیف یا بھوک پہنچتی ہے اور جہاں کفار کو غصہ دلانے والی جگہ پرقدم رکھتے ہیں اور کفار کی زمین کو اپنے گھوڑوں کے سموں سے روندتے ہیں اور جو کچھ دشمن کوقید کرکے یا قتل کر کے یا زخمی کرکے یا ہزیمت دے کر حاصل کرتے ہیں اس سب کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے ۔(صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۳ / ۸۴۷-۸۴۸، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۲۹۳-۲۹۴، ملتقطاً)
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ:بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کے اجر کوضائع نہیں فرماتا۔} یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کے اجر ضائع نہیں فرماتا جنہوں نے اچھے عمل کئے ، جس چیز کااللہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا اور جس چیز سے منع کیا اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّکی اطاعت کی بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کی جزا انہیں عطا فرماتا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس شخص نے اللہ عَزَّوَجَلَّکی اطاعت کا قصد کیا تو اس مقصد کیلئے اس کا اُٹھنا بیٹھنا ،چلنا، حرکت کرنا سب نیکیاں ہیں ، وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے یہاں لکھی جاتی ہیں اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکی نافرمانی کا ارادہ کیا تو اس کااس مقصد کیلئے اُٹھنا بیٹھنا ،چلنا، حرکت کرنا سب گناہ ہیں ، ہاں اللہ عَزَّوَجَلَّچاہے تو اپنے فضل وکرم سے سب معاف فرما دے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۲۹۴)
راہِ خدا میں جہاد کرنے اور تکالیف برداشت کرنے کے فضائل:
اس آیت میں راہِ خدا میں نکل کر جہاد کرنے اور راہِ خدا میں تکالیف برداشت کرنے کاذکر ہوا ،اس مناسبت سے یہاں راہِ خدا میں جہاد کیلئے نکلنے اور اِس راہ میں تکالیف برداشت کرنے کے فضائل پر مشتمل 5 اَحادیث ذکر کی جاتی ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا، ’’اللہ عَزَّوَجَلَّاپنی راہ میں نکلنے والوں کو ضمانت دیتاہے کہ جس بندے کو صرف میری راہ میں جذبۂ جہاد ،ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق نے گھر سے نکالا ہے تو اب وہ میری کفا لت میں ہے میں اسے جنت میں داخل کروں یا اسے ثواب اور غنیمت عطافرمانے کے بعد اسے واپس اس کے گھر تک پہنچاؤں۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۳(۱۸۷۶))
(2)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا، ’’راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں زخمی ہونے والا قیامت کے دن آئے گا تو اس کے زخموں سے سرخ خون بہہ رہا ہوگا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہو گی۔(بخاری، کتاب الذبائح والصید والتسمیۃ علی الصید، ۳ / ۵۶۶، الحدیث: ۵۵۳۳)
(3)…حضرت ابودَرْدَاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، ’’ جسے راہِ خداعَزَّوَجَلَّمیں ایک زخم لگے گا اس پر شہداء کی مہر لگادی جائے گی جو قیامت کے دن اس کے لئے نور ہوگی، اس کا رنگ زعفران کی طرح اور خوشبو مشک کی طرح ہوگی، اسے اس مہر کی وجہ سے اَوّلین وآخرین پہچان لیں گے اور کہیں گے فلاں پر شہیدوں کی مہر لگی ہوئی ہے ۔ (مسند احمد، من مسند القبائل، ومن حدیث ابی الدرداء عویمر رضی اللہ عنہ،۱۰ / ۴۲۰، الحدیث: ۲۷۵۷۳)
(4)… حضرت عبدالرحمٰن بن جَبْررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جس بندے کے پاؤں راہِ خدا عَزَّوَجَلَّمیں گرد آلود ہوئے انہیں جہنم کی آگ نہ چھوئے گی ۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من اغبرّت قدماہ فی سبیل اللہ، ۲ / ۲۵۷، الحدیث: ۲۸۱۱)
(5)…اور ایک روایت میں ہے ’’ جو پاؤں راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں گرد آلود ہوجائیں وہ جہنم کی آگ پر حرام ہیں۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل من اغتبرّت قدماہ فی سبیل اللہ، ۳ / ۲۳۵، الحدیث: ۱۶۳۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں عافیت عطا فرمائے اور اپنی راہ میں آنے والی تکالیف برداشت کرنے کی ہمت اور توفیق نصیب فرمائے،اٰمین۔
- English | Ahmed Ali
- Urdu | Ahmed Raza Khan
- Turkish | Ali-Bulaç
- German | Bubenheim Elyas
- Chinese | Chineese
- Spanish | Cortes
- Dutch | Dutch
- Portuguese | El-Hayek
- English | English
- Urdu | Fateh Muhammad Jalandhry
- French | French
- Hausa | Hausa
- Indonesian | Indonesian-Bahasa
- Italian | Italian
- Korean | Korean
- Malay | Malay
- Russian | Russian
- Tamil | Tamil
- Thai | Thai
- Farsi | مکارم شیرازی
- العربية | التفسير الميسر
- العربية | تفسير الجلالين
- العربية | تفسير السعدي
- العربية | تفسير ابن كثير
- العربية | تفسير الوسيط لطنطاوي
- العربية | تفسير البغوي
- العربية | تفسير القرطبي
- العربية | تفسير الطبري
- English | Arberry
- English | Yusuf Ali
- Dutch | Keyzer
- Dutch | Leemhuis
- Dutch | Siregar
- Urdu | Sirat ul Jinan